top of page

آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد

قسط نمبر دو

 

اپنی پلیٹ میں ڈالے حلوے کو چمچ سے ہلاتے سالار ٹھٹھکا۔ اس نے پہلے سعیدہ اماں کو دیکھا، پھر امامہ کو… وہ بھی ٹھٹھکی تھی… اور کچھ گڑبڑائی بھی… سالار کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی اور اس کے گلے شکوے کرنا اور بات تھی مگر اس کے سامنے بیٹھ کر وہی کچھ دہرانا، خاص طور پر جب ان الزامات کا کچھ حصہ کسی جھوٹ پر مبنی ہو۔ وہ واقعی گھبرا گئی تھی۔
سالار کو یہ سوال نہیں، تبصرہ لگا۔
”جی۔” اس نے ان کی تائید کی۔
”وہ مرد دوزخ میں جاتے ہیں جو اپنی بیویوں کو تنگ کرتے ہیں۔” سعیدہ اماں نے اگلا جملہ بولا۔
اس بار سالار فوری طور پر تائید نہیں کر سکا۔ وہ خود مرد تھا اور شوہر بھی، لاکھ وہ امامہ پر مرتا ہو لیکن ”بیوی” کی موجودگی میں اس تبصرہ کی تائید اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مصداق تھا۔ وہ شادی کے دوسرے ہی دن اتنی فرماں برداری نہیں دکھا سکتا تھا جس پر وہ بعد میں ساری عمر پچھتاتا۔
اس بار کچھ کہنے کے بجائے اس نے چائے کا کپ ہونٹوں سے لگا لیا۔ اس کی خاموشی نے سعیدہ اماں کو کچھ اور تپا دیا۔
”دوسروں کے دل دکھانے والے کو اللہ کبھی معاف نہیں کرتا۔” سالار نے حلوہ کھاتے کھاتے اس جملے پر غور کیا، پھر تائید میں سر ہلا دیا۔
”جی بالکل۔” سعیدہ اماں کو اس کی ڈھٹائی پر غصہ آیا۔
”شریف گھرانے کے مردوں کا وطیرہ نہیں ہے کہ دوسروں کی بیٹیوں کو پہلے بیاہ کر لے جائیں اور پھر انہیں پہلی بیویوں کے قصے سنانے بیٹھ جائیں۔”
امامہ کی جیسے جان پر بن گئی۔ یہ کچھ زیادہ ہی ہو رہا تھا۔
”آپ کی چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے اماں!” اس نے صورتِ حال سنبھالنے کی کوشش کی۔
سالار نے باری باری ان دونوں کو دیکھا، اسے اس جملے کا سر پیر سمجھ میں نہیں آیا تھا اور پہلے جملوں سے ان کا کیا تعلق تھا، وہ بھی سمجھ نہیں پایا لیکن تائید کرنے میں کوئی برائی نہیں تھی کیوںکہ بات مناسب تھی۔
”ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ” اس نے بالآخر کہا۔
اس کی سعادت مندی نے سعیدہ اماں کو مزید تپا دیا۔ شکل سے کیسا شریف لگ رہا ہے۔ اسی لیے تو سبط بھائی بھی دھوکا کھا گئے۔ انہوں نے ڈاکٹر سبط علی کو غلطی کرنے پر چھوٹ دی۔
”آمنہ کے لیے بہت رشتے تھے۔” سعیدہ اماں نے سلسلہ کلام جوڑا۔
انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک غلط آدمی کو امامہ کی قدروقیمت کے بارے میں غلط لیکچر دے رہی تھیں۔ حلوے کی پلیٹ ہاتھ میں لیے سالار نے ایک نظر امامہ کو دیکھا پھر سعیدہ اماں کو، جو بے حد جوش و خروش سے کہہ رہی تھیں۔
”یہ سامنے والے ظہور صاحب کے بڑے بیٹے نے آمنہ کو کہیں دیکھ لیا تھا۔ ماں باپ کو صاف صاف کہہ دیا اس نے کہ شادی کروں گا تو اسی لڑکی سے۔ خالہ کی بیٹی کے ساتھ بچپن کی منگنی بھی توڑ دی۔”
اس بار سالار نے حلوے کی پلیٹ ٹیبل پر رکھ دی۔ وہ کم از کم امامہ کے کسی ایسے رشتے کی تفصیلات مزے سے حلوہ کھاتے ہوئے نہیں سن سکتا تھا۔ امامہ نے اس بار سعیدہ اماں کو روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ بڑی ہی عامیانہ بات تھی لیکن وہ بھی جیسے چاہتی تھی کہ کوئی سالار کو بتائے کہ وہ ”قابل قدر” ہے، وہ اسے صرف ”بیوی” سمجھ کر برتاؤ نہیں کر سکتا۔
”جوتے گھس گئے لڑکے کی ماں کے یہاں کے چکر لگا لگا کر، محلے کے ہر معزز آدمی سے کہلوایا اس نے، میرے بیٹے تک کو انگلینڈ فون کرایا اس رشتے کے لیے۔” سعیدہ اماں بول رہی تھیں۔
سالار اب بے حد سنجیدہ تھا اور امامہ قدرے لا تعلقی کے انداز میں سر جھکائے حلوے کی پلیٹ میں چمچ بلا رہی تھی۔
”اس کے ماں باپ نے کہا کہ جو چاہیں حق مہر میں لکھوا لیں، بس اپنی بچی کو ہماری بیٹی بنا دیں۔”سالار نے بے حد جتانے والے انداز میں اپنی رسٹ واچ یوں دیکھی جیسے اسے دیر ہو رہی تھی۔ سعیدہ اماں کو اس کی اس حرکت پر بری طرح تاؤ آیا۔ اس گفت گو کے جواب میں کم از کم وہ اس سے اس بے نیازی کی توقع نہیں کر رہی تھیں۔
”ابھی آج بھی اس کی ماں آئی ہوئی تھی۔ بہت افسوس سے کہہ رہی تھی کہ بڑی زیادتی کی ان کے بیٹے کے ساتھ میں نے… ایک بار نہیں، دو بار … کہہ رہی تھی کہ ہمیں چھوڑ کر کسی ایرے غیرے کے ساتھ پکڑ کر بیاہ دیا۔ میرا بیٹا کیوں نظر نہیں آیا آپ کو… رانیوں کی طرح رکھتا آمنہ کو… دیکھ دیکھ کر جیتا اسے۔”
سعیدہ اماں اب مبالغہ آمیزی کی آخری حدود کو چھونے کی سر توڑ کوشش کر رہی تھی۔ سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے چہرے پر اب بھی مرعوبیت نام کی کوئی چیز نمودار نہیں ہوئی تھی۔ وہ سنجیدہ چہرے کے ساتھ انہیں یک ٹک دیکھ رہا تھا۔ سعیدہ اماں کو لگا، انہوں نے اس کے ساتھ شادی کر کے واقعی آمنہ کی قسمت پھوڑی تھی۔
بے حد خفگی کے عالم میں انہوں نے سردی کے موسم میں بھی پانی کا گلاس اٹھا کر ایک گھونٹ میں پیا تھا۔ اس کی یہ خاموشی امامہ کو بھی بری طرح چبھی تھی۔ وہ رات کو اس سے کیا کچھ کہہ رہا تھا اور اب یہاں سعیدہ اماں کو بتانے کے لیے اس کے پاس ایک لفظ بھی نہیں تھا کہ وہ اس کے لیے اہم ہے… یا وہ اُس کا خیال رکھے گا… یا کوئی اور وعدہ… کوئی اور تسلی… کوئی اور بات… کچھ تو کہنا چاہیے تھا اسے سعیدہ اماں کے سامنے… اسے عجیب بے قدری اور بے وقعتی کا احساس ہوا تھا… رنج کچھ اور سوا ہو… فاصلہ کچھ اور بڑھا تھا… اس نے کسی دوسرے کے سامنے بھی اسے تعریف کے دو لفظوں کے قابل نہیں سمجھا تھا۔ اکیلے میں تعریف نہ کرے لیکن یہاں بھی کچھ کہہ دیتا… کچھ تو… اس کا دل ایک بار پھر بھر آیا۔ وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ سالار اس سے روایتی شوہروں والا رویہ رکھے لیکن خود وہ اس سے روایتی بیوی والی ساری توقعات لیے بیٹھی تھی۔
”بہت دیر ہو گئی، میرا خیال ہے، ہمیں اب چلنا چاہیے۔ مجھے صبح آفس جانا ہے، آج کل کام کچھ زیادہ ہے۔” سالار کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا تھا۔
اس نے بڑے تحمل کے ساتھ سعیدہ اماں سے کہا اور پھر اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ اب امامہ کے کھڑے ہونے کا منتظر تھا لیکن امامہ نے ٹیبل پر رکھے برتن اٹھا کر ٹرے میں رکھتے ہوئے اسے دیکھے بغیر بڑی سرد مہری کے ساتھ کہا۔ ”میں آج یہیں رہوں گی سعیدہ اماں کے پاس…”
سالار چند لمحوں کے لیے بھونچکا رہ گیا۔ اس نے پچھلے کئی گھنٹوں میں ایک بار بھی ایسا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ وہ سعیدہ اماں کے پاس رات گزارنے کا اردہ رکھتی ہے اور اب یک دم بیٹھے بیٹھائے یہ فیصلہ…
”ہاں، بالکل یہیں چھوڑ جاؤ اسے۔” سعیدہ اماں نے فوری تائید کی۔ امامہ اس کے انکار کی منتظر تھی۔
”ٹھیک ہے، یہ رہنا چاہتی ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔” سالار نے بڑی سہولت سے کہا۔
برتن سمیٹتی امامہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ا س نے ایک منٹ کے لیے بھی اسے ساتھ لے جانے پر اصرار نہیں کیا تھا، وہ اتنا تنگ آیا ہوا تھا اس سے…
اس سے پہلے کہ سالار کچھ اور کہتا ، وہ ایک جھپاکے کے ساتھ کمرے سے نکل گئی۔ سعیدہ اماں نے بے حد قہر آلود نظروں سے اسے دیکھا، سالار نے جیسے امامہ کے ہر الزام کی تصدیق کر دی تھی۔ سالار کو امامہ کے یوں جانے کی وجہ سمجھ میں آئی، نہ سعیدہ اماں کی ان ملامتی نظروں کا مفہوم سمجھ سکا وہ۔ وہ گفت گو جتنی اپ سیٹ کرنے والی تھی اتنا ہی امامہ کا یک دم کیا جانے والا یہ اعلان تھا کہ وہ آج وہیں رہے گی۔ اسے برا لگا تھا لیکن اتنا برا نہیں لگا تھا کہ وہ اس پر اعتراض یا خفگی کا اظہار کرتا اور وہ بھی سعیدہ اماں کے سامنے۔
”اوکے… میں چلتا ہوں پھر۔” وہ سعیدہ اماں کے ساتھ باہر صحن میں نکل آیا۔
اس کا خیال تھا، امامہ کچن میں برتن رکھ کر اسے خدا حافظ کہنے تو ضرور آئے گی لیکن وہ نہیں آئی تھی۔ وہ کچھ دیر سعیدہ اماں سے بے مقصد باتیں کرتا صحن میں کھڑا اس کا انتظار کرتا رہا۔ سعیدہ اماں کے لہجے میں اتنی سردمہری نہ ہوتی تو ان سے امامہ کو بلوانے کا کہتے ہوئے اسے جھجک محسوس نہ ہوتی۔
سعیدہ اماں کے گھر سے نکلتے ہوئے اس نے پہلی بار اس محلے اس کے سامنے والے گھر کو سر اٹھا کر دیکھا تھا۔ وہاں سے اکیلے واپس آنا اسے کھل رہا تھا۔ وہ اتنے سال اس کے بغیر ہی رہا تھا۔ اسے کبھی تنہائی نہیں چبھی تھی۔ اس نے ایک رات اس کے ساتھ گزاری تھی اور تنہائی کا مفہوم اس کی سمجھ میں آگیا تھا۔ وہاں سے واپسی کی ڈرائیو کی زندگی کی سب سے طویل ڈرائیو تھی۔
٭٭٭٭
”کل بھائی صاحب کے ہاں چلیں گے۔ انہیں بتائیں گے یہ سب کچ وہی بات کریں گے سالار سے۔” سعیدہ اماں اس کے پاس بیٹھی کہہ رہی تھیں۔ وہ بے حد پریشان تھیں۔
امامہ نے ان کی بات کی تائید کی نہ تردید۔ اب اس کا دل کچھ بھی کہنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ بس اپنے بیڈ پر کمبل اوڑھے چپ چاپ بیٹھی سعیدہ اماں کی باتیں سنتی رہی۔
”اچھا، چلو اب سو جاؤ بیٹا! صبح سحری کے لیے بھی اٹھنا ہو گا۔”
سعیدہ اماں کو اچانک خیال آیا۔ بیڈ سے اٹھ کر کمرے سے نکلتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔
”لائٹ آف کر دوں؟”
پچھلی رات ایک جھماکے کے ساتھ اسے یاد آئی تھی۔
”نہیں… رہنے دیں۔” وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہتے ہوئے لیٹ گئی۔
سعیدہ اماں دروازہ بند کر کے چلی گئیں۔ کمرے کی خاموشی نے اسے سالار کے بیڈ روم کی یاد دلائی۔
”ہاں، اچھا ہے نا… میں نہیں ہوں، آرام سے لائٹ آن کر کے سو تو سکتا ہے۔ یہی تو چاہتا تھا وہ…” وہ پھر سے رنجیدہ ہونے لگی اور تب ہی اس کا سیل فون بجنے لگا۔ امامہ کے خون کی گردش پل بھر کے لیے تیز ہوئی، وہ اسے بالآخر کال کر رہا تھا۔ اس نے بے حد خفگی کے عالم میں فون بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پھینک دیا۔
وہ اسے ساتھ لے کر نہیں گیا اور اب اسے اس کی یاد آرہی تھی۔ اس کی رنجیدگی، غصے میں بدل رہی تھی۔ وہ اس طرح کیوں کرہی تھی کہ رائی کا پہاڑ بنا رہی تھی۔
اس نے جیسے اپنا تجزیہ کیا اور اس تجزیے نے بھی اسے اذیت دی۔ میں زود رنج ہو گئی ہوں یا وہ مجھے جان بوجھ کر بری طرح اگنور کر رہا ہے۔ یہ جتانا چاہتا ہے کہ میں اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اس کے دوست، اس کا آفس، اس کی فیملی… بس یہ اہم ہیں اس کے لیے… دوبارہ کال نہیں آئی، چند سیکنڈ کے بعد اس کا میسج آیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ یقینا اس سے کہے گا وہ اسے مس کر رہا تھا۔
ٹیکسٹ میسج میں اس کے لیے ایک ری لوڈ کارڈ کا نمبر تھا اور اس کے نیچے دو لفظ… ”گڈ نائٹ سویٹ ہارٹ!”
پہلے اسے شدید غصہ آیا پھر بری طرح رونا۔ اسے پہلے بھی زندگی میں سالار سکندر سے برا کوئی نہیں لگا تھا اور آج بھی اس سے برا کوئی نہیں لگ رہا تھا۔
٭٭٭٭
”آمنہ سے بات کروا دو… میں اور طیبہ بھی اس سے بات کر لیں… شادی کر لی… اسے گھر بھی لے آؤ… اب کسی کام میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے یا نہیں۔” سکندر نے ابتدائی سلام و دعا کے ساتھ چھوٹتے ہی اس سے کہا۔
”وہ آج اپنے میکے میں ہے۔” سالار نے کچھ سوچ کر کہا۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی سعیدہ اماں کے گھر سے واپس آیا تھا۔
”تو برخوردار! تم بھی اپنے سسرال میں ہی ٹھہرتے ، تم منہ اٹھا کر اپنے اپارٹمنٹ کیوں آگئے؟” سکندر نے اسے ڈانٹا، وہ جواباً ہنسا۔
”ممی پاس ہی ہیں؟” اس نے موضوع بدلا۔
”ہاں… کیوں، بات کرنی ہے؟”
”نہیں، فی الحال تو آپ ہی سے بات کرنی ہے… بلکہ کچھ زیادہ سیریس بات کرنی ہے۔”
سکندر یک دم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ ”یہ سالار سکندر ” تھا، وہ اگر سیریس کہہ رہا تھا تو بات یقینا ”بہت سیریس تھی۔”
”کیا بات ہے؟”
”مجھے… اصل میں آمنہ کے بارے میں آپ کو کچھ بتانا ہے۔”
سکندر الجھ گئے۔ وہ آمنہ کے بارے میں انہیں نکاح کے بعد بتا ہی چکا تھا۔ ڈاکٹر سبط علی کی بیٹی جس کے ساتھ اس نے اپنی کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر ایمرجنسی میں نکاح کیا تھا… سکندر عثمان، ڈاکٹر سبط علی کو جانتے تھے اور سالار کے توسط سے دو تین بار ان سے مل بھی چکے تھے۔ وہ ڈاکٹر سبط علی کی بیٹی کے بجائے کسی بھی لڑکی سے اس طرح اچانک ان لوگوں کو مطلع کیے بغیر نکاح کرتا، تب بھی انہیں اعتراض نہ ہوتا۔ وہ اور ان کی فیملی کچھ اتنی ہی لبرل تھی اور سالار تو بہرحال ”اسپیشل کیس” تھا… یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ شادی ”انسانوں” کی طرح کرتا۔ یہ تبصرہ طیبہ کا تھا جو انہوں نے اس کے نکاح کی خبر ملنے پر قدرے خفگی لیکن اطمینان کے ساتھ کیا تھا اور اب وہ کہہ رہا تھا کہ اسے آمنہ کے بارے میں کچھ بتانا تھا۔
”کیا بتانا ہے آمنہ کے بارے میں؟”
سالار نے گلا صاف کیا۔ بات کیسے شروع کرے، سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
”آمنہ اصل میں امامہ ہے۔” تمہید اس نے زندگی میں کبھی نہیں باندھی تھی، پھر اب کیسے باندھتا۔ دوسری طرف ایک دم خاموسی چھا گئی۔ سکندر کو لگا، انہیں سننے میں کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔
”کیا… کیا مطلب؟” انہوں نے جیسے تصدیق چاہی۔
”امامہ کو ڈاکٹر صاحب نے اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ وہ اتنے سالوں ان ہی کے پاس تھی۔ انہوں نے اس کا نام چینج کر دیا تھا اس کے تحفظ کے لیے۔ مجھے نکاح کے وقت یہ پتا نہیں تھا کہ وہ امامہ ہے، لیکن وہ امامہ ہی ہے۔”
آخری جملے کے علاوہ اسے باقی تفصیل احمقانہ نہیں لگی۔
سکندر عثمان نے رکتی ہوئی سانس کے ساتھ برابر کے بیڈ پر بیٹھی بیوی کو دیکھا جو اسٹار پلس پر کوئی ٹاک شور دیکھنے میں مصروف تھی اور یہ اچھا ہی تھا۔
وہ اسی طرح رکتی ہوئی سانس کے ساتھ، ننگے پاؤں اپنے بستر سے اتر کر بیڈ روم کا دروازہ کھول کر، بے حد عجلت کے عالم میں باہر نکل گئے۔ طیبہ نے کچھ حیرت سے انہیں اس طرح اچانک جاتے دیکھا۔
”ایک تو ان باپ بیٹے کا رومانس ہی ختم نہیں ہوتا، اب دو گھنٹے لگا کر آئیں گے۔” طیبہ نے قدرے خفگی سے سوچا اور دوبارہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئیں۔
باہر لاؤنج میں سکندر عثمان کے چودہ طبق روشن ہو رہے تھے۔ وہ ابھی چند گھنٹے پہلے ہی طیبہ کے ساتھ اپنے آخری اولاد کے ”سیٹل” ہو جانے پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس کا ولیمہ پلان کر رہے تھے اور انہیں وقتی طور پر یہ بھول گیا تھا کہ وہ آخری اولاد ”سالار سکندر” تھا۔
دو گھنٹے تک لاؤنج میں اس کے ساتھ طویل گفت و شنید کے بعد وہ جب بالآخر واپس بیڈ روم میں آئے تو طیبہ سو چکی تھی لیکن سکندر عثمان کی نیند اور اطمینان دونوں رخصت ہو چکے تھے۔
٭٭٭٭
سکندر عثمان اس سے ناراض نہیں ہوئے تھے لیکن وہ ان تمام خدشات کو سمجھ سکتا تھا جو یک دم ان کے ذہن میں جاگ اٹھے تھے۔ اتنے سال سے ہاشم مبین کی فیملی کے ساتھ ان کے تمام تعلقات مکمل طور پر منقطع تھے لیکن اس کے باوجود سب کچھ پر سکون تھا۔ امامہ کی اس فوری گمشدگی کے بعد شروع کے چند مہینے وہ انہیں تنگ کرتے رہے تھے لیکن جوں جوں انہیں یقین ہوتا گیا کہ سکندر عثمان اور سالار کا واقعی امامہ کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے تو ساری گرد جیسے آہستہ آہستہ بیٹھتی گئی۔ اس کے باوجود ہاشم مبین کو اب بھی یقین تھا کہ رابطہ نہ ہونے کے باوجود امامہ کو بھاگنے میں سالار کا کسی نہ کسی طرح ہاتھ ضرور تھا، مگر یہ بات ثابت کرنا مشکل تھا اور اب نو سال بعد یک دم جیسے ”ثبوت” سامنے آگیا تھا۔ اس کے نتیجے میں ہاشم مبین اور اس کی فیملی کیا طوفان اٹھاتی، اس کے بارے میں سکندر کو کوئی خوش فہمی نہیں تھی۔ وہ اگر پریشان تھے تو سالار ان کی پریشانی سمجھ سکتا تھا۔
ان سے بات کرنے کے بعد وہ سونے کے لیے بیڈ پر آکر لیٹ گیا اور اس وقت اسے ایک بار پھر امامہ یاد آئی۔ اس نے گردن موڑ کر اس خالی بستر اور تکیے کو دیکھا۔ اسے پچھلی رات اس تکیے پر بکھری زلفیں یاد آئیں۔ چند لمحوں کے لیے اسے یوں لگا جیسے وہ وہیں تھی۔ اس تکیے سے اس کے کندھے اور اس کے کندھے سے اس کے سینے تک آتی ہوئی وہ سیاہ ریشمی زلفیں ایک بار پھر اس سے لپٹنے لگی تھیں۔
اس نے لائٹ آف کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ پچھلی رات نہیں تھی کہ اسے تاریکی میں بھی نیند آجاتی۔
٭٭٭٭
وہ ساری رات نہیں سوئی۔ غصہ، رنج، افسوس اور آنسو… وہ ایک کیفیت سے نکلتی، دوسری میں داخل ہوتی رہی۔
سحری کے وقت بھی اس کا دل بستر سے نکل کر سعیدہ اماں کا سامنا کرنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ انہیں اپنی اتری ہوئی شکل دکھانا نہیں چاہتی تھی لیکن مجبوری تھی۔ سعیدہ اماں اسے مجبور نہ کرتیں تو وہ سحری کھائے بغیر روزہ رکھتی۔ واپس کمرے میں آنے پر اس نے ایک بار پھر اپنے سیل پر سالار کی مسڈ کال دیکھی۔ اس نے سیل آف کیا اور کمبل لپیٹ کر سو گئی۔
سالار نے دس بجے کے قریب آفس سے اسے کال کی، سیل آف تھا۔ گیارہ بجے کال کرنے پر ایک بار پھر سیل آف ملا۔ اس بار اس نے سعیدہ اماں کی لینڈ لائن پر کال کی۔
”امامہ سو رہی ہے۔” انہوں نے چھوٹتے ہی سردمہری سے اسے اطلاع دی۔
”اچھا، جب وہ اٹھے تو آپ اس سے کہیں کہ مجھے کال کر لے۔” اس نے پیغام دیا۔
”دیکھوں گی، اگر اس کے پاس فرصت ہوئی تو کر لے گی۔” سعیدہ اماں نے یہ کہہ کر کھٹاک سے فون بند کر دیا۔ وہ سیل ہاتھ میں پکڑے رہ گیا۔ اگلے پانچ منٹ وہ اسی پوزیشن میں بیٹھا سعیدہ اماں کے جواب پر غور کرتا رہا۔
امامہ کو اس کا پیغام مل گیا تھا اور سعیدہ اماں نے سالار کو دیا جانے والا جواب اسے سنا دیا۔ وہ خاموش رہی۔
”آج بھائی صاحب کی طرف چلیں گے۔” سعیدہ اماں نے اسے چپ دیکھ کر کہا۔
”آج رہنے دیں، سالار کے گھر والے آرہے ہیں ، بعد میں بات کر لیں گے۔”امامہ نے سعیدہ اماں سے کہا۔ سالار نے ڈیڑھ بجے کے قریب فون کیا اور اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
”تھینگ گاڈ! تمہاری آواز تو سننا نصیب ہوا مجھے…” وہ جواباً خاموش رہی۔
”ڈاکٹر صاحب کا ڈرائیور پہنچنے ہی والا ہو گا، تم تیار ہو جاؤ۔” سالار نے اس کی خاموشی نوٹس کیے بغیر اسے اطلاع دی۔
”ڈنر کے لیے کیا بنانا ہے؟”امامہ نے جواباً کہا۔
”کون سا ڈنر؟”
”تمہارے پیرنٹس کھانا نہیں کھائیں گے کیا؟”
”نہیں، ڈنر فرقان کے گھر پر ہے۔”
”میں ڈنر خود تیار کر لوں گی۔” اس نے اس اطلاع پر دو ٹوک انداز میں کہا۔
”یہ ڈنر وہ ہم دونوں کے لیے نہیں بلکہ ممی، ماما اور انیتا کے لیے کر رہا ہے۔” وہ کچھ خفیف سی ہو گئی۔
”لیکن سحری کے لیے تو کچھ نہ کچھ کرنا ہی ہو گا۔”
”میری فیملی میں روزے وغیرہ کوئی نہیں رکھتا، لیکن پوچھ لوں گا اور کر لیں گے کچھ نہ کچھ … فریج میں بہت کچھ ہے۔ تم اس جھنجھٹ میں نہ پڑو۔”
”ہیلو!” سالار نے جیسے لائن پر اس کی موجودگی کو چیک کیا۔
”میں سن رہی ہوں۔” اس نے جواباً کہا۔
”امامہ! تم اور سعیدہ اماں کل رات کو رو کیوں رہی تھیں…؟”
سالار نے بالآخر وہ سوال کیا جو پچھلی رات سے اسے تنگ کر رہا تھا۔
”ایسے ہی۔” وہ کچھ دیر کے لیے جواب نہ دے سکی۔
”اور سعیدہ اماں کا موڈ بھی کچھ آف تھا؟”
”پتا نہیں… تم پوچھ لیتے۔” اس نے اب بھی اسی انداز سے کہا۔
”چلو تم اب تیار ہو جاؤ، گھر پہنچ جاؤ تو مجھے ٹیکسٹ میسج کرنا۔ اگر میں فری ہوا تو تمہیں کال کر لوں گا۔” امامہ نے جواباً خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔ اس کا دل چاہا تھا، اس سے کہے۔ ”ضرورت نہیں۔”
٭٭٭٭
وہ تقریباً اڑھائی بجے ڈاکٹر صاحب کے ڈرائیور کے ساتھ اس کے اپارٹمنٹ پر پہنچی تھی اور اس نے آتے ہی سب سے پہلے دونوں بیڈ رومز چیک کیے تھے۔ بیڈ رومز یا باتھ رومز میں کچھ رکھنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
سالار آفس جانے سے پہلے یقینا ہر کام خود ہی کر کے گیا تھا۔ا س نے ایک بار پھر اپنے وجود کو ”بے مصرف” محسوس کیا۔
ایک بیڈ روم شاید پہلے ہی گیسٹ روم کے طور پر استعمال ہو رہا تھا، جب کہ دوسرا بیڈ روم وہ اسٹڈی کے طور پر بھی استعمال کر رہا تھا۔ وہاں ایک ریک پر کتابوں کے ڈھیر کے علاوہ اسی طرح کے ریکس پر سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز کے انبار بھی نظر آئے۔ سٹنگ روم میں موجود ریکس پر بھی ڈی وی ڈیز اور سی ڈیز تھیں لیکن ان کی تعداد اس کمرے کی نسبت بہت کم تھی۔ کمرے میں کچھ musical instruments بھی پڑے ہوئے تھے اور ایک اسٹڈی ٹیبل پر بس ایک ڈیسک ٹاپ تھا۔ وہ اسٹڈی ٹیبل اس کمرے کی وہ واحد چیز تھی جس پر پڑے کاغذ، فائلز اور desk organiser اسے بے ترتیب نظر آئے۔ وہ اٹھنے سے پہلے اسے ٹھیک کرنا بھول گیا تھا یا شاید اس کے پاس وقت نہیں تھا۔
ایک لمحے کے لیے اسے خیال آیا کہ وہ ان پیپرز کو ٹھیک کر دے، اگلے ہی لمحے اس نے اس خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ اسے خدشہ تھا وہ یہ کام سالار جیسی پرفیکشن کے ساتھ نہیں کر سکتی تھی اور اگر کوئی پیپر اِدھر اُدھر ہو گیا تو…؟
وہ دروازہ بند کر کے باہر نکل آئی۔ فریج اور فریزر میں واقعی کھانے کا بہت سا سامان تھا اور اس کو یقین تھا کہ ان میں سے نوے پرسنٹ اشیاء فرقان اور نوشین کی مرہون منت تھی۔ جو چیزیں سالار کی اپنی خریداری کا نتیجہ تھیں ان میں پھلوں کے علاوہ ڈرنکس اور ٹن پیکڈ فوڈ آئٹمز کی ایک محدود تعداد تھی۔ اس نے چند ٹن نکال کر دیکھے، وہ تقریباً سب کے سب سی فوڈ تھے۔
امامہ کو کھانے میں صرف ایک چیز ناپسند تھی۔ سی فوڈ… روزے کی وجہ سے اس کا معدہ خالی نہ ہوتا تو وہ ان ڈبوں پر بنے ہوئے کریبز اور پرانز دیکھ کر اسے وومٹنگ شروع ہو جاتی۔ اس نے بڑی مایوسی کے عالم میں ان ٹنز کو واپس فریج میں رکھ دیا۔ یقینا وہ ڈیکوریشن کے مقصد سے خرید کر نہیں رکھے گئے تھے۔ وہ خرید کر لاتا تھا تو یقینا کھاتا بھی ہو گا۔ اس کا خراب موڈ کچھ اور ابتر ہوا۔ ابھی اور کیا کیا پتا چلنا تھا اس کے بارے میں…
اس نے کچن کے کیبنٹس کھول کر دیکھے اور بند کر دیے۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کچن میں فریج کے علاوہ صرف کافی کیبنٹس اور برتنوں کے ریکس کے علاوہ کہیں کچھ نہیں۔ وہ کچن صرف ناشتے اور سینڈوچ والے میلز کے علاوہ صرف چائے یا کافی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ وہاں اسے چند فرائنگ پینز کے علاوہ کسی قسم کے پکانے کے برتن نظر نہیں آئے۔ کچن میں موجود کراکری بھی، ایک ڈنر سیٹ اور چند واٹر اور ٹی سیٹس پر مشتمل تھی یا اس کے علاوہ کچھ مگز تھے یا پھر بریک فاسٹ سیٹ۔ یقینا اس کے گھر آنے والے افراد کی تعداد بھی زیادہ نہیں تھی۔ وہ کچن سے نکل آئی۔
اپارٹمنٹ کا واحد غیر دریافت شدہ حصہ بالکونی تھا۔ وہ دروازہ کھول کر باہر نکل آئی اور وہ پہلی جگہ تھی جہاں آتے ہی اس کا دل خوش ہوا تھا۔ چھ فٹ چوڑی اور بارہ فٹ لمبی وہ ٹیرس نما بالکونی کو ٹیرس گارڈن کہنا زیادہ مناسب تھا۔ مختلف شکلوں اور سائزز کے گملوں میں مختلف قسم کے پودے اور بیلیں لگی ہوئی تھیں اور شدید سرد موسم میں بھی ان کی حالت بتا رہی تھی کہ ان پر خاصی محنت اور وقت لگایا گیا تھا۔ وہاں آس پاس کی بالکونیوں سے بھی اسے سبز رنگ کے پودے اور بیلیں جھانکتی نظر آرہی تھیں لیکن یقینا سالار کی بالکونی کی حالت سب سے بہتر تھی۔
لاؤنج کی قد آدم کھڑکیاں بھی اسی بالکونی میں تھیں اور بالکونی میں ان کھڑکیوں کے پاس دیوار کے ساتھ زمین پر ایک میٹ موجود تھا۔ وہ شاید یہاں آکر بیٹھتا ہو گا یا دھوپ میں لیٹتا ہو گا۔ شاید ویک اینڈ پر… ورنہ سردی کے موسم میں اس میٹ کی وہاں موجودگی کا مقصد اسے سمجھ میں نہیں آیا۔ بالکونی کی منڈیر کے قریب ایک اسٹول پڑا ہوا تھا۔ وہ یقینا وہاں آکر بیٹھتا تھا۔ نیچے دیکھنے کے لیے … منڈیر پر مگ کے چند نشان تھے۔ چائے یا کافی پیتا ہے یہاں بیٹھ کر … مگر کس وقت… یقینا رات کو… اس نے سوچا اور آگے بڑھ کر نیچے جھانکا۔ وہ تیسری منزل تھی اور نیچے بلڈنگ کا لان اور پارکنگ تھے۔ کچھ فاصلے پر کمپاؤنڈ سے باہر سڑک بھی نظر آرہی تھی۔ وہ ایک پورش ایریا تھا اور سڑک پر ٹریفک زیادہ نہیں تھی۔ وہ واپس اندر آگئی۔
وہ کپڑے تبدیل کر کے ابھی اپنے بال بنا رہی تھی کہ جب اسے ڈور بیل کی آواز سنائی دی۔ فوری طور پر اسے نوشین ہی کا خیال آیا تھا۔
لیکن دروازے پر ایک ریسٹورنٹ کا ڈیلیوری بوائے چند پیکٹس لیے کھڑا تھا۔
”میں نے آرڈر نہیں کیا۔” اسے لگا شاید وہ کسی غلط اپارٹمنٹ میں آگیا ہے۔
اس نے جواباً سالار سکندر کا نام ایڈریس کے ساتھ دہرایا۔ چند لمحوں کے لیے وہ چپ سی ہو گئی۔ وہ کم از کم اتنا لاپروا نہیں تھا اس کے بارے میں کہ اس کے افطار کے لیے کچھ انتظام کرنا بھول جاتا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ وہ اپنے پیرنٹس کو لینے کے لیے آفس سے نکل چکا ہو گا اور ایئر پورٹ پہنچنے کی بھاگ دوڑ میں اسے شاید وہ یاد بھی نہیں ہو گی۔
کچن میں ان پیکٹس کو رکھتے ہوئے اس کا غصہ اور رنجیدگی کچھ کم ہوئی اور یہ شاید اس کا ہی اثر تھا کہ اس نے کال کر کے سالار کو مطلع کرنا اور اس کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھا۔ وہ اس وقت ایئر پورٹ کی طرف جا رہا تھا۔ اس نے فوراً کال ریسیو کی تھی۔
امامہ نے اسے کھانے کے بارے میں بتایا۔
”میں رات کا کھانا اکثر اس ریسٹورنٹ سے منگواتا ہوں۔ کھانا اچھا ہوتا ہے ان کا…” اس نے جواباً بڑے معمول کے انداز میں کہا۔میں نے سوچا ” میں جب تک ان لوگوں کو لے کر گھر آؤں گا تب تک تم بھوکی بیٹھی رہو گی۔”
وہ اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی مگر یک دم اسے احساس ہوا کہ یہ بہت مشکل کام ہے سالار سے یہ دو لفظ کہنا، ایک عجیب سی جھجک جو اسے محسوس ہو رہی تھی۔ 
٭٭٭٭
وہ تقریباً سوا نو بجے کے قریب آیا اور ڈور بیل کی آواز پر وہ بے اختیار نروس ہو گئی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ سالار کی فیملی کے ردعمل سے خائف تھی۔ ایک ہمسائے کے طور پر بھی دونوں فیملیز کے درمیان بے حد رسمی تعلقات تھے اور بعد میں ہونے والے واقعات نے تو یہ فارمیلٹی بھی ختم کر دی تھی۔ اسے کئی سال پہلے سکندر عثمان سے فون پر ہونے والی گفت گو یاد تھی اور شاید اس کے خدشات کی وجہ بھی وہی کال تھی۔
بیرونی دروازہ کھولتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ اس کے ہاتھ بھی کانپ رہے تھے۔
سکندر عثمان سمیت تینوں افراد اس سے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ملے تھے۔ وہ ان کے رویوں میں جس روکھے پن اور خفگی کو ڈھونڈ رہی تھی، وہ فوری طور پر اسے نظر نہیں آئی۔ امامہ کی نروس نیس میں کچھ کمی آئی۔
فرقان کے گھر ڈنر کے دوران اس کی یہ نروس نیس اور بھی کم ہوئی۔
انیتا اور طیبہ دونوں بڑے دوستانہ انداز میں نوشین اور اس سے باتیں کرتی رہیں۔ نوشین اور فرقان سالار کے والدین سے پہلے بھی مل چکے تھے لیکن نوشین، انیتا سے پہلی بار مل رہی تھی اور دونوں کا موضوع گفت گو ان کے بچے تھے۔ وہ بے حد پرسکون انداز میں ایک خاموش سامع کی طرح ان لوگوں کی باتیں سنتی رہی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ فرقان کے گھر میں اس کی شادی یا اس کی ذات موضوع گفتگو بنے۔
اپنے اپارٹمنٹ میں واپسی کے بعد پہلی بار سکندر اور طیبہ نے سٹنگ روم میں بیٹھے، اس سے بات کی اور تب امامہ نے ان کے لہجے میں چھپی اس تشویش کو محسوس کیا جو امامہ کی فیملی کے متوقع رد عمل سے انہیں تھی۔ اس کا اعتماد ایک بار پھر غائب ہو گیا۔ اگرچہ انہوں نے کھلے عام امامہ کے سامنے ہاشم مبین یا ان کے خاندان کے حولے سے کوئی بات نہیں کی لیکن وہ لوگ اب ولیمہ کا فنکشن اسلام آباد کے بجائے لاہور میں منعقد کرنا چاہتے تھے۔ وہ سالار کی رائے سننا چاہتی تھی لیکن وہ گفت گو کے دوران خاموش رہا۔ جب گفت گو کے دوران خاموشی کے وقفوں کی تعداد بڑھنے لگی تو یک دم امامہ کو احساس ہوا کہ گفت گو میں آنے والی اس بے ربطی کی وجہ وہ تھی۔ وہ چاروں اس کی وجہ سے کھل کر بات نہیں کر پا رہے تھے۔
”بالکل ،بیٹا! تم سو جاؤ تمہیں سحری کے لیے اٹھنا ہو گا۔ ہم لوگ تو ابھی کچھ دیر بیٹھیں گے۔”
اس کے نیند آنے کے بہانے پر سکندر عثمان نے فوراً کہا تھا۔
وہ اٹھ کر کمرے میں آگئی۔ نیند آنا بہت مشکل تھی۔ دو دن پہلے جن خدشات کے بارے میں اس نے سوچا بھی نہیں تھا، اب وہ ان کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔
اسے اندازہ تھا کہ سکندر عثمان ان دونوں کی شادی کو خفیہ ہی رکھنا چاہتا ہیں تاکہ اس کی فیملی کو اس کے بارے میں پتا نہ چلے۔
وہ بہت دیر تک اپنے بیڈ پر بیٹھے ان خدشات اور خطرات کے بارے میں سوچتی رہی جو انہیں محسوس ہو رہے تھے۔ اس وقت وہاں اکیلے بیٹھی پہلی بار اس نے سوچا کہ اس سے شادی کر کے سالار نے کتنا بڑا خطرہ مول لیا تھا۔ جو بھی اس سے شادی کرتا، وہ کسی نہ کسی حد تک خود کو غیر محفوظ ضرور کر لیتا لیکن سالار سکندر کی صورت میں صورتِ حال اس لیے زیادہ خراب ہوتی کیونکہ اس کے ساتھ اس کے اس رشتے کا انکشاف ہونے کے چانسز زیادہ تھے۔
وہ زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتے تھے… اس نے سوچا… مجھے یا سالار کو جان سے تو کبھی نہیں ماریں گے… اسے اب بھی اندھا اعتماد تھا کہ کہیں نہ کہیں اس کی فیملی اتنا لحاظ ضرور کرے گی۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ وہ مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کریں گے اور پھر سالار سے طلاق دلوا کر کہیں اور شادی کرنا چاہیں گے۔
اس اضطراب میں یک دم مزید اضافہ ہوا۔ سب کچھ شاید اتنا سیدھا نہیں تھا جتنا وہ سمجھ رہی تھی یا سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ اپنی مرضی سے کہیں شادی کرنے کا مسئلہ نہیں تھا، یہ مذہب میں تبدیلی کا معاملہ تھا۔ اسے اپنے پیٹ میں گرہیں پڑتی محسوس ہوئیں، وہ واپس بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔ اس وقت پہلی بار سالار سے شادی کرنا اسے ایک غلطی لگی۔ وہ ایک بار پھر اسی کھائی کے کنارے آکر کھڑی ہو گئی تھی جس سے وہ اتنے سالوں سے بچتی پھر رہی تھی۔
٭٭٭٭
“اب کیا ہو گا؟” طیبہ نے بستر پر لیٹے ہوئے کہا۔
”اب ہونے کو رہ کیا گیا ہے؟” سکندر عثمان نے جواباً کہا۔ وہ جانتے تھے، طیبہ کا اشارہ کس طرف تھا۔
”ہاشم مبین کو پتا چل گیا تو…؟

اسی لیے تو اس سے کہا ہے کہ امامہ کو وہیں رکھے لاہور میں۔ اسلام آباد نہیں لائے۔ ویسے بھی پی ایچ ڈی کے لیے تو اسے اگلے سال چلے ہی جانا ہے۔ تب تک تو cover ہو سکتا ہے یہ سب کچھ…” سکندر عثمان نے اپنے گلاسز اتارتے ہوئے کہا۔ وہ بھی سونے کے لیے لیٹنے والے تھے۔
طیبہ کچھ دیر خاموش رہیں پھر انہوں نے کہا۔ ”مجھے تو بڑی عام سی لگی ہے امامہ۔”
”تمہارے بیٹے سے بہتر ہے۔” سکندر عثمان نے ترکی بہ ترکی کہا۔ طیبہ کچھ ناراض ہوئیں۔
”کیوں… سالار سے کس طرح بہتر ہے وہ،، اس کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ آپ خود ایمان داری سے بتائیں، ایسی کوئی بات ہے اس میں کہ نو سال بیٹھا رہا وہ اس کے لیے۔”
سکندر ہنس پڑے۔
”اتنی ہنسی کس بات پر آرہی ہے آپ کو؟” وہ چڑیں۔
سکندر واقعی بہت خوش گوار موڈ میں تھے۔
”میں واقعی بہت خوش ہوں کیونکہ میرا بیٹا بڑا خوش ہے۔ اتنے سالوں بعد اس طرح باتیں کرتے دیکھا ہے اسے۔ میں نے زندگی میں کبھی اس کے چہرے پر ایسی رونق نہیں دیکھی۔ امامہ کے ساتھ اس کی شادی ہو گئی ہے، میرے تو کندھوں سے بوجھ اتر گیا ہے۔ اس کے سامنے کتنا شرمندہ رہتا تھا میں، تمہیں اندازہ بھی ہے۔”
طیبہ خاموشی سے ان کی بات سن رہی تھیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ غلط نہیں کہہ رہے ہیں۔
٭٭٭٭
نیند میں وہ اس کے ہاتھوں میں رسیاں باندھ کر اسے کھینچ رہے تھے۔ رسیاں اتنی سختی سے باندھی ہوئی تھیں کہ اس کی کلائیوں سے خون رسنے لگا تھا اور اس کے ہر جھٹکے کے ساتھ وہ درد کی شدت سے بے اختیار چلاتی۔ وہ کسی بازار میں لوگوں کی بھیڑ کے درمیان کسی قیدی کی طرح لے جائی جا رہی تھی۔ دونوں اطراف میں کھڑے ہوئے لوگ بلند آواز میں قہقہے لگاتے ہوئے اس پر آوازے کس رہے تھے۔ پھر ان لوگوں میں سے ایک مرد نے جو اس کی کلائیوں میں بندھی رسیوں کو کھینچ رہا تھا… پوری قوت سے رسی کو جھٹکا دیا۔ وہ گھٹنوں کے بل اس پتھریلے راستے پر گری۔
”امامہ… امامہ… Its me… اٹھ جاؤ… سحری ختم ہونے میں تھوڑا سا وقت رہ گیا ہے۔”
وہ ہڑبڑا کر اٹھی، بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ آن کیا۔ سالار اس کے پاس کھڑا نرمی سے اس کا کندھا ہلاتے ہوئے اسے جگا رہا تھا۔
”سوری… میں نے شاید تمہیں ڈرا دیا۔” سالار نے معذرت کی۔
وہ کچھ دیر تک خالی ذہن کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ گزرے ہوئے سالوں میں ایسے خواب دیکھنے کی عادی ہو گئی تھی اور خوابوں کا یہ سلسلہ اب بھی نہیں ٹوٹا تھا۔
”کوئی خواب دیکھ رہی تھیں؟”
سالار نے جھک کر گود میں رکھے اس کے ہاتھ کو ہلاتے ہوئے پوچھا۔ اسے یوں لگا تھا، وہ ابھی بھی نیند میں تھی۔ امامہ نے سرہلا دیا۔ وہ اب نیند میں نہیں تھی۔
”تم کمبل لیے بغیر سو گئیں؟” سالار نے گلاس میں پانی انڈیلتے ہوئے کہا۔ امامہ نے چونک کر بیڈ پر پڑے کمبل کو دیکھا۔ وہ واقعی اسی طرح پڑا تھا۔ یقینا وہ بھی رات کو کمرے میں سونے کے لیے نہیں آیا تھا۔ کمرے کا ہیٹر آن رہا تھا، ونہ وہ سردی لگنے کی وجہ سے ضرور اٹھ جاتی۔
”جلدی آجاؤ، بس دس منٹ رہ گئے ہیں۔”
وہ اسے پانی کا گلاس تھماتے ہوئے کمرے سے نکل گیا۔
منہ ہاتھ دھونے کے بعد جب وہ سٹنگ ایریا میں آئی تو وہ سحری کر چکا تھا اور چائے بنانے میں مصروف تھا۔ لاؤنج یا کچن میں اور کوئی نہیں تھا۔ ڈائننگ ٹیبل پر اس کے لیے پہلے ہی سے برتن لگے ہوئے تھے۔
”میں چائے بناتی ہوں۔” وہ سحری کرنے کے بجائے مگ نکالنے لگی۔
”تم آرام سے سحری کرو، ابھی اذان ہو جائے گی۔ میں اپنے لیے چائے خود بنا سکتا ہوں، بلکہ تمہارے لئے بھی بنا سکتا ہوں۔” سالار نے مگ اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے اسے واپس بھیجا۔
وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
”یہ سب لوگ سو رہے ہیں؟”
”ہاں… ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی سوئے ہیں۔ ساری رات تو باتیں کرتے رہے ہم لوگ اور شاید ہماری آوازوں کی وجہ سے تم ڈسٹرب ہوتی رہیں۔”
”نہیں، میں سو گئی تھی۔” اس کا لہجہ بہت بجھا ہوا تھا۔ سالار نے محسوس کیا، وہ اسے بہت اپ سیٹ لگی۔
”کیا کوئی زیادہ برا خواب دیکھا ہے؟”
وہ چائے کے مگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کرسی کھینچ کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔
”خواب…” وہ چونکی۔ ”نہیں… ایسے ہی …” وہ کھانا کھانے لگی۔
”صبح ناشتا کتنے بجے کریں گے یہ لوگ۔” اس نے بات بدلتے ہوئے پوچھا۔
وہ بے اختیار ہنسا۔
”یہ لوگ… کون سے لوگ… یہ تمہاری دوسری فیملی ہے اب … ممی، پاپا کہو انہیں اور انیتا کو انیتا…” وہ اس کی بات پر بے اختیار شرمندہ ہوئی۔ وہ واقعی کل رات سے ان کے لیے وہی دو لفظ استعمال کر رہی تھی۔
”ناشتا تو نہیں کریں گے۔ ابھی گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ تک اٹھ جائیں گے۔ دس بجے کی فلائٹ ہے۔” سالار نے اس کی شرمندگی کو بھانپتے ہوئے بات بدل دی۔
”صبح نو بجے کی… اتنی جلدی کیوں جا رہے ہیں؟” وہ حیران ہوئی۔
”صرف تم سے ملنے کے لیے آئے تھے یہ لوگ، پاپا کی کوئی میٹنگ ہے آج دو بجے اور انیتا تو اپنے بچوں کو ملازمہ کے پاس چھوڑ کر آئی ہے۔ چھوٹی بیٹی تو صرف چھ ماہ کی ہے اس کی۔” وہ بتا رہا تھا۔ ”چائے پئیں گے ناشتے کے بجائے، وہ تم بنا دینا۔ میں ابھی نماز پڑھ کر آجاؤں، پھر ان کے ساتھ ہی آفس کے لیے تیار ہوں گا اور انہیں ایئرپورٹ چھوڑ کر پھر آفس چلا جاؤں گا۔” سالار نے جمائی روکتے ہوئے چائے کا خالی مگ اٹھایا اور کھڑا ہو گیا۔ امامہ نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔
”تم سوؤ گے نہیں؟”
”نہیں، شام کو آفس سے آنے کے بعد سوؤں گا۔”
”تم چھٹی لے لیتے۔” امامہ نے روانی سے کہا۔
سنک کی طرف جاتے ہوئے سالار نے پلٹ کر امامہ کو دیکھا اور پھر بے اختیار ہنسا۔ ”سونے کے لیے آفس سے چھٹی لے لیتا؟ میرے پروفیشن میں ایسا نہیں ہوتا۔”
”تم سوئے نہیں رات کو، اس لیے کہہ رہی ہوں۔” وہ اس کی بات پر جھینپی تھی۔
”میں اڑتالیس، اڑتالیس گھنٹے بغیر سوئے یو این کے لیے کام کرتا رہا ہوں۔ وہ بھی شدید گرمی اور سردی میں۔ Disaster striken areas میں اور رات کو تو ماں، باپ کے پاس بیٹھا پرفیکٹ کنڈیشنز میں باتیں کرتا رہا ہوں، تھکتا کیوں؟”
اذان ہو رہی تھی۔
”اب پلیز مگ مت دھونا، مجھے اپنے برتن دھونے ہیں۔” امامہ نے چائے کا مگ خالی کرتے ہوئے اسے روکا۔ وہ ٹی بیگ نکال کر ویسٹ باسکٹ میں پھینکنے لگی تھی۔
”ٹھیک ہے… دھویئے…”
سالار نے بڑی خوش دلی کے ساتھ مگ سنک میں رکھا اور پلٹا۔ وہ کوڑے دان کا ڈھکن ہٹاتے ہوئے فق ہوتی رنگت کے ساتھ، ٹی بیگ ہاتھ میں پکڑےَ کسی بت کی طرح کھڑی تھی۔ سالار نے ایک نظر اسے دیکھا، پھر کوڑے دان کے اندر پڑی اس چیز کو جس نے اسے یوں شاکڈ کر دیا تھا۔
نان الکوحلک ڈرنک۔” وہ مدھم آواز میں کہتے ہوئے کچن سے باہر نکل گیا تھا۔
وہ بے اختیار شرمندہ ہوئی۔ اسے یقین تھا۔ وہ اس کوڑے دان کے اندر ڑے جنجر بیئر کے اس خالی کین کو وہاں سے نہیں دیکھ سکتا تھا، جہاں وہ کھڑا تھا، اس کے باوجود اس کو پتا تھا کہ وہ کیا چیز دیکھ کر سکتہ میں آئی تھی۔
اس نے جنجر بعد میں پڑھا تھا، بیئر پہلے… اور یہ سالار سکندر کا گھر نہ ہوتا تو اس کا ذہن پہلے نان الکوحلک ڈرنکس کی طرف جاتا، مگر یہاں اس کا ذہن بے اختیار دوسری طرف گیا تھا۔ جھک کر ٹی بیگ پھینکتے ہوئے اس نے non alcoholic کے لفظ بھی کین پر دیکھ لیے تھے۔ کچھ دیر وہیں کھڑی وہ اپنی ندامت ختم کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ پتا نہیں وہ کیا سوچ رہا ہوتا میرے بارے میں اور سالار کو بھی واقعی کرنٹ لگا تھا۔ وہ دونوں اپنے درمیان اعتماد کا جو پل بنانے کی کوشش کر رہے تھے، وہ کبھی ایک طرف سے ٹوٹ رہا تھا، کبھی دوسری طرف سے۔
اس نے آخری بار شراب آٹھ سال پہلے پی تھی، لیکن وہ انرجی اور non alcoholic drinks تقریباً ہر رات کام کے دوران پیتا تھا۔ امامہ کو ویسٹ باسکٹ کے پاس شاکڈ دیکھ کر اسے یہ جاننے میں سیکنڈز بھی نہیں لگے تھے کہ ویسٹ باسکٹ میں پڑی کون سی چیز اس کے لیے شاکنگ ہو سکتی ہے۔
وہ کارپوریٹ سکیٹر سے تعلق رکھتا تھا اور جن پارٹیز میں جاتا تھا وہاں ڈرنکس ٹیبل پر شراب بھی موجود ہوتی تھی اور ہر بار اس ”مشروب” سیا نکار پر کسی کے پچھلے آٹھ سال کے دوران شاید ایک بار بھی یہ نہیں سوچا ہو گا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے، کیونکہ ان میں سے کوئی بھی نو سال پہلے والے سالار سکندر سے واقف نہیں تھا۔ لیکن وہ ایک فرد جو دو دن پہلے اس کے گھر میں آیا تھا، اس کے پاس سالار کی کسی بھی بات اور عمل پر شبہ کرنے کے لیے بڑی ٹھوس وجوہات موجود تھیں۔
”یہ سب تو ہو گا ہی… ایسی حرکتیں نہ کرتا تب قابل اعتبار ہوتا۔ اب جب کہ ماضی کچھ اتنا صاف نہیں ہے تو اس پر اپنا اعتبار قائم کرنے میں کچھ وقت تو لگے گا ہی۔” بیرونی دروازے کی طرف جاتے ہوئے اس نے بڑی آسانی کے ساتھ سارا الزام اپنے سر لے کر امامہ کو بری الذمہ قرار دے دیا تھا۔
”تمہارے کپڑے پریس کردوں؟” اس نے بیڈ روم میں آکر پوچھا۔ وہ ڈریسنگ روم میں وارڈ روب کھولے اپنے کپڑے نکال رہا تھا۔
”نہیں، میرے کپڑے تو پریس ہو کر آتے ہیں۔” ایک ہینگر نکالتے ہوئے وہ پلٹ کر مسکرایا تھا۔
امامہ کو یک دم اپنے کانوں کے بندے یاد آئے۔
”تم نے میرے ایر رنگز کہیں دیکھے ہیں میں نے واش روم میں رکھے تھے، وہاں نہیں ملے مجھے۔”
”ہاں میں نے اٹھائے تھے وہاں سے۔ وہ ڈریسنگ ٹیبل پر ہیں۔” سالار دو قدم آگے بڑھا اور ایر رنگز اٹھا کر امامہ کی طرف بڑھا دیے۔
”یہ پرانے ہو گئے ہیں۔ تم آج میرے ساتھ چلنا، میں تمہیں نئے لے دوں گا۔”
وہ ایر رنگز کانوں میں پہنتے ہوئے ٹھٹکی۔
”یہ میرے ابو نے دیے تھے جب مجھے میڈیکل میں ایڈمیشن ملا تھا۔ میرے لیے پرانے نہیں ہیں۔ تمہیں ضرورت نہیں ہے اپنے پیسے ضائع کرنے کی۔”
اس کا ردِ عمل دیکھنے کے لیے امامہ نے پلٹ کر دیکھنے کی زحمت تک نہیں کی۔ وہ بیڈ روم کا دروازہ کھول کر باہر چلی گئی تھی۔ وہ اگلے کچھ سیکنڈز وہیں کھڑا رہا۔ وہ محبت سے کی ہوئی آفر تھی، جسے وہ اس کے منہ پر مار کر گئی تھی۔ کم از کم سالار نے یہی محسوس کیا تھا۔ اسے یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ محبت سے کی جانے والی اس آفر کو اس نے ضرورت پوری کرنے والی چیز بنا دیا تھا۔ وہ مرد تھا، ضرورت اور محبت میں فرق نہیں کر پاتا تھا۔ وہ عورت تھی ضرورت اور محبت میں فرق رکھتے رکھتے مر جاتی۔
٭٭٭٭
ڈاکٹر سبط علی کو اس دن صبح ہی سعیدہ اماں سے طویل گفت گو کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ وہ دو یا تین دن بعد ان کی خیریت دریافت کرنے کے لیے فون کیا کرتے تھے اور آج بھی انہوں نے سعیدہ اماں کی طبیعت پوچھنے کے لیے ہی فون کیا تھا۔ وہ ان کی آواز سنتے ہی پھٹ پڑی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی بے یقینی سے ان کی باتیں سنتے رہے۔ انہیں سعیدہ اماں کی کوئی بھی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔
”آمنہ نے آپ سے یہ کہا کہ سالار اپنی پہلی بیوی کی باتیں کرتا رہا ہے؟” انہیں لگا کہ انہیں سعیدہ اماں کی بات سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔
”وہ بے چاری تو روتی رہی ہے… فون پر بھی… اور میرے پاس بیٹھ کر بھی… سالار نے اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ اس سے ٹھیک طرح سے بات تک نہیں کرتا وہ۔ بھائی صاحب! آپ نے بڑا ظلم کیا ہے بچی پر۔” سعیدہ اماں ہمیشہ کی طرح جذباتی ہو رہی تھیں۔
”مجھے لگتا ہے کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے، وہ دونوں تو پرسوں میرے پاس آئے ہوئے تھے۔ بالکل ٹھیک ٹھاک اور خوش تھے۔” ڈاکٹر سبط علی پریشان کم اور حیران زیادہ ہو رہے تھے۔
”اور آپ کے گھر سے واپسی پر وہ اسے یہاں چھوڑ گیا تھا۔ وہ بے چاری ساری رات روتی رہی۔”
”آمنہ آپ کے ہاں رہی پرسوں؟” وہ پہلی بار چونکے تھے۔
”تو اور کیا…؟ سالار تو اس کو لے جانا ہی نہیں چاہتا تھا۔ وہ تو اس کے ماں باپ آرہے تھے کل… تو اس لیے مجبوراً لے گیا اسے… اور آمنہ بھی بڑی پریشان ہے سارا دن چپ بیٹھی رہی۔ آپ تو بھائی صاحب بڑی تعریفیں کیا کرتے تھے، بڑا نیک ، صالح بچہ ہے لیکن یہ تو بڑا خراب نکلا۔ ابھی سے تنگ کرنا شروع کر دیا ہے اس نے۔”
اس وقت ڈاکٹر سبط علی کے چودہ طبق روشن ہو رہے تھے۔ امامہ اس رات ان کے گھر پر بھی خاموش بیٹھی رہی تھی، لیکن انہیں یہ شائبہ تک نہیں ہوا تھا کہ ان دونوں کے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف ہوا ہے۔
”خیر، میں ڈرائیور کو بھیجتا ہوں، آپ میری طرف آجائیں۔ سالار کو بھی افطار پر بلوا لیتے ہیں، پھر میں اس سے بات کر لوں گا۔”
امامہ نے بے اختیار آنکھیں بند کیں۔ اس وقت یہی ایک چیز تھی جو وہ نہیں چاہتی تھی۔
”وہ آج کل بہت دیر سے آفس سے آرہا ہے۔ کل رات بھی نو بجے آیا، شاید آج نہ آسکے۔” اس نے کمزور سی آواز میں کہا۔
”میں فون کر کے پوچھ لیتا ہوں اس سے۔” ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔
”جی۔” اس نے بہ مشکل کہا۔ وہ ان کے کہنے پر آنکھیں بند کر کے کسی سے بھی شادی کرنے پر تیار ہو گیا تھا، وہ افطار کی دعوت پر نہ آنے کے لیے کسی مصروفیت کو جواز بناتا؟
وہ جانتی تھی کہ ڈاکٹر سبط علی کو کیا جواب ملنے والا ہے۔ فون بند کر کے وہ بے اختیار اپنے ناخن کاٹنے لگی… یہ درست تھا کہ اسے سالار سے شکایتیں تھیں، لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ شادی کے چوتھے ہی دن اس طرح کی کوئی بات ہوتی۔
”ہیلو! سویٹ ہارٹ۔” پانچ منٹ بعد اس نے اپنے سیل پر سالار کی چہکتی ہوئی آواز سنی اور اس کے ضمیر نے اسے بری طرح ملامت کیا۔
”بندہ اٹھتا ہے تو کوئی میسج ہی کر دیتا ہے… فون کر لیتا ہے… یہ تو نہیں کہ اٹھتے ہی میکے جانے کی تیاری شروع کر دے۔” وہ بے تکلفی سے حالات کی نوعیت کا اندازہ لگائے بغیر اسے چھیڑ رہا تھا۔
امامہ کے احساس جرم میں مزید اضافہ ہوا۔ ڈاکٹر سبط علی نے یقینا اس سے فی الحال کوئی بات کیے بغیر اسے افطار پر بلایا تھا۔
”ڈاکٹر صاحب ابھی افطار کے بارے میں کہہ رہے تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ میں آج آفس سے جلدی آجاؤں گا اور تمہیں اپنے ساتھ لے آؤں گا۔” وہ اسے بتا رہا تھا۔
امامہ کو یک دم کچھ امید بندھی۔ وہ اگر پہلے گھر آجاتا ہے تو وہ اس سے کچھ بات کر لیتی، کچھ معذرت کر کے اسے ڈاکٹر صاحب کے گھر متوقع صورتِ حال کے بارے میں آگاہ کر سکتی تھی۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ ہاں، یہ ہو سکتاتھا۔
”لیکن اگر تم جانا چاہو تو میں تمہیں بھجوا دیتا ہوں۔” سالار نے اگلے ہی جملے میں اسے آفر کی۔
”نہیں… نہیں، میں تمہارے ساتھ چلی جاؤں گی۔” امامہ نے بے اختیار کہا۔
”اوکے… میں پھر انہیں بتا دیتا ہوں… اور تم کیا کر رہی ہو؟”
اس کا دل چاہا، وہ اس سے کہے کہ وہ اس گڑھے سے نکلنے کی کوشش کی رہی ہے جو اس نے سالار کے لیے کھودا تھا۔
”فرقان کی ملازمہ آئے گی آج صفائی کرنے کے لیے، عام طور پر تو وہ صبح میرے جانے کے بعد آکر صفائی کرتی ہے لیکن تم اس وقت سو رہی ہوتی ہو، تو میں نے اسے فی الحال اس وقت آنے سے منع کیا ہے۔ تم بھابھی کو کال کر کے بتا دینا کہ وہ اسے کب بھیجیں۔”
وہ شاید اس وقت آفس میں فارغ تھا اس لیے لمبی بات کر رہا تھا۔
”کچھ تو بولو یار… اتنی چپ کیوں ہو؟”
”نہیں… وہ… میں… ایسے ہی۔” وہ اس کے سوال پر بے اختیار گڑبڑائی۔” تم فری ہو اس وقت؟” اس نے بے حد محتاط لہجے میں پوچھا۔
اگر وہ فارغ تھا تو وہ ابھی اس سے بات کر سکتی تھی۔
”ہاں، ایویلیوایشن ٹیم چلی گئی ہے… کم از کم آج کا دن تو ہم سب بہت ریلیکسڈ ہیں۔ اچھے کمنٹس دے کر گئے ہیں وہ لوگ۔” وہ بڑے مطمئن انداز میں اسے بتا رہا تھا۔
وہ اس کی باتوں پر غور کیے بغیر اس ادھیڑ بن میں لگی ہوئی تھی کہ بات کیسے شروع کرے۔
”آج اگر ڈاکٹر صاحب انوائیٹ نہ کرتے تو میں سوچ رہا تھا رات کو کہیں باہر کھانا کھاتے… فورٹریس میں انڈسٹریل ایگزی بیشن لگی ہوئی ہے… وہاں چلتے… بلکہ یہ کریں گے کہ ان کے گھر سے ڈنر کے بعد فورٹریس چلے جائیں گے۔”
چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا محاورہ آج پہلی بار امامہ کی سمجھ میں آیا تھا۔ یہ محاورتاً نہیں کہا گیا تھا۔ واقعی بعض سچویشنز میں چلو بھر پانی بھی ڈبونے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ وہ بات شروع کرنے کے جتن کر رہی تھی اور یہ کیسے کرے، یہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
”ٹھیک ہے! پھر میں ذرا ڈاکٹر صاحب کو بتا دوں۔ وہ انتظار کر رہے ہوں گے۔” اس سے پہلے کہ وہ اسے کچھ کہتی، سالار نے بات ختم کرتے ہوئے کال بند کر دی۔ وہ فون ہاتھ میں پکڑے بیٹھی رہ گئی۔
٭٭٭٭
وہ تقریباً چار بجے گھر آیا تھا اور وہ اس وقت تک یہ طے کر چکی تھی کہ اسے اس سے کس طرح بات کرنی ہے۔ سالار اوپر نہیں آیا تھا۔ اس نے فون پر اسے نیچے آنے کے لیے کہا۔ وہ جب گاڑی کے کھلے دروازے سے اندر بیٹھی تو اس نے مسکرا کر سر کے اشارے سے اس کا استقبال کیا۔ وہ فون پر اپنے آفس کے کسی آدمی سے بات کر رہا تھا۔
ہینڈز فری کان سے لگائے ڈاکٹر سبط علی کے گھر کی طرف ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ مسلسل اسی کال میں مصروف رہا۔ امامہ کی جیسے جان پر بن آئی تھی۔ اگر وہ سارے راستے بات کرتا رہا تو… ایک سگنل پر رکنے پر اس نے سالار کا کندھا تھپتھپایا اور بے حد خفگی کے عالم میں اسے کال ختم کرنے کا اشارہ کیا۔ نتیجہ فوری طور پر آیا۔ چند منٹ مزید بات کرنے کے بعد سالار نے کال ختم کر دی۔
”سوری… ایک کلائنٹ کو کوئی پرابلم ہو رہا تھا۔” اس نے کال ختم کرنے کے بعد کہا۔
”اسلام آباد چلو گی؟” اس کے اگلے جملے نے امامہ کے ہوش اُڑا دیے۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page