
آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد
قسط نمبر بائیس
۔“Hello back in USA”صبح سویرے اپنے فون کی سکرین پر اُبھرنے والی اس تحریر اور بھیجنے والے کے نام نے رئیسہ کو چند لمحوں کے لئے ساکت کیا تھا۔ اس کے باوجود کہ وہ یہ توقع کر رہی تھی کہ وہ واپس آنے کے بعد اُس سے رابطہ ضرور کرے گا۔ حالات جو بھی تھے، اُن دونوں کے درمیان بہرحال ایسا کچھ نہیں ہوا تھا کہ اُن دونوں کو ایک دوسرے سے چھپنا پڑتا۔ “Welcome Back” کا ٹیکسٹ اُسے بھیجتے ہوئے رئیسہ نے ایک بار پھر خود کو یاد دلایا تھا کہ زندگی میں ہونے والے اُس پہلے بریک اپ کو اُس نے دل پر نہیں لینا تھا اور بار بار خود کو یہ یاد دہانی ضروری تھی۔ درد ختم نہیں ہو رہا تھا، لیکن کم ضرور ہوتا تھا۔ کچھ دیر کے لئے تھمتا ضرور تھا۔
”یونیورسٹی جا رہی ہو؟” وہ نہا کر نکلی تو اُس نے فون پر ہشام کا اگلا ٹیکسٹ دیکھا۔ اُس نے ہاں کا جوابی ٹیکسٹ کرتے ہوئے اُسے اپنے ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کی۔
”ملیں؟” اگلا ٹیکسٹ فوراً آیا تھا۔ وہ کارن فلیکس کھاتے ہوئے میز پر پڑے فون پر چمکتے اُس سوال کو دیکھتی رہی۔ کہنا چاہتی تھی۔ اب کیسے؟ مگر لکھا تھا
”نہیں، میں مصروف ہوں۔” کارن فلیکس حلق میں اٹکنے لگے تھے۔ وہ اب اُس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ دل سنبھالنے کی ساری کوششوں کے باوجود اُس کا سامنا مشکل ترین تھا۔ وہ روایتی لڑکی نہیں بننا چاہتی تھی۔ نہ گلے شکوے کرنا چاہتی تھی، نہ طنز، نہ جھگڑا، اور نہ ہی اُس کے سامنے رو پڑنا چاہتی تھی وہ بحرین بہرحال اس لئے نہیں گیا تھا کہ بچھڑ جاتا۔
فون کی اسکرین پر جواباً ایک منہ چڑاتی smiley آئی تھی۔ یوں جیسے اُس کے بہانے کا مذاق اُڑا رہی ہو۔ رئیسہ نے اُسے اگنور کیا اور اُسے جواباً کچھ نہیں بھیجا۔
پندرہ منٹ بعد اُس نے اپنے اپارٹمنٹ کے باہر نکلنے پر گاڑی سمیت اُسے وہاں پایا تھا۔ وہ شاید وہیں بیٹھے ہوئے اُسے text بھیج رہا تھا، ورنہ اتنی جلد وہ وہاں نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اُسے سرپرائز دینا اچھا لگتا تھا اور رئیسہ کو یہ سرپرائز لینا۔ مگر یہ کچھ دن پہلے کی بات تھی۔
وہ اُس کے بلائے بغیر اُس کی طرف آئی تھی۔ دونوں کے چہروں پر ایک دوسرے کو دیکھ کر خیر مقدمی مسکراہٹ اُبھری۔ حال احوال کا پوچھا گیا، اُس کے بعد رئیسہ نے اُس سے کہا ”مجھے آج یونیورسٹی ضرور پہنچنا ہے، کچھ کام ہے۔” ہشّام نے جواباً کہا۔
”میں ڈراپ کر دیتا ہوں اور ساتھ کچھ گپ شپ بھی لگا لیں گے۔ بڑے دن ہو گئے ہمیں ملے اور بات کیے۔” رئیسہ نے اُس سے نظریں چُرا لیں تھیں۔ مزید کچھ بھی کہے بغیر وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی تھی۔
”کیا ہوا؟” ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہی ہشّام نے اُس کی طرف مڑتے ہوئے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”کیا؟” رئیسہ نے انجان بننے کی کوشش کی،۔ یہ کہنا کہ میں ناخوش ہوں، دل شکستہ ہوں، کیونکہ تم مجھے اُمیدیں دلاتے دلاتے کسی اور لڑکی کو اپنی زندگی میں لے آئے ہو۔ یہ سب کم از کم رئیسہ کی زبان پر نہیں آ سکتا تھا۔
”کیا؟” اُس نے جواباً ہشّام سے پوچھا تھا۔
”تمہارا موڈ آف ہے؟” وہ اب بڑی سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
”نہیں، موڈ کیوں آف ہو گا؟” رئیسہ نے جواباً اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔
”پتہ نہیں، یہی تو جاننا چاہتا ہوں۔” وہ اُلجھا ہوا تھا۔ ”تم کچھ دنوں سے مکمل طور پر غائب ہو میری زندگی سے۔ بحرین سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن تم کال ریسیو نہیں کرتی، نہ ہی میسجز کا جواب دیتی ہو۔ ہوا کیا ہے؟”
”تمہیں کیا لگتا ہے، کیا وجہ ہو سکتی ہے میرے اِس رویّے کی؟” رئیسہ نے جواباً اُس سے پوچھا۔
”مجھے نہیں پتہ۔” ہشّام نے ایک لمحہ کی خاموشی کے بعد کہا تھا۔
”میں اب یہ سب ختم کرنا چاہتی ہوں۔” رئیسہ نے بالآخر اُس سے کہا۔ وہ چونکا نہیں، اُسے دیکھتا رہا پھر سر جھٹک کر بولا۔
”یعنی میرا اندازہ ٹھیک ہے۔ تمہارا موڈ واقعی ہی آف ہے۔” رئیسہ نے اُس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنے بیگ سے انگوٹھی کی وہ ڈبیا نکال لی اور گاڑی کے ڈیش بوڑ پر رکھ دی۔ ہشّام بول نہیں سکا۔ گاڑی میں خاموشی رہی، پھر ہشّام نے کہا۔
”تم نے engagement کی خبر پڑھ لی ہے؟”
”اُس سے بھی پہلے مجھے یہی خدشہ تھا، اس لئے اُس خبر سے میں حیران نہیں ہوئی۔” رئیسہ نے مدہم آواز میں اُس سے کہا۔ بڑے ٹھنڈے انداز میں، جس کے لئے وہ ہمیشہ پہچانی جاتی تھی۔
”میں نے تم سے ایک commitment کی تھی رئیسہ، اور میں اپنا وعدہ نہیں توڑوں گا۔ نیوز پیپر میں آنے والی ایک خبر ہم دونوں کے درمیان دیوار نہیں بن سکتی، اتنا کچا رشتہ نہیں ہے یہ۔” ہشّام بڑی سنجیدگی سے کہتا گیا تھا۔
”نیوز پیپر کی خبر کی بات نہیں ہے ہشّام، تمہاری فیملی کے فیصلے کی بات ہے۔ تم اب ولی عہد ہو۔ تمہاری ذمہ داریاں اور تم سے رکھی جانے والی توقعات اور ہیں۔” وہ اُس کی بات پر ہنسا تھا۔
”ولی عہد! میں ابھی تک نہ اپنے اس رول کو سمجھ پایا ہوں اور نہ ہی یہ اندازہ لگا پا رہا ہوں کہ میں اس منصب کے لئے اہل ہوں بھی یا نہیں۔ یہ power politics ہے۔ آج جس جگہ پر ہم ہیں۔ کل ہوں گے بھی یا نہیں، کوئی certainity نہیں۔ اگر مجھے فیصلہ کرنا ہوتا تو میں کبھی یہ عہدہ نہ لیتا مگر یہ میرے باپ کی خواہش ہے۔” وہ اب سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔ رئیسہ نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”غلط خواہش نہیں ہے۔ کون ماں باپ نہیں چاہیں گے، اپنی اولاد کے لیے ایسا منصب۔ تم خوش قسمت ہو، تمہیں ایسا موقع ملا ہے۔” وہ مدہم آواز میں کہتی گئی۔
”پہلے میں بھی یہی سمجھتا تھا۔” ہشّام نے جواباً کہا۔ ”لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ کوئی بھی چیز لاٹری میں نہیں ملتی۔ یہ ضروری ہے ولی عہد کے لئے کہ وہ ایک شادی شاہی خاندان میں کرے، وہ بھی پہلی۔ میری اور تمہاری شادی ہو چکی ہوتی تو اور بات تھی۔ لیکن اب نہیں ہو سکتا کہ میں شاہی خاندان میں شادی سے انکار کروں۔ جنہوں نے میرے باپ کی بادشاہت کا فیصلہ کیا ہے، انہوں نے ہی یہ فیصلہ بھی کیا ہے۔ مجھ سے اس بارے میں رائے نہیں لی گئی، بتایا گیا تھا۔” وہ خاموش ہوا۔
”میں اندازہ کر سکتی ہوں اور اسی لئے تم سے کوئی شکایت نہیں کر رہی۔ میرے اور تمہارے درمیان ویسے بھی اتنے عہد و پیمان تو ہوئے بھی نہیں تھے کہ میں تم کو کسی بات کے لئے الزام دیتی۔ اسی لئے ختم کرنا چاہتی ہوں خود یہ سب کچھ۔ تاکہ تم اگر کوئی obligation محسوس کر رہے ہو تو نہ کرو۔ اور میں hurt نہیں ہوں۔” اُس نے بات ختم کی، توقف کیا پھر آخری جملہ بولا۔
”تم ہوئی ہو۔ میں جانتا ہوں اور میں نادم بھی ہوں۔” ہشّام نے اُس کی بات کے اختتام پر کہا۔ ”اور میں یہ سب ختم نہیں کرنا چاہتا، نہ ہی میں تم سے اس لئے ملنے آیا ہوں۔ رئیسہ میں تم سے بھی شادی کروں گا اور یہ بات میں نے اپنی فیملی کو بتا دی ہے اور اُنہیں اعتراض نہیں ہے۔” وہ اُس کی بات پر بے اختیار ہنسی اور ہنستی ہی چلی گئی۔ اتنا کہ اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
”حمین بالکل ٹھیک کہتا تھا۔ پتہ نہیں اُس کی زبان کالی ہے یا وہ ضرورت سے زیادہ عقلمند ہے۔” وہ بالآخر اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے بولی۔ ہشّام پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔
”وہ کیا کہتا ہے؟”
”یہی جو تم ابھی کہہ رہے ہو۔ دوسری شادی۔ وہ کہتا ہے۔ بادشاہ حرم رکھتے ہیں اور حرم کی ملکہ بھی کنیز ہی ہوتی ہے۔”
ہشّام کچھ دیر کے لئے بول نہیں سکا، یوں جیسے لفظ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہو۔ پھر اُس نے جیسے مدافعانہ انداز میں کہا۔
”عربوں میں ایسا نہیں ہوتا، اگر بادشاہ کی چار بیویاں بھی ہوں تو بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” رئیسہ نے بڑی نرمی سے اُس کی بات کاٹ دی۔
”مجھے کسی بادشاہ سے شادی کرنے کی خواہش نہیں تھی، میں ہشّام سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ تمہاری مجبوری ہو سکتی ہے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا، میری مجبوری نہیں ہے۔ میں محبت کرتی ہوں لیکن دل کے ہاتھوں اتنی مجبور نہیں ہوں کہ تمہارے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچ ہی نہ سکوں۔” اُس کے لہجے میں وہی practicality تھی جس کے لئے ہشّام اُس کو پسند کرتا تھا۔ مگر آج پہلی بار وہ عقل، وہ سمجھ بوجھ اُسے بُری لگی تھی۔
”اتنا کمزور رشتہ تو نہیں ہے ہمارا رئیسہ۔” اُس نے رئیسہ کی بات کے جواب میں کہا۔
”میرا بھی یہی خیال تھا کہ بہت مضبوط تھا، لیکن میرا خیال غلط تھا۔ میری ممّی کبھی بھی intercultural اور interracial شادیوں کے حق میں نہیں، اور میں سمجھتی تھی یہ bias ہے۔ لیکن آج مجھے احساس ہوا ہے کہ وہ ٹھیک کہتی ہیں۔ تہذیب کا فرق بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔” رئیسہ کہہ رہی تھی۔ ”کبھی بھی بہت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے جیسے ابھی ہوا۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ یہ سب اب ہوا ہے۔ بعد میں ہوتا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ رُکی، ہشّام نے اُس کی بات پوری نہیں ہونے دی۔
”میں تمہاری ممّی سے متفق نہیں ہوں۔ محبت کا رشتہ ہر فرق سے بڑا اور طاقت ور ہوتا ہے۔” رئیسہ نے کہا۔
”مانتی ہوں لیکن وہ تب ہوتا ہے جب مرد کی محبت میرے بابا جیسی pure ہو اور وہ میرے بابا کی طرح اپنے فیصلے پر قائم رہ سکے۔” اُس نے سالار سکندر کا حوالہ دیا تھا، اگر محبت کے بارے میں اُسے کوئی ریفرینس یاد تھا تو وہ اپنے ماں باپ کی آپس میں محبّت ہی کا تھا۔ اور وہ حوالہ ہشّام نے بہت بار سُنا تھا، لیکن آج پہلی بار اُس نے ہشّام کا موازنہ سالار سکندر سے کیا تھا، اور علی الاعلان کیا تھا۔
”میں بھی اپنی محبت میں بہت کھرا ہوں اور تمہارے لئے لڑ سکتا ہوں۔” اُس نے رئیسہ سے کہا تھا۔ اُس کا وہ حوالہ اور موازنہ اُسے پہلی بار شدید بُرا لگا تھا۔ وہ پچھلے کئی ہفتوں سے بحرین میں سر اور پلکوں پر بٹھایا جارہا تھا اور یہاں وہ اُسے ایک ”عام آدمی” کے سامنے چھوٹا گردان رہی تھی۔
”ہاں، تم ہو محبّت میں کھرے۔ لیکن تم لڑ نہیں سکتے ہشّام! نہ مجھے زندگی میں شامل کرنے کے لئے، نہ ہی مجھے اپنی زندگی میں رکھنے کے لئے۔” رئیسہ نے اب گاڑی کا دروازہ کھول لیا تھا۔
”میں پھر بھی اپنے ماں باپ کو تمہارے ماں باپ کے پاس رشتے کے لئے بھیجوں گا اور یہ وقت بتائے گا کہ میں تمہارے لئے لڑ سکتا ہوں یا نہیں۔” گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے رئیسہ نے اُسے کہتے سُنا تھا۔ اُس نے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔ پیچھے کچھ بھی نہیں تھا۔ اُس نے ہشّام کے جملے کو سُنتے ہوئے سوچا تھا۔
******
وہ ایک ہفتہ جبریل سکندر کے لئے عجیب ذہنی انتشار لایا تھا۔ احسن سعد ایک بے حد ڈسٹرب کر دینے والی شخصیت رکھتا تھا اور وہ اُسے بھی ڈسٹرب ہی کر کے گیا تھا۔ اُسے اندازہ نہیں تھا کہ اُس کے اسفند کی سرجری سے متعلقہ انکشاف پر اب وہ کیسے react کرے گا۔ جس بات کا اُسے خدشہ تھا، وہ اُس کیس میں کسی بھی حوالے سے اپنی نامزدگی تھی جو وہ نہیں چاہتا تھا۔ ایک ڈاکٹر کے طور پر اپنے کیریئر کے اس اسٹیج میں اپنے پروفیشن سے متعلقہ کسی سکینڈل یا کیس کا حصّہ بننا اپنے کیریئر کی تباہی کے مترادف تھا۔ لیکن اب اس پر پچھتانے کا فائدہ نہیں تھا۔ جو ہونا تھا، وہ ہو چکا تھا اور اسی ہفتے میں بے حد سوچ و بچار کے بعد اُس نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ عائشہ کو بھی اس سرجری کے حوالے سے وہ سب کچھ بتا دے گا، جو وہ احسن سعد کو بتا چکا تھا۔ ان حالات میں ایسا کرنا بے حد ضروری ہو گیا تھا۔
اُس نے ہفتے کی رات کو اُسے فون کیا تھا، فون بند تھا۔ جبریل نے اُس کے لئے پیغام چھوڑا تھا کہ وہ اُسے کال بیک کرے، آدھ گھنٹہ کے بعد اُس نے عائشہ کا نام اپنی اسکرین پر چمکتا دیکھا۔
کال ریسیو کرنے کے بعد اُن کے درمیان حال احوال کے حوالے سے چند سیکنڈز کی گفتگو ہوئی، پھر جبریل نے اُس سے اگلے دن ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔
”کس لئے ملنا چاہتے ہیں آپ؟” عائشہ نے بے تاثر انداز میں اُس سے پوچھا تھا۔
”یہ بات میں آپ کو سامنے بیٹھ کر ہی بتا سکتا ہوں۔” اُس نے جواباً کہا تھا۔ وہ چند لمحے خاموش رہی پھر اُس نے پوچھا تھا کہ وہ کس وقت اُس سے ملنا چاہتا تھا۔
”کسی بھی وقت، جب آپ کے پاس وقت ہو۔” اُس نے جواباً کہا تھا۔
”گیارہ، بارہ بجے؟” عائشہ نے چند لمحے سوچ کر اُس سے کہا۔
۔”Done” اُس نے جواباً کہا اور عائشہ عابدین نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔ جبریل فون ہاتھ میں لئے اگلا جملہ سوچتا ہی رہ گیا۔ احسن سعد نے اُس سے کہا تھا کہ اُس نے عائشہ عابدین کے لیپ ٹاپ میں اُس کی تصویریں دیکھی تھیں۔ جبریل کو یاد نہیں پڑتا تھا کہ اُس کے اور عائشہ کے درمیان کبھی تصویروں کا تبادلہ ہوا ہو اور تصویروں کا کوئی تبادلہ تو اُس کے اور نساء کے درمیان بھی نہیں ہوا تھا لیکن نساء کے پاس اُس کی گروپ فوٹوز ضرور تھیں۔ مگر عائشہ اُن تصویروں کو اپنے پاس اس طرح الگ کیوں رکھے ہوئے تھی۔ وہ گروپ فوٹوز ہوتیں تو احسن سعد اُس میں سے صرف جبریل کو پہچان کر اُس پر اعتراض نہ کرتا، یقیناً عائشہ کے پاس اُس کی کچھ الگ تصویریں بھی تھیں، اور وہ تصویریں وہ کہاں سے لے سکتی تھی؟ یقیناً فیس بک سے، جہاں وہ اُس زمانے میں اپنی تصویریں باقاعدگی سے upload کیا کرتا تھا اور اُس سے بھی بڑھ کر حمین۔ وہ اُس کے بارے میں بہت سوچنا نہیں چاہتا تھا، لیکن سوچتا چلا گیا تھا۔ احسن سعد سے ملاقات کے بعد عائشہ عابدین کے لئے اُس کی ہمدردی میں دس گنا اضافہ ہو گیا تھا
وہ اگلے دن ٹھیک وقت پر اُس کے اپارٹمنٹ کے باہر کھڑا تھا اور پہلی بیل پر ہی عائشہ عابدین نے دروازہ کھول دیا تھا۔ وہ شاید پہلے ہی اُس کی منتظر تھی۔ سیاہ ڈھیلے پاجامے اور ایک بلو ٹی شرٹ کے ساتھ flip flops پہنے، اپنے بالوں کو ایک ڈھیلے جوڑے کی شکل میں سمیٹے، وہ جبریل کو پہلے سے بہتر لگی تھی، اُس کی آنکھوں کے حلقے بھی کم تھے۔ وہ بے حد خوبصورت تھی اور سولہ سال کی عمر میں بھی اُس سے نظریں ہٹانا مشکل ہوتا تھا۔ اُس کا چہرہ اب بھی کسی کی نظروں کو روک سکتا تھا۔ جبریل کو احساس ہوا۔
”وعلیکم السلام۔” وہ اُس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے دروازے کے سامنے سے ہٹ گئی۔ اُس نے جبریل کے ہاتھوں میں اُس چھوٹے سے گلدستے کو دیکھا۔ جس میں چند سفید اور گلابی پھول تھے اور اُس کی ساتھ ایک کوکیز کا پیک۔ اُس کا خیال تھا وہ دونوں چیزیں اُسے تھمائے گا۔ لیکن وہ دونوں چیزیں اُٹھائے اندر چلا گیا تھا۔
کچن کاؤنٹر پر اُس نے پہلے پھول رکھے، پھر کوکیز کا وہ پیک اور پھر وہاں پڑے کافی کے اُس مگ کو دیکھا جس میں سے بھاپ اُڑ رہی تھی۔ وہ یقیناً اُس کے آنے سے پہلے وہ پی رہی تھی۔ ایک پلیٹ میں آدھا آملیٹ تھا اور چند چکن ساسیجز۔ وہ ناشتہ کرتے کرتے اُٹھ کر گئی تھی۔
”میں بہت جلدی آ گیا ہوں شاید؟” جبریل نے پلٹ کر عائشہ کو دیکھا جو اب اندر آ گئی تھی۔
”نہیں میں دیر سے جاتی ہوں۔ آج سنڈے تھا اور رات کو ہاسپٹل میں ڈیوٹی تھی۔” اُس نے جواباً جبریل سے کہا۔
”آپ کا سنڈے خراب کر دیا میں نے۔” جبریل نے مسکراتے ہوئے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔ وہ اب لاؤنج میں پڑے صوفہ پر جا کر بیٹھ گیا تھا۔ عائشہ کا دل چاہا اُس سے کہے۔ اُس کی زندگی میں ہر دن پہلے ہی بہت خراب تھا۔ وہ کچھ نہیں بولی تھی اور کچن کاؤنٹر کی طرف چلی گئی۔
”یہ آپ میرے لئے لائے ہیں؟” جبریل نے اُسے پھول اُٹھاتے ہوئے دیکھا۔
”جی!” اُس نے جواباً کہا۔
”اس کی ضرورت نہیں تھی۔” اُس نے جبریل کو دیکھا، پھر اُنہیں ایک vase میں ڈالنے لگی۔
”یہ بھی جانتا ہوں۔” جبریل نے کہا۔ اُن پھولوں کو اُس vase میں ڈالتے ہوئے عائشہ کو خیال آیا کہ وہ شاید دو، ڈھائی سال کے بعد اپنے لئے کسی کے لائے ہوئے پھولوں کو چھو رہی تھی۔آخری بار اُس کے گھر آنے والے پھول اسفند کے لئے اُس کے کچھ عزیز و اقارب کے لائے ہوئے پھول تھے۔ اُس نے ان تکلیف دہ یادوں کو جیسے سر سے جھٹکنے کی کوشش کی۔
”آپ بریک فاسٹ کر لیں، ہم پھر بات کرتے ہیں۔” جبریل کی آواز نے اُسے چونکایا۔ وہ سینٹر ٹیبل پر پڑی اون سلائیاں اُٹھا کر دیکھ رہا تھا۔ بے حد amused انداز میں۔
”یہ آپ کا شوق ہے؟” اُس نے اسکارف کے اُس حصّے کو چھوتے ہوئے کہا، جو ادھ بُنا تھا۔
”وقت گزارنے کی ایک کوشش ہے۔” آملیٹ کی پلیٹ سے آملیٹ کا ایک ٹکڑا کانٹے کی مدد سے اُٹھاتے ہوئے عائشہ نے جواب دیا۔
”اچھی کوشش ہے۔” جبریل نے مسکراتے ہوئے اون سلائیوں کو دوبارہ اُس باکس میں رکھا، جس میں وہ پڑے تھے۔
”آپ یہ کافی لے سکتے ہیں۔ میں نے ابھی بنائی تھی، پی نہیں۔ میں اپنے لئے اور بنالیتی ہوں۔” اُس نے کافی کا مگ لا کر اُس کے سامنے ٹیبل پر پڑے ایک mat پر رکھ دیا تھا۔ وہ خود دوبارہ ناشتہ کرنے کچن کاؤنٹر کے پاس پڑے سٹول پر جاکر بیٹھ گئی تھی۔
”میرا خیال تھا آپ مجھے ناشتے کی بھی آفر کریں گی۔” جبریل نے مسکراتے ہوئے اُس سے کہا۔
”میں نے اس لئے آفر نہیں کی کیونکہ آپ قبول نہیں کرتے۔” اُس نے ساسجز کے ٹکڑے کرتے ہوئے جواباً کہا۔
”ضروری نہیں۔” جبریل نے اصرار کیا۔
”آپ ناشتہ کریں گے؟” ٹھک سے اُس سے پوچھا گیا۔
”نہیں۔” جبریل نے کہا اور پھر بے ساختہ ہنسا۔ ”میں ناشتہ کر کے آیا ہوں، اگر پتہ ہوتا کہ آپ کروا سکتی ہیں تو نہ کر کے آتا۔ Assumptions بڑی نقصان دہ ہوتی ہیں۔” اُس نے کہا۔ عائشہ خاموشی سے اُس کی بات سنتے ہوئے ناشتہ کرتی رہی۔
”میں آپ کی کال کا انتظار کرتا رہا تھا۔ اس توقع کے باوجود کہ آپ کال نہیں کریں گی۔” جبریل نے اُس سے کہا۔ وہ کافی کے سپ لے رہا تھا۔ عائشہ نے چکن ساسجز کا آخری ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے اُسے دیکھا۔ اُسے ایک کاغذ پر لکھا ہوا Sorry کا وہ لفظ یاد آ گیا تھا جو وہ اُسے ایک لفافے میں دے کر گیا تھا اور جسے دیکھ کر وہ بے حد الجھی تھی۔ وہ اُس سے کس بات کے لئے معذرت خواہ تھا، کس چیز کے لئے شرمندگی کا اظہار کر رہا تھا۔ لاکھ کوشش کے باوجود وہ کوئی وضاحت، کوئی توجیہہ ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی اور اتنا اُلجھنے کے باوجود اُس نے جبریل کو فون کر کے اُس ایک لفظ کی وضاحت نہیں مانگی تھی۔ وہ اُس شخص سے راہ و رسم بڑھانا نہیں چاہتی تھی۔ بار بار اُس سے بات کرنا، اُس سے ملنا نہیں چاہتی تھی۔ ہر بار اُس کی آواز، اُس سے ملاقات، عائشہ عابدین کو پتہ نہیں کیا کیا یاد دلانے لگتا تھا۔ کیا کیا پچھتاوا اور احساسِ زیاں تھا جو اُسے ہونے لگتا تھا اور عائشہ اپنے ماضی کے اُس حصّے میں نہیں جانا چاہتی تھی جہاں جبریل سکندر کھڑا تھا۔ وہ closure کر چکی تھی۔
جبریل نے اُسے کچن کاؤنٹر کے پار سٹول پر بیٹھے اپنی خالی پلیٹ پر نظریں جمائے کسی گہری سوچ میں دیکھا۔ اُس نے جبریل کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا تھا۔ یوں جیسے اُس نے کچھ سُنا ہی نہ ہو۔ جبریل کو سمجھ نہیں آیا وہ اُس سے جو کہنے آیا تھا، وہ کیسے کہے گا۔ اُس وقت اُس نے بے اختیار یہ خواہش کی تھی کہ کاش اُس نے اُس سرجری کے دوران ڈاکٹر ویزل کی وہ غلطی دیکھی ہی نہ ہوتی۔
”آپ کا وزیٹنگ کارڈ مجھ سے کھو گیا تھا۔ مجھے یاد نہیں، وہ میں نے کہاں رکھ دیا تھا۔” وہ بالآخر بولی تھی اور اُس نے بے حد عجیب ایکسکیوز دی تھی اُسے۔ یعنی وہ اُسے یہ بتانا چاہ رہی تھی کہ اُس نے جبریل کا نمبر save نہیں کیا ہوا تھا۔
کچھ کہنے کے بجائے جبریل نے اپنی جیب سے والٹ نکال کر ایک اور وزیٹنگ کارڈ نکالا اور اُسے اون سلائیوں کے اُس ڈبّے میں رکھتے ہوئے کہا۔ ”یہاں سے گم نہ ہو شاید۔” عائشہ نے نظریں چرا لی تھیں۔ وہ پلیٹیں اُٹھاتے ہوئے اُنہیں سِنک میں رکھ آئی۔
”آپ مجھ سے کچھ بات کرنا چاہتے تھے۔” اپنے لئے کافی بناتے ہوئے اُس نے بالآخر جبریل کو وہ ایشو یاد دلایا جس کے لئے وہ یہاں آیا تھا۔
”احسن سعد مجھ سے ملنے آیا تھا۔” کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد جبریل نے اُس سے کہا۔ اُس کا خیال تھا وہ بری طرح چونکے گی۔
”میں جانتی ہوں۔” وہ انتہائی غیر متوقع جواب تھا۔ جبریل چند لمحے بول نہیں سکا۔ وہ اُس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔ وہ کافی کو اس انہماک سے بنا رہی تھی جیسے اُس کی زندگی کا مقصد کافی کا وہ کپ بنانا ہی تھا۔
”اُس نے مجھے کال کی تھی۔” جبریل کی خاموشی کو جیسے اُس نے decode کرتے ہوئے مزید کہا۔ جبریل کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اب کیا کہے۔ اگر احسن سعد نے اُسے کال کی تھی، جبریل سے ملاقات کے بعد، تو یہ ممکن نہیں تھا کہ اُس نے عائشہ کو اسفند کی سرجری کے حوالے سے اُس کے اعتراف کے حوالے سے کچھ نہ کہا ہو اور اگر اُس نے عائشہ سے ذکر کیا تھا تو عائشہ اس وقت اتنے پرسکون انداز میں اُس کے سامنے کیسے بیٹھی رہ سکتی تھی۔ احسن سعد نے جبریل کے کام کو مشکل سے آسان کر دیا تھا، مگر اب اس کے بعد اگلا سوال جبریل کو سوجھ نہیں رہا تھا۔
وہ اب اپنا کافی کا مگ لئے اُس کے سامنے صوفہ پر آکر بیٹھ گئی تھی۔
”اب آپ کو یہ تو پتہ چل گیا ہوگا کہ میں کتنی گناہ گار اور قابلِ نفرت ہوں۔” عائشہ عابدین کے لہجے میں عجیب اطمینان تھا، یوں جیسے وہ خود پر ملامت نہیں، اپنی تعریف کر رہی ہو۔ جبریل اُسے دیکھتا رہا۔ عائشہ عابدین کی آنکھوں میں کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ تکلیف اور درد بھی نہیں جو جبریل نے ہر بار اُس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ وہ شرمندگی اور ندامت بھی نہیں جو ہر بار اُس کی آنکھوں میں جھلکتی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں اب کچھ بھی نہیں تھا۔ اور اُس کے جملے نے جبریل کے سارے لفظوں کو گونگا کر دیا تھا۔
”احسن نے آپ کو یہ بتایا کہ سرجری میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” جبریل کو پتہ نہیں کیوں شبہ ہوا کہ شاید احسن نے اُسے کچھ نہیں بتایا ورنہ عائشہ عابدین کی زبان پر کچھ اور سوال ہونا چاہیے تھا۔
”ہاں۔” اُس یک لفظی جواب نے جبریل کو ایک بار پھر کچھ بولنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ وہ اب اُسے نہیں دیکھ رہی تھی اُس کافی کے مگ سے اُٹھتی بھاپ کو دیکھ رہی تھی جو اُس کے دونوں ہاتھوں میں تھا۔ یوں جیسے وہ ہاتھوں میں کوئی کرسٹل بال لئے بیٹھی ہو، جس میں اپنا مستقبل دیکھنے کی کوشش کر رہی ہو۔ ماضی وہ تھا جسے وہ بھولنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرنا چاہتی تھی اور حال میں اُسے دلچسپی نہیں تھی۔ وہ زندگی کے اُس حصے سے بس آنکھیں بند کر کے گزرنا چاہتی تھی، احسن سعد کی چلّاتی ہوئی آواز اُس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔
”گالی… گالی… گالی… اور گالیاں…” وہ فون کان سے لگائے کسی میکانکی انداز میں وہ گالیاں سُن رہی تھی جو کئی سال اُس کی زندگی کے شب و روز کا حصّہ رہی تھیں اور وہ اُنہیں سنتے ہوئے اب immune ہو چکی تھی۔ اُن برے لفظوں کا زہر اب اُس کا کچھ بھی نہیں بگاڑتا تھا۔ نہ اُسے شرم محسوس ہوتی تھی، نہ تذلیل، نہ ہِتک، نہ غصہ، نہ پریشانی۔ طلاق کا کیس چلنے کے دوران، طلاق ہونے کے بعد اور اسفند کی کسٹڈی کے کیس کے دوران بھی احسن کا جب دل چاہتا تھا، وہ اُسے اسی طرح فون کرتا تھا اور یہی سارے لفظ دہراتا تھا، جو اُس نے اب بھی دہرائے تھے۔ وہ کوشش کے باوجود اُس کی کال نہ لینے کی ہمت نہیں کر پاتی تھی۔ نفسیاتی طرف پر وہ اس قدر خائف تھی کہ اُسے یوں لگتا تھا وہ اُس کی کال نہیں سُنے گی تو وہ اُس کے گھر آجائے گا وہ اُسے یہی کہتا تھا اور وہ یہ بھول گئی تھی کہ وہ امریکہ میں تھی۔ اُس کی ایک کال پر پولیس احسن سعد کو کبھی اُس کے گھر کے پاس پھٹکنے بھی نہ دیتی لیکن عائشہ اتنی بہادر ہوتی تو اُس کی زندگی ایسی نہ ہوتی۔Abuse کی ایک قسم وہ تھی جو اُس نے اپنی شادی قائم رکھنے کے لئے، ایک اچھی بیوی اور اچھی مسلمان عورت بننے کی جدوجہد کرتے ہوئے سہی تھی۔ Abuse کی دوسری قسم وہ تھی جو اُس نے اسفند کی زندگی میں باپ نام کی اُس محرومی کو نہ آنے کے لئے سہی تھی، جو خود اُس کی زندگی میں تھی۔
اسفند کے ایک کندھے میں پیدائشی نقص تھا، وہ اپنا بازو ٹھیک سے اُٹھا نہیں پاتا تھا اور وہ slow learner تھا۔ اور اُس کے یہ دونوں ”نقائص” احسن سعد اور اُس کی فیملی کے لئے ناقابلِ یقین اور ناقابلِ معافی تھی۔ اُن کی سات نسلوں میں کبھی کوئی بچّہ کسی ذہنی یا جسمانی نقص کا شکار کبھی نہیں ہوا تھا۔ تو اُن کے گھر میں اسفند کی پیدائش کیسے ہو گئی تھی۔ یہ بھی عائشہ کا قصور تھا۔ اُس کے جینز کا، اُس کے اعمال کا، وہ اُس کا عذاب اور سزا تھی۔ احسن سعد اور اُس کی فیملی کے لئے آزمائش کیوں بنا تھا۔ اور عائشہ کے کھوکھلے لفظ اب بالکل گونگے ہو گئے تھے۔ اُسے بھی یقین تھا اُس کی اولاد کی یہ تکلیف اُس کے کسی گناہ کا نتیجہ تھی پر کیا گناہ؟ یہ سوال وہ تھا جس کا جواب اُسے نہیں ملتا تھا۔ اور اُس معذور اولاد کے ساتھ اُس نے احسن سعد کی اطاعت کی ہر حد پار کر لی تھی۔ صرف اس لئے، کیونکہ اُسے لگتا تھا اُس کے بیٹے کو باپ کی ضرورت تھی۔ وہ اکیلی اُسے کیسے پالتی؟ وہ اسفند کی پیدائش کے بعد امریکہ آ گئی تھی اور یہاں احسن نے اُسے ریذیڈنسی کرنے کے لئے کہا تھا کیونکہ وہ financially اتنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکتا تھا۔ عائشہ نے سوچے سمجھے بغیر اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا تھا۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکی تھی کہ احسن کو یک دم ایسے کون سے finances نظر آنے لگے تھے جس کے لئے اس کا کام کرنا بھی ضروری تھا۔ اور وہاں آنے کے ایک سال بعد اُسے پتہ چلا تھا کہ اُس کے امریکہ آنے کے چند مہینے بعد ہی احسن نے پاکستان میں دوسری شادی کر لی تھی۔ وہ اب بہت frequently پاکستان آ جا رہا تھا اور عائشہ کو کبھی شک نہیں ہوا تھا کہ اُس کی زندگی میں کوئی دوسری عورت آ چکی تھی۔ وہ انکشاف کسی نے اُس کی فیملی کے سامنے کیا تھا جو احسن سعد کی دوسری بیوی اور اُس کے خاندان کو جانتا تھا۔ عائشہ عابدین کو سمجھ ہی نہیں آئی تھی کہ وہ اس خبر پر کس ردِّ عمل کا اظہار کرتی۔ یہ سب فلموں اور ڈراموں میں ہوتا تھا مگر اُس کے ساتھ ہوا تھا تو اُسے فلمیں اور ڈرامے بھی ہیچ لگنے لگے تھے۔
احسن سعد نے بے حد ڈھٹائی سے دوسری شادی کا اعتراف کیا تھا اور اُسے بتایا تھا کہ وہ مسلمان ہے اور چار شادیاں بھی کر سکتا تھا اور یہاں تو اُس کے پاس ایک بے حد مضبوط وجہ تھی کہ اُس کی بیوی اُسے صحت مند اولاد نہیں دے سکتی تھی جو اُس کی دوسری بیوی اُسے دے گی۔ زندگی میں وہ پہلا لمحہ تھا جب عائشہ عابدین تھک گئی تھی اور اُس نے احسن سعد اور اُس کی فیملی کے بجائے اپنی فیملی کی بات مانتے ہوئے اُس سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا۔ اور اُس فیصلے نے احسن سعد کے ہوش اُڑا دیے تھے۔ اُسے عائشہ عابدین سے ایسے ردّعمل کی توقع نہیں تھی۔ اسفند کے نام کچھ جائیداد تھی جو عائشہ کے نانا نے عائشہ کے نام کرنے کے بجائے جائیداد کی تقسیم کے دوران اُس کے بیٹے کے نام gift کی تھی اور عائشہ کے احسن سعد کے لئے valuable ہونے کی یہ بڑی وجہ تھی۔ اُسے عائشہ کے کردار پر شک تھا، اُس کی بے عمل اور بے ہدایتی پر شکایت تھی، لیکن اس سب کے باوجود وہ عائشہ کو آزاد کرنے پر تیار نہیں تھا۔ مگر اُس کا کوئی حربہ کارگر نہیں ہوا تھا۔ عائشہ کی طلاق کی proceedings کے دوران پاکستان میں احسن سعد کی دوسری بیوی نے بھی شادی کے آٹھ ماہ بعد خلع کا کیس فائل کر دیا تھا۔احسن سعد اور اس کی فیملی نے اس کے بعد کچھ مشترکہ فیملی فرینڈز کے ذریعے مصالحت کی بے انتہا کوشش کی تھیں مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عائشہ کی فیملی نے ایسی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا تھا، اور عائشہ اس سارے عرصہ میں ایک کیچوے کی مانند رہی تھی۔ جو ہو رہا تھا، وہی ہونا چاہیے تھا۔ مگر جو بھی ہو رہا تھا، وہ خود نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ تب بھی یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ وہ صحیح کر رہی تھی یا غلط۔ اللہ کے نزدیک اُس کا یہ عمل گناہ تھا یا نہیں۔ اور اگر وہ گناہ تھا تو وہ چاہتی تھی یہ گناہ کوئی اور اپنے سر لے لے لیکن اُسے احسن سعد سے نجات دلا دے۔
جس دن اُس کی طلاق فائنل ہوئی تھی، اُس دن اُس نے حجاب اُتار دیا تھا۔ کیونکہ اُسے یقین تھا اب وہ کتنی بھی نیکیاں کر لے، وہ اللہ کی نظروں میں گناہ گار ہی تھی۔ احسن سعد نے ایک لڑکی کی زندگی تباہ نہیں کی تھی، اُس نے اُسے اُس دین سے بھی برگشتہ کر دیا تھا۔ جس کی پیروکار ہونے پر عائشہ عابدین کو فخر تھا۔
”تمہارے یار کو بتا آیا ہوں تمہارے سارے کرتوت۔” احسن سعد نے فون پر دھاڑتے ہوئے اُس سے کہا تھا۔ ”تم کیا پلان کر رہی ہو کہ میرے بیٹے کو مار کر تم اپنا گھر بساؤ گی، رنگ رلیاں مناؤ گی۔ میں تو صرف تمہیں جیل نہیں بھیجوں گا، تمہارے اس یار کو بھی بھیجوں گا جس نے میرے بیٹے کا آپریشن کر کے جان بوجھ کر اُسے مارا اور اُس نے اپنی زبان سے مجھے بتایا ہے۔” وہ بکتا، جھکتا، بولتا ہی چلا گیا اور وہ سنتی رہی تھی۔
”عائشہ!” جبریل کی آواز نے ایک بار پھر اُسے چونکایا۔ اُس کے ہاتھوں میں موجود کافی کے مگ سے اب بھاپ اُٹھنا بند ہو چکی تھی۔ کافی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ عائشہ نے سر اُٹھا کر جبریل کو دیکھا۔ وہ اب اُسے بتا رہا تھا کہ اس آپریشن کے دوران کیا ہوا تھا۔ اور اُسے یقین نہیں تھا، صرف اس کا اندازہ تھا کہ ڈاکٹر ویزل سے اُس آپریشن میں کچھ غلطیاں ہوئی تھیں اور قصوروار نہ ہونے کے باوجود وہ اپنے آپ کو مجرم محسوس کر رہا تھا۔ یہ اُس کی بے وقوفی ہی تھی کہ وہ یہ انکشاف احسن سعد کے سامنے کر بیٹھا تھا۔
”آپ پریشان نہ ہوں۔ آپ کو کچھ نہیں ہو گا۔ احسن سعد آپ کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔” اُس کی بات کے اختتام پر عائشہ کی زبان سے نکلنے والے جملے نے جبریل کو حیران کر دیا تھا۔ وہ اُسی طرح پرسکون تھی۔ وہ اگر ایک شدید جذباتی ردّعمل کی توقع کر رہا تھا تو ایسا نہیں ہوا تھا۔ کسی غصّے کا اظہار، کوئی ملامتی لفظ! کچھ بھی نہیں! وہ جواباً اُسے تسلّی دے رہی تھی کہ اُسے کچھ نہیں ہو گا۔
”میں نے احسن کو بتا دیا ہے کہ میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو مانتے ہوئے کورٹ میں اسفند کے قتل کا اعتراف کر لوں گی۔” اُس کے اگلے جملے نے جبریل کا دماغ جیسے بھک سے اُڑا دیا تھا۔
******
”تم سے کوئی ملنے آیا ہے۔” جیل کے ایک سنتری نے ایک راہداری جتنی لمبی بیرک کی ایک دیوار کے ساتھ چادر زمین پر ڈال کر سوئے اُس بوڑھے آدمی کو بڑی رعونت کے عالم میں اپنے جوتے کی ٹھوکر سے جگایا تھا۔ وہ ہڑبڑایا نہیں، ویسے ہی پڑا رہا اور لیٹے لیٹے اُس نے آنکھیں کھول کر سر پر کھڑے اُس سنتری کو دیکھا۔ اُسے یقین تھا اُسے کوئی غلط فہمی ہوئی تھی۔ اُس سے ملنے کون آ سکتا تھا۔ پچھلے بارہ سالوں سے تو کوئی نہیں آیا تھا، پھر اب کون آئے گا۔
”ار ے اُٹھ! مرا پڑا ہے سُنا نہیں ایک بار کہ کوئی ملنے آیا ہے۔” سنتری نے اس بار کچھ زیادہ طاقت سے اُسے ٹھوکر ماری تھی، وہ اُٹھ کے بیٹھ گیا۔
” کون آیا ہے؟” اُس نے سنتری سے پوچھا۔
”وہی میڈیا والے کُتّے۔” سنتری نے گالی دی۔ ”سزائے موت کے قیدیوں سے انٹرویو کرنا ہے اُنہیں۔” اُس نے ایک بار پھر لیٹنے کی کوشش کی لیکن سنتری کے ہاتھ میں پکڑے ڈنڈے کی حرکت نے اُسے مجبور کر دیا کہ وہ اُس کے ساتھ چل پڑے۔ وہ ان میڈیا والوں سے بے زار تھا اور NGO والوں سے بھی جو وقتاً فوقتاً وہاں سروے کرنے آتے تھے۔ اُن کے حالاتِ زندگی جاننے، اُن کے جرم کی وجوہات کریدنے، جیل کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے۔ وہ جیسے سرکس کے جانور تھے جنہیں اُن کے سامنے پیش ہو کر بتانا پڑتا کہ انہوں نے جو کیا، کیوں کیا؟ کیا اب اُنہیں پچھتاوا تھا؟ اور کیا اُنہیں اپنے گھر والے یاد آتے تھے؟
بے زاری کے ساتھ لڑکھڑاتے قدموں سے وہ اُس سنتری کے پیچھے چلتا گیا جو اُسے بیرک سے نکال کر ملاقاتیوں والی جگہ کے بجائے جیلر کے کمرے میں لے آیا تھا۔ اور وہاں غلام فرید نے پہلی بار اُن چار افراد کو دیکھا، جن میں سے دو گورے تھے اور دو مقامی خواتین۔ وہ چاروں انگلش میں بات کر رہے تھے اور غلام فرید کے اندر داخل ہوتے ہی اُن کے اور جیلر کے درمیان کچھ بات چیت ہوئی اور پھر جیلر اُس سنتری کے ہمراہ وہاں سے چلا گیا۔
”غلام فرید؟” ایک عورت نے جیسے تصدیقی انداز میں اُس سے پوچھا تھا۔ غلام فرید نے سر ہلایا۔ ”بیٹھو!” اُسی عورت نے اشارے سے سامنے پڑی ایک کُرسی پر اُسے بیٹھنے کے لئے کہا۔ غلام فرید کچھ نروس ہوا تھا، لیکن پھر وہ جھجھکتا، سکڑتا، سمٹتا، اُن کے سامنے پڑی کُرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ ایک گورے نے اُس کے بیٹھتے ہی ہاتھ میں پکڑے ایک فون سے اُس کی کچھ تصویریں لی تھیں۔ جس عورت نے اُس سے گفتگو کا آغاز کیا تھا وہ اب پنجابی میں اُس سے پوچھ رہی تھی کہ وہ کس جرم میں کب وہاں آیا تھا۔ غلام فرید نے رٹے رٹائے طوطے کی طرح اُس کے ان دس بارہ سوالات کا جواب دیا تھا، اور پھر انتظار میں بیٹھ گیا تھا کہ وہ اب ان بنیادی سوالات کے بعد ایک بار پھر سے اُس کے مجرم کو کُریدنا شروع کریں گے پھر جیل میں اُس کی زندگی کے بارے میں پوچھیں گے اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر اُس کی توقع غلط ثابت ہوئی تھی۔ انہوں نے اُس کی زبانی اُس کا نام، ولدیت، رہائش، جرم کی نوعیت اور جیل میں آنے کے سوال کے بعد اُس سے پوچھا تھا۔
”جیل سے باہر آنا چاہتے ہو غلام فرید؟” وہ گورا تھا مگر اُس سے شستہ اُردو میں بات کر رہا تھا۔ غلام فرید کو لگا اُسے سننے میں کچھ دھوکہ ہوا تھا۔
”جیل سے باہر آنا چاہتے ہو؟” اُس آدمی نے جیسے اُس کے چہرے کے تاثرات پڑھ لئے تھے۔
جیل سے باہر؟ غلام فرید نے سوچا، ایک لمحہ کے لئے۔ کیا وہ جیل سے باہر آنا چاہتا تھا؟ پھر اُس نے نفی میں سر ہلایا۔جو اُس آدمی کے لئے جیسے غیر متوقع تھا۔
”کیوں؟” اُس نے بے ساختہ پوچھا تھا۔
”باہر آ کر کیا کروں گا؟” غلام فرید نے جواباً کہا تھا۔
”نہ کوئی گھر ہے، نہ خاندان۔ اور اس عمر میں محنت مزدوری نہیں ہوتی۔ جیل ٹھیک ہے۔ یہاں سب ملتا ہے۔” غلام فرید نے کہا تھا۔ اُس نے سوچا تھا اب سروے کے سوال بدل گئے تھے۔
”اگر تمہیں ڈھیر سا پیسہ، ایک شاندار سا گھر اور ایک بیوی بھی مل جائے تو بھی باہر آنا نہیں چاہتے؟ زندگی نئے سرے سے شروع کرنا نہیں چاہتے؟” اس بار دوسری عورت نے اُس سے کہا تھا۔
بہت سارا پیسہ؟ غلام فرید نے سوچا۔ بہت سارے پیسے کی خواہش نے ہی تو مسئلہ پیدا کیا تھا اُس کے لئے۔ اُسے پتہ نہیں کیا کیا یاد آیا تھا۔ اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی جب وہ سوچتا تھا تو اُسے سب یاد آجاتا تھا۔ اپنی کڑوی زبان والی بیوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے وہ عشق میں گرفتار تھا اور جو کبھی شہد جیسی میٹھی تھی۔ اور وہ بچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دو سال کے وقفے سے باری باری پیدا ہونے والے نو بچّے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن میں سے چند بڑوں کے علاوہ اُسے اب کسی کا نام اور شکل یاد نہیں تھی۔ وہ مولوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اُس کا دشمن تھا اور وہ سود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ختم ہی نہیں ہوتا تھا۔ اُسے آج بھی وہ رقم یاد تھی جو اُس نے سود پر لی تھی اور وہ رقم بھی جو بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھ گئی تھی کہ ایک دن وہ اپنا ذہنی توازن ہی کھو بیٹھا تھا۔
”سالار سکندر یاد ہے تمہیں؟” اُس کو خاموش دیکھ کر اُس گورے نے غلام فرید سے پوچھا تھا۔ غلام فرید کی آنکھوں میں ایک عجیب سی وحشت آئی تھی۔ جھریوں سے بھرے چہرے، بڑھے بالوں اور بے ترتیب داڑھی کے ساتھ پھٹے پرانے، ملگجے کپڑوں میں وہاں ننگے پاؤں بیٹھے بھی اُسے سالار سکندر یاد تھا اور اُس کا باپ۔ اور وہ نفرت بھی جو اُس کے دل میں اُن کے لئے تھی اور بہت سے اُن دوسرے لوگوں کے لئے بھی جنہوں نے اُس کا استعمال کیا تھا۔
غلام فرید نے زمین پر تھوکا تھا۔ کمرے میں بیٹھے چاروں افراد کے چہروں پر مسکراہٹ اُبھری۔
******
”میرے بچپن میں، میری زندگی میں، جتنا بڑا رول آپ لوگوں کی فیملی کا تھا، پچھلے پانچ سالوں میں اتنا ہی بڑا رول اس شخص کا ہے۔” عبداللہ نے عنایہ کو بتایا تھا۔ چند ہفتوں بعد ہونے والی اپنی منگنی سے پہلے یہ اُن کی دوسری ملاقات تھی۔ عنایہ ایک سیمنار میں شرکت کے لئے کیلی فورنیا آئی تھی اور عبداللہ نے اُسے ڈنر پر بلایا تھا۔ وہ اُسے ڈاکٹر احسن سعد سے ملوانا چاہتا تھا جو اُسی کے ہاسپٹل میں کام کرتے تھے اور وہ ہمیشہ سے اُن سے بہت متاثر تھا۔ عنایہ نے کئی بار اُس سے پچھلے سالوں میں اس شخص کے حوالے سے سُنا تھا جس سے وہ اب تھوڑی دیر میں ملنے والی تھی۔
”مسلمان ہونا آسان تھا میرے لئے۔ لیکن مسلمان رہنا اور بننا بڑا مشکل تھا۔ ڈاکٹر احسن نے یہ کام بڑا آسان کر دیا میر ے لئے۔ جبریل کے بعد یہ دوسرا شخص ہے جسے میں رول ماڈل سمجھتا ہوں کہ وہ دین اور دُنیا دونوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔” عبداللہ بڑے پرجوش انداز میں عنایہ کو بتا رہا تھا اور وہ مسکراتے ہوئے سُن رہی تھی ۔ عبداللہ جذباتی نہیں تھا، بےحد سوچ سمجھ کر بولنے والوں میں سے تھا اور کسی کی بے جا تعریف کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔
”کچھ زیادہ ہی متاثر ہو گئے ہو تم اُن سے۔” عنایہ کہے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔ وہ ہنس پڑا۔
”تم jealous تو نہیں ہو رہی؟” اُس نے عنایہ کو tease کیا۔
”ہوئی تو نہیں، لیکن ہو جاؤں گی۔” اُس نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا،
”مجھے یقین ہے، تم اُن سے ملو گی تو تم بھی میری ہی طرح متاثر ہو جاؤ گی اُن سے۔” عبداللہ نے کہا۔
”میں اپنے نکاح میں ایک گواہ اُنہیں بناؤں گا۔” عنایہ اس بار قہقہہ مار کر ہنسی تھی۔
”عبداللہ! تم اس قدر inspired ہو اُن سے؟ مجھے تھوڑا بہت تو اندازہ تھا لیکن اس حد تک نہیں۔ مجھے اب اور اشتیاق ہو رہا ہے اُن سے ملنے کا۔” عنایہ نے اُس سے کہا۔ ”وہ یقیناً بڑے اچھے شوہر بھی ہوں گے۔ اگر تم نکاح میں بھی اُنہیں گواہ بنانا چاہتے ہو تو۔” عنایہ کو مزید تجسس ہوا تھا۔
”بس اس ایک معاملے میں خوش قسمت نہیں رہے وہ۔” عبداللہ یک دم سنجیدہ ہو گیا۔ ”اچھی بیوی ایک نعمت ہوتی ہے اور بُری ایک آزمائش۔ اور اُنہیں دو بار اس آزمائش سے گزرنا پڑا۔ اُن کی نرمی اور اچھائی کا ناجائز فائدہ اُٹھایا اُن کی بیویوں نے۔” عبداللہ کہہ رہا تھا۔
۔”Ohhh that’s sad” عنایہ نے کریدے بغیر افسوس کا اظہار کیا۔
”تمہیں پتہ ہے، تم سے شادی کے لئے بھی میں نے اُن سے بہت دُعا کروائی تھی اور دیکھ لو اُن کی دعا میں کتنا اثر ہے۔ ورنہ تمہارے پیرنٹس آسانی سے ماننے والے تو نہیں تھے۔” عبداللہ اب بڑے فخریہ انداز میں کہہ رہا تھا۔
”میرے پیرنٹس کسی کی دعاؤں کے بجائے تمہارے کردار اور اخلاص سے متاثر ہوئے ہیں عبداللہ۔” عنایہ نے اُسے جتایا۔
اسے اپنی بے یقینی کا وہ عالم ابھی بھی یاد تھا جب چند مہینے پہلے عبداللہ سے پاکستان میں ملنے کے بعد امامہ نے اُسے فون کیا تھا اور اُسے بتایا تھا کہ انہوں نے اُس کا رشتہ امریکہ میں مقیم ایک ہارٹ سرجن کے ساتھ طے کر دیا تھا،۔وہ کچھ دیر کے لئے بھونچکا رہ گئی تھی۔ اس سے پہلے جو بھی پروپروزلز اُس کے لئے زیر ِغور آتے تھے، عنایہ سے مشورہ کیا جاتا تھا اور پھر اُسے ملوایا جاتا تھا۔ یہ پہلا پروپوزل تھا، جس کے بارے میں اُسے اُس وقت اطلاع دی جا رہی تھی جب رشتہ طے کر دیا گیا تھا۔ عجیب صدمے کی حالت میں اُس نے امامہ سے کہا تھا۔
ً”مگر ممّی آپ کو مجھے پہلے ملوانا چاہیے تھا اُس سے۔ اُس کے بارے میں تو مجھ سے کچھ پوچھا تک نہیں آپ نے۔”
”تمہارے بابا نے بات طے کی ہے۔” امامہ نے جواباً کہا۔عنایہ خاموش ہو گئی۔ عجیب دھچکا لگا تھا اُسے۔
” تم نہیں کرنا چاہتی؟” امامہ نے اُس سے پوچھا تھا۔
”نہیں میں نے ایسا نہیں کہا، پہلے بھی آپ لوگوں ہی کو کرنا تھا، تو ٹھیک ہے۔” عنایہ نے کچھ بجھے دل کے ساتھ کہا تھا۔ اُسے عبداللہ یاد آیا تھا اور بالکل اُسی لمحے امامہ نے اُس سے کہ۔
”عبداللہ نام ہے اُس کا۔” نام سُن کر بھی لحظہ بھر کے لئے بھی اسے یہ خیال نہیں آیا تھا کہ وہ ایرک عبداللہ کی بات کر رہی تھیں۔ امامہ اس قدر کٹر مخالف تھیں ایرک عبداللہ سے شادی کی کہ عنایہ یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ جس عبداللہ کا اتنے دوستانہ انداز میں ذکر کر رہی تھیں، وہ وہی تھا۔
۔”Ok” عنایہ نے بمشکل کہا۔
” تم سے ملنا بھی چاہتا ہے وہ۔ نیویارک آیا ہوا ہے۔ میں نے اُسے تمہارا ایڈریس دیا تھا۔” امامہ کہہ رہی تھی۔ عنایہ نے بے ساختہ کہا۔
”ممّی پلیز! اب اس طرح میرے سر پر مت تھوپیں اُسے کہ آج مجھے رشتہ طے ہونے کی خبر دے رہی ہیں اور آج ہی مجھے اُس سے ملنے کا بھی کہہ رہی ہیں۔ ویسے بھی اب رشتہ طے ہو گیا ہے، ملنے، نہ ملنے سے کیا فائدہ ہو گا۔” اُس نے جیسے اپنے اندر کا غصّہ نکالا تھا۔
”اُس کی فیملی بھی شاید ساتھ ہو۔ اُس کی ممّی سے بات ہوئی ہے میری۔ اگلے ٹرپ پر میں بھی ملوں گی اُس کی فیملی سے۔ منگنی کا فارمل فنکشن تو چند مہینوں بعد ہو گا۔” امامہ نے اس طرح بات جاری رکھی تھی جیسے اُس نے عنایہ کی خفگی کو نوٹس ہی نہیں کیا تھا۔
عنایہ صدمہ کی حالت میں اگلے ایک گھنٹے تک وہیں بیٹھی رہی تھی اور ایک گھنٹے کے بعد اُس کے دروازے پر بیل بجنے پر اُس نے جس شخص کو دیکھا تھا، اُسے لگا تھا سردیوں کے موسم میں ہر طرف بہار آ گئی تھی۔ گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول ٹہنی سمیت اُسے پکڑاتے ہوئے دروازے پر ہی اُس نے عنایہ سے پھاوڑا مانگا تھا تاکہ اُس کے دروازے کے باہر پڑی برف ہٹا سکے۔ وہ کئی سالوں بعد مل رہے تھے اور عنایہ کو وہیں ایرک یاد آیا تھا جو اکثر اُن کے گھر میں لگے پھول ہی توڑ توڑ کر اُس کو اور امامہ کو لا کر دیا کرتا تھا اور جس کی favorite hobby سردیوں میں اپنے اور اُن کے گھر کے باہر سے برف ہٹانا تھی۔
۔”He is here” عبداللہ کی آواز اُسے خیالوں سے باہر لے آئی تھی۔ وہ ریسٹورنٹ کے دروازے پر نمودار ہونے والے کسی شخص کو دیکھتے ہوئے کھڑا ہوا تھا۔ عنایہ نے گردن موڑ کر دیکھا۔ وہ احسن سعد سے اُس کی پہلی ملاقات تھی۔ اُسے اندازہ نہیں تھا اُس سے ہونے والا اگلا سامنا اُس کی زندگی میں کتنا بڑا بھونچال لانے والا تھا۔
******
”تمہارے لئے کوئی لڑکی دیکھیں؟”امامہ نے حمین سے اُس صبح ناشتے کی ٹیبل پر کہا تھا۔ وہ اُن کے پاس چند دنوں کے لئے پاکستان آیا ہوا تھا۔ یہ اُس کی روٹین میں شامل تھا، بنا بتائے کچھ دنوں کے لئے امامہ اور سکندر عثمان سے ملنے آ جانا۔ اپنی زندگی اور بزنس کی بے پناہ مصروفیات میں بھی وہ کبھی یہ نہیں بھولتا تھا۔
”صرف ایک لڑکی؟” حمین نے بڑی سنجیدگی سے امامہ سے کہا جو اُس کی پلیٹ میں کچھ اور آملیٹ ڈال رہی تھی۔ وہ پچھلے کچھ عرصہ سے ہر بار اُس کے پاکستان آنے پر اسے شادی کے حوالے سے کچھ نہ کچھ کہتی رہتی تھی۔ وہ ہنس کر ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے نکال دیتا تھا۔
”میں سیریس ہوں۔ مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں۔” امامہ نے اُسے گھورا تھا۔
”باقی تینوں میں سے ہر ایک آزاد پھر رہا ہے، تو میں نے کیا گناہ کیا ہے۔” حمین نے اُس سے کہا تھا۔
”جبریل کے پاس ابھی شادی کے لئے وقت نہیں۔ عنایہ کی تو ریذیڈنسی مکمل ہوتے ہی کر دوں گی۔ رئیسہ اور تمہارے لئے اب تلاش شروع کرتی ہوں۔” امامہ نے اپنے لئے کپ میں چائے ڈالتے ہوئے کہا۔
۔”You should do something more productive” حمین نے اُسے چھیڑا۔
”مثلاً؟” اُس نے جواباً بڑی سنجیدگی سے اُس سے پوچھا۔
”ڈھونڈتا ہوں آپ کے لئے کوئی productive کام۔” حمین نے آملیٹ کا آخری ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”یہاں کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے اور اس عمر میں نئے سرے سے کوئی activity ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے۔ اتنے سالوں سے ایک routine کی عادی ہوں اور پاپا کو اس طرح گھر چھوڑ کر میں کوئی activity ڈھونڈنا بھی نہیں چاہتی۔” امامہ نے اُس سے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ یوں جیسے اُسے خدشہ ہو، وہ واقعی اُس کے لئے کوئی activity ڈھونڈنے نہ چل پڑے۔ وہ تھا بھی تو ایسا ہی۔
حمین نے امامہ کو بڑے پیار سے دیکھا۔ وہاں اسلام آباد کے ایک گھر میں اپنی منتخب کردہ گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے ہوئے بھی وہ اُن سب کی زندگی کا محور تھیں۔ حمین نے جو سال بچپن میں یہاں سالار اور جبریل کی عدم موجودگی میں امامہ کے ساتھ گزارے تھے، وہ اُن دونوں کو بہت قریب لے آئے تھے۔ وہ اس سے پہلے اپنے ہر دکھ سکھ کی بات جبریل سے کرنے کی عادی تھی، اب حمین سے کرنے لگی تھی۔ اُس نے امامہ کی بات سننے اور ماننے کی عادت اُن ہی سالوں میں سیکھی تھی۔
”ممّی! آپ نے فیملی کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔” حمین نے یک دم پتہ نہیں کس ذہنی رو میں اُس سے کہا تھا۔ وہ اُس کی بات پر چائے کا سپ لیتے لیتے مسکرا دی تھی۔
”ہمیشہ عورت ہی دیتی ہے حمین۔ میں نے کوئی الگ کام نہیں کیا۔” اُس نے بڑی لاپرواہی سے حمین سے کہا تھا۔
”اگر آپ کو کبھی اپنے جیسی کوئی عورت ملے تو مجھے اُس سے ضرور ملوائیں۔ ہو سکتا ہے، میں شادی کر لوں اُس سے، بلکہ فوراً کر لوں گا۔” اُس نے کہا۔ امامہ بڑے پراسرار انداز میں مسکرائی۔
”یہ تو کام بڑا آسان کر دیا ہے تم نے، میرے لئے۔” وہ بھی مسکرایا۔
”تمہارے ساتھ چلنا اور زندگی گزارنی بھی بہت مشکل ہو گا حمین، تم بھی کام کے معاملے میں اپنے بابا جیسے ہو۔ workaholic جو کام سامنے ہونے پر سب کچھ بھول بیٹھے۔” امامہ نے اُس سے کہا تھا۔ ”بابا سے موازنہ نہ کریں میرا۔ اُن کی اور میری سپیڈ میں بہت فرق ہے۔” وہ خوش دلی سے ہنسا تھا۔
”رئیسہ اچھی لڑکی ہے۔” امامہ نے یک دم کہا تھا۔ حمین کو سمجھ نہیں آئی۔ اُنہیں بیٹھے بٹھائے رئیسہ کیوں یاد آ گئی تھی۔ امامہ نے بھی اُس سے آگے کچھ نہیں کہا تھا۔
”ہاں! رئیسہ بہت اچھی لڑکی ہے۔” اُس نے بھی سوچے سمجھے بغیر ماں کی بات کی تائید کی تھی اور اُسے ہشّام اور رئیسہ کا مسئلہ یاد آ گیا تھا، جسے ڈسکس کرنے کے لئے وہ امامہ کے پاس آیا تھا۔ مگر اگلے دن سکندر عثمان کی اچانک موت نے اُسے یہ کرنے نہیں دیا
سکندر عثمان اُن سب کی زندگی سے بے حد خاموشی سے چلے گئے تھے۔ وہ حمین کی وہاں آمد کے دوسرے دن نیند سے نہیں جاگے تھے۔ اُس وقت اُس گھر پر صرف امامہ اور حمین ہی تھے، طیبہ امریکہ میں تھیں۔
اُس رات حمین سکندر عثمان کے پاس بہت دیر تک بیٹھا رہا تھا۔ ہمیشہ کی طرح۔ وہ جب بھی یہاں آتا تھا امامہ اور اُن کے لئے ہی آتا تھا۔ سکندر عثمان سے وہ سالار کے دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ اُنسیت رکھتا تھا اور ایسا ہی اُنس سکندر عثمان بھی اُس سے رکھتے تھے۔ الزائمر کی اس advanced stage پر بھی حمین کے سامنے آنے پر اُن کی آنکھیں چمکتی تھیں یا کم از کم دوسروں کو لگتی تھیں۔ کچھ بھی بول نہ سکنے کے باوجود وہ اُسے دیکھتے رہتے تھے اور وہ دادا کا ہاتھ پکڑے اُن کے پاس بیٹھا رہتا تھا۔ اُن سے خود ہی بات چیت کی کوشش کرتا رہتا۔ خود سوال کرتا، خود جواب دیتا۔ جیسے بچپن میں کرتا تھا۔ اور ویسی ہی باتیں جو بچپن میں ہوتی تھیں، اور تب سکندر عثمان اُن کے جواب دیا کرتے تھے۔
”دادا بتائیں، شتر مرغ کی کتنی ٹانگیں ہوتی ہیں؟” وہ اُن کے ساتھ واک کرتے کرتے یک دم اُن سے پوچھتا۔ سکندر عثمان اُلجھتے، شتر مرغ کی تصویر ذہن میں لانے کی کوشش کرتے، پھر ہار مانتے۔
”مرغ کی دو ہوں گی تو شُتر مرغ کی بھی دو ہوں گی دادا۔ یہ تو سوچے بغیر بتا دینے والا جواب تھا۔” سکندر عثمان اُس کی بات پر سر ہلانے لگتے۔
سکندر عثمان کی یادداشت کے دیوں کو حمین سکندر نے اپنے سامنے ایک ایک کر کے بجھتے دیکھا تھا اور ایک بچّے کے طور پر الزائمر کو نہ سمجھنے کے باوجود اُس نے اپنے دادا کے ساتھ مل کر اُن دیوں کی روشنی کو بچانے کی بے پناہ کوشش کی تھی۔
وہ کسی بھی چیز کا نام بھول جانے پر اُنہیں تسلی دے دیا کرتا تھا کہ یہ نارمل بات تھی۔ اور بھولنا تو اچھا ہوتا ہے اسی لئے وہ بھی بہت ساری چیزیں بھولتا ہے۔ وہ بچّے کی logic تھی اور بڑے کے سامنے لنگڑی تھی مگر سکندر عثمان کو اُس عمر میں اُس بیماری سے لڑتے ہوئے ویسی ہی logic چاہیے تھی جو اُنہیں یہ یقین دلا دیتی کہ وہ ٹھیک تھے، سب کچھ ”نارمل ” تھا۔
حمین اُن کی بیماری کے بڑھتے جانے پر آہستہ آہستہ کر کے اُن کے کمرے کی ہر چیز پر اُس چیز کا نام کاغذ کی چٹوں پر لکھ کر چسپاں کر دیا کرتا تھا تاکہ دادا کچھ نہ بھولیں، وہ جس چیز کو دیکھیں، اُس کا نام یاد کرنے کے لئے اُنہیں تردّد نہ کرنا پڑے۔ وہ چٹیں سینکڑوں کی تعداد میں تھیں اور اُس کمرے میں آنے والے ہر شخص کو ایک بار سکندر عثمان کے ساتھ اُس بیمارے سے لڑنے والے اُس دوسرے شخص کے بارے میں سوچنے پر بھی مجبور کر دیتا اور حمین نے اُس بیماری کے سامنے پہلی ہار اُس دن مانی تھی جس دن سکندر عثمان اُس کا نام بھول گئے تھے۔ وہ بے یقینی سے اُن کا چہرہ دیکھتا رہا تھا۔ وہ آخر اُس کا نام کیسے بھول گئے تھے۔ اُس وجود کا، جو چوبیس میں سے بارہ گھنٹے اُن کے اردگرد منڈلاتا رہتا تھا۔ اُس کے سامنے کھڑے سکندر عثمان اُس کا نام یاد کرتے، اٹکتے، اُلجھتے، ہکلاتے، گڑگڑاتے رہے اور حمین اُن کی جدوجہد اور بے بسی دیکھتا رہا۔ پھر وہ بڑی خاموشی سے سینٹر ٹیبل کے پاس گھٹنے ٹیک کر بیٹھا۔ وہاں پڑی ایک stick on چٹ اُس نے اُٹھائی، اُس پر اپنا نام لکھا اور پھر اپنے ماتھے پر اُسے چسپاں کرتے ہوئے وہ سکندر عثمان کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔اُس وقت وہ پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتا تھا اور شاید زندگی میں پہلی بار، لیکن وہ نہیں رویا تھا، اُس نے جیسے سکندر عثمان کے سامنے اُس بات کو مذاق میں اُڑانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ بات الزائمر سے جنگ کرتے اُس شخص کے لئے مذاق نہیں تھی۔ وہ اُس کے نام کے spelling کرتے ہنس پڑے تھے اور پھر ہنستے ہنستے وہ وہیں کھڑے کھڑے اپنی مٹھیاں بھینچتے رونے لگے تھے اور اُن سے قد اور عمر میں چھوٹے حمین نے اپنی عمر سے بڑے اُس بوڑھے شخص کو تھپکتے ہوئے تسلی دی تھی، جو اپنی ”نااہلی” اور ”مجبوری” پر نادم تھا اور جو اپنے چہیتے ترین رشتے کا نام یاد رکھنے سے بھی قاصر تھا۔ اُن کی اس بیماری نے حمین سکندر کو وقت سے پہلے میچور کر دیا تھا۔ جبریل نے سالار سکندر کی بیماری کو جھیلا تھا، حمین نے سکندر عثمان کی۔
وہ اُسے اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کے لئے اُسے اپنی چیزیں دینا شروع ہو گئے تھے. Dada, you don’t have to do it” حمین جیسے سمجھ جاتا تھا کہ وہ Bater Deal کس شے کے لئے تھی۔ ”I have all the time in the world for you” وہ جیسے اُنہیں یقین دہانی کروانے کی کوشش کرتا۔ وہ پھر بھی اُسے کچھ نہ کچھ دینے کی کوشش کرتے، حمین اُن کے بہت سارے رازوں سے واقف تھا۔ اُن بہت ساری جگہوں سے بھی جہاں وہ اپنی قیمتی چیزیں چھپاتے تھے۔ اُس پر اُن کے اعتبار کا یہ عالم تھا کہ وہ ہر چیز چھپاتے ہوئے صرف حمین سکندر کو بتاتے تھے، صرف اس لئے کیونکہ انہیں یہ خدشہ تھا کہ وہ کہیں اس جگہ کو بھی نہ بھول جائیں جہاں وہ سب کچھ چھپا رہے تھے۔ اور ایسا ہی ہوتا تھا اُن کے بھولنے پر حمین اُنہیں وہ چیز نکال کر دیتا تھا۔ وہ کمرہ جیسے اُن دونوں دادا اور پوتے کے لئے hide and seek والی جگہ بن گیا تھا۔
”ایک دن تم بہت بڑے آدمی بنو گے۔” سکندر عثمان اُسے اکثر کہا کرتے تھے۔ ”اپنے بابا سے بھی بڑے آدمی۔” وہ اُن کی بات زیادہ غور و فکر کے بغیر سنتا پر بیچ میں اُنہیں ٹوک کر پوچھتا۔
”خالی بڑا آدمی بنوں گا یا rich بھی؟” بابا تو rich نہیں ہیں۔” اُسے جیسے فکر لاحق ہوئی۔ سکندر عثمان ہنس پڑے۔
”بہت امیر ہو جاؤ گے، بہت زیادہ۔”
”پھر ٹھیک ہے۔” اُسے جیسے اطمینان ہوتا۔ ”لیکن آپ کو کیسے پتہ ہے؟” اُسے یک دم خیال آتا۔
”کیونکہ میں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں۔” سکندر عثمان بڑھاپے کی اُس لاٹھی کو دیکھتے جو اُن کے سب سے عزیز بیٹے کا اُن کے لئے تحفہ تھا۔
۔”Ok” حمین کے ذہن میں مزید سوالات آئے تھے لیکن وہ دادا سے اب بحث نہیں کرتا تھا۔
”میں تم پر دنیا میں سب سے زیادہ اعتماد کرتا ہوں۔” وہ اکثر اُس سے کہتے تھے اور وہ بڑی سنجیدگی سے اُنہیں کہتا تھا ”You are the only one who does it” اور سکندر عثمان جواباً کسی بچے کی طرح ہنسنے لگتے تھے۔
”جب میں اس دُنیا سے چلا جاؤں گا تو یہ ring تم امامہ کو دے دینا۔” اعتماد کے ایسے ہی کچھ لمحوں میں انہوں نے حمین کو وہ انگوٹھی دکھائی تھی جو وہ کئی سال اپنی ماں کی انگلی میں دیکھتا رہا تھا۔
”یہ تو ممّی کی ring ہے۔” حمین جیسے چلّایا تھا۔
”ہاں، تمہاری ممّی کی ہے۔ سالار نے شادی پر گفٹ کی تھی اُسے۔ پھر وہ اسے بیچ کر سالار کے پراجیکٹ میں کچھ investment کرنا چاہتی تھی، تو میں نے اسے لے کر اُسے وہ رقم دے دی۔ میں اُسے واپس دوں گا تو وہ نہیں لے گی اور میں نہیں چاہتا وہ اور سالار اسے بیچ کر مجھے میرا قرض واپس دینے کی کوشش کریں۔” سکندر عثمان بتاتے گئے تھے۔ اُنہیں نے اُسے ایک تھیلی میں ڈال کر اپنی وارڈروب کے ایک چور خانے میں حمین کے سامنے رکھا تھا۔ وہ چور خانہ حمین نے بھی پہلی بار ہی دیکھا تھا۔
”آپ اسے لاکر میں کیوں نہیں رکھوا دیتے؟” اُس نے سکندر عثمان کو مشورہ دیا تھا۔ وہ مسکرا دیے تھا۔
”میرے مرنے کے بعد لاکر سے جو بھی نکلے گا، وہ ساری اولاد کی مشترکہ ملکیت ہو گا۔ کوئی یہ امامہ کو نہیں دے گا۔” سکندر نے کہا۔
”لیکن آپ will میں لکھ سکتے ہیں۔” سکندر اُس کی بات پر ہنس پڑے تھے۔
”میری اولاد بہت اچھی ہے۔ لیکن میں زندگی میں اُن سے بہت ساری باتیں نہیں منوا سکتا تو مرنے کے بعد کیسے منوا سکوں گا جب تمہاری اولاد ہو گی تو تمہیں سمجھ آ جائے گی میری باتوں کی۔” انہوں نے جیسے بڑے پیار کے ساتھ اُسے کہا تھا۔
سکندر عثمان کی موت کے ایک ہفتے کے بعد اُس گھر میں اُن کی اولاد ترکے کی تقسیم کے لئے اکٹھی ہوئی تھی اور حمین سکندر کو وہ بات سمجھ آ گئی تھی۔سکندر عثمان اپنی زندگی میں ہی سب کچھ تقسیم کر چکے تھے، انہوں نے اپنے پاس صرف چند چیزیں رکھی تھیں جن میں وہ گھر بھی تھا۔ لیکن اُن چند چیزوں کی ملکیت پر بھی سب میں کچھ اختلافات آئے تھے اور یہ اختلافات بڑھ جاتے اگر سالار سکندر اور اُس کا خاندان سکندر عثمان کے رہ جانے والے اثاثوں پر اپنے حصّے کے حوالے سے claim کرتا۔ وہ اُن کے خاندان کا مشترکہ فیصلہ تھا۔ سکندر عثمان کے بچنے والے اثاثوں میں سے سالار سکندر اور اُس کے خاندان نے کچھ نہیں لیا تھا۔ البتہ سکندر عثمان کا وہ گھر حمین سکندر نے خریدنے کی آفر کی تھی۔ کیونکہ طیّبہ پہلے بھی زیادہ تر اپنے بیٹوں کے پاس بیرونِ ملک رہتی تھیں اور وہ اب مستقل طور پر اُن کے پاس رہنا چاہتی تھیں اور اُن کے وہاں سے شفٹ ہو جانے کے فیصلے کے بعد اُس گھر کو dispose off کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اُس فیصلے کے دوران کسی نے امامہ کے بارے میں نہیں سوچا تھا، سالار سکندر اور اُس کے اپنے بچوں کے علاوہ۔ جنہیں یہ احساس ہو رہا تھا کہ سکندر عثمان کے چلے جانے کے بعد اُس گھر کے نہ رہنے سے ایک شخص ایک بار پھر دربدر ہونے والا تھا۔ حمین نے اُس گھر کو صرف امامہ کے لئے خریدا تھا اور اُن یادوں کے لئے جو اُن سب کی اُس گھر سے وابستہ تھیں۔ اور اُس نے جس قیمت پر اُسے خریدا تھا، وہ مارکیٹ سے دوگنی تھی۔
ممّی مجھے آپ کو ایک امانت پہنچانی ہے۔” حمین رات کو سالار اور امامہ کے کمرے میں آیا تھا۔ وہ صبح واپس جا رہا تھا۔ باری باری کر کے سب ہی واپس جارہے تھے۔ سالار اور وہ دونوں کچھ دیر پہلے ہی کمرے میں آئے تھے، جب وہ دستک دے کر اُن کے کمرے میں آیا تھا۔
”امانت؟” وہ کچھ حیران ہوئی تھی۔ حمین نے ایک تھیلی اُس کے ہاتھ پر رکھی اور اُس کے قریب صوفہ پر بیٹھ گیا۔
”یہ کیا ہے؟” اُس نے کچھ حیران ہوتے ہوئے پہلے حمین، پھر سالار کو دیکھا۔ جو فون پر کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا۔
”آپ خود دیکھ لیں۔” حمین نے اُسے کہا۔ امامہ نے تھیلی میں ہاتھ ڈال کر اندر موجود چیز نکالی تھی اور ساکت رہ گئی تھی۔ فون پر بات کرتا سالار بھی اُسی طرح ٹھٹھکا تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا۔ وہ دونوں اُس انگوٹھی کو سیکنڈز میں نہ پہچان جاتے جو اُن کی زندگی کی بہترین اور قیمتی ترین یادوں میں سے ایک تھی۔
”یہ تمہیں کہاں سے ملی؟” امامہ نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا تھا۔ سالار نے فون منقطع کر دیا تھا۔
”دادا نے بچپن میں میرے سامنے وارڈ روب میں ایک دراز میں رکھتے ہوئے مجھے کہا تھا کہ اگر وہ اسے بھول جائیں تو اُن کے مرنے کے بعد میں اسے وہاں سے نکال کر آپ کو دے دوں۔” حمین کہہ رہا تھا۔
”وہ آپ کو یہ واپس دے دینا چاہتے تھے لیکن اُنہیں خدشہ تھا کہ آپ اسے نہیں لیں گی اور ایسا نہ ہو آپ اور بابا اُن کا قرض ادا کرنے کے لئے اسے بیچ دیں۔”
آنسو سیلاب کی طرح امامہ کی آنکھوں سے نکل کر اُس کے چہرے کو بھگوتے گئے تھے۔ سکندر عثمان ہمیشہ اُس کا بہت شکریہ ادا کرتے رہتے تھے۔ لیکن اُس تشکر کو انہوں نے جس طرح اپنے جانے کے بعد اُسے پہنچایا تھا، اُس نے امامہ کو بولنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ وہ ایک شفیق باپ تھے لیکن اُس سے بڑھ کر ایک شفیق سسر تھے۔
”تم نے کبھی بھی پہلے اس ring کے بارے میں ذکر نہیں کیا۔” سالار نے اپنے سامنے بیٹھے اپنے اُس بیٹے کو دیکھا جو آج بھی ویسا ہی عجیب اور گہرا تھا جیسا بچپن میں تھا۔
”میں نے اُن سے وعدہ کیا تھا کہ میں کبھی کسی کو اس انگوٹھی کے بار ے میں نہیں بتاؤں گا۔ یہ ایک امانت تھی، میں خیانت نہیں کر سکتا تھا۔” اُس نے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ باپ سے کہا اور پھر اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ ہموار قدموں سے چلتا ہوا وہ دروازہ کھول کر باہر نکل گیا ۔ وہ دونوں تب تک اُسے دیکھتے رہے، جب تک وہ غائب نہیں ہو گیا۔
”میں یہ انگوٹھی حمین کی بیوی کو دوں گی۔ اس پر اگر کسی کا حق ہے تو وہ حمین کا ہے۔” اُس کے جانے کے بعد امامہ نے مدہم آواز میں سالار سے کہا تھا۔ وہ انگوٹھی ابھی بھی اُس کی ہتھیلی پر تھی جسے وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ دیکھ رہی تھی کئی سالوں کے بعد اور کئی سالوں پہلے کی ساری یادیں ایک بار پھر زندہ ہو گئی تھیں۔
سالار نے اُس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا، اُس نے امامہ کے ہاتھ سے وہ انگوٹھی لی اور بڑی نرمی سے اُس کی انگلی میں پہنا دی۔ اُس کی مخروطی انگلیوں میں آج بھی بے حد آسانی سے پوری آ گئی تھی۔
”تمہارا بہت شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا میں امامہ۔” اُس نے امامہ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ ”تم نے پاپا کی جتنی خدمت کی ہے، وہ میں نہیں کر سکتا تھا، نہ ہی میں نے کی ہے۔” ”سالار!” امامہ نے اُسے ٹوکا تھا۔ ”تم مجھے شرمندہ کر رہے ہو۔”
”مجھے اگر زندگی میں دوبارہ شریکِ حیات کا انتخاب کرنے کا موقع ملے تو میں آنکھیں بند کر کے تمہیں چنوں گا۔” وہ نم آنکھوں کے ساتھ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے اُس نے ہاتھ کی پشت پر سجی اُس انگوٹھی کو دوبارہ دیکھا۔ سولہ سال کی جدائی تھی جو اُس نے اس گھر میں سالار سے الگ رہ کر جھیلی تھی۔ وہ تب چند سال یہاں گزارنے آئی تھی اور تب وہ جیسے تلوار کی ایک دھار پر ننگے پاؤں چل رہی تھی۔ وہ سکندر عثمان کا خیال رکھتے ہوئے دن رات سالار کے لئے خوفزدہ رہتی تھی اور اُس نے سالار کو یہ نہیں بتایا تھا مگر اُس نے یہ دعا کی تھی تب کہ اگر سکندر عثمان کی خدمت کے عوض اُسے اللہ نے کوئی صلہ دینا تھا تو وہ سالار سکندر کی زندگی اور صحت یابی کی شکل میں دے اور آج سولہ سال بعد اُسے لگتا تھا شاید ایسا ہی ہوا تھا۔ اُس کی زندگی کا وہ ساتھی آج بھی اُس کے برابر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ انگوٹھی ایک بار پھر سے اُس کے ہاتھ پر سج گئی تھی اور وہ سولہ سال بعد بالآخر ایک بار پھر سے سالار اور اپنے بچوں کے ساتھ مستقل طور پر امریکہ جا کر رہ سکتی تھی۔ بے شک وہ اپنے رب کی کسی بھی نعمت کا شکر ادا نہیں کر سکتی تھی۔
”میں نے آج بہت عرصے بعد ایک خواب دیکھا، وہی خواب۔” وہ چونکی، سالار اُسے کچھ بتا رہا تھا۔
******
”ہشّام مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔” اپنے سامان کی پیکنگ کرتے ہوئے حمین نے رئیسہ سے کہا۔ وہ بھی ابھی سکندر عثمان کے گھر پر ہی تھی اور چند دن اُسے بھی وہاں ٹھہرنا تھا۔ وہ حمین کو اُس کا کچھ سامان دینے آئی تھی جب اُس نے اچانک اُس سے کہا تھا۔
”وہ شاید دادا کی تعزیت کے لئے ملنا چاہتا ہو گا۔” وہ ایک لمحہ کے لئے اٹکی پھر اُس نے روانی سے اُس سے کہا ۔
۔”I don’t think so” حمین نے اسی طرح کام میں مصروف ہوتے ہوئے کہا۔ ” تعزیت کے لئے وہ تم سے ملتا یا بابا سے ملتا، مجھ سے ملنے کی ضرورت نہیں تھی۔ تم دونوں کے درمیان کچھ بات چیت ہوتی ہے کیا؟” اُس نے اپنے ہمیشہ کے calculated اور direct انداز میں رئیسہ سے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے پوچھا۔ رئیسہ چند لمحے سوچتی رہی پھر اُس نے حمین سے اپنی اور ہشّام کی کچھ ہفتے پہلے ہونے والی ملاقات اور گفتگو دہرائی تھی۔
”تو اب وہ کیا چاہتا ہے؟” حمین نے پوری بات سُننے کے بعد صرف ایک سوال کیا تھا کوئی تبصرہ نہیں۔ ”پتہ نہیں! شاید تم سے کہے گا کہ تم مجھے منا لو۔” حمین نے نفی میں سر ہلایا۔
”نہیں، وہ مجھ سے یہ کبھی نہیں کہے گا کہ میں تمہیں اُس کی دوسری بیوی بننے پر آمادہ کروں۔ اتنا عقل مند تو ہے وہ کہ ایسا پروپوزل میرے پاس لے کر نہ آئے۔” اُس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”رئیسہ تم کیا چاہتی ہو؟” چند لمحے بعد اُس نے دوٹوک انداز میں رئیسہ سے پوچھا۔
”میری چوائس کا ایشو نہیں ہے۔” وہ کچھ بے دلی سے مسکرائی۔ ”اس کا مسئلہ genuine ہے، تم نے ٹھیک کہا تھا۔ وہ شاہی خاندان ہے، اُن کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں، اپنی سوچ ہے۔ مجھے بہت پہلے ہی اس relationship میں نہیں پڑنا چاہیے تھا۔” حمین اُسے دیکھتا رہا، اُس کے سامنے بیٹھی وہ جیسے خود کلامی کے انداز میں بولتی جا رہی تھی۔ یوں جیسے اپنے آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
”بادشاہ بزدل ہے۔” حمین نے مدہم آواز میں اُس سے کہا۔ وہ بات کرتے کرتے رُک گئی۔ ”اور بزدل نہ پیار کر سکتے ہیں، نہ حکومت، نہ وعدہ نبھا سکتے ہیں، نہ تعلق۔” حمین نے جیسے اُسے ہشّام بن صباح کا مسئلہ چار جملوں میں سمجھایا تھا۔ جو وہ سمجھنے سے گریزاں تھی۔
”لوگ پیار کے لئے تخت و تاج ٹھکراتے ہیں نا تو وہ ٹھکرائے۔ اگر بادشاہ رہ کر تمہیں زندگی کا ساتھی نہیں بنا سکتا تو بادشاہت چھوڑ دے۔” رئیسہ ہنس پڑی۔
”بادشاہت چھوڑ دے، میرے لئے؟ میں اتنی valuable نہیں ہوں حمین! کہ کوئی میرے لئے بادشاہت چھوڑتا پھرے۔” اُس نے بڑی صاف گوئی سے کہا تھا۔
”ہو سکتا ہے ہو، ہو سکتا ہے، تمہیں پتہ نہ ہو۔ اور اگر وہ تمہاری قدر و قیمت پہچاننے کے قابل نہیں ہے تو ساتھ زندگی گزارنے کے قابل تو بالکل نہیں ہے۔” وہ دو ٹوک انداز میں کہہ رہا تھا۔
”تو حل میرے پاس ہے۔ اب دیکھتے ہیں اُس کو سمجھ میں آتا ہے یا نہیں۔ میں واپس جا کر اُس سے ملوں گا۔” حمین نے اعلان کرتے ہوئے کہا۔ رئیسہ اُس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔
******
”ڈاکٹر احسن سعد آپ کو بڑی اچھی طرح جانتے ہیں۔ بلکہ وہ بتا رہے تھے کہ اُن کے والد صاحب بابا کے بھی بڑے قریبی دوست تھے۔ عبداللہ ہی بتا رہا تھا کہ وہ اور اُن کے والد، دادا کی تعزیت کے لئے امریکہ میں آ کر ملیں گے بابا سے۔” عنایہ چہل قدمی کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
وہ اور جبریل لان میں چہل قدمی کر رہے تھے جب عنایہ کو اچانک عبداللہ کے ذکر چھیڑے جانے پر احسن سعد یاد آیا اور اُس کے ساتھ ہونے والی گفتگو۔ اور اُس نے جبریل سے اُس کا ذکر کرنا ضروری سمجھا۔
احسن سعد کا نام ہی جبریل کو چونکانے کے لئے کافی تھا، لیکن وہ یہ سُن کر زیادہ حیران ہوا تھا کہ جس احسن سعد کی وہ بات کر رہی تھی وہ نہ صرف جبریل سکندر کو جانتا تھا بلکہ اُس کا باپ سالار کا قریبی دوست تھا۔ وہ اُلجھا تھا، جس احسن سے وہ ملا تھا اُس نے ایسا کوئی ذکر یا حوالہ نہیں دیا تھا۔ اُسے عائشہ کے سابقہ شوہر کی تفصیلات کا پتہ نہیں تھا سوائے اُس کے نام، پروفیشن اور سٹیٹ کے۔ فوری طور پر وہ یہ سمجھ نہیں سکا کہ یہ وہی احسن سعد تھا یا وہ کسی اور کے ساتھ اُسے کنفیوز کر رہا تھا۔
”عبداللہ تو بے حد انسپائرڈ ہے اُس سے، کہہ رہا تھا نکاح کے گواہوں میں سے ایک وہ احسن سعد کو رکھے گا۔ اُس نے تو احسن سعد کو پیر و مرشد بنایا ہوا ہے، ہر بات میں اُس کا حوالہ دیتا ہے۔” وہ کہتی جا رہی تھی اور جبریل بے چین ہونے لگا تھا۔
”عبداللہ اُن ہی کے ساتھ پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے۔ مجھے بھی اچھا لگا وہ۔ ذکر تو پہلے بھی عبداللہ سے سنتی رہی تھی لیکن مل کر مجھے حیرانی ہوئی کہ وہ کافی young ہے۔ بہت باعلم ہے، دین کے بارے میں۔ اور حافظِ قرآن بھی ہے۔”
۔Similarities بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔ جبریل اب بولے بغیر نہیں رہ سکا۔
۔”Married ہے؟” اُس نے خواہش کی تھی وہ کوئی اور احسن سعد ہو۔
”نہیں، بس یہی بڑی tragedy ہوئی ہے اُس کے ساتھ۔” عنایہ کے جواب نے جیسے اُس کا دل نکال کر رکھ دیا تھا۔
”بیوی سائیکو اور بُرے کریکٹر کی تھی۔ کسی کے ساتھ اُس کا affair چلتا رہا اور احسن سعد بیچارے کو پتہ ہی نہیں تھا۔ پھر divorce ہو گئی لیکن بیوی نے بچے کی کسٹڈی بھی نہیں دی اور اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ مل کر اُس معذور بچّے کو جان سے مار دیا۔ تاکہ دونوں شادی کر سکیں اور بچّے کے نام جو جائیداد تھی، وہ اُسے مل جائے۔ احسن سعد نے کیس کیا تھا اپنی سابقہ بیوی کے خلاف قتل کا تو ابھی اُس عورت نے کچھ patch up کرنے کی کوشش میں اُس بچّے کے نام جو بھی جائیداد تھی وہ اُس کے نام کر کے معافی مانگی ہے۔ بہت اچھا انسان تھا وہ، کہہ رہا تھا کہ معاف کر دے گا، اب بیٹا تو چلا گیا۔” عنایہ بڑی ہمدردی کے ساتھ وہ تفصیلات سُنا رہی تھی۔
”تُم جانتی ہو وہ بوائے فرینڈ کون ہے جس نے احسن سعد کی بیوی کے ساتھ مل کر اُس کے معذور بچّے کا قتل کیا ہے؟” جبریل نے یک دم اُسے ٹوکا تھا۔ عنایہ نے حیرانی سے اُس کا چہرہ دیکھا۔ جبریل کا سوال جتنا عجیب تھا، اُس کا لہجہ اور تاثرات اُس سے زیادہ عجیب۔
”نہیں، میں کیسے جان سکتی ہوں، ویسے عبداللہ احسن سعد سے کہہ رہا تھا کہ اُسے اپنی سابقہ بیوی اور اُس کے بوائے فرینڈ کو معاف نہیں کرنا چاہیے۔ میرا بھی یہی خیال تھا۔” عنایہ نے روانی میں کہا اور جبریل کے اگلے جملے نے اُس کا ذہن جیسے بھک سے اُڑا دیا تھا۔
”وہ بوائے فرینڈ میں ہوں۔” بے حد بے تاثر آواز میں جبریل نے اُس سے کہا تھا۔
”اور عنایہ میں ایرک عبداللہ سے تمہاری شادی بھی نہیں ہونے دوں گا۔” اس کا اگلا جملہ پہلے سے بھی زیادہ ناقابلِ یقین تھا۔
******
سالار سکندر، سکندر عثمان کے بیڈروم کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔ لائٹ آن کر کے اس نے سکندر عثمان کے بسترکو دیکھا۔ وہاں اب کوئی نہیں تھا۔ اُس کی آنکھوں میں ہلکی نمی دوڑی تھی۔ کئی سالوں سے اب اُس کے اور اُن کے درمیان صرف خاموشی کا رشتہ ہی رہ گیا تھا۔ بات چیت نہیں رہ گئی تھی۔ اس کے باوجود اُسے اُن کے وجود سے ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوتا تھا۔
میں اپنی نظروں کے سامنے تمہیں جاتا ہوا نہیں دیکھ سکتا سالار! اس لئے بس یہی دعا کرتا ہوں کہ تم سے پہلے چلا جاؤں تمہارا دُکھ نہ دکھائے اللہ کسی بھی حالت میں مجھے۔ ” سالار کو لگا جیسے یہ جملے پھر اُس کمرے میں گونجے تھے۔ انہوں نے اُس کی بیماری کے دوران کئی بار اُس سے یہ باتیں کہیں تھیں۔ اور اُن کی دعا قبول ہو گئی تھی، وہ سالار کا دُکھ دیکھ کر نہیں گئے تھے۔
”کیا فرق پڑتا ہے پاپا! ہر ایک نے جانا ہوتا ہے دُنیا سے۔ جس کا رول ختم ہو جائے، وہ چلا جاتا ہے۔” سالار کئی بار اُنہیں جواباً کہتا تھا۔
”جوان بیٹے کا غم اللہ کسی کو نہ دکھائے سالار۔” وہ رو پڑے تھے اور یہ آنسو سالار نے اُن کی آنکھوں میں صرف اپنی بیماری کی تشخیص کے بعد دیکھنا شروع کیے تھے، ورنہ سکندر عثمان کہاں بات بات پر رو پڑنے والے آدمی تھی۔
وہ اُن کی کُرسی پر جا کر بیٹھ گیا۔ وہ اور امامہ اب وہاں سے چلے جانے والے تھے۔ وہ کمرہ اور وہ گھر اب بے مکین ہونے والا تھا۔ وہ دو ہفتوں سے وہاں تھا اور اس سے زیادہ وہاں نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ حمین پہلے جا چکا تھا اور اب جبریل اور عنایہ بھی اُس کے پیچھے چلے جاتے، پھر امامہ۔ جو سب سے آخر میں وہاں سے جاتی اور پھر پتہ نہیں اُس گھر میں دوبارہ کبھی وہ یوں اکٹھے بھی ہو پاتے یا نہیں۔ اور اکٹھے ہوتے بھی تو بھی پتہ نہیں کب۔
زندگی کیا شے ہے، کیسے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ وقت کیا شے ہے، رُکتا ہے تو رُک ہی جاتا ہے، چلتا ہے تو پہیوں پر۔
”میں آپ جیسا باپ کبھی نہیں بن سکا اپنی اولاد کے لئے پاپا۔” اُس نے مدہم آواز میں وہاں بیٹھے خود کلامی کی۔
”میں آپ جیسا بیٹا بھی کبھی نہیں بن سکا۔” وہ رُک کر دوبارہ بولا۔
”لیکن میرے بیٹے آپ جیسے باپ بنیں، اور آپ جیسے ہی بیٹے، میرے جیسے نہیں۔ میری صرف یہ دُعا ہے۔” اُس نے نم آنکھوں کے ساتھ ٹیبل پہ پڑے اُن کے گلاسز اُٹھا کر چھوئے پھر اُنہیں ٹیبل پر رکھ کر دوبارہ اُٹھ گیا۔
******
”بیوی کو کیوں مارا؟”
”ایک بڑے آدمی کے ساتھ اُس کے ناجائز تعلقات تھے۔”
”پھر؟”
”پھر مجھے پتہ چلا کہ جسے میں اپنی بیٹی سمجھتا تھا، وہ بھی اُس کی بیٹی تھی۔”
”پھر؟”
”پھر، بس برداشت نہیں کر سکا میں۔ میں غیرت مند تھا، اُسے بھی قتل کر دیا، باقی اولاد کو بھی۔ پتہ نہیں وہ بھی میری تھی یا نہیں۔”
۔CNN پر غلام فرید کے ساتھ ہونے والا وہ انٹرویو انگلش سب ٹائٹلز کے ساتھ چل رہا تھا اور دُنیا کے تمام میجر channels اسی وقت اس انٹرویو کو بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ صرف دس منٹوں میں دُنیا بھر میں سالار سکندر اور SIF ایک بار پھر زبان زدِ عام ہونے والی تھی اور اس بار یہ ”شہرت” نہیں رسوائی تھی جو اُس خاندان کے حصّے میں آنے والی تھی۔
”وہ بڑا آدمی کون تھا؟” انٹرویور نے غلام فرید سے اگلا سوال کیا۔
”میں اُس کا چوکیدار تھا، اُس کے سکول کا۔ اُس نے مجھے اس لئے وہاں سے نکال دیا کہ اُس کے میری بیوی سے تعلقات تھے۔” انٹرویو کرنے والے نے غلام فرید کو ٹوکا۔
”اُس بڑے آدمی کا نام کیا تھا؟”
”سالار سکندر۔” غلام فرید نے بے حد روانی سے کہا۔
دُنیا بھر کی TVاسکرینز پر بالکل اسی لمحے سالار سکندر کی تصویر نمودار ہوئی تھی اور پھر اُس کے چند لمحے بعد رئیسہ سالار کی۔ بیک وقت۔ ایک ہی جیسی تصویریں۔
وہ CIA کا Sting Operation نہیں تھا، وہ انہوں نے پوری قوّت اور طاقت سے مغربی انٹیلی جینس ایجنسیز کے اشتراک سے دُنیا کے کامیاب ترین اسلامی مالیاتی نظام کے بانی اور SIF کی بنیادوں پر دن دہاڑے حملہ کیا تھا۔
”غلام فرید تم کیا چاہتے ہو؟” انٹرویور اب اُس سے پوچھ رہا تھا۔ غلام فرید ایک لحظہ کے لئے رکا، پھر اُس نے کہا۔
”سالار سکندر کے لئے پھانسی کی سزا۔”
******
نیروبی کے اُس فائیو سٹار ہوٹل میں ہونے والی تقریب، افریقہ کی تاریخ کے یادگار ترین لمحوں میں سے ایک تھا۔ کچھ گھنٹوں کے لئے دنیا کی تمام اکنامک مارکیٹس جیسے اُس ایک تقریب پر فوکس کر کے بیٹھ گئی تھیں، جہاں SIF حمین سکندر کی کمپنی TAI کے ساتھ مل کر افریقہ میں دنیا کے سب سے بڑے مالیاتی فنڈز کے قیام کا اعلان کرنے والی تھی۔ وہ merger نہیں تھا، اشتراک تھا اور دُنیا کا کوئی بڑا مالیاتی ادارہ نہیں تھا، جس کا سربراہ وہاں اُس فائیو سٹار ہوٹل کے بینکوئیٹ ہال میں موجود نہیں تھا۔ وہاں صرف دُنیا کے بہترین دماغ تھے۔ اپنی اپنی فیلڈ کے نامور لوگ اور ان لوگوں کے جمگھٹے میں وہاں سالار سکندر اور حمین سکندر اُس گلوبل فنڈ کا اعلان کرنے والے تھے۔ جس کی مالیت دُنیا کے تمام بڑے مالیاتی اداروں کو پچھاڑنے والی تھی۔
9:14 پر بھی ٹیلی سکوپ کی آنکھ سے اُس ٹارگٹ کلر کو وہ ”مہمان” لفٹ کے دروازے سے نمودار ہوتا نظر نہیں آیا۔ لیکن وہ دم سادھے، آنکھ ٹیلی سکوپ پر ٹکائے، ایک انگلی ٹریگر پر رکھے لفٹ کا دروازہ کھلنے کا منتظر تھا۔
دس……نو……آٹھ…… سات……چھے……پانچ…… چار…… تین…… دو…… ایک