
آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد
قسط نمبر پانچ
”کپڑے چیک کر لیں۔”
بل کے ساتھ لانڈری کے لیے بھیجے گئے کپڑوں کی لسٹ بھی تھی۔ امامہ نے ہینگرز لاؤنج میں لانے کے بعد باری باری لسٹ اور کپڑوں کو ملانا شروع کیا، کپڑے پورے تھے۔
ملازمہ تب تک باہر نکل آئی تھی۔ امامہ بل کے پیسے لینے اندر چلی گئی۔ جب وہ واپس آئی تو اس نے ملازمہ کو دروازے پر لانڈری بوائے کو ایک لانڈری بیگ تھماتے ہوئے دیکھا۔ جس کے اوپر ایک لسٹ چسپاں تھی۔ یقینا وہ ان کپڑوں کی لسٹ تھی جو لانڈری کے لیے دیے جا رہے تھے۔ لانڈری بوائے ایک رائٹنگ پیڈ پر کچھ اندارج کر رہا تھا۔
”باجی! آپ نے بھی دینے ہیں کپڑے؟” ملازمہ نے اسے آتے دیکھ کر کہا۔
”نہیں، میں یہ بل دینے آئی ہوں۔” امامہ نے بل کی رقم اس لڑکے کی طرف بڑھائی۔ اس نے جواباً ایک رسید اس کی طرف بڑھا دی۔
”بل تو مہینے کے شروع میں اکٹھا ہی جاتا ہے۔” ملازمہ نے اسے روکا۔
وہ دروازہ بند کرتے ہوئے اندر آگئی۔ امامہ نے رسید پر نظر ڈالی۔ وہ سالار کے کپڑوں کی لسٹ تھی جو وہ لے کر گیا تھا۔
”تم نے لانڈری کے کپڑے کہاں سے لیے ہیں؟” امامہ نے اس لسٹ کو پڑھتے ہوئے ملازمہ کو روکا۔
”سالارصاحب کپڑے بیگ میں ڈال کر اوپر لسٹ رکھ جاتے ہیں۔ لانڈری میں ہی رکھتے ہیں بیگ…” ملازمہ یہ کہہ کر دوبارہ اندر چلی گئی۔
امامہ نے بل پر نظر ڈالی۔ لانڈری تو وہ خود بھی کر سکتی تھی۔ ہر ہفتے اتنے پیسے اس پر خرچ کرنا فضول خرچی تھی، اس نے سوچا۔
ملازمہ ابھی وہیں تھی جب ایک آدمی وہ پردے لے کر آیا تھا جو اس نے بننے کے لیے دیے تھے۔
”باجی! آپ نے کوئی پردے بننے کے لیے دیے ہیں؟”
ملازمہ نے انٹر کام کی بیل بجنے پر ریسیور اٹھا کر اس سے پوچھا۔
امامہ کچھ حیران ہوئی۔ ”ہاں…کیوں؟”
”وہ نیچے گیٹ پر ایک آدمی لے کر آیا ہے، گارڈ انٹر کام پر پوچھ رہا ہے۔ ہاں! بھیج دو، باجی نے پردے بنوائے ہیں۔” ملازمہ نے اس کو بتا کر ریسیور میں کہا۔ ریسیور رکھ کر وہ دوبارہ لاؤنج صاف کرنے میں لگ گئی تھی۔ کچن کاؤنٹر پر گلاس سیٹ کو کپڑے سے صاف کرتے ہوئے، امامہ کو عجیب طرح کا احساس کمتری ہوا۔ اس نے اتنے دنوں وہاں چلتے پھرتے کئی بار انٹر کام کو دیکھا تھا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس انٹر کام کی وہاں کیا افادیت ہے، جب کہ دروازہ اتنا قریب تھا۔ ملازمہ اس گھر کی ہر چیز کو اس سے زیادہ ذہانت ، پھرتی اور سہولت کے ساتھ استعمال کر رہی تھی۔
٭٭٭٭
”سالار! لاؤنج اب اچھا لگ رہا ہے نا؟”
سالار نے لاؤنج کی کھڑکیوں پر لگے نئے پردوں پر ایک نظر ڈالی۔ وہ ابھی چند لمحے پہلے گھر آیا تھا۔ امامہ نے بے حد خوشی کے عالم میں آتے ہی اسے اطلاع دی۔ وہ نہ بھی دیتی تب بھی لاؤنج میں پہلا قدم رکھتے ہی وہ اس ”واضح” تبدیلی کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔
”بہت۔” اس نے اپنی مایوسی کو چھپاتے ہوئے کہا۔ امامہ نے فخریہ انداز میں پردوں کو دیکھا۔
وہ آج بھی افطاری راستے میں ہی کر آیا تھا۔ امامہ نے افطاری فرقان کے گھر پر کی تھی اور اب وہ دونوں ایک ساتھ ڈنر کر رہے تھے۔
”تو جناب کا آج کا دن کیسا گزرا؟”
کھانا شروع کرتے ہوئے سالار نے اس سے پوچھا۔ وہ اسے پورے دن کی ایکٹیویٹیز بتانے لگی۔ آج ان دونوں کے درمیان ہونے والی یہ پہلی تفصیلی گفت گو تھی۔ سالار نے اسے دن میں دو بار، ایک یا ڈیڑھ منٹ کے لیے کال کی تھی مگر بات صرف حال احوال تک ہی رہی تھی۔
”یعنی آج بہت کام کرنا پڑا۔” سالار نے اس کے دن کی تفصیل سن کر کہا۔
”کیا کام؟ میں نے کیا کیا؟ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔” امامہ نے اس کی بات پر کچھ حیران ہو کر اسے دیکھا۔
”جتنا بھی کیا ہے، بہت ہے۔”
”میں تمہاری لانڈری خود کر دیا کروں گی اگلے ہفتے سے۔ ” امامہ نے سالار کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ ”اور پریس بھی کر دیا کروں گی۔”
”میں تمہیں کپڑے دھونے کے لیے نہیں لے کر آیا۔“ سالار نے اس کی بات کاٹی۔
”مجھے پتا ہے، لیکن میں فارغ ہوتی ہوں سارا دن اور پھر مجھے اپنے کپڑے بھی تو دھونے ہوتے ہیں، تو تمہارے بھی دھو سکتی ہوں۔”
”تم اپنے کپڑے بھی کیوں دھوؤ گی۔ لانڈری وین ہر ہفتے آتی ہے۔ تم اپنے بھی دے دیا کرو۔” سالار نے کھانا کھاتے کھاتے رک کر کہا۔
”پیسے ضائع ہوں گے۔” اس نے بے اختیار کہا۔
”کوئی بات نہیں۔” سالار نے اسی انداز میں کندھے اچکا کر کہا۔
امامہ نے اس کا چہرہ دیکھا۔
”اور میں سارا دن کیا کروں؟”
”وہی جو دوسری عورتیں کرتی ہیں۔ سویا کرو، ٹی وی دیکھو، فون پر دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگاؤ۔” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”میرے کوئی دوست نہیں ہیں۔” وہ یک دم سنجیدہ ہو گئی۔
سالار نے کچھ حیران ہو کر اس کا چہرہ دیکھا۔ ”کوئی تو ہو گی؟”
”نہیں، کوئی بھی نہیں ہے۔”
”کیوں؟”
وہ کھانا کھاتے کھاتے کچھ سوچنے لگی تھی، پھر اس نے کہا۔
”کالج اور یونی ورسٹی میں تو میں اتنی خوف زدہ رہتی تھی کہ کسی کو دوست بنانے کا خیال ہی نہیں آیا۔ دوستی ہوتی تو پھر سوال ہوتے۔ میرے بارے میں… فیملی کے بارے میں… پھر اگر کوئی گھر آتا اور ابو کی فیملی کو کوئی پہلے ہی سے جانتا ہوتا تو… یا سعیدہ اماں کو ہی … دوستی اس وقت بڑی مہنگی چیز تھی میرے لیے… میں افورڈ نہیں کر سکتی تھی… پھر آفس جاب میں کولیگز کے ساتھ تھوڑی بہت گپ شپ ہوتی تھی لیکن مجھے اکیلے رہنے کی اتنی عادت ہو گئی تھی کہ میں لوگوں کے ساتھ کبھی بھی comfortable نہیں رہتی تھی۔ میں ان کے ساتھ گھوم پھر نہیں سکتی تھی… ان کے گھر نہیں جا سکتی تھی… اپنے گھر نہیں بلا سکتی تھی… کیسے دوستی ہوتی پھر… اسی لیے مجھے کتابیں پڑھنا اچھا لگتا تھا… پینٹ کرنا اچھا لگتا تھا۔”
”لوگوں سے میل جول ہونا چاہیے، دوست ہونی چاہیں۔ پہلے کی بات اور تھی لیکن اب تمہیں تھوڑا سوشلائز کرنا چاہیے۔ اب تمہارا گھر ہے، تم کولیگز کو انوائٹ کر لیا کرو یا کم از کم ان سے فون پر ہی بات کر لیا کرو۔” وہ اسے بڑی سنجیدگی سے سمجھا رہا تھا۔
”تم خود سوشل ہو، اس لیے کہہ رہے ہو۔” امامہ نے جواباً کہا۔
”ہاں، میری جاب کی ضرورت ہے سوشل ہونا۔ ماہ رمضان کے بعد کو فنکشنز ہیں… ڈنر بھی ہیں کچھ … تمہیں ملواؤں گا کچھ دوستوں سے بھی… اچھا لگے گا تمہیں۔” وہ اس سے کہہ رہا تھا۔
”میں نے تمہارے ڈیسک پر دیکھے ہیں، افطار، ڈنرز کے کارڈز۔ تم میری وجہ سے نہیں جا رہے؟” امامہ نے کہا۔
”نہیں، میں افطار پارٹیز یا ڈنرز میں نہیں جاتا۔” سالار نے سرسری انداز میں کہا۔
”کیوں؟” وہ حیران ہوئی۔
”کیونکہ میں سمجھتا ہوں یہ پارٹیز ماہ رمضان کی اسپرٹ کا مذاق اڑاتی ہیں۔ میں ماہ رمضان میں کسی کے گھر افطار پر نہیں جاتا۔”
”لیکن فرقان کے گھر تو جاتے ہو۔” امامہ نے بے ساختہ کہا، وہ مسکرا دیا۔ وہ اس وقت بھی فرقان کے گھر سے آیا ہوا کھانا کھا رہے تھے۔
”میں فرقان کے گھر ماہ رمضان سے پہلے بھی کھانا کھاتا رہا ہوں اور اگر وہ مجھے افطار یا ڈنر کے لیے بلاتا ہے تو کھانے میں کوئی اہتمام نہیں کرتا۔ ہم وہی کھاتے ہیں جو اس کے گھر میں عام دنوں میں پکتا ہے لیکن عام دنوں میں اس کے گھر میں یہ نہیں پکتا۔” سالار نے ٹیبل پر پڑی تین چار چیزوں کی طرف اشارہ کیا۔
”پھر…؟” وہ مزید حیران ہوئی۔
”یہ سارا اہتمام فرقان اور بھابھی تمہارے لیے کر رہے ہیں کیونکہ ہماری نئی نئی شادی ہوئی ہے تو تمہارے لیے سحری اور افطاری میں بھی اہتمام ہو رہا ہے، ورنہ تو ہم سادہ کھانا کھاتے ہیں۔ ماہ رمضان میں ہم لوگ اپنے کچن کے لیے گرو سری عام مہینوں کی نسبت آدھا خرچ کرتے ہیں اور آدھے پیسوں سے ہم کسی اور فیملی کو پورے مہینے کا راشن منگوا دیتے ہیں۔ کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے تمہارا۔” سالار نے سے متوجہ کیا، وہ خود کھانا ختم کر کے اب میٹھا کھا رہا تھا۔
یہ ڈاکٹر سبط علی کے گھر کی روایت تھی۔ ماہ رمضان میں ان کے گھر آنے والا راشن آدھا ہو جاتا تھا۔ گھر کے دو ملازموں کے ماہ رمضان کا راشن اس باقی راشن کی قیمت سے آتا تھا۔
امامہ!” سالار نے پھر اسے کھانے کی طرف متوجہ کیا۔
وہ کھانا کھانے لگی۔ سالار میٹھا بھی ختم کر چکا تھا اور اب منتظر تھا کہ وہ کھانا ختم کر لے۔ وہ خود ساتھ ساتھ سیل پر مسلسل میسجز کرنے میں مصروف تھا۔ وہ کسی حد تک بدل گیا تھا اور اس کے اندر آنے والی تبدیلی کس حد تک ڈاکٹر صاحب کی مرہون منت تھی اور کس حد تک اس کی اپنی سوچ کی، اندازہ لگانا مشکل تھا… وہ کھانا کھاتے ہوئے ہمیشہ اس کے کھانا شروع کرنے کا انتظار کرتا تھا۔ کھانا کھاتے ہوئے کچھ نہ کچھ اس کی پلیٹ میں ضرور رکھتا تھا اور اس کے کھانا ختم کرنے کے بعد ہی کھانے کی ٹیبل سے اٹھتا۔ وہ یہ باتیں نوٹس نہیں کرنا چاہتی تھی، لیکن وہ یہ نوٹس کیے بغیر بھی رہ نہیں سکتی تھی۔ وہ عجیب تھا۔ ”عجیب؟” اس کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ امامہ کے ذہن میں نہیں آیا۔
ڈنر کے بعد وہ رات کو کچن کا سودا سلف خریدنے کے لیے گئے تھے۔ امامہ نے اگر سالار کی یہ گفت گو نہ سنی ہوتی تو یقینا وہ کچن کے لیے ایک لمبی چوڑی لسٹ بنائے بیٹھی تھی، لیکن اس نے خریداری کرتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیا۔ خریدی جانے والی زیادہ تر اشیاء کنٹینرز اور جارز ہی تھے۔ کھانے پکانے کا سامان اس نے بہت کم خریدا تھا۔
آج انہوں نے ایک اور جگہ سے کافی پی تھی۔
”تمہارا وہ پرابلم حل ہو گیا؟” امامہ کو گاڑی میں اچانک یاد آیا۔
”کون سا پرابلم؟” سالار نے چونک کر اسے دیکھا۔
”وہ جس کی وجہ سے تم کل رات پریشان تھے۔” امامہ نے اسے یاد دلایا۔
وہ بے اختیار بڑبڑایا۔ ”کاش ہو جاتا۔”
”یعنی نہیں ہوا۔” امامہ متفکر ہوئی۔
”ہو جائے گا۔” سالار نے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھا۔
”پرسوں میں کراچی جا رہا ہوں۔” سالار نے بات بدلی۔
”کتنے دن کے لیے؟” وہ چونکی۔
”صبح جاؤں گا اور رات کو آجاؤں گا۔ میں مہینے میں دو تین بار جاتا ہوں کراچی۔ تم چلو گی ساتھ؟” وہ ہنسا۔ امامہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”ایک دن کے لیے؟”
”ہاں…”
”تم آفس کے کام سے جا رہے ہو، میں کیا کروں گی وہاں؟”
”تم انیتا کے ساتھ شاپنگ کے لیے چلی جانا، وہ تمہیں گھما پھرائے گی کراچی۔ کبھی گئی ہو پہلے وہاں؟” سالار پوچھ رہا تھا۔
”نہیں۔” وہ کچھ ایکسائیٹڈ ہونے لگی تھی۔ سمندر اسے پسند تھا اور زندگی میں پہلی بار اسے سمندر دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔
”انیتا سے ٹائی اپ کرتا ہوں پروگرام… میں آفس میں، تم میری بہن کے ساتھ بازاروں میں… ہم تو اسی طرح کا ہنی مون منا سکتے ہیں فی الحال۔” وہ اسے پھر چھیڑ رہا تھا۔
وہ ہنس پڑی۔ وہ اس سے کہہ نہیں سکی کہ جس زندگی وہ گزار کر آئی تھی، اس کے مقابلے میں یہ آزادی اسے جنت جیسی محسوس ہو رہی ہے۔
٭٭٭٭
”یہ کیا ہے؟”
وہ خریدا ہوا سودا سلف، جارز اور کنٹینرز میں ڈالنے میں مصروف تھی جب سالار اپنے اسٹڈی روم سے ایک لفافہ لے کر کچن ایریا میں آیا۔
”اس میں تمہاری چیک بک ہے۔” سالار نے اسے بتایا اور لفافہ کاؤنٹر پر رکھ کر چلا گیا۔
امامہ نے لفافہ کھول کر اندر موجود چیک بک نکالی۔ اس کے ساتھ ایک پے سلپ بھی نکل آئی۔ وہ تیس لاکھ کی تھی۔ امامہ کو لگا کہ اسے کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس نے سلپ کو دوبارہ دیکھا۔ وہ واقعی تیس لاکھ ہی کی تھی۔ اس نے اس کے اکاؤنٹ میں تیس لاکھ کیوں جمع کروائے؟ یقینا اس سے کوئی غلطی ہو گئی تھی۔
وہ لفافہ پکڑے اسٹڈی روم میں آگئی۔ سالار اپنے کمپیوٹر پر کوئی کام کر رہا تھا۔
”سالار! تمہیں پتا ہے، تم نے کتنا بڑا blunder کیا ہے؟” امامہ نے اندر آتے ہوئے کہا۔
”کیسا blunder؟” وہ چونکا۔
امامہ نے اس کے قریب آکر پے سلپ اس کے سامنے کی۔
”اسے دیکھو ذرا… یہ کیا ہے؟”
”پے سلپ ہے۔” سالار نے ایک نظر اس پر ڈالتے ہوئے دوبارہ ڈیسک ٹاپ پر نظر دوڑانا شروع کر دی۔
”کتنی رقم جمع کروائی ہے تم نے میرے اکاؤنٹ میں؟”
”تیس لاکھ۔” وہ حیران ہوئی۔
”ابھی کچھ رہتی ہے، سات لاکھ اور کچھ… چند ماہ میں وہ بھی دے دوں گا۔” وہ کچھ ٹائپ کرتے ہوئے سرسری انداز میں کہہ رہا تھا۔
”لیکن کیوں دو گے مجھے؟ کس لیے؟” وہ حیران تھی۔
”تمہارا حق مہر ہے۔” سالار نے اسی انداز میں کہا۔
”میرا حق مہر دو لاکھ روپے ہے۔” امامہ کو لگا کہ شاید وہ بھول گیا ہے۔
”وہ آمنہ کا تھا، میں تمہیں زیادہ حق مہر دینا چاہتا ہوں۔” سالار نے کندھے اچکا کر کہا۔
”لیکن یہ تو بہت ہی زیادہ ہے سالار۔” وہ یک دم سنجیدہ ہوئی۔” تم سے کس نے کہا، مجھے اتنی رقم دو؟”
”تم نے خود مجھے لکھ کر دی تھی یہ رقم۔” سالار نے اس بار مسکراتے ہوئے مانیٹر سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔
”میں نے کب…” وہ کہتے کہتے رک گئی۔ ”وہ فگر تم اس لیے لکھوا رہے تھے…؟” اسے یاد آگیا۔
”ہاں۔” اس کی لاپروائی اب بھی برقرار تھی۔
”تم پاگل ہو۔” امامہ کو بے اختیار ہنسی آئی۔
”شاید۔” سالار نے بے ساختہ کہا۔
”اچھا، میں ایک ارب لکھ دیتی تو کیا کرتے؟” وہ اب طنز کر رہی تھی۔
”تو ایک ارب بھی دے دیتا۔” ” کیا فیاضی تھی۔
”کہاں سے دیتے؟ فراڈ کرتے؟” وہ بے ساختہ ناراض ہوئی۔
”کیوں کرتا؟ کما کر دیتا۔” سالار نے اس کی بات کا برا مانا۔
”ساری عمر کماتے ہی رہتے پھر؟”
”اچھا ہوتا، ساری عمر تمہارا قرض دار رہتا۔ واقعی اچھا ہوتا، تو ایک ارب چاہیے کیا؟”
وہ تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ کہہ رہا تھا۔ امامہ کو کئی سال پہلے والے سالار کی جھلک نظر آئی۔
”کیوں دے رہے ہو؟” اس نے سنجیدگی سے کچھ دیر اسے دیکھ کر کہا۔
”بیوی ہو تم، اس لیے۔”
”اتنے پیسے کہاں سے آئے تمہارے پاس؟”
”امامہ! میری سیونگز ہیں یہ۔” سالار نے بے حد تحمل سے کہا۔
”سیونگز ہیں تو مجھے کیوں دے رہے ہو؟” وہ کچھ خفا ہوئی۔
”میرا دل چاہتا ہے، میں تمہیں دوں۔ اگر یہ پوری دنیا میری ہوتی تو میں یہ ساری دنیا تمہیں دے دیتا۔ میں کما رہا ہوں اور روپیہ آجائے گا میرے پاس۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا” کیا شاہانہ انداز تھا۔
”لیکن اتنی زیادہ رقم۔۔۔۔۔۔” سالار نے اس کی بات کاٹی۔
”میں اتنی زیادہ رقم نہیں دینا چاہتا تھا لیکن تمہاری مرضی کا حق مہر دینا چاہتا تھا، اس لیے تم سے ایک فگر لکھنے کو کہا۔ تمہیں پتا ہے جو فگر تم نے لکھی تھی، اس دن میرے اکاؤنٹ میں ایگزیکٹ اتنی ہی اماؤنٹ تھی۔” وہ اب رقم دہراتے ہوئے ہنس رہا تھا۔
”اب اس کو تم کیا کہو گی اتفاق…؟ مجھے اتفاق نہیں لگا، مجھے لگا وہ رقم میرے پاس تمہاری امانت تھی… یا حق تھا… اس لیے تمہیں دے رہا ہوں۔ تیس لاکھ دیا ہے کچھ رقم کا ادھار کر لیا ہے تم سے… ورنہ اگلے دو تین ماہ اِدھر اُدھر سے مانگ رہا ہوتا۔ اس لیے تم آرام سے رکھو یہ پیسے، مجھے اگر کبھی ضرورت ہوئی تو تم سے مانگ لوں گا۔ اب میں تھوڑا سا کام کر لوں؟”
امامہ نے کچھ نہیں کہا تھا، وہ دروازہ بند کر کے باہر نکل آئی۔ ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھ کر وہ ایک بار پھر اس پے سلپ کو دیکھنے لگی۔ وہ اس شخض کو کبھی نہیں سمجھ سکتی تھی۔ کبھی نہیں… وہ لا ابالی نہیں تھا… کم از کم اتنے دن میں اسے یہ احساس نہیں ہوا تھا… لیکن وہ سمجھ دار بھی نہیں تھا… کم از کم وہ پے سلپ اسے یہی بتا رہی تھی… وہ اگر اسے خوش کرنا چاہتا تھا… تو وہ نہیں ہوئی تھی… احسان مند دیکھنا چاہتا تھا تو ہاں، اس کے کندھے جھکنے لگے تھے… ایسی چاہ اس نے زندگی میں کسی اور شخص سے چاہی تھی… ایسی نوازشات کی طلب اسے کہیں اور سے تھی … اس کے وجود کو گیلی لکڑی وہ پیسہ نہیں بنا رہا تھا، بلکہ وہ فیاضی بنا رہی تھی جو وہ دکھا رہا تھا۔ وہ اس سے برابری چاہ رہی تھی… برابر نہیں ہو پا رہی تھی… اس شخص کا قد لمبا نہیں ہو رہا تھا، بلکہ اس کا اپنا ہی وجود سکڑنے لگا تھا۔
٭٭٭
”امامہ! ہم کل صبح کے بجائے، آج شام کو جا رہے ہیں۔ رات کراچی میں رکیں گے اور پھر کل رات کو ہی واپس آجائیں گے۔ سات بجے کی فلائٹ ہے۔ میں شام ساڑھے پانچ بجے تمہیں پک کروں گا، تم پیکنگ کر لو۔”
اس نے بارہ بجے کے قریب فون کر کے آفس سے کراچی کا نیا پروگرام بتایا تھا۔ وہ یک دم نروس ہونے لی۔ اتنی جلدی پیکنگ، ٹھیک ہے وہ ایک رات کے لیے جا رہے تھے۔ پھر بھی… وہ اب اسے اپنے ان کپڑوں کے بارے میں بتا رہا تھا جو وہ ساتھ لے کر جانا چاہتا تھا۔ وہ پیکنگ کرتے ہوئے بےحد بولائی ہوئی تھی۔
وہ ساڑھے پانچ بجے وہاں موجود تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس نے گاڑی میں روزہ افطار کر لیا ہو گا، لیکن پھر بھی وہ ایک باکس میں اس کے لیے کھانے کی چیزیں اور جوس لے کر آئی تھی۔ ایئرپورٹ تک کی ڈرائیو میں دونوں باتیں کرتے ہوئے ساتھ وہ چیزیں بھی کھاتے رہے۔
وہ ساڑھے چھے بجے ایئر پورٹ پر پہنچے، بورڈنگ شروع ہو چکی تھی۔ وہ فرسٹ کلاس سے سفر کر رہے تھے۔ اسی لیے ٹریفک کی وجہ سے کچھ لیٹ ہونے کے باوجود سالار مطمئن تھا۔
ایگزیکٹو لاؤنج سے جہاز میں سوار ہوتے ہوئے سالار کی فرسٹ کلاس کے کچھ اور پسنجرز سے سلام دعا ہوئی۔ چند ایک سے اس نے امامہ کا بھی تعارف کروایا۔ وہ سب کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھتے تھے یا پھر سالار کے کسٹمرز تھے۔
جہاز کے ٹیک آف کے چند منٹوں کے بعد کسی دوسری کمپنی کا کوئی ایگزیکٹو، سالار سے کوئی معاملہ ڈسکس کرنے کے لیے اس کے پاس آیا۔ چند لمحے اس سے باتیں کرنے کے بعد سالار اس سے معذرت کر کے اس ایگزیکٹو کے ساتھ اس کی سیٹ پر چلا گیا۔ وہ کچھ دیر اس کے انتظار میں بیٹھی رہی، پھر کچھ بور ہو کر اس نے ایک میگزین اٹھا لیا۔
سالار کی واپسی، لیڈنگ کے اعلان کے پانچ منٹ بعد ہوئی۔ وہ ”سوری” کہتا ہوا اس کے پاس بیٹھ کر سیٹ بیلٹ باندھنے لگا۔
”تم بور تو نہیں ہوئیں؟”
نہیں… مجھے تو بہت مزہ آرہا تھا۔” اس نے بے حد خفگی سے جواب دیا۔
اس نے میگزین سے نظریں نہیں ہٹائیں۔ سالار نے بڑے آرام سے اس کے ہاتھ سے میگزین لے کر پاس سے گزرتی ایئر ہوسٹس کو تھما دیا۔ وہ شکریہ اد کرتی ہوئی چلی گئی۔
”یہ بدتمیزی ہے۔” امامہ نے اس کے جانے کے بعد کچھ دبی ہوئی آواز میں احتجاج کیا۔
”ہاں… ہے تو سہی لیکن تم مجھے دیکھ نہیں رہی تھیں۔” اس نے اطمینان اور ڈھٹائی کے ساتھ کہا۔ امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس سے خفا ہو یا ہنسے۔
”جتنی باتیں تم ان لوگوں سے کر رہے تھے، تم نے مجھ سے کبھی نہیں کیں۔”
وہ اس کے شکوے پر ہنسا۔” بینک کے کسٹمرز ہیں۔ یہ ان باتوں کے پیسے دیتے ہیں۔”
اس نے کچھ ملامت بھری نظروں سے سالار کو دیکھا۔ ”تم کتنے materialistic ہو۔”
”ہاں ، وہ تو ہوں۔” اس نے آرام سے جواب دیا۔
”میں بھی دے سکتی ہوں تمہیں پیسے۔” وہ اس کے جملے پر چونکا۔
”ارے، میں تو بھول ہی گیا تھا، فی الحال تو تم مجھ سے زیادہ امیر ہو۔ میرے بینک کی کسٹمر بھی ہو اور میں تمہارا قرض دار بھی ہوں، تو تم سے باتیں کرنا تو فرض ہے میرا۔” وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”بینکرز… ” وہ کچھ کہنے لگی تھی۔ سالار نے بے اختیار اپنا ہاتھ اس کے ہونٹوں پر رکھتے ہوئے اسے روکا اور کہا۔
”میں اپنا ٹرپ خراب نہیں کرنا چاہتا امامہ…! تم سے واپسی پر سنوں گا کہ بینکرز کیسے ہوتے ہیں۔” اس نے یک دم سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
امامہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ اس میں سنجیدہ ہونے والی کیا بات تھی، اس نے سوچا۔ ایئر پورٹ پر ہوٹل کی گاڑی نے انہیں پک کیا تھا۔
”میں نے سوچا تھا کہ ہم انیتا کے گھر پر ٹھہریں گے۔” امامہ نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
”میں کبھی انیتا کے گھر نہیں ٹھہرا، میں ہوٹل میں رہتا ہوں۔” سالار نے اسے بتایا۔ ”کراچی اکثر آتا جاتا ہوں میں۔” وہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے اس سے کہہ رہا تھا۔ ”بعض دفعہ تو یہاں آکر انتیا سے بات تک نہیں ہو پاتی۔”
امامہ نے اس کا چہرہ دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ وہ مسلسل سیل پر کچھ میسجز کرنے میں مصروف تھا۔ وہ ساتھ ساتھ اسے سڑک کے دونوں اطراف آنے والے علاقوں کے بارے میں بھی بتا رہا تھا۔
”پھر مجھے تمہارے ساتھ نہیں آنا چاہیے تھا۔ میری وجہ سے…”
سالار نے نے اس کے اچانک اس طرح کہنے پر اسے ٹوکا۔
”تمہیں ساتھ لے کر آنا مجھے اچھا لگ رہا ہے اور تمہیں انیتا کی فیملی سے ملوانے کے لیے یہاں لے کر تو آنا ہی تھا مجھے۔” امامہ نے اس کا چہرہ غور سے پڑھنے کی کوشش کی۔
”سچ کہہ رہا ہوں۔” اس نے امامہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں میرے ساتھ آنا اچھا نہیں لگا؟” سالار نے یک دم اس سے پوچھا، وہ مسکرا دی۔
”آپ اپنی وائف کے ساتھ پہلی بار یہاں ٹھہر رہے ہیں۔”
ہوٹل میں چیک ان کرتے ہوئے ریسپشن پر موجود لڑکے نے مسکراتے ہوئے سالار سے کہا۔
اس فائیو اسٹار ہوٹل کے چند کمرے مستقل طور پر سالار کے بینک نے بک کیے ہوئے تھے اور ان کمروں میں باقاعدگی سے ٹھہرنے والوں میں سے ایک وہ بھی تھا، لیکن آج وہ پہلی بار اس کی بیوی کو دیکھ رہے تھے۔
سالار نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا اور سائن کرنے لگا۔ وہ لڑکا اب امامہ سے کچھ خوش گوار جملوں کا تبادلہ کر رہا تھا۔ جیسے کوئی آہستہ آہستہ اس کے گرد موجود ساری سلاخیں گرا رہا ہو۔ وہ باہر کی اس دنیا سے مسحور ہو رہی تھی، جس سے وہ سالار کی وجہ سے متعارف ہوئی تھی۔
بیچ لگژری پر انیتا اور اس کی فیملی نے اس کے لیے ڈنر ارینج کر رکھا تھا۔ وہ لوگ آدھے گھنٹے میں تیار ہونے کے بعد تقریباً ساڑھے گیارہ بجے وہاں پہنچے۔ انیتا اور اس کے شوہر کے علاوہ اس کے سسرال کے بھی کچھ لوگ وہاں موجود تھے۔ یہ سالار اور اس کی بیوی کے لیے ایک فیملی ڈنر تھا۔ اس کا استقبال بڑی گرم جوشی سے کیا گیا۔ اس کی گھبراہٹ ابتدائی چند منٹوں کے بعد ختم ہونا شروع ہو گئی۔ وہ کافی لبرل فیملی تھی اور ان دونوں کی شادی کے حوالے سے ہونے والی رسمی گفت گو کے بعد، گفت گو کے موضوعات بدل گئے تھے۔ امامہ چیف گیسٹ تھی لیکن وہاں کسی نے اسے ٹیلی سکوپ کے نیچے نہیں رکھا تھا اور اس چیز نے امامہ کے اعتماد میں اضافہ کیا۔ کھانا ابھی سرو نہیں ہوا تھا۔ وہ ڈرنکس لیتے ہوئے گپ شپ کر رہے تھے۔ امامہ گفت گو میں ایک مسکراتے ہوئے خاموش سامع کا رول ادا کر رہی تھی۔ اس کی زیادہ توجہ بیچ لگژری ویو کے گرد نظر آنے والے سمندر اور شہر کی روشنیوں پر تھی۔ وہ لوگ اوپن ایر میں تھے۔ کراچی میں لاہور جیسی سردی نہیں تھی لیکن یہاں اسے سردی محسوس ہو رہی تھی۔ سالار نے آنے سے پہلے اسے گرم شال لینے کا نہ کہا ہوتا تو یقینا اس وقت اس کے دانت بج رہے ہوتے۔ وہاں موجود تمام خواتین سویٹرز کے بجائے، اسی طرح کی شالیں اپنے کندھوں پر ڈالے ہوئے تھیں۔
”سالار! میں وہاں آگے جا کر نیچے سمندر دیکھنا چاہتی ہوں۔” اس نے ساتھ بیٹھے ہوئے سالار کی طرف جھکتے ہوئے مدھم آواز میں سرگوشی کی۔
”تو جاؤ۔” سالار نے اطمینان سے کہا۔
”میں کیسے جاؤں؟ اس طرح اکیلے… تم ساتھ آؤ میرے۔” اس نے اس کے مشورے پر جزبز ہوتے ہوئے کہا۔
”نہیں، تم خود جاؤ… دیکھو… اور بھی لوگ کھڑے ہیں، تم بھی جا کر دیکھ آؤ۔” سالار نے اس سے کہا۔ وہ اب اس کی گود میں پڑا بیگ اٹھا کر نیچے زمین پر رکھتے ہوئے بلند آواز میں اس سے کہہ رہا تھا۔
امامہ نے کچھ جھجکتے ہوئے اس لمبی ٹیبل کے گرد موجود افراد پر نظر ڈالی، وہ سب گفت گو میں مصروف تھے۔ ان میں سے کوئی بھی ان کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ کچھ ہمت پاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے بائیں طرف بیٹھی انیتا اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
”وہاں سے جا کر دیکھو، وہاں سے زیادہ اچھا ویو ہے۔” انیتا نے اشارے سے اسے گائیڈ کیا۔ امامہ نے سر ہلایا۔
وہاں اس وقت اس کے علاوہ اور بھی کچھ فیملیز موجود تھیں اور سالار ٹھیک کہہ رہا تھا۔ کوئی نہ کوئی وقتاً فوقتاً اٹھ کر اسی طرح اس عرشہ نما جگہ کے کنارے کھڑے ہو کر سمندر کو دیکھنے لگتا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے نروس تھی لیکن پھر وہ نارمل ہونا شروع ہو گئی۔
سالار وہیں بیٹھا کولڈ ڈرنک پیتے اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ امامہ نے دوبارہ پلٹ کر کچھ نروس ہو کر اسے دیکھا تھا۔ وہ دونوں بار مسکرا دیا۔ یہ نو سال پہلے کی وہ پر اعتماد لڑکی نہیں تھی جو آدھی رات کو اپنے گھر کی دیوار کود کر اس کے کمرے میں آگئی تھی۔ اس سے شادی کی تھی، پھر گھر سے چلی گئی تھی۔
وہ وسیم کی اس بہن کے بارے میں وسیم سے بہت کچھ سن چکا تھا لیکن پچھلے دس دنوں سے وہ جس لڑکی کو دیکھ رہا تھا، یہ وہ لڑکی نہیں تھی۔ وقت نے جتنی توڑ پھوڑ اس کی زندگی میں پیدا کی تھی اس سے زیادہ توڑ پھوڑ اس نے عرشے کی طرف جاتی ہوئی اس لڑکی کی زندگی میں پیدا کی تھی۔ اس کی انداز و اطوار ہی تبدیل ہو گئے تھے۔ نو سال اگر کسی شخص کو اس کے گھر والوں سے الگ کر دیا جائے، خوف اور دباؤ کے ساتھ چند جگہوں تک محدود کر کے باقی دنیا سے کاٹ دیا جائے تو وہ کس حد تک کنفیوزڈ، ڈبل مائنڈ، غیر محفوظ اور ڈیپنڈنٹ ہو سکتا ہے۔ وہ اس کا عملی مظاہرہ امامہ کی اس حالت میں دیکھ رہا تھا اور یہ چیز اسے تکلیف پہنچا رہی تھی۔ وہ کم از کم اسے اس حالت میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
”سالار… سالار…” وہ انیتا کی آواز پر بے اختیار چونکا۔ اس نے پوری قوت سے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا تھا۔
”یا تو اسے وہاں بھیجتے نہ، اب بھیج ہی دیا ہے تو دو چار منٹوں کے لیے کسی اور چیز کو بھی دیکھ لو۔” وہ اب اسے ڈانٹ رہی تھی۔ وہ مسکرا کر سیدھا ہو گیا۔ اس کا بہنوئی غفران اس سے کچھ پوچھ رہا تھا۔
ہوا امامہ کے بالوں کو بکھیر رہی تھی۔ وہ انہیں بار بار کانوں کے پیچھے کر کے سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن انہیں کھلا چھوڑ کر آنے پر پچھتا بھی رہی تھی۔ اس تیز ہوا میں وہ شیفون کے دوپٹے کو سر پر ٹکانے کی کوشش چھوڑ چکی تھی، ہاں وہ پشمینہ شآل اس کی مہین شیفون کی قمیص کو اڑنے سے تو روک نہیں پا رہی تھی لیکن اس کے جسم کو اچھی طرح ڈھانپے رکھنے میں مؤثر تھی۔ وہ کئی سالوں میں آج پہلی بار کسی پبلک پلیس پر سر ڈھانپے بغیر کھڑی تھی۔ اسے بے حد عجیب لگ رہا تھا۔ اگر وہ سالار کے ساتھ نہ ہوتی تو کبھی بھی ایسی حالت میں کسی کھلی جگہ پر کھڑے ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ دس دن پہلے تک تو وہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے اپنا چہرہ بھی چھپاتی تھی۔ وہ واحد گیٹ اپ تھا جس میں وہ خود کو بے حد محفوظ سمجھتی تھی۔ سالار سے شادی کے بعد اس نے چہرہ چھپانا چھوڑ دیا تھا اور اب اس کے ساتھ خود کو محفوظ سمجھتی تھی۔
تاریک سمندر میں نظر آتی روشنیوں کے عکس کو دیکھتے ہوئے اس نے ایک بار پھر گردن کے گرد لپٹے دوپٹے کو سر پر لینے کی کوشش کی۔ یہاں اس کی کوشش کو نوٹس کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ یہ کام اس ہوا میں شال، دوپٹے اور کھلے بالوں کے ساتھ آسان نہیں تھا۔
”میں بال سمیٹ دوں تمہارے؟” وہ جیسے کرنٹ کھا کر پلٹی، پھر جیسے اطمینان کا سانس لیا۔
”تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔” اس نے سالار کو اپنے عقب میں دیکھ کر بے اختیار کہا۔ وہ کس وقت آیا تھا، اسے پتا ہی نہیں چلا تھا۔
”تم میرا دوپٹا پکڑو گے؟” اس نے سالار کی اوٹ میں آتے ہوئے اپنا دوپٹا اسے پکڑا دیا۔ وہ اب وہاں کھڑی دوسروں کو نظر نہیں آرہی تھی۔
”تمہیں مجھ کو بتانا چاہیے تھا کہ یہاں اتنی تیز ہوا ہو گی، میں بال تو کھلے چھوڑ کر نہ آتی۔” وہ اپنے بالوں کو ڈھیلے جوڑے کی شکل میں لپیٹتے ہوئے اس سے شکایتی انداز میں کہہ رہی تھی۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ اب اپنی شال اتار کر اسے دیتے ہوئے، دوپٹا اس سے لے رہی تھی۔
”یہ کون سا کلر ہے؟” وہ دوپٹے کو اپنے سر اور گردن کے گرد لپیٹتے ہوئے اس کے سوال پر ٹھٹکی۔
”کرمزن…کیوں؟”
سالار نے شال اس کے کندھوں کے گرد لپیٹتے ہوئے کہا۔ ”میں تمہیں بتانا چاہتا تھا، تم اس کلر میں بہت اچھی لگتی ہو۔” اس نے اس کے بائیں گال کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے بہت آہستہ سے چھوا تھا۔
امامہ کی آنکھوں میں حیرت امڈ آئی۔ اگلے لمحے سالار کو یہ طے کرنا مشکل ہو گیا کہ اس کا لباس زیادہ قرمزی تھا یا اس کا چہرہ، وہ بے اختیار گہرا سانس لے کر رہ گیا۔
”اب تم اتنی سی بات پر بھی یوں بلش ہوا کرو گی تو معاملہ جان لیوا ہو جائے گا۔ مار دو گی تم بڑی جلدی مجھے۔” وہ کھلکھلا کر ہنسی۔
وہ تقریباً اڑھائی بجے واپس اپنے ہوٹل میں آئے تھے۔ امامہ کو اتنی نیند آرہی تھی کہ اس نے جیولری اتار دی چہرہ بھی دھو لیا لیکن کپڑے تبدیل کیے بغیر سو گئی تھی۔
٭٭٭٭
سالار صبح کب آفس کے لیے نکلا، امامہ کو پتا ہی نہیں چلا۔ وہ تقریباً دس بجے اٹھی۔ جب تک وہ اپنا سامان پیک کر کے تیار ہوئی، تب تک انیتا اسے لینے کے لیے آ چکی تھی۔
وہ لوگ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے ہوٹل سے چیک آؤٹ کر کے نکلے اس کے بعد وہ انیتا کے ساتھ کراچی کے مختلف مالز میں گھومتی پھرتی رہی۔ انتیا نے اسے سالار کے دیے ہوئے کریڈٹ کارڈ کو استعمال کرنے ہی نہیں دیا۔ اس دن وہی اس کو شاپنگ کرواتی رہی۔
شاپنگ کے بعد انیتا اسے اپنے گھر لے گئی، اس نے وہاں افطار کیا۔ ساڑھے سات بجے وہ گھر سے ایر پورٹ کے لیے نکلی اور اسی وقت سالار سے اس کی فون پر بات ہوئی۔ وہ بھی ایر پورٹ کی طرف جا رہا تھا۔
وہ سالار کی نسبت جلدی ایر پورٹ پہنچی۔ بورڈنگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ ایگزیکٹو لاؤنج میں پہنچتے ہی ایک بار پھر وہ کسی نہ کسی سے ہیلو ہائے کرنے لگا۔ یہ وہ فلائٹ تھی جس سے وہ عام طور پر کراچی سے واپس آیا کرتا تھا اور اس کی طرح باقی لوگ بھی ریگولر ٹریولر تھے لیکن وہ اس وقت اتنی خوش تھی کہ اس نے سالار کی توجہ کسی اور طرف ہونے پر بھی اعتراض نہیں کیا۔
وہ خوش تھی، یہ اس کے چہرے پر لکھا تھا اور سالار کو اس کی یہ خوشی حیران کر رہی تھی۔
”یہ تمہارا کریڈٹ کارڈ اور پیسے۔”
اس نے لاؤنج میں بیٹھنے کے کچھ دیر بعد ہی اپنے بیگ سے دونوں چیزیں نکال کر سالار کو تھما دیں۔
”انیتا نے مجھے بل پے کرنے نہیں دیے۔ اسی نے سارے بلز دیے ہیں۔ تم اسے پے کر دینا۔” امامہ نے اسے بتایا۔
”کیوں؟ کوئی بات نہیں اگر اس نے پے کیے ہیں۔ اسے ہی کرنے چاہیے تھے۔”
سالار نے کریڈٹ کارڈ اپنے والٹ میں رکھتے ہوئے کہا۔ ہاتھ میں پکڑے ہوئے پیسے اس نے واپس امامہ کے بیگ میں ڈال دیے تھے۔
”لیکن ہم نے تو اسے یا اس کی فیملی کو کچھ بھی…”
سالار نے اس کی بات کاٹی۔ ”تم نیکسٹ ٹائم آؤ گی تو لے آنا کچھ اس کے لیے۔ دو چار ہفتے تک وہ ویسے بھی اپنے نئے گھر میں شفٹ ہو رہی ہے۔ تو تمہیں اچھا لگا کراچی آکر…؟” سالار نے موضوع بدلا۔
امامہ کا چہرہ ایک بار پھر چمکنے لگا… وہ اسے ان جگہوں کے بارے میں بتا رہی تھی جہاں وہ انیتا کے ساتھ گئی تھی۔ سالار مسکراتے ہوئے اسے سنتا رہا۔ وہ بچوں جیسے جوش و خروش کے ساتھ اپنی شاپنگ کی تفصیل بتا رہی تھی۔
”میں نے ابو، آنٹی اور سعیدہ اماں کے لیے بھی کچھ گفٹس لیے ہیں۔” وہ بتا رہی تھی۔
”اچھا!” سالار نے دل چسپی لی لیکن گفٹس کی نوعیت نہیں پوچھی۔
”فرقان بھائی کی فیملی اور تمہارے پیرنٹس کے لیے بھی۔”
”امامہ! صرف میرے پیرنٹس نہیں ہیں وہ، تمہارا بھی کوئی رشتہ ہے ان سے۔” سالار نے اعتراض کیا۔
وہ اب بھی اس کے ماں باپ کا ذکر اسی طرح کرتی تھی۔ اس وقت یک دم امامہ کو احساس ہوا کہ اس نے سالار کے لیی کچھ بھی نہیں خریدا۔ یہ بھول تھی یا لاپروائی، لیکن اسے شاپنگ کے دوران سالار کا خیال تک نہیں آیا۔ اسے بے حد ندامت ہوئی۔
”کیا ہوا؟” سالار نے اسے خاموش دیکھ کر پوچھا۔
وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے کچھ شرمندگی سے کہا۔
”سالار! مجھے تمہارے لیے کچھ خریدنا یاد نہیں رہا۔”
”کوئی بات نہیں، تم نے اپنے لیے شاپنگ کی ہے تو سمجھو، تم نے میرے لیے ہی خریدا ہے۔” سالار نے اسی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا کندھا تھپک کر جیسے تسلی دی۔
پھر بھی مجھے تمہارے لیے کچھ لینا چاہیے تھا۔” امامہ مطمئن نہیں ہوئی۔ ”لیکن مجھے تمہارا خیال ہی نہیں آیا۔”
اس کا محبوب ظالم تھا، وہ جانتا تھا۔ ”کوئی بات نہیں، جب خیال نہیں آیا تو کیسا تحفہ…؟ تحفہ تو ان کو دیا جاتا ہے جن کا خیال آتا ہو۔” سالار کے لہجے میں گلہ نہیں تھا لیکن امامہ کو گلہ لگا۔ وہ نادم سی ہو کر خاموش بیٹھ گئی۔
”اور کیا کیا لیا؟” اس کی ندامت محسوس کرتے ہوئے سالار نے دوبارہ اس سے بات شروع کی۔
”مجھے انیتا اچھی لگی ہے۔” امامہ نے اس کا سوال نظر انداز کیا۔
”چلو اچھا ہے، کوئی تو اچھا لگا تمہیں۔ میں نہ سہی، میری بہن ہی سہی۔”
امامہ نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا۔ سالار کی آنکھوں میں مسکراہٹ تھی، وہ سنجیدہ نہیں تھا۔ وہ مطمئن ہو گئی۔
”اور پتا ہے میں نے کیا کیا لیا ہے؟” وہ پھر بولنے لگی۔
سالار بے اختیار مسکرایا۔ اگر اسے، اس سے اپنے لیے کسی اظہار کی توقع تھی، تو غلط تھی۔
٭٭٭٭
اگلے دو دن امامہ بہت اچھے موڈ میں رہی، اسے ہر بات پر کراچی یاد آجاتا۔ اس کی یہ خوشی سالار کو حیران کرتی رہی۔ اس کا خیال تھا اسے وہ شہر پسند آیا ہے لیکن اسے یہ اندازہ نہیں ہوا کہ بات شہر کی نہیں تھی، وہ اگر امامہ کو نواب شاہ بھی لے جاتا تو بھی وہ اسی ٹرانس میں واپس آتی۔ وہ کھلی فضا میں سانس لینے کے قابل ہو رہی تھی اور ایک لمبے عرصے کے بعد گھٹی ہوئی سانسوں کے ساتھ جینے کے بعد کچھ دیر تک تو انسان ایسے ہی گہرے سانس لیتا ہے، جیسے وہ لے رہی تھی۔
اگلے دن وہ لوگ ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے۔ وہ سالار کے ساتھ خوش تھی، یہ بات اس کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی البتہ سعیدہ اماں نے پھر بھی کچھ احتیاطی تدابیر کے تحت سالار کو سامنے والوں کے لڑکے کی آمنہ کے لیے دیوانہ وار محبت کا ایک اور قصہ سنانا ضروری سمجھا، جسے سالار نے بے حد تحمل سے سنا۔ اس بار امامہ نے دوران گفت گو سعیدہ کو ٹوکنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام رہی، سعیدہ اماں کا خیال تھا، سالار کو ایک اچھا، تابع دار شوہر بنانے کے لیے اس طرح کے لیکچرز ضروری ہیں۔ خاص طور پر اس صورت میں جب وہ ماضی میں کسی عورت کے ساتھ وابستہ رہ چکا ہو، امامہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب وہ سعیدہ اماں کو اپنے اور سالار کے تعلق کے بارے میں کیسے بتائے، اسے خدشہ تھا کہ اس انکشاف کے بعد سعیدہ اماں خود اس سے ہی ناراض نہ ہو جائیں۔ اسے فی الحال اس صورت حال سے نکلنے کا کوئی طریقہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
٭٭٭٭
اسلام آباد جانا ضروری ہے؟”
وہ جمعہ کی رات ایک بار پھر سوچ میں پڑ گئی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ وہاں جانا نہیں چاہتی تھی، وہ جانا چاہتی تھی لیکن ساتھ ہی وہ ایک عجیب سے خوف کا شکار بھی تھی۔
”بہت زیادہ ضروری ہے۔” سالار بیڈ پر بیٹھا اپنے لیپ ٹاپ پر ای میل چیک کرنے میں مصروف تھا۔
”تمہیں کیا کام ہے وہاں؟” امامہ نے ہاتھ میں پکڑا ناول بند کرتے ہوئے کہا۔ وہ کہنی کے بل ٹیک لگائے اس کی طرف کروٹ لیتے ہوئے، اسے دیکھنے لگی۔
”مجھے گاؤں جانا ہے۔” وہ اسکرین پر نظریں جمائے اپنا کام کرتے ہوئے بولا۔
”کون سے گاؤں؟” وہ چونکی۔
”اسلام آباد سے دو گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے۔” اس نے نام بتاتے ہوئے کہا۔ ”میں وہاں ایک اسکول اور چند دوسرے پروجیکٹس چلا رہا ہوں۔ اسکول کی بلڈنگ میں کچھ ایکس ٹینشن ہو رہی ہے، اسی کو دیکھنے جانا ہے مجھے۔ جانا تو لاسٹ ویک تھا لیکن جا نہیں سکا۔”
وہ الجھی نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔ اس کی طویل خاموشی اور خود پر جمی نظروں کو محسوس کرتے ہوئے سالار نے اسے دیکھا۔ امامہ سے نظریں ملنے پر اس نے کہا۔
”تم ساتھ چلنا اور دیکھ لینا۔” وہ دوبارہ اسکرین پر دیکھنے لگا۔
”تم اکیلے چلے جاؤ۔” امامہ نے کہا۔
”میں تو تمہارے ساتھ ہی جاؤں گا۔” اس نے اصرار کیا۔
”ویسے بھی پاپا نے کہا ہے آنے کے لیے… ہاں، اگر تم گاؤں نہیں جانا چاہتیں تو مت جاؤ لیکن اسلام آباد تو چلنا ہے تمہیں۔” سالار نے جیسے قطعی انداز میں کہا۔
امامہ نے دوبارہ تکیے پر سر رکھتے ہوئے کچھ خفگی کے عالم میں ناول کھول دیا۔
”کیا اسٹوری ہے اس ناول کی؟”
سالار کو اس کے بگڑتے ہوئے موڈ کا اندازہ ہو رہا تھا۔ امامہ نے جواب نہیں دیا۔
”ہیرو، ہیروئن کے کپڑوں کی زیادہ تعریف کرتا ہے اس میں یا خوب صورتی کی؟” وہ اب اسے چھیڑ رہا تھا۔
امامہ نے اسے نظر انداز کیا۔ یہ اتفاق تھا کہ جو صفحہ وہ پڑھ رہی تھی اس میں ہیرو، ہیروئن کی خوب صورتی ہی کی تعریف کر رہا تھا۔ امامہ کو ہنسی آگئی تھی۔ ناول سے اپنا چہرہ چھپاتے ہوئے اس نے دوسری طرف کروٹ لے لی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس کے تاثرات دیکھے۔ سالار نے اسے ہنستے ہوئے نہیں دیکھا، وہ اپنے کام میں مصروف تھا۔
٭٭٭٭
”خواتین و حضرات توجہ فرمایئے، ہم اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر لینڈ کر چکے ہیں۔ اس وقت یہاں شام کے سات بج رہے ہیں اور یہاں کا درجہ حرارت…”
جہاز کے کیبن عملہ میں سے کوئی انگلش کے بعد اب اردو میں رسمی الوداعی کلمات دہرا رہا تھا۔ جہاز ٹیکسی کرتے ہوئے ٹرمینل کے سامنے جا رہا تھا۔ بزنس کلاس کی ایک سیٹ پر بیٹھے سالار نے اپنا سیل فون آن کرتے ہوئے اپنی سیفٹی بیلٹ کھولی۔ امامہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے گم صم تھی۔
”کہاں گم ہو؟” اس نے امامہ کا کندھا تھپکا۔
اس نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر اپنی سیفٹی بیلٹ کھولنے لگی۔ سالار اب لیگج کمپارٹمنٹ سے اپنے بیگز نکال رہا تھا۔ ایک فلائٹ اسٹیورڈ نے اس کی مدد کی۔ دونوں کے درمیان چند خوش گوار جملوں کا تبادلہ ہوا۔
وہ اس فلائٹ پر آنے والے ریگولر پیسنجرز میں سے ایک تھا اور فلائٹ کا عملہ اسے پہچانتا تھا۔
جہاز کی سیڑھیوں کی طرف جانے سے پہلے سالار نے مڑ کر اس سے کہا۔
”تمہیں کوئی کوٹ وغیرہ لے کر آنا چاہیے تھا، سویٹر میں سردی لگے گی تمہیں۔”
”یہ تمہارا ہی نہیں، میرا بھی شہر ہے۔ میں پیدا ہوئی ہوں یہاں، بیس سال گزارے ہیں میں نے یہاں۔ مجھے پتا ہے، کتنی سردی ہوتی ہے، یہ سویٹر کافی ہے۔ ” امامہ نے بڑے جتانے والے انداز میں اس سے کہا۔ وہ استہزائیہ انداز میں مسکرایا۔
جہاز کی سیڑھیوں سے باہر آتے ہی سرد ہوا کے پہلے جھونکے نے ہی اسے احساس دلا دیا کہ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ اسے اپنے دانت بجتے ہوئے محسوس ہوئے۔ سالار نے کچھ کہے بغیر اپنے بازو پر پڑی جیکٹ اس کی طرف بڑھائی۔ اس نے بری فرماں برداری سے کچھ نادم ہو کر جیک پہن لی۔ اسلام آباد بدل گیا تھا۔ اس نے خجل ہو کر سوچا۔ ارائیول لاؤنج کی ایگزٹ کی طرف بڑھتے ہوئے سالار چند لمحوں کے لیے ٹھٹکا۔
”ایک بات میں تمہیں بتانا بھول گیا امامہ…” اس نے بڑی معصومیت سے کہا۔
”کیا بات ہے؟” وہ مسکرائی۔
”پاپا کو یہ پتا نہیں ہے کہ ہم آج اسلام آباد آرہے ہیں۔” امامہ کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔
سالار نے اسے رکتے دیکھا تو وہ بھی رک گیا۔ وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ سالار نے اپنے جکندھے پر اس کے بیگ کی بیلٹ ٹھیک کی۔ شاید ٹائمنگ غلط ہو گئی، ٹیکسی میں بتانا زیادہ بہتر تھا اور اب اگر اس نے یہاں سے جانے سے انکار کر دیا تو… وہ دل ہی دل میں فکر مند ہوا۔
وہ پلکیں جھپکے بغیر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہی تھی۔ وہ بھی اسی طرح دیکھتا رہا۔ یہ ڈھٹائی تھی لیکن اب وہ اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ اس نے بالآخر امامہ کی آنکھوں کی بے یقینی کو غصے میں بدلتے دیکھا، پھر اس کا چہرہ سرخ ہونے لگا تھا۔ وہ مسلسل دو ہفتوں سے اسے سکن ندر عثمان کے اسلام آباد بلانے کا کہہ رہا تھا۔ یہ سکندر عثمان کا بلاوا نہ ہوتا تو وہ صرف سالار کے کہنے پر تو کبھی وہاں نہ جاتی اور اب وہ کہہ رہا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا۔ سکندر عثمان کے نہ بلانے کے باوجود وہاں جانے کا کیا مطلب تھا، اس کا اندازہ وہ کر سکتی تھی اور اس وقت وہ بری طرح پریشان ہوئی تھی۔ ایک لمحے کے لیے تو اس کا دل چاہا تھا کہ وہ لاؤنج سے باہر نکلنے سے ہی انکار کر دے۔ اسے سالار پر شدید غصہ آرہا تھا۔
”سوری!” سالار نے اطمینان سے کہا۔
وہ چند لمحے مزید اسے دیکھتی رہی پھر اس نے ارد گرد یکھا، پھر سالارنے اسے جیک اتارتے ہوئے دیکھا۔ وہ وہاں کھڑی بے بسی کے عالم میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ سالار کو اندازہ تھا کہ وہ یہی کر سکتی ہے۔ اس نے جیکٹ اتار کر تقریباً پھینکنے والے انداز میں سالار کو دی۔
”تھینک یو۔” سالار نے جیکٹ سنبھالتے ہوئے کہا۔
اس نے شکر ادا کیا کہ جیکٹ اس نے اس کے منہ پر نہیں دے ماری۔ وہ اب بے حد غصے میں ایگزٹ ڈور کی طرف جا رہی تھی۔ سالار کو حیرت ہوئی اس نے اس سے اپنا بیگ کیوں نہیں لیا تھا۔ اصولی طور پر یہ اس کا دوسرا ردعمل ہونا چاہیے تھا۔
”میرا بیگ دو۔” ایگزٹ ڈور سے نکلنے سے پہلے ہی امامہ نے پلٹ کر تقریباً غراتے ہوئے، اس سے کہا تھا۔ سالار نے آرام سے بیگ اسے پکڑا دیا۔
ٹیکسی میں بیٹھنے تک دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔ وہ پورا راستہ کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی، سالار نے بھی اسے مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس وقت غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اسے مخاطب نہ کرنا مناسب تھا۔ وہ اب گھر پر سکندر عثمان اور طیبہ کے ردعمل کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اگلی بجلی ان پر گرنے والی تھی۔
٭٭٭٭
گاڑی ان کے گھر کی بائی روڈ کا موڑ مڑ رہی تھی۔ امامہ کو اپنا پور اجسم سرد ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ یہ سردی نہیں تھی، یہ خوف بھی نہیں تھا، یہ کچھ اور تھا۔ وہ نو سال کے بعد اپنے گھر کو، اس سڑک کو اور اس موڑ کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے ہونٹ کپکپانے لگے تھے، آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔ سالار سے ساری ناراضی، سارا غصہ جیسے دھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہو رہا تھا۔ خوشی تھی، کیا تھا جو وہ گاڑی کو اپنے گھر کی طرف بڑھتے دیکھ کر محسوس کر رہی تھی۔ اس کے گھر کا گیٹ سالار کے گھر کے گیٹ سے کچھ فاصلے پر تھا اور وہ صرف یہ اندازہ کر پائی تھی کہ گیٹ بند تھا، گھر کی بیرونی لائٹس آن تھیں۔
گاڑی کے ہارن پر گارڈ نے باہر دیکھا پھر اس نے گارڈ روم سے باہر نکل کر گیٹ کھول دیا۔ سالار تب تک اس کے ساتھ گاڑی سے نکل کر ڈگی سے بیگز نکال رہا تھا۔ امامہ نے اس بار اپنا بیگ خود تھامنے پر اصرار نہیں کیا تھا۔
گارڈ نے سامان لینے کی کوشش نہیں کی۔ سالار اپنے سامان خود اٹھانے کا عادی تھا لیکن اس نے سالار کے ساتھ آنے والی اس لڑکی کو بڑی حیرت اور دل چسپی سے دیکھا تھا، جو گیٹ سے گھر کے اندر آنے تک ان ہمسایوں کے گھر کو دیوانہ وار دیکھتی آرہی تھی جن کے ساتھ سکندر عثمان کا میل ملاپ بند تھا۔
دھند کے باوجود امامہ نے گھر کی بالائی منزل کے کچھ بیڈ رومز کی کھڑکیوں سے آتی روشنی کو دیکھ لیا تھا۔ اس کے اپنے بیڈ روم میں بھی روشنی تھی۔ اب وہاں کوئی اور رہتا ہو گا… وسیم… یا سعد… یا اس کا کوئی بھتیجا یا بھتیجی… اس نے آنکھوں میں امڈتے سیلاب کو صاف کرتے ہوئے ان کھڑکیوں میں جیسے کسی سائے، کسی ہیولے کو ڈھونڈنے کی سعی کی۔
”اندر چلیں…؟” اس نے اپنے بازو پر اس کے ہاتھ کی نرم گرفت محسوس کی۔ امامہ نے آنکھیں رگڑتے ہوئے سر ہلایا اور قدم آگے بڑھا دیے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ وہ رو رہی ہے لیکن اس نے اسے رونے سے روکا نہیں تھا١، اس نے بس اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میںلے لیا تھا۔
سکندر عثمان اس وقت لاؤنج میں فون پر کسی دوست کے ساتھ خوش گپیاں کرتے ہوئے طیبہ کا انتظار کر رہے تھے جو اپنے بیڈروم میں کوئی چیز لینے کے لیے گئی تھیں۔ اگر سکندر کو آفس سے آنے میں دیر نہ ہو گئی ہوتی تو، وہ دونوں اس وقت کسی افطار ڈنر میں جا چکے ہوتے۔
لاؤنج میں سالار اور امامہ کا سامنا سب سے پہلے انہیں سے ہوا تھا۔ کسی بھوت کو دیکھ کر سکندر عثمان کا وہ حال نہ ہوتا، جو اس وقت ان دونوں کو دیکھ کر ان کا ہوا تھا۔ وہ فون پر بات کرنا بھول گئے تھے۔
”جبار! میں بعد میں فون کرتا ہوں تمہیں۔” انہوں نے کھڑے ہوتے ہوئے اپنے دوست سے کہا اور سیل بند کر دیا۔ غصہ بے حد معمولی لفظ تھا جو انہوں نے اس وقت سالار کے لیے محسوس کیا۔ وہ لاہور میں اس الو کے پٹھے کو نہ صرف اسلام آباد امامہ کے ساتھ نہ آنے کی تاکید کر کے آئے تھے، بلکہ پچھلے کئی دن سے مسلسل فون پر ہر بار بات کرنے کے دوران یہ بات دہرانا نہیں بھولے اور وہ ہر بار فرماں برداری سے ”اوکے” کہتا رہا۔ نہ یہ فرماں برداری ان سے ہضم ہوئی تھی، نہ اتنا سیدھا اوکے۔ ان کی چھٹی حس اس کے بارے میں سگنل دے رہی تھی۔ وہ پچھلے کئی سالوں میںبہت بدل گیا تھا، بے حد فرماں بردار ہو گیا تھا۔ اس کے سامنے سر جھکائے بیٹھا رہتا تھا، بہت کم ان کی کسی بات سے اختلاف کرتا یا اعتراض کرتا لیکن وہ ”سالار سکندر” تھا ان کی وہ ”چوتھی اولاد” جس کے بارے میں وہ سوتے میں بھی محتاط رہتے تھے۔
صرف سالار ہی نہیں، بلکہ امامہ نے بھی سکندر عثمان کے چہرے کے بدلتے ہوئے تاثرات کو دور ہی سے بھانپ لیا تھا۔
”ڈونٹ وری… پاپا مجھے کچھ ذلیل کریں گے لیکن تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔” دور سے اپنی طرف آتے، سکندر کی طرف جاتے ہوئے، و ہ خود سے چند قدم پیچھے چلتی امامہ کی طرف دیکھے بغیر بے حد مدھم آواز میں بڑبڑایا تھا۔
امامہ نے سر اٹھا کر اپنے ”شوہر” کا ”اطمینان” دیکھا، پھر تقریباً دس میٹر کے فاصلے پر آتے اپنے ”سسر” کا ”انداز۔” فوری طور پر اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے اس وقت کیا کرنا چاہیے۔ وہ یہ سوچ کر زیادہ خوف زیادہ ہوئی تھی کہ سکندر عثمان، سالار کی انسلٹ کرنے والے تھے۔
”السلام علیکم پاپا!” اپنے ہاتھ میں پکڑے بیگز رکھتے ہوئے اس نے پاس آتے ہوئے سکندر عثمان سے ہمیشہ کی طرح یوں گلے ملنے کی کوشش کی تھی جیسے وہ ان کی دعوت اور ہدایت پر وہاں آیا ہے۔
سکندر عثمان نے خشمگیں نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اس کا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا۔
”تمہیں منع کیا تھا نا؟”
”جی۔” سالار نے بے حد تابع داری سے اس سوال کا جواب دیا۔
سکندر عثمان کا دل چاہا کہ وہ اس کا گلا دبا دیں۔
”کیسے آئے ہو؟” چند لمحوں کے بعد انہوں نے اس سے اگلا سوال کیا۔
”ٹیکسی پر۔” جواب کھٹاک سے آیا تھا۔
”ٹیکسی اندر لائے تھے؟”
”نہیں گیٹ پر ہی اترے ہیں۔” وہ نظریں جھکائے بے حد سعادت مندی سے کہہ رہا تھا۔
”تو سسرال والوں کو بھی سلام کر آتے۔” وہ اس بار چپ رہا۔ جانتا تھا، نہ یہ سوال ہے نہ مشورہ۔
”بیٹا! آپ کیسی ہیں؟” اسے قہر آلود نظروں سے گھورتے ہوئے وہ اب امامہ کی طرف بڑھ آئے تھے۔ ان کا لہجہ اب بدل گیا تھا۔ وہ بری طرح گھبرائی ہوئی باپ بیٹے کے درمیان ہونے والی گفت گو سن رہی تھی اور سکندر کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر اس کا رنگ فق ہو گیا تھا۔ وہ سکندر کے سوال کا فوری طور پر جواب نہیں دے سکی۔
”سفر ٹھیک رہا؟” انہوں نے اسے اپنے ساتھے لگاتے ہوئے بے حد شفقت سے پوچھا تھا۔ ”اور طبیعت ٹھیک ہے، چہرہ کیوں اتنا سرخ ہو رہا ہے؟”
سکندر نے بھی اس کی آنکھوں کی نمی اور پریشانی کو محسوس کیا تھا۔
”جی… وہ جی… ” وہ اٹکی۔
”سردی کی وجہ سے… السلام علیکم! ممی… کیسی ہیں آپ؟” سالار نے بیگ دوبارہ کھینچتے ہوئے پہلا جملہ سکندر سے کہا اور دوسرا دور سے آتی ہوئی طیبہ کو دیکھ کر جو اسے دیکھ کر جیسے کراہی تھیں۔
”سالار! کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی، کچھ تو احساس کیا کرو۔” وہ اب ان سے گلے مل رہا تھا۔
طیبہ! امامہ کو چائے کے ساتھ کوئی میڈیسن دیں اور اب اس ڈنر کو رہنے ہی دیں۔” سکندر اسے ساتھ لاتے ہوئے اب طیبہ سے کہہ رہے تھے۔ طیبہ اب سالار کو ایک طرف کرتے ہوئے اس کی طرف بڑھ آئیں۔
”کیا ہوا امامہ کو؟”
”کچھ نہیں … میں… ٹھیک ہوں” اس نے مدافعانہ انداز میں طیبہ سے ملتے ہوئے کہا۔
”آپ لوگ ڈنر پر جائیں،ہماری پروانہ کریں۔ ہم لوگ کھا لیں گے جو بھی گھر میں ہے۔” سالار نے سکندر سے کہا۔ اسے اندازہ تھا کہ وہ اس وقت کہیں انوائٹڈ ہیں، یقینا گھر میں اس وقت ڈنر کی کوئی تیاری نہیں کی گئی ہو گی۔
سکندر نے اس کی بات سننے کی زحمت نہیں کی۔ انہوں نے پہلے انٹرکام پر گارڈز کو سیکیورٹی کے حوالے سے کچھ ہدایات کیں، اس کے بعد ڈرائیور کو کسی قریبی ریسٹورنٹ سے کھانے کی کچھ ڈشز لکھوائیں اور خانساماں کو چائے کے لیے بلوایا۔
”پلیز پاپا! آپ ہماری وجہ اپنا پروگرام کینسل نہ کریں، آپ جائیں۔” سالار نے سکندر عثمان سے کہا۔
”تاکہ تم پیچھے سے ہمارے لیے کوئی اور مصیبت کھڑی کر دو۔”
وہ سکندر کے جملے پر ہنس پڑا۔ اس کی ہنسی نے سکندر کو کچھ اور برہم کیا۔ امامہ اگر اس کے پاس نہ بیٹھی ہوتی تو سکندر عثمان اس وقت اس کی طبیعت اچھی طرح صاف کر دیتے۔
”جب میں نے تم دونوں سے کہا تھا کہ فی الحال یہاں مت آنا تو پھر… امامہ! کم از کم تمہیں اسے سمجھنا چاہیے تھا۔”
سکندر نے اس بار امامہ سے کہا تھا جو پہلے ہی بے حد شرمندگی اور حواس باختگی کا شکار ہو رہی تھی۔
”پاپا! امامہ تو مجھے منع کر رہی تھی، میں زبردستی لایا ہوں اسے۔” امامہ کی کسی وضاحت سے پہلے ہی سالار نے کہا۔
سکندر نے بے حد خشمگیں نظروں سے اسے دیکھا۔ ان کی اولاد میں سے کسی نے آج ان کے منہ پر بیٹھ کر اتنے فخریہ انداز میں ان کی بات نہ ماننے کا اعلان نہیں کیا تھا۔
سالار نے مزید کچھ کہنے کے بہ جائے انہوں نے ملازم سے سامان ان کے کمرے میں رکھنے کے لیا کہا۔ اس سارے معاملے پر سالار سے سنجیدگی سے بات کرنا ضروری تھا، لیکن اکیلے میں۔
سالار کے کمرے میں آتے ہی امامہ مقناطیس کی طرح کھڑکی کی طرف گئی تھی اور پھر جیسے سحر زدہ سی کھڑکی کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔ وہاں سے اس کا گھر کا بایاں حصہ نظر آرہا تھا۔ اس کے گھر کا اوپر والا حصہ… اس کے کمرے کی کھڑکیاں… وسیم کے کمرے کی کھڑکیاں… دونوں کمروں میں روشنی تھی لیکن دونوں کھڑکیوں کے پردے گرے ہوئے تھے۔ کوئی ان پردوں کو ہٹا کر اس وقت اس کی طرح آکر کھڑکی کے سامنے کھڑا ہو جاتا تو اسے آرام سے دیکھ لیتا۔ پتا نہیں پہچانتا بھی یا نہیں… وہ اتنی تو نہیں بدلی تھی کہ کوئی اسے پہچان ہی نہ پاتا… اس کے اپنے خونی رشتے تو …پانی سیلاب کے ریلے کی طرح سب بند توڑ کر اس کے آنکھوں سے بہنے لگا تھا۔ یہ کب سوچا تھا اس نے کہ کبھی اپنی زندگی میں وہ دوبارہ اس گھر کو دیکھ سکے گی۔ کیا ضروری تھا کہ یہ سب کچھ اس کی زندگی میں، اس کے ساتھ ہوتا۔
وہ بے حد خاموشی کے ساتھ اس کے برابر میں آکر کھڑا ہو گیا تھا۔ اس نے کھڑکی آنے والے اس گھر کو دیکھا اور پھر امامہ کی آنکھوں سے بہنے والے پانی کو۔ اسی خاموشی کے ساتھ اس نے امامہ کے کندھے پر اپنا بازو پھیلاتے ہوئے جیسے اسے دلاسا دینے کے لیے اس کے سر کو چوما۔
”وہ میرا کمرا ہے۔” بہتے آنسوؤں کے ساتھ امامہ نے اسے بتایا۔
”جہاں سے تم مجھے دیکھا کرتی تھیں؟” وہ بہتر آنسوؤں کے بیچ ہنس پڑی۔
”میں تمہیں نہیں دیکھتی تھی سالار!” اس نے احتجاج کیا تھا۔
سالار نے اس کے کمرے کی کھڑکی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”اور مجھے پتا تک نہیں تھا کہ یہ تمہارا کمرا ہے۔ میں سمجھتا تھا، یہ وسیم کا کمرا ہے۔ میں تو کپڑے بھی یہیں بدلا کرتا تھا۔” سالار کو کچھ تشویش ہوئی۔
”مجھے کیا پتا ، تم کیا کرتے تھے… میرے کمرے کی کھڑکیاں تو بند ہوتی تھیں۔”
کیوں؟” سالار نے کچھ حیرانی سے پوچھا۔
”تم شارٹس میں پھرتے تھے بیڈ روم میں اس لیے… اور تمہارے خیال میں کھڑکیاں کھلی رکھ سکتی تھی… تمہیں کوئی شرم ہی نہیں تھی… تم کیسے اس طرح اپنے بیڈ روم میں پھر لیتے تھے…”
وہ اب آنکھیں صاف کرتے ہوئے اس پر خفا ہو رہی تھی۔ اسے اندازہ نہیں ہوا کہ اس نے کتنے آرام سے اس کی توجہ اس طرف سے ہٹائی تھی۔
”تم کس طرح کے انسان تھے؟”
سالار نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ وہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔
”تمہیں کھانے کا کہنے آیا تھا۔ تم چینج کر لو تو چلتے ہیں۔” اس نے یک دم بات بدلتے ہوئے امامہ سے کہا۔ اس نے سالار کے تاثرات نہیں دیکھے۔ وہ ایک بار پھر کھڑکی سے نظر آنے والا گھر دیکھ رہی تھی۔
٭٭٭٭
وہ تقریباً دو بجے کمرے میں آیا اور اس کا خیال تھا کہ امامہ سو چکی ہو گی، مگر وہ ابھی بھی کھڑکی کے سامنے بیٹھی ہوئی باہر دیکھ رہی تھی۔ اس کے گھر کی لائٹس اب آف تھیں۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے گردن موڑ کر سالار کو دیکھا تھا۔
”سو جانا چاہیے تھا تمہیں امامہ!” اس سے نظریں ملنے پر سالار نے کہا۔
وہ کھڑکیوں کے آگے کرسی رکھے دونوں پاؤں اوپر کیے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بیٹھی تھی۔
”سو جاؤں گی۔”
”وہاں سب سو چکے ہیں، دیکھو لائٹس آف ہیں سب بیڈ رومز کی۔”
وہ دوبارہ گردن موڑ کر باہر دیکھنے لگی۔
سالار چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر واش روم میں چلا گیا۔ دس منٹ بعد کپڑے تبدیل کر کے وہ سونے کے لیے بیڈ پر لیٹ گیا۔
”امامہ! اب بس کرو، اس طرح دیکھنے سے کیا ہو گا؟” بیڈ پر لیٹے لیٹے اس نے امامہ سے کہا۔
”میں نے کب کہا کہ کچھ ہو گا، تم سو جاؤ۔”
”تم وہاں بیٹھی رہو گی تو مجھے بھی نیند نہیں آئے گی۔”
”لیکن میں یہیں بیٹھوں گی۔” اس نے ضدی انداز میں کہا۔
سالار کو اس کی ضد نے کچھ حیران کیا۔ چند لمحے اسے دیکھنے کے بعد اس نے پھر کہا۔
”امامہ! تم اگر بیڈ پر آکر لیٹو گی تو یہاں سے بھی تمہارا گھر نظر آتا ہے۔” سالار نے ایک بار پھر کوشش کی تھی۔
”یہاں سے زیادہ قریب ہے۔”
وہ اس بار بول نہیں سکا۔ اس کے لہجے میں موجود کسی چیز نے اس کے دل پر اثر کیا تھا۔ چند گز کا فاصلہ اس کے لیے بے معنی تھا۔ وہ اس کا گھر نہیں تھا۔ چند گز کی نزدیکی اس کے لیے بہت تھی۔ وہ نو سال بعد اس گھر کو دیکھ رہی تھی۔
ہمارے گھر کے اوپر والے فلور میں ایک کمرا ہے، اس کمرے کی کھڑکیوں سے تمہارے گھر کا لان اور پورچ تک نظر آتا ہے۔” وہ لیٹے لیٹے چھت کو دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔
امامہ یک دم کسی سے اٹھ کر اس کے پاس آگئی۔
”کون سا کمرا…؟” مجھے دکھاؤ۔” اس کے بیڈ کے قریب کھڑے ہو کر اس نے بے چینی سے پوچھا۔
”دکھا سکتا ہوں اگر تم سو جاؤ، پھر صبح میں تمہیں وہاں لے جاؤں گا۔” سالار نے آنکھیں کھول کر کہا۔
”میں خود بھی جا سکتی ہوں۔” وہ بے حد خفگی سے سیدھی ہو گئی۔
”اوپر والا فلور لاکڈ ہے۔” امامہ جاتے جاتے رک گئی۔ وہ یک دم مایوس ہوئی تھی۔
”سالار! مجھے لے کر جاؤ اوپر…” وہ پھر اس کا کندھا ہلانے لگی۔
”اس وقت تو نہیں لے کا جاؤں گا۔” اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”تمہیں ذرا سی بھی محبت نہیں ہے مجھ سے؟” وہ اسے جذباتی دباؤ میں لے رہی تھی۔
”ہے، اس لیے تو نہیں لے کر جا رہا، صبح وہاں جانا۔ تمہاری فیملی کے لوگ گھر سے نکلیں گے۔ تم انہیں دیکھ سکتی ہو۔ اس وقت کیا نظر آئے گا تمہیں؟” سالار نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”ویسے بھی مجھے تمہیں پتا ہے کہ کمرے کی چابیاں کس کے پاس ہیں، صبح ملازم سے پوچھ لوں گا۔” سالار نے جھوٹ بولا۔
اوپر کا فلور مقفل نہیں تھا لیکن امامہ کو روکنے کا اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ کچھ مایوس ہو کر دوبارہ کھڑکی کی طرف جانے لگی۔ سالار نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”اور فلور میں تب ان لاک کرواؤں گا، اگر تم ابھی سو جاؤ۔
وہ چند لمحے اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
”میں بیڈ کی اس طرف سوؤں گی۔”
سالار نے ایک لفظ کہے بغیر اپنی جگہ چدھوڑ دی۔ اس نے کمبل ہٹا کر اس کے لیے جگہ بنا دی تھی۔
”اور میں لائٹس بھی آن رکھوں گی۔” وہ اس کی خالی کی ہوئی جگہ پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
وہ اب کراؤن سے ٹیک لگائے دونوں گھٹنے سکیڑے بیڈ پر بیٹھی کھڑکی کو دیکھنے لگی تھی۔
”مجھے روشنی میں نیند نہیں آئے گی۔” سالار نے کمبل سے اس کے پاؤں اور ٹانگیں ڈھانپتے ہوئے کہا۔
”تمہیں تو روشنی میں ہی نیند آتی تھی۔” وہ کچھ جزبز ہو کر بولی۔
”اب اندھیرے میں آتی ہے۔” اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”تو پھر مجھے روشنی میں ہی نیند آتی ہے۔” سالار نے اپنی مسکراہٹ روکی۔
”تمہیں ایک اچھی بیوی کی طرح اپنے شوہر کی نیند کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔” مصنوعی غصے کے ساتھ سالار نے کچھ آگے جھکتے ہوئے سائیڈ ٹیبلل لیمپ اور دوسری لائٹس آف کرنی شروع کر دیں۔
امامہ خفگی سے بیٹھی رہی، لیکن اس نے سالار کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ کمرا اب نیم تاریک تھا لیکن بیرونی روشنیوں کی وجہ سے امامہ کا گھر زیادہ نمایاں ہو گیا تھا۔
”اس طرح دیکھنے سے کیا ہو گا؟” سالار اب کچھ جھلا گیا تھا۔
”ہو سکتا ہے کوئی پردے ہٹا کر کھڑکی میں کھڑا ہو۔”
وہ خواہش نہیں تھی، آس تھی اور وہ اس آس کو توڑ نہیں سکتا تھا۔
”صبح گاؤں جانا ہے ہمیں…” وہ اب اس کی توجہ اس کھڑکی سے ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”مجھے نہیں جانا، مجھے یہیں رہنا ہے۔”امامہ نے دو ٹوک انکار کیا۔ سالار کو اس کی توقع تھی۔
”تمہیں گاؤں لے جانے کے لیے لے کر آیا تھا۔” سالار نے کچھ خفگی سے کہا۔
”تم جاؤ مجھے کسی گاؤں میں دل چسپی نہیں ہے۔” اس نے صاف گوئی سے کہا۔
سالار یک دم کمبل ہٹاتے ہوئے بیڈ سے اٹھا اور اس نے پردے برابر کر دیے۔ باہر آنے والی روشنی بند ہوتے ہی کمرا یک دم تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔ امامہ نے بے حد خفگی کے عالم میں لیٹتے ہوئے کمبل اپنے اوپر کھینچ لیا۔
دوبارہ اس کی آنکھ سالار کے جاگنے سے کھلی۔ سحری ختم ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ اس نے اٹھ کر سب سے پہلے کھڑکی کر پردے ہٹائے تھے۔ سالار نے اسے کچھ ہمدردی سے دیکھا۔وہ انٹر کام اٹھا کر خانساماں کو کھانا کمرے میں لانے کا کہہ رہا تھا۔ امامہ کے کمرے میں لائٹ آن تھی لیکن کھڑکیوں کے آگے اب بھی پردے گرے ہوئے تھے۔
اسے جیسے کچھ مایوسی ہوئی۔ جب تک وہ کپڑے تبدیل کر کے اور منہ ہاتھ دھو کر آئی، تب تک خانساماں کھانے کی ٹرالی کمرے میں چھوڑ گیا تھا۔ انہوں نے بڑی خاموشی کے ساتھ کھانا کھایا اور کھانا ختم کرتے ہی امامہ نے کہا۔ ”اب چابیاں لے لو، اوپر چلیں۔”
”مجھے نماز پڑھ کر آنے دو۔”
”نہیں، مجھے اپنا گھر دیکھنا ہے۔”
اس بار سالارنے جیسے امامہ کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔ اسے لے کر وہ اوپر کے فلور آگیا۔ کمرا کھلا دیکھ کر امامہ نے اسے بے خفگی سے دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ وہ اس وقت اتنی خوش تھی کہ سالار کی کسی بات پر ناراض نہیں ہو رہی تھی۔
اس کمرے کی کھڑکی کے سامنے کھڑے ہوتے ہی وہ جیسے سانس لینا بھول گئی تھی۔ وہاں سے اس کے گھر کا پورا لان اور پورچ نظر آرہا تھا۔ لان بالکل بدل گیا تھا۔ وہ ویسا نہیں رہا تھا جیسا کبھی ہوتا تھا، جب وہ وہاں تھی۔ تب وہاں دو کرسیاں بھی نہیں تھیں، جو پہلے ہوتی تھیں۔ لان میں لگی بیلیں اب پہلے سے بھی زیادہ بڑی اور پھیل چکی تھیں۔ آنسوؤں کا ایک نیا ریلا اس کی آنکھوں میں آیا تھا۔ سالار نے اس دفعہ اسے کچھ نہیں کہا۔ کہنا بے کار تھا۔ اسے فی الحال رونا تھا، وہ جانتا تھا۔
وہ مسجد میں نماز اور کچھ دیر قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد واپس آیا تھا اور حسب توقع تب بھی امامہ کمرے میں نہیں آئی تھی۔
وہ گاؤں جانے کے لیے تیار ہونے کے بعد اسے خدا حافظ کہنے اوپر آیا تھا۔ اسے ساتھ لے جانے کا ارادہ وہ پہلے ہی ترک کر چکا تھا۔
اڑھائی گھنٹے کے بعد بھی وہ کھڑکی کے سامنے اسی طرح کھڑی تھی۔ سالار کے اندر آنے پر بھی اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔ سالار نے اسے مخاطب کرنے کے بجائے کمرے میں دور پڑے صوفے کو کچھ جدوجہد کے ساتھ کھڑکی کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا تھا۔
”یہاں بیٹھ جاؤ تم، کب تک اس طرح کھڑی رہو گی۔”
صوفہ دھکیل کر اس کے قریب لانے کے بعد سالار نے اس کو مخاطب کیا اور تب ہی اس نے امامہ کا چہرہ دیکھا۔اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں اور ناک سرخ تھی۔ سالار نے گردن موڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔ وہاں ایک گاڑی میں کچھ بچے سوار ہو رہے تھے اور ایک عورت کو خداحافظ کہہ رہی تھی۔
”رضوان کے بچے ہیں؟” سالار نے گاڑی کو اسٹارٹ ہوتے دیکھ کر امامہ سے کہا۔
امامہ نے کچھ نہیں کہا۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر کانپتے ہونٹوں کے ساتھ بس انہیں دیکھ رہی تھی۔ سالار نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ نو سال لمبا عرصہ تھا۔ پتا نہیں مزید ان میں سے کس کو وہ پہچان سکی تھی اور کس کو نہیں اور ان میں سے کس کو وہ پہلی بار دیکھ رہی تھی۔ وہ عورت اب اندر چلی گئی تھی۔
اس کے کندھوں پر ہلکا دباؤ ڈالتے ہوئے سالار نے اس سے کہا” بیٹھ جاؤ!”
امامہ نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے دوپٹے کے پلو سے آنکھیں اور ناک رگڑنے کی کوشش کی۔ صرف چند لمحوں کے لیے اس کا چہرہ خشک ہوا تھا، برسات پھر ہونے لگی تھی۔ سلار پنجوں کے بل اس کے سامنے چند لمحوں کے لیے بیٹھا۔ اس نے امامہ کے دونوں ہاتھ تسلی دینے والے انداز میں اپنے ہاتھوں میں لیے۔ اس کے دونوں ہاتھ بے حد سرد تھے۔ وہ اس کے ہاتھ چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ کمرے کی سردی کو اس نے پہلی بار محسوس کیا تھا۔ ہیٹر آن کرنے کے بعد اس نے کمرے کی الماری میں کوئی کمبل ڈھونڈنے کی کوشش کی اور ایک کمبل اسے نظر آہی گیا تھا۔
”میں گاؤں کے لیے نکل رہا ہوں، شام تک واپس آؤں گا۔ دس گیارہ بجے کے قریب پاپا اور ممی اٹھ جائیں گے، تب تم نیچے آجانا۔” اس کی ٹانگوں پر کمبل ڈالتے ہوئے۔ اس نے امامہ سے کہا۔
وہ اب بھی اسی طرح دوپٹے سے آنکھیں اور ناک رگڑ رہی تھی لیکن اس کی نظریں اب بھی کھڑکی سے باہر تھیں۔ سالار اور یہ کمرا جیسے اس کے لیے اہم نہیں رہا تھا۔ وہ اس سے کیا کہہ رہا تھا،اس نے نہیں سنا تھا اور سالار یہ جانتا تھا۔ وہ اسے خدا حافظ کہتے ہوئے چلا گیا۔
وہ اگلے چار گھنٹے اس طرح صوفے پر جمی بیٹھی رہی۔ اس دن اس نے نو سال کے بعد باری باری اپنے تینوں بھائیوں کو بھی گھر سے جاتے دیکھا تھا۔ وہ وہاں بیٹھی انہیں دیکھتی ہچکیوں سے روتی رہی تھی۔ وہاں بیٹھے ہوئے اسے لگ رہا تھا کہ اس نے یہاں آکر غلطی کی ہے۔ اسے نہیں آنا چاہیے تھا۔ اتنے سال سے صبر کے جو بند وہ باندھتی چلی آرہی تھی، اب وہ بند باندھنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ پہلے اسلام آباد آنا نہیں چاہتی تھی اور اب یہاں سے جانا نہیں چاہتی تھی۔ ایسا بھی تو ہو سکتا تھا کہ وہ اسی طرح چوری چھپے اس گھر میں رہتی، اس طرح روز اپنے گھر والوں کو دیکھتی رہتی۔ اس کے لیے تو یہ بھی بہت تھا، وہ احمقانہ سوچ تھی، لیکن وہ سوچ رہی تھی۔ وہ ہر بات سوچ رہی تھی جس سے وہ یہاں اپنے ماں باپ کے گھر کے پاس رہ سکتی ہو۔
سالار نے گاؤں پہنچنے کے چند گھنٹے کے بعد سکندر کو فون کیا۔
”میں بھی حیران تھا جب ملازم نے مجھے بتایا کہ وہ اوپر گیسٹ روم میں ہے۔ میں سوچ رہا تھا پتا نہیں وہ وہاں کیا کر رہی ہے۔”
سالار نے انہیں امامہ کو وہاں سے بلوانے کے لیے کہا تھا اور سکندر نے اسے جواباً کہا۔
”کیا ضرورت تھی اسے خوامخواہ وہاں لے جانے کی، گھر تو اس کا تمہارے کمرے سے بھی نظر آتا ہے۔”
”لیکن گھر والے اسے گیسٹ روم سے ہی نظر آسکتے تھے۔” سالار نے کہا۔