top of page

شکیل احمد چوہان - بلال صاحب

”ایک دو دن کیوں……ابھی کیوں نہیں……“ نوشی اپنے موقف پر قائم رہی۔

’شادی ہے……گڈی گڈے کا کھیل نہیں……نوشی صاحبہ تم طلاق یافتہ ہو………اور بلال کنوارہ…… طلاق یافتہ کے حصے میں رنڈوے آتے ہیں………کنوارے نہیں………بلال سے درخواست کریں گے……شاید وہ مان جائے………اور جس سے درخواست کرنی ہو اُس کے پاس عرضی لے کرجایا جاتا ہے………اُسے بلایا نہیں جاتا اپنے پاس“توشی نے اپنی بہن کو کھری کھری سنا دیں تھیں۔

 

”دادو………میں نے فیصلہ کر لیا ہے……اگر بلا ل کو مجھ سے شادی کرنی ہے………تو اُسے ابھی فیصلہ کرنا ہوگا………ہاں یا ناں………“ نوشی نے حتمی فیصلہ سنا تے ہوئے کہا۔

”محسن بیٹا بلال کو فون لگاؤ“دادی نے محسن کو حکم دیا ۔ محسن نے اپنے نمبر سے کال ملا کر دادی کو موبائل پکڑا دیا ۔

 

 

”جی محسن صاحب………“ بلال نے کال ریسو کرنے کے بعد کہا ۔

 

”بلال بیٹا………میں تمہاری نانو…… تم ابھی کے ابھی رندھاوا ہاؤس پہنچو ضروری کام ہے“

”نانو سب خیریت تو ہے“ بلال نے پریشانی سے پوچھا ۔

”بس تم جلدی سے آجاؤ………سب خیریت ہے“ نانی نے تسلی دی 

”دادو آپ نے بلال کو کیوں بلایا“ توشی نے دادی سے گلے کے انداز میں کہا 

”تمہیں کیا مسئلہ ہے“ نوشی نے توشی کو گھوری ڈالی 

چالیس منٹ بعد بلال رندھاوا ہاؤس پہنچا وہ واپس کبھی نہ آتا اگر اُس کی نانی کا حکم نہ ہوتا

”اسلام علیکم………“ بلال نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا 

”بلال بیٹا……نوشی تم سے شادی کرنا چاہتی ہے“ جہاں آرابیگم نے بلال کے بیٹھتے ہی کہہ دیا ۔

 

بلال کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ اُس کی نانی نے یہ ضروری بات کرنی ہو گی بلال نے سب کی طرف باری باری دیکھا ور آخر میں نوشی پر نظر ڈالی جو پہلے ہی سے بلال کو تک رہی تھی۔

”بلال یہ میری خواہش ہے میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ اپنی مرضی سے………“

نوشی نے بغیر کسی شرم وحیا کے اتنی بڑی بات خود ہی بڑے اعتماد سے کہہ دی ۔

”مگر میں آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتا“بلال نے تحمل سے جواب دیا ۔

 

”نانو میں چلتا ہوں……مجھے اجازت دیں………“

”رُکو……بلال بیٹا……“ جہاں آرانے فکر مندی سے کہا ۔

”توشی تم ٹھیک کہتی تھی……ایک کنوارہ کیوں ایک طلاق یافتہ سے شادی کرے گا پیار……محبت……عشق……سب ختم ہوگیا میری طلاق سے“

”طلاق کبھی بھی محبت کو ختم نہیں کر سکتی……اور نوشی جی آپ کو کسی نے غلط خبر دی ہے کہ محبت کی منزل شادی ہوتی ہے کسی سے شادی کرنا یا نہ کرنا آپ کا شرعی حق ہے“بلال نے سنجیدگی سے جواب دیا …’

’Sorry……میں آپ سے شادی نہیں کر سکتا“ 

”مجھے تم سے محبت ہے……میں عشق کرتی ہوں تم سے………“نوشی نے بے باکی سے کہہ دیا ۔

 

عموماً کوئی بھی لڑکی ایسی باتیں کھلم کھلا وہ بھی گھر کے بڑوں کے سامنے کبھی نہیں کرتی، نہ جانے آج نوشی کو کیا ہو گیا تھا۔

”نوشی جی……پلیز کچھ تو حیا کرو……نانو بیٹھیں ہیں…… محسن کیا سوچے گا آپ کے بارے میں……“ بلال نے یہ کہا اور وہاں سے چل دیا، نوشی اُس کی طرف لپکی اور بلال کو بازو سے پکڑ کر روک لیا۔

”میں سچ کہہ رہی ہوں……مجھے عشق ہے تم سے“ نوشی نے بے قراری سے کہا 

”کیا جانتی ہو……عشق کے بارے میں………لوہے کے چنے چبانے کا نام ہے عشق آپ کے دانت بہت نازک ہیں……نوشی جی آپ صرف محبت ہی کر لو………وہ بھی خود سے……محبت بھنے ہوئے خستہ چنے چبانے کی طرح ہے، اُس میں بھی کبھی کبھی کوئی کنکر دانتوں کے نیچے آہی جاتا ہے………حلق بھی خشک ہو جاتا ہے……محبت کے خستہ چنے چباتے ہوئے………بڑی پیاس لگتی ہے…نوشی جی میں محبت کرنے والا بندہ ہوں……محبت سے ……محبت کے نام پر کچھ بھی مانگو گی……حتیٰ کہ میری جان بھی میں خوشی سے دے دوں گا“ بلال نوشی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بول رہا تھا۔

 

’نوشی جی آپ کی آنکھوں میں مجھے نفرت نظر آرہی ہے……محبت کا نام ونشان نہیں دور……دور تک……“

”بلال اُسی محبت کے نام پر میرا ہاتھ تھام لو………“ نوشی نے آنسو بہاتے ہوئے کہا ، باجی غفوراں چائے کی ٹرالی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی ، جہاں آرابیگم نے اُسے اشارہ کیا کہ نوشی کو یہاں سے لے جائے ۔باجی غفوراں نے نوشی کو بازو سے پکڑا اور وہاں سے لے گئی۔

 

”بلال بیٹا چائے پی کر چلے جانا“ نانی نے کہا تھا چائے پینے کے دوران سب خاموش تھے سب سوچ رہے تھے اب کیا بات کرنی ہے سب سے پہلے محسن بولا ۔

”دادو پتہ ہے………میں بلال کو اکثر کہتا ہوں………کہ تمہیں ڈاکٹر ہونا چاہیے تھا……یہ چہرے سے مریض کی تکلیف کا اندازہ لگا لیتا ہے………مگر آج اسے نوشی کی تکلیف نظر نہیں آرہی ہے…بلال اُس کے زخموں پر محبت کی مرہم لگا دو…“

بلال نے محسن کی طرف دیکھا توشی بلال کو دیکھ رہی تھی

”بلال ادھر میری طرف دیکھو………یاد ہے تم نے مجھے سے کہا تھا…میری اور ڈاکٹر صاحب کی شادی سے پہلے………نکاح کی برکت سے محبت جنم لیتی ہے………تمہاری کہی ہوئی بات بالکل سچ ثابت ہوئی………بلال پلیز میری بہن کو اپنا لو………پلیز………“

توشی نے بھی چائے پینے کے دوران جو سوچا تھا وہ کہہ دیا تھا

”بلال بیٹا اسے میری آخری خواہش سمجھ لو………“ بلال کی نانی نے بھی اپنا ووٹ نوشی کے حق میں دے دیا تھا بلال تین کے مقابلے میں صفر سے یہ الیکشن ہار گیا تھا۔

 

”ٹھیک ہے……جیسے آپ سب کی خوشی“اُن تینوں کے چہروں پر اپنے امیدوار کے جیتنے کی خوشی تھی الیکشن میں ووٹ دیکھے جاتے ہیں…جذبات نہیں…’

’کب کرنا ہے…نکاح…؟“ بلال نے پوچھا اپنی نانی کی طرف دیکھ کر

”کل رات کو……اسی وقت……یہاں رندھاوا ہاؤس میں“ نوشی کمرے کے بیرونی دروازے کے ساتھ کھڑی ہوئی بولی

”OK………“ بلال نے صرف یہ کہا اور وہاں سے چلا گیا ،دروازے سے باہر جاتے ہوئے اُس نے ایک نظر نوشی پر ڈالی جو کہ دروازے کے ساتھ ہی کھڑی تھی، نوشی کے لبوں پر جیت کی مسکراہٹ تھی۔

 

اگلے دن 9 جنوری بروز جمعہ رات 9 بجے بلال کا نکاح رندھاوا ہاؤس میں مقامی مسجد کے مولوی صاحب نے پڑھا دیا تھا۔بریگیڈئیر امان اللہ سے بلال نے رابط کیا تھا۔ وہ شہر سے باہر تھے۔ عادل اور عظمی ملک سے باہر تھے۔نکاح کی یہ تقریب انتہائی سادگی سے سر انجام پائی تھی۔ جس میں صرف گھر کے افراد نے شرکت کی تھی۔ ولیمے کی دعوت کے لیے بلال نے فیصل ٹاؤن کے ریسٹورنٹ کا انتخاب کیا تھا جس میں صرف بلال کے قریبی دوست مدعو تھے۔

 

نکاح کے بعد بلال نے خود کہا تھا۔

”نانو……میں ممانی جان سے ملنا چاہتا ہوں“ نوشی کو باقاعدہ دلہن کی طرح توشی نے تیار کروایا تھا۔ اس کے برعکس بلال نے سادہ مگر خوبصورت لباس پہنا ہوا تھا ،سفید شلوار قمیض اوپر بلیک ویسٹ کوٹ پاؤں میں بابا جمعہ کے ہاتھ کی بنائی ہوئی چپل۔

”ممانی جان اسلام وعلیکم……“ بلال نے ناہید کے سامنے جاتے ہوئے کہا ۔

 

توشی اور جہاں آرا صوفے پر بیٹھ چکی تھیں۔ نوشی کھڑی تھی بلال کے ساتھ جو کہ ناہید کے سامنے کھڑا تھا۔ ناہید کی آنکھوں میں آنسو آمڈ آئے خوشی سے یاندامت کے، اللہ ہی جانے یا ناہید کا دل۔ نوشی نے اپنی ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو وہ کمرے سے چلی گئی ۔

ناہید نے بائیں ہاتھ کے اشارے سے بلال کو اپنے پاس بلایا۔

”بلال بیٹا مجھے معاف کر دو………“ ناہید نے دل میں کہا اور آنکھیں بند کر لیں، بلال ناہید کے پاس اُس کے بیڈ پر بیٹھ گیا، اور ناہید کا بایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر بولا

”ممانی جان میں آپ کے لیے دُعا کرتا رہتا ہوں………آپ کی بیٹی کو خوش رکھنے کی پوری کوشش کروں گا………اگر مجھ سے کبھی کوئی گستاخی ہوئی ہو……تو معاف کر دیجیے گا“ ناہید نے گردن ہلانے کی کوشش کی جیسے کہہ رہی ہو ”نہیں………نہیں……… بلال بیٹا……“ ناہید نے اپنا بایاں ہاتھ بلال کے گال پر رکھنے کی کوشش کی تھی جیسے پیار دی رہی ہو۔

 

بلال نے ناہید کا ہاتھ پکڑا اور اپنے دائیں گال سے لگا لیا ۔

دس بجے کے قریب بلال احمد اپنی دلہن کولے کررندھاوا ہاؤس سے نکلاتھا ”جیجا جی صبح ناشہ لے کر آتی ہوں“ توشی نے جاتے ہوئے بائے بائے ہاتھ سے کرتے ہوئے کہا 

”توشی جی“ ڈاکٹر محسن نے گھوری ڈالی 

”محسن بیٹا کل کے بعد اگر توشی گھر سے نکلے تو اس کی ٹانگیں توڑ دینا“ دادی نے مسکراتے ہوئے کہا

 ”کل صبح تم دونوں کے ساتھ میں اور غفوراں چلیں گے“ ”دادو آپ بھی اس کا ساتھ دے رہی ہیں“ ڈاکٹر محسن نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔

 

تم آگئے ہو نور آگیا ہے تم آگئے ہونور آگیا ہے

نہیں تو چراغوں سے لُو جارہی تھی جینے کی تم سے وجہ مل گئی ہے بڑی بے وجہ زندگی جارہی تھی

 جب بلال کی گاڑی والٹن روڈ پر پہنچی تو اُس نے گاڑی میں میوزک لگا دیا تھا۔

 

اُس سے پہلے بلال نے دو دفعہ نوشی سے بات کرنے کی کوشش کی تھی مگر نوشی نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

 

رُو کے رُو کے سے قدم

رُک کے بار بار چلے

قرار لے کے

تیرے در سے بے قرار چلے

صبح نہ آئی کئی بار نیند سے جاگے

تھی ایک رات کی یہ زندگی گزار چلے

 یہ نو بیاہتا جوڑا زندگی کا نیا سفر شروع کرنے جا رہا تھا، مگر خاموشی سے چپ چاپ بلال کی ہمسفر اُس کے ساتھ تو تھی، مگر اپنی سوچوں میں غرق……ڈوبی ہوئی نوشی ویسے تو فرنٹ سیٹ پر بلال کے پہلو میں بیٹھی ہوئی تھی مگر وہ بلال سے بہت دور تھی۔

 

 

زندگی کے سفر میں اگر انسان اکیلا ہو تو وہ یادوں کے سہارے اپنا سفر طے کرتا ہے۔ گاڑی کے سفر میں اگر انسان اکیلا ہو تو وہ میوزک کے سہارے اپنا سفر طے کرتا ہے۔ بلال نے بھی ایسا ہی کیا تھا، ایک کے بعد ایک گانا بج رہا تھا۔

نوشی کبھی تو ونڈ اسکرین کی طرف دیکھتی کبھی سائیڈ مرر کی طرف کبھی اپنے ہاتھوں پر لگی مہندی کو یا ہاتھ کی لکیروں کو نوشی ہی بہتر جانتی تھی۔

 

یہ بے چینی تھی، یا گھبراہٹ اُس کی خاموشی کئی سوالوں کو جنم دے رہی تھی۔ ان سب باتوں کے باوجود بلال پھر بھی خاموش تھا۔ پرسکون، شانت ، دھیما شکوک وشبہات سے ماورا، وہ چپ چاپ گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔

کبھی پاس بیٹھو کسی پھول کے پاس

سنو جب مہکتا ہے بہت کچھ یہ کہتا ہے

یہ سننے کے بعد نوشی نے نظریں اُٹھا کر پہلی دفعہ گاڑی کے اندر بلال کی طرف دیکھا تھا۔

 

یہ دل کی عمارت بنتی ہے دل سے

دلاسوں کو چھو کے اُمیدوں سے مل کے

لتاجی کی میٹھی آواز میں گلزار صاحب کا پیغام تھا

ایکسپو سینٹر کے قریب پہنچ کر بلال نے گاڑی جے تھری بلاک کی طرف موڑ دی ة سپیڈ بریکر کی مہربانی سے ہلکا ساجھٹکا لگا، نوشی کا ہاتھ بلال کے ہاتھ سے ٹکرایا دونوں کی نظریں چار ہوئیں آنکھوں کی حرارت سے ٹھنڈے دلوں کو تپش پہنچی دونوں کے ہونٹ کھل اُٹھے، یہ نکاح کی برکت تھی۔

 

نہ بولوں میں تو کلیجہ پھونکے

جو بول دوں تو زباں جلے ہے

سلگ نہ جاؤئے اگر سنے وہ

جو بات میری زباں تلے ہے

بلال نے گھر کے سامنے پہنچ کر گاڑی پارک کے ساتھ کھڑی کر دی تھی۔

لگے تو پھر یوں کہ روگ لاگے

نہ سانس آوئے نہ سانس جاوے

یہ عشق ہے نامراد ایسا

کہ جان لیوے تبھی ٹلے ہے

”نوشی جی گھر آگیا ہے“ بلال نے گاڑی بند کرتے ہوئے کہا نوشی کے ہونٹوں پر تبسم تھا۔

 

”آپ نہ عشق کی بات کرتے ہیں اور نہ ہی سنتے ہیں، راحت کا اچھا گانا تھا آپ نے پورا سننے ہی نہیں دیا……“ نوشی نے مسکراتے ہوئے کہا 

”کیا عشق سچ میں جان لے لیتا ہے؟………“

”عشق جان نہیں لیتا………عشق میں جان دینی پڑتی ہے………اور محبت زندگی دیتی ہے………“ بلال نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

”تم عشق کے خلاف ہو………یا جان دینے سے ڈرتے ہو“ نوشی نے سوال پوچھا

استغفراللہ…… میری اتنی مجال……نوشی جی محبت کرنے والے کبھی بھی عشق کے خلاف ہو ہی نہیں سکتے…اگر شرط عشق میں جان دینے کی ہو………تو پھر صرف اللہ اور اُس کے حبیبﷺ کے عشق میں جان دونہیں تو محبت پر گزارہ ہی بہتر ہے……… اللہ کی رضا کے لیے اُسکے بندوں سے محبت…… اُس کی ساری مخلوق سے محبت……بابا جمعہ فرماتے تھے محبت فرض ہے“ بلال نے فہم وفراست سے جواب دیا تھا۔

 

اُتنا ہی احمقانہ سوال نوشی نے اپنے شوہر سے پوچھا تھا آدائے بے نیازی سے

 ”بلال ………کیا تم موت سے ڈرتے ہو………؟“

”نہیں نوشی جی………میں زندگی سے محبت کرتا ہوں……زندگی کہانی ہے…… اور موت حقیقت……اچھی کہانی وہی ہوتی ہے جو کہ حقیقت پر مبنی ہو……… اور آپ کے مرنے کے بعد آپ کی کہانی لوگ اپنے بچوں کو سنائیں……یہ تب ممکن ہے، جب اپنی کہانی لکھواتے ہوئے آپ کو حقیقت یاد ہو………“ بلال نے نوشی کی طرف جوہری کی آنکھ سے دیکھ کر جواب دیا تھا۔

 

”مطلب میں سمجھی نہیں……“ نوشی نے فی الفور پوچھا تھا۔

”مطلب یہ زندگی گزارتے ہوئے موت یاد ہو………پھر موت سے ڈر نہیں لگتا………“ بلال پورے چہرے کے ساتھ مسکرایا تھا۔ ”باقی باتیں گھر کے اندر کر لیں تو بہتر ہے کسی نے دیکھا توہم دونوں کو پاگل کہے گا“

بلال گاڑی سے اُتر آیا تھا اُس نے نوشی کی سائیڈ والا دروازہ خود کھولا تھا اپنی دلہن کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا عزت اور وقار کے ساتھ نوشی نے مسکراتے ہوئے بلال کا ہاتھ تھام لیا۔

 

اس دلہا اور دلہن کے استقبال کے لیے کوئی نہیں تھا بلال نے بیرونی گیٹ کا چھوٹا دروازہ خود چابی سے کھولا گیٹ کے اندر کی طرف ایک رسی لٹک رہی تھی، بلال نے دروازہ بند کرنے کے بعد اُس رسی کو کھینچا تو گلاب کے پھولوں کی سرخ اور سفید پتیاں اُن کے اوپر گرنا شروع ہو گئیں تھیں، نوشی نے مسکراتے ہوئے بلال کی طرف دیکھا 

”واقعی تم بہت رو مینٹک ہو“ نوشی نے دل میں کہا ۔

 

پھر وہ نیا جوڑا پورچ سے لاؤنج کی طرف بڑھا، گھر کے اندرونی حصے میں جانے کے لیے پورچ میں ایک کار کھڑی تھی جس کے اوپر کالے رنگ کاہی CAR COVER تھا پھر وہ لاؤنج کا دروازہ کھول کر لاؤنج میں داخل ہوئے تھے۔ لاؤنج اور ڈرائنگ روم کے درمیان کوئی دیوار کوئی پردہ نہیں تھا۔ ڈرائنگ روم میں صوفے پڑے ہوئے تھے۔ سنیٹرٹیبل کے ساتھ اور لاؤنج میں دوکرسیوں کے درمیان ایک چھوٹی گول میز رکھی ہوئی تھی ایک خوبصورت ایزی چیر اور اُس کے ساتھ ایک چوکور چھوٹا سا میز تھا۔

 

لاؤنج کے سامنے بلال کا بیڈروم اور ساتھ ہی ایک چھوٹا سا کچن بھی تھا۔ کچن کا ایک دروازہ لاؤنج میں اور دوسرا پیچھے کی طرف لانڈری میں کھلتا تھا۔

یہ گھر کرائے کا ضرور تھا مگر اس کا انٹریر دیکھ کر بلال کی نفاست اور سادگی کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔بلال کے بیڈروم میں تین گلدانوں کے اندر تازہ پھول تھے جو مہک رہے تھے بلال نے نوشی کو اپنے بیڈ پر بیٹھایا تھا۔

 

”کچھ کھائیں گئی آپ ؟“بلال نے نوشی سے پوچھا۔ نوشی نے نظر بھر کر بلال کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے گردن ہلا دی ۔

بلال بیڈروم سے جا چکا تھا نوشی نے گردن گھما کر سارے کمرے کا جائزہ لیا۔ کچن سے ہلکی ہلکی آواز آرہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد بلال ایک ٹرے اُٹھائے بیڈ روم میں داخل ہوا ۔ سب سے پہلے اُس نے پلاسٹک کی شیٹ بیڈ پر بچھائی اُس کے بعد وہ ٹرے نوشی کے سامنے رکھ دی۔

 

دو مگ دودھ اور ایک پلیٹ میں گاجر کا حلوہ تھا۔

بلال نے پلیٹ میں صرف ایک چمچ رکھا تھا حلوا کھانے لیے پہلے اُس نے ایک چمچ نوشی کو کھلایا اپنے ہاتھ سے۔

”نوشی جی گاجر کا حلوہ میں نے خود آپ کے لیے دوپہر میں بنایا تھا“ بلال نے حلوہ کھلانے سے پہلے کہا۔ دوسرا چمچ بلال نے خود اپنے منہ میں ڈالا ۔ ”ساتھ دودھ بھی پئیں“بلال نے دودھ کا مگ نوشی کو تھما دیا۔

 

نوشی نے دودھ کو دیکھ کر کہا تھا۔

” اس کا COLOUR ایسا کیوں ہے“ ”SORRY میں بتانا بھول گیا دودھ میں زعفران ڈالا ہے“ اس کے بعد بلال نے حلوے کا ایک اور چمچ خود نوشی کو کھلایا ۔

نوشی بلال کا دوستانہ رویہ دیکھ کر حیران تھی۔ حلوہ وہ دونوں کھا چکے تھے۔ اور دودھ پی چکے تھے۔ بلال نے برتن اُٹھائے اور کچن میں رکھ کر واپس آیا۔

بلال بیڈ پر نوشی کے ساتھ بیٹھ گیا تکیے کی طرف، بلال نے سائیڈ ٹیبل کی دراز کھولی جہاں پر پہلے ہی سے ایک جیولری باکس پڑا ہوا تھا، اُس نے وہ نکالا اور اُسے کھولا ایک خوبصورت کنگن تھا اُس باکس کے اندر۔

”نوشی جی یہ آپ کے لیے……“ بلال نے نوشی کا دایاں ہاتھ پکڑا اور اُسے وہ کنگن پہنا دیا ۔

نوشی پھر بھی کچھ سہمی ہوئی تھی، مگر بلال بڑا پر اعتماد تھا۔

 

”ایک بات کہوں“ نوشی نے شرماتے ہوئے پوچھا

”جی ضرور“

”آج تو تم بالکل بھی نہیں شرما رہے۔شادی سے پہلے تو………“ نوشی نے کہا 

”اب آپ میرے نکاح میں ہو………“ بلال نے اعتماد سے جواب دیا 

”حلوہ بہت مزیدار تھا……… میٹھا ایک دم برابر………بناتے ہوئے چیک کیا ہوگا…“ ”نہیں تو آج جمعہ ہے…میرا روزہ تھا“ بلال نے کہا تھا۔

 

 

 

”نوشی جی آج ہم نے نئی زندگی کا آغاز کیا ہے مختصر سی چند باتیں آپ سے کرنا چاہتا ہوں، میاں بیوی میں اختلاف اُس وقت پیدا ہوتا ہے، جب وہ غیروں کی سنتے ہیں اور غیروں سے کہتے ہیں، اگر وہ آپس میں بات کریں تو کافی سارے مسائل پیداہی نہیں ہوتے، ماموں جان کی وفات کے بعد سے میں نے جب بھی آپکو دیکھا ہے مجھے ہمیشہ ایسا ہی لگا جیسے آپ کے دل میں میرے لیے نفرت، غصہ، گلے وشکوے کچھ تو ہے ایسا……… آج میں وہ سب آپ کی زبان سے سننا چاہتا ہوں“ بلال اپنی بات کر کے خاموش ہو گیا تھا مگر نوشی ادھر اُدھر نظریں چرا رہی تھی۔

 

بلال نے نوشی کو اعتما دینے کے لیے اُس کا ہاتھ پکڑا اور اُسے اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا۔ نرمی سے محبت کے ساتھ

 ”چلیں پہلے میں کہہ دیتا ہوں………میں آٹھ سال کا تھا اور آپ چھ سال کی……تب امی نے مجھے کہا تھا، بلال بیٹا اگر نوشی کی مرضی ہو تو شادی اُسی سے کرنا۔ شادی کا تو پتہ نہیں تھا، اُس وقت، لیکن ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ میں نے نوشی ہی سے شادی کرنی ہے۔

 

وقت گزرتا گیا ماں کے اُس فرمان نے کب محبت کی شکل اختیار کر لی پتہ ہی نہیں چلا۔ پہلے آپ کی نظروں میں میرے لیے کوفت اور بیزاری تھی، پھر اُن کی جگہ محبت اور بے قراری نے لے لی جس دن مجھ پر الزام لگا، اُس دن آپ کی نظر وں میں میرے لیے شکایت اور ناراضی تھی، اب آپ کی نظروں میں کیا ہے میرے لیے……وہ آپ خود بتائیں“

بلال نوشی کو دیکھ رہا تھا مسحور کن نگاہوں کے ساتھ ایک لمحہ کے لیے نوشی کی بلال سے نظریں چار ہوئی ہیں تھیں۔

 

نوشی نے اپنی پلکیں جھپکیں اب نوشی کی نظریں ادھر سے اُدھر مٹرگشت کر رہیں تھی۔ اُسے کچھ اور سمجھ نہیںآ یا تو وہ بلال سے لپٹ گئی

 ”بلال میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں………اب تو میں آپ کے نکاح میں ہوں……اب مجھے خود سے جدا مت کیجیے گا۔ کمرے میں یک دم خاموشی چھاگئی ۔ صرف چوڑیوں کے کنگنوں سے کھن کھنانے کی آواز تھی اور بالیوں کے جھمکوں سے ٹکرانے کی آواز تھی دو گھنٹے بعد نوشی بلال کی پہلو میں لیٹی ہوئی تھی۔

 

وہ بلال کے دئیے ہوئے کنگن سے کھیل رہی تھی۔ اُس وقت نوشی بہت خوش تھی۔ 

”بلال تمہارا دیا ہوا تحفہ بہت خوبصورت ہے“ نوشی نے لیٹے ہوئے کنگن کو اپنی انگلیوں میں گھمایا ۔ بلال کو یہ بات سُن کر کچھ یاد آگیا ۔

”چلو جلدی سے اُٹھو………“ بلال نے ایک بار پھر سائیڈ ٹیبل والا دراز کھولا اور اُس میں سے کچھ نکال کر اپنے ٹروزر کی سائیڈ والی پاکٹ میں ڈال لیا ۔

 

”رات کے دو بجے……”مگر کیوں“ نوشی نے سستی سے کہا…ایک سرپرائز ہے……“ بلال نے اپنا ہاتھ نوشی کی طرف بڑھا یا، نوشی نے جلدی سے بلال کا ہاتھ تھاما اور اپنے بستر سے باہر آگئی۔

بلال اُسے پورچ میں لے گیا۔ یورچ میں کھڑی گاڑی پر سے بلال نے کالا کپڑا ہٹا دیا۔

 Suzuki Swift 2015 Red Colour کی گاڑی تھی۔

”نوشی جی یہ آپ کے لیے“ بلال نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 

نوشی نے ایک نظر گاڑی پر ڈالی ”OH MY GOD“ نوشی نے اپنی باہیں بلال کے گلے میں ڈال دیں ”THANKS بلال“ نوشی کے چہرے پر ملین ڈالر مسکراہٹ تھی بلال نے اپنے ٹروزر کی جیب سے چابی نکال کر نوشی کے حوالے کر دی ۔

”LONG DRIVE پر چلیں“ نوشی نے جان لیوا مسکراہٹ چہرے پر سجا کر کہا ”کل صبح چلیں گے ابھی بہت سردی ہے آپ اندر آجاؤ“ بلال نے نوشی کی کلائی پکڑی اور اُسے بیڈ روم میں واپس لے آیا ۔

 

”نوشی جی مجھے آرہی ہے نیند صبح تہجد کے لیے اُٹھنا ہے“ بلال نے کروٹ لی اور آنکھیں بند کر لیں نوشی کی طرف اُس کی پشت تھی۔ نوشی بھی بستر کے اندر آچکی تھی اور وہ بلال کی پشت سے لپٹ کر بولی۔

”بلال میں نے سنا ہے شادی کی پہلی رات میاں بیوی میں سے جو بھی پہلے سوتا ہے وہ پہلے مر جاتا ہے“

”ٹھیک ہے……مجھے پہلے ہی مرنے دو“ بلال بند آنکھوں کے ساتھ بولا۔

 

کیا آنکھیں بند کرنے سے آدمی مر جاتا ہے؟“ نوشی نے معصومیت سے پوچھا

”نوشی جی دراصل آنکھیں بند ہونے کے بعد ہی تو آنکھیں کھلتی ہیں“

”اگر کبھی آپ کو لگے کہ کل آپ کی زندگی کا آخری دن ہے تو ……؟ “ نوشی نے مستی سے پھرپوچھا 

”تو کچھ نہیں بابا جمعہ فرماتے تھے بلال بیٹا انسان کی سوچ نہیں مرنی چاہیے اور اُس کے شروع کیے ہوئے اچھے کام اُس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہیں تو۔

 

وہ شخص لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے جسم تو مٹی کی امانت ہے“ بلال اُسی طرح لیٹا ہوا کہہ رہا تھا

”نوشی جی شب خیر……“ بلال سو گیا تھا

###

اگلی صبح سات ساڑھے سات بجے نوشی تیار ہو کر بیڈروم سے باہر نکلی ۔ 10 جنوری 2015 کو لاہور میں ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔

بلال حسب معمول تہجد کے وقت اُٹھ گیا تھا۔ اُس نے سب سے پہلے غسل کیا پھر لاؤنج میں آگیا۔

 

تہجد ادا کی، اُس کے بعد مسجد میں نماز پڑھ کر آیا۔ قرآن شریف پڑھنے کے بعد وہ ایزی چیز پر اپنی ٹانگیں پھیلا کر سکون سے بیٹھا ہوا تھا۔

گیس ہیٹر ON تھا۔ بلال کی گرم چادر اُس کے کاندھوں پر تھی۔ جب نوشی لاؤنج میں آئی تھی۔

” GOOD MORNINGبلال“ نوشی نے بلال کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔ پھر کرسی کھینچ کر اُس کے بالکل سامنے بیٹھ گئی۔

”اسلام وعلیکم………اُٹھ گئی آپ “ بلال مسکراتے ہوئے بولا۔

 

نوشی نے وال کلاک پر نظر ڈالی ”ابھی تو سواسات ہی ہوئے ہیں………کب آٹھ بجیں گے اور کب آپ کی سالی ناشتہ لے کرآئے گی………بلال مجھے تو بہت بھوک لگی ہے“

”کچھ بنادوں………انڈے اور بریڈ ہے فریج میں……“ نوشی نے تعجب سے دیکھا بلال کو 

”نوشی جی……… میں اپنی سالی کو تھوڑی بتاؤں گا………کہ میری گھر والی نے ناشتہ کر لیا ہے…“ بلال نے نوشی کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا ۔

 

تم اب بھی میری آنکھوں میں کچھ تلاش کر رہے ہیں“ نوشی نے خفگی سے کہا 

”میری تلاش ہمارے نکاح سے پہلے ہی ختم ہوگئی تھی۔ ایک شوہر کو اپنی بیوی کی آنکھوں میں محبت سے صرف محبت کو دیکھنا چاہیے۔ میں بھی وہی کر رہا ہوں“

”تم کو میری آنکھوں میں اپنے لیے محبت نظر آئی“ نوشی نے پوچھا 

”تلاش جاری ہے………نکاح کی برکت سے مجھے میری کھوئی ہوئی محبت مل جائے گی…“ بلال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔

 

”بلال محبت سے پیٹ نہیں بھرتا……مجھے سخت بھوک لگی ہے……“

”چائے یا کافی……“ بلال نے پوچھا

”چائے…… مگر میں خود بناؤں گی……“ نوشی نے کہا 

”جیسے آپ کی خوشی“ بلال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔ نوشی کچن میں چلی گئی 

”دودھ فریج میں ہے باقی سب کچھ کیبن میں ہے“ بلال نے بتایا ۔

”چینی نہیں مل رہی ہے“ نوشی نے کچن میں سے آواز لگائی۔

”چینی نہیں ہے، گڑ ہے۔ اُسی کیبن میں رکھا ہوا ہے“ بلال نے صدا لگائی وہیں پر بیٹھے بیٹھے ہی۔

تھوڑی دیر بعد نوشی چائے لے کر آگئی تھی۔ بلال کا مگ اُس نے ایزی چیر کے ساتھ میز پر رکھ دیا تھا۔ اور اپنا مگ اپے ہاتھ میں تھام لیا تھا۔

نوشی نے اپنی بنائی ہوئی چائے کا ایک گھونٹ لیا تھا ’گڑوالی چائے تو بہت مزیدار ہوتی ہے“ نوشی نے خود ہی تعریف کرلی تھی ”کچن تو بہت صاف ستھرا ہے ابھی BG آتی ہے تو اُسے دکھاتی ہوں۔ دادو کہتیں ہیں، عورت کی صفائی اُس کے کچن سے اور اُس کے خودکے پیروں سے نظر آجاتی ہے……“

بلال نوشی کو دیکھ رہا تھا، باتیں کرتے ہوئے نوشی کی بلال سے نظریں چار ہوئیں اُس نے اپنی لٹیں کان کے پیچھے کیں جو اُس کے چہرے پر تھیں۔

 

”ویسے آپ تعریف کے معاملے بہت کنجوس ہیں…“ نوشی نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے شکایتی انداز میں کہا ۔

”چائے پیوں گا تو تعریف کروں گا۔“ بلال مسکراتے ہوئے بولا ۔

”چائے کی کون کم بخت بات کر رہا ہے میں تو اپنی بات کر رہی تھی۔ کل رات سے اب تک تم نے میری تعریف میں ایک لفظ بھی نہیں کہا “

”یہ بات ہے………تو اب تعریف کر دیتا ہوں“بلال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا

 ”رکیں…رکیں……اب میری کچھ شرطیں بھی ہیں، تعریف صرف ایک لفظ میں ہو…مختلف بھی ہونی چاہیے……… جس کو میں ساری زندگی نہ بھلا سکوں“ نوشی نے اپنی تعریف بلال کے منہ سے سننے کے لیے شرائط و ضوابط کی تفصیل بتائی تھی نوشی اپنی چائے ختم کر چکی تھی اُس نے اپنا مگ گول میز پر رکھ دیا تھا۔

 

 

 

”برفی………“ نوشی نے سوالیہ نظروں سے بلال کی طرف دیکھا ۔ جب بلال نے یہ کہا تھا

 ”برفی……مطلب ……“ نوشی نے حیرت سے پوچھا ۔

”مطلب یہ………میری بیوی برفی کی طرح ہے میٹھی بھی اور سفید بھی……… میٹھی شہد جیسی اور سفید دودھ جیسی… میری برفی…“

نوشی بلال سے اپنی تعریف سن کر کلی کی طرح کھل گئی تھی۔

”تمہاری چائے تو پانی بن گئی پڑی پڑی میں گرم کر کے لاتی ہوں“ نوشی اُٹھنے لگی 

”آپ بیٹھ جاؤ……… میں پانی کی طرح ہی پی لیتا ہوں……“ بلال نے چائے کا مگ اُٹھایا اور پانی ہی کی طرح تین سانس لے کر پی گیا۔

 

”ملک بلال احمد……اب میں بتاتی ہوں…… میری آنکھوں میں کیا تھا………جو تم دیکھ نہیں سکے………نفرت اور مکاری“ نوشی غصے سے چیخی ۔

بلال نے اپنا گلا پکڑ لیا تھا۔ اُس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا، اُس نے ایزی چیئر سے اُٹھنے کی کوشش بھی کی تھی۔

”برفی نے تمہیں زہر پلا دیا ہے……گڑوالی چائے میں ڈال کر“ نوشی نے ہر لفظ پر زور دے دے کر کہا ۔

 

نوشی نفرت سے بھری نگاہوں کے ساتھ کرسی سے اُٹھی جب بلال نے ایزی چیئر سے اُٹھنے کی کوشش کی۔ اُس نے بلال کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا زور سے۔

”بیٹھ جاؤ بلال کوئی فائدہ نہیں………صرف دو منٹ ہیں تمہارے پاس……“”کیوں……؟“ بلال نے لرزتے ہونٹوں کے ساتھ پوچھا

 ”اس لیے تم نے میری ماں کی اور میری زندگی برباد کر دی تھی، ہم دونوں کو تمہاری وجہ سے طلاق ہوئی تھی……“

”ایسا نہیں ہے………“ بلال نے ڈوبتی ہوئی سانسوں کے ساتھ کہا ”تم بہت ذہین ہو… مگر آخری وقت تک میری آنکھوں میں چھپی نفرت اور مکاری نہ دیکھ سکے“ نوشی نے سفاکی اور بے رحمی سے کہا ۔

 

”ایسی بات نہیں ہے میں نے تمہاری نفرت اور مکاری دیکھ لی تھی میں نے محبت پر اعتبار کیا تھا……“ بلال نے بڑی مشکل سے کہا اکھڑتی ہوئی سانسوں کے ساتھ

 ”دیکھ لو میری نفرت جیت گئی تمہاری محبت سے………“ نوشی نے بلال کی ناک سے بہتے ہوئے خون کو دیکھ کر کہا 

”اب میں تمہاری بیوہ کہلاؤں گی“

بلال نے بائیں ہاتھ سے اپنے منہ اور ناک سے بہتے ہوئے خون کو صاف کیا۔

 

اب بلال کا اپنا ہی لہو اُسکے ہاتھ اور چہرے پر لگ چکا تھا۔ بلال نے اپنے بائیں ہاتھ کو بند ہوتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا۔ تکلیف کے باوجود بلال کے چہرے پر اطمینان اور سکون تھا۔

نوشی اُٹھی اور جانے لگی۔ بلال نے دائیں ہاتھ سے نوشی کا دایاں ہاتھ پکڑ لیا ”چھوڑو میرا ہاتھ……“ نوشی نے زور لگا کر ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔

”نوشی یاد کرو وہ رات جب میرے دل نے تمہارے دل سے کہا تھا۔

 

میں نے تمہارا ہاتھ دل سے تھاما ہے“ جب تک اس دل میں دھڑکن ہے، یہ ہاتھ نہیں چھوٹے گا“

بلال اپنے قول کا سچا نکلا اور ایسا ہی ہوا تھا۔

محبت کا مسیحا دنیا چھوڑ چکا تھا۔ نفرت کی رانی بیڈروم میں گئی سارا زیور بیگ میں ڈالا سوائے اُس کنگن کے وہ اُس نے اپنی کلائی میں پہن لیا تھا۔ سائیڈ ٹیبل سے گاڑی کی چابی اُٹھائی۔

”بلال احمد تمہارے دونوں تحفے نفرت کی نشانی سمجھ کر سنبھال کر رکھوں گی“ نوشی نے خود کو کہا گاڑی چلاتے ہوئے۔

 

دو دن پہلے جب وہ اپنی ماں کی دوائی لے کر فارمیسی سے نکل رہی تھی، تو اُس کا ولید سے سامنا ہوگیا تھا۔ دونوں چپ چاپ کافی دیر تک ایک دوسرے کو تکتے رہے تھے۔ 

”نوشی قصور تمہارا تھا، تم نے اتنی بڑی بات کیوں مجھ سے چھپائی تھی، میری بھی غلطی تھی مجھے تم پر یقین کرنا چاہیے تھا۔ طلاق کے بعد جب ایک دن میں نے بلال کو فون کیا تو اُس نے مجھے ہنستے ہوئے کہا تھا۔

 

کہ میں نے سب جھوٹ بولا تھا، وہ تم سے بدلہ لینا چاہتا تھا“

ولید نے اپنے مگرمچھ والے آنسو صاف کیے تھے۔

”ولید میں تھک گئی ہوں میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں“ نوشی نے بے تابی سے کہا تھا۔

”دیکھو نوشی ہمارا گھرانہ بہت مذہبی ہے، میں تمہیں ایسے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا“ ولید نے اپنی ٹھوڑی پر دایاں ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچ کرکہا تھا۔

 

”ایک طریقہ ہو سکتا ہے، جس پر مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے، تم کسی اور سے شادی کرو اُس کے ساتھ بیوی جیسا تعلق قائم کرو پھر تمہارا شوہر تمہیں طلاق دے دے یا مرجائے اُس کے بعد ہم دونوں شادی کر سکتے ہیں“

ولید نے مکاری سے اپنی جان چھڑائی تھی

”ہاں یہ فلیٹ کی چابی ہے ہمارے بیڈروم میں ڈریسنگ ٹیبل کے دراز کے اندر تمہارا پاسپورٹ پڑا ہوا ہے وہاں پر میرا وزیٹنگ کارڈ بھی ہو گا تم طلاق کے بعد مجھے فون کر دینا میں تمہارا ویزہ بھیج دوں گا پھر تمہاری عدت کے بعد ہم نکاح کر لیں گے“

نوشی کے ہاتھ میں فلیٹ کی چابی گھوم رہی تھی اور وہ سوچوں میں گم تھی ”تم یہاں کیسے“ نوشی نے جانچتی نگاہوں سے پوچھا تھا۔

 

”امی فوت ہو گئیں تھیں، اُن کے جنازے میں شرکت کے لیے آیا تھا، پرسوں دوپہر کو واپسی ہے…“ ولید نے فلیٹ کی چابی کو نوشی کے ہاتھوں میں دیکھ کر کہا تھا۔

”نوشی یہ فلیٹ تمہارے نام پر ہے اور دبئی کا سارا کاروبار بھی تمہارے ہی نام پر ہے پھر بھی اگر تمہیں اعتبار نہیں ہے تم مجھے اپنا اکاؤنٹ نمبر دو میں تمہارا سارا روپیہ بھیج دیتا ہوں۔

 

ہاں یاد آیا میرا نیا نمبر “ ولید یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا تھا، نوشی کے نمبر پر مس کال آچکی تھی۔

نوشی ایسے گاڑی چلا رہی تھی جیسے RACE جیتنا چاہتی ہوں۔

”توبہ توبہ……… ناہید کی حالت تو دیکھو………جمال آدھ گھنٹہ طلاق نہ دیتا تو اُس کی بیوہ تو کہلاتی اب تو طلاق یافتہ ہی کہلائے گئی “

نوشی کے کانوں میں اپنی ماں کی ایک سہیلی کی بات گونجی، دوسری نے کہا تھا۔

 

”میں نے سنا ہے جمال نے طلاق بلال کے کہنے پردی تھی“ نوشی نے گاڑی کی سپیڈ اور تیز کر دی تھی، تیسری آواز اُس کے کانوں میں پڑی ہماری سوسائٹی میں بیوہ کو عزت ملتی ہے اور طلاق یافتہ کو پھٹکار اور طعنے “

”اسی لیے تو بلال میں نے طلاق لینے کی بجائے تمہاری بیوہ بننا پسند کیا ہے، میں تمہاری لاش کو پھلانگ کر اپنے ولید تک پہنچی ہوں“

نوشی نے فلیٹ کی چابی کو اپنے شولڈر بیگ سے نکالتے ہوئے کہا تھا۔ ”ولید کو سرپرائز دیتی ہوں…ولید مجھے کہتا تھا، بلال مجھے کبھی طلاق نہیں دے گا………طلاق لینا کون چاہتا تھا………“نوشی نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور کوریڈور میں کھڑی ہو کر دل میں سوچا تھا۔ کوریڈور اور لاؤنج میں اندھیرا تھا۔ بیڈروم کا دروازہ بھی کھلا تھا اور لائٹ بھی ON تھی ولید بستر پر سویا ہوا تھا نوشی کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی۔

 

 

وہ جلدی سے ولید کو اٹھا کر اپنی جیت کا اعلان کرنا چاہتی تھی۔ وہ اب بھی لاؤنج میں کھڑی تھی اِرم نے بیڈ پر سوئے ہوئے ولید کو اپنی کالی گھٹا جیسی زلفوں سے پانی برسا کر جگایا تھا۔

”ولید اب اٹھ بھی جاؤ آٹھ بج گئے ہیں اور 11 بجے ہماری فلائٹ ہے۔ رات سونے نہیں دیتے اور صبح اُٹھتے نہیں“ اِرم نے اپنا ہاتھ ولید کے رخسار پر پھیرا اور پیار سے کہا 

”اِرم ایک سچ بولوں میرے بستر پر بہت لڑکیاں آئیں اور چلی گئیں، تمہارے علاوہ صرف نوشی کے ساتھ سکون ملا، میں نے تمہیں بتایا نہیں کل شام کو اُس کا فون آیا تھا کہنے لگی میں تمہارے لیے بلال سے آج رات کو نکاح کر رہی ہوں۔

 

 

 

کوئی اتنا بے وقوف بھی ہو سکتا ہے“ ولید نے بستر سے اُٹھتے ہوئے کہا ۔

”بے وقوف نہیں………گدھی………پنجابی میں کہتے ہیں کھوتی……“ اِرم واسطی نے ملامتی انداز میں کہا ۔ ولید ٹاول لے کر باتھ روم میں چلا گیا اور اِرم واسطی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی ۔ نوشی بت بنی کھڑی تھی۔ وہ ایک زندہ لاش تھی۔ وہ اندھیرے میں کھڑی ہوئی حقیقت دیکھ رہی تھی۔

 

ولید ٹاول سے اپنے گیلے بال خشک کر رہا تھا۔ ”کیا کہا تھا تم نے کھوتی“ ولید نے اِرم کے کندھوں پر جھکتے ہوئے کہا تھا۔ ”ولید دارز میں اُس عقل کی اندھی کا پاسپورٹ اور اس فلیٹ کے پیپر ہیں، تمہارا وزیٹنگ کارڈ بھی ہے، اُن کا کیا کرنا ہے؟“

اِرم نے اپنے چہرے پر بیس پاوڈر لگاتے ہوئے پوچھا۔

 ”پڑا رہنے دو اُس دن جب میرا اُس سے اچانک سامنا ہو گیا تھا۔

 

ایک لمحے کے لیے تو میں پریشان ہو گیا تھا۔ پھر میں نے فوراً کہانی بنائی فارمیسی سے سیدھا فلیٹ پر آیا اور یہ ساری چیزیں یہاں رکھیں مجھے معلوم تھا کہ وہ یہاں ضرور آئے گی، اور ایسا ہی ہوا تھا۔ اِرم تمہاری اُس ایک بتائی ہوئی بات کی وجہ سے یہ سب کچھ اتنا آسان ہو گیا تھا کہ نوشی بلال سے رات کو ملنے کے لیے جایا کرتی تھی۔

میں نے بلال کو کئی بار دیکھا ہے مگر میری تو کبھی اُس سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔

 

نوشی کی کم عقلی دیکھو اُس نے میری بات پر فوراً یقین کر لیا تھا“

”چلو دفعہ کرو نوشی کو تم جلدی سے تیار ہو جاؤ ہم کو اُس کے پیسے سے مطلب تھا“اِرم نے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سے اُٹھتے ہوئے کہا ۔

”فرض کرو ولید وہ طلاق لے کر یا بیوہ ہو کر تمہارے پاس آگئی تو……“ تو یہ ……کہ آم کے آم…… گٹھلیوں کے دام……اُسے اپنی رکھیل بنا کر رکھ لوں گا تمہیں تو کوئی اعتراض نہیں ہو گا“ ولید نے اِرم کو بازوں میں کستے ہوئے کہا تھا 

”اب بھی اُس کے پاس بہت کچھ ہے………ویسے ایسا ہو گا نہیں………ایسا مرد قسمت والی عورتوں کو نصیب ہوتا ہے ہر لڑکی کے خوابوں کا شہزادہ“ بے وقوف عورت اندھیرے سے چلتی ہوئی اب روشنی میں آکر کھڑی ہوگئی تھی۔

 

نوشی بیڈروم کے دروازے کے پاس کھڑی تھی۔ ولید نے اُسے دیکھا تو اِرم کو رہائی دی اپنے بازوں کی قید سے اور چلتا ہوا نوشی کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ ”نوشی تم کب آئی………“ ولید نے رُک رُک کر اپنی زبان سے یہ چار الفاظ بولے تھے۔ نوشی پھٹی پھٹی نگاہیں اور گھائل جسم لیے ولید کے سامنے کھڑی تھی۔ نوشی کی حالت دھوبی کے کتے جیسی تھی۔

”تمہارا تو نکاح تھا……بلال“ ولید کی زبان سے بلال نکلا ہی تھا، نوشی نے منہ بھر کر تھوک دیا ولید کے چہرے پر اور بلال کہہ کر زور سے چیخی نوشی چیختے ہوئے وہاں سے بھاگ گئی تھی۔

 

###

”توشی تمہاری وجہ سے دیر ہو گئی ہے………کہا بھی تھا بازار سے لے لیتے ہیں………صبح سے BG اور SMS دوڑیں لگا رہے تھے، پھر بھی آدھ گھنٹہ لیٹ ہو گئے ہیں۔ ایک تمہارے جیجاجی آرمی والے ٹائم کے اتنے پابند نہیں ہیں، جتنے بلال صاحب“ محسن گاڑی سے اُترتے ہوئے بولا رہا تھا محسن نے گاڑی بلال کی گاڑی کے پیچھے کھڑی کر دی تھی۔ DJ اور BG گاڑی کی ڈگی سے ناشتہ نکال رہے تھے۔

 

محسن نے ایک ہاتھ دادی کے ہاتھ میں دیا اور دوسرا توشی کو تھمایا ،گھر کا مین گیٹ کھلا ہوا تھا۔ اُن تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تھا پورچ سے گزر کر انہوں نے لاؤنج کا دروازہ کھولا ہی تھا۔ سامنے بلال کی پشت نظر آئی ”یہ لو………یہ یہاں سو رہے ہیں………اور نوشی میڈیم اندر سو رہی ہوگی………اور گھر کا مین گیٹ کھلا ہوا ہے………اٹھو جیجا جی ناشتہ آگیا ہے………“

توشی نے شوخی سے کہا۔

 

توشی کی نظر بلال کے لٹکے ہوئے ہاتھ پر نہیں پڑی بلال کا دایاں ہاتھ ایزی چیر کے ساتھ زمین کی طرف لٹکا ہوا تھا۔ اور بایاں ہاتھ اُس کے سینے پر تھا، ناک اور منہ پر لگا ہوا خون خشک ہو چکا تھا۔ بلال کا جسم برف کی طرح ٹھنڈا ہو چکا تھا۔

سب سے پہلے محسن کی نظر پڑی تھی بلال کے چہرے پر، محسن نے بلال کی نبض چیک کی، اُس کے بعد دھڑکن، دل کی دھڑکن بند تھی۔

 

بلال کا چہرہ سفید گلاب کی طرح تھا۔ جس پر سرخ خون ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے سفید گلاب کی چند پتیاں سرخ ہو گئیں ہوں۔

”میرا بچہ………“ جہاں آرابیگم بلال کی لاش سے لپٹ گئیں تھیں۔ اور زور زور سے رونا شروع کر دیا ۔ توشی وہیں زمین پر بلال کی ایزی چیئر کے ساتھ بیٹھ گئی اور رونے لگی۔

محسن نے سب سے پہلے بلال کا بیڈروم دیکھا، اُس کے بعد فسٹ فلور کے دونوں بیڈ چیک کیے ۔

 

”نوشی بھی غائب ہے“ محسن نے نیچے آکر کہا ۔ محسن کی آنکھوں میں خاموش آنسو آچکے تھے۔ وہ فسٹ فلور پر جانے والی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا ۔ جو لاؤنج میں ہی سے اوپر کو جارہیں تھیں۔

محسن نے خود کو سنبھالا اور پولیس کو فون کر دیا تھا۔ DJ اور BG ناشتہ اُٹھائے ہوئے لاؤنج کے دروازے سے آگے کھڑے تھے۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے……… اُسی ناشتے پر جو وہ لوگ لے کر آئے تھے، بلال اور نوشی کے لیے۔

 

”نوشی آپی کہاں ہوں گئی……“DJ نے روتے ہوئے BG کی طرف منہ کر کے کہا تھا۔ اُسی لمحے نوشی آندھی کی طرح اندر داخل ہوئی ۔ DJ اور BG سے ٹکراتی ہوئی ناشہ زمین پر گر چُکا تھا۔ نوشی جاتے ہی بلال کی ٹانگوں سے لپٹ گئی تھی۔ ”بلال مجھے پتہ چل گیا میں بڑی قسمت والی ہوں۔ بلال اب نیند سے اُٹھ بھی جاؤ………تمہاری برفی تمہیں زہر تھوڑی پلا سکتی ہے“ نوشی نے نیم غشی سے حواس باختہ ہوتے ہوئے کہا تھا۔

 

توشی نے زہر کا نام سُنا تو آپے سے باہر ہو گئی ”کتی، کمینی، ڈائن“ ایسی بے شمار گالیاں اُردو پنجابی کی اُس نے اپنی بہن کو دے ڈالی، توشی نے نہ جانے کتنے تھپڑ اپنی بہن کو مارے تھے۔ محسن نے توشی کو پکڑا اور ڈرائنگ روم کے صوفے پر بٹھا دیا۔

توشی ہچکیاں لے لے کر رو رہی تھی ”بلال کو ہم سب نے مل کر مروایا ہے اس ڈائن کے ہاتھوں“ توشی نے روتے ہوئے کہا ۔

 

اب دادی کی باری تھی، دادی نے ایک زور دار تھپڑ نوشی کے گال پر مارا اور وہ بیٹھے ہوئے ہی گر گئی۔ محسن نے آکر دادی کو سنبھال لیا اور انہیں بھی صوفے پر بٹھا دیا۔ ”زہریلی ناگن نے میرے بچے کو مار ڈالا“ دادی نے نفرت سے کہا ”بلال تو………سویا ہوا ہے ابھی اُٹھ جائے گا“ نوشی بکھرے بالوں کے ساتھ ٹھنڈے فرش پر بیٹھی ہوئی تھی ”بلال جیت گیا میں ہار گئی……میں تو بلال کی برفی ہوں زہر تھوڑی پلاؤں گئی“

نوشی کی پاگلوں والی حرکتیں دیکھ کر سب رو رہے تھے، BG اُسے سنبھالنے کے لیے آگے بڑھی تھی، محسن نے اُس ہاتھ کے اشارے سے روک دیا تھا۔

 

تھوڑی دیر بعد محسن نے نوشی کو اُٹھانے کی کوشش کی ۔

”نوشی بلال مر چُکا ہے“ محسن نے ہمدردی کے ساتھ کہا۔

بلال……بلال……بلال………نوشی چیخ چیخ کر بلال کا نام لے رہی تھی نوشی اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی تھی۔

نوشی کو اُسی دن گلبرگ میں واقع Private Hospital میں داخل کروا دیا گیا تھا۔

###

اگلے دن کے اخباروں میں ایک خبر یہ بھی لگی تھی

مشہور بزنس مین عقیل ہاشمی کا بھتیجا اور جانی مانی مذہبی شخصیت پیردادو ہاشمی کا بیٹا ولید ہاشمی اور اُن کی بیگم ایک کار ایکسیڈنٹ میں کل صبح 10 بجے کے آس پاس موقع پر ہی ہلاک ہو گئے تھے۔

 

###

دو ہفتے بعد توشی کے گھر بیٹا پیدا ہوا تھا۔ اُس کا نام انہوں نے بلال محسن رکھا تھا۔

فروری کے شروع میں عادل ہاشمی اور عظمی عادل پاکستان لوٹے تھے۔عادل اور عظمی ائیرپورٹ سے سیدھا بلال کی قبر پر گئے ۔ عظمی نے نوشی کی ٹریٹمنٹ میں پرسنل انٹریسٹ لیا تھا۔ ایک مہینہ بعد عظمی ہی کے کہنے پر Punjab Institute of Mental Health میں نوشی کو لے جایا گیا ۔

 

نوشی کی طبیعت ایک مہینہ بعد بھی سبھل نہیں پائی تھی وہ اب بھی بلال کا نام لے کر چیختی، چلاتی، روتی، خود کو زخمی کر لیتی تھی۔

ڈاکٹر عظمی کا خیال تھا کیونکہ بلال اِس مینٹل ہاسپٹیل میں کافی سالوں سے آرہا تھا۔ سب لوگ اُسے جانتے ہیں۔ جب اُن کو پتہ چلے گا کہ یہ بلال کی بیوہ ہے تو وہ سب لوگ اُس کا زیادہ خیال رکھیں گے۔

”محسن بھائی آپ کیوں فکر کرتے ہیں میں اور آنی جان بھی تو وہیں جاب کر رہی ہیں………“ عظمی نے محسن اور توشی کو کنوینس کر لیا۔

 

اب نوشی اس ہاسیٹل کے پرائیوٹ کمرے 11 کی ملکہ ہے۔

بلال کا Just اقرا ہائی اسکول اب ْJust اقرا ایجوکیشن سینٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بلال کی سیٹ پر اب عادل ہاشمی بیٹھتا ہے۔ ایگزیکٹیو باڈی میں۔ عادل محسن اور فوزیہ ہیں۔

عادل صرف ایک گھنٹہ کے لیے اسکول آتا ہے، سارے معاملات فوزیہ ہینڈل کرتی ہے۔

اب اس اِسکول میں آدھے بچے غریب گھرانوں کے ہیں جو کہ سب انتہائی لائق اور محنتی ہیں۔

 

ا سکول کی ساری بچت غریب بچوں کی تعلیم پر صرف کی جاتی ہے۔

###

”کیا نام رکھا ہے بیٹے کا“ ڈاکٹر حاجرہ نیازی نے پوچھا 

”بلال محسن………“ ڈاکٹر محسن رضانے تفاخر سے جواب دیا ۔

پھر سے بلال…… مطلب بلال محسن…… نہیں بلال ہی محسن………

”ویسے بلال کا مطلب کیا ہے“ ڈاکٹر حاجرہ نیازی نے پوچھا۔ دکھی ہو کر۔

 ”بلال کا مطلب ہے عشق………عشق کا مطلب ہے بلال………“ 

توشی نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔

 

”لو عظمی نوشی کولے آئی“ توشی نے دیکھا تو بلال محسن کو محسن کو پکڑایا اور نوشی کے گلے لگ کر بلک بلک روئی۔ نوشی تھوڑی تھوڑی دیر بعد بلال کی صدا لگادیتی ۔ بلال محسن نے رونا شروع کر دیا تھا۔ ڈاکٹر محسن اُسے دونوں بہنوں کے سامنے لے آیا تھا۔ نوشی نے روتے ہوئے بلال محسن کو دیکھا تو بلال محسن کے گال پر انگلی لگا کر بولی ”بلال…بلال…بلال…“

”بلال محسن میرا بیٹا………“ توشی نے دیکھا تو اپنی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر مان سمان سے کہا ۔

 

”نوشی یہ میرا بیٹا ہے بلال محسن“

محسن کی آنکھوں میں نمی تھی۔

عظمی اپنی خالہ ہاجرہ سے لپٹ کر نوشی کو ایسے عقیدت سے دیکھ رہی تھی۔ جیسے کسی دوریش کی نشانی کو دیکھا جاتا ہے۔ آفٹر آل نوشی بلال کی بیوہ جو ٹھہری تھی۔ نوشی نے اپنی ماں سے بڑا رتبہ پا لیا تھا، اُس کی ماں طلاق یافتہ اور نوشی بیوہ…ملک بلال احمد کی بیوہ…

یہ بھی حقیقت ہے، ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ کے مقابلے میں بیوہ کو کچھ زیادہ نمبر ملتے ہیں۔

 

زیادہ عزت نہیں…… کم بے عزتی……

توشی اپنی بہن نوشی کو ارندھاوا ہاؤس واپس لے آئی ۔ جب نوشی کو گاڑی سے اُتارا گیا تو وہ کافی دیر بلال کے کمرے کی طرف دیکھتی رہی جیسے کچھ یاد کر رہی ہو۔ چپ چاپ……گم سم……ٹکٹکی باندھے……پھر اُسکی آنکھوں سے دو آنسو گِرے زمین پر اور اُس نے شہادت کی انگلی بلال کے کمرے کی طرف اٹھائی اور بولی ”بلال……………“

 

……ختم شد……

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page