
دل کی دھڑکن بن گئے
از پری وش
(قسط نمبر چار (آخری حصہ
دروازہ کھول کر خُرم قریشی کمرے میں داخل ہوا وہ دعا کی طرف بڑھا دعا کو حیرت ہوئی کہ آج سے پہلے وہ کبھی اسکے کمرے میں نہیں آۓ تھے اور اب یوں اچانک وہ بھی رات کے اس وقت اسے خطرہ محسوس ہونے لگا .
کیا ہوا خُرم بھائی ؟" دعا نے اسے دیکھ کرپوچھا
"ایک کام ہے تم سے چلو میرے ساتھ " خُرم نےاسے دیکھ کر کہا پھر باہر نکلنے لگا .
دعا نے گھڑی دیکھی گیارہ بجے سے اُپر ہو رہے
تھے اس وقت انھیں دعا سے کیا کام ہےوہ جانا نہیں چاہتی تھی پر پھر کچھ سوچ کر چل پڑی کہ شاید کوئی ضروری بات ہو وہ خُرم بھائی کے پیچھےسیڑھیاں اترنے لگی. خُرم قریشی نے میز پر رکھے پیپرز کی طرف اشارہ کیا "انہیں سائن کر دو جلدی سے" سرد لہجے میں کہا گیا دعا نے ایک نظر خُرم بھائی پر ڈالی پھر پیپرزکو دیکھا ان میں کیاتھابھلا؟ خُرم بھائی کو دعا کے سائن کیوں چاہئے تھے جبکہ سارا بزنس ، سب کچھ تو خُرم قریشی کے کنٹرول میں تھا.پھر کیوں ؟
"پر یہ کیسے پیپرز ہیں؟"دعا نے پیپرزکھول کر دیکھتے ہوئے سوال کیا پر اسے جواب کی ضرورت نہ پڑی پیپرز کھولتےہی اسے جواب مل گیا تھا وہ پراپرٹی کے پیپرز تھے دعا کو ساری بات سمجھ آگئی اسنے تو کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں تھا کہ یہ ساری پراپرٹی اسکے پاپا کی تھی جو پاپا اور مناہل آپی کی ڈیتھ کے بعد اب دعا کی تھی پر خُرم قریشی اسے اپنے نام کروانا چاہ رہا تھا. اسکے اندر ایک دم سے غصے نے سر اٹھایا اسنے پیپرز زمین پر پھینک دیئے کیا خُرم قریشی، دعا کو اکیلا سمجھ کر یہ سب کر رہا ہے پہلے اسکے ساتھ بی جان تھیں وہ کمزور سہی پر دعا کے لئے گھنے ساۓ کی مانند تھیں انکے ہوتے ہوئے دعا کو آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا گیا پر اب بی جان کے جاتے ہی دعا کے ساتھ یہ سب ہونے لگا ابھی تو بی جان کو گئے ایک دن ہوا تھا پر خُرم قریشی سے انتظار نہ ہوا شاید اسی وجہ سے بی جان جانے سے پہلے اسے ازھران علی خان کو سونپ گئیں تھیں.
"میں کیوں سائن کروں یہ پیپرزخُرم بھائی" دعا نے اسے دیکھ کر کہا وہ اسکے منہ سے سننا چاہتی تھی.
"کیونکہ میں کہہ رہا ہوں سمجھی" خُرم نے شرافت کا نقاب اتار پھینکا اور دھاڑ کر جواب دیا دعا نےحیرت سے اسےدیکھا یہ کونسا روپ تھا خُرم بھائی کاجس سےوہ واقف نہ تھی .
"آ..آپ کو اچانک کیا ہوگیا ہے خُرم بھائی" وہ ڈرپوک سی لڑکی بھلا کہا غصہ کر سکتی تھی بس اسے ڈر تھا کوئی ایسی بات نہ ہوجاۓ جسے وہ برداشت نہ کر سکے پر وہ نہیں جانتی تھی کہ ایسا ہونے والا تھا .
اسکی بات پر خُرم قریشی نے قہقہہ لگایا.
"بہت معصوم ہو سالی صاحبہ دل کرتا ہے یہ معصومیت چُرا لو پر ابھی تمہیں جو کہا ہے وہ کرو" ہنس کر کہتا وہ ایک دم سنجیدگی سے بولا پھر دعا کے قریب آیا دعا آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی اسکے قریب آنے پر دو قدم پیچھے ہٹی اور پلٹ کر سیڑھیوں کی طرف بھاگنے لگی کہ خُرم نے اسے پکڑ لیا
"کہا بھاگ کر جاؤگی سالی صاحبہ اب تو وہ بڑھیا بھی نہیں ہے تمہاری حفاظت کرنے کے لئے" وہ دعا کو دیکھ کر غرایا
"چھوڑیں مجھے" دعا اپنے آپ کو اس سے چھوڑانے لگی پر کامیاب نہ ہوئی اسکی آنکھوں کے سامنے دھند چھانے لگی خُرم نے دعا کو گھسیٹ کر صوفے پر پھینکا
"اتنے سال انتظار کیا ہے میں نے اس دولت کو پانے کے لئے کتنی جانیں لینی پڑی....تمہارا باپ میرے ہاتھوں مرا پھر بھی یہ دولت میری نا ہو سکی پر اب اور نہیں سائن کرو جلدی سے ورنہ اور بھی کئی راستے ہیں میرے پاس جہاں سے تم پچھلی بار کی طرح بچ کر نہیں جاسکتی" وہ کسی بھیڑیے کی طرح غرا کر بولا جیسے اگر دعا نے سائن نہ کئے تو وہ دعا کو زندہ نگل جائے گا آج وہ خود اپنے راز فاش کر رہا تھا اسکی بات پر دعا نے آنکھیں سختی سے بند کر لیں آنسو گالوں پر بہنے لگے وہ صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی "آ....آپ نے میرے پاپا کو....." دعا کا دل پھٹنے لگا اسکے پیارے پاپا کو اس آدمی نے مار ڈالا تھا ایک دم اسکی نظروں کے سامنے آپی کی صورت لہرائی
"آ....آپی کو بھی آپ نے ...." وہ بات پوری نہ کر پائی اسکا دل خون کے آنسو رو رہا تھاوہ کون کون سی بات پر آنسو بہاتی آج تو بہت سے رازوں سے پردہ ہٹ رہا تھا .
"نہ..نہ سالی صاحبہ مناہل میری جان تھی
اسے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا میں ورنہ مشکل
نہیں تھامیرے لئے کہ میں تمہارے باپ کی موت کےبعد مناہل کو مروا دیتا اتنے
سال انتظار کیوں کرتا پر اپنے پاس بھی ایک دل ہےجسے مناہل سے محبت تھی"
بات کرتے ہوئے خُرم کی آنکھوں میں ایک پل کے لئے اداسی اتر آئی دعا نے سوچا کیا اس جیسا ظالم درندہ بھی کسی سے محبت کر سکتا ہے؟اسکی آپی بہت اچھی تھیں انکے لئے ایسا شخص نہیں ہونا چاہئے تھا.
وہ سوچ رہی تھی کہ کاش یہ کوئی برا خواب ہو پر ایسا نہیں تھا وہ اکیلی اس بھیڑیے نما انسان کے سامنے تھی اسکے اپنے , اسکے پیارے اس سے بہت دور تھے کون آۓ گا اسکی مدد کے لئے "ازھران" اچانک دل نے اسے یاد دلایا کہ وہ اکیلی تو نہیں ہے پر .....ازھران اس وقت یہاں کیسے آ سکتا ہے؟ وہ خود سے ہی سوال کرتی پھر انکے جواب دینے میں لگی تھی کہ اچانک اسے بالوں سے پکڑا گیا دعا نے آنکھیں کھولیں تو خُرم قریشی اسے غصے سے گھور تے ہوئے بولا "مناہل سے محبت اپنی جگہ پر دولت مجھے تب بھی چاہئے تھی اور اب بھی چاہئے چل سائن کر" دعا کے بالوں کو جھٹکا دے کر کہا گیا درد کی شدت سے اسکی آنکھوں سے پانی نکلنے لگا اسنے سوچ لیا چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ سائن نہیں کرے گی جس آدمی نے اسکے پاپا کی جان لی اس شخص سے بالکل نہیں ڈر ے گی جیسے بی جان اسے کہتیں تھیں ویسے ہی اب وہ بہادر بنے گی.خُرم قریشی نے جھٹکا دے کر اسے میز کے سامنے کھڑا کیا
"کرو سائن" غصے سے کہا گیا دعا نے ایک نظر اسے دیکھا پھر میز پر رکھے پیپرز کو ہاتھ بڑھا کر پیپرز اٹھاۓ اور انھیں دو ٹکروں میں تقسیقم کر کے ہوا میں اچھال دیا
"کبھی نہیں....تم مجھے مار بھی ڈالو پر میں سائن نہیں کرونگی میرے پاپا کو اسی پراپرٹی کی وجہ سے مارا تھا نہ تم نے...." اسنے روتے ہوئے ہچکی بھری "یہ...یہ پراپرٹی تمہیں کبھی نہیں ملے گی سمجھے تم" وہ ہال کے دروازے کی طرف بڑھنے لگی کہ خُرم نے اسے دبوچ لیا " کیا لگتا ہے تجھے میں اتنی آسانی سے جانے دونگا میری سونے کی چڑیا "
"جانے دومجھے ذلیل انسان" وہ خود کو چھوڑانے لگی اسکا دوپٹہ نیچھے گر چکا تھا .
"ہاہ....جانےدوں ؟" وہ طنزیہ ہنسا
" پہلے تو بہت کچھ سوچا تھا تمہارے لئے پر اب تمہیں , تمہارے باپ کے پاس پہنچاؤں گا تب تم کیسی روکو گی اس پراپرٹی کو میرا ہونے سے ہاں بولوں؟"غصے سے کہتا وہ درندہ اب دعا کو گھسیٹنے لگا دعا نے اپنی پوری طاقت لگا کر اپنے آپ کو اس سے چھوڑایا پھر اگلے ہی پل ایک کرارا تھپڑ خُرم قریشی کے منہ پر لگا تھا.
"تم ایک کمینے انسان ہو خدا تمہیں تباہ کرے" روتے ہوئے بد دعا دی گئی تھی .
"تیری...تو...میں..." غصے سے لال ہوتا خُرم قریشی اسکی طرف بڑھا دعا پیچھے ہٹی پر خُرم کا بھاری ہاتھ اسکے بائیں گال پر اتنی شدت سے لگا کہ وہ منہ کے بل زمین پر گری ہونٹ پھٹ کر خون نکلنے لگا آنکھوں کے سامنے دھند چھانے لگی پھر اچانک کوئی
بھاگ کر اس تک آیا وہ سمجھ گئی کہ اب اسکی زندگی ختم ہونے والی ہے پر قدموں کی آواز ہال کے باہر سے آئی اور وہ ہال کے بیچ میں گری ہوئی تھی آنے والا اسکا ہمسفر تھا وہ دعا تک پہنچا اور اسے اپر اٹھایا دعا نے اسے دیکھا تو اسکے گلے لگ گئی جیسے خود کو چھپانا چاہ رہی ہو ازھران کی آنکھیں غصے سے لال ہو رہیں تھیں اسنے دعا کا سر تھپکا اسکے ہونٹوں سے نکلتے خون کو دیکھ کر وہ خُرم قریشی کی طرف پلٹا جو حیرت سے سب دیکھ رہا تھا .
"تم خبیث انسان تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کو ہاتھ لگانے کی" وہ غصے سے لال ہوتا خُرم تک آیا اور زور دار گھونسا اسکے منہ پر دے مارا خُرم قریشی دو قدم پیچھے ہٹا اسکا چہرہ گھوم کر رہ گیا .
"بیوی ہے تیری یا ....." گندی گالی دے کر خُرم نے اسے غصے سے گھورا
اسکی بات نے ازھران کو تو جیسے آگ لگا دی وہ غصے سے اسکی پلٹا جبکہ دعا ڈری سہمی سی ایک طرف کھڑی تھی.
"تمہاری یہ ہمت گندے انسان ہر کسی کو اپنی طرح غلیظ سمجھا ہے" ازھران نے دھاڑ کر کہا ساتھ ہی اسکا گریبان پکڑا پھر اسکی وہ حالت کی کہ خُرم قریشی اٹھنے کے قابل نہیں رہا ازھران اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا
"ایک لڑکی کو بے بس سمجھ کر شیر بن رہے تھے تم اب کیا ہوا خُرم قریشی صاحب منہ کے بل پڑیں ہیں" طنزیہ انداز میں کہتا وہ وہاں سے اٹھا جبکہ خُرم قریشی جواب دینے کے قابل نہیں رہا تھا وہ زمین پر بیہوش پڑا تھا .
ازھران نے زمین پر پڑا دعا کا دوپٹہ اٹھایا اور دعا کے سامنے کھڑا ہوگیا دعا سر جھکاۓ کھڑی تھی ازھران نے دوپٹہ کھول کر دعا کے سر پر پھیلایا پھر اسکا چہرہ ہاتھوں میں لے کر اسکا سر اپر کیا وہ رو رہی تھی اسکی ناک اور آنکھیں سرخ ہورہی تھیں اسنے نظر اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے اس پیارے سے شخص کو دیکھا آج وہ دعا کو اپنی سانسوں سے زیادہ قریب لگا ازھران کو اپنے سامنے دیکھ کر اسکی آنکھیں اور تیزی سے برسنے لگیں تھیں.
"شش.... سنو وائٹ روتے نہیں ہیں جب آپ کے پاس ازھران علی خان جیسا شوہر ہو تب تو بالکل نہیں" ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہہ کر اسنے ہاتھ بڑھا کر اسکے آنسو صاف کیئے نکاح کے بعد پہلی بار ازھران ان دونوں کے بیچ اس خوبصورت رشتے کی بات کر رہا تھا . دعاکو معلوم تھا کہ وہ اس کے خوفزدہ ہونے کی وجہ سے ہلکی پھلکی بات کر رہا ہے ورنہ ماحول ایسا کہا تھا کہ وہ یہ سب کہتا دعا کے اسے مسلسل دیکھنے پر ازھران اسکے قریب ہوا اور اسکی پیشانی پر اپنےلب رکھ دیئے دعا ایک دم سے کانپ سی گئی ازھران نے ایک نظر اسے دیکھا دعا کا چہرہ گلنار ہورہا تھا وہ ہلکے سے ہنسااور دو قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہوا گیا.اچانک فاطمہ آپا بی جان کے کمرے سے بھاگتی ہوئی باہر نلکیں
"دعا باجی آپ ٹھیک تو ہیں نہ؟" انہوں نے فکر مندی سے سوال کیا
"فاطمہ آپا.... آپ اس وقت یہاں" دعا نے انھیں حیرت سے دیکھا وہ سوچنے لگی اگر وہ یہیں تھیں تو اسکی مدد کے لئے پہلے کیوں نہ آئیں
"فاطمہ آپا نے ہی مجھے فون کیا تھا" ازھران نے دعا کو بتایا.
فاطمہ آپا ویسےتو جلدی اپنے کواٹر میں چلی جاتیں تھیں پر آج دعا کی طبیعت خرابی کی وجہ سے انہیں دیر ہوگئ تھی پھر وہ بی جان کے کمرے میں آئیں تاکہ انکے کپڑے نکال کر رکھ لیں صبح کسی مجبور کو دے دیں گی جب خُرم قریشی واپس لوٹا تو سمجھا کہ دعا اکیلی ہو گی وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ فاطمہ آپا بھی وہاں موجود ہو سکتیں ہیں تبہی اپنے ناپاک ارادے لئے وہ دعا کے کمرے میں گیا پرجب وہ دعا کو پیپرز سائن کرنے کا کہہ رہا تھا تب فاطمہ آپا نے انکی آوازیں سن کر باہر دیکھا تو حیران رہ گئیں خُرم قریشی کیا کرکہہ رہا تھا پر وہ زیادہ دیر تک حیران نہ رہیں سکیں انھیں خُرم پر ہمیشہ سے شک رہا تھا اور انھیں نے کئی بار دعاکو بتانا بھی چاہا تھا پر بتا نہ پائیں پر بی جان کو پتا چل چکا تھا تبھی وہ جاتے ہوئے دعا کو ازھران جیسے مضبوط شخص کے حوالے کیا اور آج ازھران نے ثابت کر دیا کہ بی جان کا فیصلہ کتنا صحیح تھا.
فاطمہ آپا نے جلدی سے ازھران کو فون کیا اور ساری بات بتائی ازھران نے فاطمہ آپا کو باہر جانے سے منا کیا کہ اگر خُرم کو معلوم ہو گیا کہ اسکی باتیں کوئی اور بھی سن چکا ہے تو وہ جان لینے سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور ازھران ایسا نہیں چاہتا تھا کہ دعا یا فاطمہ آپا کو کوئی نقصان پہنچے اسنے فاطمہ آپا کو فون آن رکھنے کا کہا تاکہ وہ سن سکے کہ خُرم قریشی کیا چاہتا ہے .ازھران جیسے میلوں کا سفر طے کر نے کے بعدجہانگیر ولا پہنچا تھا وہ فون پر سب سن چکا تھا اسکی دل کی دھڑکن کبھی تیز ہورہی تھی تو کبھی بالکل مدھم جیسے اسے بتا رہی ہو کہ اسکے دل میں رہنے والی ٹھیک نہیں ہے.
"فاطمہ آپا میں دعا کو لے جارہا ہوں سمجھ لیں اسکی رخصتی ہو گئی" اسنے مضبوطی سے دعا کا ہاتھ تھام کر کہا
"جی ازھران بھائی آپ انہیں یہاں سے لے جائیں صبح تو ہم نے بھی چلے جانا ہے"
فاطمہ آپا اس خوبصورت جوڑے کو دیکھ کر بولیں پھر بیہوش پڑے خُرم کو دیکھا
"اسکو بھی جلد دیکھ لیں گے" ازھران نے فاطمہ آپا کے دیکھنے پرایک نظر بیہوش پڑے خُرم پر ڈالی پھردعا کو دیکھ کر بولا " چلیں " دعا نے اثبات میں سر ہلا دیا پھر فاطمہ آپا سے گلے ملی "اللّه حافظ فاطمہ آپا "
" اللّه حافظ.... خدا آپکو بہت ساری خوشیاں دے دعا باجی اپنا خیال رکھیئے گا" وہ دعائیں دینے لگیں دعا اسنے الگ ہوئی.
ازھران نے دعا کا ہاتھ تھاما اور باہر کی طرف بڑھ گیا فاطمہ آپا بھی جلدی سے وہاں سے نکلیں کیونکہ انھیں سامان سمیٹ کر کل یہاں سے جانا تھا جاتے ہوئے دعاکی آنکھوں میں نمی اتر آئی وہ ہمیشہ کے لئے اپنا گھر چھوڑ کر جا رہی تھی اتنا آسان تو نہ تھا اسکے لئے وہ گھر چھوڑ دینا جہاں اسکا بچپن گزرا , جہاں اسکے اپنوں کی بے شمار یادیں تھیں اور یوں رخصتی ہونا ...... اگر اسکے پاپا زندہ ہوتے تو کیا تب بھی اسکی رخصتی ایسے ہوتی ؟ یقیناً نہیں..... پر وہ مطمئن تھی کہ ازھران اسکے ساتھ تھا اسکے لئے یہی بہت تھا.
########
" تیری دھڑکن سے سانس چلتی ہے"
دل نہیں تم ہو میرے سینے میں
دونوں خاموشی سے گاڑی میں بیٹھے تھے دعا نے ایک نظر اسے دیکھا وہ سامنے دیکھ کرگاڑی چلا رہا تھا دعا خاموشی سے باہر دیکھنے لگی.
"تمہیں زیادہ چوٹ تو نہیں آئی؟" ازھران کی بھاری آواز گاڑی میں گونجی دعانے اسے دیکھا "نہیں" اسنے بس اتنا ہی کہا یہ نہ کہہ سکی کہ اسکا دل زخمی ہے کیسے اُس آدمی نے اسکے باپ کو مار ڈالا جسے وہ سالوں سے بھائی بولتی آئی تھی اور اسکے اپنے ......وہ کہا سے واپس لاتی اپنے پیاروں کو ...... وہ سوچوں میں گم تھی ازھران نے اسے دیکھا اسکے ہونٹ سے خون بہہ رہا تھا چہرہ ہلدی کی طرح زرد تھا ازھران نے ایک لمبی سانس کھینچی وہ جتنا دعا کو تکلیف سے دور رکھنا چاہتا تھا وہ اتنے ہی درد اٹھا رہی تھی پر اب اور نہیں وہ اب اپنی سنو وائٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دے گا.
کار گھر کے سامنے رکی ازھران گیٹ کھول کر کار اندر لے آیا پھر دونوں اندر کی جانب بڑھ گئے دعا صوفے پر بیٹھ گئی اسکی ٹانگیں کانپ رہی تھیں ازھران کچن کی طرف آیا گلاس میں جوس ڈال کر دعا کو دیا پھر کمرے کی طرف چلا گیا کچھ دیر بعد وہ فرسٹ ایڈ باکس لے کر واپس آیا اسنے دعا کو دیکھا جو صوفے سے ٹیک لگاۓ بیٹھی تھی اسکی آنکھیں بند تھیں ازھران اسکے قریب ہی بیٹھ گیا دعا جلدی سے آنکھیں کھول کر سیدھی ہو بیٹھی ازھران نے کاٹن سے دعا کے ہونٹ سے نکلتا خون صاف کیا دوسرے ہاتھ سے اسکے بالوں کی لٹیں پیچھے کی جو چہرے پر آ رہی تھیں .
"درد تو نہیں ہورہا ؟" محبت سے پوچھا گیا
دعا نے نفی میں سر ہلایا ازھران نے ٹیوب انگلی پر لگا کر اسکے زخم پر لگائی پھر ایک نظر اسکی گلابی آنکھوں کو غور سے دیکھا جو برسنے کے لئے بےتاب تھیں وہ کیا کرتا ؟ جس سے اس لڑکی کے سارے درد ازھران علی خان کے ہو جاتے وہ اسے ایسی حالت میں نہیں دیکھ سکتا تھا.
"تم رو لو سنو وائٹ" اچانک ازھران نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا اسکی بات پر دعا نے اسے حیرت سے دیکھاازھران اسی پر نظریں جمائے بیٹھا تھا ازھران جانتا تھا کہ اسکے دل میں بہت کچھ چل رہا ہے اگر وہ نہ روئی تو اسے کچھ ہو جائے گا تبھی وہ چاہتا تھا کہ ایک بار دعا جی بھر کر رو لے.
"سچ کہہ رہا ہوں رو لو ......پر آخری بار آج کے بعد ازھران علی خان تمہیں رونے نہیں دیگا"
بس اتنا کہنے کی دیر تھی دعا چہرے پر ہاتھ رکھ کر رونے لگی ازھران نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی پچھلے دو ، تین دنوں میں وہ اتنا رو چکی تھی کہ اب تو جیسے اسکے آنسو ختم ہونے لگے تھے جب وہ جی بھر کر رو چکی تو ازھران سے الگ ہوئی پھر اسے دیکھا ازھران نے ہاتھ بڑھا کر اسکے آنسو صاف کیئے.
"بس؟"ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ سوالیہ انداز میں پوچھا گیا وہ جاننا چاہ رہا تھا کہ بس یا اور رونا باقی ہے دعا نے ہاں میں سر ہلا دیا کہ....."بس" وہ رو چکی.
"گڈ گرل...چلو آؤ اب آرام کر لو" اسکی ناک ہلکے سے دبا کر کہا دعا مسکرا دی ازھران نے اٹھ کر اسکا ہاتھ پکڑا اوراپنے کمرے میں لے آیا
"تم آرام سے سو جاؤ زیادہ سوچنا مت اوکے" اسکے گال کو نرمی سے چھوکر کہا گیا
"جی " دعا نے جواب دیا تو وہ کمرے سے باہر چلا گیا آج اسے بہت سا کام کرنا تھا .
دعا نے دوپٹہ سائیڈ پر رکھا پھر بیڈ پر لیٹ گئی یہاں ہر طرف ازھران کی خوشبو پھیلی تھی اسنے آنکھیں بند کیں اور سونے کی کوشش کرنے لگی جبکہ ازھران دوسرے کمرے میں آیا دروازہ بند کیا پھر چلتا ہوا بک شیلف تک آیا جو زمین سے لے کر چھت تک تھی اسنے ایک جگہ سے دو کتابیں ہٹائیں پھر ایک بٹن دبایا اور بک شیلف دو حصوں میں تقسیم ہوگئی جسکے پیچھے ایک دروازہ بنا تھا ازھران نے اس دروازے کو کھولا اور اندر داخل ہوا اس کمرے میں دیواروں پر پیپرز ، تصویریں لگی تھیں ایک میز اور کرسی کے علاوہ اس کمرے میں کچھ نہ تھا ازھران کرسی پر بیٹھا سامنے پڑے پیپرزکو چیک کرتا رہا کہ کچھ ہاتھ لگ جائے نجانے کتنا وقت گزرا وہ کام میں مصروف رہا پھر کچھ ضروری پیپرز ایک فائل میں رکھے اورفائل اٹھا کر کمرے سے باہر نکل آیا یہ اسکا خفیہ کمرہ تھا جہاں وہ اپنے کیس سے متعلق ساری جما شدہ چیزیں رکھتا تھا.
کمرےسے باہر نکل کر اسنے بک شیلف بند کی فائل الماری میں رکھی پھر کمرے سے باہر نکل گیا گھڑی دیکھی تو ایک بج رہا تھا وہ اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر آہستہ سے اندر آیا دعا سو رہی تھی وہ وہاں کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر الماری سے اپنے کپڑے نکالے اور کمرے سے باہر نکل گیا وہ نہیں چاہتا تھا کہ آواز ہونے کی وجہ سے دعا کی نیند ٹوٹے وہ کپڑے بدل کر لاؤنج میں رکھے صوفے پر سونے کے لئے لیٹ گیا صبح اسنے دعا کو گاؤں میں دادو کے پاس لے کر جانا تھا تا کہ وہ وہاں آرام سے رہ سکے یہی سب سوچتے ہوئے وہ سو گیا . #######
خُرم قریشی کوجب ہوش آیا تو وہ لوگ جا چکے تھے گھر سنسان تھا تب سے وہ پاگل ہوا تھا چہرے پر لگے زخم کئی بار شیشے میں دیکھ چکا تھا پھر اسنے کسی کو کال ملائی اور زخمی شیر کی طرح غرا کر بات کرنے لگا
"مجھے وہ ...... جلد سے جلد اپنے قدموں میں چاہئے اور وہ ......لڑکی بھی" وہ غصے سے گالیاں بک رہا تھا پاگلوں کی طرح اِدھر سے اُدھر چکر لگا رہا تھااسنے فون بند کیا اور ایک بار پھر وہ شیشے کے سامنے آیا چہرے پر نیل پڑے تھے منہ سے خون نکل رہا تھا
"تو مجھے جانتا نہیں ہے ازھران علی خان تجھے چھوڑوں گا نہیں" آنکھوں میں شیطانی چمک لئے وہ چہرے پر ہاتھ پھیرتا گالی بک کرکہنے لگا . ########
صبح دعا کی آنکھ کھلی ہر طرف مکمل خاموشی چھائی تھی اسنے ایک نظر پورے کمرے میں گھمائی پھر بیڈ پر اٹھ بیٹھی ہاتھوں سے بال سمیٹے سائیڈ سے دوپٹہ اٹھا کر اوڑھا پھر نیچھے اتری واش روم سے فریش ہو کر نکلی تو آئینے میں خود کو دیکھا اسنے لائٹ گرین رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا جس میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی آرام کرنے سے اب وہ کافی بہتر محسوس کر رہی تھی ایک بار چہرے پر ہاتھ پھیر کر وہ کمرے سے باہر نکلی ازھران کچن میں کھڑا تھا.
"گڈ مارننگ پیاری سنووائٹ" خوش گوار انداز میں اسے دیکھ کر بولا گیا
"مارننگ آپ کیا کر رہے ہیں ؟" وہ اوپن کچن کی دوسری طرف کھڑی ہو گئی
"چلو بیٹھو ناشتہ کرتے ہیں پھر جانا بھی ہے" وہ چاۓ کپوں میں ڈالتے ہوئے بولا
"کہا جانا ہے ؟" اسنے الجھ کر پوچھا
"گاؤں....تمہارا یہاں رہنا ٹھیک نہیں ہے اسلئے گاؤں لے جارہا ہوں.... چلو بیٹھو" ازھران نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا دعاکرسی پر بیٹھ گئی ازھران ڈائننگ ٹیبل پر چیزیں رکھ کر خود بھی بیٹھ گیا.
"آپ...آپکی دادو کو ..." دعا جھجک کر چپ ہوگئی ازھران نے اسے دیکھا وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہی ہے
"دادو کو ہمارے نکاح کے بارے میں پتا ہے اور انھیں تم بہت پسند ہو " ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا گیا دعا نے خاموشی سے کپ لبوں سے لگا لیا وہ جھجک کر چپ ہی رہ کوئی جواب نا دے پائی دونوں نے خاموشی سے ناشتہ کیا پھر ازھران اٹھ کھڑا ہوا "میں چینج کر لوں پھر نکلتے ہیں اوکے "
وہ کہہ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا دعا نے دوپٹہ اچھے سے لیا پھر صوفے پر بیٹھ کر ازھران کا انتظار کرنے لگی وہ کچھ دیر بعد کمرے سے باہر آیا بلیک پینٹ اور شرٹ میں آستین اپر کی طرف فولڈ کرتا وہ دعا کی طرف آیا اور اسکے سامنے کھڑا ہو گیا "آجاؤ"
ہاتھ اسکی بڑھا کر اسے دیکھتے ہوئے بولا گیا دعا نے ایک نظر اسے دیکھا پھر اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا دیا اور اٹھ کھڑی ہوئی دونوں چلتے ہوئے پورچ تک آۓ پھر کار میں بیٹھےاور کار آگے بڑھا دی راستے میں دونوں ہلکی پھلکی باتیں کرتے رہے دو گھنٹوں میں وہ گاؤں پہنچ چکے تھے کار حویلی کے اندر داخل ہوئی ازھران نے کار پورچ میں روکی دونوں کار سے باہر نکلے دعا حویلی کو دیکھ کر حیران رہ گئی بے حد خوبصورت حویلی سفید ماربل سے بنی تھی لان میں بے شمار پھول تھے اسکا اپنا گھر بھی بہت پیارا تھا پر یہاں آکر اسے لگا جیسےوہ پرستان میں آ گئی ہو ازھران نے اسے پکارا تو وہ جیسے سحر سے نکلی ہو اسنے اپنےسامنے کھڑے ازھران کو دیکھا "چلو سنو وائٹ" اسکا ہاتھ تھام کر کہا گیا وہ جب بھی اسکا ہاتھ تھامتا تھا دعا کو محسوس ہوتا کہ وہ محفوظ ہے کوئی اسکا اپنا ہے جو ہر موڑ پر اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے .
"آپکا گھر بہت پیارا ہے" لان کی طرف دیکھ کر وہ بولی
"میرا نہیں.....ہمارا گھر بہت پیارا ہے" اسکے قریب ہو کر کان میں سرگوشی کی گئی دعانے اسے دیکھاوہ بات کہہ کراسکا ہاتھ تھامے آگے بڑھ گیادونوں ہال کے دروازے سے تھوڑے فاصلے پر تھے جب ایک سولہ سالہ لڑکی انہیں دیکھ کر ہنستی ہوئی اندر بھاگی اور دادو کے پاس گئی جو ہال میں صوفے پربیٹھیں تھیں.
"بڑی بیگم ازھران بھائی دلہن کو لےکر آ گئے" وہ خوشی سےاونچی آوازمیں دادوکو بتانےلگی.
"اے رانی ہم بہرے نہیں ہے آہستہ بول" دادو کی جگہ اسکی اماں بولیں .... اماں حویلی میں کھانا بناتی تھیں اور رانی انکی پوتی تھی وہ بہت شرارتی تھی یہاں وہ کام میں اماں کی مدد کرتی تھی "رانی بچوں کو لے کر آتی نہ اکیلی بھاگی آئی ہو " دادو کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئیں پر تب تک وہ دونوں دادو کے سامنے تھے دعا کو تو بہت عجیب محسوس کررہی تھی.
"اسلام و علیکم پیاری دادو" ازھران نے انکے سامنے جھک کر کہا دادو نے اسکی پیشانی چومی "وعلیکم السلام میرا بچا" دادو بہت خوش تھیں دعا نے انھیں سلام کیا اور دادو نے آگے پر کر اسے گلے سے لگایا پھر اسکی پیشانی چومی دعاکو بی جان کی یاد آگئی اسکی آنکھیں نم ہو گئیں.
"نہ میری بیٹی روتے نہیں ہے آج سے میں ازھران کے ساتھ تمہاری بھی دادو ہوں" دادو نے دعا کو اپنے ساتھ صوفے پر بٹھایا اورپیار سے بولیں"جی دادو "وہ دھیمی آواز میں بولی "افف اللّه ازھران بھائی آپکی دلہن کتنی پیاری ہیں" رانی جو کب سے خاموش کھڑی تھی جب اس سے رہا نہیں گیا تو بول پڑی اماں نے اسکی طرف آنکھیں نکالیں کہ منہ بند رکھو پر رانی نے کہا سننا تھا.
"اچھا .... سچی میں تمہیں اچھی لگیں؟" ازھران نے ہنس کرپوچھا وہ رانی کو بالکل چھوٹی بہن کی طرح ٹریٹ کرتا تھا.
"بالکل بھائی....بہت پیاری" رانی نے زور زور سے سر ہلا کر یقین دلانا چاہا اور اسکی بات پر دعا کی رنگت گلابی ہونے لگی ازھران سامنے بیٹھا دعا کے چہرے پر بکھرے رنگ دیکھ رہا تھا "مان لیا چھوٹی تم سچ کہہ رہی ہو" مسکراہٹ چھپا کر کہا گیا اس سے زیادہ بھلا وہ کسے پیاری لگ سکتی تھی ازھران کو تو وہ ہر ہرانداز میں اچھی لگتی تھی.
"چلو اب میری بچی کو پریشان مت کرو..... چلو رانی بچوں کے لئے کچھ لے کر آؤ" دادو نے دعا کو اپنے ساتھ لگا لیاازھران ایک دم سے اٹھ کھڑا ہوا" دادو میں چلتا ہوں...کچھ ضروری کام ہے"ازھران نے سنجیدگی سے کہا
"بیٹا ابھی تو آئے ہو کچھ دیر توبیٹھ جاؤں" دادو نے اسے دیکھا اور دعا کی نظر بھی اسکی طرف اٹھی
"نہیں دادو بہت ضروری کام ہے ابھی میں چلتا ہوں پھر آؤنگا آپ دعا کا خیال رکھئے گااللّه حافظ" مسکرا کر کہتا وہ دادو سے ملا ایک گہری نظر دعا پر ڈالی پھر پلٹ کر جانے لگا جبکہ دعا اسے دور جاتے دیکھتی رہی اسکا دل گھبرا رہا تھا. باہر کی جانب بڑھتے ہوئے ازھران کے چہرے پر مسکراہٹ کی جگہ گہری سنجیدگی نے لے لی تھی اسنے جلتی آنکھوں پر گلاسز لگائے کار میں بیٹھا اور زن سے کار آگے بڑھا دی.
######## معاذ بلیک کے آفس میں بیٹھا فون پر بلیک سے بات کر رہا تھا آج رات انھیں روس اور ہیرا مندی والا مال ایک ساتھ بھیجنا تھا بلیک معاذ کو سمجھا رہا تھا کہ کیا کیا کرنا ہے باقی اسکے سب ساتھی مال کو چیک کرنے میں لگے تھے بچوں کو تو وہ لوگ ڈرا کر چپ کروا لیتے اور کچھ لڑکیاں بھی ان بد نما غنڈوں سے ڈر کر خاموش رہتی جبکہ کچھ جو اپنی جان دینے کے در پر ہوتی یا چیخنے لگتیں انھیں نشے کے انجکشن لگا کر مدہوش کیا جاتا پھر انھیں کسی چیز کی ہوش نہ رہتی. انھیں روس والا مال شپ کے ذریعے بھیجنا تھا جبکہ ہیرا منڈی والا مال گاڑیوں میں لاہور تک لے کر جانا تھا وہ لوگ اس کام کی مکمل تیاریاں کر چکے تھے اب عملی قدم اٹھانا باقی تھا . ##########
ازھران حویلی سے سیدھا اپنے گھر آیا الماری سے فائل لی پھر گھر سے نکل پڑا اسکا رخ ڈی آئی جی کے آفس کی طرف تھا جہاں شاہ میر ، عدیل اور اسکی , آغا رضا کاظمی کے ساتھ میٹنگ تھی آج انھیں اس کیس کا اہم اسٹیپ لینا تھا.ازھران آفس پہنچا جہاں شاہ اور عدیل بیٹھے تھے آغا رضا کاظمی ابھی تک وہاں نہیں آۓ تھے ازھران دونوں سے ملا پھر تینوں بیٹھ کر کیس سے متعلق ضروری باتیں ڈسکس کرنے لگے کچھ دیر بعد آغا رضا کاظمی آۓ تینوں نے سلام کیا اور ازھران نے فائل ٹیبل پر انکے سامنے رکھی
"سراس فائل میں ساری معلومات ہے جو ہم نے اکھٹی کی ہے ساتھ ہی عمر نے جو انفارمیشن دی تھی اسکے مطابق آج ہی بلیک گینگ اپنا کام کرنے والی ہے جسے ہمیں روکنا ہوگا" ازھران نے انھیں دیکھ کر کہا
"بالکل ٹھیک آپ اسپیشل ٹیم کو اپنے ساتھ رکھیں اور موحتاط رہ کر کام کریں کہیں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے ورنہ بہت نقصان ہوگا اور ایک بات میڈیا کو اس بات کی خبر نہیں ہونی چاہئے کیونکہ کتنی ہی معصوم لڑکیوں کی عزت کا سوال ہے "آغا رضا کاظمی سوچتے ہوئے بولے وہ پریشان تھے پر انھیں ان نو جوانوں پر بھروسہ تھا" آپ بے فکر رہیں سر" ازھران نے پر عزم انداز میں کہا
"بالکل سر.... ہم سب ہینڈل کر لیں گے"شاہ بولا تو عدیل نے بھی اثبات میں سر ہلایا
"ویل ڈن بوائز آپ جیسے بہادر نو جوانوں کی ہی ضرورت ہے ہمارے ملک کو مجھے آپ لوگوں پر فخر ہے" آغا رضا کاظمی پر جوش لہجے میں بولے انھیں یقین ہو چلا تھا کہ یہ لوگ انشاء اللّه ضرور کامیاب ہونگے.
پھر کچھ دیر کے بعد شاہ اور عدیل چلے گئے جبکہ ازھران وہیں بیٹھا آغا رضا کاظمی سے کیس کے متعلق بہت سی ضروری باتیں ڈسکس کرنے لگا اور آغا رضا کاظمی بڑے غور سے اسکی باتیں سن رہے تھے کیس کو ازھران علی خان ہینڈل کر رہا تھا اسلئے جیسا وہ پلان بناۓ گا آگے اسے پر عمل ہوگا . ########
وہ دادو کے ساتھ والے کمرے میں ٹہری تھی جب سے وہ حویلی آئی رانی نے باتیں کر کر کے اسکا دماغ کھا لیا تھا آخر اسے اپنی اماں سے ڈانٹ پڑی تب کہیں جا کروہ کام کرنے کے لئے اٹھی دعا کو وہ شرارتی سی لڑکی "رانی"اچھی لگی تھی رانی اس سے ازھران کی باتیں کرتی رہی اسنے بتایا کہ ازھران کا کمرہ دوسرے فلور پر ہے ، اسے کیا پسند اور نہ پسند ہے دعا اس باتونی لڑکی کی باتیں خاموشی سے سنتی رہی. اسے ازھران کے بارے میں جاننا اچھا لگ رہا تھا رانی کے جانے کے بعد دعا, دادو سے باتیں کرتی رہی دادو نے اسکے لئے بہت سے سوٹ بنوائے تھےجو زیادہ کام والے نہ تھے وہ دعا کو دیکھا رہیں تھیں جب ازھران نےدادو کو بتایا کہ کن حالات میں انکا نکاح ہوا تھا دادو کو بی جان کی ڈیتھ کا سن کر بہت دکھ ہواتھا دادو اسے سب بتا رہیں تھیں کافی دیر وہ دادو سےباتیں کرتی رہی پھر دادو نے اسے آرام کرنے کا کہا تو وہ اپنے کمرے میں چلی آئی تھکن بہت ہورہی تھی وہ سوئی تو پھر آنکھ مغرب کی آذان پر ہی کھلی دعا نے نماز پڑھ کر اللّه سے اپنے سب پیاروں کےلئے دعا مانگی اسکا دل بلا وجہ گھبرا رہا تھا وہ کمرے سے باہر نکلی ہال سے باتوں کی آوازیں آرہی تھیں وہ وہیں چلی آئی سامنے دیکھا تو رانی چاۓ بنا رہی تھی .
"آؤ بیٹا " دادو نے اسے اپنے پاس بلایا دعا چلتی ہوئی انکے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی
"طبیعت ٹھیک ہے بیٹا؟" دادو کو اسکا چہرے مرجھایا ہوا لگا.
"جی دادو ....بس سر بھاری ہو رہا تھا"
"ٹھیک سے آرام نہیں کیا ہوگا تم نے " دادو پریشان ہو نے لگیں.
"دعا آپی آپکو چاۓ دوں" رانی جلدی سے بولی اسے دعا بہت اچھی لگتی تھی .
"ہاں دے دو رانی .... اور دادو میں ٹھیک ہوں بس ہلکا سا سر درد ہے چاۓ پی لونگی تو ٹھیک ہو جائے گا "رانی کو جواب دے کر وہ دادو کا ہاتھ تھام کر انھیں بتانے لگی وہ انھیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی کچھ دیر بعد دادو کمرے میں چلی گئیں اور رانی اسکے قریب آئی" دعا آپی"رانی آہستہ آواز میں بولی "ہاں رانی بولو"دعا نے چاۓ کا سپ لیتے ہوۓ کہا رانی مزید اسکے قریب ہوئی دعا نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا
"آپکو ازھران بھائی یاد آ رہے ہیں نہ ؟" رانی کی شرارتی آنکھیں چمکیں دعا نے چونک کر اسے دیکھا "چپ کرو لڑکی" دعا نے آنکھیں دیکھا کر کہا ..... ویسے سچ بات تو یہی تھی کہ اسے ازھران بے حد یاد آرہا تھا.
"میرے چپ رہنے سے کیا وہ آپکو یاد آنا بند ہو جائیں گے ؟" آنکھیں گھما کر معصومیت سے پوچھا گیا دعا کا رنگ گلابی ہونے لگا یہ چھوٹی سی لڑکی کیسے اسکے دل کی بات جان گئی اور اب اسے تنگ کر رہی تھی
"ایساکچھ نہیں ہے" دعا نے کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے جواب دیا .
"بتادے نہ دعا آپی پھر میں ازھران بھائی سے کہوں گی کہ وہ جلدی آ جائیں " شرارتی ہنسی ہنس کر وہ بولی
"روکوتم تمہاری اماں کو ابھی بتاتی ہوں..اماں...." دعا نے رانی کو ڈرانے کے لئے اماں کو آواز دی اور رانی نے واقعی ڈر کر کان پکڑ لئے پھر منہ بنا کر بولی
"اچھا معاف کر دیں کچھ نہیں پوچھتی آپ سے " اسکے ڈر کر کہنے پر دعا ہنسنے لگی اسے تو اپنی ہنسی بھی انجان لگی کتنے عرصے بعد وہ ایسے ہنسی تھی.
"پھر بتا دیں نہ " دعا کو ہنستے دیکھ کر رانی نے پھر پوچھا
"رانی......میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں" دعامصنوعی غصے سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی اور رانی کھلکھلا کر معافی ، معافی کہتی بھاگنے لگی دعا اسے دیکھ کرہنسنے لگی اس پاگل لڑکی نے ایک دن میں اسے اتنا ہنسا دیا تھا . شاید تبھی ازھران اسے یہاں لے کر آیا تھا ہنستے ہوئے ایک دم اسکی آنکھوں میں آنسو آگے اسنے جلدی سے آنسو صاف کئےاب اسے رونا نہیں تھا بلکہ وہ اب خوش رہنا چاہتی تھی . #######
رات کا اندھیرا چاروں طرف پھیل چکا تھا ازھران ، شاہ میر ، عدیل اور اسپیشل ٹیم کے آٹھ نو جوان بلیک گینگ کی خفیہ جگہ کو گھیر چکے تھے ابھی بلیک کے لوگ مال لے کر نکلے نہیں تھے اور یہی ازھران کا پلان تھا کہ انکے نکلنے سے پھیلے چھاپہ مارا جائے تا کہ جتنی بھی لڑکیاں یا بچے ہیں انھیں ایک ساتھ بچایا جا سکے اور اپنے کام کو انجام تک پہنچانے کے لئے اسکی ٹیم یہاں تھی یہ گندے سے علاقے میں پرانی سی بلڈنگ تھی جہاں کوئی نہیں رہتاتھا وہ لوگ بلڈنگ کے اندر داخل ہوئے ہاتھوں میں پسٹل لئے تہ خانے کا راستہ تلاش کر رہے تھے وہ پہلے سے اس جگہ کی معلومات حاصل کر چکا تھا ازھران ہاتھ میں پسٹل تھامے اِدھر اُدھر دیکھتا آگے بڑھ رہا تھا وہ ایک کمرے میں بنےچھوٹے سے دروازے کے سامنے رکا اورایک بندے کو دروازہ توڑنے کا اشارہ کیا وہ لوگ دروازے سے ایک طرف ہو کر کھڑے ہو گئے دروازہ توڑا گیا وہاں سے سیڑھیاں نیچے کی طرف جارہی تھیں وہ سب ہاتھوں میں پسٹل تھامے آہستہ سے نیچے اترنے لگے سب سے آگے ازھران تھا باہر سے جگہ جتنی پرانی اور خراب تھی اندر سے اتنی ہی نئی اور بڑی تھی بے شمار دروازے تھے وہ لوگ آرام سے آگے بڑھے کہ اچانک دھڑا دھڑ گولیاں چلنے لگیں وہ سب اِدھر اُدھر چپے اور فائر کرنے لگے اب دونوں طرف سے گولیاں چلنے لگیں "شاہ تم انہیں سنبھالو ہم اندر کی طرف بڑھ رہے ہیں"ازھران شور کی وجہ سے چیخ کربولا"اوکے جاؤ تم یہاں ہم سنبھال لینگے" شاہ نے اسے جانے اشارہ کیا ازھران کچھ اسپیشل ٹیم کے آفیسرز کو لے کر پچھلی طرف بنے ایک دروازے کو توڑکر اندر داخل ہوا عجیب سی جگہ تھی جہاں کمروں میں سے دروازے نکل کر دوسرے کمروں میں جاتےتھے جیسے بھول بھلیاں ہو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس طرف جانا ہے وہ لوگ الگ الگ چیک کرنے لگے .
"سر اسکے پیچھے سے آواز آرہی ہے" بڑے سے دروازے کے پیچھے سے دبی دبی آوازیں آرہی تھیں انہوں نے کسی طرح دروازہ توڑا اور جو منظر دیکھنے کو ملا وہ دلدہلا دینے والا تھا جہاں تیس کے قریب جوان خوبصورت لڑکیاں تھی جنکی حالت بے حد خراب تھی انکے دوپٹوں کا کچھ پتا نہیں تھا چند کے کپڑے تک پھٹے ہوئے تھے اور بچے کم تھے پر انکی حالت لڑکیوں سے زیادہ خراب تھی کچھ تو بیہوش ہو چکے تھے ازھران کی آنکھیں غصے سے لال ہونے لگیں اور سب نے نظریں جھکا لیں
"آپ لوگ ان سب کو حفاظت کے ساتھ یہاں سے لے کر جائیں اور ہاں میڈیا سےہوشیار رہنا" اپنی بات مکمل کر تا وہ وہاں سے چلا گیا اسے بلیک کی تلاش تھی وہ ایک کمرے کے سامنے روکا پسٹل مضبوطی سے تھامی اور آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا بڑا سا میز , کرسیاں اور بے شمار فالز رکھیں تھیں کمرہ نیم اندھیرے میں ڈوبا تھا ازھران نے قدم آگے بڑھائے ہی تھے کہ ایک کونے سے گولی چلی ازھران جلدی سے نیچے جھکا اور گولی دیوار میں جا لگی پھر ازھران ایک ہی چھلانگ میں اس تک پہنچا اسے زمین پر گرا کر اپنا گھٹنااسکے سینے پر رکھا ایک نظر اسکے چہرے کو دیکھا وہاں خوف تھا اور بلیک جیسا مجرم اتنی آسانی سے نہیں ڈر سکتا تھا "بلیک کہا ہے؟" پسٹل اسکے ماتھے پر رکھ کر سوال پوچھا گیا.
"مم.....مجھے نہیں پتا" ڈر کر کہا گیا ازھران
نے پسٹل سے اسے منہ پر مارا تو اسکے منہ سے خون بہنے لگا.
"فضول بکواس نہیں......جواب چاہئے" ازھران اسے غصے سے گھور کر بولا اسکی آنکھوں کے سامنے عمر کا چہرہ لہرایا اسنے اٹھ کر سامنے والے کو گھسیٹ کر کھڑا کیا اور ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر مارا اسکاجبڑا ہل گیا
"چاند تمہارے ساتھ تھا نہ؟" ازھران کی بات پر سامنے والے نے حیرت اور ڈر سے اسے دیکھا
جو خطرناک انداز میں اسے گھور رہا تھا
"ہا.....ہاں" وہ ہکلا کر بولا
"تیرےسامنے مارا تھا نہ چاند کو" دانت پیس کر بولا گیا معاذ کی آنکھوں میں خوف اتر آیا آج سے پہلے وہ دوسروں کی جان لیتا آیا تھا پر آج .......ازھران اسے گھسیٹتا ہوا باہر لے آیا "مجھے چھوڑ دو میں سب بتا دونگا تمہیں " معاز ڈر کر بولا تو ازھران نے اسے زمین پر پھینکا پھر اسے دیکھ کر طنزیہ ہنسا "یہی فرق ہوتا ہے ایک بہادر ایماندار نوجوان اور تم جیسے نمک حرام میں " ازھران نے نفرت سے اسے دیکھا عمر کو مار دیا گیا پر وہ ایک لفظ نہ بولا جبکہ معاذ کو دو ہاتھ ہی پڑے تھے کہ وہ سب اگلنے کے لئے تیار تھا. ٹیم کے کچھ نوجوان اور عدیل لڑکیوں اور بچوں کو لے کر جا چکے تھے جبکہ شاہ اور باقی ٹیم والے وہاں کی تلاشی لے رہے تھے .
ازھران , معاذ سےبلیک کا پوچھنے لگا معاذ نے ڈر کر سب اگل دیا وہ صرف کمزورں کے سامنے شیر تھا پر ان نو جوانوں کو دیکھ کر اسکی جان جا رہی تھی . معاذ کے لیپ ٹاپ میں ساری معلومات تھی انہوں نے معاذ کا لیپ ٹاپ اور بہت سے ضروری پپیرز لئے اور وہاں سےباہر نکلے اور تہ خانہ کا نام و نشان مٹا دیا دو آفیسرز نے بے حال ہوئے معاذ کو پکڑا تھا ازھران اور شاہ آگے چل رہے تھے ابھی انکا مشن پورا نہیں ہوا تھا انکا آخری ٹارگٹ بلیک تھا وہ لوگ باتیں کرتے آگے بڑھ رہے تھے جب معاذ ایک دم سے چیخا ان دونوں نے پلٹ کر اسے دیکھا اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتے معاذ نے خود کو چھڑایا اور جیب سے پسٹل نکال کر گولی چلائی گولی تیزی سے ازھران کی طرف بڑھی ... شاہ نے اسے اپنی طرف کھینچا پر گولی ازھران کا بازو چیرتی گزر گئی اگر شاہ اسے اپنی طرف نہ کھنچتا تو گولی سیدھی اسکے دل کے پار ہوتی ازھران ایک دم سے لڑکھڑایا شاہ نے اسے جلدی سے پکڑا جبکہ معاذ بھاگ رہا تھا "پسٹل دو شاہ " ازھران نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اسکے بائیں بازو سے بڑی تیزی سے خون بہہ رہا تھا. شاہ میر نے پسٹل اسکی طرف بڑھائی ازھران نے پسٹل لے کر بھاگتے ہوئے معاذ کا نشانہ لیا اور اسے شوٹ کر دیا معاذ نیچے گرا گولی سیدھی اسکے سر پر لگی تھی. #########
دعا نیند سے ایک دم اٹھ بیٹھی اسکا دل زور زور سے دھڑکنے لگا وہ بیڈ سے اتری ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا تھا پر یہاں سب جلدی سو جاتے تھے دادو اپنے کمرے میں تھیں رانی انکے ساتھ ہوتی تھی کہ اگر رات میں دادو کو کسی چیز کی ضرورت پڑے تو وہ دادو کے کمرے میں سوتی تھی دعا بھی تھکی ہوئی تھی اسلئے جلد ہی سونے کے لئے لیٹ گئی پر برے خواب کی وجہ سے اسکی آنکھ کھل گئی اسکا دل گھبرا رہا تھا وہ چلتی ہوئی کھڑکی میں کھڑی ہوگئی یہاں سے لان صاف نظر آرہا تھا وہ آسمان کو دیکھنے لگی اسے ازھران کی یاد آرہی تھی آج سے پہلے اتنی شدت سے کبھی اسکی یاد نہ آئی دعا نے سوچا شاید اسکے گھر میں ہے تبھی اسکی یاد ستا رہی ہے اسنے آسمان کو دیکھا پھر آنکھیں بند کر لیں.
" تمہاری یاد کی خوشبو میرے دامن سے"
لپٹی ہے
" بڑااچھاسا لگتا ہے تمہیں ہی سوچتے رہنا"
اسکےذہن میں کافی پہلے کا پڑھا ہوا یہ شعر گونجا آج تو دعا کا دھیان ازھران سے ہٹ ہی نہیں رہا تھا وہ دل ہی دل میں اسکے لئے دعا کرتی بیڈ پر بیٹھ گئ اسنے صبح فون کرنے کا ارادہ کیا اور بیڈ سے ٹیک لگا لی نیند تو آنکھوں میں تھی نہیں آج تو اسے ازھران علی خان کو ہی سوچنا تھا.
####,##
ازھران کو وہاں سے سیدھا ہسپتال لے جایا گیا خون کافی بہہ چکا تھا اسلئے وہ نیم بیہوشی کی حالت میں تھا . لڑکیوں اور بچوں کو محفوظ جگہ پہنچا دیا گیا تھا جبکہ معاذ کی ڈیڈ باڑی کو بھی ٹھکانے لگا دیا تھا شاہ میر نے آغا رضا کاظمی کو کال کر کے اپنے کامیاب ہونے کی خبر دے دی جسے سن کر وہ بہت خوش ہوئے پر جب ازھران کے زخمی ہونے کا بتایا تو وہ بے حد پریشان ہو گئے وہ ازھران جیسے بہادر نوجوان کو کھونا نہیں چاہتے تھے انھیں نے شاہ میر کو ہر پل کی خبر دینے کا کہہ کر فون رکھ دیا ازھران کو آئی سی یو میں لے جایا گیا عدیل اور شاہ میر باہر کھڑے اپنے یار کے لئے دعا ئیں کررہے تھے .وہ عمر کے بعد ازھران کو ہرگز نہیں کھونا چاہتے تھے ڈاکٹر آئی سے یو سے باہر آیا اور انھیں ازھران کے ٹھیک ہونے کی خبر دی تو دونوں نے اللّه کا شکر ادا کیا کچھ دیر میں ازھران کو روم میں شفٹ کر دیا گیا وہ دونوں اس سے ملنے آۓ وہ بیڈ پر لیٹا تھا بائیں بازو پر پٹی بندھی تھی بہت سارا خون بہہ جانے کی وجہ سے اسکا رنگ زرد ہو رہا تھا .
"تم نے تو ڈرا ہی دیا تھا یار" شاہ نے اسکاہاتھ تھام کر کہا تو وہ مسکرا دیا "میں اتنی آسانی سے نہیں مرنے والا شاہ" اتنا درد سہنے کے باوجود بھی اسکی آواز مضبوط تھی عدیل اسکے قریب آیا
"مرنےکی بات نہ کرو سردار ورنہ اچھا نہیں ہوگا" عدیل نے اسے مصنوعی غصے سے گھورا تو شاہ اور ازھران مسکرا دیئے "اچھا اچھا " ازھران ,عدیل کو دیکھ کر جلدی سے بولا
"مبارک ہو یار کامیابی کے لئے" شاہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا
"مبارک ابھی مت دو شاہ جب ہم اس کیس کے آخری اسٹیپ میں کامیاب ہونگے تب دینا مبارک " ازھران نے سنجیدگی سے کہا
"اچھا تم آرام کرو ابھی زیادہ مت سوچو اوکے" وہ دونوں روم سے چلے گئے تو وہ آنکھیں بند کئے اسے سوچنے لگاجسے دیکھے بنا اسے چین نہیں ملتا اسنے سوچ لیا تھاکہ وہ حویلی میں اپنے زخمی ہونےکی خبر نہیں دیگا دادو خود بیمار رہتی تھیں جبکہ اسکی پاگل سنو وائٹ نے تو رو رو کر اپنا حال برا کر لینا تھا اور یہ بات ازھران کو گوارا نہ تھی دعا کے بارے میں سوچتے ہوئے اسکے لبوں پر مسکان ٹہر گئی یہی سب سوچتے ہوئے اسکی آنکھیں نیند سے بوجھل ہونے لگیں .
#########
ازھران دس بجے شاہ سے گاڑی لے کر گاؤں کے لئے نکل پڑا شاہ نے اسے روکا بھی کہ کچھ ریسٹ کر لو پر ازھران نے یہ کہہ کر اسے چپ کروا دیا کہ میں اتنا بھی کمزور نہیں ایسے زخم تو پہلے بھی کئی بار آۓ تھے پر اسے کوئی فرق نہیں پڑا وہ واقعی ہی کافی مضبوط تھا بائیں بازو پر پٹی بندھی تھی جو شرٹ کے پیچھے چپ گئی.
اسنے حویلی کے سامنے کار روکی اور ہارن بجایا چوکیدار نے گیٹ کھولا تو وہ کار اندر لے آیا ڈرائیو کرنے کی وجہ سے اسکا بازو دکھ رہا تھا پر اس نے نظر انداز کر دیا.وہ ہال میں داخل ہوا تو رانی کی اس پر نظر پڑی
"ازھران بھائی آپ آگئے" خوشی سے کہتی وہ وہاں سے دعا کے کمرے کی طرف بھاگی جبکہ ازھران دادو کے کمرے کی طرف بڑھا
"سلام دادو" وہ دادو کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا
"وعلیکم السلام دادو کا بچہ" دادو نے اسکی پیشانی چومی پھر غور سے اسے دیکھا
"چہرہ کیوں مرجھایا ہوا ہے دادو کی جان کا؟"
دادو اسے بالکل چھوٹے بچوں کی طرح ٹریٹ کرتی تھیں انکی بات پر ازھران نے مسکرا کر انکے ہاتھ تھام لئے" کچھ نہیں ہوا دادو ... آپکے بہادر پوتے کو کوئی کچھ کہہ سکتا ہے کیا؟"
"بالکل نہیں...اللّه میرے بچے کو ہمیشہ سلامت رکھے" دادو نے اسکی نظر اتاری
"اچھا دادو میں ذرا فریش ہو لوں"
ہاں بیٹا جاؤ اور دعا سے بھی مل لینا" دادو نے چشمہ ٹھیک کرتے ہوئے مسکرا کرکہا وہ سمجھ گئیں تھیں کہ اسے دعا سے ملنا تھا .
"جی"مسکراکر کہتا وہ کمرے سے باہر نکل گیا
ابھی وہ باہر آیا ہی تھا کہ ساتھ والے کمرے سے رانی دعا کو ہاتھ سےپکڑے باہر لےکر آرہی تھی.
" یہ کیا ہو رہا ہے" ازھران کی بھاری آواز پر دعا نے سر اٹھا کر دیکھا تو اسکی آنکھیں روشنی سے بھر گئیں.
"وہ میں دعا آپی کو آپ سے ملنے کے لئے لا رہی تھی پر یہ شرما رہی ہیں" رانی جلدی جلدی بولی اسکی بات پر ازھران مسکرانے لگا
"رانی.." دعا نے رانی کو گھور کر دیکھا
چلو رانی صاحبہ تم جاؤ اپنی بیوی سے میں خود مل لونگا" مسکراہٹ چھپا کر کہا گیا
رانی "اچھا" کہتی ہنس کر بھاگ گئی اور دعا شرمندہ سی سر جھکاۓ کھڑی تھی ازھران نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے ہال میں رکھے صوفے پر بٹھایا اور خود اسکے سامنے والے صوفے پربیٹھ گیا ازھران نے اسے دیکھا وہ سفید فراک زیب تن کئے ہوئے تھی دوپٹہ سے بالوں کی لٹیں باہر آرہی تھیں ازھران کو اپنی پہلی ملاقات یاد آگئی جب دعااس سے ٹکرائی تھی. "ہاں تو تم مجھ سے شرما رہی تھی سنووائٹ؟" اسے دیکھتے ہوئے پوچھا گیا
"نہیں تو ...رانی تو بس ویسے ہی ...کچھ بھی کہتی ہے" ازھران کی نظروں کی تپش اسے اپنے چہرے پر محسوس ہوئی تو اس سے بولاہی نہیں جارہا تھا .
"اچھا تو تم نہیں شرماتی مجھ سے ؟" ازھران کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا اور اسکی طرف بڑھنے لگا دعا نے نظر اٹھا کر حیرت سے اسے دیکھا اور جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی
"وو.....وہ ازھران" اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کہے ازھران اسکے سامنے کھڑا ہوا
"ہاں ہاں بولو سنو وائٹ" مسکراہٹ دبا کربولا گیا دعا نے اسے دیکھا اسکی آنکھیں چمک رہی تھیں وہ جھجک کر جانے لگی تو ازھران نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا اور اپنے سامنے کھڑا کیا "بتاؤ نہ؟" شرارت سے ایک بار پھر پوچھا گیا تو دعا کی آنکھیں نم ہوگئیں ازھران نے اسے دیکھا تو ساری شرارت ہوا ہوگئی
"اے میں مذاق کر رہا تھا سنو وائٹ پلیز رونا مت" ازھران نے جلدی سے کہا اور اسے صوفے پر بٹھایا دعا نے اسے دیکھا
"اچھا بتاؤ کیسی ہو؟"نرمی سے پوچھا گیا
"ٹھیک ...اور آپ ؟" اسے دیکھ کر وہ بولی
"تمہارے سامنے ہوں دیکھ لو" ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا گیا دعا نے اسے دیکھا وہ کمزور لگ رہا تھا. کچھ دیر وہ باتیں کرتے رہے پھر ازھران اٹھ کھڑا ہوا اسے تھوڑا آرام کرنا تھا پھر واپس بھی جانا تھا سیڑھیوں سے اپر جاتے ہوئے اسنے پلٹ کر دعا کو دیکھا "بڑا نازک محبوب ہے اپنا....بی کیئر فل ازھران علی خان" ہنس کر بڑبڑایا پھر باقی سیڑھیاں طے کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا. #########
بلیک تک خبر پہنچ چکی تھی کہ سب برباد ہوگیا معاذ مارا گیا اور سارا مال بھی ہاتھ سے گیا اسے معاذ کےمرنے سے کیا لینا دینا تھا پر اسے مال ہاتھ سے جانے کا دکھ تھا وہ پاگلوں کی طرح کمرے میں چکر کاٹ رہا تھا وہ سوچ رہا تھا کس نے کیا ہوگا یہ سب ؟ اسکے خلاف ثبوت حاصل کر لئے ہونگے "پر بلیک اتنی آسانی سے کسی کے ہاتھ نہیں آۓ گا " غصے سے کہتا وہ کسی کو فون ملانے لگا پر وہ نہیں جانتا تھا کے اب اللّه نے اسکی رسی کھینچ لی تھی اب وہ نہیں بچ سکتا تھا . ########
ازھران شرٹ اتارے بازو سے پٹی کھول رہا تھا جس پر خون کے دھبے لگے تھے .ڈاکٹر نے اسے کہا تھا کہ اگر وہ ہسپتال سے جانا چاہ رہا ہے تو چلا جائے پر پٹی ضرور چینج کروانی ہوگی ورنہ زخم خراب ہو سکتا ہے وہ فرسٹ ایڈ باکس کھولے بیٹھا تھا وہ بھلا کس سے پٹی چینج کرواتا گھر میں کسی کو بتایا نہیں اور ڈاکٹر کے پاس جانے کا وقت نہیں تھا خود پٹی کرتے ہوئے اسے مشکل ہورہی تھی کیونکہ گولی کندھے کے قریب لگی تھی وہ بیڈ پر بیٹھااپنے کام میں مصروف تھا دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا جب کوئی دستک دے کر اندر داخل ہوا ازھران نے پلٹ کر دیکھا تو دعا کھڑی تھی اسنے فرسٹ ایڈ باکس سائیڈ پر کیا جبکہ دعا اسے بغیر شرٹ کے دیکھ کر بوکھلا گئ "س...سوری وہ دروازہ کھلا تھا تو اسلئے میں..." وہ نیچے دیکھتے ہوئے بولی
"کوئی بات نہیں سنو وائٹ" ازھران وہاں سے ہٹنے لگا کہ دعا اسکا زخم نہ دیکھ لے پر اسکی بات پر دعا نے سر اٹھایا تو ایک دم سے پریشان ہوکر آگے بڑھی
"یہ....یہ کیا ہوا آپکو" بڑے سے زخم کو دیکھ کر اسکے دل کو کچھ ہونے لگا
"کچھ نہیں بس" ازھران اسے بتانا نہیں چاہ رہا تھا دعا نے اسکے چہرے کو دیکھا
"پلیز ازھران بتائیں مجھے" آنکھوں میں نمی لیے وہ بولی تو ازھران نے اسے بیڈ پر بٹھایا اور خود اسکے سامنے بیٹھ گیا.
"گولی لگی تھی" اسکی بات پر دعاکا دل ٹہر سا گیا ازھران اسے سب بتاتا چلا گیا کہ وہ کیا کام کرتا ہے ، اسے گولی کیسے لگی سب کچھ کہہ دیا اور دعا بت بنی اسے دیکھتی رہی اتنا خطرناک کام .... ازھران نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں لیا " دیکھو سنو وائٹ ڈرنے کی کوئی بات نہیں سب ٹھیک ہے" پر دعا نے اسکے ہاتھ پیچھے کئے "آپ یہ کام چھوڑ دیں" وہ ازھران کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی وہ اتنے رشتے کھونے کے بعد اس پیارے سے شخص کو نہیں کھونا چاہتی تھی اگراسے کچھ ہوا تو دعاکےدل کی دھڑکن بھی تھم جائے گی.
"ایسا نہیں کر سکتا میں" اسکا ہاتھ تھام کر بولا گیا پھر اسکے آنسو صاف کئے اور اسے بتاتا گیا کہ ان لڑکیوں کو جنہیں یونیورسٹی سے دعا کے سامنے اغوا کیا گیا تھا انھیں ازھران اور اسکی ٹیم نے کیسے بچایا اور صرف وہی نہیں اور بھی کتنی با عزت لڑکیوں کو بچا کر ایک گندی زندگی جینے سے بچایا تھا دعا کے آنسو رک گئے یہ سامنے بیٹھا شخص تو عزتوں کا محافظ تھا بھلا وہ اسے کیسے روک لیتی اسکا فرض نبھانے سے اور یہ لاکھوں میں ایک شخص اللّه پاک نے اسکے نصیب میں لکھا تھا وہ اللّہ کا جتنا شکر ادا کرتی کم تھا" آپ بہت اچھے ہیں ازھران" اسے دیکھ کر وہ بولی
"اوہ سچی میں؟" شرارت سے پوچھا گیا
"بالکل سب سے اچھے" دعا کو اب کی بار کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہ ہوئی
"بہت شکریہ" اسکی ناک کو نرمی نے دبا کر کہا گیا تو دعا مسکرانے لگی
"اچھااب ذرا جلدی سے میری پٹی کر دو مجھ جانابھی ہے" ازھران نے فرسٹ ایڈ باکس اسکی طرف بڑھایا
"میں..." دعا نے باکس تھام کر کہا
"جی آپ " ازھران نے ہنس کر کہا تو دعا کچھ جھجک کر اسکے سامنے کھڑی ہوئی اسکی شرٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسکے بازو کو دیکھتی پٹی کرنے لگی نظر اٹھا کر اسکے چہرے کو نہ دیکھا جبکہ ازھران علی خان پورے حق سے شوخ نگاہیں دعا کے چہرے پر جمائے بیٹھےتھے اور دعا کا چہرہ لال ٹماٹر ہورہا تھا .
"آپ وہاں دیکھ لیں" جب ازھران نے اپنی نظریں نا ہٹائیں تو دعا نے سائیڈ والی دیوار کی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا اسکی بات پر ازھران قہقہہ لگا کر ہنسا تو دعا نے اسے گھورا
"وہاں سے زیادہ مجھے یہاں دیکھنا اچھا لگتا ہے سنو وائٹ" اسکے چہرے کی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا گیا دعا نے پٹی کرلی توجلدی سے بھاگنے لگی پر ازھران نےاسکا ہاتھ تھام لیا
"کہاں بھاگ رہی ہو" وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا
"وہ دادو نے آپکو بلانے بھیجا تھا میں بھول ہی گئی پلیز آپ چینج کر کے چلیں میرے ساتھ "
ازھران کی شرٹ نا ہونے کی وجہ سے دعا اِدھر اُدھر دیکھ کر بولی تو اسکی اس ادا پر ازھران کو بہت ہنسی آئی "اب تو ہمیشہ آپکے ساتھ ہی چلنا ہے سنووائٹ" اسکے کان میں سرگوشی کی گئی پھر اسکا ہاتھ چھوڑ کر وہ الماری کی طرف بڑھ گیا "چینج کر کے آرہا ہوں محترمہ" ہنس کر کہتا وہ واش روم میں چلا گیا اور دعا گلابی ہوتی جلدی سے باہر کی طرف بھاگی . ##########
ازھران عصر سے پہلے گاؤں سے نکلا اور اپنے گھر آیا اسے کچھ ضروری پیپرز چاہئے تھے وہ بک شیلف کھول کر کمرے میں آیا پیپرز لئے اور باہر نکل گیا وہ چلتا ہوا بیڈ تک آیا اور بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کے دراز سے کچھ نکالا اور جیسے ہی وہ جانے کے لئے پلٹا اسکا پاؤں کسی چیز سے ٹکریا اسنے نیچے دیکھا تو زمین پر بلیک پرس الٹا پڑا تھا ازھران کو یاد آیا یہ پرس دعا کا تھا پرس کی زپ کھلی ہونے کی وجہ سے چیزیں پرس سے باہر گریں ازھران نے جک کر پرس اٹھایا تو اسکے ہاتھ ایک خاکی لفافہ لگا اسے حیرت ہوئی کیونکہ اس پر ازھران کا نام لکھا تھا وہ جلدی سے بیڈ پر بیٹھا اور لفافہ کھول کر دیکھنے لگا اسکے اندر سے جو نکلا اسنے ازھران کو مزید حیران کیا اس میں پیپرز اور تصویریں تھیں ازھران ایک ایک کر کے انھیں دیکھنے لگا ایک تصویر معاذ کی تھی اور ایک تصویر کے پیچھے "بلیک" لکھا تھا ازھران نے تصویر سیدھی کی تو ایک دم سے اٹھ کھڑا ہوا آنکھیں غصے سے لال ہونے لگیں. بہت سی باتیں اسکے دماغ میں چلنے لگیں وہ سوچنے لگا یہ لفافہ دعا کے پرس میں کیسے آیا؟ یہ بات اسے الجھا رہی تھی اسےایک خط بھی ملا وہ عمر کا تھا جس میں اسنے بلیک کے کارنامے لکھے تھے آخری لائن پر ازھران کی آنکھیں نم ہو گئیں وہاں لکھا تھا"جلد ہم کامیاب ہونگے سردار " وہ پیار سے اسے سردار کہتا تھا ازھران نے بلیک کی تصویر پاکٹ میں ڈالی "انشاء اللّه میرے یار ہم ضرور کامیاب ہونگے"ازھران نے جیسے عمر سے کہا تھا پھر جلدی سے کار لے کر نکل پڑا وہ آغا رضا کاظمی سے ملا انہوں سب ثبوت دیئے وہ بہت خوش ہوئے"ویل ڈن یہ سارا کریڈٹ آپ سب کو جاتا ہے اور خاص طور پر عمر کو"
"یس سر اور آج ہی یہ آخری اسٹیپ لینا ہوگا" ازھران نے انھیں دیکھ کر کہا
"بالکل آپ شاہ میر کو انفارم کر دیں ہم آج ہی اسے گرفتارکریں گے" آغا رضا کاظمی نے کہا یہاں تک ازھران کا کام تھا انھیں ثبوت لا کر دینا.اب آگے کا کام پولیس کو کرنا تھا وہ بلیک کو پھانسی کے تختے تک پہنچانا چاہتے تھے تا کہ سب کو پتا چلے کہ مجرم چاہے امیر ہو یا غریب اگر وہ غلط کام کرئے گا تو اسے سخت سزا دی جائے گی
"اوکے سر پر بلیک کسی حالت میں بچنا نہیں چاہئے"ازھران نے دانت پیس کر کہا اسے بہت کچھ یاد آنے لگا تھا "بالکل نوجوان وہ اب ہمارے ہاتھوں سے نہیں بچے گا"آغا رضا کاظمی نے پورے یقین کے ساتھ کہا.
########
رات دس بجے کا وقت تھا جب چار پولیس جیپز اور ایک کار جہانگیر ولا کے سامنے رکیں اور پولیس کے نو جوانوں نے جہانگیر ولا کو چاروں طرف سے گھیر لیا کار سے ڈی آئی جی آغا رضا کاظمی اور شاہ میر فل پولیس یونیفارم میں باہر نکلے ایک جوان نے گیٹ گود کر کھولا اور چولیدار کو پکڑ لیا تا کہ وہ اندر خبر نہ کر سکے وہ لوگ اندر داخل ہوئے آغا رضا کاظمی اور شاہ ہال میں کھڑے تھے سب کمرے چیک کئے جا رہے تھے ایک کمرے سے وہ باہر نکلا "یہ کیا ہورہا ہے" غصے سے پوچھاگیا
"تلاشی لی جارہی ہے" شاہ نے اسے دیکھ کر کہا
"کیوں... تم مجھےجانتے نہیں ہوں میں کوئی سڑک چاپ نہیں جوتم لوگ منہ اٹھائے چلے آئے " دھاڑ کر کہا گیا .
"بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں ہم تمہیں خُرم قریشی صاحب"شاہ نے طنزیہ ہنسی کے ساتھ کہا .
"کیا بکواس ہے یہ" خُرم غصے سے لال ہوا
"یو آر انڈر اریسٹ بلیک" اب کی بار آغا رضا کاظمی نے کہا ."بکواس ہے یہ سب" خُرم کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کر ڈالے یہ کیا ہو رہا تھا اسنے تو کچھ ایساسوچا ہی نہ تھا کہ پولیس اسکے گھر تک پہنچ جائے گی.
"تمہارا کھیل ختم ہوا خُرم قریشی گرفتار کر لیں اسے آفیسر" انھیں نے شاہ میر کو اشارہ کیا جبکہ باقی سب خُرم کو گھیر کر کھڑے تھے شاہ آگے بڑھا اور ہتھکڑی اسکے ہاتھ میں ڈالی خُرم قریشی خود کوچھوڑانے لگا .
"تم مجھے بہت جلد باہر دیکھو گے زیادہ وقت تک میں جیل میں نہیں رہونگا" وہ آغا رضا کاظمی کو دیکھ کر غرا یا
"ایسا نہیں ہوگا یہ بات کسی تک پہنچنے سے پہلے ہی تم اللّه کی عدالت میں ہوگے" آغا رضا کاظمی نے ہنس کر اوپر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا انھیں پتا تھا اگر خُرم قریشی کی گرفتاری کی بات باہر نکلی تو خُرم کے ساتھی اسے بچا لیں گے جرم کی دنیا میں اسکے بہت سے ساتھی تھے اسلئے اس بات کو صرف چند لوگوں کے بیچ رکھا گیا تھا خُرم کو اسکے انجام تک پہنچا کر یہ خبر باہر نکلی جائے گی تا کہ لوگ اس مہذب چہرے کے پیچھے چھپا وہ بھیانک چہرہ بھی دیکھ لیں جس نے آج تک نا جانے کتنی عزتیں نیلام کی اور کتنی جانیں لیں تھیں خُرم قریشی اپنے جیسے گنہگاروں کے لئے عبرت بنےگا .....چیختے ہوئے خُرم قریشی کو جیپ میں ڈالا گیا آخر کار خُرم کی کہانی بھی اختتام کو پہنچی.
#########
خُرم قریشی کا بچپن یتیم خانے میں گزرا تھا جیسے ہی وہ تھوڑا بڑا ہوا یتیم خانے سے بھاگ نکلا پھر وہ آہستہ آہستہ برے کاموں پڑ گیاوہ ایک گینگ کے ساتھ مل کر اغوا کا کام کرتا تھا پر اسکے خواب بہت بڑے تھے اسے بڑا آدمی بننا تھا اسلئے ان سب کاموں کے ساتھ اسنے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی پھر جب وہ یونیورسٹی میں آیا تو وہاں اسکی ملاقات مناہل سے ہوئی اسے مناہل سے محبت ہوگئی تھی وہ اسے سب سے جدا لگی.انسانوں سے بھری اس دنیا میں وہ خُرم قرشی کو اپنی لگتی تھی پھر دونوں کی شادی ہوگئی یہ سب کچھ خُرم کے لئے کسی خواب کی طرح تھا اسکی محبت کے ساتھ اسے بے شمار دولت بھی مل گئی تھی وہ اپنا کام آرام سے کر رہا تھا.بلیک بنا وہ آرڈر دیتا تھا اور اسکے ساتھی آگے کا کام کرتے معاذ اسکا پرانا ساتھی تھا اسلئے وہ بلیک کا خاص بندہ تھا.اسی طرح اسنے بےشمار دولت جما کی تھی سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا جب اچانک جہانگیر خان کو خُرم قریشی کی اصلیت کا پتا چل گیا پھر خُرم کو انھیں مارنا پڑا وہ ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا پر اسکے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا ایک طرف وہ اتنی پراپرٹی کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا تھا اور دوسری طرف مناہل کو کھودینا مشکل تھااسلئے اسنے رپورٹ بدلی کروا دی جن میں جہانگیر خان کی موت کی وجہ اچانک ہونے والا ہارٹ اٹیک تھا جہانگیر خان کی موت کے بعد خُرم کو کھلی چھوٹ مل گئی تھی وہ بس مناہل کا خیال رکھتا کہ اسے کسی چیز کی خبر نہ ہو پر پھر ایک دن مناہل بھی دنیا سے چلی گئی خُرم قریشی کو اس بات کا بہت دکھ تھا پر کچھ وقت بعد وہ پھر اپنے کام میں لگ گیا بلیک اسمگلنگ کی دنیا کےبادشاہ کا نام تھاجبکہ خُرم قریشی ایک مہذب بزنس ٹائیکون تھا وہ اسی طرح چہرے پر نقاب چڑھائے کام کرتا رہا. جہانگیر خان کا سارا بزنس ، سب کچھ خُرم قریشی کےکنٹرول میں تھا پر قانونی طور پر سب کچھ دعا کا تھا اسلئے اسنے نے دعا کو اغوا کروایا پر وہ بچ نکلی پر یہ کام اسکے لئے اتنا مشکل نہیں تھا اسلئے وہ دعا کو کچھ وقت کے لئے چھوڑ کر پہلے باقی کام پورے کرنا چاہتا تھا پر جب دعا اسکے ہاتھ آئی تو ازھران علی خان نے اسے بچا لیا اور پھر اللّه نے خُرم قریشی کو اسکے انجام تک پہنچا دیاتھا.
########
اسے اسپیشل سیل میں رکھا گیا تھا جہاں خطرناک سے خطرناک مجرم کو رکھا جاتا تھا جنہیں پھانسی دی جانے والی ہوتی اور بلیک کا نام بھی اسی فہرست میں تھا . اسے لوھے سے بنے کمرے میں رکھا گیا تھا جہاں مکمل اندھیرا تھا وہ کمرے کے کونے میں چٹائی پر بیٹھا تھا جب دروازہ کھل کر بند ہوا اور ساتھ ہی کمرے میں ہلکی زرد روشنی پھیلی پھر کوئی چلتا ہوا اسکے سامنےکھڑا ہوا خُرم قریشی نے سر اٹھا کر دیکھا وہاں ازھران علی خان پوری شان کے ساتھ کھڑا تھا انگلیوں میں رکھی پنسل گھما رہا تھا خُرم کے دیکھنے پر ازھران گھٹنوں کے بل زمین پر اسکے سامنے بیٹھا"کیسامحسوس ہورہا ہے یہاں ایک رات گزار کر ؟"اسکی آنکھوں میں دیکھ کرسوال کیا "تم لوگ مجھے زیادہ دیر یہاں نہیں رکھ پاؤ گے سمجھے" انگلی اٹھا کر غصے سے وہ بولا
"گڈ...پھانسی چڑھنے تک یونہی خود کو تسلی دیتے رہو خُرم قریشی" طنزیہ ہنسی ، ہنس کر وہ بولا خُرم قریشی کو اب بھی امید تھی کہ وہ بچ جائے گاپر ایسا نہیں ہونےوالاتھا.
"ازھران علی خان بہت برا کروں گا تمہارے ساتھ ایک بار یہاں سے نکل جاؤں بس" وہ غرا کر بولا تو ازھران نے اسے کھینچ کر تھپڑ مارا"بکواس نہیں اور اس بات کو بھول جاؤ کہ تم یہاں سے نکل پاؤگے آج....تمہیں پھانسی دی جائے گی پھر خود کو یہاں سے آزاد سمجھنا پر اللّہ کی عدالت سے تم کہا بچ کر جاؤ گے وہاں تو تم مر بی نہیں پاؤ گے ہمیشہ کے لئے زندہ رہ کر اپنے کئے کا مزا چکھو گے" ازھران نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا خُرم قریشی اسکی باتوں پر کانپ ساگیا آنکھوں میں ڈر نظر آنے لگا پر اگلے ہی پل اسکے اندر کا شیطان باہر آیا اسکے چہرے پر شیطانی چمک پھیلی اور وہ قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا ازھران وہاں سے اٹھ کر جانے لگا جب خُرم کی آوازنے اسکے قدموں کو روک لیا
"میرا جو بھی ہو پر اپنی دعا کو کیسے بچاؤ گے ازھران علی خان" ہنس کر وہ بولا ازھران نے پلٹ کر اسے دیکھا پھر اس تک آیا اور اسکا گریبان پکڑ کر اسے اپر اٹھایا.
"کیابکواس کی تم نے...بولو" غصے سے ازھران نے اسے جھٹکا دیا
"کیا جہاں دعا ہے وہ وہاں محفوظ ہے یا کوئی اس تک پہنچ چکا ہے تم کیا سمجھتے ہو میں اسے ایسے ہو چھوڑ دونگا میں یہاں ہوں پر کسی کو یہ کام دے کر آیا ہوں وہ بچ نہیں سکتی"وہ غور سے ازھران کی آنکھوں میں دیکھنے لگا جہاں ایک دم سے پریشانی تیرنے لگی خُرم نےصحیح جگہ وار کیا تھا اسکا مقصد ازھران کو پریشان کرنا تھا اور وہ اسنے کر دیا تھا اب پر سکون کھڑا مسکرا رہا تھا ازھران نے اسے دھکا دے کر پیچھے گرایا اور جلدی سے باہر کی طرف بڑھا اسے خُرم پر ذرا بھروسہ نہیں تھا پرجو اس نے کہا تھا وہ سچ بھی ہوسکتا ہے .اسکےجاتے ہی خُرم قریشی نے قہقہہ لگایا اب جا کر اسکے دل کو ٹھنڈک ملی تھی وہ اتنا سب ہو جانے کے باوجود اللّه سے نہیں ڈرا تھا .
#########
ازھران جلدی سے باہر نکلا وہ دعا کا نمبر ملانے لگا پر اسکا موبائل بند تھا پھر اسنے گھر کے نمبر پر کال کی وہاں سے بھی جواب نہ آیا ازھران ایک دم سے پریشان ہوگیا کہ ضرور کوئی بات ہوگئی ہے .کیاخُرم قریشی سچ کہہ رہا تھا ؟ وہ جلدی سے کار میں بیٹھا اور کار زن سے آگے بڑھا دی وہ پوری رفتارکے ساتھ ڈرائیو کر رہا تھا وہ کسی طرح حویلی پہنچا جلدی سے کار سے باہر نکلا اور بھاگتا ہوا ہال کی طرف بڑھا رانی کچن سے باہر آرہی تھی جب ازھران کو بھاگتے دیکھ کر اس تک آئی.
"کیا ہوا ازھران بھائی؟"رانی نے حیرت سے پوچھا .... ازھران نے نظر اِدھر اُدھر گھمائی
"دعا کہا ہے ؟" جلدی سے پوچھا گیا
"اوہ دعا آپی..."رانی نے شرارت سے اسے دیکھا "رانی مذاق نہیں ... جلدی بتاؤ" وہ سنجیدگی سے بولا
"وہ اپر آپکے کمرے میں" اسنے اتنا ہی کہا تھا کہ ازھران جلدی سے سیڑھیوں کی طرف بھاگا رانی نے حیرت سے اسے جاتے ہوئے دیکھا کہ آج ازھران بھائی کو کیا ہوگیا.
دادو کی طبیعت نہ ساز تھی اسلئے رانی دادو کے پاس تھی اوردعا نہانے کے لئے واش روم گئی تو وہاں پانی نہیں آرہا تھا اسلئے رانی نے اسے کہا کہ وہ ازھران کا واش روم استعمال کر لے وہ نہیں جانا چاہتی تھی پر رانی نے اسے یقین دلایا کہ ازھران نہیں آنے والا اسلئے وہ کپڑے لے کر اسکے کمرے میں چلی گئی .
ازھران کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا دعا آئینے کے سامنے کھڑی تھی دوپٹہ بیڈ پر پڑا تھا اسکے گھیلے بال پشت پر پڑے تھے وہ ابھی نہا کر نکلی تھی سفید شلوار، قمیض میں ملبوس تھی .جسکا دوپٹہ گولڈن نیٹ کا تھا ازھران چلتا ہوا اس تک آیا اسے اپنی طرف گھمایا اسکا چہرہ ہاتھوں میں لیا پھر جھک کر اسکی پیشانی پر لب رکھ دیئے جبکہ دعا حیران تھی کہ اچانک ازھران کیسے آیا اور اسے ہوا کیا ہے .
"تم ٹھیک ہو سنو وائٹ ؟"ازھران پیچھے ہٹ کر کھڑا ہوا اور اسے دیکھتے ہوئے بولا
"میں ٹھیک ہوں" وہ بولی پھر سوچنے لگی کہ اسے کیا ہونا ہے بھلا جو ازھران اس سے آتے ہی پوچھنے لگا پر وہ نہیں جانتی تھی کہ ازھران کس مشکل سے اپنے دل کو سنبھال کر یہاں تک پہنچا تھا ازھران سمجھ گیا کہ اس شیطان نے ازھران کو پریشانی میں ڈالنےکے لئے بکواس کی تھی دعا وہاں سے ہٹی اور بیڈ سے دوپٹہ اٹھا کر اوڑھنے لگی ازھران نے گہری سانس بھری پھر دعا کو دیکھنے لگا جو دوپٹہ اوڑھ رہی تھی بالوں کی لٹیں چہرے پرآرہیں تھیں. گولڈن دوپٹہ میں اسکا چہرہ بھی سنہرا ہو رہا تھا ازھران نے نظر بھر کر اسے دیکھا
"تمہیں سفید رنگ بہت پسند ہے؟" اسکی بات پر دعا نے چونک کر سر اٹھایا
"جی.....کیاآپکو نہیں پسند؟"اسنے سوال کیا توازھران ہنس کر اسکے سامنے کھڑا ہوا پھر اسکے دوپٹے کا پلو ہاتھ میں لیا
"مجھے تم پر یہ رنگ بہت اچھا لگتا ہے اسلئے یہ رنگ کم پہنا کرو سنو وائٹ" ازھران نے اسے دیکھ کر پیار سے کہا اسے ایسا لگتا تھا کہ دعا کو اسکی ہی نظر لگ جائے وہ سفید رنگ میں اس قدر پیاری لگتی تھی . اسکی بات پر دعا نے اسے دیکھا ازھران نے دوپٹہ چھوڑ ا پھر نرمی سے اسکا ناک دبا کر بولا" اور اس گولڈن رنگ کے دوپٹہ میں شہزادی لگ رہی ہو" اسکی آنکھوں میں دیکھ کر وہ بولا تو دعا نے جھجک کر نظریں جھکا لیں اور وہاں سے جانے لگی. "مجھے تم سے بات کرنی ہے" ازھران کی آواز پر وہ رک گئ .ازھران بیڈ پر بیٹھ گیا تو دعا بھی اسکے ساتھ ہی بیٹھ گئی.
"تمہاراپرس مجھے اپنے گھر سے ملا کیا تمہیں یاد ہے کہ وہ پرس کب وہاں رہا تھا؟" اسنے سوال کیا تو دعا سوچنے لگی اسکا بیگ ازھران کے گھر کیسے گیا ... پھر اسے یاد آیا تو بولی"جی....وہ جب میں گفٹ لے کرآئی تھی آپ کے لئے شاید اس دن" دعا نے الجھ کر جواب دیا اس دن جب اس پر جوس گرا تھا تب ہی وہ روم میں پرس بھول گئی تھی اور اسکے بعد اتنا کچھ ہوا تھاکہ اسے اپنی ہوش نہ تھی پرس کا خیال کیسے آتا.
"اس دن تم کہیں اور گئی تھی؟" ازھران نے سوچتے ہوئے سوال کیا
"ہاں شاپنگ مال گئی تھی پھر وہاں سے آپکے گھر " اسنے جواب دیا پر وہ ازھران سےپوچھنا چاہ رہی تھی کہ وہ یوں سوال کیوں کر رہا ہے ."اس دن کچھ ہوا تھا...کچھ بھی ایسا جو عجیب ہو؟ دعاکو اچانک اس آدمی کا خود سے ٹکرانا یاد آیا اور تب اسے ایسا لگا تھا جسے وہ ٹکرانے والے کو پہلے بھی دیکھ چکی ہو پر لمبے بالوں اور داڑھی کی وجہ سے پہچان نہ سکی .اسنےسب کچھ ازھران کو بتایا اور وہ سمجھ گیا کہ ٹکرانے والا اور کوئی نہیں بلکہ عمر تھا اسنے دعا کے بیگ میں وہ لفافہ ڈالا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ دعا کے ذریعے وہ لفافہ ازھران تک پہنچ جائے گا پر ایسا بہت دیر سے ہوا تھا.
"پر ہوا کیا ہے ازھران ؟" دعا نے پریشانی سے اسے دیکھ کر پوچھا تو ازھران نے اسے سب بتا دیا عمر کی موت ،بلیک کون تھا اور بلیک کا پکڑا جانا....وہ شروع سے لے کر آخر تک اسے سب بتاتا چلا گیا دعا نے سنا تو وہ حیران رہ گئ کہ خُرم قریشی اس قدر خطرناک تھا.ازھران نے اسے اسلئے بتایا تھا کیونکہ کل خُرم کی پھا نسی کے بعد ساری خبر ٹی وی پر آ جانی تھی کہ خُرم قریشی کون تھا اور اسکے سارے کالے کرتوت سامنے آنے والے تھے .ازھران کو کل کا بے صبری سے انتظار تھا کل اسکے دوست عمر اور نجانے کتنوں کو انصاف ملنے والا تھاجو بلیک کے ہاتھوں مارے گئے یا جنہیں بلیک نے اپنے فائدے کے لئے اسمگل کیا تھا اور انکی زندگیوں کو جہنم بنا دیا تھا.
########
اگلی صبح ہر طرف خُرم قریشی عرف بلیک کے چرچے تھے ہر نیوز چینل پر ایک ہی خبر چل رہی تھی خُرم قریشی کو پھانسی دی جا چکی تھی خُرم قریشی اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا پر اپنے پیچھے وہ لوگوں کی بد دعائیں اپنے لئے چھوڑ گیا تھا اسکا بھیانک چہرہ سب کے سامنے تھا ہر کوئی اسے لعنت ملامت کر رہاتھا.
آغا رضا کاظمی نے ایک کانفرنس رکھوائی تھی جس میں نیوز چینلز والوں کو بلایا گیا اور بلیک کے خلاف سارے ثبوت انکو دیکھاۓ گئے تاکہ وہ سچی خبر عوام تک پہنچائیں آغارضا کاظمی نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس کامیابی کے پیچھے خفیہ ایجنسی کے وہ بہادر نو جوان تھے جن میں سے ایک جوان اس کام کو کرتے ہوئے شہید ہوا تھا آج جنکی وجہ سے بلیک جیسا مجرم اپنے انجام کو پہنچا تھا ڈی آئی جی آغارضا کاظمی نے تمام میڈیا کے سامنے ان بہادر نوجوانوں کو سلیوٹ کیا تھا اور ٹی وی پر دیکھنے والوں کے لئے وہ لوگ ہیروز بن گئے تھے.بلیک کی تمام پراپرٹی ضبط کرلی گئی تھی اور دعا کا سب کچھ اسے مل چکا تھا پر اسنے صرف گھر اپنے نام رہنے دیا کیونکہ اس گھر میں اسکے اپنوں کی یادیں تھیں اور باقی سب کچھ اسنے ازھران سے کہہ کر ٹرسٹ کے حوالے کر دیا تھا اسے ایسے دولت نہیں چاہئے تھی جسکی وجہ سے ، اسے اتنا کچھ سہنا پڑا تھا ، اسکے پاپا کو مار دیا گیا تھا.......نیوزدیکھتے ہوئے دعا رونے لگی تھی آج اسکے پاپا کو بھی انصاف ملا تھا ازھران نے اسے پیار سے چپ کروایا تھا پھرکہنے لگا "اب تم نے بالکل نہیں رونا سب ٹھیک ہو چکا تھا" ازھران نے اسکے بال بگاڑ دیئے تو دعا ہنسنے لگی.
##########
دس دن بعد.......
ڈنر کر کے سب ہال میں بیٹھے تھے ہنسی ، خوشی ہر رنگ وہاں بکھرا تھا درمیان میں رکھے ڈبل سائز صوفے پر دادو اور شاہ میر کی والدہ بیٹھیں تھیں انکے ایک طرف رکھے صوفے پر ازھران اور شاہ میر بیٹھے تھے جبکہ دوسری طرف دعا اور شاہ میر کی بہن زویا بیٹھی تھیں. سب لوگ باتوں میں مگن تھے ازھران بار بار دعا کو دیکھ رہا تھا جبکہ دعا اسکے مسلسل دیکھنے پر پریشان ہو رہی تھی
"بس کر دے یار نظر لگاۓ گا بھابی کو" شاہ نے اسکے کان میں سرگوشی کی تھی
"نظر اتار بھی دونگا شاہ" ازھران مبهم سا مسکرا کر بولا
"مجنوں کہیں کے" شاہ نے ہنس کر کہا
"اگر لیلیٰ میری سنو وائٹ جیسی ہو تو کوئی مجنوں کیوں نہ بنے" چمکتیں نگاہوں سے والهانہ انداز میں وہ دعا کو دیکھ کر بولا تو شاہ افف کر کے رہ گیا تبھی دادو نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا"ہم نے ازھران اور دعا کی شادی کی تاریخ رکھ لی ہے آج سے ایک ہفتے بعد ان دونوں کی شادی ہوگی کسی کو کوئی اعتراض ؟" دادو نے با ری باری دونوں کو دیکھا ازھران کو جگہ شاہ اٹھ کر بولا "لڑکے کی طرف سے پورے دل سے ہاں ہے " اسکی بات پر سب ہنسنے لگے جبکہ دعا نے سر جھکا لیا اسکا چہرہ لال ہونے لگا وہ اٹھ کر جانے لگی کہ زویا نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے واپس بٹھایا"لڑکی کی طرف سے بھی ہاں ہے" زویا ہنس کر بولی دادو نے سب کو مبارک دی اور رانی کی اماں نے اسے آواز لگائی
"رانی جلدی سے مٹھائی اور چاۓ لے کر آ ". اماں کی آواز میں خوشی تھی وہ ازھران کو بہت پسند کرتی تھی وہ بھی انہیں رانی کی طرح اماں کہتا تھا.رانی جلدی سے ٹرالی لے آئی اسنے اور زویا نے سب کو چاۓ دی پھر رانی جلدی سے بولی
"افف اللّه ازھران بھائی کی شادی میں کتنا مزہ آیگا میں بہت سارے کپڑے بناؤں گی بڑی بیگم" رانی خوشی سے اچھل رہی تھی
"تم کیا دعا کی طرف سے شادی میں شامل نہیں ہوگی رانی ؟" زویا نے اسے گھور کر کہا
"وہ...زویا آپی ازھران بھائی تو پہلے سے بھائی ہیں نہ اسلئے زیادہ حق انکا بنتا ہے" رانی نے ازھران کو دیکھ کر کہا تو ازھران اور شاہ میر دل کھول کر ہنسنے لگے جبکہ دعا نے رانی کو گھورا "دیکھ لو دعا تم اسے چھوٹی بہن کہتی ہو اور اسکو ازھران بھائی زیادہ پیارے ہیں" زویا نے دعا کو دیکھا پھر مصنوعی غصے سے رانی کو گھورا تو وہ پریشان ہوگئی .
"دعا آپی ایسا کچھ نہیں ہے مجھے آپ بھی اتنی ہی پیاری ہیں جتنے ازھران بھائی" رانی نے پریشانی سے آنکھیں گھما کر کہا سب کے چہروں پر دبی دبی مسکان تھی.
"اچھا میں آپکی طرف سے شامل ہونگی شادی میں دعا آپی" وہ دعا کے سامنے بیٹھ گئی جبکہ دعا نے ہنسی چھپانے کے لئے چہرہ جھکا لیا تھا."کیا مطلب چھوٹی تم بہن کے ملتے ہی بھائی کو بھول گئی یہ اچھی بات نہیں" ازھران نے اسےدیکھ کر کہا تو بیچاری رانی گھنچکربنی سب کودیکھتی رہی کہ اب کیا کرئے ؟
"اے بس کرو سب کیوں بچی کو پریشان کر رہے ہو" دادو نے ہنس کر سب کو گھورا تو رانی کی شکل دیکھ کر سب ہنس دیئے اور رانی صاحبہ نے سب کو ہنستے دیکھا تو اسکی جان میں جان آئی اوروہ خود بھی ہنسنے لگی.
"جھلی ہے یہ لڑکی" زویا نے کہااور رانی پھر سے بولنا شروع کر چکی تھی. ازھران نے زویا کو اشارہ کیا اور اٹھ کر وہاں سے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا.کچھ دیر بعد زویا ، دعا کو لے کر ٹیریس پر لے آئی جہاں ہلکی ہوا چل رہی تھی چاند کی چاندنی ہر طرف پھیلی تھی "اتناپیارا لگ رہا ہے نہ سب" دعا نے مسکرا کر کہا زویا نے اسکے چہرے پر خوشی کے رنگوں کو دیکھا "اللّه تمہیں ہمیشہ خوش رکھے دعا" زویا نے اسکے ہاتھ تھام کر کہا وہ دعا کے بارے میں سب جانتی تھی اسے یہ پیاری سی بہت اچھی لگی تھی ."شکریہ" دعا نے مشکور نظروں سے زویا کو دیکھا
"اچھاتم ٹہرو میں ابھی آتی ہوں اوکے" زویا وہاں سے چلی گئی تو دعا آسمان کو دیکھنے لگی جب اسے قدموں کی چاپ سنائی دی
"چاند کتنا پیارا ہے نہ زویا" وہ سمجھی زویا ہے اسلئے بنا پیچھے دیکھے وہ آسمان کو دیکھتے ہوئے بولی جب کوئی اسکے بالکل پاس کھڑا ہوا دعا نے پلٹ کر دیکھا تو ازھران اسکے قریب کھڑا آسمان کو دیکھ کر بولا
"پر مجھے تو اپنی سنو وائٹ زیادہ پیاری لگتی ہے" اسکے چہرے کو دیکھ کر کہاگیا دعا کا دل دھڑک اٹھا وہ بس خاموشی سے اپنے پیارے ہمسفر کو دیکھنے لگی ازھران نے اپنا ہاتھ آگے کیا اسکے ہاتھ میں سنہرے کام والا سفید دوپٹہ تھا اسنے دوپٹہ کھول کر دعا کے سر پر اوڑھیا ازھران کو وہ سنہرے ، سفید رنگ میں بہت اچھی لگی تھی تبھی اسنے دعا کے لیے یہ دوپٹہ خریدا تھا.
"ازھران" دعا نے اسے دیکھا پھر اس پیارے سے دوپٹے کو اسکی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی ازھران نے اسے دیکھا تو وہ اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ ازھران کو ڈر تھا کہیں اسے اسکی نظر ہی نہ لگ جائے اسنے دعا کو اپنے قریب کیا اور اسکے کان میں دھیمی آواز میں کہنے لگا .
تم وہ لڑکی ہو
جس کو دیکھ کر
دھوپ کا ایک ٹکڑا
بادل ہو سکتا ہے
جس کو دیکھ کر چاند
پوراپاگل ہو سکتا ہے
پھراسنے اپنے لب دعا کی پیشانی پر رکھ دیئے دعا نے چمکتیں آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا اسکی آنکھیں نم ہونے لگیں اتنی محبت کا تو اسنے کبھی سوچا ہی نہیں تھا جتنی ازھران علی خان نے اسے دی تھی .
"رونابالکل نہیں ہے سنو وائٹ" ازھران نے اسکے بال کان کے پیچھے کرتے ہوئے کہا
"آپ بہت اچھے ہیں ازھران"دعا نے محبت سے کہا اسکی بات پر ازھران قہقہہ لگا کر ہنسا
"اب تو مجھے سچ میں لگنے لگا ہے کہ میں بہت ہی اچھا ہوں"اسکی بات پر دعا ہنسنے لگی کیونکہ وہ اسےکتنی بار یہ جملہ کہہ چکی تھی.
نیچے ہال سے سب کی آوازیں آرہی تھی وہ سب انکی ہونے والی شادی کی باتیں کر رہے تھے جبکہ دولہا ، دلہن ٹیریس پر کھڑے باتیں کرنے میں مصروف تھے.
"آپ سچ میں بہت اچھے ہیں" دعا نے شرارت سے کہا تو ازھران نے ہنس کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا تو دعا بھی ہنس دی.
ختم شد