top of page

جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد

قسط نمبر دس

اپنے پرس کو کھنگالتی عائشے نے پلٹ کر خفگی سے اسے دیکھا۔
بری بات ہے بہارے! کسی کے پیچھے اس کا یوں ذکر نہیں کرتے۔ وہ ایک نظر اس پہ ڈال کر واپس اپنے پرس میں سے کچھ ڈھونڈنے لگی تھی۔
اور یہ وہ لڑکی تھی نا؟ چند لمحے موم کی طرح پگھل کر گر گئے تو اس نے پرس کی چیزیں ہاتھ سے الٹ پلٹ کرتے ہوئے پوچھا۔ ادھر کیوں آئی تھی؟
یہ عبدالرحمن کے مسئلے ہیں، وہ خود ہی نپٹالے گا۔انہوں نے ٹالنا چاہا۔
اچھا۔ وہ اداسی سے ہنسی۔ یعنی مسئلہ ابھی تک نبٹا نہیں ہے، کیا کہہ رہی تھی؟
صاف انکار۔ انہوں نے گہری سانس لی۔
عبدالرحمن چلا گیا؟ اس نے بات پلٹ دی۔
ہاں، آج صبح کی فلائٹ تھی نا۔
واپسی کا نہیں بتایا؟
کہہ رہا تھا، دو سے تین ماہ لگ جائیں گے اور شاید اس دفعہ وہ واپس نہ آئے۔
جانے دو آنے! وہ ہر دفعہ یہی کہتا ہے۔ وہ اداسی سے مسکرا کر بولی۔ ایک ہاتھ سے ابھی تک وہ پرس میں کچھ تلاس کر رہی تھی۔
آنے! تمہیں پتا ہے، عائشے مجھ سے ناراض ہے۔ بہارے اپنے نٍنھے ننھے سے جوتوں کے تسمے کھولتے ہوئے بتانے لگی۔ آنے نے حیرت سے میز کے ساتھ کھڑی عائشے کو دیکھا، جس کی ان کی طرف پشت تھی۔کیوں؟ 
کیونکہ سات دن کی تربیت کے بعد آپ کی چہیتی پہ یہ اثر ہوا کہ آج یہ بازار میں عین سڑک کے وسط میں کھڑی اپنا پونچو کہیں گرا کر، سیاحوں کے کیمروں میں تصویریں بنوارہی تھی۔
ارے! تم اسے سمجا دو نا، ناراض نا ہو۔
کس کس کو سمجھاؤں؟ سفیر کہتا ہے اس کے ماں، باپ کو سمجھاؤں۔ اس کے ماں باپ کہتے ہیں سفیر کو سمجھاؤں۔ آپ کہتی ہیں بہارے کو سمجھاؤں، بہارے کہتی ہے میں خود کو سمجھاؤں اور عبدالرحمن کہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لمحہ بھر کو رکی، پھر سر جھٹک کر پرس کی چیزیں ایک ایک کرکے باہر نکالنے لگی۔
عبدالرحمن کیا کہتا ہے؟
کچھ نہیں۔ اس نے نفی میں سر ہلایا۔ پھر ذارا سی گردن موڑ کر بہارے کو دیکھا، جو چہرہ ہتھیلیوں پہ گرائے آنے کے ساتھ بیٹھی تھی۔
آج تم نے مجھے بہت خفا کیا ہے بہارے! میں نے کہا تھا نا کہ اچھی لڑکیاں ایسے نہیں کرتیں۔
تو اچھی لڑکیاں کیسے کرتی ہیں عائشے گل؟ بہارے نے منہ بگاڑ کر اس کی نکل اتاری۔
اچھی لڑکیاں اللہ تعالی کی بات مانتی ہیں۔ وہ ہر جگہ نہیں چلی جاتیں، وہ ہر کسی سے نہیں مل لیتیں، وہ ہر بات نہیں کر لیتیں۔ اس نے پرس میز پہ الٹ کر جھاڑا۔ 
تو پھر میں بری لڑکی ہوں؟ بہارے پل بھر میں رونکھی ہو گئی۔ 
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی لڑکی بری نہیں ہوتی۔ بس اس سے کبھی کبھی کچھ ایسا ہو جاتا ہںے، جو برا ہوتا ہے، جس پہ اللہ اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔ اور جانتی ہو جب اللہ ناراض ہوتا ہے تو وہ کیا کرتا ہے؟
کیا؟ 
جب وہ ناراض ہوتا ہے تو وہ انسان کو اکیلا چھوڑ دیتا ہے اور جانتی ہو کہ اکیلا چھوڑنا کیا ہوتا ہے؟ جب بندہ دعا مانگتا ہے تو وہ قبول نہیں ہوتی۔ وہ مدد مانگتا ہے تو مدد نہیں آتی۔ وہ راستہ تلاشتا ہے تو راستہ نہیں ملتا۔ وہ اب میز پہ نکلی اشیا الٹ پلٹ کر رہی تھی۔ خالی پرس ساتھ ہی اوندھا رکھا تھا۔
کیا ڈھونڈ رہی ہو؟
سفیر نے اپنی ممی کو چابیاں دینے کے لیے کہا تھا۔یہیں پرس میں رکھی تھیں۔ پتا نہیں کہا چلی گئیں۔عبدالرحمن ٹھیک کہتا ہے، عائشے گل کبھی کچھ نہیں کرسکتی۔
وہ یہ اس لئے کہتا ہے تاکہ عائشے گل سب ہی کچھ کرنا سیکھ جائے۔
ان کی بات پہ اس نے ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ سر جھٹکا اور چیزوں کو واپس پرس میں ڈالنے لگی۔ وہ چابی یقینا کہیں اور رکھ کر بھول گئی تھی۔
••••••••••••••••••••••••••••
آنے والے چند دنوں میں پرھائی کا بوجھ ذرا بڑھ گیا اور کلاسز کا شیڈول پہلے سے سخت ہوگیا تو وہ دونوں ٹیسٹ تیار کرنے اور دینے میں ایسی مصروف ہوئی کہ کہیں آ، جا نہیں سکیں۔
وہ وسط مارچ کے دن تھے۔ استنبول پہ چھایا کہر ٹوٹ رہا تھا اور بہار کی رسیلی ہوا ہر سو گلاب اور ٹیولپس کھلا رہی تھی۔ اب صبح سویرے گھاس پہ برف کی جمی سفید تہہ نظر نہیں آتی تھی اور سبانجی کا سبزہ اپنے اصل رنگ میں لوٹ رہا تھا۔۔ ایسے ہی ایک دن ان دونوں نے ٹاپ کپی پیلس (میوزیم) جانے کا پروگرام بنایا، مگر اسی وقت ہالے آ گئی۔ اس کے پاس دوسرا پروگرام تھا۔
میلو کینٹ میں میلاد ہو رہا ہے، چلو گی؟
کیوں نہیں، اس بہانے تھوڑا سا ثواب ہی کما لیں گے، ورنہ میں نے اور حیا نے ایسے ت کوئی نیکی کرنی نہیں ہے۔ ڈی جے اپنا پرس بند کرتے ہوئے بولی تھی۔
ویسے ربیع الاول ختم ہو چوکا ہے یہ ہونے والا ہے؟
ہو چکا ہے، یہ تع اسٹوڈنٹس کا میلاد ہے اور پڑھائی کے باعث ملتوی ہوتا جا رہا تھا۔ اس لیے اتنا لیٹ کیا ہے، اب چلو۔
میلاد میں درس دینے والی لڑکی اونچی چوکی پہ بیٹھی تھی۔ سامنے رکھی چھوٹی میز پر کھلی کتاب سے پڑھ کر ترک میں درس دے رہی تھی۔ ساتھ ہی وہ ایک شرمندہ نگاہ سامنے دیگر لڑکیوں کے ساتھ بیٹھی حیا اور خدیجہ پہ بھی ڈال لیتی جو سروں پہ ڈوپٹے لپیٹے بہت توجہ سے درس سن رہی تھی۔ مدرس لڑکی سخت شرمندہ تھی۔ حاضرین کی انگریزی اچھی نہیں تھی۔ اس لیے اس کی مجبوری تھی کہ اسے ترک میں درس دینا پڑ رہا تھا اور اسے یقین تھا کہ بظاہر بہت توجہ اور غور سے سنتی پاکستانی ایکسچینج اسٹوڈنٹس کو سمجھ کچھ نہیں آ رہا۔
درس ختم ہوا تو وہ لڑکی ان کی طرف آئی اور بہت معزرت خواہانہ انداز میں ان کو دیکھا۔
آپ کی سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا ہو گا؟
لیں! سمجھ کیوں نہیں آیا۔ ڈی جے نے ناک سے مکھی اڑائی۔ پہلے آپ نے حجر اسود کو چادر پہ رکھنے والا واقعہ بتایا، پھر غار حرا، وحی، مسلمانوں کی ابتدائی تکالیف، حضرت ابوبکرصدیق کی قربانیاں، ابو جہل بن ہشام کی گستاخیاں، حضرت عمر کا قبول اسلام، ہجرت مدینہ پھر غزوہ بدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لڑکی نے بے یقینی سے پلکیں جھپکائیں۔
آپ کو ترک آتی ہے؟
ترک نہیں آتی، مگر اپنی ہسٹری ساری سمجھ میں آتی ہے۔ وہ جوابا ہنس کر بولی۔ ترک اردو جیسی ہی لگتی تھی اور وہ واقعتا صحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم کے اسماء کے باعث سب سمجھ پا رہی تھی۔
شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ! وہ اتنی خوش ہوئی کہ اس کا چہرہ گلابی پڑ گیا۔
میلاد ختم ہوا تو ہالے کی امی کا فون آگیا۔ انہیں کوئی ضروری کام تھا۔ سو ہالے نے ان کے ساتھ جانے سے معذرت کر لی۔ اب انہیں ٹاپ قپی پیلس جانا تھا۔
دو لوگ اکیلے تو نہیں ہوتے۔ وہ ٹاقسم اسکوائر پہ بس سے اتریں تو حیا نے اسے تسلی دی۔ ڈی جے ہنس دی۔
پھر بھی تیسرے کو ساتھ لینے میں کیا حرج ہے؟
وہ استقلال اسٹریٹ کی جانب مڑیں تو قدم خودبخود برگر کنگ کی جانب اٹھنے لگے۔
وہ چلے گا ہمارے ساتھ؟ اس روز کتنا غصہ کیا تھا اس نے، یاد ہے؟
وہ اس لیے کہ تمہیں ڈھونڈتے ہوئے وہ بہت فکرمند اور پریشان ہو گیا تھا۔ مگر اب تھوڑا سا اصرار کریں گے تو ضرور چلے گا۔
استقلال اسٹریٹ ویسے ہی رش سے بھری تھی۔ وہ دونوں بازو میں بازو ڈالے تیز تیز چل رہی تھیں۔ یہ ان کی دوستی کی علامت ہرگز نہیں تھی۔ بلکہ اسٹریٹ کے جیب کتروں سے بچاؤ کے لئے وہ اپنے ملے کندھوں سے پرس لٹکاتی تھیں تاکہ چھینے نا جا سکیں۔ حیا تو اس واقعہ کے بعد بہت محتاط ہوگئی تھی۔ اب بھی اس نے اپنے سفید کوٹ کے اوپر پرس یوں ڈال رکھا تھا کہ بائیں کندھے سے اسٹریپ گزار کر دائیں پہلو سے پرس لٹک رہا تھا۔ بال کھلے تھے اور ڈوپٹہ گردن کے گرد لپٹا تھا۔ ڈی جے نے بھی اسی طرح شلوار قمیض پہ سیاہ لبما کوٹ پہن رکھا تھا۔
برگر کنگ میں خوب گہما گہمی تھی۔ اشتہا انگیز سی مہک سارے میں پھیلی تھی۔ وہ دونوں آگے پیچھے چلتے ہوئے کچن کی طرف کھلتے دروازے کی طرف آئیں۔ سامنے طویل سا کچن تھا۔ ادھر ادھر ایپرن اور ٹوپیاں پہنے، دو، چار افرد آ، جا رہے تھے۔ ایک سلیب کے ساتھ وہ بھی کھڑا تھا۔ جینز اور شرٹ پہ سفید ایپرن پہنے، ہاتھ میں بڑا ٹوکا لیے وہ کٹنگ بورڈ پہ رکھے گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو کٹھا کھٹ کاٹ رہا تھا۔
گڈ ما آ آآآر ننگ منیجر! 
دونوں نے چوکھٹ میں کھڑے ہو کر با آواز بلند پکارا تو اس کا تیزی سے چلتا ہاتھ روکا۔ اس نے گردن اٹھا کہ ان کو دیکھا، پھر سر سے پاؤں تک ان کا جائزہ لیا۔
دونوں جوگرز پہنے پھولے ہوئے ہینڈبیگز اٹھائے ہوئے تھیں۔ حیا کے ہاتھ میں رول کیا ہوا استنبول کا نقشہ تھا اور ڈی جے کے ہاتھ میں ایک گائیڈ بک۔ گویا کہ وہ پوری پوری تیاری کے ساتھ آئی تھیں۔
گڈ مارننگ! وہ واپس گوشت کی طرف متوجہ ہوا اور دوسرے ہاتھ سے ایک چھوٹی سی اسٹینڈ پہ لگی تختی اٹھا کر سامنے کاؤنٹر پر پٹخ کر رکھی۔اس پہ لکھا تھا۔
آئی ایم بزی، ڈو ناٹ ڈسٹرب۔
حیا اور خدیجہ نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر حیا وہیں چوکھٹ کے ساتھ ٹیک لگائے بازو سینے پہ لپیٹ زیر لب مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگی، جبکہ خدیجہ مسکراہٹ دبائے آ گے بڑھی۔
ہم ٹاپ قپی پیلس جا رہے ہیں! خدیجہ نے کاونٹر کے سامنے آ کر اطلاع دی۔
استقلال اسٹریٹ سے باہر نکلو، ٹاقسم سے میونسپٹی بس پکڑو، وہ پہنچا دے گئی۔ وہ سر جھکائے ایک ہاتھ سے گوشت کا ٹکڑا پکڑے دوسرے سے کھٹ کھٹ چھڑا چلا رہا تھا۔
مگر ہمیں ایک ہینڈسم گائیڈ بھی چاہیئے۔
ہینڈسم گائیڈ ابھی مصروف ہے۔ کسی غیر ہینڈسم گائیڈ سے رابط کرو۔
ڈی جے نے پلٹ کر حیا کو دیکھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے شانے اچکائے وہ واپس جہان کی طرف گھومی۔
تو آپ ہمارے ساتھ نہیں چلیں گے؟
بالکل بھی نہیں۔ تم میں سے پھر کوئی ٹاپ قپی کے قلعے میں گم ہو جائے گی اور میرا پورا دن برباد ہو گا۔
ایک دفعہ پھر سوچ لیں۔
لکھ کر دے دوں؟ وہ کہتے ہوئے ٹکڑوں کو ایک طرف ٹوکری میں رکھنے لگا۔ اس کے ہاتھ مشینی انداز میں چل رہے تھے۔
اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بات بتائیں، استقلال اسٹریٹ میں جیب کترے ہوتے ہیں نا؟ ڈی جے نے اس کے سلور اسمارٹ فون کو دیکھتے ہوئے کہا جو قریب ہی چارجنگ پہ لگا تھا۔
ہاں!
تو سمجھیں آپ کی جیب کٹ گئی۔ ڈی جے نے ہاتھ بڑھا کر فون اچکا، تار نکالی اور حیا کے ساتھ آ کھڑی ہوئی۔ فون والا ہاتھ اس نے کمر کے پیچھے کر لیا۔
کیا مطلب؟ اسے شدید قسم کا جٹھکا لگا تھا۔ وہ ہاتھا روک کر انہیں دیکھنے لگا تھا۔ 
مطلب یہ کہ اگر آپ ہمارے ساتھ ٹاپ قپی پیلس نہیں چلیں تو ہم اس موبائل کو بیچ کر آدھا جواہر تو خرید ہی لیں گے۔ ویسے فون اچھا رکھا ہوا ہے آپ نے۔ وہ الٹ پلٹ کر کے موبائل دیکھنے لگی۔ پاکستانی روپوں میں دو، ڈھائی لاکھ سے کم کا تو نہیں ہو گا۔ 
وہ چھرا رکھ کر ان کے سر پہ آ پہنچا۔ 
میرا فون واپس کرو۔ کڑی نگاہوں سے انہیں دیکھتے ہوئے اس نے ہاتھ بڑھایا۔ ٹاپ قپی سے واپسی پہ دے دوں گی۔ وعدہ! 
مطلب تم لوگ مجھے یرغمال بنا کر لے جاؤ گی؟ 
کوئی شک! وہ پہلی دفعہ بولی۔ 
ٹھیک ہے؟، مگر یہ آخری بار ہے، پھر میں کبھی تم دونوں نکمی لڑکیوں کے ساتھ اپنا دن برباد نہیں کرو گا۔ وہ ایپرن گردن سے اتارتے ہوئے مسلسل بڑبڑا رہا تھا۔ اور اگر آج تم دونوں میں سے کوئی کھوئی تو میں بہت برا پیش آؤں گا۔ ہاتھ دھو کر جیکٹ پہنتا وہ ان کے ساتھ باہر نکلا۔ 
ٹاپ قپی سرائے کے سامنے وہ سبزہ زار پہ ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ حیا درمیان میں تھی اور وہ دونوں اس کے اطراف میں۔ 
جہان! یہ ٹاپ قپی سرائے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ 
میں ایک یرغمال شدہ گائیڈ ہوں اور یرغمالی عموما خاموش رہتے ہیں۔ وہ جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے چیونگم چباتا شا نے اچکا کر بولا۔
میں بتاتی ہوں؛ ٹاپ قپی کا ٹاپ دراصل اردو والا توپ ہی ہے، جیسے تقسیم ٹاقسم بنا، ویسے ہی توپ ٹاپ بن گیا۔ قپی کہتے ہیں گیٹ کو سرائے ہو گیا محل، سو توپ قپی سرائے بنا Canon Gate palace آئی ایم اے جینیئس۔ ہے نا جہان؟
میں نہیں بول رہا۔ وہ سخت خفا تھا۔
ٹاپ قپی پیلس چار سو سال تک سلاطین کا محل رہا تھا۔ سرمئی عظیم الشان قلعہ نما محل جہاں خاص کمروں کے پہرے دار گونگے، بہرے ہوا کرتے تھے، تاکہ راز محل سے باہر نہ نکلیں۔ اور جس کے کون نما مینار شاہانہ انداز میں اوپر کو اٹھے ہوئے تھے۔ سلطان کا عظیم ورثہ اور اثاثے۔ چینی پورسلین کے نیلے اور سفید رنگ کے ایسے برتن جن میں اگر زہر ملا کھانا ڈالا جاتا تو برتن کا رنگ بدل جاتا۔ چھیاسی قیراط کے جواہرات سے مزین سلطان کے شاہی لباس نگاہوں کو خیرہ کرتے تھے۔
یہ منحوس گارڈ ہمارے سر پہ نہ کھڑا ہوتا تو میں کسی طرح دو، چار ہیرے تو توڑ ہی لیتی۔ ڈی جے ان آنکھیں چندھیا دینے والے قیمتی پتھروں کو دیکھ کر سخت ملال میں گھر چکی تھی۔
پویلین آف ہولی مینٹل کے حصے میں دینی متبرکات تھے۔
وہ ایک اونچا ہال تھا۔ منقش درودیوار، رنگ برنگی ٹائلز سے سجے چمکتے فرش، بلند وبالا ستون۔ حیا اردگرد نگاہیں ڈوراتی شیشے کی دیواروں میں مقید تاریخی اشیاء کو دیکھتی آگے بڑھ رہی تھی۔

حیا ارد گرد نگاہیں دوڑاتی شیشے کی دیواروں میں مقید تاریخی اشیاء کو دیکھتی آگے بڑھ رہی تھی۔ دفعتا ایک جگہ رکی اور شوکیس میں سجے ایک تبرک کو دیکھا۔ وہ ایک ٹیڑھی رکھی ہوئی چھڑی تھی۔ بھوری سی چھڑی جو شیشے میں مقید تھی۔ وہ گردن ترچھی کر کے اس کو دیکھنے لگی، پھر ادھر ادھر نگاہیں ڈورائی۔ کیشپن سامنے ہی لگا تھا۔
اسٹاف آف موسئ
(حضرت موسئ علیہ السلام کا عصا)
اس کی سیکڑ کر پڑھتی آنکھیں پوری کھل گیئں۔ لب بھی نیم وا ہو گئے۔ لمحے بھر بعد وہ دور کھڑی ڈی جے کا بازو قریبا ڈبوچ کر اسے ادھر لائی۔
ڈی جے۔۔۔۔۔۔۔ یہ حضرت موسئ علیہ السلام کا عصا ہے۔
ریئلی، اس نے بے یقینی سے پلکیں جھکیں۔ مگر یہ ان کے پاس کیسے پہنچا؟
وہ دونوں گھوم پھر کر ہر زاویے سے اس کو دیکھنے لگیں۔ جہان بھی جیبوں میں ہاتھ ڈالے خاموشی سے چلتا ان کے پاس آ کھڑا ہوا تھا۔ اس کے لیے تو سب پرانا تھا۔ مگر وہ دونوں تو مارے جوش کے راہداری میں آ گے پیچھے ایک ایک تبرک کی طرف لپک رہی تھی۔ ان کے دوپٹے سروں پہ آ گئے تھے۔
کعبہ کا تالا، حضرت داود علیہ السلام کی تلوار، حضرت یوسف علیہ السلام کا صافہ، ابراہیم علیہ السلام کا برتن، آپ صلی عنہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشان، آپ کا لباس، دانت مبارک، آپ کی تلوار اور بہت سے صحابہ کی تلوار۔
ڈی جے! کیا یہ شیشے کی دیوار غائب نہیں ہو سکتی؟ اور ہم اس تلوار کو چھو نہیں سکتے؟ وہ دونوں نبی پاک ﷺ کی تلوار کے سامنے کھڑی تھی۔ کوئی ایسا مقناطیسی اثر تھا اس تلوار میں کہ مقابل کو باندھ دیتا تھا۔
مگر ہم اس قابل کہاں ہیں حیا؟ خدیجہ نے تاسف سے سر ہلایا۔
وہ ابھی تک یوں ہی اس تلوار کو دیکھ رہی تھیں۔
اگر ہم اس کو چھو سکتے تو جانتی ہو کیا ہوتا؟ چودہ صدیوں کا فاصلہ ایک لمس میں طے ہو جاتا مگر ہمارے ایسے نصیب کہاں؟ 
جہان! یہ سب تبرکات اصلی ہیں نا؟ 
جہان نے دھرے سے شانے اچکائے۔
میں نے کبھی نہ ان پہ ریسرچ کیا، نہ کوئی ریسرچ پڑھا۔ قومی امکان ہے کہ یہ سب اصلی ہیں۔ کہنے والے کہتے تو ہیں کہ مسلمانوں کے ریلکس (تبرکات) بھی اتنے ہی نقلی ہیں جتنے عیسائیوں کے، مگر اللہ بہتر جانتا ہے۔
یہ اصلی ہیں، میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ یہ سب ہمارے انبیاء سے وابستہ رہنے والا اشیاء ہیں۔
تحریک خلافت انہی متبرکات اور مقامات مقدمہ کے تحفظ کے لئے چلائی گئی تھی۔ ڈی جے کو معاشرتی علوم کا بھولا بسرا سبق یاد آگیا۔
ٹاپ قی پیلس میں خوب گھوم پھر کر جب وہ باہر نکلے تو جہان نے اپنا موبائل واپس مانگا۔
یہ لیں! کیا یاد کریں گےاور فکر نہ کریں، ہم نہ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔ سکیورٹی لاک کوئی پاس ورڈ ہوتا تو میں کھولنے کی ضرور کوشش کرتی مگر آپ نے تو فنگر پرنٹ انٹری لگا رکھی ہے۔ ڈی جے کے ہاتھ سے فون لیتے ہوئے وہ مسکرایا تھا۔
ٹاپ قپی کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ سے جہان نے ان کو بہت اچھا سا کھانا کھلایا۔ ترکی کا اب تک کا بہترین کھانا اور کھانے کے دوران ہی خدیجہ سر درد شکایت کرنے لگی۔ جب تک کھانا ختم ہوا، وہ بہت پژمردہ سی لگنے لگی تھی۔ اس کا سر ایک دم ہی درد سے پھٹنے لگا۔
میرا خیال ہے میں واپس ڈورم جا کر ریسٹ کروں، تم لوگ اکیلے گھومو پھرو۔ اس کی طبیعت واقعی خراب لگ رہی تھی۔ سو انہوں نے اسے جانے دیا۔ وہ چلی گئی تو وہ دونوں ٹاپ قپی پیلس کی پچھلی طرف آگئے۔
وہاں ایک وسیع و عریض سفید سنگ مرمر کے چمکتے فرش والا برامدہ تھا۔ جسے اونچے سفید ستونوں نے تھام رکھا تھا۔ برآمدے کے آگے فاصلے فاصلے پر چوکور چپوترے سے بنے تھے جن کے سامنے ٹیرس کی طرح چند گز چورا کھلا احاطہ تھا۔ اس کے آگے اونچی سفید منڈیر بنی تھی۔ وہاں کھڑے ہو کر منڈیر پہ کہنیاں رکھ کر دیکھو تو نیچے بہتا مرمرا کا جھاگ اڑاتا سمندر دکھائی دیتا تھا۔ وہ جگہ اتنی خوب صورت تھی کہ دل چاہتا انسان صدیوں تک وہاں بیٹھا سمندر دیکھتا رہے۔
تھک گئے ہو؟ دونوں ستون کے ساتھ ٹیک لگائے چبوترے کے کنارے بیٹھے تھے۔ جب حیا نے پوچھا۔اسے جہان ذرا تھکا تھکا لگا تھا۔
نہیں میں ٹھیک ہوں۔ ذرا سا بخار ہے شاید۔
اس نے خود ہی اپنا ماتھا چھوا پھر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جیکٹ کی جیب سے گولیوں کی ڈبی نکالی۔ ڈھکن کھول کر ڈبی ہتھیلی پہ الٹی دو گولیاں الگ کی اور ڈبی بند کرتے ہوئے دونوں گولیاں منہ میں ڈالیں پھر نگل گیا۔
میرے پاس پانی تھا۔ وہ اپنا پرس کھولنے لگی لیکن تب وہ نگل چکا تھا۔
تم ٹھیک ہو؟ وہ تشویش سے اس کا چہرا دیکھ رہی تھی۔ صبح ریسٹورنٹ سے نکلتے ہوئے اسے یوں ہی جہان کی آواز دھیمی لگی تھی۔ مگر اس نے پوچھا نہیں اب شاید اس کا بخار شدید ہو گیا تھا۔ کیونکہ چہرے پہ اثرات آنے لگے تھے۔ سرخ ہوتی آنکھیں اور نڈھال سا چہرہ۔
بس میں نے دیکھ لیا سمندر، اب واپس چلتے ہیں۔تمہیں گھر جا کر ریسٹ کرنی چاہیے۔
گھر جاتے جاتے گھنٹہ لگ جائے گا۔ میں نے ابھی دوائی لی ہے۔ اس کا اثر ہونے میں ذرا وقت لگے گا۔ابھی یہیں بیٹھتے ہیں۔ وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے تکان سے کہ رہا تھا۔
چند لمحے خاموشی سے بیت گئے۔ ان چبوتروں پہ دور دور تک ٹولیوں کی صورت میں سیاح بیٹھے نظر آ رہے تھے۔ بہت سے لوگ آ گے منڈیر کے ساتھ کھڑے ہوئے سمندر کو دیکھ رہے تھے۔
میں تھوری دیر یہاں لیٹ جاؤں تم اکیلی بور تو نہیں ہوگی؟ ابھی میں واپس نہیں جانا چاہتا۔ میری لینڈ لیڈی شاید آج آئے جھگرا کرنے۔ میں فی الحال اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔
نہیں نہیں تم لیٹ جاؤ۔ یہ شال لے لو۔ اس نے بیگ سے شال نکال کر اسے تھمائی۔ وہاں ٹھنڈی ہوا بہت تیز تھی۔ یہ شال وہ اور ڈی جے بطور پکنگ میٹ کے استمال کرتی تھیں۔
تھینکس وہ ستون کے ساتھ فرش پہ لیٹ گیا۔ آنکھوں پہ بازو رکھے وہ گردن تک شال کمبل کی طرح ڈالے کب سو گیا اسے پتا نہیں چلا۔ اسے یقینا بہت سردی لگ رہی تھی۔
وہ اس سے ایک زینہ نیچے آ بیٹھی تھی۔ ہر چند لمحے بعد گردن موڑ کر اوپر جہان کو دیکھ لیتی تھی۔وہ سو چکا تھا۔
سمندر کی لہروں کا شور وہاں تک سنائی دے رہا تھا۔وہ اپنا ترکی والا موبائل نکال کر یوں ہی ان باکس نیچے کرنے لگی۔ وہاں چند دن پہلے کا ایک ایس ایم ایس ابھی تک پڑا تھا۔ اس نے اس کا جواب نہیں دیا تھا۔ اور کئی دفعہ پڑھ لینے کے باوجود مٹایا نہیں تھا۔وہ بیوک ادا سے واپسی کے اگلے روز انڈیا کے ایک غیر شناسا موبائل نمبر سے آیا تھا۔
مجھے آپ کے جواب سے خوشی نہیں ہوئی، مگر میں آپ کی رائے کا احترام کرتا ہوں۔ آج کے بعد آپ سے کبھی رابط نہیں کروں گا۔ جو تکلیف میں نے آپ کو پہنچائی اس کے بدلے میں اگر آپ مجھے معاف کر دیں تو یہ آپ کی بڑائی ہوگی اور اگر کبھی آپ کو استنبول میں کوئی مسئلہ ہو سرکاری کام ہو یا غیر سرکاری کام قانونی غیر قانونی مجھے صرف ایک ایس ایم ایس کر دیجئے گا آپ کا کام ہو جائے گا۔ اے آر پی۔
اس پیغام کے بعد اس شحخص نے واقعتا کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ وہ اب استنبول میں بہت آزادی سے بہت مطمئن دل و دماغ کے ساتھ گھومتی تھی۔ اسے پہلے کی نسبت اب اے آر پی سے ڈر نہیں لگتا تھا مگر اس وقت وہ پیغام دوبارہ پڑھتے ہوئے اس کے ذہن میں ایک خیال کوندے کی طرح لپکا۔
اس نے پلٹ کر احیتاط سے جہان کو دیکھا۔
وہ آنکھوں پہ بازو رکھے سو رہا تھا۔ وہ واپس سیدھی ہوئی اور رپلائی کا بٹن دبایا۔ اس پیغام کا جواب اسے کبھی نہ کبھی تو دینا ہی تھا۔
اس نے سوچا تھا کہ خوب غوروفکر کر کے کچھ ایسا لکھ کر بھیجے گی وہ بھڑکے بھی نہیں اور دوبارا اس کا پیچھا بھی نہ کرے سو اچانک اسے ایک عجیب سا خیال آیا تھا۔
جہان کو صرف بخار نہیں تھا۔ وہ پریشان بھی تھا۔اسے وہ بیوک ادا والے ٹرپ کے مقابلے میں ذرا کمزور لگا تھا۔ گردش معاش کے جمیلوں میں پھنسے اس انسان کی وہ ایک مدد کر سکتی تھی تو اس میں آخر حرج ہی کیا تھا۔
وہ کافی دیر سوچتی رہی پھر اس نے جواب ٹائپ کرنا شروع کیا۔
آپ کی وسیع النظری کا شکریہ۔ مجھے واقعتا استنبول میں ایک کام درپیش ہے۔ اگر آپ میری مدد کریں تو میں اسے آپ کی طرف سے پہنچائی جانے والی اذیت کا مداوا سمجوں گی۔
اس نے پیغام بھیج دیا۔ اب وہ خاموشی سے بیٹھی سمندر کی لہریں دیکھنے لگی۔ وہ بیوک ادا اس کے گھر بھی تو چلی گئی تھی اور جب دروازہ بند ہوا تھا تو اسے لگا تھا وہ ایک سنگین غلطی کر چکی ہے۔ مگر اس غلطی کا نتیجہ بہت اچھا اور اطمینان بخش نکلا تھا۔ اسے احساس تھا کہ اب بھی اس نے غلطی کی ہے اور اس کا نتیجہ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ 
ایک دم فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ وہ چونکی اور موبائل سامنے کیا۔ وہی انڈیا کا غیر شناسا نمبر تھا۔ وہ تو سمجھی تھی کہ ٹیکسٹ پہ بات ہو جائے بہت ہے مگر اسے اندزا نہیں تھا کہ وہ فون کر لے گا۔
وہ موبائل سنبھالتی اٹھ کر سامنے منڈیر کے پاس چلی آئی۔ اگر وہ یہاں کھڑے ہو کر بات کرے گی تو جہان تک آواز نہیں پہنچے گی۔
ہیلو اس نے فون اٹھایا۔
زہے نصیب زہے نصیب۔ آج آپ نے ہمیں کیسے یاد کر لیا۔ وہی عامیانہ سا مسکراتا لب و لہجہ اسے اپنی حرکت پہ شدید پشیمانی ہوئی تھی۔ ایک کام تھا۔ وہ احیتاط سے نپے تلے لہجے میں کہنے لگی۔ اور بہتر ہو گا کہ ہم کوئی بے کار کی بات کرنے کے بجائے کام کی بات کریں۔
آپ کی مرضی ہے حیا جی رابطہ بھی تو آپ نے ہی کیا ہے۔ ورنہ عبدالرحمن پاشا اپنے قول کا بہت پکا ہے۔شاید وہ طنز کر گیا تھا مگر وہ پی گئی۔
میرے کزن کا ریسٹورنٹ ہے استقلال اسٹریٹ پر برگر کنگ اس کی قسطیں ادا نہیں ہوئی۔ ریسٹورنٹ کی مالکہ آج کل میرے کزن کو تنگ کر رہی ہے۔ کیا وہ اسے سال دو سال کی مہلت نہیں دے سکتی۔
کون سا کزن؟ وہ جیسے چونکا تھا۔
حجج۔۔۔۔۔جہان سکندر وہ ہلکائی۔ اسے نہیں پتہ تھا کہ وہ ٹھیک کر رہی ہے یا غلط مگر وہ یوں ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر بیٹھی اسے اس پریشانی سے تھکتے بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔
اچھا تو آپ چاہتی ہیں کہ میں آپ کے کزن کا یہ مسئلہ حل کردوں اور یہ کہ اس کی مالکہ اس کو پھر سے تنگ نہ کرے؟
جی!
وہ ہولے سے ہنس دیا۔
میں کچھ کرتا ہوں آپ فکر نہ کریں ۔ 
اس نے فون رکھ دیا اور سوچنے لگی کہ وہ ہنسا کیوں تھا۔
وہ واپس آکر جہان کے ساتھ بیٹھ گی چند لمحے لگے تھے اسے نارمل ہونے میں۔ اس نے وہی کیا جو اس کو ٹھیک لگا تھا۔اور اب وہ ذرا مطمئن ہوئی تھی۔
کافی دیر وہیں ستون کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی رہی۔اس کے عقب میں ٹاپ قپی کا عظیم محل تھا اور سامنے مرمرا کا سمندر بہت لمحے محل کی دیواروں سے رینگتے مرمرا کے پانیوں میں گھل گئے تو ایک دم جہان کا موبائل بجا۔
وہ جیسے ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ شال ہٹائی اور جیب سے موبائل نکالا۔ تب تک کال کرنے والا شاید کال کاٹ چکا تھا۔
ریسٹونٹ سے آرہی کال۔ میرا خیال ہے واپس چلتے ہیں۔ وہ چالاک لومڑی نہ آئی ہو کہیں۔ وہ پریشانی سے کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔
سب ٹھیک ہو جائے گا تم کیوں فکر کرتے ہو۔ وہ بڑے اطمینان سے کہتے ہوئے اس کے ساتھ کھڑی ہوئی۔جہان نے اس کی بات پہ تھکے تھکے سے انداز میں نفی میں سر ہلا دیا تھا۔ کافی دیر بعد جب وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے استقلال اسٹریٹ میں داخل ہوئے تو حیا نے کہا۔
آج میں تمہارا برگر کھا کر جاؤں گی کیونکہ ڈی جے اور تم نے اپنی اپنی بیماری میں مجھے بالکل اگنور کر دیا ہے۔
کھا لینا۔ وہ دھیرے سے مسکرایا مگر اگلے ہی پل ٹھٹھک کر روکا۔ مسکراہٹ چہرے سے غائب ہو گئی۔حیا نے اس کی نگاہوں کی تعاقب میں دیکھا۔
سامنے برگر کنگ تھا۔ اس کی شیشے کی دیوار میں بڑا سا سوراخ تھا اور اس سوراخ کے گرد مکڑی کے جالے کی مانند دراڑیں پڑی تھیں۔
وہ ایک دم تیزی سے دوڑتا ریسٹورنٹ کی طرف لپکا جبکہ وہ وہیں ششدر سی کھڑی رہ گئی۔ اس کی سماعتوں میں ایک قہقہہ گونجا تھا۔
دوسرے ہی پل وہ بھاگ کر ریسٹورنٹ میں داخل ہوئی۔ اندر کا منظر دیکھ کر اس کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔
کھڑکیوں کے ٹوٹے شیشے الٹا بکھرا ٹوٹا فرنیچر اوندھی میزیں ٹکڑے ٹکڑے ہوئے برتن ہر جگہ توڑ پھوڑ کے آثار تھے۔ عملے کے ایک شخص کے ساتھ دو پولیس والے کھڑے تھے۔ ایک آفیسر ہاتھ میں پکڑے کلب بورڈ پہ لگے کاغذ پر کچھ لکھ رہا تھا۔
جہان وہ سب کچھ دیکھتا ان پولیس آفیسر کی طرف آیا۔ وہ اس سے کچھ پوچھ رہے تھے اور وہ صدمے اور شاک سے گنگ نفی میں سر ہلاتا کچھ کہہ نہیں پا رہا تھا۔
یہ سب کیا ہے۔ اس نے قریب سے گزرتے شیف کو روک کر پوچھا۔ جوابا اس نے تاسف سے سر ہلا دیا۔
وہ گینگسٹرز تھے۔ ان کے پاس اسلحہ تھا۔ وہ اندر آئے اور پورا ریسٹورنٹ الٹ دیا۔ پولیس بھی بہت دیر سے پہنچی۔ وہ کہ کر آگے بڑھ گیا اور اس کا دل چاہ رہا تھا وہ پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دے۔ یہ اس نے کیا کر دیا۔ کس شخص پہ بھروسہ کر لیا۔ اوہ خدایا۔
پولیس آفیسر کی کسی بات کے جواب میں کچھ کہتے جہان کی نگاہ اس پہ پڑی۔ جو بمشکل آنسو روکے کھڑی تھی۔ اس نے اسے ہاتھ سے جانے کا اشارہ کیا۔ وہ وہیں کھڑی رہی وہ اس کی طرف آگیا۔
تم جاؤ۔ ٹاقسم سے بس پکڑلینا۔ میں تم سے بعد میں بات کروں گا۔ وہ تھکا سا کہہ رہا تھا۔ اس کا چہرہ پہلے سے زیادہ پژمردہ اور تھکن زدہ لگ رہا تھا۔ وہ سر ہلا کر آنسو پیتی پلٹ گئی۔
یہ تم نے کیا کر دیا حیا! جو اس کے پاس تھا، اسے بھی ضائع کرا دیا؟ آئی ہیٹ یو حیا۔۔۔۔۔۔۔ آئی ہیٹ یو۔۔۔۔
خود کو ملامت کرتی وہ خاموش آنسوؤں سے روتی واپس ٹاقسم جارہی تھی۔ ایک لمحے کو اس کا دل چاہا تھا کہ وہ فون کر کے اس شخص کو بے نقط سنائے مگر شاید وہ یہی چاہیتا تھا۔ رابطہ رکھنے کا کوئی بہانا۔ نہیں اب وہ اسے کبھی فون نہیں کرے گی۔
•••••••••••••••••••••
وہ گہری نیند میں تھی۔ سیاہ گھپ اندھیرے میں جب دور ایک چیختی ہوئی آواز نے سماعت کو چیرا۔
اندھیرے میں دراڑ پڑی۔ دور سے آتی آواز قریب ہوتی گئی۔ اس نے پلکیں جدا کرنی چاہیں تو جیسے ان پہ بہت بوجھ تھا۔
بمشکل آنکھیں کھلیں تو چند لمحے اسے حواس بحال کرنے میں لگے۔ اس نے ارد گرد دیکھا۔
ڈروم میں پر سکون سی نیم تاریکی چھائی تھی۔ کونے میں مدھم سا نائٹ بلب جل رہا تھا۔ ڈی جے ٹالی اور چیری اپنے اپنے بستروں میں کمبل ڈالے سو رہی تھی۔ دیوار پہ آویزاں بڑے کلاک کی چمکتی سویاں رات کے ایک بجنے کا بتا رہی تھیں۔
وہ چنگھاڑتی آواز ابھی تک آرہی تھی۔ 
••

اس نے نیند سے بوجھل ہوتا سر دائیں طرف گھمایا، کہنی کے بل ذرا اوپر ہوئی اور تکیے تلے ہاتھ ڈال کر موبائل نکالا۔ اس کا ترکی والا موبائل بج بج کر اسی پل خاموش ہوا تھا۔ دو مسڈ کالز، اس نے تفصیل کھولی تو چمکتی اسکرین سے آنکھیں پل بھر کو چندھیائیں۔ اس نے پلکیں سیکڑے ہاتھ سے بال پیچھے ہٹاتے ہوئے اسکرین کو دیکھا۔ ”تایا فرقان موبائل“ ساتھ بریکٹ میں دو کا ہندسہ تھا۔ حیا نے اسکرین کے کونے پہ لکھے ٹائم کو دیکھا۔ رات کا ایک بج رہا تھا۔ یہاں ایک بجا تھا۔ت پاکستان میں تین بجے ہوں گے۔
آدھی رات کو آنے والا فون اور مہمان کبھی اچھی خبر نہیں لاتے، اور نہ ریسیو کر سکنے والی کال اس برچھی کی مانند ہوتی ہے جو کوئی گھونپ کر نکالنا بھول گیا ہو۔
اس کی ساری نیند اور سستی پل بھر میں بھاگ گئی۔تایا اس وقت کیوں کال کر رہے تھے؟ وہ ٹھیک تو تھے؟ اماں، ابا راحیل سب ٹھیک تو تھے؟ پتا نہیں کیا مسئلہ تھا۔ وہ تڑپ کر واپس کال ملانے لگی، پھر یاد آیا کہ اس میں بیلنس نہیں تھا۔ اس نے بے بسی سے اپنے پاکستانی موبائل کو دیکھا جو تکیے کے اس طرف رکھا تھا۔ اس میں بھی بیلنس ختم تھا بلکہ اس فون میں تو ترکی آنے کے بعد بیلنس ہی نہیں ڈلوایا تھا۔
اس نے کمبل پھینکا اور سیڑھیاں پھلانگ کر نیچے اتری۔ وہ اپنے نائٹ سوٹ میں ملبوس تھی۔ گلابی چیک والا ٹراؤزر اور کھلا لمبا کرتا۔ 
ڈی جے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈی جے۔۔۔۔۔۔۔۔ موبائل دو اپنا۔ اس نے ڈی جے کے بینک پہ چڑھ کر اس کو جھنجھوڑا ۔وہ بمشکل ہلی۔
نیند مت خراب کرو میری۔ سیدھی جہنم میں جاؤ گی تم۔ ڈی جے نے بند آنکھوں سے بڑبڑاتے ہوئے کروٹ بدلی۔ اس کا موبائل وہیں تکیے کے ساتھ رکھا تھا۔ حیا نے موبائل جھٹا اور نیچے اتری۔ ٹالی کے بینک کی کرسی کھینچ کر بیٹھی اور اپنے موبائل سے تایا کا نمبر دیکھ کر ڈی جے کے فون پہ ملانے لگی۔ فون نمبر حیا سیلمان کو کبھی زبانی یاد نہیں رہے تھے۔
نمبر ملا کر اس نے فون کان سے لگایا۔ لمحے پھر کی خاموشی کے بعد وہ مشینی نسوانی آواز ترکی میں کچھ بکنے لگی جس کا مطلب یہ تھا کہ ڈی جے ذلیل کا بیلنس بھی ختم تھا۔ اس نے جھنجھلا کر فون کان سے ہٹایا۔ یورپی یونین کا سارا اسکالر شپ استقلال اسٹریٹ اور جواہر میں شاپنگ پہ اڑا دینے والیوں کے ساتھ یہ ہی ہونا چاہیے تھا۔
اسی پل فون پھر سے بجا۔ تایا فرقان کالنگ۔ اس نے جھٹ سے کال اٹھائی۔
ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔؟
حیا۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے پاس اس نمبر کے علاوہ کون سا دوسرا نمبر ہے؟ وہ تایا فرقان ہی تھے اور اتنے غصے سے بولے تھے کہ وہ کانپ گئی۔
جی۔۔۔۔۔۔۔ کیا؟
حیا! میرے ساتھ بکواس مت کرو، مجھے بتاؤ تمہارے پاس دوسرا کوئی نمبر ہے؟ وہ نیند سے جاگی تھی اور کبھی بھی اتنی حاضر دماغ نہیں رہی تھی۔ مگر ساری بات سمجھنے میں اسے لمحہ نہ لگا۔
ارم پکڑی گئی تھی۔ ارم آدھی رات کو کسی سے فون پر بات کرتی پکڑی گئی تھی۔
نہیں تایا ابا! میرے پاس یہی ایک نمبر ہے اور دوسرا یوفون کا جو آپ کے پاس آل ریڈی ہے۔ 
تمہارے پاس موبی لنک کا کوئی نمبر نہیں ہے؟
نہیں تایا ابا! آپ بے شک ابا سے پوچھ لیں۔ یہ نمبر ان کے نام ہے۔ اور میں نے دوسرا نمبر رکھ کر کیا کرنا ہے؟
اچھا ٹھیک ہے۔ انہوں نے کھٹ سے فون بند کر دیا۔ اس نے گہری سانس لے کر موبائل کان سے ہٹایا اور دوسرے ہاتھ سے چہرے پہ آئے بال سمیٹ کر پیچھے کیے۔
تو ارم فرقان اصغر پکڑی گئی تھی۔ 
میری ارم بھی تو ہے، مجال ہے جو بنا سر ڈھکے کبھی گھر سے نکلی ہو۔"
وہ ارم کے لئے متاسف بھی تھی اور فکرمند بھی، مگر دور اندر دل کے اس پوشیدہ خانے میں جو کوئی شخص دنیا کو نہیں دکھاتا، اسے تھوڑی سی کمینی سی خوشی بھی ہوئی تھی۔
"بہت اچھا ہوا تایا ابا!" اس دور کے خانے میں کسی نے کہا تھا۔ "اب تو آپ کو بھی معلوم ہو گیا ہو گا کہ دوسروں کی بیٹیوں پہ انگلیاں اٹھانے والے لوگوں کے اپنے گھروں پہ وہ انگلیاں لوٹ کر آتی ہیں۔ بہت اچھا ہوا تایا ابا!"
صبح سویرے اٹھتے ہی وہ اسی کرتے، ٹراوزر پہ ایک ڈھیلا ڈھالا سا سویٹر اور شال لپیٹ کر"دیا"سٹور آ گئی۔ بال اب اس نے کیچر میں باندھ لئے تھے اور اپنے گلابی قینچی چپل پہن لئے تھے۔
سٹور سے اس نے کارڈ خریدا، ری چارج کیا اور موبائل پہ اماں کا نمبر ملاتی باہر کیفے کے برآمدے میں بچھی کرسی کھینچ کر بیٹھی۔ وہاں فاصلے فاصلے پہ گول میزوں کے گرد کرسیوں کے پھول بنے تھے۔ اسٹوڈنٹس صبح صبح یہاں ناشتہ کرنے آتے تھے۔ سامنے سبانجی کا خوبصورت فوارہ نصب تھا۔ گول چکر میں مقید فوارہ جس کی پانی کی دھار بہت اوپر جا کر نیچے گرتی تھی۔
"اتنی صبح صبح فون کیسے کیا، خیریت؟ فاطمہ ذرا فکر مند ہو گئیں۔
"تو کیا میں آپ کو ایسے یاد نہیں کر سکتی؟"وہ آرام دہ انداز میں ٹانگ پہ ٹانگ رکھتی ذرا خفگی سے بولی۔
"ہماری ہاکستانی ایکسچینج اسٹوڈنٹ ہمیں عموماً مسڈ بیل دیتی ہیں یا پھر کسی ایس ایم ایس ویب سائٹ سے مفت کا ایس ایم ایس کرکے کال کرنے کا کہتی ہیں تو ہم کال بیک کرتے ہیں۔ اس لئے اگر وہ علی الصبح خود فون کریں تو حیرت تو ہو گی نا!"
"بس اماں! غربت ہی اتنی ہے، کیا کریں۔" وہ قینچی چپلوں میں مقید پیر جھلاتے ہنس کر بولی۔
"ہاں یورپی یونین نے وہ ہزاروں یوروز کا اسکالرشپ تو کسی اور کو دیا تھا نا۔" فاطمہ کی تشویش ختم ہو چکی تھی اور وہ اسی کے انداز میں بات کر رہی تھی۔
"وہ تو رینی ڈیز کے لئے سنبھال کر رکھا ہے"۔
"کون سے رینی ڈیز؟"
"اسپرنگ بریک اماں، اور یہاں اسپرنگ بریک کے دنوں میں خوب بارش ہوتی ہے۔ اس لئے میں اور ڈی جے اسپرنگ بریک میں پورا ترکی گھومنے کا سوچ رہے ہیں اور لگتا ہے آج کل آپ صائمہ تائی کی کمپنی میں رہ رہی ہیں، صبح ہی صبح طنز کیے جا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا سب کچھ چھوڑیں، یہ بتائیں گھر پہ سب خیریت ہے؟"
"ہاں سب ٹھیک ہے۔"
"تایا فرقان کی طرف بھی؟" اس نے ہاتھ سے ویٹر کو اشارہ کیا۔ وہ قریب آیا تو اس نے مینیو کارڈ پہ بنے ڈونٹ پہ انگلی رکھی، پھر انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنایا تو وہ سمجھ مر واپس مڑ گیا۔
"ہاں کیوں؟کسی نے کچھ کہا ہے؟"
"نہیں، مگر رات تایا کا فون آیا تھا۔ اچھا آپ جا کر ان کو کہہ مت آئیے گا۔"
"لو، میں کیوں کہوں گی؟" فاطمہ الٹا خفا ہوئیں، مگر وہ جانتی تھی کہ ماؤں کا بھروسہ نہیں ہوتا۔ لاکھ کہو کہ نہ بتائیےگا پھر بھی اپنے اگلے پچھلے حساب چُکاتے وقت کسی نہ کسی موقع پر اس بات کو استعمال کر ہی لیتی تھیں، مگر ایک اچھی بیٹی کی طرح سے پوری بات ماں کے گوش گزار کئے بغیر ڈونٹس کہاں ہضم ہونے تھے۔ سو ساری بات دہرا دی، بس ارم کا میسج پڑھنے والا قصہ گول کر گئی۔
"اچھا، پتہ نہیں، ہمیں تو کچھ نہیں پتہ چلا"۔ وہ کچھ دیر اسی بات پہ تبصرہ کرتی رہیں، پھر ایک دم یاد آنے پہ بولیں۔ لو، میں بتانا ہی بھول گئی، مہوش کی شادی طے ہو گئی ہے"۔ انہوں نے زاہد چچا کی بیٹی کا نام لیا، جس کی نسبت کافی عرصے سے اپنے ماموں زاد سے طے تھی۔
"اچھا، کب؟" اسے خوشگوار حیرت ہوئی۔ ترکی آتے وقت سنا تو تھا کہ اپریل کی کوئی تاریخ رکھیں گے، مگر اسےبھول گیا تھا۔ 
"ہفتہ ہو گیا ہے رکھے ہوئے، جب بھی بات ہوتی ہے، بتانا ہی بھول جاتی ہوں۔" پھر انہوں نے جو تاریخ بتائی وہ اپریل ان کی اسپرنگ بریک کے درمیان آتی تھی۔
"تب تو ڈی جے اور میں عظیم ترکی کی سیر کر رہے ہوں گے۔"
"سبین کو بلایا تو ہے، مگر کہہ رہی تھی کہ سکندر بھائی کی طبیعت آج کل خراب رہتی ہے، وہ نہیں آ سکے گی، میں نے کہا جہان کو بھیج دو'، اچھا ہے ساتھ حیا بھی آ جائےگی، دونوں شادی اٹینڈ کر لیں گے، مگر وہ کہہ رہی تھی کہ مشکل ہے۔"
اس نے فون کو کان سے ہٹا کر گھورا، اور پھر ہنس دی۔اماں بھی کبھی کبھی لطیفے سناتی تھیں۔ وہ انتہائی غیر رومانٹک سےماں، بیٹا کہاں مانتے ایسے رومانٹک ٹرپ کےلئے؟
اس نے سر جھٹک کر موبائل کان سےلگایا۔ فاطمہ کہہ رہی تھیں۔"ایک تو تمہاری پھپھو بھی کوئی بات غیر مبہم نہیں کرتیں"۔
"بالکل!"اس نےتائیدکی۔
ویٹر نے چاکلیٹ اور رنگ برنگے دانوں سے سجے دو ڈونٹس ٹیبل پر رکھے تو وہ الوداعی کلمات کہنے لگی۔ارم کے متعلق مزید جاننے کی فی الحال اسے طلب نہیں رہی تھی۔ 
••••••••••••••••••••••••
"بیوک ادا؟ پھر بیوک ادا؟"
اس روز وہ شام میں جلدی سو گئی تھی، سو عشاء کے بعد آنکھ کھلی۔ کچھ دیر پڑھتی رہی، پھر روحیل سےاسکائپ پہ گھنٹہ بھر باتیں کیں اور اسے ترکی کا سفرنامہ سنا کر خوب بور کیا اور اب بھوک لگی تو کچن میں آئی تھی۔ ڈی جے نےآلو، مٹر بنایا تھا جو سالن کم اور کوئی گدلا پانی زیادہ لگ رہا تھا، جس میں مٹر، آلو، اور پیاز تیر رہے تھے وہ ناک چڑھاتے ہوئے اس مغلوبے کو گرم کرنے کے لئے پلیٹ میں ڈال ہی رہی تھی کہ ڈی جے نے پیچھے سے آ کر بتایا کہ اس نے ہالے اور انجم باجی کے ساتھ بیوک ادا جانے کا پروگرام بنا لیا ہے اور کل چھ بجے کی گورسل شٹل پکڑنی ہے۔
"بیوک ادا؟ پھر بیک ادا؟" وہ اوون کا دروازہ بند کرتی چونک کر پلٹی۔ پل بھر میں اس کی آنکھوں میں ناگواری سمٹ آئی تھی۔
"ہالے اور انجم باجی نے پروگرام بنا کر مجھ سے پوچھا تو میں نے ہامی بھرلی۔" پانی کی بوتل کو کھڑے کھڑے منہ سے لگاتے ہوئے ڈی جے نے شانے اچکائے۔
"اور یقیناً میری طرف سے بھی ہامی بھرلی ہو گی۔"
"بالکل!"
"میں کوئی نہیں جا رہی بیوک ادا، میری طرف سے انجم باجی کو انکار کر دو۔" وہ پلٹ کر چیزیں اٹھاپٹخ کرنے لگی۔ انداز میں واضح جھنجھلاہٹ تھی۔
"کیوں؟ اتنا خوبصورت جزیرہ ہے"۔
"مجھے نہیں جانا ادھر، بس کہہ دیا نا۔" وہ ریفریجریٹر کا اوپری فریزر کھولے پیکٹ ادھر ادھر کرنے لگی۔ بالوں کا ڈھیلا جوڑا اس کی گردن کی پشت پر جھول رہا تھا۔
"مگر کیوں؟"
"وہ عبدالرحمٰن پاشا کا جزیرہ ہے اور میں اس آدمی کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی"۔ اس نے روٹیوں کا پیکٹ نکال کر فریزر کا دروازہ زور سے بند کیا۔ پیکٹ میز پہ رکھا۔ جمی ہوئی دو روٹیاں نکالیں اور پلیٹ میں رکھیں۔ ان میدے کی بنی ترک روٹیوں کا نام انہیں معلوم نہیں تھا۔ بس"دیا"اسٹور پہ وہ فریزر میں نظر آئی تھیں اور اتنی سمجھ تو انہیں تھی کہ انہیں مائیکروویو میں گرم کر کے کھاتے ہیں؟ تب سے وہ یہی روٹیاں کھا رہی تھیں۔
ڈی جے اس کے رعٹی اوون میں رکھنے تک سکتے سے باہر آ چکی تھی۔
"عبدالرحمٰن پاشا؟ وہ جس کا ذکر ہماری ہوسٹ آنٹی نے کیا تھا؟"
"ہاں وہی، کرمنل، اسمگلر!"
"مگر اس کا کیا ذکر؟ ہالےنےکہا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
"ہالے کو چھوڑو، میں سب بتاتی ہوں، پہلے کیچپ لاؤ پھرانجم باجی کو کال کر کے کل کا پروگرام کینسل کرو۔"
کھانا کھا کر وہ دونوں باہر آ گئیں۔ رات گہری ہو چکی تھی۔ دونوں نے اونی سوئیٹر پہن رکھے تھے۔ وہ ڑورم بلاک سے نکل کر باتیں کرتے سبزہ زار پہ چلتی گئیں۔پہلے ڈی جے نے انجم باجی کو فون کر کے معذرت کی اور جب اسے لگا کہ وہ ذرا ناراض ہو گئی ہیں، کیونکہ ان دونوں نے خاصی پاکستانی حرکت کی تھی اور ترکی میں کمٹمنٹ توڑنا بہت بُرا سمجھا جاتا تھا۔ سو اس پاکستانی حرکت کو سنبھالنے کے لئےحیا نےفون لے لیا اور انہیں بتایا کہ اس کی پھپھو نے کل اسے اور اس کی فرینڈ کو اپنےگھر انوائیٹ کیا ہے۔ سو انجم باجی اس کی دعوت قبول کر کے اب کےساتھ چلیں، بیوک ادا پھر کسی روز چلے جائیں گے۔ یوں انجم باجی مان گئیں اور اب وہ دونوں چلتے چلتے "دیا" اسٹور کے سامنے والے فوارے کی منڈیر پہ آ بیٹھی تھیں۔ فوارے کا پانی چھینٹے اڑاتا ہوا نیچے گر رہا تھا اور اس پانی میں بنتے مٹتے بلبلوں کو دیکھتے ہوئےحیا نے ساری کہانی الف تا یے اس کو سنا ڈالی۔
ڈی جے کتنی دیر تو چُپ بیٹھی رہی، پھرآہستہ آہستہ سوچ کر کہنے لگی۔
"تو وہ پنکی میجر احمد تھا، جو ہمیں مارکیٹ میں ملا تھا؟"
"بالکل!"
"اور ڈولی اصلی خواجہ سرا تھا؟"
"شاید، وہ ان کا پُرانا ملازم ہے۔"
"اور تم منہ اٹھا کر اس کے گھر چلی گئیں؟"
"منہ اٹھا کر کیا! میرا پاسپورٹ تھا اس پرس میں اور اچھا ہی ہوا، ساری بات تو کلئیر ہو گئی۔" وہ اپنی غلطی مانتی، یہ نا ممکن تھا۔
"مگر تم نے اسےفون کر کے بہت غلطی کی۔"
"تو بگھت رہی ہوں نا وہ غلطی۔ اس ظالم شخص نے یہ نہیں سوچا کہ جہان کے پاس اس ریسٹورنٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اس نےاسی کو تباہ برباد کر دیا۔ اب یقیناً وہ اس کی لینڈ لیڈی کو شہہ دے گا کہ وہ ریسٹورنٹ واپس حاصل کر لے۔" وہ سخت نادم تھی۔
"تمہیں کیا لگتا ہے، وہ تم سے واقعی محبت کرتا ہے؟"
"کسی کو اذیت پہنچانا محبت نہیں ہوتی۔"
کچھ دیر وہ یوں ہی اسی بات کو ہر پہلو سے ڈسکس کرتی رہیں، پھر ڈی جے نے ہاتھ اٹھا کر حتمی انداز میں کہا۔
"ایک بات تو طے ہے، اب یہ معاملہ ختم ہو چکا ہے۔ وہ اب تمہارے پیچھے نہیں آئےگا۔ "
وہ سر ہلا کر اٹھ گئی۔
"ہوں!" رات بہت بیت چکی تھی، اب ان کو واپس جانا تھا۔
سبزہ زار پہ چلتے ڈورم بلاک کی طرف بڑھتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی کہ اپنے مسئلےکسی کو بتانے سے وہ حل نہیں ہوتے۔ دل کا بوجھ کسی کے سامنے ہلکا کرتے کرتے بعض دفعہ ہم اپنی ذات کو ہی دوسرے کے سامنے ہلکا کر دیتےہیں۔ پریشانیاں بتانے سے کم ہو سکتی ہیں، ختم نہیں، جیسے اس کی پریشانی ابھی تک اس کے ساتھ تھی۔
•••••••••••••••••••••••
کلاس روم کی کھڑکیوں سے سورج کی روشنی چھن کر اندر آ رہی تھی۔ صبح کی نم ہوا بار بار شیشیوں سے ٹکرا کر واپس پلٹ جاتی، جیو انفارمیشن کے سسٹم کے پروفیسر اپنے مخصوص انداز میں لیکچر لے رہے تھے۔ اس کےساتھ بیٹھی ڈی جے بظاہر بہت توجہ سے لیکچر سنتی رجسٹر پر لکھ رہی تھی۔ وہ ہر چند لفظ لکھ کر سر اٹھا کر پروفیسر کو دیکھتی، ذرا غور سے ان کے اگلے الفاظ سنتی اور پھر سمجھ کر سر ہلاتی دوبارہ لکھنے لگ جاتی۔
حیا نے ایک نگاہ اس کے رجسٹر پر ڈالی۔ وہاں اس کا چلتا قلم لکھ رہا تھا۔
"تم لوگوں کا سپرنگ بریک کا کیا پروگرام ہے؟ کدھر جاؤ گے اور کون کون تمہارے ساتھ جا رہا ہے؟" آخری لفظ لکھ کر اس نے گردن سیدھی کر کے پورے اعتماد سے پروفیسر کو دیکھتے ہوئے رجسٹر دائیں جانب بیٹھے معتصم کو پاس کر دیا۔ یہ ان کی اور فلسطینیوں کی واحد مشترکہ کلاس تھی۔
معتصم نے ایک نگاہ کھلے رجسٹر پہ ڈالی، اور پھر سر جھکا کر کچھ لکھنے لگا۔ جب رجسٹر واپس ملا تو اس پہ انگریزی میں لکھا تھا۔
"ہم ٹرکی کے ٹور پہ جا رہے ہیں۔ سات دن میں سات شہر۔ ہم پانچوں اور ٹالی۔ اور تم لوگوں کا کیا پروگرام ہے؟"
"اُف پھر یہ ٹالی!" ڈی جےکوفت سےجواب لکھنے لگی۔
"ہم بھی سات دنوں میں سات شہر گھومنے کا سوچ رہے ہیں۔"
اس نے رجسٹر آگے پاس کر دیا اور پھر ذرا ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
معتصم اب صفحہ پہ چند الفاظ گھسیٹ رہا تھا۔
"تو ہمارے ساتھ چلو نا۔"
"تم لوگوں کو کب نکلنا ہے؟"
"پہلی چھٹی والے دن۔"
"ہم نے دوسری چھٹی پہ نکلنا ہے، سو تمہارے ساتھ مشکل ہو گا۔ چلو پھر چھٹیوں کے بعد ملیں گے۔"
"نو پرابلم!" معتصم نےساتھ ایک مسکراتا ہوا چہرہ بنایا۔
حیا دانت پہ دانت جمائے بمشکل جمائیاں روکنے کی سعی کر رہی تھی۔ اسے اس کلاس سے زیادہ بورنگ کوئی کلاس نہیں لگتی تھی۔
دفعتاً معتصم نے رجسٹر ڈی جے کی طرف بڑھایا تو اس پہ لکھے الفاظ کو پڑھ کر ڈی جے نے رجسٹر حیا کے سامنے رکھ دیا۔ حیا نے ذرا سی گردن جھکا کر دیکھا۔ اوپر اس نےانگریزی میں لکھا تھا۔ "ٹرانسلیٹ ان اردو پلیز۔" اس کے نیچےعربی عبارت لکھی تھی۔"کیف حالک؟"
حیا نے قلم انگلیوں کےدرمیان پکڑا اور اردو ہجوں میں لکھا۔
"آپ کا کیا حال ہے؟" اور رجسٹر واپس کر دیا۔ معتصم اور حسین کو آج کل ڈی جے سے اردو الفاظ سیکھنے کا شوق چڑھا ہوا تھا۔ اس کلاس میں وہ یوں سارا وقت عربی الفاظ لکھ لکھ کر ان کو دیتےتھے۔
چند لمحوں بعد اس نےصفحہ پھر حیا کے سامنے کیا۔اب کہ اس پہ لکھا تھا"حالی بخیر۔"
حیا نے چِڑ کر نیچے لکھا۔
"میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں اور آپ کی خیریت ٹھیک چاہتی ہوں۔"
"اتنا لمبا کیوں لکھا؟" ڈی جے نےحیرت سے سرگوشی کی۔
"اگر چھوٹا لکھتی تیہ فورا ًہی اسے سیکھ کر مجھ سے آج ہی کی تاریخ میں پوری فیروزاللغات لکھواتا۔اب اچھا ہے نا، پورا دن " ٹھیک " پڑھنے میں گزار دےگا۔"
اور معتصم سے کلاس کے اختتام تک "ٹھیک ہے"ٹھیک سے نہیں پڑھا گیا۔
کلاس ختم ہوئی تو وہ واپس ڈروم میں آئیں۔ منہ ہاتھ دھو کر تیار ہونے میں کافی وقت لگ گیا۔ اس نے ایک مور پنکھ کےسبز رنگ کا پاؤں کا چھوتا فراک پہنا۔ فراک کی آستین تنگ چوڑی دار تھیں اور نیچے پاجامہ تھا۔ پورا لباس بالکل سادہ تھا۔ بال اس نے کھلے چھوڈ دیےاور کاجل اور نیچرل پنک لپ اسٹک لگا کر ڈی جے کی طرف پلٹی۔
"کیسی لگ رہی ہوں؟"
ڈی جے، جو بالوں میں برش کر رہی تھی، رک کر اسے دیکھنے لگی۔
"بالکل پاکستان کا جھنڈا۔“

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page