top of page

جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد

قسط نمبر چوہ

وہ آدمی اسے بڑے کمرے میں لایا اور اب کرسی پہ بٹھا کر اس کے ہاتھ پاؤں کرسی سے باندھ رہا تھا۔
"مجھے چھوڑ دو، مجھے جانے دو۔" وہ منمنائی تھی-
اس نے جوابا ٹیپ کا ایک ٹکڑا دانت سے کاٹ کر اس کے لبوں سے کس کر چپکا دیا۔
"ام۔۔۔۔۔۔۔" وہ گردن دائیں سے بائیں مارنے لگی۔ ٹیپ سے اس کی آواز گھٹ کر رہ گئی تھی۔ وہ توجہ دیے بنا لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر چلا گیا۔
اس نے نگاہیں پورے کمرے پر دوڑائیں۔ وہ بڑا سا کمرہ تھا۔ ایک طرف بڑا صوفہ رکھا تھا اور دوسری طرف آتش دان، جس کے پاس وہ کرسی سے جکڑی بیٹھی تھی۔ آتش دان میں آگ بھڑک رہی تھی۔
ہراقلیطس کی دائمی آگ۔ ساتھ ہی لوہے کی چند سلاخیں پڑی الاؤ میں دہک رہی تھی۔ ان کے سرے پہ انگریزی کے مختلف حروف لکھے تھے اور وہ حروف دہک دہک کر سرخ انگارے بن چکے تھے۔
آتش دان کے ایک طرف ایک چھوٹی انگیٹھی رکھی تھی۔ اس میں جلتے انگاروں پہ ایک برتن میں شہد کی طرح کا گاڑھا سا مائع ابل رہا تھا۔ اس کی بو سارے کمرے میں پھیلی تھی۔ شہد سے زیادہ بھورا مائع۔ وہ شاید ویکس تھی۔
اس نے گردن گرا دی۔ اس کی ہمت ختم ہوتی جا رہی تھی۔ وہ اب بہت دیر سے اس کمرے میں تنہا پڑی تھی اور یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اسے لگ رہا تھا اس نے وہ کال ضائع کر دی۔ پتہ نہیں وہ کون تھا اور اسے اس کی بات سمجھ میں آئی بھی تھی یا نہیں اور وہ کچھ کرے گا بھی یا نہیں۔ اگر وہ گھر فون کر لیتی تو شاید۔۔۔۔ مگر نہیں، گھر فون کرنے کی صورت میں بات پھیل جاتی اور اس سے تو بہتر تھا کہ وہ یہیں پڑی رہتی۔ لیکن بات تو اب بھی پھیل جائے گی اور جو ذلت، جو بدنامی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کے سامنے وہ بھولی بسری سی ویڈیو آگئی۔ 
شریفوں کا مجرہ۔
"نہیں، پلیز اللہ تعالی، میری مدد کریں۔" وہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ دعا مانگے گئی۔ اس کی دعا پہلے قبول نہیں ہوئی تھی، شاید اب ہو جاۓ۔ شاید اب اس کی مدد کر دی جاۓ۔
آتش دان کے قریب ہونے کے باعث تپش اس تک پہنچ رہی تھی اور اس مسلسل حدت سے اس کے پاؤں دہکنے لگے تھے۔ وہ ذزرد الاؤ کو دیکھ رہی تھی جس کی سرخ لپیٹیں اٹھ اٹھ کر ہوا میں گم ہو رہی تھیں۔ گرمی بڑھتی جا رہی تھی اس کا سارا وجود گویا آگ میں دہک رہا تھا۔ لمبے بال کمر اور کندھوں پر بکھرے تھے، وہ ان کو سمیٹنے پر بھی قادر نہیں تھی۔ اس نے پورا زور لگا کر کرسی کو پیچھے دھکیلنا چاہا، مگر وہ نہیں ہلی۔ پسینے کی چند بوندیں اس کی گردن اور پیشانی پہ چمک رہی تھیں۔
دفعتأ دروازہ کھلا اس نے گردن موڑ کر دیکھا۔ وہ ایک پستہ قد، چینی نقوش کا حامل شحص تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا بیگ تھا۔ جسے اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی میز پہ رکھا پھر اس کی طرف آیا اور ایک ہاتھ سے کرسی کا رخ اپنی جانب موڑا اور ہاتھ سے ڈکٹ ٹیپ کا کنارا پکڑ کر کھینچ کر اتارا۔
"آہا۔۔۔۔۔۔۔ نتاشا!" وہ قریب سے دیکھنے پہ کوئی روسی لگتا تھا۔
"میں نتاشا نہیں ہوں، پلیز مجھے جانے دو." ایک امید سی بندھی کہ وہ اسے کسی اور کے دھوکے میں پکڑ لاۓ تھے۔
"ناؤ یو آر نتاشا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انگلش، انگلش؟ آل رائٹ، آل رائٹ!" وہ اثبات میں سر ہلا کر مسکراتا ہوا انگیٹھی کی طرف بڑھ گیا۔
"پلیز مجھے جانے دو۔" وہ اس کی پشت کو دیکھتے ہوۓ منت بھرے لہجے میں بولی۔ وہ آگ کے سامنے کھڑا تھا۔ تپش کا رستہ رک گیا۔ ذرا سا سکون ملا۔
"پور کنٹری، تورست گرل، پور پیپل!" وہ نفی میں سر ہلا کر ایک سلاخ اٹھاۓ اسے الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔
"میرا باپ امیر آدمی ہے، وہ تمہیں تاوان کی رقم دے دے گا۔"
"سو نتاشا، یو وانٹ انگلش نیم؟" وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہتا اس کی طرف پلٹا۔ وہ جواب دیے بنا یک ٹک اس سلاخ کو دیکھے گئی جس پہ لکھا "ایم" دہک رہا تھا۔ یا شاید وہ "ڈبلیو" تھا۔
وہ سلاخ کیوں دہکا رہا تھا؟ کس لیے؟
ایک خوف سا اس کے اندر سر اٹھانے لگا۔ اسے بے اختیار اس کمرے میں بے سدھ پڑی لڑکی کا بازو یاد آیا۔ وہ ٹیٹو نہیں تھا۔ وہ لمحے بھر میں جان گئی تھی۔
"یو وانٹ انگلش نیم؟" وہ اس کے بالکل سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔
"نو۔۔۔۔۔۔ نو۔۔۔۔۔" وہ بے یقینی سے نفی میں سر ہلاتی بڑبڑائی۔
"ناؤ دس از یور نیم!" وہ سلاخ کا دہکتا لوہا اس کے قریب لایا۔
" نہیں۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔" وہ گردن دائیں بائیں ہلاتی زور سے چلانے لگی۔ وہ اسے اس گرم لوہے سے داغنے لگا تھا۔ اس کا چہرہ خوف و دہشت سے سفید پڑ گیا تھا۔
"یور نیم!" اس نے جتا کر کہتے سلاخ حیا کے بازو کے قریب کی جہاں فراک کی چھوٹی آستین ختم ہوتی تھی۔ کندھے سے ذرا نیچے وہاں وہ سلاخ قریب لے گیا۔ اسے دہکتے انگارے کی حدت محسوس ہوئی۔ وہ تڑپ کر ادھر ادھر سر مارنے لگی۔
"نہیں پلیز.... نہیں...."
اس لمحے اس نے دل سے دعا کی تھی کہ کوئی آ جاۓ اور اس پستہ قد روسی سے اسے نجات دلا دے۔ کوئی آ جاۓ، چاہے وہ عبدالرحمن پاشا ہی کیوں نہ ہو۔ کوئی تو....
روسی نے دہکتا ہوا لوہا اس کے بازو کے اوپری حصے پر رکھ کر دبایا۔ وہ بری طرح سے بلبلا اٹھی۔ اس کے حلق سے ایک دل خراش چیخ نکلی تھی مگر وہ اسی طرح زور دے کر سلاخ دباۓ کھڑا تھا۔
اندر سے ماس جلنے لگا تھا۔ وہ روح میں اتر جانے والی، زخمی کر دینے والی بدترین جلن تھی. وہ چیخ رہی تھی، وہ رو رہی تھی۔
چند لمحے بعد اس نے سلاخ اٹھا لی۔ وہ مکمل طور پر جل گئی تھی۔
روسی دوبارہ پلٹا اور سلاخ رکھ دی۔ اس کے دائیں بازو کے اوپری حصے پہ سیاہ، جلا ہوا حرف لکھا تھا۔
روسی واپس اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ حیا نے متورم، سرخ نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا اور دہل کر رہ گئی۔ اس کے ہاتھ میں دوسری سلاخ تھی جس پر HO لکھا تھا، اور اوپر تلے لکھے دونوں حرف انگارہ بن چکے تھے۔
"نہیں۔۔۔۔۔۔ تمہیں اللہ کا واسطہ۔۔۔۔۔ نہیں۔" وہ وحشت سے تڑپتی خود کو پیچھے دھکیلنے لگی مگر رسیوں نے اسے مضبوطی سے جکڑ رکھا تھا کہ وہ ہل بھی نا پائی۔
"نہیں۔ وہ خوف سے چلا رہی تھی۔ وہ مسکراتے ہوۓ آگے بڑھا سیاہ داغے گئے حرف تلے سلاخ گاڑ دی
کھولتا ہوا گرم درد، دہکتے انگارے، آگ اس کی تکلیف آخری حد کو چھونے لگی۔ وہ درد سے گھٹی گھٹی سی چیخ رہی تھی۔ اسے لگا وہ اس تکلیف سے مرنے والی ہے۔ وہ جسم کے اندر تک گھس کرجلا دینے والا درد تھا۔
چند لمحوں بعد اس نے سلاخ ہٹائی تو حیا کی گردن بے دم سی ہو کر ایک جانب ڈھلک گئی۔ اس کا تنفس آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ تکلیف سے وہ ہوش کھونے والی تھی۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ مگر مزید رونے کی سکت وہ خود میں نہیں پاتی تھی۔
روسی اب تیسری سلاخ اٹھا لایا تھا۔ اس پر RE لکھا تھا۔ حیا نے تکلیف سے بند ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھا۔ اس میں مزید کچھ کہنے کی سکت نہیں رہی تھی، اپنی ساری زندگی فلم کی طرح اس کی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگی۔ بچپن کے دن، یادیں، اس کے نانا کا گھر، اس کی نانی اس کے لمبے بالوں میں کنگھی پھیر رہی تھیں۔ پھر منظر بدل گیا۔ وہ اور روحیل کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے، اسکول بیگ لئے، وہ اسکول جا رہے تھے، روحیل کچھ بتا رہا تھا اور وہ ہنس رہی تھی۔ پھر اس نے خود کو ابا کی لائبریری میں دیکھا۔ وہ ان کی ایک موٹی سی کتاب کھول رہی تھی جس میں سوکھا پھول رکھا تھا، وہ اس نے خود ہی وہاں رکھا تھا۔ اب وہ تایا فرقان کو اپنے عید کے کپڑے ہینگر سے اٹھاۓ دکھا رہی تھی۔ اور وہ اس کا جوش و خروش اور خوشی دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ روحیل اس کے ساتھ لان میں بھاگ رہا تھا، ان کے آگے دو خرگوش دوڑ رہے تھے۔ وہ دوڑ دوڑ کر تھک گئی تھی۔ اس کے لمبے بال کمر پر بکھرے تھے۔ خرگوش گھاس پر دور بھاگتے جا رہے تھے۔ سفید۔۔۔۔ نرم نرم سے خرگوش۔۔۔۔
روسی نے گرم سلاخ اس کے بازو سے مس کی، ایک کھولن سی اس کے اندر اترتی گئی۔ اگلے ہی پل، اس نے کرنٹ کھا کر سلاخ ہٹائی کہیں فون کی گھنٹی بجی تھی۔
خرگوش غائب ہو گئے۔ درد ہر شے پہ غالب ہو گیا۔ وہ پہلی دو دفعہ سے کئی گنا زیارہ شدید درد تھا کیونکہ سلاخ جلدی ہٹانے کی وجہ سے جلد پوری نہیں جلی تھی اور حسیات باقی تھیں۔ اسے لگتا تھا اس کی ہمت ختم ہو گئی ہے، مگر وہ پھر سے رو رہی تھی۔
"فون؟ یور فون؟" آواز کے تعاقب میں وہ آگے بڑھا اور اس کی فراک کی بیلٹ سے لگا پرس نوچا۔ سیفٹی پن ٹوٹ گئی، کپڑا پھٹ گیا۔ اس نے تیزی سے پرس کھولا اور فون نکالا۔ وہ زور زور سے بج رہا تھا۔
شدید تکلیف میں بھی جو پہلی بات اس کے ذہن میں آئی تھی وہ یہی تھی کہ اس کا فون رومنگ پہ تھا اور بیلنس ختم، پھر فون کیسے بجا؟
روسی کبھی بے یقینی سے اسے دیکھتا، کبھی فون کو۔ پھر اس نے فون کان سے لگایا۔ دوسری طرف سے کچھ کہا گیا۔ اس پہ اس نے جلدی سے فون بند کیا اور پوری قوت سے اسے دیوار سے دے مارا۔ فون کی اسکرین چکنا چور ہوتی ذمین پہ جا گری۔
"یو کالڈ سم ون؟" وہ وحشیوں کی طرح اس پہ جھپٹا، اور گردن کے پیچھے سے بال دبوچ کر اس کا چہرہ سامنے کیا۔ حیا نے نیم جاں، نڈھال آنکھوں سے اس کو دیکھا اور پھر اس کے منہ پر تھوک دیا
وہ بلبلا کر پیچھے ہٹا اس کے بال چھوڑے اور انگیٹھی پہ دہکتا برتن ہینڈل سے اٹھایا۔ کھولتی ہوئی ویکس۔
"یو.... یو بچ!" وہ غصے میں مغلظات بکتا اس کے قریب آیا اور برتن اس کے سر پہ اونچا کیا۔
"نن۔۔۔۔۔۔۔ نو۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔" میرے بال۔۔۔۔۔۔" اس کے لبوں سے بس اتنا ہی نکل پایا تھا کہ روسی نے برتن اس کے سر پر الٹ دیا۔
گرم کھولتی ہوئی ویکس تیزی سے اس کے بالوں کی مانگ پر گری اور ہر طرف سے نیچے لڑھکنے لگی۔ اس کی دلخراش چیخ نکلی۔ ابلتے مادے نے اس کے سر کی جلد کو گلا دیا تھا۔ بازو کا ردر غائب ہو گیا، وہ وحشیانہ انداز میں زور زور سے چیخ رہی تھی، اپنے ہاتھ چھرانے کی کوشش کر رہی تھی اور وہ بھی چیخ رہا تھا۔ اور تب اس نے زور سے اس کی کرسی و دھکا دے کر الٹ دیا۔ وہ کرسی سمیت اوندیھے منہ زمین پہ جا گری۔ آتش دان کے بالکل قریب۔
کمرے میں دھواں سا بھرنے لگا تھا۔ ویکس اس کے سر پہ جمنے لگا تھا۔ اس کا سر بےحد وزنی ہو گیا تھا۔ آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ اس کے منہ سے خون نکل رہا تھا۔ کمرے میں دھواں بڑھتا جا رہا تھا۔ آتش دان سے آگ کی لپٹیں لپک لپک کر اس کی طرف آ رہی تھیں۔
اس نے زمین پہ گرے، گال فرش پہ رکھے بند ہوتی آنکھوں سے اس دھندلے منظر کو دیکھا۔ دھوئیں کے اس پار کوئی روسی کا سر پکڑ کر دیوار سے مار رہا تھا۔ چیخیں، دھواں، آگ، خون۔ اس کا پورا جسم آگ میں دہک رہا تھا۔
جو آخری شے اس نے دیکھی وہ اس کا سیاہ فراک کا دامن تھا، آگ کی ایک لپیٹ نے اسے چھو لیا تھا۔ اس نے سیاہ کپڑے کو زرد شعلے میں بدلتے دیکھا۔ ہر طرف دھواں تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ مر رہی تھی۔ اس کے سفید خرگوش اس دھویں میں غائب ہو رہے تھے۔ وہ جل کر مر رہی تھی، ہراقلیطس کی دائمی آگ ہر سو پھیل رہی تھی.
•••••••••••••••••••
اس نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ وہ۔۔۔۔۔۔۔ سفید چھت اس کی نگاہوں سامنے تھی جس پہ خوب صورت نقش و نگار بنے تھے۔ درمیان میں ایک قیمتی و نفیس فانوس لٹک رہا تھا۔
اس کا سر ایک نرم، گداز تکیے پہ تھا اور مخملیں کمبل گردن تک ڈالا تھا۔ اس نے ایک خالی خالی سی نگاہ کمرے پہ دوڑائی۔ وسیع و عریض، پر تعیش بیڈ روم، ایک طرف دیوار گیر کھڑکی کے آگے برابر کیے گئے سفید جالی دار پردے جس سے صبح کی روشنی چھن چھن کر اندر آ رہی تھی۔
اس نے آنکھیں پھر سے موند لیں اور ان پہ بازو رکھ لیا۔ ان گزرے دنوں میں سوتی جاگتی کیفیت میں وہ بہت روئی تھی، بہت چلائی تھی۔ یہ کمرا اس نے دیکھا تھا۔
وہ ادھر ہی لائی گئی تھی۔ ہاتھ سے لگی ڈرپ اپنے بالوں میں نرمی سے چلتے اس بھوری آنکھوں والی لڑکی کی ہاتھ، وہ انجیکشن، نیم بے ہوشی۔ اسے ٹوٹا ٹوٹا سا سب یاد تھا اور اس ڈوبتی، ابھرتی نیند میں بھی وہ جانتی تھی کہ وہ بیوک ادا میں ہے، عبدالرحمن پاشا کے سفید محل میں۔
دروازے پر دھیرے سے دستک ہوئی اور پھر وہ ہلکی سی چرچراہٹ کے ساتھ کھلا۔ قدموں کی نرم سی آواز بیڈ کے قریب آئی۔ اس نے آنکھوں سے بازو نہیں ہٹایا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ کون تھی۔
"صبح بخیر! نیند پوری ہو گئی ہے تو اٹھ جاؤ، ناشتہ کر لو۔"
*******************
نرم لہجے کے ساتھ اسے ٹیبل پر ٹرے رکھنے کی آواز آئی۔ وہ ہلی تک نہیں۔
"نیند اچھی ہے لیکن زیادتی اگر اچھی چیز کی بھی ہو تو نقصان دہ ہوتی ہے۔ یہ کھیرے کا سوپ ہے اور ساتھ ناشتہ۔
حیا ہنوز آنکھوں پہ بازو رکھے لیٹی رہی۔
"اور یہ عبدالرحمن کی کال ہے، وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے۔"
اس نے بازو چہرے سے ہٹایا۔ سبز اسکارف چہرے کے گرد لپیٹے، نیچے سرمئی اور گلابی پھول دار اسکرٹ پہ لمبا سفید سویٹر پہنے وہ ہاتھ میں پکڑا کارڈ لیس فون اس کی جانب بڑھاتے ہوئے تھی۔
"لو، بات کرو" اس کے کم عمر چہرے پہ معصومیت بھری شفافیت تھی اور اس کی آنکھیں جو رات کو حیا کو بھوری لگی تھیں، صبح کی روشنی میں سبز لگ رہی تھیں۔ وہ دنیا کا سب سے شفاف، سب سے خوب صورت چہرا تھا۔
"مجھے اس سے بات نہیں کرنی۔" وہ بولی تو اس کی آواز بیٹھی ہوئی تھی۔ بہت چیخنے کے باعث اب گلا جواب دے گیا تھا۔
"وہ کہہ رہی ہے، اسے تم سے بات نہیں کرنی۔" اس نے فون کان سے لگا کر نرم لہجے میں انگریزی میں بتایا۔
" وہ کہہ رہا ہے، ایک دفعہ اس کی بات سن لو۔"
"اس سے کہو، جو اس نے میرے لیے کیا، میں اس کی احسان مند ہوں، شکر گزار ہوں لیکن اس کے بدلے میں اگر وہ مجھے یوں اذیت دینا چاہتا ہے تو میں ابھی اسی وقت اس کے گھر سے چلی جاؤں گی۔" وہ بے حد رکھائی سے بولی۔ عائشے گل کا چہرا جوابا ویسا ہی نرم اور شفاف رہا۔ اس نے سن کر فون کان سے لگایا اور ساری بات من و عن انگریزی میں دہرا دی۔ پھر فون بند کر دیا۔
"وہ کہہ رہا ہے کہ وہ انڈیا میں ذرا پھنس گیا ہے، وہ ادھر نہیں آسکے گا اور آۓ گا بھی نہیں اگر تم یہ نہیں چاہتیں اور تم جب تک چاہو ادھر رہ سکتی ہو۔ میں یہاں بیٹھ جاؤں، اس نے کارڈ لیس میز پہ رکھتے ہوۓ کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
وہ نہ اجنبیوں سے جلدی گھلتی ملتی تھی اور نہ اسے پاشا کے گھر والوں سے راہ و رسم بڑھانے میں دلچسپی تھی مگر اس لڑکی کا چہرہ اتنا نرم اور دوستانہ تھا کہ خودبخود اس کی گردن اثبات میں ہل گئی۔
" شکریہ۔" وہ اسی مدھر مسکراہٹ کے ساتھ کہتی کرسی پہ ٹیک لگا کر بیٹھی، سفید سویٹر میں مقید کہنیاں کرسی کے دونوں بازوؤں پہ رکھی اور ہتھیلیوں کو ایک دوسرے میں پھنساۓ عادتا اپنی انگوٹھی انگلی میں گھمانے لگی۔
"تمہاری طبیعت اب کیسی ہے؟"
"ٹھیک ہے۔" وہ کہنی کے بل ذرا سی سیدھی ہو کر بیٹھ گئی تھی۔
"تم عبدالرحمن کی طرف سے پریشان مت ہونا اس نے کہا کہ نہیں آۓ گا تو نہیں آۓ گا۔ جو اس نے تمہارے لئے کیا، وہ اس کا فرض تھا۔ سفیر کی فیملی سے ہمارے پرانے تعلقات ہیں جب تم نے سفیر کو فون کیا تو اس نے فورا عبدالرحمن کو اپروچ کیا، یوں پولیس کی مدد لے کر وہ تمہیں وہاں سے نکال لاۓ
"مجھے کس نے اغواہ کیا تھا؟" وہ بہت دیر بعد بس اتنا ہی کہہ پائی۔
"یہاں بہت سے ایسے گروہ ہیں جو روس،مالدووا اور یوکرائن سے لڑکیاں اغوا کر کے یا دھوکے سے ادھر لاتے ہیں، اس کے علاوہ ان ٹورسٹ لڑکیوں کو جن کا تعلق کسی غریب ملک سے ہو کہ ان کے گھر والے ترکی آکر زیادہ دیر تک کیس کا تعاقب نہ کر سکیں، ان کو بھی یہ اغوا کرتے ہیں۔ ایک دفعہ ان کے پاس پہنچنے کے بعد سب لڑکیاں "نتاشا" بن جاتی ہیں۔ اور یہ ان نتاشاز کو آگے بیچ دیتے ہیں اور ان سے وائٹ سلیوری White Slaveryکروائی جاتی ہے۔
اس نے تکلیف سے آنکھیں موند لیں۔ اسے یاد 
آ گیا تھا- نتاشا، ترکی میں کام کرنے والی روسی کال گرل کو کہتے ہیں۔
"تم چھوڑو یہ سب، اپنے گھر فون کر لو- دو دن ہو گئے ہیں، تمہیں ان کو اپنی خیریت کی اطلاع تو دینی چاہئیے۔"
اس نے جواب نہیں دیا۔ بس خالی خالی نگاہوں سے کھڑ کی کے جالی دار پردے کو دیکھتی رہی جو ہوا سے ہولے ہولے پھڑ پھڑا رہا تھا- اس کے پاس جواب تھا بھی نہیں۔
میں اور بہارے جنگل تک جا رہے ہیں، تم چلو گی؟؟
اس نے بنا تردد کے نفی میں گردن ہلادی۔ عائشے کے چہرے پر ذرا سی اداسی پھیل گئی-
چلو، جیسے تماری خوشی۔ آج نہیں تو کل ضرور ہمارے ساتھ چلنا"- 
اس نے فورا خود ہی نئی امید ڈھونڈ نکالی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ ناشتہ ضرور کرنا۔ مہمان بھوکا رہے تو میزبان کا دل بہت دکھتا ہے۔" شگفتگی سے کہتے ہوئے اس نے کرسی واپس رکھی اور باہر چلی گئی۔
حیا نے کمبل اتارا اور اٹھ کر پاؤں نیچے رکھے۔ نرم گداز قالین میں پاؤں گویا دھنس سے گئے۔ وہ اپنے پیروں پہ کھڑی ھوئی تو کمر میں درد کی لہر اٹھی۔ کرسی سمیت گرنے سے اس کے کندھوں، کمر اور گھٹنوں پر بہت چوٹیں آئی تھیں۔
وہ قالین پہ ننگے پاؤں چلتی ڈریسنگ ٹیبل کے قد آور آئینے کے پاس جا کھڑی ہوئی۔ اس کا عکس بہت تھکا تھکا، نقاہت زدہ سا لگ رہا تھا۔ متورم آنکھوں تلے حلقے، ایک آنکھ کے نیچے گہرا جامنی سا نیل، پیشانی پہ چند خراشیں، تھوڑی پہ بڑی سی خراش ، ہونٹ کا دائیں کنارہ سوجا ہوا اور .... اس نے انگلیاں اوپر سے نیچے اپنے بالوں پہ پھیریں۔
وه ویسے ہی تھے، اتنے ہی لمبے اتنے ہی گھنے، مگر ان کی چمک کھو گئی تھی۔ وہ ریشمی پن جو ان میں ہمیشہ چمکتا تھا، اب وہاں نہیں تھا۔ 
جانے کیسے عائشے نے وہ ویکس اتاری اور اس دوران کتنے بال ٹوٹے وه نہیں جانتی تھی۔ ویکس دھل گئی مگر جو تکلیف اس نے سہی تھی، وہ ایسے نہیں دھل سکتی تھی- 
پولیس یا پاشا کے بندے، جو بھی اس وقت دروازہ توڑ کر اندر آ ئے تھے، انہوں نے اس کے فراک کے دامن کو آگ پکڑتے ہی بجھا دیا تھا، مگر جتنا وه پستہ قد روسی اسے جلا چکا تھا، حیا کو لگا و ه جلن ساری زندگی تکلف دیتی رہے گی۔
و ه اس وقت ڈھیلے ڈھالے اسپتال کے گاؤن میں تھی۔ اس نے دائیں آستین دوسرے ہاتھ سے اوپر کندھے تک اٹھائی- بازو کے اوپر ی حصے پہ اوپر سے نیچے سیاہ راکھ کی طرح لکھے تین حروف ویسے ہی تھے 'who'۔ باقی کے دو حروف RE چونکہ داغے ٹھیک سے نہیں گئے تھے اس لیے ان پر چھالا سا بن گیا تھا۔ چھالا ختم ہونے کے بعد ان کا نشان نہیں رہنا تھا۔ جو رہ گیا تھا، وہ WHO تھا۔
WHo!
اس نے زیر لب دہرایا۔ وه کون تھی؟ کیوں کسی دوسرے کے گھر یوں پڑی تھی، وه بھی ایک ایسے شخص کے گھر جس کو وه سخت نا پسند کرتی تھی۔ اس کا گھر کال کرنے یا واپس سبانجی جانے کا دل کیوں نہیں چاہا تھا؟
شاید اس لئے کے اس رات پھوپھو اس کا انتظار کر رہی تھیں۔ انہوں نے اس کے نہ آنے پہ ان دو دنوں میں ہر جگہ پتا کیا ہو گا اور اب تک پاکستان میں یہ بات پہنچ گئی ہو گی۔ کیا اب وه کبھی واپس جا سکے گی؟ عزت سے جی سکے گی؟ کسی کو منہ دیکھا سکے گی؟ کیا ابا، تایا فرقان اور صائمہ تائی کا سامنا کر سکیں گے؟ یا اس نے اپنے ماں باپ کو سارے خاندان میں بے عزت کر دیا تھا؟ کون اس کی دہائی سنے گا کہ وه بھاگی نہیں تھی، اغوا ہوئی تھی۔ اس کے خاندان میں اور اس کے ملک میں اغوا ہونے والی لڑکی اور گھر سے بھاگنے والی لڑکی میں کوئی فرق نہیں سمجھا جاتا تھا۔
اسے لگا "شریفوں کا مجرا" بھرے بازار میں چلا دیا گیا تھا۔ و ه واقعی بدنام ہو گئی تھی۔
وه کھڑکی میں آ کھڑی ہوئی اور جالی دار پردہ ہٹایا۔ پھر کھڑکی کے پٹ کھول دیے۔ سمندر کی سرد برفیلی ہوا اس کے چہرے سے ٹکرائی اور کھلے بال پیچھے کو اڑنے لگے۔

وہ دوسری منزل کی کھڑکی میں کھڑی تھی۔ نیچے اسے باغیچہ نظر آرہا تھا اور اس کے پار لکڑی کا گیٹ جسے ایک بیتی شام اس نے ہزیانی انداز بھاگتے ہوئے پار کیا تھا۔
باغیچے میں ایک خوبصورت، شاہانہ سی بگھی کھڑی تھی۔ اس میں ایک چکنا سفید گھوڑا جتا تھا۔ بگھی کے پیچھے ایک لکڑی کا صندوق نصب تھا جس کا ڈھکن کھولے کھڑی عائشے گھاس سے چیزیں اٹھا کر اس میں رکھ رہی تھی۔ آرے، کلہاڑے، چاقو اور ایسے کئی اوزار۔ چھوٹی بچی بہارے سرخ چمکتے سیبوں سے بھری ٹوکری لیے بگھی میں اوپر چڑھ رہی تھی۔ اندر بیٹھ کر اس نے ٹوکری گود میں رکھ لی۔ وہ جس حصے میں بیٹھی تھی، وہ حیا کے سامنے تھا۔ عائشے، صندوق کا ڈھکن بند کر کے پیچھے سے گھوم کر دوسری طرف آ بیٹھی۔
دفعتاً بہارے کی نگاہ اوپر کھلی کھڑکی میں کھڑی حیا پر پڑی۔
حیا!" اس نے جلدی سے ہاتھ ہلایا۔ اس کے پکارنے پر اس کے بائیں طرف بیٹھی عائشے نے آگے ہو کر چہرہ بہارے کے کندھے سے اس طرف نکال کر حیا کو دیکھا اور مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایا۔
وہ مسکرا نہیں سکی، بس تھوڑا سا ہاتھ اٹھا کر واپس گرا لیا۔
دفعتاً عائشے نے جھک کر بہارے کے کان میں کچھ کہا تو بچی نے اوہ کہہ کر جلدی سے ٹوکری سے ایک سرخ سیب نکالا اسے اپنے فراک سے رگڑا اور "کیچ" کہتے ہوئے اوپر کی سمت اچھالا۔ اس نے لاشعوری طور پر ہاتھ بڑھائے مگر اڑ کر آتا سیب باوپر الکونی کی ریلنگ میں اٹک گیا۔
اوہ نو!" بہارے نے مایوسی سے گردن پیچھے کو پھینکی۔ اسی اثنا میں بگھی بان گھوڑے کو چابک مار چکا تھا۔ بگھی گھوڑے کو کھنچتی ہوئی گیٹ سے باہر نکل گئی۔
وہ کھڑکی سے ہٹ آئی۔ بہارے کا سیب وہیں ریلنگ گرل کے ڈیزائن میں پھنسا رہ گیا۔
وہ کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آئی۔ لکڑی کے فرش کی چمکتی راہداری سنسان پڑی تھی۔ وہ ننگے پاؤں چلتی آگے آئی۔ راہداری کے سرے پر ایک کمرے کا دروازہ نیم وا تھا۔ اس کے آگے جہاں راہداری ختم ہوتی تھی وہاں ایک گول کر کھاتا لکڑی کا زینہ تھا جو نیچے لونگ روم سے شروع ہوکر بالائی منزل کی راہداری، جہاں وہ کھڑی تھی، سے ہوتا ہوا اوپر تیسری منزل تک جاتا تھا۔ اس نے گردن اٹھا کر اس بلند بالا سفید محل کو دیکھا۔ اگر کبھی اسے اس محل سے بھاگنا ہو تو سارے چور راستے اسے معلوم ہوں۔ اسے اب کسی پر بھی اعتبار نہیں رہا تھا۔
حیا نے کمرے کا نہم وا دروازہ پورا کھول دیا۔ وہ ایک چھوٹا اسٹڈی روم تھا جس میں آبنوسی اور صنوبر کی لکڑی کے بک شیلف بنے تھے، وہاں بہت سی بیش قیمت کتب سجی تھیں۔وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اندر آئی۔
اسٹڈی کی دیواروں پر جابجا بڑیے بڑے فوٹو فریم نصب تھے۔ وہ ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں انہیں دیکھے گئی۔ وہ سب اس کی تصاویر تھیں۔ کب لی گئیں، کیسے لی گئیں، وہ نہیں جانتی تھی۔ وہ تو بس مبہوت سی انہیں دیکھ رہی تھی۔
وہ داور بھائی کی مہندی والے روز اپنے گیٹ سے نکل رہی تھی۔ ایک ہاتھ سے ذرا سا لہنگا اٹھائے، دوسرے سے آنکھ کا کنارہ صاف کرتی ہوئی۔
وہ کار کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی۔ ریڈ فراک میں ملبوس, بال کانوں کے پیچھے اڑستی, مضطرب سی کچھ کہتی ہوئی۔ داور بھائی کی شادی کی شام البتہ ستھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ولید تصویر میں نہیں تھا۔
اور یہ تصویر جناح سپر کی تھی۔ وہ سر جھکائے, جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اس نیم تاریک چبوترے کے سامنے چل رہی تھی۔ سڑک پر دکانوں کی زرد روشنیوں کا عکس جھلملا رہا تھا اور بہت سی
تصویریں۔۔۔۔۔۔۔ بہت سے واقعات.....
وہ ایک دم پلٹی اور بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
••••••••••••••••••••••
ہر سو آگ پھیلی تھی۔ زرد، سرخ لپیٹیں کس اژدہے کی زبان کی مانند لپک لپک کر اس کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ وہ وسط میں کھڑی تھی اور اطراف میں دائرے کی صورت الاؤ بھڑک رہا تھا۔ شعلے ہر گزرتے پل بڑھتے جا رہے تھے، ہر سو دھواں تھا۔ اس کے سیاہ فراک کا دامن جل رہا تھا۔ دھواں, سرخ شعلے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہراقیلطس کی دائمی آگ۔۔۔۔۔
گرمی کی حدت ناقابل برداشت ہوگئی تھی۔ وہ بری طرح سے جل رہی تھی۔
پانی۔۔۔۔۔۔۔ پانی ڈالو میرے اوپر۔۔۔۔ وہ تکیے پر بند آنکھوں سے گردن ادھر ادھر مارتی، ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔ اس کا سارا جسم پسینے میں بھیگا تھا۔ تنفس تیز تیز چل رہا تھا۔ گرمی...... اسے گرمی لگ رہی تھی۔
وہ لحاف پھینک کر تیزی سے باہر بھاگی۔ لکڑی کا گول چکر کھاتا زینہ اس نے دوڑتے قدموں سے عبور کیا
اور بنا کسی طرف دیکھے، باہر کا دروازہ پار کر گئی۔ باغیچے میں اتر کر گیٹ سے باہر نکل گئی۔
رات ہر سو پھیلی تھی۔ بارش تڑاتڑ برس رہی تھی۔ سیاہ آسمان پر کبھی کبھی بجلی نمودار ہوتی تو پل بھر کو سڑک اور سارے بنگلے روشن ہو جاتے، پھر اندھیرا چھا جاتا۔ وہ دونوں بازو سینے پر لپیٹے اس برستی بارش میں سڑک پہ چلتی جا رہی تھی۔ آسمان کے تھال گویا الٹ گئے تھے، بارش تڑاتڑ گرتی اس کو بھگو رہی تھی۔
اس کا پاؤں کسی پتھر سے ٹکرایا تو اسے ٹھوکر لگی۔ وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گر گئی۔ ہتھیلیاں چھل گئیں، گھٹنوں پر بھی خراشیں آئیں۔ اس نے ہتھیلیاں جھاڑتے ہوئے اٹھنا چاہا، کمر میں درد کی شدید لہر اٹھی۔ وہ واپس بیٹھ گئی، سڑک کے وسط میں۔
پانی سے اس کا لباس بھیگ چکا تھا۔ بال موٹی لٹوں کی صورت چہرے کے اطراف سے چپک گئے تھے،
اس کے اندر کی آ گ سرد پڑنے لگی تھی۔ جامنی پڑتے لب کپکپانے لگے تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ کسی معمول کی طرح چلتی ہوئی واپس اس سفید محل تک آئی تھی۔
لونگ روم کی انگیٹھی میں دو لکڑیاں جل رہی تھیں۔ اندھیرے کمرے میں آگ اور اوپر لگے مدھم سے زرد بلب کی روشنی نے عجب فسوں پھیلا رکھا تھا۔ جاتے ہوئے اس نے یہ سب نہیں دیکھا تھا مگر اب چوکھٹ پر کھڑی دیکھ رہی تھی۔ عائشے بڑے صوفے پر سر جھکائے بیٹھی, سامنے میز پر رکھے کاغذ پر پیمانے سے لکیر کھینچ رہی تھی۔ آہٹ پر اس نے گردن موڑی۔
آؤ، بیٹھو۔ وہ نرمی سے کہتی صوفے کے ایک طرف ہو گئی اور دونوں ہاتھوں سے وہ لمبا سا کاغذ رول کرنے لگی۔
یہ آگ بجھا دو! وہ آتش دان میں بھڑکتے شعلوں کو دیکھتے ہوئے بولی تو اس کی آواز بیوک ادا کی بارش کی طرح گیلی تھی۔
عائشے بنا تردد کے اٹھی اور آتش دان کے ساتھ لگا سوئچ گھمایا۔ آگ بجھ گئی۔ مصنوعی انگارے سرخ رہ گئے جو دراصل ہیٹر کے راڈ تھے جس سے بھڑکنے والی آگ اس مصنوعی لکڑیوں کے اوپر یوں ابھرتی گویا اصلی لکڑیاں جل رہی ہوں۔
"اب آؤ۔ عائشے اپنی بات دہرا کر رول کر کے لپیٹے کاغذ پر ربڑبینڈ چڑھانے لگی۔
وہ میکانکی انداز میں چلتی آگے آئی اور صوفے کے دوسرے کنارے پر ٹک گئی۔ اس کی نگاہیں بجھتے انگاروں پر تھیں جو اپنا سرخ رنگ کھو رہے تھے۔
"اپنے گھر فون کر لو، وہ لوگ پریشان ہوں گے۔
"مجھے ڈر لگتا ہے۔ میں سب کو فیس کیسے کروں گی؟ آتش دان پر جمی اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں سراسیمگی تیر رہی تھی۔
" جس اللہ نے تمہاری پہلے مدد کی ہے ، وہ اب بھی
کرے گا۔
تین دن ہو گئے ہیں، اب تک سب کو پتا چل گیا ہو گا۔
"جب تمہارا قصور نہیں ہے تو ڈرو بھی مت۔" عائشے نے کارڈلیس اس کی طرف بڑھایا۔" اگر انہوں نے کوئی غلط بات کی تو میں دوبارہ نہیں کہوں گی مگر ایک دفعہ کوشش کر لو۔
اس نے کارڈلیس پکڑتے ہوئے عائشے کو دیکھا۔ سیاہ اسکارف میں لپٹا اس کا چہرا مدھم روشنی میں بھی دمک رہا تھا۔ اب اس کی آنکھیں گہری لگ رہی تھیں۔ سیاہی مائل گہری۔
اس نے وال کلاک کو دیکھا۔ یہاں آدھی رات تھی تو وہاں نو، دس بجے ہوں گے۔ گھر کا نمبر اسے زبانی یاد تھا، وہ بھیگی انگلیوں سے بٹن پش کرنے لگی، پھر فون کان سے لگایا۔
عائشے اپنے پیمانے، پرکار اور پنسل سمیٹ کر چھوٹی تھیلی میں ڈالنے لگی۔
ہیلو۔ وہ فاطمہ کی آواز تھی۔
"ہیلو اماں؟ میں حیا۔۔۔۔۔ اس کی آواز میں آنسؤوں کی نمی تھی۔ کیسی ہیں آپ؟
میں ٹھیک ہوں، سوری بیٹا! میں تمہیں اتنے دن فون نہیں کر سکی۔ اصل میں مہوش کی دعوتیں ہو رہی ہیں، آج کل پوری فیملی میں، کبھی کدھر تو کبھی کدھر اتنی مصروف رہی کہ روز فون کرنا ہی رہ جاتا تھا۔
ابا۔۔۔۔۔ ابا کدھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس سے بولا نہیں جا رہا تھا۔
وہ یہ سامنے ہی بیٹھے ہیں، کراچی گئے تھے، آج ہی واپسی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔ اماں اور بھی کچھ کہہ رہی تھیں۔ اس کی سینے میں اٹکی ہوئی سانسیں بالآخر بحال ہوئیں۔ دکھتے سر میں درد ذرا کم ہوا۔
کسی کو پتا نہیں چلا تھا۔
اماں سے پھپھو کا نمبر لے کر اس نے انہیں کال کی۔
اچھی بھتیجی ہو تم بھی۔ کھانے کا کہہ کر غائب ہو گئیں۔ میں پہلے تو اتنی پریشان رہی، سمجھ نہیں آیا کہ کیا کروں۔ جہان کو پوری رات سخت بخار رہا،
اس کو بھی نہیں اٹھا سکتی تھی۔ تمہارے دونوں نمبرز بھی بند تھے۔ صبح ہوتے ہی تمہارے ہاسٹل گئی تو وہ جو فلسطینی لڑکا ہے نا۔۔۔۔۔۔
معتصم الرتضی؟
ہاں وہی، اس نے بتایا کہ تم نے اپنی ہوسٹ آنٹی کے گھر تھا، مجھے بتا تو دیا ہوتا حیا! پھپھو کافی فکرمند سی تھیں۔ اوہ! معتصم .... وہ اس پزل میں اتنا الجھا ہوا تھا کہ اسے سمجھ نہیں آیا کہ حیا نے پھپھو کی طرف رکنا ہے یا ہوسٹ آنٹی کی طرف۔
ان کی تسلی تشفی کروا کر، پرس میں پانی جانے سے دونوں فونز کے خراب ہونے کی یقین دہانی کروا کر جب اس نے فون بند کیا تو عائشے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
میں نے کہا تھا نا، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اب تم آرام سے ڈھیر سارے دن ہمارے ساتھ رہو۔ کل ہم تمہیں اپنے ساتھ جنگل لے جائیں گے، چلو گی نا۔
ہاں۔۔۔۔۔۔ چلوں گی۔ وہ ذرا سا مسکرائی۔ اس کے بالوں کے سروں سے قطرے ابھی تک ٹپک رہے تھے۔
آگ سے مت ڈرا کرو۔ آگ سے اسے ڈرنا چاہیے جس کے پاس اللہ کو دکھانے کے لیے کوئی اچھا عمل نہ ہو۔ تم تو اتنی اچھی لڑکی ہو، تم کیوں ڈرتی ہو؟
اس نے ویران نگاہوں سے عائشے کی طرف دیکھا۔ ذہن کے پردے پہ ایک ویڈیو لہرائی تھی اور اس کے نیچے لکھے کمنٹس۔
"میں اچھی لڑکی نہیں ہوں۔" 
کوئی لڑکی بری نہیں ہوتی، بس اس سےکبھی کبھی کچھ برا ہوجاتا ہے اور تم سے بہت کچھ اچھا بھی تو ہوا ہے نا۔ تم نے ایک امیر اور طاقت ور شخص کے لیے اپنے شوہر کو نہیں چھوڑا، تم نے وفا نبھائی۔ اس سے بڑی اچھائی کیا ہوگی؟
میری دنیا تمہاری دنیا سے مختلف ہے عائشے! ہم میں بہت فرق ہے۔
چلو پھر تم ڈھیر سارے دن میری دنیا میں رہو اور پھر تم مجھے بتانا کہ امید اور انجام کے اعتبار سے کس کی دنیا زیادہ اچھی ہے؟ ساتھ ہی اس نے مسکرا کر حیا کا ہاتھ دبایا۔
"تم کون ہو عائشے؟ میرا مطلب ہے تمہارا۔۔۔۔۔۔؟ اس نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا.۔
میں اس گھر کی مالکن ہوں۔ بہارے میری بہن ہے اور آنے میری دادی کی سگی بہن ہے۔ آنے ترک ہے، مگر ان کا شوہر انڈین تھا۔"
آنے، عبدالرحمان پاشا کی ماں؟
ہاں وہی، مگر ہم آنے کو آنے کہتے ہیں، دادی وغیرہ نہیں۔
تو عبدالرحمن تمہارا چچا لگا، وہ سوچ سوچ کر کہہ رہی تھی۔ جواباً وہ سادگی سے مسکرائی۔ 
چچا، باپ کا سگا بھائی ہوتا ہے، اس لحاظ سے وہ میرا اور بہارے کا چچا ہے، نا ہی محرم۔ خیر اب تم سو جاؤ، صبح ملتے ہیں.۔
وہ سر ہلا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسے واقعی نیند کی ضرورت تھی۔
••••••••••••••••••••
عائشے گل نے کہا تھا کہ اس سفید محل کی مالکن وہ ہے، اس لیے وہ رک گئی تھی۔ ذہنی اور جسمانی طور پر وہ قطعاً اتنی صحت یاب نہیں تھی کہ وہ واپس جاتی، ابھی وہ اکیلی نہیں رہنا چاہتی تھی۔ اسے کوئی سہارا چاہیے تھا اور اس نے ان تین عورتوں کو سہارا بنا لیا۔ آنے آج کل استنبول گئی ہوئی تھیں اور پیچھے وہ دونوں بہنیں اس کے ساتھ تھیں۔
صبح اس نے عائشے کا لایا ہوا لباس زیب تن کیا۔ پوری آستینوں والی پاؤں کو چھوتی آف وائٹ میکسی جس کا گلا گردن تک بند تھا اور جگہ جگہ سفید ننھے ننھے موتی لگے تھے۔ بال چہرے کے ایک طرف ڈالے وہ دونوں پہلوؤں سے میکسی ذرا سی اٹھائے لکڑی کے زینے اتر رہی تھی جب اس نے عائشے کی آواز سنی۔ وہ نیچے بیڈروم کے ادھ کھلے دروازے سے کمبل تہہ کرتے ہوئے بہارے کو آوازیں دیتی نظر آ رہی تھی۔
"بہارے گل، اٹھ جاؤ۔ اور کتنا سوؤ گی؟ فیروزی اسکارف اور اسکرٹ بلاؤز پر لمبا سوئیٹر پہنے، وہ باہر جانے کے لیے تیار تھی۔
"بس پانچ منٹ اور، عائشے گل! کمبل سے بہارے کی آواز آئی۔
ہماری امت کے صبح کے کاموں میں برکت ہوتی ہے بہارے! جو علی الصبح روزی کی تلاش میں نکلتے ہیں، ان کا رزق بڑھتا ہے۔ جو پڑھتے ہیں، ان کا علم بڑھتا ہے اور جو سوئتے رہتے ہیں، ان کی نیند بڑھ جاتی ہے۔ اور پھر وہ سارا دن سوتے ہی رہتے ہیں۔
بہارے منہ بسورتی کمبل پھینک کر اٹھ کھڑی ہوئی عائشے اس کا کمبل بھی تہہ کرنے لگی۔
تم ہمارے ساتھ چلو گی حیا؟ بہارے نے مندی مندی آنکھوں سے اسے چوکھٹ میں کھڑے دیکھا تو پوچھ اٹھی۔ 
"ہاں، ابھی تم جنگل جاؤ گی؟ 
نہیں، پہلے ہم سفیر کی ممی کی طرف جائیں گے، مجھے ذرا کام تھا ان سے۔ ٹھیک ہے نا؟ عائشے نے تائید چاہی۔
شیور! اس نے شانے اچکا دیے۔ وہ خود کو ان دو بہنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ چکی تھی۔
یہ سب کس لیے؟ عائشے بگھی کے صندوق چمکتے ہوئے اوزار رکھ رہی تھی تو حیا پوچھ اٹھی۔
ہم جنگل لکڑیاں کاٹنے جاتے ہیں۔ یہاں لکڑیاں کاٹنے کی اجازت ہے تو نہیں مگر ہمارے پاس خصوصی پرمٹ ہے۔ ہم لکڑی کی چیزیں بنا کر بازار میں بیچتے ہیں۔
اتنے بڑے گھر کی مالکن کو بڑھئی بننے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ بگھی میں چڑھتے ہوئے مسکرا کر بولی۔
"حیا سلیمان، ہمیں انڈراسٹیمیٹ مت کرو۔ ہم بہت مہنگی چیزیں بناتے ہیں۔" وہ ہنس کر کہتے ہوئے اندر بیٹھ گئی۔ وہ دونوں اطراف میں تھیں اور بہارے ان کے درمیان۔
بگھی اب بنگلوں سے گھری سڑک پر دوڑنے لگی تھی۔ گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سارے میں گونج رہی تھی۔
عثمان انکل کا گھر کہاں ہے؟
وہیں مسجد کے پاس۔ تم نے ہماری مسجد دیکھی ہے نا، وہاں تم ایک دفعہ آئی تھیں۔" 
ہاں مجھے یاد ہے۔ میں نے تب تم دونوں کو دیکھا تھا۔
وہ ہوا سے اڑتے بالوں کو سمیٹتے ہوئے بولی تھی۔
بہارے کے چہرے پر بار بار اس کے بال اڑ کے آ رہے تھے، مگر بہارے برا مانے بغیر اپنے گلابی بڑے سے پرس کو سینے سے لگائے خاموش سی بیٹھی تھی، اس کے گنگھریالے، بھورے بال پونی میں بندھے تھے۔
"تمہارے ساتھ اس دن کون تھا؟ عائشے نے آنکھیں بند کر کے لمحے بھر کو جیسے یاد کیا، فیروزی اسکارف میں اس کی بھوری، سبز آنکھیں اب نیلی سبز لگ رہی تھیں۔
ہاں، وہ میرا کزن ہے اور۔۔۔۔۔۔۔۔ شوہر بھی۔
اچھا تھا! عائشے مسکرادی۔
وہ بھی جوابًا ذرا سا مسکرائی۔ اس پل اسے وہ اچھا شخص بہت یاد آیا تھا۔
شیخ عثمان شبیر کا بنگلہ باقی بنگلوں کی نسبت ذرا سادہ تھا۔ ایک بڑے کمرے میں جہاں فرشی نشست تھی، حلیمہ آنٹی ان کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ بہت ملنسار, بہت خوبصورت خاتون تھیں۔ شلوار قمیض پہ بڑا سا دوپٹہ چہرے کے گرد لپیٹے وہ پہلی ہی نظر میں اسے بہت اچھی لگی تھیں۔
یہ حیا ہے، میں نے بتایا تھا نا؟ عائشے قالین پر ان کے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گئی دونوں کے درمیان ایک چھوٹی میز تھی جس پر عائشے نے اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ حیا اور بہارے ایک طرف بیٹھ گیئں۔"
"میں جانتی ہوں۔ اچھا کیا جو حیا کو ساتھ لائی ہو۔ وہ مسکرا کر عائشے کے ہاتھ کی پشت پر اسپرے کر رہی تھیں۔" حیا جواباً مسکرائی اور بہارے کے قریب بہت دھیمی سی سرگوشی کی۔
یہ کیا کر رہی ہیں؟
آج چاند کی اکیسویں تاریخ ہے نا آج عائشے اپنا خون نکلوائے گی۔ ابھی دیکھنا آنٹی اس کے ہاتھ میں بلیڈ سے کٹ لگائیں گی۔"
اس نے بے یقینی سے بہارے کو دیکھا اور پھر قدرے فاصلے پر بیٹھی آنٹی اور عائشے کو۔ وہ اس کے ہاتھ کی پشت پر کچھ لگا رہی تھیں۔ عائشے کی اس کی جانب کمر تھی سو وہ ٹھیک سے دیکھ نہیں سکتی تھی کہ وہ کیا کر رہی ہیں۔"
قریباً دس منٹ بعد عائشے اٹھی تو اس کے ہاتھ کی پشت پر ایک گول سرخ نشان سا بنا تھا۔ وہ یک ٹک اس کے ہاتھ کو دیکھے گئی۔
یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس نے ناسمجھی سے عائشے کو دیکھا۔
بہت عرصہ ہو گیا میں نے cupping (سینگی لگوانا) نہیں کروائی تھی سوچا آج کروا لوں۔ تم نے کبھی کروائی یہ تھراپی؟ 
اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے لاشعوری طور پر اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔
"تم۔۔۔۔۔۔ کیوں کرواتی ہو یہ؟ وہ ابھی تک دزدیدہ نگاہوں سے عائشے کے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔
"میں یہ اس لیے کرواتی ہوں کیونکہ جب رسول اللہﷺ معراج پر گئے تھے تو ادھر فرشتوں نے ہماری امت کے لیے جو بہت پرزور تاکید کی تھی وہ کپنگ کروانے کی تھی۔" اللہنے اس میں بہت سکون رکھا ہے۔ تم آنٹی سے باتیں کرو تب تک میں اور بہارے گل بہار باغ سے پھول توڑ لیں۔
وہ دونوں باہر چلی گئیں۔ تو وہ قدرے ہچکچاتے ہوئے اٹھ کر ان کے سامنے آ بیٹھی۔ انہوں نے مسکرا کر اسے دیکھتے نرمی سے ہاتھ بڑھایا تو حیا نے بلا ارادہ اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ تب اسے محسوس ھوا کہ انھوں نے شفاف پتلا دستانہ پہن رکھا تھا۔
تم اچھا محسوس کرو گی۔ یہ تمہاری اداسی لے جائے گا۔ 
مجھے نہیں لگتا کہ میری اداسی ان چیزوں سے دور ہو سکتی ہے۔ وہ ان کے ہاتھ میں دیے اپنے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی جس کی پشت پر وہ کوئی اسپرے کر رہی تھیں۔ 
وہ کیوں؟
میری زندگی بہت پیچیدہ اور مسئلوں سے بھری ہے۔ اس نے اداسی سے کہتے ہوئے نفی میں سر جھٹکا۔ کھڑکی سے چھن کر آتی صبح کی روشنی اس کے چہرے پر پڑے نیلوں کو واضح کر رہی تھی۔ میری بیسٹ فرینڈ میرے سامنے دم توڑ گئی اور میں کچھ نہیں کر سکی۔ میں نے بہت دعا کی تھی حلیمہ آنٹی مگر وہ پھر بھی مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ 
وہ نہ مرتی تو کل کو تم خود اسے چھوڑ جاتیں۔ بعض چیزیں ہمیں ناگوار لگتی ہیں مگر وہ ہمارے لیے اچھی ہوتی ہیں۔ اگر وہ اس بیماری سے بچ جاتی مگر معذور ہو جاتی اور کسی بھی وجہ سے اس کا گھر چھوٹ جاتا، وہ تمہارے آسرے پر آ پڑتی اور تمہیں ساری زندگی اس کی خدمت کرنی پڑتی تو تم چند ماہ یہ کر پاتیں پھر تنگ آ کے خود ہی اسے چھوڑ دیتیں۔ بعض دفعہ موت میں بھی ایک ریلیف ہوتا ہے۔ وہ اس کے ہاتھ کی پشت پہ زیتون کا تیل ملتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔ 
مگر میں نے اسے اللہ سے ویسا ہی مانگا تھا جیسی وہ تھی۔
وہ تمہیں اگلے جہان میں اس کو ویسا ہی واپس کر دے گا اور وہی تم دونوں کے لیے بہتر ہو گا۔ وہ رسان سے کہتے ہوئے اب ایک شیشے کا کپ جس کے پیندے پہ کوئی آلہ لگا تھا، الٹا کر کے اس کی ہتھیلی کی پشت پر رکھ رہی تھیں۔ 
مگر میں اس غم کا کیا کروں جو میرے اندر سلگ رہا ہے؟
غم؟ سر جھکائے، الٹے رکھے کپ کو دباتے ہوئے انھوں نے نفی میں گردن ہلائی۔

ہم مرنے والے کے لیے تھوڑی روتے ہیں، بچے! مرنے والے کے لیے کوئی بھی نہیں روتا۔ ہم سب تو اپنے نقصان پہ روتے ہیں ہمارا غم تو بس یہ ہوتا ہے کہ وہ ”ہمیں“ اکیلا چھوڑ کر چلا گیا۔ 
وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے انھیں دیکھے گئی۔ اسے اپنے ہاتھ پر کپ کا دباؤ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ وہ چند لمحے کے لیے ہر شے سے دور چلی گئی تھی۔ 
میری زندگی میں اتنے مسئلے کیوں ہیں حلیمہ آنٹی؟ 
تمہیں لگتا ہے حیا کہ صرف تمہاری زندگی میں مسئلے ہیں؟ باقی سب خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں؟ نہیں بچے! یہاں تو ہر شخص دکھی ہے۔ ہر ایک کا دل ٹوٹا ہوا ہے۔ سب کو کسی ”ایک“ چیز کی طلب ہے۔ کسی کو مال چاہیے، کسی کو اولاد، کسی کو صحت تو کسی کو رتبہ۔ کوئی ایک محبوب شخص یا کوئی ایک محبوب چیز، بس یہی ایک مسئلہ ہے ہماری زندگی میں، ہم سب کو ایک شے کی تمنا ہے۔ وہی ہماری دعاؤں کا موضوع ہوتی ہے، اور وہ ہمیں نہیں مل رہی ہوتی۔ وہی چیز ہمارے آس پاس کے لوگوں کو بےحد آسانی سے مل جاتی ہے۔ اور ہم ان پر رشک کرتے رہ جاتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ ان لوگوں کی خاص تمنا وہ چیز ہے ہی نہیں۔ وہ تو کسی اور چیز کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ یوں ہم اس ایک شے کے لیے اتنا روتے ہیں کہ وہ ہماری زندگی پہ حاوی ہو جاتی ہے۔ اور یہ شے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ تم مجھے ایک بات بتاؤ، تمہاری زندگی میں بہت سے مسئلے آئے ہوں گے۔ لمحے بھر کو اپنے سارے مسئلے یاد کرو۔ 
اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ اب کپ ہٹا کر اس گول نشان کے اندر موجود جلد میں نشتر کی سوئی سے کٹ لگا رہی تھیں۔ اسے تکلیف نہیں ہوئی۔ وہ کچھ اور یاد کر رہی تھی۔ 
سفید پھول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شریفوں کا مجرا کی ویڈیو۔۔۔۔۔۔۔ ارم کے رشتے کے لیے آئے لڑکے کا انہیں پہچان جانا۔۔۔۔۔ ولید کی بدتمیزی۔۔۔۔۔۔۔ ترکی کا ویزا نہ ملنا۔۔۔۔۔ پھر یہاں آ کر پھولوں کا سلسلہ۔۔۔۔۔۔ اس کا بیوک ادا میں قید ہو جانا۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا اغوا۔۔۔۔۔۔۔ اور آگ کا وہ بھڑکتا آلاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے آنکھیں کھول دیں۔
اس کی ہتھیلی کی پشت پہ خون کے ننھے ننھے قطرے نمودار ہو رہے تھے۔ حلیمہ آنٹی نے کپ واپس ہتھیلی پہ رکھ کے دباتے ہوئے اس کو دیکھا۔ 
اب بتاؤ، ان مسئلوں کا کیا بنا؟
کیا بنا؟ وہ غائب دماغی سے کپ کو دیکھ رہی تھی۔
اوپر لگا Sucker اندر سے خون کھینچ رہا تھا۔ شیشے کا کپ سرخ ہونے لگا تھا۔
میں تمہیں بتاؤں ان مسئلوں کا کیا بنا؟ وہ مسئلے حل ہو گئے۔ سارے مسئلے ایک ایک کر کے حل ہوتے گئے۔ مگر نئے مسئلوں نے تمہیں اتنا الجھا دیا کہ تمہارے پاس ان بھولے بسرے مسئلوں سے نکلنے پہ اللہ کا شکر ادا کرنے کا وقت نہیں رہا۔ 
وہ بے یقینی سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ واقعی، اس کے سارے مسئلے حل ہو گئے تھے۔۔۔۔۔۔ اس نے کبھی سوچا ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ 
ہر شخص کی زندگی میں ایک ایسا لمحہ ضرور آتا ہے جب وہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوتا ہے اور اس کے راز کھلنے والے ہوتے ہیں۔ اور اس وقت جب وہ خوف کے کوہ طور تلے کھڑا کپکپا رہا ہوتا ہے تو اللہ اسے بچا لیتا ہے۔ یہ اللہ تعالی کا احسان ہے اور اسے اپنا ایک ایک احسان یاد ہے، ہم بھول جاتے ہیں وہ نہیں بھولتا۔ تم اپنے حل ہوئے مسئلوں کے لیے اللہ کا شکر ادا کیا کرو۔ جو ساری زندگی تمہارے مسئلے حل کرتا آیا ہے۔ وہ آگے بھی کر دے گا، تم وہی کرو جو وہ کہتا ہے پھر وہ وہی کرے گا جو تم کہتی ہو۔ پھر جن کے لیے تم روتی ہو وہ تمہارے لیے روئیں گے، مگر تب تمہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
کپ کا شیشہ سرخ ہو چکا تھا۔ اس میں اوپر تک خون بھرتا جا رہا تھا ۔
میں۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا لائف اسٹائل بہت مختلف ہے۔ میں ان چیزوں سے خود کو ریلیٹ نہیں کر پاتی۔ لمبی لمبی نمازیں، تسبیحات، یہ سب نہیں ہوتا مجھ سے۔ میں زبان پر آئے طنز کو نہیں روک سکتی، میں عائشے گل کی طرح کبھی نہیں بن سکتی۔ میں ان چیزوں سے بہت دور آ گئی ہوں۔ 
دور ہمیشہ ہم آتے ہیں۔ اللہ وہیں ہے جہاں پہلے تھا۔ فاصلہ ہم پیدا کرتے ہیں اور اس کو مٹانا بھی ہمیں ہوتا ہے۔ انھوں نے خون سے بھرا کپ سیدھا کر کے ایک طرف رکھا اور ٹشو سے اس کا ہاتھ صاف کیا۔ ہاتھ کی پشت پر گول دائرے میں جگہ خاصی اونچی ابھر گئی تھ ۔ کسی بیک شدہ کیک کی طرح جس کا درمیان کناروں سے زیادہ اونچا ابھر آتا ہے۔ 
حلیمہ آنٹی! کیا میرے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے؟ 
پہلے جس نے حل کیے تھے، وہ اب بھی حل کر دے گا۔ حیا! لوگ کہتے ہیں کہ زندگی میں یہ ضروری ہے اور وہ ضروری ہے۔ میں تمہیں بتاؤں زندگی میں کچھ بھی ضروری نہیں ہوتا نہ مال، نہ اولاد، نہ رتبہ، نہ لوگوں کی محبت۔۔۔۔۔۔۔ بس آپ ہونے چاہئیں، اور آپ کا اللہ سے ہر پل بڑھتا تعلق ہونا چاہیے۔ باقی یہ مسئلے تو بادل کی طرح ہوتے ہیں۔ جہاز کی کھڑکی سے کبھی نیچے تیرتا بادل دیکھا ہے؟ اوپر سے دیکھو تو وہ کتنا بےضرر لگتا ہے مگر جو اس بادل تلے کھڑا ہوتا ہے نا، اس کا پورا آسمان بادل ڈھانپ لیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ روشنی ختم ہو گئی، اور دنیا تاریک ہو گئی۔ غم بھی ایسے ہوتے ہیں۔ جب زندگی پہ چھاتے ہیں تو سب تاریک لگتا ہے، لیکن اگر تم اس زمین سے اوپر اٹھ کر آسمانوں سے پورا منظر دیکھو تو تم جانو گی کہ یہ تو ایک ننھا سا ٹکڑا ہے جو ابھی ہٹ جائے گا۔ اگر یہ سیاہ بادل زندگی پہ نہ چھائیں نہ حیا! تو ہماری زندگی میں رحمت کی کوئی بارش نہ ہو۔ 
انھوں نے تیل لگا کر اس کا ہاتھ صاف کر دیا تھا۔ اس نے ہاتھ چہرے کے قریب لے جا کر دیکھا۔
میں اتنا جلی ہوں آنٹی! کہ مجھے لگتا ہے میرا دل ہی مر گیا ہے۔
جلنا تو پڑتا ہے بچے۔ جلے بغیر کبھی سونا کندن نہیں بنتا۔ ان کی بات پر وہ آزردگی سے مسکرائی۔
یہ ابھی ٹھیک ہو جائے گا، اور تم بھی ٹھیک ہو جاؤ گی۔
تھینک یو آنٹی! مجھے آپ سے بات کر کے بہت اچھا لگا۔ ایک آخری بات، کیا یہ اتفاق تھا کہ عثمان انکل اور ہم ایک ہی فلائٹ میں آئے تھے؟
اس دنیا میں اتفاق کم ہی ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے عثمان کو عبدالرحمٰن نے ایسا کہا تھا۔ 
وہ سمجھ کر سر ہلا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ کبھی اسے لگتا اسے زندگی میں سب سے زیادہ تکلیف پاشا نے دی ہے اور کبھی لگتا اس کے احسان اس کی دی گئی اذیت سے زیادہ ہیں۔
بگھی سڑک پر رواں دواں تھی۔ رات کی بارش اب سوکھ چکی تھی اور ہر جگہ نکھری نکھری، دھلی دھلائی لگ رہی تھی۔ سبزا، ہوا، سرمئی سڑک وہ چھوٹا سا جزیرہ جنت کا ٹکڑا لگتا تھا۔ وہ بگھی کی کھڑکی سے باہر دیکھتی ان باتوں کو سوچ رہی تھی جو حلیمہ آنٹی نے اس سے کہی تھیں۔
عائشے۔ اس نے کچھ کہنے کے لیے گردن ان دونوں کی طرف پھیری تو ایک دم ٹھہر گئی۔ درمیان میں بیٹھی بہارے اپنے گلابی پرس سے کچھ نکال رہی تھی۔ حیا بالکل ساکت، سانس روکے اسے دیکھے گئی۔
وہ حیا کا بھورے رنگ کا لکڑی کا پزل باکس تھا۔ 
بہارے۔۔۔۔۔ یہ تم نے کہاں سے لیا؟ وہ بنا پلک جھپکے اس باکس کو دیکھ رہی تھی۔
یہ مجھے عبدالرحمٰن نے میری برتھ ڈے پر گفٹ کیا تھا، اس میں میرا گفٹ ہے، مگر ابھی یہ مجھ سے کھلا نہیں ہے۔ وہ مایوسی سے بتاتی اس کی سلائیڈ پر انگلی پھیر رہی تھی۔ جس میں پانچ حروف بنے تھے۔ باکس کے اوپر ڈھکن کی سطح پہ انگریزی میں ایک لمبی سی نظم کھدی تھی۔ یہ حیا کا باکس نہیں تھا، مگر یہ بالکل اس جیسا تھا۔ 
یہ۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس نے کہاں سے لیا؟
ہم سے ہی لیا تھا۔ عائشے نے بتایا نہیں، ہم جنگل سے لکڑیاں کاٹ کہ یہی پزل باکسز تو بناتے ہیں۔ بہت مہنگے بکتے ہیں یہ۔ ان میں فائیو لیٹر کوڈ لگتا ہے، جس کے بغیر یہ نہیں کھلتے ۔
عائشے مسکراتی ہوئی بہارے کی بات سن رہی تھی۔
سنو۔۔۔۔۔۔۔ وہ بہت دیر بعد بولی۔ اس کی نگاہیں ابھی تک اس باکس پر تھیں۔ تم نے کبھی کوئی ایسا باکس بنایا ہے جس میں چھ حروف کا کوڈ ہو؟
وہ دونوں ایک دم چونکیں۔
ہاں، میں نے بنایا تھا۔
کس کے لیے؟ وہ بے چینی سے بولی۔
عبدالرحمٰن کا کوئی ملازم تھا، اس نے چھ حرفی کوڈ بار کا آرڈر دیا تھا تو میں نے بنا دیا۔ مہینہ پہلے کی بات ہے۔ وہ سوچ کر بتانے لگی۔ 
تو اس کا کوڈ تم نے ہی رکھا ہو گا۔ تمہیں وہ یاد ہے؟
یاد؟ عائشے ذرا جھینپ کر ہنسی۔ چھ حروف کا کوئی لفظ ذہن میں نہیں آرہا تھا تو میں نے اس کا کوڈ Ayeshe رکھ دیا۔ عائشے میں چھ حروف ہوتے ہیں نا!
ترک چی میں عائشے کو بھی ایسے لکھتے ہیں کیا؟ اس نے اچنبھے سے پوچھا۔
نہیں۔ نہیں۔ ترک چی میں Aysegul لکھتے ہیں مگر یہ باکس انگریزی حروف تہجی میں تھا اس لیے انگریزی میں لکھا۔
جو شخص تم سے یہ خریدنے آیا تھا اس کو جانتی ہو تم؟ چند لمحے کے توقف کے بعد وہ ذرا سوچ کر پوچھنے لگی۔
میں اس کا نام تو نہیں جانتی مگر وہ اونچے قد کا حبشی تھا اور اس کے بال گھنگھریالے تھے۔
اچھا! حیا نے بہارے کو اس کا پزل باکس واپس کر دیا۔ اب وہ اپنے پزل باکس کے بارے میں سوچ رہی تھی جو اس کے کمرے میں رکھا تھا۔ اگر وہی باکس تھا جو عائشے نے بنایا تھا اور اسے عبدالرحمٰن کے ہی کسی آدمی نے عائشے سے خریدا تھا اور قوی امکان تھا کہ اس نے وہ ڈولی کے پاس بھجوا دیا تھا۔ تو کیا عبدالرحمٰن اس بات سے واقف تھا؟ یا پھر عائشے سے خریدنے والا شخص ہی ڈولی تھا۔ کیونکہ ڈولی بھی تو پاشا کا خاندانی ملازم تھا۔ کچھ ایسا ہی بتایا تھا اے آر پی کی ماں نے اسے۔
سنو! کیا عبدالرحمٰن پاشا کو معلوم ہے کہ تم نے اس کے کسی ملازم کے لیے باکس بنایا ہے؟ 
حیا! مجھ سے بہت سے لوگ پزل باکسز خریدتے ہیں، میں ہر ایک کی خبر عبدالرحمٰن کو نہیں کرتی اور اس نے تو مجھے عبدالرحمٰن کو بتانے سے منع کیا تھا۔ تمہیں اس لیے بتا ہی ہوں کیونکہ اس نے صرف عبدالرحمن کو بتانے سے منع کیا تھا۔ عائشے ذرا سا مسکرا کر بولی۔
حیا نے اثبات میں گردن ہلا دی اور باہر دیکھنے لگی۔ 
بگھی اس بل کھاتی سڑک پر اوپر چڑھ رہی تھی۔ وہاں دونوں اطراف میں سرسبز اونچے درخت تھے مری میں عموماً سڑک کے ایک طرف ایسے اونچے درخت ہوتے تھے۔ اور دوسری جانب کھائی، مگر یہاں دونوں جانب ہی گھنا جنگل تھا۔
بلآخر ایک جگہ بگھی بان نے بگھی روک دی۔ عائشے نیچے اتری اور بگھی کے پیچھے مرصع صندوق سے اوزاروں کا بھاری تھیلا نکالا۔ حیا اور بہارے بھی اس کے پیچھے اتر آئیں۔ اب آگے انھوں نے پیدل چلنا تھا۔
تم چل لو گی؟ عائشے نے تھیلا اٹھاتے ہوئے ذرا فکرمندی سے اسے دیکھا۔ 
ہاں، میں بہتر محسوس کر رہی ہوں۔ اس نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ عائشہ کو تسلی د ۔ 
بہارے سب سے آگے اچھلتی کودتی، ذرا لہک لہک کر کچھ گاتی چل رہی تھی۔ 
کائنات وہ ہے جسے تو نے بنایا 
اور سیدھا رستہ وہ ہے جسے تو نے دکھایا 
پس تو قدموں کو پھیر دے 
اپنی رضا کی طرف 
اے بلندیوں کے رب!
وہ ایک عربی گیت گنگناتی ادھر اُدھر پودوں پہ ہاتھ مارتی چل رہی تھی۔ عائشے اس کے عقب میں تھی اور سب سے پیچھے حیا تھی جو اپنی سفید میکسی کو دونوں پہلوؤں سے اٹھائے سہج سہج پتھروں پہ پاؤں رکھ رہی تھی۔
وہاں ہر سو سرخ صنوبر اور ببول کے درخت تھے۔
کچھ ایسے درخت بھی تھے جن کو وہ نہیں پہچانتی تھی۔ سرخ اور جامنی پھولوں کی جھاڑیاں بھی جابجا تھیں۔
جنگل میں کافی آگے جا کر عائشے ایک جگہ رکی۔ وہاں ایک درخت کا کٹا ہوا تنا پڑا تھا۔ اس نے تھیلا زمین پر رکھا اور اندر سے کلہاڑے نکالنے لگی۔
ٹھںڈی ہوا صنوبر کے پتوں کو ہولے ہولے جھلا رہی تھی۔ حیا ایک بڑے درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور عائشے کو کٹے ہوئے تنے پہ کلہاڑے سے ضربیں مارتے دیکھتی رہی۔ اس کی اتنے دنوں کی تھکن، نقاہت اور بیماری حلیمہ آنٹی کے شیشے کے پیالے میں رہ گئی تھی۔ وہ اب خود کو بہت ہلکا پھلکا اور تازہ دم محسوس کر رہی تھی۔ نیا چہرہ، نئی روح، نئی زندگی۔۔۔۔۔ بہارے بھی اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔ حیا کے بال ہوا سے اڑ کر اس کے چہرے کو چھونے لگے۔ اس نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے نرمی سے ان کو سمیٹا۔
تمہارے بال کتنے خوبصورت ہیں حیا۔
اس نے گردن ذرا سی موڑ کر مسکراتے ہوئے بہارے کو دیکھا۔ وہ بہت محویت سے اس کے بالوں پہ ہاتھ اوپر سے نیچے پھیرتے کہہ رہی تھی۔ 
میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میرے بال اتنے ہی لمبے اور ملائم ہوں اور میں انہیں ایسے ہی کھولوں مگر۔۔۔۔۔۔۔ 
جوش سے کہتے کہتے اس کا چہرہ بجھ سا گیا۔ مگر عائشے کہتی ہے، اچھی لڑکیاں بال کھول کر باہر نہیں نکلتیں۔ 
بہارے کی بات پر اس نے ایک نظر عائشے کو دیکھا، جو کوٹ کی آستینیں موڑے رکوع میں جھکی لکڑی پہ کلہاڑا مار رہی تھی۔ ہر ضرب کے بعد وہ سیدھی ہوتی اور پیشانی پر آیا پسینہ آستین سے پونچھ کر اور پھر سے جھک جاتی۔ 
وہ تمہیں منع کرتی ہے؟ 
نہیں، وہ کہتی ہے بہارے تمہاری مرضی، جب تم میں حیا نہ رہے تو جو جی چاہے کرو۔ اس نے عائشے کے خفگی بھرے انداز کی نقل کر کے دکھائی۔ 
تم ساری دنیا میں سب سے زیادہ عائشے کی بات مانتی ہو؟
نہیں، پہلے عبدالرحمان کی، پھر عائشے کی! 
تم عبدالرحمان کو بہت پسند کرتی ہو بہارے؟ وہ اپنی حیرت چھپاتے ہوئے استفسار کرنے لگی۔ کیا یہ بہنیں عبدالرحمان کی شہرت نہیں جانتیں؟ یا یہ اسے لوگوں سے زیادہ جانتی ہیں۔
بہت زیادہ۔ وہ ہے ہی اتنا اچھا۔ وہ اس کے بالوں کو ہاتھوں میں لیے ہوئے بہت محبت سے کہہ رہی تھی۔ حیا نے اپنے کھلے بالوں کو دیکھا اور پھر بہارے کی نفاست سے بندھی گھنگھریالی پونی۔
میں بال باندھ لوں بہارے؟ مجھے ہوا تنگ کر رہی ہے۔اس نے جیسے خود کو وضاحت دی کہ وہ عائشے کی اچھی لڑکیوں والی نشانیوں کا اثر نہیں لے رہی۔ ھہوا کی وجہ سے بال باندھنا چاہ رہی ہے۔ 
میں باندھ دوں؟ میرے پاس فالتو پونی ہے۔ 
اس نے اپنے گلابی پرس میں ہاتھ ڈال کر جھٹ سے ایک سرخ رنگ کا بینڈ نکالا۔ حیا نے ذرا سا رخ موڑ لیا۔ بہارے اس کی پشت پر گھٹنوں کے بل اونچی ہو کر بیٹھ گئی اور اپنے نرم ہاتھوں سے اس کے بال سمیٹنے لگی۔ حیا نے آنکھیں بند کر لیں۔
عثمانی سلطنت کی شہزادیاں تمہاری طرح خوبصورت ہوتی ہوں گی حیا! ہے ناں؟ وہ نرمی سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتی اس کی ایک ڈھیلی سی چوٹی بنا رہی تھی۔ بینڈ باندھ کر اس نے چوٹی حیا کے کندھے پر آگے کو ڈال دی۔ حیا نے اپنی موٹی، سیاہ چوٹی پر ہاتھ پھیرا۔ اور گردن موڑ کر ممنونیت سے بہارے کو دیکھا۔ 
میری اماں کہتی ہیں کہ میں اتنی خوبصورت نہ لگتی اگر میں اپنی گرومنگ پہ اتنی محنت نہ کرتی۔ تمہارا اور عائشے کا شکریہ، ورنہ میرے بال نہ بچتے۔ 
دوست کس لیے ہوتے ہیں؟ بہارے نے مسکرا کر شانے اچکائے۔ اس نے اور عائشے نے کن جوکھوں سے اس کے بالوں سے ویکس اتاری تھی۔ یہ روداد بہارے اسے سنا چکی تھی۔ ویکس بال تب ضائع کرتی اگر کھینچ کر اتاری جاتی ۔ جبکہ انھوں نے اس کو پگھلا کر نرم کر کے اتارا تھا۔ 
اچھا اپنا پزل باکس دکھاؤ میں اس کی پہیلی دیکھوں۔ بہارے گل نے سر ہلا کر بیگ سے باکس نکال کر اسے تھمایا۔ اس کا گلابی بیگ ایک زنبیل تھی جس میں ہر ایک چیز ہوتی تھی۔
بہارے تم نے حیا کا گفٹ نہیں بنایا؟ عائشے نے ہاتھ روک کر رکوع میں جھکے جھکے سر اٹھا کر خفگی سے اپنی بہن کو دیکھا۔ 
اوہ ہاں۔ میں ابھی آئی۔ بہارے ماتھے پر ہاتھ مارتی اٹھی بڑے تھیلے میں سے ایک خالی ٹوکری نکالی اور درختوں کے درمیان اچھلتی پھدکتی آگے بھاگ گئی۔
عائشہ واپس کام میں مصروف ہو گئی۔ 
حیا سر تنے سے ٹکائے باکس کو چہرے کے سامنے لا کر دیکھنے لگی۔ اس کے ڈھکن پر انگریزی میں چند فقرے کھدے تھے جو شاید ایک نظم تھی۔
A creamy eye in silver chest
Sleeps in a Salty depth
Rises from a prison grain
Shines as its veil in slain.
پزل باکس کے کوڈبار میں پانچ چوکھٹے بنے تھے۔ حیا نے تین چار دفعہ اس نظم کو پڑھا تو اسے وہ پانچ حرفی لفظ سمجھ آگیا۔ جو اس باکس کی کنجی تھا۔پہیلی آسان تھی، مگر ظاہر ہے، وہ بہارے کو جواب نہیں بتا سکتی تھی وہ بہارے کا تفحہ تھا اور وہ اسے خود ہی کھولنا تھا۔
مگر کون لکھتا تھا یہ نظمیں؟ یہ پہیلیاں؟
باکس گود میں رکھے، اس نے آنکھیں موند لیں۔ اس کے جسم کا سارا درد دھیرے دھیرے غائب ہو رہا تھا۔ ہر سو میٹھی نیند تھی، بہت دن بعد اس پہ سکون سا چھا رہا تھا۔ وہ حلیمہ آنٹی کی باتوں کو سوچتی، اپنے حل ہوئے مسئلوں کو یاد کرتی، کب سو گئی، اسے پتہ نہیں چلا۔
جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ جنگل میں اکیلی تھی۔عائشے اور بہارے وہاں نہیں تھیں۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔
”عائشے۔۔۔۔۔۔۔ بہارے۔“ وہ متوحش انداز میں ان کو پکارتی درختوں کےدرمیان آگے کو بھاگی۔
”حیا! ہم ادھر ہیں۔“ عائشے نے کہیں قریب سے پکارا۔وہ آواز کا تعاقب کرتی اس گھنے جٗھنڈ تک آئی تو دیکھا، عائشےان درختوں کے پاس کلہاڑا پکڑے کھڑی تھی۔ ساتھ ہی بہارے زمین پر بیٹھی تھی۔ کٹا تنا ساتھ ہی رکھا تھا۔
”تم سو گئی تھیں تو مجھے لگا، ہماری آوازیں تمہیں ڈسٹرب نہ کریں، سو ہم سب کچھ ادھر لے آئے۔“
”خیر تھی عائشے۔“ اس نے خفت سے ان دونوں کو دیکھا۔ تنا، لکڑیاں، اوزار وہ ہر چیز بنا آواز پیدا کیے وہاں سے لے گئی تھیں، وہ بھی صرف اس کے خیال سے۔ اسےان دو پریوں کی طرح معصوم لڑکیوں پہ بے حد پیار آیا۔
”تم بتاؤ، تمہاری طبعیت کیسی ہے؟“
”بہت بہتر“۔ وہ بہارے کے ساتھ خشک گھاس پہ پیٹھ گئی۔
بہارے کی گود میں سفید پھولوں کی لڑی رکھی تھی۔
وہ دونوں ہاتھوں میں ایک موٹی سبز ٹہنی پکڑے،اس کے دونوں سرے ملا کر ان کو باندھ رہی تھی، یوں کہ وہ ایک گول، سبز سا رنگ بن گیا تھا۔
”تم کیا کر رہی ہو؟“
”تمھارا گفٹ بنا رہی ہوں۔ تمہیں پہیلی سمجھ میں آئی؟“
”فوراً ہی آ گئی۔ بہت آسان تھی۔“ اور کم از کم اس کے لئے اسے کسی فلاسفر کے گدھوں اور کتوں والے اقوالِ زریں نہیں پڑھنے پڑے تھے۔
”عائشےکی بھی سمجھ میں آ گئی تھی، مگر یہ مجھے نہیں بتاتی۔
”ٹھیک کرتی ہوں۔ یہ تمھارا تحفہ ہے اور تمہیں خود نکالنا ہے۔ تحفہ خوشی کے لئے ہوتا ہے، اگر تم اسے خود بوجھ کر نکالو گی تو تمھیں اصلی خوشی ہو گی ورنہ توڑ کر بھی نکال سکتی ہو۔“ عائشے نے کہا۔
”عائشے ٹھیک کہہ رہی ہے، ویسے یہ پہیلیاں کون لکھتا ہے؟“
”عبدالرحمٰن کے پاس ہر کام کے لئے بہت سے بندے ہوتے ہیں۔ اس نےکسی سے لکھوا لی ہو گی۔“ بہارے نے شانے اچکا کر کہا۔ گویا عبدالرحمٰن سے بہت محبت و عقیدت کے باوجود اس کا خیال تھا کہ وہ اس نے خود نہیں لکھی تھی۔ تو پھرشاید ڈولی نے۔۔۔۔۔؟
بہارے بہت مہارت سے سفید پھولوں کی لڑی کو سبز ٹہنی پر لپیٹ رہی تھی۔ یہاں تک کہ سبز رنگ، ایک سفید پھولدار حلقے میں تبدیل ہو گیا تو اس نے دونوں ہاتھوں سے وہ تاج حیا کے سر پر رکھا۔
”بہارے گل اور عائشےگل کی طرف سے!“
 

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page