top of page

جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد

قسط نمبر اکیس

دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے ایک ہاتھ میں ڈبی پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے اس کا ڈھکن کھولا۔ اندر سیاہ مخمل پہ ایک چھوٹی سی فلیش ڈرائیو رکھی تھی۔ اس نے فلیش ڈرائیو اٹھا کر کھولی۔ ڈرائیو کا سلور، یو ایس بی چمک رہا تھا۔ حیا نے ڈھکن بند کیا، اور اچنبھے سے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا۔ انگلی کی دو پوروں برابر ننھی سی ڈرائیو کا کور سیاہ تھا وہاں کہیں کچھ نہیں لکھا تھا۔
اس میں کیا ہو سکتا ہے بھلا؟ تصاویر؟ ڈاکومنٹس؟ کتابیں؟ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی میموری کتنی ہے کیونکہ اس کے اوپر لکھا نہیں تھا، مگر یہ تو واضح تھا کہ اس میں دنیا جہاں کی چیزیں سما سکتی تھیں۔ اندر جو بھی تھا، وہ تب ہی کھلتا، جب وہ اسے کمپیوٹر سے جوڑتی اور کمپیوٹر۔۔۔۔۔۔۔ اوہ۔! ڈی جے کو خراج دیتے ہوئے وہ لیپ ٹاپ اپنے پاس نہیں رکھ سکی تھی۔ اب اس میں جو بھی تھا، وہ اسے گھر پہنچ کر ہی دیکھ سکتی تھی۔
اس نے فلیش ڈرائیو واپس ڈبیا میں ڈالی اور احتیاط سے پرس کے اندرونی خانے میں رکھ دی یہ قیمتی چیز تھی اور اسے اس کی حفاظت کرنی تھی۔
حیا نے سر سیٹ کی پشت ٹکا دیا اور جلتی آنکھیں موند لی۔ صبح کے واقعات اور اس ہنگامہ خیز فیصلے و تیاری نے اسے تھکا دیا تھا۔ بخار، سر درد اور تکان، ان سب کی تکلیف اس تکلیف سے کہیں چھوٹی تھی، جو آج جہان نے اسے دی تھی۔ وہ کچھ بھی یاد نہیں کرنا چاہتی تھی، مگر تمام واقعات امڈ امڈ کر آنکھوں کے سامنے چلتے نظر آ رہے تھے۔
بےاعتباری کا دکھ زیادہ بڑا تھا یا خود کو جہان کے لیے بلیک میلنگ کا ہتھیار بنائے جانے کا خوف، وہ فیصلہ نہیں کر سکی۔ البتہ ایک بات طے تھی۔ اگر ان پچھلے پانچ ماہ میں اس نے کچھ فیصلے صحیح کیے تھے تو پاکستان واپس جانے کا فیصلہ ان میں سے ایک تھا۔ اپنے گھر، باپ اور بھائی کے تحفظ سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔
اسے ترکی اب بھی پسند تھا، مگر ترکی کے کچھ لوگوں سے اب اسے خوف آنے لگا تھا۔ بس بہت ہو گئے ایڈونچرز، اس نے ہار مان لی۔ وہ جہان کو کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر چلی آئی تھی۔ مگر وہ جانتی تھی کہ صحیح یہی تھا۔ اس کو سنبھلنے اور سوچنے کے لیے وقت چاہیے تھا۔
جہان کے لیے بھی شاید یہ درست تھا۔ اب کم از کم پاشا اسے حیا کی وجہ سے بلیک میل نہیں کر سکے گا جہان سکندر سے شدید ناراضی کے باوجود لاشعوری طور پر بھی اس نے اس کا اچھا ہی سوچا تھا۔
فجر کے قریب وہ اسلام آباد پہنچی۔ ابا کو آنے سے منع کر دیا تھا، سو اس کی تاکید کے مطابق انہوں نے ڈرائیور بھیج دیا تھا۔
سر درد، بخار اور بوجھل دل۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ گولی لے کر سوئی تو ظہر کے قریب اٹھی۔
اتنا بڑا سر پرائز! اسے ہاتھوں سے بال لپیٹتے ہوئے لاؤنج میں آتے دیکھ کر فاطمہ نے مسکرا کر کہا۔ صبح وہ سو رہی تھیں اور ان کی ملاقات اب ہو رہی تھی۔
اماں! وہ آگے بڑھ کر ان کے گلے لگ گئی۔ گھر، تحفظ، امان۔ اس کے آنسو امڈ امڈ کر آ رہے تھے۔
سبین پریشان ہو رہی تھی کہ اتنی اچانک حیا کیوں چلی گئی؟
اپنے بیٹے سے پوچھنا تھا نا!
جہان کو بتایا تھا، وہ شاید بتانا بھول گیا ہو۔۔۔۔۔۔ کچھ کھانے کو ہے؟ وہ نگاہیں چرا کر کچن کی طرف جانے لگی وہی سبانجی سے پڑی ہر کام خود کرنے کی عادت۔ فاطمہ نے ہاتھ پکڑ وپس بٹھایا۔
آرام سے بیٹھو۔ نوربانو کھانا لگا ہی رہی ہے۔ پھر ذرا چونکیں۔ تمہیں بخار ہے۔ جب وہ گلے لگی تھی تو اس وقت اتنے عرصے بعد ملنے کے جوش میں انہیں محسوس نہیں ہوا تھا شاید۔
نہیں، سفر کی وجہ سے۔ اس نے دھیرے سے ہاتھ چھڑایا۔
پچھلی دفعہ جب وہ پاکستان آئی تھی، تب بھی اسے بخار تھا۔ تب اس نے استقلال اسٹریٹ میں ڈی جے کو کھویا تھا۔ اب بھی اس بخار تھا۔۔۔۔۔۔۔ اور اس دفعہ شاید اس نے جہان کو کھویا تھا۔ اسی جگہ استقلال اسٹریٹ میں۔ آزادی کی گلی۔۔۔۔۔۔۔۔ جس سے وہ کبھی اپنی زندگی آزاد نہیں کر سکتی تھی۔
شام میں جب وہ عصر پڑھ کر جائے نماز تہہ کر رہی تھی تو لاؤنج کی چوکھٹ پر تایا فرقان نے ہولے سے دستک دی۔ وہ چونک کر موڑی، پھر مسکرا دی۔
تایا ابا! وہ آگے بڑھ کر ان سے ملی۔
ارے یہ ترکی والے کہاں سے آ گئے؟ انہیں جیسے اس کا نماز کے انداز میں لیا دوپٹا بہت اچھا لگا تھا۔ بس ایگزام ختم ہو گئے تھے آخری مہینہ ترکی گھومنے کے لیے تھا۔ میں نے سوچا اس میں پاکستان آ جاتی ہوں، پھر جولائی میں کلیئرنیس کروانے چلی جاؤں گی۔ اس نے رسان سے وضاحت دی جو اب بہت سی جگہوں پر دینی تھی۔ 
یہ تو بہت اچھا کیا۔ ابا کدھر ہیں تمہارے؟ کچھ کام تھا۔
پتا نہیں! آفس میں ہوں گے۔ گھر پہ تو نہیں ہیں۔ 
اچھا! میںکال کر لیتا ہوں۔ وہ کہہ کر مڑنے لگے تو وہ جائے نماز رکھ کر ان کے ساتھ ہی چلی آئی تا کہ سب سے مل لے۔
صائمہ تائی اپنے مخصوص مسکراتے انداز سے ملیں۔ ارم کمرے میں تھی۔ اسے دیکھ کر ذرا حیران ہوئی۔
خیر! اچھا کیا، اب کم از کم تم میری منگنی تو اٹینڈ کر ہی لو گی۔ تلخ مسکراہٹ کے ساتھ وہ بولی مگر اسے خوشگوار سی حیرت ہوئی۔
تمہاری منگنی، کب؟
ایک ڈیڑھ ہفتے تک ہے۔ ان کے کچھ رشتے دار باہر سے آئے ہوئے ہیں۔ ان کی روانگی سے پہلے پہلے ہی فنکشن ہو گا۔ ارم بہت ناخوش لگ رہی تھی۔ وہ زیادہ دیر اس کے پاس بیٹھ نہیں سکی اور باہر آ گئی۔
سونیا کچن میں تھی۔ اس سے اپنے فطری خوش خلق انداز میں ملی۔ بیٹھنے کر کہا، مگر وہ بیٹھنا نہیں چاہتی تھی۔ پاکستان اور خاندان والے۔ وہی پرانی 
زندگی لوٹ آئی تھی، ترکی اور ترکی کے چار ماہ کسی ست رنگے بلبلے کی طرح ہوا میں تحلیل ہو گئے تھے۔
•••••••••••••••••••
اسٹڈی روم کی کھڑکی کے سامنے کھڑا وہ نیچے نظر آتی گلی کو دیکھ رہا تھا۔ پتھریلی سڑک پہ بگھی سیاحوں کو لیے جا رہی تھی۔ ادالار کی سب سے شاہانہ سواری۔ مگر اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ 
کھلے دروازے سے عائشے اسے ندر آئی۔ اس کے ہاتھ میں پرچ پیالی تھی۔ ہلکی سی آواز کے ساتھ اس نے اسٹڈی ٹیبل پہ پیالی رکھی۔
عبدالرحمن! تمہای کافی۔
عبدالرحمن نے ذرا سی گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ عائشے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ روئی روئی سبز آنکھیں، اس کے دیکھنے پہ اس نے نگاہیں جھکا دیں۔ اس کا مطلب تھا آنے اسے مطلع کر چکی تھیں اور وہ دکھی تھی۔
میں امید کرتا ہوں، تم میرے ساتھ تعاون کرو گی۔
وہ اپنے ازلی خشک انداز میں کہتے ہوئے کھڑکی سے باہر یکھ رہا تھا۔ آنے کو اپنا بیٹا واپس مل رہا ہے، اس سے زیادہ بڑی خوشی ان کو کبھی نہیں مل سکتی۔ تم ان ماں بیٹے کے فیصلے میں ان کا ساتھ نہ دے کر ان کی خوشی ختم کر دو گی، مگر میں جانتا ہوں کہ تم ایسا نہیں کرو گی۔
عائشے نے بھیگی پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
میں جانتی ہوں کہ مجھے اور بہارے کو وہیں رہنا ہے، جہاں آنےکو رہنا ہے۔ اگر وہ ادالار نہیں آ سکتا۔۔۔۔۔۔ اور یہ ضروری ہے کہ ہم سب یہاں سے چلے جائیں تو میں رکاوٹ نہیں ہوں گی۔ میں نے پیکنگ شروع کر دی ہے۔ وہ لمحے بھر کو رکی۔ کیا واقعی سب ایسا ہی ہو گا، جیسا تم کہہ رہے تھے؟ کیا واقعی باہر جا کر وہ ہمارے ساتھ ہی رہے گا؟
ہاں! اور تم جانتی ہو، میں تمہیں دھوکا نہیں دے سکتا۔ وہ اب بھی کھڑکی سے باہر ہی دیکھ رہا تھا۔
ٹھیک ہے! میں بہارے کو سمجھا دوں گی۔ وہ کوئی مسئلہ نہیں کرے گی۔ ہم اتنی ہی خاموشی سے ترکی چلے جائے گے۔ جتنی خاموشی سے تم چاہتے ہو۔
شیور! کیا اب تم مجھےاکیلا چھوڑ سکتی ہو؟
عائشے سر ہلا کر پلٹ گئی۔ عبدالرحمن نے گردن موڑ کر اسے جاتے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر دیکھتا رہ یہاں تک کہ وہ کاریڈور کے سرے کے آگے غائب ہو گئی۔ پھر اس نے گہری سانس لی اور بولا۔
بہارے گل! کیا تم میز کے نیچے سے نکلنا پسند کرو گی؟
اور اسٹڈی ٹیبل تلے بیٹھی، کان لگا کر باتیں سنتی بہارے گل نے بےاختیار زبان دانتوں تلے دبائی تھی۔ اللہ اللہ، وہ ہر بار کیوں پکڑی جاتی تھی؟ جب وہ دونوں باتیں کر رہے تھے، تب وہ خاموشی سے دبے قدموں آئی تھی اور میز تلے چھپ گئی تھی۔ زمین تک لٹکتے میز پوش نے چاروں اطراف سے اسے ڈھانپ دیا تھا، مگر عبدالرحمن پھر بھی جان گیا تھا۔
بہارے گل! وہ ذر سختی سے بولا تو وہ رینگتی ہوئی باہر نکلی۔ اسے اپنے طرف دیکھتے پا کر وہ معصومیت سے مسکراتے ہوئے کپڑے جھاڑتی اٹھی۔
کیا کر رہی تھیں تم؟ 
وہ شرمندہ سی مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ باندھے خاموشی سے اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
کچھ بولو گی نہیں؟ 
بہارے نے نفی میں سر ہلایا۔
کیوں؟ 
کیونکہ بہارے گل چپ زیادہ اچھی لگتی ہے۔
عبدالرحمن سر جھٹک کر واپس کھڑکی کی طرف مڑ گیا اور باہر دیکھنے لگا۔ وہ جیسے کچھ سوچ رہا تھا یا شاید پریشان تھا۔
میں ادھر بیٹھ جاؤں؟ بہارے نے اسٹڈی ٹیبل کی ریوالونگ چیئر جس کے ساتھ ہی عبدالرحمن کھڑا تھا کی طرف اشارہ کیا اس نے دھیرے سے گردن اثبات میں ہلائی۔ وہ بڑی سی کرسی پہ بیٹھ گئی اور میز کی سطح پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھے۔
جب حیا ادھر تھی تو وہ یہیں بیٹھ کر اپنے پزل باکس پر پہ غور کرتی تھی۔ وہ چونکا۔
وہ چلی گئی ہے۔
بہارے نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ اس کی بڑی بڑی بھوری آنکھوں میں حیرت پنہاں تھی۔
کہاں؟ 
اپنے ملک، واپس۔
مگر کیوں؟ اس نے بتایا بھی نہیں۔ میرا نیکلس بھی 
نہیں خریدا۔ میں اسے فون کروں؟
نہیں! بالکل نہیں۔ وہ سختی سے بولا تو بہارے کرسی سے اٹھتے اٹھتے ٹھہر گئی۔
اور اب تم اس سے کوئی رابطہ نہیں رکھو گی۔ سمجھیں؟
میں نےکیا کیا ہے؟ اس کے چہرے پر اداسی اتر آئی۔ وہ ان ہی سخت تنبیہہ بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
بس! کہہ دیا تو کہہ دیا۔
چند لمحے دونوں کے درمیان خاموشی چھائی رہی۔ پھر وہ جیسے ڈرتے ڈرتے آہستہ سے بولی۔
کیا ہم کہیں جا رہے ہیں؟ نہیں! میں نے کچھ نہیں سنا۔ میں تو بس دیکھ رہی تھی کہ تمہاری میز نیچے سے کیسی لگتی ہے۔ بس! تھوڑا سا خودبخود سنائی دیا تھا۔ وہ جلدی سے وضاحت کرنے لگی۔
تمہارا خودبخود سمجھتا ہوں میں اچھی طرح۔ اسےگھور کر واپس باہر دیکھنے لگا۔ بہارے کی سمجھ میں نہیں آیا، اس کا موڈ کس بات پہ خراب تھا۔
عبدالرحمن! 
بہارے! میری باب غور سے سنو۔ بعض دفعہ انسان کو اپنا گھر، شہر، ملک، سب چھوڑنا پڑتا ہے۔ قربانی دینی پڑتی ہے۔ میں تم سے ایک قربانی مانگ رہا ہوں۔ میں تمہارے انکل کو واپس لے آیا ہوں۔ وہ اب تمہار ساتھ رہے گا، مگر اس کی مجبوری ہے کہ وہ ادالار میں نہیں رہ سکتا۔ اس لیے اس نے ایک دوسرے ملک میں تم سب کے رہنے کا انتظام کیا ہے۔ وہ ادھر ہی ہے اور تمہارے عائشے اور آنے کے لیے گھر سیٹ کروا رہا ہے۔ اسی ہفتے تم لوگ ادھر چلے جاؤ گے۔ اور پلیز! ،نہ روؤ گی، نہ ہی شور ڈالو گی، نہ تم مجھے تنگ کرو گی۔ تم ادالار چھوڑ دو گی اور میرے خلاف جانے کی ضد نہیں کرو گی، سمجھیں؟ وہ باہر دیکھتے ہوئے بےلچک، سردانداز میں کہتا گیا۔ بہارے کا چہرہ بجھتا چلا گیا۔
یہ رہا تمہارا پاسپورٹ۔ اس نے کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک ننھی سی کتاب نکال کر بہارے کو تھمائی۔ بہارے نے بےدلی سے اسے کھولا۔ اندر اس کی تصویر لگی ہوئی تھی۔
ہم یہاں کیوں نہیں رہ سکتے؟
سوال نہیں کرو گی تم، سنا تم نے؟
بہارے کا سر مزید جھک گیا۔ وہ پژمردگی سے پاسپورٹ کے صفحے پلٹ رہی تھی۔ ایک جگہ وہ ٹھہر سی گئی۔ وہ نہ پاسپورٹ کے رنگ کو دیکھ رہی تھی، نہ ہی دوسری تفصیلات کو۔ وہ صرف ان دو حروف کو پڑھ رہی تھی، جو وہاں نمایاں کر کے لکھے گئے تھے۔
Hannah Kareem
عبدالرحمن! غلطی ہو گئی ہے۔ میرا نام غلط لکھ دیا ہے۔ حنہ کریم۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو میرا نام نہیں ہے۔ وہ حیرت اور الجھن سے نفی میں سر ہلانے لگی۔
اب یہی تمہارا نام ہے۔
بہارے حیرت زدہ رہ گئی۔ کبھی وہ اس پاسپورٹ کو دیکھتی تو کبھی عبدالرحمن کے بے تاثر چہرے کو۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
اور ایک آخری بات۔ وہ اس کی طرف مڑا اور سابقہ میں بولا۔ میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔
سفید محل، ادالار، ترکی، اپنا نام، شناخت، بہارے گل ہر چیز چھوڑ سکتی تھی، مگر اس آخری بات نے تو اس کی سانس ہی روک دی تھی۔ وہ ٹکر ٹکر عبدالرحمن کا چہرہ دیکھنے لگی۔
تم۔۔۔۔۔۔۔۔ تم ہمارے ساتھ نہیں رہو گے؟
نہیں! اور تم کوئی رونا نہیں ڈالو گی۔
مگر تم ہمیں ایسے نہیں چھوڑ سکتے۔ تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں میری ضرورت ہے۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
اوہ کم آن! مجھے تمہاری بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ وہ برہمی سے کہتے ہوئے مڑا اور باہر نکل گیا۔
بہارے کو اپنے اندر سے ایک آواز آئی تھی۔ جیسی مرمرا کے پانی میں پتھر پھینکنے کی ہوتی ہے۔ جیسی دل ٹوٹنے کی ہوتی ہے۔
آنسو لڑیوں کی صورت اس کے رخساروں پہ گرنے لگے۔ عبدالرحمن کو اس کی ضرور تھی، تب ہی تو اس نے اس سے وعدہ لیا تھا کہ اگر وہ مر گیا تو بہارے اسے جنازہ دے گی اور اس کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گی۔ چاہے پورا ترکی اسے چھوڑ دے، بہارے گل اسے کبھی نہیں چھوڑے گی۔
اس نے اپنی کمر سے بندھے گلابی پرس کو کھولا اور پاسپورٹ اس میں ڈال دیا۔ پھر وہ کرسی سے اتری اور دبے قدموں میز کے نیچے چلی آئی۔ چاروں طرف سے گرتے میز پوش نے اسے ڈھک دیا۔
وہ لکڑی کی ٹانگ سے سر ٹکائے بیٹھی ہولے ہولے سسکنے لگی۔ وہ سب کچھ چھوڑ سکتی تھی، مگر عبدالرحمن کو نہیں۔ پھر اب کیوں۔۔۔۔۔۔۔
آنسو اس کی گردن سے پھسلتے ہوئے فراک کے کالر میں جذب ہو رہے تھے۔ اس نے دیکھنا چاہا کہ نیچے سے میز کیسی لگتی ہے، مگر وہ اسے دھندلی ہی دکھائی دی۔
بھیگی، آنسوؤن سے لدی۔
عبدالرحمن نے باہر نکلتے ہوئے جب آخری دفعہ گردن موڑ کر دیکھا تو بہارے اسے کرسی پہ سن سی بیٹھی، بے آواز روتی دکھائی دی تھی۔ وہ اس سے زیادہ نہیں دیکھ سکتا تھا، سو تیزی سے باہر آ گیا۔

پیچھلے باغیچے میں وہ عائشے کی ورک ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھا اور یوں ہی آسمان کو دیکھنے لگا۔ اس کا اپنا دل بھی بہت دکھی تھا۔ ان دونوں بہنوں کو اس کی وجہ سے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی، اس نے کبھی یہ نہیں چاہا تھا، مگر وہ جانتا تھا کہ وہی اس سب کا ذمہ دار ہے۔ اس کی اور اس کے کاموں کی وجہ سے یہ سب ہوا تھا، مگر پھر بھی وہ بے قصور تھا۔ بہارے سے سختی اور سرد مہری سے بات کر کے اپنے تئیں اس نے ان کی روانگی آسان بنانے کی کوشش کی تھی، شاید یوں کرنے سے بہارے اس سے محبت کرنا چھوڑ دے اور پھر جلد اسے بھول جائے۔ یہ سب آسان نہیں ہو گا، مگر عائشے سنبھال لے گی اسے۔
اور اپنے کمرے کی کھڑکی سے اسے باغیچے میں بیٹھے دیکھ کر عائشے نے بے اختیار سوچا تھا کہ بہارے کو تو وہ سنبھال لے گی، مگر خود کو کیسے سنبھالے گی؟ چند ماہ قبل اس کی اور عبدالرحمن کی شدید لڑائی کے بعد اسے علم ہو گیا تھا کہ جلد یا بدیر وہ عبدالرحمن سے الگ ہو جائیں گی۔ وہ ان کا کبھی نہیں تھا۔ وہ ان کے لیے بنا ہی نہیں تھا۔ وہ ایک غیر فطری زندگی گزار رہے تھے، مگر اب وہ فطری طریقے پہ واپس آ جائیں گے۔ دادی، چچا، چھوٹی بہن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عائشے کے تین ساتھی، فیملی ممبرز۔ اصل زندگی، حقیقی گھر، مکمل فیملی۔
اس نے انگلی کی نوک سے آنکھ کا بھیگا گوشہ صاف کیا اور الماری کی طرف بڑھ گئی۔ آنے صبح سے تیاری میں لگی تھیں۔ وہ بہت خوش تھیں، سو اسے بھی تیاری مکمل کر لینی چاہیے۔
رہی محبت۔۔۔۔۔۔۔۔ تو وہ اچھی لڑکیوں کو بھی ہو ہی جاتی ہے، لیکن جب انہیں یہ پتہ چل جائے کہ وہ محبت انہیں مل ہی نہیں سکتی، تو وہ خاموش رہتی ہیں۔ اچھی لڑکیاں خاموش ہی اچھی لگتی ہیں۔
دکھی دل کے ساتھ اس نے دراز سے اپنی قیمتی چیزیں نکالنی شروع کی۔ وہ یہ سب ایک جیولری باکس میں ڈال رہی تھی۔ سب سے اوپر اس نے اپنی انگلی سے انگوٹھی اتار کر رکھی۔ یہ اسے عبدالرحمن نے اس کی سالگرہ پر تحفہ میں دی تھی اور وہ اسے کبھی نہیں اتارتی تھی۔ جواب میں اس نے عبدالرحمن کی سالگرہ پر اس نے اس کو کیا دیا تھا۔ اس نے اپنے جیولری باکس کی سب سے آخری، چھوٹی سی دراز کھولی۔ وہ خالی تھی۔ کبھی اس میں وہ شے ہوتی تھی، جو اس نے عبدالرحمن کو دے دی تھی۔ مگر اس بے رحم آدمی نے اس کے تحفے کے ساتھ کیا کیا؟
عائشے نے آزردگی سے سر جھٹکا۔ زندگی میں سب سے زیادہ خوف اسے اسی بات سے آتا تھا کہ کہیں وہ جانتا تو نہیں کہ وہ کیا سوچتی ہے۔
مگر نہیں، وہ کبھی نہیں جان سکتا تھا۔ اس نے خود کو تسلی دی۔
وہ غلط تھی۔
••••••••••••••••
زارا اس سے ملنے آئی تھی۔ اتنے عرصے میں زارا کو تو وہ جیسے بھول ہی گئی تھی۔ اب دونوں مل کر بیٹھیں تو وہ ترکی کی ہی باتیں کیے گئی۔ بس یہی وہ موضوع تھا جس پر وہ زارا سے بات کر سکتی تھی۔ بعض اوقات دوست تو وہی ہوتے ہیں، مگر وقت انسان کو اتنا آگے لے جاتا ہے کہ وہ اپنے دوست کے مدار سے ہی نکل آاتا ہے۔ پھر کتنا ہی میل ملاقات رکھ لے، وہ درمیانی فاصلہ ناقابل عبور بن جاتا ہے۔ وہ بھی زارا کے مدار سے نکل آئی تھی۔ اس کی دوستیں تو صرف عائشے گل اور بہارے گل تھیں، جن سے کو وہ بتا کر بھی نہیں آئی تھی۔ 
آج فون کیا تو عائشے کا فون آف تھا، سو اس نے میل کر دی۔ ابھی تک جواب نہیں آیا تھا۔
زارا گئی تو فاطمہ نے اسے بلا لیا۔ صائمہ ٹائی آئی تھیں اسے دیکھ کر مسکرا دیں۔
"شکر ہے بیٹا! تم ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ میں کیا کرتی۔ ارم کے سسرال والوں کی شاپنگ کرنی ہے۔ منگنی کے تحائف وغیرہ۔ ارم کو تو کچھ سمجھ نہیں ہے۔ تمہارا ٹیسٹ اچھا ہے۔ میرے ساتھ چلو۔ تائی امی کی زبان میں جو حلاوت تھی، چکنائی بری حلاوت معتصم، ہالے ، عائشے، بہارے ، ڈی جے یہ لوگ اس چکنائی سے کتنے دور تھے نا۔
شیور تائی اماں! میں ذرا عبایا لے آؤں۔ وہ ہامی بھر کے اٹھی تو فاطمہ چونکی۔
تم نے عبایا لیا ہے؟
جی اماں! ایک فرینڈ نے گفٹ کیا تھا۔ میں نے سوچا، اب باہر جاتے ہوئے لے لیا کروں گی۔ وہ بظاہر بہت لاپروائی سے کہتی اٹھ آئی۔ 
پھر تھوڑی دیر بعد وہ اپنے پاؤں کو چھوتے، حریر کے عبایا میں سیاہ اسٹول کو سلیقے سے چہرے کے گرد لپیٹے باہر آئی تو وہ دونوں پل بھر کو حیران رہ گئیں۔
یہ اچھا کیا تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم پر اچھا بھی بہت لگ رہا ہے۔ فیشن بھی ہے آج کل عبایا کا۔ صائمہ تائی مسکرا کر بولیں۔ "ویسے تمہارے تایا نے دیکھا تو بہت خوش ہوں گے۔"
(مجھے تایا سے سرٹیفیکیٹ تو نہیں چاہیے تائی اماں!)
"ہاں! عبایا تو اچھا ہے۔ مگر بہت سمپل نہیں ہے؟" فاطمہ ذرا متذبذب تھیں۔
چونکہ اس کا عبایا سادہ تھا اور سوائے آستین کے سبز اسٹونز کے جو اتنے مدھم تھے کہ توجہ نہ گھیرتے، کوئی کام نہ تھا، سو انہیں قلق تھا۔
"اور میں جب حج پر گئی تو کتنا کہتی رہی کہ تمہارے لیے عبایا لے آؤں، مگر تم نے انکار کر دیا تھا۔فاطمہ تین چار سال پرانی بات دہرانے لگیں۔ وہ اس لیے اصرار کرتی رہی تھیں کہ ان کی بھابھی جو ان کے ساتھ حج پر تھیں، اپنی بیٹیوں کے لیے قیمتی اور کامدار عبایا لے رہی تھیں۔ حیا نے صاف منع کر دیا تھا۔ عبایا کے بجائے اس کی کزنز کے برقعے عروسی ملبوسات لگتے تھ 
"بس! اب دل چاہ رہا تھا۔" وہ نقاب کی پٹی سر کے پیچھے باندھنے لگی۔
"تم نے نقاب بھی شروع کر دیا؟" صائمہ تائی کو اب واقعتا جھٹکا لگا تھا۔
"چلیں تائی!" وہ گاڑی کی چابی بیگ سے نکالتے ہوئے بولی۔ اس کے نظر انداز کرنے کے باوجود تائی کہنے لگیں۔
چلو اچھا لگ رہا ہے، مگر دیکھتے ہیں کہ تم کتنے دن
کرتی ہو۔
"اس نے دو دن بعد ہی چھوڑ دینا ہے۔ فاطمہ مسکرا کر بولیں۔
"چلیں! دیکھتے ہیں لیڈیز۔ وہ شانے اچکا کر کہتی باہر نکل آئی۔
استنبول بلا شک و شبہ ایک خوبصورت اور شان دار قسم کا شہر تھا۔ وہ مانتی تھی، مگر جو بھی ہو، پاکسان، پاکسان تھا۔ اپنے ملک کا کوئی مقابلہ نہیں ہوتا۔ بہت عرصے بعد وہ اسلام آباد کی سڑکیں، درخت اور مارکیٹ دیکھ رہی تھی۔
تائی کو پورا ایف ٹین پھرا کر وہ دونوں شام ڈھلے واپس آئیں تو ابا اور تایا فرقان لان میں ہی بیٹھے تھے۔ حیا شاپرز اٹھائے چلتی ہوئی آئی تو تایا ذرا سیدھے ہوئے۔ شاید انہیں لگا، کوئی مہمان ہے۔
"میں ہوں تایا! اس نے سر کے پیچھے بندھی پٹی اتار کر چہرے سے نقاب علیحدہ کیا تو وہ دونوں واقعی حیرت زدہ رہ گئے۔
تم نے کب سے برقع لینا شروع کر دیا؟"
ترکی میں شروع کیا تھا اور بس! ایسے ہی لینا شروع کر دیا تھا۔ وہ بہت عام سے انداز میں اپنے برقعے کی بات کر رہی تھی۔ تا کہ کوئی مذاق نہ اڑا پائے۔
مگر صائمہ تائی کسی اور ہی موڈ میں تھیں۔ وہ وہیں کھڑے کھڑے حیا کے برقعے کی تعریفیں کرنے لگیں۔ ابا اب مسکرا رہے تھے۔ انہیں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔ البتہ تایا ابا بہت خوش ہوئے۔
ہم آج حیا سے کہہ رہے تھے کہ دیکھتے ہیں! تم کتنے دن برقع کرتی ہو؟
"نہیں! انشاءاللہ میری بیٹی قائم رہے گی۔ تایا ابا کی بات پر وہ پھیکا سا مسکرائی اور اندر چلی ائی۔
برقع ہی تھا، اتنا کیوں ڈسکس کرنے لگے تھے سب۔ اسے اچھا نہیں لگا تھا، مگر شاید وہ بھی حق بجانب تھے۔ وہ پہلے اس کے برعکس لباس پہنتی تھی، سو ان کی حیرانی بجا تھی۔
خیر! جو بھی ہے۔ عبایا اتار کر لٹکانے تک وہ ان تمام سوچوں سے چھٹکارہ پا چکی تھی۔ اب اسے وہ کام کرنا تھا جس کے لیے وہ سارا دن مارکیٹ میں مضطرب رہی تھی۔ کل اسے یاد ہی نہیں رہا۔ تھکاوٹ ہی اتنی تھی اور آج موقع نہیں ملا۔ مگر اب مزید انتظار نہیں۔
اس نے لیب ٹاپ آن کر کے بیڈ پر رکھا اور پرس سے وہ مخملیں ڈبی نکالی۔ وہ جب بھی اسے کھولتی، دل عجیب طرح سے دھڑکتا تھا۔
پتا نہیں، کیا ہو گا اس میں؟
اس نے فلیش ڈرائیو کا پلگ لیپ ٹاپ میں لگایا۔
روشن اسکرین پر ایک چوکھٹا ابھرا۔ اس پہ ایک مختصر سا پیغام تھا۔ جس کا لب لباب یہ تھا کہ اس فائل پر پاس ورڈ تھا اور پاسورڈ درج کرنے کے لیے ایک ہی کوشش کی جا سکتی تھی۔ صیح پاسورڈ درج کیا تو فائل کھل جائے گی۔ غلط درج کیا تو فائل خود کو خود ہی ختم کر دے گی یعنی وہ کبھی نہیں جان سکے گی کہ اس میں کیا تھا۔
پیغام چند لمحوں بعد ہی غائب ہو گیا۔ اب اسکرین پر ایک خالی چوکھٹا چمک رہا تھا، جس میں آٹھ خانے بنے تھے۔ کسی آٹھ حرفی لفظ کے لیے یا کسی آٹھ ہندسوں کے عدد کے لیے۔
ایک تلخ مسکراہٹ اس کے لبوں پر ابھری۔ اسے ایک نئی پہیلی دیکھ کر بالکل غصہ نہیں چڑھا۔ میجر احمد نے اسے چیلینج کیا تھا اور اسے اب یہ چیلنج جیت کر دکھانا تھا۔ کہیں نہ کہیں اسے پاس ورڈ مل ہی جائے گا اور پھر وہ اسے کھول لے گی۔
اس نے فائل کو آگے پیچھے ہر طرح سے کھولنے کی کوشش کی، مگر اس کا پروگرام خاصا پیچیدہ تھا۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ویسے یہ عجیب بات تھی کہ اس دفعہ احمد نے پہیلی نہیں دی تھی۔ یہ پہلی دفعہ ہوا تھا، ورنہ وہ پہیلی ہمیشہ ساتھ ہی دیتا تھا۔ اب وہ پاس ورڈ کیسے ڈھونڈے؟ خیر! کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا۔ وہ پامید تھی۔
ترکی سے واپس آنے کے بعد آج اس نے فون آن کیا تھا۔ اپنی پرانی سم وہ نکلوا چکی تھی۔ ابھی دو گھنٹے ہی گزرے تھے کہ اس کا فون بجنے لگا۔ وہ جو لیپ ٹاپ پہ اپنی اور ڈی جے کی تصاویر دیکھ رہی تھی، چونک کر سیدھی ہوئی جلتی بجھتی اسکرین پر چمکتے الفاظ دیکھ کر ایک گہری سانس اس کے لبوں سے خارج ہوئی۔
"خبر مل گئی آپ کو میجر صاحب؟ فون کان سے لگاتے ہوئے وہ بولی۔
"مل تو گئی، مگر میں کافی حیران رہ گیا۔ آپ واپس کیوں آگئیں؟ وہی نرمی، دھیما، شائستہ انداز۔ وہ جیسے اس کے انداز پر مسکرایا تھا۔
"حیرت ہے، آپ کو پہلی دفعہ پوری بات کا علم نہیں ہوا۔"
"لگتا ہے، آپ بہت غصے میں ہیں۔ کیا ہوا ہے؟"
"پتا نہیں۔" وہ بے زار سی بولی۔ پہلی بار اسے شدید احساس ہوا کہ وہ میجر احمد سے بات نہیں کرنا چاہتی۔
"آپ کی آواز کافی بوجھل لگ رہی ہے۔ پریشان بھی ہیں اور اداس بھی۔ اگر آپ وجہ نہیں بتائیں گی تو میں اصرار نہیں کروں گا۔ بس اتنا بتائیں! آپ ٹھیک تو ہیں؟" وہی فکر مند انداز۔ وہ کیوں کرتا تھا اس کی اتنی فکر۔
جی! میں ٹھیک ہوں اور کچھ نہیں ہوا۔ اگر اسے نہیں معلوم تھا تو وہ خود۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے شوہر کی کسی کمزوری سے اسے آگاہ نہیں کرے گی۔
اور بتاتی بھی تو کیا، کہ اس نے عبدالرحمن کے ساتھ دیکھا ہے جہان کو؟ اور وہ ان کی باتیں؟
ان ساری باتوں کو از سر نو یاد کرتے ہوئے وہ ٹھہر سی گئی۔ عبدالرحمن نے اسے ٹیکسٹ کر کے بلایا تھا۔ جب وہ پینٹری کی کھڑکی کے قریب پہنچی تو اسے وہاں پاشا کا چہرہ سامنے دکھائی دے رہا تھا۔ ہو سکتا ہے، اس نے آتے ہی اسے دیکھ لیا ہو۔ ہو سکتا ہے وہ جان بوجھ کر یہ سب کہہ رہا ہو تا کہ وہ بد دل ہو جائے اور جہان کو چھوڑ دے۔ ہو سکتا ہے اس نے حیا کو "سیٹ اپ" کیا ہو۔ آخر! اس نے جہان کی طرف کی کہانی تو نہیں سنی تھی۔ ابھی پورا مہینہ حائل تھا، اس کی اور جہان کی ملاقات میں۔ تب تک وہ۔۔۔۔۔۔۔
"حیا؟ وہ چونکی، پھر سر جھٹکا۔
"یہ جو آپ کی فلیش ڈرائیو پہ پاس ورڈ ہے، اسے کھول کر کوئی اور پزل بھی نکلے گا کیا؟"
"نہیں! یہ آخری لاک ہے۔ پھر میری امانت آپ دیکھ لیں گی۔"
"اور اس کا پاس ورڈ کیا ہے؟"
"وہ تو آپ جیسی ذہین خاتون کو چند منٹ میں ہی مل جائے گا۔"
اچھا! آپ طنز کر رہے ہیں؟ وہ بے اختیار ہنس دی۔
نہیں! سچ کہہ رہا ہوں۔ بہت ہی آسان ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میرے پزل کا آخری ٹکڑا ابھی جوڑ لیں گی۔"
"ٹھیک ہے! اگر مجھے آپ کی مزید ضرورت نہیں ہے تو پھر آپ آئندہ مجھے کال مت کیجئے گا۔ میں مزید آپ سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی۔ اس کا لہجہ بہت خشک ہو گیا تھا۔ چند ثانیے وہ کچھ کہہ نہیں پایا ۔۔۔
"مگر آپ کے شوہر کو تو علم ہے، پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی آواز میں دکھ سا تھا۔
"میں بغیر کسی ضرورت کے آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی اور اب مجھے ضرورت نہیں رہی۔ اس لیے آئندہ میں آپ کی کال اٹینڈ نہیں کروں گی۔ خدا خافظ۔"
کسی لمبی بحث سے بچنے کے لیے اس نے از خود کال بند کر دی۔ احمد نے فورا دوبارہ کال کی۔ اس نے نہیں اٹھائی۔ اب اسے احمد کی مزید کال نہیں اٹھانی تھی۔ کل کو کوئی اونچ نیچ ہوئی تو سب سے پہلے اس کا حجاب بدنام ہو گا۔ وہ جانتی تھی کہ اب سے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
اس نے موبائل تکیے پہ ڈال دیا۔ احمد سے قطع تعلق کر کے اسے کوئی افسوس نہیں ہوا تھا۔ وہ اس کے لیے کبھی بھی، کچھ بھی نہیں رہا تھا۔ وہ مطمئن تھی۔
••••••••••••••
اس شام وہ کچن میں کھڑی سلاد تیار کر رہی تھی۔ فاطمہ بھی ساتھ ہی کام میں مصروف تھیں۔ نور بانو برتن دھو رہی تھی۔ ابا لاونج میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ وہ ذرا بلند آواز میں ان تینوں افراد کی مصروفیات سے بے نیاز ان کو ترکی کی باتیں سنا رہی تھی۔ جب اپنے اندر کی اداسی، جہان کی خاموشی اور یادوں سے تنگ آ جاتی تو اسی طرح بولنے لگ جاتی اور آج کل تو اس کی ہر بات ترکی سے شروع ہو کر ترکی پہ ختم ہوتی تھی۔ سفر نامہ استنبول، یہ وہ موضوع تھا جس سے گھر والے اب بور ہو چکے تھے۔ مگر وہاں پرواہ کسے تھی۔
اپنے گھر میں یہ سہولت تھی کہ کوئی مرد ملازم نہ تھا۔ تایا فرقان کا کک ظفر بہت ہی کم ادھر آیا کرتا تھا۔ ان کا خاندان ویسے بھی روایتی تھا۔ تایا کی تربیت تھی کہ روحیل نہیں ہے تو ان کے بیٹوں کو ادھر نہیں آنا اور خود بہت کم، سوائے کسی کام کے، ادھر نہیں آتے تھے۔ سو وہ اپنے گھر میں آزادی سے گھوم پھر سکتی تھی۔
"پتا ہے نور بانو! وہاں ٹاپ قپی پیلس کے پیچھے والے ریسٹورنٹ میں کیا ملتا تھا؟"
اب نور بانو کے فرشتوں کو بھی نہیں پتا تھا کہ ٹاپ قپی پیلس کس جگہ کا نام ہے۔ وہ بے چار گی سے نفی میں سر ہلائے گئی۔ مگر وہاں جواب کا انتظار کر کون رہا تھا۔ وہ کٹنگ بورڈ پہ سبزیاں کھٹ کھٹ کاٹتی بولتے چلی جا رہی تھی۔
"وہاں ایک مشروب ملتا تھا، ایران نام کا، بالکل لسی کی طرح تھا۔ اتنا مزے دار کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ میں ریسیپی لائی ہوں۔ کبھی مل کر بنائیں گے۔"
لاؤنج میں رکھا لینڈ لائن فون بجنے لگا تو ابا نے ہاتھ
بڑھا کر ریسیور اٹھایا۔ حیا نے گردن اٹھا کر ان کو دیکھا۔ لاؤنج اور کچن کی درمیانی دیوار اوپر سے آدھی کھلی تھی، سو وہ ان کو باآسانی دیکھ سکتی تھی۔
ہاں سبین! کیسی ہو؟ وہ اب مسکرا کر بات کرنے لگے تھے۔
اس کا دل زور سےدھڑکا۔ لمحے بھر کو اسے ٹاپ قپی اور ایران بھول گیا۔ وہ بالکل چپ سی ہو گئی، ذرا سست روی سے ہاتھ چلانے لگی۔ سماعت ادھر ہی لگی تھی۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ کب؟ ابا کے تاثرات بدلے۔ وہ ایک دم سیدھے ہو کر بیٹھے۔
اس نے چھری گاجر میں لگی چھوڑ دی اور پریشانی سے ابا کو دیکھا۔ کہیں کچھ غلط تھا ۔
انا للہ و انا الیہ راجعون! وہ بہت دکھ سے کہہ رہے تھے۔ فاطمہ بھی جیسے گھبرا کر باہر گئیں۔ تب تک ابا فون رکھ چکے تھے۔ 
کیا ہوا؟ فاطمہ پریشانی سے پوچھ رہی تھیں۔ حیا اسی طرح مجسمہ بنے کھڑی، سانس روکے ان کو دیکھ رہی تھی۔
سکندر کا انتقال ہو گیا ہے۔
ابا کے الفاظ نے پورے لاؤنج کو سکتے میں ڈال دیا۔ ملال بھرے سکتے میں۔ حیرت، شاک، دکھ، وہ ملی جلی کیفیات میں گھری کھڑی تھی۔ 
وہ لوگ ایک، دو روز میں باڈی لے کر آ رہے ہیں۔ میں فرقان بھائی کو بتا دوں۔ ابا تاسف سے کہتے فون اٹھا کر نمبر ملانے لگے۔
ایک لمحہ، بس ایک لمحہ انسان سے اس کی شناخت چھین کر اسے باڈی بنا دیتا ہے۔ 
اس کے اندر کہیں بہت سے آنسو گرے تھے۔ بےاختیار اسے ڈی جے یاد آئی تھی۔
•••••••••••••••••••
سلیمان صاحب کے بنگلے پہ فوتگی والے گھر کی سوگواریت چھائی تھی۔ لان میں قنات لگا کر مردوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ جبکہ خواتین اندر لاؤنج میں تھیں، جہاں فرنیچر ہٹا کر چاندنیاں بچھا دی گئی تھیں درمیان میں کھجور کی گٹھلیوں کا ڈھیر تھا۔ رشتےدار خواتین سادہ حلیوں میں تھیں، مگر عابدہ چچی، سحرش اور ثنا بالکل سفید، نئے لباس پہن کر آئی تھیں۔ پتا نہیں یہ رواج کہاں سے چل نکلے تھے۔ اس نے البتہ چاکلیٹی رنگ کی لمبی قمیض، چوڑی دار کے ساتھ پہن رکھی تھی۔ ہم رنگ دوپٹا ٹھیک سے سر پہ لیے، گٹھلیاں پڑھتے وہ لاشعوری طور پہ ایسی جگہ بیٹھی تھی، جہاں سے کھڑکی کے باہر لان صاف نظر آتا مگر باہر والوں کو اندر نظر نہیں آتا تھا کہ دوپہر کا وقت تھا اور کھڑکیوں کے شیشے باہر سے ری فلیکٹ کرتے تھے۔ لان میں خاندان کے مرد جمع تھے۔ ابا، تایا اور کچھ کزنز البتہ نہیں تھے۔ وہ لوگ پھپھو اور میت کو لینے ایر پورٹ گئے تھے۔ آج تین روز بعد سکندر انکل کی باڈی کلیئرنس حاصل کر کے اپنے ملک لائی جا رہی تھی۔ اور وہ صرف یہ سوچ رہی تھی کہ وہ جہان کا سامنا کیسے کرے گی؟
خیر! خفت اسے ہونی چاہیے، نہ کہ حیا کو۔ وہی قصوروار تھا، وہی پاشا کا ساتھی تھا اور اتنی مضبوط تو وہ تھی ہی کہ اپنے تاثرات چہرے پر نہیں آنے دے گی۔ جو بھی ہو گا، دیکھا جائے گا۔ اس کے باوجود جب باہر شور سا مچا اور وہ لوگ پہنچ گئے تو اس کا دل اتنی زور سے دھڑکنے لگا کہ وہ خود حیرت زدہ رہ گئی۔
اتنے برس بعد پھپھو آئی تھیں، وہ بھی تابوت کے ساتھ۔ لاؤنج کے دروازے پر خواتین ان سے ملتے ہوئے رو رہی تھیں۔ اونچا بین، بلند سسکیاں۔ وہ دور دراز کی رشتہ دار عورتیں جو ہر شادی میں سب کی طرف سے گاتی اور ہر فوتگی میں سب کی طرف سے روتی تھیں، سب سے آگے تھیں۔ 
پھپھو بہت نڈھال لگ رہی تھیں۔ بھیگی آنکھوں کے ساتھ فاطمہ سے مل رہی تھیں۔ وہ سب ہی کھڑے ہو چکے تھے۔ لڑکے تابوت اندر لا رہے تھے۔ حیا ذرا ایک طرف ہو گئی۔ اور دوپٹے کا پلو ذرا ترچھا کر کے چہرے پہ ڈال کے، ہاتھ سے پکڑ لیا۔ دوپٹا پیشانی سے کافی آگے تھا اور یوں ترچھا کر کے ڈالنے سے گال، ہونٹ، ناک سب چھپ گیا تھا۔ یہ اس کا غیر محسوس سا نقاب تھا۔ اب اگر وہ نقاب کرتی ہی تھی تو منافقت کیسی کہ باہر کے مردوں سے کرے اور کزنز سے نہ کرے؟ ایک فیصلہ کیا ہے تو اسے صحیح سے نبھائے بھی۔
مرد باہر چلے گئے تو وہ آگے بڑھ کر پھپھو کے گلے لگی۔ 
حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کہاں چلی گئی تھیں؟ جہان بہت اپ سیٹ تھا۔ بے آواز آنسو بہاتی پھپھو اس سے الگ ہو کر آہستہ سے بولی تھیں۔ وہ سخت شرمندہ ہوئی۔ کیا تھا اگر پھپھو کو ایک فون ہی کر لیتی؟ اس نے جواب نہیں دیا۔ جواب تھا بھی نہیں۔
پھر جب وہ اپنی جگہ پر آ کر بیٹھی تو نگاہ کھڑکی پہ پھسل گئی۔ باہر لگے مجمعے میں وہ جہان کو کھوجنے لگی اور پھر ایک دم چونکی۔
اس نے بہت سی باتیں سوچی تھیں۔ جہان اتنا غیر متوقع تھا کہ اس سے کچھ بعید نہیں تھا کہ وہ اس کے ساتھ کیسا رویہ رکھے گا، مگر جو جہان نے کیا، وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی

جہان سکندر پاکستان آیا ہی نہیں تھا۔ 
جہان نہیں آیا چچی! فرخ پتا نہیں کب اندر آیا تھا اور قریب ہی کھڑا فاطمہ کو بتا رہا تھا۔ پھپھو بتا رہی تھیں کہ وہ کاموں میں پھنسا ہوا ہے۔ 
فرخ بتا کر آگے بڑھ گیا۔ فاطمہ تو فاطمہ وہ خود بھی ششدر رہ گئی۔ ایسی بھی کیا مجبوری کہ بندہ باپ کے جنازے پہ بھی نہ آئے۔ وہ اتنی حیران تھی کہ گٹھلیاں بھی نہیں پڑھ پا رہی تھی۔ وہ ایسا کیسے کر سکتا تھا۔ صرف حیا کا ساتھ دینے وہ ڈی جے کے وقت آ سکتا تھا تو اپنے باپ کے ساتھ کیوں نہیں۔۔۔۔۔؟
جب تک انسان دوسرے کی جگہ پہ کھڑا ہو کر نہیں دیکھتا، اسے پوری بات سمجھ نہیں آتی۔
کہیں دور سے جہان کی آواز ابھری تھی۔ شاید وہ وضاحت اس نے اسی لمحے کے لیے دی تھی۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیوں نہیں آیا! کیوں!
••••••••••••••••
سب بہت متاسف اور غم زدہ سے تھے۔ گھر میں خاموشی نے سوگواریت طاری کی ہوئی تھی۔
اگلے روز قل تھے۔ گھر میں کچھ کرنے کے بجائے تایا اور ابا نے وہی کیا تھا، جس کا رواج آج کل اسلام آباد میں چل نکلا تھا۔ تمام عزیز و اقارب کو کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں ڈنر کے لیے فیملی واؤچرز دے دیے گئے کہ بمع خاندان جا کر ڈنر کریں اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے دعا کریں۔ اسلام آباد بھی کبھی کبھی اسے لگتا کہ استنبول بنتا جا رہا ہے۔ اس سے یہ ہوا کہ لوگوں کے سوال اور گڑے مردے اکھاڑے جانے سے تایا اور ابا محفوظ رہے۔ مگر حیا نے سوچا ضرور کہ تایا فرقان کے اسلام کو اب کیا ہوا؟
فاطمہ فون سننے اٹھیں تو وہ کافی کا کپ لیے پھپھو کے پاس آ گئی۔ وہ اکیلی بیٹھی تھیں۔ خاموش، تھکی ہوئی۔ ایک سفر تھا جو تمام ہوا۔ ایک مشقت تھی جو ختم ہوئی۔
تھینک یو بیٹا! اس نے کپ بڑھایا تو وہ چونکیں، پھر بھیگی آنکھوں سے مسکرائیں اور کپ تھام لیا۔ 
تمہارے ساتھ بیٹھ ہی نہیں سکی۔ 
شرمندہ مت کریں پھپھو! میری ہی غلطی ہے، میں نے سوچا، جہان کو میرا میسج مل گیا ہو گا اور وہ آپ کو بتا دے گا۔ ایک مبہم سی وضاحت دے کر وہ اپنا کپ لیے ان کے ساتھ آ بیٹھی۔ 
نہیں! وہ کہہ رہا تھا، تم بغیر بتائے چلی گئی ہو۔ بہت پریشان تھا۔ شاید کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔
وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آیا کیوں نہیں؟ سرسری سے انداز میں اس نے پوچھ ہی لیا۔
وہ چند لمحے اسے دیکھتی رہیں، جیسے فیصلہ نہ کر پا رہی ہوں کہ وہ کتنا جانتی ہے۔ 
وہ ترکی سے باہر گیا ہوا تھا۔ فلائٹ کا مسئلہ تھا کچھ ابھی ایک دو روز میں آ جائے گا۔ 
پھر آپ کو تو بہت مشکل ہوئی ہو گی، اکیلے سب کچھ مینج کرنا۔
حیا! میں نے ساری زندگی سب کچھ تنہا ہی مینج کیا ہے۔ میرے ساتھ تب بھی کوئی نہیں تھا، جب میں اور میرا بیٹا جلا وطنی کاٹ رہے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ نرمی سے کہہ رہی تھیں۔ اور اب تو میں اتنی مضبوط ہو چکی ہوں کہ اپنے مسئلے حل کرنے کے لیے مجھے اپنے خاندان کے مردوں کے سہارے کی ضرورت نہیں رہی۔
وہ بس ان کو دیکھے گئی۔ ان کے چہرے کی لکیروں میں برسوں کی مشقت کی داستان تھی، جسے پڑھنے کی آنکھ حیا کے پاس نہیں تھی۔
تمہیں بھی اتنا ہی مضبوط بننا چاہیے۔
ان کی آخری بات پر وہ بے اختیار چونکی تھی۔ 
یہ ماں بیٹا بعض اوقات کتنی مبہم باتیں کر جاتے تھے۔
•••••••••••••••••••
وہ گہری نیند میں تھی، جب کوئی آواز سیٹی کی طرح اس کی سماعت میں گونجی۔ کافی دیر بعد اس نے بھاری پپوٹے بمشکل اٹھائے اور اندھیرے میں جلتے بجھتے روشنی کے منبع کی طرف دیکھا۔
موبائل۔
بدقت اس نے بازو بڑھا کر بجتا ہوا موبائل اٹھایا۔
جہان کالنگ۔
اس کی ساری نیند اڑ گئی۔ رات کے تین بج رہے تھے۔ وہ ایک دم اٹھ بیٹھی اور کال پک کی۔ ساری ناراضگی رات کی خاموشی میں تحلیل ہو گئی تھی۔
جہان؟ اس کی آواز ابھی بھی نیند سے بوجھل تھی۔
حیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ! وہ دھیمی آواز میں کہتا ذرا رکا۔ کیسی ہو؟
میں ٹھیک ہوں اور تم؟ بیڈ کراؤن کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے اس نے ریموٹ اٹھا کر اے سی آف کیا۔ کمرہ بہت ٹھنڈا ہو چکا تھا۔
فائن۔ تم سو رہی تھیں؟ 
ہاں!
اس وقت میں فٹبال تو کھیلنے سے رہی، اس نے سوچا۔
ممی سو رہی ہیں؟ 
ظاہر ہے! اٹھاؤں انہیں؟
نہیں، نہیں! ان کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا۔ ماموں ہیں یا ڈرائیور؟ وہ جیسے سوچ سوچ کر بول رہا تھا۔
نہیں! ابا اور اماں شام میں لاہور گئے ہیں۔ کوئی فوتگی ہو گئی تھی۔ صبح ہی آ جائیں گے، کیوں؟ وہ ایک دم چونکی۔ تم کہاں ہو؟ 
میں ایر پورٹ پہ ہوں اور مجھے تمہارے گھر کا راستہ معلوم نہیں ہے۔ تم مجھے لینے آ سکتی ہو؟
اوہ ہاں! تم رکو۔ میں آ رہی ہوں۔ وہ لحاف پھینک کر تیزی سے بستر سے اتری۔
منہ دھو کر عبایا پہن کر وہ چابی لیے خاموشی سے باہر نکل آئی۔ ڈرائیور ابا کے ساتھ گیا تھا۔ ویسے بھی وہ پارٹ ٹائم تھا۔ ایسے میں وہ خود جائے، اس کے علاوہ دوسرا کوئی حل نہیں تھا۔ 
اسلام آباد کی خوبصورت، صاف ستھری سڑکیں خالی پڑی تھیں۔ ابھی رات باقی تھی۔ اسٹریٹ پولز کی زرد روشنی سڑک کو جگمگا رہی تھی۔ ایر پورٹ پر پہنچ کر اس نے جہان کو کال کر کے آنے کا پیغام دیا۔ اس کا ترکی کا نمبر رومنگ پہ تھا۔ 
السلام علیکم! چند ہی منٹ بعد وہ دروازہ کھول کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھا۔ ایک چمڑے کا بھورا دستی بیگ اپنے قدموں میں رکھا اور سیٹ بیلٹ پہننے لگا۔
وعلیکم السلام! اگنیشن میں چابی گھماتے ہوئے حیا نے ذرا کی ذرا نگاہ پھیر کر اسے دیکھا۔ وہ سیاہ پینٹ پہ آدھے آستین والی گرے شرٹ پہنے ہوئے تھا۔ وہی ماتھے پر گرتے ذرا بکھرے بکھرے بال۔ ائلیر پورٹ کی بتیاں اندھیرے میں اس کے چہرے کو نیم روشن کیے ہوئے تھیں۔ وہ اسے پہلے سے ذرا کمزور لگا۔ اسے ترکی سے آئے ڈیڑھ ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا، مگر پھر بھی فرق واضح تھا۔
کار سڑک پر رواں دواں تھی۔ دونوں خاموش تھے۔ آخری ملاقات کا تناؤ اور بوجھل پن ابھی درمیان میں حائل تھا۔
ممی اٹھیں تو نہیں؟ 
نہیں! وہ ذرا دیر کو رکی۔ تم آئے کیوں نہیں؟ سب پوچھ رہے تھے۔
مصروف تھا۔ وہ گردن ذرا ترچھی کیے باہر ویران اندھیری سڑک کو دیکھ رہا تھا۔ وہ خاموش ہو گئی۔ کہنے کو جیسے کچھ نہیں تھا۔
کیا تم پہلے مجھے قبرستان لے جا سکتی ہو؟ 
حیا نے سر ہلا دیا۔ قبرستان گھر سے ذیادہ دور نہ تھا۔ جلد ہی وہ پہنچ گئے۔ باہر نیلا سا اندھیرا چھایا تھا۔ سوالیہ نشان کی صورت بنے سات بہن بھائی ، ستارے آسمان پہ چمک رہے تھے۔
پھوپھا کی قبر آپ کے دادا کی قبر کے ساتھ ہی ہے۔ حیا نے اسے بتایا۔
احاطے میں جہان کے والد اور دادا کی قبریں داخلی دروازے کے ساتھ ہی ایک طرف تھیں۔ ایک درخت اس کے دادا کی قبر پہ سایہ کر رہا تھا۔ وہ سینے پر بازو لپیٹے قبرستان کے دروازے پر ہی کھڑی ہو گئی۔ یہاں سے وہ جہان کو باآسانی دیکھ سکتی تھی۔ جہان آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا دونوں قبر کے پاس آیا پھر دھیرے سے وہ سکندر شاہ کی قبر کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتا گیا۔ دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اب وہ دعا مانگ رہا تھا۔ حیا اس کے عقب میں تھی، سو اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھی۔ 
دعا کے بعد وہ کافی دیر سر جھکائے، ایک پنجے کے بل قبر پر بیٹھا رہا۔ انگلی سے وہ مٹی پر لکیریں کھینچ رہا تھا، پھر جب وہ اٹھا تو حیا جانے کے لئے پلٹ گئی۔
گھر آ کر وہ اندر داخل ہوا تو حیا نے آہستگی سے لاؤنج کا دروازہ بند کیا اور دو انگلیوں سے نقاب نیچے کھنچتے ہوئے اتارا۔
تم آرام کر لو۔ میں اوپر کمرا دکھاتی ہوں۔ وہ اجنبی سے انداز میں کہتی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ جہان خاموشی سے اس کے پیچھے اوپر آیا۔ دستی بیگ ہاتھ سے پکڑ کر کندھے پہ ڈال رکھا تھا۔ 
حیا دروازہ کر ایک طرف کھڑی ہو گئی صاف ستھرا سا گیسٹ روم۔
کچھ کھاؤ گے؟ اس نے چوکھٹ پہ کھڑے کسی رسمی میزبان کے لہجے میں پوچھا۔ جہان نے بیگ بیڈ پہ رکھا اور ساتھ بیٹھا۔ 
بس ایک کپ چائے۔ میرے سر میں درد ہے۔ وہ جھک کر جوگرز کے تسمے کھول رہا تھا۔
وہ الٹے قدموں واپس پلٹی۔ چند منٹ بعد جلدی جلدی چائے بنا کر لائی۔
وہ بیڈ پر نیم دراز آنکھوں پہ بازو رکھے ہوئے تھا۔
چائے! اس نے کپ سائیڈ ٹیبل پہ رکھا۔ وہ ہلا تک نہیں۔
جہان! 
مگر وہ سو چکا تھا۔
حیا کی نگاہیں اس کے پاؤں پہ پھسلیں۔ جوگرز کے تسمے کھول چکا تھا، مگر اتارے نہیں۔ پتا نہیں کیوں اسے ترس سا آیا۔ شاید وہ تھکا ہوا تھا۔ شاید بیمار تھا۔ اس نے اے سی آن کیا اور دروازہ بند کر کے باہر آ گئی۔ 
صبح وہ دیر سے اٹھی۔ لاؤنج میں آئی تو پھپھو اور فاطمہ چائے پی رہی تھیں۔ گیارہ بج چکے تھے۔
نور بانو! میرا ناشتہ! نوری بانو کو پکار کر وہ ان کے پاس آ بیٹھی۔ فاطمہ لاہور والوں کا تذکرہ کر رہی تھیں۔
آپ لوگ کب آئے؟
صبح آٹھ بجے پہنچ گئے تھے۔ تم سو رہی تھیں۔ فاطمہ مسکرا کر کہنے لگیں۔ 
ہوں، اچھا! جہان اٹھ گیا؟ حیا کی نگاہ سیڑھیوں کے اوپر پھسلی تو یونہی لبوں سے نکلا وہ دونوں ایک دم اسے دیکھنے لگیں۔
جہان؟
اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک دم سیدھی ہوئی۔ وہ صبح پہنچ گیا تھا۔ اوپر کمرے میں ہے۔ آپ کو نہیں پتا چلا؟
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ آ گیا؟ سبین سکندر کے چہرے پہ ایک دم چمک سی ابھری۔ خوش گوار سی حیرت۔ وہ باپ کے جنازے کے تیسرے دن پہنچ رہا ہے، مگر ادھر کوئی ناراضی نہیں۔
جی! میں دیکھتی ہوں۔ وہ خود ہی اٹھ آئی۔
اوپر اس کے کمرے کا دروازہ کھولا تو یخ بستہ ہو چکا تھا۔ اے سی تب کا آن تھا۔ اس نے جلدی سے اے سی بند کیا اور پنکھا چلا دیا۔
جہان اسی حالت میں جوتوں سمیت لیٹا تھا۔ آنکھوں پر بازو رکھے۔ وہ شاید نیند میں بھی کسی کو اپنی آنکھیں نہیں پڑھنے دیتا تھا۔ تپائی پہ دھری چائے پرانی اور ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ سوچا، اٹھا لے، پھر خیال آیا کہ رہنے دے۔ اس کو پتا تو چلے کہ وہ اس کے لیے چائے لے آئی تھی۔
وہ دوپہر کے کھانے تک بھی نہیں اٹھا۔ پھپھو اس کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی تھیں، سو اس کے اٹھنے کا انتظار کر رہی تھیں۔ سہ پہر میں زارا آ گئی۔ موسم اچھا تھا۔ دونوں نے شاپنگ پلان کر لی، مگر جب وہ عبایا پہن کر باہر آئی تو پھر سے ایکشن ری پلے شروع ہو گیا۔ 
تم نے عبایا کب سے لینا شروع کر دیا؟ 
وہی حیرت، سوال، تفتیش، تشویش۔
ایک لمبا اور جامع سا جواب دے کر بھی اسے لگا کہ زارا غیر مطمئن ہے اور غیر آرام دہ بھی۔ شاپنگ کرتے، جوتے دیکھتے، کپڑے نکلواتے اور پھر آخر میں راحت بیکرز کے سامنے پارکنگ لاٹ میں بیٹھے ”اسکوپ“ کا سلش پیتے ہوئے زارا بار بار ایک غیر آرام دہ نگاہ اس پہ ڈالتی۔ جو پورے اعتماد سے عبایا اور نقاب میں بیٹھی، سلش پی رہی تھی۔ 
یار! چہرے سے تو اتار دو۔
زارا! میرا نہ دم گھٹ رہا ہے، نہ ہی مرنے لگی ہوں۔ میں بالکل کمفرٹیبل بیٹھی ہوں۔ اگر تم نہیں ہو تو بتاؤ۔ وہ ایک دم بہت سنجیدگی سے کہنے لگی۔
وہ حیا سلیمان تھی۔ وہ عائشے گل کی طرح ہر بات نرمی سے سہہ جانے والی نہیں تھی۔ جب وہ اپنے زمانہ جاہلیت کے لباس پر کسی کو بولنے کا موقع نہیں دیتی تھی تو اب نقاب پر کیوں کسی کو بولنے دے؟ صرف حجابی لڑکی صبر کیوں کرے؟ اس کی رائے میں بہت زیادہ چپ رہنے کو بھی کمزوری سمجھا جاتا تھا۔ 
نہیں، نہیں! میں تو تمہارے لئے کہہ رہی تھی۔ زارا ذرا بوکھلا گئی تھی۔ 
وہ سر جھٹک کر سلش پینے لگی۔
باہر پارکنگ لاٹ میں چند ماہ پہلے کے مناظر اب بھی رقم تھے۔ ڈولی اسے سب سے پہلے اسی جگہ پہ ملا تھا۔ میجر احمد یعنی پنکی سے مل کر اسے جو الجھن ہوتی تھی کہ وہ پنکی کیسے بنا، اب وہ ختم ہو گئی تھی۔ وہ تو اس کی جاب کا حصہ تھا۔ پتا نہیں، وہ یہ بات پہلے کیوں نہیں سمجھ سکی؟ 
وہ واپس آئی تو دل ذرا بوجھل تھا۔ زارا اور اس کا مدار اب مختلف ہو گیا تھا۔ پتا نہیں، ڈی جے اگر ہوتی تو کیسا ردعمل دیتی؟ اب اجنبی کا ٹیگ جو پیشانی پر لگ گیا تھا۔
لاؤنج میں سب بڑے بیٹھے تھے۔ تایا، تائی، ابا، اماں، پھپھو اور سامنے ایک صوفے پر سنجیدہ سا بیٹھا جہان۔ وہی صبح والے کپڑے، مگر بال گیلے تھے۔ شاید ابھی ابھی فریش ہو کر نیچے آیا تھا۔ وہ سلام کر کے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ دروازے پر پہنچ کر اسے لگا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ اس نے بے اختیار پلٹ کر دیکھا۔ جہان تایا فرقان کی طرف متوجہ تھا۔ وہ اسے نہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ سر جھٹک کر اندر آ گئی۔ 
دوبارہ اس کی جہان سے ملاقات رات کے کھانے پر ہوئی۔
وہ ذرا دیر سے ڈائننگ ٹیبل پہ پہنچا تھا۔ ابا مرکزی کرس پہ تھے۔ حیا، فاطمہ کے ساتھ ایک طرف تھی۔ جہان نے جو کرسی کھینچی، وہ حیا کے مدمقابل تھی، مگر وہ اسے نظرانداز کر رہی تھی۔ وہ بھی یہی کر رہا تھا۔ بلکہ وہ تو شاید ہمیشہ سے یہی کرتا آیا تھا۔
کتنی چھٹی ہے تمہاری؟ ابا کھانے کے دوران پوچھنے لگے۔ وہ سر جھکائے، کانٹے سے سلاد کا ٹکڑا اٹھاتے ہوئے بولا۔
کچھ کنفرم نہیں ہے۔
چھٹی کیسی؟ اپنا ریسٹورنٹ ہے اس کا۔ بلکہ پاشا کا۔ اس نے تلخی سے سوچا۔
ایک ڈیڑھ ہفتہ تو ہوں، پھر شاید چلا جاؤں۔­­ ممی کو یہیں اپارٹمنٹ لے دوں گا۔
حیا نے چونک کر سر اٹھایا۔ 
پھپو! آپ اب یہیں رہیں گی؟ اس کے چہرے پہ خوش گوار سی حیرت امڈ آئی تھی۔ سبین پھپھو نے ہلکی سی مسکراہٹ کےساتھ سر اثبات میں ہلا دیا۔ 
صرف سکندر کے لیے وہاں تھی۔ اب ادھر رہنے کا جواز نہیں ہے۔
تو جہان! آپ بھی یہیں شفٹ ہو جاؤ۔ 
فاطمہ نے ذرا دبے دبے سے جوش سے کہتے ہوۓ ایک نظر سلیمان صاحب کو دیکھا۔ وہ بھی ذرا امید سے جہان کو دیکھنے لگے۔ وہی، بیٹی­­ کو اپنے قریب رکھنےکی خواہش۔ 
اور اپارٹمنٹ کی کیا ضرورت ہے؟ یہی گھر ہے سبین کا۔ 
جہان ہلکا سا مسکرایا۔ وہ پورے دن میں پہلی دفعہ مسکرایا تھا۔
رہنے دیں مامی! میرےنصیب میں پاکستان میں رہنا لکھا ہی نہیں ہے۔ 
اس کی آواز میں کچھ تھا کہ حیا ہاتھ روک کر اسے دیکھنے لگی۔ وہ سر جھکاۓ کھانا کھا رہا تھ­­ا، مگر چہرے پہ وہی مسکراہٹ، وہی چمک تھی، جو وہ کبھی کبھی اس کے چہرے پہ دیکھا کرتی تھی۔ خاص موقعوں پہ، خاص باتوں پہ۔ 
خیر! کبھی وہ اس کی وجہ بھی جان ہی لے گی۔ وہ دھیرے سے سر جھٹک کر کھانا کھانے لگی۔
‏ •••••••••••••••••••
صبح فجر پڑھ کر سونے کی بجاۓ وہ اوپر آ گئی۔ جہان کے کمرے کے سامنے سے گزرتے­­ ہوۓ ایک نظر اس نے بند دروازے پہ ضرور ڈالی تھی۔ کچھ چیزیں کرنے سے انسان خود کو کبھی روک نہیں پاتا۔
چھت پہ ہر اطراف لہلاتے گملوں کی سرحد بنی تھی۔ ابا کا شوق، منڈیر و­­ہاں سے کافی اونچی تھی۔ منڈیر کے ساتھ ہی کین کا ایک جھولا رکھا تھا۔ اس خوب
صورت صبح میں وہ جھولے پہ آ بیٹھی اور گردن موڑ کر منڈیر کے سوراخ سے باہر دیکھا۔ منڈیر اس کے سر سے اونچی تھی، مگر ڈیزائن کے طور پر بنے بڑے بڑے سوراخوں سے نیچے کالونی اور سڑک صاف نظر آتی تھی۔ وہ یونہی ترچھی ہو کر بیٹھی کالونی پہ اترتی صبح دیکھے گئی۔ ہر سو خاموشی اور تازگی تھی۔ کبھی کبھی پرندوں کے بولنے کی آواز آ جاتی یا پھر کسی کے بھاگنے کی۔
وہ ذرا چونکی۔ دور سڑک پر کوئی بھاگتا آ رہا تھا۔ ٹریک سوٹ میں ملبوس، جاگنگ کرتا شخص۔ اسے ایک لمحہ لگا تھا پہچاننے میں۔ 
"جہ­­ان!" 
وہ حیران ہوئی تھی۔ وہ کب اٹھا، کب گھر سے نکلا، معلوم نہیں۔ وہ اسے دیکھتی رہی۔ جہان اب گھر
کے سامنے سے گزر کر مخالف سمت دوڑتا جا رہا تھا۔
وہ گردن پوری موڑ کر اس کو دیکھے گئی۔ 
چند قدم دور وہ رکا، اور ٹھٹک کر پیچھے سڑک کو دیکھا۔ جیسے اسے محسوس ہوا ہو کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ مگر وہ سڑک پر ہی دیکھ رہا تھا، اوپر نہیں۔ وہ جلدی سے جھولے پر سے اٹھی اور اندر دوڑ گئی۔ 
وہ پھر سے پکڑے نہیں جانا چاہتی تھی۔ سبز ٹیولپ، پھولوں کی مارکیٹ اور وہ دکاندار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے سب یاد تھا۔
‏ •••••••••••••••••••
جب جہان نے اس کے کمرے کا درواذہ کھٹکھٹایا تو وہ کتابیں کھولے بیٹھی تھی۔ دستک پہ چونکی اور پھر اٹھ کر دروازہ کھولا۔ اسے سامنے کھڑے دی­کھ کر دل عجیب سی متضاد کیفیات کا شکار ہونے لگا۔
حیا! کی­ا تم فارغ ہو؟ وہ بہت دوستانہ انداز میں پوچھ رہا تھا۔
ہاں! کیوں؟"اس نےدروازہ ذرا زیادہ کھول دیا تاکہ وہ بستر پر پھیلی اس کی کتابیں دیکھ کر جان لے کہ وہ ہر گز بھی فارغ نہیں ہے۔
اوکے! تم فارغ ہی ہو ٹھیک۔" اس نے سمجھ کر سر ہلایا۔ یعنی تم میرے ساتھ مارکیٹ چل سکتی ہو؟ شیور! اس نے شانے اچکا دیے۔ 
حلانکہ اسے اس پہ بہت غصہ تھا۔ وہ اس سے مخاطب بھی نہیں ہونا چاہتی تھی۔ اس نے ہمیشہ غلط بیانی ہی کی تھی۔ اسے جہان سے بہت گلے تھے، مگر پھر بھی جانے کے لیے تیار ہو گئی۔ وہ اسے انکار نہیں کر سکتی تھی۔ 
کیا خریدنا ہے؟ تاکہ اسی حساب سے مطلوبہ جگہ پہ جائیں۔
کپڑے وغیرہ۔ جلد­­ی میں نکلا تھا۔ زیادہ سامان نہیں اٹھا سکا۔ 
ایک تو جب وہ مہذب اور شائستہ ہوتا تھا تو اس سے زیادہ نرم خو کوئی نہیں تھا۔ وہ اندر ہی اندر تلملاتی ہوئی باہر آئی تھی۔ کوئی اور نہیں ملا تھا اسے ساتھ لے جانے کے لیے۔ اسے ضرور گھسیٹتا تھا اپنے ہمراہ۔
شاپ پہ اس کا ساتھ دینے کے لیے وہ بھی ریک پر کپڑوں کے ہینگرز الٹ پلٹ کر دیکھتی رہی۔ جہان ایک کرتےکا ہینگر کندھے سے لگاتے ہوۓ سامنے ­­قدآور آئینے میں خود کو دیکھ رہا تھا۔ حیا اس کےقریب ہی کھڑی تھی، سو آئینے میں وہ بھی نظر آ رہی تھی۔ اس کا عکس دیکھتے ہوۓ جہان ذرا سا مسکرایا۔ 
تم نے وہ کارٹون دیکھے ہیں ننجاٹرٹلز؟ وہ مسکراہٹ دباۓ سنجیدگی سے پوچھنے لگا تو اس نے سادگی سے سر اثبات میں ہلا دیا۔
ہاں تو؟ وہ جواب دیے بنا بےساختہ امڈ آتی مسکراہٹ دباتے ہوۓ ہینگر پکڑے پلٹ گیا۔ 
چند لمحے وہ الجھی کھڑی رہی۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہنا چاہتا تھا۔ پھر قدآور آئینے میں اپنا عکس دیکھا تو فورا سمجھ آ گیا۔ غصے کا شدید ابال اس کے اندر اٹھا تھا۔ بمشکل ضبط کرتے ہوۓ اس نے نگاہوں سے جہان کو تلاشا۔ وہ وہی کرتا لیے کاؤنٹر کی طرف جا رہا تھا۔ 
وہ بدتمیز انسان اس کے نقاب کو ننجاٹرٹلز کی آنکھوں کی پٹی سے تشبیہہ دے گیا تھا؟ اس کا موڈ واپسی کا سارا راستہ آف رہا، مگر وہاں پروا کسے تھی

کچن میں شام کی چائے دم پر چڑھی تھی۔ الائچی اور تلتے کبابوں کی ملی جلی خوشبو سارے کچن میں پھیلی تھی۔ وہ نوربانو کے سر پہ کھڑی ٹرالی میں برتن رکھوا رہی تھی۔ ذمہ دار وہ پہلے بھی تھی، مگر ترکی سے آنے کے بعد ہر کام اپنے ہاتھ سے کرنے لگی تھی۔ اب بھی نوبانو سے زیادہ وہ کام کر رہی تھی۔
باہر لاؤنج میں تایا فرقان اور صائمہ تائی آۓ بیٹھے تھے۔ 
اماں، ابا،­­ پھپھو اور جہان بھی وہیں تھے۔ کام کرتے ہوۓ مسلسل اسے احساس ہوتا رہا کہ جہان اسے دیکھ رہا ہے، مگر جب وہ رک کر گردن موڑ کر دیکھتی تو وہ کسی اور جانب دیکھ رہا ہوتا۔ 
جہان کے ساتھ ایک ہی گھر میں وہ دو دفعہ رہی تھی۔ ایک جب ڈی جے کی بار وہ اکھٹے پاکستان آۓ تھے تب اسے اپنے غم سے وقت نہ ملا تھا۔ دوسرا جب اپنی"منگنی" کی رات وہ پھپھو کے گھر رک گئی تھی اور تب جہان کو اپنی فون کال کے انتظار سے وقت نہ ملا تھا۔ یوں اب نارمل حالات میں پہلی دفعہ وہ ایک چھت تلے تھے اور اب اسے احساس ہوا تھا کہ وہ بہت بےضرر، خاموش اور دھیما سا انسان تھا۔ 
یہ اس کا ایٹی ٹیوڈ نہیں، فطرت تھی۔ اس کے پاس سے گزرتے ہوۓ وہ سلام کر لیتا، حال احوال پوچھتا اور بس۔ ہاں! گھر میں فارغ رہ رہ کر وہ اکتا جاتا تو نوربانو کے ساتھ کچن میں کبھی برتن دھونے لگ جاتا تو کبھی اسے سبزیاں کاٹ کر دیتا۔ نوربانو بےچاری حق دق رہ جاتی۔ اگر باہر جاتا تو صبح جاگنگ۔ 
اسے پہلی دفعہ معلوم ہوا تھا کہ وہ جاگنگ، واک، ورزش، ان چیزوں کا بہت خیال رکھتا تھا۔ پھر جب گھر میں بہت بور ہو گیا تو ایک دفعہ فاطمہ کے کہنے پہ حیا اسے باہر لے گئی، مگر وہ اتنا تنگ کر دینے والا تھا، یہاں سے مڑ جاؤ، وہاں لے جاؤ، نہیں! لیفٹ سے کیوں مڑ رہی ہو، رائٹ سے مڑو۔ 
کیونکہ میں رائٹ ہینڈ ڈرائیو کر رہی ہوں جہان! اب اس نے اپنی گاڑی کی چابی جہان کو دے دی تھی۔ جہاں جانا ہے، خود چلے جاؤ، جسے تاثرات کے ساتھ۔ اس کے پاس انٹرنیشنل لائسنس تھا، سو مسئلہ نہیں تھا۔ 
اب وہ کبھی کبھی باہر نکل جاتا۔ گھر کے قریب اس نے جم بھی ڈھونڈ لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ جہان کے ساتھ رہنے میں ایک مسئلہ تھا۔ وہ اتنی خاموشی سے بنا چاپ پیدا کیے گھر میں داخل ہوتا کہ پتا ہی نہ چلتا اور وہ آپ کے پیچھے کھڑا ہوتا تھا۔ اب آتے جاتے چند ایک رسمی باتوں کے علاوہ ان کی بات نہ ہو پاتی۔ چاندی کے مجسمے یا تو چٹخ چکے تھے یا بالکل پتھر چکے تھے۔ 
آج بھی وہ اسے دیکھ رہا تھا، مگر وہ اسے پکڑ نہ پائی تھی۔ وہ کچھ کہتا کیوں نہیں ہے۔ اسے الجھن ہوتی۔ وہ اسے بے اعتبار قرار دے کر چھوڑ آئی تھی۔ وہ گلہ کیوں نہیں کرتا۔ صفائی نہ دے، مگر شکایت تو کرے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن وہاں ازلی خاموشی تھی۔ 
وہ ٹرالی دھکیلتی لاؤنج میں لائی۔ دوپٹا شانوں پہ پھیلا کر اس نے لمبے بالوں کو سمیٹ کر کندھے پہ آگے کو ڈالا ہوا تھا۔ 
واقع­­ی! دل تو نہیں کرتا۔ سکندر بھائی کو گئے ہفتہ بھی نہیں ہوا، مگر وہ لوگ سمجھتے ہی نہیں۔ جلدی مچائی ہوئی ہے۔ صائمہ تائی کہہ رہی تھی۔ شاید ارم کی منگنی کا معاملہ تھا۔ 
حیا پنجوں کے بل کارپٹ پہ بیٹھی، چاۓ کے کپ پرچ میں رکھ کر باری باری سب کو پکڑانے لگی۔ 
بھابھی! آپ بالکل فکر نہ کریں۔ جب ہمیں اعتراض نہیں ہے تو لوگوں کا کیا ہے۔ آپ اللہ توکل کر کے فنکشن کی تیاری شروع کریں۔ پھپھو بہت رسان سے واضح کر رہی تھیں کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
اصل میں اسجد کے بھائی اور بھابھی باہر سے آۓ ہوۓ ہیں۔ ان کی موجودگی میں وہ فنکشن کرنا چاہتے ہیں تھینکس!­­ 
تایا نے مسکرا کر اس سے کپ پکڑا تو وہ واپس آئی اور آخری کپ جہان کی طرف بڑھایا۔ وہ جو غور سے اب تائی کی بات سن رہا تھا، ذرا سی نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا اور کپ پکڑ لیا۔ 
وہ اسی اتوار کا کہہ رہے تھے۔
تو بھائی! آپ ہاں کر دیں نا۔ مجھے خوشی ہو گی۔ اتوار کا فنکشن! حیا نےسوچا۔ کی­­ا پہنے گی؟ وہ چاۓ سے فارغ ہو کر کمرے میں آئی اور الماری کھول کر کپڑے الٹ پلٹ کرنے لگی۔ کوئی سلیو لیس تھا۔ کسی کی آستین شیفون کی تھیں۔ کسی کا دوپٹا باریک تھا۔ اس کا ایک جوڑا بھی"آئیڈیل حجابی لباس" پہ پورا نہیں اترتا تھا۔ 
دوسری الماری کو لاک لگا تھا۔ اس نے چابی نکالنے کے لیے پرس میں ہاتھ ڈالا تو انگلیاں مخملیں ڈبی سے ٹکرائیں۔ وہ مسکرا اٹھی۔ میجر احمد کا چیلنج ڈولی کی امانت۔ 
اس نے ڈبی کھولی۔ سیاہ یو ایس بی اندر محفوظ رکھی تھی۔ پزل باکس کھل گیا۔ جواہر کا لاکر بھی کھل گیا، مگر اس لاک کو کیسے کھولے؟ آخری لاک۔ اس کی تو پہیلی بھی نہیں تھی، مگر پہیلی ہونی چاہیے تھی۔ میجر احمد نے پہیلی کے بغیر کبھی کوئی پزل اسے نہیں دیا تھا۔ وہ تالے کے ساتھ اس کی چابی بھی ہمیشہ دیا کرتا تھا۔ 
"اوہ۔۔۔۔۔ ڈبی تو میں نے دیکھی ہی نہیں۔"ایک دم اسے خیال آیا۔ 
وہ بیڈ پہ آ بیٹھی اور فلیش باہر نکالی۔ وہ صاف تھی۔ کوئی لفظ، نشان وغیرہ نہیں۔ اب اس نے ڈبی اوپر نیچے سے دیکھی۔ کچھ بھی نہیں۔ اس نےاندر رکھے مخملیں فوم کو انگلیوں سے پکڑ کر باہر نکالا۔ نیچے ڈبی کے پیندے پہ سیاہ مخمل کا ایک اور ٹکڑا رکھا تھا۔ اس نے ٹکڑا نکال کر پلٹ کر دیکھا۔ 
وہاں سنہری دھاگے سے دو الفاظ سلے تھے۔
Story Swapped
اسٹوری سوپڈ؟ اس نے اچنبھے سے دہرایا۔ یہ فلیش ڈرائیو کی پہیلی تھی اس کو حل کر کے ہی وہ آخری تالا کھعل سکتی تھی۔ مگر اس سطر کا مطلب کیا تھا۔ کہ کہانی کو ”Swap“ کرنے سے کیا مراد ہوا بھلا؟ کیا یہ سطر انگریزی گرائمر کے لحاظ سے درست بھی تھی؟ ادل بدل کی گئی کہانی؟ کہانی کو Swap کرنے سے مراد تو یہی ہوتا ہے نا! کہ آپ اپنی کہانی کسی کو پڑھنے دیں اور وہ بدلے میں اپنی کہانی آپ کو پڑھنے دے۔ اس عجیب سی سطر کا یہی مطلب نکلتا تھا۔ مگر کون سی کہانی؟
شاید پروفیسر گوگل کچھ کر سکے۔ یہی سوچ کر اس نے کمپیوٹر آن کیا اور گوگل پہ یہی الفاظ لکھ کر ڈھونڈا، مگر لاحاصل۔ دو متفرق سے الفاظ تھے جن کو احمد نے جمع کر دیا تھا۔ یہ کل بارہ حروف تھے، سو پاس ورڈ نہیں ہو سکتے تھے۔، مگر پاس ورڈ ان ہی میں چھپا ہوا تھا۔
رات سونے سے پہلے تک وہ ان ہی دو الفاظ کو سوچتی رہی تھی۔ مگر کسی بھی نتیجے پہ پہنچنے سے قبل ہی نیند آ گئی۔
•••••••••••••••••••••••
ارم کی منگنی کا فنکشن تایا فرقان کے لان میں منعقد کیا گیا تھا۔ فنکشن خواتین کا تھا۔ مردوں کا انتظام باہر تھا، مگر تیار ہوتے وقت وہ جانتی تھی کہ یہ فنکشن بھی اتنا ہی سیگریگیٹڈ ہو گا، جتنا داور بھائی کہ مہندی کا فنکشن تھا۔ برائے نام ”زنانہ حصہ“ جہاں ویٹرز، مووی میکر، لڑکے کزنز، سب آ جا رہے ہوں گے۔ پتا نہیں، پھر بےچارے باقی مردوں کو علیحدہ کیوں بٹھایا جاتا تھا، یا پھر ایسی شادیوں کو سیگریگیٹڈ کہنے کی منافقت کیوں تھی؟ سوسائٹی کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معیارات جن پہ کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ اس نے اپنی بائیس سالہ زندگی میں کبھی کوئی مکلمل سیگریگیٹڈ شادی نہیں دیکھی تھی۔ تایا کی سختی تھی کہ منگنی پہ دلہا نہیں آئے گا، انگوٹھی ساس پہنائے گی، مگر جو خاندان کے لڑکے کام کے بہانے چکر لگا رہے ہوں گے، ان پر کوئی پابندی نہیں تھی۔
باہر وہ عبایا لیتی تھی۔ اصولا اسے ادھر بھی عبایا لینا چاہیے تھا، مگر منگنی کا فنکشن برائے نام ہی سہی تھا تو سیگریگیٹڈ۔ لڑکے وغیرہ تھے، مگر وہ ذرا دور تھے۔ وہ مکمل طور پر مکسڈ گیدرنگ نہیں تھی۔
عبایا کا مقصد زینت چھپانا اور چہرہ چھپانا ہی تھا تو وہ یہ کام اپنے لبا سے بھی کر سکتی تھی، سو اس نے عبایا نہیں لیا، مگر لباس کا انتخاب عبایا کے متبادل اور مترادف کے طور پر کیا۔
کچے سیب کے رنگ کا سبز پاؤں کو چھوتا فراک، نیچے ٹراؤزر اور کلائی تک آتی آستین۔ یہ ایک مشہور برانڈ کا جوڑا تھا اور اس کے ساتھ نیٹ کا ڈوپٹا تھا، سو اس نے الگ سے بڑا سا ڈوپٹا بنوا لیا تھا، کچے سیب کے رنگ کا۔ یوں گلے کا کام ڈوپٹے میں چھپ گیا۔ چہرے کے گرد بھی دوپٹا یوں لپیٹا کہ وہ پیشانی سے کافی آگے تھا۔ کان بھی چھپ گئے۔ سہولت تھی کہ کسی آدمی کو دیکھتے ہی وہ تھوڑی سے انگلی ڈوپٹا پکڑ کر اوپر لے جا کر نقاب لے سکتی تھی۔ یوں عبایا کے بغیر بھی زینت چھپ گئی، نقاب بھی ہو گیا اور اچھا لباس بھی پہن لیا۔ بیٹھی بھی ذرا کونے کی میز پہ تھی۔
گلابی پھولوں سے آراستہ اسٹیج پہ ارم کامدار گلابی لباس میں گردن اونچی کیے اور نگاہیں جھکائے بیٹھی تھی۔ وہ ارم کو جانتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ زبردستی بٹھائی گئے ہے۔ اس کی ساس اب اسے انگوٹھی پہنا رہی تھیں۔ مووی میکر مووی بنا رہا تھا۔ پتا نہیں یہاں تایا کے اسلام کو کیا ہوا تھا۔ ویٹرز، مووی میکرز، یہ بھی تو مرد تھے، مگر وہی سوسائٹی کے دہرے معیارات۔
حجاب کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں ہوتا۔ یہ تو ایک مکمل الگ طرز زندگی ہوتا ہے۔ اور یہ طرز زندگی اتنا آسان نہیں تھا۔ اسے جلد ہی اندازہ ہو گیا۔
تم نے ڈوپٹا سر پہ کیوں لے رکھا ہے؟
گلے کا کام ہی نظر نہیں آ رہا۔ 
چہرے سے تو ہٹاؤ۔ مووی میکر ویڈیو بنا رہا تھا، سو وہ چہرے کو ڈھکے، رخ موڑے بیٹھی تھی اور فاطمہ جو ذرا دیر کو ادھر آئی تھی، اپنی حیرت ظاہر کرنے میں ساتھی خواتین کے ساتھ مل گئی تھیں۔ 
نہیں ہٹا سکتی لیڈیز! میں اب ناب کرتی ہوں۔ وہ رسان سے جواب دے رہی تھی مگر پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں؟ اور یار! فنکشن پہ تو خیر ہوتی ہے۔
خیر؟ مجھ سے پوچھو کہ کتنا شر ہوتا ہے۔ وہ اب بد دل ہو رہی تھی۔ حجاب سے نہیں۔ لوگوں سے۔
یا اللہ! لوگ خاموش کیوں نہیں رہتے؟ اتنا کیوں سوال کرتے ہیں؟
سحرش، ثنا اور اسجد کی بہنیں اب ڈانس کی تیاری کر رہی تھیں۔ انہیں کوئی نہیں ٹوک رہا تھا، سلیولیس پہنے پھرتی کسی لڑکی کو کوئی نہیں ٹوک رہا تھا، مگر حجابی لڑکی کے سب کیوں پیچھے پڑ گئے تھے۔
کیا لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ وہ کہیں گے کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہ جائیں گے؟
وہ اپنے آنسو اندر ہی اتارتی رہی۔ لڑکیاں رقص کے لیے پوزیشنز سنبھالے کھڑی تھیں۔ مووی میکر کا کیمرا ریڈی تھا۔ اس نے رخ موڑ کیا۔ دل اندر ہی اندر لرز رہا تھا۔ وہ کسی کو منع نہیں کر سکتی تھی۔ اس کی کوئی نہ سنتا۔
تباہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی کتنی قریب تھی اور سب بے خبر تھے۔ ہراقلیطس کی دائمی آگ، بھڑکتے الاؤ، دہکتے انگارے انسان بھی خود ہی اپنے لیے کیا کیا کما لیتا ہے؟
اور یادیں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں جب بندہ اندھیرے سے نور میں آتا ہے تو ہر شے سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ اسے یاد آ رہا تھا، شریعہ اینڈ لاء کے دوسرے سمسٹر میں اصول الدین ڈیپارٹمنٹ کے ہی ایک پروفیسر ڈاکٹر عبدالباری نے یونہی ایک قصہ سنایا تھا۔ اسے وہ قصہ آج پوری جزئیات کے ساتھ یاد آ رہا تھا۔
میری بیٹی کی جب شادی ہونے لگی تو میں نے اسے منع کیا کہ بیٹا مووی اور فوٹو سیشن وغیرہ مت کروانا، مگر وہ مجھ سے بہت خفا ہوئی۔ وہ مجھ سے لڑتی رہی کہ ابا میں نے ہمیشہ پردہ کیا۔ آپ کی ساری باتیں مانیں۔ اب میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی پہ مجھے بد دل نہ کریں۔ میں خاموش ہو گیا۔ اصرار نہیں کیا کہ میں زبردستی کا قائل نہیں تھا۔ شادی ہوئی۔ اس کی سسرال نے فوٹو سیشن کا مکمل انتظام کروا رکھا تھا۔ میں چپ رہا۔ شادی کے چوتھے روز میں اپنے کمرے میں کرسی پہ بیٹھا تھا کہ میری بیٹی آئی اور میرے قدموں میں بیٹھ کر چپ چاپ رونے لگی۔ میں نے بہتیرا پوچھا کہ کیا ہوا ہے۔ اس نے کچھ نہیں بتایا۔ بس یہی کہا۔
ابا آپ ٹھیک کہتے تھے۔
میری بیٹی کے آنسو میرے دل پہ اس دن سے گڑ گئے ہیں اور یہی سوچتا ہوں کہ پتا نہیں، ہم اپنی خوشی کے موقع پہ اللہ کو ناخوش کیوں کر دیتے ہیں؟
جب ڈاکٹر عبدالباری نے وہ قصہ سنایا تھا تو اس نے چند حجابی لڑکیوں کی آنکھوں سے آنسو گرتے دیکھے تھے تب کندھے اچکا کر وہ حیران ہو کر سوچتی تھی کہ یہ کیوں رو رہی ہیں؟
اب اسے پتا چلا تھا کہ وہ کیوں رو رہی تھیں۔
فنکشن ختم ہونے تک اس کا دل اچاٹ ہو چکا تھا۔ رات اپنے کمرے میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے وہ بالیاں اتارنے کے ارادے سے وہ بےدلی سے کھڑی تھی۔ کچے سیب کے رنگ کا ڈوپٹا کندھے پہ تھا اور بال کھول کر آگے کو ڈال رکھے تھے۔ بہارے بھی اس کی نقل میں گھنگریالی پونی آگے کو ڈال لیتی تھی۔
پتا نہیں، وہ بہنیں فون کیوں نہیں اٹھاتیں اور میل کا جواب بھی نہیں دیتیں۔ خیر! دو ہفتے تو رہ گئے تھے، جا کر پوچھ لوں گی۔
دروازے پر دستک ہوئی وہ چونکی، پھر آگے بھر کر دروازہ کھولا۔ وہاں جہان کھڑا تھا۔ زمرد رنگ کا کرتا اور سفید شلوار پہنے۔ پتا نہیں کہاں سے کرتا خرید کر لایا تھا مگر اچھا تھا۔ آستین عادتا کہنیوں تک موڑے وہ ہاتھ میں دو مگ لیے کھڑا تھا۔
کافی پیو گی؟ وہ پھر سے وہی دوستانہ سے انداز والا جہان سکندر بن چکا تھا۔
میں سونے سے پہلے کافی نہیں پیتی۔ کہہ دینے کے بعد اسے لہجے کی سردمہری کا احساس ہوا تو رکی، پھر زبردستی مسکرائی۔
ہاں! لیکن اگر استنبول کے بہترین شیف، مکینک اور کارپینٹر نے بنائی ہے تو ضرور پیو گی۔
تم ایک لفظ کا اضافہ کرتے کرتے رہ گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کریمنل۔ وہ مسکرایا تو حیا کی مسکراٹ غائب ہو گئی۔
کیا مجھے اس لفظ کا اضافہ کرنا چاہیے؟
ہم اس بارے میں بات کر سکتے ہیں؟
دو ہفتے بعد اسے بالاخر اس کے متعلق بات کرنے کا خیال آ ہی گیا تھا۔
ٹھیک ہے! چھت پہ چلتے ہیں۔
اس نے کانوں سے بالیاں نہیں اتاریں، جن میں موتی پروئے تھے۔ جہان کے موتی۔ وہ سچ نہیں بولتا تھا تو اس کے موتی کیسے نکل آئے؟ وہ ان دو ہفتوں میں یہ سوچتی رہی تھی۔ نامحسوس طور پہ بھی وہ عبدالرحمن پاشا سے متفق تھی کہ وہ ”سچے موتی“ ہی تھے۔ مگر جہان کو تو یاد بھی نہیں ہو گا کہ یہ وہ موتی ہیں۔
چھت پہ اندھیرا تھا۔ دور نیچے کالونی کی بتیاں جل رہی تھیں۔ وہ دونوں منڈیر کے ساتھ لگے جھولے پہ آ بیٹھے۔ ہلکا ہلکا ہلتا جھولا ان کے بیٹھنے سے بالکل تھم گیا۔ حیا نے کافی کا مگ لبوں سے لگایا۔
ہوں! اچھی بنی ہے۔
آخر! استنبول کے بہترین شیف، مکینک اور کارپینٹر نے بنائی ہے۔
اوہ! تم نے بھی کریمنل کا اضافہ نہیں کیا۔ 
کیونکہ میں کریمنل ہوں بھی نہیں۔ کیا تمہیں میر اعتبار ہے؟
ہاں! اس نے سوچنے کا وقت بھی نہیں لیا۔ سامنے دیوار پہ ابا کے گملوں سے اوپر ان دونوں کے سائے گر رہےتھے۔ پودوں کی ٹہنیوں سے اوپر وہ عجیب سی ہیئت بنا رہے تھے۔
ٹھیک ہے! پھر تم بتاؤ کہ تم اس شخص کو کیسے جانتی ہو، جو اس روز میرے ساتھ تھا؟
عبدالرحمن پاشا؟ امت اللہ حبیب پاشا کا بیٹا؟اس نے آنے کا پورا نام لیا۔ وہ ذرا چونک کر اسے دیکھنے لگا۔
آ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔۔۔ تم کیسے؟
لمبی کہانی ہے۔ سنو گے؟ اس نے بےنیازی سے شانوں کو جنبش دے کر پوچھا۔ وہ سامنے دیوار پہ ہی دیکھ رہی تھی۔ اس نے دوسرے سائے کو اثبات میں سر ہلاتے دیکھا تو وہ کہنا شروع ہوئی۔ اپنے سائے کے ہلتے لب دکھائی نہیں دیتے تھے۔ نہ ہی کان میں پڑی بالی کے موتی کی چمک۔ اگر دکھائی دے رہی تھی تو وہ پریشانی، اذیت اور اضطراب جسے وہ پچھلے پانچ ماہ سے اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھی۔ جس کا ایک حصہ اس نے ڈی جے کے ساتھ بانٹا بھی تھا اور اب اس نے پورا ہی بانٹ دیا۔ سبانجی کی طرف سے میل موصول ہونے والی رات جب پہلی دفعہ پھول آئے تھے، اس سے لے کر اس روز کے واقعے تک، اس نے سب کہہ سنایا۔ وہ بالکل خاموشی سے سنتا رہا۔ اگر بولا تو صرف اس وقت جب اس نے استقلال جدیسی میں پاشا کے چہرے پہ کافی الٹنے کا واقعہ بتایا۔
اچھا! تم نے پاشا بے کے اوپر کافی الٹ دی؟ وہ جیسے بہت محفوظ ہوا تھا۔
ہاں! تم اسے پاشا بے کیوں کہتے ہو؟
اسے سب پاشا بے کہتے ہیں، مسٹر پاشا۔ شوق ہے خود کو مسٹر کہلوانے کا۔
کافی کے مگ خالی ہو کر زمین پہ پڑے تھے۔
دیوار پہ سائے ویسے ہی چپکے بیٹھے، ساری داستان سنتے رہے۔ پودے بھی متوجہ تھے۔ جب وہ خاموش ہوئی تو وہ جیسے سوچتے ہوئے بولا۔
یعنی کہ اس نے تمہارے بارے میں معلومات حاصل کیں، مجھے بلیک میل کرنے کے لیے، مگر میں صرف ایک بات نہیں سمجھ سکا۔ اتنا سب کچھ ہوا اور تم نے کبھی اپنے پیرنٹس کو نہیں بتایا۔۔۔۔۔۔ کیوں؟ تم نے کسی سے مدد کیوں نہیں لی؟ 
میں کبھی بھی ان کو یہ سب نہیں بتا سکتی جہان! اب تو معاملہ ختم ہو گیا ہے، مگر جب شروع ہوا تھ تو مجھے ترکی جانا تھا۔ اگر میں بتاتی تو وہ مجھ سے فون لے لیتے اور گھر سے نکلنے پہ پابندی لگا دیتے۔ ترکی تو جانے کا سوال ہی نہیں تھا۔ ویسے بھی میں جانتی تھی کہ جو میرے گھر کے اندر پھول رکھ سکتا ہے، میرے فون میں ٹریسر لگوا سکتا ہے، اس کے خلاف ابا بھی کچھ نہیں کر سکتے اور اب کو بتانے کا مطلب تھا کہ تایا فرقان کو بھی بتا دینا، یعنی پورے خاندان میں تماشا۔ ابا، تایا ابا کو بتائیں، یہ نہیں ہو سکتا اور اتنی بہادر تو میں تھی ہی کہ خد اپنے مسائل حل کر سکتی۔
(کیا خیال ہے گرلز۔ پیرنٹس کو بتانا چاہیے یا نہیں۔۔۔۔۔ ایسا کوئی پرابلم ہو تو۔۔۔۔ اپنا اپنا وائنٹ اف ویو ضرور بتانا۔۔ ناول سے قطع نظر، کیونکہ ناول کی تو اسٹوری ہی نہ بتانے کی وجہ سے ہے۔)
سو تو ہے! اس نے سر ہلا کر اعتراف کیا۔ کیا تم واقعی جاننا چاہتی ہو کہ میں اشا بے کو کیسے جانتا ہوں؟
دیکھ لو! تم نہ بھی بتاؤ، میں نے جان تب بھی لینا ہے۔ تمہارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔
اللہ، اللہ! یہ اعتماد۔ وہ پہلی دفعہ ہنسا تھا۔ وہ ہولے سے مسکرا دی۔
اصل میں، میں نے کچھ عرصہ ہوٹل گرینڈ پہ کام کیا ہے۔ اس لیے میں ان سوکالڈ بھائیوں کو جانتا ہوں

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page