
جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد
قسط نمبر اُنتیس
اس میں جہان کا کوئی قصور نہیں تھا۔ ہاں وہ طیب کو چھڑانے کے لیے بہت کچھ کر سکتا تھا۔ لیکن اس نے نہیں کیا۔ اس کے باس نے کہہ دیا کہ وہ خاموشی سے اپنا کام کرے اور طیب کو س کے حال پہ چھوڑ دے۔ اس نے بھی چھوڑ دیا۔ اپنی مرضی اس کام میں وہ نہیں چلا سکتا تھا۔ طیب نے کئی دفعہ اسے پیغام پہنچایا کہ وہ اس کے لیے کچھ کرے۔ مگر اس نے سنی ان سنی کر دی۔
البتہ ایک بات جہان نے اس کی مانی اور وہ یہ تھی کہ اس کی ماں کو کچھ خبر نہ ہو کہ وہ جیل میں ہے۔ اس نے سب کو کہہ دیا کہ وہ خود بھی لاعلم ہے کہ پاشا بے کہاں ہے۔
اس کام میں اس کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ آنے کبھی ایسا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ وہ گواہ تھیں کہ عبدالرحمن، پاشا بے سے بہت محبت کرتا ہے اور اس پہ پانی کی طرح پیسہ بہاتا ہے۔ ان کو معلوم تھا کہ ان کے بیٹے کے ہوٹل کو ترقی صرف اور صرف عبدالرحمن کے تجربے و سرمائے کی وجہ سے ملی ہے۔ وہ بھلا کیسے اس پہ شک کر سکتی تھی۔ بس وہ بہت اداس، بہت پریشان رہنے لگی تھیں۔ وہ ان کے لیے دکھی تھا، مگر اسے حکم نہیں تھا کہ وہ سب چھوڑ چھاڑ کر پاشا بے کے لیے یونان چلا جائے۔
پهر گردونواح میں ہر جگہ اس نے کہنا شروع کر دیا کہ پاشا بے کام کے باعث یونان منتقل ہو گیا ہے۔ یہ گرفتاری صیغہ راز میں تھی۔ سو اس کی اس بات سے سب مطمئن تھے اور سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا۔
طیب حبیب پاشا کے جانے کے بعد اس نے ہوٹل کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ پہلے اس نے ملازمین کو قابو کیا۔لوگ لالچ یا خوف سے ہی قابو ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان سے کام نکلوایا جاتا ہیں جس کو وہ لالچ دے کر وفادار بنا سکتا تھا۔ اس کو ویسے بنایا اور پھر ہر ورکر کی زندگی کے سیاہ اوراق چھانے، تا کہ جب کبھی وہ ٹیڑھ پن کرے، تو وہ اس کی رسی کھینچ سکے۔ اب وہ ہوٹل گرینڈ کا بلا شرکت غیرے مالک تھا اور اس نے ادالار میں بھی اپنی ایک شہرت بنا لی تھی۔
اور پھر، تب آنے کے ساتھ وہ دو لڑکیاں آ گئں۔
وہ امت اللہ حبیب کی رشتے کی پوتیاں تھی۔ ان کے ماں، باپ کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا۔
وہ گاؤں میں آنے کا واحد رشتہ دار گھرانہ تھا، ماں باپ کی انتقال کے بعد ان کا اکیلے گاؤں میں رہنے کا کوئی جواز نہ تھا تو امت اللہ ان کو ساتھ لے آئیں۔
جہان کو آ ج بھی وہ دن یاد تھا، جب وہ پہلی دفعہ ان لڑکیوں سے ملا تھا۔ آنے نے اس کو فون پہ بتایا تھا کہ وہ ان بچیوں کو ساتھ لا رہیں ہیں۔ وہ اس وقت ہوٹل میں تھا۔ بعد میں جب وہ گھر پہنچا تو بنا شاپ اندر داخل ہوتے ہوئے وہ لاؤ ج میں بیٹھی دو لڑکیوں کو دیکھنے لگا۔ ایک اسکارف لپیٹے بڑی لڑکی تھی اور دوسری گھنگریالی پونی والی چھوٹی بچی۔ وہ بچی پانی پی کر گلاس رکھ رہی تھی۔جب اس نے بڑی لڑکی کو تاسف سے نفی میں سر ہلا کر کہتے سنا۔
بہارے گل! پانی پی کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ یاد ہے ہمارا وہ چوزہ جو اپنی کٹوری سے پانی چونچ میں لینے کے بعد گردن اٹھا کر آسمان کو دیکھ کر پہلے شکر ادا کرتا تھا اور پھر گردن جھکا کر دوسرا گھونٹ پیتا تھا۔
چھوٹی بچی نے اس سے بھی زیادہ تاسف سے پیشانی پہ ہاتھ مارا۔
مگر عائشے گل! وہ تو گردن اس لئے اونچی کرتا تھا کہ پانی اس کے حلق سے نیچے اتر جائے، مجھے بابا نے خود بتایا تھا۔
اسے جیسے اپنی بڑی بہن کی کم علمی پہ افسوس ہو رہا تھا۔
تم نہیں سدھرو گی۔ بڑی لڑکی گلاس اٹھا کر کچن کی طرف چل پڑی۔ وہ جو لابی کے دروازے کی اوٹ میں کھڑا تھا۔ باہر نکل کر سامنے آیا۔ کسی مقیم ایجنٹ کے لیے کور فیملی میں کسی نئے فرد کا اضافہ خوش آئند بات نہیں ہوتی۔ وہ بھی ان کے آنے سے خوش نہیں تھا۔
چھوٹی بچی نے آہٹ پہ چونک کر اس کی جانب دیکھا۔ پھر بےاختیار اس کے جوتوں کو۔ اس کی بھوری سبز آنکھوں میں حیرت ابھر آئی۔ وہ واقعی گاؤں کی لڑکیاں تھیں۔ جن کو نہیں معلوم تھا کہ استنبول کے ہائی ایلیٹ گھر میں جوتے پہن کر داخل ہوتی ہے۔ مرحبا۔۔۔۔۔۔ کیا تم آنے کے بیٹے ہو۔ اگلے ہی لمحے وہ حیرت بھلائے، اسے دلچسپی سے دیکھتی اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
ہوں۔۔۔۔۔۔اور تم۔ وہ گردن ذرا جھکا کر اس نھنی سی لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔
میں بہارے گل ہوں۔ اناطولیہ کی بہارے گل۔
تمہارا مطلب گل بہار۔ اس نے سوالیہ آبرو اٹھائی۔ ترکی میں کبھی بھی گل اور بہار کو بہارے گل کہہ کر نہیں ملاتے تھے۔ بلکہ گل بہار کا مرکب بنایا جاتا تھا۔
نہیں! میں بہارے گل ہوں۔ یہ ایرانی نام ہے اور اس کا مطلب ہے گلاب کے پھل پہ آئی بہار۔ پتا ہے میرا یہ نام کیوں ہیں۔
کیوں۔
میری آنم (ماں) کا نام آئے گل تھا۔ یعنی چاند کا پھول، میری نانی کا نام غنچے گل تھا اور بہن کا نام عائشے گل ہے۔ یعنی ہمیشہ زندہ رہنے والا گلاب۔ اس نے بہت سمجھداری سے کسی رٹے رٹائے سبق کی طرح اپنے نام کی وجہ تسمیہ بیان کی جو شاید محض ہم آواز کرنے کے لئے رکھا گیا تھا۔
بہت دلچسپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترکی کے سارے پھول تو آپ کے خاندان میں ہیں۔ تمہارے بابا کا نام کیا ہو گا۔ شاید گوبھی کا پھول۔ وہ ذرا مسکراہٹ دبا کر بولا تو بہارے کی آنکھیں حیرت سے وا ہوئی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان میں شرارت کی چمک ابھری اور وہ مسکرائی۔
نہیں! ان کا نام غفران تھا۔
بہارے گل! اسی پل اس کی بہن کچن سے باہر نکلی۔ جلدی سے ناخن کاٹ لو۔ لمبے ناخن بلیوں کے اچھے لگتے ہیں، لڑکیوں کے نہیں۔ پھر اس پہ نگاہ پڑی تو سنجیدگی سے مرحبا کہہ کر آگے نکل گئی۔
بہارے گل نے افسوس سے اپنی بہن کو جاتے ہوئے دیکھا۔ پھر اس کی طرف چہرا کر کے بہت رازداری سے بتایا۔
برا مت ماننا، میری بہن آدھی پاگل ہے۔
اور شاید بہت عرصے بعد وہ بہت زور سے ہنسا تھا۔
اسی دن اس کی اس چھوٹی سی شرارتی اور ذہین سی لڑکی سے ایک وابستگی سی پیدا ہو گئی۔ وہ اس کی ہر بات پہ نہیں ہنستا تھا۔ نہ ہی بہت زیادہ بےتکلف ہوتا تھا۔ مگر اس بچی کو تو جیسے وہ پسند آ گیا تھا۔ وہ اسٹڈی میں بیٹھا کام کر رہا ہے تو وہ دبے پاؤں آ کر اس کے قریب بیٹھ جائے گی۔ صبح وہ ہوٹل جانے کے لیے تیار ہو رہا ہے۔ تو وہ کبھی اس کے جوتے پالش کر کے لا دے گی، تو کبھی گلاس صاف کر کے۔ بعد میں اسے معلوم ہوا کہ وہ کام عائشے کرتی تھی یا ملازمہ، مگر مجال ہے جو بہارے گل نے کبھی کسی اور کو کریڈیٹ لینے دیا ہو۔ وہ اپنی بہن سے بہت مختلف، ذرا باغی طبیعت کی مالک تھی۔
عائشے ایسی نہیں تھی۔ وہ کم بولنے والی، دھیمی اور سنجیدہ مزاج کی، ایک فاصلے پہ رہنے والی لڑکی تھی۔ ان دونوں کی بات چیت ڈائننگ ٹیبل پر ہی ہو پاتی، یا یوں ہی گزرتے ہوئے۔
مگر وہ شروع سے ہی اس کی طرف سے لاشعوری طور پر فکرمند رہنے لگا تھا۔ وہ اسے واقعی طیب حبیب کا سوتیلا بھائی سمجھتی تھی۔ مگر جو بھی تھا وہ اس گھر کی مالکن بن گئی تھی۔ (یہ سفید محل آنے نے عائشے کے نام کر دیا تھا اور اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا) وہ قانونی طور پر آنےاور طیب حبیب کی اصل وارث تھی۔ اگر کبھی وہ ہوٹل کے معالات میں دخل دینے لگے تو وہ کیا کرے گا۔ بیس سال کی لڑکی سے اسے یہ امید نہیں کرنی چاہیے تھی۔ مگر اس کا ماننا تھا کہ انسان کا کچھ پتا نہیں ہوتا اور لوگوں پہ اعتبار تو ویسے بھی نہیں کرتا تھا۔
پھر کچھ عرصہ گزرا تو عائشے کے کانوں میں بھی لوگوں کی باتیں پڑنے لگیں۔ آنے تو عبادت میں مشغول رہنے والی، ایک بہت ہی غیر سوشل خاتون تھیں۔ ان کی طرف سے اس کو فکر نہیں تھی۔ مگر جب عائشے الجھی الجھی رہنے لگی اور ایک دن صبح اس نے جہان کو کہا کہ شام میں وہ اس سے بات کرنا چاہتی ہے تو وہ اچھا کہہ کر باہر نکل گیا۔ مگر اندر سے وہ ذرا پریشان ہو گیا تھا۔
تاش کے پتوں کا گھر بکیھرنے کے لیے آنے والا جھونکا عموما وہاں سے آتا ہے جہاں سے کبھی امید بھی نہیں کی جا سکتی۔ اب اسے اس لڑکی کو اچھے سے سنبھالنا تھا، تاکہ وہ اس کے لیےکوئی مسئلہ نہ پیدا کرے۔
انسانوں کو قابو ان کی کمزوریوں سے کیا جاتا ہے اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی آپ کے معاملے میں دخل نہ دے تو آپ کو نامحسوس طریقے سے اس شخص کو اس کے اپنے معاملات میں الجھانا و مصروف کرنا پڑتا ہے۔ عائشے کی کمزوری اس کا دین تھا۔ وہ بہت مذہبی اور Practising قسم کی مسلمان تھی۔ اسے یاد تھا کہ ایک روز وہ سوتی رہ گئی اور اس کی فجر چھوٹ گئی تو وہ پچھلے باغیچے میں بیٹھ کر کتنا روئی تھی۔ سو اس شام جب وہ اس سے بات کرنے آئی تو وہ اسٹڈی میں قرآن کھولے بیٹھا تھا۔
قرآن پڑھنے کا جو وقت اسے جیل میں ملا تھا، پھر دوبارہ کبھی نہیں مل سکا تھا۔ اب بس کبھی کبھی وہ قران پڑھ پاتا تھا۔ اب بھی عائشے آئی تو جہان نے اس کی سننے سے پہلے اپنی کہنی شروع کر دی۔ وہ جانتا تھا کہ عائشے کے نزدیک اسکارف لینا زندگی اور موت کا مسئلہ تھا اور بہارے گل اس چیز سے سخت بےزار تھی۔ اس نے سورہ الاحزاب کھولی اور اس سے پوچھنے لگا کہ کیا وہ جانتی ہے سورہ الاحزاب میں آیت حجاب کیوں اتری ہے۔ اور یہ کہ یہ بھی ایک پہیلی ہے۔ ویسےتو سورہ نور میں بھی آیت خمار ہے، مگر اصل آیت حجاب سورہ الاحزاب میں ہے۔ کیا وہ یہ پہیلی حل کر سکتی ہے۔ یہ بات بہت پہلے اس نے کسی سکالر سے سنی تھی۔ البتہ اس نے اسکالر کا پورا لیکچر نہیں سنا تھا۔ اس لیے وہ خود نہیں جانتا تھا کہ ان دونوں چیزوں میں کیا تشبیہہ ہے۔
مگر عائشے اپنا مسئلہ بھول کر اسی بات میں اٹک گئی۔
اس کے بعد جہان نے اسے اپنے خلاف پھیلی خبروں کو دشمنوں کی پھیلائی ہوئی افواہ سمجھ کر نظرانداز کرنے پر بہت اچھے سے قائل کر لیا۔ عائشے جب اس کے پاس سے اٹھ کر گئی تو اس کا ذہن شکوک و شبہات سے خالی تھا، اور وہ صرف سورہ الاحزاب کی پہیلی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
پھر وہ روز صبح پچھلے باغیچے میں قرآن اور ایک کاپی لے کر بیٹھ جاتی اور قلم سے اس کاپی پر خدا جانے کیا، کیا لکھتی رہتی۔
ایک دن آخر اس نے جہان کو وہ پہیلی بھی اپنےطور پر حل کر کے بتا دی۔ اب وہ اسے دوبارہ کیسے مصروف کرے۔ خیر،اس نے حل نکال لیا۔ عثمان شبیر کی بیوی حلیمہ جدیسی کے بچوں کو قرآن پڑھایا کرتی تھیں، اس نے عائشے کو وہاں بھیج دیا اور وہ تو جیسے اپنے سے لوگ ڈھونڈ رہی تھی، وہ روز صبح ادھر جانے لگی۔ (بہارے نے البتہ جانے سے صاف انکار کر دیا تھا۔)
عائشے کو مصروف کرنے کے لیے اس نے یہ بھی چاہا کہ وہ کالج میں داخلہ لے لے۔ مگر گاؤں چھوڑنے کی وجہ سے ان دونوں کا تعلیمی سال ضائع ہو گیا تھا۔ سو وہ دونوں مصر تھیں کہ اگلے سال داخلہ لیں گی۔
پھر ایک روز اس نے بہارے کے پاس چائنیز پزل باکس دیکھا تو بہارے نے اسے بتایا کہ یہ فن عائشے کو کسی چینی بوڑھے نے سکھایا تھا۔ یہ بات بہت حوصلہ افزا تھی۔ اس نے عائشے کو سمجھایا کہ اسے یہ باکسز دوبارہ سے بنا کر بیچنے چاہیے اس مقصد کے لیے کافی دقتوں سے اس نے عائشے کے لیے بیوک ادا کے جنگلوں میں لکڑی کاٹنے کا پرمٹ بنوا دیا تھا۔ بالآخر وہ دونوں لڑکیاں اپنے اپنے کاموں میں اتنی مصروف ہو گئی تھیں کہ ان کے پاس عبدالرحمن پاشا کے معاملات میں مداخلت کا وقت نہیں رہا تھا۔ عائشے تو جیسے اب اس پہ شک نہیں کر سکتی تھی۔ جو شخص قرآن کو اتنی گہرائی سے پڑھتا ہو، وہ بھلا برا آدمی کیسے ہو سکتا تھا۔
چند روز مزید آگے سرکے۔ ہر کام نپٹاتے ہوئے اس کے لاشعور میں دنوں کی گنتی جاری تھی۔
پانچ فروری، یعنی اس کی بیوی کے آنے میں کتنے دن تھے۔ دس، نو، آٹھ
پھر اسے یہ احساس ہونے لگا کہ وہ اس کے بارے میں فکرمند بھی رہنے لگا ہے۔ ہاں ٹھیک ہے، اتنا خیال تو اسے استنبول میں مقیم اپنی سگی ماں کا بھی تھا کہ وہ ان کے متعلق باخبر رہا کرتا اور بار بار ان کے بارے میں پتا کرتا رہتا تھا۔ اب اس کی بیوی کا بھی حق تھا کہ وہ اس کا خیال رکھے۔ پاکستان میں ایک طرح سے وہ فارغ تھا۔ وہاں ہر وقت گرفتاری کا خدشہ نہیں ہوتا تھا۔ لیکن استنبول میں وہ اپنی بیوی کی ہر موو پر نظر نہیں رکھ سکتا تھا۔ مگر رکھنا ضرور چاہتا تھا۔ کوئی ایسا آدمی جو قابل اعتبار ہو۔ جو اس کی نگرانی کر سکے۔
ہاشم الحسان کا نام سب سے پہلے اس کے ذہن میں آیا تھا۔ ہاشم اس سے پہلے بھی اس کے کئی ایسے کام کر چکا تھا۔
جہان نے فورا اس سے رابطہ کرنا چاہا تو اس کی بیوی نے بتایا کہ وہ دبئی گیا ہوا ہے۔ ہاشم چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث رہنے اور استنبول میں جیل ریکارڈ رکھنے کے باعث یہاں کوئی ڈھنگ کی نوکری نہیں کر سکتا تھا۔ پتا نہیں دبئی میں اس کا کون بیٹھا تھا، مگر وہ ادھر چلا گیا تھا۔ البتہ وہاں بھی اس کی کوئی خاص کمائی نہیں ہو رہی تھی۔ شاید اس کا بچہ بیمار تھا اور اس کو کافی رقم کی ضرورت تھی۔ جہان نے اسے بلوا لیا۔ مگر ہشام نے ابو ظہبی سے اسی فلائٹ پہ آنے کا کہا یہ وہی فلائٹ جو حیا اور اس کی دوست کو لینی تھی۔
وہ چاہتا تھا کہ ہاشم ایئر پورٹ پر اسے سفید پھولوں کا گلدستہ پہنچا سکے۔ یہ اس لیے تھا تا کہ حیا ان سفید پھولوں کو بھیجنے والے کو نہ بھولے۔ مگر یہ نہ ہو سکا۔
ہاشم نے واپس آ کر اسے بتایا کہ جب وہ فون پہ بات کر رہا تھا تو وہ لڑکی اس کے پاس کارڈ ڈالنے کا طریقہ پوچھنے آئی تھی۔ ایسے میں وہی اس کو چند منٹ بعد پھول لا کر دے، یہ ٹھیک نہیں تھا۔ ہاشم کی بات سن کر جہان ایک گہری سانس لے کر خاموش ہو گیا تھا۔
زندگی میں ہر چیز پھر اپنی پلاننگ سے تو نہیں ہوتی نا!پانچ فروری کو حیا نے آنا تھا، اور اسی صبح ایک سرپرائز اس کے آفس میں اس کا منتظر تھا۔
طیب حبیب پاشا!
وہ واپس آ گیا تھا۔
جانے وہ کیسے فرار ہو کر واپس پہنچا تھا۔ مگر وہ بہت برے حال میں تھا۔ استنبول میں اس کے دشمن بڑھ گئے تھے اور وہ ان سے بچنے کے چکر میں بالکل کسی مفرور مجرم کی طرح خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہا تھا۔ وہ جہان سے سخت بدگمان بھی تھا کہ اس نے اس کی کوئی مدد نہیں کی۔ پاشا بے بار بار یہی کہہ رہا تھا کہ جہان نے اسے دھوکا دیا ہے۔ (وہ اس کی دوسری شناخت سے بھی واقف تھا۔ کیونکہ برگر کنگ اس کا ریسٹورنٹ تھا۔ جہاں حالات خراب ہونے کی صورت میں جہان چلا جایا کرتا تھا۔) اب اس کا اصرار تھا کہ جہان اور اس کی ایجنسی اپنا وعدہ پورا کرے اور اس کو اپنے خاندان سمیٹ کسی دوسرے ملک سیٹل کروا دے۔ جہان جانتا تھا کہ ایجنسی یہ کروا دے گی۔ مگر پھر بھی وہ چاہتے تھے کہ پاشا بے ذراا صبر کرے۔ مگر پاشا بے کو بہت سا پیسہ اور نئی زندگی بہت جلدی چاہئے تھی۔
وہ بہت لڑ جھگڑ کر وہاں سے گیا تو وہ فیری لے کر استنبول آ گیا۔ برگر کنگ اور ہوٹل گرینڈ یہ دو واحد جگہیں تھیں جہاں پاشا بے اس سے ملنے آ سکتا تھا اور ایسے جھگڑے کو وہ برگر کنگ پہ کرنے کا متحمل تھا، مگر ہوٹل گرینڈ پہ نہیں۔
ممی سے وہ آج ملا تھا۔ وہ اس کے آنے پہ حسب توقع بہت خوش تھیں مگر زیادہ خوشی اپنی بھتیجی کے آنے کی تھی۔ وہ چاہتی تھیں کہ کل یا پرسوں وہ ہوسٹل جا کر حیا سے مل آئیں۔ پتا نہیں وہ ادھر خود آۓ یا نہیں۔
اس نے کہہ دیا کہ وہ نہیں جاۓ گا۔ اس کا ذاتی خیال تھا کہ سلمان ماموں کی بیٹی اتنی جلدی خود تو ان سے ملنے نہیں آۓ گی۔ مگر اگلے دن جب وہ کچن میں کھڑا ممی کا کیبنٹ جوڑ رہا تھا تو اس کا فون بجا۔
جہان نے فون نکال کر دیکھا۔ یہ اس کا جی پی ایس ٹریسر تھا جو اگر اس کی حدود میں آتا تو بجنے لگتا۔
یعنی اگر اس سے ایک فاصلے تک وہ آۓ گی تو ٹریسر جہان کو اطلاع دے دے گا۔ یہ اس نے اس لئے کر رکھا تھا کہ اگر کبھی وہ کسی خاص مہمان کے ساتھ کسی جگہ موجود ہے اور اسی جگہ اتفاقیہ یا غیر اتفاقیہ طور پہ حیا آجاۓ، تو وہ بر وقت اطلاع پا لے۔
اس وقت اس کا ٹریسر بتا رہا تھا کہ وہ اس کے قریب ہی ہے اور جس سڑک پہ وہ ہے، وہ جہانگیر کو ہی آتی ہے۔
وہ دوسرے ہی دن اس کے گھر آ رہی تھی؟
ویری اسٹرینج!
اس نے ممی کو کچھ نہیں بتایا۔ مگر اپنے گھر سفید پھول ضرور منگوا لیے۔ وہ اسے ذرا ستانا چاہتا تھا۔ جس لڑکی کے لیے وہ اتنا عرصہ خوار ہوا تھا۔ اسے تھوڑا سا خوار کرنے میں کیا حرج تھا۔ چلو دیکھتے ہیں کہ وہ کیسا ردعمل دیتی ہے!
گھنٹی ہوئی تو اس نے خود جا کر دروازہ کھولا۔ پہلی دفعہ وہ س سے بطور جان سکندر کے مل رہا تھا۔ وہ آج بھی سیاہ رنگ میں ملبوس تھی۔ (اس رات کی طرح جب وہ ان کے گھر گیا تھا)، ذرا نروس، انگلیاں چٹخاتی ہوئی، اس کے جوتوں کا رخ سارا وقت دروازے کی سمت ہی رہا، جیسے وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی ہو۔ جیسے وہ اپنی مرضی کے بغیر اچانک وہاں آئی ہو۔
وہ اس سے اسی خشک طریقے سے ملا جیسے وہ اپنے ماموں کی بیٹی سے مل سکتا تھا، جیسے اسے ملنا چاہیے تھا۔ پھر بھی اسے امید تھی کہ اس کے "کون حیا سلیمان" کہنے کے جواب میں وہ شاید کہہ دے، تمہاری بیوی اور کون۔ مگر وہ بہت نروس اور الجھی الجھی لگ رہی تھی۔ وہ جہان سے اتنی مختلف تھی کہ وہ پھر سے بد دل ہونے لگا۔ پتا نہیں کیا بنے گا ہمارا؟؟؟؟؟؟؟؟
••••••••••••••••••••
ممی اس سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔ ہونا بھی چاہیے تھا، مگر سارا ماحول تب بدلا جب وہ اسی اپنے باپ اور تایا والی طنزیہ ٹون میں ان کو احساس دلانے لگی کہ وہ رشتے داروں کے ساتھ بنا کر نہیں رکھتے۔ وہ بظاہر کام کرتے ہوئے سب سن رہا تھا۔ غصہ آیا اور افسوس بھی ہوا، اگر ممی سامنے نہ ہوتیں تو پھر اسے بتاتا کہ کس نے کس سے رشتہ توڑا تھا۔
پھر اس لڑکی نے ابا کے آرمی سے تعلق کا پوچھا۔ یا تو وہ نہیں جانتی تھی، یا پھر طنز کرنے کا کوئی اور بہانہ۔ اس کے اندر مزید تلخی بھرتی گئی۔ وہ شاید واقعی یہ رشتہ نہیں رکھنا چاہتی تھی۔ پہلے اس کا ارادہ محض پھول بھیجنے کا تھا، مگر اس ساری تلخ گفتگو کے بعد جب وہ پھول لینے گیا تو داخلی دروازے کے اندر کی طرف رکھے اسٹینڈ سے قلم کاغذ اٹھایا، اور موٹے گتے کے گروسری لکھنے کے پیڈ پہ ویلنٹائن کا پیغام لکھ کر اندر ڈال دیا۔ یہ اس کا طریقہ تھا بدلہ لینے کا۔ اور وہ بھی جیسے وہاں سے بھاگنا چاہتی تھی۔ ایک منٹ نہیں رکی۔ کھانا بھی ادھورا چھوڑ دیا اور چلی گئی۔ اپنے کمرے کی کھڑکی سے وہ اسے اس وقت تک جاتے دیکھتا رہا جب تک کے وہ سڑک پہ دور نہ چلی گئی۔
بعد میں ممی بہت خفا ہوئیں۔ وہ اپنے بیٹے اور اس کے انداز کو بہت اچھی طرح پہچانتی تھیں۔ مگر وہ ان کی سرزنش اور ساری خفگی کو سنی ان سنی کر گیا۔ اسے لگا اسے سلیمان ماموں کی بیٹی کے ساتھ یہی کرنا چاہیے تھا، لیکن پھر بعد میں اسے پتا نہیں کیوں افسوس ہونے لگا۔ اس میں اضافہ تب ہوا جب ممی نے فاطمہ مامی سے فون پہ بات کی تو انہوں نے بتایا کہ حیا کو اس کی دوست اچانک ہی وہاں لے گئی تھی۔ اس وقت جلدی میں تھی۔ بعد میں تسلی سے اس ہفتے کسی دن آۓ گی، تحائف وغیرہ اسی لیے نہیں لا سکی۔ سو وہ مغرور لڑکی اپنی مرضی سے واقعی نہیں آئی تھی۔ خیر، اب کیا ہو سکتا تھا؟
وہ آج کل استقلال اسٹریٹ میں ہی ہوتا تھا۔ یہ گلی مافیا راج کے لیے خاصی مشہور تھی۔ چھوٹے چھوٹے بھکاری بچے ج بھیک مانگنے کے بہانے سیاحوں کے قریب آتے اور پرس جھٹ کر بھاگ جاتے۔ ان بچوں سے لے کر ڈرگز بیچنے والوں تک، سب آرگنائزڈ کرائم کا حصہ تھے۔ برگر کنگ طیب حبیب کا تھا۔ مگر اس کا انتظام بھی جہان ہی سنبھالتا تھا۔ جب اسے Deactivate (غیرفعال) ہونا پڑتا وہ یہیں آ کر چھپ جاتا۔ آ کر چھپ جاتا۔ کچن میں کھڑے ہو کر عام سے حلیے میں سارا دن چند ورکرز کے ساتھ کام کرتے ہوئے یہ اندیشہ کبھی نہ تھا کہ کوئی ادلار کا بندہ اسے وہاں آ کر اسے پہچان لے گا۔ استنبول بہت بڑا شہر تھا
اتنا پڑا کہ انسان اس میں گم ہو جائے۔ سو یہ تاش کے پتوں کے سارے گھر بہت اچھے سے چل رہے تھے اور اس کا ارادہ اس دفعہ حیا کے اپنے گھر آنے پہ اس سے ملنے کا تھا تاکہ وہ ذرا تمیز سے بات کر کے آپنے پچھلے رویے کی معذرت کر لے۔ مگر اس سے پہلے پاکستان سے کال آ گئی۔
پاکستان کی کال تو حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ ایسا حکم جس پہ آنکھیں بند کر کے عمل کرنا ہوتا۔ چاہے آپ مر بھی رہے ہیں، آرڈر، آرڈر ہوتا تھا۔ اب اسے کہا گیا تھا کہ اسے دو دن کے لیے اسلام آباد آنا تھا۔ ویک اینڈ تک وہ واپس آ جائے گا۔ کوئی اہم بریفینگ تھی۔ اب جس طرح بھی آئے، فورا آئے۔
اس سہ پہر اس نے آپنا ٹریسر چیک کیا تو حیا ٹاقسم کے قریب ہی تھی۔ گورسل بس اسے ٹاقسم ہی اتارتی تھی۔ وہ گورسل کا سارا شیڈول نیٹ سے دیکھ کر حفظ کر چکا تھا۔ یعنی ابھی وہ ٹاقسم پر اترے گی۔ اگر وہ وہیں اس سے مل لےاور ویک اینڈ پہ گھر آنے کا کہہ دے تو وہ اس کی موجودگی میں ہی آئے گی۔ اگر غیر موجودگی میں آتی تو ابا کا کچھ بھروسہ نہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ پاکستان جاتا ہے اور وہ ادالار بھی جاتا تو بھی ان کی زبان پہ اس کے لیے محض گالیاں اور لعنتیں ہی ہوتیں کہ وہ پاکستان کیوں جاتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہہ حیا ایسی کوئی بات سنے۔
اس لیے اس برستی بارش میں وہ اس کے لیے ٹاقسم آیا تھا۔ اور چونکہ اس سے مل کر وہ فیری لے کر ادلار چلا جائے گا۔ تب ہی اس نے اپنا بریف کیس بھی ساتھ رکھ لیا تھا۔ اس وقت وہ مکمل ایگزیکٹو لگ رہا تھا، اور ابھی وہ حیا کو اپنا یہی کور بتانا چاہ رہا تھا، کہ وہ بیوک ادا کے ایک ہوٹل میں کام کرتا ہے۔ برگر کنگ والی بات اسے نہیں بتائے گا، اس نے طے کر رکھا تھا۔
وہ جب میٹرو کی سیڑھیوں پہ تھی تو جہان نے اسے دور سے لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا۔ تب اس نے اس کی ایک تصویر کھینچی تھی۔ کبھی بعد میں وہ اسے یہ تصویر دیکھائے گا کہ ہاں وہ اس وقت بھی اس کے ساتھ تھا جب اس کی جوتی ٹوٹی تھی۔ وہ اسے پسند کرے یا نہ کرے، وہ اس کے ساتھ تھا۔
اندر ٹرین میں وہ اتفاقیہ طور پر اس سے ملا اور پہلی بات اس نے حیا کو ویک اینڈ پہ گھر آنے کو کہی، وہ اس کے اس رویے پہ حیران تھی۔ (وہ خود بھی حیران تھا!)۔ البتہ اس سارے میں ایک چیز اسے مسلسل ڈسٹرب کر رہی تھی کہ میٹرو میں کچھ لوگ مڑمڑ کر اس کی بیوی کو دیکھ رہے تھے۔ بات سرخ کوٹ کی نہیں تھی۔ بلکہ بات گہری سرخ لپ اسٹک کی تھی۔ مگر شاید وہ نہیں جانتی تھی کہ اکیلی لڑکی جمع سرخ کوٹ جمع گہرا میک اپ برابر ہیں کس کے استنبول میں!
اور سرخ ہیل بھی تو تھی۔ وہ ٹوٹے ہوئے جوتے کے ساتھ بیٹھی رہے، اور ایسے ہی چل کر مارکیٹ تک جائے تو پھر لعنت ہے جہان سکندر پر-ساری باتیں ایک طرف، وہ ننگے پاؤں پورے استنبول میں پیدل چل سکتا تھا مگر حیا نہیں۔ اس نے فورا سے اپنے جوتے اتار دیے۔ وہ پہلے سے زیادہ حیران تھی۔ (اب کی بار وہ حیران نہیں تھا-ایسا ہے تو ایسا ہی سہی۔)
ریسٹورنٹ میں اس نے یوں ہی مزاقا اس کے کوٹ کا حوالہ دیا تاکہ وہ واپس جا کہ کسی سے اس بات کا مطلب پوچھے اور آئندہ اس طرح کا پہن کر باہر نہ نکلے۔
مگر ساری گڑبڑ تب ہوئی جب کافی کا کپ لبوں تک لے کر جاتے ہوئے اس نے حیا کو عبدالرحمن پاشا کے بارے میں استفسار کرتے سنا۔ کافی کے بھاپ نے لمحے بھر کو اس کے چہرے کو ڈھانپ لیا تھا گو کہ وہ ایک سیکنڈ میں ہی سنبھل گیا تھا۔ مگر وہ سیکنڈ بہت بھاری تھا۔ اگر اس وقت وہ اس کا چہرا دیکھ لیتی تو ایک پل نہ لگتا اسے جاننے میں کہ اس کے سامنے بیٹھا گدھا ہی عبدالرحمن تھا۔ گدھا ہی تو تھا کہ وہ جان ہی نہ پایا کہ اس کی بیوی اس کے کور سے واقف ہے!
وہ مگر کیسے جانتی تھی؟
اس نے بالخصوص اس سے ہی عبدالرحمن پاشا کا کیوں پوچھا؟
وہ اندر تک گڑبڑا گیا اور بات کو ادھر ادھر گھماتے ہوئے شاید لمحے بھر کو وہ ذہنی طور پہ اتنا الجھ گیا تھا کہ بل کی فائل میں اپنا کریڈیٹ کارڈ رکھتے ہوئے یہ خیال نہ کر سکا کہ اس پہ عبدالرحمن پاشا لکھا ہے۔
یہ خیال اسے تب آیا جب اس نے حیا کو غصے سے اپنے ملک کی حمایت کرتے ہوئے فائل کی طرف ہاتھ بڑھاتے دیکھا- اللہ للہ، آج کا دن ہی خراب تھا
اسی وقت قریب سے دو ویٹرز ایک ساتھ گزر رہے تھے۔ میزوں کے میز پوش زمین تک گرتے تھے۔ ایسے میں جب اس نے اپنے بریف کیس کے ساتھ رکھی چھتری کو راستے پہ ذرا سا سرکایا، تو اس کی یہ حرکت نہ حیا نے دیکھی، نہ ہی سزلر پلیٹر Sizzler platters اٹھائے ویٹر نے اور نتیجتا سب کچھ الٹ گیا۔ اس سارے میس میں حیا کو بل والی بات بھول چکی تھی۔ اس نے بہت آرام سے کریڈٹ کارڈ نکال کر کرنسی نوٹ رکھ دیے۔ ہاں مگر حیا کا ہاتھ جلا تھا، اور پتا نہیں کیوں تکلیف اسے ہوئی تھی۔ لیکن وہ اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔
اور پتا نہیں وہ اس کے بارے میں کتنا جانتی تھی؟ کہیں وہ اس کے ساتھ کوئی گیم تو نہیں کھیل رہی تھی؟ اس دنیا میں کچھ بھی ممکن تھا۔
یہی جاننے کے لیے اس نے واپسی پہ حیا سے کہا کہ وہ کیچڑ ٹھیک سے گھٹنے پہ لگائے، کیونکہ اس کی کور اسٹوری میں جھول ہے۔ اس نے کور اسٹوری کے الفاظ کہتے ہوئے بغور حیا کا چہرہ دیکھا کیونکہ کور اسٹوریز جاسوس ہی بنایا کرتے ہیں، اور اگر وہ کچھ جانتی تھی تو اس بات پہ ضرور چونکتی، مگر وہ نہیں چونکی۔
اسے ذرا اطمینان ہوا۔ وہ اتنا مشہور نہیں تھا کہ باہر سے آنے والا کوئی سیاح پہلے ہی روز اسے جان لے، مگر شاید اس نے کسی ایسے شخص سے عبدالرحمن پاشا کا ذکر سنا ہو جو اس کو ذاتی طور پہ جانتا ہو۔ پہرحال پہلے اس نے سوچا تھا کہ وہ اسے کہے گا کہ وہ ادالار میں کام کرتا ہے۔ مگر اب یہ خطرے والی بات تھی۔ سو اس نے دوسرا کور ڈھونڈا۔
وہ بے چارا تو استقلال اسٹریٹ کا ایک معمولی سا ریسٹورنٹ اونر تھا۔ حیا نے یقین کر لیا-
•••••••••••••••••••
پاکستان جانے سے قبل وہ ممی سے کہہ کر گیا تھا کہ اگر وہ اس کی غیر موجودگی میں آ جاتی ہے تو وہ اسے ابا سے ملنے مت دیں۔ وہ بہت تاکید کر کے گیا تھا۔ پھر پاکستان جا کر وہ ذرا مصروف ہو گیا اور یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ارم کے پاس جا سکے، مگر وہ ”ڈولی“ کو ارم کے پاس بھیجنا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے ایک پروفیشنل کو اس کام کے لیے بھیجا تھا۔ اسے معلوم تھا ارم، ضرور فون کر کے حیا کو بتائے گی۔ وہ صرف یہ چاہتا تھا کہ حیا اسے نہ بھولے۔ کہیں دور اندر اس کو یہ ان سکیورٹی تھی کہ وہ اسے بھول جائے گی اس خیال کے بعد دل جیسے خالی ہو جاتا تھا۔
ویک اینڈ پہ وہ واپس آ گیا۔ ابھی ایئرپورٹ کے راستے میں تھا، پرانے شہر میں، جب حیا کا اس کو فون آ گیا۔ وہ ان کے گھر آ رہی تھی۔ وہ پتا نہیں کیوں ذرا مسرور ہوا۔ اسے اچھا لگ رہا تھا کہ وہ ان کے گھر آ رہی تھی۔ لیکن جب تک وہ پہنچا، وہاں ایک ناخوشگوار واقعہ رونما ہو چکا تھا۔ کتنی ہی دفعہ وہ کہہ کر گیا تھا کہ ابا کو اس سے ملنے مت دینا، مگر ممی بھی تو اس بات پہ دھیان نہیں دیتی تھیں۔ اسے سخت غصہ اور افسوس ہوا تھا۔ پتا نہیں ابا نے کیا، کیا کہہ دیا ہو گا۔ وہ اکثر پاک اسپائی کا ذکر کرتے جس کو انہوں نے مارا تھا۔ ممی ان کی ان باتوں کو پاگل پن پہ محمول کرتیں۔ البتہ وہ ان کا پس منظر جانتا تھا۔ اس لیے اس کو تکلیف ہوتی۔ البتہ کوئی دوسرا ان کی باتوں سے کھٹک بھی سکتا تھا۔
حیا شاید ابا کے بارے میں نہیں جانتی تھی ہاں، ماموؤں نے اس بات کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی ہو گی سو اس نے گھر کی بیرونی سیڑھیوں پہ بیٹھے ہوئے حیا کو ابا کے بارے میں بہت کچھ بتا دیا، اور یہ بھی کہ ”ہم پاکستان نہیں جا سکتے۔“ بات ٹھیک بھی تھی، وہ، ممی اور ابا اکٹھے پاکستان کبھی نہیں جا سکتے تھے، مگر وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے الفاظ کی پہیلیاں نہیں پکڑ سکتی۔
مگر اس واقعے نے اس کا سارا موڈ برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ پھر بھی وہ جاتے ہوئے حیا سے کہہ کر گیا تھا کہوہ کھانا ضرور کھا کر جاۓ۔ پچھلی بار بھی وہ نہیں کھا کر گئی تھی وہ اس کا مداوا کرنا چاہتا تھا۔
حیا کو وہیں چھوڑ کر وہ ادالار چلا آیا۔ ہوٹل جانے کی بجائے وہ سیدھا اپنے کمرے میں آیا تا کہ ذرا حلیہ ٹھیک کر کے باہر نکلے۔ تب ہی عائشے نے دروازہ کھٹکٹایا۔ وہ اس سے کچھ بات کرنا چاہتی تھی۔
جب وہ بولنا شروع ہوئی تو اس کی خوش گمانی کہ اس نے عائشے کو اپنے کاموں میں مصروف کر دیا ہے ہوا میں اڑ گئی۔ یہ لڑکی واقعتا اس کے لیے مصیبت کھڑی کرنا چاہتی تھی۔
کیا پاشا بے تمہارا کا تم سے کوئی رابطہ ہے؟
میں نے تو پچھلے برس سے اسے نہیں دیکھا۔ اس نے شانے اچکا کر لاپروائی سے کہا۔
وہ چند لمحے تک لب بھینچے اسے دیکھتی رہی،پھر ایک دم زور سے اس کے منہ پہ تھپڑ مارا۔ اسے عائشے سے یہ امید کبھی نہیں تھی۔ لمحے بھر کو وہ خود بھی سناٹے میں رہ گیا۔
تم دنیا کے سب سے بڑے جهوٹے ہو۔ تم نے خود اس کو نکالا ہے۔ مجهے کبری خانم کے بیٹے نے بتایا ہے کہ کچھ دن پہلے وہ تمہارے آفس میں آیا تها اور تم دونوں جھگڑ رہے تهے۔ تم جانتے ہو اس کی وجہ سے آنے کتنی تکلیف میں ہیں اور تم پهر بهی ان کو دکھ دے رہے ہو۔ ان کو بتا کیوں نہیں دیتے کہ پاشا بے زنده ہے، وہ ٹهیک ہے۔ تم سچ کیوں نہیں بولتے۔ وہ بهیگی آنکهوں سے کہتی، اپنا سرخ پڑتا ہاتھ دوسرے ہاتھ سے دبا بهی رہی تهی۔ اس کا اپنا ہاتهہ بهی بہت دکھ گیا تها، اور وہ جیسے یہ سب کر کے ذرا خوفزدہ بهی ہو گئی تهی۔
مجهے تمہاری کسی بات کا اعتار نہیں رہا اب۔ تم ہماری زندگیوں سے دور کیوں نہیں چلے جاتے۔ اور تم کسی دن سارا مال سمیٹ کر دور چلے بھی جاؤ گے، میں جانتی ہوں۔ اور پهر کیا ہو گا۔ آنے، وہ کتنا ہرٹ ہوں گی۔ اور میری بہن! اس کی آواز میں دکھ کی جگہ غصے نے لے لی۔
میری بہن سے بے تکلف مت ہوا کرو۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ تمہاری وجہ سے ہرٹ ہو۔ سنا تم نے! وہ سرخ ہاتھ کی انگشت شہادت اٹها کر تنبیہ کرتے ہوئے بولی تهی۔
جہان نے اسی کے انداز میں ہاتھ اٹها کر دروازے کی طرف اشارہ کیا۔
نکل جاؤ اس کمرے سے۔ ابهی اسی وقت نکل جاؤ۔ میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔
وہ مزید کوئی الفاظ کہے بنا گیلے چہرے کے ساتھ بهاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔ اس کے جانے کے بعد جہان نے ہاتھ سے اپنے دخسار کو چهوا۔
کیا یہ صلہ ہوتا ہے قربانیوں کا۔ ساری زندگی غارت کر دو اور بدلے میں کیا ملے؟ گالیاں؟ تهپڑ؟ لعنت ملامت؟
مگر نہیں، انسان تو کبھی کسی چیز کا صلہ نہیں دیا کرتے، پهر ان کے رویے کا افسوس کیا کرنا۔
رات کهانے کے بعد وہ بہت سوچ کر عائشے کے پاس پچهلے باغیچے میں آیا۔ وه اپنی ورک ٹیبل پہ کام کر رہی تهی، اسے بس نظر اٹها کر دیکها اور خاموشی سے کام کرنے لگی۔
وہ اسے مزید جهوٹ بول کر نہیں رام کر سکتا تها۔ سو اس نے سچ کی ذرا سی ملاوٹ کر کے اسے بتایا کہ وہ دراصل ترک انٹیلی جنس کے لیے کام کرتا ہے، اس کی اور پاشا بے کی یہی ڈیل تهی، اسی لیے وہ ساتھ کام کرتے ہیں، مگر پاشا بے گرفتار ہو گیا تها اور اگر آنے کو یہ بتایا جاتا تو وه بہت زیاده ہرٹ ہوتیں۔ ہاں وہ پاشا بے سے اس دن جهگڑا ضرور تها مگر صرف اس لیے کہ وہ چاہتا تها کہ طبیب حبیب پاشا آنے سے آ کر مل لے، مگر پاشا اپنی مجبوریوں کا رونا روۓ جا رہا تها جن کی وجہ سے وہ آنے سے نہیں مل سکتا۔
کون سی مجبوریاں۔ اگر وہ جیل سے رہا ہو گیا ہے، تو وہ یہاں کیوں نہیں آتا۔ وہ متذبذب سی پوچھ رہی تهی۔
دیکھو! وہ رہا نہیں ہوا، وہ مفرور ہے، اب وہ انڈر گراؤنڈ ہے، اس طرح آزادی سے نہیں گهوم پهر سکتا۔ مگر بہت جلد وہ واپس آ جاۓ گا، لیکن یہ جیل والی بات وعده کرو، تم کسی کو نہیں بتاؤ گی۔ اس کے سنجیدگی سے کہنے پہ عائشے نے وعده کر لیا اور معذرت بهی کر لی۔ مگر اس نے عائشے کی معذرت قبول نہیں کی۔
آخر اس نے بہت سختی سے کہا کہ ”مجهے تمہارے رویے سے دکھ پہنچا ہے۔ میں اپنا کام ختم کر کے تمہارے خاندان کا سارہ پیسہ تمہیں لوٹا کر یہاں سے چلا جاؤں گا اور تم یا تمہاری بہن سے بے تکلف نہیں ہوں گا، لیکن تمہاری اس بدتمیزی کو بھلانے کے لیے مجهے کچھ وقت لگے گا۔“
سوری! اس نے ندامت سے سر جهکا دیا۔ وہ بنا کچھ کہے اٹھ آیا۔ ایک دفعہ وہ پھر عائشے کو مصروف کرنے میں کامیاب ہو گیا تها۔ اب کتنے ہی دن وہ اس ندامت سے باہر نہیں نکل پاۓ گی۔ گڈ، ویری گڈ!
ویلنٹائن کی رات اس نے ہاشم کے ذریعے حیا کے کمرے کے باہر پهول رکهوائے تهے، البتہ آج اس نے کاغذ پہ اپنے پیغام کے ساتهہ نیچے لائم انک سے اے آر پی لکھ دیا تها۔ ساتھ میں اس نے کاغذ کو ذرا لائم کی خوشبو کا اسپرے کر کے بند کیا تها، تاکہ کهولنے پہ وہ گیلا ہی محسوس ہو، اور وہ اسے آنچ ضرور دیکهاۓ۔ پتا نہیں وہ ”اے آر پی“ سے کیا اخذ کرتی ہے۔ اس نے اے آر پی کے نام کی تختی ادالار میں اپنے آفس کے باہر بهی لٹکا رکهی تهی۔ لوگ اس کو عبدالرحمن پاشا کا مخفف ہی اخذ کرتے تهے جبکہ وہ اس سے اپنے کوڈ نیم Agent rose petal مراد لیا کرتا تها۔ شاید اس لیے کہ عبدالرحمن پاشا کی حیثیت سے کام کرتے ہوۓ بھی وہ کبهی نہ بهول سکے کہ اس کی اصلیت کیا ہے۔
مگر ایک بات اسے تنگ کر رہی تهی۔ حیا کو کس نے بتایا کہ عبدالرحمن پاشا کون ہے؟ وہ ادالار میں مشہور تها، مگر استنبول تو ایک پوری دنیا تهی۔ وہاں اس کو کم ہی لوگ جانتے تهے۔ یقینا کسی ایسے شخص سے ملی ہو گی جس کا عبدالرحمن پاشا سے ماضی میں کوئی واسطہ رہ چکا ہو گا۔ جو بھی تھا، دنیا واقعی گول تھی۔ مگر وہ صرف یہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا وہ جانتی ہے کہ جہان ہی عبدالرحمن پاشا ہے۔ وہ ایک دن اسے ضرور بتا دے گا، مگر اس دن کے آنے تک اسے اس چیز کو راز رکھنا ہو گا، جب تک وہ یہ نہ جان لے کہ وہ دونوں زندگی کے سفر میں ایک ساتھ چل سکتے ہیں یا نہیں۔ ہاں تب تک وہ ایک اچھے ایجنٹ کی طرح اپنے ادالار والے کور کو استقلال اسٹریٹ والے کور سے الگ رکھے گا۔
بہارے سے اس نے بے تکلف ہونا واقعی چھوڑ دیا تھا۔ عائشے سے وہ خود مخاطب بھی نہیں ہوتا تھا۔ آج کل ویسے بھی ادالار میں حالات اتنے اچھے نہیں جا رہے تھے کہ وہ زیادہ وقت ادھر گزارتا۔ اسے معلوم تھا طیب حبیب پاشا پھر کسی دن جھگڑا کرنے پہنچ جائے گا، لالچی انسان صبر نہیں کر پا رہا تھا۔ اور پھر ایک دن وہ خود تو نہیں آیا، مگر اپنی ایک ساتھی عورت کو برگر کنگ اس سے بات کرنے بھیج دیا۔ پاشا بے فوری طور پر کسی دوسرے ملک سیٹل ہونا چاہ رہا تھا، مگر اسے اس کی فیملی سمیت یہاں سے بھیجنا جہان کے لیے مسائل پیدا کر سکتا تھا۔ وہ کافی دیر اس کی ساتھی خاتون سے بحث کرتا رہا کہ وہ انتظار اور اعتبار کرنا سیکھ جائے، مگر گفتگو تلخ سے تلخ ہوتی جا رہی تھی۔ ساتھ ہی بار بار اس کا موبائل الرٹ دے رہا تھا۔ بالآخر اس نے گفتگو درمیان میں روک کر موبائل دیکھا۔ اس کا ٹریسر الرٹ۔ اس کی بیوی قریب میں ہی تھی۔ استقلال اسٹریٹ کے دہانے پر۔
اللہ اللہ، یہ سری عورتوں کو لڑنے کے لیے آج کا دن ہی ملا تھا؟! وہ جی بھر کے بےزار ہوا تھا۔ یہی ڈر تھا اسے۔ اپنی ذاتی اور کاروباری زندگی کو الگ الگ رکھنے کی کوشش میں کچھ غلط نہ ہو جائے۔ اس کے کاروباری لوگ اس کی ذاتی زندگی سے وابستہ کسی لڑکی کو دیکھیں، دوسرے معنوں میں اس کی کوئی کمزوری پکڑنے کی کوشش کریں، یہ وہ آخری چیز تھی جو وہ چاہتا تھا۔ جب ہی وہ فورا نباہت (پاشا بے کی ساتھی لڑکی) سے کھلی فضا میں بات کرنے کا کہہ کر باہر نکلا تھا، مگر پھر بھی اس کا سامنا حیا سے ہو گیا، کیونکہ وہ سامنے سے آ رہی تھی۔
وہ اکیلی تھی، اور اس کو دیکھ کر اس کے چہرے پر چمک سی آ گئی تھی۔ وہ جیسے اس کو اپنے سامنے پا کر بہت خوش ہوئی تھی۔ وہ یقینا اسی سے ملنے آئی تھی، مگر وہ نہیں چاہتا تھا کہ نباہت اس کے بارے میں کچھ جانے، اسی لئے اسے سختی سے بات کر کے حیا کو خود سے دور کرنا پڑا۔ مزید مسائل پالنے کا وہ متحمل نہیں تھا۔ مگر اس کا اپنا دل دکھ گیا تھا۔ واپس مڑنے سے پہلے اس نے آخری پل میں حیا کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے۔ وہ بری طرح ہرٹ ہوئی تھی اور یہ بات اب جہان کو ہرٹ کر رہی تھی۔
کچھ دن اس نے صبر کیا، پھر سوچا جا کر اس سے معذرت کر لے۔ پتا نہیں کیوں، مگر وہ اس لڑکی کو دکھ دینا نہیں چاہتا تھا۔ بھلے ان دونوں کا رشتہ قائم ہو یا نہ ہو، وہ اس کے ڈورم کا نمبر وغیرہ سب جانتا تھا، مگر پھر بھی اس نے ممی سے پاکستان فون کروا کر فاطمہ مامی سے ڈورم بلاک اور کمرے کا نمبر معلوم کروایا تھا، تاکہ وہ بعد میں وضاحت کر سکے کہ اسے ڈورم نمبر کیسے پتا چلا۔
جب وقت ملا تو ایک شب وہ سبانجی چلا آیا۔ حیا کے ڈورم بلاک کی بیرونی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس نے ایک لڑکی کو کتابیں تھامے، فون کان سے لگائے، زینے اترتے دیکھا۔ اسکارف میں لپٹا دودھیا چہرہ اور سرمئی آنکھیں۔ وہ بظاہر تیزی سے اوپر چڑھتا گیا، مگر اس کی بہت اچھی یادداشت اسے بتا رہی تھی کہ اس لڑکی کو اس نے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ مگر کہاں، کب اور کیسے۔ وہ یہی سوچتا ہوا اوپر آیا، اور انہی سوچوں میں غلطاں اس نے اپنے ازلی بنا چاپ پیدا کیے انداز میں چلتے ہوئے کامن روم کا دروازہ ذرا زور سے دھکیلا۔
اور پھر جو ہوا، وہ بہت برا تھا۔
حیا ہاتھ میں جنجر بریڈ ہاؤس کی ٹرے پکڑے دروازہ بند کر رہی تھی، اسے غیر متوقع سی ٹکر لگی اور ٹرے زمین بوس ہوئی۔ وہ سخت متاسف و ششدر رہ گیا۔ بہت محنت سے بنائی گئی چیز کو صرف اس کی لمحے بھر کی غفلت نے تباہ کر دیا تھا وہ ایکسکیوز کرنا چاہ رہا تھا، اس نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تھا، مگر اس کی بیوی کی ایک دم سے ری ایکٹ کرنے والی عادت! پہلے سلش، پھر حماد کی انگلیاں اور اب جنجر بریڈ کا ٹکڑا اٹھا کر اس نے جہان کے منہ پہ دے مارا مگر اسے زیادہ تکلیف اس کے الفاظ نے پہنچائی۔ وہ اس کی زندگی سے نکل جائے کیونکہ وہ اس کے لیے دکھ اور عذاب کے سوا کچھ نہیں لاتا؟ وہ واقعی چاہتی تھی کہ وہ اس کی زندگی سے نکل جائے؟
وہ جھیل تک اس کے پیچھے گیا، پھر اسے بتانے کی کوشش کی کہ اپنی تیز زندگی میں بہت تیز چلتے ہوئے وہ اس کا بہت سا نقصان کر بیٹھا ہے، مگر وہ اس کی کوئی بات نہیں سننا چاہتی تھی۔
اس کے جانے کے بعد وہ بہت دیر تک جھیل کے کنارے بیٹھا رہا۔ آج وہ بہت غصے میں تھی اور یہ غصہ صرف جنجر بریڈ ہاؤس کے ٹوٹنے کا نہیں تھ۔ا کیا ان دونوں کے درمیان کچھ باقی تھا۔ اس نے کہا اس کی زندگی میں جنجر بریڈ ہاؤس سے بڑے مسائل ہیں، کیا وہ اس سفید پھولوں کے بھیجنے والے سے بھی پریشان تھی، کیا وہ اسے خوامخواہ اذیت دے رہا تھا۔ کیسے وہ کچھ ایسا کرے کہ حیا کے مسائل حل کر لے یا کم از کم وہ اس پہ اتنا بھروسہ تو کرے کہ اپنے مسائل شیئر کرے۔ ہاں ایک کام ہو سکتا تھا۔ اگر وہ اپنی موجودگی میں عبدالرحمن پاشا کی طرف سے اسے کال کرے، تو شاید وہ اس کو بتا دے کہ یہ آدمی اسے ستا رہا ہے۔ تب وہ اس کو اکھٹے بیٹھ کر حل کر لے گے، مگر وہ اس پہ اعتبار کرے تو نا!
اس نے ریکارڈڈ کال کا ٹائم سیٹ کیا، اور پھر حیا کے ڈروم تک گیا۔ اسے کال کی اور حسب توقع اس نے کال اٹھا لی۔ لیکن جیسے ہی حیا کو پتا چلا کہ وہ اس کے کمرے کے باہر ہے، وہ ایک دم بھاگتی ہوئی باہر آئی۔ وہ حواس باختہ بھی ہوئی تھی، اور شرمندہ بھی۔ جیسے وہ سب کچھ کرنے کے بعد اسے پچھتاوا تھا۔ مگر یہ بات کہہ بھی نہیں پا رہی تھی۔ جہان نے سوچا، چاۓ کے ساتھ ڈسکس کر لیتے ہیں، سو وہ دونوں کچن میں چلے آۓ۔
اگر جو اسے بہارے گل یوں کام کرتے ہوۓ دیکھ لیتی، تو غش کھا کر گر پڑتی۔ مگر یہاں تو وہ برگر کنگ کا ہیڈ شیف تھا۔ اور اس کام میں اسے زیادہ آرام دہ احساس ہوتا تھا، شاید اس لیے کہ یہ اس کی فطرت کے زیادہ قریب تھا۔
وہ دونوں کچن میں تھے، جب اس کی ٹائمڈ کال بج اٹھی۔ اس نے سوچا تھا کہ دس سیکنڈ کی ریکارڈنگ کے بعد اسے فون حیا کے ہاتھ سے لے لینا ہے، اسی لیے کال دس سیکنڈ کی ریکارڈ کروائی تھی، اور پھر اس نے ایسا ہی کیا، مگر اس کے باوجود حیا نے اسے کچھ نہیں بتایا۔ وہ یا تو اس پہ بھروسہ نہیں کرتی تھی یا پھر اپنے مسائل خود حل کرنا چاہتی تھی۔
اب وہ پچھلی باتیں بھلانا چاہ رہا تھا۔ چاہتا تھا کہ حیا اس پہ بھروسہ کرنے لگے۔ اس کے ساتھ کچھ تو شیئر کرے۔
سو اس نے ایک اور کوشش کرنی چاہی۔ حرج ہی کیا تھا آخر! ویسے بھی اس دن کے رویے کی معذرت ابھی قرض تھی۔ اس لیے اس نے ہفتے کی رات کا ڈنر پلان کیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ اس پہ کتنا اعتبار کرتی ہے۔ وہ اس کو پھول بھیجے گا، وہ پھول لے کر جہان کے سامنے کیا ردعمل دے گی۔ اگر وہ اسے سچ سچ بتا دیتی ہے تو وہ اس کو سچ بتا دے گا۔ ہاں وہ اسے اسی وقت سب کچھ سچ بتا دے گا۔ ایک ایک بات۔ ٹاقسم اسکوائر کے گرد کسی تاریک گوشے میں بیٹھ کر وہ اپنی زندگی کے سب پہلوؤں پہ اس کے سامنے روشنی ڈال دے گا، ہاں ٹھیک ہے، وہ ایسا کر دے گا۔ اس سے زیادہ اس ڈرامے کو وہ نہیں چلانا چاہتا تھا۔ اور آج تو اصولا وہ اتنی پریشان ہو گی کہ لازمی اس ”اے آر پی“ کا سد باب کرنے کی سعی کرے گی۔ کیونکہ وہ پہلے گاڑی بھی تو بھیجے گا، تاکہ وہ مزید پریشان ہو جاۓ۔ بس یہی چاہتا تھا وہ۔ اس کا ارادہ ڈنر پہ وہ سارا میس کری ایٹ کرنے کا ہر گز نہیں تھا، مگر جس چیز نے اسے غصہ چڑھایا وہ یہ تھی کہ وہ عبدالرحمن کی بھیجی ہوئی گاڑی میں بیٹھ گئی۔
وہ اتنے آرام سے یوں کسی کی گاڑی میں بیٹھ گئی؟
گاڑی بھیجتے ہوۓ ہاشم کو تاکید کی تھی کہ وہ عبدالرحمن کا نام صرف اس کے پوچھنے پہ لے گا، ورنہ وہ ”جہان سکندر، ٹاقسم“ کہے گا اور کوئی بھی عقلمند لڑکی اس طرح کنفرم کیے بغیر نہیں بیٹھے گی کسی کے ڈرائیور کے ساتھ۔ مگر جب وہ اسی گاڑی میں آئی تو اسے بے اختیار دھکا سا لگا تھا۔
کیا وہ واقعی ہر کسی کی گاڑی میں بیٹھنے والی لڑکی تھی؟
بے اختیار اسے وہ رات یاد آئی جب اس نے حیا کو اس لڑکے کی گاڑی میں بیٹھتے دیکھا تھا۔ جو نرم گوشہ پھر سے اس کے دل میں بننے لگا تھا، وہ پل بھر میں دب گیا۔ گو کہ وہ کہہ رہی تھی کہ وہ اسے جہان کی گاڑی ہی سمجھی تھی مگر اتنی بھی کیا لاپرواہی کہ آپ یونہی ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ اسے سخت غصہ چڑھا تھا، مگر پھر، وہی حیا کی عادت۔
وہ غصے میں ہاتھ مار کر گلدان توڑ کر چلی گئی۔
اسے ذرا سا افسوس ہوا لیکن یہ کوئی چھوٹی غلطی تو نہ تھی۔ اگر اس کی جگہ وہ گاڑی کسی اور نے بھیجی ہوتی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے گلدان کے پیسے ادا کیے، اور تب دیکھا کہ وہ اپنا موبائل بھی ادھر ہی بھول گئی تھی۔
اس نے موبائل اٹھایا اور برگر کنگ آ گیا۔ یہ حیا کا ترک سم والا موبائل تھا جس کو وہ عموما اپنے ساتھ رکھتی تھی۔ اب وہ کل ادالار جاۓ گا تو وہاں رکھے سرویلنس آلات میں سے ایک اچھا سا ٹریسر اس میں لگا دے گا۔ یہی سوچ کر وہ اس کا موبائل لیے بیوک ادا آ گیا۔
ہوٹل میں کچھ مسئلے بڑھ گئے تھے۔ اس طرح کا موقع چھ سات ماہ قبل آیا تھا اور ایسے وقت میں پیچھے سے آپ کا باس آپ کو deactivate ہو جانے کی ہدایت کر دیا کرتا ہے، اسے بھی اب یہی ہدایت مل گئی تھی یعنی اب وہ کچھ دن کے لیے منظر سے غائب ہو جاۓ۔
یوں وہ آفیشلی کچھ ہفتوں کے لیے انڈیا جانے کا کہہ کر ادالار سے پیک اپ کرنے لگا۔ درحقیقت جانا اس نے بس استقلال اسٹریٹ تک تھا، مگر آنے کو بس یہی بتایا تھا کہ وہ انڈیا جا رہا ہے، شاید اس دفعہ واپس نہ آ سکے۔ وہ ہر دفعہ جانے سے پہلے یہی کہا کرتا تھا، وہ نہیں چاہتا تھا کہ اگر اسے کچھ ہو جاۓ یا واپسی کا حکم نہ ملے تو کوئی ایک اس کی راہ دیکھتا رہے۔ اور پھر دنیا میں تو سب کچھ ممکن تھا نا!
وہ ہوٹل ہی میں تھا جب اسے حیا کی دوست ڈی جے کا فون آ گیا۔ وہ دونوں لڑکیاں بیوک ادا جانا چاہتی تھیں اور ان کو کمپنی چاہیے تھی۔ اب وہ چاہتی تھیں کہ جہان ان کے ساتھ ادالار تک آئے۔
اب وہ کیا کرے؟
جہان سکندر تو پچھلے تین برس سے ادالار نہیں گیا تھا۔ وہاں تو ہمیشہ عبدالرحمن پاشا جاتا اور رہتا تھا مگر حیا ناراض تھی، اسی لیے اس نے اس دن کا انتخاب کیا، جس کی صبح اسے ادالار چھوڑنا تھا۔ حیا کی ناراضگی دور بھی تو کرنی تھی۔ پتا نہیں کیوں کرنی تھی، مگر کرنی تھی
درمیان کے دو دن اپنے سارے کام پیک اپ کرتے ہوئے بھی وہ اپنے اور حیا کے رشتے کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔ (نامحسوس طریقے سے وہ پھر اس لڑکی سے حیا پر آ گیا تھا۔)
تب کچھ سوچ کر اس نے حیا کو فون کیا۔ عبدالرحمن پاشا کے نمبر سے۔ اس سے ملنا چاہتا ہے، یہ بات سن کر وہ کیا کہے گی۔ اب بلآخر اس ناٹک کو ختم ہونا چاہیے۔ میجر احمد کو جب اس نے انکار کیا تھا، تب وہ جہان جیسے بےمروت اور اکھڑ آدمی کو نہیں جانتی تھی، مگر اب وہ جانتی تھی۔ کیا اب وہ کسی امیر آدمی کی ساری جاہ و حشمت دیکھ کر بھی اسی معمولی سے ریسٹورنٹ اونر کی وجہ سے انکار کر دے گی۔ اور ہر دفعہ یہ وجہ جہان کیوں ہو۔ وہ لڑکا جس کے ساتھ وہ گاڑی میں بیٹھی تھی، اس کا ذکر کیوں نہیں کرتی وہ۔
وہ انسانوں سے اتنا بے اعتبار اور مشکوک ہو چکا تھا کہ اتنا سب کچھ دیکھنے کے باوجود اس کا دماغیہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا کہ وہ لڑکی اس جیسے آدمی کے ساتھ رشتہ رکھنا چاہتی ہو گی۔ مگر حیا نے اس دفعہ بھی رکھائی سے بات کر کے فون بند کر دیا۔ چلو ایک آخری کوشش، اور پھر عبدالرحمن اس کا پیچھا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دے گا۔
•••••••••••••••••••
آنے ان لوگوں میں سے تھیں جو اس کی مٹھی میں تھے۔ اس نے آنے کی مدد چاہی۔ ان کو ایک اسکرپٹ یاد کروایا کہ اس لڑکی کو آپ نے یہ اور یہ کہنا ہے، اگر وہ ہاں کہے تب یہ کہنا ہے، اگر ناں کہے تب یہ- آنے کو اس نے یہ بتایا تھا کہ وہ اس لڑکی کو پسند کرتا ہے، مگر وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے۔
آنے مان گئیں۔ ویسے بھی جو باتیں انہوں نے اسے کہنی تھیں، ان میں کچھ بھی جھوٹ نہیں تھا۔ عبدالرحمن نے واقعی اسے اس چیریٹی لنچ والے دن دیکھا تھا، ڈولی اس کے آبائی گھر کا پرانا خادم تھا۔ خادم یعنی سرونٹ۔ سول سرونٹ، گورنمنٹ سرونٹ- وہ بےچارہ میجر جسے اس نے بےعزت کیا تھا وہ کرنل گیلانی کا بیٹا تھا اور حیا کی ویڈیو ہٹوانے کے لیے اس نے جہان کی مدد کی تھی۔۔۔۔۔۔ بہرحال، اہم بات یہ تھی کہ وہ انکار کرتی ہے یا سوچنے کے لیے وقت مانگتی ہے۔
اس نے سوچا تھا کہ بیوک ادا کی گلیوں میں اپنی رف سی جینز، سوئیٹر اور بکھرے بالوں والے حلیے میں پھرتے ہوئے اسے اپنا کوئی شناسا نہیں ملے گا، آخر بیوک ادا کے سات ہزار رہائشی افراد میں سے ہر شخص اس کا جاننے والا تو نہیں تھا، مگر وہ غلط تھا۔
وہ ان لڑکیوں کے ساتھ ادالار آ گیا، اور جب وہ تینوں ٹہلتے ہوئے مین بازار میں پہنچے تو سڑک کے وسط میں مجمع سا لگا تھا
بہارے گل کا ریڈ کارپٹ شو۔
اف!!!!!!
حیا اور ڈی جے بے اختیار اس کی تصاویر بنانے لگیں اور وہ ذرا سا رخ موڑے، ناگواری سے سارا تماشا دیکھنے لگا۔ وہ اس طرح کھڑا تھا کہ بہارے کی اس کی جانب پشت تھی۔ اب وہ ڈی جے اور حیا کو فورا چلنے کا کہہ کر خود کو مشکوک نہیں کر سکتا تھا۔ سو اس نے ان کو مصروف پا کر عائشے کو میسج لکھا۔
تمہاری سات دن کی تربیت کا یہ اثر ہوا ہے کہ تمہاری بہن ادالار کے سیاحوں سے تصاویر بنوا رہی ہے۔ اسے معلوم تھا کہ عائشے سامنے دکان پہ ہی ہو گی جہاں وہ اپنے پزل باکسز بیچا کرتی تھی۔ پچھلے سات دنوں سے وہ زبردستی بہارے کو عثمان شبیر کے گھر قرآن پڑھنے لے جاتی تھی۔ اور اس وقت وہ عموما دکان پر اپنے باکسز دینے آیا کرتی تھی۔ یہ اتفاق تو نہیں تھا، وہ بس غلط جگہ پر غلط وقت پہ آگیا تھا۔
میں کچھ دوستوں کے ساتھ ہوں، مجھے پہچاننا نہیں۔ ایک دوسرا پیغام احتیاطا بھیج کر اس نے موبائل بند کر دیا۔ مگر وہ نہ بھی کہتا، تب بھی عائشے ایسی لڑکی نہیں تھی کہ بھرے مجمع میں اسے پکار لے۔ اس کی پہلی بات پہ وہ ہرٹ ہوئی تھی، تبھی فورا اپنی بہن کو لینے پہنچی اور اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ مجمع چھٹنے لگا اور اس سے پہلے کہ بہارے گل اسے دیکھتی، وہ دونوں لڑکیوں کو لیے پلٹ گیا۔
بگھی پہ حیا کے ہمراہ، بیوک ادا کی گلیوں سے گزرتے ہوئے، عائشے مسلسل اسے پیغامات بھیج رہی تھی۔
آنے نے کہا تها تم نے صبح کی فلائٹ سے انڈیا جانا ہے، مگر تم تو یہیں ہوں۔ کیا خیریت ہے۔ اور کیا یہ وہ ہی لڑکی ہے جس کا ذکر آنے کر رہی تھیں۔
وہی عائشے کی تفتیشں کرنے کی عادت۔ اس کو یقینا آنے نے بتایا تها کہ وہ کسی سے محبت کرنے لگا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
وہ حیا کے ساتھ بات کرتے ہوۓ اسے جوابا یہی بتا رہا تها کہ وہ بعد میں وضاحت کر دے گا اور ابهی وہ نماز پڑهنے ان کی مسجد ہی آۓ گا اور اگر حسب معمول دنوں بہینیں مسجد میں ہوں تو اسے مت پہچانیں اور وہ بہارے کو اس معاملے سے دور رکهے۔
ہم مسجد میں ہیں مگر اندر والے کمرے میں، تم آ جاؤ۔ ہم تمہیں ویسے ہی نہیں پہچانتے تو اب کیا کہیں گے۔
عائشے کا ناراض سا جواب آیا تها۔ اس نے مزید اسے ٹیکسٹ نہیں کیا۔ چهوڑو، بولنے دو جو بولتی ہے، سوچنے دو جو سوچتی ہے۔
اپنے سفید محل کے سامنے سے سے گزرتے ہوۓ اس نے براۓ بات سرسری سا اشارہ ان گهروں کی جانب کیا تها۔ حیا اس کی بات کو ہلکا لے رہی تهی مگر وہ ٹهیک ہی کہہ رہا تها کہ وہ ان جیسا کوئی گهر اپنی تنخواہ سے نہیں بنا سکتا تها۔ وہ فلموں میں ہوتا ہے کہ اسائنمنٹ ختم ہونے کے بعد ایجنٹ کو نوٹوں سے بهرا بریف کیس ملا کرتا ہے، اصل میں صرف پیٹھ پہ تهپکی ملتی تھی اور کچھ نہیں۔
انڈیا اور پاکستان میں اسپائز سے زیادہ انڈر Paid شاید ہی کوئی ہو۔ معمولی تنخواہ اور آپ کے گرفتار ہونے یا مرنے کی صورت میں فیملی کو مالی امداد (ایک بہت قلیل مالی امداد) دینے کا وعدہ! بس یہی ملا کرتا تها۔ بعد میں جب ایجنسی سے تبادلہ ہو کر واپس فوج میں چلا جائے گا اور اگر اس مستقل سر درد نے کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہ کیا، تو ترقی ملنے کے بعد شاید وہ ”غریب آدمی“ نہ رہے، لیکن ابهی وہ غریب آدمی ہی تها۔
مسجد سے نکلتے ہوۓ حیا نے پوچها کہ اس نے دعا میں کیا مانگا تو اس نے کہا، اس نے زندگی مانگی اور وہ ٹهیک ہی کہہ رہا تها۔ زندگی وہ ہمیشہ مانگا کرتا تها، مگر ابهی اس نے یہی مانگا تها کہ تهوڑی دیر بعد اس کی بیوی ایک امیر آدمی کا عالیشان محل دیکهنے کے بعد اپنے غریب شوہر کو چهوڑنے کا نہ سوچے۔ اپنوں کا کوئی ایسے امتحان لیتا ہے بھلا۔ اسے خود پہ افسوس ہوا۔ مگر یہی تو وہ دیکهنا چاہتا تھا کہ اس کے اپنوں میں سے ہے یا نہیں البتہ وہ اس کی ”زندگی“ والی بات نہ سمجھ سکی۔ وہ اس کی پہپلیوں کی زبان نہیں سمجهتی تهی۔
حیا عبرانی زبان کے لفظ حوا سے نکلا ہے جو کہ اماں حوا علیہ السلام کا نام تها۔ حوا کا معنی ہوتا ہے زندگی۔ سو حیا کا بھی یہی معنی ہے۔ اسی لیے عربی میں حیا کا لفظی معنی تروتازگی و شادابی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں زندگی کی علامت ہوتی ہیں۔ اسی سے لفظ حیات (زندگی) اور الله تعالی کی صفت الحیی (ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے)۔ اس کا اصطلاحی معنی عموما شرم اور Modesty Chastity اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ شرم انسان کی اخلاقی زندگی اور کردار کو تروتازہ اور زندہ رکھتی ہے، حیا میں انسان کے لیے زندگی ہوتی ہے، مگر وہ نہیں سمجھ سکی۔ وہ اس کی زبان سمجھ ہی نہیں سکتی تهی۔ چلو کبهی نہ کبھی وہ اسے اپنی زبان سمجها دے گا۔
اس نے عادت کے مطابق سب کچھ پلان کیا تها۔ بندرگاہ پہ جس بچے کو حیا کا پرس چهیننے آنا تها، وہ اس کی ہدایت کے مطابق بالوں میں لگانے والی موتیوں کی مالائیں لے کر ہی آیا تها۔ جس واحد چیز کے لیے وہ رکے گی، وہ اس کے بالوں کیخوب صورتی میں اضافہ کرنے والی کوئی چیز ہی ہونی چاہیے تھی اور جتنی جلدی ردعمل ظاہر کرنے والی وہ لڑکی تھی، وہ جانتا تها کہ وہ اپنے پاسپورٹ اور آئی ڈی کارڈ کے لیے ضرور بهاگے گی۔ ہاں اسے اچھی طرح پتا تها کہ حیا کے اس گولڈن کلچ میں اس کے کون کون سے کاغذ ہیں۔
حسب توقع وہ اس بچے کے پیچهے بهاگ پڑی۔ کبهی جو یہ لڑکی ردعمل ظاہر کرنے سے پہلے دو منٹ سوچے؟ مگر پتا نہیں کیوں اسے اس کی یہی باتیں اچهی لگنے لگی تهی۔ کم از کم وہ باہر سے بھی وہی تھی جو وہ اندر سے تھی۔ ہاں، وہ اس پہ یقین کرنے لگا تها۔
جب وہ دونوں دوبارہ تهانے میں ملے تو وہ رو رہی تھی۔ پتا نہیں وہ کس بات پہ رو رہی تهی، آنے سے ابهی جہان کی بات نہیں ہوئی تهی، وہ نہیں جانتا تها کہ اس نے آنے کو کیا کہا ہو گا۔ مگر اس روز پہلی دفعہ اس نے پورے استحقاق سے اپنی بیوی کو جھڑکا تھا۔ اسے لگا تها، حیا نے اپنے غریب شوہر کو نہیں چهوڑا۔ اس کا کار والے لڑکے سےکوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کو عبدالرحمن یا اس کی جاہ و حشمت سے بهی کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ واقعی جہان کے ساتھ رہنا چاہتی ہے، سو بس، یہ ڈراما ختم۔
رات آنے سے بات پہ اسی شے کی تصدیق کرنے کے بعد اس نے ہاشم کو کہا کہ وہ مزید اس لڑکی کا پیچها نہیں کرے گا۔ معاملہ ختم ہو چکا ہے۔ بہت آزما لیا اس نے۔ اس سے زیاده آزماۓ گا تو اس کا گناہگار ہو جاۓ گا۔
••••••••••••••••••
ہاشم فون پہ اپنے بیٹے کی بیماری کا ذکر کر رہا تھا، مگر اس نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ ہوٹل گرینڈ کا پیسہ اس کا ذاتی نہ تھا، ذاتی تو اس کے پاس کچھ نہیں تھا اور ہاشم سدا کا جواری، اپنی ساری جمع پونجی تو وہ جوئے میں لٹا آتا تھا پھر وہ کیوں اس کی مدد کرے۔ اپنے تئیں اس نے بات ختم کر دی۔ تب ہی عائشے کا میسج آیا۔
میں نے آنے سے پوچھا تھا، وہ کہہ رہی ہیں کہ تم صبح کی فلائٹ سے انڈیا چلے گئے تھے۔ ویسے اتنے سارے لوگوں سے ایک وقت میں اتنے جھوٹ بولتے ہوئے تمہیں کبھی افسوس نہیں ہوتا؟
نہیں۔ اس نے یک لفظی جواب بھیج کر اے آر پی والی سم بند کر دی۔ یہ عائشے بھی نا، کسی دن مروائے گی اسے۔
اگلے ہی روز اس نے ہاشم کو ادالار بھیجا۔ وہ اس وقت تک دکان پہ کھڑا رہا جب تک کہ عائشے نہیں آ گئی۔ عائشے کے آتے ہی ہاشم اس سے ملا، اور اس نے چھ چوکھٹوں والے پزل باکس کا آرڈر لکھوا دیا اور چوکھٹے بھی وہ جن پہ ترک کی بجائے انگریزی حروف تہجی ہوں۔ ساتھ ہی اس نے عبدالرحمن کو بتانے سے سختی سے منع بھی کیا۔
وجہ صاف تھی۔ اسے وہ پزل باکس حیا کو دینا تھا۔ جیسے وہ اپنی معلومات اور کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس ایک ایجنٹ سے دوسرے کو منتقل کرتے تھے کہ کہیں کسی لاکر میں چھوڑ دیا، یا ٹریشن کین میں، اور بعد میں کسی دوسرے ایجنٹ نے اسے آ کر اٹھا لیا، تاکہ کسی ایجنٹ کو معلوم نہ ہو سکے کہ اس کا دوسرا ساتھی کون ہے اور پکڑے جانے کی صورت میں وہ اپنے ساتھی کے لیے خطرہ نہ بنے۔ اس نے بھی اپنی اصلیت بتانے کے لیے کسی ایسے ہی ٹریژر ہنٹ کا سوچا تھا۔ خود آمنے سامنے وہ کبھی نہیں بتائے گا۔ اس کی بیوی کو اس کو سمجھ کر، اسے خود ڈھونڈنا چاہیے۔ نہیں وہ اسے آزما نہیں رہا تھا، وہ تو بس اپنے انداز میں بات پہنچا رہا تھا۔
ہاں مگر جب وہ پزل باکس اس تک پہنچے گا اور بالفرض کسی طرح اس نے ادالار تک اس باکس کے بنانے والوں کو ٹریس کر بھی لیا، تو وہاں سے وہ محض اتنا جان پائے گی کہ یہ کام عبدالرحمن کے علاوہ کسی کا بھی ہو سکتا ہے۔ بس اس میں عبدالرحمن ملوث نہیں ہے۔ حیا اس کو تلاش کرے، یہ وہ چاہتا تھا، مگر وہ اس کی جاسوسی کرے، یہ وہ ہر گز نہیں چاہتا تھا۔
اگلے چند روز خیریت سے گزر گئے۔ وہ ڈی ایکٹیویٹ ہو کر بس گھر اور ریسٹورنٹ تک محدود ہو گیا تھا ۔انہی دنوں اسے اس لڑکی کا خیال بار بار آتا رہا جو اس نے سبانجی میں دیکھی تھی، وہ اس کو پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ اسے یاد تھا کہ پچھلے سال سبانجی کے کچھ اسٹوڈنٹس انٹری شپ پروگرام کے تحت ہوٹل گرینڈ آئے تھے اور چند ہفتے انہوں نے وہاں کام کیا تھا۔ اس نے کمپیوٹر میں سارا ڈیٹا کھولا اور ایک ایک انٹری کو چیک کرتے بالآخر وہ اسے مل ہی گئی۔
ہالے نور چولگ لو۔ رومی فورم کی ایک کارکن۔ اس کا فیلڈ ریکارڈ بھی کافی اچھا تھا۔ وہ اس کی ایمپلائی تھی، اور اپنے ہر ایمپلائی کا سارا بائیو ڈیٹا وہ اپنے پاس رکھتا تھا۔ اپنے ہر ملازم کو پہچانتا تھا۔ مگر اس کے ہر ملازم نے اسے نہیں دیکھ رکھا تھا۔
وہ ہوٹل مالکان کی طرح پرائیویٹ لفٹ استعمال کرتا تھا اور نچلے عہدوں پر کام کرنے والے ملازموں کی اس سے کوئی ملاقات نہ تھی اور انٹرنیز سے کہاں اس کا رابطہ ہو پاتا تھا۔ پھر بھی، شاید یونہی آتے جاتے اس لڑکی نے اسے دیکھ رکھا ہو۔ وہ اسی ڈورم بلاک سے نکل رہی تھی جو حیا کا تھا۔ ہو سکتا ہے وہ وہاں کسی کام سے آئی ہو اور اس کا اپنا بلاک کوئی اور ہو اور اس کا حیا سے کوئی رابطہ نہ ہو اور اس نے کبھی گرینڈ ہوٹل کے اونر کو نہ دیکھ رکھا ہو۔ مگر پھر بھی آئندہ وہ سبانجی جاتے ہوئے احتیاط کرے گا، ورنہ دنیا واقعی بہت چھوٹی تھی۔
چند دن بعد ایک صبح جب وہ برگر کنگ کے کچن میں کام کر رہا تھا تو ایک دم سے اس کے سر کی پشت میں شدید درد اٹھنے لگا۔ یہ درد اسے بہت چڑچڑا بھی بنا دیتا تھا۔ سارا موڈ خراب ہو جاتا۔ اب بھی یہی ہوا۔ وہ تلخی بھرے انداز میں زور سے کھٹ کھٹ گوشت کاٹ رہا تھا۔ پچھلے ایک ہفتے سے قبضہ مافیا کے کچھ لوگ اسے تنگ کر رہے تھے۔ ریسٹورنٹ کی لیز کا معاملہ تھا اور پاشا بے کے ساتھ ان کی کوئی تلخی ہو چکی تھی۔ ایسے میں اسے اپنے ریسٹورنٹ کی سکیورٹی کے لیے اپلائی کرنا تھا، مگر اس سے قبل وہ کوئی ٹھوس واقعہ ایسا چاہتا تھا کہ جس سے اس کا کیس آسان ہو جائے۔ ارادہ تھا کہ آج سہ پہر میں اپنے کچھ آدمیوں سے ریسٹورنٹ میں توڑ پھوڑ کروا کر سکیورٹی کلیم اور انشورنس کلیم دونوں حاصل کر لیں گے۔ ایسے وقت میں اسے موقع سے ہٹ جانا چاہیے۔ وہ یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ حیا اور ڈی جے آ گئیں۔
وہ ٹاپ قپی جانا چاہتی تھیں۔ تھوڑی سی پس و پیش کے بعد وہ ان کے ساتھ چل پڑا۔ سر کا درد بخار میں تبدیل ہوتا گیا، مگر وہ ان کا ساتھ دیتا رہا۔ پھر ڈی جے کو بھی سر درد کی شکایت ہو گئی، وہ واپس جانا چاہتی تھی۔ اس کے جانے کے بعد وہ دونوں ٹاپ قپی کے عقبی برآمدے میں آ بیٹھے۔ حیا نے اس سے کہا بھی کہ وہ واپس چلا جائے، مگر ابھی ریسٹورنٹ پہ sstaged اسالٹ ہونا تھا ابھی وہ واپس کیسے جا سکتا تھا۔ البتہ سر درد کے باعث وہ حیا کی شال تان کر لیٹ گیا۔ اسے نیند ویسے بھی مشکل سے ہی آتی تھی پھر ابھی ایک پبلک پلیس پہ وہ کیسے سو سکتا تھا۔ بس یونہی لیٹا رہا۔
تب ہی اس نے محسوس کیا کہ اس سے ایک زینہ نیچے بیٹھی حیا نے گردن موڑ کر اسے دیکھا ہے شاید یہ جاننے کے لیے کہ وہ سو رہا ہے یا نہیں۔
وہ ذرا سا کھٹک گیا۔ اس نے آنکھوں سے بازو ذرا ترچھا کر کے دیکھا، حیا کی جہان کی طرف پشت تھی، اس نے ذرا گردن اٹھا کے دیکھا تو وہ موبائل پہ کسی کو میسج کر رہی تھی اوپر انڈیا کا نمبر نظر آ رہا تھا-
اسی کا نمبر۔
وہ پیغام تو نہیں دیکھ سکا، لیکن یہ وہی نمبر تھا جس سے چند روز قبل اس نے حیا کو میسج کیا تھا۔اے آر پی تو اس کا پیچھا چھوڑ چکا تھا، پھر یہ کیوں اس سے رابطہ کر رہی تھی۔ اسے تھوڑا عجیب سا لگا۔ برا نہیں لگا لیکن اچھا بھی نہیں لگا تھا۔
چند منٹ ٹھہر کر اس نے بائیں ہاتھ سے جینز کی جیب سے اپنا سیل فون نکالا۔ ( حیا اس کے دایاں جانب ایک زینہ نیچے بیٹھی تھی وہ نہیں دیکھ سکتی تھی) اس نے اسی طرح لیٹے لیٹے انڈین سم آن کی اور پھر ایکسچینج اسٹوڈنٹ کا نمبر ڈائل کیا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے سامنے بات نہیں کرے گی اور واقعی وہ کال آتے ہی اٹھ کر منڈیر تک چلی گئی۔ وہیں شال گردن سے اوپر تک لیے، آنکھوں پہ بازو رکھے، وہ ہینڈز فری سے اس سے بات کرتا رہا۔ حیا اگر اس سارا وقت میں اسے دیکھ رہی ہوتی تب بھی جان نا پاتی کہ اس کے لب ہل رہے ہیں۔ اور اس نے فون کیوں کیا؟
وہ چاہتی تھی کہ عبدالرحمن اس کے کزن کی مدد کرے۔ اس کی بات سن کر جہان بے اختیار ہنس پڑا۔ مدد کا وعدہ کر کے اس نے فون بند کر دیا۔
حیا واپس آ کر بیٹھی گئی۔ کچھ مضطرب سی تھی۔ خیر۔ پلان کے مطابق اسے ریسٹورنٹ سے کال آنے لگی۔ انہیں جانا پڑا۔ جب وہ واپس ریسٹورنٹ پہنچے تو توڑ پھوڑ دیکھ کر اسے احساس ہوا، حیا اسے عبدالرحمن پاشا کی حرکت سمجھ رہی تھی۔ اس کے چہرے کے تاترات کچھ ایسے ہی تھے۔
چلو، یہ بھی ٹھیک تھا۔ اسے سبق مل گیا ہو گا کہ اپنے مسائل حل کروانے کے لیے دوسروں کا رخ کبھی نہیں کرتے۔
•••••••••••••••••••
وہ دوبارہ پھر سبانچی نہیں گیا۔ بہار کے دن شروع ہوئے تو پورا استنبول مہکنے لگا۔ ایسے ہی ایک دن وہ گھر پہنچاا تو حیا آئی ہوئی تھی۔ مگر اکیلی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ تین لڑکیاں تھیں اور ان تین لڑکیوں میں ہالے نور کو دیکھ کر اس کا لمحے بھر ک سانس ہی رک گیا۔ سلام کا جواب دے کر ہالے نور نے بغور اس کو دیکھا۔ وہ بنا مزید کچھ کہے کچن میں چلا آیا۔
وہ لڑکی جس کا تعلق ہوٹل گرینڈ سے رہ چکا تھا اس کو اس گھر میں زیادہ دیر نہیں ٹھہرنا چاہیے تھا- اب ان کو کیسے نکالے یہاں سے؟ بڑی مصیبت سے بہتر چھوٹی مصیبت ہوتی ہی۔ اس نے چھوٹی مصیبت لے لی۔ اس نے ترک میں وہ تکلیف دہ الفاظ کہے کہ ممی تو شاکڈ رہ ہی گئیں، مگر وہ لڑکی بھی چونک گئی، لاؤنج تک کچن کی ساری باتیں سنائی دے رہی تھیں۔ پانچ منٹ بھی نہیں گزرے اور وہ چاروں وہاں سے اٹھ کر چلی گئیں۔
یہ کیا بدتمیزی تھی جہان۔ ممی ابھی تک ششدر تھیں۔
وہ اسکارف والی لڑکی مجھے کسی اور حوالے سے جانتی تھی، اگر میری بیوی کی وجہ سے میرے کور کو نقصان پہنچا تو میرا کورٹ مارشل ہو جائے گاممی۔
اوہ! وہ خاموش ہو گئیں، مگر خوش نہیں تھیں۔
اس نے سوچا تھا، وہ پھر حیا سے معذرت کر لے گا، جیسا کہ ہمیشہ ہوتا تھا۔ لیکن موقع ملنے سے قبل ہی وہ انقرہ چلا گیا۔ وہاں کچھ کام تھا اور جس دن وہ واپس آ رہا تھا، اسے ائیرپورٹ پہ حیا کا میسج ملا۔
ڈی جے ٹاقسم فرسٹ ایڈ میں تھی، اسے برین ہیمرج ہوا تھا۔
وہیں ایرپورٹ سے اس نے ٹاقسم فرسٹ ایڈ میں اپنے ایک جاننے والے کو فون کیا۔ ڈی جے کا بیری اینورزم پٹھا تھا۔ اس نے جلدی سے حساب لگایا۔ اس کا مطلب تھا کہ اس کے پاس صرف چند ہی گھنٹے تھے۔ اسے یاد آیا وہ ٹاپ قپی میں بھی سر درد کی شکایت کر رہی تھی۔
وہ پرانے چہرے والے ائرپورٹ (صبیحہ گورچن ہوالانی) سے آیا تھا، سو یورپی استنبول پہنچتے ہی وہ سیدھا ٹاقسم آیا اور وہاں سے حیا کے پاس۔ اس کے حساب کردہ گھنٹے ختم ہونے کو تھے۔ کسی بھی وقت وہ ڈی جے کی موت کی خبر دے دیں گے، پھر باڈی کلیئرنس کروانے میں وقت لگے گا، باڈی پاکستان جاۓ گی، ظاہر ہے حیا بھی ساتھ ہی جاۓ گی، یعنی دو تین دن تو کہیں نہیں گئے اور موت کی خبر سننے کہ بعد تو وہ کچھ نہیں کھاۓ گی۔ حقیقت پسندی سے تجزیہ کرتے ہوۓ اسے صرف حیا کی فکر تھی۔ وہ جلدی سے کینٹین گیا اور اس کے لیے سینڈوچ لے آیا۔ اسی اثناء میں ڈاکٹر باہر آ گیا اور خبر بھی باہر آ گئی۔ پھر بھی یہ خبر اس نے حیا کو تب دی جب وہ تھوڑا سینڈوچ کھا چکی تھی۔ اور کاش وہ، وہ آخری بندہ ہوتا جو اسے یہ خبر دیتا۔
وہ دو تین دن بہت تکلیف دہ تھے۔ اسے ڈی جے کی موت کا بہت افسوس تھا، لیکن اپنی جاب کے دوران اتنے لوگوں کو اپنے سامنے مرتے دیکھا تھا کہ ڈاکٹرز کی طرح وہ بھی ذرا immune ہو چکا تھا۔ مگر حیا کو روتے دیکھ کر اسے تکلیف ہو رہی تھی۔ وہ جو سمجھتا تھا کہ جیل کے ان تاریک دنوں نے اس کے اندر سے ساری حساسیت کو نگل لیا ہے تو شاید وہ غلط تھا۔ اسے تکلیف ہو رہی تھی، بہت زیادہ۔ ڈی جے کی موت سے بھی زیادہ۔
باڈی کلیئرنس ملنے سے قبل وہ حیا کے ہمراہ سبانجی گیا تھا، (ہالے نور سمیت اسٹوڈنٹس کی اکثریت اسپرنگ بریک پہ جا چکی تھی۔) ڈی جے کی چیزیں اس نے حیا کے ساتھ ہی پیک کروائی تھیں۔ اس کے رجسٹر اکھٹے کرتے ہوۓ وہ بھیگی آواز میں کہہ رہی تھی کہ ڈی جے اپنے نوٹس یا رجسٹر فوٹو کاپیئر پہ بھول جاتی تھی، اس لیے وہ فوٹو کاپیئر تک گیا تاکہ اس کا اگر کچھ رہ گیا ہے تو وہ بھی اٹھا لائے، مگر جب ادھر رکھے ڈی جے کہ رجسٹر کا پہلا صحفہ اس نے پلٹایا تو اس پہ بڑا بڑا کر کے یونانی فلاسفر ہراقلیطس کا ایک قول لکھا تھا:-
“ into the same river no man can enter twice hearclitus.
وہ کچھ دیر سوچتا رہا، پھر رجسٹر ادھر ہی چھوڑ کر واپس آ گیا۔ حیا اس وقت ذہنی طور پر اتنی ڈسٹرب تھی کہ اس کو کچھ پوچھنے کا ہوش ہی نہیں تھا۔ بعد میں وہ واپس آ کر یہ رجسٹر لے گی تو اس قول کو ضرور پڑھے گی، وہ اسے اپنے پزل باکس پہ پہیلی کے طور پر لکھ سکتا تھا۔ ڈی جے فلسفے کی طالبہ تھی تو شاید حیا بھی اس فلاسفی کے پس منظر سے واقف ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممی کے مجبور کرنے پہ وہ اپنے کنٹرولر سے اجازت لے کر حیا کے ساتھ پاکستان آ گیا۔ وہی موقع جس سے وہ بھاگتا تھا، بلآخر سامنے آ ہی گیا تھا۔ مگر صرف حیا کے لیے اس نے یہ کر لیا۔ اپنے ماموؤں کے سامنے آ ج بھی وہ خود کو کمزور محسوس کرتا تھا۔ ان کی باتیں سننا، ان کے تیور برداشت کرنا، وہ کچھ بھی تو نہیں بھولا تھا۔ لیکن اس کے سوا کوئی چارا بھی تو نہ تھا۔ حیا تو سیدھی اپنی امی کے ساتھ ڈی جے کے گھر چلی گئی۔ وہ سلیمان ماموں سے ملا، وہ کچھ دیر حیا وغیرہ کے لاؤنج میں ان کے ساتھ بیٹھا رہا۔ ماموں ذرا رکھائی سے ملے تھے۔ سرد انداز۔ ٹھیک ہے، وہ بھی تو اسی طرح ہی ملا تھا۔
سبین ٹھیک ہے؟ اسے بھی لے آتے؟
ابا کی وجہ سے نہیں آ سکتی تھیں وہ۔
اچھا! اور خاموشی۔ بس اسی طرح کی کچھ باتیں کر کے ملازمہ نے اسے اس کا کمرہ دکھا دیا۔ وہ نیچے والا ایک کمرہ تھا، اس نے پوچھا کہ اگر کوئی اوپر والا کمرا مل جاۓ تو؟ ملازمہ نے فورا اس کا سامان اوپر والے گیسٹ روم میں رکھ دیا۔
وہ کسی کے بھی گھر میں رہتا، ہمیشہ اوپر والی منزل پہ ٹھہرتا۔ اوپر سے نیچے پورے گھر کا جائزہ لینا آسان ہوتا ہے، آپ کا پینو راما وسیع رہتا ہے، فرار کا راستہ بھی مل جاتا ہے۔ آس پاس کے گھروں پہ بھی نظر رکھنا سہل تھا۔
•••••••••••••••••••••
دوپہر میں وہ سو نہیں سکا، بس ٹیرس سے ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ مسجد کدھر ہے، کالونی سے نکلنے کے راستے، سیکٹر کے مرکز کی سمت۔
دوپہر میں حیا اور اس کی امی واپس آ گئیں۔ اس نے کھڑکی سے دیکھا تھا۔ حیا بیمار لگ رہی تھی مگر وہ اس طرح جا کر پوچھ بھی نہیں سکتا تھا۔
شام میں ذرا دیر کو آنکھ لگی ہی تھی کہ حیا کی امی، فاطمہ ممانی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ فرقان ماموں وغیرہ آۓ تھے نیچے۔
میں آ رہا ہوں بس فریش ہو کر۔
اوکے! اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ رکیں۔ نور بانو بتا رہی تھی کہ آپ کو نیچے والا کمرہ پسند نہیں آیا؟ یہ ٹھیک ہے؟
جی۔ اس نے تردید کیے بغیر بس اثبات میں سر ہلایا۔ وہ تو ایسا ہی تھا، مگر فاطمہ ممانی کو شاید کچھ اچھنبا سا ہوا تھا مگر بولیں کچھ نہیں۔
کچھ دیر بعد وہ کمرے سے بنا چاپ کے نکلا تو ابھی سیڑھیوں کے گول چکر کے اوپر ہی تھا جب لاؤنج سے ملحقہ کچن کی آدھی کھلی دیوار کے پار فاطمہ ممانی حیا سے بات کرتی نظر آئیں۔ اس نے دانستہ طور پر رک کر سنا۔
یہ سبین کا بیٹا ذرا پراؤڈ نہیں ہے؟
چلو جی۔ پہلے اس کا باپ مغرور تھا، اب وہ مغرو ہو گیا۔ جو اپنی مرضی سے رہنا چاہے، وہ مغرور ہو گیا! وہ تو مغرور نہیں تھا۔ اسے تو کسی چیز کا غرور نہیں تھا۔ پتا نہیں کیوں وہ اس کے بارے میں ایسے اندازے قائم کر رہے تھے۔
نہیں، وہ شروع شروع میں ایسا ہی رہتا ہے۔ حیا کہہ رہی تھی۔
اور بعد میں؟
بعد میں بھی ایسا ہی رہتا ہے۔ اس شروع اور بعد کے درمیان کبھی کبھی نارمل ہو جاتا ہے۔
سیڑھیوں کے وسط میں دیوار پہ لمبا سا آئینہ آویزاں تھا جس میں وہ دونوں نظر آ رہی تھیں۔ اور وہ الفاظ کہتے ہوئے حیا کا چہرہ سپاٹ تھا۔ اسے برا لگا مگر پتا نہیں کیوں اب وہ اس کو مارجن دینے لگ گیا تھ۔ا ایسا ہے تو ایسا ہی سہی۔
لان میں ماموں فرقان اور صائمہ ممانی آئی ہوئی تھی۔ جب وہ چلتا ہوا لان کے دہانے تک آیا تو وہ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
تمہیں کیا لگتا ہے، تم یہاں عزت سے جی سکو سگے؟ کبھی نہیں، تم ذلیل ہو گے۔ تم خوار ہو گے۔
وہ آوازیں آج بھی اس کے ساتھ تھیں۔ وہ لوگ بہت عزت سے اب اس سے مل رہے تھے۔ سلام دعا،ممی کا حال،گلے، شکوے۔
تمہارا باپ تمہارے نام پہ ایک شرم ناک دھبہ ہے تم کبھی سر اٹھا کر نہیں جی سکو گے۔ تمہارے باپ کا نام تمہارا سر ہمیشہ شرم سے جھکاتا رہے گا۔
وہ ان کے سامنے کرسی پہ بیٹھا ہوا تھا۔ فاطمہ ممانی اس سے چائے کا پوچھ رہی تھیں۔ اس نے وہی کہا جو ایک ترک لڑکے کو کہنا چاہیے تھا۔ ایپل ٹی۔
تم کتوں کی طرح زندگی گزارو گے۔ کبھی عزت اور وقار سے اپنے ملک کا رخ نہیں کر سکو گے۔
وہ اب اس سے اس کی جاب اور دوسری مصروفیات کا پوچھ رہے تھے۔ وہ چھوٹے چھوٹے جواب دیتا رہا۔ حیا اس سارے وقت میں لا تعلق سی بیٹھی رہی۔ بس ایک دو دفعہ بولی۔ مگر وہ اسے نظرانداز کر رہی تھی یہ الگ بات تھی کہ اپنے تئیں جہان اسے نظرانداز نہیں کر رہا تھا۔ وہ تو ہمیشہ سے ہی خاموش اور ریزرو سا تھا۔ البتہ اپنے ماموؤں کے لیے اس کے دل میں نرم گوشہ نہیں تھا۔ ہاں نہیں تھا وہ اعلی ظرف- جن باتوں نے اسے اور اس کی ممی کو ایک عرصہ ڈسٹرب رکھا، ان کے کہنے والے تو بڑے مزے سے اپنی زندگی میں مگن تھے۔ کسی کو کوئی غرض نہیں تھی کہ سبین سکندر اور جہان سکندر کا کیا بنا ہے، کیونکہ ان کے ناموں کے ساتھ سکندر لگتا تھا۔
وہ پہلی ملاقات میں ان سے کوئی بات نہ کر سکا۔ اس سے ہوئی ہی نہیں! کچھ زخم بھرنے میں بہت وقت لگتا ہے اور اس کا وقت ابھی پورا نہیں ہوا تھا۔
چونکہ وہ ترک شہری کے طور پر آیا تھا اس لیے اس کی حرکات و سکنات اس کے کور کی مطابق تھی۔ بھلے وہ انگریزی میں بات کرنا ہو، گھاس پر جوتوں سمیت نہ چلنا ہو، یا بنا جوتوں کے گھر میں داخل ہونا، وہ وہی بنا رہا جو وہ لوگ اسے سمجھتے تھے۔
اٹھنے سے قبل فرقان ماموں اپنے گھر آنے کی دعوت دے گئے تھے۔
تم نے میری بات نہیں مانی، اب جب مدد چاہیئے ہو تو میری طرف مت آنا۔
وہ آوازیں پیچھا نہیں چھوڑتی تھیں۔
سلیمان ماموں نے ان کے جاتے ہی قطیعت سے کہہ دیا تھا کہ اب حیا واپس نہیں جائے گی۔ اس نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، البتہ وہ جان گیا تھا کہ وہ واپس جانا چاہتی ہے۔ ہاں، واپس تو اسے جانا ہی تھا۔ وہ کرے گا اس بارے میں بھی کچھ-
•••••••••••••••••
اس پہلی ملاقات سے اس نے یہ اخذ کیا کہ فرقان ماموں کی باتیں اور طنزیہ انداز اس کی توقع کے عین مطابق ہی تھا، البتہ سلیمان ماموں یوں طنز نہیں کرتے تھے، بس اکھڑے اکھڑے سے رہتے تھے۔ وجہ شاید ان کا گزشتہ دفعہ استنبول کا دورہ تھا، جب وہ ادالار میں ہونے کے باعث ان کے لیے جہانگیر نہیں آ سکا تھا۔ اور جب آیا تو تھوڑی دیر ہی بیٹھ سکا۔ یہ وہ وقت تھا جب اس کے دل میں ان کے لیے موجود شکوے ختم نہیں ہوئے تھے اور اپنے اکھڑ رویے کے باعث سلیمان ماموں بھی بدظن ہو چکے تھے، وہ جانتا تھا۔ اور ان کا رویہ اب بھی ویسا ہی تھا۔ حیا کے ساتھ پاکستان آنے، یعنی ان کی بیٹی کا اتنا خیال رکھنے پر بھی وہ اس سے راضی نہ تھے۔ فرقان ماموں کی اسے کوئی پرواہ نہ تھی، مگر سلیمان ماموں۔۔۔