
جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد
قسط نمبر تین
حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئی، لاؤنج میں بیٹھے سلیمان صاحب تیزی سے اس کی طرف آئے۔ ان کے چہرے پر غیظ و غضب چھایا تھا۔
وہ ڈر کر پیچھے ہٹی۔ تب ہی فون کی گھنٹی بجی۔
یہ ویڈیو تمہاری ہے؟ تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم مجرے کرتی ہو؟ روحیل جو صوفہ پر بیٹھا تھا، ایک دم اٹھا اور بہت سی سی ڈیز اس کی طرف اچھالیں۔ وہاں سب موجود تھے۔ تایا فرقان، داور بھائی، روحیل اور ایک طرف ارم زمین پر بیٹھی رو رہی تھی۔ دور کہی فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہ ان کو کہنا چاہتی تھی۔ اس کا منہ تو ہلتا تھا پر آواز نہیں نکل رہی تھی۔ وہ سب اس کا خون لینے پہ تلے تھے۔
سلیمان صاحب آگے بڑھے اور اس کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔
بے حیا۔۔۔۔۔ بے حیا اسے تھپڑوں سے مارتے ہوئے سلیمان صاحب کہ رہے تھے۔ ان کے لب ہل رہے تھے مگر ان سے آواز ڈولی کی نکل رہی تھی۔ وہ سلیمان صاحب نہیں ڈولی بول رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ڈولی۔۔۔۔۔۔ ڈولی۔۔۔۔۔۔۔ پنکی۔۔۔۔۔۔۔ بے حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پنکی کی انگلیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فون کی گھنٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔
کمرے میں اندھیرا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر ٹیبل لیمپ آن کیا۔ زرد سی روشنیہر س پھیل گئی۔
اس نے بے اختیار دونوں سے اپنا چہرہ چھوا ۔سب ٹھیک تھا۔ کسی کو کچھ علم نہیں ہوا تھا۔ وہ سب ایک خواب تھا۔۔۔۔اوہ خدایا ۔۔۔۔ اس کا سانس تیز تیز چل رہا تھا۔۔۔۔۔ دل ویسے ہی دھڑک رہا تھا۔۔۔۔۔ پورا جسم پسینے سے بھیگا تھا۔۔۔۔۔۔
فون کی مخصوص ٹون اسی طرح بج رہی تھی۔ ہاں بس وہ گھنٹی خواب نہیں تھی۔ اس نے سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھایا اور چمکتی سکرین کو دیکھا۔ private number caling.... اور پھر اس نے فون کان سے لگا لیا۔۔
میجر احمد میں آپ کے آفس آ کر رپورٹ درج کروانے کے لیے تیار ہوں۔۔۔ کل صبح نو بجے میرے گھر کی بیک سائیڈ پہ موجود گراؤنڈ کے انٹرنس پہ گاڑی بھیج دیں۔ شارپ۔
اوکے! اسے فاتحانہ لہجہ سنائی دیا تھا۔ اس نے آہستہ سے فون بند کر دیا۔
کبھی بھی وہ کسی لڑکے سے تنہا نہیں ملی تھی۔ مگر نہ ملنے کی صورت میں وہ ویڈیو کبھی نہ کبھی لیک
اس خوفناک خواب نے اسے یہ سب کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اسے لگا اب اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں رہا۔ میجر احمد سے تو وہ نپٹ لے گی۔۔
************
پلے گراؤنڈ کے گیٹ کے ساتھ توت کا تناور درخت تھا۔ وہ اس سے ٹیک لگائے منتظر کھڑی تھی۔ سرخ اے لائن قمیض چوری دار پاجامہ۔ اوپر سٹائلش سا سرخ سوئیٹر جس کی لمبی آستین ہتھیلیوں کو ڈھانپ کر انگلیوں تک آتی تھی اور کندھوں پہ براؤن چھوٹی سی اسٹول نما شال۔ لمبے بال پیھچے کمر پہ گر رہے تھے، سردی اور دھندمیں وہ مضطرب سی کھڑی تھی۔
ارم یا زارا اس نے کسی کو نہیں بتایا تھا۔ یہ خطرہ اس کو اکیلے مول لینا تھا۔
دفعتا اس نے بے چینی سےگھڑی دیکھی۔ نو بجنے میں ایک منٹ تھا۔
اسی پل ایک کار زن سے اس کے سامنے آ کے رکی ۔۔سیاہ پرانی مرسڈیز اور کسی بت کی طرح سامنے دیکھتا ڈرائیور۔۔
وہ خاموشی سے سر جھکائے آگے بڑھی اور پچھلا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی۔ اس کے دروازہ بند کرتے ہی ڈرائیور نے گاڑی آگے بھگا دی۔
تقریبا ایک گھنٹے بعد وہ سیف ہاؤس تھی۔
سفید دیواروں والا خالی کمرہ، درمیان میں لکڑی کی کرسی اور میز، جس پر اسے بٹھایا گیا۔ میز پر صرف ٹیلیفون رکھا تھا۔ باقی پورا کمرہ خالی تھا۔
وہ مضطرب سی گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ تین طرف سفید دیواریں تھیں۔ ان میں سے ایک دیوار میں وہ دروازہ تھا، جہاں سے وہ آئی تھی۔ البتہ چوتھی سمت اس کے بالمقابل دیوار شیشے کی بنی تھی۔ دراصل وہ شیشے کی سکرین تھی، جو زمین سے لے کر چھت تک تھی۔
اس نے غور سے سکرین کو دیکھا۔ اس کا شیشہ دھندلا کر دیا گیا تھا۔ جیسے مشین پھیر کر frosted کیا جاتا ہے۔ ہر شے اتنی مبہم اور دھندلی تھی کہ وہ بمشکل ایک خاکہ بنا ہا رہی تھی۔ یقینا وہ شیشہ ایک کمرے کر دو حصوں میں تقسیم کرنےکے لیے درمیان میں لگایا تھا اوراس کے پار کمرے کا باقی حصہ تھا۔
شیشے کے اس پار کوئی بڑا، پرتعیش سا آفس تھا اور آفس ٹیبل کے پیچھے ریوالونگ چیئر پہ کوئی بیٹھا تھا۔اس کا رخ حیا کی جانب ہی تھا۔ اس کا چہرہ واضح نہ تھا۔ خاکی یونیفارم، سر پر کیپ، ٹیک لگا کر کرسی پر بیٹھا، میز پر رکھی کوئی چیز انگلیوں پر گھماتا ہوا۔ شاید دیکھ بھی اسی کو رہا تھا مگر اس کی آنکھیں واضح نہ تھیں، واضح تھی تو بس ایک چیز، اس آفیسر کےگندمی چہرے کے دائیں طرف والے آدھے پہ یک بدنما سی کالک، جیسے آدھا چہرہ جھلس گیا ہو۔
دفعتا وہ شخص آگے کو جھکا اور میز سے کچھ اٹھا کر کان سے لگایا۔ غالبا فون کا ریسیور۔
ٹرن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹرن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یک دم حیا کے سامنے میز پر رکھا فون بجنے لگا۔ وہ چونکی۔ فون مسلسل بج رہا تھا کیا وہ شخص اسےکال کر رہا تھا؟ اس نے دھڑکتے دل سے ریسیور اٹھایا اور کان سے لگایا۔
"ہیلو!"
السلام علیکم مس حیا سلیمان! دس از میجر احمد۔
وہی بھاری، نرم گرم سا خوبصورت لہجہ۔
وعلیکم السلام! وہ فون ہاتھ میں پکڑ کر کان پر رکھے یک ٹک سامنے اسکرین کو دیکھ رہی تھی، جس کے پر آدھے جھلسے چہرے والا آفیسر فون تھامے بیٹھا تھا۔ کیا وہی میجر احمد تھا؟
میں امید کرتا ہوں کہ ہم نے آپ کو زیادہ تکلیف نہیں دی۔
جی۔ اس کو گھٹن محسوس ہونے لگی تھی۔
میرے سامنے لیپ ٹاپ پر سسٹم کھلا ہوا ہے۔ مجھے ایک کلک کرنا ہے اور آپ کی ویڈیو صفحہ ہستی سے ایسے مٹ جائے گی جیسے کبھی بنائی ہی نہیں گئی تھی۔
دیوار کے اس پار دھندلے منظر میں بیٹھے آفیسر کے سامنے بھی لیپ ٹاپ کھلا پڑا تھا۔ تو وہ میجر احمد تھا؟ وہ سامنے کیوں نہیں آتا تھا؟
"اور شہر کے ایک ایک بندے سے میں یہ ویڈیو نکلوا چکا ہوں۔ بولے حیا! میں کلک کر دوں؟
اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ رپورٹ؟
سمجھیں، وہ درج ہو گئی۔ اسے لگا وہ مسکرایا تھا۔
مگر۔۔۔۔۔۔ آپ نے کہا تھا کے مجھے رپورٹ کے لئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غلط کہا تھا، ایکسکیوز بنایا تھا۔ بعض اوقات بہانے بنانے پڑتے ہیں، تب جب مزید صبر نہیں ہوتا، سمجھیں؟
فون کو جکڑا، اس کا ہاتھ پسینے میں بھیگ چکا تھا۔ یہ شخص اتنی عجیب باتیں کیوں کر رہا تھا؟
آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کلک کر دیں۔ بمشکل وہ کہہ پائی۔ وہ شخص جھکا، شاید بٹن دبانے اور پھر واپس پیچھے ہو کر بیٹھ گیا۔
"کر دیا!"
اوہ تھنک یو میجر احمد! اس کا گلا رندھنے لگا تھا۔
ایک بات پوچھوں؟
جی؟
کیا یہ ویڈیو جعلی تھی؟
نہیں، تھی تو اصلی۔
تو آپ اتنی ڈر کیوں رہی تھیں؟
ظاہر ہے یہ ہماری فیملی ویڈیو تھی اور شادیوں پر ڈانس کی ویڈیو ہم نہیں بنواتے۔
کیوں؟ وہ پے درپے سوال کر رہا تھا۔
کیا مطلب کیوں؟ شادیوں کی ویڈیوز سرکولیٹ ہوتی ہیں ہر جگہ، کیا اچھا لگتا ہے ہمارے ڈانس کی ویڈیو پرائے لوگ دیکھیں؟
مگر پرائے لوگ لائیو تو دیکھ سکتے ہیں، غالبا اس ویڈیو میں مجھے ویٹرز، مووی میکر اور ڈی جے نظر آ رہے تھے، وہ بھی تو پرائے مرد ہیں نا؟ میں سمجھ نہیں پایا کہ اگر آپ اس طرح رقص کرنے کو صحیح سمجھتی ہیں تو ویڈیو کے باہر نکلنے پر پریشان کیوں تھیں۔
میں آپ کے سامنے جواب دہ نہیں ہوں۔ وہ درشتی سے بولی۔
ٹھیک کہا آپ نے، خیر! ایک اور بات پوچھوں؟
پوچھیئے۔۔۔ اب کے اس کی آواز میں اجنبیت در آئی تھی۔
کبھی کوئی آپ کے لئے جنّت کے پتے توڑ کر لایا ہے؟
ہم دنیا والوں نے جنّتیں کہاں دیکھی ہیں میجر احمد! اس کے چہرے پر تلخی رقم تھی۔
تب ہی تو ہم دنیا والے جانتے ہی نہیں کے جنّت کے پتے کیسے دکھتے ہیں۔ کبھی کوئی آپ کو لادے تو انہیں تھام لیجییے گا۔ وہ آپ کو رسوا نہیں ہونے دیں گے۔
اس کے چہرے کی تلخی سکوت میں ڈھلتی گئی۔ کون تھا اس پار؟
آپ سن رہی ہیں؟
ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی۔ وہ چونک کر سنبھلی۔ میں چلتی ہوں۔ وہ ریسیور کان سے ہٹانے ہی لگی تھی کہ وہ کہہ اٹھا۔
"ایک منٹ، ایک آخری سوال کرنا ہے مجھے"
وو اٹھتے اٹھتے واپس یٹھ گئی "جی پوچھیئے"
""آپ مجھ سے شادی کریں گی؟"
اسے زور کا دھچکا لگا۔ وہ گنگ سی پھٹی پھٹی نگاہوں سے دھندلی دیوار کو دیکھے گئی۔
بتائیے مس حیا
اس کے لب بھینچ گئے۔ حیرت اور شاک پہ غصّہ غالب آ گیا۔
مس حیا نہیں، مسسز حیا! ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولتی وہ پرس تھام کر اٹھی۔ فون کا ریسیور ابھی تک پکڑ رکھا تھا۔
کیا مطلب۔۔ وہ واضح چونکا تھا۔
افسوس کے میرے بارے میں اتنی معلومات رکھنے کے باوجود آپ میرے بچپن میں ہونے والے نکاح سے بےخبر ہیں۔ وہ نکاح جو میرے کزن جہاں سکندر سے میرے بچپن میں ہی پڑھا دیا گیا تھا۔ میں شادی شدہ ہوں اور میرا شوہر ترکی میں رهتا ہے۔
اوہ آپ کی وہ رشتہ دار فیملی جو کبھی پاکستان آئی ہی نہیں؟ جانتا ہوں، آپ کی پھپھو کا خاندان جو ذلّت اور شرمندگی کے مارے اب شاید کبھی ادھر کا رخ نہیں کرے گا آخر کارنامہ بھی تو بہت شرمناک انجام دیا تھا نا۔ ان کا انتظار کر رہی ہیں آپ؟ ارے بچپن کا نکاح تو کورٹ کی ایک ہی پیشی میں ختم ہو جاتا ہے۔
شٹ اپ جسٹ شٹ اپ میجر احمد! وہ چلائی۔ آپ کی ہمت بھی کیسے ہوئی یہ بات کرنے کی؟ ارے بھاڑ میں جائیں آپ اور آپ کی وہ ویڈیو، آپ بھلے اسے ٹی وی پر چلوا دیں، مجھے پرواہ نہیں۔ میرا ایک کام کرنے کی اتنی بڑی قیمت وصولنا چاھتے ہیں آپ۔ رہاجہاں سکندر تو وہ میرا شوہر ہے اور مجھے بہت محبّت ہے اس سے۔ اس کے علاوہ میری زندگی میں کوئی نہیں آ سکتا سمجھے آپ۔
ریسیور واپس پٹخنے سے قبل اس نے سوگواریت بھرا قہقہ سنا تھا۔ پیر پٹخ کر وہ دروازے کی جانب بڑھی۔ اسی لمحے دروازہ کھول کر ایک سپاہی اندر آیا۔ جو اسے اندر بٹھا کر گیا تھا؛ اسے فورا اشارہ کر دیا گیا تھا۔ ملاقات ختم ہو چکی تھی اور حیا کے لیے وہ بےحد تلخ ثابت ہوئی تھی۔
گاڑی آپ کا انتظار کر رہی ہے میم! آئیے۔ وہ راستہ چھوڑ کر ایک طرف ہو گیا۔ حیا نے گردن موڑ کر دیکھا۔
دھند کے اس پار وہ شخص میز پر جھکا کچھ لکھ رہا تھا۔ اسے لگا اس نے اس کی میز پر کسی سرخ شے کی جھلک دیکھی ہے۔ شاید سرخ گلابوں کے گلدستے کی یا شاید یہ اس کا وہم تھا۔
جس لمحے وہ اس پرانی کار کی پچھلی سیٹ پہ بیٹھی تو کھلے دروازے سے اس سپاہی نے اسے ایک سرخ گلابوں کا بوکے اسے تھمایا۔ گو کہ اس کے ساتھ کوئی خط نا تھا اور وہ پھول بھی ان سفید پھولوں سے قطعا مختلف تھے ، پھر بھی اسے یقین ہو گیا کہ وہ گمنام خطوط بھیجنے والا بھی میجر احمد ہی تھا۔ اور وہ اسے بہت پہلے سے جانتا تھا۔
"یہ جا کر اپنے میجر احمد کے منہ پر دےمارو"۔ اس نے بوکے سپاہی کے بازوؤں میں پھینکا اور دروازہ کھٹاک سےبند کیا۔ گاڑی زن سے آگے بڑھ گئی۔۔۔
***********
حیا۔۔۔حیا۔۔۔
شام میں ارم بھاگتی ہوئی آئی۔ خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔
"وہ ویڈیو اس ویب سائٹ سے ریموو ہو گئی ہے" اس نے فرط جزبات سے تقریبا بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھی حیا کو جھنجھوڑ ہی دیا تھا۔
مگر کیسے ہوا یہ سب؟
"اس ویب سائٹ والے کو خوف خدا آ گیا ہو گا، مجھے کیا پتا" وہ لاپرواہی سے انجان بن گئی۔
ہوں شاید؛ مگر اچھا ہی ہوا اور ہاں تمہاری ترکی کی فلائٹ کب ہے ۔۔۔۔
"پتا نہیں پہلے پاسپورٹ تو ملے پھر ہی ویزا ملے گا۔۔"اس کو ارم کی موجودگی سے کوفت ہونے لگی تھی۔ کچھ اس کے تاثرات سے واضح ہو ہا تھا اس لیے ارم جلد ہی اٹھ کر چلی گئی۔ وہ پھر سے سوچوں میں گم گئی۔
میجر احمد۔۔۔۔۔۔۔ اس کا آدھا جھلسا چہرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سامنے نا آنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پردے کے پیچھے سے بات کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی وہ عجیب فلسفیانہ باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔جننت کا تذکرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بازپرس کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر مجھ سے شادی کا سوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوہ میرے خدایا ۔۔۔۔! کیسا عجیب آدمی تھا وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی ایک بات جس کے بارے میں وہ اس وقت شدید طیش میں ہونے کے باعث سوال نہیں کر سکی تھی۔
"آپ کی پھپھو کا خاندان جو ذلّت اور شرمندگی کے مارے اب شاید ادھر کا رخ کبھی نہیں کرے گا۔ آخر کار کارنامہ بھی تو بہت شرمناک انجام دیا ہے"۔
کیوں کہی تھی اس نے یہ بات؟ کیسی ذلت و شرمندگی؟ کیسا شرم ناک کارنامہ؟
پھپھو کا خاندان واقعتا پلٹ کر نہیں آیا تھا، تو کیا اس کی وجہ ان کی اپنے ملک اور خاندان سے بےزاری نہیں تھی جیسا کہ وہ قیاس کرتی تھی بلکہ کوئی ار تھی؟ کوئی ذلت آمیز کام ج انہوں نے سر انجام دیا تھا؟ اور انہوں نے کس نے؟ پھپھو؟ ان کے شوہر؟ یا جہان سکندرنے؟ کیا گتھی تھی بھلا؟ مگر میجر احمد سے وہ استفسار کر نہیں سکتی تھی، نہ ہی اس کا دوبارہ کوئی فون آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر؟
اور وہ خطوط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔، وہ گلدستے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی اسی نے بیجھے تھے۔اسے اس کےسپانجی جانے کا کیسے علم ہوا؟ یقیناً وہ اس کی کال ٹیپ کر رہا تھا جب زارا نے اس کو بتایا تھا۔ اور وہ اس وقت یقینا اس کے گھر کے باہر ہی ہو گا، مگر گلدستہ تو کچن کی ٹیبل پر رکھا تھا۔ تو کیا وہ ان کے گھر بھی داخل ہو سکتا تھا؟ اور اس کے کمرے میں بھی؟
خوف کی لہر نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔ وہ اٹھ کر دروازہ بند کرنے ہی لگی تھی کہ فاطمہ بیگم دروازہ کھول کر اندر آئیں۔
"حیا۔۔تمہارے ابّا تمہیں بلا رہے ہیں"
اوکے، آ رہی ہوں۔اس نے تکیہ پر رکھا ڈوپٹہ اٹھا کر گلے میں ڈالا،سلیپر پہنے اور باہر آئی۔
ابّا؟ اس نے انگلی کی پشت سے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
آ جاؤ حیا۔
اس نے دروازہ کھولا۔ سامنے بیڈ پر سلیمان صاحب بیٹھے تھے۔ سوچ میں گم، متفکر، اس کے منتظر۔۔۔۔۔۔۔۔ ساتھ ایک طرف صوفے پر فاطمہ بیگم موجود تھیں۔ ان کی خوبصورت آنکھیں سوگوار تھیں ار باوقار سراپا پہ افسردگی چھائی ہوئی تھی۔
آپ نے بلایا تھا ابّا۔
ہاں آؤ بیٹھو۔
میں نے ایک فیصلہ کیا ہے
اس نے گردن اٹھائی۔ وہ بہت سنجیدہ دکھائی دے رہے تھے۔
"اب تمہیں کورٹ کے ذریعے سبین کے بیٹے سے خلع لے لینی چاہیے۔
کوئی اس کے منہ پر چابک دے مارتا، تو شاید تب بھی اسے اتنا دکھ نا ہوتا جتنا اب ہوا تھا۔
میں نے وکیل سے بات کر لی ہے۔ عدالت کی ایک پیشی میں علیحدگی ہوجائے گی اور جتنے بےزار وہ لوگ ہم سے ہیں، یقینا انھیں اس بات سے بہت خوشی ہو گی۔
اس نے شاکی نظروں سے ماں کو دیکھا تو انہوں نے بے بسی سے شانے اچکا دیے۔
"ابّا کیا یہ واحد حل ہے "بہت دیر بعد وہ بولی۔ ان کے رویے سے صاف اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ اس رشتے کو رکھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔
کیا اس کے علاوہ بھی کوئی حل ہے؟ حیا دنیا کا کوئی باپ اپنی بیٹی کا گھر نہیں توڑنا چاہتا اورمیں کبھی تمہیں یہ نہ کہتا، لیکن کس قیمت پر؟ کس قیمت پر ہم یہ رشتہ نبھانے کی کوشش کریں جب وہ کوئی امید ہی نہیں دلاتے۔
اگر آپ کو واقعی لگتا ہے کہ آپ میرا گھر بسا ہوا دیکھنا چاھتے ہیں تو مجھے ترکی جانے دیں، وہاں میں اس کو ضرور ڈھونڈوں گی اور پوچھوں گی کہ اگر وہ گھر بنانا چاہتا ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ مجھے طلاق دے دے۔ اگر نہیں دیتا تو وہیں کورٹ چلی جاؤں گی۔ مگر مجھے ایک آخری کوشش کر لینے دیں پلیز!
وہ خاموش ہو گئے شاید قائل ہو گے تھے۔
"ابّا آپ مجھے پانچ ماہ کا وقت دیں۔ اگر اس کےآخرمیں بھی آپ کو لگے کہ مجھے خلع لے لینی چاہئیے تو میں آپ کےفیصلے میں آپ کے ساتھ ہوں گی۔ وہ اٹھی اور پھر بنا کچھ کہے کمرے سے نکل گئی۔
وہ خبطی لڑکی اسے کلاس کے باہر ہی مل گئی۔ وہ فائلیں سنبھالتی باہر جا رہی تھی جب اس نے حیا کو روک لیا ۔
سنیں مس سلیمان! وہ جیسے مجبورا اسے مخاطب کر رہی تھی۔ حیا نے کوفت سے پلٹ کر دیکھا۔ وہاں خدیجہ رانا کھڑی تھی۔ ڈی جے۔ جسے ڈی۔جے صرف اس کے فرینڈز کہا کرتے تھے وہ اس کی فرینڈ نا تھی اور نا ہی بننا چاہتی تھی۔
جی خدیجہ؟ بادل نخواستہ اس نے ذرا مروت سے جواب دیا۔
آپ نے ویزا کے لیے اپلائی کر دیا؟ دراصل میڈم فرخندہ نے کہا ہے ہم دونوں کو جلد از جلد ویزا کے لئے اپلائی کرنا چاہیے۔ کیونکہ فروری کے پہلے ہفتے ہم نے سبانجی کو جوائن کرنا ہے اور آج تیرہ تاریخ ہے۔ ہمارے پاس بس پندرہ دن ہیں اور ترکی کا ویزا 15 دن میں کبھی نہیں لگا کرتا۔
وہ تیز تیز بولے جا رہی تھی۔ اس کی بات کچھ ایسی تھی کہ حیا کو سنجیدہ ہونا پڑا۔ ورنہ ابھی تک تو وہ ابا کی کہی گئی باتیں سوچ رہی تھی۔
اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
"کل ترکش ایمبیسی جا کر ویزے کیلیے اپلائی کرنا ہے۔ ان کا عجیب سا رول ہے کہ ہر روز سب سے پہلے آنے والے 15 امید واروں کا ہی انٹرویو ہوتا ہے۔ ایمبیسی صبح سات بجے ہی کھل جاتی ہے۔ اور لوگوں کی لائن لگی ہوتی ہے۔ اگر ہم ایک منٹ بھی لیٹ ہو گئے تو وہ ہمیں اگلے دن پر ڈال دیں گے۔ سن رہی ہیں نا آپ۔
ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی! اس نے غائب دماغی سے سر ہلایا۔ پتہ نہیں وہ کیا بولے جا رہی تھی۔
آپ مجھے اپنا نمبر لکھوا دیں۔ تاکہ ہم کوآرڈینیٹ کر سکیں۔
اس نے بے دلی سے اپنا نمبر لکھوا دیا۔ خدیجہ اسے اپنے فون میں نوٹ کرتی گئی۔
ٹھیک ہے، کل صبح ساڑھے 6 بجے تک آپ ڈپلومیٹک انکلیو تک پہنچ جائیے گا میں وہیں ہوں گی۔
اس نے اچھا کہہ کر جان چھڑانے والے انداز میں سر ہلایا۔
اور پلیز دیر مت کیجیے گا یہ نہ ہو کہ آپ کی وجہ سے میرا ویزا بھی رہ جائے مس سلیمان! وہ ناک چڑھا کر یہ جتا گئی کہ آخر وہ بھی خدیجہ رانا ہے۔
کیا کمپنی ملی ہے مجھے، اف۔۔۔ وہ پیر پٹخ کر آگے بڑھ گئی۔ ابا کی باتوں نے اسے اتنا ڈسٹرب کیا تھا کہ اس وقت ویزہ وہ آخری چیز تھا۔ جس کے بارے میں وہ سوچ سکتی تھی۔
**************
رت کی تاریکی کو دکانوں کی دیواروں سے جھلکتی روشنیں روشن کیے ہوئے تھیں۔ زرد روشنیوں کا عکس سامنے لمبی سیدھی سڑک پر بھی پڑا تھا۔جس کی ایک طرف پارکنگ کی گاڑیوں کی لمبی قطار تھی۔ دوسری طرف ایک چوٹا سا چبوترہ بنا ہوا تھا۔ چبوترے پر دن کے وقت بک فیر کر اسٹال لگا کرتے تھے۔ یہ جناح سپر تھا۔
سیاہ جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے، شانوں پر پھسلتے سیاہ لمبے بال لیے، وہ سر جھکائے خودفراموشی کے عالم میں چل رہی تھی۔ اماں اور ابّا کی کہی گئی باتیں دل و دماغ میں گونج رہی تھی۔ یہ جہان سکندر کون تھا؟ اس کا منکوح، کزن، شوہر۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شخص جس کے خواب اس نے ساری عمر دیکھے تھے؟ کیا ابا، اماں نہیں جانتے تھے کہ خواب اگر اپنے ہاتھوں سے توڑے جائے تو انگلیاں بھی زخمی ہو جاتی ہیں پھر کیسے وہ خود کو زخم دے۔ اگر وہ جہان یا سبین پھپھو کی لیے کوئی ان چاہا رشتہ تھی تو بھی انکو صفائی کا ایک موقع دیے بغیر ہی کیسے خود کو ان سے الگ کر لے؟
وہ سیٹی کی تیز آواز تھی، جس نے اسے خیالوں کے ہجوم سے نکالا۔ اس نے چونک کر سر اٹھایا۔
وہ تین لڑکے تھے۔ جینز اور جیکٹس میں ملبوس، وہ مختلف سمتوں سے اس کی طرف آ رہے تھے، یوں کہ ہر طرف وہیں تھے، گھیرا۔۔۔۔۔۔۔ نرغہ۔۔۔۔۔۔۔ تنگ دائرہ۔
جگہ قدرے سنسان تھی۔ خالی چبوترہ تاریکی میں ڈوبا تھا۔ جگمگاتی روشن دکانیں ذرا دور تھیں۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ وہ تیزی سے پلٹی مگر ادھر سے بھی ان کا کوئی چوتھا آ رہا تھا۔
وہ مبہم آوازیں نکالتے، معنی خیز اشارے کرتے اس کے اردگرد گھیرا تنگ کر رہے تھے۔ وہ قریب آتے دو لڑکوں کے درمیان سے تیزی سے سر جھکائے گزرنےلگی مگر دائیں والے لڑکے نے سبک رفتاری سے اس کی کلائی تھام کر اپنی طرف کھینچا تھا۔ابھی اس کے لبوں سے چیخ بھی نہیں نکلی تھی کہ آگے بڑھنے والا خود بوکھلا کر پیچھے ہٹا تھا۔ ٹن کی زور دار آواز کے ساتھ کسی نے اس لڑکے کے سر پر کچھ مارا تھا۔
"مرن جوگے۔۔۔۔ باجی کو تنگ کرتے ہو، چھوڑوں گی نہیں میں تمہیں۔" وہ اونچی لمبی ڈولی ہاتھ میں پکرے فرائی پان کو گھما گھما کر مار رہی تھی۔
حیا ہکا بکا سی دو قدم پیچھے ہوئی۔
جس کو لگا تھا۔ وہ سر پکڑے بلبلاتا ہوا بھاگا۔ باقی دو بھی ساتھ ہی دوڑے۔ ایک نے ذرا پھرتی دکھا کر ڈولی کو لات مارنی چاہی، ڈولی نے اسی فرائینگ پین کو گھما کر ایسی ضرب دی کہ لڑکے کا گھٹنا چٹخء گیا۔ اور وہ لنگڑاتا ہوا بھاگ گیا۔
آئے بڑے سالے، ڈولی سے پنگا لیتے ہیں۔ وہ فاتحانہ ہاتھ جھاڑتے ہوئے اب حیا کی طرف مڑا۔
پہلی دفعہ جب اس نے ڈولی کو دیکھا تھا تو اسے کراہیت آئی تھی۔ دوسری دفعہ خوف اور اس دن ٹریفک جام میں دیکھ کر غصہ آیا تھا اور آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج کچھ بھی نہیں، وہ خاموشی سے تیز تیز سانس لیتی اس کو دیکھ رہی تھی۔
چھوڑو جی ان حرام خوروں کو باجی! ان کا تو کام ہی یہی ہے، میں بھی بڑی دیر س تاڑ رہی تھی ان کو۔
مجھے کیا پتہ تھا کہ اپنی باجی جی کو تنگ کر رہے ہیں، آئے بڑے۔
وہ پوری بات سنے بغیر ہی پلٹ گئی۔ سینے پر بازو لپیٹے سر جھکائے تیز تیز قدموں سے چبوترے کی جانب برھنے لگی۔ ایک خواجہ سرا کے ساتھ رات کے اس پہر سڑک پہ کھڑے ہونا قطعا درست نہ تھا۔
"ارے باجی جی۔۔۔۔۔۔۔ گل تے سنو" وہ اس کے پیچھے لپکا۔ حیا چلتے چلتے رکی اور پلٹ کر سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
کیاہے؟ اس کا مومی چہرہ دکانوں کی زرد روشنیوں میں دمک رہا تھا۔
ہاۓ ربّا! باجی تسی کتنے سوہنے ہو جی۔ وہ دونوں ہاتھ رخساروں پر رکھے خوشی سے چہکا۔
اسے کراہیت آئی نہ خوف۔ بس چپ چاپ اسے دیکھے گئی۔
"شکریہ ہی کہہ دو باج۔"
شکریہ۔۔۔۔۔۔۔ اور کچھ؟" اس کا انداز سپاٹ تھا۔
تسی تے ناراض لگدے ہو جی۔
ڈولی! تم کیوں ہر جگہ میرے پیچھے آتے ہو؟
ہاں تو ٹینشن تو نہیں دی تہانوں۔ ہمیشہ مدد ای کیتی اے۔
تمہیں کس نے کہا ہے میری مدد کو؟ کس نے تمہیں میرے پیچھے لگایا ہے؟ بولو، جواب دو۔"
ڈولی کا منہ آدھا کھل گیا۔ لینز لگی آنکھوں میں پہلے حیرت اور پھر آنسو تیرنے لگے۔
کسی نے نہیں جی۔ بڑی دیر بعد وہ دکھ سے بولا۔ "مجھے آپ اچھی لگتی ہو، اس لئے آپ کا خیال رکھتی ہوں آپ کو برا لگتا ہے تو نہیں آؤں گی۔
اسے لمحے حیا کا فون بجا۔ اس نے چونک کر ہاتھ میں پکڑے موبائل کو دیکھا۔ اس پہ پرائیویٹ نمبر کالنگ لکھا آرہآ تھا۔ وہ پیر پٹخ کرچبوترے کی طرف آئی اور پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئی۔ فون ابھی تک بج رہا تھا۔ اس نے فون کان سےلگایا اور ڈولی کودیکھا۔ جو چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا سسکتا ہوا اس تک آرہا تھا۔
ہیلو؟
ہیلومس حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسی ہیں آپ؟ وہ میجراحمد تھا۔ اس کی آواز کے پیچھے بہت شور تھا۔
ڈولی آہستہ سے اس سےذرا فاصلے پہ چبوترے پہ بیٹھ گیا۔ سر جھکائے وہ ہتھیلی سے آنسو پونچھ رہا تھا۔
خدا کےلیے مجھے فون مت کیا کریں اور یہ جو بندے آپ نے میرے پیچھے لگائے ہیں نا ان میں سے ایک ایک کا خون کر دوں گی اور اس کےذمہ دار آپ ہوں گے۔ میں شادی شدہ ہوں اور جلدہی اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤں گی۔ میرا پیچھا چھوڑ دیں۔ سمجھے آپ؟
مزید کچھ سنے بغیر اس نے فون رکھ دیا۔
تسی گھر بار والی ہوجی؟ ڈولی نے چہرا اس کی طرف اٹھایا۔
ہاں تمہارے اس میجر نے بتایا نہیں تمہیں؟ اسی نے میرے پیچھے لگایا ہے نا تمہیں ؟
اللہ پاک کی قسم لے لوجی، مجھے کسی میجر ویجر نے نہیں بھیجا، میں خود آتا ہوں۔ اللہ کی قسم جی۔ وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا حیا کے دل کو کچھ ہوا اسے لگا وہسچ بول رہا ہے-
میں کسی کو جا کر آپک ی باتیں نہیں بتاتا۔ مجھے بڑا پیار ہے جی آپ سے، قسم سے۔ وہ لب بھینچے اسے دیکھتی رہی۔ کچھ تھا اس میں، پراسرار، خوفزدہ کرتا، مگر ترحم و ترحم آمیز۔
ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، مت روؤ،
میں جی بڑا پیار کرتی ہوں آپ سے۔۔۔۔۔۔۔ اسی لئے آتی ہوں، پر تسی تے الزام لا رہے ہو۔ ہ ب سسکتے ہوئے اپنا سر پیٹنے لگا تھا۔
اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناؤ اسٹاپ اٹ! وہ چپ چاپ بیٹھا اسے تکتارہا، جبکہ وہ خلاؤں میں گھور رہی تھی۔
تسی جا رہے ہو کہیں؟
حیا نے چونک کر اسے دیکھا-
تسی فون میں کہیا نا۔ اس نے وضاحت کی۔
ہاں" میں یورپ جارہی ہوں۔
وہ جہاں امریکہ ہے؟ انگریزی فلموں والا؟ وہ رونا بھول کر خوشی سے چہکا۔ شاید وہ واقعی ایک عام خواجہ سرا تھا۔ یا پھر کوئی بہت بڑا مکار۔ اداکار۔
ہاں وہی۔ اس نے تردید کی۔
ادھر کون ہے جی؟
میرا شوہر رہتا ہے وہاں 😊 وہ اب سامنے روشن دکانوں کی قطار کو دیکھ رہی تھی۔
کیسا ہے جی تہاڈا شوہر؟
میں نہیں جانتی ڈولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر میں جانتی ہوتی تو ادھر نہ بیٹھی ہوتی۔
اس کی پلکیں بھیگ گئی۔
تم دعا کرو ڈولی وہ مجھے مل جائے۔ وہ آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ڈولی نے سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ انگلی کی نوک سے آنکھوں کے کنارے صاف کرتی ہوئی سڑک کی طرف جا رہی تھی.....
ڈولی کی آنکھوں میں بے پناہ اداسی اتر آئی تھی.
خدا کرے وہ تمہیں کبھی نہ ملے حیاسلیمان۔۔۔۔۔۔۔ خدا کرے تم اس سے مایوس ہو کرجلدی واپس آجاؤ۔ اور خدا کرے تم ادھر جاہی نہ سکو-
وہ تیز تیز قدم اٹھاتی آگے بڑھ رہی تھی، جب اس نے ڈولی کو یہ کہتے سنا، مگرنہیں، وہ ڈولی کی آواز نہیں تھی، وہ کسی مرد کی آواز تھی۔ بھرپور، خوبصورت اور اداس، ایسی آواز جو اس نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ وہ میجراحمد کی اواز سے زیادہ خوبصورت تھی اور اس میں جہان سکندر کی اجنبی آواز جیسی بے رخی بھی نہ تھی۔
اس کے قدم زنجیر ہو گئے۔ تیزی سے اس نے گردن موڑی۔
دور اندیھرے میں چبوترہ خالی تھا۔ وہاں دور دور تک کسی کانام نشان بھی نہیں تھا۔
زندگی میں پہلی بار اس کے اندر ڈولی سےدوبارہ ملنے کی خواہش نے جنم لیا تھا۔ اسے جاننا تھا کہ ڈولی کون ہے، کیاہے، کیوں ہے۔
**********************
اس رات وہ مشکل سے دو، تین گھنٹے سوسکی تھی۔ پھر فجر کی اذان سے بھی پہلے تیار ہو کر وہ ڈپلومیٹک انکلیو پہنچ گئی کہ خدیجہ کی باربار کال آرہی تھی۔
شکر ہے آپ آگئیں۔" خدیجہ اسے باہر ہی مل گئی۔ اس کی عینک کے پیچھے چھپی آنکھیں فکرمند لگ رہی تھی۔ حیا سادہ شلوار اور سیاہ جیکٹ میں ملبوس تھی. لمبے کھلے بال کانوں کے پیچھے اڑستے ہوئے وہ خدیجہ تک آئی۔
اب کدھر جانا ہے؟
اندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شٹل لے لیتے ہیں۔ یہ ٹرکش ایمبیسی تک پہنچا دےگی۔
تب ہی ایک عمر رسیدہ صاحب اور خاتون تیزی سے شٹل کی طرف بڑھتے دکھائی دیے۔
میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ یہ انکل آنٹی بھی ٹرکش ایمبیسی جا رہی ہیں۔ حیا! جلدی کریں، ہمیں پہلے پندرہ میں سے ہونا ہے۔
وہ حیا کا ہاتھ پکڑ کر جلدی سے آگے بڑھی، پھر خیال آنے پرپوچھ لیا۔ اندر آئی ڈی کارڈ سے انٹری ہوگی آپ آئی ڈی کارڑ اور پاسپورٹ لائی ہیں نا؟
اور حیا کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔ وہ رات اتنی ڈسٹرب تھی کہ بھول ہی گیا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاسپورٹ....۔۔۔۔۔۔. پاسپورٹ تو مجھے آج ملنا تھا۔ وہ تو ابھی بنا ہی نہیں۔
حیا! خدیجہ منہ کھولے ہکا بکا اسے دیکھ رہی تھی۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ آئی ایم سوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور خدیجہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئی ایم ریئلی سوری، میرے پاس پاسپورٹ نہیں ہے۔ اس کا سر گھومنے لگا تھا۔ وہ اتنی بڑی غلطی کیسے کرسکتی تھی؟
ٗآپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے پاس پاسپورٹ نہیں ہے تو آپ خود کیوں آئی ہیں، ہاں؟ آپ کی وجہ سے میرا سکالر شپ بھی رہ جائے گا، اتنا احساس ہے آپ کو؟
وہ پھٹ پڑی تھی اور حیا، جو اتنی مغرور اور خود پسند لڑکی تھی، جس کی شخصیت اسے لباس تک ہر شے پرفیکٹ ہوتی تھی اور جس کی مثالیں اس کی کلاس فیلو دیا کرتی تھیں، وہ ایک دم روپڑی
آئی ایم سوری خدیجہ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے کچھ پرابلم تھے۔ میری لائف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری لائف بہت ڈسٹرب ہو گئی ہے، میں۔۔۔۔۔ وہ جلدی سے بے اختیار امڈ آنے والے آنسو صاف کرنے لگی۔
اٹس اوکے خدیجہ! آئی ایم سوری، مگر آپ جائیں، میں کل ٹرائی کر لوں گی۔
خدیجہ کچھ لمحے خاموش کھڑی رہی، پھر آہستہ سے بولی۔
لائیں اپنا آئی ڈی کارڈ مجھے دیں۔
جی؟
اپنا آئی ڈی کارڈ مجھے دیں اور آپ واپس جا کر پاسپورٹ آفس سے پاسپورٹ اٹھا لائیں۔ امید ہے آئی ڈی کارڈ سے انٹری ہو جائے گی اور ہماری باری آنے تک آپ واپس پہنچ جائیں گی۔
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر پاسپورٹ آفس تو پنڈی میں ہے اور مجھے تو جاتےہوئے بھی ایک گھنٹہ لگ جائے گا اور پاسپورٹ آفس تو کھلتا بھی 9 بجے ہے۔ جب کہ ایمبیسی 7بجے کھل جائے گی۔ اس نے فکرمندی سے کلائی پر باندھی ہوئی گھڑی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
یہ ناممکن ہے۔ میں کبھی بھی اتنی جلدی واپس نہیں پہنچ پاؤں گی کہ پہلے پندرہ میں سے ہوسکوں۔
حیا! میں نے زندگی میں ایک بات سیکھی ہے کہ انسان کوکوئی چیز نہیں ہراسکتی جب تک وہ خود نا ہار مان لے۔ آپ ابھی سے ہار مان لینا چاہتی ہیں؟ لائیں، آئی ڈی کارڈ دیں، مجھے آنٹی انکل سے پہلے پہنچنا ہے۔ وہ اس کے ہاتھ سے کارڈ جھپٹ کر کشٹل کی طرف دوڑتی چلی گئی۔
اس نے آنکھوں کے کنارے صاف کرتے ہوئے گھڑی کو دیکھا۔ کیااس کا ویزہ لگ جائے گا؟ یا ڈولی کی دعا پوری ہوجائے گی اور وہ کبھی ترکی نہیں جا سکے گی؟ اسے کبھی جہاں سکندر نہیں مل سکے گا؟
مگر خدیجہ نے کہا تھا، انسان کو کوئی چیز نہیں ہرا سکتی جب تک کہ خود ہار مان نہ اور اس نے سوچا، وہ اتنی آسانی سے ہار نہیں مانے گی۔
بے دردی سے آنکھیں رگڑ کر وہ گاڑی کی طرف لپکی تھی۔
بہت ریش ڈرائیو کرکے وہ پنڈی آئی تھی۔ تقریبا ایک گھنٹا اسکو بند پاسپورٹ آفس کے باہر بیٹھنا پڑا، خدا خدا کر کے نو بجے آفس کھلا تو وہ اندر بھاگی۔ شاید اس کی ہمت دکھانے کا صلہ تھا۔ دس منٹ بعد وہ اپنا پاسپورٹ لیے آفس کی بیرونی سیڑھیاں اتر رہی تھی۔ تب ہی کسی غیر شناسا نمبر سے اسے کال آئی۔ اس نے کسی خیال کے تحت فون اٹھا لیا۔
ہیلو؟
ہیلو حیا میں خدیجہ بول رہی ہوں۔ میرا فون تو باہر بھائی کے پاس ہے۔ کیونکہ ایمبیسی کے اندر فون کی پرمیشن نہیں ہے۔ ایمبیسی کے گارڈ سے فون لے کر سو منتیں کرکے کال کر رہی ہوں۔ وہ ایک ہی سانس میں تیز تیز بولے گئی۔ آپ کدھر ہیں؟
بس مجھے پاسپورٹ مل گیا ہے، میں آرہی ہوں۔ میری انٹری ہوئی؟ اس نے گاڑی میں بیٹھ کر چابی اگنیشن میں گھمائی۔
شکر ہے میں نے تیز بھاگ کر ان انکل آنٹی کو کراس کر لیا۔ میں چودہ نمبر پر تھی اور آپکی بھی انٹری کرا دی ہے، آپ کا پندرہواں نمبر ہے۔
اوہ شکر!
لیکن انہوں نے ان انکل آنٹی کو روک رکھا ہے کہ اگرآپ نہ آئیں تو ان کا انٹرویو ہو جائے گا اور وہ آنٹی مسلسل تسبیح پڑھ رہی ہے۔ حیا! آپ جلدی آ جائیں۔
میں آ رہی ہوں، بس ابھی آفس ٹائم ہے نا تو ٹریفک بہت ہیوی ہے۔“
بس جلدی سے آ جائیں، یہ بار بار پوچھ رہے ہیں کہ میری دوسری ساتھی کدھر ہیں۔
بس تھوڑی دیر اور۔ اس نے ایکسیلیٹر پر دباؤ بڑھا دیا۔
ٹریک حسب معمول پھنسا ہوا تھا۔ بے پناہ رش، ہارن کا شور، بند سگنل، پھنسی ہوئی گاڑیاں۔ وہ بار بار فکرمندی سے کلائیپر بندھی گھڑی دیکھتی اور پھر سست روی سے چلتے ٹریفک کو، بمشکل مری روڈ سے نکل پائی تو سکون کا سانس لیا۔
معمول کی چیکنگ کے بعد وہ گیاہ بجے تک اس اوپن ایر لاؤنج میں پہنچ پائی جہاں خدیجہ تھی۔ ترک رگز، مخصوص ترک بلیو آئی (evil blue) اور ترکی کے نقشوں سے وہ لاؤنج سجایا گیا تھا۔
خدیجہ ایک صوفے پر منتظر، پریشان سی بیٹھی تھی۔ اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔
شکر ہے آپ آگئیں حیا! انہوں نے سب کے انٹرویو روک رکھے ہیں۔ پہلے ہمارا ہو گا۔
اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔ مگرکیوں؟
لیکن کیوں کا جواب سننےکا وقت نہیں تھا اور پھر ان کوانٹرویو کے لیے کال کر لیا گیا تھا۔
وہ خوش شکل سا ترک ڈپلومیٹ ان کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ وہ خدیجہ کے آگے چلتی ہوئی سامنے ہوئی اور اپنی فائل شیشے کی کھڑکی کے سوراخ سے اندر کر دی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اگر اس کا ویزہ مسترد ہوگیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اس آفیسر نے ان کی فائلیں اٹھائیں، ان سے فارم نکالے اور فائلیں واپس بند کر کے رکھ دیں۔ اگر اس نے ویزہ دینا ہوتا تو ان سے انٹرویو کرتا، کچھ تو پڑگتا، کوئی سوال تو پوچھتا۔ مگر وہ بس سرسری سا فارم دیکھ رہا تھا، تو کیا وہ واقعی اس کا ویزہ مسترد کرنے لگا تھا۔
فارم پہ ایک نگاہ دوڑا کر اس نے سر اٹھایا اور سنجیدگی سے ان دونوں کو دیکھا، جو بنا پلک جھپکے، سانس روکے اس کو دیکھ رہی تھیں۔
آپ کدھر تھیں؟ میں اتنے دنوں سے آپ کا ویٹ کررہا تھا۔اس نے ساتھ ہی میز پر رکھا ایک کاغذ اٹھایا۔ مجھے سبانجی یونیورسٹی نے یہ لسٹ بجوائی تھی، اس میں آپ کے نام ہیں تاکہ میں آپ کا ویزہ لگا دوں۔ خیر، ویزا کل تک سٹیمپ ہوجائے گا، آپ میں سے کوئی ایک کل آکر دونوں پاسپورٹ پک کر لے،۔ شام چار بجے تک، رائٹ؟“
”رائٹ!“ فرط جزبات سے ان کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ دل یوں دھڑک رہا تھا جیس ابھی سینہ توڑ کر باہر نکل آئے گا۔ وہ جیسے ہی اس کے آفس سے نکلیں، ایک ساتھ ہی رک گئیں اور ایک دوسرے کودیکھا۔
”آئی ایم سوری حیا"
آئی ایم سوری خدیجہ!“
بیک وقت دونوں کے لبوں سے نکلا تھا اور پھر وہ دونوں ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے گلے لگ گئیں۔ بالاخر اسے یقین آگیا تھا کہ ہاں، وہ واقعی ترکی جارہی ہے۔ وہ بھی پورے پانچ ماہ کے لئے۔ وہ ترکی جہاں وہ رہتا ہے۔ وہ جو ہمیشہ سے اس کے دل کے ساتھ رہا تھا۔
Welcome me O Sabanci
”ویلکم می اوسبانجی!“ (مجھے خوش آمدید کہو، اےسبانجی!)
**************
بھائی تو چلے گئے تھے مجھے ڈراپ کر کے، میں آپ کے سیل سے ان کو کال کر لوں کہ وہ مجھے پک کر لیں؟ ڈپومیٹل انکلیو سے نکلتے ہوئے خدیجہ نے پریشانی ظاہر کی تو اس نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا۔
"نو پرابلم، میں آپ کو ڈراپ کر دوں گی خدیجہ۔
آپ مجھے ڈی جے اور تم کہہ سکتی ہیں۔
شیور۔ اس نے پارکنگ میں کھڑی گاڑی کا لاک کھولا۔ مجھے جناح سپر تک جانا تھا۔ یوں نہ کریں کہ کچھ شاپنگ کر لیں؟ آپ نے کچھ تو لینا ہوگا خدیجہ؟ اس کی تاکید کے باوجود بھی وہ تکلف ختم نہ کر سکی۔ سوئیٹرز لینے ہیں وہاں بہت سردی ہو گی۔
پھر وہیں چلتے ہیں۔
سائینوشور کے بلمقابل چبوترہ خالی تھا مگر دن کے وقت وہ اتنا ویران نہیں لگ رہا تھا، جتنا پچھلی رات لگا تھا۔ اور وہ آواز۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سر جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔
اوہ نیڈل امیبریشنز پہ سیل لگی ہے۔ آئیں، کچھ دیکھ لیتے ہیں۔ وہ کافی دنوں سے سوچ رہی تھی کہ یہاں سے کوئی اچھا شرٹ پیس لے آئے اورآج تو سیل بھی لگی تھی۔ وہ اور خدیجہ آگے پیچھے شیزے کا دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوئیں۔
شاپ کے اندر وہی مخصوص ماحول تھا ہیٹر کی گرمی اور باہر کی خنکی کا ملا جلا تاثر۔ زرد سپاٹ لائٹس سے چمکتی چھت اور ہر طرف شوکیسز پر پھیلے کڑھائی والے کپڑے۔۔۔۔۔۔
وہ محو سی اسٹینڈ پہ لگے نمونے دیکھتی آہستہ آہستہ قدم بڑھا رہی تھی۔ سامنے ورک ٹیبل تھی جس کے پیچھے کھڑا مستعد سیلزمین اسے دیکھ کر فوراً متوجہ ہوا تھا۔
"جی میم"
یہ پنک والا دکھائیں، جس پر وائٹ ایمبرائیڈری ہے۔ اس نے انگلی سے پیچھے رول کیے ہوئے تھان کی طرد اشارہ کیا۔ سیلزمین نے گردن پھیر کر یکھا۔
"میم! یہ میں نے سامنے رکھا ہے، یہ سامنےہی پڑا ہے۔ وہ اس سے چند فٹ بائیں جانب اشارہ کر رہا تھا جہاں ایک فیملی کھڑی اسی کپڑے کا معائنہ کر رہی تھی۔
اوہ تھینکس۔" وہ چند قدم چل کر بائیں جانب آئی،جہاں میز پر وہ خوبصورت کڑھائی والا شرٹ کا فرانٹ پیس پھیلا ہوا تھا۔
حیا کے بالکل بائیں جانب ایک نوجوان سر جھکائے کپڑے کو ہاتھ سے مسل کر چیک کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ ایک نفیس، معمرسی خاتون اور ایک کم عمر اونچی پونی ٹیل والی لڑکی کھڑی تھی۔
"ممی یہ پنک والا لے لیتے ہیں، ثانیہ بھابی کا کمپلیکشن فئیر ہے،ان پر سوٹ کرے گا، کیوں بھائی؟ وہ اب نوجوان کی رائے مانگ رہی تھی۔ حیا ناچاہتے ہوئے بھی ان کی طرف متوجہ ہوئی۔ اسے بس یہی جلدی تھی کہ کب وہ نوجوان اس کپڑے کو چھوڑے اور وہ اسے دیکھ پائے۔ اس وقت بھی گلابی شرٹ کا کپڑا اس خص کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے اسے ہاتھ میں یوں پکڑا ہوا تھا کہ اس کی ہتھیلی والی طرف اوپر تھی۔ حیا اس کے ہاتھ میں پکڑے کپڑے کو دیکھ رہی تھی، دفعتا اس کی نگاہیں کپڑے سے اس شخص کی کلائی پر پھسلتی گئیں۔ وہ بری طرح چونکی۔
اس کی کلائی پر کانٹے کا سرخ گلابی نشان تھا۔ جیسے جلا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی برتھ مارک۔۔۔۔۔۔۔