top of page

جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد

قسط نمبر بتیس

ایک زور دار ٹکر نے اسے سڑک کے دوسری طرف لڑھکا دیا۔
ولید کی گاڑی زن سے آگے بڑھ گئی۔
وہ اوندھے منہ نیچے گری تھی۔ دایاں گھٹنا، دایاں پاؤں زور سے سیڑھیوں سے ٹکریا تھا۔ وہ شاید سیڑھیوں پہ گر گئی تھی۔ پورا دماغ جیسے لمحے بھر کو شل سا ہو گیا تھا۔
امی! وہ درد سے کراہی۔ ہونٹ اور ٹھوڑی پہ جلن سی محسوس ہو رہی تھی۔ بدقت اس نے سیدھا ہونا چاہا۔ ساتھ ہی نقاب کھینچ کر اتارا۔ ہونٹ پھٹ گیا تھا اور اس میں سے خون نکل رہا تھا۔
حیا باجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی دور سے اسے پکار رہا تھا۔ اپنا دکھتا سر سہلاتے ہوۓ وہ بمشکل اٹھ بیٹھی۔ ولید نے اسے گاڑی تلے دے دیا تھا کیا؟ مگر وہ ٹکر کھا کر ایک طرف گر گئی، سو بچ رہی۔ اسے کندھے پہ شدید درد محسوس ہو رہا تھا۔ کسی نے شاید اسے کندھے سے پکڑ کر دائیں جانب دھکا دیا تھا۔
دھیرے دھیرے بیدار ہوتے حواسوں کے ساتھ اس نے گردن موڑی۔ ظفر دور سے بھاگتا ہوا آ رہا تھا۔ ولید کی گاڑی کہیں بھی نہیں تھی۔ پارکنگ ایریا میں اندھیرا چھا رہا تھا۔ تب اس کی نگاہ روش پہ پڑی جہاں سے ولید کی گاڑی گزری تھی۔ صرف ایک لمحہ لگا اس کے دماغ کو سامنے نظر آتے منظر کو۔سمجھنے میں اور دوسرے ہی پل جیسے اس کی ساری توانائی واپس آ گئی۔ وہ بدحواس سی ہو کر اٹھی۔
تایا ابا! وہ قدرے لنگڑا کر چلتی ہوئی ان تک پہنچی۔ وہ زمین پر گرے ہوۓ تھے۔ ان کو چوٹ کس طرح سے لگی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی مگر ان کا سر پھٹ گیا تھا اور پیشانی سے سرخ خون ابل رہا تھا۔ اور وہ نیم وا آنکھوں سے کراہ رہے تھے۔
تایا ابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تایا ابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! وہ وحشت سے انہیں جھنجھوڑنے لگی۔ ظفر دوڑتے قدموں کے ساتھ اس تک آیا تھا۔
بڑے صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ آپ کو پکار رہے تھے آپ سن نہیں رہی تھی۔ اس نے پریشانی سے حیا کو دیکھا پھر گڑبڑا کر چہرہ نیچے کر لیا۔
ان کو گاڑی سے ٹکر لگی ہے ظفر؟ اوہ خدایا! وہ مجھے بچاتے بچاتے۔ شدت جذبات سے وہ کچھ بول نہیں پا رہی تھی۔ اپنے ہاتھ اس نے تایا ابا کے ماتھے سے ابلتے خون پہ رکھے تو لمحوں میں ہاتھ سرخ، گیلے ہو گئے۔ تایا بند ہوتی آنکھوں سے نقاہت سے سانس لے رہے تھے۔
وہ آپ کو آواز دے رہے تھے۔ آپ آگے سے نہیں ہٹیں تو وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظفر اسے پیش آنے والا واقعہ بتا رہا تھا مگر اس وقت یہ سب غیر ضروری تھا۔ بمشکل اس نے حواس مجتمع کر کے سوچنا چاہا کہ سب سے پہلے اسے کیا کرنا چاہیے۔
ان کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کا خون بہہ رہا ہے۔ فرسٹ ایڈ باکس بھی نہیں ہے۔ کیا کروں۔ اس نے پریشانی سے کہتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا۔ ظفر اس سے بھی زیادہ حواس باختہ لگ رہا تھا۔ آفس بلڈنگ بھی بند ہو گئی تھی۔ نہ ہوتی تب بھی یہ جگہ آفس بلڈنگ کی پشت پہ تھی۔ آس پاس کوئی نہیں تھا جسے مدد کے لیے بلا پاتی۔
جاؤ دیکھو گاڑی میں کوئی کپڑا ہے تو لے آؤ۔ پہلے ان کا خون روکنا ہے پھر ہسپتال لے چلتے ہیں۔ 
پتہ نہیں جی! آپ کی گاڑی ہے، کدھر رکھا ہو گا آپ نے؟ وہ دیکھ کر واپس آیا اور شدید بدحواسی کے عالم میں بھی اپنے پاؤں کو دیکھتے ہوۓ بتایا۔
اوہ خدایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کیا کروں؟ اس نے گردن ادھر ادھر گھمائی۔ اس کا سیاہ پرس سیڑھیوں کے قریب گرا پڑا تھا۔
ظفر! اس نے پکارا مگر وہ نیچے دیکھتا رہا۔
ظفر، میری بات سنو! وہ دبی دبی چلائی۔
پہلے تسی منہ تے ڈھکو۔ وہ ہکلایا تھا۔
افوہ! میری بات سنو۔ جاؤ میرا پرس اٹها کر لاؤ۔ کہنے کے ساتھ ہی ظفر اٹها اور بھاگ کر اس کا پرس لے آیا۔ پرس میں ایسا کچھ بهی نہ تها۔ تایا کے سانس کی ہلکی ہوتی آوازیں ویسی ہی سنائی دے رہی تهی۔ خدایا! وہ کیا کرے۔ زخم شاید بہت بڑا نہ تها۔ مگر بڑهاپے کو پہنچتی عمر میں یوں گرنا بہت تشویش ناک تها۔
تایا ابا! آنکهیں کهولیں۔ ہم آپ کو ہسپتال لے کر جا رہے ہیں۔ مگر پلیز آنکهیں کهولیں۔
تایا فرقان نے ذرا کی ذرا آنکهیں کهولیں اور سر کے اثبات سے بتانا چاہا کہ وہ ٹهیک ہیں پهر آنکهیں بند کر دیں۔ وہ ان کا ابلتا خون کیسے روکے۔ عبایا کرنے والی لڑکیوں کی اکثریت کی طرح وہ بهی عبایا کے نیچے دوپٹا نہیں لیتی تهی سو کچھ بهی نہیں تها کہ تایا کے زخم پہ رکهتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر نہیں۔ اس نے تیزی سے تایا کے ماتهے سے ہاتھ ہٹایا اپنی اسٹول کی پن کهینچی اور اسے سر سے اتارا- کیچر میں جکڑے بالوں کا جوڑا ڈهیلا ہو کر گردن کی پشت پہ آ گرا۔ چہرے کے گرد سے لٹیں نکل کر اطراف میں جهولنے لگیں۔
تایا نے نیم وا آنکهوں سے اسے دیکها۔ اس نے سیاہ کپڑے کو جلدی جلدی گول مول کر کے ان کے ماتھے کے زخم پہ دبا کر رکها۔ تایا نے کرب سے آنکهیں بند کر لیں۔
ظفر! گاڑی ادهر لے آؤ۔ ان کو جلدی سے ہسپتال لے چلتے ہیں؟ اس نے ایک ہاتھ سے تایا کے زخم کو کپڑے سے دبائے سر اٹها کر ظفر کو دیکها۔ وہ ہکا بکا سا اسے دیکھ رہا تها۔
ظفر! گاڑی ادھر لے کر آؤ۔ وہ غصے سے زور سے چلائی۔ وہ اسپرنگ کی طرح اچهل کر کهڑا ہوا اور گاڑی کی طرف بهاگا۔ چند ہی لمحوں بعد وہ دونوں تایا کو سہارا دے کر گاڑی میں ڈال رہے تهے۔
فرخ کہاں ہے۔ کیا وہ گهر پہ تها؟ کار میں بیٹهتے ہوۓ اسے تایا کے دوسرے نمبر کے بیٹے کا خیال آیا جو ہاؤس جاب کر رہا تها۔
نہیں جی فرخ بهائی کی آج کال تهی۔ وہ ہسپتال میں ہیں۔ ظفر نے کار اسٹارٹ کرتے ہوۓ بے چینی سے اسے بیگ ویومرر میں اسے دیکها۔
ٹهیک ہے ہسپتال لے چلو۔ جلدی کرو۔ وہ پچهلی سیٹ پہ تایا کے ساتھ بیٹهی ابهی تک ان کے زخم کو سیاہ کپڑے سے دباۓ ہوئے تهی۔
مگر باجی! آپ ایسے کیسے جائیں گیں؟ ظفر کو تایا سے زیاده اس کی فکر تهی۔
افوہ، جو کہا ہے، وہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیز چلاؤ گاڑی۔
ظفر چپ کر گیا مگر وہ بے حد غیر آرام دہ تھا۔ چند منٹ بعد اس نے کار گھر کے گیٹ کے سامنے روکی۔ حیا نے چونک کر اسے دیکھا۔ گھر ہسپتال کے راستے میں ہی تھا مگر انہیں ہاں رکنا نہیں تھا۔
ایک منٹ باجی، میں آیا۔
ظفر! وہ اچنبھے سے آوازیں دیتی رہ گئی مگر وہ گیٹ کے اندر جا چکا تها۔
پورا منٹ بهی نہیں گزرا تها جب وہ دوڑتا ہوا واپس آیا۔ ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹها دروازہ بند کیا ایک دوپٹا اس کی طرف اچهالا اور کار اسٹارٹ کر دی۔
اوہ ظفر اس نے جیسے تهک کر نفی میں سر ہلایا پهر تہہ شده سفید دوپٹا کھولا اور لپیٹ کر سر پہ لے لیا۔ وہ صائمہ تائی کا دوپٹا تها وہ پہچانتی تهی۔تایا نیم وا آنکهوں سے اسے ہی دیکھ رہے تهے۔
اتنا وقت دوپٹا لانے میں ضائع کر دیا تم نے۔خیر تهی ظفر! میں ایسے ہی چلی جاتی۔
جواب میں ظفر نے ہولے سے سر جهٹکا۔
دو خاندانوں میں دخت ڈال کر اب حیا باجی کہتی ہیں کہ میں اسے ہی چلی جاتی۔ زیر لب وہ خفگی سے بڑبڑایا تها۔
اسے ایک دم زور سے ہنسی آئی مگر وہ بمشکل دبا گئی۔ اس بد تمیز ظفر کو تو وہ بعد میں پوچهے گی۔
فرخ ہسپتال میں ہی تها۔ تایا کو فوری طور پر داخل کر لیا گیا۔ انہیں کار سے ٹکر نہیں لگی تهی بس اسے آگے دهکیلتے ہوۓ وہ خود توازن برقرار نہ رکھ پاۓ تهے۔ معمر آدمی کے لیے گرنا ہی بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مگر فرخ کا کہنا تها کہ اتنی تشویش کی کوئی بات نہیں معمولی چوٹیں ہیں ٹھیک ہو جائیں گے۔
ایک تو پتا نہیں ان ڈاکٹرز کو اتنے بڑے پیمانے پہ چیر پھاڑ کرنے کے بعد بھی اچھے خاصے زخم بھی معمولی کیوں لگتے ہیں۔
گھر فون مت کرنا ابھی۔ سب خوامخواہ پریشان ہو جائیں گے۔ ویسے بھی ٹانکا لگوا کر ان کو گھر لے کر جائیں گے اور تمہیں تو چوٹ نہیں آئی؟ فرخ اسے تایا اباّ کی حالت کے بارے میں بتانے کے بعد مڑنے لگا تو ایک دم جیسے اسے خیال آیا۔ 
نہیں! میں ٹھیک ہوں۔ تھینک یو۔ اس نے نہیں بتایا کہ اس کا دایاں گھٹنا اور پاؤں دکھ رہا ہے۔ وہ جہان سکندر کی بیوی تھی۔ اتنے معمولی زخموں کو لے کر کیوں پریشان ہوتی۔ جہان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتا نہیں وہ کہاں تھا۔ اس نے کب بتایا کہ وہ کدھر جا رہا ہے؟ اس کا ذہن پھر اس نہج پہ بھٹکنے لگا تب ہی فرخ نے کہا۔
تم ظفر کے ساتھ گھر چلی جاؤ۔ ابا خیریت سے ہیں۔ اس نے شائستگی سے پیشکش کی۔ ایک زمانے میں وہ صائمہ تائی کے بقول اس کو پسند کرتا تھا مگر جب سے وہ ترکی سے آئی تھی اس کے پردے کے باعث وہ محتاط ہو گیا تھا۔
میں تایا کو یہاں چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہوں۔ میں تم لوگوں کے ساتھ ہی جاؤں گی۔
فرخ گہری سانس لے کر آگے بڑھ گیا۔ ابا کو اس نے وہیں سے کال کر کے اطلاع کر دی تھی۔ یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ابھی کسی کو مت بتائیں۔ ذیشان انکل ابا کے ساتھ گھر پہ ہی تھے۔ انہوں نے ابا کو بتایا تھا کہ حیا صبح ان کے آفس آئی تھی مگر جلدی واپس چلی گئی۔ اس نے بے اختیار ماتھے کو چھوا۔ کیا وہ آج کا ہی دن تھا؟ یوں لگتا تھا اس بات کو صدیاں بیت گئیں۔ 
اوہ ابا! ان سے معذرت کر لیں۔ مجھے کچھ کام یاد آ گیا تھا۔
پھر اس نے ان دونوں کو ولید کے متعلق بتایا۔ وہ کوئی چھوٹی بات تو نہیں تھی۔ اقدام قتل تھا اور زد میں تایا فرقان اصغر بھی آئے تھے۔ ابا کا غم و غصّے سے برا حال تھا۔ اس نے انہیں خود آنے اور گھر میں کسی کو بھی بتانے سے منع کر دیا کہ وہ لوگ بس واپس آ ہی رہے تھے۔
رات ابھی زیادہ گہری نہیں ہوئی تھی جب وہ فرخ اور ظفر کے ساتھ تایا ابا کو لے کر گھر پہنچے۔ تایا چل سکتے تھے مگر سہارا لے کر۔ ایک طرف سے فرخ نے ان کو سہارا دے رکھا تھا۔ اور دوسری طرف سے حیا نے ان کا بازو تھام رکھا تھا۔ گھر کے داخلیی دروازے پہ وہ بے اختیار رکی۔
ایک دم سے اسے بہت کچھ یاد آیا تھا۔ وہ اس گھر میں داخل نہیں ہو سکتی تھی۔ 
چلو حیا! میں زیادہ کھڑا نہیں رہ سکتا؟ تایا نے نقاہت بھری آواز میں اسے اکتا کر ڈانٹا تھا۔ اس کی آنکھوں میں بہت سا پانی جمع ہونے لگا تھا۔ بمشکل جی کہہ کر وہ ان کے ہمراہ چوکھٹ کے اندر آئی۔ 
لاؤنج میں بیٹھے تمام افراد چونک کر کھڑے ہوئے۔ 
اس نے سیاہ عبایا پہ سفید ستاروں والے دوپٹے سے ترچھا نقاب لے رکھا تھا۔ ایک وہ رات تھی جب اسی جگہ سے تایا نے اسے سب کے سامنے بے عزت کر کے نکالا تھا۔ اور ایک آج کی رات تھی جب وہ اس حالت میں اس گھر میں داخل ہوئی تھی کہ اس کا ہاتھ تایا نے پکڑ رکھا تھا، تایا کا بیٹا ان کے ساتھ تھا اور اس نے جس دوپٹّے سے نقاب کر رکھا تھا وہ صائمہ تائی کا تھا۔
کیا ہوا! فرخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا! صائمہ تائی، ارم، سونیا بھابھی سب پریشانی سے دوڑے چلے آئے۔ فرخ سب کے سوالوں کے جواب دے رہا تھا۔ وہ بس خاموشی سے تایا کو سہارا دے کر ان کے کمرے تک لانے میں مدد کر رہی تھی۔ تایا ابا نے بیڈ پر لیٹنے تک اس کا ہاتھ تھامے رکھا تھا۔
سارے گھر والے پریشان اور متاسف سے ان کے گرد جمع ہو چکے تھے۔ تایا لیٹ گئے تو اس نے نرمی سے اپنا ہاتھ علیحدہ کیا اور ان کا تکیہ درست کیا۔ تب انہوں نے پوچھا۔
کیسے ہوا یہ سب؟ صائمہ تائی پریشانی سے پوچھ رہی تھی۔
ولید لغاری نے ہمیں گاڑی سے ٹکر ماری تھی اور وہ بھی جان بوجھ کر۔
کون ولید لغاری۔ ارم ذرا حیرت سے چونکی۔
کمپنی میں ہمارا شیئر ہولڈر ہے، عمیر لغاری کا بیٹا۔ تایا کی گردن تلے تکیے رکھتے ہوئے وہ سب کے سوالوں کے جواب دے رہی تھی۔ چونکہ وہ اس کمرے میں تھی اس لئے فرخ خود ہی وہاں سے چلا گیا تھا۔
حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی! سب کو چھوڑ کر انہوں نے اسے مخاطب کیا۔ وہ تیزی سے باہر نکلی۔ کچن میں آ کر پہلے خود پانی پیا پھر ان کے لئے پانی لے آئی۔
بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری شال! انہوں نے گلاس لیتے ہوئے نقاہت زدہ لہجے میں یک لفظی استفسار کیا۔ شال سے مراد اس کی اسٹول تھی۔ اس نے سمجھ کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
وہ میں نے رکھ لی تایا ابا! استعمال کے لیے نئی اسٹول لے لوں گی مگر اسے اپنے پاس رکھوں گی۔ پھر وہ نم آنکھوں سے مسکرائی اور ان کا ہاتھ پکڑ کر وہیں ان کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی۔ میں اس اسٹول کو کبھی نہیں دھوؤں گی تایا ابا! اس میں بہت کچھ ہے، جو میرے لیے بہت قیمتی ہے۔
تایا ابا نے ہلکے سے مسکرا کر سر کو اثبات میں ذرا سی جنبش دی اور آنکھیں موند لیں۔
صائمہ تائی حق دق ان کے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔ جو حیا نے دونوں ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔ ان کی شاید سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہوا کیا ہے اور خود حیا شاید ساری زندگی اس لمحے کی، اس قیمتی لمحے کی وضاحت کسی کو نہیں دے سکتی تھی جو خاموشی سے آیا اور تھوڑے سے خون کا اخراج لے کر اسے اس کا بہت کچھ لوٹا گیا۔ خون، جو واقعی پانی سے گاڑھا ہوتا ہے۔
تایا سو گئے تھے۔ پھپھو، سلیمان صاحب اور فاطمہ، تائی ابھی وہیں بیٹھی تھیں۔ ان سب کو ظفر فوراً بلا لایا تھا۔ صائمہ تائی، داور بھائی، سونیا، بلکہ پورا گھر ہی جاگ رہا تھا۔ سب تایا کے لیے پریشان تھے۔ ابا کا غصے سے برا حال تھا۔ وہ اب ہر ممکن طور پہ ولید کو گرفتار کروانا چاہتے تھے اور اس کے لیے کوششیں بھی کر رہے تھے۔ وہ اب تھک گئی تھی، سو وہاں سے اٹھ آئی۔ کچن سے گزرتے ہوئے اس نے دیکھا۔ ظفر چائے کے برتن دھو رہا تھا۔ اسے آتے دیکھ کر اس نے مزید سر جھکا لیا۔
سنو ظفر! وہ باہر جانے سے قبل ایک لمحے کو رکی۔
ظفر نے سر جھکائے ہوئے ہی ”جی“ کہا۔ جیسے آج وہ اسے دیکھ لینے پہ ابھی تک شرمندہ تھا۔
ایک چیز ہوتی ہے جسے ایمرجنسی سچویشن کہتے ہیں اور یقین کرو، ہمیں الله تعالی کو اپنی کسی بھی سچویشن کی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ ہمارے حالات ہم سے زیادہ اچھے طریقے سے سمجھتا ہے۔ اس کی شریعت بھلے کتنی بھی سخت ہے، مگر اندھی نہیں ہے۔
ظفر نے سمجھنے اور نہ سمجھنے کے مابین سر اثبات میں ہلا دیا۔
کمرے میں آتے ہی اس نے دروازہ لاک کیا اور پرس سے فلیش نکالی۔ لیپ ٹاپ آن کر کے گھٹنوں پہ رکھا، وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ کمرے میں روشنی مدھم تھی، سو اسکرین اس کے چہرے کو بھی چمکا رہی تھی۔
اس نے ویڈیو وہیں سے شروع کی جہاں سے چھوڑی تھی۔ ایک، دو، تین، پھر کتنی ہی دفعہ اس نے بار بار وہ فلم دیکھی۔
فجر کی اذان ہوئی تو جیسے وہ اس کے حصار سے نکلی۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔ بار بار ایک ہی بات کہ وہ اس کا کتنا خیال رکھا کرتا تھا۔ وہ کبھی کیوں یہ نہ جان سکی کہ نرم لہجے والا میجر احمد ہی جہان ہے۔ بس ایک دفعہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ دونوں چاندی کے مجسموں کی طرح جھیل کنارے بیٹھے تھے، تب جس طرح جہان نرمی سے اسے سمجھا رہا تھا، اسے کچھ یاد آیا تھا۔ میجر احمد کا انداز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آواز بے حد مختلف سہی مگر اس وقت اسے دونوں کا انداز بالکل ایک سا لگا تھا۔ پھر بھی وہ نہ جان سکی۔ جب وہ اغواء ہوئی تھی، تب ہوش کھونے سے قبل اس نے فون کال کی گھنٹی سنی تھی، وہ جہان تھا جو اسے کال کر رہا تھا تاکہ وہ اندازہ کر سکے کہ وہ کس کمرے میں تھی۔ پھر جب اس نے کسی کو اس روسی کا سر دیوار سے مارتے ہوئے دیکھا تھا، تب وہ غنودگی میں ڈوبتی جا رہی تھی۔ وہ نہیں جان سکی کہ وہ وہیں تھا۔ اس کے پاس۔ ہمیشہ کی طرح ایک فاصلے سے اس پہ نظر رکھے ہوئے۔
اور ہالے نور اس کے ہوٹل میں کام کر چکی تھی، تب ہی وہ عبدالرحمن پاشا کے ذکر پہ اتنی ٹچی ہو جاتی تھی۔ ساری کڑیاں ملتی جا رہی تھیں۔
جب تک آپ یہ باکس کھولیں گی، وہ شاید اس دنیا میں نہ رہے۔
یہ پنکی نے کہا تھا اور تب اس نے جان بوجھ کر ایسے الفاظ استعمال کیے تھے، جن سے وہ سمجھے کہ ڈولی کی زندگی بے یقینی کا شکار ہے۔ وہ اپنے بارے میں ہر وقت ایسی باتیں کیوں کرتا تھا؟ ہر وقت موت کے لیے، دنیا چھوڑنے کے لیے تیار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہان سکندر ایسا کیوں تھا؟ 
اور اب وہ کہاں تھا؟
ایک دم وہ چونک کر اٹھی۔ ہاں، بھلا اب وہ کہاں تھا۔ یہ ویڈیو ذرا پرانی تھی، اس میں بہت سی چیزوں کی وضاحت نہیں تھی، مگر وہ سب اس وقت بے معنی تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ وہ اس وقت کہاں تھا۔ اس نے فون نکالا اور اس کا ہر وہ نمبر ٹرائی کیا جو وہ جانتی تھی، مگر سب بند تھے۔ 
شاید پھپھو کو کچھ علم ہو۔
وہ اٹھی، وضو کرکے پہلے نماز پڑھی، پھر باہر چلی آئی۔ دایاں پاؤں ٹخنے اور ایڑی کے قریب سے بہت درد کر رہا تھا۔ شاید موچ آئی تھی، مگر ابھی پٹی باندھنے کا مطلب اماں یا ابا کو اسے ترکی جانے سے روکنے کا بہانہ دینا تھا۔ پھپھو اپنے کمرے میں نماز پڑھ رہی تھیں۔ وہ ان کے قریب کاؤچ پہ بیٹھ کر ان کو دیکھے گئی۔ وہ چہرہ ہاتھ میں چھپائے دعا مانگ رہی تھیں۔ شاید وہ اپنے بیٹے کی سلامتی مانگ رہی تھیں۔ اس کا دل جیسے ڈوب کر ابھرا۔
ارے تم کب سے یہاں بیٹھی ہو۔ پتا ہی نہیں چلا چہرے پہ ہاتھ پھیر کر انہوں نے سر اٹھایا تو اسے دیکھ کر جیسے خوشگوار حیرت ہوئی۔
آپ سے کچھ بات کرنی تھی پھپھو! وہ بولی تو اس کی آواز مدھم تھی۔ کیا آپ جانتی ہیں جہان کدھر ہے؟
وہ مجھے کبھی بتایا نہیں کرتا مگر۔۔۔۔۔۔۔ وہ ذرا رکیں۔ جانے سے پہلے اس نے کہا تھا کہ اس نے تمہیں بتا دیا ہے کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔ 
اچھا! اس نے اچنبھے سے انہیں دیکھا۔ اس نے کسی اور سے بھی یہی بات کہی تھی، مگر مجھے تو ایسا کچھ یاد نہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے کہتے وہ ایک دم رکی۔ ایک جھماکے سے اسے یاد آیا۔ لندن وہ کتنی ہی دفعہ لندن جانے کی بات کر چکا تھا۔ وہ لندن میں تھا۔ یقیناً وہ وہیں تھا۔
اوہ! اس نے واقعی مجھے بتایا تھا۔ اس نے جیسے اپنی کم عقلی پہ افسوس سے سر ہلایا۔ مگر اس نے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ واپس کب آئے گا۔ 
کہہ رہا تھا ایک آخری کام ہے، پھر وہ ترکی چھوڑ دے گا۔ پھپھو احتیاط سے الفاظ کا چناؤ کر رہی تھیں۔ جیسے انہیں اندازہ نہ تھا کہ وہ کتنا جانتی ہے۔
مجھے جانا ہے استنبول کلیئرنس کروانے میں یہ کام کر کے اسے ضرور ڈھونڈوں گی پھپھو! آپ دیکھیے گا۔ 
میں اسے واپس لے آؤں گی۔
حیا! اللہ پر توکل کرو اور آرام سے بیٹھ کر انتظار کرو، وہ آ ہی جائے گا۔
نہیں پھپھو! اس نے نفی میں گردن ہلائی۔ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا توکل تو نہیں، سستی ہوتی ہے۔ میں اس کو ڈھونڈنے ضرور جاؤں گی۔ وہ کھڑی ہوئی اور ستے ہوئے چہرے کے ساتھ ذرا سا مسکرائی۔
ہر دفعہ وہ میرے پیچھے آیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ میں چلی جاؤں گی تو اس میں کیا برائی ہے۔
جاتے جاتے وہ ایک لمحے کو رکی۔ پھپھو، ابا اور تایا لوگوں نے آپ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ۔
پھپھو کے چہرے پہ حیرت ابھری، پھر جیسے انہوں نے سمجھ کر سر جھٹکا۔
یہ جہان نے کہا ہو گا تم سے۔ پتا نہیں میرا بیٹا اتنی پرانی باتیں یاد کیوں رکھتا ہے؟ تم اس کی مت سنو، وہ ایسے ہی کہتا رہتا ہے۔
اگر اسے پتا چلے کہ آپ نے یہ کہا تو وہ کیا کہے گا؟
وہ کہے گا، میری ممی کی مت سنا کرو، وہ ایسے ہی بولتی رہتی ہیں۔ وہ ہلکے سے مسکرا دی۔ اسے یقین تھا، جہان پھپھو کے بارے میں کبھی ایسا نہیں کہہ سکتا تھا۔
••••••••••••••••••
ناشتے کی میز پہ اماں نے سرسری سے انداز میں یہ بات اسے تب بتائی، جب پھپھو اور ابا اٹھ چکے تھے۔
کل دوپہر عابدہ بھابی آئیں تھیں۔
پھر؟ وہ جو کانٹے میں آملیٹ کا ٹکڑا پھنسا رہی تھی، سر اٹھا کر انہیں دیکھنے لگی۔
وہ رضا کے لیے تمہارا رشتہ مانگ رہی تھیں۔
نوالہ اس کے حلق میں اٹک گیا۔ اسے لگا اس نے غلط سنا ہے۔ 
میرا رشتہ۔ آر یو سیریس؟ وہ بے یقینی سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
جب تم اپنی خوامخواہ کی ضد کے پیچھے جہان کو یوں اپنی زندگی سے نکالو گی تو لوگ یہی کہیں گے نا۔
وہ چکرا کر رہ گئی۔ جہان اس وجہ سے نہیں گیا تھا۔ وہ جانتی تھی مگر باقی سب تو نہیں جانتے تھے۔ ان کے ذہن ارم کی اس بڑھا چڑھا کر کی گئی بات میں اٹکے تھے۔ دل تو چاہا، اگر رضا سامنے ہوتا تو کچھ اٹھا کر اسے دے مارتی اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے سر جھٹکا۔ اسے کبھی محسوس نہیں ہوا تھا کہ وہ چیزیں اٹھا کر دے مارنے کی کتنی شوقین تھی اور وہ کتنی جلدی جان گیا تھا۔
اب مزید اس سے کچھ نہیں کھایا جانا تھا۔ اس نے پلیٹ پرے کر دی۔
عابدہ چچی سے کہیےگا، آئندہ ایسی بات سوچیں بھی مت۔ لوگوں کو میرا اور جہان کا رشتہ بھلے کمزور لگتا ہو مگر ہمارا رشتہ بہت مضبوط ہے اماں!
شیور! اماں نے جیسے اکتا کر سر جھٹکا۔ وہ وہاں سے اٹھ آئی۔ 
ساری رات کی بے خوابی، وہ ویڈیو، تایا کا ایکسیڈنٹ اور عابدہ چچی کا یہ قصہ۔ اس کا سر درد کرنے لگا تھا۔ ارم درست کہہ رہی تھی۔ وہ لوگ جان بوجھ کر اس کے نکاح کو کمزور کرنے پہ تلے تھے۔
آج اسے آفس نہیں جانا تھا۔ ابا آج خود آفس گئے تھے۔ وہ اب بہت بہتر محسوس کر رہے تھے۔ پتا نہیں ولید کے خلاف ایف آئی آر کا کیا بنا۔کاش جہان نے اس کے سر پر فرائی پین کی جگہ پورا پریشر ککر دے مارا ہوتا تو کتنا اچھا تھا۔
••••••••••••••••••
اس نے ابا کے آفس کے دروازے پہ مدھم سی دستک دے کر اسے دھکیلا۔ وہ سامنے اپنی میز کے پیچھے بیٹھے فائلز کی ورق گردانی کر رہے تھے۔ آہٹ پہ سر اٹھا کر اسے دیکھا اور ہلکا سا مسکرائے۔ بیماری نے انہیں کافی کمزور اور زرد کر دیا تھا۔
آؤ بیٹھو۔ انہوں نے سامنے کرسی کی جانب اشارہ کیا۔ وہ سیدھ میں چلتی ان کے مقابل کرسی تک آئی، پرس میز پہ رکھا اور کرسی پہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئی۔ 
مارکیٹنگ فنڈ میں سے کٹوتی کس نے کی ہے؟ انہوں نے سامنے کھلی فائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ وہ اس کی کارکردگی دیکھ رہے تھے اور یقیناً انہیں اس میں بہت سی غلطیاں دکھائی دے رہی تھیں

اور کیا ضرورت تھی شیئر ہولڈرز کو سالانہ Dividend دینے کی؟
فادر ڈیرسٹ! ایک تو میں نے بغیر تنخواہ کے اتنے دن کام کیا اوپر سے ڈانٹ بھی مجھے ہی پڑے گی۔ دو انگلیوں سے نقاب ناک سے ٹھوڑی تک اتارتے ہوئے وہ خفگی سے بولی۔
ڈاٹر ڈئیرسٹ! احسان جتانے سے ضائع ہو جاتا کرتے ہیں۔ وہ مسکراتے ہوئے بولے۔
رہنے دیں ابا! اچھا بتائیں، ولید کی ایف آئی آر کا کیا بنا؟
وہ پولیس کو نہیں مل رہا۔ اس کا باپ اسے گرفتار نہیں ہونے دے گا۔ بہرحال! میں اس کو ایسے جانے نہیں دوں گا۔ ایک دم وہ سنجیدہ نظر آنے لگے تھے۔ لیکن اس وقت میں نے تمہیں کسی اور بات کے لئے بلایا ہے۔
جی کہیے۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔ ابا اپنی بیماری کے باعث بہت سے معاملات سے دور رہے تھے مگر پھر بھی ان کے کانوں تک بہت کچھ پہنچ گیا تھا یقیننا اور بلآخر انہوں نے حیا سے دو ٹوک بات کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
یہ جہان صاحب واپس کیوں گئے ہیں؟
اسے کام تھا کچھ۔ آ جائے گا کچھ دن میں واپس۔
صائمہ بھابھی کچھ اور کہہ رہیں تھیں۔ وہ سوچتی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولے۔ حیا نے لاپروائی سے شانے اچکائے۔
صائمہ تائی تو دادی پہ بھی ساری عمر یہی الزام لگاتی رہی تھیں کہ وہ ان پہ جادو کرواتی ہیں۔ اگر صائمہ تائی کا جہان کے بارے میں تجزیہ درست مانا جائے تو دادی والا بھی درست ماننا چاہیے؟ وہ بھی حیا تھی۔ اس نے بھی ہار نہ ماننے کا تہیہ کر رکھا تھا۔
دیکھو! مجھے تمہارے اس برقعے وغیرہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر اس کی وجہ سے تم نے اپنے تایا ابا اور اماں کو بہت ناراض کیا ہے۔ تمہیں چاہیے تھا کہ تم ان کی بات کا احترام کرتیں۔ بڑوں کا حکم ماننا فرض ہوتا ہے۔ وہ کچھ لمحے سوچتی نگاہوں سے انہیں دیکھتی رہی پھر کہنے لگی۔
ابا! آپ کو ایک بات بتاؤں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں۔ ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے ایسا نہیں کیا۔ جب آپﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپﷺ نے ابن عمر سے فرمایا کہ بیوی کو طلاق دے دو۔ یوں عبداللہ بن عمررضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے والد کی بات کا احترام کرتے ہوئے بیوی کو طلاق دے دی۔ وہ لحظے بھر کو رکی۔ سلیمان صاحب سیٹ سے ٹیک لگائے ایک ہاتھ میں پین گھماتے غور سے اسے سن رہے تھے۔
پھر ہوا یہ کہ عرصے بعد ایک شخص امام احمد بن حنبلرضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ میرا باپ چاہتا ہے کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں۔ امام احمد رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ ایسا ہرگز مت کرنا۔ اس شخص نے جواب میں یہ واقعہ بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے کہنے پہ ان کے بیٹے نے تو اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ پھر مجھے ایسا کیوں نہیں کرنا چاہیے؟ ابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! آپ جانتے ہیں اس پہ امام احمد بن حنبل رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے اس شخص سے کیا کہا؟
کیا؟ وہ بے اختیار بولے۔ حیا ہلکا سا مسکرائی۔
انہوں نے کہا، کیا تمہارا باپ عمر جیسا ہے؟
آفس میں ایک دم خاموشی چھا گئی۔ صرف گھڑی کی سوئیوں کی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی۔
ویل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! تم ایل ایل بی کی اسٹوڈنٹ ہو، میں بحث میں تم سے جیت نہیں سکتا۔ میں صرف اتنا جاننا چاہتا ہوں کہ تم نے خلع کے بارے میں کیا سوچا؟ اس کا جیسے کسی نے سانس بند کر دیا۔ وہ لمحے بھر کو شل سی رہ گئی۔
تمہیں یاد ہے میں نے ترکی جانے سے قبل بھی تم سے ایسی ہی بات کی تھی؟
جی مجھے یاد ہے۔ چند ثانیہ بعد وہ بولی تو اس کا لہجہ بے تاثر تھا اور تب میں نے آپ سے یہ ہی کہا تھا کہ مجھے ترکی جانے دے اگر وہاں جا کر مجھے لگا کہ وہ لوگ طلاق چاہتے ہیں تو میں اس رشتے کو وہی ختم کر دوں گی۔
تو پھر؟
ابا! ہمارے درمیان یہی ڈیل ہوئی تھی کہ ترکی سے واپسی تک آپ مجھے ٹائم دیں گے۔
اور اب عرصہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم واپس آ چکی ہو۔
میں واپس نہیں آئی۔ آفیشلی مجھے ابھی ترکی سے واپسی کی کلیئرنس نہیں ملی۔ پرسوں میں استنبول جا رہی ہوں واپسی پہ ہم اس بات کو ڈسکس کریں گے۔ وہ بہت اعتماد سے کہہ رہی تھی۔ ابا متفق نہیں تھے مگر پھر بھی جیسے وقتی طور پر خاموش ہو گئے۔
ابا! وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اور بات بھی تھی۔ ہمت کر کے اس نے کہنا شروع کیا۔ میں سوچ رہی تھی کہ اگر کلیئرنس کروانے کہ بعد میں لندن چلی جاؤں۔ زیادہ نہیں بس ایک ہفتے کے لیے۔ میں صرف لندن دیکھنا چاہتی ہوں، پھر۔ کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ زیادہ ہی ڈیپنڈنٹ ہوتی جا رہی ہیں، مجھے آپ کو ذرا کھینچ کر رکھنا پڑے گا۔ وہ لمحے بھر میں روایتی ابا بن گے۔
ابا پلیز! اس کا لہجہ ملتجی ہو گیا۔
کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کلیئرنس کروا کہ سیدھی واپس آئیں گی۔ جتنا گھومنا ہے استنبول میں گھوم لو۔ ترکی کے کسی اور شہر جانا ہو تو بے شک چلی جاؤ، مگر اکیلے نہیں فرینڈز کہ گروپ کے ساتھ جانا۔ لندن وغیرہ جانے کی ضرورت نہیں۔
لیکن صرف ایک ہفتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیا! تم نے سن لیا جو میں نے کہا۔ ان کا لہجہ نرم تھا لیکن ابرو اٹھا کر تنبیہہ کرتا انداز سخت تھا۔ وہ خفگی سے جی کہہ کر اٹھ گئی۔
•••••••••••••••••••
وہ آج پھر یونیورسٹی چلی آئی تھی۔ ڈاکٹر ابراہیم سے آج اس نے وقت نہیں لیا تھا لیکن پھر بھی وہ اس کو اپنے آفس میں مل گئے۔
آپ نے ٹھیک کہا تھا سر! ہمیں لوگوں کو وقت دینا چاہیے۔ ان کے بالمقابل بیٹھی وہ آج بہت سکون سے کہہ رہی تھی اور وہ اسی توجہ سے اسے سن رہے تھے۔ سامنے اس کے لیے منگوا کر رکھی کافی کی سطح سے دھوئیں کے مرغولے اٹھ کر فضا میں گم ہو رہے تھے۔ ان کے آفس کا خاموش پرسکون ماحول اس کے اعصاب کو ریلیکس کر رہا تھا۔
یقین کرے سر! شروع میں آپ کے حجاب کی جتنی مرضی مخالفت کر لیں، ایک وقت آتا ہے کہ وہ اسے قبول کر لیتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ آپ کو اس میں قبول کر لیتے ہیں۔ چاہے انہیں حجاب تب بھی اتنا ہی ناپسند کیوں نہ ہو جتنا پہلے تھا۔ اب مجھے یقین آ گیا ہے کہ آہستہ آہستہ سارے مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔
بالکل۔ انہوں نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا کر تائید کی۔
مگر سر! جب میں اپنے مسئلوں سے گھبرا گئی تو آپ کے پاس آئی اور تب میں نے آپ سے کہا تھا کہ یہ ”تواصو بالصبر“ انسانوں کو انسانوں سے ہی چاہیے ہوتا ہے۔ آپ نے میری بات کی تائید کی تھی رائٹ!
جی پھر؟ وہ پوری توجہ سے سن رہے تھے۔ 
پھر سر! یہ کہ میری پھپھو کہتی ہیں کہ انسان کو اپنے مسئلے دوسروں کے سامنے بیان نہیں کرنے چاہئیں۔ جو شخص ایسا کرتا ہے وہ خود کو بے عزت کرتا ہے۔ کیا ایسا ہی ہے سر! کیا ہمیں اپنے مسئلے کسی سے نہیں شئیر کرنے چاہئیں؟
وہ اپنی کافی کی سطح پہ آئے جھاگ کو دیکھتے ہوۓ کہہ رہی تھی جس میں مختلف اشکال نظر آ رہی تھیں۔
مگر پھر ہم ”تواصو بالصبر“ کیسے کریں گے سر؟ جہان کی طرف کی روداد سن کر اس کے ذہن میں یہ سوال اٹک کر رہ گیا تھا۔
آپ کی پھپھو ٹھیک کہتی ہیں۔ سوال کرنا یعنی کسی کے آگے ہاتھہ پھیلانا بھلے وہ ہمدردی لینے کے لیے ہی ہو ہر حال میں ناپسندیدہ ہوتا ہے۔ انسان کو واقعی اپنے مسئلے اپنے تک رکھنے چاہیے۔ دنیا کو اپنی پرابلم سائیڈ دکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اپنے مسئلے کا واقعی اشتہار نہیں لگایا کرتے۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لحظہ بھر کو رکے۔
وہ نا محسوس طریقے سے کرسی پہ آگے کو ہوئی۔ اسے اسی ”مگر“ کا انتظار تھا۔
مگر انسان پہ ہر وقت ایک سا فیز نہیں رہتا میرے بچے! وقت بدلتا ہے۔ مسئلے بھی بدلتے ہیں۔ بعض دفعہ انسان ایسی سچویشن میں گرفتار ہو جاتا ہے جس سے وہ پہلے کبھی گزرا نہیں ہوتا۔ تب اسے چاہیے کہ اپنے مسئلے کا حل کسی سے پوچھ لے۔ انسان کو صرف تب اپنے پرابلم شیئر کرنے چاہئیں جب اس کو واقعی اپنے پاس سے اس کا حل نا ملے۔ کوئی ایک دوست، ایک ٹیچر یا پھر کوئی اجنبی، کسی ایک بندے کے سامنے اپنے دل کی بھڑاس نکال دینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا جو واقعتاً ”تواصو بالصر“ کرے۔ ہاں! لیکن ایک بات یاد رکھیں۔ اس شخص کو کبھی اپنی بیساکھی نہ بنائیں۔ آپ کو ہر کچھ دن بعد کسی کے کندھے پہ رونے کی عادت نہیں ڈالنی چاہیے۔ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ ہر وقت دوسروں سے تسلی لینے کے بجائے بہتر ہے کہ ہم تسلی دینے والے بنیں ”تواصو بالصبر“ صبر کی تلقین دینے کا نام ہوتا ہے، ہر وقت لیتے رہنے کا نہیں۔
اس نے سمجھ کر سر ہلا دیا۔اس کی کافی اب ٹھنڈی پڑتی جا رہی تھی، جھاگ کی اشکال چھٹتی جارہی تھیں۔اسے خوشی تھی کہ آج وہ سر کے پاس پھر سے نئے مسئلے لے کر نہیں آئی تھی۔
میں سمجھ گئی اور مجھے کچھ اور بھی بتانا تھا آپ کو۔
اسے جیسے اسی پل کچھ یاد آیا۔ آپ نے کہا تھا میں احزاب کی پہیلی میں کچھ مس کر گئی ہوں۔ میں نے اس بارے میں بہت سوچا پھر مجھے ایک خیال آیا۔
اچھا اور وہ کیا۔ وہ دلچسپی سے کہتے ذرا آگے کو ہوئے۔
سر! جنگ احزاب کے ختم ہونے کے بعد بنوقربظہ اپنے قلعوں میں جا چھپے تھے۔ مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا اور ان کو جا لیا۔ اگر بنوقربظہ کا فیصلہ آپﷺ پہ چھوڑا جاتا تو آپﷺ زیادہ سے زیادہ ان کو وہ جگہ چھوڑ دینے کا حکم دے دیتے مگر ان کا فیصلہ سعد رضی اللہ عنہ پہ چھوڑا گیا جو قبیلہ اوس سے تھے۔ انہوں نے بنوقربظہ کا فیصلہ یہود کی اپنی سزاؤں کے مطابق کیا یعنی کہ تمام مردوں کو غداری کے جرم میں قتل کیا جائے۔ یہ بنی اسرایئل کے ہاں غداری کی سزا تھی۔ کیا میں نے یہی بات مس کر دی کہ آخر میں بنوقریظہ کو ان کے اپنے ہی سزا دیتے ہیں۔
ڈاکٹر ابراہیم مسکرا کر سر جھٹکتے ہوئے آگے کو ہوئے۔
یہ آپ کہاں چلی گئیں۔ غزوہ بنو قربطہ جس کا آپ ذکر کر رہی ہیں یہ غزوہ احزاب کے بعد ہوئی تھی یہ غزوہ احزاب کا حصہ نہیں تھی۔ آیت حجاب قرآن کی جس سورہ میں ہے اس کا نام احزاب ہے بنو قربظہ نہیں۔ آپ کو احزاب کے دائرہ کار میں رہ کر اس کا جواب تلاش کرنا تھا۔
اچھا پھر! آپ مجھے بتا دیں کہ میں کیا مس کر گئی ہوں۔ اس نے خفگی سے پوچھا۔ پتا نہیں سر اس کو کیا دکھانا چاہتے تھے۔
حیا! میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ سورۃ احزاب اور حجاب میں مماثلت ہے۔ یہ آپ نے کہا تھا۔ آپ نے اسے پہیلی کہہ کر ایک چیلنج کے طور پہ قبول کیا تھا۔ سو آپ کو یہ پزل خود مکمل کرنا ہے۔
سر! تھوڑی بہت چیٹنگ تو جائز ہوتی ہے۔
ہر گز نہیں۔ اچھا کچھ کھائیں گی آج تو میرے پاس ٹرکش کینڈیز بھی نہیں ہیں۔
نہیں سر! بس یہ کافی بہت ہے، پھر میں چلو گی۔ اگلی دفعہ میں آپ کے پاس اس پہیلی کا آخری ٹکڑا لے کر ہی آؤں گی۔ وہ ایک عزم سے کہتی اٹھی۔
ڈاکٹر ابراہیم نے مسکرا کر سر کو جنبش دی۔ انہیں جیسے اپنی اس ذہین اسٹوڈنٹ سے اسی بات کی امید تھی۔
••••••••••••••••••
یونیورسٹی کے فی میل کیمپس میں ایک دوسری ٹیچر سے مل کر وہ انٹرنس بلاک سے نکلی تو سامنے ایک طویل روش تھی جس کے اختتام پہ مین گیٹ تھا۔ اس نے گردن جھکا کر ایک نظر اپنے پیروں کو دیکھا جو سیاہ ہیل والی سینڈلز میں مقید تھے۔ ہیل کی اتنی عادت تھی کہ دکھتے پیر کے باوجود اس نے ہیل پہن لی تھی۔ مگر اب چل چل کر دایاں پاؤں ٹخنے اور ایڑی سے درد کر رہا تھا۔ وہ سر جھٹک کر تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔ طویل سڑک عبور کر کے وہ گیٹ سے باہر آئی تو کار سامنے ہی کھڑی تھی۔ ڈرائیور نے اسے آتے دیکھ کر فوراً پچھلی طرف کا دروازہ کھولا۔ وہ اندر بیٹھی اور دروازہ بند کر دیا۔ ڈرائیور الہیٰ بخش نے فوراً کار اسٹارٹ کر دی۔
ایچ ٹین کا وہ خالی خالی سا علاقہ تھا۔ یونیورسٹی کی حدود سے نکل کر کار اب مین روڈ پر دوڑ رہی تھی۔اطراف میں دور دور فیکٹریز، عمارتیں یا انسٹی ٹیوٹس تھے۔ ابھی وہ زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ اچانک الہیٰ بخش نے بریک لگائے۔ وہ جو ٹیک لگائے بیٹھی تھی جھٹکے سے میکانکی طور پہ ذرا آگے کو ہوئی۔ 
کیا ہوا؟
یہ گاڑی سامنے آ گئی۔ الفاظ الہیٰ بخش کے لبوں پہ ہی تھے کہ حیا نے ونڈ اسکرین کے پار اس منظر کو دیکھا۔ وہ چمکتی ہوئی سیاہ اکارڈ ایک دم سے سامنے آئی تھی۔یوں کہ ان کا راستہ بلاک ہو گیا تھا۔ ڈرائیونگ سیٹ سے سیاہ سوٹ میں ملبوس شخص نکل کر تیزی سے ان کی جانب آیا تھا۔ حیا یک ٹک اس سیاہ اکارڈ کو دیکھ رہی تھی۔ وہ اس گاڑی کو پہچانتی تھی۔ اس گاڑی نے تایا فرقان کو ٹکر ماری تھی۔
ولید اس کے دروازے سے چند قدم دور ہی تھا۔ غصے کا ایک ابال اس کے اندر اٹھنے لگا۔
الٰہی بخش! جلدی سے ابا کو فون کرو اور بتاؤ کہ ولید نے ہمارا راستہ روکا ہے۔ میں تب تک سے ذرا بات کر لوں۔ وہ دروازہ کھول کر باہر نکلی۔ولید اس کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔ چہرے پہ طیش آنکھوں میں تنفر۔
اس نے کن انکھیوں سے گاڑی میں بیٹھے الہیٰ بخش کو نمبر ملاتے دیکھا۔ 
میرا خیال تھا آپ ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ مگر نہیں آپ تو یہیں ہیں۔ بہت سکون اور اطمینان سے کہتی وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔ خیر چند دن کا عیش ہے مسٹر لغاری! پھر آپ کو اقدام قتل کے کیس کا سامنا کرنا ہی ہو گا۔
میری بات سنو! ایک ہاتھ کار کی چھت پہ رکھے، دوسرے ہاتھ کی انگلی سے تنبیہہ کرتا وہ بہت طیش کے عالم میں کہہ رہا تھا۔ تم اس مقدمے میں میرے خلاف ایک لفظ نہیں کہو گی۔ یہ ایک ایکسیڈنٹ تھا، اور تم اپنے بیان میں یہی کہو گی۔
میں بیان دے چکی ہوں اور تم نامزد ملزم ٹھہرائے جا چکے ہو۔
اپنی بکواس اپنے پاس رکھو۔ جو میں کہہ رہا ہوں، تم وہی کرو گی۔ تم یہ مقدمہ فوراً واپس لے رہی ہو، سنا تم نے؟ وہ بلند آواز سے بولا تھا۔ الہیٰ بخش فون کان سے ہٹا کر دوبارہ نمبر ملا رہا تھا۔ شاید رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔
اور اگر میں ایسا نہ کروں تو تم کیا کرو گے؟ مجھے دوبارہ اپنی گاڑی کے نیچے دینے کی کوشش کرو گے؟ اس نے استہزائیہ سر جھٹکا۔
ولید چند لمحے لب بھینچے اسے دیکھتا رہا، پھر ایک طنزیہ مسکراہٹ اس کے لبوں کو چھو گئی۔
میرے پاس تمہارے لیے اس سے بہتر حل موجود ہے۔
اچھا اور وہ کیا ہے؟ وہ اسی کے انداز میں بولی۔ اطراف سے گاڑیاں زن کی آواز کے ساتھ گزر رہی تھیں۔
ولید نے گاڑی کی چھت سے ہاتھ ہٹایا، جیب سے اپنا موبائل نکالا، چند بٹن پریس کیے اور پھر اس کی اسکرین حیا کے سامنے کی۔
کیا اس منظر کو دیکھ کر کوئی گھنٹی بجی ہے ذہن میں؟ ایک تپانے والی مسکراہٹ کے ساتھ وہ بولا تو حیا نے ایک نگاہ اس کے موبائل اسکرین پہ ڈالی، مگر پھر ہٹانا بھول گئی۔ ادھر ہی جم گئی۔ منجمد، شل، ساکت۔
”شریفوں کا مجرا“ اس ویڈیو کی جھلک۔ کسی نے کھولتا ہوا پیتل اس کے اوپر ڈال دیا تھا۔ اندر باہر آگ میں لپٹے گولے برسنے لگے تھے۔ بے یقینی سی بے یقینی۔
نکل گئی نا اکڑ۔ اب آئی ہو نا اپنی اوقات پہ۔ ولید نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے موبائل بند کر کے جیب میں ڈالا۔ نقاب سے جھلکتی اس کی ششدر ساکت آنکھیں ابھی تک وہیں منجمند تھیں۔
ذرا سوچو میں اس ویڈیو کے ساتھ کیا کیا کر سکتا ہوں۔ وہ اب قدرے مسکرا کر کہہ رہا تھا۔ حیا کا شاک اسے سمجھانے کے لیے کافی تھا کہ تیر عین نشانے پہ لگا ہے۔
اگر میں اسے تمہارے خاندان کے سارے مردوں تک پہنچا دوں تو کیا ہو گا حیا بی بی! 
کبھی سوچا تم نے؟ کیا اب بھی تم میرا نام اس کیس میں لے سکو گی؟ 
پھر اس نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔ ایسی غلطی کبھی نہ کرنا ورنہ میں تمہیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔
وہ جو آندھی طوفان کی طرح آیا تھا کسی پرسکون فاتح کی طرح پلٹ گیا۔ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر دروازہ بند کیا۔ سائیڈ مرر میں دیکھتے ہوئے ہاتھ ہلایا سن گلاسز آنکھوں پہ لگائے اور گاڑی آگے بڑھا کر لے گیا۔
وہ ابھی تک کار کے ساتھ شل سی کھڑی تھی۔ نقاب کے اندر لب اسی طرح ادھ کھلے اور آنکھوں کی پتلیاں ساکن تھیں۔ اس کی دل کی دھڑکن ہلکی ہو گئی تھی جیسے کوئی لٹی پٹی کشتی سمندر کی گہرائی میں ڈوبتی چلی جا رہی ہو۔ نیچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نیچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گہرائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاتال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏بڑے صاحب فون نہیں اٹھا رہے۔ اب کیا کرنا ہے میم؟
الہی بخش گاڑی سے باہر نکل کر اس سے پوچھنے لگا۔ اس کا سکتہ ذرا سا ٹوٹا۔ بے حد خالی خالی نظروں سے اس نے الہی بخش کو دیکھتے نفی میں سر ہلایا اور پھر بنا کچھ کہے گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اس کا سارا جسم ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔ ٹھنڈا اور نیلا۔ جیسے چاندی کے مجسمے کو کسی نے زہر دے دیا ہو۔
وہ کب گھر پہنچے، کیسے نیچے اتری، اسے ہوش نہیں تھا۔ بہت چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے اندرونی دروازہ کھول کر اس نے لاؤنج میں قدم رکھا ہی تھا کہ سامنے کوئی کھڑا نظر آیا۔
بلیو جینز، سیاہ ٹی شرٹ، سنہری سپید رنگت، بڑی بڑی آنکھیں، وہ ہنستے ہوئے کسی سے بات کر رہا تھا، آہٹ پہ پلٹ کر حیا کو دیکھا جو میکانکی انداز میں نقاب ناک سے اتار کر ٹھوڑی تک لا رہی تھی۔
‏یہ ہمارے گھر میں جامعہ حفصہ کہاں سے آ گیا۔ وہ خوش گوار حیرت کے زیر اثر بولا۔
حیا نے دھیرے سے پلکیں جھپکائیں۔ اس کی آنکھوں نے اس شخص کا چہرہ اپنے اندر مقید کیا پھر بصارت نے یہ پیغام دماغ کو پہنچایا دماغ نے جیسے سست روی سے اس پیغام کو ڈی کوڈ کیا اور پھر اس شخص کا نام اس کے لبوں تک پہنچایا۔
رو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روحیل۔ چند لمحے لگے تھے اسے اپنے شل ہوتے دماغ کے ساتھ اپنے بڑے بھائی کو پہچاننے میں۔ 
اتنے شاکڈ تو ابا بھی نہیں ہوئے تھے جتنی تم ہوئی ہو۔ وہ مسکرا کر کہتا آگے بڑھ کر اس سے ملا۔ وہ خوش تھا ابا اور اس کا معاملہ حل ہو گیا کیا؟ وہ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ بس خالی خالی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
‏ حیا! یہ نتاشا ہے، ادھر آ کر ملو۔ اماں نے جانے کہاں سے اسے پکارا تھا۔ اس نے دھیرے سے گردن موڑی۔ اماں کے ساتھ لاؤنج کے صوفے پر ایک لڑکی بیٹھی تھی۔ اس کا دماغ مزید کام کرنے سے انکاری تھا اس نے بس سر کے اشارے سے اس انجان لڑکی کو سلام کیا اور پھر روحیل کو دیکھا۔
‏میں آتی ہوں۔ سر میں درد ہے۔ سونا ہے مجھے۔ مبہم، ٹوٹے، بے ربط الفاظ کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ پیچھے سے شاید اماں نے اسے پکارا تھا مگر اس نے اندر آ کر دروازہ بند کیا اور کنڈی لگا دی۔ ذہن اس طرح سے ایک نقطے پہ منجمد ہو گیا تھا کہ وہاں سے آگے پیچھے نہیں جا رہا تھا۔
‏ کسی خودکار روبوٹ کی طرح اس نے عبایا کے بٹن کھولے پھر سر سے سیاہ اسکارف علیحدہ کیا تو بالوں کا جوڑا کھل گیا۔ سارے بال کمر پہ گرتے گئے۔ اس نے سیاہ لمبی قمیض کے ساتھ سفید چوڑی دار پاجامہ پہن رکھا تھا۔
ارد گرد ہر شے اجنبی سی لگ رہی تھی۔ وہ خالی الذہنی کے عالم میں چلتی باتھ روم کی طرف آئی، دروازہ کھلا چھوڑ دیا اور باتھ روم کی ساری لائٹیں جلا دیں۔
وہ اسی انداز میں چلتی ہوئی شاور تک آئی اور اسے پورا کھول دیا۔ پھر باتھ ٹب کی منڈیر کے کنارے پہ بیٹھ گئی۔ اس کی سیاہ لمبی قمیض کا دامن اب پیروں کو چھو رہا تھا۔
شاور سے نکلتی پانی کی تیز دھار بوندیں سیدھی اس کے سر پہ گرنے لگیں۔ وہ جیسے محسوس کیے بنا سامنے سنک کے ساتھ سلیب پہ رکھے پاٹ پوری بھرے شیشے کے پیالے کو دیکھ رہی تھی جس کی خوشبو پورے باتھ میں پھیلی تھی۔
انسان سمجھتا ہے کہ گناہ بھلا دینے سے وہ زندگی سے خارج ہو جاتے ہیں مگر ایسا نہیں ہوتا۔ گناہ پیچھا کرتے ہیں۔ وہ عرصے بعد بھی اپنے مالک سے ملنے آجایا کرتے ہیں۔ گناہ قبر تک انسان کے پیچھے آتے ہیں۔ اس کے گناہ بھی ایک دفعہ پھر اس کے سامنے آ گئے تھے۔ انہوں نے دنیا کے ہجوم میں بھی اپنے مالک کو تلاش کر لیا تھا۔
موسلا دھار پانی اس کے سر سے پھسل کر نیچے گر رہا تھا۔ بال بھیگ کر موٹی لٹوں کی صورت بن گئے تھے۔ اس کا پورا لباس گیلا ہو چکا تھا۔ وہ یک ٹک سامنے ٹائلز سے مزین دیوار کو دیکھ رہی تھی۔
ولید کے پاس وہ ویڈیو کہاں سے آئی وہ نہیں جانتی تھی مگر ایک بات طے تھی۔ اللہ نے اسے معاف نہیں کیا تھا۔ اس کے گناہ دھلے نہیں تھے۔
وہ آج بھی اس کے سائے کی طرح اس کا پیچھا کر رہے تھے اور اگر وہ سب کچھ اس کے خاندان والوں کے سامنے آ گیا تو؟
پانی کی بوجھاڑ ابھی تک اسے بھگو رہی تھی۔ اس کے چہرے بالوں اور سارے وجود پہ موٹی موٹی بوندیں گر رہی تھیں۔ ایسے جیسے بارش کے قطرے ہوتے ہیں۔ جیسے سیپ سے نکلتے موتی ہوتے ہیں۔ جیسے ٹوٹے ہوئے آنسو ہوتے ہیں۔
وہ پوری طرح بھیگ چکی تھی۔ مگر وہ ابھی تک یوں ہی شل سی بیٹھی تھی۔ یہ کیا ہو گیا تھا؟ وہ اب کیا کرے گی؟
ولید کے ہاتھ اس کی کمزوری لگ گئی تھی۔ وہ اس کے خلاف گواہی نہ دے تو کیا ولید بس کر دے گا؟ نہیں وہ جان چکا ہے کہ اس کے پاس کیا چیز ہے۔ وہ اسے بار بار استعمال کرنا چاہے گا۔ کیا وہ اسی طرح اس کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہے گی؟ اس نے کیوں ولید کو تھپڑ نہیں دے مارا؟ وہ کیوں ڈر گئی؟ وہ کیوں ظاہر نہیں کر سکی کہ اسے اس بات سے فرق نہیں پڑتا؟ مگر وہ یہ ظاہر نہیں کر سکتی تھی۔ وہ سب کچھ اتنا غیر متوقع ہوا تھا کہ انسان ہونے کے ناطے وہ سنبھل نہیں سکی تھی اور ولید جیت گیا تھا۔
اللہ نے اسے معاف نہیں کیا۔ نیلی مسجد میں بیٹھ کر اس نے کتنی معافی مانگی تھی۔ کتنا نور مانگا تھا اور اب خود کو اس کی پسند کے مطابق ڈھالنے کے بعد جب اسے اپنے گناہ بھولتے جا رہے تھے تو اچانک وہ سب اس کے سامنے لاکھڑا کر دیا گیا تھا۔ وہ بری لڑکی نہیں تھی اس کا کوئی افئیر نہیں رہا تھا۔ دکان دار کو روپے پکڑتے وقت بھی احتیاط کرتی تھی کہ ہاتھ نہ ٹکرائے مگر خوبصورت دکھنے کی خوائش سے اس سے چند غلطیاں ہوئی تھیں اور وہ اب تک معاف نہیں ہو سکی تھیں۔
جانے کب وہ اٹھی شاور بند کیا اور بھیگے بالوں اور کپڑوں سمیت بیڈ کے ساتھ نیچے کارپٹ پہ آ بیٹھی۔ آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ اکڑو بیٹھے سینے کے گرد بازو لپیٹے سر گھٹنوں میں دیے وہ کب سو گئی اسے پتا بھی نہیں چلا۔
•••••••••••••••••••
جب وہ اٹھی تو عشا کی اذان ہو رہی تھی۔ کمرے میں تاریکی پھیلی تھی۔ لباس اور بال ابھی تک نم تھے۔ ذرا حواس بحال ہوئے تو روحیل اور اس کی بیوی کا خیال آیا۔ اس نے تو اسے ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں تھا پتا نہیں اماں نے کیا نام لیا تھا۔
فریش ہو کر انگوری لمبی قمیض کے ساتھ میرون چوڑی دار پاجامہ اور میرون دوپٹہ لے کر وہ گیلے بالوںکو ڈرائیر سے سکھا کر باہر آئی تو گھر میں چہل پہل سی تھی۔ سحرش اور ثناء عابدہ چچی کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ ارم سونیا اور صائمہ تائی بھی لاونچ میں تھیں۔
روحیل کی بیوی فاطمہ کے ساتھ والے صوفے پہ دوپہر کے انداز میں بیٹھی تھی۔ ٹیک لگا کر ٹانگ پہ ٹانگ رکھے۔ گلابی قمیض کے ساتھ کیپری۔ بال سیاہ گھنگریالے مگر بھوری سنہری اسٹریکنگ میں ڈرائی کروا رکھے تھے۔
نقوش سے وہ نیپالی کم اور ذرا صاف رنگت کی ایفرو امریکن زیادہ لگتی تھی۔ رنگ گندمی رخسار کی ہڈیاں اونچی بھنویں بے حد باریک اور چہرے کی جلد عام امریکن لڑکیوں کی طرح فیس ویکسنگ کروانے کے باعث جیسے چھلی ہوئی سی لگتی تھی۔ لبوں پہ اہک ہلکی سی مسکرہٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ اسے اچھی لگی تھی یا بری۔
•••••••••••••

سوری! صبح میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی، صحیح سے مل نہیں سکی۔ انگریزی میں اس سے بات کرتے ہوئے اس نے ایک نظر اماں پہ ڈالی۔ اماں اتنی نارمل کیوں تھیں؟کیا اماں اور ابا نے اس لڑکی کو قبول کر لیا تھا؟ اتنی آسانی سے؟
اٹس اوکے! نہ تو انداز میں رکھائی تھی نہ ہی والہانہ گرمجوشی۔ بس نارمل سوبر سا انداز۔ حیا ابھی تک کھڑی تھی۔ اس سے بیٹھا ہی نہ گیا۔ عجب سی بے چینی تھی۔ سو معذرت کر کے کچن کی طرف چلی آئی۔ کچن اور لانچ کے بیچ کی آدھی دیوار کھولی تھی سو اسے دور سے پھپھو کام کرتی نظر آ گئی تھی۔
تم ٹھیک ہو؟ وہ ایک ڈش کی ڈریسنگ کرتے ہوئے آہٹ پہ پلٹیں۔ وہی جہان والی آنکھیں وہی نرم مسکراہٹ۔
جی، سوری میں دوپہر میں ذرا تھکی ہوئی تھی۔
نتاشا سے مل لیں؟ پھوپھو نے دور لاونچ کے صوفوں پہ بیٹھی عورتوں کی طرف اشارہ کیا۔ وہ چونکی۔
اس کا نام نتاشا ہے؟ سرگوشی میں پوچھتے بظاہر چیزیں اٹھا اٹھا کر پھوپھو کو دے رہی تھی۔
ہاں کیوں کیا ہوا؟اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھوپھو سمجھ گئیں۔ اگر روسی اس خوب صورت نام سے کچھ غلط مطلب لیتے ہیں تو اس میں اس نام کا کیا قصور؟ قصور تو روسیوں کا ہے نا۔
صیح مگر روحیل اچانک آ گیا، ابا کا کیا ری ایکشن تھا؟ اب وہ ولید کی باتوں کے اثر سے ذرا نکلی تھی تو ان باتوں کا خیال آیا؟
وہ اسی لیے بغیر بتائے آیا ہے۔ بس بھائی نے تھوڑا بہت جھڑکا اور پھر روحیل نے معافی مانگ لی اور نتاشا نے بھی اسلام قبول کر لیا ہے سو بھائی مان گئے۔
وہ بے یقینی سے انہیں دیکھے گئی۔
اتنی آسانی سے یہ سب کیسے ہوا؟ اسے یاد تھا کہ اس شادی کی وجہ سے ابا کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔
اوون میں ڈش رکھ کر ڈھکن بند کرتے پھپھو نے گہری سانس لی۔
تو پھر اور کیا کرتے بھائی؟ اب وہ شادی کر ہی چکا ہے اور نتاشا کو مسلمان کر ہی چکا ہے تو بس بات ختم۔ روحیل ان کا اکلوتا بیٹا ہے۔ پہلوٹھی کی اولاد۔
اوون کا ٹائم سیٹ کر کے وہ اس کی طرف پلٹیں تو ان کے چہرے پہ ایک تھکان زدہ مگر بے شکوہ مسکراہٹ تھی۔
وہ ان کا بیٹا ہے حیا اور بیٹوں کے قصور جلدی معاف کر دیے جاتے ہیں۔ صلیب پر لٹکانے کو صرف بیٹیاں ہوتی ہیں۔
کچھ تھا جو اس کے اندر ٹوٹ سا گیا تھا۔ پھوپھو اب کاونٹر کی طرف چلی آئی تھیں۔ بہت سے آنسو اس نے اپنے اندر اتارے اور پھر چہرے پہ ظاہری بشاشت لا کر وہ ان کی طرف پلٹی۔
آپ یہ سب کیوں کر رہی ہیں؟ اور نور بانو کدھر ہے؟
وہ ڈرائینگ روم میں بھائی وغیرہ کو چائے دینے گئی ہے۔ میں نے سوچا میں کھانے کو آخری دفعہ دیکھ لوں کھانے کا کام عورت کو خود کرنا چاہیے تا کہ کھانے میں عورت کے ہاتھ کا ذائقہ بھی آئے۔
تو نور بانو ہے نا پھوپھو!
بیٹا! عورت کے ہاتھ کا ذائقہ صرف اس کی فیملی کے لئے ہوتا ہے۔ نور بانو کے بنائے کھانے میں اس کے اپنے بچوں کو ذائقہ آئے گا مگر اس کے مالکوں کو نہیں۔
وہ جہان کی ماں تھیں ان سے کون بحث کرتا؟ سو وہ واپس لاؤنچ میں آ کر بیٹھ گئی۔ ذہن میں ولید کی باتیں ابھی تک گردش کر رہی تھیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا ہو گیا؟ درمیان میں ابا ایک دفعہ کسی کام سے آئے تو اسے بلا کر پوچھا۔
الہی بخش کہہ رہا تھا کہ ولید نے تمہارا رستہ روکا ہے؟ ولید کا نام لیتے ہوئے ان کی آنکھوں میں برہمی در آئی تھی۔ ویسے وہ نارمل لگ رہے تھے جیسے نتاشا سے کوئی مسئلہ نہ ہو۔
جی! وہ دھمکی دے رہا تھا کہ اگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہم نے اس کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو ہم پر ذاتی حملے بھی کر سکتا ہے۔ اٹک اٹک کر اس نے چند فقرے جوڑے۔
میں اس کو دیکھ لوں گا۔ اب اکیلے باہر مت جانا۔ ابا کہہ کر آگے بڑھ گئے۔ اب کیا فائدہ؟ کل تو ویسے بھی اسے استنبول چلے جانا تھا۔
کھانے کے بعد ثنا نے اس سے کہا کہ وہ ترکی کی تصاویر دکھائے سب کو۔ وہ لیپ ٹاپ لینے کمرے کی طرف جانے لگی تو ارم اس کے ساتھ آ گئی۔ اس کے سر میں درد تھا اور وہ ذرا لیٹنا چاہ رہی تھی۔ 
تم نے دیکھا، عابدہ چچی اور سحرش کیسے سارا وقت پھپھو کے آگے پیچھے پھر رہی تھیں۔ ارم بیڈ پہ تکیہ درست کر کے لیٹتی بولی تھی۔ واقعی سحرش سارا وقت صرف پھپھو سے بات چیت کرتی رہی تھی۔
جیسے مجھے ان کی پروا ہے۔ وہ لیپ ٹاپ اٹھائے باہر آ گئی۔
جب وہ لیپ ٹاپ میز پہ رکھے، اپنے ساتھ بیٹھی ثنا کو ایک ایک کر کے تصاویر دکھا رہی تھی تو نتاشا ثنا کے دوسری جانب سنگل صوفے پہ بیٹھی تھی۔ وہ زیادہ وقت خاموش ہی رہی تھی بس کبھی کسی بات کا جواب دے دیتی کبھی مسکرا دیتی وار کبھی امریکیوں کے مخصوص انداز میں نخرے سے شانے اچکا دیتی۔
‏ ایک منٹ پیچھے کرنا۔ وہ بیوک ادا کی اپنی اور ڈی جے کی تصاویر آگے کرتی جا رہی تھی جب اس نے نتاشا کو سیدھا ہوتے دیکھا۔ وہ بے اختیار رکی مڑ کر نتاشا کو دیکھا اور تصویر پیچھے کی۔
وہ ڈی جے تھی۔ ادا کے بازار کا منظر۔ عقب میں جہان کھڑا بگھی بان سے بات کر رہا تھا۔ وہ بگھی کی سواری سے چند منٹ قبل کا فوٹو تھا۔ وہ تصویریں نہیں بنواتا تھا مگر اتفاق سے اس تصویر میں نظر آ ہی گیا تھا۔
‏یہ جہان ہے نا۔ نتاشا جیسے خوش گوار حیرت سے بولی۔ لاؤنج میں موجود تمام خواتین رک کر اسے دیکھنے لگیں۔ وہ ذرا آگے ہو کر بیٹھی، مسکراتے ہوئے اسکرین کو دیکھ رہی تھی۔
تم کیسے جانتی ہو؟ فاطمہ نے اچھنبے سے اسے دیکھا۔ 
یہ ہمارے پاس آیا تھا ایک دفعہ، نائٹ اسٹے کیا تھا ہماری طرف۔ بہت سویٹ ہے۔ ہے نا؟ اس نے تائیدی انداز میں حیا کو دیکھا۔ حیا نے ایک نظر سب پہ ڈالی اور پھر اثبات میں سر ہلا دیا۔ وہ کتنا سویٹ ہے مجھ سے بڑھ کر کون جانتا ہے۔
ہاں، اس نے بتایا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ تمہیں یاد رہا۔ پھپھو مسکرائی تھیں۔ روحیل سے وہ ان ٹچ تھیں مگر نتاشا سے نہیں سو انہیں اچھا لگا تھا۔
آف کورس آنٹی! اس نے بالخصوص بتایا تھا کہ وہ روحیل کی بہن کا شوہر ہے سو میں کیسے بھول سکتی تھی؟ 
سحرش نے عابدہ چچی کو دیکھا اور عابدہ چچی نے صائمہ تائی کو۔ چند متذبذب نگاہوں کے تبادلے ہوئے اور جیسے لمحے بھر کے لیے خاموشی چھا گئی۔
پہلی بار اسے نتاشا بہت اچھی لگی۔ ولید کی باتوں سے چھائی کلفت ذرا کم ہو گئی اور وہ انہیں باقی تصاویر دکھانے لگی۔ پھر جب لیپ ٹاپ رکھنے کمرے میں آئی تو ارم اس کے بیڈ پہ بیٹھی اس کے فون کو کان سے لگائے دبی دبی غصیلی آوااز میں بات کر رہی تھی۔
یہ لڑکی بھی نا۔ حیا نے بمشکل نا غصہ ضبط کیا۔ ارم اسے دیکھ کر تیزی سے الوداعی کلمات کہنے لگی۔
پلیز کال لاگ کلیئر مت کرنا۔ میرے اہم نمبر ضائع ہو جائیں گے۔ اس نے ابھی کال کاٹی ہی تھی کہ حیا نے فون کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ 
ارم نے بغیر کسی شرمندگی کے فون اس کو واپس کر دیا اور کمرے سے نکل گئی۔
حیا نے کال لاگ چیک کیا۔ اسی نمبر پہ جو اس نے اپنے موبائل کے اندر ایک میسج میں محفوظ کر رکھا تھا ارم نے آدھا گھنٹہ بات کی تھی۔ تیس منٹ اور پچاس سیکنڈ چونکہ نمبر فون بک میں محفوظ نہیں تھا سو ارم ک نمبر ملاتے معلوم نہ ہو سکا کہ یہ نمبر اس فون میں پہلے سے درج ہے۔ وہ تاسف بھری گہری سانس لے کر رہ گئی۔ یہ لڑکی پتا نہیں کیا کر رہی تھی۔ 
عائشے گل کہتی تھی ”اچھی لڑکیاں چھپے دوست نہیں بناتیں۔“ 
کاش! وہ یہ بات ارم کو سمجھا سکتی۔ ‏
وہ واپس لاؤنج میں آئی تو باتوں کا دور ویسے ہی چل رہا تھا۔‏‎ ‎پھر صائمہ تائی نے ایک دم اسے مخاطب کیا۔
جہان کی واپسی کا کیا پروگرام ہے حیا؟ شاید یہ جتانا مقصود تھا کہ اسے جہان کی خبر تک نہیں۔ اس نے بہت ضبط سے گہری سانس لی۔ سبین پھپھو ابھی اٹھ کر کچن تک گئی تھیں۔
کل میں استنبول جا رہی ہوں نا، تو پھر دیکھتے ہیں کیا پروگرام ڈیسائڈ ہوتا ہے۔
تمہاری کب واپسی ہو گی؟ سحرش نے بہت سادگی سے پوچھا۔ اسے لگا، سب مل کر اس کی تحقیر کر رہے ہیں۔ 
کچھ نہیں کہہ سکتی۔ جہان کے پروگرام پر منحصر ہے۔ اس نے بے پروائی سے شانے اچکائے۔ شاید ہفتہ لگ جائے، پھر ہم ساتھ میں واپس آئیں گے۔
اس کے لہجے کی مضبوطی پہ سب نے حتٰی کہ فاطمہ نے بھی اسے بے اختیار دیکھا۔ وہ نظر انداز کر کے ثنا کی طرف متوجہ ہو گئی، جو پیالی میں پانی بھر کر لائی تھی اور اپنے پرس سے سرخ، گلابی اور کاسنی نیل پالش کی شیشیاں نکال کر میز پر رکھ رہی تھی۔ اسے ماربل نیل پالش لگانی تھی اور وہ جانتی تھی کہ حیا سے بہتر کوئی یہ کام نہیں کر سکتا۔
لگا کر دے رہی ہوں، مگر وضو کرنے سے پہلے دھو لینا۔سب ابھی تک اسے دیکھ رہے تھے وہ جیسے بے نیاز سی ہو کر ہر نیل پالش کا ایک ایک قطرہ پانی میں ٹپکانے لگی۔ تینوں رنگ بلبلوں کی صورت میں پانی کی سطح پہ تیرنے لگے۔ اس کی امیدوں اور دعوں جیسے بلبلے۔ وہ جانتی تھی کہ وہ بہت بڑی بات کہہ گئی ہے۔ جہان ترکی میں نہیں تھا اور وہ اس کے ساتھ واپس نہیں آئے گا، مگر وہ ان کو مزید خود پہ ہنسنے کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی۔
اب انگوٹھا ڈالو۔ اس کے کہنے پہ ثنا نے انگوٹھا پانی میں ڈبو کر نکالا تو ناخن پہ تینوں رنگوں کا ماربل پرنٹ چھپ گیا تھا۔ 
واؤ! ثنا ستائش سے انگوٹھے کو ہر زاویے سے دیکھنے لگی۔ وہ قدرتی سا ڈیزائن تھا اور بہت خوبصورت تھا۔ قدرت کے ڈیزائن بھی کس قدر خوبصورت ہوتے ہیں ناں۔ انسان کی ڈیزائننگ سے زیادہ خوبصورت۔ 
•••••••••••••••••••
رات دیر سے وہ روحیل کے ساتھ تایا ابا کے طرف گئی تھی تا کہ جانے سے قبل ان سے مل لے اور طبعیت بھی پوچھ لے۔ تایا ابا کی پٹی بندھی تھی اور وہ قدرے بہتر لگ رہے تھے۔ 
تم بہن بھائیوں کا بھی آنا جانا لگا رہتا ہے۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا۔ وہ بیڈ پہ تکیوں سےٹیک لگا کر نیم دراز تھے۔ پرسوں اگر اسے لگا تھا کہ وہ پہلے جیسے تایا فرقان بن گئے ہیں تو وہ غلط تھی گو کہ سرد مہری کی دیوار گر چکی تھی اور وہ نارمل انداز میں اس سے بات کر رہے تھے پھر بھی پہلے والی بات نہ تھی۔ اس نے اپنے حجاب سے ان کے زخم کو مرہم دیا تھا، یہ بات جیسے پرانی ہو گئی تھی۔ فطرت کبھی نہیں بدلتی۔ 
اور جہان کا کیا پروگرام ہے؟
جہان میرے ساتھ ہی واپس آئے گا۔ تایا کے جواب میں اس نے ذرا اونچی آواز میں کہتے ہوئے قریب بیٹھی صائمہ تائی کو پھر سے سنایا تھا۔ تائی کو جیسے یہ بات پسند نہیں آئی تھی، انہوں نے رخ پھیر لیا۔ 
واپسی پہ دونوں گھروں کا درمیانی دروازہ عبور کرتے ہوئے روحیل نے پوچھا۔ صائمہ تائی صبح بتا رہی تھیں کہ جہان تمہیں تمہارے برقعے کی ضد کی وجہ سے چھوڑ کر گیا ہے؟ 
حیا نے گہری سانس لیتے ہوئے درمیانی دروازہ لاک کیا اور پھر روحیل کی طرف مڑی۔ 
تمہارے ایف ایس سی پری انجینئرنگ میں کتنے مارکس آئے تھے؟ 
میرے مارکس؟ وہ حیران ہوا۔ نو سو اکانوے۔ کیوں؟
اور جب تمہارت نو سو اکانوے نمبر آئے تھے تو صائمہ تائی نے کہا تھا کہ اس فیڈرل بورڈ والوں سے پیپر گم ہو گئے تھے، سو انہوں نے Randomly مارکنگ کرتے ہوئے شیرینی کی طرح نمبر بانٹے ہیں اور اس بات کو خاندان والوں سے سن کر تم نے کہا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک منٹ مجھے تمہارے الفاظ دہرانے دو۔ وہ اس شام میں پہلی مرتبہ مسکرائی۔ 
تم نے کہا تھا، صائمہ تائی اس دنیا کی سب سے جھوٹی خاتون ہیں۔
اوکے، اوکے! سمجھ گیا۔ روحیل ہنستے ہوئے سر جھٹک کر اس کے ساتھ پورچ کی طرف بڑھ گیا۔ 
چھ ماہ قبل اس نے ایک بھیانک خواب دیکھا تھا۔ اس واہیات ویڈیو کی سی ڈی گھر پہنچ گئی تھی۔ ارم لاؤنچ میں زمین پہ بیٹھی رو رہی تھی اور تایا، ابا، روحیل سب وہاں موجود تھے۔ تب اس نے سوچا تھا کہ روحیل تو امریکہ میں ہے، پھر ادھر کیسے آیا؟ مگر اب روحیل ادھر آ گیا تھا۔ اس بھیانک منظر کے سارے کردار یہاں موجود تھے۔ جب وہ ترکی سے واپس آئے گی تو کیا اس کا استقبال اس خواب جیسا ہو گا؟ اس سے آگے وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔
•••••••••••••••••••
استنبول ویسا ہی تھا جیسے وہ چھوڑ کر گئی تھی۔ ٹاقسم کے مجسمئہ آزادی کے پتھروں کا رنگ، ٹیولیپس کی مہک، استقلال جدیسی میں چلتے لوگ، سبانجی کی مصنوعی جھیل، ہر شے پہلے جیسی تھی۔ بس ڈی جے نہیں تھی اور جہان نہیں تھا، مگر ان دونوں کا عکس استنبول کے ہر گلی کوچے اور باسفورس کے نیلے جھاگ کے ہر بلبلے میں جھلملا رہا تھا۔ اس شہر نے اس کی زندگی بدل دی تھی اور اب اس بدلی ہوئی پوری زندگی میں وہ اس شہر کو بھول نہیں سکتی تھی۔
بیوک ادا کی بندرگاہ سے چند کوس دور وہ پتھروں کے ساحل پہ ایک بڑے پتھر پہ بیٹھی، ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی انگلی میں پڑے پلیٹنم بینڈ کو گھماتی سمندر کو دیکھ رہی تھی۔ پرسوں جب وہ استنبول آئی تھی، تب سے اب تک وہ جہان کا ہر نمبر ملا چکی تھی، مگر سب بند تھے۔ وائس میسج اس نے پھر بھی نہیں چھوڑا تھا۔ کیا کہے؟ الفاظ ہی ختم ہو جاتے تھے۔ کلیئرنس کے تمام معاملات اس کی توقع سے جلدی حل ہو گئے تھے۔ ویزا اس نے بڑھوا لیا تھا۔
پہلے اسے لگا کہ وہ دیر سے واپس آئی ہے مگر فلسطینی لڑکے اور اسرائیلی ٹالی بھی ابھی گئے نہیں تھے۔ ان کی آج رات کی فلائٹ تھی اور فریڈم فلوٹیلا نے جو دوستی توڑی تھی، وہ اب تک جڑ نہ پائی تھی۔ صبح ادالار آنے سے قبل اس نے معتصم کو پھر سے عبایا کے لیے شکریہ کہا تھا۔ وہ جواباً مسکرا کر رہ گیا تھا۔ بالآخر آج شام ان کا ترکی میں یادگار سمسٹر اختتام پذیر ہو جانا تھا۔ خود اس کا کیا پروگرام تھا۔ وہ ابھی کچھ فیصلہ نہیں کر پائی تھی۔ جہان لندن میں ہی تھا اور وہ ادھر نہیں جا سکتی تھی اور اس کو لیے بغیر وہ واپس جانا نہیں چاہتی تھی۔ کیا کرے؟
ایک لہر تیرتی ہوئی اس کے قریب آئی اور پھر واپس پلٹ گئی۔ وہ اپنے خیالوں سے چونکی۔ لہر اس کے قریب ایک چھوٹا سا سیپ ڈال گئی تھی۔ 
اس نے سیپ چننے عرصہ ہوا ترک کر دیے تھے۔ خالی سیپ کھولنے سے بڑی مایوسی کیا ہو گی بھلا؟ مگر نہ جانے کیوں وہ اٹھی اور ذرا آگے جا کر جھکتے ہوئے وہ سیپ اٹھا لیا۔ دائیں پیر پہ زور پڑنے سے اب بھی تکلیف ہوئی تھی۔
سیپ لے کر وہ واپس بڑے پتھر پہ آ بیٹھی اور دونوں ہاتھوں میں اسے الٹ پلٹ کر دیکھا۔ سفید، سرمئی سیپ جس پہ بھوری، گلابی رگیں سی بنی تھیں۔ سیپ گیلا تھا، اور ریت کے ذرات بھی اس پہ لگے تھے۔ اس نے پرس سے ٹشو نکالا، سیپ کو اچھی طرح صاف کیا، یہاں تک کہ ٹھنڈا، سخت خول چمکنے لگا۔ اور پھر وہاں سے اٹھ آئی۔ پکنک کے لیے دور دور تک ٹولیوں میں بیٹھے سیاحوں سے اسے چھری ملنے کی توقع تھی۔ مگر ایک خوانچہ فروش سامنے ہی کھڑا نظر آ گیا۔ اس کے پاس چاقو تھا۔ 
حیا نے اس سے چاقو لیا اور وہیں اس کی ریڑھی کے ساتھ کھڑے کھڑے سیپ کو چاقو سے کاٹا۔ 
اس نے طے کر لیا تھا کہ یہ اس کی زندگی کا آخری سیپ ہو گا۔ اس میں سے یا تو سفید موتی نکلے گا یا پھر نہیں نکلے گا۔ مگر ان دونوں ممکنات میں سے جو بھی ہو، وہ دوبارہ کبھی سیپ نہیں چنے گی۔ 
اس نے کٹے ہوئے سیپ کے دونوں باہم ملے ٹکڑوں کو آہستہ سے الگ کرتے ہوئے کھولا۔ دھیرے دھیرے دونوں ٹکڑے الگ ہوتے گئے۔ 
وہ یک ٹک سی کھلے سیپ کو دیکھ رہی تھی۔ 
تیسرا امکان بھی ہو سکتا تھا۔ یہ اس نے نہیں سوچا تھا۔ 
•••••••••••••••••••
قریباً آدھے گھنٹے بعد وہ بہارے گل کے سامنے، حلیمہ آنٹی کے فرشی نشست والے کمرے میں بیٹھی تھی۔ 
تم کہاں چلی گئی تھیں حیا! سب مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ بہت اداسی سے کہہ رہی تھی۔ وہ دونوں آمنے سامنے زمین پہ بیٹھی تھیں۔ بہارے نے سبز فراک کے اوپر گھنگھریالے بھورے بالوں کو ہمیشہ کی طرح ہم رنگ پونی میں باندھ رکھا تھا۔ مگر اس کا چہرہ ہمیشہ جیسا نہ تھا۔ 
تو تم نے اپنا پاسپورٹ کیوں جلایا؟ اس نے جب سے حلیمہ آنٹی سے یہ بات سنی تھی، وہ اچنبھے کا شکار ہو گئی تھی۔
تا کہ وہ نیا پاسپورٹ دینے کے لیے میرے پاس آ جاۓ۔ بہارے نے کہتے ہوۓ سر جھکا لیا۔ حیا نے الجھن سے اسے دیکھا۔ بہارے بہت سمجھدار، بہت ذہین بچی تھی، مگر اس طرح کی بات کی امید اس نے بہارے سے نہیں کی تھی۔
تمہیں کیوں لگا کہ وہ اس طرح واپس آۓ گا۔ وہ اس کے جھکے سر کو غور سے دیکھتے ہوئے بولی۔ بہارے خاموش رہی۔
بہارے گل! تمہیں کس نے کہا کہ ایسا کرنے سے وہ واپس آ جاۓ گا۔ اب کے اس نے سر اٹھایا اس کی بھوری سبز آنکھوں میں بے پناہ اداسی تھی۔
سفیر نے کہا تھا کہ ایسا کرو گی تو وہ آ جاۓ گا۔
اچھا! وہ اب کچھ کچھ سمجھنے لگی تھی۔ تو سفیر بے کیوں چاہتے ہیں کہ وہ ادھر آ جاۓ جب کہ ادھر آنا اس کے لیے ٹھیک نہیں ہے؟ بہارے ٹکر ٹکر اس کا دیکھنے لگی۔ حیا نے افسوس سے نفی میں سر ہلایا۔ یہ سفیر کوئی گڑبڑ کر رہا ہے۔
کیا تمہیں پتا ہے کہ عبدالرحمن کدھر ہے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہچکچائی کیا تمہیں پتہ ہے وہ تمہارا۔
ہاں مجھے سب پتہ ہے اور اب اس بات کا ذکر مت کرو۔ اس نے جلدی سے بہارے کو چپ کرایا۔ دروازہ کھلا تھا۔ حلیمہ آنٹی کچن تک ہی گئی تھیں۔
تم نے کہا تھا ہم مل کر اسے ڈھونڈیں گے۔ بہارے نے بے چینی سے اسے کچھ یاد دلایا۔
وہ ترکی میں نہیں ہے اور ہم اسے نہیں ڈھونڈ سکتے۔ میرے ابا نے اجازت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باہر آہٹ ہوئی تو وہ جلدی سے خاموش ہو گئی۔ حلیمہ آنٹی دوائی کی شیشی پکڑے اندر آ رہی تھیں۔ ہمیشہ کی طرح دوپٹہ اوڑھے مسکراتا حلیم چہرہ۔ ان کو یقینا خود بھی نہیں پتہ تھا کہ ان کا بیٹا کیا کرتا پھر رہا ہے۔ کچھ تو تھا جو غلط تھا۔
مجھے نہیں کھانی دوائی۔ بہارے نے برا سا منہ بنایا تو وہ گہری سانس بھر کر رہ گئیں۔
اس کو کل سے بخار ہے پلیز اسے دوائی پلا دو حیا! میں تب تک کچن دیکھ لوں۔ انہوں نے سیرپ اس کی طرف بڑھایا تو اس نے جلدی سے پکڑ لیا۔
میں پلا دیتی ہوں۔
تھینک یو بیٹا۔ میں تب تک کھانا نکالتی ہوں۔ تم کھانا کھا کر جانا۔ مسکرا کر کہتی وہ باہر نکل گئیں۔ حیا نے گردن ذرا سی اونچی کر کے دروازے کو دیکھا۔ جب وہ اوجھل ہو گئی تو وہ بہارے کی طرف مڑی۔
کیا تم نے انہیں بتایا کہ یہ سب کرنے کے لیے تمہیں سفیر نے کہا تھا۔ ساتھ ہی اس نے چمچ میں بوتل سے جامنی سیرپ بھرا۔ بہارے نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے منہ کھولا۔ اس نے چمچ اس کے منہ میں رکھا۔
اللہ اللہ! میرا منہ کڑوا ہو گیا۔ سیرپ پینے کے بعد وہ منہ کے زاویے بگاڑے شکایت کرنے لگی تھی۔
اللہ تمہیں سمجھے، اللہ تمہیں سمجھے! وہ جلدی جلدی پانی کا گلاس پیتی برا سا منہ بناۓ کہہ رہی تھی۔ پانی پی کر بھی اس کے منہ کی کڑواہٹ ختم نہیں ہوئی تھی۔ وہ جیسے اپنی اصل اداسی کا چڑچڑا پن اس سیرپ پہ نکال رہی تھی۔
اتنا بھی کڑوا نہیں تھا۔ ٹھہرو میرے پاس کینڈی یا چاکلیٹ ہو گی۔ اس نے قالین پر رکھا اپنا پرس کھولا اور اندر ہاتھ سے ٹٹولا۔ صبح پرس میں چیزیں ڈالتے ہوۓ اس نے دیکھا تھا کہ کینڈی اندر رکھی تھی۔ ایک گلابی ریپر والی کینڈی اور ایک خالی ریپر۔ اس نے دونوں چیزیں باہر نکالی اور کینڈی بہارے کو دی۔
شکریہ! بہارے نے جلدی سے کینڈی کھول کر منہ میں رکھی۔ حیا نے خالی ریپر کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ اسے اس ریپر کے ساتھ ڈاکٹر ابراہیم کی باتیں بھی یاد آئی تھیں۔ احزاب کی پہیلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہارے! تمہیں یاد ہے، عائشے نے کہا تھا کہ حجاب لینا احزاب کی جنگ جیسا ہے۔ ساری کڑواہٹ بھلاۓ کینڈی چوستی بہارے نے اثبات میں سر ہلایا۔
پتا ہے مجھے کسی نے کہا کہ اس میں کچھ مسنگ ہے۔ کیا عائشے کچھ بتانا بھول گئی تھی؟ بہارے کی ہلتے لب رکے، آنکھیں میں خوشگوار سی حیرت ابھری۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page