
جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد
قسط نمبر چونتیس
ہو سکتاہے یہ ہمارا آخری سفر ہو۔کیا تب بھی تم اسے میرے ساتھہ نہیں کرنا چاہو گے؟اس کی آوازویربن کبوکی دیوار سے ٹکرا کر پلٹ رہی تھیمگر اب اس میں آنسو بھی شامل تھے۔
میں صرف تمہیں محفوظ دیکھنا چاہتا ہوں حیا۔وہ جیسے بے بسی سے بولاتھا۔
اور تم خود؟
میرا کیا ہے۔میرے لیے رونے والا کوئی نہیں ہوگا۔مگر مجھے تمھاری فکر ہے۔اسی لیے م یں چاہتا ہوں کہ
تم یہ چاہتے ہو تم وہ چاہتے ہوتم ہر وقت صرف اپنا کیوں سوچتے ہو جہان!تم ہر چیز پلان کر کے کیوں رہنا چاہتے ہو؟تم ہر وقت دوسروں کو کیوں آزماتے رہنا چاہتے ہو؟
حیا!اسے جیسے دکھہ پہنچا تھا۔وقت پیچھے چلا گیا تھا وہ اس کا جینجر بریڈ ہاؤس توڑ چکا تھااور وہ اس پہ چلا رہی تھی۔
نہیں!بولنے دو۔ آج مجھے بولنے دو۔جتنا تم نے مجھے آزمایا۔ اس سے آدھا بھی میں تمہیں آزماتی نا تو تم بہت مشکل میں پڑ جاتے۔وہ غصے میں بلند آواز میں بول رہی تھی۔دیوار پر گرتے سائے اصل سے زیادہ قریب کھڑے تھے۔
تم یہ سمجھتے ہو کہ ہر دفعہ چیزین تم پلان کرو گے اور سب تمہاری مرضی کے مطابق ہو جائے گا پھر بات میں لوگ تمہاری باتوں کے دوسرے مچلب ڈھونڈ تے پھریں اور اس دوران کس کا دل کیتنا ٹوٹے تمہیں کب پرواہ ہوتی ہے۔تم دوسروں کا کبھی نہیں سوچتے۔ مگر ہر دفعہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ہر دفعہ دوسرے تمہاری طرف کی کہانی نہیں سمجھہ لیں گے۔یہ کرلو تو وہ ہوجائے گا وہ کرلوتو یہ ہوجائے گا۔میں مزید تمہارے ان پلان کے مطابق نہین چل سکتی۔
بولتے بولتے اس کا سانس پھولنے لگا۔جہان نے ہاتھہ جیبوں سے نکال کر سینے پہ لیپیٹ لیے اور دائیں جوگرسے زمین کو کھرچتا وہ سپاٹ چہرے کے ساتھہ سن رہا تھا۔
اور بھی جو کچھہ اندر بھرا ہے میرے خلاف وہ بھی کہہ دو۔
میرے اندر جو بھی بھرا ہے تمہیں پروا ہ نہیں ہے۔تم مجھہ سے میرے برقعے پہ بحث کر کے چپ چاپ چلے آئے۔اگر تمہیں میرے برقعے سے مسئلا نہیں تھا تو پہر تم نے ایک دفعہ بھی کوئی امید کوئی وضاحت کیوں نہیں دی۔کیا یہ مناسب تھا کہ مجھے تم یوں چھوڑ کر آتے اور سارے خاندان میں میرا تماشا بنتا؟تم ہر دفعہ یہ سمجھتے ہو کہ بعد میں تم دوسرے کو منالو گے۔ منا لینے سے دل پہ لگے زخم مٹ جاتے ہیں؟ سخت لکڑی پہ بھی کہلاڑی کی ایک ضرب لگاؤ تو ساری عمر کے لیے نشان رہ جاتا ہے۔میں تو پھر انسان ہوں۔کیا تم ساری زندگی یہی کرتے رہو گے؟
اس کی آواز درد سے پھٹنے لگی۔جہان کا بے تاثر سپاٹ ہوتا چہرا دیکھہ کر اسے اور بھی غصہ چڑھنے لگا۔جب سے وہ غصے سے بولنے لگی تھی تب سے اس کاچہرا بے تاثر پڑ گیا تھا۔
اور اگر مجھے کوئی کچل دے تو پھر کس کو وضاحتیں دینے آؤ گے؟مگر تم نہیں سمجھو گے۔
وہ بے بسی دوکہ کے ساتھہ کہتی پلٹی اور تیز تیز قدموں سے جلتی باہر نکلی۔پھولا تنفس اور آنکھوں میں جمع آنسو۔اذیت ہی اذیت تھی۔وہ بھی کس کو سمجھا رہی تھی؟وہ پروا ہی کہاں کرتا تھا؟
رواداری میں ابک قدموں سے چلتی وہ بے آواز روتی آگے بٹھتی جارہی تھی پھر ایک کمرے میں بیٹھنے کو ویسی ہی چوکی نظر آئی تو جا کر ادھر ہی بیٹھہ گئی اور چہرا دونوں ہاتھوں میں چھپا کر بے اختیار رونے لگی ۔چہرہ اس لیے ڈھانپا تھا کہ گہرے کنویں کی قدین دیواریں اس کہ آنسو نہ دیکھہ سکیں سُرنگ اس کی سسکیاں نہ سن سکے اور مضوعی مشعل کی روشنی میں اس کے ہچکیوں سے لرزتے وجاد کا سایہ نہ پڑے مگر آنسو سسکیاں اور لرزش ڈھانپ لینے سے بھی نہیں ڈھکتیں۔
وہ بھی کس کو سمجھانہ چہارہی تھی؟وہ کہاں اس کی مانتا تھا؟وہ اس کے ساتھہ کپادوکیہ میں رہنا چاہتی تھی جتنے بھی دن وہ ادھر ہے مگر وہ اسے اب ہمیسہ کی طرح واپس بھیج دے گا۔بے بسی سی بے بسی تھی۔
اس نے بیھگا چہرا اُٹھایا۔
سُرنگ محرابی چوکھٹیں بھول بھلیاں سب سنسان پڑی تھیں۔ وہ وہاں نہیں تھا۔ دیوار پہ گرتا سایہ اکیلا تھا۔جہان اس کے ساتھہ نہیں تھا۔ وہ اپنے غصے میں سب بھول جایا کرتی تھی یہ بھی کے ایک دفعہ پھر وہ ہمیشہ کی طرح اسے چھوڑ کر آگئی تھی۔وہ سب باتیں کہہ کر جو وہ صرف اس کو ہرٹ کرنے کے لیے کہہ رہی تھی۔ اس کا مطلب وہ ہرگز نہیں تھا۔ اس نے دل سے وہ سب نہیں کہا تھا۔
اللہ اللہ یہ اس نے کیا کر دیا- وہ اب کیسے ائے گا اسے منانے-
جہان وہ بدحواسی کے عالم میں اٹھی اور راہ داری کی طرف آئی وہ دائیں سے آئی تھی یا بائیں سے شاید دائیں سے ہتھیلی کی پشت سے گال رگڑتی وہ اس جانب بھاگی۔ ایک موڑ دوسرا دائیں طرف وہ کمرا جہاں دو سائے ٹکرائے تھے اب وہ وہاں نہیں تھا اب وہ خالی تھا۔ جہان! آنسو پھر سے اس کی آنکھوں میں جمع ہونے لگے۔ وہ کہیں بھی نہیں تھا اس نے اسے ایک بار پھر اسے کھو دیا تھا۔ وہ الٹے قدموں واپس مڑی بمشکل سیڑھیاں ملیں باہر جانے کا راستہ سمجھ آیا گائیڈ سیاح ابھی تک وہیں تھے۔ بہارے اور پنار بھی ایک طرف کھڑی تھی اس نے بہارے کا ہاتھ تھاما اور اپنی سرخ متورم آنکھیں چھپانے کی سعی کیے بغیر بس اتنا بولی واپس چلتے ہیں میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے کیا ھوا پنار پہلے حیران اور پھر پریشان ہو گئی مگر کوئی جواب دیے بنا وہ گہرے کنویں داخلی روزن کی طرف بڑھ گئی جہاں سے سورج کی روشنی جھانک رہی تھی وہ تینوں سرنگ میں آگے پیچھے چلتی گئی غار کا اندھیرا چھٹتا گیا اور بالاخر غار کے دہانے پہ سورج چمکتا کھڑا تھا وہ کہیں نہیں تھا کہیں بھی نہیں پنار نے پھر کوئی سوال نہیں پوچھا بہارے جو بے چین ھو رہی تھی اسے بھی چپ کروادیا- اس کا دل بار بار بھر رہا تھا وھ کیوں پھر اسے چھوڑ گئی آخر وہ کیوں روٹھنے منانے سے آگے نہیں بڑھتے تھے؟ اپنے کمرے میں آ کر وہ سرخ صوفے پہ کھڑکی کی طرف بیٹھ گئی سر گھٹنوں میں دیے بے آواز روئے جا رہی تھی- بہارے پتا نہیں کہاں تھی ہر خیال اور فکر سے بے پرواہ وہ آنسو بہائے جا رہی تھی- اس کا دل بار بار کسی خوف کے زیر اثر سکڑتا جا رہا تھا بہارے اسے کھانے کے لئے بلانے آئی مگر وہ نہیں اٹھی- دوپہر کی روشنی آہستہ آہستہ بجھنے لگی اور شام کا اندھیرا کپادوکیہ میں پھیلنے لگا ہر سو پہاڑوں پر بتیاں جگمگانے لگیں وہ اسی طرح سر صوفے میں دیے بیٹھی رہی آنسو بھی پانی سے بنے ھوتے ہیں اور پانی آسمانوں سے اتارا جاتا ہے سو آنسوؤں کے بعد مرہم بھی وہیں سے آتا ہے نیند پرسکون نیند اس پہ کب نیند طاری ہو گئی اسے پتا ہی نہ چلا ذہن میں دل میں آنکھوں کے پیچھے ہر جگہ زیر زمین شہر کا منظر امڈ آ رھا تھا وہ غصے میں اس پہ چلا رہی تھی اور وہ دھیمے لہجے میں اسے پکار رھا تھا حیا ! بات سنو مگر وہ اسے سننا نہیں چاہ رہی وہ اس سے فاصلے پہ کھڑا تھا مگر پھر بھی پتا نہیں کیسے اسکا ھولے سے شانہ ہلا رہا تھا حیا اٹھو میری بات سنو چاندی کے مجسمے لوٹ آئے تھے گہرے کنویں کا اندھیرا چھٹتا گیا چاندنی کی جھیل ہر سو پھیلتی گئی اس نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں کمرے میں مدھم سی روشنی پھیلی تھی وہ صوفے کے سامنے میز کے کنارے بیٹھا جہان بہت تکان سے اسے دیکھ رہا تھا اسے انکھیں کھولتے دیکھ کر تھکے تھکے انداز میں مسکرایا دیکھ لو تم میرے لیے کپادوکیہ نہیں آئیں مگر میں ہر دفعہ تمہارے لیے آجاتا ہوں پھر بھی کہتی ہو مجھے پرواہ نہیں ہے؟ وہ ایک دم اٹھ کر بیٹھ گئی بنا پلک جھپکے وہ یک ٹک سے دیکھنے لگی پھر اچانک بہت سے آنسو اسکی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرنے لگے-
•••••••••••••••••••••
وہ ایک دم اٹھ کر بیٹھ گئی۔ سانس روکے بنا پلک جھپکے وہ یک ٹک اسے دیکھنے لگی۔ پھر اچانک بہت سے آنسو ٹپ ٹپ اس کی آنکھوں سے گرنے لگے۔
جہان آئ ایم سوری وہ بھیگی آواز میں کہتی اسی طرح اسے دیکھ رہی تھی۔ کہیں پلک جھپکنے پہ منظر غائب نہ ہو جاۓ۔ میں نے وہ سب جان بوجھ کر نہیں ...میں بس غصے میں ...میری بات سنو اسی دھیمے لہجے میں کہتے ہاتھ اٹھا کر اس نے حیا کو چپ رہنے کا کہا تمہاری ساری باتیں ٹھیک تھی تم نے سہی کہا تھا میں واقعی بہت دفعہ غلط چیز یں کر جاتا ہوں نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا میں تو اس نے احتجاجا کچھ کہنے کی سعی کی مگر وہ سن نہیں رہا تھا میں جانتا ہوں کہ میں کوئی ہر وقت ہنسنے مسکرانے والا آدمی نہیں ہوں میں پہلے بھی بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ میں ایک پریکٹیکل آدمی ہوں ۔ ایکسپریسو نہیں ہوں مجھے دوسروں کے دل نہیں رکھنے آتے میں لوگوں پہ جلدی یقین نہیں کر تا شک کرتا رہتا ہوں اور میری جاب نے مجھے بے حس بنا دیا ہے میں اب بہت پرائیویٹ پرسن بن گیا ہوں۔ یا شاید ہمیشہ سے ہی ایسا تھا کیا تم نے دوپہر سے کچھ کھایا۔ اپنی رو میں کہتے ایک دم اس نے پوچھا اگر وہ توقف کے بعد استفسار کرتا تو وہ کہہ دیتی کہ اس نے کھایا ہے۔ مگر وہ حملہ اتنا شدید تھا کہ اس کا سر خودبخود نفی میں ہل گیا۔ نہیں ہاں بس مجھے بھوک نہیں تھی۔ اس نے بات بنانے کی کوشش کی اب وہ آنسو پونچھ چکی تھی اور یہ اس کیلیے خجالت کا باعث ہوتا اگر وہ جان لیتا کہ حیا نے اس کی وجہ سے کھانا نہیں کھایا مگر وہ جان چکا تھا۔ نہیں تم نے کچھ نہیں کھایا اور مجھے پتا ہے لوگوں سے جواب کیسے اگلواۓ جاتے ہیں۔ وہ میز کے کنارے سے اٹھا اور دوسرے کونے میں رکھی انگھیٹی کی طرف گیا۔ وہاں ایک چھوٹی سی میز پہ بہارے کہ پاپ کارن کے دو پیکٹ پڑے تھے اور اوپر ہلٹ ان مائیکرو ویو اوون نصب تھا کیسے اگلواۓ جاتے ہیں اس کی پشت کو دیکھتے ہوۓ وہ وہی سے بولی اب مائیکرو ویو اوون کا ڈھکن کھولے کھڑا کارن پاپ کا ایک پتلا سا پیکٹ اندر رکھ رہا تھا۔ جس میں مکئ کے دانے تھے ٹائم سیٹ کر کے اس نے اوون کا ڈھکن بند کیااسے سٹارٹ کیا اور واپس اس تک آگیا اگر تم کسی سے سچ اگلوانا چاہتی ہوفرض کرو اپنے ابا سے تو ان سے سوال تب پوچھا کروجب وہ ڈرائیو کر رہے ہوں ڈرائیوکرتے ہوۓ عموما لوگ سچ بولتے ہیں اور مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ کون سچ بول رہا ہےاور کون جھوٹ وہ بس بات کو طول دینا چاہتی تھی تاکہ جہان پچھلی بات بھول جاۓ اور وہ اپنے الفاظ دہراۓ جانے کی شرمندگی سے بچ گئ جھوٹ بولنے والے کے چہرے پہ دس عدد واضح نشانیاں آجاتی ہیں اس وقت جب وہ جھوٹ بول رہا ہوتا ہے اوون زوں کی اواز سے چل رہا تھا مکئ کے دانے وقفے وقفے سے چٹخ رہے تھے ایک تو ہوگئ نظریں چرانا باقی نو کون سی ہیں وہ اب صوفے پہ پاؤں نیچے کرکے دوپٹہ ٹھیک سے شانوں پہ درست کرکے زرا تمیز سے بیٹھ گئ تھی کھلے بال چہرے کے دائیں جانب ڈال دیے تھے جامنی پلین لمبی قمیض زیتون رنگ کے دوپٹے اور چوڑی دار کی ہمراہی میں بھی اس کے چہرے کو بشابت نہیں دے سکی تھی متورم انکھیں ذرد پڑتی رنگت ساری دوپہر کی کہانی واضح کر رہی تھی نگاہیں چرانا نہیں لوگ جھوٹ بولتے ہوے نگاہیں نہیں چراتے یہ غلط تاثر ہے ان فیکٹ لوگ جھوٹ بولتے ہوۓ آپ کی آنکھوں میں ضرور دیکھتے ہیں اور وہی سے پکڑے جاتے ہیں تم نے آخری دفعہ سچ کب بولا تھا کمرے میں اب بھنی ہوئ مکئ کی خستہ سی خوشبو پھیلی ہوئ تھی۔
ابھی ڈیڑھ منٹ پہلے جب میں نے تم سے کہا تھا کہ تمہاری ساری باتیں ٹھیک تھیں۔
چلو جی۔ وہ پھر وہی پہنچ گیا تھا۔
جہان..آئی ایم سوری..وہ میں نے دل سے نہیں کہا تھا۔
لیکن میں دل سے ہی کہہ رہا ہوں۔ تم نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ شاید یہ واقعی ہمارا آخری سفر ہو۔
اوون میں زور سے پٹاخہ ہوا۔ شیشے کی ڈش میں رکھے پیکٹ میں رکھا کوئی دانہ بھن کر پھول ھیا تھا شائد۔ اسکے اندر بھی کچھ سلگا تھا۔
ایسے مت کہو۔ وہ تڑپ کہ اسے روکنا چاہتی تھی کہ اگر وہ نہیں چاہتا تو وہ ادھر نہیں رکے گی۔ صبح ہوتے ہی اسے چھوڑ کر چلی جائے گی۔ مگر وہ سن نہیں رہا تھا۔
تم نے صحیح کہا۔ ہر وقت کی پلاننگ ٹھیک نہیں ہوتی۔ میرے منصوبے بھی بہت دفعہ مجھ پہ ہی الٹے پڑے ہیں۔ اب وہ وقت آ گیا کہ آپنی زاتی زندگی میں مجھے اس بات سے باز آجانا چاہئے۔ یا کم از کم اس سفر کیلئے ہی سہی۔
میں تمہیں ہمیشہ سے ہی وہ سب بتانا چاہتا تھا مگر نہی بتا سکا۔ مجھے معلوم تھا کہ تم میری بات نہیں سمجھو گی جیسے کل رات سے نہیں سمجھ رہی مگر تم بھی صحیح ہو۔ مجھے ہر وقت آپنی مرضی نہیں ٹھونسنی چاہئے۔
جہان! وہ ااسے مزید بولنے سے روکنا چاہتی تھی۔ اسکا آپنا دل بھی اوون کی پلیٹ کیطرح گول گول گھومتا کسی منجھدار میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔
بہت دفعہ ایسا ہوا کہ میں تمہیں وہ سب کچھ بتانا چاہتا تھا جو میں نےاس ویڈیو محفوظ کیا تھا مگر میں یہ نہیں کرسکا۔ میں کچھ پالینے کے بعد خھونے سے ڈرتا تھا۔ یا شائد مجھے گم پر اعتبار نہیں تھا کہ تم مجھے سمجھو گی۔ اب شائد تم مجھے سمجھو مگر اسوقت نہ سمجھتی۔
وہ ٹھیک کہہ رہا تھا اس وقت وہ واقعی نہ سمجھ پاتی۔ مگر اب وہ ایسی باتیں نہ کرے۔ اس کا دل دکھ رہا تھا۔
جوہوگیا،سوہوگیا۔ میں وہ سب دوبارہ نہیں دہرانا چاہتا۔ اب بھی مجھے تمہارے یہاں رہنے سے کوئی مسئلہ نہیں۔ میں صرف اس لیے فکرمند تھا کہ مجھے کل انقرہ جانا ہے ایک ہفتے کیلئے پھر واپس کپادوکیہ آجاو گا اور کچھ دن بعد اپنے ملک چلا جاو گا۔ مجھے صرف یہی پریشانی تھی کہ میرے بغیر تم یہاں اکیلی نہ رہو۔ ویسے بھی ےم کپادوکیہ دیکھنے آئی ہو میرے لیے نہیں۔ یہاں وہ زرا تھکان سے مسکرایا۔ حیا کا دل چاہا کہہ دے کہ نہیں میں یہاں تمہارے لیے آئی ہوں مگر انا اور خودداری دیوار بن گئی۔
میں اکیلی نہیں ہوں۔ کہنے کے ساتھ اس نے ایک نظربستر پہ گلابی پردے کے پیچھے سوتی بہارے پہ ڈالی۔ یہ لوگ بہت اچھے ہیں۔۔ بہت خیال رکھتے ہیں۔ پھر ایک دم وہ چونکی۔ کہیں تم نے انہیں نہیں کہا کہ میرا خیال رکھیں؟
اب اتنا گارغ نہیں ہوں میں کہ ہر جگہ تم پہ نظر رکھو گا۔ مولوت بے اس علاقے کے ڈسٹریک چیف ہیں اور یہ اپنے ہر گاہک کیساتھ ایسے ہی پیش آتے ہیں۔ مہمان نواز ترک قوم، یونو ۔ مگر تم نے اچھا کیا جو انکے ہوٹل میں ائی۔ یہ کافی محفوظ اور اچھا ہوٹل ہے-ایسےمشکوک نظروں سے مت دیکھو مجھے میں نے واقعی انہیں کچھ نہیں کہا۔ وہ زرا خفا ہوا تو حیا نے شانے دھیرےسے اچکائے۔ اوون کب کا بند ہو چکا تھا۔ سارے کمرے میں بھنے مکئی کے دانوں کی خوشبو پھیلی تھی۔
تو کیا اب میں یہاں رہ سکتی ہوں؟
ہاں!جب تک چاہو رہ لو۔ کل میں چلا جاوگا واپسی تک اگر تم یہیں ہوئی تو ہم دوبارہ مل لیں گے۔
انقرہ کیوں جانا ہے؟اس نے فطری طور پہ زہن میں آنے والا سوال پوچھا تھا مگر جہان چند لمحے بہت خاموش نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔
ایک کام ہے۔
کیسا کام!اسکے انداز میں کچھ تھا کہ وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
ایک کام ادھورا چھوڑ آیا تھا جب ابا کی ڈیتھ ہوئی تھی تب میں اسی لیے جرمنی میں تھا۔ اب میرے پاس چند دن ہیں سوچا اسکو مکمل کر لو۔ بات ختم کر کے وہ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا جیسے وہ اسکے استفسار کا منتظر تھا۔ جیسے اگر وہ پوچھے تب بھی وہ نہیں بتائے گا پھر بھی وہ چاہتا تھا کہ وہ پوچھے۔
حیا نے چند لمحے سوچا پھر اثبات میں سر ہلا دیا۔
اوکے!بات ختم۔اس نے اس موضوع کا نہ کریسنے کا فیصلہ کیا تھا۔
مگراب ایسے مت کہنا کہ یہ ہمارا آخری سفر ہو سکتا ہے۔
غلط نہیں کہہ رہا۔میں ترکی دوبارا نہیں آسکوں گاترکی کے لیے اب نا کارا ہو چکا ہوں سو اس ملک میں ہو سکتا ہے یہ آخری
کہہ رہی ہوں نا کہ ایسے مت کہو۔ وہ صوفے پہ اپنے دونوں اطراف ہتیھلیاں رکھہ کر اٹھنے لگی تو جہان نے روکنے کا اشارہ کیا۔
ایک منٹ۔ میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔
وپ اٹھتے اٹھتے واپس بیٹھہ گئی۔
جتنے دن ہم ساتھہ ہیں سب کچھہ میری مرضی سے طے ہوگا۔سارے پروگرام سارے شیڈول کہاں ملنا ہے کہاں جانا ہے سم میں ڈیسائیڈ کروں گا اور تم کسی بات سے انکار نہیں کرو گی۔
حیا نے اثبات میں سر ہلادیا۔ اس کا اجازت دینا ہی بہت تھا اب کیا بحث کرتی۔
کیا تم پاپ کارن کھاؤ گے؟وہ اتھ کھڑی ہوئی۔جہان نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے ہولے سے ہاتھ کو کنپٹی سے مسلا۔شاید اس کے سر میں درد تھا۔
میں بس چلوں گا۔وہ اٹھا دیوار میں لٹکے سوئچ بورڈ پہ لائٹ کا ناب گھمایا(جیسے ہمارے ہاں پنکھے کے ناب پوتے ہیں)۔کمرے میں جلتا واحد زیرو بلپ مدھم ہوتا گیا۔پھر اس نے کھڑی کا پردہ زرا سا سر کا کر باہر دیکھا۔
حیا نے اوون کا ڈھکن کھولا اور گرم گرم پھولا پوا پاپ کارن کا پیکٹ نکالا۔جہان تب تک کھری کے سامنے سے ہٹ کر دوبارہ سے بتی تیز کر چکا تھا۔(اگر ڈی جے ہوتی تو کہتی کہ ایسی بتیاں ہماری یونیورسٹی میں بھی پائی جاتی ہیں۔لیکن اگر وہ ہوتی توپھر مسئلہ ہی کیا تھا؟)
آشیانہ کے نئے مہمان آگئے ہیں غالبن۔باہر رش ہے۔ اس کے جھٹنے تک انتظار کرنا ہوگا وہ صوفے پہ اسی جگہ بیٹھتے ہوئے بولا جہاں ابھی وہ بیٹھی تھی۔
تم تھکے ہوئے لگ رہے ہو چاہو تو لیٹ جائو میں آتی ہوں۔
اسے وہیں چھوڑ کر وہ ڈریسنگ روم میں آئی تاکہ وہاں سنگھار میز پہ رکھا شیشے کا بڑا پیالہ اٹھالے اس جگہ پہ فرش پہ ابھی تک افشاں کے ذرات دکھائی دیتے تھے ھالانکہ بنار نے صاف بھی کیا تھا۔
پیالہ اٹھاتے ہوئے اس نے آئینے میں خود کو ایک نظر دیکھا تو جھٹکا سا لگا سرخ متورم آنکھیں زرد پڑتا چہرہ۔اللہ اللہ وہ اتنی دیرسے ایسی لگ رہی تھی ؟وہ بھی کیا کہتا ہوگا اس کہ غم میں رورہی رھی؟
پیالہ چھوڑ کر وہ باتھ روم میں گئی سنک کہ اوپر جھک کر منہ پہ پانی کے چھینٹے مارے پھر تولئے چہرہ تھپتھپایا بال برش کیے اور ذرا خود کو کمپوز کرتی باہر آئی۔
مہمان اسی طرح سر ہاتھوں میں دئیے بیٹھا تھا۔
جہان!اس نے محتاط انداز میں پکارا۔جہان نے اسی پل سر جھکائے جھکائے ہاتھ کی پشت سے ہونٹوں کے اوپر چھوا خون کے قطرے وہ کھڑی کی کھڑی رہ گئی ۔
جہان تمہارے ناک سے خون آرہا ہے۔
وہ بنا کچھ کہے تیزی سے اٹھا اور باتھ روم کی طرف لپکا۔حیامتھیری پیچھے آئی اور کھلے دروازے سے دیکا ۔ٹوفی فل کھولے وہ سنک پہ جھکا ناک اور چہرے پہ پانی ڈال رہا تھا۔
وہاں کھڑے ہونا اسے مناسب نہ لگا تو واپس صوفے پہ آکر بیٹھ گئی ۔پتا نہیں اسے کیا ہوا تھا ؟ایسے اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
چند منٹ گزرے کہ وہ تولئے سے گیلا چہرہ خشک کرتا پاہر آیاْ
کیا ہوا تھا؟وہ فکر مند ی سے اسے دیکھنے لگی وہ جواب دیے بنا اس سے تھوڑا فاصلے پہ صوفے پہ بیٹھا اور تولیہ اس ہاتھ پہ ڈال دیا۔
نکسیر کیوں پھٹی؟ اتنی گرمی تو نہیں ہے کیا پہلے بھی کبھی ایسا ہوا ہے؟
کتنے سوال کرتی ہو! وہ جیسے اکتا گیا۔
جتنے بھی کروں مجھے حق ہے اسکا اب بتاو کیا ہو تھا؟
جہان نے نقاہت بھری نظروں سے اسے دیکھا اور پھر چند لمحے یوں ہی دیکھتا رہا ایسے ہی ابھی وہ انقرہ کے"کام" مطلق بات کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا
اردو میں بات کرتے ہیں حیا!وہ جاگ رہی ہے
حیا نے چونک کر جیسے بہارے کی طرف گردن موڑ کر دیکھنے چاہی تو وہ جیسے بگڑ کر بولا
ہاں!اب تم اسے دیکھنے لگو تاکہ اسےپتا لگ جائے کہ ہم اسکے بارے میں بات کررہے ہیں
سوری! اس کی گردن حفیف سی آدھے رستے سے پلٹ آئی مگر تمہیں کیسے پتا کہ وہ جاگ رہی ہے؟
اسکے پاوں کا انگوٹھا تناو کی پوزیشن میں ہے پیشانی پہ پڑے بل اور پلکوں کی لرزش مجھے پتا ہے وہ نہیں سو رہی مجھے دیکھتے ہی سوئی بن گئی تھی اسے ڈر ہے کہ مین اسے ڈانٹوں گا
یہ آدمی بھی نا کبھی کسی کو انسانوں کی نظر سے نہیں دیکھے گا
اچھا!اب بتاو تمہیں کیا ہوا تھا؟
نکسیر پھوٹنے کی وجہ کوئی عام سی بھی ہوسکتی تھی مگر اس کا اندازہ اس بات پہ غماز تھا کہ کچھ ہے جو وہ چھپانا چاہتا ہے مگر بتانا بھی چاہتا ہے
چند لمحے وہ بالکل خاموش رہا مکئی کے دانوں کی خوشبو ہر گزرتے پل باسی ہوتی گئی پھر اس نے دھیرے سے کہنا شروع کیا
انقرہ میں میری سرجری ہے(کھوپڑی کو کھول کر کی جانے والی سرجری) اس نے رک کر حیا کے تاثرات دیکھے وہ بنا پلک جھپکے سانس روکے اسے منتظر سی دیکھ رہی تھی
جب میں جیل میں تھا تو ادھر آنکھ کے قریب ایک زخم آیا تھا یہاں ایک کیل گھس گئی تھی ایک اعشاریہ ایک انچ کی کیل یہ سر درد اور کچھ عرصے سے نکسیر پھوٹنے کی تکلیف، یہ سب اسی کی وجہ سے ہے۔ اس کو نکلوانے کیلیے سرجری کروانی ہو گی۔ نہ کروائ تو یہ مسلسل درد اور اس کے آگے ٹریول کرنے کا خطرہ رہے گا اور اگر سرجری ناکام ہوگی تو بینائ جاسکتی ہے یا مستقل معزوری جب ابا کی ڈیتھ ہوئ تب میں اسی لیے جرمنی تھا لیکن تب میں ہمت نہ کرسکا اچھا جہان کی توقع کے برعکس حیا نے سمجھ کر اثبات میں سر ہلایا کوئ شدید تاثر دیے بغیر وہ بولی پہلے جرمنی سے کروانے گے تھے اب انقرہ سے کیوں ان دنوں میرا ترکی سے باہر رہنا ضروری تھا جب کہ مجھے ابھی کچھ دن لگ جائیں گے میں اس وقت کو ضائع نہیں کر نا چا ہتا وہ بس خاموشی سے اسے دیکھے گی کل میری سرجری ہے ایک گھنٹے بعد انقرہ کیلے نکل جاوں گا اگر سب ٹھیک ہو گیا تو واپس آ جاوں گا تب تک تم تب تک میں تمہارے ساتھ ہوں گی ابھی ہماری ڈیل ہوئ ہے کہ میں تمہارے ساتھ رہوں گی نہیں ہماری بات کپادوکیہ کی ہوئ تھی وہ قطعیت سے کہتا منع کرنا چاہ رہا تھا پر وہ کچھ بھی نہیں سن رہی تھی تم نے کہا تھا یہاں اور میں نے یہاں سے مراد ترکی لیا تھا ہماری ڈیل ترکی کی ہوئ تھی جب تک تم یہاں ترکی میں ہو میں میں تمہارے ساتھ رہ سکتی ہوں تم بتاو کون سا ہاسپٹل ہے اور کب جانا ہے وہ اتنے اٹل لہجے میں کہہ رہی تھی کہ ذیادہ مزاحمت نہ کرپایا اس کا کیا کرو گی اس نے اشارہ کیے بنا بہارے کہ بارے میں پوچھا فکر نہ کرو اسے ہاسپٹل نہیں لوں گی کچھ کر لوں گی بس تم مجھے شیڈول سمجھاو پھر وہ اس کی کہی ہر بات نوٹ کرتی گی جب ساری باتیں ختم ہو گئ اور پاپ کارن کی خوشبو ہوا میں رچ بس کر فنا ہوگئ تو وہ جانے لگا آشیانہ کے صحن کا رش اب چھٹ چکا تھا تم ایک بار پھر سوچ لو کہ میرے ساتھ آنا چاہتی ہو کہ نہیں میں تمہیں اپنی وجہ سے مسئلوں میں نہیں ڈالنا چاہتا دروازے پہ پہنچ کر وہ یہ کہنے کیلے رکا اب جاو اور میرا وقت ضائع نہ کرو مجھے صبح پیکنگ بھی کرنی ہے اس کے جاتے ہی اس نے زور سے دروازہ بند کرکے مقفل کیا اور واش روم میں آگی دونوں ہاتھ بیسن کی سائیڈوں پہ رکھے چہرہ جھکاۓ اس نے چند گہرے گہرے سانس لہے اور خود کو سنبھالنا چاہا اتنی دیر سے جہان کے سامنے جو آنسو ضبط سے روک رکھے تھے وہ تیزی سے ابل پڑے وہ ایک دم دبی دبی سسکاریوں سے رونے لگی پانچ سال پانچ سال سے وہ اس بیماری میں مبتلا تھا اور اس نے کسی کو بھی نہیں بتایا وہ کیوں ہر شے ہر دکھ اپنے اندر رکھتا تھا کیوں باقی سب کی طرح غموں کا اشتہار لگا کر ہمدردیاں نہیں سمیٹتا تھا۔ کتنی دفعہ صائمہ تائ تایا فرقان حتہ کہ ابا نے بھی جتایا تھا کہ وہ اپنے باپ کے جنازے پہ شامل نہیں ہوا تھا وہ آگے سے چپ رہا یہ تک نہ بتایا کہ وہ اس وقت آپریشن ٹیبل پہ تھا کیوں تھا وہ ایسا کہ محبت لینے کی کوشش نہیں کرتا تھا اور پھر بھی اس سے محبت ہو جاتی اس کی آنکھوں سے گرتے آنسو سنک کر دہانے سے لڑھک کر جالی کے بھنور تک پھسل رہے تھے وہاں ایک کونے میں خون کا ننھا سا قطرہ ابھی تک لگا ہوا تھا جہان نے سارہ سنک صاف کر دیا تھا پر یہ پھر بھی لگا رہ گیا تھا اس نے انگلی کی پور پہ وہ قطرہ اٹھایا اور ڈبڈبائ آنکھوں سے اسے دیکھا۔
کیا اس کے ملک کے نوجوانوں کا خون اتنا رزاں تھا کہ یہوں ہی بہتا رہے اور کسی کو فرق بھی نہ پڑے؟ زندگی بھی بعض دفعہ ہم سے ہماری بساط سے بڑھہ کر قربانی مانگ لیتی ہے۔
کھہ دیر بعد وہ منہ ہاتھہ دھو کر بہار آئی تو وہ صوفہ جہاں کچھہ دیر قبل چاندی کے مجسموں کا بسیرا تھا اب ادھر اس کی چھوتی بلی بیٹھی پارپ کارن کے پیالے سے ایک ایک دانہ اٹھا کر منہ میں ڈال رہی تھی۔اسے آتا دیکہ کر معصومیت سے مسکرائی۔
کھاٴ گیَ؟ ساتھہ ہی پیالہ بڑھایا۔
نو تھینکس۔اس کی بھوگ مرگئی تھی اور بھی بہت کچھہ مر سا گیا تھا۔ وہ اپنا بیگ الماری سے نکالنے لگی۔
عبدالرحمن سے تم پہلے بھی ملی تیھیں نا اور تم نے مجھے نہیں بتایا کیا اس نے میرے بارے میں کچھہ کہا؟
بہارے!ہم انقرہ جارہے ہیں۔
پاپ کارن ٹونگتا اس کا ہاتھہ رک گیا۔ پھوری آنکھوں میں شدید تحیردر آیا۔
کیوں؟
بس ایک کام ہے مجھے۔کچھہ پیپر ورک کا مسئلہ ہے۔دو چار دن میں واپس آجائے گے۔اس کی تشفی و سمجھہ کے مطابق جواب دیتی وہ اپنا سامان سمیٹنے لگی۔
پہارے الجھی الجھی سی بیٹھ رہ گئی۔ پاپ کارن کا پیالہ اس نے بے دلی سے پیز پہ رکھہ دیا۔ اسے کھانا شاید ان تینوں میں سے کسی کا نصیب نہیں تھا۔
ٌٌ ٌ ٌ ٌٌ ٌ ٌ ٌ ٌ ٌ
انقرہ ااتنا ہی خوبصورت اور صاف ستھرا سا شہر تھا جتنا کہ استنبول مگع اس نہ وہ شہر دیکھا گیا نہ ہی کچھہ اور۔ آس پاس کیا ہورہا ہے اسے کچھی خبر نہیں تھی۔ اس کا دل دماغ اور ساری توجہ بس ایک نقطہ پہ تھی۔
آج جہان کا آپریشن ہے۔
اس نے جہان کے ہاسپٹل سے دو بلاک چھوڑ کر ایک ہوٹل میں کمرا لیا تھا۔ بہارے کو البتہ وہ ہاسپٹل کے اندر لے کے نہیں جا سکتی تھی اور اسے ہوٹل میں تنہا چھوڑنے کو دل نہیں مانا تھا۔ وہ اس بچی کو کس کے پاس چھوڑے؟ اور ہر مسئلے کی طرح اس میں بھی اسے ہالے کا خیال آیا تھا۔
ہالے!میں کیا کروں؟ فون پہ ہالے کو تھوڑی بہت جمع تفری کے ساتھہ ساری بات بتا کر وہ اب اس سے مدد مانگ رہی تھی۔
یہ تو کوئی مسئلہ نہیں۔میرے نانی انقرہ میں رہتی ہیں جا ایڈریس تم بتا رہی ہو وہاں سے کافی قریب گھر ہے ان کا۔ تم صبح بچی کو وہیں چھوڑ دیا کرو۔پھر شام میں لے جانا۔ چاہو تو تم بھی وہیں رہ لو۔
اوہ! ہالے کی نانی ۔ اسپرنگ بریک میں جب ایکسچینچ اسٹوڈنس ترکی کی سیر کو گئے تھے تو ان کے ڈور بلاک سے جو بھی انقرہ گیا ہالے کی نانی کے پاس ضرور گیا تھا۔
مگر تم نے واقعی اس کو اغوا تو نہیں کیا نا؟ وہ ہنستے ہعئے پوچھنے لگی پھر اچانک جیسے اسے یاد آیا۔ وہ ہوٹل کے گرینڈ والا لڑکا دو دفعہ آیا تھا۔ میں نے بتایا تم نہیں ہو مگر وہ مصر تھا اور ایک منٹ تم تواز میسر میں تھیں۔ پھر انقرہ ؟
اوہاں وہ میں آج ہی ادھر آئی ہوں مگر اسے مت بتانا۔ اور یہ بات تو ابھی تک اس نے جہان کو نہیں بتائی۔ شاید اس لیے کہ اس سے بڑے مسائل اس کے سامنے تھے۔
ہالے کی نانی صبیحہ نور اتنی ہی مشفق ملنساز اور مہمان نواز خاتون تھیں جتنی کہ ترک عوام ہوسکتے تھے۔
اور ایک وہ لوگ تھے۔ اسلام آباد میں ان کی یونیورسٹی میں کتنی ہی غیر ملکی اور بالخوص ترک لڑکیاں پڑھنے آئی ہوئی تھیں مجال ہے جو وہ کبھی کسی کو اپنا شہر گھمانے لے گئی ہوں۔پتا نہیں کیوں مگر ہم پاکستانی اسٹوڈ نس کے پاس ایسے کاموں کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا۔
سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ صبیحہ آنٹی نے بتایا کہ مسز عبداللہ،مہر اور عروہ کل انکے پاس رہنے آرہیں تھیں
ڈیجےاور اسکی ہوسٹ فیملی،پہلا کھانا پلاو اور مسور کی دال کا چوربہ-بعض لوگوں کا نام بھی کتاب کے سر ورق کیطرح ہوتا ہے سنتے ہی یادوں کا ایک ایک بے کراں سمندر ہر سو امڈ آتا ہے
صبیحہ آنٹی کو اپنا مسئلہ سمجھا کر کہ ایک دوست کیلئے اسے اسپیشل جانا ہے بہارے ادھر نہین رہ سکتی اس نے بہارے کو علیحدہ لے جا کر چند ایک ہدایات مزید کیں
تم اچھی لڑکی بن کر رہو گی نا؟
بہارے نے اثبات میں سر ہلا دیا البتہ وہ خوش نہیں لگ رہی رہی تھی
تم مجھے روز چھوڑ کر چلی جایا کرو گی کیا؟ سب مجھے ایسے ہی چھوڑ کر چلے جایا کرتے ہیں کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا
اسکا پہلےسے دکھی دل مزید دکھ گیا ایک دم سے اسے اس پھول سی بچی پہ بے پنا ترس آیا پاشا بے کے اعمال نے اسکی فیملی کو کسی فٹبال کی طرح بنا دیا تھا عائشے اپنی بہن کے لیے پریشان تھی مگر وہ کچھ بھی نہیں کرسکتی تھی
میں شام میں آجاو گی اور تمہیں ایک دون بھی لا دوں گی اس سے تم جب چاہو مجھ سے اور عائشے سے بات کرلینا
ٹھیک ہے چھوٹی بلی مسکرا دی اسے یک گو نہ طمانیت کا احساس ہوا
صبیحہ آنٹی کے گھر سے وہ اسپتال آگئی یہ ایک پرائیویٹ نیرو سنٹر تھا اور وہ ایڈمٹ ہو چکا تھا اس نے لباس بھی تبدیل کر کیا تھا اور سرجری کا منتظر تھا ابھی اسے اونی میں لےکر جانے میں زرا وقت تھا سو آپریشن سے قبل وہ اسے دیکھنے آئی تھی
وہ خاموش تھا چہرا بے تاثر مگرزرد اوٹی لباس میں تو وہ اور بھی زیادا پژمردہ لگ رہا تھا
کیسے ہو؟اس کے پاس کھڑی وہ بس اتنا ہی پوچھ سکی جہان نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا وہ بیڈ کے کنارے پہ بیٹھا تھا
ٹھیک ہوں
چند لمحے خاموشی کی نزر ہوئے پھر وہ بولی
تم نے آخری دفعہ سچ کب بولا تھا؟
ابھی ایک منٹ قبل جب میں نے کہا کہ، میں ٹھیک ہوں۔
اسکی باتیں بھی اسکی طرح ہوتی تھیں پہیلی اور پہیلی۔
میرا بیگ رکھ لو اس میں میرا فون بھی ہے اسنے اپنا چمڑے سے بنا دستی بیگ سائیڈ ٹیبل سے اٹھا کر حیا کی طرف بڑھایا جسے حیا نے تھام لیا
اگر مجھے کچھ ہو جائے تو میرا فون کھولنا ویسے تو وہ فنگر پرنٹ سے کھولتا ہے مگر تمہارے لیے میں نے تمہاری ڈیٹ آف برتھ متبادل پاسورڈ کے طور پہ لگا دی ہے پورے آٹھ ہندسے اوکے؟ تم فون بک میں پہلے نمبر پہ کال کر کہ سب کچھ بتا دینا
اسکی ہاتھوں میں پڑا بیگ یک دم بہت بھاری ہوگیا
اسکی نوبت نہیں ائے گی تم ٹھیک ہو جاو گے
جہان نے جواب نہیں دیا پھر زیادہ مہلت ملی بھی نہیں وہ اسے لے گئے اور وہ عملیات خانے(آپریشن تھیٹر کا ترک نام) کے باہر ایک کرسی پہ آ بیٹھی
وہ کہہ رہا تھا کہ اگر مجھے کچھ ہو جائے وہ سوچ رہی تھی کہہ اگر اسے کچھ ہو جائے ےو وہ کیا کرے گی؟ زندگی مین بعض 'اگر'کتنے خوفناک ہوتے ہیں نا ان کو آدھا سوچ کر بھی دم گھٹنے لگا
وہ بس جہان کا بیگ گود میں رکھے اسے کسی واحد سہارے کی طرح مظبوطی سے تھامے کرسی پہ بیٹھی سامنے شیشے کے بند دروزوں کو دیکھے گئی۔ وہ کیسی عجیب سی کیفیت ہوتی ہے جب دعا نہیں مانگی جاتی۔ دعا کے لیے اٹھے ہاتھوں کو دیکھ کر انہی ہاتھوں سے کیے جانے والے گناہ یاد آ جاتے ہیں تب لگتا ہے معافی نہیں ملی کیا واقعی سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ہمیں کیوں لگتا ہے کہ ھم گناہوں سے توبہ کر لیں گے اور پھر انہیں بھلا کر سب ٹھیک ہو جائے گا-گناہ ایسے پیچھا نہیں چھوڑتے ان کے آثار ہمیشہ ان جگہوں پر ہوتے ہیں گناہ تو ساری عمر پیچھا کرتے ہیں کیا ان سے کوئی رہائی تھی کیا ان کی ملکیت سے کوئی آزادی تھی ایسا کیوں نہ ہو سکا کہ وہ عائشے گل کی طرح ہوتی؟ ہمیشہ سے سچی ہمیشہ سے باحیا اور نیک اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور پھر انھیں واپس گرا دیا کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا مانگے یہ گرہ کہاں لگی تھی؟ دعا کب روٹھی تھی؟ شاید ڈی جے کے وقت ہاں تب بھی وہ ایسے ہی ایک اسپتال کے علیات خانے کے باہر بیٹھی تھی وہ گرہ اب کیسے کھلے گی فون کی گھنٹی بجی تو وہ ذڑا چونکی پھر موبائل دیکھا ابا کالنگ اسلام علیکم ابا! اس نے فون کان سے لگایا تو اپنی آواز بے حد پست اور بھاری لگی وعلیکم اسلام کیا حال ہے اور کدھر ہو؟ پھر وہ رسمی علیک سلیک حال احوال اور تمہید کے بعد پوچھنے لگے تم واپس کب آ رہی ہو؟ فون کان سے لگائے اس نے ذور سے آنکھیں کھولیں سامنے کا منظر دھندلا گیا تھا ابا مجھے مزید لگ جائے گا حیا ابا کو جیسے اکتاہٹ ہوئی اتنے دن ہو چکے ہیں کیا ابھی تک تمہارا ٹور حتم نہیں ہوا آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ لندن جانے کے بجائے ترکی میں جتنا چاہے وقت گزار لوں ہاں ٹھیک ہے مگر تمہاری اماں روحیل کا ولیمہ کرنا چاہتی ہیں سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں اور ہاں جہان کا پروگرام ہے؟ کیا وہ تمہیں ملا ہے؟ حیا نے ایک نظر آپریشن تھیٹر کے بند شیشے کے دروازوں کو دیکھا جی! وہ یہیں ہے وہ بھی ساتھ ہی آئے گا اس کی آواز میں خود بھی اتنی بے یقینی تھی کہ ابا نے جیسے دوسری طرف استہزائیہ سر جھٹک دیا مجھے پتا ہے وہ تمہیں نہیں ملا ہو گا خیر چھوڑو تم جلد آنے کی کوشش کرو وہ کتنے پر یقیں تھے کہ جہان انکی بیٹی سے قطع تعلق کرنا چاہتا ہے حالانکہ وہ تھے تو ان دونوں کی منگنی پہ مگر نہیں لوگ اپنی آنکھوں کے بجائے کانوں پہ یقین کرنے کو ترجیح دیا کرتے ہیں ابا میں جلد نہیں آ سکتی ایک دوست ہاسپٹل میں داخل ہے اس کی انٹرکرینٹل سرجری ھے میں اسے یہاں نہیں چھوڑ سکتی ابا آنسو بے اختیار اس کی آنکھوں سے لڑھک کر نقاب کے اندر جذب ہونے لگے ابا چند لمحے کو بالکل حاموش ہو گئے اس کا یہاں اس کا کوئی نہیں ہے ابا میں اسے تنہا نہیں چھوڑ سکتی اس نے ان پانچ ماہ استنبول میں میرا بہت خیال رکھا ہے ہر موقع پہ اس نے میرا ساتھ دیا ہے اب کیا میں اسے آپریشن تھیٹر میں چھوڑ کر آجاؤں؟ اوہ آئی سی وہ ذرا دھیمے پڑے کیا وہ لڑکی ہالے نور کیا اس کا آپریشن ہے؟ وہ ذرا چونکی آپ ہالے کو کیسے؟ ساتھ دوسرے ہاتھ سے بھیگی آنکھیں صاف کیں تمہیں کیا لگتا ہے جب تم کچن میں کھڑی ہو کر نور بانو کو ترکی نامہ سنا رہی ہوتی تھی تو سارا گھر برداشت سے سننے کے علاوہ اور کیا کر رہا ہوتا تھا؟
اوہ اچھا۔ ہالے کا نام تو وہ بہت لیتی تھی ابا اس سے واقف تھے پھر بھی اس نے تردید یا تصدیق نہیں کی جھوٹ وہ بولنا نہیں چاہتی تھی اور سچ بولنے کاحوصلہ نہیں تھا
ابا جب تک وہ Stable نہ ہوجائے،میں ادھر ہی رہوں گی روحیل کو اگر اتنی جلدی ہے تو کر لے میرے بغیر اپنا ولیمہ
اچھا ٹھیک ہے پھر جیسے ہی وہ ٹھیک ہو تم واپس آجانا چند مزید نصیحتیں کر کے فون بند کردیا
حیاچند لمحے فون کودیکھتی رہی پھر پھوپھو کا نمبر ملایا
ہیلو!پھوپھو نے تیسی بیل پہ فون اٹھا لیا
اس نے کچھ کہنا چاہا مگر کہہ نہ سکی حکق میں کچھ پھنس سا گیا تھا آنسو بار بار ابل رہےتھے
ہیلو حیا؟پھوپھو اسکا نمبر پہچاننے کے باعث اسے پکار رہیں تھیں مگر اسکے الفظ مر گئے تھے وہ انہیں بتانا چاہتی تھی کہ ان کا بیٹا کہاں ہے،کیسا ہے،وہ اس کیلئے دعا کریں مگر کچھ کہہ نہ سکی۔
ہیلو؟
اس نے کال کاٹ دی اور پھر فون بند کردیا جہان نے کسی کو بھی بتانے سے منع کیا تھااور وہ اس کا اعتبار توڑنا نہیں چاہتی تھی عجیب بےبسی سی بے بسی تھی
سیکنڈ،منٹ،گھنٹے۔۔وقت گزرتا جارہاتھا اس نے ذہن پہ زور دینے کی سعی کی کہ جب کسی کا آپریشن ہونا ہو تو کیا پڑھنا چاہیئے؟صائمہ تائی کہتی تھی کہہ پہلے کلمے کو سوا لاکھ دفعہ پڑھنا چاہئے جب بھی کوئی بیمار ہوتا یا کسی کزن کا انٹری ٹیسٹ یا ایڈمشن کا مسئلہ ہوتا تائی کے لاونچ میں وہی ایک ماحول سج جاتا
چاندنیاں بچھا کر کجھور کی گٹھلیوں کے ڈھیر لگا دیے جاتے
اسپتال کا وہ کاریڈور اب سرد پڑتا جا رہا تھا جولائی کی شام بھی ٹھنڈی محسوس ہو رہی تھیاس نے سوچنا چاہا کہ وہ اس وقت کیا پڑھے؟بغیر حساب رکھے،بغیر گنے،توجہ اور یکسوئی سے کیامانگے؟مگر وہ گرہ کھولنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی ڈی جے کے بعد اس نے دعا مانگنی چھوڑ دی تھی اور پردے کے بعد شکوہ کرنا چھوڑ دیا تھا مگر ابھی وہ شکوہ کرنا چاہتی تھی جیسے ایوب علیہ سلام نے کیا تھا
اس نے کرسی کی پشت پہ دیوار پہ سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں بس یہیں ایک شکواہ تھا جس پہ لب مہر بند نہیں رہے تھے
میں اپنے دکھ اور ملال کی شکائت صرف اللہ سے کرتی ہوں
دھات کی کرسی جیسے مقناطیس بن گئی تھی اور چاندی کے مجسمے کا قطرہ قطرہ آپنے اندر جزب کررہی تھی
میں اپنے دکھ اور ملال کی شکائت صرف اللہ سے کرتی ہوں
کرسی نے اس کی ساری چاندنی نچوڑ لی تھی لوہے کا اہک خول باقی رہ گیا تھاجسے مقناطیسی نشست نے خود سے جوڑ لیا تھا
میں اپنے دکھ اور ملال کی شکائت صرف اللہ سے کرتی ہوں
اس کے قدموں میں جیسے بیڑیاں ڈل گئی تھی وہ چاہ کر بھی نہ حرکت کرسکتی تھی نہ سانس لے سکتی تھی۔ہرطرف جیسےاندھیرا تھا اس ایک شخص کو کھو دینے کا صرف احساس بھی اس تاریک سرنگ کی طرح تھا جس کا کوئی اختتام نہیں تھا اسکی ساری چاندنی اس اندھیرے میں ڈوب گئی تھی
میں آپنے دکھ اور ملال کی شکائت صرف اللہ سے کرتی ہوں
پانچ' ساڑھے پانچ گھنٹے گزر گئے تھے تب ہی شیشے کا وہ دروازہ کھلا اس نے سرجن کو اپنی طرف آتے دیکھااسکو لوہے کے خول کو کرسی کے مقناطیس نے یوں چپکا رکھا تھا کہ وہ چاہنے کے باوجود اٹھ نہ سکی۔
کیا ہوا ڈاکٹر؟
کیا ہوا ڈاکٹر؟ اس نے خود کو کہتے سنا۔
سرجری پیچیدہ تھی مگر کیل بہت اندر تک نہیں گئی تھی ہم نے اسے نکال لیا ہے۔ ڈاکٹر اسے بتانے لگے۔ اس کی کھوپڑی کا جو حصہ ڈیمج ہوا تھا اسے titanum mlesh کے ساتھ ری بلیس کر دیا گیا ہے۔
اور وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ اس نے بے قراری سے ان کی بات کاٹی۔ وہ پتا نہیں کون سی زبان بولے جا رہے تھے۔
ہاں آف کورس وہ ٹھیک ہے۔ سرجری کامیاب رہی جیسے ہی انتسھیزیا اترے گا وہ اسٹیبل ہو جائے گا تو آپ اس سے مل سکیں گی۔ زندگی میں بعض خبریں انسان کو کیسے ملتی ہیں شاید جیسے اوپر سے بہتی کوئی آبشار ہو جس کا دھارا اسے بگھو دے یا پھر جیسے آسمان سے سونے کے پتنگے گر رہے ہوں یا جیسے لہلہاتے سبزہ زار کے ساتھ کسی چشمے کے ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈال کر بیٹھنا ہو۔ مرہم، ٹھنڈ، سکون۔
شکریہ بہت شکریہ۔ اس کی آنکھیں اور آواز دونوں بھیگ گئیں۔ نقاب کے اوپر لبوں پہ ہاتھ رکھ کر جیسے ابلتے جذبات کو قابو کرنے کی کوشش کی پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔ لوگ سکون پا کر نڈھال ہو کے بیٹھ جایا کرتے ہیں مگر وہ اس کیفیت میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ مقناطیس غائب ہو گیا اور چاندی کا مجسمہ پھر سے چمکنے لگا تھا۔
اللہ آپ کو بہت خوش رکھے۔ زندگی میں کسی کو اس کے منہ پہ اتنے دل سے اس نے شاید پہلی دفعہ دعا دی تھی۔ وہ ایک پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ سر کو جنبش دے کر اگے بڑھ گئے۔ جس شیشے کے دروازے سے وہ آئے تھے اس کے پار عملے کے دو افراد ایک اسٹریچر دھکیلتے جا رہے تھے وہ دوڑ کر دروازے کی طرف آئی۔
اور چہرہ شیشے کے دروازے کے قریب لے جا کر دیکھا وہ جہان ہی تھا لیٹے ہوئے اس کی گردن ایک طرف ڈھلکی تھی یوں کہ چہرہ حیا کے سامنے تھا بند آنکھیں نیچے گہرے حلقے سر پٹیوں میں جکڑا۔ ایک پٹی آنکھ کے قریب سے گزرتی تھ۔ی بے ہوش بے خبر اسٹریچر آگے بڑھ گیا وہ بس اسے دیکھتی رہ گئی۔ دونوں کے درمیان اس دفعہ پہلے بھی شیشے کی دیوار تھی۔ ایسی ہی جیسے بہت پہلے ان کے درمیان تھی تب دھندلی تھی آر پار کا منظر مبہم تھا لیکن اب وہ صاف تھی سب واضع تھا مگر دیوار تو دیوار ہوتی ہے اور ہاتھ زخمی کیے بغیر اس دیوار کو ہٹانا ممکن بھی نہ تھا۔ بہت تھکی تھکی سی واپس اس نے ٹھیک سے دعا نہیں کی تھی مگر وہ ٹھیک سے شکر تو کر سکتی تھی نا
•••••••••••••••••••••••••
سلطنت ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ پہ شام کا نیلگوں، سرمئی پن چھا رہا اس کے پرائیویٹ روم تک آنے سے قبل وہ اپنے ہوٹل کے قریب ایک فلورسٹ سے سفید گلابوں کا ایک بڑا سا بوکے لے آئی تھی اور اب اس کے کمرے میں کھڑی ایک کارنر ٹیبل پہ رکھے گلدان میں وہ پھول سیٹ کر رہی تھی سفید گلاب جب کانچ کے گلدان میں جلوہ گر ہوچکے تو اس نے چہرہ ان کے قریب کر کے آنکھیں موندے سانس اندر کو اتاری تازہ دلفریب مہک سارے وجود میں اندر تک گھل گئی پھر اس نے پلٹ کر دیکھا وہ سو نہیں رہا تھا بس گردن سے ذرا نیچے شیٹ ڈالے آنکھیں بند کئے لیٹا تھا۔ سر ویسے ھی پٹی میں جکڑا تھا اور اوپر سفید جالی دار سی ٹوپی تھی کیا تمہیں کچھ چاہئے؟ کہنے کے ساتھ حیا نے گلدستے سے ایک ادھ کھلی کلی علیحدہ کی۔
اونہوں! وہ بند آنکھوں سے زیر لب بڑ بڑایا۔
اوکے! وہ کلی ہاتھ میں لیے اس لمبے سے کاؤچ پہ آٹکی جو بیڈ کی پائینتی کے قریب ہی دیوار کے ساتھ لگا تھا۔عبایا اس نے نہیں اتارا تھا بس نقاب نیچے کر لیا تھا۔
ڈاکٹرز کہہ رہے تھے تم بہت جلدی ری کور کر لو گے چند لمحے گزرے تو اس نے گلاب کی ٹہنی کو انگلیوں پہ گھماتے ہوئے بات کرنے کی ایک اور وسعی کی۔
پتا ہے مجھے۔اس نے آنکھیں نہیں کھولیں البتہ ماتھے پہ ایک اکتاہٹ بھری شکن کے ساتھہ جواب دیا۔
وہ پروا کیے بغیر ہاتھہ میں پکڑے سفید گلاب کو اسی طرح گھما ئے گئی۔بہت کچھہ یاد آرہا تھا۔
تمہیں یاد ہے جب ہم پہلی دفعہ استنبول میں ملے تھےتب تم نے پوچھا تھا کہ کون حیا۔ ذرا سا مسکرا کر کہتے ہوئے اس نے جہان کو دیکھاجس نے اس بات پہ آنکھیں کھول کر ایک اچٹتی نظر اس پہ ڈالی تھی۔
جیسے کہ تم جانتے ہی نہیں تھے کہ کون حیا۔
تو تم نے آگے سے کیا کہا؟پھپھو کی بھتیجی۔یعنی پھپھو سے ملنے آئی ہو۔
ہاں توَ ان ہی سے ہی ملنے آئی تھی نا۔اسے ان باتوں کو دہرانے میں مزاہ آنے لگا تھا۔
بالکل! جیسے ابھی کپادوکیہ دیکھنے اائی ہو۔
سو تو ہے۔اس نے زرا سے شانے اچکائے ۔
اور کوئی تھا جو تایا کے گھر جوتے اتار کر داخل ہورہا تھا۔ اور ایپل ٹی کے علاوہ تو اسے کسی چائے سے واقفیت نہ تھی۔
جہان نے آنکھیں واپس بند کرلیں۔ کاؤچ کے اس طرف شیشے کا ایک دروازا تھا جو باہر کھلتا تھا۔ اس کے پار انقرہ کا موسم جیسے بہت کھلا کھلا لگ رہا تھا یوں جیسے اس دفعہ بہار جولائی میں اتری ہو۔
اور میرا چولہا ٹیھک کرتے وقت مجھے تم میرے الفاظ لٹا رہے تھے مگر مجھے کیا پتا تھا کہ کوئی میری میلز بھی پڑھتا ہے۔
اگر تم یہ سب کہہ کر مجھے شرمندہ کرنا چاہتی ہو تو وہ میں نہیں ہوں گا۔ سو بولتی رہو۔
اور کوئی کہتا تھا کہ وہ بہت غریب آدممی ہے۔اس نے اثر لیے بنا اپنا مشغلہ جاری رکھا۔
سو تو ہوں۔
اور جب تمہارے ڈرائیور نے جہان سکندر کا نام لیا تو کیا میں اس کے ساتھہ نا آتی؟ وہ اب پھول کو ٹہنی سے پکڑے اس کی کلی کو اپنی تھوڑی پہ گھما رہی تھی۔
اس نے صرف نام لیا تھا ہی نہیں کہا تھا کہ اسے جہان سکندر نے بیھجا ہے تمہیں پوچھنا چاہیے تھا۔
اور مجھے نہیں پتا تھا کہ تم تایا فرقان سے اتنا ڈرتے ہو۔موسم کی شادابی اس کی چہرے پہ بھی نظر آرہی تھی ۔ مسکراہٹ دبائے وہ ساری باتیں دہرانا بہت اچھا لگ رہا تھا۔
میں کسی سے نہیں ڈرتا۔
ایسے پھپھو کہتی ہے کہ جہان کی مت سنا کرو وہ تو خوامخواو کہتا رہتا ہے۔
ممی کی مت سنا کرو وہ یونہی بولتی رہتی ہیں۔
وہ ایک دم چونکی پھر بے اختیار ہنس دی۔ جہان نے آنکھیں کھول کر گردن ذرا اٹھا کر اسے تعجب سے دیکھا۔
ہنسیں کیوں؟
کچھہ نہیں۔ ھیا نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا۔اور یاد ہے کہ کس طرح تم نے اور عائسشے نے ظاہر کیا تھا تم ایک دوسرے کو نہیں جانتے؟ گلاب کی پتیوں کو اپنے رخسار اور ٹھوڑی پہ محسوس کرتے ہوئے اس نے اس وقت کا حوالہ دیا جب عائشے اور جہان کے لیے بندر گاہ تک آئی تھیں۔
غلط ہم نے کچھ ظاہر نہیں کیا تھا۔ اگر تم پوچھتیں تو ہم بتادیتے۔
وہ بتا دیتی مگر تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا ایک کام کرو گی؟ اس نے بات کاٹ کر بہت سنجیدگی سے حیا کو دیکھتے ہوئے کہا۔
ہاں کہو! وہ بہت سنجیدگی سے سنتی کاؤچ پہ ذرا آگے کو ہوئی۔ پہلے ایک دفعہ جہان نے اس سے چائے بنوائی تھی وگرنہ وہ کوئی کام نہیں کہتا تھا۔
مجھے فارمیسی سے تھوڑی سی کاٹن لا دو؟
شیور۔ وہ مستعدی سے اٹھی۔ اس کا کام کرنے کی خوشی بہت قیمتی تھی۔ دروازے تک پہنچ کہ وہ کسی خیال کے تحت رکی اور پلٹ کر جہان کو دیکھا جو ابھی تک اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
کس لیے چاہیے کاٹن؟
کان میں ڈالنی ہے۔
وہ جو پرجوش سی باہر جانے کیلئے تیار کھڑی تھی پہلے آنکھوں میں حیرت ابھری، پھر اچھنبا پھر سمجھ میں آنے پہ ڈھیر ساری خفگی۔ لب خودبخود بھینچ گئےاور پیر پٹختی واپس کاوچ پہ آکر بیٹھ گئی بازو سینے پہ لپیٹے،ٹیک لگائے خاموش مگر ناراض نظروں سے اسے دیکھنے لگی
بہت شکریہ اس نے گردن سیدھی کر کے آنکھیں پھر سے موند لیں
یہ آدمی بھی نا دو چار دن مہزب بنا رہے تو بیمار پڑ جائے اس لیے اپنے اصل روپ میں بہت جلد واپس آ جاتا ہے
وہ اس طرح خفا خفا سی بیٹھی اسے دیکھتی رہی
---------------------
صبح بہارے کو صبیحہ خانم کو چھوڑنے سے قبل اس نے ایک موبائل فون بمع سم خرید کر اسے ایکٹیویٹ کروا دیا
کیامیں تمہارے ساتھ ہاسپٹل نہیں جاسکتی؟ بہارے خفا ہوئی تھی وہ دونوں صبیحہ خانم کے گھر جا رہی تھی
تم نے کہا تھا کہ تم اچھی لڑکی بنی رہوگی اور میری ساری باتیں مانو گی
اوکے میں کیا کہ رہی ہوں بہارے فورا دھیمی پڑ گئی
اچھایہ فون اپنے بیگ میں رکھو میں تمہیں اس پہ کال کر لوں گی اور چاہو تو اس سے عائشے کو بھی کال کر لینا
بہارے نے فون اسکے ہاتھ سے تھاما اسےالٹ پلٹ کر دیکھااور پھر شکریہ کہہ کر اپنے گلابی پرس میں ڈال لیا چھوٹا سا پعس تھا مگر اس میں وہ دنیا جہاں کی چیزیں لیے پھرتی تھی
کنگی مانگو یا قینچی،اسکے پرس میں سے سب نکلتا تھا
بہارے کو صبیحہ خانم کے گھر چھوڑ کر وہ دوبارہ ٹیکسی میں آبیٹھی(جسے وہ انتظار کرنے کا کہ گئی تھی) آج مسز عبدللہ وغیرہ کو بھی آ جانا تھا سو،بہارے کو کمپنی رہے گی
وہ اسپتال کے رستے میں تھی جب فون بجنے لگا وہ جو کھڑکی کے باہر انقرہ کی بھاگتی دیواریں دیکھ رہی تھی چونک کرفون کیطرف متوجہ ہوئی
اماں کالنگ
حیا؟واپسی کا کیا پروگرام ہے چھوٹتے ہی انہوں نے استفسار کیا تھا ایک تو اسکے گھر والوں کو اسکی واپسی کی بہت فکر تھی سکون سے نہیں رہنے دینا انہوں نے
اب ایک ہفتہ لگے گا۔
اب آ بھی جاؤ روحیل کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اماں! یہ وہی نتاشا نہیں ہے جس کی وجہ سے گھر میں طوفان آگیا تھا؟ اب وہ اتنی امپورٹنٹ کیوں ہو گئی ہے کہ اسے ساری دنیا سے ملوانے کیلئے آپ کو اتنی جلدی ہو رہی ہے؟اسےابھی تک اماں اور ابا کا نتاشا کو قبول کرنا ہضم نہیں ہوا تھا۔
اسی لیے تو چاہتے ہیں جو لوگ باتیں بنا رہے ہیں ان کے منہ اس طرح بند ہو جائیں۔
وہ گہرا سانس لے کر رہ گئی۔ پھوپھو ٹھیک ہی کہتی تھیں۔ وہ بیٹے ہوتے ہیں جن کے بارے میں باتیں بنانے والوں کے منہ بند کرنے کے لیے جتن کیے جاتے ہیں بیٹیوں کو تو اپنی ساری جنگیں خود ہی لڑنی پڑتی ہیں فون بند کر کے اس نے روحیل کو کال ملائی ٹیکسی ابھی بھی سگنل پہ رکی تھی ہیلو جامعہ حفصہ کیسی ہو؟ وہ دوسری جانب بہت ہی خوشگوار موڈ میں بولا تھا میری بات سنو اور کان کھول کر سنو وہ جواب میں اتنے غصے سے بولی کہ ادھیڑ عمر ٹیکسی ڈرائیور نے بے اختیار بیک ویو مرر میں اسے دیکھا کیا ہوا وہ چونکا تمہیں اگر ولیمے کی اتنی جلدی ہو رھی ہے تو کر کو میرے بغیر بلکہ میری طرف سے آج ہی کر لو۔ مگر اماں ابا سے کہو مجھے بار بار واپس بلانا چھوڑ دیں اگر تم صبر سے میرا انتظار نہیں کر سکتے تو نہ کرو اچھا اچھا کیا ہو گیا ہے یار ریلیکس میں تمہارے آنے تک کچھ نہیں کرنے لگا بہت شکریہ بعد میں بات کرتے ہیں وہ اسے پکارتا رہ گیا مگر اس نے کال کاٹ دی وہ اسپتال سے ذرا فاصلے پہ اتری تھی پوری اسٹریٹ عبور کر کے آگے اسپتال تھا وہ ارادتا دکانوں کے شیشے کی دیواروں کو دیکھتی آگے بڑھ رہی تھی تا کہ اگر کچھ حریدنا ہو تو یاد آ جائے ابھی وہ اسٹریٹ کے درمیان ہی تھی کہ ایک دم سے رکی وہ ایک گفٹ شاپ تھی جس کے پار اسے کچھ دکھا تھا وہ تیزی سے اس شاپ تک آئی اور گلاس ڈور دھکیل کر اندر داخل ہوئی اس دوران اس نے ایک لمحے کے لئے بھی نگاہ اس سے نہیں ہٹائی مبادا وہ اسے کھو نہ دے اندر دروازے کی دائیں جانب ہی وہ چھت پہ نصب ایک ہک سے لٹکا ھوا تھا ایک بہت خوب صورت ساؤنڈ چائم وہ گردن پوری اٹھائے ساؤنڈ چائم کے اطراف میں گھوم کر اسے دیکھنے لگی وہ ایک فٹ لمبا تھا اوپر ایک سلور گول پلیٹ تھی جس سے لڑیاں نکل رہی تھیں پانچ لڑیاں دراصل لکڑی کی ڈنڈیاں تھی جن کو سلور پالش کیا گیا تھا باقی پانچ لڑیاں کرسٹل کی تھی جسے ایک دھاگے میں پنکھڑیاں پرو دیں ہوں گلاب کی پنکھڑیاں چاندی کی سی چمکتی کرسٹل کی روز پیٹل ہر دو پنکھڑیوں کے بیچ ایق سلور اسٹک لٹک رہی تھی- اس نے ہاتھ اٹھا کر ہولے سے نازک کانچ کی لڑی کو چھوا وہ اسٹک سے ٹکرائی اور لکڑی اور کانچ کی کوئی عجیب سی دھن بج اٹھی موسیقی کی کسی بھی قسم سے مختلف وہ انوکھی سی آواز تھی اس کے لمس سے لڑیاں جو گول گول دائرے میں گھومنے لگی تھی اب آہستہ اہستہ ٹھہرنے کے قریب آ ذھا تھی اور تب ھی اس نے دیکھا۔ اوپر کی سلور پلیٹ پہ انگریزی میں کھدا تھا۔
"Must every house be built upon love? What about loyalty and appreciation?"
(Omer Bin Khataabرضی اللّٰہ تعالٰی عنہ)
اس نے زیر لب ان الفاظ کو پڑھا۔ اسے وہ واقعہ یاد تھا۔ ایک سخص اپنی بیوی کو صرف اس وجہ سے چھوڑنا چاہتا تھا کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا تھا اس کے جواب میں یہ الفاظ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمائے تھے کہ کیا ضروری ہے کہ ہر گھر کی بنیاد محبت ہی ہو تو پھر وفاداری اور قدردانی کا کیا؟
(البیان والتابعین 2/101۔ فرائض الکلام صفحہ 113)
مجھے یہ چاہئے۔ اس نے ایک دم جذبات سے مخمور ہو کر بہت زور سے سیلز گرل کو مخاطب کیا ، اور پھر احساس ہوا کہ شاپ میں اکیلی ہی ہے سو اتنا اوور ہونے کی کیا ضرورت ہے؟
مجھے یہ پیک کر دیں۔ سیلز گرل مسکرا کر اس کی طرف آرہی تھی اب کے اس نے ذرا دھیمی آواز میں اپنی بات دہرائی۔ (ڈی جے ہوتی تو کہتی ہیں ہم وہی پاکستان کے پینڈو) پورے دس منٹ بعد جب وہ ہسپتال اس کے پرئیویٹ میں داخل ہوئ تو ہاتھ میں پکڑے شاپنگ بیگ میں ونڈچائم نفاست سے پیک کر کے رکھا تھا اسلام و علیکم اس نے عادتا دروازہ بند کرتے رہوۓ سلام کیا مگر اگلے الفاظ لبوں میں ہی رہ گے جہان کمرے میں نہیں تھا اس کا بستر خالی تھا اس نے سب سے پہلے باتھ روم کے دروازے کو دیکھاجو زرا سا کھلا تھا جہان پرس اور شاپر میز پہ رکھتے ہوۓ اس نے زرا فکرمندی سے پکارا جواب ندارد اس نے باتھ روم کا دروازہ کھٹکھٹایا پھر دھکیلا بتی بجھی تھی وہ وہاں بھی نہیں تھا کدھر چلا گیا وہ معتجب سی کاوچ پہ آ بیھٹی شاید ڈاکٹرز ضروری چیک اپ یا ٹیسٹ کیلے لے کر گے ہیں یہ سوچ کر زرا تسلی ہوئ کچھ دیر وہ یوں ہی بیٹھی رہی پھر ونڈ چائم پیکنگ سے نکالا اور سنگل دروازے تک آئ جو باہر کھلتا تھا اس کے عین اوپر دیوار پہ ایک پینٹنگ آویزہ تھی حیا نے وہ پینٹنگ اتاری اور میز پر رکھی اور ونڈ چائم کی رنگ اس کیل میں ڈال دی۔ ونڈ چائم کی چین دروازے کے سر پہ ختم ہوتی تھی اور سے سلور پلیٹ اور لڑیاں لٹکتی تھیں۔
اس نے مسکرا کر پیچھے جا کر اپنے تحفے کو دیکھا جسے وہ صرف جہان کیلیے لائی تھی۔ اچھا لگ رہا تھا۔ ارتعاش کے باعث ذرا سا حرکت میں گول گول گھومتا۔ دروازہ چونکہ سلائیڈنگ والا تھا سو اس کے کھلنے پہ ونڈ چائم کا اس سے ٹکرانے کا اندیشہ نہ تھا۔
فون کی گھنٹی بجی تو اس نے فون پرس سے نکالا۔ اسلام آباد پنڈی کہ لینڈ لائن کا کوڈ تھا۔ اللہ اللہ آج تو روحیل مجھ سے قتل ہو جاۓ گا۔ ہیلو اس نے فون کان سے لھایا اور بہت سے سخت جملے تیار کیے ہی تھے کہ جی میڈم ایم ڈی کیسی ہیں آپ اس لہجے کو وہ کیسے بھول سکتی تھی اس نے کھڑے کھڑے بے اختیار بیڈ کی پائنتی کو تھاما کون بول رہا ہے بظاہر لہجے کو پرسکون اور بے پرواہ رکھے اس نے سوال کیا اسے کیسے ملا اس کا ترکی کا نمبر وہ کوئ میجر احمد تو نہ تھاآپ ہر دفعہ مجھے پہچان جاتی ہیں اس دفعہ بھی پہچان لیا ہوگا خیر آپ کی تسلی کیلے ولید بات کر رہا ہوں آپ ابھی تک گرفتار نہیں ہوۓ حیرت ہے وہ نڈھال سی جہان کے بیڈ کی پائینتی پہ بیھٹی بلیک میلر یہ خیال ہی ساری توانائ نچوڑ گیا تھا۔ حیرت نہ کریں شکر کریں جب تک میں باہر ہوں آپ کی عزت ہے جس دن میں نے عزت دینے والا اور چھیننے والا اللہ ہے جب تک وہ میرے ساتھ ہے مجھے آپ کی پرواہ نہیں دبے دبے غصے سے وہ بولی تھی اور آپ کو کیا لگتا ہے آپ کوئ بھی مووی اٹھا کر اس پہ میرا نام لگا کر پیش کر دیں تو کیا ساری دنیا یقین کر لے گی ان فیکٹ آپ جو کرنا چاہتے ہیں کر لیں مجھے کوئ پرواہ نہیں میں آپ کو آخری موقع دے رہا ہوں آپ لوگ میرے خلاف کیس واپس لے لیں اور جو پٹییاں آپ نے میرے خلاف سلیمان انکل کو پڑھائی ہیں نا اور جس میں مجھے اور ہیڈ آرکٹیک کو انوالو کر رہی ہیں اس معاملے کو بھی یہی ختم کر دیں ورنہ میں برا پیش آؤں گا۔