
جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد
قسط نمبر چھتیس
ان کے لیے تو فجر کی تازہ ٹھنڈی ہوا ہر سو چل رہی تھی۔
ان گزرے دو دنوں میں جب وہ اس کے ساتھ نہیں تھی۔ اسے بہت سی باتوں کا خیال آیا تھا جو وہ اس سے اسپتال میں نہیں پوچھ سکی تھی۔ معلوم نہیں یہ سوال ہمیں تب کیوں یاد آتے ہیں جب مسئول ہمارے ساتھ نہیں ہوتا۔
ایک بات پوچھو؟ چند لمحے گزرے اس نے پھر سلسلہ کلام جوڑا۔ بہارے اب سر جھکائے اپنے گلابی پرس میں کچھ تلاش کر رہی تھی۔
ہوں؟
غبارہ اب ہوا سے پھول کر عین ان کے سروں کے پہ ٹوکری کے اوپر بالکل سیدھے آسمان کی جانب رخ کیے کھڑا ہو چکا تھا۔ اعلان کرنے والا اب ان کو سفر کی مزید تفصیلات سمجھا رہا تھا جس میں اسے کوئی دلچسپی نہ تھی۔
تم نے روحیل سے پیسے کیوں منگوائے تھے؟ اب تک وہیں اسے وضاحتیں دیتی آئی تھی اور اب جہان کی باری تھی۔
کچھ اکاونٹس کا مسئلہ تھا نکلوا نہیں سکتا تھا۔ سو، روحیل سے لے لیے پھر واپس بھی بھجوا دیے تھے۔
ایک اور بات بتاؤ، کیا تمہیں واقعی میرا پردہ کرنا برا لگتا ہے؟
میں نے کب کہا کہ برا لگتا ہے؟ وہ دونوں دھیمی آواز میں باتیں کر رہے تھے۔ غبارہ گرم ہوا سے بھر چکا تھا اتنا زیادہ کہ اب وہ زور لگا کر ٹوکری کو ہوا میں اٹھانے لگا تھا۔ جیسے ہی ٹوکری اوپر اٹھی اندر بیٹھے سیاحوں میں شور سا مچ گیا، جوش خوشی، چہک۔ مگر بہارے گل ابھی تک اپنے بیگ میں کوئی ایسی شے تلاش رہی تھی جو وہ ڈھونڈنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
میں نے تو یوں ہی ایک بات پوچھی تھی، اگر مجھے پتا ہوتا کہ ارم سن رہی ہے تو میں ایسا کبھی نہ کرتا۔
اور تم نے مجھے برگر کنگ میں اس لیے بلایا تھا تا کہ میں تمہیں پاشا بے کے ساتھ دیکھ لوں۔
ہاں مگر میں چاہتا تھا کہ تم میرا مسئلہ سمجھو، نہ کہ مجھے برا سمجھو، مگرتم کسی کو جہنم میں بھیجتے ہوئے کہاں کسی کی سنتی ہو؟ وہ سن گلاسز کو اتار کر سامنے گریبان میں اٹکاتے ہوئے بولا تھا۔ حیا نے خفگی سے سر جھٹکا۔ بس ایک بات پکڑ لی تھی اس نے اب ساری زندگی دہراتا رہے گا۔
ٹوکری اب ہوا میں چار، پانچ فٹ اوپر اٹھ گئی تھی۔
پائیلٹ اپنے پروگرام کے مطابق ابھی کم اونچائی پہ فضا میں بیلون گویا تیرا رہا تھا۔ پھر کافی دیر بعد اس نے آہستہ بیلون اوپر اٹھانا تھا۔
بہارے گل! وہ اب سرد لہجے میں پکارتا اس کی طرف متوجہ ہوا، بہارے نے سر اٹھایا پھر تھوک نگلا۔
کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم نے میری بات کیوں نہیں مانی؟
میں نے کیا کیا ہے؟ وہ منہ بسورتے بولی۔
تم حیا کے ساتھ کیوں آئی ہو؟
میں اور حیا کپادوکیہ دیکھنے آئے ہیں۔ ہمیں تو پتا بھی نہیں تھا کہ تم ادھر ہو۔ کیا تم ہمارے لیے ادھر آئے ہو؟ کہہ کر اس نے تائیدی نگاہوں سے حیا کو دیکھا۔ حیا نے اثبات میں سر ہلایا۔ صبح ہی اس نے بہارے کو یہ بیان رٹوایا تھا۔
تم ہمیشہ میرے لیے مسئلے کھڑے کرتی ہو۔ تمہیں اندازہ ہے کہ تمہاری بہن کتنی پریشان ہے؟
برہمی سے اسے جھڑکتا اب وہ جہان نہیں عبدالرحمن لگ رہا گیا تھا یا پھر ترکی میں پہلے دنوں کا جہان۔
اگر تم نے مجھے ڈانٹا تو میں ٹوکری سے نیچے کود جاؤں گی۔ وہ ناراضی سے ایک دم بولی۔ حیا کا گویا سانس ہی رک گیا۔
بہارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اسے منع کرنا چاہا مگر۔
یہ تو بہت اچھا ہو گا، شاباش ،کودو! میں انتظار کر رہا ہوں۔ وہ ٹیک لگا کر بیٹھا اور کلائی پہ بندھی گھڑی دیکھی۔
بہارے خفا خفا سی کھڑی ہوئی اور ٹوکری کی منڈیر پہ دونوں ہاتھ رکھ کر نیچے جھانکا, پھر مڑ کر ان دونوں کو دیکھا۔
جہان! مت کرو۔ اس کا دل کانپ اٹھا تھا۔ وہ اٹھنے لگی
مگر جہان نے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا۔
تم درمیان میں مت بولو۔ ہاں تو بہارے خانم! میں انتظار کر رہا ہوں۔ جلدی کودو۔ میرا وقت نہ ضائع کرو۔
ان کی طرف دوسرے سیّاح قطعًا متوجہ نہ تھے۔ وہ اپنی تصاویر میں مشغول تھے۔ بہارے منڈیر پہ ہاتھ رکھے جھکی۔ زمین کو دیکھا جو چھ سات فٹ دور تھی اور پھر ایک دم دھپ سے آ کر واپس بیٹھ گئی۔ عائشے گل کہتی ہے خودکشی حرام ہے۔ منہ پھلائے وہ خفا خفا سی بولی۔ حیا کی اٹکی سانس بحال ہوئی۔ یہ چھوٹی بلی بھی نا۔
میں تمہیں اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ جہان نے سر جھٹکا اور گردن پھیر کر ٹوکری سے باہر دیکھنے لگا۔ کپادوکیہ کی چاند سی سر زمین دِکھائی دے رہی تھی۔ پہاڑ, میدان, عجیب و غریب ساخت کے نمونے, جن کا بیان الفاظ میں نا ممکن ہے۔
غبارہ اب درختوں کی ایک قطار کے ساتھ فضا میں تیر رہا تھا۔ درختوں کے سِرے اور ٹوکری کی منڈیر برابر سطح پہ تھے۔ وہ خوبانی کے درخت تھے۔ پھلوں کے بوجھ سے لدی شاخیں اور ان کی رسیلی مہک۔
کیا ہم یہ توڑ سکتے ہیں؟ چھوٹی بلی کو اپنی ساری ناراضی بھول گئی۔
نہیں! حیا نے قطعیت سے نفی میں سر ہلایا۔
ہاں! جہان کہتے ہوئے کھڑا ہوا اور منڈیر پہ جھک کر قریب سے گزرتے درخت کی ایک ٹہنی کو ہاتھ بڑھا کر پکڑا۔
یہ مہمان نوازی کے درخت ہیں اور ادھر بیلون اس لیے اڑایا جا رہا ہے تا کہ تم ان کو توڑ سکو۔ حیران سی حیا کو وضاحت دیتے ہوئے اس نے ایک خوبانی کھینچ کر توڑی۔ پھل شاخ سے الگ ہوا تو شاخ فضا میں جھول کر رہ گئی۔
غبارہ آہستہ آہستہ اسی طرح ہوا میں تیرتا رہا۔ دنیا جیسے ٹرانسفارم ہو کر ہیری پوٹر کی کتابوں میں جا پہنچی تھی۔
کیا تم کھاؤ گی؟ اس نے پوچھا مگر انکار سن کر اس نے پھل بہارے کو تھما دیا۔ اس نے اپنے پرس سے پہلے رومال نکالا۔ اس سے خوبانی اچھی طرح رگڑ کر صاف کی, پھر کھانے لگی۔
عائشےگل کی بہن۔
تمہیں کس نے بتایا روحیل کے ولیمہ کا؟ اسے اچانک یاد آیا۔ دیرین کیو کے زیر ِزمین شہر میں جہان نے ذکر کیا تھا۔
جب تم اس سے فون پہ بات کر رہی تھیں تو میں وہیں تھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ واپس آ چکا ہے اپنی بیوی کو لے کر؟ اس نے آبرو سوالیہ انداز میں اُٹھائی۔ حیا نے اسے دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ اس کی آنکھ کے قریب لگا نشان دیکھ کر ہی تکلیف ہوتی تھی۔
ہم روحیل کے ولیمے تک واپس پہنچ جائیں گے نا جہان؟
ہاں شیور! بس دو دن مزید لگیں گے کپادوکیہ میں۔ پھر مجھے یہاں سے جانا ہے۔
غبارہ اپنے پنجوں میں ٹوکری کو اُٹھائےاب اوپر اُٹھتا جا رہا تھا۔ دور صبح کی سفیدی آسمان پہ پگھلنے لگی تھی۔ درخت نیچے رہ گئے تھے۔
پھر کہاں جاؤ گے؟
یہاں سے انقرہ، وہاں ایک کام ہے، پھر وہاں سے ایک چھوٹا سا گاؤں ہےترکی کے بارڈر پہ، ادھر جانا ہے، پھر ادھر سے شام۔
تو انقرہ سے ڈائریکٹ شام چلے جاؤ!
انقرہ اور شام کا بارڈر نہیں ملتا حیا!
بارڈر سے کیوں جاؤ گے؟ ائرپورٹ سے چلے جاؤ۔ اپنے تئیں اس نے اچھا خاصا مشورہ دیا تھا۔ جہان نے گردن موڑ کر تاسف بھری نگاہ سے اسے دیکھا۔
مادام! ائرپورٹ پہ پاسپورٹ دکھانا ہوتا ہے اور میں ادھر ال لیگل ہوں بارڈر کراس کر کے آیا تھا رات میں۔ ایسے ہی واپس جاؤں گا۔
اس کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سنسنی خیز لہر دوڑی۔
تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کر کے جاؤ گے؟ اس نے دبی آواز میں دہرایا۔ وہ دونوں اپنی زبان میں باتیں کر رہے تھے۔
مجھے قانون کی پاسداری پہ کوئی لیکچر مت دینا۔ مجھے اسی طرح واپس جانا ہے۔ شام کیلئے ترکوں کا ویزا درکار نہیں ہوتا، مگر پاسپورٹ دکھانا پڑتا ہے۔
اچھا ٹھیک ہے! پھر کب جانا ہے؟
ابھی نہیں کل بتاؤں گا۔
دور، نیچے زمین بہت چھوٹی نظر آرہی تھی۔ وہ اب Fairy Chimneys کے اوپر سے اڑ رہے تھے۔ فیری چمنی یا پری بجلاری ایک قدرتی ساخت تھی جو لاوا سوکھنے کے بعد اس سر زمین پہ تشکیل پا گئی تھی۔ کافی فاصلے پہ اونچے اونچے ستون کھڑے تھے۔ جن کے سروں پہ ٹوپیاں تھیں۔ بالکل جیسے مشروم ہوتے ہیں۔ بس ان کھمبیوں کی ڈنڈیاں بہت اونچی تھیں۔
مطلب ہم باڈر تک ساتھ جائیں گے؟
حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم انقراہ تک ساتھ گئے یہ بہت ہے تم اب ادھر آ کر کیا کرو گی؟ وہ جیسے اکتا گیا۔
ہماری بات ترکی تک ہوئی تھی۔ ڈیل ڈیل ہوتی ہے بس۔ ہم بارڈر تک ساتھ ہیں۔
ویسے تم تو صرف کپادوکیہ دیکھنے آئی تھی- نہیں؟
اس کے انداز پہ حیا کا دل چاہا کہ وہ کہے کہ نہیں ہر گز نہیں مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انا ہر دفعہ اڑے آ جاتی تھی۔
ہاں اور اب تمہاری وجہ سے میں زیادہ دن کپادوکیہ میں رہ بھی نہیں پاؤں گی۔ اس لیے اسے میرا احسان گرداننا۔ وہ بے نیازی سے شانے اچکا کہ بولی۔
ہاں میں نے یقین کر لیا۔ ویسے یہ جگہ دیکھ کر بتاؤ دنیا کا سب سے خوبصورت شہر کون سا ہے۔
اسلام آباد، آف کورس۔ وہ مسکرا کر بولی۔
تم دونوں کیا باتیں کر رہے ہو؟ بہارے یقینا ان دونوں سے بور ہو کر پنار کو مس کرنے لگی تھی۔ انسان کا ازل سے ابد تک کا مسئلہ۔ اسے اپنی تعریف کرنے والے ہمیشہ سے ہی اچھے لگتے ہیں۔
میں آتا ہوں تمہارے پاس۔ پھر وہ حیا کی طرف مڑا۔ اسے کچھ مت بتانا غلطی سے بھی نہیں۔
فکر نہ کرو مجھے راز رکھنے آتے ہیں۔
جہان نے ایک نظر اس کو دیکھتے ہوئے تائیدی انداز میں سر ہلایا۔ وہ ایک نظر بہت اپنی اپنی سی تھی۔ جیسے وہ دونوں شریک راز تھے۔ اپنے تھے، رازوں کی اپنائیت، اسے بہت اچھا لگا تھا۔
تمہیں لگتا ہے میں بہت کم عقل ہوں؟ وہ اسی خوشگوار موڈ میں کہنے لگی اور تمہیں یہ بھی لگتا ہے کہ میں تمہاری باتیں سمجھ نہیں سکتی۔ مگر یو نو واٹ جہان! تم یہ بات ماننا ہی نہیں چاہتے کہ تمہاری بیوی تم سے زیادہ اسمارٹ ہو سکتی ہے۔ روانی میں"تمہاری بیوی" کب اس کے لبوں سے نکلا اسے پتا ہی نہیں چلا۔
جہان اس سارے میں پہلی دفعہ مسکرایا۔
میری بیوی،جتنی بھی اسمارٹ ہو مجھ سے دو قدم پیچھے ہی رہے گی۔ ویسے آپ کا پاؤں کیسا ہے؟
میرے پاؤں کو کیا ہوا؟ بالکل ٹھیک تو ہے۔ اس نے شانے اچک کر کہا۔ اس کا پاؤں اتنا ہی درد کرتا تھا جتنا پہلے دن کر رہا تھا مگر وہ ظاہر ہونے دے یہ نہیں ہو سکتا تھا۔
جہان نے مسکرا کر سر جھٹکا اور اٹھ کر بہارے کے ساتھ خالی جگہ پہ جا بیٹھا۔
جہان! اسے مت ڈانٹنا، میں اسے لے کر آئی ہوں، اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیا تمہیں معلوم ہے کہ تم کب بہت اچھی لگتی ہو؟
وہ جو بولے جا رہی تھی ایک دم رکی آنکھیں ذرا سی حیرت سے پھیلی۔
کب؟
جب تم خاموش رہتی ہو۔
حیا کے ہونٹ بھینچ گئے۔ وہ چہرا موڑ کر خاموشی سے ٹوکری کے پار دیکھنے لگی۔
وہ دونوں اب دھیمی آواز میں اپنی زبان میں باتیں کر رہے تھے۔ بیلون اب بجلاری کے عین اوپر ہوا میں کسی کشتی کی طرح تیر رہا تھا۔
••••••••••••••••••••
رات کا کھانا انہوں نے آشیانہ کے قالینوں والے ڈائیننگ روم میں کھایا،۔ جہان صبح سائیٹ سے ہی واپس ہو گیا تھا۔ اسے موہوم سی امید تھی کہ وہ کھانے کے وقت کہیں سے نمودار ہو جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس کا دل کسی پنڈولم کی طرح امید اور نا امید کے درمیان گھومتا رہا یہاں تک کہ اس نے خود کو سمجھا دیا کہ وہ سارا دن ان کے ساتھ نہیں رہ سکتا اس کے اپنے بھی کام ہیں۔
آشیانہ میں آج دو، تین مزید فیملیز آئی ہوئی تھی۔ پھر بھی مولوت بے اور مسز سونا ان کا پہلے دن جتنا خیال رکھ رہے تھے۔ رات میں وہ سوئی اور صبح فجر کیلئےاٹھی۔ نماز پڑھ کر دوبارہ سو گئی۔ دو، تین گھنٹے بعد دستک سے آنکھ کھلی۔
آبلہ آبلہ! فاتح پکار رہا تھا۔
ایک تو یہ آبلہ کا زبردستی کا بھائی بھی نا، آرام نہیں کرنے دے گا۔ وہ جب تک کلستی ہوئی دروازے تک آئی وہ جا چکا تھا۔ دروازے کی درز سے البتہ اس نے ایک چھوٹا سا لفافہ ڈال دیا تھا۔
اس نے جھک کر لفافہ اٹھایا، اسے کھولا، اس کے اندر رکھا سفید موٹا کاغذ نکالا اور یہ لکھائی جو وہ ہمیشہ پہچان سکتی تھی۔
۔ "I hope ladies are۔ rejoinnig at 2PM"
سطر پڑھ کر وہ بے اختیار مسکرا دی۔ یعنی وہ دو بجے مل رہے ہیں کدھر؟ جگہ اس نے نہیں لکھی تھی مگر وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ ان کے پاس آئے گا پھر وہ اکھٹے کہیں جائیں گے۔
بعد میں جب اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو گلابوں کے بوکے بھی وہاں پڑا تھا۔ جو فاتح نے لفافے کیساتھ ہی رکھا ہو گا۔ وہ ان کو بھی اندر لے آئی اور صوفے کے ساتھ میز کے گلدان میں سجا دیا۔
گلاب کی تازہ دلفریب مہک دنیا کی سب سے خوبصورت مہک ہوتی ہے۔ بچپن میں اسے گلاب کی پتیاں کھانے کا بہت شوق ہوتا تھا۔ وہ نہ میٹھی ہوتی نہ نمکین۔ بس کوئی الگ سا ذائقہ تھا۔ ابھی وہ یہ حرکت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ بہارے اٹھ جاتی اور اسے دیکھ لیتی تو کتنی شرمندگی ہوتی۔
بہارے نے ناشتے کے بعد وہ پھول دیکھے۔
یہ کہاں سے آئے ہیں؟
عبدالرحمن نے بھیجوائے ہیں۔ وہ بستر سمیٹ رہی تھی۔
کتنے پیارے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہارے ذرا رک کر بولی۔ کیا تم نے کبھی گلاب کی پتیاں کھائیں ہیں؟
وہ جو بیڈ کور طے کر رہی تھی، پلٹ کر اسے دیکھا۔
تمہیں لگتا ہے کہ مجھ جیسی ڈیسنٹ لڑکی ایسا کر سکتی ہے؟
سچ بولنے کا موڈ نہیں تھا اور جھوٹ وہ بولنا نہیں چاہتی تھی۔ سو الٹا سوال کر لیا
ڈھیر بجے وہ تیار ہو کر صوفے پہ بیٹھ تھیں۔ انتظار اس دنیا کی سب سے تکلیف دہ شے ہے۔ بار بار گھڑی کو دیکھنا جانے کب آئے گا وہ؟
اس نے پھر سے اس کا خط نکال کر پڑھا۔ دو بجے کا ہی لکھا تھا اس نے، وہ کاغذ واپس ڈالنے لگی پھر ٹھہر گئی۔
یوں تو وہ عام سی سطر تھی مگر کچھ تھا اس سطر میں جو غلط تھا۔ بہارے اس کے کندھے کے اوپر سے جھانک کر پڑھنے لگی۔
ہاں! یہ اسی نے لکھا ہے۔ یہ اسی کی لکھائی ہے۔ دیکھو! ہر ورڈ کا پہلا حرف بڑا لکھا ہے۔ جو چیز اسے الجھا رہی تھی بہارے نے اس کی نشان دہی کر دی۔ وہ ذرا سی چونکی۔
ہاں! مگر کیوں؟
جب اس نے مجھے سیاروں کے نام سکھائے تھے تو ایسے ہی لکھا تھا۔ دکھاؤں تمہیں؟ وہ چھٹ سے اپنا گلابی پرس اٹھا لائی اور اندر سے ایک گلابی ڈائری نکالی پھر کھول کر ایک صفحہ حیا کے سامنے کیا۔ اس پہ لکھا تھا
My Very Elegant Mother Just Served Us Nine Pizzas
یہ کیا ہے؟ اس نے اچنبھے سے وہ عبارت پڑھی. ہر لفظ کا پہلا حرف بڑا تھا۔
دیکھو! ہر بڑے حرف سے سیارے کا نام بنتا ہے. مائی کے ایم سے مرکری۔ ویری کے وی سے وینس۔ ای سے ارتھ اور اس طرح یہ فقرہ یاد کرنے سے مجھے سیاروں کی ترتیب یاد ہو گئی۔۔۔۔۔ سناؤں؟
نہیں مجھے یہ دیکھنے دو۔ اس نے جلدی سے ایک قلم اٹھایا اور جہان کے اس فقرے کے ہر بڑے حرف کو نیچے اتارا۔
اس سے بھی کوئی دوسرا فقرہ بنے گا شاید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الفاظ اس کے لبوں میں رہ گئے۔ وہ چھ حرف ایک ساتھ لکھے ہوئے اس کے سامنے تھے۔
I.H.L.A.R.A
اہلارا؟ اس نے بے یقینی سے دہرا کر بہارے کو دیکھا۔
اہلارا۔ بہارے گل چیخی۔
اللہ اللہ! قریبا بھاگتے ہوئے اس نے اپنا پرس اور عبایا اٹھایا۔ پھر گھڑی دیکھی۔ دو بجنے میں زیادہ قوت نہیں تھا۔
••••••••••••••••••••••
وادی اہلارا کا نام اہلارا گاؤں کے نام پہ تھا۔ جو اس وادی کے قریب واقع تھا۔ یہ وادی یوں تھی کہ دو دیوہیکل چٹانیں چند کلو میٹر کے فاصلے پہ آمنے سامنے کھڑی تھیں۔ ان کے درمیان سے دریا بہتا تھا اور جنگل ہی تھا۔ اطراف میں پہاڑ تھے۔ یہ درمیان کی وادی اہلارا وادی تھی۔ سیاح اکثر کپادوکیہ میں عشق وادی (لو ویلی) گل شہر (روز ویلی) اور اہلارا ویلی وغیرہ میں ٹریکنگ کے لیے آیا کرتے تھے۔
اہلارا کا ٹریک یہ تھا کہ ایک چٹان سے دوسری چٹان تک دریا کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے جانا تھا۔ اصل ٹریک سولہ کلو میٹر لمبا تھا مگر دو شارٹ کٹ بھی بنے تھے۔ ایک سات کلو میٹر جبکہ دوسرا ساڑھے تین کلو میٹر لمبا تھا۔
یہ اس کا اندازہ تھا کہ آپریشن کے باعث وہ بہت زیادہ پیدل نہیں چل سکتا ہو گا اس لیے وہ انہیں سب سے چھوٹے ٹریک کے دہانے پہ مل جائے گا۔ مولوت بے نے انہیں وہیں ڈراپ کر دیا تھا۔ دو کب کے بج چکے تھے اور ان کو کافی دیر ہو چکی تھی۔ وہ ان سے پہلے کا پہنچ چکا تھا۔ سیاحوں کی چہل پہل میں بھی دور سے حیا نے اسے دیکھ لیا تھا۔
ایک بڑے پتھر پہ بیٹھا سر پہ پی کیپ کندھے پہ بیگ اور گلاسز سامنے گرے شرٹ پہ اٹکے ہوئے۔ وہ ان ہی کو دھوپ کے باعث آنکھیں سکیڑ کر دیکھ رہا تھا۔
وہ درمیانی رفتار سے چلتی بہارے کا ہاتھ تھامے اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ وہ بھاگ کر اس کے پاس نہیں جانا چاہتی تھی۔ اسے جہان پہ غصہ تھا۔ کیا تھا اگر وہ انسانوں کی زبان میں بتا دیتا کہ اہلارا ویلی آ جاؤ۔ اگر جو وہ یہ کوڈ نہ جان سکتی اگر وہ جو نہ مل سکتی تب؟ لیکن تب بھی وہ اسی پہ ملبہ ڈال دیتا۔ آخر وہ اس جیسی اسمارٹ تھوڑی تھی۔
وہ دونوں اس کے قریب آئی تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
میری لغت میں دو بجے کا مطلب ایک بج کر پچپن منٹ ہوتا ہے۔ اور اب ٹائم دیکھو! وہ سنجیدگی سے سرزنش کر رہا تھا۔
کاش اس کی یہ لغت کتابی شکل میں ہوتی تو وہ اسے اٹھا کر اف!۔
اچھا پھر واپس چلی جاتی ہوں۔
خیر اب تو میں نے اتنا وقت ضائع کر لیا ہے اب چلتے ہیں۔ ہاتھ سے درختوں کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ وہ خود بھی چل پڑا۔
تم نے مجھ سے پوچھا ہی نہیں کہ میں کیسی ہوں؟ بہارے نے احتجاجا اسے اپنی موجودگی کااحساس دلانا چاہا۔
سوری تم کیسی ہو؟ بجاۓ جھڑکنے کہ وہ معذرت کرنے لگا۔ بہارے بہت اچھی کہہ کر اسے آشیانہ کے بارے میں بتانے لگی۔ جہاں دنیا کی سب سے اچھی لڑکی پنار رہتی تھی۔
اچھا! ہاں، حیا! اس کی بات سنتے سنتے اس نے ایک دم حیا کو پکارا۔ وہ سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔ تمہیں آئیڈیا نہیں ہوا کہ ہم نے ٹریک پہ جانا ہے۔ میں نے تو صبح ہی بتا دیا تھا (میری سمجھ میں اب آیا یو ایڈیٹ)
ہاں تو
اور تم ان جوتوں کے ساتھ آئی ہو۔ ذرا خفگی سے کہتے ہوۓ اس نے حیا کے جوتوں کو دیکھا حیا نے اس کی نگاہوں کے تعاقب میں نظر جھکائی اور ایک کراہ اس کے لبوں سے نکلتی نکلتی رہ گئی۔ اللہ اللہ وہ جلدی میں وہی سرخ ہیل پہن آئی تھی۔
ہاں میں ان جوتوں میں دو گھنٹے پیدل چل سکتی ہوں اور ڈی جے نے ہی تو کہا تھا کہ کوئی بھی چیز انسان کو نہیں ہرا سکتی جب تک وہ ہار نہ مانے۔
شیور تمہارا پاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے میرا پاؤں۔ چلو اب! وہ اکتا کر بولی۔
وہ اکتا کر کہتی آگے بڑھ گئی۔ بہارے نے سلسلہ کلام وہیں سے جوڑ دیا۔
وہ گھنے درختوں میں آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ دریا ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ دونوں اطراف خشک اونچی چٹانیں تھیں جن میں غار کی صورت چرچ بنے تھے۔ تھوڑی دور جا کر ہی اس کا پاؤں جواب دینے لگا تھا۔ وہ موچ جس کو وہ کب سے نظر انداز کرنے لگی تھی شاید موچ سے بڑھ کر تھی۔
ابھی وہ زیادہ دور نہیں گئے تھے جب جہان نے کہا ذرا رک جاتے ہیں۔ بائیں جانب چٹان میں سیڑھیاں بنی تھیں جو اوپر ایک غار نما چرچ میں جاتی تھیں۔ وہ ان سیڑھیوں پر چڑھتے اوپر آ گئے۔ بہارے کو اس نے اپنا کیمرا دے کر چرچ کی تصاویر بنانے بھیج دیا اور وہ خود سیڑھیوں کے دہانے پہ اوپر نیچے بیٹھ گئے۔
کیا تم مجھ سے خفا ہو؟ وہ نیچے گہری وادی دریا اور چٹانیں دیکھ رہی تھی۔ اس کے دوستانہ انداز پہ پلٹ کر اسے دیکھنے لگی۔
تمہیں ایسا کیوں لگا؟
یونہی۔ حالانکہ اب تو میں تمہیں اپنے ساتھ بارڈر تک بھی لے جا رہا ہوں مگر تم ہمیشہ خفا رہتی ہو۔ کہنے کے ساتھ اس نے کندھے سے اپنا بیگ اتارا اور اندر سے ایک طے شدہ کاغذ نکالا۔
نہیں! میں خفا نہیں ہوں اور تمہارا پروگرام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس نے اسے نقشہ کھول کر دونوں کے درمیان میں پھیلاتے دیکھ کر بات ادھوری چھوڑ دی۔
دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کپادوکیہ ہے۔ جہاں ہم ہیں۔ اس نے نقشے پہ ایک جگہ انگلی رکھی۔ حیا نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس پل وادی اہلارا پہ ہر سو چھایا سی تن گئی تھی۔ ٹھنڈا میٹھا سا موسم اور نیچے بہتے دریا کا شور۔
یہ رہا ترکی اور شام کا بارڈر۔ اس نے بارڈر کی موٹی لکیر کو انگلی سے چھو کر بتایا۔ یہاں ترکی کا چھوٹا سا قصبہ ہے کیلیس (kilis) نام کا۔ ہمیں کیلیس جانا ہے۔ وہاں سے یہ بارڈر کراس کر کے میں ادھر شام کے شہر ایلیپو (Aleppo) چلا جاؤں گا۔ کیلیس سے بارڈر قریباً تین کلو میٹر دور ہے۔ منگل کی رات ٹھیک ڈھائی بجے مجھے یہ بارڈر کراس کرنا ہے۔ وہاں سے تم واپس چلی جاؤ گی اور پھر میں خود ہی پاکستان آ جاؤں گا۔
اللہ اللہ! وہ اتنی خطرناک باتیں کتنے آرام سے کر لیتا تھا۔
کیا بارڈر کراس کرنا اتنا آسان ہو گا؟ وہ متذبذب تھی۔ دل کو عجیب سے واہمے ستانے لگے تھے۔
حیا! ترکی اور شام کا بارڈر آسان ترین بارڈر ہے۔ یہ نو سو کلو میٹر لمبا ہے۔ اب کیا سارے نو سو کلو میٹر پہ پہرہ لگا سکتے ہیں بارڈر فورسز والے؟ نہیں نا۔ سو یہاں صرف خاردار تاریں ہیں جن میں بہت سے سوراخ ہیں۔ ہر رات کتنے ہی لوگ اس بارڈر کو پورے پورے اہل و عیال سمیت کراس کر لیتے ہیں۔ وہ بہت بے نیاز سے انداز میں نقشہ لپیٹتے بتا رہا تھا۔ حیا نے اچنھبے سے اسے دیکھا۔
اور بارڈر سیکیورٹی فورسز؟ وہ کیوں نہیں ان لوگوں کو پکڑتیں؟
وہ صرف ان کو پکڑتیں ہیں جو خود چاہیں۔ اگر ہم نہ پکڑے جانا چاہیں تو فورسز ہمیں نہیں پکڑ سکتیں۔
مگر جہان! میں نے تو سنا ہے کہ اس بارڈر پہ بارودی سرنگیں ہوتی ہیں جو پاؤں پڑنے پہ پھٹ سکتیں ہیں۔ وہ جتنی پیشان ہو رہی تھی وہ اتنا ہی پرسکون تھا۔
اوہ! مجھے پتا ہے کون سی سرنگ کہاں ہے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ فکر مت کرو۔
وہ کچھ دیر اسی طرح باتیں کرتے رہیں پھر اس نے گردن اٹھا کر سورج کو دیکھا۔
میں ذرا نماز پڑھ لوں۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ جہان نے اس کے سرخ جوتوں کو دیکھا۔
جب تم وضو کرنے کے لیے یہ جوتے اتارو گی تو میں انہیں دریا میں پھینک دوں گا۔ حیا نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
تو میں انہیں اتاروں گی ہی نہیں۔ میرا دین بہت آسان ہے۔
وہ نیچے اتری اور دریا سے وضو کر کے صاف جوتوں کو پھر سے صاف کر کے ان ہی میں نماز پڑھی۔ جب وہ واپس آئی تو جہان اور بہارے چرچ کے داخلی دروازے کے پاس آمنے سامنے کھڑے تھے۔
تمہاری عادت نہیں گئی چھپ کر باتیں سننے کی! تم کیوں کر رہی تھی ایسا؟ وہ غصے سے اسے کہہ رہا تھا۔ سر جھکاۓ کھڑی بہارے نے منمنانا چاہا۔
میں نے کچھ نہیں سنا۔ بس تھوڑا سا خودبخود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تمہارا خودبخود اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ میری بات کان کھول کر سن لو۔ اگر تم نے اس بات کا ذکر کسی سے بھی کیا تو میں برا پیش آؤں گا۔ تمہیں سمجھ میں آیا جو میں نے کہا۔
تبھی جہان نے حیا کو دیکھا تو سر جھٹک کر اس تک آیا۔
کیا وہ ہماری باتیں سن رہی تھی؟ حیا نے تعجب سے اسے دکیھتے ہوئے پوچھا۔
نہیں میرا نہیں خیال اس نے کچھ خاص سنا ہو۔ بہرحال میں اسے خبردار کر رہا تھا۔
تم پریشان مت ہو اگر اس نے کچھ سنا بھی ہو گا تو سمجھ میں کہاں آیا ہو گا۔
جہان نے خاموش نظروں سے اسے دیکھا اور نفی میں سر ہلایا۔
وہ اپنی بہن کی جاسوس ہے۔ ایک ایک بات ادھر بتاۓ گی۔ اس پہ نظر رکھنا۔ یہ کسی کو فون نہ کرے۔
اس کا فون تو آشیانہ میں پڑا تھا چارج پہ لگا تھا۔ تم فکر نہ کرو واپس جا کر میں فون ہی لے لوں گی۔
جہان کچھ کہے بنا سیڑھیاں اترنے لگا۔
حیا نے پیچھے مڑ کر بہارے کو دیکھا پھر آنے کا اشارہ کیا۔
وہ خاموشی سے سر جھکاۓ اپنا گلابی پرس مضبوطی سے پکڑے ان کے پیچھے چلنے لگی۔
اس کا فون اس کے گلابی پرس کے اندرونی خانے میں رکھا تھا۔
••••••••••••••••••••••••••
آنے اپنی مخصوص کرسی پہ بیٹھیں سلائیوں کو مہارت سے چلاتی سوئیٹر بن رہی تھیں۔ اون کا گولا لڑھک کر ان کے قدموں کے قریب گرا پڑا تھا۔
عائشے گل ان سے فاصلے پہ بڑے صوفے کے ایک کونے پہ ٹکی اون کے گولے کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی نگاہیں دھاگے پہ جمی تھیں مگر ذہن کہیں اور بھٹک رہا تھا زندگی اب اون کے گولے کی سی لگتی تھی۔ کوئی اسے کب بن دے کب اڈھیر دے سلائیاں اس کے ہاتھ میں تو تھی ہی نہیں۔
عائشے تمہارا فون بج رہا ہے۔ آنے کے پکارنے پہ وہ چونکی گود میں رکھا موبائل کب سے بج رہا تھا۔
اس نے نمبر دیکھا اور پھر ایک معصوم سی مسکان نے اس کے لبوں کو چھو لیا۔
بہارے! نمبر پہ لکھا نام دیکھ کر اس نے پیار سے آنے کو بتایا اور سبز بٹن کو دبا کر فون کان سے لگایا۔
سلام علیکم! اس نے مسکرا کر سلام کیا تھا۔
میں ٹھیک ہوں، تم سناؤ، ترکی والے کیسے ہیں؟ اس کی مسکراہٹ اور بھی خوبصورت ہو گئی تھی۔ آنکھوں میں طمانیت کے سارے رنگ اتر آۓ تھے۔
ہاں، بتاؤ، کیا ہوا؟ اس کے الفاظ سن کر آنے نے بے اختیار سلائیاں چلاتے ہاتھ روک کر اسے دیکھا۔
اسی پل عائشے سیدھی ہو کر بیٹھی۔ اس کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔
کون سا بارڈر؟ ترکی اور شام کا؟ اس نے آہستہ سے دہرایا تھا۔ آنے فاصلے پہ بیٹھی تھیں۔ انہیں سنائی نہیں دیا تھا۔ مگر انہوں نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا ضرور تھا۔ وہ ان کو یوں دیکھتے پا کر زبردستی مسکرائی تھی پھر معذرت خواہانہ نظروں سے گویا اجازت طلب کرتی اٹھ کر کچن میں آ گئی۔
آنے نے ذرا حیرت سے اسے گردن موڑ کر دیکھا۔ وہ کچن کے کھلے دروازے سے کاؤنٹر کے پیچھے کھڑی فون پہ بات کرتی نظر آ رہی تھی۔ آنے واپس سلائیوں کی طرف متوجہ ہو گئی تھیں۔
ہاں کہو پھر میں سن رہی ہوں۔ کاونٹر پہ کہنی رکھ کر جھکے کھڑی عائشے نے ایک محتاط نظر باہر لاؤنج میں کھڑکی کے نزدیک بیٹھی آنے پہ ڈالی۔ وہ اب اس کی طرف متوجہ نہیں تھیں۔
ذرا اونچا بولو اتنا آہستہ میری سمجھ نہیں آ رہا۔ کیا کوئی آس پاس ہے؟ اس نے رک کر سنا اور پھر اثبات میں سر ہلایا۔ ٹھیک ہے مجھے ساری بات سمجھاؤ اب۔
اس نے پھر ادھ کھلے دروازے سے جھانکا۔ آنے اپنی بنائی میں مصروف تھیں۔
کیا؟ ایک منٹ۔ کیلیس کے کس طرف ہے وہ بارڈر؟ وہ تیزی سے فریج کی جانب بڑھی اور اس کے دروازے سے نصب ہولڈر سے پین نکالا اور ساتھ ہی آویزاں نوٹ پیڈ کے اوپری صفحے پہ تیزی سے لکھنے لگی۔ منگل کی رات، یعنی پیر اور منگل کی درمیانی رات، دو سے تین بجے، وہ الیگل بارڈر کراس کرے گا، اچھا، اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ روانی سے چند الفاظ گھسیٹنے لگی ہاں، ٹھیک ہے، میں سمجھ گئی۔ اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے پین واپس ہولڈر میں رکھا اور نوٹ پیڈ کا صحفہ پھاڑ کر تہہ کر کے مھٹی میں دبا لیا۔
اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھتی ہوں۔ کیا ہوا؟ کوئی آ گیا ہے؟ اچھا تم فون رکھو، ہم بعد میں بات کرتے ہیں، مرحبا! اس کا مرحبا ادا ہونے سے پہلے ہی فون بند ہو گیا تھا۔ اس نے ایک نظر موبائل کو دیکھا اور پھر چند گہرے گہرے سانس لے کر اپنے حواس بحال کیے۔ دل ابھی تک یونہی دھڑک رہا تھا۔
راز بھی ایک بوجھ ہوتے ہیں جنہیں سہارنے کیلئے بہت مضبوط اعصاب ہونے چاہیے۔ اس نے ہاتھ میں تہہ شدہ کاغذ پہ نگاہ دوڑائی۔ اس معلومات کے ساتھ اسے کیا کرنا چاہیے؟
ترکی کا تم پہ فرض ہے عائشے۔ اپنے دل سے پوچھو کہ اگر تمہیں یہ معلوم ہو جاۓ کہ ایک مجرم، ترکی کا ایک قومی مجرم، غیر قانونی طریقے سے بارڈر پار کر رہا ہو، تو تمہیں کیا کرنا چاہیے؟
اس نے اپنے دل سے پوچھنا چاہا۔ عجیب سا ہیجان اور تذبذب ہر جگہ غالب تھا۔
تمہیں بارڈر سکیورٹی فورس کے کمانڈر کو فعن کرنا چاہیے۔ تمہیں ان کو بتانا چاہیے سب کچھ تا کہ وہ اسے گرفتار کر سکیں۔ مگر نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عائشے گل یہ سب کیسے کرے گی؟ عائشے گل تو کبھی بھی کچھ نہیں کر سکتی!
اس نہج پہ وہ ایک دم چونکی۔
عائشے گل کبھی کچھ نہیں کر سکتی! عبدالرحمن اسے ہمیشہ کہا کرتا تھا یہ۔ اس کا پسندیدہ جملہ۔
مگر اس وقت یہ فقرہ کسی تیر کی طرح اسے آ لگا تھا۔ وہ شکستہ قدموں سے چلتی واپس لاؤنج کے بڑے صوفے پہ آ ٹکی۔ آنے نے سلائیوں سے نظر ہٹا کر اسے دیکھا۔
کیا کہہ رہی تھی بہارے؟ عائشے نے ٹھیک سے بات سنی نہیں، اور گردن نفی میں ہلا دی۔ وہ کہیں اور ہی گم تھی۔
کیا اسے عبدالرحمن کو دکھا دینا چاہیے کہ عائشے گل بہت کچھ کر سکتی ہے؟
کیا واقعی؟
••••••••••••••••••••••
وہ چلتے چلتے اس جنگل نما علاقے تک آ پہنچے تھے۔
اونچے سرسبز درخت اور ان کے درمیان سے دریا کسی تنگ جھرنے کی طرح بہہ رہا تھا۔ پانی کے اوپر پل کی صورت میں لکڑی کے پھٹے لگے ہوۓ تھے اور درمیان میں لکڑی کا ایک بڑا سا تخت تھا۔ تخت پہ سرخ قالین بچھا تھا اور اس کے تین سائیڈز پہ منڈیر بنا کر گاؤ تکیے لگے تھے۔ چوتھی طرف منڈیر نہ تھی تاکہ وہاں ٹانگیں لٹکا کر بیٹھو تو پانی پیروں کو چھوئیں۔
سبز پانی سبز درخت اور اوپر نیلا آسمان۔ پل کے اس پار جھونپڑے سے بنے تھے جن میں سے ایک سے وہ ابھی ابھی نماز پڑھ کے نکلی تھی۔ ظہر سے عصر تک وہ چلتے ہی رہے تھے اس مقام پہ جہان انہیں چھوڑ کر اپنے کسی کام سے چلا گیا تھا۔ اس کو ایک گھنٹے تک آنا تھا۔ وہ اس اثناء میں کھانا کھا کر اب نماز سے فارغ ہوئی تھی۔ باہر نکل کر دیکھا تو بہارے پل کے تخت پہ بیٹھی، پیر کے انگوٹھے سے پانی میں دائرے بنا رہی تھی۔
حیا نے اپنی سرخ ہیلز اتار کر اندر جھونپڑے میں رکھ دیں۔ (جہان کون سا دیکھ رہا تھا) اور پاؤں سے ذرا سا عبایا اٹھائے ننگے پیر چلتی پل تک آئی۔ بہارے کے ساتھ بیٹھ کر اس نے پاؤں پانی میں ڈالے تو وہ ٹخنوں تک سبز مائع میں ڈوب گئے۔
جہان کا ترکی واقعی خوبصورت تھا۔
عبدالرحمن کب آئے گا؟ بہارے گود میں رکھے اپنے گلابی رس پہ لگے موتی پہ انگلی پھیرتی پانی کو دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
آ جائے گا ابھی۔ تم نے اتنی دیر کیا کیا؟ اس نے گردن موڑ کر مسکراتے ہوئے بہارے کو دیکھا۔ وہ کھانے کے بعد جب نماز پڑھنے لگی تھی تو بہارے باہر آ گئی تھی۔
کچھ بھی نہیں کیا۔ اس نے بجھے بجھے چہرے کے ساتھ نفی میں سر ہلایا۔ جہان کی ڈانٹ کا اثر ابھی تک باقی تھا۔
کیا تم اس لیے اداس ہو کہ اس نے تمہیں ڈانٹا ہے؟
وہ ہر وقت ڈانٹتا ہے مگر میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔
سامنے سے ایک پرندہ اڑتا ہوا آیا پانی کی سطح سے اپنے پنجے ٹکراتے ہوۓ اپنی چونچ میں ذرا سا پانی بھرے بغیر رکے پھر پھڑپھڑاتا اڑتا گیا۔
کیا تم نے واقعی ہماری باتیں سنی تھیں؟ استفسار کرتے ہوۓ بھی وہ جانتی تھی کہ اگر اس نے کچھ سنا ہو گا تو بھی وہ سمجھ نہیں پائی ہو گی۔
نہیں سنا میں نے کچھ۔ سب مجھے ہی کیوں الزام دیتے ہیں؟ وہ خفگی سے کہتی سر اٹھا کر دور جاتے پرندے کو دیکھنے لگی جو اوپر آسمان پہ اڑتا جا رہا تھا۔
شاید اس کیلئے چونچ بھر پانی ہی کافی تھا۔ اس کی وسعت بس اتنی ہی تھی۔
اچھا پھر اداس کیوں ہو؟
حیا کیا میں جب پندرہ سال کی ہو جاؤں گی تو شادی کر سکوں گی؟
اور حیا کا منہ حیرت سے کھل گیا۔
تمہیں ایسی بات کیوں سوجھی بہارے؟
غنچہ کی شادی بھی پندرہ سال کی عمر میں ہوئی تھی نا۔
غنچہ کون؟
ہماری جدیسی میں رہتی تھی، ہم سب لوگ گئے تھے ان کی شادی پہ عبدالرحمن بھی گیا تھا۔ تصویر بھی ہے میرے پاس۔ دکھاؤں؟
حیا نے میکانکی انداز میں سر ہلایا۔ بہارے نے اپنا پرس کھولا اندرونی خانے کی زپ کھولی اور ایک لفافہ نکالا۔ اسے اس کے موبائل کی جھلک نظر آئی تھی۔
تمہارا فون تمہارے پاس تھا؟ اس کو اچھنبا ہوا۔ میں سمجھی تم نہیں لائی۔
میں لے آئی تھی چارجنگ ہو گئی تھی۔
کیا میں اسے دیکھ سکتی ہوں؟ حیا نے فون لینے کیلئے ہاتھ آگے بڑھایا تو بہارے نے جلدی سے زپ بند کر کے پرس پرے کر لیا۔
میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ تم میرا یقین کیوں نہیں کرتیں؟ میں اچھی لڑکی ہوں۔ حیا نے گہری سانس بھری۔
چھا ٹھیک ہے میں تمہارا یقین کرتی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ بہارے گل اچھی لڑکی ہے اور اچھی لڑکیاں کبوتر نہیں بنتیں۔ وہ باتیں ادھر سے ادھر نہیں کرتیں۔ اس نے ہاتھ واپس کھینچ لیا تھا۔ جہان تمہیں جو بات آگے بتانے سے منع کر رہا تھا وہ تم عائشے کو نہیں بتاؤ گی پرامس؟
بہارے نے لیکن کہنے کے لیے لب کھولے پھر بند کر دیے۔ پھر سر جھٹک کر لفافے سے ایک فوٹو گراف نکال کر حیا کے سامنے کیا۔ بس میرے اس اس کا یہی فوٹو ہے۔ حیا کو دکھاتے ہوئے بھی بہارے نے تصویر کا کنارہ سختی سے پکڑ رکھا تھا اتنی سختی سے کہ اس کا ناخن پیلا سفید پڑ گیا۔ وہ اب پانی کے قریب کوئی بھی چیز بے احتیاطی سے پکڑنے کا خطرہ نہیںلے سکتی تھی۔ پانی کھوئی ہوئی چیزیں کبھی بھی لوٹایا نہیں کرتا تھا۔
وہ شادی کے فنکشن کی تصویر تھی۔ کورٹ میں نکاح تھا۔ فرنٹ رو کی نشستوں پہ وہ تینوں بیٹھے تھے۔ بلیک سوٹ اور گرے شرٹ میں ملبوس وہ بس ذرا سا مسکرا رہا تھا۔ ساتھ بیٹھی بہارے اور عائشے بھی مسکرا رہی تھیں۔ مصنوعی فیملی جو اب ٹوٹ گئی تھی۔
پتہ ہے ہماری شادیوں میں نکاح کے بعد دلہا دلہن کی کرسی اٹھاتا ہے۔
ہاں میں جانتی ہوں تا کہ وہ علامتی طور پہ یہ ثابت کر سکے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔
مگر غنچہ اتنی موٹی تھی کہ اس کے دلہا سے کرسی اٹھائی ہی نہیں گئی۔ پھر وہ ذرا رکی۔ مگر تم عائشے کو مت بتانا کہ میں نے یوں کہا۔
اگر تم وہ بات جو جہان نے منع کیا ہے کہ عائشے کو نہیں بتاؤ گی تو میں بھی اسے نہیں بتاؤں گی۔
اس نے جیسے زبان دانت مگر عائشے تو پہلے ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے جیسے زبان دانتوں تلے دبائی۔
کیا اسے پہلے ہی پتہ ہے؟ حیا نے بغور اسے دیکھا۔ بہارے نے جھٹ گردن نفی میں ہلائی۔ میں کسی کو نہیں بتاؤں گی۔ پرامس!
اس نے تصویر احتیاطاً خط کے لفافے میں ڈالی اور اسے بیگ میں رکھ دیا۔
کچھ تھا جو حیا کو ڈسٹرب کر رہا تھا۔ کچھ غلط تھا کہیں۔ مگر خیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تم یہ شادی کی باتیں مت سوچا کرو۔ اچھا؟ اسے تنبیہہ کرنا یاد آیا۔
بہارے نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر نفی میں گردن ہلائی۔
میں تمہیں نہیں بتاؤں گی کہ میں کس سے شادی کروں گی۔
وہ کیوں؟
سامنے دریا کنارے درخت کا ایک پتا ہوا سے پھڑپھڑا رہا تھا۔ جب ہوا کا بوجھ بڑھا تو وہ ایک دم شاخ سے ٹوٹ کر نیچے گرا۔
تم برا مانو گی۔ سمجھو میں نے ایسا کہا ہی نہیں۔
ہوا نے پتے کو اپنے پروں پر سہارا دیے آہستہ آہستہ نیچے اتارا یہاں تک کہ پانی نے اسے نرمی سے ہوا کے ہاتھوں سے لیا اور اپنے اوپر لٹا دیا۔
تمہیں پتا ہے عبدالرحمن نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ مر جائے تو میں اسے جنازہ ضرور دوں گی۔
کیا؟ وہ ششدر رہ گئی۔ سانس رکا اور دل بھی دھڑکنا بھول گیا۔
اہلارا کے دریا کی سطح پہ درختوں اور آسمان کا عکس جھلملا رہا تھا۔ اس عکس پہ تیرتا پتا ان کی سمت آ ٓرہا تھا۔
ہاں اس نے بہت دفعہ ایسا کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوڑو ان باتوں کو۔ اس نے خفیف سا سر جھٹکا۔ پتا نہیں کیوں وہ ہمیشہ آگے کی پلانگ تیار رکھتا تھا چاہے وہ مرنے کی ہی کیوں نہ ہو۔
اس نے گرن اٹھا کر سامنے دریا کو دیکھا۔ وہاں سے چٹانیں اور غار دکھائی نہیں دیتے تھے مگر جب وہ بیلون میں اوپر اڑ رہے تھے تب وہ نظر آئے تھے۔ بالکل ویسے جیسے ڈاکٹر ابراہیم کی دی گئی کینڈی کے ریپر پہ بنے تھے۔
بہارے! اسے ایک دم یاد آیا۔ یاد ہے عائشے کہا کرتی تھی کہ قرآن پاک میں نشانیاں ہوتی ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں؟ اور تم نے کہا تھا کہ تم جانتی ہو وہ اس روز ہمیں کیا بتانا بھول گئی تھی۔
ہاں! بہارے نے اثبات میں سر ہلایایا۔
پتا بہتا ہوا ان کے قدموں کے قریب آرہا تھا۔ جیسے ہی وہ مزید آگے آیا بہارے نے اپنے پاؤں سے اس کا راستہ روکنا چاہا۔
حیا کو احساس ہوا کہ وہ دونوں پتے کو دیکھ رہ تھیں بہارے نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی اس نے نہیں کی۔
عائشے نے بتایا ہی نہیں تھا کہ آخر میں جنگ کون جیتا۔
بہارے نے اپنے پیر سے پتے کو واپس دھکیلا۔ وہ ذرا پیچھے ہوا پھر اسی رفتار سے واپس آیا۔ اب کے بہارے نے اسے نہیں روکا۔ وہ ان دونوں کے پیروں کے درمیان سے گزرتا تخت کے نیچے بہتا چلا گیا۔
مسلمان جیتے تھے۔ یہ تو مجھے پتا ہے۔ حیا کو حیرت ہوئی۔ یہ تھی وہ بات جس کو جاننے کے لیے اسے بہت تججس تھا؟
مگر مجھے نہیں پتا تھا سو میں نے اسٹوری بک سے پڑھ لیا تھا بعد میں۔ ساتھ ہی بہارے نے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا۔ بچھڑا ہوا پتا اپنے درخت سے بہت دور پیچھے کو بہتا چلا جا رہا تھا۔
بس؟ یہی بات تھی؟
ہاں! بہارے نے سر اثبات میں ہلایا۔
حیا کو مایوسی ہوئی تھی۔ یہ تو سامنے کی بات تھی کہ مسلمان ہی جیتے تھے, تو پھر؟ بہارے نے سمجھا عائشے بتانا بھول گئی ہے۔ جبکہ عائشے نے اس لیے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ سب جانتے ہیں کہ احزاب کی جنگ مسلمانوں نے جیتی تھی۔ یہ کوئی اہم بات تو نہیں تھی۔
شاید ڈاکٹر ابراہیم اسے یہی بتانا چاہ رہے تھے کہ آخر میں یہ جنگ وہ جیت جائے گی۔ پھر بھی کہیں کچھ مسنگ تھا۔ کچھ تھا جو وہ پھر مِس کر گئی تھی۔ اس نے خفیف سا سر جھٹکا۔ پتا نہیں۔
بہارے ابھی تک گردن موڑے دور جاتے پتے کو دیکھ رہی تھی۔ وہ پتا جسے اب کبھی اپنے درخت کے پاس واپس نہیں آنا تھا۔
•••••••••••••••••••••••
جہان آیا تو وہ لوگ اہلارا گاؤں آ گئے۔ اب شام ہو رہی تھی سو وہ وہیں سے واپس ہو لیا جبکہ انہوں نے کیب لے لی اور وآپس آشیانہ آ گیئں۔
جہان نے کہا تھا کل یہاں سے روانہ ہونا ہے۔ اسی حساب سے وہ آج پیکنگ کر رہی تھی.۔نار رات میں چائے دینے آئی تو ان کو سامان سمیٹتا دیکھ کر افسردہ ہو گئی۔
میری منگنی ہو گی سرما میں کیا تم لوگ آؤ گے؟ میں تمہیں ضرور انوائیٹ کروں گی۔
میں ضرور آؤں گی! بہارے نے چہک کر کہا پھر حیا کو دیکھ کر مسکراہٹ ذرا سمٹی۔ میرا مطلب ہے شائد آؤں!
ہوں! پنار مسکرا کر اس کا گال تھپتھپاتی باہر نکل گئی۔
عائشے کہتی ہے جب میں اس کے پاس آجاؤں گی تو ہم دونوں دور کسی دوسرے ملک چلے جائیں گے جہاں پاشا بے نہ ہو اور جہاں ہم عائشے اور بہارے بن کر رہیں, منی اور حمنہ نہیں اور پھر وہاں ہم بہت سا پڑھیں گے بھی سہی۔
میں کیا کہہ سکتی ہوں؟ اس نے شانے اچکاتے ہوئے اپنے سفری بیگ کی اندرونی زپ کھولی۔ ایک خانہ ذرا پھولا ہوا تھا۔ اوہ اسے یاد آیا۔ اس نے اس خانے سے وہ سیاہ مخملیں ڈبی نکالی۔
اپنا فراک تہہ کرتی بہارے وہ ڈبی دیکھ کر ٹھٹکی پھر اس کے پاس چلی آئی۔ حیا نے ڈبی کھولی۔ اندر سیاہ مخمل پہ وہ نازک سا نیکلیس جگمگا رہا تھا۔ حیا نےنگاہیں اُٹھا کر بہارے کو دیکھا۔
پہلے اس کی آنکھوں میں حیرت اتری پھر الجھن اور پھر سمجھ کر اس نے نفی میں سر جھٹکا۔
یہ وہ نہیں ہے۔ یہ وہ نہیں ہو سکتا۔ کیا تم نے اسے خریدا ہے؟
میں نے اور عبدالرحمن نے مل کر اسے خریدا ہے ادالار کی شہزادی کے لیے۔
بہارے نے اپنے فراک کو آخری تہہ دی اور پلٹ کر اسے بیگ میں ڈالا۔ جیسے وہ افسردہ ہو گئی تھی۔
یہ میرے پاس نہیں رہے گا حیا میں نے اپنا موتی عبدالرحمٰن کو دیا اس نے مجھے دے دیا مگر وہ باسفورس میں گر گیا۔ عائشے نے بھی اپنے موتی عبدالرحمٰن کو دیے۔ اس نے وہ تمہیں دے دیے۔ اب یہ بھی مجھ سے گم ہو جائے گا۔ میں یہ نہیں لوں گی۔
مگر یہ میں نے تمہارے لیے لیا ہے بہارے!
بہارے بیگ چھوڑ کر اس تک آئی۔ مخمل پر سے اُٹھایا, اس کے ہک کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا پھر اسے حیا کی کلائی کے گرد لپیٹ کر اس کا ہک آخری کنڈے کے بجائے, کلائی کے گھیر کے برابر ایک کنڈے میں ڈال دیا یوں کہ نیکلیس کلائی کے گرد پورا آ گیا اور ایک لڑی سی ساتھ لٹکنے لگی, جیسے بریسلٹ کی لٹکتی ہے۔
یہ اب تمہارا ہو گیا! وہ پہلی دفعہ مسکرائی تھی۔
حیا نے کلائی کو گھما کر دیکھا۔ زنجیر سے لٹکتے ہیرے بہت بھلے لگ رہے تھے۔ عین سائیڈ پہ ایک لمبا سا کنڈا خالی تھا۔
حیا تم نے پھر سیپ ڈھونڈے؟
حیا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
بس ایک دفعہ۔
اس میں سے کیا نکلا؟ حیا چند لمحے اسے دیکھتی رہی پھر نفی میں گردن ہلائی۔
پتہ نہیں بس وہ کوئی اچھی چیز نہ تھی۔
مگر تھا کیا؟
جانے دو۔ اس نے پھر سے اپنی کلائی ک دیکھا۔ اوپر تیسری انگلی میں پلاٹینئم بینڈ تھا۔ وہ دونوں بلا واسطہ یا بلواسطہ جہان کے ہی تحفے تھے۔
شکریہ بہارے! وہ ذرا سا مسکرائی۔ تحفہ تو تحفہ ہوتا ہے نا۔
کیا میں پھر کبھی عبدالرحمن سے نہیں مل سکوں گی؟ بہارے اب صوفے کے کنارے جا ٹکی تھی۔
نہیں کبھی نہیں۔ تمہیں اب اس بارے میں سوچنا چھوڑنا ہو گا۔ وہ اپنی باقی چیزیں سمیٹنے لگی۔ مسلسل حرکت سے کلائی سے لٹکتی زنجیر ادھر ادھر جھول رہی تھی۔
میں کل انقراہ سے ایران چلی جاؤں گی اپنی بہن کے پاس۔ تم لوگ پھر کدھر جاؤ گے۔
دیکھو۔ پتا نہیں۔
کیا تم لوگ کیلیس جاؤ گے۔
اس کے متحرک ہاتھ ٹھہر گئے۔ اس نے سر اٹھا کر بہارے کو دیکھا۔ تم نے اس وقت کچھ سنا تھا نا بہارے۔ کیا سنا تھا؟
بس اتنا سا! مگر جان بوجھ کر نہیں خودبخود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تم نے کیا سنا؟
عبدالرحمن کیلیس کا نام لے رہا تھا۔ کیا کوئی کیلیس جا رہا ہے؟ واللہ مجھے نہیں پتہ وہ کس کی بات کر رہا تھا۔اس نے ساتھ میں قسمیہ انداز میں ہاتھ سے کان کی کو کو چھوتے ہوئے چچ کی آواز نکالی۔
اور تم نے عائشے کو بتائی یہ بات؟
نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں! بہارے ذرا سے اٹکی تھی۔ جہان نے کہا تھا کہ اس نے اگر سنا ہو تب بھی وہ کچھ نہیں سمجھے گی۔ اس نے اپنی عقل کی بجائے جہان کی عقل پہ بھروسہ کرنا زیادہ منسب سمجھا اور واپس پیکنگ کرنے لگی۔ بہارے سے انہیں کوئی خطرہ نہ تھا۔
بیگ کی ایک زپ میں ڈی جے کی ٹوٹی عینک رکھی تھی۔ اس نے احتیاطا اسے وہاں سے نکال کر اپنے ہینڈ بیگ کے اندرونی خانے میں رکھ دیا جہاں سفید رومال میں کچھ لپٹا ہوا رکھا تھا۔ اور پھر بیگ کی زپ زوں کی آواز کے ساتھ زور سے بند کی۔
کل انہیں انقراہ جانا تھا۔
•••••••••••••••••••••
آشیانہ کی فیملی اور فاتح ان کو سی آف کرنے آشیانہ کے صحن میں کھڑے تھے۔ اتنے دن یوں لگ رہا تھا کہ وہ ہوٹل میں نہیں بلکہ کسی ک گھر میں ٹھہرے ہوئے ہوں۔ اب ایک ایک کو خدا حافظ کہنا مسز سونا اور پنار کے گلے لگ کر دوبارہ آنے کا بے یقین کھوکھلا وعدہ کرنا سب بہت اداس کرنے والا تھا۔ اس کی آنکھیں بار بار بھر رہی تھیں۔ ترکی میں اگر اس نے بہت کچھ کھویا تھا تو بہت کچھ پایا بھی تو تھا۔ کبھی جو وہ سود و زیاں کا حساب کرنے بیٹھے گی تو پانے والا پلڑا شاید بھاری نکلے۔
•••••••••••••••••••••
جہان نے بہارے کے سارے کاغذات اسے پہنچا دیے تھے البتہ انقراہ میں وہ خود انہیں نہیں ملا تھا۔ حیا نے اسے ایئر پورٹ پہ سی آف کرنا تھا اور تہران میں اس کی بہن نے ریسیو کر لینا تھا۔
بہارے ایئرپورٹ پہ آخری وقت تک داخلی احاطے کو دیکھتی رہی تھی۔ شاید وہ آ جائے۔
وہ نہیں آئے گا بہارے اس نے کہا تھا کہ وہ نہیں آ سکے گا۔
بہارے کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ پس منظر میں اعلان ہونے لگا تھا۔ اب ان دونوں کو الگ ہونا تھا۔
کیا ہم پھر کبھی نہیں ملیں گے حیا؟
اس کی بات پہ حیا نے گہری سانس بھری اور بہارے کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھی پھر اس کے دونوں ہاتھ تھام کر کہنے لگی۔
بہارے گل! زندگی میں انسان کو ہر چیش ویسے نہیں ملتی جیسے اس نے سوچی ہوئی ہے۔ سب ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہو سکتا اور جو ہم کہتے اور سوچتے ہیں وہ تو کبھی نہیں ہوتا۔پہلے ہم نے سوچا تھا کہ ہم ایک دوسرے سے رابتیں میں رہیں گے مگر یہ نہیں ہوسکا۔ اور اب ہم سوچ رہے ہیں کہ ہم کبھی دوبارہ مل نہیں پائیں گے تو ہوسکتا ہے کہ یہ بھی نہ ہو۔
اس کے ہاتھوں میں اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ دیے کھڑی بہارے اس بات پہ چونکی پھر ایک انوکھی سی چمک اس کے چہرے پہ امڈ آئی۔
ہاں بہارے! ہو سکتا ہے زندگی کہ کسی موڑ پہ کسی شاپنگ مال میں کسی ریسٹورنٹ میں کسی فلائٹ کے دوران ہم کئی سال بعد اچانک سے ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں۔ زندگی میں سب کچھ ممکن ہوتا ہے۔
ہاں! واقعی! مگر پھر اس کا چہرہ ذرا سا بجھا۔ لیکن میں تمہیں کیسے پہچانوں گی؟ تم تو نقاب کرتی ہو۔
اگر قدرت نے کبھی ہمیں کسی ناممکن کنڈیشن میں آمنے سامنے کر دیا تو وہ پہچان بھی کروا دے گی۔
اب کے بہارے کھل کر مسکرائی۔ بہت دیر بعد اس نے بہارے کے معصوم اداس چہرے پہ وہ مسکراہٹ دیکھی تھی۔
حیا سلیمان بہارے گل تم سے بہت پیار کرتی ہے! اس نے باری باری حیا کے دونوں رخسار نقاب کے اوپر سے چومے۔
اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہارے گل چلی گئی۔
زندگی کا ایک باب ٹھک سے بند ہوا۔
جہان کی جاب کا اصول تھا کہ ایک اسائنمنٹ کے لیے ان تعلقات کی ضرورت پڑے تو ان کو پھر سے بحال کیا جا سکتا تھا۔
بس ایک موہوم سی امید تھی وہ بھی کہ شاید پھر کبھی وہ چاروں اکٹھے ہو سکیں مگر بہت موہوم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے تیز آندھی میں ٹمٹماتی موم بتی کا شعلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
•••••••••••••••••••
کھڑکی سے چھن کر آتی روشنی کتاب کے صفحوں پہ بڑھ رہی تھی جو اس نے اپنے سامنے پھیلا رکی تھی۔ وہ الفاظ پہ نگاہیں مرکوز کیے ہوئے بھی ان کو نہیں پڑھ پارہ تھی۔ ذہین کہیں اور تھا۔ دل پر عجیب اداسی سی چھائی ہوئی تھی۔ جب تک بہارے واپس نہ آجاتی وہ یوں ہی افسردہ رہتی۔ یہ وہ وجہ تھی جس سے وہ خود کو بہلا لیتی کہ ہاں یہ اداسی صرف بہارے کی وجہ سے ہے۔
مگو وہ جانتی تھی کہ جب وہ آجائے گی تو بھی یہ افسردہ رہے گی۔ بس تب ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہانہ ختم ہوجائے گا۔
کھڑکی کی جالی سے ہوا کا تیز جھونکا آیا تو کتاب کے صفحے اس کے ہاتھ میں پھڑ پھڑا کر رہ گئے۔ اس کی زندگی کا ایک باب بھی کتاب کی اس صفحے کی مانند تھا جسے کسی نے بے دردی سے پھاڑ دیا ہو یوں کہ کوئی نشان جلد سے لگا کاغذ کا کوئی ٹکڑا باقی نا رہا ہو۔
عائشے گل نے کتاب بند کر کے پتائی پہ ڈال دی۔ اس کا دل کسی شے کے لیے نہیں چاہ رہا تھا۔
زندگی کا وہ باب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عبدالرحمن پاشا ایک اجنبی جو ان کی زندگیوں میں آیا اور پھر ان کی پوری زندگی بن گیا۔ وہ کتنا اچھا اور سلجھا ہوا ویل مینرڈ اور نفاست پسند آدمی تھا۔ اس کی ہر چیز پرفیکٹ تھی ۔ وہ اس کے ساتھ بھی بہت اچھا تھا۔ جب عثمان نے اپنے بیٹے کا رشتہ پاکستان میں طے کر دیا اور سفیر ان سے ناراض ہو گیا تھا تب بھی عبدالرحمن کے کہنے پہ ہی اس نے بار بار سفیر سے اس موضوع پہ بات کی۔ عبدالرحمن کو جب بھی کوئی خاص کام ہوتا وہ اس کے پاس آیا کرتا تھا۔ جیسے اس رات وہ حیا کو لے کر آیا تھا۔
اس رات تو وہ اسے عبدالرحمن لگا ہی نہیں تھا۔ اتنا رف حلیہ بے چین مضطرب بکھرا بکھرا سا۔ مگر جب اس رات کی صبح ہوئی تو وہ ہی پرانا والا عبدالرحمن بن گیا بلکہ وہ بن گیا جو وہ اس تھپڑ کے بعد بنا تھا۔
اچھی لڑکیاں جلدبازی نہیں کرتیں مگر اس سے ہوگئی تھی۔ وہ تھپڑ اس کے اور عبدالرحمن کے درمیان ایک ایسی سرد دیوار بن گیا جسے وہ کبھی پاٹ نا سکی۔ اس نے عائشے کو اس تھپڑ کیلئے معاف کبھی نہیں کیا تھا اور اب تو وہ ان سے بہت دور جاچکا تھا
بہارے آنےاور وہ خود وہ سب اسے بھلا دیں کیا؟ پاشابے تو آپنے کاموں میں مصروف سطحی سا آدمی تھا مگر آنے؟ اس نے نگاہ اٹھا کہ دیکھا۔
کمرے کے دوسرے کونے میں آنے بیٹھیں سویئٹر بن رہیں تھیں پچھلے اور اس سے پچھلے دونوں سرما میں انہوں نے عبدالرحمن کیلئے سوئیٹر بنے تھے اس دفعہ بھی وہ اپنی روٹین دوہرا رہیں تھیں وہ دیکھتی تھی کہ کس طرح آنے فون کی بیل،دروزے کی دستک اور ہر آہٹ پہ چونکتیں پھر عبدالرحمن کی خیر خبر نہ پا کر آپنے مایوسی سے اپنے کام کرنے لگتیں کیا وہ سب نارمل زندگی گزار پائیں گے؟
شائد ہاں شائد نہیں۔
مگر ابھی اسے کیا کرنا ہے؟
بلاوز کی جیب سے طے کیا کاغذ نکالا اسے کھولا یہ ترقی کی امانت ہے کیا اسے لوٹا دہنی چاہیئے؟
اس نے گردن پھیر کر کیلینڈر کو دیکھا آج ہفتہ تھا اور یہ معلومات اسے پرسوں، یعنی پیر یا منگل کی درمیانی شب کے بارے میں تھی اب صحیح وقت آن پہنچا تھا۔
وہ ایک فیصلے پہ پہنچ کر اٹھی اور آپنا پرس اٹھا لیا۔
تقریبا آدھے گھنٹے کے فاصلے پہ وہ آپنے گھر سے بہت دور ایک پےفون پہ کھڑی،کارڈ دال کر ایک نمبر ملا رہی تھی
دیکھ لو عبدالرحمن عائشے گل کیا کر سکتی ہے۔
ریسیور کان سے لگائے اسنے طے کیا ہو کاغذ سامنے کھول کر رکھ لیا ساتھ ہی کلائی پہ بندھی گھڑی دیکھی۔ ان کو اس کی کال ٹریس کرنے میں نوے سیکنڈ لگنے تھے وہ اسی سیکنڈ بعد کال کاٹ دے گی۔
کال ملنے کے دسویں سیکنڈ میں اس کا رابطہ موجودہ کمانڈر سے ہو گیا۔
میرے پاس آپ کیلئے بڑی ٹپ (مخبری) ہے۔
آپ کون ہیں اور کہاں سے بول رہیں ہیں؟
بھاری آواز والے مرد نے کال لمبی کرنے کی کوشش کی تھی۔
جھوٹ بولنا نہیں چاہتی اور ظاہر ہے سچ بتاوں گی نہیں۔ میرا وقت ضائع نہ کریں۔ وہ ٹپ (مخبری) سنیں جو میرے پاس ہے۔ وہ تیزی سے بولی۔
پچیس سیکنڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
دل تھا کہ تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
جی' جی کہے دوسری جانب کال ریکارڈ کی جانے لگی تھی۔ ریڈ الرٹ۔
منگل اور پیر کی درمیانی شب کے دن دو بجے کے قریب کیلیس سے تین کلو میٹر دور، ترقی اور شام کی سرحد کو کوئی کراس کرے گا اس کے بہت سے نام ہیں مگر میں اپ کو وہ بتاؤں گی جو آپ جانتے ہیں۔
چالیس سیکنڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون سی چوکی کے قریب سے؟ وہ نوٹ کر رہے تھے۔
عائشے جلدی جلدی وہ تمام چیزیں دوہرانے لگی جو اس نے کاغذ پہ لکھ رکھی تھیں۔ چھوٹی چھوٹی باتیں جو اہم تھیں۔
اطلاع دینے کا شکریہ کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ اپنا پرگرام نہیں بدلے گا؟
اسی سیکنڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں! مرحبا! اس نے کھٹ سے ریسیور رکھا اور پھر دل پہ ہاتھ رکھ کر چند گہری سانسیں اندر اتاریں۔
اللہ اللہ اس نے کر ہی لیا۔ یہ تو ذرا بھی مشکل نہیں تھا۔
اب وہ آہستہ آہستہ سانس لیتی آپنے پھولے تنفس کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ دل تھا کہ بری طرح دھڑک رہا تھا۔
(عبد الرحمن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو، عائشے گل کیا کچھ کر سکتی ہے!)
وہ پلٹی اور سر جھکائے تیز تیز چلتی کیب اسٹینڈ کی جانب بڑھی اسے جلد سے جلد گھر پہنچنا تھا تاکہ آنے کو شک نہ ہو۔
••••••••••••••••••••••
چھت سے کھلی، گرے سپورٹ کار کشادہ ہائی وے پہ دوڑتی جا رہی تھی۔ وہ کہنی دائیں طرف کھڑکی پہ ٹکائے بند مٹھی سے گال کو سہارا دیے آنکھیں موندیں کچی پکی نیند میں تھی۔ گرم ہوا سے سیاہ اسکارف پھڑپھڑا رہا تھا۔ دفعتا کار کو زرا سا جھٹکا لگا تو اس کا چہرا آگے کو لڑھکا مگر اگلے ہی پل وہ آنکھیں کھول کر سنبھل کر پیچھے ہوئی
سامنے لمبی ہائی وے کے افق پہ سورج طلوع ہو رہا تھا ہوا میں گرمی کی شدت بڑھ گئی تھی سڑک کی دونوں اطراف خشک اور ویرانہ تھا دور پہاڑ تھے
میں سو گئی تھی؟وہ آنکھیں ملتے جیسے خود سے پوچھا
نہیں مادام! آپ کل رات سے ڈرائیو کر رہیں ہیں سو تو میں رہا تھا۔
حیا نے بائیں جانب دیکھا جہان دونوں ہاتھ سٹیرنگ وہیل پہ رکھے ڈرائیو کر رہا تھا نیلی جینز پہ نیلی شرٹ کی آستین کہنیوں تک موڑے آنکھوں پہ سیاہ گلاسز لگائے جس سے آنکھ کے قریب زخم کا نشان صاف نظر آرہاتھا
کیا ہم کیلس پہنچ گئے؟ اس نے گردن ادھر ادھر گھمائی موٹروے کی اطراف کا مخصوص ویران علاقہ
نہیں!سو جاو جب پہنچ گئے تو تمہیں اٹھا دوں گا
ہوں!حیا نے اثبات میں سر ہلایا اور گردن سیٹ کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں جہان نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا پھر افسوس سے سر جھٹکا
حیا خانم!فرنٹ سیٹ پہ بیٹھنے کے جو ایتھکس(اخلاقیات) ہوتے ہیں ان میں دوسرا نمبر کس چیز کا ہوتا ہے؟
میں نے سیٹ بیلٹ پہن رکھی ہے بند آنکھوں سے کہتے اس نے ہاتھ سے آپنی سیٹ بیلٹ کو چھو کر یقین دہانی کی
وہ پہلا اصول ہے دوسرا فرنٹ سیٹ پہ سونے کی ممانعت کے حوالے سے ہے
نیند ویسے ہی ٹوٹ گئی تھ اوپر سے اسکے طنزوہ آنکھیں کھول کر پوری طرح جاگ کر سیدھی ہوئی۔
تمہارے منہ سے ایتھکس کا لفظ کتنا خوبصورت لگتا ہے نا جہان!
کیوں؟ چند ایک باتوں کے علاوہ میں ایک ڈیسنٹ انسان ہوں۔ وہ برا مان گیا۔ حیا نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
تھینک یو ویری مچ جہان سکندر! ورنہ میں انقرہ سے یہاں تک یہی سوچتی آرہی ہوں کہ یہ کار تمہاری اپنی ہے یا چوری کی؟
جہان نے ایک خفا نگاہ اس پہ ڈالی- رینٹ کی ہے کہہ کر سامنے دیکھنے لگا۔
ہم کیلیس کب پہنچے گے؟
ڈرائیو تو میں کر رہا ہوں تم تو سوتی آئی ہو پھر؟
ایک تو پتا نہیں ہر ڈرائیو کرنے والا یہ کیوں سمجھتا ہےکہ اسکے علاوہ باقی تمام مسافر تھک نہیں سکتے؟
اوہ تمہارا پاوں تو نہیں دکھ رہا؟
نہیں ٹھیک ہے اور تمہارا سر درد؟ اس نے پھر جارحیت کے پردے میں دفاع کیا.
میں ٹھیک ہوں! حیا نے چہرہ موڑ کر بغور اس کے چہرے کی جانب دیکھا۔
آخری دفعہ سچ کب بولا تھا؟