
جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد
(قسط نمبر چالیس (آخری قسط
وہ بڑے مزے سے ہاتھ جھاڑتے ہوئے اٹھی' کین سائیڈ ٹیبل پہ رکھا اور روحیل کو مخاطب کیا۔
Honestly Rohail You have a very interesting family
(حقیقت یہ ہے روحیل تمہاری فیملی بہت دلچسپ ہے۔)
روحیل نے اونہوں! کہتے اسے گھورا اور معزرت خواہانہ۔ انداز میں باقیوں کو دیکھا نتاشا جہان کے سائیڈ سے گزر کر سیڑھیوں کی طرف چلی گئی۔
شو ٹائم ختم ہو چکا تھا۔
البتہ جانے سے قبل نتاشا نے جو مسکراہٹ جہان کی طرف اچھالی تھی کونے میں کھڑی حیا کے ذہن میں وہ اٹک کر رہ گئی۔
یہ سب کیسے ہوا؟ وہ ابھی تک دم بخود تھی مگر نتاشا کی مسکراہٹ؟ اس کا اور جہان کا باتیں کرنا، پھر اس کا اتنا بڑا شاپنگ بیگ اٹھا کر صائمہ تائی کی طرف جانا اور پھر واپس اوپر جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ صائمہ تائی کو شاپنگ دکھانے نہیں ارم کا لیپ ٹاپ اڑانے گئی تھی ورنہ اسے کب سے تائی سے اتنی محبت ہو گئی؟ ورنہ جہان کو کیسے پتا کہ یہ ساری تصاویر ارم کے لیپ ٹاپ میں تھیں؟ وہ بھی اوپر کمرے میں حیا کے کپڑے رکھنے نہیں بلکہ سی ڈی لینے گیا تھا، ریموٹ گراتے ہوئے جھک کر اس نے سی ڈیز Swap کی تھیں۔ اوہ جہان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! وہ swapping کا ماہر تھا۔
ایک ایک کر کے سب لاونچ سے چلے گئے تھے۔ پھوپھو نے البتہ جاتے ہوئے افسردہ نگاہوں سے جہان کو دیکھا تھا۔
یہ سب کیا تھا جہان؟
وہ شاید کوئی غلط سی ڈی اٹھا لایا تھا۔ اس نے شانے اچکائے۔
جیسے میں تمہیں جانتی ہی نہیں۔ تمہارا ہاتھ ہے اس میں' پتا ہے مجھے۔ وہ جھڑک کے کہتی ہوئی خفگی سے باہر نکل گئیں۔
اس سارے میں وہ پہلی بار حیا کی طرف متوجہ ہوا۔
وہ اسی طرح دیوار سے لگی کھڑی تھی۔ جہان کو آپنی طرف دیکھتے پا کر اس نے نقاب کھینچ کر اتارا۔ اس کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑ رہا تھا۔ اور تب ہی جہان نے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ، اللہ، یہ تم نے کیا کیا؟
یہ تم نے کیسے کیا جہان؟ ایک دم آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھوں سے گرنے لگے۔ وہ پریشانی سے جنجر بریڈ کے ملبے کو دیکھتا اس تک آیا۔
میرے سارے پیسے برباد کر دیے تم نے۔ یہ کیوں توڑا؟
جہان! حیا نے لبوں پہ ہاتھ رکھ کر خود کو رونے سے روکا مگر آنسو بہتے جا رہے تھے۔ میں بہت ڈر گئی تھی۔ تم جانتے تھے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ وہ ویڈیو ولید کے پاس ہے۔
ملبے سے نگاہ ہٹا کر گہری سانس لیتے ہوئے اس نے حیا کو دیکھا۔
دیرین کیو میں تم نے دو دفعہ کہا تھا کہ اگر کوئی تمہیں گاڑی تلے کچل دے تو؟ دو دفعہ کہی گئی بات کی کوئی وجہ ہوتی ہے۔ میں نے یہاں آتے ہی معلوم کر لیا تھا سب تم نے مجھ پہ بھروسہ نہیں کیا سو، میں نے بھی تمہیں نہیں بتایا۔
میں تمہیں پریشان نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے بولا نہیں جا رہا تھا۔
حیا آپ کے اپنے کس لیے ہوتے ہیں؟ اگلی دفعہ مجھ پہ بھروسہ کر کے دیکھنا۔
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تو بہت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہان کے جبڑے کی رگیں تن گئیں۔
اس کا ذکر مت کرو۔ جب انسان کچھ غلط کرتا ہے تو اس کا نتیجہ اس کو بھگتنا پڑتا ہے۔ آج کسی ایک نے تو رسوا ہونا ہی تھا مگر میں نے ایک لڑکی سے وعدہ کیا تھا کہ جنت کے پتوں کو تھامنے والوں کو اللہ رسوا نہیں کرتا۔ مجھے اپنا وعدہ نبھانا تھا۔
پھر اس نے ٹوٹے ہوئے جنجر بریڈ ہاوس کو دیکھا۔ کب تم جذبات میں آ کر چیزیں پھینکنا چھوڑو گی لڑکی! ساتھ ہی وہ نور بانو کو آواز دینے لگا تاکہ وہ جگہ صاف کی جا سکے۔
آئی لو یو جہان! آئی رئیلی لو یو۔ وہ رندھی ہوئی آواز اور فرط مسرت سے رونے اور مسکرانے کے درمیان بولی تھی۔ حہان نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر دائیں بائیں۔
میری بچپن کی سہیلی ٹھیک کہتی ہے۔ اس گھر میں سب بہت انٹرسٹنک ہیں۔ وہ جھرجھری لے کر آگے بڑھ گیا۔ نور بانو اسی طرف آرہی تھی۔
حیا یوں ہی عبایا میں ملبوس لاؤنج کے صوفے کے ہتھ پہ بیٹھی اور موبائل نکال کر ایک نمبر ملایا۔ ہتھیلی سے آنسو پونچھتے ہوئے اس نے فون کان سے لگایا۔
ڈاکٹر ابراہیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے وہ پہیلی حل کر لی ہے۔ وہ مڑ کر چوکھٹ پہ پنجوں کے بل جھکے ہوئے جہان کو دیکھتے ہوئے بولی جو نور بانو کے ساتھ جنجر بریڈ کے ٹکڑے اٹھا رہا تھا۔
اچھا کیا ملا آپ کو پھر؟ دوسری جانب جیسے وہ مسکرائے تھے۔
آیت حجاب سورہ احزاب میں نازل ہوئی ہے۔
میں بتاتی ہوں آپ کو حجاب اور جنگ احزاب کی مماتلت۔ وہ رندھی ہوئی آواز میں کہہ رہی تھی۔ جنگ احزاب میں گر وہ بھی ہے بنو قربظہ بھی خندق بھی سردی اور بھوک کی تنگی بھی۔ تین طرف خندق تو ایک طرف گھنے درختوں کا سایہ اور مضبوط چٹان بھی۔ جو خاموشی سے آپ کو سپورٹ کرتے ہیں۔
اس نے جہان کی پشت کو دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ افسوس سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے ٹکڑے پلیٹ میں ڈال رہا تھا۔ اس کی جینز کی جیب میں ایک سی ڈی جھلک رہی تھی۔
لیکن اگر جنگ احزاب میں کچھ نہیں ہے تو وہ جنگ نہیں ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جس میں جنگ ہوتی ہی نہیں۔ اکا دکا انفرادی لڑائیوں کو چھوڑ کر اصل جنگ ہتھیاروں سے لڑی جانے والی جنگ سے قبل ہی ایک رات طوفان آتا ہے اور دشمنوں کے خیموں کی ہوا اکھڑ جاتی ہیں۔ ان کی ہانڈیاں ان پر الٹ جاتی ہیں اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ مجھے میری ایک چھوٹی دوست نے یہی بات کہی تھی کہ یہ جنگ جیتا کون تھا؟ تب نہیں سمجھی میں۔ اب سمجھی ہوں۔ جنگ نہیں وہ لڑائی کی بات کر رہی تھی لڑائی جو اس جنگ میں ہوتی بھی نہیں۔ آپ کو صبر اور انتظار کرنا ہوتا ہے۔ کسی کو ایک دن اور کسی کو ایک ماہ اور کسی کو کئی سال اور پھر ایک دن آپ بغیر کچھ کھوئے بغیر کسی محاذ پہ لڑے اچانک جیت جاتے ہیں۔ یہی بات تھی نا سر!
میرے ذہین بچے! مجھے آپ پہ فخر ہے۔ وہ بہت خوش ہوئے تھے۔
حیا نے ڈبڈباتی آنکھوں سے اس غریب آدمی کو دیکھا جو ابھی تک اپنے پیسے ضائع ہونے پر افسوس کر رہا تھا۔ چیزیں وقتی ہوتی ہیں۔ ٹوٹ جاتی ہیں بکھر جاتی ہیں ان کا کیا افسوس کرنا؟
اب ان دونوں کو جنجر بریڈ کے گھروں کو بھول کر رشتوں اور اعتماد سے بنا گھر قائم کرنا تھا۔
صبح قریب تھی۔
ان کی صبح۔
•••••••••••••••••••••
وہ پارلر کے ڈریسنگ مرر کے سامنے کرسی پہ بیٹھی تھی اور بیوٹیشن لڑکی بڑی مہارت سے اس کو آئی شیڈو لگارہی تھی۔ اس نے گرے اور سلور فراک پہن رکھا تھا۔ بال وغیرہ ابھی بنانے تھے۔
اونچا جوڑا بنائیں گی؟ بیوٹیشن نے آئی شیڈو کو آخری ٹچ دیتے ہوئے پوچھا تھا۔ حیا نے آئینے میں چہرہ دائیں بائیں کر کے آنکھیں دیکھیں۔ اچھی لگ رہیں تھیں۔
اونہوں۔ فرنچ ناٹ بنا دو۔ اونچے جوڑے میں تو نماز نہیں ہو گی اور دو تین نمازیں تو فنکشن کے دوران آجائیں گی۔
آج نہ پڑھیں تو خیر ہے۔ لڑکی اکتائی تھی۔
آپنی خوشی میں اللہ کو ناراض کر دوں؟ اونہوں!
اس نے نفی میں سر ہلایا۔
اچھا، نیل پالش لگانی ہے یا نقلی نیلز؟
کچھ بھی نہیں- بار بار وضو کے لیے اتاروں گی کیسے؟ اس نے سادگی سے الٹا سوال کیا۔
اوہ! اچھا نقلی پلکیں تو لگا دوں نا؟
اللہ تعالی کو برا لگے گا۔
آپ نے آئی بروز بھی نہیں بنوائیں تھوڑا سا نیٹ ہی کر دوں؟
اللہ تعالی کو اور بھی برا لگے گا۔
لڑکی کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ وہ گھوم کر اس کے سامنے آئی۔
آپ کہیں 'الہدی' کی تو نہیں ہیں؟
حیا ہنس دی۔
نہیں میں بس ایک مسلمان لڑکی ہوں اور یہ سوچ رہی ہوں کہ جب تمہیں اپنا ڈوپٹا سیٹ کرنے کو کہوں گی تو تمہاری کیا حالت ہو گی؟ وہ جیسے سوچ کر ہی محفوظ ہوئی۔ لڑکی نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔
کیوں؟
پہلے میک اوور مکمل کرو، پھر بتاتی ہوں۔ مزے سے کہتی اس نے دوبارہ سر کرسی کی پشت پہ ٹکا دیا۔ بیوٹیشن لڑکی جزبز سی ہو کر آئی شیڈو کٹ اٹھائے پھر سے اس کے سر پہ آ کھڑی ہوئی۔
اور جب حیا نے اسے دوپٹا اپنی مرضی کے مطابق سیٹ کرنے کو کہا تو اس کا منہ کھل گیا۔
گھونگھٹ؟ کون نکالتا ہے گھونگھٹ؟ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟
میں یہ تو نہیں کہ رہی کہ بہت نیچے تک نکالو۔ بس ٹھوڑی تک آئے۔ نیچے ویسے ہی بند گلا ہے۔ اس نے آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے لاپروائی سے کہا تھا۔
مگر آپ کا چہرہ تو نظر ہی نہیں آئے گا۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لڑکی پریشان ہو گئی تھی۔
تم نکال رہی ہو یا میں خود نکال لوں؟
اور بیوٹیشن کے پاس اس کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ اس سے کوئی بعید نہیں تھی وہ جلدی سے ڈوپٹہ سیٹ کرنے لگی۔
اس نے ابا سے بہت کہا تھا کہ مکس گیدرنگ نہ رکھیں فوٹو گرافرز نہ ہوں مگر ابا اور اماں نے ایک نہ سنی۔
حیا! میں تمہارے پردے کا پھر کوئی ایشو نہیں سننا چاہتی۔ اماں تو باقاعدہ بے زار ہو گئی تھیں۔ حیا جانتی تھی کہ اس کے سامنے وہ کبھی اعتراف نہیں کریں گی کہ وہ اس کے پردے سے دل سے راضی تھیں۔ مگر کیا فرق پڑتا تھا؟
اس نے اپنی کلاس فیلوز سے پوچھا حجابی لڑکیاں دلہن بنتے ہوئے کیا کرتی ہیں کہ کوئی ناراض بھی نہ ہو اور وہ حجاب بھی کیری کر لیں؟ جتنے آپشن نظر آئے ان میں سب سے بہترین یہی تھا۔
گھونگھٹ۔
اور پھر نیچے ڈوپٹہ اتنا پھیلا کر لیا ہو کہ ستر پوشی کا فرض ادا کرے۔ اب کوئی اس کی تصویریں کھینچے یا نہیں اسے پرواہ نہیں تھی۔
میرج ہال میں جب اسے برائیڈل روم سے لا کر اسٹیج پہ بیٹھایا گیا تو ثناء اس کے ایک طرف آ بیٹھی تھی۔ آج کیلئے ثنا اس کی اسسٹنٹ تھی۔ آپنی طرف سے وہ تصاویر کھینچنے والوں کو مسلسل منع کر رہی تھی۔
"حیا آپا پردہ کرتی ہیں پلیز فوٹو نہ کھینچیں۔ یا کوئی اس کے گھونگھٹ پہ کچھ بولتا تو وہ اسے جواب بھی دے رہی تھی۔
"آپا کلاسیکل دلہن بنی ہیں۔ اور وہ گھونگھٹ نہیں اٹھائیں گی۔ کوئی چاچی' ممانی' خالہ ساتھ آ کر بیٹھتی' پھر زرا سا گھونگھٹ اٹھا کر چہرا دیکھتی' سلامی دیتی' تعریف کرتیں یا جو بھی' سب ایسا ہی تھا جیسے عموما مہندی کی دلہن کا ہوتا ہے۔
اس کا گرے فراک پیروں تک آتا تھا۔ گھیرے پہ کافی کام تھا ۔گھونگھٹ تھوڑی تک گرتام نیچے دوپٹا' یو کی شکل میں پھیلا کر سامنے ڈالا تھا۔ آستین پوری تھی اور وہ سر جھکا کر نہیں بیٹھی تھی وہ گردن اٹھا کر پورے اعتماد کے ساتھ بیٹھی تھی۔ ہر پاس آنے والی آنٹی سے بڑے آرام سے باتیں کر رہی تھی۔ لوگ برا تب مانتے ہیں جب دلہن اکڑ کر بیٹھے۔ اگر وہ خوش مزاجی سے بات کر رہی ہو پورے اعتماد کے ساتھ تو لوگ نرم پڑ جاتے ہیں۔ البتہ کہنے والے تو کہہ رہے تھے۔ یہ کیا کیا؟ میک اپ تو چھپ گیا۔ خراب ہو گیا ہو گا تبھی یہ کیا۔ ناٹک، ڈرامے۔ مگر وہ اس مقام پہ تھی جہاں یہ سب باتیں ثانوی محسوس ہوتی تھیں۔ مشکلیں بہت پڑ کر بھی آسان ہو جاتی ہیں۔
جہان اس کے پاس آ کر بیٹھا اور بہت دھیرے سے بولا تھا۔
ثابت ہوا کہ تم کچھ باتوں میں واقعی بہت اسمارٹ ہو۔ بس یہی ایک فقرہ کہا اس نے اور پھر جلد ہی اٹھ گیا۔ اسے یوں مرکز نگاہ بن کہ بیٹھنا قبول نہیں تھا- بدتمیز نہ ہو تو-
وہ پھر خود بھی زیادہ دیر اسٹیج پہ نہیں بیٹھی اور واپس برائیڈل روم واپس آگئی۔ یہ نتاشا کا دن تھا اور اب اسے پوری توجہ ملنی چاہیئے۔ خیر وہ پوری توجہ لے بھی رہی تھی- ساڑھی کی پشت پہ زبردستی اس نے پلو ڈالا ہوا تھا مگر وہ روحیل کا بازو تھامے مہمانوں کے درمیان ہنستے بولتے گھوم رہی تھی۔ (اور فاطمہ کو ہول اٹھ رہے تھے۔)
جہان بھائی کہہ رہے تھے کہ وہ ادھر آ جائیں؟ ثناء نے اس کو آواز دی۔ وہ جو برائیڈل روم میں بیٹھی، گھونگھٹ پیچھے گرائے، لپ اسٹک ٹھیک کر رہی تھی، چونک کر پلٹی۔ کیا وہ آ رہا تھا؟ اس سے ملنے؟😜😜😜 اس کا دل زور سے دھڑکا۔
ہاں بلا لو۔ وہ اور ثناء اکیلے ہی تو تھے۔ اچھا ہے ثناء باہر چلی جائے گی اور وہ دونوں کم از کم بات تو کر سکیں گے۔ دو دن سے تو وہ نظر ہی نہیں آیا تھا۔
ذرا سی دستک کے بعد دروازہ کھول کر جہان اندر داخل ہوا۔ سیاہ ڈنر سوٹ بال پیچھے کیے بالکل جیسے وہ میٹرو میں لگا تھا پہلی بار۔ اب بھی ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ نہیں ہینڈسم ایڈیٹ لگ رہا تھا کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو منتظر سی کھڑی تھی لبوں پہ ذرا سی مسکراہٹ لیے اس کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔
جہان کے ساتھ وہ سوبر اور سادہ لمبی سی ثانیہ بھی تھی۔
حیا مائی وائف اور حیا یہ میری بہت اچھی دوست ہیں اور کولیگ بھی ہیں ثانیہ۔ بہت تہزیب اور شائستگی سے وہ دونوں کا تعارف کروا رہا تھا۔
بہت خوشی ہوئی۔ ثانیہ اسی سوبر سی مسکراہٹ کے ساتھ آگے آئی اور مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ حیا نے بہ مروت مسکراتے ہوئے ہاتھ تھاما اور ملا کر چھوڑ دیا۔ پھر ایک شاکی نظر جہان پہ ڈالی۔ وہ بس اس لیے اس کے پاس آیا تھا؟ بدتمیز!
بس تمہیں ملوانا چاہ رہا تھا ثانیہ سے۔ اس کے ہیزبینڈ دوست ہیں میرے۔
جی ان سے تو بہت دفعہ مل چکی ہوں۔ وہ زبردستی مسکراتے ہوئے بولی تھی۔ جہان نے بےساختہ ماتھے مو چھوا۔
اچھا حماد نے تو ذکر نہیں کیا؟ ثانیہ نے جہان کو دیکھا وہ جو اف کے انداز میں ماتھے کو چھو رہا تھا فورا سے پیشانی مسل کر ہاتھ نیچے کر لیا۔
ہاں وہ ہم ڈنر کر رہے تھے تو وہ مل گیا تھا۔ خیر ہم چلتے ہیں سی یو۔ وہ حیا کو گھور کر ثانیہ کو راستہ دیتا ہوا سامنے سے ہٹا۔ وہ ناقدانہ نگاہوں سے انہیں جاتے دیکھ رہی تھی۔
تمہاے پاس صابر کا نمبر ہے میں اسے کال کرنا چاہ رہا تھا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں ٹھہرو میں تمہیں سینڈ کرتی ہوں۔ وہ دونوں اپنے اپنے سیل فونز سامنے کیے باتیں کرتے باہر نکل گئے۔
ہونہہ! وہ پیر پٹخ کر واپس کرسی پہ بیٹھی۔
اس آدمی کے ساتھ زندگی کبھی بھی فینٹسی نہیں ہو گی پہلے سے وہ جانتی تھی مگر اب اس بات پہ یقین بھی آ رہا تھا۔ سب کچھ بہت مشکل تھا اور مشکل ہو گا بھی مگر خیر وہ ساتھ تو تھے نا۔ آہستہ آہستہ وہ اس سب کی عادی ہو جائے گی۔ اس نے خود کو تسلی دی۔ اور پھر دروازے کی طرف دیکھا۔
ذرا سی جھری کھلی تھی وہاں سے میرج ہال کی رشنیاں لوگوں کا رش ہنستے بولتے مہمان رنگ خوشبو سب نظر آ رہا تھا۔
اس کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے۔ لب آپ ہی آپ مسکرانے لگے۔ اس نے کلائی گھما کر دیکھی۔ بہارے کا نیکلس بریسلیٹ کی صورت اس میں پہنا تھا اور اس کی سائیڈ پہ خالی کنڈے میں اب ایک موتی جھول رہا تھا۔
سیاہ موتی۔
وہ سفید موتی نہ بن سکی تو کیا ہوا۔ سیاہ موتی بننے میں بھی کوئی حرج نہ تھا۔ کہ پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موتی تو وہ ہوتا ہے
جس کی کالک بھی چمکتی ہے۔
••••••••••••••••••••
صبح کا دودھیا رنگ اسلام آباد کی پہاڑیوں پہ چھایا ہوا تھا۔ گزشتہ رات کی بارش کے باعث سرمئی سڑکیں ابھی تک گیلی تھیں۔
اس نے کچن کی کھڑکی کا پردہ ہٹایا۔ جالی سے روشنی اور ہوا اندر جھانکنے لگی-تازگی کا احساس- تبھی دیوار میں نصب اوون کھانا پکنے کی گھنٹی بجانے لگا۔ وہ آگے آئی اور اوون کا دروازہ کھولا پھر دستانے والے ہاتھ سے ٹرے باہر نکالی۔
پگھلے ہوئے پنیر سے سجا گرم گرم پیزا تیار تھا۔ اس نے چہرہ ذرا جھکا کر سانس اندر اتاری۔ خستہ اشتہا انگیز خوشبو۔ جہان کو پسند آئے گا۔ تعریف نہیں کرے گا البتہ تھوڑا کھائے گا اور اس پہ بھی کئی دن ایکسرسائز کا دورانیہ بڑھا کر ان کیلوریز کو برن کرنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ اپنی فٹنس اور صحت کے بارے میں وہ آج بھی اتنا ہی کانشس تھا جتنا چار سال قبل ان کی شادی کے وقت تھا۔
اس نے ٹرے اندر دھکیلی اور اوون کا ڈھکن بند کیا۔ اب جہان آفس سے آ جائے گا تب ہی وہ اسے نکالے گی۔ ساتھ ہی اس نے پلٹ کر گھڑی دیکھی۔ ابھی اسے آنے میں کافی وقت تھا۔ آج ویسے ہی حیا کے سارے کام جلدی ختم ہو گئے تھے، اب کیا کرے؟ سبین پھوپھو کی کسی پرانی دوست کے بیٹے کی شادی تھی سو وہ کراچی گئی ہوئی تھیں۔ ویسے یہاں ان کے اپارٹمنٹ سے ابا اور تایا کے گھر زیادہ دور بھی نہیں تھے سو پہلے اس نے اماں کی طرف جانے کا سوچا پھر ارادہ ترک کر کے اپنے کمرے میں آگئی۔
جہان اور اس کا بیڈ روم بہت نفاست مگر سادگی سے سجا تھا۔ وہ تو اتنی آرگنائزڈ نہیں تھی مگر جہان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خراب' بے ترتیب چیزیں کبھی برداشت نہیں کرتا تھا۔ خدیجہ کا کمرہ گو کہ ساتھ والا تھا، مگر وہ ابھی اتنی چھوٹی تھی، بس تین سال کی کہ یہ کمرہ اس کا بھی تھا۔ اس وقت بھی وہ کارپٹ پہ بیٹھی بلاکس کو توڑ کر پھر سے جوڑنے میں لگی تھی۔ ٹوٹے بلاکس ایک طرف تھے جوڑے بلاکس ایک طرف۔ بےترتیبی میں بھی ترتیب تھی۔ باپ کی طرح وہ بھی Clutter نہیں پھیلاتی تھی۔
خدیجہ گل کیا بنا رہی ہے؟ وہ الماری کی طرف بڑھتے ہوئے اسے مخاطب کر کے بولی- اس نے لیپ ٹاپ کا بیگ نکالا، اور پلٹ کر اپنی بیٹی کو دیکھا' جو اس کے سوال پہ سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی تھی۔
وہ سلیو لیس سرخ فراک میں ملبوس تھی مگر نیچے سے اس نے کہنی تک آتی پنک شرٹ پہن رکھی تھی۔ جرابیں بھی پنک- نرم گہرے بھورے بال پونی میں بندھے تھے۔ (جہان اس کے بال کٹوانے نہیں دیتا تھا۔ اسے لمبے بال پسند تھے۔ مگر صرف خدیجہ کے۔ خدیجہ کی ماں کے بالوں کے بارے میں وہ رائے نہیں دیا کرتا تھا۔) گوری، گلابی رنگت، اٹھی ہوئی ناک، اور جہان جیسی آنکھیں- وہ جہان ہی کی بیٹی تھی- جہان کو لوگوں کا خدیجہ کو اس سے ملانا بہت پسند تھا- اس نے حیا سے صرف اچھا قد لیا تھا، مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تم سے زیادہ لمبا ہوں' اس کا قد بھی مجھ پہ گیا ہے۔ وہ شانے اچکا کر بے نیازی سے کہتا تھا۔
نتھنگ! خدیجہ گل نے زرا سے شانے اچکا کہ نفی میں سر ہلایا اور واپس کام میں مگن ہو گئی۔ حیا نے جب اس کا نام خدیجہ گل رکھا تھا تو جہان نے اعتراض نہیں کیا تھا۔
تم اپنی پسند کا نام رکھ لو' میں تو جو نام بھی بتاؤں گا' آگے سے کہو گی' اب اس نام کی آپنی پرانی دوست کا حلیہ بھی بتاؤ جس کی یاد میں یہ رکھنا چاہتے ہو۔ (ویسے اتنا غلط بھی نہیں تھا وہ۔) سو اس نے اپنی بیٹی کا نام خدیجہ گل رکھا تھا۔
میری تین بہترین دوستوں کی یاد میں!
خدیجہ ایک پری میچور بچی تھی مگر صد شکر وہ ہمیشہ صحت مند رہی تھی۔ سو وہ ان کے لیے واقعی خدیجہ گل تھی (یعنی وقت سے پہلے پیدا ہو جا نے والا گلاب
اپنے گلاب کو مسکرا کر دیکھتے ہوئے وہ الماری کا پٹ بند کرنے لگی، پھر یکایک ٹھہر گئی۔ جس خانے سے لیپ ٹاپ بیگ نکالا تھا، اس کے پیچھے لکڑی کی دیوار کا رنگ باقی الماری کے سے ذرا ہلکا لگ رہا تھا۔ اس نے اچنبھے سے اسے دیکھتے بیگ نیچے رکھا، اور ہاتھ بڑھا کر پیچھے لکڑی کو چھوا۔ کارڈ بورڈ تھا وہ۔ اف۔ اس نے دبے دبے غصے سے کارڈ بورڈ کے ٹکڑے کو دائیں بائیں کرنے کی کوشش کی اور ذرا سی محنت سے وہ ایک طرف سلائیڈ کر گیا۔
پیچھے ایک لاکر تھا۔ چند لمحے وہ خفگی سے اس بند تجوری کو دیکتی رہی جس میں پتا نہیں کیا تھا اور پھر کارڈ بورڈ کی سلائیڈ واپس جگہ پہ کر کے الماری بند کر دی۔
اس گھر میں پچھلے چار سالوں میں کوئی چار سو خفیہ خانے تو وہ ڈھونڈ ہی چکی تھی، پتہ نہیں اب کتنے تلاشنا باقی تھے۔ جہان سے پوچھنا بے کار تھا۔ وہ بہت حیران ہو کر آگے سے کہتا، ”اچھا؟ ویری اسٹرینج۔ پتہ نہیں مالک مکان نے اتنے لاکرز کیوں رکھے ہیں۔ کبھی بات کروں گا ان سے۔“
ہاں جیسے وہ تو اپنے شوہر کو جانتی ہی نہیں تھی نا۔
خدیجہ اسی محویت کے ساتھ بلاکس اوپر رکھ کر نیچے جوڑ رہی تھی۔ وہ لیپ ٹاپ کھولے بیڈ پہ آ بیٹھی اور ای میلز چیک کرنے لگی۔ ساتھ ساتھ خدیجہ پہ گاہے بگاہے نظر بھی ڈال لیتی تھی۔
ابھی یہی فراک، پنک شرٹ کے ساتھ پہنا کر پچھلے ہی ہفتے وہ اماں کی طرف گئی تو اماں حسب عادت خفا ہونے لگی تھی۔ اتنی سی بچی پہ تو پردہ نہیں لگتا نا۔ تم سلیو لیس پہنا دو گی تو کیا ہو جائے گا حیا؟
آف کورس اماں! اس پہ پردہ لاگو نہیں ہوتا، مگر میں اسے کوئی زبردستی کا اسکارف تو نہیں اوڑھا رہی نا، صرف آستین پورے پہناتی ہوں۔ اماں میں نہیں چاہتی کہ اس کی حیا مر جائے۔ اور یہ ان چیزوں کی عادی ہو جائے جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سے آگے اماں نہیں سنا کر تی تھیں۔ وہ آج بھی حیا کے پردے کی سب سے بڑی مخالف تھیں۔ لیکن وہ کہاں پرواہ کرتی تھی۔ ہاں کسی کا دل چیر کر تو ہم نے نہیں دیکھا ہوتا مگر وقت اور تجربہ یہ اندازہ کرنا سکھا دیتا ہے کہ کون دل سے کچھ کہہ رہا ہے اور کون زبان سے۔
لیپ ٹاپ کی چمکتی اسکرین اس کے چہرے کو بھی چمکا رہی تھی۔ وہ بہت توجہ سے اپنی ای میلز دیکھ رہی تھی۔ لمبے بال آدھے کیچر میں بندھے آدھے پیچھے کھلے کمر پہ پڑے تھے، چہرہ ویسا ہی تھا ملائی جیسا۔ اسے لگتا تھا کہ وہ ان چار سالوں میں پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو گئی ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوبصورت کے بجائے تین چار اور لفظ ہیں میری لغت میں مگر میں کہوں گا تو تمہیں برا لگے گا۔ ڈائننگ ٹیبل پر ہی ایک رات اس کے پوچھنے پر کھانا کھاتے ہوئے جہان نے بےنیازی سے کہا تھا۔ وہ سلگ کر رہ گئی۔
اگر تمہاری لغت کتابی شکل میں دستیاب ہوتی تو میں اسے واقعی تمہیں دے مارتی جہان۔ وہ بہت خفگی سے بولی تھی، مگر اس بات پہ اس کے ساتھ کرسی پر بیٹھی خدیجہ نے ابرو تان کر ناراضی سے بولی۔
نو حیا! وہ اس کے آئیڈیل باپ کو کچھ دے مارنے کی بات کر رہی تھی وہ کیسے برداشت کرتی اور بس اس کی یہ عادت خودبخود دم توڑ گئی تھی۔
ایک کلک کے بعد اگلا صفحہ کھلا تو وہ ٹھہر سی گئی۔ آنکھوں میں پہلے حیرت ابھری اور پھر اچنبھا۔
وہ مصر کی ایک یونیورسٹی کا پراسپیکٹس تھا جو اس کی درخواست پر اسے بھیجا گیا تھا۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ درخواست تو اس نے دی ہی نہیں تھی۔ کیا جہان نے اس کی طرف سے اپلائی کیا تھا؟
وہ الجھن بھری نگاہوں سے اس پراسپیکٹس کو پڑھنے لگی۔ وہ اکثر کہتی تھی کہ اب وہ ایل ایل ایم کرے گی، جہان ایسی باتوں پہ دھیان نہیں دیتا تھا کہ اپنی مرضی ہے، جو کرو۔ تو کیا اس نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ پتا نہیں۔
میلز چیک کر کے اس نے کلائی پہ بندھی گھڑی دیکھی۔ جہان کے آنے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ رسٹ واچ کے ساتھ اس کی کلائی میں وہ بریسلٹ نبھی بندھا تھا، اور اس میں پرویا سیاہ موتی جو آج بھی چمکدار تھا۔
سچا موتی۔
بس کرو خدیجہ! اب کچھ کھا لو۔ وہ لیپ ٹاپ بند کر کے اٹھی اور بیٹی کے سامنے سے بلاکس سمیٹنے لگی۔ خدیجہ کھانے کے معاملے میں ذرا چور تھی، بعض دفعہ زبردستی کرنی پڑتی تھی۔ ایسے ہی ایک دفعہ خدیجہ بہت بیمار تھی، اور حیا اسے کچھ کھلانا چاہتی تھی، مگر خدیجہ نے ہاتھ مار کر پیالہ گرا دیا تو اس نے بہت غصے سے کہا تھا۔
اللہ اللہ، بات کیوں نہیں مانتی ہو؟ میں کدھر جاؤں؟
اور خدیجہ نے سرخ چہرے اور ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ غصے سے کہا تھا۔ جہنم میں جاؤ!
اور وہ بالکل شل رہ گئی۔ بس وہ آخری دن تھا، پھر اس نے اپنا تکیہ کلام ترک کر دیا تھا۔ بس اب اور نہیں۔ بری عادتیں ہمیں خود ہی بدلنی پڑتی ہیں۔
خدیجہ کو کچن کاؤنٹر پر بٹھا کر اس نے فریج کا دروازہ کھولا تا کہ اندر سے کھیر نکالے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازے کے اندرونی طرف انڈوں کے خانے میں ایک پوسٹ اٹ نوٹ چپکا ہوا تھا۔ اس نے نوٹ اتارا اور سیدھا ہوتے ہوئے پڑھا۔
لنچ ٹائم پر کبوتروں کو یاد کرنے میں کوئی حرج تو نہیں؟
لنچ ٹائم؟ اس نے بے ساختہ گھڑی دیکھی۔ لنچ ٹائم تو ہونے والا تھا۔ اللہ اللہ یہ آدمی بھی نا۔
چلو خدیجہ بابا کے پاس جانا ہے۔ اس نے جلدی سے بچی کو کاؤنٹر ٹاپ سے اتارا۔ بابا سن کر اس کے چہرے پہ سارے جہان کی خوشی امڈ آئی۔ وہ فورا اندر کی طرف دوڑی۔ جب تک حیا دروازے کھڑکیاں بند کر کے آئی وہ حیا کا بڑا سا پرس کندھے پہ لٹکائے اس کا عبایا گھسیٹتی (فرش پہ جھاڑو دیتی) لا رہی تھی۔
تھینکس۔ اپنے جوتے پہنو اب۔ اس نے جلدی سے عبایا اور پرس اس سے لے لیا۔
ماہ سن کے کبوتروں کا ذکر پہلی دفعہ جہان نے ایک اطالوی ریسٹورنٹ میں کیا تھا۔ اس کے بعد سے اس ریسٹورنٹ کو وہ کبوتروں کے کوڈ نیم سے یاد کرتے تھے۔ لیکن کیا تھا اگر وہ صبح ناشتے پہ کہہ جاتا کہ لنچ باہر کریں گے مگر نہیں وہ انسانوں کی زبان میں بات ہی کب کرتا تھا؟ صبح سے اتنی دفعہ فریج کھولا' پتا نہیں کیوں نظر نہیں پڑی- اف!
آدھے گھنٹے بعد وہ اپنے حریر کے سیاہ عبایا میں ملبوس، خدیجہ کی انگلی تھامے' ریسٹورنٹ کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ اوپر آ کر دیکھا کونے والی میز خالی تھی۔ وہ وہیں کہیں ہو گا، مگر جب تک وہ بیٹھ نہیں جائے گی وہ نہیں آئے گا۔ ویسے وہ اس طرح باہر کم ہی بلاتا تھا یقیننا اب کوئی ایسی بات تھی جو وہ گھر میں نہیں کرنا چاہتا تھا۔
خدیجہ کو مخصوص کرسی پہ بٹھا کر' وہ جیسے ہی بیٹھی' اسے وہ سامنے سے آتا دکھائی دیا- گرے کوٹ بازو پہ ڈالے، کف موڑے، ٹائی ڈھیلی، سنجیدہ چہرہ اور ہمیشہ کی طرح ہینڈسم- اس کے سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہی وہ بولا تھا۔
مرحبا۔ کیا حال ہے؟ پھر موبائل، والٹ میز پہ رکھتے ہوئے اس نے جھک کر خدیجہ کے دونوں گال باری باری چومے۔ اپنی بہت سی ترک عادات کو وہ ترک نہیں کر سکے تھے۔
بابا یو نو واٹ؟ خدیجہ چہک کر اسے جلدی جلدی کچھ بتانے لگی اور وہ توجہ سے مسکراتے ہوئے سن رہا تھا۔ آدھی تو یقیننا "حیا" کی شکایات تھیں۔ نہیں! وہ مما کہنے کا تکلف نہیں کیا کرتی تھی۔ وہ وہی کہتی تھی جو اس کا باپ کہتا تھا۔
جب آرڈر سرو ہو چکا تو وہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہے؟
تمہید کو کٹ کرو جہان اور اب بتا بھی چکو کہ کیا بات ہے؟
نہیں' اتنا کچھ خاص نہیں ہے' بس ایسے ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ چھری کانٹے کی مدد سے اسٹیک کا ٹکڑا توڑتے ہوئے لاپرواہی سے بولا تھا۔
(بہت خاص بات ہے جو گھر پہ نہیں ہو سکتی تھی۔) یہ فقرہ اس نے کہا نہیں تھا مگر حیا توجہ سے سر ہلاتی
اس کو سنتے ہوئے خود ہی ذہن میں اس کے الفاظ ڈی کوڈ کر رہی تھی۔
اصل میں' میں کچھ آگے کا سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مجھے آگے کا اسائنمنٹ مل گیا ہے اور اوپر سے حکم آیا ہے)
کہ کچھ دن کے لیے تھوڑا سا گھومنے پھرنے باہر چلا جاوں۔
(یعنی کہ ایک دو سال تو کہیں نہیں گئے۔)
'ہوں!' حیا نے سمجھ کر سر ہلا کر اسے مزید بولنے دیا۔
زیادہ دور نہیں، قریب ہی-میل چیک کی تم نے آج؟ حیا نے بس ہاں میں گردن ہلائی۔ بولی کچھ نہیں۔
(قریب یعنی کہ مصر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہی سے میل آئی ہے نا تمہیں؟)
تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاراکیا خیال ہے؟ وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
(تم رہ لو گی اتنا عرصہ؟)
حیا نے شانے زرا سے اچکائے۔ جیسے تمہاری مرضی۔ دل البتہ بہت اداس ہو گیا تھا۔ تو بلآخر وہ وقت آن پہنچا تھا جب اسے ایک فوجی کی بیوی کا کردار ادا کرنا ہو گا-گھر پہ رہ کر برسوں انتظار کرنے والی بیوی کا- خدیجہ بڑی ہو جائے گی اور پھر پتا نہیں وہ کب اپنے باپ کو دیکھ پائے گی- زندگی بھی بہت غیر یقینی چیز تھی۔
خدیجہ تو میرے بغیر رہ لے گی ممی کیساتھ اس کی بہت بنتی ہے۔ وہ بھی حیا کی طرح شاید اس کی سوچ کو ڈی کوڈ کر کے بولا تھا-مگر تمہارے لیے مشکل ہو گا' جانتا ہوں تم مجھے مس کرو گی۔ وہ ذرا سا مسکرایا۔
(میں تمہیں مس کروں گا مگر قیامت تک اس بات کا اقرار نہیں کروں گا۔)
اچھا، تو پھر؟
پھر یہ کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے پلیٹ پرے کرتے ہوئے حیا کو دیکھا۔
میں ایک ایسا کور بنانا چاہ رہا ہوں جس میں مجھے شاید کسی یونیورسٹی میں کچھ عرصے کے لیے پڑھانا پڑھے۔ تمہیں بھی آگے پڑھنے کا شوق ہے' تو کیوں نہ ہم یوں کریں کہ خدیجہ کو ممی کے پاس چھوڑ دیں اور تم میری اسٹوڈنٹ بن کر میری کلاس میں ان رول ہو جاؤ۔
یہاں پہ آ کر اس نے مسکراہٹ دبائی۔ ہاں لیکن میں اس بات کی یقین دہانی کروں گا کہ تم میری سب سے زیادہ ڈانٹ کھانے والی اسٹوڈنٹ ہو گی۔
اچھا! اور تمہیں لگتا ہے کہ میں مان جاؤں گی؟ وہ زرا توقف کے بعد بولی تھی۔ ترکی کے ان پانچ ماہ کی طرح ایک دفعہ پھر تم ڈرائیونگ سیٹ پہ ہو اور ہر چیز کنٹرول کرو گے؟
ہاں تو؟
تو میرا خیال ہے کہ یہ ایک اچھا آئیڈیا ہے' مگر تھوڑی سی تبدیلی کی گنجائش ہے۔ اس سارے میں وہ پہلی دفعہ مسکرائی تھی۔ ہتھیلی تھوڑی تلے رکھے، وہ بہت مطمئن سی اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ ہم اپنی جگہیں swap کر لیتے ہیں۔
مطلب؟ وہ الجھا۔
مطلب کہ میں ٹیچر ہوں گی اور تم میرے اسٹوڈنٹ ہو گے۔ اور ہاں میں اس بات کی یقین دہانی کروں گی کہ تم میرے سب سے زیادہ ڈانٹ کھانے والے اسٹوڈنٹ ہو گے۔
اور تمہیں لگتا ہے کہ میں مان جاؤں گا؟
ہاں' کیونکہ اس دفعہ میں ڈرائیونگ سیٹ پہ ہونا چاہتی ہوں۔ اور تمہارے پاس فیصلہ کرنے کے دس سیکنڈ ہیں۔ اس نے ساتھ ہی گھڑی دیکھی۔
حیا! وہ جھنجھلایا تھا۔ خدیجہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر حیا کو اور پھر سے جہان کی پلیٹ سے اسٹیک کے ٹکڑے اٹھانے لگی (وہ ہمیشہ اس کی پلیٹ سے کھاتی تھی۔)
ڈیل؟ حیا نے آبرو اٹھا کر پوچھا۔ اور دوبارہ گھڑی دیکھی۔ وہ ناخوش سا لگ رہا تھا چند لمحے کیلئے کچھ سوچا اور پھر شائید اسے آپنا فائدہ نظر آیا تھا تبھی بولا۔
اوکے ڈیل! مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے نیپکن سے ہونٹ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ مگر یاد رکھنا کہ تم ہمیشہ مجھ سے دو قدم پیچھے رہو گی۔
حیا جانتی تھی کہ وہ صحیح کہہ رہا ہے مگر وہ بولی۔
دیکھتے ہیں- مگر تم یہ یاد رکھنا کہ کچھ دن بعد تم مجھے میڈم کہو گے۔
جواب میں وہ دھیمی آواز میں خفگی سے کچھ بڑبڑا کر والٹ کھولنے لگا۔ حیا نے آسودہ مسکراہٹ کیساتھ اسے دیکھا- خدیجہ ابھی تک اس کی پلیٹ سے کھا رہی تھی۔
مصر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قاہرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یونیورسٹی۔
کون جانے کہ اس نئے سفر پہ اسے اس کی بچھڑی ہوئی دوستیں واپس مل جائیں؟کون جانے کہ عائشے اور بہارے بھی مصر میں رہتی ہوں؟
کون جانے کہ عائشے اب بھی ویسی ہی سادہ اور مذہبی سی ہو جبکہ بہارے ایک خوبصورت ٹین ایج لڑکی بن گئی ہو؟
جہان خکو جاب کی وجہ سے ان سے رابطہ کرنے کی اجازت نہ تھی مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا نے اپنے سامنے موجود دونوں نفوس کو دیکھتے ہو زیر لب مسکراتے ہوئے سوچا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر کون جانے کہ حیا نے ان سے رابطہ کبھی ترک ہی نہ کیا ہو؟
کیونکہ چیزیں جتنی ناممکن ہوتی ہیں،
وہ اتنی ہی ممکن بھی تو ہوتی ہیں نا!
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون جانے!
(ختم شد)