top of page

عمران سیریز کا پہلا ناول - خوفناک عمارت

قسط نمبر دو

رات تاریک تھی۔۔۔ اور آسمان میں سیاہ بادلوں کے مرغولے چکراتے پھر رہے تھے۔
کیپٹن فیاض کی موٹر سائیکل اندھیرے کا سینہ چیرتی ہوئی چکنی سڑک پر پھسلتی جا رہی تھی۔ کیریئر پر عمران الوؤں کی طرح دیدے پھرا رہا تھا اور نتھنے پھڑک رہے تھے۔ دفعتا وہ فیاض کا شانہ تھپتھپا کر بولا۔
یہ تو طے شدہ بات ہے کہ کسی نے والد یک چشم کی کنجی کی نقل تیار کروائی ہے۔
ہوں۔ لیکن آخر کیوں؟
پوچھ کر بتاؤں گا۔
کس سے؟
بیکراں نیلے آسماں سے تاروں بھری رات سے، ہولے ہولے چلنے والی ٹھنڈی اداؤں سے۔۔۔لاحول ولا۔۔۔ہواؤں سے۔۔۔!
فیاض کچھ نہ بولا۔ عمران بڑبڑاتا رہا۔ لیکن شہید میاں کی قبر کی جاروب کشی کرنے والے کی کنجی۔۔۔۔ اس کا حاصل کرنا نسبتا آسان رہا ہوگا۔۔۔بہر حال ہمیں اس عمارت کی تاریخ معلوم کرنی ہے۔ شائد ہم اس کے نواح میں پہنچ گئے ہیں۔ موٹر سائیکل روک دو۔
فیاض نے موٹر سائیکل روک دی۔
انجن بند کردو۔
فیاض نے انجن بند کر دیا۔ عمران نے اس کے ہاتھ سے موٹرسائیکل لے کر ایک جگہ جھاڑی میں چھپا دی۔
آخر کرنا کیا چاہتے ہو۔ فیاض نے پوچھا۔ 
میں پوچھتا ہوں کہ تم مجھے کیوں ساتھ لئے پھرتے ہو۔ عمران بولا۔
وہ قتل۔۔۔ جو اس عمارت میں ہوا تھا۔
قتل نہیں حادثہ کہو۔
حادثہ!۔۔۔ کیا مطلب؟ فیاض حیرت سے بولا۔
مطلب کے لئے دیکھو غیاث اللغات صفحہ ایک سو بارہ۔۔۔ ویسے ایک سو بارہ پر بیگم پارہ یاد آرہی ہے۔ بیگم پارہ کے ساتھ امرت دھارا ضروری ہے ورنہ ڈیوڈ کی طرح چندیا صاف۔
فیاض جھنجھلا کر خاموش ہو گیا۔ 
دونوں آہستہ آہستہ اس عمارت کی طرف بڑھ رہے تھے۔ انہوں نے پہلے پوری عمارت کا چکر لگایا پھر صدر دروازے کے قریب پہنچ کر رک گئے۔
اوہ۔ عمران آہستہ سے بڑبڑایا۔ تالا بند نہیں ہے۔
کیسے دیکھ لیا تم نے۔۔۔ مجھے تو سجھائی نہیں دیتا۔ فیاض نے کہا۔
تم الو نہیں ہو۔ عمران بولا۔ چلو ادھر سے ہٹ جاؤ۔
دونوں وہاں سے ہٹ کر پھر مکان کی پشت پر آئے۔ عمران اوپر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ دیوار کافی اونچی تھی۔۔۔ اس نے جیب سے ٹارچ نکالی اور دیوار پر روشنی ڈالنے لگا۔
میرا بوجھ سنبھال سکو گے۔ اس نے فیاض سے پوچھا۔
میں سمجھا نہیں۔
تمہیں سمجھانے کے لئے تو باقاعدہ بلیک بورڈ اور چاک اسٹک چاہئے۔ مطلب یہ کہ میں اوپر جانا چاہتا ہوں۔
“کیوں؟ کیا یہ سمجھتے ہو کہ کوئی اندر موجود ہے۔“ فیاض نے کہا
نہیں یوں ہی جھک مارنے کا ارادہ ہے۔ چلو بیٹھ جاؤ۔ میں تمہارے کاندھوں پر کھڑا ہو کر۔۔۔
پھر بھی دیوار بہت اونچی ہے۔
یار فضول بحث نہ کرو۔ عمران اکتا کر بولا۔ ورنہ میں واپس جا رہا ہوں۔
طوعا و کرہا فیاض دیوار کی جڑ میں بیٹھ گیا۔ اماں جوتےتو اتار لو۔ فیاض نے کہا۔
لے کر بھاگنا مت۔ عمران نے کہا اور جوتے اتار کر اس کے کاندھوں پر کھڑا ہو گیا۔
چلو اب اٹھو۔
فیاض آہستہ آہستہ اٹھ رہا تھا۔۔۔ عمران کا ہاتھ روشندان تک پہنچ گیا۔۔۔۔اور دوسرے ہی لمحے وہ بندروں کی طرح دیوار پر چڑھ رہا تھا۔۔۔ فیاض منہ پھاڑے حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ عمران آدمی ہے یا شیطان۔ کیا یہ وہی احمق ہے جو بعض اوقات کسی کیچوے کی طرح بالکل بے ضرر معلوم ہوتا ہے۔
جن روشندانوں کی مدد سے عمران اوپر پہنچا تھا انہیں کے ذریعہ دوسری طرف اتر گیا۔ چند لمحے وہ دیوار سے لگا کھڑا رہا پھر آہستہ آہستہ اس طرف بڑھنے لگا جدھر سے کئی قدموں کی آہٹیں مل رہی تھیں۔
اور پھر اسے یہ معلوم کر لینے میں کوئی دشواری نہ ہوئی کہ وہ نامعلوم آدمی اسی کمرے میں تھے جس میں اس نے لاش دیکھی تھی۔ کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھالیکن دروازوں سے موم بتی کی ہلکی زرد روشنی چھن رہی تھی۔ اس کے علاوہ دالان بالکل تاریک تھا۔
عمران دیوار سے چپکا ہوا آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھنے لگا لیکن اچانک اس کی نظر شہید مرد کی قبر کی طرف اٹھ گئی۔ جس کا تعویذ اوپر اٹھ رہا تھا۔ تعویذ اور فرش کےدرمیان خلا میں ہلکی سی روشنی تھی اور اس خلا سے دو خوفناک آنکھیں اندھیرےمیں گھور رہی تھیں۔
عمران سہم کر رک گیا وہ آنکھیں پھاڑے قبر کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ اچانک قبر سے ایک چیخ بلند ہوئی۔ چیخ تھی یا کسی ایسی بندریا کی آواز جس کی گردن کسی کتے نے دبوچ لی ہو۔
عمران جھپٹ کر برابر والے کمرے میں گھس گیا۔ وہ جانتاتھا کہ اس چیخ کا ردعمل دوسرے کمرے والوں پر کیا ہوگا۔ وہ دروازے پر کھڑا قبر کی طرف دیکھ رہا تھا تعویذابھی تک اٹھا ہوا تھا اور دو خوفناک آنکھیں اب بھی چنگاریاں برسا رہی تھیں۔ دوسری چیخ کے ساتھ ہی برابر والے کمرے کا دروازہ کھلا ایک چیخ پھر سنائی دی جو پہلی سے مختلف تھی۔ غالبا یہ انہیں نامعلوم آدمیوں میں سے کسی کی چیخ تھی۔
بھوت بھوت۔ کوئی کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا اور پھر ایسا معلوم ہوا جیسے کئی آدمی صدر دروازے کی طرف بھاگ رہے ہوں۔
تھوڑی دیر بعد سناٹا چھاہوگیا۔ قبر کا تعویذ برابر ہو گیا تھا۔
عمران زمین پر لیٹ کر سینے کے بل رینگتا ہوا صدر دروازے کی طرف بڑھا کبھی کبھی وہ پلٹ کر قبر کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا لیکن پھر تعویذ نہیں اٹھا۔ 
صدر دروازہ باہر سے بند ہو چکا تھا۔ عمران اچھی طرح اطمینان کرلینے کے بعد پھر لوٹ پڑا۔
لاش والے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ لیکن اب وہاں اندھیرے کی حکومت تھی۔ عمران نے آہستہ سے دروازہ بند کرکے ٹارچ نکالی۔ لیکن روشنی ہوتے ہی۔۔۔
انا للہ و انا علیہ راجعون۔ وہ آہستہ سےبڑبڑایا۔ خدا تمہاری بھی مغفرت کرے۔
ٹھیک اسی جگہ جہاں وہ اس سے قبل بھی ایک لاش دیکھ چکا تھا۔ دوسری پڑی ہوئی دکھائی دی۔۔۔ اس کی پشت پر بھی تین زخم تھے جن سے خون بہہ بہہ کر فرش پر پھیل رہا تھا۔ عمران نے جھک کر اسے دیکھا یہ ایک خوش وضع اور کافی خوبصورت نوجوان تھا۔ اور لباس سے کسی اونچی سوسائٹی کا فرد معلوم ہوتا تھا۔ 
آج ان کی کل اپنی باری ہے۔ عمران درویشیانہ انداز میں بڑبڑاتا ہوا سیدھا ہو گیا۔ اس کے ہاتھ میں کاغذ کا ایک ٹکڑا تھا جو اس نے مرنے والے کی مٹھی سے بدقت تمام نکالا تھا۔
وہ چند لمحے اسے ٹارچ کی روشنی میں دیکھتا رہا۔ پھر معنی خیز انداز میں سر ہلا کر کوٹ کی اندورنی جیب میں رکھ لیا کمرے کے بقیہ حصوں کی حالت بعینہ وہی رہی تھی۔ جو اس نے پچھلی مرتبہ دیکھی تھی۔ کوئی خاص فرق نہیں نظر آرہا تھا۔ 
تھوڑی دیر بعد وہ پھر پچھلی دیوار سے نیچے اتر رہا تھا۔ آخری روشندان پر پیر رکھ کر اس نے چھلانگ لگا دی۔
تمہاری یہ خصوصیت بھی آج ہی معلوم ہوئی۔ فیاض آہستہ سے بولا۔
کیا اندر کسی بندریا سے ملاقات ہوگئی تھی۔
آواز پہنچی تھی یہاں تک۔ عمران نے پوچھا۔
ہاں۔ لیکن میں نے ان اطراف میں بندر نہیں دیکھے۔
ان کے علاوہ کوئی دوسری آواز؟
ہاں۔۔۔شائد تم ڈر کر چیخے تھے۔ فیاض بولا۔
لاش اس وقت چاہئے یا صبح؟ عمران نے پوچھا۔
لاش؟ فیاض اچھل پڑا۔ کیا کہتے ہو۔ کیسی لاش؟
کسی شاعر نے دوغزلہ عرض کر دیا ہے۔
اے دنیا کے عقلمند ترین احمق صاف صاف کہو۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
ایک دوسری لاش۔۔۔ تین زخم۔۔۔ زخموں کا فاصلہ پانچ انچ۔۔۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق ان کی گہرائی بھی یکساں نکلے گی۔
یار بیوقوف مت بناؤ۔ فیاض عاجزی سے بولا۔
جج صاحب والی کنجی موجود ہے۔ عقل مند بن جاؤ۔ عمران نے خشک لہجے میں کہا۔
لیکن یہ ہوا کس طرح؟
اسی طرح جیسے شعر ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن یہ شعر مجھے بھرتی کا معلوم ہوتا ہے جیسے میر کا یہ شعر
میر کے دین و مذہب کو کیا پوچھتے ہو اب اس نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
بھلا بتاؤ دیر میں کیوں بیٹھا جلدی کیوں نہیں بیٹھ گیا۔
دیر نہیں دیر ہے۔ یعنی بت خانہ۔ فیاض نے کہا پھر بڑبڑا کر بولا۔ لاحول ولا قوۃ میں بھی اسی لغویت میں پڑ گیا۔ وہ لاش عمارت کے کس حصے میں ہے۔
اسی کمرے میں اور ٹھیک اسی جگہ جہاں پہلی لاش ملی تھی۔
لیکن وہ آوازیں کیسی تھیں۔ فیاض نے پوچھا۔
اوہ نہ پوچھو تو بہتر ہے۔ میں نے اتنا مضحکہ خیر منظر آج نہیں دیکھا۔
یعنی۔
پہلے ایک گدھا دکھائی دیا۔ جس پر ایک بندریا سوار تھی۔۔۔ پھر ایک دوسرا سایہ نظر آیا جو یقینا کسی آدمی کا تھا۔ اندھیرے میں بھی گدھے اور آدمی میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ کیوں تمہارا کیا خیال ہے؟
مجھے افسوس ہے کہ تم ہر وقت غیر سنجیدہ رہتے ہو۔
یار فیاض سچ کہنا۔ اگر تم ایک آدمی کو کسی بندریا کا منہ چومتے دیکھو تو تمہیں غصہ آئے گا یا نہیں؟
فضول۔۔۔ وقت برباد کر رہے ہو تم۔
اچھا چلو۔۔۔ عمران اس کا شانہ تھپکتا ہوا بولا۔
وہ دونوں صدر دروازے کی طرف آئے۔
کیوں خوامخواہ پریشان کر رہے ہو۔ فیاض نے کہا۔
کنجی نکالو۔
دروازہ کھول کر دونوں لاش کے کمرے میں آئے۔ عمران نے ٹارچ روشن کی۔ لیکن وہ دوسرے ہی لمحے اس طرح سر سہلا رہا تھا جیسے دماغ پر دفعتا گرمی چڑھ گئی ہو۔
لاش غائب تھی۔
یہ کیا مذاق؟ فیاض بھنا کر پلٹ پڑا۔
ہوں۔ بعض عقلمند شاعر بھرتی کے شعر اپنی غزلوں سے نکال بھی دیا کرتے ہیں۔
یار عمران میں باز آیا تمہاری مدد سے۔
مگر مری جان یہ لو دیکھو۔۔۔ نقش فریادی ہے کسی کی شوخی تحریر کا۔۔۔ لاش غائب کرنے والے نے ابھی خون کے تازہ دھبوں کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ مرزا افتخار رفیع سودا یا کوئی صاحب فرماتے ہیں
قاتل ہماری لاش کو تشہیر دے ضرور
آئندہ تاکہ کوئی نہ کسی سے وفا کرے
فیاض جھک کر فرش پر پھیلے ہوئے خون کو دیکھنے لگا۔
لیکن لاش کیا ہوئی۔ وہ گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا۔
فرشتے اٹھا لےگئے۔ مرنے والا بہشتی تھا۔۔۔ مگر لاحول ولا۔۔۔ بہشتی۔۔۔ سقے کو بھی کہتے ہیں۔۔۔ اوہو فردوسی تھا۔۔۔ لیکن فردوسی۔۔۔ تو محمود غزنوی کی زندگی میں ہی مر گیا تھا۔۔۔ پھر کیا کہیں گے۔۔۔ بھئی بولو نا۔
یار بھیجا مت چاٹو۔
الجھن۔ بتاؤ جلدی۔۔۔ کیا کہیں گے۔۔۔ سر چکرا رہا ہے دورہ پڑ جائے گا۔
جنتی کہیں گے۔۔۔ عمران تم سے خدا سمجھے۔
جیئو!۔۔۔ ہاں تو مرنے والا جنتی تھا۔۔۔ اور کیا کہہ رہا تھا میں۔۔۔
تم یہیں رکے کیوں نہیں رہے۔ فیاض بگڑ کر بولا۔ مجھے آواز دے لی ہوتی۔
سنو یار! بندریا تو کیا میں نے آج تک کسی مکھی کا بھی بوسہ نہیں لیا۔ عمران مایوسی سے بولا۔
کیا معاملہ ہے۔ تم کئی بار بندریا کا حوالہ دے چکے ہو۔
جو کچھ ابھی تک بتایا ہے بالکل صحیح تھا۔۔۔ اس آدمی نے گدھے پر سے بندریا اتاری اسے کمرے میں لے گیا۔۔۔ پھر بندریا دو بار چیخی اور وہ آدمی ایک بار۔۔۔ اس کے بعد سناٹا چھا گیا۔۔۔ پھر لاش دکھائی دی۔ گدھا اور بندریا غائب تھے۔
سچ کہہ رہے ہو۔ فیاض بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
مجھے جھوٹا سمجھنے والے پر قہر خداوندی کیوں نہیں ٹوٹتا۔
فیاض تھوڑی دیر تک خاموش رہا پھر تھوک نگل کر بولا۔
تت۔۔۔ تو۔۔۔ پھر صبح پر رکھو۔
عمران کی نظریں پھر قبر کی طرف اٹھ گئیں۔ قبر کا تعویذ اٹھا ہوا تھا اور وہی خوفناک آنکھیں اندھیرے میں گھور رہی تھیں۔ عمران نے ٹارچ بجھا دی اور فیاض کو دیوار کی اوٹ میں دھکیل لے گیا نہ جانے کیوں وہ چاہتا تھا کہ فیاض کی نظر اس پر نہ پڑنے پائے۔
کک کیا؟ فیاض کانپ کر بولا۔
بندریا۔ عمران نے کہا۔
وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا کہ وہی چیخ ایک بار پھر سناٹے میں لہرا گئی۔
ارے باپ۔۔۔ فیاض کسی خوفزدہ بچے کی طرح بولا۔
آنکھیں بند کرلو۔ عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ ایسی چیزوں پر نظر پڑھنے سے ہارٹ فیل بھی ہو جایا کرتا ہے۔ ریوالور لائے ہو۔
نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ تم نے بتایا کب تھا۔
خیر کوئی بات نہیں!۔۔۔ اچھا ٹھہرو! عمران آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ قبر کا تعویذ برابر ہو چکا تھا اور سناٹا پہلے سے بھی کچھ زیادہ گہرا معلوم ہونے لگا تھا۔

ایک بج گیا تھا۔۔۔ فیاض عمران کو اس کی کوٹھی کے قریب اتار کر چلا گیا پائیں باغ کا دروازہ بند ہو کچا تھا۔ عمران پھاٹک ہلانے لگا۔۔۔ اونگھتے ہوئے چوکیدار نے ہانک لگائی۔
پیارے چوکیدار۔۔۔ میں ہوں تمہارا خادم علی عمران ایم۔ ایس۔ سی، پی۔ ایچ۔ ڈی لندن۔
کون چھوٹے سرکار۔ چوکیدار پھاٹک کے قریب آکر بولا۔ حضور مشکل ہے۔
دنیا کا ہر بڑا آدمی کہہ گیا ہے کہ وہ مشکل ہی نہیں جو آسان ہو جائے۔
بڑے سرکار کا حکم ہے کہ پھاٹک نہ کھولا جائے۔۔۔ اب بتائیے۔
بڑے سرکار تک کنفیوشس کا پیغام پہنچا دو۔
جی سرکار۔ چوکیدار بوکھلا کر بولا۔
ان سے کہہ دو کنفیوشس نے کہا ہے کہ تاریک رات میں بھٹکنے والے ایمانداروں کے لئے اپنے دروازے کھول دو۔
مگر بڑے سرکار نے کہا ہے۔۔۔
ہا۔۔۔ بڑے سرکار۔۔۔ انہیں چین میں پیدا ہونا تھا۔ خیر تم ان تک کنفیوشس کا یہ پیغام ضرور پہنچا دینا۔
میں کیا بتاؤں۔ چوکیدار کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا۔ اب آپ کہاں جائیں گے۔
فقیر یہ سہانی رات کسی قبرستان میں بسر کرے گا۔
میں آپ کے لئے کیا کروں؟
دعائے مغفرت۔۔۔ اچھا ٹاٹا۔ عمران چل پڑا۔
اور پھر آدھے گھنٹے بعد وہ ٹپ ٹاپ کلب میں داخل ہو رہا تھا لیکن دروازے میں قدم رکھتے ہی محکمہ سراغرسانی کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر سے مڈبھیڑ ہوگئی جو اس کے باپ کا کلاس فیلو بھی رہ چکا تھا۔ 
اوہو۔ صاحبزادے تو تم اب ادھر بھی دکھائی دینے لگے ہو؟
جی ہاں۔ اکثر فلیش کھیلنے کے لئے چلا آتا ہوں۔ عمران نے سر جھکا کر بڑی سعادت مندی سے کہا۔ 
فلیش۔ توکیا اب فلیش بھی۔۔۔؟
جی ہاں۔ کبھی کبھی نشے میں دل چاہتا ہے۔
اوہ۔۔۔ تو شراب بھی پینے لگے ہو۔
وہ کیا عرض کروں۔۔۔ قسم لے لیجئے جو کبھی تنہا پی ہو۔ اکثر شرابی طوائفیں بھی مل جاتی جو پلائے بغیر مانتی ہی نہیں۔۔۔!
لاحول ولا قوۃ۔۔۔ تو تم آج کل رحمٰن صاحب کا نام اچھال رہے ہو۔
اب آپ ہی فرمائیے۔ عمران مایوسی سے بولا۔ جب کوئی شریف لڑکی نہ ملے تو کیا کیا جائے۔۔۔ ویسے قسم لے لیجئے۔ جب کوئی مل جاتی ہے تو میں طوائفوں پر لعنت بھیج کر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔
شائد رحمٰن صاحب کو اس کی اطلاع نہیں۔۔۔ خیر۔۔۔
اگر ان سے ملاقات ہو تو کنفیوشس کا یہ قول دہرا دیجئے کہ جب کسی ایماندار کو اپنی ہی چھت کے نیچے پناہ نہیں ملتی تو وہ تاریک گلیوں میں بھونکنے والے کتوں سے ساز باز کر لیتا ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر اسے گھورتا ہوا باہر چلا گیا۔
عمران نے سیٹی بجانے کے انداز میں ہونٹ سکوڑ کر ہال کا جائزہ لیا۔۔۔ اس کی نظریں ایک میز پر رک گئیں۔ جہاں ایک خوبصورت عورت اپنے سامنے پورٹ کی بوتل رکھے بیٹھی سیگرٹ پی رہی تھی۔ گلاس آدھے سے زیادہ خالی تھا۔
عمران اس کے قریب پہنچ کر رک گیا۔
کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں لیڈی جہانگیر۔ وہ قدرے جھک کر پولا۔
اوہ تم۔ لیڈی جہانگیر اپنی داہنی بھوں اٹھا کر بولی۔ نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔
کوئی بات نہیں۔ عمران معصومیت سے مسکرا کر بولا۔ کنفیوشس نے کہا تھا۔۔۔
مجھے کنفیوشس سے کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔ وہ جھنجھلا کر بولی۔
تو ڈی۔ ایچ۔ لارنس کا ہی ایک جملہ سن لیجئے۔
میں کچھ نہیں سننا چاہتی۔۔۔ تم یہاں سے ہٹ جاؤ۔ لیڈی جہانگیر گلاس اٹھاتی ہوئی بولی۔
اوہ اس کا خیال کیجئے کہ آپ میری منگیتر بھی رہ چکی ہیں۔۔۔
شٹ اپ۔
آپ کی مرضی۔ میں تو صرف آپ کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ آج صبح ہی سے موسم بہت خوشگوار ہے۔ 
وہ مسکرا پڑی۔
بیٹھ جاؤ۔ اس نے کہا اور ایک ہی سانس میں گلاس خالی کر گئی۔
وہ تھوڑی دیر اپنی نشیلی آنکھیں عمران کے چہرے پر جمائے رہی اور پھر سیگرٹ کا ایک طویل کش لے کر آگے جھکتی ہوئی آہستہ سے بولی۔ 
میں اب بھی تمہاری ہوں۔
مگر۔۔۔ سر جہانگیر۔ عمران مایوسی سے بولا۔
دفن کرو اسے۔ 
ہائیں۔۔۔ تو کیا مر گئے؟ عمران گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔
لیڈی جہانگیر ہنس پڑی۔
تمہاری حماقتیں بڑی پیاری ہوتی ہیں۔ وہ اپنی بائیں آنکھ دبا کر بولی اور عمران نے شرما کر سر جھکا لیا۔
کیا پیو گے۔ لیڈی جہانگیر نے تھوڑی دیر بعد پوچھا۔
دہی کی لسی۔
دہی کی لسی۔۔۔ہی۔۔۔ ہی۔۔۔ ہی۔۔۔ شائد تم نشے میں ہو۔
ٹھہریئے۔ عمران بوکھلا کر بولا۔ میں ایک بجے کے بعد صرف کافی پیتا ہوں۔۔۔ چھ بجے شام سے بارہ بجے رات تک رم پیتا ہوں۔
رم۔ لیڈی جہانگیر منہ سکوڑ کر بولی۔ تم اپنے ٹیسٹ کے آدمی نہیں معلوم ہوتے۔ رم صرف گنوار پیتے ہیں۔
نشے میں یہ بھول جاتا ہوں کہ گنوار نہیں ہوں۔
تم آج کل کیا کر رہے ہو۔
صبر۔ عمران نے طویل سانس لے کر کہا۔
تم زندگی کے کسی حصے میں بھی سنجیدہ نہیں ہو سکتے۔ لیڈی جہانگیر مسکرا کر بولی۔
اوہ آپ بھی یہی سمجھتی ہیں۔ عمران کی آواز حد درجہ دردناک ہو گئی۔
آخر مجھ میں کون سے کیڑے پڑے ہوئے تھے کہ تم نے شادی سے انکار کر دیا تھا۔ لیڈی جہانگیر نے کہا۔
میں نے کب انکار کیا تھا۔ عمران رونی صورت بنا کر بولا۔ میں نے تو آپ کے والد صاحب کو صرف دو تین شعر سنائے تھے۔۔۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ انہیں شعر و شاعری سے دلچسپی نہیں۔ ورنہ میں نثر میں گفتگو کرتا۔
والد صاحب کی رائے ہے کہ تم پرلے سرے کے احمق اور بدتمیز ہو۔ لیڈی جہانگیر نے کہا۔
اور چونکہ سر جہانگیر ان کے ہم عمر ہیں۔۔۔ لہٰذا۔۔۔
شپ اپ۔ لیڈی جہانگیر بھنا کر بولی۔
بہرحال یونہی تڑپ تڑپ کر مر جاؤں گا۔ عمران کی آواز پھر دردناک ہو گئی۔
لیڈی جہانگیر بغور اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
کیا واقعی تمہیں افسوس ہے؟ اس نے آہستہ سے پوچھا۔
یہ تم پوچھ رہی ہو؟۔۔۔ اور وہ بھی اس طرح جیسے تمہیں میرے بیان پر شبہ ہو۔ عمران کی آنکھوں سے نہ صرف آنسو چھلک آئے بلکہ بہنے بھی لگے۔
ارر۔۔۔ نو مائی ڈیئر۔۔۔ عمران ڈارلنگ کیا کر رہے ہو تم! لیڈی جہانگیر نے اس کی طرف اپنا رومال بڑھایا۔
میں اس غم میں مر جاؤں گا۔ وہ آنسو خشک کرتا ہوا بولا۔
نہیں۔ تمہیں شادی کر لینی چاہئے۔ لیڈی جہانگیر نے کہا۔ اور میں۔۔۔ میں تو ہمیشہ تمہاری ہی رہوں گی۔ وہ دوسرا گلاس لبریز کر رہی تھی۔ 
سب یہی کہتے ہیں۔۔۔ کئی جگہ سے رشتے بھی آچکے ہیں۔۔۔ کئی دن ہوئے جسٹس فاروق کی لڑکی کا رشتہ آیا تھا۔۔۔ گھر والوں نے انکار کر دیا۔ لیکن مجھے وہ رشتہ کچھ کچھ پسند ہے۔
پسند ہے؟ لیڈی جہانگیر حیرت سے بولی۔ تم نے ان کی لڑکی کو دیکھا ہے۔
ہاں۔۔۔ وہی نا۔ جو ریٹا ہیورتھ اسٹائل کے بال بناتی ہے اور عموما تاریک چشمہ لگائے رہتی ہے۔
جانتے ہو وہ تاریک چشمہ کیوں لگاتی ہے؟ لیڈی جہانگیر نے پوچھا۔
نہیں۔ ۔۔۔ لیکن اچھی لگتی ہے۔
لیڈی جہانگیر نے قہقہہ لگایا۔
وہ اس لئے تاریک چشمہ لگاتی ہے کہ اس کی ایک آنکھ غائب ہے۔
ہائیں۔۔۔ عمران اچھل پڑا۔
اور غالبا اسی بناٗ پر تمھارے گھر والوں نے یہ رشتہ منظور نہیں کیا۔
تم اسے جانتی ہو۔عمران نے پوچھا۔
اچھی طرح سے۔ اور آج کل میں اسے بہت خوبصورت آدمی کے ساتھ دیکھتی ہوں۔ غالبا وہ بھی تمہاری ہی طرح احمق ہی ہوگا۔
کون ہے وہ میں اس کی گردن توڑ دوں گا۔ عمران بپھر کر بولا۔ پھر اچانک چونک کر خود ہی بڑبڑانے لگا۔ لاحول ولا قوۃ۔۔۔ بھلا مجھ سے کیا مطلب۔
بڑی حیرت انگیز بات ہے کہ انتہائی خوبصورت نوجوان ایک کانی لڑکی سے کورٹ کر لے۔
واقعی وہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہوگا۔ عمران نے کہا۔ کیا میں اسے جانتا ہوں؟
پتہ نہیں۔ کم از کم میں تو نہیں جانتی۔ اور جسے میں نہ جانتی ہوں وہ اس شہر کے کسی اعلٰی خاندان کا فرد نہیں ہو سکتا۔
کب سے دیکھ رہی ہو اسے۔ 
یہی کوئی پندرہ بیس دن دے۔
کیا وہ یہاں بھی آتے ہیں؟
نہیں۔۔۔ میں نے انہیں کیفے کامینو میں اکثر دیکھا ہے۔
مرزا غالب نے ٹھیک ہی کہا ہے۔
نالہ سرمایہ یک عالم و عالم کف خاک
آسمان بیضہ قمری نظر آتا ہے مجھے
مطلب کیاہوا۔ لیڈی جہانگیر نے کہا۔
پتہ نہیں۔ عمران نے بڑی معصومیت سے کہا اور پر خیال انداز میں میز پر طبلہ بجانے لگا۔
صبح تک بارش ضرور ہوگی۔ لیڈی جہانگیر انگڑائی لے کر بولی۔
سر جہانگیر آج کل نظر نہیں آتے۔ عمران نے کہا۔
ایک ماہ کے لئے باہر گئے ہوئے ہیں۔ 
گڈ۔ عمران مسکرا کر بولا۔
کیوں۔ لیڈی جہانگیر اسے معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگی۔
کچھ نہیں۔ کنفیوشس نے کہا ہے۔۔۔
مت بور کرو۔ لیڈی جہانگیر چڑ کر بولی۔
ویسے ہی۔۔۔ بائی دی وے۔۔۔ کیا تمہارا رات بھر کا پروگرام ہے۔
نہیں ایسا تو نہیں۔۔۔ کیوں؟
میں کہیں تنہائی میں بیٹھ کر رونا چاہتا ہوں۔
تم بالکل گدھے ہو بلکہ گدھے سے بھی بدتر۔
میں بھی یہی محسوس کرتا ہوں۔۔۔ کیا تم مجھے اپنی چھت کے نیچے رونے کا موقع دوگی۔ کفیوشس نے کہا ہے۔۔۔
عمران۔۔۔ پلیز۔۔۔ شٹ اپ۔
لیڈی جہانگیر میں ایک لنڈورے مرغ کی طرح اداس ہوں۔
چلو اٹھو۔ لیکن اپنے کنفیوشس کو یہیں چھوڑ چلو۔ بوریت مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔
تقریبا آدھ گھنٹے بعد عمران لیڈی جہانگیر کی خواب گاہ میں کھڑا اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔ لیڈی جہانگیر کے جسم پر صرف شب خوابی کا لبادہ تھا۔ وہ انگڑائی لے کر مسکرانے لگی۔
کیا سوچ رہے ہو۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
میں سوچ رہا تھا کہ آخر کسی مثلث کے تینوں زاویوں کا مجمودہ دو زاویہ قائمہ کے برابر ہی کیوں ہوتا ہے۔
پھر بکواس شروع کر دی تم نے۔ لیڈی جہانگیر کی نشیلی آنکھوں میں جھلاہٹ جھانکنے لگی۔
مائی ڈیئر لیڈی جہانگیر۔ اگر میں یہ ثابت کردوں کہ زاویہ قائمہ کوئی چیز ہی نہیں ہے تو دنیا کا بہت بڑا آدمی ہوسکتا ہوں۔
جہنم میں جا سکتے ہو۔ لیڈی جہانگیر برا سا منہ بنا کر بڑبڑائی۔
جہنم۔ تو کیا تمہیں جہنم پر یقین ہے۔
عمران میں تمہیں دھکے دے کر نکال دوں گی۔
لیڈی جہانگیر۔ مجھے نیند آرہی ہے۔
سر جہانگیر کی خواب گاہ میں ان کا سلیپنگ سوٹ ہوگا۔۔۔ پہن لو۔
شکریہ۔۔۔ خواب گاہ کدھر ہے؟
سامنے والا کمرہ۔ لیڈی جہانگیر نے کہا اور بے چینی سے ٹہلنے لگی۔
عمران نے سر جہانگیر کی خواب گاہ میں گھس کر دروازہ اندر سے بند کر لیا لیڈی جہانگیر ٹہلتی رہی۔ دس منٹ گزر گئے۔ آخر وہ جھنجھلا کر سر جہانگیر کی خواب گاہ کے دروازے پر آئی۔ دھکا دیا لیکن اندر سے چٹخنی چڑھا دی گئی تھی۔
کیا کرنے لگے عمران؟ اس نے دروازہ تھپتھپانا شروع کر دیا لیکن جواب ندارد۔ پھر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے عمران خراٹے بھر رہا ہو اس نے دروازے سے کان لگا دیئے۔ حقیقتا وہ خراٹوں ہی کی آواز تھی۔
پھر دوسرے لمحے وہ ایک کرسی پر کھڑی ہو کر دروازے کے اوپری شیشہ سے کمرے کے اندر جھانک رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ عمران کپڑوں سمیت سر جہانگیر کے پلنگ پر پڑا خراٹے لے رہا ہے اور اس نے بجلی بھی نہیں بجھائی تھی۔ وہ اپنے ہونٹوں کو دائرہ کی شکل میں سکوڑےعمران کو کسی بھوکی بلی کی طرح گھور رہی تھی۔ پھر اس نے ہاتھ مار کر دروازے کا ایک شیشہ توڑ دیا۔۔۔ نوکر شائد شاگرد پیشے میں سوئے ہوئے تھے۔ ورنہ شیشے کے چھناکے ان میں سے ایک آدھ کو ضرور جگا دیتے ویسے یہ اور بات ہے کہ عمران کی نیند پر ان کا ذرہ برابر بھی اثر نہ پڑا ہو۔
لیڈی جہانگیر نے اندر ہاتھ ڈال کر چٹخنی گرا دی۔ نشے میں تو تھی ہی۔ جسم کا پورا زور دروازے پر دے رکھا تھا۔ چٹخنی گرتے ہی دونوں پٹ کھل گئے اور وہ کرسی سمیت خواب گاہ میں جا گری۔
عمران نے غنودہ آواز میں کراہ کر کروٹ بدلی اور بڑبڑانے لگا۔۔۔ ہاں ہاں سنتھیلک گیس کی بو کچھ میٹھی میٹھی سی ہوتی ہے۔۔۔
پتہ نہیں وہ جاگ رہا تھا یا خواب میں بڑبڑایا تھا۔
لیڈی جہانگیر فرش پر بیٹھی اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیر کر بسور رہی تھی۔ دو تین منٹ بعد وہ اٹھی اور عمران پر ٹوٹ پڑی۔
سور کمینے۔۔۔ یہ تمہاری باپ کا گھر ہے؟۔۔۔ اٹھو۔۔۔ نکلو یہاں سے۔ وہ اسے بری طرح جھنجھوڑ رہی تھی۔ عمران بوکھلا کر اٹھ بیٹھا۔
ہائیں۔ کیا سب بھاگ گئے۔۔۔
دور ہو جاؤ یہاں سے۔ لیڈی جہانگیر نے اس کا کالر پکڑ کر جھٹکا مارا۔
ہاں۔ ہاں۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔ عمران اپنا گریبان چھڑا کر پھر لیٹ گیا۔
اس بار لیڈی جہانگیر نے اسے بالوں سے پکڑ کر اٹھایا۔
ہائیں۔۔۔ کیا ابھی نہیں گیا۔ عمران جھلا کر اٹھ بیٹھا۔ سامنے ہی قد آدم آئینہ رکھا ہوا تھا۔
اوہ تو آپ ہیں۔ وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر بولا۔۔۔ پھر اس طرح مکا بنا کر اٹھا جیسے اس پر حملے کرے گا۔۔۔ اس طرح آہستہ آہستہ آئینے کی طرف بڑھ رہا تھا جیسے کسی دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہو۔ پھر اچانک سامنے سے ہٹ کر ایک کنارے پر چلنے لگا۔ آئینے کے سامنے پہنچ کر دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔ لیڈی جہانگیر کی طرف دیکھ اس طرح ہونٹوں پر انگلی رکھی جیسے وہ آئینے کے قریب نہیں بلکہ کسی دروازہ سے لگا کھڑا ہو اور اس بات کا منتظر ہو کہ جیسے ہی دشمن دروازے میں قدم رکھے گا وہ اس پر حملہ کربیٹھے گا۔ لیڈی جہانگیر حیرت سے آنکھیں پھاڑے اس کی یہ حرکت دیکھ رہی تھی۔۔۔ لیکن قبل اس کے وہ کچھ کہتی، عمران نے پینترہ بدل کر آئینہ پر ایک گھونسہ رسید ہی کر دیا۔۔۔ ہاتھ میں جو چوٹ لگی تو ایسا معلوم ہوا جیسے وہ یک بیک ہوش میں آگیا ہو۔
لاحول ولا قوۃ۔ وہ آنکھیں مل کر بولا اور کھیسانی ہنسی ہنسنے لگا۔
اور پھر لیڈی جہانگیر کو بھی ہنسی آگئی۔۔۔ لیکن وہ جلد ہی سنجیدہ ہوگئی۔
تم یہاں کیوں آئے تھے؟
اوہ۔ میں شائد بھول گیا۔۔۔ شائد اداس تھا۔۔۔ لیڈی جہانگیر تم بہت اچھی ہو۔ میں رونا چاہتا ہوں۔
اپنے باپ کی قبر پر رونا۔۔۔ نکل جاؤ یہاں سے۔
لیڈی جہانگیر۔۔۔ کنفیوشس۔۔۔
شپ اپ۔ لیڈی جہانگیر اتنے زور سے چیخی کہ اس کی آواز بھرا گئی۔
بہت بہتر۔ عمران سعادت مندانہ انداز میں سر ہلا کر بولا۔ گویا لیڈی جہانگیر نے بہت سنجیدگی اور نرمی سے اسے کوئی نصیحت کی ہو۔
یہاں سے چلے جاؤ۔
بہت اچھا۔ عمران نے کہا اور اس کمرے سے لیڈی جہانگیر کی خواب گاہ میں چلا آیا۔
وہ اس کی مسہری پر بیٹھنے ہی جا رہا تھا کہ لیڈی جہانگیر طوفان کی طرح اس کے سر پر پہنچ گئی۔
اب مجبورا مجھے نوکروں کو جگانا پڑے گا؟ اس نے کہا۔
اوہو تم کہاں تکلیف کروگی۔ میں جگائے دیتا ہوں۔ کوئی خاص کام ہے کیا؟
عمران میں تمہیں مار ڈالوں گی؟ لیڈی جہانگیر دانت پیس کر بولی۔
مگر کسی سے اس کا تذکرہ مت کرنا۔۔۔ ورنہ پولیس۔۔۔ خیر میں مرنے کے لئے تیار ہوں؟ اگر چھری تیز نہ ہو تو تیز کردوں۔ ریوالور سے مارنے کا ارادہ ہے تو میں اس کی رائے نہ دوں گا۔ سناٹے میں آواز دور تک پھیلتی ہے۔ البتہ زہر ٹھیک رہے گا۔
عمران خدا کے لئے۔ لیڈی جہانگیر بے بسی سے بولی۔
خدا کیا میں اس کے ادنٰے غلاموں کے لئےبھی اپنی جان قربان کر سکتا ہوں۔۔۔ جو مزاج یار میں آئے۔
تم چاہتے کیا ہو۔ لیڈی جہانگیر نے پوچھا۔
دو چیزوں میں سے ایک۔۔۔
کیا؟
موت یا صرف دو گھنٹے کی نیند۔
کیا تم گدھے ہو؟
مجھے سے پوچھتیں تو پہلے ہی بتا دیتا کہ بالکل گدھا ہوں۔
جہنم میں جاؤ۔ لیڈی جہانگیر اور نہ جانے کیا بکتی ہوئی سر جہانگیر کی خواب گاہ میں چلی گئی۔ عمران نے اٹھ کر اندر سے دروازہ بند کیا جوتے اتارے اور کپڑوں سمیت بستر میں گھس گیا۔

یہ سوچنا قطعی غلط ہوگا کہ عمران کے قدم یونہی بلا مقصد ٹپ ٹاپ کلب کی طرف اٹھ گئے تھے۔ اسے پہلے ہی سے اطلاع تھی کہ سر جہانگیر آج کل شہر میں مقیم نہیں ہے اوروہ یہ بھی جانتا تھا کہ ایسے مواقع پر لیڈی جہانگیر اپنی راتیں کہاں گزارتی ہے۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ لیڈی جہانگیر کسی زمانے میں اس کی منگیتر رہ چکی تھی اور خود عمران کی حماقتوں کے نتیجے میں یہ شادی نہ ہوسکی۔
سر جہانگیر کی عمر تقریبا ساٹھ سال ضرور رہی ہوگی لیکن قوٰی کی مضبوطی کی بناٗ پر بہت زیادہ بوڑھا نہیں معلوم ہوتا تھا۔۔۔
عمران دم سادھے لیٹا رہا۔۔۔ آدھا گھنٹہ گذر گیا۔۔۔ اس نے کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی دیکھی اور پھر اٹھ کر خواب گاہ کی روشنی بند کردی۔ پنجوں کے بل چلتا ہوا سر جہانگیر کی خواب گاہ کے دروازے پر آیا جو اندر سے بند تھا اندر گہری نیلی روشنی تھی۔ عمران نے دروازے کے شیشے سے اندر جھانکا لیڈی جہانگیر مسہری پر اوندھی پڑی بے خبر سو رہی تھی اور اس کے ماتھے سے فاکس ٹیریئر کا سر اس کی کمر پر رکھا ہوا تھا اور وہ بھی سو رہا تھا۔
عمران پہلے کی طرح احتیاط سے چلتا ہوا سر جہانگیر کی لائبریری میں داخل ہوا۔ 
یہاں اندھیرا تھا۔ عمران نے جیب سے ٹارچ نکال کر روشن کی یہ ایک کافی طویل و عریض کمرہ تھا۔ چاروں طرف بڑی بڑی الماریاں تھیں اور درمیان میں تین لمبی لمبی میزیں۔ بہرحال یہ ایک ذاتی اور نجی لائبریری سے زیادہ ایک پبلک ریڈنگ روم معلوم ہو رہا تھا۔
مشرقی سرے پر ایک لکھنے کی بھی میز تھی۔ عمران سیدھا اسی کی طرف گیا جیب سے پرچہ نکالا جو اسے اس خوفناک عمارت میں پراسرار طور پر مرنے والے کے پاس سے ملا تھا وہ اسے بغور دیکھتا رہا پھر میز پر رکھے ہوئے کاغذات الٹنے پلٹنے لگا تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑے ایک رائٹنگ پیڈ کے لیٹر ہیڈ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں دبے ہوئے کاغذ کے سرنامے اور اس میں کوئی فرق نہ تھا۔ دونوں پر یکساں قسم کے نشانات تھے اور یہ نشانات سر جہانگیر کے آباؤ اجداد کے کارناموں کی یادگار تھے جو انہوں نے مغلیہ دور حکومت میں سرانجام دیے تھے سرجہانگیر ان نشانات کو اب تک استعمال کر رہا تھا۔ اس کے کاغذات پر اس کے نام کی بجائے عموما یہی نشانات چھپے ہوئے تھے۔
عمران نے میز پر رکھے کاغذات کو پہلی سی ترتیب میں رکھ دیا اور چپ چاپ لائبریری سے نکل آیا۔ لیڈی جہانگیر کے بیان کے مطابق سرجہانگیر ایک ماہ سے غائب تھے۔۔۔ تو پھر!
عمران کا ذہن چوکڑیاں بھرنے لگا۔۔۔ آخر ان معاملات سے جہانگیر کا کیا تعلق۔ خواب گاہ میں واپس آنے سے پہلے اس نے ایک بار پھر اس کمرے میں جھانکا جہاں لیڈی جہانگیر سو رہی تھی۔۔۔ اور مسکراتا ہوا اس کمرے میں چلا آیا جہاں اسے خود سونا تھا۔
صبح نو بجے لیڈی جہانگیر اسے بری طرح جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگا رہی تھی۔
ول ڈن! ول ڈن۔ عمران ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا اور مسہری پر اکڑوں بیٹھ کر اس طرح تالی بجانے لگا جیسے کسی کھیل کے میدان میں بیٹھا ہوا کھلاڑیوں کو داد دے رہا ہو۔
یہ کیا بے ہودگی! لیڈی جہانگیر جھنجھلا کر بولی۔
اوہ۔ ساری۔ وہ چونک کر لیڈی جہانگیر کو متحیرانہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
ہلو۔ لیڈی۔۔۔ جہانگیر۔ فرمائیے۔ صبح ہی صبح کیسے تکلیف کی۔
تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا؟ لیڈی جہانگیر نے تیز لہجے میں کہا۔
ہو سکتا ہے۔ عمران نے برا سا منہ بنا کر کہا۔ اور اپنے نوکروں کے نام لے لے کر انہیں پکارنے لگا۔
لیڈی جہانگیر اسے چند لمحے گھورتی رہی پھر بولی۔
براہ کرم اب تم یہاں سے چلے جاؤ۔ ورنہ۔۔۔
ہائیں تم مجھے میرے گھر سے نکالنے والی کون ہو؟ عمران اچھل کر کھڑا ہوگیا۔
یہ تمہارے باپ کا گھر ہے؟ لیڈی جہانگیر کی آواز بلند ہوگئی۔
عمران چاروں طرف حیرانی سے دیکھنے لگا۔ اس طرح اچھلا جیسے اچانک سر پر کوئی چیز گری ہو۔
ارے میں کہاں ہوں۔ کمرہ تو میرا نہیں معلوم ہوتا۔
اب جاؤ۔ ورنہ مجھے نوکروں کو بلانا پڑے گا۔
نوکروں کو بلا کر کیا کرو گی؟ میرے لائق کوئی خدمت۔ ویسے تم غصے میں بہت حسین لگتی ہو۔
شٹ اپ۔
اچھا کچھ نہیں کہوں گا۔ عمران بسور کر بولا اور پھر مسہری پر بیٹھ گیا۔
لیڈی جہانگیر اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورتی رہی۔ اس کی سانس پھول رہی تھی اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ عمران نے جوتے پہنے۔ کھونٹی سے کوٹ اتارا اور پھر بڑے اطمینان سے لیڈی جہانگیر کی سنگھار میز پر جم گیا اور پھر اپنے بال درست کرتے وقت اس طرح گنگنا رہا تھا جیسے سچ مچ اپنے کمرے میں ہی بیٹھا ہو۔ لیڈی جہانگیر دانت پیس رہی تھی لیکن ساتھ ہی بے بسی کی ساری علامتیں بھی اس کے چہرے پر امنڈ آئی تھیں۔
ٹاٹا۔ عمران دروازے کے قریب پہنچ کر مڑا اور احمقوں کی طرح مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔ اس کا ذہن اس وقت بالکل صاف ہو گیا تھا۔ پچھلی رات کی معلومات ہی اس کی تشفی کے لئے کافی تھیں۔ سرجہانگیر کے لیٹر ہیڈ کا پراسرار طور پر مرے ہوئے آدمی کے ہاتھ میں پایا جانا اس پر دلالت کرتا تھا کہ اس معاملہ سے سر جہانگیر کا کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔ اور شائد سر جہانگیر شہر ہی میں موجود تھا۔ ہو سکتا ہے کہ لیڈی جہانگیر اس سے لاعلم رہی ہو۔
اب عمران کو اس خوش رو آدمی کی فکر تھی جسے ان دنوں جج صاحب کی لڑکی کے ساتھ دیکھا جا رہا تھا۔
دیکھ لیا جائے گا۔ وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔
اس کا ارادہ تو نہیں تھا کہ گھر کی طرف جائے مگر جانا ہی پڑا۔ گھر گئے بغیر موٹر سائیکل کس طرح ملتی اسے یہ بھی تو معلوم کرنا تھا کہ وہ ؔخوفناک عمارتؔ دراصل تھی کسی کی؟ اگر اس کا مالک گاؤں والوں کے لئے اجنبی تھا تو ظاہر ہے کہ اس نے وہ عمارت خود ہی بنوائی ہوگی۔ کیونکہ طرز تعمیر بہت پرانا تھا۔ لہٰذا ایسی صورت میں یہی سوچا جا سکتا تھا کہ اس نے بھی اسے کسی سے خریدا ہی ہوگا۔ 
گھر پہنچ کر عمران کی شامت نے اسے پکارا۔ بڑی بی شائد پہلے ہی سے بھری بیٹھی تھیں۔ عمران کی صورت دیکھتے ہیں آگ بگولہ ہو گئیں۔
کہاں تھے رے۔۔۔ کمینے سور!
اوہو۔ اماں بی۔ گڈ مارننگ۔۔۔ ڈیئرسٹ۔
مارننگ کے بچے میں پوچھتی ہوں رات کہاں تھا۔
وہ اماں بی کیا بتاؤں۔ وہ حضرت مولانا۔۔۔ بلکہ مرشدی و مولائی سیدنا جگر مراد آبادی ہیں نا۔۔۔ لاحول ولا قوۃ۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ مولوی تفضل حسین قبلہ کی خدمت میں رات حاضر تھا۔ اللہ اللہ۔۔۔ کیا بزرگ ہیں۔۔۔ اماں بی۔۔۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ میں آج سے نماز شروع کر دوں گا۔
ارے۔۔۔ کمینے۔۔۔ کتے۔۔۔ تو مجھے بیوقوف بنا رہا ہے۔ بڑی بی جھنجھلائی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں۔
ارے توبہ اماں بی۔ عمران زور سے اپنا منہ پیٹنے لگا۔ آپ کے قدموں کے نیچے میری جنت ہے۔
اور پھر ثریا کو آتے دیکھ کر عمران نے جلد سے جلد وہاں سے کھسک جانا چاہا۔ بڑی بی برابر بڑبڑائے جا رہی تھیں۔
اماں بی۔ آپ خوامخواہ اپنی طبیعت خراب کر رہی ہیں۔ دماغ میں خشکی بڑھ جائے گی۔ ثریا نے آتے ہی کہا۔ اور یہ بھائی جان۔ ان کو خدا کے حوالے کیجئے۔
عمران کچھ نہ بولا۔ اماں بی کو بڑبڑاتا چھوڑ کر تو نہیں جا سکتا تھا؟
شرم نہیں آتی۔ باپ کی پگڑی اچھالتے پھر رہے ہیں۔ ثریا نے اماں بی کے کسی مصرعہ پر گرہ لگائی۔
ہائیں تو کیا اباجان نے پگڑی باندھنا شروع کر دی؟ عمران پر مسرت لہجے میں چیخا۔
اماں بھی اختلاج کی مریض تھیں۔ اعصاب بھی کمزور تھے لہٰذا انہیں غصہ آگیا۔ ایسی حالت میں ہمیشہ ان کا ہاتھ جوتی کی طرف جاتا تھا۔ عمران اطمینان سے زمین پر بیٹھ گیا۔۔۔ اور پھر تڑاتڑ کی آواز کے علاوہ اور کچھ نہیں سن سکا۔ اماں بی جب اسے جی بھر کے پیٹ چکیں تو انہوں نے رونا شروع کردیا۔۔۔ ثریا انہیں دوسرے کمرے میں گھسیٹ لے گئی۔۔۔ عمران کی چچا زاد بہنوں نے اسے گھیر لیا۔ کوئی اس کے کوٹ سے گرد جھاڑ رہی تھی اور کوئی ٹائی کی گرہ درست کر رہی تھی۔ ایک نے سر پر چمپی شروع کر دی۔
عمران نے جیب سے سیگرٹ نکال کر سلگائی اور اس طرح کھڑا رہا جیسے وہ بالکل تنہا ہو۔ دوچار کش لے کر اس نے اپنے کمرے کی راہ لی اور اسکی چچا زادہ بہنیں زرینہ اور صوفیہ ایک دوسرے کا منہ ہی دیکھتی رہ گئیں۔عمران نے کمرے میں آکر فلٹ ہیٹ ایک طرف اچھال دی۔ کوٹ مسہری پر پھینکا اور ایک آرام کرسی پر گر کر اونگھنے لگا۔
رات والا کاغذ اب بھی اس کے ہاتھ میں دبا ہوا تھا۔ اس پر کچھ ہندسے لکھے ہوئے تے۔ کچھ پیمائشیں تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی بڑھئی نے کوئی چیز گھڑنے سے پہلے اس کے مختلف حصوں کے تناسب کا حساب لگایا ہو۔ بظاہر اس کاغذ کے ٹکڑے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ لیکن اس کا تعلق ایک نامعلوم لاش سے تھا۔ ایسے آدمی کی لاش سے جس کا قتل بڑے پراسرار حالات میں ہوا تھا۔ ان حالات میں یہ دوسرا قتل تھا۔
عمران کو اس سلسلے میں پولیس یا محکمہ سراغ رسانی کی مشغولیات کا کوئی علم نہیں تھا اس نے فیاض سے یہ بھی معلوم کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی کہ پولیس نے ان حادثات کے متعلق کیا رائے قائم کی ہے۔ عمران نے کاغذ کا ٹکڑا اپنے سوٹ کیس میں ڈال دیا اور دوسرا سوٹ پہن کر دوبارہ باہر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی موٹر سائیکل اسی قصبہ کی طرف جا رہی تھی۔ جہاں وہ ؂خوفناک عمارت؂ واقع تھی قصبے میں پہنچ کر اس بات کا پتہ لگانے میں کوئی دشواری نہ ہوئی کہ وہ عمارت پہلے کس کی ملکیت تھی۔ عمران اس خاندان کے ایک ذمہ دار آدمی سے ملا جس نے عمارت جج صاحب کے ہاتھ فروخت کی تھی۔ 
اب سے آٹھ سال پہلے کی بات ہے۔ اس نے بتایا۔ ایاز صاحب نے وہ عمارت ہم سے خود خریدی تھی۔ اس کے بعد مرنے سے پہلے اسے شہر کے کسی جج صاحب کے نام قانونی طور پر منتقل کرگئے۔
ایاز صاحب کون تھے۔ پہلے کہاں رہتے تھے۔ عمران نے سوال کیا۔
ہمیں کچھ نہیں معلوم۔ عمارت خریدنے کے بعد وہ تین سال تک زندہ رہے لیکن کسی کو کچھ نہ معلوم ہو سکتا کہ وہ کون تھے اور پہلے کہاں رہتے تھے۔ ان کے ساتھ ایک نوکر تھا جو اب بھی عمارت کے سامنے ایک حصے میں مقیم ہے۔ 
یعنی قبر کا وہ مجاور۔ عمران نے کہا اور بوڑھے آدمی نے اثبات میں سر ہلایا وہ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔ 
وہ قبر بھی ایاز صاحب ہی نے دریافت کی تھی۔ ہمارے خاندان والوں کو تو اس کا علم نہیں تھا۔ وہاں پہلے کوئی قبر نیہں تھی۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔ 
اوہ۔ عمران گھورتا ہوا بولا۔ بھلا قبر کس طرح دریافت ہوئی تھی۔
انہوں نے خواب میں دیکھا کہ اس جگہ کوئی شہید مرد دفن ہیں۔ دوسرے ہی دن قبر بنانی شروع کر دی۔
خود ہی بنانی شروع کر دی؟ عمران نے حیرت سے پوچھا۔
جی ہاں وہ اپنا سارا کام خود ہی کرتے تھے۔ کافی دولت مند بھی تھے۔ لیکن انہیں کنجوس نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ دل کھول کر خیرات کرتے تھے۔ 
جس کمرے میں لاش ملی تھی اس کی دیواروں پر پلاسٹر ہے۔ لیکن دوسرے کمروں میں نہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔
پلاسٹر بھی ایاز صاحب ہی نے کیا تھا۔
خود ہی؟
جی ہاں۔
اس پر یہاں قصبے میں تو بڑی چہ میگوئیاں ہوئی ہوں گی۔
قطعی نہیں جناب۔۔۔ اب بھی یہاں لوگوں کا یہی خیال ہے کہ ایاز صاحب کوئی پہنچے ہوئے بزرگ تھے اور میرا خیال ہے کہ ان کا نوکر بھی۔۔۔ بزرگی سے خالی نہیں۔
کبھی ایسے لوگ بھی ایاز صاحب سے ملنے کے لئے آئے تھے جو یہاں والوں کے لئے اجنبی رہے ہوں۔
جی نہیں۔۔۔ مجھے تو یاد نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان سے کبھی کوئی ملنے نہیں آیا۔
اچھا بہت بہت شکریہ۔ عمران بوڑھے سے مصافحہ کرکے اپنی موٹر سائیکل کی طرف بڑھ گیا۔
اب وہ اسی عمارت کی طرف جا رہا تھا اور اس کے ذہن میں بیک وقت کئی خیال تھے۔ ایاز نے وہ قبر خود ہی بنائی تھی اور کمرے میں پلاسٹر بھی خود ہی کیا تھا۔ کیا وہ ایک اچھا معماربھی تھا؟ قبر بھی وہاں پہلے نہیں تھی۔ وہ ایاز ہی کی دریافت تھی۔ اس کا نوکر آج بھی قبر سے چمٹا ہوا ہے۔ آخر کیوں؟ اسی ایک کمرے میں پلاسٹر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
عمران عمارت کے قریب پہنچ گیا۔ بیرونی بیٹھک جس میں مجاوررہتا تھا کھلی ہوئی تھی اور وہ خود بھی موجود تھا۔ عمران نے اس پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی۔ یہ متوسط عمر کا ایک قوی ہیکل آدمی تھا چہرے پر گھنی داڑھی اور آنکھیں سرخ تھیں۔ شائد وہ ہمیشہ ایسی ہی رہتی تھیں۔
عمران نے دو تین بار جلدی جلدی پلکیں جھپکائیں اور پھر اس کے چہرے پر اس پرانے احمق پن کے آثار ابھر آئے۔
کیا بات ہے۔ اسے دیکھتے ہی نوکر نے للکارا۔
مجھے آپ کی دعا سے نوکری مل گئی ہے۔ عمران سعادت مندانہ لہجے میں بولا۔ سوچاکچھ آپ کی خدمت کرتا چلوں۔
بھاگ جاؤ۔ قبر کا مجاور سرخ سرخ آنکھیں نکالنے لگا۔
اب اتنا نہ تڑپایئے۔ عمران ہاتھ جوڑ کر بولا۔ بس آخری درخواست کروں گا۔
کون ہو تم۔۔۔ کیا چاہتے ہو۔ مجاور یک بیک نرم پڑ گیا۔
لڑکا۔ بس ایک لڑکا بغیر بچے کے گھر سونا لگتا ہے یا حضرت تیس سال سے بچے کی آرزو ہے۔ 
تیس سال۔ تمہاری عمر کیا ہے؟ مجاور اسے گھورنے لگا۔
پچیس سال۔
بھاگو۔ مجھے لونڈا بناتے ہو۔ ابھی بھسم کر دوں گا۔
آپ غلط سمجھے یا حضرت۔ میں اپنے باپ کے لئے کہہ رہا تھا۔۔۔ دوسری شادی کرنے والے ہیں۔
جاتے ہو یا۔۔۔ مجاور اٹھتے ہوئے بولا۔
سرکار۔۔۔ عمران ہاتھ جوڑ کر سعادت مندانہ لہجے میں بولا۔ پولیس آپ کوبہت پریشان کرنے والی ہے۔
بھاگ جاؤ۔ پولیس والے گدھے ہیں۔ وہ فقیر کا کیا بگاڑ لیں گے۔
فقیر کے زیر سایہ دو خون ہوئے ہیں۔
ہوئے ہوں گے۔ پولیس جج صاحب کی لڑکی سے کیوں نہیں پوچھتی کہ وہ ایک مسٹنڈے کو لے کر یہاں کیوں آئی تھی۔
یا حضرت پولیس واقعی گدھی ہے۔ آپ ہی کچھ رہنمائی فرمائیے۔
تم خفیہ پولیس میں ہو۔
نہیں سرکار۔ میں ایک اخبار کا نامہ نگار ہوں۔ کوئی نئی خبر مل جائے گی تو پیٹ بھرے گا۔
ہاں اچھا بیٹھ جاؤ۔ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ مکان جہاں ایک بزرگ کا مزار ہو وہ بدکاری کا اڈہ بنے۔ پولیس کو چاہیئے کہ اسکی روک تھام کرے۔
یاحضرت میں بالکل نہیں سمجھا۔ عمران مایوسی سے بولا۔
میں سمجھتا ہوں۔ مجاور اپنی سرخ سرخ آنکھیں پھاڑ کر بولا۔ چودہ تاریخ کو جج صاحب کی لونڈیا اپنے ایک یار کو لے کر یہاں آئی تھی۔۔۔ اور گھنٹوں اندر رہی۔
آپ نے اعتراض نہیں کیا۔۔۔ میں ہوتا تو دونوں کے سر پھاڑ دیتا۔ توبہ توبہ اتنے بڑے بزرگ کے مزار پر۔۔۔ عمران اپنا منہ پیٹنے لگا۔
بس خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا تھا۔۔۔ کیا کروں۔ میرے مرشد یہ مکان ان لوگوں کو دے گئےہیں ورنہ بتادیتا۔
آپ کے مرشد۔
ہاں۔۔۔ حضرت ایاز رحمتہ اللہ علیہ۔ وہ میرے پیر تھے۔ اس مکان کا یہ کمرہ مجھے دے گئے ہیں تاکہ مزار شریف کی دیکھ بھال کرتا رہوں۔
ایاز صاحب کا مزار شریف کہاں ہے۔ عمران نےپوچھا۔
قبرستان میں۔۔۔ ان کی تو وصیت تھی کہ میری قبر برابر کر دی جائے۔ کوئی نشان نہ رکھا جائے۔
تو جج صاحب کی لڑکی کو پہچانتے ہیں آپ!
ہاں پہچانتا ہوں۔ وہ کانی ہے۔
ہائے۔ عمران نے سینے پر ہاتھ مارا۔۔۔ اور مجاور اسے گھورنے لگا۔
اچھا حضرت چورہ کی رات کو وہ یہاں آئی تھی اور سولہ کی صبح کو لاش پائی گئی۔
ایک نہیں ابھی ہزاروں لاشیں ملیں گی۔ مجاور کو جلال آگیا۔ مزار شریف کی بے حرمتی ہے۔
مگر سرکار۔ ممکن ہے کہ وہ اس کا بھائی رہا ہو۔
ہرگز نہیں۔ جج صاحب کا کوئی لڑکا نہیں ہے۔
تب تو پھر معاملہ۔۔۔ ہپ۔ عمران اپنا داہنا کان کھجانے لگا۔
عمران وہاں سے بھی چل پڑا وہ پھر قصبے کے اندر جا رہا تھا۔ دو تین گھنٹہ تک وہ مختلف لوگوں سے پوچھ گچھ کرتا رہا اور پھر شہر کی طرف روانہ ہوگیا۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page