top of page

عمران سیریز کا پہلا ناول - خوفناک عمارت

قسط نمبر پانچ

عمارت کے گرد مسلح پہرہ تھا۔۔۔! دستے کے انچارج نے فیاض کو پہچان کر سلیوٹ کیا۔ فیاض

نے اس سے چند سرکاری قسم کی رسمی باتیں کیں اور سیدھا مجاور کے ۃجرے کی طرف چلا گیا اس کے دروازے کھلے ہوءے تھے اور اندر مجاور غالبأ مراقبے کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا فیاض کی ٓہٹ پر اس نے ٓنکھیں کھول دیں جو انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔۔
"کیا ہے اس نے جھلاءے ہوءے لہجہ میں کہا ۔۔
" کچھ نہیں میں دیکھنے ٓیا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہے یا نہیں "فیاض بولا۔۔
" میری سمجھ میں نہیںآتا کہ آ خر یہ ہو کیا رہا ہے انہی گدھوں کی طرح دیوانی ہو گءی ہے"۔۔
"کن گدھوں کی طرح"۔۔
" وہ ہی جو سمجھتے ہیں شہید مرد کی قبر میں خزانہ ہے۔۔"
" کچھ بھی ہو" فیاض بولا " ہم نہیں چاہتے کہ یہاں سے روزانہ لاشیں بر آمد ہوں اگر ضرورت سمجھی تو قبر کھدواءی جاءے 
گی۔۔۔"
" بھسم ہو جاﷺگے " مجاور گرج کر بولا " خون تھوکوگے ۔۔۔۔ مروگے۔۔"
" کیا سچ مچ اس میں خزانہ ہے۔۔"
اس پر مجاور پھر گرجنے برسنے لگا۔!۔۔فیاض بار بار گھڑی کی طرف دیکھتا جا رہا تھا عمران کو گءے پندرہ منٹ ہو چکے تھے ۔۔ وہ مجاور کو باتوں میں الجھاءے رہا !۔۔۔۔اچانک ایک عجیب قسم کی آواز آءی ! مجاور اچھل کر مڑا ۔۔ اس کی پشت کی طرف دیوار میں ایک بڑا سا خلا نظر آرہا تھا !۔۔۔فیاض بوکھلا کر کھڑا ہو گیا وہ سوچ رہا تھا کہ یک بیک دیوار کو کیا ہو گیا۔۔۔وہ اس سے پہلے بھی کءی بار اس کمرے میں آیا تھا لیکن اسے بھول کر بھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ یہاں کوءی چور دروازہ بھی ہو سکتا ہے ۔۔مجاور چیخ مار کر اس دروازے میں گھستا چلا گیا ! ۔۔ فیاض بری طرح بوکھلا گیا تھا ۔۔ اس نے جیب سے ٹارچ نکالی اور پھر وہ بھی اس دروازے میں داخل ہو گیا! ۔۔۔ یہاں چاروں طرف اندھیرا تھا ۔۔ شاید کسی تھہ خانے میں چل رہا تھا ۔۔ کچھ دور چلنے کے بعد سیڑھیاں نظر آءیں۔۔۔۔یہاں قبرستاں کی طرح خاموشی تھی !۔۔۔۔اور جب وہ اوپر پہنچا تو اس نے خود کو مرشد مرد کی طرح برآمد ہوتے پایا جس کا تعویذ کسی صندوق کے ڈھکن کی طرح سیدھا اٹھا ہوا تھا۔۔۔
ٹارچ کی روشنی کا داءرہ صحن میں چاروں طرف گردش کر رہا تھا ۔۔ پھر فیاض نے مجاور کو کمرے سے نکلتے دیکھا۔۔۔
" تم لوگوں نے مجھے برباد کر دیا" وہ فیاض کو دیکھ کر چیخا " آﷺ اپنے کرتوت دیکھ لو" ۔۔ وہ کمرے میں گھس گیا ۔۔فیاض تیزی سے اس کی طرف جھپٹا۔۔
ٹارچ کی روشنی دیوار پر پڑی ۔۔ یہاں کا بہت سا پلاسٹڑ ادھڑا ہوا تھا اور اسی جگہ پانچ پانچ انچ کے فاصلے پر تیں بڑی پھیریاں نصب تھیں ۔۔فیاض اگے بڑھا! ادھڑے ہوئے پلاسٹر کے پیچھے ایک بڑا سا خانہ تھا-ان چھریوں کے دوسرے سرے اسی میں غائب ہوگئے تھے۔اب چھریوں کے علاوہ اس خانہ میں اور کچھ نہیں تھا-
مجاور قہر آلود نظروں سے فیاض کو گھور رہاتھا!-
“ یہ سب کیا ہے “فیاض مجاور کو گھور کر بولا-
مجاور نے اس ظرح کھنکار کر گلا صاف کیا جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو- لیکن خلاف توقع اس نے فیاض کے سینے پر زوردار ٹکر ماری اور اچھل کر بھاگا!- فیاض چاروں شانے چت گر گیا- لیکن سنبھلنے سے پہلے اس کا دایاں ہاتھ ۔۔ہولسٹر سے ریوالور نکال چکا تھا-لیکن بے کار مجاور قبر میں چھلانگ لگا چکا تھا- 
فیاض اٹھ کر قبر کی طرف بھاگا-لیکن مجاور کے کمرے میں پہنچ کر بھی اس کا نشان نہ ملا۔۔وہ کمرے سے باہر نکل آیا- ڈیوٹی کانستیبل بدستور اپنی جگہوں پر موجاد تھے-انہوں نے کسی بھاگتے ہوئے آدمی کے متعلق لا علمی ظاہر کی - ان کا خیال تھا کہ عمارت کے باہر کوئی نکلا ہی نہیں -
آخر اسے عمران کا خیال آیا- وہ کہاں گیا تھا- کہیں یہ اس کی حرکت نہ ہو- اس خفیہ خانے میں کیا چیز تھی- اب سارے معاملات فیاض کے ذہن میں صاف ہو گئے تھے- لاش کا راز، تیں ذخم جین کا درمیانی فاصلہ پانچ پانچ انچ تھا! دفعتاً کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا- فیاض چانک کر مڑا- عمران کھڑا بری طرح منہ بسور رہا تھا-
“ تو یہ تم تھے-“ فیاض اسے نیچے سے اوپر گھورتا ہو بہ لا-
“ میں تھا نہیں ابھی ہوں - توقع ہے کہ ابھی دو چار دن تک زندہ رہوں گا“-
“ وہاں سے کیا نکالا تم نے “
“ چوٹ ہوگئی پیارے فرماؤ“ عمران بھرائی ہوئی آواز میں بولا- وہ مجھ سے پہلے ہی ہاتھ صاف کر گئے- میں نے تو بعد میں ذرا اس خفیہ خانے کے میکینزم پر غور کرنا چاہا تھا کہ ایک کھٹکے کو ہاتھ لگاتے ہی قبر تڑخ گئی-!“ -
“ لیکن وہاں تھا کیا“ -
“ وہ بقیہ کاغذات جو اس چرمی ہینڈ بیگ میں نہیں تھے“ -
“کیا“ ارے او احمق پہلے کیوں نہیں بتایا- فیاض اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا-“ لیکن وہ اندر گھسے کس طرح “-“ 
“ آؤ دکھاؤں “ عمران ایک طرٍف بڑھتا ہوا بولا- وہ فیاض کو عمارت کے مغربی گوشے کی سمت لایا!یہاں دیوار سے ملی ہوئی قد آدم جھاڑیاں تھیں -عمران نے جھاڑیاں ہٹا کر ٹارچ روشن کی -فیاض کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا-دیوار مٰن اتنی بڑی نقب تھی کہ ایک آدمی بیٹھ کر-

باآسانی اس سے گذر سکتا تھا۔

"یہ تو بہت برا ہوا۔" فیاض بڑبڑایا۔

"اور وہ پہنچا ہوا فقیر کہاں ہے؟"

"وہ بھی نکل گیا! لیکن تم کس طرح اندر پہنچے تھے۔"

"اسی راستے سے! آج ہی مجھے ان جھاڑیوں کا خیال آیا تھا۔"

"اب کیا کرو گے بقیہ کاغذات!" فیاض نے بے بسی سے کہا۔ 

"بقیہ کاغذات بھی انہیں واپس کردوں گا۔ بھلا آدھے کاغذات کس کام کے۔ جس کے پاس رہیں، پورے رہیں۔ اس کے بعد میں باقی زندگی گذارنے کے لئے قبر اپنے نام الاٹ کرالوں گا۔"

عمران کےکمرے میں فون کی گھنٹی بڑی دیر سے بج رہی تھی۔ وہ قریب ہی بیٹھا ہوا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس نے گھنٹی کی طرف دھیان تک نہ کیا پھر آخر گھنٹی جب بجتی ہی چلی گئی تو وہ کتاب میز پر پٹخ کر اپنے نوکر سلیمان کو پکارنے لگا۔

"جی سرکار!" سلیمان کمرے میں داخل ہوکربولا۔

"ابے دیکھ یہ کون الو کا پٹھا گھنٹی بجا رہا ہے۔"

"سرکار فون ہے۔"

"فون!" عمران چونک کر فون کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔ "اسے اٹھا کر سڑک پر پھینک دے۔ 

سلیمان نے ریسیو اس کی طرف بڑھا دیا۔ 

"ہیلو!" عمران ماؤتھ پیس میں بولا۔ "ہاں ہاں عمران نہیں تو کیا کتابھونک رہاہے۔"

"تم کل رات ریس کورس کے قریب کیوں نہیں ملے؟" دوسری طرف سے آواز آئی۔

"بھاگ جاؤ گدھے۔" عمران نے ماؤتھ پیس پر ہاتھ رکھے بغیر سلیمان سے کہا۔ 

"کیا کہا!" دوسری طرف سے غراہٹ سنائی دی۔

"اوہ۔ وہ تو میں نے سلیمان سے کہا تھا!۔۔۔ میرا نوکر ہے۔۔۔ ہاں تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پچھلی رات کو ریس کورس کیوں نہیں گیا۔"

"میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔"

"تو سنو میرے دوست!" عمران نے کہا۔ "میں نے اتنی محنت مفت نہیں کی۔ ہینڈ بیگ کی قیمت دس ہزار لگ چلی ہے۔ اگر تم کچھ بڑھو تو میں سودا کرنے کو تیار ہوں۔" 

"شامت آگئی ہے تمہاری۔"

"ہاں ملی! مجھے بہت پسندآئی۔" عمران نے آنکھ مار کر کہا۔

"آج رات تمہارا انتظار کیا جائے گا۔ اس کے بعد کل کسی وقت تمہاری لاش شہر کے کسی گٹر میں بہہ رہی ہوگی۔"ارے باپ! تم نے اچھا کیا کہ بتا دیا اب میں کفن ساتھ لئے بغیر گھر سے باہر نہ نکلوں گا۔" 

"میں پھر سمجھاتا ہوں۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔

"سمجھ گیا!" عمران نے بڑی سعادت مندی سے کہا اور سلسلہ منقطع کر دیا۔

اس نے پھر کتاب اٹھا لی اور اسی طرحمشغول ہوگیا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ تھوڑی دیر بعد گھنٹی پھر بجی عمران نے ریسیور اٹھا لیا اور جھلائی ہوئی آواز میں بولا۔ 

"اب میں یہ ٹیلیفون کسی یتیم خانے کو پریزینٹ کردوں گا سمجھے۔۔۔ میںبہت ہی مقبول آدمی ہوں۔۔۔ کیا میںنے مقبول کہا تھا مقبول نہیں مشغول آدمی ہوں۔"

"تم نے ابھی کسی رقم کی بات کی تھی۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔

"قلم نہیں فاؤنٹین پن!" عمران نے کہا۔ 

"وقت برباد مت کرو۔" دوسری طرف سے جھنجھلائی ہوئی آواز آئی۔ " ہم بھی اس کی قیمت دس ہزار لگاتے ہیں!"

"ویری گڈ!" عمران بولا۔ "چلو یہ تو طے رہا! بیگ تمہیں مل جائے گا۔"

"آج رات کو۔"

"کیا تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو۔" عمران نے پوچھا۔ 

"اسی طرح جیسے پہلی انگلی دوسری انگلی کو جانتی ہو۔"

"گڈ" عمران چٹکی بجا کربولا۔ "تو تم یہ بھی جانتے ہوگے کہ میں ازلی احمق ہوں۔"

"تم!"

"ہاں میں! ریس کورس بڑی سنسان جگہ ہے! اگر بیگ لے کر تم نے مجھے ٹھائیں کر دیا تو میں کس سے فریاد کروں گا۔" 

"ایسا نہیں ہوگا۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔

"میں بتاؤں! تم اپنے کسی آدمی کو روپے دے کر ٹپ ٹاپ نائٹ کل میں بھیج دو میں مدہوبالا کی جوانی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بیگ واپس کردوں گا۔"

"اگر کوئی شرارت ہوئی تو۔"

"مجھے مرغا بنا دینا۔" 

"اچھا! لیکن یہ یاد رہے کہ تم وہاں بھی ریوالور کی نال پر رہو گے۔"

"فکر نہ کرو۔ میں نے آج تک ریوالور کی شکل نہیں دیکھی۔" عمران نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ اور جیب سے چیونگم کا پیکٹ تلاش کرنے لگا۔

ٹھیک آٹھ بجے کے قریب عمران اپنی بغل میں ایک چرمی بیگ دبائے ٹپ ٹاپ نائٹ کلب پہنچ گیا قریب قریب ساری میزیں بھری ہوئی تھیں۔ عمران نے بار کے قریب کھڑے ہوکر مجمع کا جائزہ لیا آخرکار اس کی نظریںایک میز پر رک گئیں جہاں لیڈی جہانگیر ایک نوجوان عورت کے ساتھ بیٹھی زرد رنگ کی شراب پی رہی تھی۔ عمران آہستہ آہستہ چلتا ہوا میز کے قریب پہنچ گیا۔ 

"آہا۔۔۔ مائی لیڈی۔" وہ قدرے جھک کر بولا۔

لیڈی جہانگیر نے داہنی بھوں چڑھا کر اسے تیکھی نظروں سے دیکھا اور پھر مسکرانے لگی۔
"ہل۔۔او۔۔۔عمران۔۔۔!" وہ اپنا داہنا ہاتھ اٹھا کر بولی۔ "تمہارے ساتھ وقت بڑا اچھا گزرتا ہے! یہ ہیںمس تسنیم! 
خان بہادر ظفر تسنیم کی صاحبزادی! اور یہ علی عمران۔" 

!ایم۔ ایس۔ سی۔ پی۔ ایچ۔ ڈی"عمران نے احمقوں کی طرح کہا۔

"بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر!" تسنیم بولی۔ لہجہ بیوقوف بنانے کا سا تھا۔

"مجھے افسوس ہوا۔"

"کیوں؟" لیڈی جہانگیر نے حیرت زدہ آواز سے کہا۔ 

"میں سمجھتا تھا کہ شائد ان کا نام گلفام ہوگا۔" 

"کیا بیہودگی ہے!" لیڈی جہانگیر جھنجھلا گئی۔

"سچ کہاہوں! مجھے کچھ ایسا ہی معلوم ہوا تھا۔ تسنیم ان کے لئے قطعی موزوںنہیں۔۔۔ ہاں کسی ایسی لڑکی کا نام ہوسکتا ہے جو تپ دق میںمبتلا ہو تسنیم۔۔۔ بس نام کی طرح کمر جھکی ہوئی۔" 

"تم شائد نشے میں ہو۔" لیڈی جہانگیر نے بات بنائی۔"لو اور پیو!"

"فالودہ ہے؟" عمران نے پوچھا۔

"ڈیئر تسنیم!" لیڈی جہانگیر جلدی سے بولی۔ "تم ان کی باتوںکو برا مت ماننا یہ بہت پرمذاق آدمی ہیں! اور عمران۔۔۔بیٹھو نا۔"

"برا ماننے کی کیا بات ہے" عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ "میں انہیں گلفام کے نام سے یاد رکھوں گا۔"

"مائی ڈیئرس! تم دونوں بیٹھو۔" لیڈی جہانگیر دونوں کے ہاتھ پکڑ کر جھومتی ہوئی بولی۔
"نہیں مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا ہے۔" تسنیم نے آہستہ سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔ 

"اور میں!" عمران سینے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔"تم پر ہزاروں کام قربان کر سکتا ہوں"

"بکو مت! جھوٹے۔۔۔ تم مجھے خوامخواہ غصہ دلاتے ہو۔"

"میں تمہیں پوجتا ہوں! سوئیٹی۔۔۔ مگر اس بڈھے کی زندگی میں۔۔۔"

"تم پھر میرا مذاق اڑانے لگے!" 

"نہیں ڈیئرسٹ! میں تیرا چاند تو میری چاندنی۔۔۔ نہیں دل کا لگا۔۔۔

"بس بس!۔۔۔بعض اوقات تم بہت زیادہ چیپ ہو جاتے ہو!"

"آئی ایم سوری۔" عمران نے کہا اور اس کی نظریں قریب ہی کی ایک میز کی طرف اٹھ گئیں۔ یہاں ایک جانی پہچانی شکل کا آدمی اسے گھور رہا تھا! عمران نے ہینڈ بیگ میز سے اٹا کر بغل میں دبا لیا پھر دفعتاً سامنے بیٹھا ہوا آدمی اسے آنکھ مار کر مسکرانے لگا۔ جواب میں عمران نے باری باری اسے دونوں آنکھیں ماریں! لیڈی جہانگیر اپنے گلاس کی طرف دیکھ رہی تھی اور شائد اس کے ذہن میں کوئی انتہائی رومان انگیز جملہ کلبلا رہا تھا۔ 

"میں ابھی آیا!" عمران نے لیڈی جہانگیر سے کہا اور اس آدمی کی میز پر چلا گیا۔

"لائے ہو۔" اس نے آہستہ سے پوچھا۔

"یہ کیا رہا۔" عمران نے ہینڈ بیگ کی طرف اشارہ کیا پھر بولا۔ "تم لائے ہو۔"

"ہاں آں!" اس آدمی نے لائے ہوئے ہینڈ بیگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ 

"تو ٹھیک ہے!" عمران نے کہا۔"اسے سنبھالو اور چپ چاپ کھسک جاؤ۔"

"کیوں؟" وہ اسے گھورتاہوا بولا۔

"کپتان فیاض کو مجھ پر شبہ ہو گیا ہے ہوسکتا ہے کہ اس نے کچھ آدمی میری نگرانی کے لئے مقرر کردئے ہوں۔"

"کوئی چال!"

"ہرگز نہیں! آج کل مجھے روپوں کی سخت ضرورت ہے۔"

"اگر کوئی چال ہوئی تو تم بچو گے نہیں۔" آدمی ہینڈ بیگ لے کر کھڑا ہوگیا۔

وہ آدمی ہینڈ بیگ لیے جیسے ہی باہر نکلا کلب کی کمپاؤنڈ کے پارک سے دو آدمی اس کی طرف بڑھے۔

"کیا رہا۔" ایک نے پوچھا۔

"مل گیا۔" بیگ والے نے کہا۔

"کاغذات ہیں بھی یا نہیں۔"

"میں نے کھول کرنہیں دیکھا۔"

"گدھےہو۔" 

"وہاں کیسے کھول کر دیکھتا۔"

"لاؤ۔۔۔ ادھر لاؤ۔" اس نے ہینڈ بیگ اپنےہاتھ میں لیتے ہوئے کہا! پھر چونک کر بولا۔ "اوہ! یہ اتنا وزنی کیوں ہے۔"

اس نے بیگ کھولنا چاہا لیکن اس میں قفل لگا ہوا تھا۔

"چلو یہان سے"تیسرا بولا "یہاں کھولنےکی ضرورت نہیں۔" 

کمپاؤنڈ کے باہر پہنچ کر وہ ایک کار میں بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک کار ڈرائیو کرنے لگا۔

شہر کی سڑکوں سے نکل کر کار ایک ویران راستے پر چل پڑی آبادی سے نکل آنے کے بعد انھوں نے کار کے اندر روشنی کردی۔

ان میں ایک جو کافی معمر مگر اپنے دونوں ساتھیوں سے زیادہ طاقتور معلوم ہوتا تھا ایک پتلے سے تار کی مدد سے ہینڈبیگ کا قفل کھولنے لگا اور پھر جیسے ہی ہینڈ بیگ کا فلیپ اٹھایا گیا پچھلی سیٹ پربیٹھے ہوئے دونوں آدمی بے ساختہ اچھل پڑے۔ کوئی چیز بیگ سے اچھل کر ڈرائیور کی کھوپڑی سے ٹکرائی اور کار سڑک کے کنارے ایک درخت سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ رفتار زیادہ تیز نہیں تھی ورنہ کار کے لڑ جانے میں کوئی دقیقی باقی نہیں رہ گیا تھا۔ تین بڑے بڑے مینڈک کار میں اچھل رہے تھے۔ 

بوڑھے آدمی کے منہ سے ایک گالی نکلی اور دوسرا ہنسنے لگا۔

"شپ اپ" بوڑھا حلق کے بل چیخا۔ "تم گدھے ہو۔ تمہاری بدولت۔۔۔"

"جناب میں کیا کرتا! میں اسے وہاں کیسے کھول سکتا تھا! اس کا بھی تو خیال تھا کہ کہیں پولیس پیچھے نہ لگی ہو۔" 

"بکواس مت کرو۔ پہلے ہی اطمینان کر چکا تھا کہ وہاں پولیس کا کوئی آدمی نہیں تھا! کیا تم مجھے معمولی آدمی سمجھتے ہو۔ اب اس لونڈے کی موت آگئی ہے۔ ارے تم گاڑی روک دو۔" کار رک گئی۔

بوڑھا تھوڑی دیر تک سوچتا رہا پھر بولا۔ 

"کلب میں اس کے ساتھ اور کون تھا۔"

"ایک خوبصورت سی عورت! دونوں شراب پی رہے تھے۔"

غلط ہے! عمران شراب نہیں پیتا۔"

"پی رہا تھا جناب۔"

بوڑھا کسی سوچ میں پڑ گیا۔

"چلو! واپس چلو۔"وہ کچھ دیر بعد بولا۔"میں اسے وہیں کلب میں مار ڈالوں گا۔" کار پھر شہر کی طرف مڑی۔ 

"میرا خیال ہے کہ وہ اب تک مر چکا ہوگا۔" بوڑھے کے قریب بیٹے آدمی نے کہا۔

"نہیں! وہ تمہاری طرح احمق نہیں ہے!" بوڑھا جھنجھلا کر بولا۔ "اس نے ہمیں دھوکہ دیا ہےتو خود بھی غافل نہیں ہوگا۔"

"تبو وہ کلب ہی سے چلا گیا ہوگا۔" 

"بحث مت کرو۔" بوڑھےنے گرج کرکہا۔ "میں اسے ڈھونڈ کر ماروں گا۔ خواہ وہ انے گھر ہی میں کیوں نہ ہو۔"

عمران چند لمحے بیٹھارہا پھر اٹھ کر تیزی سے وہ بھی باہر نکلا اور اس نے کمپاؤنڈ کے باہر ایک کار کے اسٹارٹ ہونے کی آواز سنی! وہ پھر اندر واپس آگیا۔ 

"کہاں بھاگے پھر رہے ہو۔" لیڈی جہانگیر نے پوچھا اس کی آنکھیں نشے سے بوجھل ہورہی تھیں۔

"ذرا کھانا ہضم کر رہا ہوں۔" عمران نے کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھتئے ہوئے کہا۔۔۔ لیڈی جہانگیر آنکھیں بندکرکے ہنسنے لگی۔

عمران کی آنکھیں بدستور گھڑی پر جمی رہیں۔۔۔ پھر وہ اٹھا اب وہ ٹیلیفون بوتھ کی طرف جا رہا تھا۔ اس نے ریسیور اٹھا کر نمبر ڈائل کئے اور ماؤتھ پیس میں بولا۔ 

"ہیلو سوپر فیاض۔۔۔ میں عمران بول رہا ہوں۔۔۔ بس اب روانہ ہو جاؤ۔"

ریسیور رکھ کر وہ پھر ہال میں چلا آیا۔ لیکن وہ اس بار لیڈی جہانگیر کے پاس نہیں بیٹھا تھا۔ 
چند لمحے کھڑا ادھر ادھر دیکھتا رہا پھر ایک ایسی میز پر جا بیٹھا جہاں تین آدمی پہلے ہی سے موجود تھے اور یہ تینوں اسکے شناسا تھے اس لئے انہوں نے برا نہیں مانا۔

شائد پندرہ منٹ تک عمران ان کے ساتھ قہقہے لگاتا رہا لیکن اس دوران بار بار اسکی نظریں داخلے کے دروازے کی طرف اٹھ جاتی تھیں۔
اچانک اسے دروازے میں ایک بوڑھا دکھائی دیا جس سے اس نے چند روز قبل کاغذات والا ہینڈ بیگ چھینا تھا۔ عمران اور زیادہ انہماک سے گفتگو کرنے لگا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد اس نے اپنے داہنے شانے میں کسی چیز کی تیز چھبن محسوس کی اس نے کنکھیوں سے داہنی طرف دیکھا! بوڑھا اس سے لگا ہوا کھڑا تھا اور اسکا بائیاں ہاتھ کوٹ کی جیب میں تھا اور اسی جیب میں رکھی ہوئی کوئی سخت چیز عمران کے شانے میں چبھ رہی تھی! عمران کو یہ سمجھنے میں دشواری نہ ہوئی کہ وہ ریوالور کی نالی ہی ہوسکتی ہے۔

"عمران صاحب!" بوڑھا خوش اخلاقی سے بولا۔ "کیا آپ چند منٹ کے لئے باہر تشریف لے چلیں گے۔"

"آہا! چچا جان!" عمران چہک کر بولا۔ "ضرور ضرور! مگر مجھے آپ سے شکایت ہے اس لئے آپ کو بھی کوئی شکایت نہیں ہونی چاہئے۔"

"آپ چلئے تو" بوڑھے نے مسکرا کر کہا۔ "مجھے اس گدھے کی حرکت پر افسوس ہے۔"

عمران کھڑا ہو گیا! لیکن اب ریوالور کی نال اس کے پہلو میں چبھ رہی تھی۔ وہ دونوں باہر آئے۔۔۔ پھر جیسے ہی وہ پارک میں پہنچے بوڑھے کے دونوں ساتھی بھی پہنچ گئے۔

"کاغذات کہاں ہیں۔" بوڑھے نے عمران کا کالر پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ پارک میں سناٹا تھا۔ دفعتا عمران نے بوڑھے کا بائیاں ہاتھ پکڑ کر ٹھوڑی کے نیچے ایک زوردار گھونسہ رسید کیا۔ بوڑھے کا ریوالور عمران کے ہاتھ میں تھا اور بوڑھا لڑکھڑا کر گرنے ہی والا تھا کہ اس کے ساتھیوں نے اسے سنبھال لیا۔ "میں کہتا ہوں وہ دس ہزار کہاں ہیں؟" عمران نے چیخ کر کہا۔

اچانک مہندی کی باڑھ کے پیچھے سے آٹھ دس آدمی اچھل کر ان تینوں پر آپڑے اور پھر ایک خطرناک جدوجہد کا آغاز ہوگیا۔ وہ تینوں بے جگری سے لڑ رہے تھے۔ 

"سوپر فیاض۔" عمران نے چیخ کر کہا "داڑھی والا۔"

لیکن داڑھی والا اچھل کر بھاگا۔ وہ مہندی کی باڑھ پھلانگنے والا ہی تھا کہ عمران کے ریوالور سے شعلہ نکلا گولی ٹانگ میں لگی اور بوڑھا مہندی کی باڑھ میں پھنس کر رہ گیا۔ 

"ارے باپ رے" عمران ریوالور پھینک کر اپنا منہ پیٹنے لگا۔

وہ دونوں پکڑے جا چکے تھے! فیاض زخمی بوڑھے کی طرف جھپٹا جو اب بھی بھاگ نکلنے کے لئے جدوجہد کر رہ اتھا۔۔۔۔ فیاض نے ٹانگ پکڑ کر مہندی کی باڑھ سے گھیسٹ لیا۔

"یہ کون؟" فیاض نے اس کے چہرے پر روشنی ڈالی۔ فائر کی آواز سن کر پارک میں بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔

بوڑھا بے ہوش نہیں ہوا تھا وہ کسی زخمی سانپ کی طرف بل کھا رہا تھا۔ عمران نے جھک کر اس کی مصنوعی داڑھی نوچ ڈالی۔

"ہائیں!" فیاض تقریبا چیخ پڑا۔ "سر جہانگیر!"

سر جہانگیر نے پھر اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن عمران کی ٹھوکر نے اسے باز رکھا۔

"ہاں سرجہانگیر!" عمران بڑبڑایا۔ "ایک غیر ملک کا جاسوس۔۔۔ قوم فروش غدار۔۔۔"

دوسرے دن کیپٹن فیاض عمران کے کمرے میں بیٹھا اسے تحیر آمیز نظروں سے گھور رہا تھا اور عمران بڑی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔ "مجھے خوشی ہے کہ ایک بڑا غدار اور وطن فروش میرے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔ بھلا کون سوچ سکتا تھا کہ سر جہانگیر جیسا معزز اور نیک نام بندہ بھی کسی غیر ملک کا جاسوس ہو سکتا ہے۔"

"مگر وہ قبر کا مجاور کون تھا۔" فیاض نے بے صبری سے پوچھا۔

"میں بتاتا ہوں۔ لیکن درمیان میں ٹوکنا مت۔۔۔ وہ بیچارہ اکیلے ہی یہ سارا مرحلہ طے کرنا چاہتا تھا لیکن میں نے اس کا کھیل بگاڑ دیا۔۔۔ پچھلی رات وہ مجھے ملا تھا۔۔۔ اس نے پوری داستان دہرائی۔۔۔ اور اب شائد ہمیشہ کے لئے روپوش ہو گیا ہے۔ اسے بڑی زبردست شکست ہوئی ہے۔ اب وہ کسی کو منہ نہیں دکھانا چاہتا۔"

"مگر وہ ہے کون؟"

"ایاز!۔۔۔ چونکو نہیں میں بتاتا ہوں!۔۔۔ یہی ایاز وہ آدمی تھا جو فارن آفس کے سیکریٹری کے ساتھ کاغذات سمیت سفر کر رہا تھا! آدھے کاغذات اسکے پاس تھے اور آدھے سیکریٹری کے پاس! ان پر ڈاکہ پڑا۔ سیکریٹری مارا گیا اور ایاز کسی طرح بچ گیا۔ مجرموں کے ہاتھ صرف آدھے کاغذات لگے! ایاز فارن آفس کی سیکرٹ سروس کا آدمی تھا۔ لیکن اس نے آفس کو رپورٹ نہیں دی! دراصل وہ اپنے زمانے کا مانا ہوا آدمی تھا اس لئے اس شکست نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ مجرموں سے آدھے کاغذات وصول کئے بغیر آفس میں پیش نہ ہو۔ وہ جانتا تھا کہ وہ آدھے کاغذات مجرموں کے کسی کام کے نہیں! وہ بقیہ آدھے کاغذات کے لئے اسے ضرور تلاش کریں گے۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے مجرموں کا پتہ لگا لیا۔ لیکن ان کے سرغنہ کا سراغ نہ مل سکا! وہ حقیقتاً سرغنہ ہی پکڑنا چاہتا تھا!۔۔۔ دن گذرتے گئے لیکن ایاز کو کامیابی نہ ہوئی پھر اس نے ایک نیاجال بچھایا! 
اس نے وہ عمارت خرید لی اور اس میں اپنے وفادار نوکر کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگا۔ اس دوران میں اس نے اپنی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک قبر دریافت کی اور پھر یہ میکنزم ترتیب دیا۔ اچانک اسی زمانے میں اس کا نوکر بیمار ہو کر مر گیا۔ ایاز کو ایک دوسری ترکیب سوجھ گئی اس نے نوکر پر میک اپ کرکے اس دفن کردیا اور اس کے بھیس میں رہنے لگا۔ کسی کاروائی سے پہلے اس نے وہ عمارت قانونی طور پر جج صاحب کے نام منتقل کردی اور صرف ایک کمرہ رہنے دیا!۔۔۔ اس کے بعد مجرموں کو اس عمارت کی طرف متوجہ کرنا شروع کردیا۔ کچھ ایسے طریقے اختیار کئے کہ مجرموں کو یقین ہوگیا کہ مرنے والا سیکرٹ سروس کا آدمی تھا اور بقیہ کاغذات اسی عمارت میں کہیں چھپا کر رکھ گیا ہے۔ ابھی حال ہی میں ان مجرموں کی رسائی اس کمرے تک ہوئی جہاں ہم نے لاشیں پائیں! دیوار والے خفیہ خانے میں ہی کاغذات تھے! اس کا اشارہ بھی انہیں ایاز کی ہی طرف سے ملا تھا۔ جیسے ہی کوئی آدمی خانے والی دیوار کے نزدیک پہنچتا تھا۔ ایاز قبر کے تعویذ کے نیچے سے ڈراؤنی آوازیں نکالنے لگتا تھا اور دیوار کے قریب پہنچا ہوا آدمی سہم کر دیوار سے چپک جاتا!۔۔۔ ادھرایاز قبر کے اندر سے میکنزم کو حرکت میں لاتا اور دیوار سے تین چھریاں نکل کر اس کی پشت میں پیوست ہو جاتیں۔۔۔ یہ سب کچھ اس نے محض سرغنہ کو پکڑنے کے لئے کیا تھا۔۔۔ لیکن سرغنہ میرے ہاتھ لگا۔۔۔ اب ایاز شاید زندگی بھر اپنے متعلق کسی کو کوئی اطلاع نہ دے! اور کیپٹن فیاض۔۔۔۔ میں نے اس سے وعدہ کیا ہے کہ اس کا نام کیس کے دوران میں کہیں نہ آنے پائے گا! سمجھے! اور تمہیں میرےوعدے کاپاس کرنا پڑے گا! اور تم اپنی رپورٹ اس طرح مرتب کرو کہ اس میں کہیں محبوبہ یک چشم کا بھی نہ آنے پائے۔" 

"وہ تو ٹھیک ہے۔" فیاض جلدی سے بولا! "وہ دس ہزار روپے کہاں ہیں جو تم نے سر جہانگیر سے وصول کئے تھے۔"

"ہاں ٹھیک ہے۔" عمران اپنے دیدے پھرا کربولا۔ "آدھا آدھا بانٹ لیں کیوں؟"

"بکواس ہے اسے میں سرکاری تحویل میں دے دوں گا۔"فیاض نے کہا۔ 

"ہرگزنہیں!" عمران نے جھپٹ کر وہ چرمی ہینڈبیگ میز سے اٹھا لیا جو اسے پچھلی رات سر جہانگیر کے ایک آدمی سے ملا تھا۔

فیاض نے اس سے ہینڈ بیگ چھین لیا۔۔۔ اور پھر وہ اسے کھولنے لگا۔

"خبردار ہوشیار۔۔۔" عمران نے چوکیدار کی طرح ہانک لگائی لیکن فیاض ہینڈبیگ کھول چکا تھا۔۔۔ اور پھر جو اس نے "ارےباپ" کہہ کر چھلانگ لگائی تو ایک صوفے ہی پر جا کر پناہ لی۔ ہینڈ بیگ سے ایک سیاہ رنگ کا سانپ نکل کر فرش پر رینگ رہا تھا۔ 

"ارے خدا تجھے غارت کرے عمران کے بچے۔۔۔ کمینے!" فیاض صوفے پر کھڑا ہوکر دھاڑا۔

سانپ پھن کاڑھ کر صوفے کی طرف لپکا فیاض نے چیخ مارکر دوسری کرسی پر چھلانگ لگائی۔۔۔ کرسی الٹ گئی اور وہ منہ کے بل فرش پر گرا۔۔۔ اس بار اگر عمران نے پھرتی سے اپنے جوتے کی ایڑی سانپ کے سر پر نہ رکھ دی ہوتی تو اس نے فیاض کو ڈس ہی لیا ہوتا۔ سانپ کا بقیہ جسم عمران کی پنڈلی سے لپٹ گیا اور اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ جائے گی۔ اوپر سے فیاض اس پر گھونسوں اور تھپڑوں کی بارش کر رہا تھا۔ بڑی مشکل سے اس نے دونوں سے اپنا پیچھا چھڑایا۔ 

"تم بالکل پاگل ہو۔۔۔ دیوانے۔۔۔ وحشی۔" فیاض ہانپتا ہوا بولا۔

"میں کیا کروں جانِ من۔۔۔ خیر اب تم اسے سرکاری تحویل میں دے دو اگر کہیں میں رات کو ذرا سا بھی چوک گیا ہوتا تو اس نے مجھے اللہ میاں کی تحویل میں پہنچا دیا تھا!" 

"کیا سر جہانگیر۔۔۔؟"

"ہاں!۔۔۔ ہم دونوں میں مینڈکوں اور سانپوں کا تبادلہ ہوا تھا!" عمران نے کہا اور مغموم انداز میں چیونگم چبانے لگا! اور پھر اس کے چہرے پر وہی پرانی حماقت طاری ہوگئی۔۔۔!

 

ختم شد

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page