
میرا رکھوالا - مصنفہ: ثمرین شاہ
(قسط نمبر دس (آخری قسط
پھر وہ پاکستان آگئے اور اس علاقے کو سکین کرنے لگے جہاں خودکشُ حملے کی تیاری کروائی جارہی تھی زاویار نے مولوی کا روپ اپنایا تھا جبکہ شان نے یونی فورم پہنا ہوا تھا وہ اس علاقے کے قریب تھے جب شان کا فون بجا اس نے دیکھا ہالے کی کال ہے اس نے جلدی سے کاٹی اور پھر رینجزز سے پوچھا کے سب اپنی اپنی پوزیشن میں ہیں سب نے ریڈی کہا شان نے زاویار کو اس گروہ کی طرف اشارہ کیا جو اتنے بڑے سے حویلی نامہ گھر میں گھُس رہے تھے زاویار نے سر ہلایا اور ان کے پھیچے پھیچے چلنے لگا
جبکہ شان وہی کھڑا رہا جب تک یہ سارے لوگ اندر نہیں چلے جاتے ۔اس نے دیکھ دوبارہ سیل فون بج رہا ہے شان کو جھجھلاہٹ ہوئی اس نے دیکھا ہالے کا فون اس نے جلدی سے فون اُٹھایا
"ہالے میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں ۔"
"شانی آپ کہاں ہے میں کب سے آپ کو اس علاقے میں ڈھونڈ رہی ہوں ۔"
ہالے کی بات پہ شان جو فون بند کرنے لگا تھا اسے جھٹکا لگا
"تم کہاں ہو !"
شان کو خطرے کی گھنٹی بجی
"جمشید ٹاون آپ بھی حد کرتے ہے خود ہی مجھے ٹییکسٹ کیا تھا کے کراچی پہنچوں اور اِدھر ہی میرے سے ملاقات کرو ۔"
"شٹ شٹ شٹ !! ہالے تم جہاں کہی بھی ہو وہاں سے جاو ۔"
"شانی کیا ہوا ؟؟"
"میں جو کہہ رہا ہوں وہ کرو !!!"
شان غصے سے بولا
"شان !!"
ہالے کی چیخنے کی آواز فون کے ساتھ یہی اِردگرد بھی آئی شان ایک دم تیزی سے اس طرف گیا اور اتنی تیزی سے وہاں پہنچا اس نے دیکھا ہالے کو ایک طرف کوئی گھسیٹ کر چھوٹے سے گھر لیے گیا تھا وہ بھاگا لیکن تب تک دروازہ بند ہوچکا تھا
"بھائی یہاں کچھ نہیں ہورہا !"
زاویار کی آواز واکی ٹاکی میں آئی
"زاویار اس سنگھنیا کمینے نے ہالے کو گھیر لیا ہے جلدی سے ریجنرز کو کہوں اس کے لیفٹ سائڈ کے کالی گیٹ والے گھر جس پر نمبر لکھے ہوئے ہیں فورن جلدی ۔"
اس نے گن نکالی اور دروازے پہ بے شمار شوٹ کرنے لگا پھر ایک دم اسے ہالے کی دلخراش چیخیے آئی
ریجنرز یہاں پہنچ چکے تھے اور شان تب تک دروازہ توڑ چکا تھا اور اندر آیا اس نے دیکھا ایک ٹوٹی ہوئی سیٹھری کے ساتھ خالی مکان تھا لیکن اسے پتا چل گیا یہاں پر ہی تیارئ ہورہی ہے اس نے باقیوں کو اشارہ کیا وہ سب برآمدئے کی اندر بڑے سے دروازے کی طرف بڑھے جبکہ شان اور زاویار اوپر سڑھیوں کی طرف بڑے ہی مشکلوں سے آوپر پہنچے جہاں انھوں نے ہالے کو کُرسی سے باندھا ہوا تھا
"رُک جاوں !!"
وہ دونوں بڑھنے لگے جب کسی کی آواز پہ رُکے
"او تو یہ ہے دراب کا بھتیجا ذیشان علی رضا واہ شکل بھی اس طرح ہی ہے ۔
ان میں سے ایک مولوی کے روپ میں بولا زاویار کو وہ پہچان نہیں سکے تھے
"تم میری بیوی کو چھوڑوں !"
شان نے گن اس طرف پوائنٹ کی
"اور تم ہمارے کاموں سے دور رہوں !"
وہ دھاڑا
زاویار نے کچھ سوچ کر ایک دم نیچے ہوا
"ہلنا مت !!"
وہ چیخے !
زاویار جو نیچے ہوا تھا ایک دم سٹل ہوگیا
ان لوگوں کی زاویار پہ توجہ ہوئی تو شان نے فورن ایک کے بازو پہ جبکہ دوسرے کے گردن پہ گولی ماری
"زاویار ہالے کو لیکر جا !!!"
زاویار تیر کی طرح بھاگا اور رسی کھولنے لگا فائرنگ ہونے لگی کچھ فوجی تیزی سے اوپر آئے
زاویار نے ہالے کو کھولا اور اسے اُٹھایا
"زاوی شان ۔"
زاویار نے آگئے سے کچھ نہیں کہا اور احتیاط سے نیچے لیکر جانے لگا شان انھیں مار کر ایک کمرئے کئ طرف بڑھا وہاں کوئی نہیں تھے اس نے دیکھا ایک اور چھت اس کے ساتھ اٹیچ تھی اور کچھ بندئے وہاں سے بھاگتے ہوئے دیکھا وہ شوٹ کرنے لگا وہ نیچے ہوئے شان نے جمپ لگائی اور تیزی سے بھاگنے لگا وہ پھیچے سے اسے شوٹ کرنے لگے شان نیچے ہوا
وہ ان کے قریب پہنچ گیا تھا کسی نے اسے گولی ماری اور وہ گولی اس کے سینے کے قریب جاکر لگی اس نے ایک دم دوسری طرف دیکھا دوسری بلڈنگ میں شارپ شوٹر کھڑا تھا اس نے ایک اور گولی مارتا ان میں سے ایک فوج نے اس پہ گولیوں کی نشر کرنے لگا شان ایک دم گڑ پڑا
"سر سر !!!"
ان میں سے کیپٹن علی نے اس پکڑا جو بلکل آنکھیں بند کر چکا تھا
اور دو اور فوجی نے بھاگتے ہوئے اسے پکڑ کر اُٹھایا اور نیچے کی طرف لیکر جانے کا راستہ ڈھونڈنے لگے
ہالے جیپ میں بیٹھی شان کا انتظار کررہی تھی زاویار بھی اس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا
"آپ روئے نہیں اس طرح میسج پہ آپ کو آنے کی کیا ضرورت تھی بھائی سے ایک دفعہ کال کرلیتی اور نمبر بھی پہچان نہ سکی ۔"
"مجھے کیا پتا تھا زاوی !!! میں نے کال بھی کی لیکن نمبر بند جارہا تھا پُرانا بھی کیا تو بزی تھا شان کی اتنے نمبرز ہے مجھے سمجھ نہیں آئی ۔
"اچھا آپ روئے تو نہیں ۔"
ایک دم شور کی آواز پہ زاویار نے بیک مرر سے دیکھا اس کا چہرہ سفید ہوگیا
وہ جلدی سے کار سے اُترا
"بھیا !!!!!!"
اس نے شان کے وجود کو دیکھا جس کو وہ اُٹھا کر آرہے تھے
"کیا ہوا انھیں !!!!!"
زاویار چیخا ہالے بھی اُتری تو اس کے پیروں تلے سے زمین ہی نکل گئی
"ذیشان !!!!!"
"بھاگ رہا تھا کے شارپ شوٹر نے اس پہ اٹیک کیا !مطلب یہ ہماری آمد سے واقف تھے ۔"
ان میں سے ایک فوجی بولا
شان نے ہولے سے آنکھیں کھولی اسے جیپ کے اندر لیٹایا گیا زاویار فرنٹ سیٹ پہ فورن بیٹھا جبکہ ہالے شان کے پاس اور اس نے اس کا سر اپنے گود میں رکھا
"آپ کو کچھ نہیں ہوگا شان کچھ نہیں ہوگا آنکھیں کھولے پلیز ۔"
وہ روتے ہوئے بولی
"زاوی!"
وہ تکلیف سے بولا
"بھیا !!!!
زاویار تڑپ کر بولا لیکن اس نے پھیچے مڑ کر نہیں دیکھا اور ریش ڈرائیونگ کررہا تھا
"زاوی آنی کا خواب پورا کرنا ۔"
شان تکلیف سے بولا
"سٹاپ اِٹ بھیا !!!"
زاویار چیختے ہوئے ہوسپٹل کے قریب آیا اس نے ہالے سے بھی چند الفاظ کہے اور کلمہ شہادت پڑھ کر آنکھیں موند لی
"شان !! شان !!!"
ہالے اس کا چہرہ تھپ تھپانے لگی
لیکن وہ کوئی رسپونڈ نہیں کررہا تھا زاویار نے ہوسپٹل کے قریب روکا اور جلدی سے اُتر کر اسے اُٹھایا اور لیکر گیا
لیکن ڈاکڑ نے پندرہ منٹ روم سے نکلنے کے بعد ہی جواب دیں دیا
اور زاویار اور ہالے کو لگا جیسے سانس لینے کی آخری وجہ بھی چھین لی ہوں
لوکیشن :ہونک کانگ ،چائینہ
مہر اس کے ساتھ ہونک گونگ کے سب سے بڑے مال میں
آئی تھی زاویار نے ویسے ہی گھومنے کے لیے کہا تھا لیکن مہر نے اس کی بات پہ یقین نہیں کیا تھا وہ اس وقت ٹائیم سکویر مال کے اندر گھُسے
"زاویار اگر لیں آئے ہو تو شاپنگ کروادو گئے نا ۔"
مہر جب اپنی فیورٹ شاپ زارا میں گُھسی تب زاویار سے بولی
"ہاں اگر تمھارے پاس پیسے ہیں تو ضرور کروادیتا ہوں ۔
زاویار بلکل سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا
مہر نے جبکہ اسے گھورا
"کنجوس آدمی !!!"
"چڑیل کا شوہر کنجوس تو نہیں ہوتا ۔"
زاویار ہلکی سے مسکراہٹ پہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگا جب اس کی نظر فورن اُدھر پڑی مہر اسے اگنور کر کے ایک سویٹر اُٹھا کر دیکھنے لگی جو نیوی کلر کی تھی
"یہ کیسی ہے !"
وہ شیشے میں کھڑی اس سے پوچھ رہی تھی جبکہ زاویار اس ریڈ بالوں والی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو ڈریسز سیکشن میں تھی مہر نے سر اُٹھایا اور پھر زاویار کو اس طرف دیکھتا پایا تو اس کا منہ کھُل گیا اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی
"زاوی ! "
"زاوی !!!!"
مہر اس کے سامنے آئی وہ چونکہ مہر نے اسے خنخوار نظروں سے دیکھا
"اگر جی بھر کے دیکھ لیا ہو تو چلے یہاں سے ۔"
"ہے تم نے پسند کرلیا ۔"
"جب میرے شوہر نے مجھے کچھ نہیں لیکر دینا تو احساس کمتری سے بچنے کے لیے بہتر ہے بندہ یہاں سے چل پڑیں ۔"
مہر غصے سے بولی
"ہاں چلو ویسے بھی اتنے کپڑے ہیں تمھارے پاس کمی تھوڑی ہے ۔
مہر نے اپنی آنکھیں گھمائی چل پڑی دیکھا زاویار چلتے ہوئے وہی دیکھ رہا تھا
"زاویار میں تمھاری آنکھیں پھوڑ دو گی ۔"
مہر کے سخت لہجے پہ وہ مڑا وہ اسے آگ برساتی نظروں سے دیکھ رہی تھی
"میں نے کیا کیا ؟؟؟"
"پورے دس منٹ سے تم اس برگڈنی کھوتی کو دیکھ رہے اور پوچھ رہے ہو میں نے کیا کیا ۔۔"
اس کے برگڈنی کھوتی کے لفظ پر زاویار اپنا قہقہ نہ روک سکا
"اللّٰلہ میرے تم یہ لفظ کہاں سے لاتی ہو برگڈنی کھوتی !! اُف "
"بھاڑ میں جاو !!!"
"یہ بھاڑ کہاں ہے نسا !!!"
زاویار اپنے ہنسی روکتے ہوئے بولا
"آئی ہیٹ یو !!"
"بٹ آئی لو یو !!"
زاویار کے کہنے پر وہ ایک دم چُپ ہوگئی
"بے شرم !!!"
ناک چڑاتے ہوئے کہا گیا
زاویار کو اب اپنا سر نوچنے کا دل کیا
"تم چاہتی کیا ہو کھبی روڈ ہو تو تکلیف کھبی پیار سے بات کرو تب تکلیف !!"
"تم بس کچھ نہ کرو !"
مہر کی نظر سامنے پڑی جہاں ایک بندئے نے جسٹن بیبر کے گانے پہ پرفارم کررہا تھا
اور اس کے سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی جو بہت پیار سے اسے دیکھ رہی تھی شاہد اس کی گرل فرینڈ تھی
سارے لوگوں اس کے پرفارمنس دیکھنے کے لیے اِردگرد جما ہونے لگے مہر نے زاویار کو دیکھا جو بے زار سی شکل بنا رہا تھا
"چلے اِدھر کیوں کھڑے ہے ۔"
"تم چلے جاو سڑے ہوئے آدمی !!!"
زاویار نے حیرت سے دیکھا
پھر وہ بندہ ایک دم گھٹنے کے بل تیزی سے سلائڈ کر کے لڑکی کی طرف آیا اور جیب سے فورن ڈایمنڈ کی رنگ نکالی لڑکی بے آختیار چیخ پڑی
"توبہ یہ کوئی تمھاری طرح ہے چڑیل ۔"
جبکہ مہر اس منظر میں کھو گئی سارے لوگ اس لڑکی کے ہاں کرنے کے منتظر تھے اور لڑکی نے ایک سکینڈ نہیں لگایا ہاتھ آگئے کرنے میں اور پھر پورے مال میں شور اُٹھا مہر کی آنکھوں میں اچانک ہی نمی آگئی وہ بھی لڑکی تھی ونڈرلیندز میں رہنے والی اس کی بھی ہر لڑکی کی طرح فینٹسی دُنیا سے محبت تھی ہاں یہ تھا وہ ظاہر نہیں کرتی تھی لیکن اس کا دل بہت کرتا تھا ایسے چھوٹے اور خوبصورت ونڈرز اس کے ساتھ ہوں ۔
"چلے یا ان کے ولیمے کا بھی پتا کروانا ہے ۔"
زاویار کی سنجیدگی کی آواز پہ وہ مڑی اور خفگی سے اپنے سڑے ہوئے شوہر کو دیکھا
"تمھیں تکلیف ہورہی ہے نا کے تمھیں اس برگڈنی کھوتی سے دور کردیا ۔"
زاویار کا سر چکڑا گیا
"تم ہر چیز کو پکڑ کیوں لیتی ہو !!!"
"میں پکڑتی ہوں ! ہاں ہاں لڑو مجھ سے تاکہ جان چھٹ جائیں اور تم اس برگڈنی کھوتی کے پاس جاوں ۔"
Now your irritating me nisa
(اب تم مجھے تنگ کررہی ہو نسا )
زاویار اب گہری سنجیدگی سے بولا
"دیکھا اب منہ سے اقرار کرلیا ٹھیک ہے شوق سے گھوموں اس کے ساتھ میں جارہی ہوں۔"
وہ اسے سخت نظروں سے دیکھ کر وہاں سے چل پڑئ
※※※※※※※※※※※※※※※※
زاویار اور ہالے کے لیے قیامت سے کم نہیں تھا وہ دن اس دن وہ جیسے ٹوٹ گئے تھے لیکن پھر بھی صبر کرنا پڑتا ہے نہ بھی کریں تو وقت کے ساتھ آجاتا ہے دیر سے صیح لیکن آتا لازمی ہے ۔ زاویار کے اندر بدلے کی آگ بھڑکی تھی اور اتنی تیزی سے بھڑکی تھی کے انسان اندر سے بسم ہوجائیں ، ہالے کی امی اپنی بیٹی کی اجڑی حالت کو دیکھ نہ پائی اور شان کے سوئیم کے بعد اس دُنیا سے چل بسی جس سے ہالے مزید ٹوٹ گئی زاویار نے اس کا دل بہلانے کے لیے گلگت بھیج دیا جہاں شان نے دو کاٹچ خریدئے تھے ایک بند تھا جبکہ دوسرا وہ خود کسی کام سے استمعال کرتا تھا ہالے جانا نہیں چاہتی تھی لیکن زاویار نے سدرہ کئ قسم دیں اور اسے کہا کے اسے سدرہ کے لیے جینا ہے جو ابھی صرف دس سال کی تھی ہالے کو ناچارا منانا پڑا اور وہ اور سدرہ وہی چلی گئی اور زاویار شان کے آدھورا میشن پورا کرنے کی الگ سی پلینگ کرنے لگا لیکن اسے پلان کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی وہی سے کرنا تو شان نے پلان کیا تھا اور تب شروع ہوا جب مہر پہ پہلا اٹیک ہوا
※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※
لوکیشن : ہونگ کانگ ،چاہینہ
وہ ہوٹل روم میں پہنچی اور اس نے دیکھا اس کا فون بز ہوا اس نے دیکھا اسے ایمیل ریسو ہوئی ہے اور یہ ائیمیل اس کی دوست اور اس کی فیلو نشا کی تھی جس کا نام ایجنٹ بٹر فلائی تھا
مہر نے اس کی ائیمیل پڑھی تو حیران ہوئی کیونکہ وہ چائینہ میں تھی اس نے جلدی سے نشا کا نمبر ملایا اور ایک صوفے پہ بیٹھ گئی
"ہلیو مہرو تم چائینہ ہو او مائی گاڈ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں !!"
"نشا تم چائینہ کیا کررہی ہوں !!"
"یو نو ڈیر آڈرز !! تمھارا بھی یہی سین ہے ۔"
"نہیں میں اپنے ہزبنڈ کے ساتھ ہنی مون کے لیے آئی ہوں !!"
مہر کھبی بھی اپنے کیس سے متعلق بات نہیں کرتی تھئ وہ بے شک زاویار اس کا شوہر ہی کیوں نہ ہو وہ اس معاملے میں بہت محتاط تھی !"
"واٹ ڈڈ یو گاٹ میرڈ کس سے کون ہے وہ ۔"
"زاویار نام ہے انٹیلجنس آفسر ہے !"
"مائی مہر تم کمینی کچھ نہیں بتایا اور شادی کرلی لو میرج ہے !"
مہر نے منہ بنایا
"نہیں ایرینج !!"
"کس نے کروائی آئی مین کیسے کیا ہوا !!"
نشا بہت دلچسپی سے بولی
"ملے کہی میں بس کچھ دن ہو یہاں !"
"تو پھر مہرو ڈیر آج ہی مل لو ویسے کون سے شہر میں ہو!"
"ہنک گونگ !"
"واو گریٹ پھر میرے سے ہارڈ راک کیفے میں ملاقات کرو میرے ساتھ ڈیم اور عدیل بھی ہوگئے ۔"
"وہ بھی ہے یہاں !!"
"آفکورس مہرو اچھا میں رکھتی ہوں باس کی کال ہے شام کے آٹھ بجے ریڈی رہنا ! "
"اوکے !"
مہر نے ہامی بھری اور اُٹھی کے دروازہ کھلا دیکھا زاویار اندر داخل ہوا تھا
مہر اسے اگنور کر کے واش روم کی طرف بڑھئ زاویار بھی اسے اگنور کرتا ہوا بستر کی طرف بڑھ پڑا
※※※※※※※※※※※※※※※※※※
رات کے آٹھ بجے مہر نے اپنی بلیک کلر کی وگ پہنی اور پھر اپنا جائزہ لینے لگی
بلیک جینز کے اوپر بروان شرٹ جو گھٹنے سے اوپر آتی تھی اس کے ساتھ اس نے بلیک چھوٹی سی جیکٹ پہنی اور اب اپنے اوپر سپڑے چڑھک رہی تھی میک آپ کے نام پہ اس نے صرف رسٹ کلر کی لپ سٹک لگائی تھی وہ اب اپنی فیک آئی سائیٹ گلاسس پہن رہی تھی اس کی یہاں پہچان روزینہ وقار کے نام سے تھی
وہ اپنے لانگ بوٹس اُٹھا کر کمرئے کی طرف بڑھی جہاں بستر پر زاویار ابھی تک سویا ہوا تھا
مہر نے بس زرا سا دیکھا اور صوفے پہ بیٹھ کر پہنے لگی
اور پھر جب پہن کر اس نے اپنا پرس اُٹھایا ساتھ میں بروان پام والی ٹوپی اُٹھاتے ہوئے اس دیکھا کے کہی اُٹھ نہ جائے اور کچھ ہنگامہ نہ کردیں اس نے ایک چٹ اُٹھائی اور لکھنے لگی پھر سر جھٹک کر وہی چٹ چھوڑ دیں کے بڑی اسے پروا تھی اور کمرے سے نکل پڑی
※※※※※※※※※※※※※※※※
لوکیشن :ہونگ کانگ ،چائینہ
وہ ہارڈ راک کفیے پہنچی اس نے دیکھا وہاں بہت رش تھا اس کا دل کیا واپس چلی جائیں لیکن اپنا سر جھٹکتے ہوئے اس نے فون سے نشا کو میسج کیا
"تم کہاں ہو؟"
کسی نے مہر کے کندھے پہ ہاتھ رکھا مہر مڑی تو عدیل کھڑا تھا لمبا چوڑا گھنگرالے بال کے ساتھ نیلی آنکھوں والا کیپٹن عدیل مہر کا دوست تھا
"عدیل کیسے ہو گڈ ٹو سی یو لیکن تم نے مجھے کیسے پہچانا !!"
عدیل مسکرایا پاس میں دھکے لگ رہے تھے عدیل نے بازو آگئے کی تاکہ مہر کو نہ لگے
"او کام آن میں آفسر ہو پہنچنا جاتا ہوں آو سائڈ پہ چلتے ہیں ۔"
"نشا اور ڈیم کہاں ہے ؟"
مہر نے اردگرد دیکھا لیکن اسے اتنے رش اور آندھیرے میں نظر نہیں آرہا تھا
"آتے ہی ہوگئے تم آو ڈرنگس لیتے ہیں ۔"
مہر نے سر ہلایا
مہر کو وہ اورنج جوس پکڑاتے ہوئے اور خود اپنا پینا کولاڈا کے سپ لینے لگا
"سُنا ہے محترمہ مہر نے کریر کے بگینگ میں شادی کر لی خیرت ہے ۔"
"بس کچھ ایمرجنسی کے بنا پر کرنی پڑی ورنہ تم تو جانتے ہو میں بیس سال کی عمر میں کھبی نہ کرتئ اور پلیز ایجنسی کو فل حال اس بارے میں پتا چلنا نہیں چاہیے ۔"
"اوکے یار ویسے سُنا ہے اِدھر گھومنے آئی ہے ہزبنڈ کے ساتھ کدھر ہے وہ ۔"
"برگڈنی کھوتی کے خیالوں میں ہوگا ۔"
مہر نے دل میں سوچا
جب نشا عدیل کے قریب آئی
"عدیل بدتمیز میں نہیں آئی تو اپنے لیے کمپنی ڈھونڈ لی کون ہے یہ ؟"
مہر نشا کے غضیلے لہجے پہ ہنس پڑئ
"توبہ کرو نشا یہ !"
"ائیم روزینہ وقار ! دیلی نے بہت ذکر کیا تھا ۔"
مہر شرارت سے بولی
عدیل ہکا بکا سے دیکھنے لگا
"او دیلی تو یہ اب تم ایک دن میں اس کے دیلی ہوگئے ۔"
"کیا ہورہا ہے !"
ڈیم کی آواز پہ مہر نے اسے دیکھا ڈیم اسے پہچان گیا
"مہر ! تم !!"
نشا نے حیرت سے مہر کو دیکھا اور سب مل کر ہنس پڑے
"او مائی گاڈ مہرو یہ تم میں بھی کہوں پتا نہیں کون ہے ۔"
نشا نے گہرا سانس لیا عدیل تو بامشکل مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا
"تو مہر بھی ایک لڑکی ہی ہے نشو !!!"
"ہاں لیکن کسی کی بیوی بھی ہے مہرو تمھارا سول میٹ کدھر ہے ؟"
نشا اس سے ملنے کے بعد بولی
"کسی کام سے گئے ہے اور ویسے بھی کہا کے اپنے دوستوں میں میرا کیا کام۔"
اس نے جھوٹ بولا
"اچھا خیر باتیں تو ہوتی رہے گی عدیل تم زرا آڈر تو کرو ۔"
"ہم تو کر چکے ہیں تم کرو ۔"
عدیل نشا کو بولا
وہ ساری لوگ اپنے گفتگو میں لگے ہوئے تھے جب مہر کی نظر سامنے پڑی لال ڈریس میں لال ہی بالوں میں اور ہیوی میک آپ میں وہ برگنڈی کھوتی ہی تھی لیکن سب سے بڑا جھٹکا اس کے ساتھ کھڑے ہنس کر باتیں کرنے والا اس کا شوہر زاویار عباس تھا بلیو جینز میں وائٹ پولو شرٹ کے ساتھ بلیک قمیتی جیکٹ پہنے جس کے کولر اوپر ہوئے وے تھے اس کے دھاڑی اور موچھ کہی بھی نہیں تھی وہ اپنے ہی حُلیے میں تھا اس کی کیا وجہ ؟ لیکن سب سے بڑی آگ تو جب اس برگنڈی کی بچی نے زاویار کے کولر کو چھوا مہر کا گلاس وہی سے چھوٹا
سارے ہنستے ہوئے پھیچے ہوئے
"مہر کیا ہوا ؟"
نشا فکرمندی سے بولی
"ائیم سوری ! پتا نہیں کیسے ۔"
مہر ہکلا کر بولی
"کوئی بات نہیں تمھارے لیے دوسرا منگواؤں !"
"نہیں میں واش روم سے آتی ہوں !"
"میں چلوں ۔"
مہر نے نفی میں سر ہلایا
اور زخمی نظروں سے زاویار کو دیکھا جو اِردگرد سے بے نیاز اس کھوتی میں کھویا ہوا تھا
"تمھیں تو آج میں جان سے مار دو گی عباس کے بچے !!"
وہ دل میں کڑھ کر واش روم کی طرف بڑھی اس نے دیکھا اس کا چہرہ غصے سے سُرخ ہوچکا تھا آنکھوں میں شرارے پھوٹ رہے تھے
"کمینہ ،زلیل ! لعنت ہو اس پر جوتے سے کا منہ لال کردو گی کام ڈوان مہر لیکن کیسے کام ڈاون ! ایک ہی دن میں اس کے ساتھ باتیں کرنے لگا اور مجھے نا پاکر ڈیٹ پہ چلا گیا خدا کے لعنت ہو اس پر ۔"
مہر نے اپنے آنسو کو بامشکل روکا اور اپنے عکس کو ڈانٹا
"خبرادر اگر تم روئی ورنہ تم پر بھی فٹے منہ مہر نہیں ہو تم مہر النِسا دراب ہو ایک مضبوط عصاب کی مالک جسے کسی کی کوئی پروا نہیں ہے روتے بزدل ہے تم بزدل نہیں ہوں ۔"
خود سے پندرہ منٹ باتیں کرنے کے بعد اس نے ہاتھ دھوئے اور باہر کی طرف بڑھی اس نے ایک نظر بھی ان دونوں کو نہیں دیکھا
"دیر لگا دیں یار میں بھی آنے والی تھی تم ٹھیک تو ہو نا ۔"
مہر نے سر اُٹھایا اور پھر اثبات میں سر ہلایا
"ہاں یار بلکل ٹھیک ہوں بس ایسے ہی گھبراہٹ سی ہورہی تھی اب ٹھیک ہوں۔"
مہر کی نظر بلا آرادہ زاویار پہ پڑی اور زاویار بھی ایسے باتوں ہی باتوں میں نظر مہر پہ پڑ گئی مہر کا دل دھڑک اُٹھا لیکن زاویار نے اسے اگنور کر کے آگئے دیکھنے لگا مہر ک دماغ گھوم اُٹھا
"قہر نازل ہو اس پر ۔"
اس نے لب زور سے بھینچے ۔
"ہاں تو کیسے ملاقات۔ ہوئی کیسے ملے ایک ایک ڈیٹیل بتاو۔"
نشا کی آواز پہ مہر نے دیکھا
"کیا بتاوں ؟"
مہر کے لہجے میں انجانے میں ہی تلخی آگئی
کسی نے تو نہیں لیکن عدیل نے اسے چونک کر دیکھا
"یار مہر اب شرم کیسی بتاو نا ہاو یو گایز مٹ !"
نشا نے معنی خیز نظروں سے دیکھا
"پاکستان !"
"اچھا لیکن پاکستان میں کہا !"
"عدیل تمھیں نشا پسند کرتی ہے ۔"
مہر نے جان چھڑانے کے لیے کہہ دیا اور نشا کا منہ کھل گیا
"یہ بات کہاں سے آئی ۔"
عدیل ہنس پڑا
"لیکن مجھے نہیں پسند یہ ۔"
عدیل سمجھ گیا تھا کچھ بات تو ضرور ہے نشا نے اسے گھورا
"مہر تم بہت بدتمیز ہو !"
"ائی نو !!"
مہر ہنس کر بولی
ڈیم نے بوتل منہ سے لگائی
"مجھے تم سب کی سمجھ نہیں آرہی بات پہلی ختم ہوتی نہیں کے دوسری شروع کردیتے ہو ویسے مہر دیکھنے میں کیسا ہے یور مین آف یور ڈریمز !!!"
"گینڈسم !"
مہر ایک لفظ بولی
"ہیں !!!!"
سب نے حیرت سے دیکھا
"تم نے ہینڈسم ہی کہا ہے نا ؟"
ڈیم نے اسے پوچھا
"ہاں ہاں ۔"
عدیل کو مہر کی کفیت کی سمجھ نہیں آئی
زاویار اور وہ اُٹھ پڑئ تھی مہر نے دیکھا وہ کفیے سے باہر کے بجائے ڈانس فلور پہ آئے
مہر نے اپنی مٹھی سختی سے بھینچ لی اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا
وہ برگنڈی جاکر ڈے جے کو سونگ بولی جبکہ زاویار سب سے بے نیاز اِدھر اُدھر دیکھنے لگا
"او مائی یہ کون ہے ہینڈسم !!"
نشا کی آواز پہ مہر نے دیکھا وہ زاویار کو پوائنٹ آوٹ کررہی تھی
"اس کی ہائٹ کتنی زبردست ہے یہ پورے کلب میں سب سے زیادہ اونچا اور نمایا لگ رہا ہے ۔"
مہر نے نشا کی سُنی اور پھر زاویار کو دیکھا وہ برگنڈی زاویار کے قریب آئی زاویار نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑا مہر کا وہی سے پاڑا آوٹ ہوگیا لیکن ضبط کرتی رہی
ایک دم Justin timberlake کا سونگ mirror لگا
اور زاویار نے اس کے ساتھ ڈانس کرنا شروع کردیا بلکل جی ٹی کے سیم سٹیپس دیکھ کر سارے لوگوں کے حیرت سے منہ کھل گئے سارے لوگ اس ڈانس میں گُم ہوگئے اور نشا وہ تو بُری طرح سے فدا ہوگئی
"مائی مہر اس نے تو جسٹن کو بھی بیٹ کردیا اتنا بیسٹ ڈانس ہائے کاش اس کی باہوں میں میں ہوتی ۔"
اور مہر نے دُکھ بھری نظر اِدھر دیکھا وہ اس کا شوہر تھا وہ دوسری لڑکی کو باہوں میں لیے سب کے سامنے ناچ رہا تھا اس کی شرعی اور قانونی بیوی بھی سامنے تھی
"ہاں یار واقی بہت اچھا کررہا ہے ۔"
زاویار نے اس گھمایا اور پھر اس نیچے جھکایا اس کی ایک ایک سٹیپ مہر کو حسد کی آگ میں دکھیل رہے تھے اسے پتا نہیں چلا کب ڈانس ختم ہوا کب زاویار نے سب سے ستائیس وصول کرنے لگا مہر نے عدیل کا ہاتھ پکڑا ،عدیل نے حیرت سے دیکھا
"عدیل میرے ساتھ ڈانس کرو گئے !!"
عدیل کو جھٹکا لگا
"کیا !!!"
"ہاں پلیز تم بھی تو کالج کے ٹائیم میں بہت اچھے ڈانسر تھے ۔"
مہر نے منت کی
"لیکن اس کو دیکھ کر تو مجھے اپنا آپ بھول گیا ہے اور پاگل ہو اگر تمھارے شوہر کو پتا چلا !!"
"وہ یہاں نہیں ہے اور وہ خود ایسا ہے ۔"
مہر دانت پیستے ہوئے بولی
"کیا مطلب !!"
عدیل کو کچھ تو شک پڑ رہا تھا آخر کو تھا تو ایجنٹ
"پلیز !!!"
"اوکے !!"
مہر سیدھا زاویار کو پاس کر کے ڈے جے کے پاس گئی اور اپنا فیورٹ Despacito لگاوانے کا کہا
وہ واپس آگئی اور اس نے عدیل کا ہاتھ پکڑا اور اس نے زاویار کو دیکھا جو ایک دم اسے دیکھنے لگا مہر کے چہرے پہ ظنزیا مسکراہٹ آئی
"عدیل مہر کی ٹانگیں نہ تڑوادینا !!"
ڈئیم شرارت سے بولا
نشا ہنس پڑی
"اس کے بعد ہمارے باری گائز !!"
مہر اور وہ ڈانس فلور پہ آئے اور جیسے ہی عدیل اس کی کمر پکڑ کر ناچنے لگا کے ایک دم کسی فورس نے اسے دھڑم کر کے گرایا اور اس کا سر چکڑا گیا پھر اس نے محسوس کیا یہ فورس اس کے چہرے پر پڑی تھی اور اسے اپنی ناک پہ نمی محسوس ہوئی
Touch her again I'll make your grave
اور یہ دھاڑ کسی عام انسان کی نہیں تھی کسی شیر کی تھی اور مہر نے اس شیر کو دیکھا جو سُرخ نظروں سے عدیل کو دیکھ رہا تھا وہ شیر اور کوئی نہیں اس کا شوہر زاویار عباس تھا
سارے لوگ ڈر کے پھیچے ہوئے
"زاوی !!!"
مہر چیخی
زاویار نے اسے نہیں دیکھا اور پھر آگئے بڑھ کر اس گھسیٹ کر اُٹھایا
"تمھاری اتنی جرعت اسے ہاتھ لگانے کی !!!"
زاویار اسے ایک اور مکا مارتا کے عدیل نے ہاتھ سے پکڑ کر اسے مارا
"مہر یہ کون ہے اس نے کیوں مارا عدیل کو ۔"
اس نے دیکھا وہ اب دونوں پاگلوں کی طرح لڑرہی تھے
وہ کچھ کہے بنا آگئے بڑھی
"چھوڑیں زاویار چھوڑوں اسے !!"
عدیل نے زاویار کے منہ پہ پنج مارا مہر چیخی
"عدیل چھوڑو!!! "
لیکن وہ سُن رہے تب نا ۔"
سکیورٹی گارڈز آگئے تب جاکے انھیں روکا
"تم کیا اس کے ماموں لگئے ہوں جو ہاتھ لگانے پہ تکلیف ہورہی ہے ۔"
عدیل دھاڑا زاویار جو ہٹنے والا تھا اس نے عدیل کی گردن پکڑ کر سامنے ٹیبل پہ گرایا
"بیوی ہے میری !!!!"
زاویار اس سے زیادہ دھاڑا مہر نے اپنا سر تھام لیا اور ان کے سامنے آئی
"بس کرو تم دونوں !!!!"
"تو بیوی کو چھوڑ کر دوسرے پہ منہ مارو گئے تو یہی ہوگا ۔"
عدیل بامشکل اُٹھتے ہوئے زاویار کو مارنے لگا مہر سامنے آئی
"بس عدیل ائیم سوری !"
"مہر یہ ذلیل شخص تمھارا شوہر ہے ۔"
زاویار نے مہر کو ہٹایا لیکن مہر پھر اِدھر آئی تب پولیس کی سائرن کی آواز آئی تب جاکر زاویار کو ہوش آیا کے وہ بہت بڑی غلطی کر چکا تھا
"شٹ شٹ !!!!"
وہ مہر کا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے وہاں جانے لگا مہر نے چھڑوایا
"ہاتھ چھوڑو میرا جاو اس کھوتی کے ساتھ مرو !!!"
مہر چیختے ہوئے بولی زاویار تیزی سے وہاں اسے لیکر دوسری دروازے کی طرف گیا
"سارا کھیل بگاڑ دیا یہ سب تمھاری وجہ سے باہر نکلوں اب تم ٹانگیں توڑ دو گا میں ۔"
زاویار سخت لہجے میں بولا
اس کے چہرے سے خون نکل رہا تھا لیکن اسے کوئی پروا نہیں تھی
"تم اتنے ٹپکل مرد ہوگئے میں نے یہ کھبی سوچا نہیں تھا ۔"
مہر چیختے ہوئے بولی زاویار اور وہ اب باہر آچُکے تھے زاویار نے اگئے بڑھ کے اسے دیوار کے ساتھ لگایا
"تم ایک دُنیا کی بے وقوف اور جاہل ترین لڑکی ہوں تمھیں بھائی نے اکیسیپٹ کروا کر دُنیا کی سب سے پہلی اور بڑی بے وقوفی کی ہے ۔"
مہر نے آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھا اور آگئے بڑھ کر اسے تھپڑ لگایا زاویار کا منہ تو نہیں ہلا لیکن مہر کو اتنے زور سے مارنے پہ ہاتھوں میں درد ہونے لگا
"اور تم دُنیا کے سب سے گھٹیا ،چیپ تھرڈ کلاس آدمی ہو !!!!"
مہر اس کے منہ پہ چلائی زاویار نے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھا
"چلاوں مت !!! گدھی !!"
مہر نے زور اپنا ہاتھ ہٹایا
"چلاوں گی کیا کر لو گئے تم گدھے !!!"
زاویار نے جھک کر اس کی بولتی بند کردی مہر کو ایک دم غصہ آیا اس نے اس دھکا دیا لیکن زاویار مزید قریب ہورہا تھا
مہر کو لگا اس کی سانسیں بند ہوجائیں گی
اس نے زور لگایا تب جاکر وہ آلگ ہوا
"اس کھوتی سے دل بڑھ گیا اتنی جلدی ! "
مہر غصے سے بولتے ہوئے گہرے سانس لینے لگی
"مہر !!! وہ سنگھنیا کی بندی تھی !!!
"تو اس سنگھنیا کی بندی کے ساتھ ۔کیا مطلب ؟؟"
مہر بولتے ہوئے ایک دم کنفیوزڈ ہوکر دیکھا زاویار نے اپنے سر پہ ہاتھ پھیرا
"دیکھو ! میں تو بے وفا اور نہ ہی بدکردار ہوں ! مجھے صیح غلط کا پتا ہے اور میں نے اس کے ساتھ کچھ نہیں کیا ۔"
"ہاں اسلام میں تو اجازت ہے نہ غیر لڑکیوں سے ڈانس کرنی کی باقی سب حرام ہے چلوں میں نہ بھی بدلہ اتارا تکلیف کس بات کی تھی اور تمھاری اتنی ہمت تم نے عدیل کو مارا ۔"مہر اس کا گیربان پکڑتے ہوئے تیزی سے بولی
Stop it women
زاویار اب دھاڑا
No I will not stop it
"مہر میرا صبر مت آزماؤں !!"
"اور تم کیا کررہے ہو ۔"
مہر رونا نہیں چاہتی تھی لیکن اس کی آنکھیں نم ہوگئی
"کیا کررہے ہو تم میں تمھیں کھبی سمجھ نہ سکی زاوی اتنے کمپلیکیٹٹ کیوں ہو آخر کیوں کہتے ہے کسی کو اتنا آزمانا نہیں چاہیے کے بعد میں پچھتاوے کے سوا کچھ نہ بچے تم اپنی لمٹ کراس کررہے ہو میں نے کہا میں ایجنٹ ہو لیکن اس سے پہلے میں ایک لڑکی ہوں نازک سے لڑکی جسے تنہائی نے سرد کردیا تھا لیکن جب تم ملے تو وہ سرد سی برف پگھل رہی تھی اسے ایک روشنی ملی لیکن تم مجھے آزما کر سرد نہیں کروں گئے مردہ کردوں گئے کیونکہ میں اب اپنے جزبات کا سرد پن برداشت نہیں کر پاوں گی اور اندھیری قبر میری منزل ہوگی ۔"
وہ اپنے سخت آلفاظ پہ اسے ساکت چھوڑ کر چل پڑی
************
وہ بستر پہ لیٹ کر مسلسل روئے جارہی تھی جب اسے دروازہ کھلنے کی آواز آئی اس نے اپنا منہ کمبل میں چھپا لیا تاکہ زاویار کو لگے وہ سو گئی ہے ۔ زاویار نے چابی ٹیبل کے سائڈ پہ رکھی اوراپنے خون الود کپڑے دیکھے اور پھر گہرا سانس لیکر وہ واشروم کی طرف بڑھا
کچھ دیر بعد وہ دھلا دھلایا بلیک شلوار قمیض میں موجود اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا وہ جانتا تھا مہر ابھی تک سوئی نہیں تھی کیونکہ اس کا جسم ہلکے ہلکے جھٹکے کھا رہا تھا
وہ آگئے بڑھا اور بیڈ کے دوسرے طرف آکر اس نے میسج کسی کو سینڈ کیا اور پھر لیٹ گیا اس نے مہر کی طرف دیکھا جو اب بلکل سٹل ہوگئی تھی پھر وہ تیزی سے اُٹھنے لگی کے زاویار نے اس کا بازو پکڑ لیا
"فرشتوں سے لعنت حاصل کرنے سے بہتر نہیں ہے تم چُپ کر کے آرام سے سو جاوں ۔"
زاویار نرمی سے بولا
"کسی کا تم جیسا شوہر ہو !!! تو وہ لعنت بھی خوشی خوشی قبول کر لے گا ۔"
مہر تلخ لہجے میں کہنے لگی جب زاویار نے اسے کھینچا مہر اسے لڑنے لگی لیکن زاویار نے اس کی کمر کے گرد بازوں حمائل کر لیے اور مہر اسے مارنے لگی
"تم ایک فضول آدمی ہو !!"
"میں جانتا ہوں !"
"گھٹیا چیپسٹر !"
"آئی نو !"
"اوور انسان !"
"یہ بھی مانتا ہوں !"
"ایب نارمل !!"
"تم سے زیادہ ۔"
"کھوتی کا کھوتا !!"
"ارے اپنے آپ کو کھوتی کیوں کہہ رہی ہوں ۔"
زاویار ہنستے ہوئے بولا
"میرا دل کررہا ہے تمھارے ہاتھ توڑ دو !!"
مہر بچوں کی طرح بولی
"غلام حاضر ہے !!"
زاویار دل فریب مسکراہٹ سے مہر کے سینڈ بالوں کو سائڈ پہ کرنے لگا
"آنکھیں نوچ لو گی ۔"
"پھر تمھارا خوبصورت چہرہ کون دیکھے گا ۔"
"زہر لگتے ہوں تم !!!
"اور تم مجھے شہد !!"
اس طرح وہ اسے بُرا بھلا کہہ رہی تھی اور وہ پیار سے اس کے بال سہلاتے ہوئے ہر چیز مان رہا تھا کھبی کھبار ایک کو تو ہار ماننی ہوتی ہے اسی طرح رشتے نبھائے جاتیں ہیں اور یو ہی اسے ہیر پھیر میں کب رات گزری اور وہ دونوں ایک دوسرے کے بازوں میں سوگئے
لوکیشن : ہونک کانگ چائینہ
زاویار نے اسے سارا پلان بتایا اور اسے فائل پکڑائی مہر اُٹھا کر اسے دیکھنے لگی اس برگنڈی کا نام فیدر تھا اور وہ سنگھنیا کی ایکس گرل فرینڈ تھی لیکن کچھ دن سے اس کی سنگھنیا سے ملاقات ہورہی تھی جس کی وجہ سے زاویار نے اسے بہکانے کی کوشش کی جو آدھی کامیاب بھی ہوگئی تھی اور اسے سنگھنیا کے بارے میں پتا چلا جو آج ہی ہونک کانگ آئے گا کیونکہ فرانس میں رہتے ہوئے شک بڑھ سکتا ہے ، دوسرا اس نے میٹنگ یہی پر رکھنا مناسب سمجھی
"تو پتا چلا وہ کون سے ہوٹل آرہا ہے ۔"
زاویار نے مہر کی بات پہ سر اُٹھایا جو فائل کو غور سے دیکھتے ہوئے بولی
"ہاں سنگھنیا نے اسے بلایا ہے نائیٹ سپنڈ کرنے کے لیے
اور ہمیں وہاں جانا ہے کیونکہ اس کے ساتھ دو بندئے بھی آئے گئے پتا تو چلا اب ہمارے مرنے کے بعد وہ کریں گا کیا لیکن ایک مسئلہ ہے ۔"
مہر نے سر اُٹھایا
"وہ کیا ؟"
"اب ظاہر ہے یہ ایک اکیلہ ایجنٹ تو نہیں اس کے ساتھ آٹھ ایجنٹ بھی شامل ہے لیکن وہ دوسرے ہوٹل میں قیام کریں گئے اور ان کی میٹنگ اس سنگھنیا سے پہلے ہوگی کیونکہ ان کے تین پلان ہوتے ہے ائے بی اینڈ سی اور یہ ان ایجنٹس میں ڈیواڈ ہوتا ہے اور یہ ایک دن میں ایک وقت میں کیسے ہوگا۔"
"زاویار مسئلہ کون سا تم سنگھنیا کے پاس جانا میں ان باقی کی ایجنٹس کی طرف جاوں گی ۔"
"پاگل ہو!!!"
"پلیز زاویار میں بھی خود اس میشن کا حصہ ہوں !!"
"کام آن لیڈی وہ لوگ حد سے زیادہ خطرناک ہیں وہ کوئی عام ایجنٹس نہیں ہے ۔"
"پاکستانی سے کم ہی ہوگئے خطرناک ۔"
مہر نے اپنا سر جھٹکا
"سوری میں پرویز کو کال کرتا ہوں وہ آجائیں گا ۔"
"ٹھیک ہے کرو تم نے جو کرنا ہے میرا جو کام میں وہی کرو گی اور تم تو بلکل روک نہیں سکتے ۔"
مہر اُٹھ کر وآڈ روب کی طرف چل پڑی زاویار مسکرا پڑا
Stubborn women
※※※※※※※※※※※※※※※※
مہر اس وقت mandarin oriental کے اندر داخل ہوئی اس نے اپنے فیک آئی ڈی دکھائی اور اپنے لیے کمرہ بُک کروایا اور پھر اِردگرد دیکھنی لگی یہ ہونک کانگ کا سب سے پوش اور لکثری فائی سٹار ہوٹل تھا
مہر نے چابی لی اور اپنا بیگ اُٹھا کر چل پڑی جب اس کی نظر سامنے جاتے ہوئے سنگھنیا اور اس کے ساتھ تین سوٹٹ بندوں پہ پڑی
اس نے اپنے کوٹ کے اندر شرٹ پہ لگا مائیکرو فون پہ بولی
"وہ سامنے جارہے ہیں تم دو کہہ رہے تھے جبکہ یہ تین ہیں ۔
زاویار اس وقت دوسرے ہوٹل کے کمرئے میں تھا جس میں باری ایجنٹس آنے والے تھے
"اچھا ٹھیک ہے ساتھ میں شاہد ان کو کوئی ریپرزنڑ ہوگا اِدھر ہے چائینہ میں رہتا ہوگا اچھا اب وہ کس طرف جارہے ہیں ۔"
مہر نے دیکھا وہ لفٹ کے بجائے اس ہوٹل کے کفیے کی طرف بڑھ رہے تھے
"کمرئے کے جانے کے بجائے وہ فل حال کفیے کی طرف جارہے ہیں ۔"
"یہ تو اچھی بات ہے بیگز ان کے پہلے ہی لیے گئے ہوگئے تم ایک کام کرو ان کی پکچر کلک کر کے مجھے سینڈ کرو اور سیدھا کمرئے میں جاو اور روم کلینر کا لباس پہن کر ان کے کمرئے میں جاو مجھے پتا ہے اس کا فائی زیرو سوین روم ہے اور تار تو تمھارے پاس ہے نا ۔"
"اوکے !!"
مہر نے فون کو بند کیا اور بلو توتھ کو اتارا
اور کام پہ لگ گئی
**********************
زاویار کے مطابق واقی اسے ایزا کلینر جانے نہیں دیا تو وہ زاویار کے مطابق بلیک جیکٹ اور لیدر کے اوپر ماسک۔ پہنے یہ ایک مسکیرڈ بال کا ماسک تھا مہر جلدی سے روم کے قریب ائی اور تار کا استمعال کیا اور دو ہی کلک میں اندر داخل ہوہی اس نے دراوزہ بند کیا اور اپنا ماسک پہنے رکھا اور کمرئے کو اردگرد دیکھا کمرہ بلکل صاف ستھرا تھا بس اس میں صرف دو بیگز پڑیں ہوئے تھے مہر نے دیکھا اور بڑھنے لگی اس نے گلوز پہنے اور اپنے جیب سے اس نے سپرے اُٹھایا اور اسے کرنے لگی پھر جاکر وہ گھٹنے کے بل بیٹھی اور اسے کھولنے کی کوشش کرنے لگی
************************
زاویار اور پرویز کمیرے کانفرنس ہال میں فٹ کرواچکے تھے اور اب کمرئے میں بیٹھی ٹی وی ان کیے اس پر نظر مارنے کے ساتھ ایکشن کب لینا وہ ڈسکس کررہے تھے
"میں تو کہتا ہو ان کو نہ سیدھے مار ہی دیتے ہیں ان کے زبردست اٹالین ڈشز میں زہر ملا دیتے ہیں ۔"
پرویز مزاق بولا زاویار ہنس پڑا
"بہت ہی لیم پلان ہے میں بھول گیا کے بات آئی ہی کس کے دماغ میں ۔"
زاویار لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے بولا
اچانک اس کو مسیج آیا زاویار نے اُٹھایا یہ بیک پلان کی فائلز کی فوٹو تھی اگر شک پڑنے پہ ہو تو یہ ایکشن لیا جائے ۔"
زاویار نے اس میسج کیا
"اور کچھ ملا ؟"
مہر کے رپلائی پہ نو آیا
"خاصا چلاک ہے میرے خیال ہے میں اس نے سارا ڈیٹا یو ایس بی میں ڈالا ہوگا کس طرح وہ یو ایس بی چاہیے ۔"
مہر نے آگئے سے کوئی جواب نہیں دیا
"چلوں اتنی فائل کافی ہے باقی کا کام بعد میں واپس آجاوں ۔"
"اوکے ۔"
زاویار مسکرا پڑا
"ائی لو یو !!!"
مہر نے آگئے سے کوئی جواب نہیں دیا زاویار کے چہرے پہ گہری ترین مسکراہٹ آگئی
**************
مہر ہوٹل سے باہر نکلی اور ٹیکسی کو اشارہ کیا ایک ٹیکسی فورن رُکی مہر بیٹھ گئی وہ چائینز میں ہوٹل کا پتا بتانے لگی جب اس کے منہ پہ کسی نے رومال رکھا اور وہ جھٹکا دینے لگی لیکن گرفت مضبوط تھی وہ چاہا کر بھی مقابلہ نہ کرسکی اور وہ ہوش وخرو سے بیگانہ ہوگئی
*********************
زاویار اور وہ اوپریشن کی تیاری کرنے لگئے تھے کے میٹنگ کے دوران ان کو پکڑا جائے گا کیونکہ اوپر سے ان کے آڈر آچُکے تھے
زاویار اپنی گن کو ریلوڈ کررہا تھا جب اس نے پہلے مہر کو کال کرنا ضروری سمجھی کیونکہ ابھی تک کوئی خبر ہی نہیں تھی اس نے اُٹھایا اور تین بیل کے بعد اُٹھا لیا گیا
"ہلیو گولڈی کہاں ہو کتنے دیر سے فون کررہا ہوں ہوٹل پہنچ گئی آرام سے ۔"
"گولڈی نہیں گولڈی کا باپ داماد جی !"
سنگھنیا کی آواز پہ زاویار ساکت رہ گیا
"مہر کہاں ہے !!!!"
"تتت داماد جی جنازہ پڑھنے کا وقت تو نہیں تھا ابھی مہر کو قبر پہ دفنا کے آیا ہو مجھے بہت بُرا لگا تم اس وقت میرے غم میں ساتھ نہیں تھے خیر ہونک گانگ کے سب سے بڑے قبرستان میں آجانا دعا کرنے ۔"
وہ وہ قہقہ لگا کر فون بند کر چکا تھا
"مہر !!!"
اس نے فون کو سختی سے پکڑا
وہ تیزی سے سب کچھ چھوڑ کر نکلا
**********************
وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہوٹل کے نیچے سب سے بڑا ہال میں بیٹھا سلیبریٹ کررہا تھا
"اس گدھے کو کیا لگا میں کیا دودھ پیتا بچوں جو مجھے بنا باڈی دکھا کر کہے گا کے مر گئے تو مر گئے ان کو نہیں پتا کے کے سنگھنیا چوہان کیا چیز ۔"
سنگھنیا شیمپین کے سپ لینے لگا اس کے ساتھ
"واقی سنگھنیا تمھیں مانا پڑیں گا اس لیے اتنے اونچے مقام پہ تو نہیں پہنچے دیکھنا تم اب ہمارے باس بن جاوں گئے جو کام تم کرسکے وہ تو کوہی کر ہی نہیں سکتا ۔"
سنگھنیا کے چہرے پہ ایک غرور تھا اور اس کی بات سُن کر قہقہ لگانے
"اب کر کوئی سنگھنیا چوہان تو نہیں ہے نا جیت بلا آخر میری ہوئی مہر قبر میں چلی گئی اور زاویار کا بھی کام تمام ہوا چلو اب سائڈ پہ تو ہوئے ،آرمان جشن منانے کی تیاری کرو لیکن یہ پتا کرواوں بم بلاسٹ کی ٹائیمگزُ کب کے ہیں اور کتنی لڑکیاں پکڑی گئی ایک ایک خبر دو مجھے وہ اپنے ساتھ کھڑے اپنے مینیجر کو ہدایت دیں کر سیگرٹ کے کش لینے لگاوہ سر ہلا کر چل پڑا
"ہا اس رضا خاندان کو برباد کرنا بے حد مشکل تھا لیکن ہوگیا بلاآخر اب یہ دُنیا میری مٹھی میں ۔"
وہ قہقہ لگانے لگا باقی بھی سب لگانے لگے
ایک دم میوزک کی آواز پہ وہ سب چونکے وہ عجیب سا سکیری میوزک تھا جو پندرہ سکینڈ کے بعد بند ہوگیا
"یہ کیا تھا پتا کرواو! ۔"
وہ دھاڑا
Twinkle twinkle little star how i wonder oh sorry wrong lyrics
Foolish foolish old filthy animal I always wonder what you are
آواز جانی پہنچانے تھی لیکن پتا نہیں چلا سنگھنیا کی فورس الرٹ ہوگئی
"کون ہو تم !"
ایک دم لائٹ چلی گئی سب اونچی آواز میں پریشانی سے بڑبڑانے لگے ایک دم لائٹ
ہال کے سامنے سٹیج جو خالی تھا اس طرف گیا اس کے پھیچے ریڈ کرٹن تھا وہاں سے آواز آئی
وہ کیا کہتے ہیں
ماں کی دعا
باپ کا غرور
بھائی کا مثالی
بہن کا مان
وردی کا وفادار
ملک کا رکھوالا
را کی بربادی
اور سنگھنیا چوہان کی موت
پہنچانا کون ؟
ارے دیوانوں مجھے پہچانوں کہاں سے آیا میں ہوں کون
میں ہو کون میں ہو کون
میں ہوں میں ہوں
میجر ذیشان علی رضا
اچانک لائٹ آن ہوا اور اِدھر سامنے شان کھڑا ہوا تھا
Surprise chohanay
شان ایسے بولا جیسے وہ اس کا کوئی گہرا جگری دوست تھا
سب کے چہرے اس کو دیکھ کر سفید ہوچکے تھے
وہ وردی کے ساتھ آنکھوں میں بلیک گلاسس پہنے جو اب اُتر چکی تھی
وہ ہری آنکھوں والا شان ہی تھا
"تم زندہ !!"
لقمان حمید چیخ پڑا
"یار میں بنا گیم کھیلے کیسے چلا جاتا ہے اور یہ تو زندگی کا جوا ہے اس کے بنا کیسے جاتا ۔
وہ سٹیج سے اُترا
اس ہال میں تقریبا
صرف دس لوگ تھے باقی گارڈز تھے وہ فورس اٹیک کرنے لگی کے شان نے ہاتھ سے روکا
"آاا میں کچھ نہیں کرو گا ابھی تو ہم نے گیم کھیلنی ہے کیوں چوہانے بتاوں نا اپنے لفنڑوں کو زرا ہولے اتنی آسانی سے تو نہیں ماروں گا میں میں بس گیم کھیلوں گا اور اس کے بعد چلا جاوں گا ۔"
زاویار تیزی سے پہنچا قبرستان کی طرف اور ہر طرف دیکھنا لگا جو نیو والی ہوں اس کا دل بیٹھ گیا تھا
"مہر !!!"
"مہر !!"
وہ چیخے جارہا تھا اس کا دماغ جیسے کام نہیں کررہا تھا
اس نے ہر طرف دیکھا لیکن کہی بھی نئی والی نہیں مل رہی تھی
"تم چیخ کیوں رہے ہو !!"
کسی کی آواز پہ زاویار مڑا اس نے دیکھا ایک بوڑھا چائینز بندہ اسے دیکھ رہا تھا
"آپ نے یہاں پہ کسی کو دفناتے ہوئے دیکھا کسی کی باڈی ۔"
زاویار جلدی سے بولا اس کا چہرہ لٹے کی مانند سفید پڑ گیا تھا
"نہیں !! "
"اُف یا اللّٰلہ مجھے صبر دیں ۔"
زاویار کو یاد آیا مہر کے ساتھ جی بی ایس ٹریک لگا ہوا تھا اس کے کے کی کوٹ کی جیب کے اندر
"او ڈیم اٹ !!!"
اس نے جلدی سے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے پرویز کو نمبر ملایا
"ہاں پرویز جلدی سے لیپ ٹاپ کھولو جو کہہ رہا وہ کر !!"
زاویار کی آواز قبرستان میں چیختے ہوئے آئی
"زاویار ہوا کیا ہے ۔"
"خدا کا واسطہ میرا لیپ ٹاپ کھول ورنہ میری گولڈی مر جائے گی ۔"
زاویار کی آواز رندھ گئی پرویز نے جلدی کھولا
"اس میں جی بی ایس ٹریک کھولو مہر کے جب ہم ٹریک کررہے تھے فائی سوین ان کوڈ ہے جلدی !!"
"ہاں کررہا ہو !! "
"یہ کسی قبرستان کا پتا دیں رہا ہے ۔"
"ہاں ہاں کس طرف کس طرف ہے ۔"
زاویار کے لہجے میں بے تابی تھی
وہ بوڑھا بندہ ابھی تک اس دیوانے کو دیکھ رہا تھا جس کا چہرہ سفید اور آنکھیں نم جبکہ جسم جھٹکے کھا رہا تھا
انھیں اس پر ترس آیا
"بیٹا خدا تمھاری مدد فرمائے ۔۔"
وہ اپنے بیوی کے قبر کی طرف بڑھ گئے
"یار یہ جگہ لفیٹ سائڈ کے بلکل اینڈ پہ ہے ۔"
"کون سے لفیٹ سائڈ !"
زاویار کے دماغ میں شرارے پھوٹ رہے تھے
"تو کس جگہ کھڑا ہے !"
"اینڈ پہ ۔"
تو ائینٹرس کی پہلی لائن کی لفیٹ سائڈ پہ جا وہاں کے آخر میں ٹریک ہورہا ہے ۔"
زاویار جلدی سے فون بند کر کے تیزی سے بھاگا اور اس طرف آیا اس کا دل جیسے بند ہورہا تھا اگر مہر مر گئی تو وہ کیا جی پائے گا
*********************
"چوہان یار میں تمھیں تب مانوں اگر تو میرے ساتھ اکیلے بیٹھ کر مقابلہ لگائے اور مجھے ہراوں تب میں مانو کے تم واقی اپنے ایجنسی کے بادشاہ ہو ۔"
زیشان اب اس کے بلکل قریب اچکا تھا
"تم زندہ کیسے ۔"
"او ہو وقت برباد نہیں کرنا چاہتا لیکن خیر بتادیتا ہوں اس دن کراچی والے واقع یاد ہے نا نہیں یاد جس میں مر گیا تھا میری بیوی کو بلوایا تھا یاد آیا اس دن میں نے اپنی پلان کی خبر تمھیں ہی بھیجی تھی لیکن میرا پلان تو کچھ اور تھا بڈی ۔۔"
"ہاں میرا پلان میرا مر جانا ہی تھا اتنی خبر لیتے ہو میری تو اتنا تو پتا ہوگا کے میرا مین مقصد کیا تھا نہیں نا تو سُنو میرا مقصد تمھیں بلندی کی طرف لیکر جانا تھا اور میری موت ہی تمھاری بلندی کا پہلا قدم تھا یار اب اتنی کہانی سنانے جارہا ہو کوئی پانی تو پلاؤں یہ باسی سی انگور کا جوس میرے لئے ہرگز نہیں۔"
وہ کُرسی کھینچ کر بیٹھ گیا اور ایک ٹانگ اپنے گھٹنے پہ کر لی
"یار اب تم سب لوگوں کو انویٹشن دیں گئے بیٹھ جاوں تم لوگوں کی نے اپنا حرام پیسہ لگوایا ۔"
وہ ہنستے ہوئے بولا
سنگھنیا نے اوپر سے شوٹر کو اشارہ کیا وہ آگئے سے کچھ حرکت کرتا کے شان نے تیزی سے گولی نکال کر بنا دیکھے ماری اور نشانہ بلکل صیح لگا لوگوں کی چیخے نکل پڑی
"میں نے کہا تھا نہ میں کچھ نہیں کرو گا اگر تم کچھ نہیں کرو گئے تم تو یار بزدل ہوں پھیچے سے وار کرتے ہوں وہ تو ایک کتا بھی کرلیتا ہے ۔شیر ہو تو سامنے آو نا ۔"
"کیا چاہیتے ہو تم !"
"چاہتا تو بعد میں بتاوں گا پہلے سُن تو لو ہاں کیا کہہ رہا تھا میں نے اپنی فیک موت کریٹ کی وہ شارپ شوٹر تمھارے کے بجائے میرا ہائر کردہ تھا اور پھر ہوسپٹل میں میری موت اینڈ ال کا تم سمجھدار ہو سمجھ گئے ہوگئے میں تمھارے خلاف مر کر سارے ثبوت اکھٹے کررہا تھا وہ کیا ہے نا مرنے والے کو تنگ تو کوئی نہیں کرتا تو پُرسکون ہوکے کیا اور یقین مانو میرے بھائی کے علاوہ کس کو نہیں پتا تھا اور اب سوچا قیامت آگئی ہے تو میں زندہ ہوجاوں خیر باقی تم سمجھدار ہوں سب سمجھ گئے ہوگئیں نہیں تو پھر جانے دو میں بس تمھارے ساتھ گیم کھیلنے آیا ہو لائف گمبلینگ اور اس میں جیتنے والے کو پیسے اور ہارنے والے کو مالی نقصان نہیں ہوگا بلکہ جیتنے والا کو زندگی اور ہارنے والے کو موت نصیب ہوگی آڑ یو ریڈی !!"
اس کے آنکھوں میں چیلنج تھا
"مجھے منظور ہے ۔"
وہ بھی کوئی اس ڈرنے والا تھوڑی تھا شان کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ آئی
"گریٹ ہم روائنڈ وان پہ کارڈز کھیلے گئے راؤنڈ ٹو پہ چیس اور پھر آخری راؤنڈ گیم آف ڈیٹھ وہ سپیشل ہوگی تیار ہو بتادوں !!"
سنگھنیا کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی
"میں تیار ہوں !"
***************************
زاویار نے قبر کھود چکا تھا اور اس میں اس کی چیخ نکلتی نکلتی رہ گئی باکس میں مہر کا بے جان وجود تھا
"مہر !!!"
زاویار اندر گھسا اس نے باکس کھول اور مہر کو نکالا
وہ مہر کے چہرے کے قریب آیا مہر کی سانسیں ابھی بھی چل رہی تھی لیکن خاصی رُک رُک کر اس بات پہ زاویار کی جان میں جان آئی
"میں تمھیں کچھ نہیں ہونے دو گا مہر ۔"
زاویار نے اس کے ماتھے پہ لب رکھے اور بامشکل اسے اوپر سے نکال پایا اور تیزی سے قبرستان کے باہر بڑھا اور یئ قبرستان ہوسپٹل سے کافی دور تھا اور وہ جانتا تھا سنگھنیا نے یہ کام جان بوجھ کر کیا اس نے ریش ڈرائیونگ کر کے پورے پندرہ منٹ پہ وہ پہنچا اس کے پھیچے پولیس بھی آئی تھی لیکن اسے پروا نہیں تھی وہ ہوسپٹل کے قریب پہنچا اور مہر کو اُٹھا کر اندر بھاگا
***************
سب کے اردگرد جمع ان دونوں کو دیکھ رہے تھے عجیب سی خوفناک قسم کی خاموشی پھیلی تھی
سنگھنیا کے چہرے پہ پسینہ بار بار آرہا تھا اس نے جوس اُٹھایا اور اس کے سپ لینے لگا لیکن شان کے چہرے پہ بلکل سکون تھا ایسا سکون جیسے چھوٹے بچے کے چہرے پہ ہوتا ہے ۔
سنگھنیا نے کنگ رکھا اور شان کے منتظر تھا شان نے مسکراتے ہوئے کارڈ رکھا بہت سلولی سلولی اور سلولی میں سامنے آئے نظر آیا اور ذیشان پہلا رائونڈ جیت گیا
"او شٹ !!!"
پھیچے اس کے بندئے بے اختیار بولا
"تو اور کیسا محسوس کررہے ہوں گھبڑاوں مت ابھی دو رائونڈ ہے یار جوس پیو ! دماغ ٹھنڈا رکھنا !"
ذیشان نے اپنا جوس اُٹھایا اور پینے لگا
"رائونڈ ٹو شروع کیا جائے !!"
**********************
دوسرا روائنڈ میں سنگھینا کی جیت ہوہی اس کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی
"ہاں بھئی تیسرا روائنڈ شروع کیا جائے ۔"
وہ اب بہت کنفیڈنٹ لگ رہا تھا جبکہ ذیشان کے تاثرات ویسے ہی تھی
"ہاں بھئی لاسٹ گیم کیا ہے ۔"
"لاسٹ گیم اِدھر نہیں باہر ہوگی ۔"
"کیا مطلب !"
"سکائی ڈایونگ !!!"
اس کی بات پہ سنگھینا کا دماغ بھگ سے اُڑھ گیا
"کیا !!!! "
شان کے ائی بروز اوپر ہوئے
"ڈر گئے !!"
وہ دل شکن انداز میں مسکرایا
"نہ نہیں تو !!"
"تو گریٹ ! چلوں پھر لیٹس پلے دا فائنل گیم !
※※※※※※※※※※※
وہ دونوں وہاں پہنچے وہ دونوں صرف پلین کے اندر تھے زیشان نے وہاں پہنچنے سے پہلے اسے بتایا کے ایک میں پیرا شوٹ نہیں ہوگا اس نے کوئی چلاکی نہیں کی اس نے بلکل فیر طریقے سے ایک الگ بندہ بلوایا اور بیگ اکسچینج کروائے اور ذیشان اپنا بیگ اُٹھانے والا تھا جب سنگھینا بولا
"نہیں میں تمھارا لو گا مجھے پتا ہے تمھارا والا ہی پیرا شوٹ والا ہے ۔"
سنگھینا کی چھٹی حس نے سگنل دیا
"ایز یو وِش !"
شان نے دوسرا اُٹھا لیا
اور وہ اب پورے چودہ ہزار فیٹ اوپر آچُکے تھے شان نے مزید اوپر کہا سنگھینا کی دل کی دھڑکن بڑھ رہی تھی
سنگھینا نے خاموشی سے چھلانگ لگائی اور پھر اس نے دیکھا شان نے بھی لگائی تھی دل کی دھڑکن مدھم پڑتی جارہی تھی کسی کے نصیب میں موت تھی کسی کے نصیب میں نہیں پھر جب وہ زمین کے بلکل قریب آرہے تھے دونوں نے اپنا پیرا شوٹ کھولا سنگھینا کا کھل گیا اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اس نے دیکھا شان کا ابھی تک نہیں کھلا تھا اس نے فاتحانہ نظروں سے دیکھا
"جیت صرف میری ہوئی ۔"
وہ خود سے بڑبڑایا وہ زمین پہ اتُر آیا تھا خود سے قہقہ لگانے لگا
"بہت ہی بے وقوف تھا ہاہاہا بہر حال قسمت نے بھی میرا ساتھ دیا !"
اچانک لقمان حمید کے ناک پہ نمی محسوس ہوئی اس نے دیکھا خون تھا
"چوہانے یہ تم سے کس نے کہا کے قسمت بُرائی کا ساتھ دیتی ہے وہ بس بُرائی کو دھوکہ دیتی ہے اور تجھے بُرائی نے دھوکہ ہی دیا ہے تمھیں کیا لگا تھا تم میرے خاندان کو ختم کر کے سکون میں رہو گئے ۔"
شان کی زہریلی آواز پہ سنگھینا مڑا شان کھڑا تھا
"میں نے کہا تھا کے میں تمھیں اونچائی پہ لاکر زمین پہ پٹھک دو گا لیکن ایسے نہیں پہلے تم سے وہ بدلے لو گا جو تو نے میرے باپ ،چاچا اور آنی اور اب میری بہن کے ساتھ کیا ۔"
سنگھینا کا چہرہ سفید ہوگیا
"زہر اثر کررہا ہے نا کرنا بھی چاہئیے ظاہر وہ تین گلاس کے جوس زہر سے بھرئے ہوئے خاصے دیر سے اثر کیے ہیں لیکن ٹائیمنگ پرفیکٹ ہے ۔"
اس کے پاس ایک بندہ آیا اس کے ہاتھ میں کچھ تھا پانی کی بوتل
"پانی چاہیے ! نہیں تم تو مرنے والے ہو تمھیں کیا ضرورت ۔"
وہ گررہا تھا شان نے بوتل سے سپ لیا اور گن نکالی
"یہ تو بیکار ہے کچھ ٹارچر نہ ہو جائے جو تو نے میرے باپ کے ساتھ کیا تھا ۔"
اس نے ایک اور بندہ بلوایا جس کے ہاتھ میں شارپ قسم کا کوڑا تھا
شان نے پکڑا اور آگئے بڑھ کر اسے پاگلوں کی طرح مارنے لگا وہ پاگلوں کی طرح چیخ پڑا
"میرا باپ بھی ایسے ہی چیخا تھا ایسے ہی اور آج تمھاری یہ چیخ مجھے سکون دیں رہی ہے ۔"
وہ اسے مارنے لگا ایک تو پہلے ہی زہر کا اثر تھا اوپر سے زور سے پڑتے کوڑے نے اس کا حشر کردیا
"تو خود کو سکندر اعظم سمجھتا ہے لیکن تجھے نہیں پتا تیرا کس شیر سے پالا پڑا ہے دوسرے جنم پہ یقین رکھتا ہے نہ تو میرا یہ دوسرا جنم تجھے جہنم تک لیکر جائے گا ۔"
وہ اس کے منہ کا حشر بیگار چکا تھا پھر اس نے حکم دیا کار میں ڈال کر اس کو جلا کر پانی میں اس کی ڈیڈ باڈی پھینک دینا اور کسی کو بھی پتا نہیں چلی ۔اور واقی ایسا ہی ہوا تھا بلا آخر برُائی کا انجام بُرا ہی ہے
***
مہر کی حالت ابھی تک کرٹیکل تھی زاویار بلکل خاموش ایک جگہ بیٹھا ہوا تھا جبکہ شان نماز پڑھ کر اس کے پاس اآیا
"وہ ٹھیک ہوجائیں گی !!!"
زاویار نے کوئی رسپونڈ نہیں کیا تھا
"ائے میرے بچے ! وہ ایک سٹرانگ آفسر ہے فکر نہ کرو وہ بلکل ٹھیک ہوجائیں گی تمھاری گولڈی تمھیں بلکل نہیں چھوڑ کر جائے گی ۔"
زاویار نے اپنا سر جکھا لیا شان نے اسے اپنے ساتھ لگایا
زاویار سسکی لینے لگا
"تھپڑ ماروں گا بی ا مین ! چُپ کرو ۔"
"بھائی میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں اگر اسے کچھ ہوگیا تو میں کیا کرو گا ۔"
"تو اتنا تنگ کیوں کیا تھا اسے ۔"
"بس غلطی ہوگئی اسے کہے نا ٹھیک ہو جائیں دو ہفتے ہوگئے ہیں ڈاکڑز کچھ بھی نہیں بتارہے ۔"
شان چُپ رہا
"میں اسے کھبی نہیں تنگ کرو گا اسے ڈانٹوں گا بھی نہیں نہ ہی چڑیل کہوں گا !"
شان اس کی بچکانہ بات پہ ہنس پڑا
"کب بڑے ہوگئے ۔"
"بھائی میں اپنی دوست کو نہیں کھو سکتا ہے ۔"
"کھونے بھی کون دیں رہا ہے میرے یار چلوں ہوٹل چلتے ہیں ۔"
"مجھے کہی نہیں جانا !"
"زاویار !"
"بھائی پلیز !"
نرس باہر نکل رہی تھئ ڈاکڑ کو بلانے زاویار اُٹھا
اور پھیچے بھاگا
"مہر کیسے ہی ہے !!!"
"پیشن کو ہوش آگیا ہے!"
زاویار اور شان خوشی سے چلائے
"میری گولڈی ٹھیک ہے بھائی میری گولڈی !!"
زاویار شان کے گلے لگ گیا اور شان نے اپنے پیارے سے چھوٹے بھائی کے سر پہ پیار کیا اور اپنے اللّٰلہ کا شکر ادا کیا
*****************
مہر کے منہ پہ آکسیجن ماسک ہوا تھا اور وہ آنکھیں کھولے ایک ہی جگہ دیکھ رہی تھی جب دروازہ کھلا اور زاویار اندر آیا مہر نے دیکھا زاویار وہی کھڑا ہوگیا وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھے جارہے تھے جب پھیچے سے گلا کھنکھارنے کی آواز آئی
"کب تک یہ بالی وڈ سین چلے گا اب پھیچے سے سونگ لگنے سے رہا اس کے پاس جاوں گئے ۔"
شان کی آواز پہ زاویار مڑا اور انھیں گھورا
"آپ کو انٹری مارنے کی کیا ضرورت تھی ۔"
"مائی بوئی میں اس گھر کا سربراہ ہوں اور ہٹوں میں اپنی بیٹی سے ملوں !
شان نے اسے سائڈ پہ کیا اور مہر کے قریب آیا
مہر کی نظر زاویار سے اچانک شان پر گئی اور وہی سے وہ سٹل ہوگئی
"کیسی ہو گولڈی ! سرپرایز نہیں ہو تمھارا شان آیا !"
شان کُرسی کے قریب بیٹھا جبکہ زاویار نے انھیں گھورا
اور مہر بلکل سٹل انھیں دیکھے جارہی تھی اس کے ایک ہی زاویے سے دیکھنے پر وہ بولا
"اوئے سٹچو تو نہیں بن گئی کہی مادام تساد میں نہ رکھنا پڑ جائے اور کیپشن ہو ورلڈ موسٹ بریو اینڈ براس آفسر آئیم سو پرواڈ آف یو نسا ۔"
وہ بول رہا تھا اچانک رُک گیا کے اچانک مہر کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ کر کے آنسو گرنے لگیں اور اتنے گرئے کے زاویار بے چین ہوکر آیا
"ب۔ ب بھیا آ آ آپ۔ ز ز ندہ !
وہ بامشکل ہی بول پائی
"مہرو !!! کچھ مت بولو طبیعت خراب ہوگی تمھاری ۔"
زاویار اس کے پاس بیٹھا
اور اس کے بال سہلاتے ہوئے بولا جبکہ شان بلکل خاموش تھا مہر کو وہ بہت غور سے دیکھ رہا تھا اسے آنی نا عکس نظر آرہا تھا پھر اس کی آنکھ سے نمی گری
"آنی کا وعدہ پورا کیے بنا کیسے چلا جاتا ۔"
شان کی آواز نا چاہیتے ہوئے بھی بھرا گئی
"مہرو تم سمجھتی ہو تم آنی کو کھو کر اکیلی ہوگئی ایسا نہیں ہے تم نے تو صرف اپنی ماں کھوئی تھی میں نے اپنا سب کچھ کھویا تھا اور وہ میرا سب کچھ میری ماں بھی نہیں میری آنی تھی جسٹ اندر بیرو آفسر لائک یو !"
زاویار نے سر جکھا لیا مہر سے رہا نہیں گیا اور وہ اپنا ہاتھ آگئے کرنے لگی شان کی آگئے
"ب ب بھی یا آنی سو پرو آ ڈ آف یو !!"
مہر اٹک اٹک کر بولی شان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
"اور وہ تم سے بھی بہت پرواڈ ہے نسا ۔"
شان نے اس کا ہاتھ تھپکا
"خوش ہوجاو ! اس سنگھینا کا کام تمام کر آیا ہو ! اب نو مور ٹیرز ابھی ایک اور محترمہ کے آنسو روکنے ہے ۔"
مہر نے حیران آنکھوں سے دیکھا شان سمجھ گیا
"جی ڈیر لائف گمبلینگ از اوور !! "
مہر کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ آگئی
"ہاں بھیا ہالے سے شہید ہونے کے لیے تیار ہوجائیں !!"
شرارت سے بولا
مہر نے ہاتھ چھوڑ کر اپنے چہرے کے قریب لیے گئی اور اس نے شان کو سلیوٹ مارا شان اور زاویار ہنس پڑیں
اور انھوں نے بھی سلیوٹ مارا
"ہم ہمیشہ ایک ٹیم ہی رہے گئے ۔ اور مل کر ان دُشمنوں کا خاتمہ کریں گے ۔"
شان کی بات پہ زاویار نے پیار سے اپنے بھائی کو دیکھا اور پھر مہرو کو جس کے چہرے پہ بمیاری کی باوجود گہری خوشی تھی
"میں تم دونوں کو پروایٹ ٹائیم دیں دو ورنہ پتا ہے نا مہر تمھارا میاں !! "
شان ڈرنے کی ایکیٹنک کرتے ہوئے بھاگا زاویار ہنس پڑا
اور پھر جب شان چلا گیا تو اسے دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں بس اس کے ماتھے پہ اپنے لب رکھ دیں
"مت پوچھو بہت تنگ کرتی ہو مجھے !!"
وہ بڑبڑایا
مہر نے سر اُٹھایا اور زاویار کے لب اس کی آنکھوں میں آگئے
"ت ت تم ٹھیک ہ ہو !!"
"زیادہ مت بولو بعد میں بچا کر رکھ لینا میرے سے لڑنے کے کیے ۔"
زاویار نے پیار سے اس کے بال سہلائے
"ز ا وی اگر مجھے کچھ ہو جا تا !! تو تم دوس ری شا دی کر لیتے !"
اس کے ڈر پہ زاویار کو تڑپ اور ہنسی بیک وقت آئی
"نہیں !!"
مہر مسکرائی
"اگر کر بھی لیتا تب بھی چڑیل نے اکر اس کا اور میرا کام تمام کر دینا تھا ۔"
زاویار شرارت سے بولا مہر نے گھوری دکھائی اور اس کے بیج جو بھنوئیے کھینچ کر بیچ میں آگئی اس سے وہ بہت کیوٹ لگ رہی تھی زاویار نے جھک وہ چوم لی
"جوکنگ میری جان !"
"گدھا !!"
مہر بڑبڑائی
زاویار ہنس پڑا
"گدھی !"
"میرا !"
پھر مہر بولی
"میری !
************************
*****************
سنگھینا کی موت کو خود کشی قرار دیں کیونکہ کے سنگھینا کے ایجنسی کو خبر دیں کے اس نے ائی ایس ائی کی مدد کی تھی وہ بھی صرف ایک عرب کی لالچ میں اس نے سارے پلینز بتادیں اور اسی کی بدولت پاکستان آج دہشدگردوں سے محفوظ تھا اور وہ بھی صرف میجر ذیشان علی کی بدولت جس کو اب کفیٹنٹ کرنل کر رینک دیں دیا گیا اور میجر دراب پہ لگائے ہوئے سارے الزام ہٹ چکے تھے اور فورسز آج اس کی قبر پہ موجود پھول چڑھا رہا تھے اور شہید کے لیے دعاگو تھے
پورے پچیس سال بعد دارب ،پارسا کو اپنا انصاف مل چکا تھا
"آنی میں نے آپ سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا دیکھے پچیس سال پہلے جو آپ کے دارب پہ تھو تھو کررہے تھے آج اس کو سلیوٹ ماررہے ہیں آپ کے دراب کو ان کا مقام مل گیا ان کو شہادت جیسے انمول چیز کا خطاب کے ساتھ ملک کا بہادر رکھوالا قرار دیں دیا جس کو وہ خواہشمند تھے ۔"
وہ آنی کی قبر پہ بیٹھا ہوا بولا جو فرانس میں ہی تھی وہ دراب کی تقریب میں ایک دن گیا اس کے اگلے دن شان فرانس آگیا تھا آنی سے بات کرنے ۔
"مہرو بلکل ٹھیک ہوگئی ہے اور بلکل خوش ہے زاوی نے بھی آپ کا پاس رکھا لیکن بس تھوڑا سا جزباتی ہے لیکن مہر سے بہت پیار کرتا ہے ۔"
***********************
لوکیشن : گلگت ،بلتستان
آج ان کی نکاح کی تیسری سالگرہ تھی ہالے خاموشی سے شان تصویر اپنے ساتھ لگائے سارا دن روتی رہی
سدرہ بھی پریشان ہوگئی کیونکہ آپی کھبی اتنا نہیں روئی جتنا آج رو رہی تھئ
"آپی پلیز ! مت روئے بھیا جنت میں پریشان ہو جائیں گئے ۔"
سدرہ کی بات پہ ہالے کا دل مزید کٹا اس نے سدرہ کو اپنے ساتھ لگایا
اور دل کھول کر رونے لگی کے اچانک فون بیل کی آواز پہ وہ چونکی
"سدرہ فون بند کردو اور کوئی بھی آئے دروازہ مت کھولنا ۔"
ہالے تیزی سے اُٹھی اور اپنے کمرئے کی طرف چل پڑی
اس نے کمرئے کا دروازہ کھولا اور تیزی سے بند کر کے دروازے کے ساتھ لگ کر نیچے بیٹھ گئی اور گھٹنے پہ سر رکھ کر رونے لگی
"شانی مجھے کیوں چھوڑ کر چلے گئے اگر جانا ہی تھا تو مجھے بھی اپنے ساتھ لیے جاتے کیوں نہیں لیکر گئے کیوں میں نہیں رہ سکتی شان آپ کے بغیر پلیز مجھے آپ کے پاس آنا ہے یا آپ آجائیں ہالے آپ کے بنا آدھوری ہے !!"
"میں بھی تمھارے بنا آدھورا ہوں !"
کسی نے اس کا ہاتھ چھوا ہالے ایک دم کرنٹ کھا کر سر اُٹھایا
"اس نے دیکھا بروان شلوار قمیض میں ملبوس وہی ہری آنکھیں جن میں اس کے لیے دیوانگی کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا
"ششش شش شان !"
ہالے کو لگا یہ شان کا الوژن ہے
"شان خدارا مت ایسے ٹارچر کریں مجھے اس طرح مت سامنے اکر غائب ہوجائیں پلیز آپ کی ہالے بہت تڑپتی ہے ۔"
وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ رہی تھی شان نے اسے کھینچ کر اپنے ساتھ لگایا
"میری جان مجھے معاف کردو میرے لیے بھی بہت مشکل تھا تمھیں یہ خبر دینا آئیم سوری ملک کے خاطر تمھیں تکلیف دینی پڑی ائیم سوری ہالے لیکن اب تمھارا شان آگیا ہے تمھارا رکھوالا آگیا ہے ہالے اب تمھیں کھبی تکلیف نہیں دو گا !!!"
ہالے کو اس کے دل تیزی سے دھڑکنا محسوس ہوا اس کی وجود کی گرمی اور اس سے اُٹھتی کلون کی سمیل نے ہالے کو سکتے میں تاری کردیا شان اس سے الگ ہوا اور اس کا چہرہ تھاما جو بلکل پتھرائی نظروں سے دیکھا رہا تھا
"ہالے ہوش میں آو !! ہالے میں زندہ ہو !!"
ہالے کو جھٹکے لینے کے بعد ہوش آیا اس نے آگئے بڑھ کر شان کو ایک تھپڑ لگایا شان کو شدید جھٹکا لگا اس سے پہلے وہ کچھ بولتا کے ایک دوسرے گال پہ پڑا اس طرح وہ بے شمار تھپڑ اسے مارنے لگی اور وہ چُپ چاپ سہنے لگا
"مزاق سمجھا آپ نے موت کو مزاق !!! اور دوسرے کے جزبات سے کھیلتے ہیں آپ میری امی میری امی مجھے چھوڑ گئی آپ کی موت کا صدمہ برادشت نہ ہوسکتا آٹھ مہینے آٹھ مہینے میں نے کانٹوں پہ گزارے آٹھ مہینے میں سوئی نہیں آٹھ مہینے میرے اوپر قیامت گزار کر آپ اکر کہتے ہیں سوری سوری !! میرے آٹھ مہینے برباد کردیے میری ماں چھین لی مجھے تنہا قبر میں گرا کر کہتے ہیں سوری !!!
وہ اس کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چیخی
پھر اس نے ذیشان کو چھوڑ کر اپنا سر تھاما
"آپ مجھ سے محبت نہیں کرتے شان آپ اگر کرتے تو میرے ساتھ اتنا بڑا ظلم نہ کرتے اتنا ظلم تو شاہد فرعون نے بھی نہیں کیا ہوگا جتنا آپ نے مجھ پہ کیا !"
شان نے اسے زبردستی اُٹھایا وہ لڑنے لگی کے شان نے اسے دروازے کے ساتھ لگایا
"چھوڑیں مجھے نفرت کرتی ہو میں آپ سے !"
"یہ بات اگر تم میری آنکھوں میں کہوں گی تو مانوں گا ۔"
شان تیزی سے بولا
ہالے نے تیزی س آنکھیں اُٹھائی اور پنکھار کر بولی
"نفرت کرتی ہوں آپ سے خوش !!"
شان نے اپنی جیب سے گن نکالی
"چلوں ختم کرو ختم کردو مجھے میں آٹھ مہینے تمھارے اوپر ظلم کرتا رہا تمھاری ماں چھین لی میں ہی اگر تمھاری تکلیف کا باعث ہو تو ختم کردو پھر تمھاری ساری تکلیفے دور ہوجائیں گی ۔"
ہالے نے اس کے اتنے سخت لہجے پہ جم گئی اور پھر تیزی سے گن کھینچ کر دو جاکر پھینکی
"آئی ہیٹ یو !!! "
وہ روتے ہویے اس کے ساتھ لگ گئی
"آپ کو کھبی میں معاف نہیں کرو گی ۔"
"بٹ آئی لو یو اور میں تمھاری یہ سزا جھیلنے کے لیے تیار ہوں !"
شان اس کے چہرے پہ محبت کی بارش کرنے لگا
**********************
لوکیشن : ٹوکیو ! جاپان
زاویار نے اس کا پورے ایک مہینہ خیال رکھا اسے تنگ نہیں کیا بس پیار کے علاوہ زاویار عباس مہر کے لیے اور کچھ نہیں تھا مہر کے سر پہ تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹے وہ کھبی کھبار اس سے لڑتی تو وہ ہنستے ہوئے اپنی غلطی تسلیم کر کے اس کی بات مان جاتا وہ جان بوجھ کر اسے مزید تنگ کرتی لیکن زاویار لڑنے کے بجائے پیار کرتا واقی زاویار بدل گیا تھا وہ گلگت واپس نہیں گئے تھے سیدھا جاپان گئے تھے کوینکہ کے ہالے کی خواہش تھی اس کی شادی وہاں ہوجہاں چیری بلاسم ہوں شان نے کہا تھا کے گلگت میں بھی ہے لیکن ہالے نہ مانی تو اس کی خواہش پہ آج سب جاپان موجود تھے ان کے ساتھ مہر اور زاویار کئ بھی شادی کی تقریب تھی زاویار کی خواہش کے مطابق مہر نے لائٹ پنگ لیس صرف لیس کی برائڈل ڈریس پہنا تھا اور اس کے ساتھ صرف ڈائمنڈ اور موتیوں کی ہلکی سی جولیری !
وہ تیار ہورہی تھی کے کسی نے اسے اُٹھایا مہر نے دیکھا زاویار گرے سوٹ میں ہینڈسم لگ رہا تھا
"واو سم ؤان از لکُنگ !!"
زاویار کچھ سوچ رہا تھا
"کیا لُکنگ !!!"
"پتا نہیں بعد میں بتاوں گا فل حال میں گولڈی کو کیڈنیپ کرنے آیا ہوں !!
"کیا اگر میرے دلہے کو پتا چلا تو !"
مہر شرارت سے بولی
"وہ دیکھ لی جائیں گی اس شیر کو دفع کرو چلے گرل فرینڈ !"
زاویار آنکھ مار کے بولا
مہر ہنس پڑی
"یس بوئی فرینڈ !
***********************
اُف کدھر لیکر جارہے ہو ۔"
مہر آنکھ بند کیے اس کے ساتھ چل رہی تھئ زاویار اس کا ہاتھ پکڑ کر آگئے بڑھ رہا تھا جب ایک جگہ روکا
"اب کھولو آنکھیں !!"
مہر نے کھولی وہ اس وقت لائٹ ٹنل جاپان میں موجود تھے جس کا رنگ پنگ تھا اس نے مسمرائز ہوکر دیکھا
"واو !!"
"کیسا لگا !"
"کیا یہ سچ ہے ۔"
مہر نے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھا
"جو سمجھنا ہے !"
"سریسلی بہت پیاری جگہ ہے مجھے نہیں پتا تھا تم اتنے رومینٹک ہو !"
"ایک مہینے سے کیا میں جھک مارہا تھا ۔"
زاویار گھور کر بولا
"ہاں کچھ ایسا ہی ہے ۔"
مہر شرارت سے بولی
"ٹھیک ہے میں اس برگنڈی کو بلا لیتا ہوں وہ میرے ساتھ یہاں ڈانس کریں ۔"
مہر جھٹکے سے مڑی
"واٹ ! منہ نہ توڑ دو تمھارا !!!"
زاویار ہنس پڑا اور اس نے مہر کو کھینچا
"میر کام ہوگیا ہے ! میوزک پلیز !!"
اس نے دیکھا وہاں ایک بیڈ پہلے سے کھڑا تھا اور لوگ بھی اِردگرد جمع ہوگئے تھے
"آئی کانٹ بلیو یہ تم نے پلان کیا ہے تھا ۔"
"ظاہر ہے ۔"
"جھوٹ بول رہا ہے مہر سارا کمال میرا تھا ۔"
شان کی آواز سُنتے ہوئے وہ دونوں مڑے شان نیوی بلیو سوٹ میں ہالے اور سدرہ کے ساتھ کھڑا تھا ہالے نے سلور کلر کا خوبصورت ڈریس پہنا ہوا تھا وہ واقی بہت پیاری لگ رہی تھی
"بھیا آپ بھی کھبی جو میرا بھرم رکھے ۔"
زاویار نے انھیں گھورا
"چُپ کر !! جلدی کر تاکہ میری باری ہوں !"
مہر ہنس پڑی اور زاویار کے سینے پہ سر رکھ دیا
"خیر جو بھی کہہ لے میرے ڈانس کی ساری دُنیا دیوانی ہے کیوں مہر !"
"جی نہیں بھیا اچھے ڈانسر ہے !"
مہر کی بات پہ سب کا مشترکہ قہقہ گونج اُٹھا اور زاویار کا منہ بن گیا
مہر نے اس کے گال پہ پیار کیا
"ایک خوش خبری بتانی تھی منہ کالی بیر باپ بنے والے ہومہر کی شرارت سے گونجی آواز نے زاویار کو ساکت کردیا پھر پورے ماحول سے بھی زیادہ اس کا اونچا خوشی سے بھر پور قہقہ اُٹھا
*************************
چار سال بعد
"تا ابو تا ابو !!"
زرتاشہ کمبل میں دبکے شان کو اپنے نھنے منھے ہاتھوں سے جھنجھوڑ رہی تھی
آج اس کی سالگرہ تھی سب سے بڑا سر پرائز اس کے تا ابو یانی شان دیا کرتے تھے لیکن آج تایا ابو گھوڑے بیج کر سورہے تھے
زرتاشہ کے تا ابو نہیں اُٹھے تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
"تا ابو تا ابو ممی ! آنی !۔"
اس کے رونے کی آواز پہ ہالے واش روم سے باہر تیار ہوکر نکلی اور تاشہ کو روتے ہوئے دیکھا
"تاشہ ! کیا ہوا !"
ہالے بھاگ کر آئی
"آنی تا ابو تہیں اُتھ لے ۔"
زرتاشہ ہالے کے ساتھ لگی ہوہی بولی
"او ہو آج تا ابو کی طبیعت نہیں ٹھیک نہ اس لیے سوئے ہوئے ہیں ۔"
ہالے نے اس کے گال صاف کیے اور اسے پیار کیا
"تا ابو ٹک !! ( تایا ابو سیک !)
"ہاں میری جان لیکن آو انھیں اُٹھاتے ہیں آخر تاشہ کی برتھ ڈے جو ہے ۔"
وہ جلدی سے تاشہ کو اٹھا کر بیڈ پہ آئی تاشہ نے اپنی ہری آنکھوں سے اپنے تا ابو کو ڈھونڈا اس کی شکل بلکل شان پر تھی جبکہ صرف ناک زاویار پر گئی تھی جبکہ شان کے بیٹے تمیور کے شکل بلکل زاویار بھی گئی تھی جبکہ ناک شان پر زاویار کھبی کھبار ہنس کر کہتا کے لگتا ہے دونوں بیبیز اکسچینج ہوگئے ہیں کیونکہ ان دونوں کو پیدائش میں دو دن کا فرق تھا پہلے تمیور ہوا تھا پھر تاشہ تمیور پری مچیور تھا اس لیے جلدی ہوگیا جبکہ تاشہ اپنے وقت پہ ہوہی تھی تاشہ اپنے تا ابو کے ساتھ بہت اٹیچ تھی جبکہ میر !! زاویار کے ساتھ کھبی کھبار واقی ان سب کو شک پڑ جاتا کے بچے اکسچینج تو نہیں ہوگئے کیونکہ ان میں سے کسی نے الٹا ساونڈ بھی نہیں کروایا تھا سب سرپرایز رکھنا چاہتے تھے
تاشہ ڈھونڈ رہی تھی اچانک شان نے تیزی سے تاشہ کو پکڑا
"ہیپی برتھ ڈے مائی پرنسس ۔"
شان اسے گدگدانے لگا تاشہ ہنسنے لگی ہالے مسکرا پڑی
"تا ابو !!"
شان نے اُٹھ کر اسے اپنی گود میں بیٹھایا اور اسے پیار کیا
"جی تا ابو کی جان !!!"
"آت میرا ترتھ ڈئے ۔"
اس کی توتلی زبان پہ سب کو پیار آتا جبکہ تمیور مزاق اڑاتا لیکن پھر شان سے جھاڑ بھی صیح ملتی تھی
شان نے اس کت سر پہ پیار کیا
"آج میری تاشہ کا برتھ ڈئے ہے ۔"
اچانک دروازہ کھلا زاویار آیا
"لو محترمہ تا ابو کے پاس ہے اور میں اور میری گدھی پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہے تھے ۔"
"یہ گدھی تم نے کس کو بولا ۔"
مہر لائٹ بروان فراک میں بلکل تیار اس کے پاس آئی
"تیار ہونے کے لیے کہا تھا تا ابو کے پاس جانے کو نہیں جب دیکھوں ہر وقت بھاگ کے آجاتی ہو ۔"
تاشہ نے اپنی ممی کو گھورا اور شان کی سینے پہ منہ چھپا لیا
"لو چاچو دیکھنا اب ابو کو امیوشینل کریں گی ۔"
دیکھنے میں چھ سال کا لیکن چار سالا جس کی کالی آنکھیں زوایار کی طرح کی کالے بال اس کی سٹائل میں کیے وہ اندر داخل ہوتے ہوئے بولا
تاشہ نے سر اُٹھا کر گھورا
"میر !!!"
شان نے گھورا
"میں نے کیا کیا ؟ "
کمال معصومیت سے جواب دیا گیا
"تا ابو تمیر نے میلا مزاق اُڑایا تھا ۔"
پھر تو بس تاشہ نے کمپلین شروع کردیں اور تا ابو کی گھوری بڑھتی جارہی تھی جبکہ زاویار اور ہالے ہنس پڑیں اور مہر قریب آہی
"ہر وقت اس بچارے کی شکایت ہی لگانا چلوں اب تیار ہو ۔"
مہر نے ڈپٹے ہو ہیے اُٹھایا
"پاپا جھوٹ بول رہی ہے یہ ویچ !"
تمیور دانت پیستے ہوئے بولا
"میر !! کیا بدتمیزی ہے ۔"
شان نے گھورا
"ارے بھیا میرے بیٹے کو مت ڈانٹے واقی تاشہ اپنی ماں پر گئی ہے ۔"
مہر نے خنخوار نظروں سے دیکھا
"او تو صیح کمرئے میں تم ! ۔"
زاویار نے ڈرنے کی اکیٹنگ کی
"چل میر بھاگ اس سے پہلے آنی ورلڈ وار شروع کردیں ۔"
زاویار ڈرنے کی اکیٹنگ کرنے لگا اور شان ہنس پڑا
"جوڑے کے غلام ہو !"
وہ بستر سے اُٹھے
"ہاں جیسے آپ نہیں ہے کل دیکھ رہا تھا ان کے پیروں پہ نیل پالش ۔"
زاویار تیزی سے بھاگا کیونکہ شان تیزی سے تکیہ پھینکا تھا
اور میر کو دیکھا وہ بھی ڈر کر بھاگا اس نے ہی
زاویار کو خبر دیں ہوگی
ہالے کھل کر ہنسنے لگی
"آپ بھی نا چلے تیار ہوجائیں میں زرا انتظامات دیکھ آو ۔
شان مسکرایا پھر اس کی بے آختیار نظر دیوار پہ پڑی جس میں اس کی ممی پاپا چاچو اور آنی کی تصویر کے ساتھ بے بے کی فوٹو تھی یہ پانچ لوگ اس کئ زندگی میں بہت اہم تھے بے شک وہ اس دُنیا میں نہیں رہے لیکن ان کی دعاوں سے ہی وہ آج اس مقام پہ تھا اور اسے یقین تھا ان کی دعائیں ہمیشہ اس کا رکھوالا بن کر رہی گی
اختتام پزیر