
پیرِ کامل از عمیرا احمد
قسط نمبر 23
لاہور پہنچنے کے بعد اس کے لئے اگلا مرحلہ کسی کی مدد حاصل کرنا تھا مگر کس کی؟ وہ ہاسٹل نہیں جاسکتی تھی۔ وہ جویریہ اور باقی لوگوں سے رابطہ نہیں کرسکتی تھی کیونکہ اس کے گھر والے اس کی دوستوں سے واقف تھے اور چند گھنٹوں میں وہ اسے لاہور میں ڈھونڈنے والے تھے، بلکہ ہوسکتا ہے اب تک اس کی تلاش شروع ہوچکی ہو اور اس صورت حال میں ان لوگوں سے رابطہ کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ اس کے لئے صبیحہ کی صورت میں واحد آپشن رہ جاتا تھا، مگر وہ اس بات سے واقف نہیں تھی کہ وہ ابھی پشاور سے واپس آئی تھی یا نہیں۔
صبیحہ کے گھر پر ملازم کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ وہ لوگ ابھی پشااور میں ہی تھے۔
"واپس کب آئیں گے؟" اس نے ملازم سے پوچھا۔ وہ اسے جانتا تھا۔
"کیا آپ کے پاس وہاں کا فون نمبر ہے؟" اس نے قدرے مایوسی کے عالم میں پوچھا۔
"جی، وہاں کا فون نمبر میرے پاس ہے۔" ملازم نے اس سے کہا۔
"وہ آپ مجھے دے دیں۔ میں فون پر اس سے بات کرنا چاہتی ہوں۔"
اسے کچھ تسلی ہوئی۔ ملازم اسے اندر لے آیا۔ ڈرائنگ روم میں اسے بٹھا کر اس نے وہ نمبر لادیا۔ اس نے موبائل پر وہیں بیٹھے بیٹھے صبیحہ کو رنگ کیا۔ فون پشاور میں گھر کے کسی فرد نے اٹھایا تھا۔ اور اسے بتایا کہ صبیحہ باہر گئی ہوئی ہے۔
امامہ نے فون بند کردیا۔
"صبیحہ سے میری بات نہیں ہوسکی۔ میں کچھ دیر بعد اسے دوبارہ فون کروں گی۔" اس نے پاس کھڑے ملازم سے کہا۔
"تب تک میں یہیں بیٹھوں گی۔"
ملازم سر ہلاتے ہوئے چلا گیا۔ اس نے ایک گھنٹے کے بعد دوبارہ صبیحہ کو فون کیا۔ وہ اس کی کال پر حیران تھی۔
اس نے مختصر طور پر اپنا گھر چھوڑ آنے کے بارے میں بتایا۔ اس نے اسے سالار سے اپنے نکاح کے بارے میں نہیں بتایا کیونکہ وہ نہیں جانتی تھی صبیحہ اس سارے معاملے کو کس طرح دیکھے گی۔
"امامہ! تمہارے لئے سب سے بہتر یہ ہے کہ تم اس معاملے میں کورٹ سے رابطہ کرو۔ تبدیلی مذہب کے حوالے سے پروٹیکشن مانگو۔" صبیحہ نے اس کی ساری گفتگو سننے کے بعد کہا۔
"میں یہ کرنا نہیں چاہتی۔"
"کیوں؟"
"صبیحہ! میں پہلے ہی اس مسئلے کے بارے میں بہت سوچ چکی ہوں۔ تم میرے بابا کی پوزیشن اور اثرورسوخ سے واقف ہو۔ پریس تو طوفان اٹھا دے گا۔ میری فیملی کو بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میں یہ تو نہیں چاہتی کہ میرے گھر پر پتھراؤ ہو، میری وجہ سے میرے گھر والوں کی زندگی کو خطرہ ہو اور آج تک جتنی لڑکیوں نے اسلام قبول کرکے کورٹ پروٹیکشن لینے کی کوشش کی ہے ان کے ساتھ کیا ہواہے۔ کورٹ دارالامان بھجوا دیتی ہے۔ وہ جیل بھجوانے کے مترادف ہے۔ کیس کا فیصلہ کتنی دیر تک ہو، کچھ پتا نہیں۔
گھر والے ایک کے بعد ایک کیس فائل کرتے رہتے ہیں۔ کتنے سال اس طرح گزر جائیں گے، کچھ پتا نہیں ہوتا اگر کسی کو کورٹ آزاد رہنے کی اجازت دے بھی دے تو وہ لوگ اتنے مسئلے کھڑے کرتے رہتے ہیں کہ بہت ساری لڑکیاں واپس گھر والوں کے پاس چلی جاتی ہیں۔ میں نہ تو دارالامان میں اپنی زندگی برباد کرنا چاہتی ہی نہ ہی لوگوں کی نظروں میں آنا چاہتی ہوں۔ میں نے خاموشی کے ساتھ گھر چھوڑا ہے اور میں اسی خاموشی کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔"
"میں تمہاری بات سمجھ سکتی ہوں امامہ! لیکن مسائل تو تمہارے لئے ابھی بھی کھڑے کئے جائیں گے۔ وہ تمہیں تلاش کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے اور ان لوگوں کے لئے مسائل پیدا ہوں گے جو تمہیں پناہ دیں گے اور وہ جب تمہیں ڈھونڈنا شروع کریں گے تو مجھ تک پہنچنا تو ان کے لئے بہت آسان ہوگا۔ تمہاری مدد کرکے ہمیں بہت خوشی ہوگی مگر میرے ابو یہی چاہیں گے کہ مدد چھپ کر کرنے کی بجائے کھل کر کی جائے اور کورٹ اس معاملے میں یقیناً تمہارے حق میں اپنا فیصلہ دے گا۔ تم ابھی میرے گھر پر ہی رہو۔ میں اس بارے میں ملازم کو کہہ دیتی ہوں اور آج میں ابو سے بات کرتی ہوں ہم کوشش کریں گے، کل لاہور واپس آجائیں۔"
امامہ نے ملازم کو بلا کر فون اس کے حوالے کردیا۔ صبیحہ نے ملازم کو کچھ ہدایت دیں اور پھر رابطہ منقطع کردیا۔
"میں صبیحہ بی بی کا کمرہ کھول رہا ہوں، آپ وہاں چلی جائیں۔" ملازم نے اس سے کہا۔
وہ صبیحہ کے کمرے میں چلی آئی مگر اس کی تشویش اور پریشانی میں اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ صبیحہ کے نقطہ نظر کو سمجھ سکتی تھی۔ وہ یقیناً یہ نہیں چاہتی تھی کہ خود صبیحہ اور اس کی فیملی پر کوئی مصیبت آئے۔ اس معاملے میں صبیحہ کے اندیشے درست تھے۔ اگر ہاشم مبین کو یہ پتا چل جاتا کہ اسے صبیحہ کی فیملی نے پناہ دی تھی تو وہ ان کے جانی دشمن بن جاتے۔ شاید اس لئے صبیحہ نے اس سے قانون کی مدد لینے کے لئے کہا تھا مگر یہ راستہ اس کے لئے زیادہ دشوار تھا۔
جماعت کے اتنے بڑے لیڈر کی بیٹی کا اس طرح مذہب چھوڑ دینا پوری جماعت کے منہ پر طمانچے کے مترادف تھا اور وہ جانتے تھے کہ اس سے پورے ملک میں جماعت اور خود ان کے خاندان کو کتنی زک پہنچے گی اور وہ اس بے عزتی سے بچنے کے لئے کس حد تک جاسکتے تھے، امامہ جانتی نہیں تھی مگر اندازہ کرسکتی تھی۔
وہ صبیحہ کے کمرے میں داخل ہورہی تھی جب اس کے ذہن میں ایک جھماکے کے ساتھ سیدہ مریم سبط علی کا خیال آیا تھا۔ وہ صبیحہ کی دوست اور کلاس فیلو تھی۔ وہ اس سے کئی بار ملتی رہی تھی۔ ایک بار صبیحہ کے گھر پر ہی مریم کو اس کےقبول اسلام کا پتا چلا تھا۔ وہ شاید صبیحہ کی واحد دوست تھی جسے صبیحہ نے امامہ کے بارے میں بتا دیا تھا اور مریم بہت حیران نظر آئی تھی۔
"تمہیں اگر کبھی میری کسی مدد کی ضرورت ہوئی تو مجھے ضرور بتانا بلکہ بلا جھجک میرے پاس آجانا۔"
اس نے بڑی گرمجوشی کے ساتھ امامہ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ بعد میں بھی امامہ سے ہونے والی ملاقاتوں میں وہ ہمیشہ اس سے اسی گرم جوشی کے ساتھ ملتی رہی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے اس کا کیوں خیال آیا تھا یا وہ کس حد تک اس کی مدد کرسکتی تھی مگر اس وقت اس نے اس سے بھی رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے موبائل سے فون کرنا چاہا مگر موبائل کی بیٹری ختم ہوچکی تھی۔ اس نے اسے ری چارج کرنے کے لئے لگایا اور خود لاؤنج میں آکر اپنی ڈائری سے مریم کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔
فون ڈاکٹر سبط نے اٹھایا تھا۔
"میں مریم سے بات کرنا چاہتی ہوں، میں ان کی دوست ہوں۔"
اس نے اپنا تعارف کروایا۔ اس نے پہلی بار مریم کو فون کیا تھا۔
"میں بات کرواتا ہوں۔" انہوں نے فون ہولڈ رکھنے کا کہا۔ کچھ سیکنڈز کے بعد امامہ نے دوسری طرف مریم کی آواز سنی۔
"ہیلو۔۔۔۔۔"
"ہیلو مریم! میں امامہ بات کررہی ہوں۔"
"امامہ۔۔۔۔۔ امامہ ہاشم؟" مریم نے حیرانی سے پوچھا۔
"ہاں، مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔"
وہ اسے اپنے بارے میں بتاتی گئی۔ دوسری طرف مکمل خاموشی تھی جب اس نے بات ختم کی تو مریم نے کہا۔
"تم اس وقت کہاں ہو؟"
"میں صبیحہ کے گھر پر ہوں، مگر صبیحہ کے گھر پر کوئی نہیں ہے۔ صبیحہ پشاور میں ہے۔"
اس نے صبیحہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں اسے نہیں بتایا۔
"تم وہیں رہو۔ میں ڈرائیور کو بھجواتی ہوں۔ تم اپنا سامان لے کر اسکے ساتھ آجاؤ۔۔۔۔۔ میں اتنی دیر میں اپنی امی اور ابو سے بات کرتی ہوں۔"
اس نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔ یہ صرف اتفاق تھا کہ اس نے ڈاکٹر سبط کے گھر کی جانے والی کال سالار کے موبائل سے نہیں کی تھی ورنہ سکندر عثمان ڈاکٹر سبط علی کے گھر بھی پہنچ جاتے اور اگر امامہ کو یہ خیال آجاتا کہ وہ موبائل کے بل سے اسے ٹریس آؤٹ کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ لاہور آکر ایک بار بھی موبائل استعمال نہ کرتی۔
یہ ایک اور اتفاق تھا کہ ڈاکٹر سبط علی نے اپنے آفس کی گاڑی اور ڈرائیور کو اسے لینے کے لئے بھجوایا تھا، ورنہ صبیحہ کا ملازم مریم کی گاڑی اور ڈرائیور کو پہچان لیتا کیونکہ مریم اکثر وہاں آیا کرتی تھی اور صبیحہ کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی یہ جان جاتے کہ وہ صبیحہ کے گھر سے کہاں گئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آدھ گھنٹہ بعد ملازم نے ایک گاڑی کے آنے کی اطلاع دی۔ وہ اپنا بیگ اٹھانے لگی۔
"کیا آپ جارہی ہیں؟"
"ہاں۔۔۔۔۔"
"مگر صبیحہ بی بی تو کہہ رہی تھیں کہ آپ یہاں رہیں گی۔"
"نہیں۔۔۔۔۔ میں جارہی ہوں۔۔۔۔۔ اگر صبیحہ کا فون آئے تو آپ اسے بتا دیں کہ میں چلی گئی ہوں۔" اس نے دانستہ طور پر اسے یہ نہیں بتایا کہ وہ مریم کے گھر جارہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ پہلی بار مریم کے گھر گئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہاں جاکر اسے ایک بار پھر مریم اور اس کے والدین کو اپنے بارے میں سب کچھ بتانا پڑے گا۔ وہ ذہنی طور پر خود کو سوالوں کے لئے تیار کررہی تھی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔
"ہم لوگ تو ناشتہ کرچکے ہیں تم ناشتہ کرلو۔"
مریم نے پورچ میں اس کا استقبال کیا تھا اور اسے اندر لے جاتے ہوئے کہا۔ اندر لاؤنج میں ڈاکٹر سبط علی اور ان کی بیوی سے اس کا تعارف کروایا گیا۔ وہ بڑے تپاک سے ملے۔ امامہ کے چہرے پر اتنی سراسیمگی اور پریشانی تھی کہ ڈاکٹر سبط علی کو اس پر ترس آیا۔
"میں کھانا لگواتی ہوں۔ مریم تم اسے اس کا کمرہ دکھا دو۔۔۔۔۔ تاکہ یہ کپڑے چینج کرلے۔" سبط علی کی بیوی نے مریم سے کہا۔
وہ جب کپڑے بدل کر آئی تو ناشتہ لگ چکا تھا۔ اس نے خاموشی سے ناشتہ کیا۔
"امامہ! اب آپ جاکر سوجائیں۔ میں آفس جارہا ہوں، شام کو واپسی پر ہم آپ کے مسئلے پر بات کریں گے۔"
ڈاکٹر سبط علی نے اسے ناشتہ ختم کرتے دیکھ کر کہا۔
"مریم! تم اسے کمرے میں لے جاؤ۔" وہ خود لاؤنج سے نکل گئے۔
وہ مریم کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی آئی۔
"امامہ! اب تم سوجاؤ۔۔۔۔۔ تمہارے چہرے سے لگ رہا ہے کہ تم پچھلے کئی گھنٹوں سے نہیں سوئیں۔ عام طور پر تھکن اور پریشانی میں نیند نہیں آتی اور تم اس وقت اس کا شکار ہوگی۔ میں تمہیں کوئی ٹیبلٹ لاکر دیتی ہوں اگر نیند آگئی تو ٹھیک ورنہ ٹیبلٹ لے لینا۔"
وہ کمرے سے باہر نکل گئی، کچھ دیر بعد اس کی واپسی ہوئی پانی کا گلاس اور ٹیبلٹ بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے کہا۔
"تم بالکل ریلیکس ہوکر سوجاؤ۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ تم سمجھو کہ تم اپنے گھر میں ہو۔" وہ کمرے کی لائٹ آف کرتی ایک بار پھر کمرے سے باہر نکل گئی۔
صبح کے ساڑھے نوبج رہے تھے مگر ابھی تک باہر بہت دھند تھی اور کمرے کی کھڑکیوں پر پردے ہونے کی وجہ سے کمرے میں اندھیرا کچھ اور گہرا ہوگیا تھا۔ اس نے کسی معمول کی طرح ٹیبلٹ پانی کے ساتھ نگل لی۔ اس کے بغیر نیند آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے ذہن میں اتنے بہت سے خیالات آرہے تھے کہ بیڈ پر لیٹ کر نیند کا انتظار کرنا مشکل ہوجاتا۔ چند منٹوں کے بعد اس نے اپنے اعصاب پر ایک غنودگی طاری ہوتی محسوس کی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ جس وقت دوبارہ اٹھی اس وقت کمرہ مکمل طور پر تاریک ہوچکا تھا۔ وہ بیڈ سے اٹھ کر دیوار کی طرف گئی اور اس نے لائٹ جلا دی۔ وال کلاک پر رات کے ساڑھے گیارہ بجے تھے۔ وہ فوری طور پر اندازہ نہیں کرسکی کہ یہ اتنی لمبی نیند ٹیبلٹ کا اثر تھی یا پھر پچھلے کئی دنوں سے صحیح طور پر نہ سو سکنے کی۔
"جو کچھ بھی تھا وہ صبح سے بہت بہتر حالت میں تھی۔ اسے بے حد بھوک لگ رہی تھی، مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ گھر کے افراد اس وقت جاگ رہے ہوں گے یا نہیں۔ بہت آہستگی سے وہ دروازہ کھول کر لاؤنج میں نکل آئی۔ ڈاکٹر سبط علی لاؤنج کے ایک صوفے پر بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔ دروازہ کھلنے کی آواز سن کر انہوں نے سر اٹھا کر دیکھا اور اسے دیکھ کر مسکرائے۔
"اچھی نیند آئی؟" وہ بڑی بشاشت سے بولے۔
"جی۔۔۔۔۔!" اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔
"اب ایسا کریں کہ وہ سامنے کچن ہے، وہاں چلی جائیں۔ کھانا رکھا ہوا ہے۔ گرم کریں۔ وہاں ٹیبل پر ہی کھالیں اس کے بعد چائے کے دو کپ بنائیں اور یہاں آجائیں۔"
وہ کچھ کہے بغیر کچن میں چلی گئی۔ فریج میں رکھا ہوا کھانا نکال کر اس نے گرم کیا اور کھانے کے بعد چائے لے کر لاؤنچ میں آگئی۔ چائے کا ایک کپ بنا کر اس نے ڈاکٹر سبط علی کو دیا۔
وہ کتاب میز پر رکھ چکے تھے۔ دوسرا کپ لے کر وہ ان کے بالمقابل دوسرے صوفے پر بیٹھ گئی۔ وہ اندازہ کرچکی تھی کہ وہ اس سے کچھ باتیں کرنا چاہتے تھے۔
"چائے بہت اچھی ہے۔"
انہوں نے ایک سپ لے کر مسکراتے ہوئے کہا وہ اتنی نروس تھی کہ ان کی تعریف پر مسکرا سکی نہ شکریہ ادا کرسکی۔ وہ صرف انہیں دیکھتی رہی۔
"امامہ! آپ نے جو فیصلہ کیا ہے اس کے صحیح ہونے میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی مگر فیصلہ بہت بڑا ہے اور اتنے بڑے فیصلے کرنے کے لئے بہت ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاص طور پر اس کم عمری میں، مگر بعض دفعہ فیصلے کرنے کے لئے اتنی جرات کی ضرورت نہیں ہوتی جتنی ان پر قائم رہنے کے لئے ہوتی ہے۔ آپ کو کچھ عرصہ بعد اس کا اندازہ ہوگا۔"
وہ بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہہ رہے تھے۔
"میں آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا مذہب کی تبدیلی کا فیصلہ صرف مذہب کے لئے ہے یا کوئی اور وجہ بھی ہے۔"
وہ چونک کر انہیں دیکھنے لگی۔
"میرا خیال ہے مجھے زیادہ واضح طور پر یہ سوال پوچھنا چاہیے کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کسی لڑکے میں دلچسپی رکھتی ہیں اور اس کے کہنے پر یا اس کے لئے آپ نے گھر سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہو یا مذہب بدلنے کا۔ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ مت سوچنا کہ اگر ایسی کوئی وجہ ہوگی تو میں آپ کو برا سمجھوں گا یا آپ کی مدد نہیں کروں گا۔ میں یہ صرف اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ اگر ایسا ہوا تو پھر مجھے اس لڑکے اور اس کے گھر والوں سے بھی ملنا ہوگا۔"
ڈاکٹر سبط اب سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ اس وقت امامہ کو پہلی بار مریم سے اتنی دیر سے رابطہ کرنے پر پچھتاوا ہوا اگر سالار کی بجائے ڈاکٹر سبط، جلال سے یا اس کے گھر والوں سے بات کرتے تو شاید۔۔۔۔۔" اس نے بوجھل دل سے نفی میں سر ہلادیا۔
"ایسا کچھ نہیں ہے۔"
"کیا آپ کو واقعی یقین ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے؟" انہوں نے ایک بار پھر پرسکون انداز میں اس سے کہا۔
"جی۔۔۔۔ میں نے اسلام کسی لڑکے کے لئے قبول نہیں کیا۔" وہ اس بار جھوٹ نہیں بول رہی تھی، اس نے اسلام واقعی جلال انصر کے لئے قبول نہیں کیا تھا۔
"پھر آپ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ آپ کو کتنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔"
"مجھے اندازہ ہے۔"
"آپ کے والد ہاشم مبین صاحب سے میں واقف ہوں۔ جماعت کے بہت سرگرم اور بارسوخ لیڈر ہیں اور آپ کا ان کے مذہب سے تائب ہوکر اس طرح گھر سے چلے آنا ان کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ آپ کو ڈھونڈنے اور واپس لے جانے کے لئے وہ زمین آسمان ایک کردیں گے۔"
"مگر میں کسی بھی قیمت پر واپس نہیں جاؤں گی۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔"
"گھر آپ نے چھوڑ دیا ہے۔ اب آپ آگے کیا کریں گی؟" امامہ کو اندیشہ ہوا کہ وہ اسے کورٹ میں جانے کا مشورہ دیں گے۔
"میں کورٹ میں نہیں جاؤں گی۔ میں کسی کے بھی سامنے آنا نہیں چاہتی۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ سامنے آکر میرے لئے بہت زیادہ مسائل پیدا ہوجائیں گے۔"
"پھر آپ کیا کرنا چاہتی ہیں؟" انہوں نے بغور اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"سامنے نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ میڈیکل کالج میں اپنی اسٹڈیز جاری نہیں رکھ سکیں گی۔"
"میں جانتی ہوں۔" اس نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے افسردگی سے کہا۔
"میں ویسے بھی خود تو میڈیکل کی تعلیم افورڈ کر بھی نہیں سکتی۔"
"اور اگر کسی دوسرے میڈیکل کالج میں کسی دوسرے شہرے یا صوبے میں آپ کی مائیگریشن کروا دی جائے تو؟"
"نہیں، وہ مجھے ڈھونڈ لیں گے۔ ان کے ذہن میں بھی سب سے پہلے یہی آئے گا کہ میں مائیگریشن کروانے کی کوشش کروں گی اور اتنے تھوڑے سے میڈیکل کالجز میں مجھے ڈھونڈنا بہت آسان کام ہے۔"
"پھر۔۔۔۔۔؟"
"میں بی ایس سی میں کسی کالج میں ایڈمیشن لینا چاہتی ہوں مگر کسی دوسرے شہر میں۔۔۔۔۔ لاہور میں وہ ایک ایک کا لج چھان ماریں گے اور میں اپنا نام بھی بدلوانا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔ اگر آپ ان دونوں کاموں میں میری مدد کرسکیں تو میں بہت احسان مند رہوں گی۔"
ڈاکٹر سبط علی بہت دیر خاموش رہے وہ کسی گہری سوچ میں گم تھے۔ پھر انہوں نے ایک گہرا سانس لیا۔
"امامہ! ابھی کچھ عرصہ آپ کو یہیں رہنا چاہیے، پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ آپ کے گھر والے آپ کی تلاش میں کیا کیا طریقے اختیار کرتے ہیں۔ چند ہفتے انتظار کرتے ہیں پھر دیکھتے ہیں آگے کیا کرنا ہے۔ آپ اس گھر میں بالکل محفوظ ہیں۔۔۔۔۔ آپ کو اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ آپ کورٹ میں نہیں جانا چاہتیں؟ میں آپ کو اس کے لئے مجبور بھی نہیں کروں گا اور آپ کو یہ ڈر نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی یہاں تک آجائے گا یا آپ کو زبردستی یہاں سے لے جائے گا۔ آپ کے ساتھ کوئی بھی کسی بھی طرح کی زبردستی نہیں کرسکتا۔"
انہوں نے اس رات اسے بہت سی تسلیاں دی تھیں۔ اسے ڈاکٹر سبط علی کی شکل دیکھ کر بے اختیار ہاشم مبین یاد آتے رہے۔ وہ بوجھل دل کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دوسرے دن ڈاکٹر سبط علی شام پانچ بجے کے قریب اپنے آفس سے آئے تھے۔
"صاحب آپ کو اپنی اسٹڈی میں بلا رہے ہیں۔"
وہ اس وقت مریم کے ساتھ کچن میں تھی جب ملازم نے آخر اسے پیغام دیا۔
"آؤ امامہ! بیٹھو۔" اسٹڈی کے دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہونے پر ڈاکٹر سبط علی نے اس سے کہا وہ اپنی ٹیبل کی ایک دراز سے کچھ پیپرز نکال رہے تھے وہ وہاں رکھی ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔
"آج میں نے کچھ معلومات کروائی ہیں آپ کے بارے میں کہ آپ کے گھر والے آپ کی تلاش میں کہاں تک پہنچے ہیں اور کیا کررہے ہیں۔"
انہوں نے دراز بند کرتے ہوئے کہا۔
"یہ سالار سکندر کون ہے؟"
ان کے اگلے سوال نے اس کے دل کی دھڑکن کو چند لمحوں کے لئے روک دیا تھا۔ وہ اب کرسی پر بیٹھے اسے بغور دیکھ رہے تھے۔ اس کے چہرے کی فق ہوتی ہوئی رنگت نے انہیں بتا دیا کہ وہ نام امامہ کے لئے اجنبی نہیں تھا۔
"سالار۔۔۔۔۔! ہمارے ساتھ۔۔۔۔۔ والے۔۔۔۔۔ گھر۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ رہتا۔۔۔۔۔۔ ہے۔" اس نے اٹکتے ہوئے کہا۔
"اس نے میری بہت مدد کی ہے۔ گھر سے نکلنے میں۔۔۔۔۔ اسلام آباد سے لاہور مجھے وہی چھوڑ کر گیا تھا۔"
وہ دانستہ رک گئی۔
"کیا اس کے ساتھ نکاح کے بارے میں بھی بتانا چاہئے؟" وہ گومگو میں تھی۔
"آپ کے والد نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ہے، آپ کو اغوا کرنے کے الزام میں۔"
امامہ کے چہرے کی رنگت اور زرد ہوگئی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ سالار سکندر اتنی جلدی پکڑا جائے گا اور اب اس کے گھر والے یقیناً جلال انصر تک بھی پہنچ جائیں گے اور وہ نکاح اور اس کے بعد کیا وہ یہاں آجائیں گے۔
"کیا وہ پکڑا گیا؟" بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔
"نہیں۔۔۔۔۔ یہ ٹریس آؤٹ کرلیا گیا تھا کہ وہ اس رات کسی لڑکی کے ساتھ لاہور تک آیا تھا لیکن اس کا اصرار ہے کہ وہ آپ نہیں تھیں۔ کوئی دوسری لڑکی تھی۔ اس کی کوئی گرل فرینڈ۔۔۔۔۔ اور اس نے اس کا ثبوت بھی دے دیا ہے۔"
ڈاکٹر سبط علی نے دانستہ طور پر یہ نہیں بتایا کہ وہ لڑکی کوئی طوائف تھی۔
"پولیس اسے گرفتار اس کے اپنے والد کی وجہ سے نہیں کرسکی۔ اس کے ثبوت دینے کے باوجود آپ کے گھر والوں کا یہی اصرار ہے کہ آپ کی گمشدگی میں وہی ملوث ہے۔ امامہ! کیسا لڑکا ہے یہ سالار سکندر؟"
ڈاکٹر سبط نے اسے تفصیل بتاتے ہوئے اچانک پوچھا۔
"بہت برا۔" بے اختیار امامہ کے منہ سے نکلا۔ "بہت ہی برا۔"
"مگر آپ تو یہ کہہ رہی تھیں کہ اس نے آپ کی بہت مدد کی ہے۔۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔۔"
"ہاں، اس نے میری مدد کی ہے مگر وہ بہت برے کردار کا لڑکا ہے۔ میری مدد شاید اس نے اس لئے کی ہے کیونکہ میں نے ایک بار اسے فرسٹ ایڈ دی تھی۔ اس نے خودکشی کی کوشش کی تھی تب۔۔۔۔۔ اور شاید اس لئے بھی اس نے میری مدد کی ہوگی کیونکہ میرا بھائی اس کا دوست ہے۔ ورنہ وہ بہت برا لڑکا ہے۔ وہ ذہنی مریض ہے۔ پتا نہیں عجیب باتیں کرتا ہے۔ عجیب حرکتیں کرتا ہے۔"
امامہ کے ذہن میں اس وقت اس کے ساتھ کئے گئے سفر کی یاد تازہ تھی جس میں وہ پورا راستہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتی رہی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی نے سرہلایا۔
"پولیس آپ کی فرینڈز سے بھی پوچھ گچھ کررہی ہے اور صبیحہ کے گھر تک بھی پولیس گئی ہے۔ صبیحہ پشاور سے واپس آگئی ہے، مگر مریم نے صبیحہ کو یہ نہیں بتایا کہ آپ ہمارے یہاں ہیں۔ آپ اب صبیحہ سے رابطہ مت کریں۔ اسے فون بھی مت کریں کیونکہ ابھی وہ اس کے گھر کو انڈر آبزرویشن رکھیں گے اور فون کو بھی وہ خاص طور پر چیک کریں گے، بلکہ آپ اب کسی بھی دوست سے فون پر کانٹیکٹ مت کرنا نہ ہی یہاں سے باہر جانا۔"
انہوں نے اسے ہدایت دیں۔
"میرے پاس موبائل ہے۔ اس پر بھی کانٹیکٹ نہیں کرسکتی؟"
وہ چونکے۔
"آپ کا موبائل ہے؟"
"نہیں، اسی لڑکے سالار کا ہے۔"
وہ سالار تک پہنچ گئے تو موبائل تک بھی پہنچ جائیں گے۔" وہ بات کرتے کرتے رک گئے۔
"جو کال آپ نے ہمارے گھر کی تھی وہ اس موبائل سے کی تھی؟" اس بار ان کی آواز میں کچھ تشویش تھی۔
"نہیں، وہ میں نے صبیحہ کے گھر سے کی تھی۔"
"آپ اب اس موبائل پہ دوبارہ کوئی کال کرنا نہ کال ریسیور کرنا۔"
وہ کچھ مطمئن ہوگئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلے کچھ دنوں میں اسے ڈاکٹر سبط سے اس کی تلاش کے سلسلے میں اور خبریں موصول ہوتی رہی تھیں۔ ان کے ذرائع معلومات جو بھی تھے مگر وہ بے حد باوثوق تھے۔ اسے ہر جگہ ڈھونڈا جارہا تھا۔ میڈیکل کالج، ہاسپٹل، کلاس فیلوز۔۔۔۔ ہاسٹل، روم میٹس اور فرینڈز۔۔۔۔ ہاشم مبین نے اسے ڈھونڈنے کے لئے نیوز پیپر کا سہارا نہیں لیا تھا۔ میڈیا کی مدد لینے کا نتیجہ ان کے لئے رسوا کن ثابت ہوتا۔
وہ جس حد تک اس کی گمشدگی کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرسکتے تھے کررہے تھے، مگر وہ پولیس کی مدد حاصل کئےہوئے تھے۔ ان کی جماعت بھی اس سلسلے میں ان کی پوری مدد کررہی تھی۔
وہ لوگ صبیحہ تک پہنچ گئے تھے مگر وہ یہ جان نہیں پائے تھے کہ وہ لاہور آنے کے بعد اس کے گھر گئی تھی۔ شاید یہ صبیحہ کے ان دنوں پشاور میں ہونے کا نتیجہ تھا جن دنوں امامہ اپنے گھر سے چلی آئی تھی۔ ورنہ شاید صبیحہ اور اس کے گھر والوں کو بھی کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔
مریم نے صبیحہ کو امامہ کی اپنے ہاں موجودگی کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ اس نے مکمل طور پر یوں ظاہر کیا تھا جیسے امامہ کی اس طرح کی گمشدگی باقی اسٹوڈنٹس کی طرح اس کے لئے بھی حیران کن بات تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چند ہفتے گزر جانے کے بعد جب امامہ کو یہ یقین ہوگیا کہ وہ ڈاکٹر سبط علی کے ہاں محفوط ہے اور کوئی بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا تو اس نے سالار سکندر کو فون کیا۔ وہ اس سے نکاح کے پیپرز لینا چاہتی تھی اور تب پہلی بار یہ جان کر اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی کہ سالار نے نہ تو طلاق کا حق اسے تفویض کیا تھا اور نہ ہی وہ اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتا تھا۔
ڈآکٹر سبط علی کے گھر پہنچنے کے بعد اس نے پہلی بار موبائل کا استعمال کیا تھا اور وہ بھی کسی کو بتائے بغیر اور سالار سے فون پر بات کرنے کے بعد اسے اپنی حماقت کا شدت سے احساس ہوا۔۔۔۔۔ اسے سالار جیسے شخص پر کبھی بھی اس حد تک اعتماد نہیں کرنا چاہیے تھا اور اسے پیپرز کو دیکھنے میں کتنا وقت لگ سکتا تھا جو اس نے انہیں دیکھنے سے اجتناب کیا اور پھر آخر اس نے پیپرز کی ایک کاپی فوری طور پر اس سے کیوں نہیں لی۔ کم از کم اس وقت جب وہ اپنے گھر سے نکل آئی تھی۔
اسے اب اندازہ ہورہا تھا کہ وہ شخص اس کے لئے کتنی بڑی مصیبت بن گیا تھا اور آئندہ آنے والے دنوں میں۔۔۔۔۔ وہ اب ہر بات پر پچھتا رہی تھی۔ اگر اسے اندازہ ہوتا کہ وہ ڈاکٹر سبط علی جیسے آدمی کے پاس پہنچ جائے گی تو وہ کبھی بھی نکاح کرنے کی حماقت نہ کرتی اور سالار جیسے آدمی کے ساتھ تو کبھی بھی نہیں۔
اور اگر اسے یقین ہو تاکہ ڈاکٹر سبط علی ہر حالت میں اس کی مدد کریں گے تو وہ کم از کم سالار کے بارے میں ان سے جھوٹ نہ بولتی پھر وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے، مگر اب جب وہ انہیں بڑے دعوے اور یقین کے ساتھ یہ یقین دلا چکی تھی کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ کسی بھی طرح انوالو نہیں تھی تو اس نکاح کا انکشاف اور وہ بھی اس لڑکے کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ جس کی برائیوں کے بارے میں وہ ڈاکٹر سبط علی سے بات کرچکی تھی اور جس کے بارے میں وہ یہ بھی جانتے تھے کہ امامہ کے والدین نے اس کے خلاف اغوا کا کیس فائل کیا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اگر اب ڈاکٹر سبط علی کو یہ حقائق بتانے کی کوشش کرے گی تو ان کا ردعمل کیا ہوگا اور وہ کم ازکم اس وقت وہ واحد ٹھکانہ کھونے کے لئے تیار نہیں تھی۔
اگلے کئی دن اس کی بھوک پیاس بالکل ختم ہوگئی۔ مستقبل یکدم بھوت بن گیا تھا اور سالار سکندر۔۔۔۔۔ اسے اس شخص سے اتنی نفرت محسوس ہورہی تھی کہ اگر وہ اس کے سامنے آجاتا تو وہ اسے شوٹ کردیتی۔ اسے عجیب عجیب خدشے اور اندیشے تنگ کرتے رہتے۔ پہلے اگر اسے صرف اپنے گھر والوں کا خوف تھا تو اب اس خوف کے ساتھ سالار کا خوف بھی شامل ہوگیا تھا اگر اس نے میری تلاش شروع کردی اور اس کے ساتھ ہی اس کی حالت غیر ہونے لگی۔
اس کا وزن یکدم کم ہونے لگا۔ وہ پہلے بھی خاموش رہتی تھی مگر اب اس کی خاموشی میں اور اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ شدید ذہنی دباؤ میں تھی اور یہ سب کچھ ڈاکٹر سبط علی اور ان کے گھر والوں سے پوشیدہ نہیں تھا ان سب نے اس سے باری باری ان اچانک آنے والی تبدیلیوں کی وجہ جاننے کی کوشش کی لیکن وہ انہیں ٹالتی رہی۔
"تم پہلے بھی اداس اور پریشان لگی تھیں مگر اب ایک دو ہفتے سے بہت زیادہ پریشان لگتی ہو۔ کیا پریشانی ہے امامہ؟"
سب سے پہلے مریم نے اس سے اس بارے میں پوچھا۔
"نہیں، کوئی پریشانی نہیں۔ بس میں گھر کو مس کرتی ہوں۔"
امامہ نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
"نہیں، میں یہ نہیں مان سکتی۔ آخر اب اچانک اتنا کیوں مس کرنے لگی انہیں کہ کھانا پینا بھول گئی ہو۔ چہرہ زرد ہوگیا ہے۔ آنکھوں کے گرد حلقے پڑنے لگے ہیں اور وزن کم ہوتا جارہا ہے۔ کیا تم بیمار ہونا چاہتی ہو؟"
وہ مریم کی کہی ہوئی کسی بات کو رد نہیں کرسکتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی ظاہری حالت دیکھ کر کوئی بھی اس کی پریشانی کا اندازہ باآسانی لگاسکتا ہے اور شاید یہ اندازہ بھی یہ کہ پریشانی کسی نئے مسئلے کا نتیجہ تھی مگر وہ اس معاملے میں بے بس تھی۔ وہ سالار کے ساتھ ہونےو الے نکاح اور اس سے متعلقہ خدشات کو اپنے ذہن سے نکال نہیں پارہی تھی۔
"مجھے اب اپنے گھر والے زیادہ یاد آنے لگے ہیں۔ جوں جوں دن گزر رہے ہیں وہ مجھے زیادہ یاد آرہے ہیں۔"
امامہ نے مدھم آواز میں اس سے کہا اور یہ جھوٹ نہیں تھا اسے واقعی اب اپنے گھر والے پہلے سے زیادہ یاد آنے لگے تھے۔
وہ کبھی بھی اتنا لمبا عرصہ ان سے الگ نہیں رہی تھی اور وہ بھی مکمل طور پر اس طرح کٹ کر۔ لاہورہاسٹل میں رہتے ہوئے بھی وہ مہینے میں ایک بار ضرور اسلام آباد جاتی اور ایک دوبار وسیم یا ہاشم مبین لاہور اس سے ملنے چلے آتے اور فون تو وہ اکثر ہی کرتی رہتی تھی مگر اب یکدم اسے یوں لگنے لگا تھا جیسے وہ سمندر میں موجود کسی ویران جزیرے پر آن بیٹھی ہو۔ جہاں دور دور تک کوئی تھا ہی نہیں اور وہ چہرے۔۔۔۔۔ جن سے اسے سب سے زیادہ محبت تھی وہ خوابوں اور خیالوں کے علاوہ نظر آہی نہیں سکتے تھے۔
پتا نہیں مریم اس کے جواب سے مطمئن ہوئی یا نہیں مگر اس نے موضوع بدل دیا تھا۔ شاید اس نے سوچا ہوگا کہ اس طرح اس کا ذہن بٹ جائے گا۔
ڈاکٹر سبط علی کی تین بیٹیاں تھیں، مریم ان کی تیسری بیٹی تھی۔ ان کی بڑی دونوں بیٹیوں کی شادی ہوچکی تھی۔ جب کہ مریم ابھی میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہی تھی۔ ڈاکٹر سبط نے امامہ کو اپنی بڑی دونوں بیٹیوں سے بھی متعارف کروایا تھا۔ وہ دونوں بیرون شہر مقیم تھیں اور ان کا رابطہ زیادہ تر فون کے ذریعہ ہی ہوتا تھا مگر یہ اتفاق ہی تھا کہ امامہ کے وہاں آنے کے چند ہفتوں کے دوران وہ دونوں باری باری کچھ دنوں کے وہاں آئیں۔
امامہ سے ان کا رویہ مریم سے مختلف نہیں تھا۔ ان کے رویے میں اس کے لئے محبت اور مانوسیت کے علاوہ کچھ نہیں تھا لیکن امامہ کو انہیں دیکھ کر ہمیشہ اپنی بڑی بہنیں یاد آجاتیں اور پھر جیسے سب کچھ یاد آجاتا۔ اپنا گھر۔۔۔۔۔ بابا۔۔۔۔۔ بڑے بھائی۔۔۔۔۔ وسیم۔۔۔۔۔ اور سعد۔۔۔۔۔ سعد سے اس کا کوئی خونی رشتہ نہیں تھا۔ ان کی جماعت کے بااثر خاندان اپنے گھروں میں اولاد ہونے کے باوجود بے سہارا یتیم بچوں میں سے کسی ایک لڑکے کو گود میں لینے لگے تھے۔ یہ اپنی جماعت کے افراد کی مستقبل میں تعداد بڑھانے کے لئے کوششوں کا ایک ضروری حصہ تھی۔ ایسا بچہ ہمیشہ عام مسلمانوں کے بچوں میں سے ہی ہوتا اور ہمیشہ لڑکا ہوتا۔ سعد بھی اسی سلسلے میں بہت چھوٹی عمر میں اس کے گھر آیا تھا۔ وہ اس وقت اسکول کے آخری سالوں میں تھی اور اسے گھر میں ہونے والے اس عجیب اضافے نے کچھ حیران کیا تھا۔
"ہم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا کرنے کے لئے سعد کو گود لیا ہے، تاکہ ہم بھی دوسرے لوگوں پر احسانات کرسکیں اور نیکی کا یہ سلسلہ جاری رہے۔"
اس کی امی نے اس کےا ستفسار پر اسے بتایا۔
"تم سمجھو، وہ تمہارا چھوٹا بھائی ہے۔"
تب اسے اپنے بابا اور امی پر بہت فخر ہوا تھا۔ وہ کتنے عظیم لوگ تھے کہ ایک بے سہارا بچے کو اچھی زندگی دینے کے لئے گھر لے آئے تھے، اسے اپنا نام دے رہے تھے اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو اس کے ساتھ بانٹ رہے تھے۔ اس نے تب غور نہیں کیا تھا کہ ایسا ہی ایک بچہ اس کے تایا اعظم کے گھر پر بھی کیوں تھا۔ ایسا ہی ایک بچہ اس کے چھوٹے چچا کے گھر پر کیوں تھا؟ ایسے ہی بہت سے دوسرے بچے ان کے جاننے والے کچھ اور بااثر خاندانوں کے گھر پر کیوں تھے؟ اس کے لئے بس یہی کافی تھی کہ وہ ایک اچھا کام کررہے تھے۔ ان کے جماعت ایک "اچھے" کام کی ترویج کررہی تھی۔ یہ اس نے بہت بعد جانا تھا کہ اس "اچھے" کام کی حقیقت کیا تھی؟
سعد اس سے بہت مانوس تھا۔ اس کا زیادہ وقت امامہ کے ساتھ ہی گزرتا تھا۔ وہ شروع کے کئی سال امامہ کے کمرے میں اس کے بیڈ پر ہی سوتا رہا۔ اسلام قبول کرلینے کے بعد میڈیکل کالج سے وہ جب بھی اسلام آباد آتی،وہ سعد کو حضرت محمد ﷺ کے بارے میں بتاتی رہتی۔ وہ اتنا چھوٹا تھا کہ کسی چیز کو منطقی طریقے سے نہیں سمجھایا جاسکتا تھا مگر وہ اس سے صرف ایک بات کہتی رہی۔
"جیسے اللہ ایک ہوتا ہے اسی طرح ہمارے پیغمبر محمد ﷺ بھی ایک ہی ہیں۔ ان سا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔"
وہ اسے ساتھ یہ تاکید بھی کرتی رہتی کہ وہ ان دونوں کی آپس کی باتوں کے بارے میں کسی کو بھی نہیں بتائے اور امامہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کی یہ کوشش بے کار تھی۔ سعد کو بھی بچپن ہی سے مذہبی اجتماعات میں لے جایا جانے لگا اور وہ اس اثر کو قبول کررہا تھا۔ وہ ہمیشہ یہ سوچتی کہ وہ میڈیکل کی تعلیم کے بعد سعد کو لے کر اپنے گھر والوں سے الگ ہوجائے گی اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ یہ کس قدر مشکل کام تھا۔
اس نے گھر سے بھاگتے ہوئے بھی سعد کو اپنے ساتھ لے آنے کا سوچا تھا مگر یہ کام ناممکن تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اسے لاتے ہوئے خود بھی پکڑی جائے۔ وہ اسے وہاں چھوڑ آئی تھی اور اب ڈاکٹر سبط کے ہاں پہنچ جانے کے بعد اسے اس کا بار بار خیال آتا اگر وہ کسی طرح اسے وہاں سے لے آتی تو وہ بھی اس دلدل سے نکل سکتا تھا مگر ان تمام سوچوں، تمام خیالوں نے اپنے گھر والوں کے لئے اس کی محبت کو کم نہیں کیا نہ اپنے گھر والوں کے لئے، نہ جلال انصر کے لئے۔
وہ ان کا خیال آنے پر رونا شروع ہوتی تو ساری رات روتی ہی رہتی۔ شروع کے دنوں میں وہ ایک الگ کمرے میں تھی اور مریم کو اس کا اندازہ نہیں تھا مگر ایک رات وہ اچانک اس کے کمرے میں اپنی کوئی کتاب لینے آئی۔ رات کے پچھلے پہر اسے قطعاً یہ اندازہ نہیں تھا کہ امامہ جاگ رہی ہوگی اور نہ صرف جاگ رہی تھی بلکہ رو رہی ہوگی۔
امامہ کمرے کی لائٹ آف کئے اپنے بیڈ پر کمبل اوڑھے رو رہی تھی جب اچانک دروازہ کھلا تو اس نے کمبل سے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ وہ نہیں جانتی تھی مریم کو کیسے اس کے جاگنے کا اندازہ ہوا تھا۔
"امامہ! جاگ رہی ہو؟"
اس نے امامہ کو آواز دی۔ امامہ نے حرکت نہیں کی مگر پھر مریم اس کی طرف چلی آئی اور اس نے کمبل اس کے چہرے سے ہٹا دیا۔
"میرے اللہ۔۔۔۔۔ تم رو رہی ہو۔۔۔۔۔ اور اس وقت؟"
وہ اس کے پاس ہی تشویش کے عالم میں بیڈ پر بیٹھ گئی۔ امامہ کی آنکھیں بری طرح سوجی ہوئی تھیں اور اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا، مگر اسے سب سے زیادہ ندامت پکڑے جانے کی تھی۔
"اس لئے تمہیں راتوں کو نیند نہیں آتی کیونکہ تم روتی رہتی ہو اور صبح یہ کہہ دیتی ہو کہ رات کو سونے میں دقت ہوئی اس لئے آنکھیں سوجی ہوئی ہیں۔ بس تم آج سے یہاں نہیں سوؤ گی۔ اٹھو میرے کمرے میں چلو۔"
اس نے کچھ برہمی کے عالم میں اسے کھینچ کراٹھایا۔ امامہ ایک لفظ نہیں بول سکی۔ وہ اس وقت بے حد شرمندہ تھی۔
مریم نے اس کے بعد اسے اپنے کمرے میں ہی سلانا شروع کردیا۔ راتوں کو دیر تک رونے کا وہ سلسلہ ختم ہوگیا مگر نیند پر اس کا اب بھی کوئی اختیار نہیں تھا۔ اسے نیند بہت دیر سے آتی تھی۔
کئی بار مریم کی عدم موجودگی میں اس کی میڈیکل کی کتابیں دیکھتی اور اسکا دل بھر آتا۔ وہ جانتی تھی سب کچھ بہت پیچھے رہ گیا تھا۔
صبح مریم اور ڈاکٹر سبط کے گھر سے چلے جانے کے بعد وہ سارا دن آنٹی کے ساتھ گزار دیتی یا شاید وہ سارا دن اس کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتی تھیں۔ وہ اسے اکیلا نہ رہنے دینے کی کوشش میں مصروف رہتی تھیں مگر ان کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی وہ پتا نہیں کن کن سوچوں میں ڈوبی رہتی تھی۔
اس نے سالار کے ساتھ دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ جانتی تھی اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس کی ذہنی پریشانی میں اضافے کے علاوہ اس رابطے سے اسے کچھ حاصل نہیں ہونے والا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسے ڈاکٹر سبط علی کے ہاں آئے تین ماہ ہوگئے تھے جب ایک دن انہوں نے رات کو اسے بلایا۔
"آپ کو اپنا گھر چھوڑے کچھ وقت بیت گیا ہے۔ آپ کے گھر والوں نے آپ کی تلاش ابھی تک ختم تو نہیں کی ہوگی مگر چند ماہ پہلے والی تندی و تیزی نہیں رہی ہوگی اب۔۔۔۔۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ اب آگے کیا کرنا چاہتی ہیں۔"
انہوں نے مختصر تمہید کے بعد کہا۔
"میں نے آپ کو بتایا تھا میں اسٹڈیز جاری رکھنا چاہتی ہوں۔"
وہ اس کی بات پر کچھ دیر خاموش رہے پھر انہوں نے کہا۔
"امامہ! آپ نے اپنی شادی کے بارے میں کیا سوچا ہے؟" وہ ان سے اس سوال کی توقع نہیں کررہی تھی۔
"شادی۔۔۔۔۔؟ کیا مطلب۔۔۔۔۔؟" وہ بے اختیار ہکلائی۔
"آپ جن حالات سے گزر رہی ہیں ان میں آپ کے لئے سب سے بہترین راستہ شادی ہی ہے کسی اچھی فیملی میں شادی ہوجانے سے آپ اس عدم تحفظ کا شکار نہیں رہیں گی جس کا شکار آپ ابھی ہیں۔ میں چند اچھے لڑکوں اور فیملیز کو جانتا ہوں میں چاہتا ہوں ان میں سے کسی کے ساتھ آپ کی شادی کردی جائے۔"
وہ بالکل سفید چہرے کے ساتھ انہیں چپ چاپ دیکھتی رہی۔ وہ ان کے پاس آنے سے بہت پہلے اپنے لئے اسی حل کو متنخب کرچکی تھی اور اسی ایک حل کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ سالار سکندر سے نکاح کی حماقت کرچکی تھی۔
اس وقت اگر وہ سالار سکندر سے نکاح نہ کرچکی ہوتی تو وہ بلا حیل و حجت ڈاکٹر سبط علی کی بات ماننے پر تیار ہوجاتی۔ وہ جانتی تھی ان حالات میں کسی اچھی فیملی میں شادی اسے کتنی اور کن مصیبتوں سے بچا سکتی تھی۔ اس نے آج تک کبھی خودمختار زندگی نہیں گزاری تھی۔ وہ ہر چیز کے لئے اپنی فیملی کی محتاج رہی تھی اور وہ یہ تصور کرتے ہوئے بھی خوفزدہ رہتی تھی کہ آخر وہ کب اور کس طرح صرف اپنےبل بوتے پر زندگی گزار سکے گی۔
مگر سالار سے وہ نکاح اس کے گلے کی ایسی ہڈی بن گیا تھا جسے وہ نہ نگل سکتی تھی اور نہ اگل سکتی تھی۔
"نہیں میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔"
"کیوں؟" اس کے پاس اس سوال کا جواب موجود تھا، مگر حقیقت بتانے کے لئے حوصلہ نہیں تھا۔
ڈاکٹر سبط علی اس کے بارے میں کیا سوچتے یہ کہ وہ ایک جھوٹی لڑکی ہے جو اب تک انہیں دھوکا دیتے ہوئے ان کے پاس رہ رہی تھی۔ یا یہ کہ شاید۔۔۔۔۔ وہ سالار سے شادی کے لئے ہی اپنے گھر سے نکلی تھی اور باقی سب کچھ کے بارے میں جھوٹ بول رہی تھی۔
اور اگر انہوں نے حقیقت جان لینے پر اس کی مدد سے معذرت کرلی یا اسے گھر سے چلے جانے کا کہا تو۔۔۔۔۔؟ اور اگر انہوں نے اس کے والدین سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو۔۔۔۔۔؟ وہ تین ماہ سے ڈآکٹر سبط علی کے پاس تھی۔ وہ کتنے اچھے تھے وہ بخوبی جانتی تھی لیکن وہ اس قدر خوفزدہ اور محتاط تھی کہ وہ کسی قسم کا رسک لینے پر تیار نہیں تھی۔
"میں پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں تاکہ کسی پر بوجھ نہ بنوں۔ کسی پر بھی۔۔۔۔۔ شادی کر لینے کی صورت میں اگر مجھے بعد میں کبھی کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تو میں کیا کروں گی۔ اس وقت تو میرے لئے شاید تعلیم حاصل کرنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔"
اس نے ایک لمبی خاموشی کے بعد جیسے کسی فیصلہ پر پہنچتے ہوئے ڈاکٹر سبط علی سے کہا۔
"امامہ! ہم ہمیشہ آپ کی مدد کرنے کے لئے موجود رہیں گے۔ آپ کی شادی کردینے کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ میرے گھر سے آپ کا تعلق ختم ہوجائے گا یا میں آپ سے جان چھڑانا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ آپ میرے لئے میری چوتھی بیٹی ہیں۔"
امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
"میں آپ پر کوئی دباؤ نہیں ڈالوں گا جو آپ چاہیں گی وہی ہوگا یہ صرف میری ایک تجویز تھی۔"
ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔
"کچھ سال گزر جانے دیں اس کے بعد میں شادی کرلوں گی۔ جہاں بھی آپ کہیں گے۔" اس نے ڈاکٹر سبط علی سے کہا۔ "مگر ابھی فوری طور پر نہیں۔"
ابھی مجھے سالار سکندر سے جان چھڑانی ہے۔ اس سے طلاق لینے کا کوئی راستہ تلاش کرنا ہے۔"
وہ ان سے بات کرتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
"کس شہر میں پڑھنا چاہتی ہیں آپ؟"
ڈاکٹر سبط علی نے مزید کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔
"کسی بھی شہر میں، میری کوئی ترجیح نہیں ہے۔" اس نے ان سے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اپنے گھر سے آتے ہوئے، اپنے سارے ڈاکومنٹس اپنے پاس موجود زیورات اور رقم بھی لے آئی تھی۔ جب ڈاکٹر سبط علی نے اس گفتگو کے چند دن بعد اسے بلاکر ملتان میں اس کے ایڈمیشن کے فیصلے کے بارے میں بتانے کے ساتھ اس کے ڈاکومنٹس کے بارے میں پوچھا تو وہ اس بیگ کو لے کر ان کے پاس چلی آئی اس نے ڈاکومنٹس کا ایک لفافہ نکال کر انہیں دیا پھر زیورات کا لفافہ نکال کر ان کی میز پر رکھ دیا۔
"میں یہ زیورات اپنے گھر سے لائی ہوں۔ یہ بہت زیادہ تو نہیں ہیں مگر پھر بھی اتنے ہیں کہ میں انہیں بیچ کر کچھ عرصہ آسانی سے اپنی تعلیم کے اخراجات اٹھا سکتی ہوں۔"
"نہیں، یہ زیورات بیچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ آپ کی شادی میں کام آئیں گے۔ جہاں تک تعلیمی اخراجات کا تعلق ہے تو آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ آپ میری ذمہ داری ہیں۔ آپ کو اس سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔"
وہ بات کرتے کرتے چونکے۔ ان کی نظر اس کے ٹیبل پر رکھے چھوٹے سے کھلے بیگ کے اندر تھی۔ امامہ نے ان کی نظروں کا تعاقب کیا۔ وہ بیگ میں نظر آنے والے چھوٹے سے پستول کو دیکھ رہے تھے۔ امامہ نے قدرے شرمندگی کے عالم میں اس پسٹل کو بھی نکال کر ٹیبل پر رکھ دیا۔
"یہ میرا پسٹل ہے۔ میں یہ گھر سے لائی ہوں، میں نے آپ کو بتایا تھا مجھے سالار سے مدد لینی تھی اور وہ اچھا لڑکا نہیں تھا۔"
وہ انہیں اس کے بارے میں مزید نہیں بتا سکتی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی پستول کو اٹھا کر دیکھ رہے تھے۔
"چلانا آتا ہے آپ کو اسے؟"
امامہ نے افسردہ مسکراہٹ کے ساتھ اثبات میں سرہلایا۔
"کالج میں این سی سی کی ٹریننگ ہوتی تھی۔ میرا بھائی وسیم بھی رائفل شوٹنگ کلب میں جایا کرتا تھا کبھی کبھار مجھے بھی ساتھ لے جاتا تھا۔ میں نے اپنے بابا سے ضد کرکے خریدا تھا۔ یہ گولڈ پلیٹڈ ہے۔"
وہ ان کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پستول کو دیکھتے ہوئے مدھم آواز میں کہہ رہی تھی۔
"آپ کے پاس اس کا لائسنس ہے؟"
"ہے مگر وہ ساتھ لے کر نہیں آئی۔"
"پھر آپ اسے یہیں پر رہنے دیں۔ ملتان ساتھ لے کر نہ جائیں۔ زیورات کو لاکر میں رکھوا دیتے ہیں۔" امامہ نے سر ہلا دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ چند ماہ کے بعد ملتان اپنی اسٹڈیز کے سلسلے کو ایک بار پھر جاری رکھنے کے لئے آگئی تھی۔ ایک شہر سے دوسرے شہر، دوسرے سے تیسرے شہر۔۔۔۔۔ ایک ایسا شہر جس کے بارے میں اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا، مگر اس نے تو خواب میں اور بہت کچھ بھی نہیں سوچا تھا۔ کیا س نے کبھی یہ سوچا تھا کہ وہ بیس سال کی عمر میں ایک بار پھر بی ایس سی میں داخلہ لے گی۔ اس عمر میں جب لڑکیاں بی ایس سی کر چکی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔
کیا اس نے کبھی یہ سوچا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے میڈیکل کالج چھوڑ دے گی۔
کیا اس نے کبھی یہ سوچا تھا کہ وہ اپنے والدین کے لئے کبھی اس قدر تکلیف اور شرمندگی کا باعث بنے گی۔
کیا اس نے کبھی یہ سوچا تھا کہ وہ اسجد کے بجائے کسی اور سے محبت کرے گی اور پھر اس سے شادی کے لئے یوں پاگلوں کی طرح کوشش کرے گی۔
کیا اس نے کبھی یہ سوچا تھا کہ ان کوششوں میں ناکامی کے بعد وہ سالار سکندر جیسے کسی لڑکے کے ساتھ اپنی مرضی سے نکاح کر لے گی۔
اور کیا اس نے یہ سوچا تھا کہ ا یک بار گھر سے نکل جانے کے بعد اسے ڈاکٹر سبط علی کے گھرانے جیسا گھر مل سکے گا۔
اسے باہر کی دنیا میں پھرنے کی عادت نہیں تھی اور اسے باہر کی دنیا میں پھرنا نہیں پڑا تھا۔ اپنے گھر سے نکلتے وقت اس نے اللہ سے اپنی حفاظت کی بے تحاشا دعائیں مانگی تھیں۔ اس نے دعائیں کی تھیں کہ اسے دربدر نہ پھرنا پڑے۔ وہ اتنی بولڈ نہیں تھی کہ وہ مردوں کی طرح ہر جگہ دندناتی پھرتی۔
اور واقعی نہیں جانتی تھی کہ جب اسے اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے سلسلے میں خود جگہ جگہ پھرنا پڑے گا۔ ہر طرح کے مردوں اور لوگوں کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ کیسےکرے گی۔ وہ بھی اس صورت میں جب کہ اس کے پیچھے فیملی بیک گراؤنڈ نام کی کوئی چیز نہیں رہی تھی۔
وہ اپنی فیملی کے سائے کے نیچے لاہور آکر میڈیکل کالج میں پڑھنا اور آگے تعلیم حاصل کرنے کے لئے باہر جانے کے خواب دیکھنا اور بات تھی۔۔۔۔۔ تب اس کے لئے کوئی مالی مسائل نہیں تھے اور ہاشم مبین احمد کے پاس اتنی دولت اور اثرورسوخ تھا کہ صرف ہاشم مبین احمد کے نام کا حوالہ کسی بھی شخص کو اس سے بات کرتے ہوئے مرعوب اور محتاط کردینے کے لئے کافی تھا۔
گھر سے نکلنے کے بعد اسے جس ماحول کے سامنے کا خدشہ تھا اس ماحول کا سامنا اسے نہیں کرنا پڑا تھا۔ پہلے سالار اسے بخریت لاہور چھوڑ گیا تھااور اس کے بعد ڈاکٹر سبط علی تک رسائی جس کے بعد اسے اپنے چھوٹے بڑے کسی کام کے لئے کسی وقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
ڈاکومنٹس میں نام کی تبدیلی، ملتان میں ایڈمیشن۔۔۔۔۔ ہاسٹل میں رہائش کا انتظام۔ اس کے تعلیمی اخراجات کی ذمہ داری۔۔۔۔۔ وہ اس ایک نعمت کے لئے اللہ کا جتنا شکر ادا کرتی وہ کم تھا۔ کم از کم اسے کسی برے ماحول میں بقا کی جنگ لڑنے کے لئے جگہ جگہ دھکے کھانے نہیں پڑے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ملتان چلی آئی، یہ اس کے لئے زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ ایک مشکل اور تکلیف دہ دور۔ وہ ہاسٹل میں رہ رہی تھی اور و ہ عجیب زندگی تھی۔ بعض دفعہ اسے اسلام آباد میں اپنا گھر اور خاندان کے لوگ اتنی شدت سے یاد آتے کہ اس کا دل چاہتا وہ بھاگ کر ان کے پاس چلی جائے۔ بعض دفعہ وہ بغیر کسی وجہ کے رونے لگتی۔ بعض دفعہ اس کا دل چاہتا وہ جلال انصر سے رابطہ کرے۔ اسے وہ بے تحاشا یاد آتا۔ وہ بی ایس سی کررہی تھی اور اس کے ساتھ بی ایس سی کرنے والی لڑکیاں وہی تھیں جو ایف ایس سی میں میرٹ لسٹ پر نہیں آسکی تھیں اور اب وہ بی ایس سی کرنے کے بعد میڈیکل کالج میں جانے کی خواہش مند تھیں۔
"میڈیکل کالج۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر۔" اس کے لئے بہت عرصے تک یہ دونوں الفاط نشتر بنے رہے۔ کئی بار وہ اپنے ہاتھ کی لکیروں کو دیکھ کر حیران ہوتی رہتی۔ آخر وہاں کیا تھا جو ہر چیز کو مٹھی کی ریت بنا رہا تھا۔ کئی بار اسے جویریہ سے کی جانے والی اپنی باتیں یاد آتیں۔
"میں اگر ڈاکٹر نہیں بن سکی تو میں تو زندہ ہی نہیں رہ سکوں گی۔ میں مرجاؤں گی۔"
وہ حیران ہوتی وہ مری تو نہیں تھی۔ اسی طرح زندہ تھی۔
"پاکستان کی سب سے مشہور آئی اسپیشلسٹ؟"
سب کچھ ایک خواب ہی رہا تھا۔۔۔۔۔ وہ ہر چیز کے اتنے پاس تھی وہ ہر چیز سے اتنا دور تھی۔
اس کے پاس گھر نہیں تھا۔
اس کے پاس گھر والے نہیں تھے۔ اس کے پاس اسجد نہیں تھا۔ میڈیکل کی تعلیم نہیں تھی۔
جلال بھی نہیں تھا۔ وہ زندگی کی ان آسائشوں سے ایک ہی جھٹکے میں محروم ہوگئی تھی جن کی وہ عادی تھی اور اس کے باوجود وہ زندہ تھی۔ امامہ کو کبھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس قدر بہادر تھی یا کبھی ہوسکتی تھی مگر وہ ہوگئی تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تکلیف میں کمی ہونا شروع ہوگئی تھی۔ یوں جیسے اسے صبر آرہا تھا۔ اللہ کے بعد شاید زمین پر یہ ڈاکٹر سبط تھے جن کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ سنبھلنے لگی تھی۔
مہینے میں ایک بار ویک اینڈ پر وہ ان کے پاس لاہور آتی۔ وہ وقتاً فوقتاً اسے ہاسٹل فون کرتے رہتے، اسے کچھ نہ کچھ بھجواتے رہتے۔ ان کی بیٹیاں اور بیوی بھی اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ ان کے نزدیک ان کے گھر کا ایک فرد بن چکی تھی اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو میرا کیا ہوتا۔ وہ کئی بار سوچتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ملتان میں اپنے قیام کے دوران بھی اس نے سالار کو کبھی اپنے ذہن سے فراموش نہیں کیا تھا۔ تعلیم کا سلسلہ باقاعدہ طور پر شروع کرنے کے بعد وہ ایک بار اس سے رابطہ کرنا چاہتی تھی اور اگر وہ پھر اسے طلاق دینے سے انکار کردیتا تو وہ بالآخر ڈاکٹر سبط علی کو اس تمام معاملے کے بارے میں بتا دینا چاہتی تھی۔
اور سالار سے رابطہ اس نے بی ایس سی کے امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد لاہور آنے سے پہلے کیا۔ اپنے پاس موجود سالار کے موبائل کا استعمال وہ بہت پہلے ترک کرچکی تھی۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ دو سال کے عرصہ میں سالار دوبارہ اسی موبائل کا استعمال کرنا شروع کرچکا ہے یا پھر اس نئے نمبر کو استعمال کررہا تھا جو اس نے اپنا موبائل دے دینے کے بعد دیا تھا۔
ایک پی سی او سے اس نے سب سے پہلے اس کا نیا نمبر ڈائل کیا۔ وہ نمبر کسی کے استعمال میں نہیں تھا۔ پھر اس نے اپنے پاس موجو دموبائل کے نمبر کو ڈائل کیا۔۔۔۔۔ وہ نمبر بھی کسی کے استعمال میں نہیں تھا۔ اس کا واضح مطلب یہی تھا کہ اب وہ کوئی اور نمبر لئے ہوئے تھا اور وہ نمبر اس کے پاس نہیں تھا۔
اس نے بالآخر گھر کا نمبر ڈائل کیا کچھ دیر تک بیل ہوتی رہی، پھر فون اٹھا لیا۔
"ہیلو۔۔۔۔۔!" کسی عورت نے دوسری طرف سے کہا۔
"ہیلو میں سالار سکندر سے بات کرنا چاہتی ہوں۔" امامہ نے کہا۔
"سالار صاحب سے۔۔۔۔۔! آپ کون بول رہی ہیں۔"
امامہ کو اچانک محسوس ہوا جیسے اس عورت کے لہجے میں یکدم تجسس پیدا ہوا تھا۔
امامہ کو پتا نہیں کیوں اس کی آواز شناسا لگی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی اچانک اس عورت نے بڑی پرجوش آواز میں کہا۔ "امامہ بی بی آپ امامہ بی بی ہیں؟"
ایک کرنٹ کھا کر امامہ نے بے اختیار کریڈل دبا دیا۔ وہ کون تھی جس نے اسے صرف آواز سے پہچان لیا تھا۔ اتنے سالوں بعد بھی۔۔۔۔۔ اور اتنی جلدی وہ بھی سالار سکندر کے گھر پر۔۔۔۔۔
کچھ دیر اس کے ہاتھ کانپتے رہے۔ وہ پی سی او کے اندر والے کیبن میں تھی اور کچھ دیر ریسیور اسی طرح ہاتھ میں لیے بیٹھی رہی۔
"جو بھی ہو مجھے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ میں اسلام آباد سے اتنی دور ہوں کہ یہاں مجھ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ مجھے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔"
اس نے سوچا اور پی سی او کے مالک کو ایک بار پھر کال ملانے کے لئے کہا۔
فون کی گھنٹی بجنے پر اس بار فون اٹھا لیا گیا تھا۔ مگر اس بار بولنے والا کوئی مرد تھا اور وہ سالار نہیں تھا۔ یہ وہ آواز سنتے ہی جان گئی تھی۔
"میں سالار سکندر سے بات کرنا چاہتی ہوں۔"
"آپ امامہ ہاشم ہیں؟"
مرد نے کھردری آواز میں کہا۔ اس بار امامہ کو کوئی شاک نہیں لگا۔
"جی۔۔۔۔۔" دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔
"آپ ان سے میری بات کروا دیں۔"
"یہ ممکن نہیں ہے۔" دوسری طرف سے کہا۔
"کیوں؟"
"سالار زندہ نہیں ہے۔"
"کیا؟" بے اختیار امامہ کے حلق سے نکلا۔
"وہ مر گیا؟"
"ہاں۔۔۔۔۔"
"کب۔۔۔۔۔؟"
اس بار مرد خاموش رہا۔
"آپ سے آخری بار ان کا رابطہ کب ہوا؟"
اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس آدمی نے کہا۔
"چند سال پہلے۔۔۔۔۔ ڈھائی سال پہلے۔"
"ایک سال پہلے اس کی ڈیتھ ہوئی ہے۔ آپ۔۔۔۔۔"
امامہ نے کچھ بھی اور سننے سے پہلے فون بند کردیا۔ کچھ کہنے اور سننے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ آزاد ہوچکی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ ایک انسان کے طور پر اسے اس کی موت پرافسوس ہونا چاہیے تھا مگر اسے کوئی افسوس نہیں تھا۔ اگر اس نے اس طرح اسے طلاق دینے سے انکار نہ کیا ہوتا تو یقیناً اس کے لئے دکھ محسوس کرتی مگر اس وقت ڈھائی سال کے بعد اسے بے اختیار سکون اور خوشی کا احساس ہورہا تھا۔ وہ تلوار جو اس کے سر لٹکی ہوئی تھی وہ غائب ہوچکی تھی۔
اسے اب ڈاکٹر سب علی کو کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں تھی وہ صحیح معنوں میں آزاد ہوچکی تھی وہ اس کا وہاں ہاسٹل میں آخری دن تھا اور اس رات اس نے سالار سکندر کے لئے بخشش کے لئے دعا کی۔
وہ اس کی موت کے بعد اسے معاف کرچکی تھی اور وہ اس کی موت پر بے پناہ خوش تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس سے فون پر بات کرنے والی وہی ملازمہ تھی جو سالار کے ساتھ ساتھ اس کے گھر میں بھی کام کرتی رہی تھی اور اس نے امامہ کی آواز کو فوراً پہچان لیا تھا۔ امامہ کے فون بند کرتے ہی وہ کچھ اضطراب اور جوش و خروش کے عالم میں سکندر عثمان کے پاس پہنچ گئی۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اس دن طبیعت کی خرابی کی وجہ سے وہ گھر پر ہی تھے۔
"ابھی کچھ دیر پہلے ایک لڑکی کا فون آیا ہے۔۔۔۔۔ وہ سالار صاحب سے بات کرنا چاہتی تھی۔"
"تو تم بات کروا دیتیں۔" سکندر عثمان قدرے لاپروائی سے بولے۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ سالار بھی ان دنوں پاکستان آیا ہوا تھا اور گھر پر موجود تھا۔ ملازمہ کچھ ہچکچائی۔
"صاحب جی! وہ امامہ بی بی تھیں۔"
سکندرعثمان کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھوٹتے چھوٹے بچا، وہ یکدم حواس باختہ نظر آنے لگے۔
"امامہ ہاشم۔۔۔۔۔ ہاشم کی بیٹی؟" ملازمہ نے اثبات میں سر ہلادیا۔ سکندر عثمان کا سر گھومنے لگا۔
"تو کیا سالار ہر ایک کو بے وقوف بنا رہا ہے وہ ابھی تک امامہ کے ساتھ رابطے میں ہے اور وہ جانتا ہے وہ کہاں ہے۔ تو پھر یقینا وہ اس سے ملتا بھی رہا ہوگا۔" انہوں نے بے اختیار سوچا۔
"اس نے تمہیں خود اپنا نام بتایا۔؟" انہوں نے چائے کا کپ ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔
"نہیں۔۔۔۔۔ میں نے ان کی آواز پہچان لی اور جب میں نے ان کا نام لیا انہوں نے فون بند کردیا۔" ملازمہ نے سکندر عثمان کو بتایا۔ "مگر مجھے یقین ہے وہ ان ہی کی آواز تھی۔ مجھے کم از کم اس بارے میں کوئی دھوکہ نہیں ہوسکتا۔" اس سے پہلے کہ سکندر عثمان کچھ کہتے انہوں نےفون کی گھنٹی سنی مگر اس بار وہ ڈائننگ روم میں موجود ایکسٹینشن کی طرف بڑھ گئے اور انہوں نے فون اٹھا لیا۔ دوسری طرف موجود لڑکی ایک بار پھر سالار سکندر کا پوچھ رہی تھی۔ ان کے استفسار پر اس نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ وہ امامہ ہاشم ہی تھی۔ وہ نہیں جانتے تھے کیوں مگر بے اختیا ران کے دل میں آیا کہ وہ اسے سالار کے مرنے کی خبر دے دیں، تاکہ وہ دوبارہ کبھی ان کے گھر فون نہ کرے۔ انہیں اس سے بات کرکے یہ اندازہ تو ہو ہی چکا تھا کہ وہ بہت عرصےسے سالار کے ساتھ رابطہ نہیں کرسکی ہے اور اس کے پاس ان کے بیان کی صداقت کو پرکھنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ وہ وبارہ رابطہ نہ کرتی تو ان کی جان اس سے ہمیشہ چھوٹ سکتی تھی۔ وہ ابھی تک اس ایک سال کو اپنے ذہن سے نکال نہیں سکے تھے۔ جب امامہ کی گمشدگی کے فوراً بعد سالار پر شبہ ہونے کی وجہ سے ہاشم مبین احمد نے ان کے لئے ہر قسم کی پریشانی کھڑی کی تھی۔
بہت سے سرکاری دفاتر جہاں پہلے ان کی فرم کی فائلز بہت آسانی سے نکل آئی تھیں۔ مہینوں پھنسی رہیں۔ ان کے گھر دھمکی آمیز کالز اور خط آتے رہے۔ کئی لوگوں نے بالواسطہ طور پر ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ ہاشم مبین احمد کی بیٹی کی واپسی کے لئے ان کی مدد کریں۔ ایک لمبے عرصے تک سالار کی نگرانی کی گئی اور نگرانی کا یہ سلسلہ صرف پاکستان ہی نہیں باہر میں بھی جاری رہا۔ مگر جب کسی طرح بھی امامہ سے اس کے رابطے کا کوئی ثبوت یا سراغ نہیں ملا تو رفتہ رفتہ یہ تمام سرگرمیاں ختم ہوگئیں۔
سکندر عثمان کی بے پناہ کوشش کے باوجود بھی ہاشم مبین کے ساتھ ان کے تعلقات بحال نہیں ہوئے مگر ان کی طرف سے عدم تحفظ کا اندیشہ ختم ہوگیا تھا اور اب ڈھائی سال بعد وہ لڑکی ایک بار پھر سالار سے رابطہ کرنا چاہتی تھی وہ کسی صورت بھی دوبارہ ان حالات کا سامنا نہ خود کرنا چاہتے تھے نہ ہی سالار کو کرنے دینا چاہتے تھے۔
اگر وہ خود ہاشم مبین احمد کی ٹکر کے آدمی نہ ہوتے تو وہ اب تک اس سے زیادہ نقصان اٹھا چکے ہوتے، جتنا نقصان انہوں نے اس ایک سال اور خاص طور پر شروع کے چند ماہ میں اٹھایا تھا۔ وہ امامہ کو اس طلاق نامے کی ایک کاپی بھجوانا چاہتے تھے جو سالار کی طرف سے انہوں نے تیار کیا تھا اور انہیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ وہ جائز تھا یا نہیں۔ وہ صرف امامہ کو یہ یقین دلانا چاہتے تھے کہ سالار یا اس کے خاندان کے ساتھ اس کا تعلق ہونا چاہیے نہ ہی ہوگا۔
اگر کچھ تھا بھی تو وہ سالار کی موت اور اس سے پہلے کے تحریر شدہ اس طلاق نامے کے ساتھ ہی ختم ہوگیا تھا مگر یہ ایک اور اتفاق تھا کہ امامہ نے ان کی بات مکمل طور پر سنے بغیر فون بند کردیا انہوں نے فون کو ٹریس آؤٹ کرنے کی کوشش کی، مگر وہ ملتان کے ای پی سی او کا ثابت ہوا سالار ایک ہفتہ بعد واپس امریکہ جانے والا تھا اور انہوں نے اس ایک ہفتہ اس کی مکمل طور پر نگرانی کروائی۔ وہ ملازموں کو ہدایت دے چکے تھے کہ کسی کا بھی فون آئے وہ کسی بھی صورت سالار سے بات نہ کروائیں، چاہے فون کسی مرد کا ہو یا عورت کا جب تک وہ خود یہ نہ جان لیں کہ فون کرنے والا کون تھا۔ ملازمہ کو بھی وہ سختی کے ساتھ منع کرچکے تھے کہ وہ سالار کو امامہ کی اس کال کے باےر میں نہ بتائے۔ ایک ہفتے کے بعد جب سالار واپس امریکہ چلا گیا تو انہوں نے سکھ کا سانس لیا۔
سر پر آئی ہوئی آفت ایک بار پھر ٹل گئی تھی۔ سالار کی واپسی کے چند ہفتے بعد انہیں ایک لفافہ موصول ہوا تھا۔
امامہ نے لاہور پہنچنے کے بعد وہ موبائل بیچ دیا تھا۔ وہ اسے واپس نہیں بھجوا سکتی تھی اور سالار کی وفات کے بعد اب یہ امکان نہیں تھا کہ کبھی اس کے ساتھ آمنا سامنا ہونے کی صورت میں وہ اسے وہ موبائل واپس دے سکے گی۔ اس نے موبائل بیچنے سے ملنے والی رقم کے ساتھ اپنے پاس موجود کچھ اور رقم شامل کی۔ وہ اندازاً ان کالز کے بل کی رقم تھی جو ڈھائی تین سال پہلے سالار نے ادا کئے ہوں گے اور چند دوسرے اخراجات جو اپنے گھر قید کے دوران اور وہاں سے لاہور فرار کے دوران سالار نے اس پر کئے تھے۔ اس کے ساتھ سکندر عثمان کے نام ایک مختصر نوٹ بھجوایا۔ ٹریولرز چیکس۔ اس کے سر پر موجود اس آدمی کا قرض بھی اتر گیا تھا۔
اس رقم اور اس کے ساتھ ملنے والے نوٹ سے سکندر عثمان کو تسلی ہوگئی تھی کہ وہ دوبارہ اس سے رابطہ نہیں کرے گی اور یہ بھی کہ اس نے واقعی ان کی بات پر یقین کرلیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ملتان سے بی ایس سی کرنے کے بعد وہ لاہور چلی آئی تھی۔ اسے گھر چھوڑے تین سال ہونے والے تھے اور اس کا خیال تھا کہ اب کم از کم اسے تلاش نہیں کیا جائے گا، جس طرح پہلے کیا جاتا رہا تھا۔ اگر کیا بھی گیا تو صرف میڈیکل کالجز پر نظر رکھی جائے گی۔ اس کا یہ اندازہ صحیح ثابت ہوا تھا۔
اس نے پنجاب یونیورسٹی میں کیمسٹری میں ایم ایس سی کے لئے ایڈمیشن لے لیا تھا۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ بے حد محتاط تھی۔ یہ لاہور تھا یہاں کسی وقت کوئی بھی اسے پہچان سکتا تھا۔ ملتان میں وہ صرف چادر اوڑھ کر کالج جاتی تھی۔ لاہور میں اس نے نقاب لگانا شروع کردیا۔
لاہور میں دوبارہ واپسی کے بعد وہ ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ نہیں رہی تھی، وہ سعیدہ اماں کے پاس رہنے لگی تھی۔
سعیدہ اماں سے اس کی پہلی ملاقات ڈاکٹر سبط علی نے ملتان جانے سے پہلے لاہور میں کروائی تھی۔ سعدہ اماں کے بہت سے عزیز و اقارب ملتان میں رہتےتھے۔ ڈاکٹر سبط علی امامہ کو ان سے آگاہ کرنا چاہتے تھے، تاکہ ملتان میں قیام کے دوران کسی بھی ضرورت یا ایمرجنسی میں وہ ان کی مدد لے سکے۔
سعیدہ اماں ایک پینسٹھ ستر سالہ بے حد باتونی اور ایکٹو عورت تھیں۔ وہ لاہور کے اندرون شہر میں ایک پرانی حویلی میں تنہا رہتی تھیں۔ ان کے شوہر کا انتقال ہوچکا تھا جبکہ دو بیٹے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہیں مقیم تھے۔ وہ دونوں شادی شدہ تھے اور ان کے بے حد اصرار کے باوجود سعیدہ اماں باہر جانے پر تیار نہیں تھیں۔ ان کے دونوں بیٹے باری باری ہر سال پاکستان آیا کرتے اور کچھ عرصہ قیام کے بعد واپس چلے جاتے تھے۔ ڈاکٹر سبط علی سے ان کی قرابت داری تھی۔ وہ ان کے کزن ہوتے تھے۔
ڈاکٹر سبط علی نے امامہ کے بارے میں پہلے ہی سعیدہ اماں کو بتا دیا تھا۔ اس لئے جب وہ ان کے ساتھ ان کے گھر پہنچی تو وہ بڑی گرمجوشی سے اس سے ملی تھیں۔ انہوں نے ملتان میں موجود تقریباً اپنے ہر رشتے دار کے بارے میں تفصیلات اس کے گوش گزار کر دی تھیں اور پھر شاید اس سب کو ناکافی جانتے ہوئے انہوں نے خود ساتھ چل کر اسے ہاسٹل چھوڑ آنے کی آفر کی جسے ڈاکٹر سبط علی نے نرمی سے رد کردیا تھا۔
"نہیں آپا! آپ کو زحمت ہوگی۔" ان کے بے حد اصرار کے باوجود وہ نہیں مانے تھے۔
"بہتر تو یہ ہے بھائی صاحب کہ آپ اسے میرے بھائیوں میں سے کسی سے گھر ٹھہرا دیں۔ بچی کو گھر جیسا آرام اور ماحول ملے گا۔
انہیں اچانک ہاسٹل پر اعتراض ہونے لگا اور پھر انہوں نے ہاسٹل کی زندگی کے کئی مسائل کے بارے میں روشنی ڈالی تھی مگر ڈاکٹر سبط علی اور خود وہ بھی کسی کے گھر میں رہنا نہیں چاہتی تھی۔ ہاسٹل بہترین آپشن تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سعیدہ اماں سے اس کی دوسری ملاقات ملتان جانے کے چند ماہ بعد اس وقت ہوئی تھی جب ایک دن اچانک اسے کسی خاتون ملاقاتی کی اطلاع ہاسٹل میں دی گئی تھی۔ کچھ دیر کے لئے وہ خوفزدہ ہوگئی تھی۔ وہاں اس طرح اچانک اس سے ملنے کون آسکتا تھا اور وہ بھی ایک خاتون۔۔۔۔۔ مگر سعیدہ اماں کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔ وہ اس سے اسی گرمجوشی سے ملی تھیں، جس طرح لاہور میں ملی تھیں۔ وہ تقریباً دو ہفتے ملتان میں رہی تھیں اور ان دو ہفتوں میں کئی بار اس سے ملنے آئیں۔ ایک بار وہ ان کے ساتھ ہاسٹل سے ان کے بھائی کے گھر بھی گئی۔
پھر یہ جیسے ایک معمول بن گیا تھا۔ وہ چند ماہ ملتان آتیں اور اپنے قیام کے دوران باقاعدگی سے اس کے پاس آتی رہتیں۔ وہ خود جب مہینے میں ایک بار لاہور آتی تو ان سے ملنے کے لئے بھی جاتی۔ کئی بار جب اس کی چھٹیاں زیادہ ہوتیں تو وہ اسے وہاں ٹھہرنے کے لئے اصرار کرتیں۔ وہ کئی بار وہاں رہی تھی۔ سرخ اینٹوں کا بنا ہوا وہ پرانا گھر اسے اچھا لگتا تھا یا پھر یہ تنہائی کا وہ احساس تھا جو وہ ان کے ساتھ شئیر کررہی تھی۔ اس کی طرح وہ بھی تنہا تھیں۔ اگرچہ ان کی یہ تنہائی ان کے ہمہ وقت میل جول کی وجہ سے کم ہوجاتی تھی مگر اس کے باوجود امامہ ان کے احساسات کو بنا کوشش کئے سمجھ سکتی تھی۔
لاہور واپس شفٹ ہونے سے بہت عرصہ پہلے ہی انہوں نے امامہ سے یہ جان لینے کے بعد کہ وہ ایم ایس سی لاہور سے کرنا چاہ رہی ہے، اسے ساتھ رکھنے کے لئے اصرار کرنا شروع کردیا۔
اسی عرصے کے دوران ڈاکٹر سبط علی کی سب سے بڑی بیٹی ان کے پاس بچوں سمیت کچھ عرصہ کے لئے رہنے چلی آئیں۔ ان کے شوہر پی ایچ ڈی کے لئے بیرون ملک چلے گئے تھے۔ وہ ڈاکٹر سبط علی کے بھتیجے تھے۔ جانے سے پہلے وہ اپنی فیملی کو ان کے ہاں ٹھہرا گئے۔ ڈاکٹر سبط علی کے گھر میں جگہ کی کمی نہیں تھی مگر امامہ اب ان کے گھر میں رہنا نہیں چاہ رہی تھی۔ وہ جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی کے احسانات کا بوجھ پہلے ہی اسے زیر بار کررہا تھا۔ وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ ان کے پاس رہ کر تعلیم حاصل کرے اور اس کے بعد اس کے جاب کرنے پر بھی وہ اسے کہیں اور رہنے نہ دیتے لیکن اگر وہ پہلے ہی علیحدہ رہائش اختیار رکھتی تو اس کے لئے ان سے اپنی بات منوانا آسان ہوتا۔ سعیدہ اماں کا گھر اسے اپنی رہائش کے لئے بہت مناسب لگا تھا۔ وہ جاب شروع کرنے پر انہیں مجبور کرکے کرائے کی مد میں کچھ نہ کچھ لینے پر مجبور کرسکتی تھی مگر ڈاکٹر سبط علی شاید یہ سب کبھی گوارا نہ کرتے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر سبط علی کے لئے اس کا فیصلہ ایک شاک کی طرح تھا۔
"کیوں آمنہ! میرے گھر پر کیوں نہیں رہ سکتیں آپ؟" انہوں نے بہت ناراضی سے اس سے کہا۔ "سعیدہ آپا کے ساتھ کیوں رہنا چاہتی ہیں؟"
"وہ بہت اصرار کررہی ہیں۔"
"میں انہیں سمجھا دوں گا۔"
"نہیں، میں خود بھی ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ میں ان کے ساتھ رہوں گی تو ان کی تنہائی دور ہوجائے گی۔"
"یہ کوئی وجہ نہیں ہے۔ آپ ان کے پاس جب چاہیں جاسکتی ہیں، مگر ساتھ رہنے کے لئے نہیں۔"
"پلیز، آپ مجھے وہاں رہنے کی اجازت دے دیں، میں وہاں زیادہ خوش رہوں گی۔ میں اب آہستہ آہستہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتی ہوں۔"
ڈاکٹر سبط علی نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
پیروں پر کھڑے ہونے سے کیا مراد ہے آپ کی؟"
وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے کہا۔
"میں آپ پر بہت لمبے عرصے تک بوجھ نہیں بننا چاہتی۔ پہلے ہی میں بہت سال سے آپ پر انحصار کررہی ہوں، مگر ساری زندگی تو میں آپ پر بوجھ بن کر نہیں گزار سکتی۔"
وہ بات کرتے کرتے رک گئی۔ اسے لگا اس کے آخری جملے نے ڈاکٹر سبط علی کو تکلیف دی تھی۔ اسے پچھتاوا ہوا۔
"میں نے کبھی بھی آپ کو بوجھ نہیں سمجھا آمنہ! کبھی بھی نہیں۔ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں اور میرے لئے آپ ایک بیٹی کی طرح ہیں پھر یہ بات۔۔۔۔۔ مجھے بہت دکھ ہوا ہے۔"
"میں جانتی ہوں ابو! مگر میں صرف اپنی فیلنگز کی بات کررہی ہوں۔ دوسرے پر ڈیپینڈنٹ ہونا بہت تکلیف دہ بات ہے۔ میں سعیدہ اماں کے ساتھ رہ کر زیادہ پرسکو ن رہوں گی میں انہیں پے (pay) کروں گی۔ آپ کو میں کبھی پے(pay) کرنا چاہوں بھی تو نہ کرسکوں گی۔ شاید مجھے دس زندگیاں بھی ملیں تو میں آپ کے احسانات کا بدلہ نہیں اتار سکتی مگر اب بس۔۔۔۔۔ اب اور نہیں۔۔۔۔۔ میں نے زندگی کو گزارنے کے سارے طریقے ابھی سیکھنے ہیں۔ مجھے سیکھنے دیں۔"
ڈاکٹر سبط علی نے اس کے بعد اسے دوبارہ اپنے گھر میں رہنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔ وہ اس کے لئے بھی ان کی احسان مند تھی۔
سعیدہ امان کے ساتھ رہنے کا تجربہ اس کے لئے ہاسٹل میں یا ڈاکٹر سبط علی کے ہاں رہنے سے بالکل مختلف تھا۔ اسے ان کے پاس ایک عجیب سی آزادی اور خوشی کا احساس ہوا تھا۔ وہ بالکل اکیلی رہتی تھیں۔ صرف ایک ملازمہ تھی جو دن کے وقت گھر کے کام کردیا کرتی تھی اور شام کو واپس چلی جایا کرتی تھی۔ وہ بے حد سوشل لائف گزارتی تھیں۔ محلے میں ان کا بہت آنا جانا تھا۔ اور نہ صرف محلے میں بلکہ اپنے رشتے داروں کے ہاں بھی اور ان کے گھر بھی اکثر کوئی نہ کوئی آتا رہتا تھا۔
انہوں نے محلے میں ہر ایک سے امامہ کا تعارف اپنی بھانجی کہہ کر کروایاتھا اور چند سالوں کے بعد یہ تعارف بھانجی سے بیٹی میں تبدیل ہوگیا تھا، اگرچہ محلے والے پچھلے تعارف سے واقف تھے، مگر اب کسی نئے ملنے والے سے جب وہ امامہ کو بیٹی کی حیثیت سے متعارف کرواتیں تو کسی کو کوئی تجسس نہیں ہوتا تھا۔ لوگ سعیدہ اماں کی عادت سے واقف تھے کہ وہ کتنا محبت بھرا دل رکھتی تھیں۔ ان کے بیٹے بھی امامہ سے واقف تھے بلکہ وہ باقاعدگی سے فون پر سعیدہ اماں سے بات کرتے ہوئے اس کا حال احوال بھی دریافت کرتے رہتے تھے۔ ان کی بیوی اور بچے بھی اس سے بات چیت کرتے رہتے تھے۔
ان کے بیٹے ہر سال پاکستان آیا کرتے تھے اور ان کے قیام کے دوران بھی امامہ کو کبھی ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا۔ جیسے وہ ان کی فیملی کا حصہ نہیں تھی، بعض دفعہ اسے یوں ہی لگتا جیسے وہ واقعی سعیدہ اماں کی بیٹی اور ان کے بیٹوں کی بہن تھی۔ ان دونوں کے بچے اسے پھپھو کہا کرتے تھے۔
پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کرنے کے بعد اس نے ڈاکٹر سبط علی کے توسط سے ایک فارماسیوٹیکل کمپنی میں جاب شروع کردی۔ اس کی جاب بہت اچھی تھی اور پہلی بار اس نے مالی طور پر خودمختاری حاصل کرلی تھی۔ یہ ویسی زندگی نہیں تھی جیسی وہ اپنے والدین کے گھر گزارتی تھی نہ ہی ویسی تھی جیسی زندگی کے وہ خواب دیکھا کرتی تھی مگر یہ ویسی بھی نہیں تھی جن خدشات کا وہ گھر سے نکلتے وقت شکار تھی۔ وہ ہر ایک کے بارے میں نہیں کہہ سکتی مگر اس کے لئے زندگی معجزات کا دوسرا نام تھی۔ سالار سکندر جیسے لڑکے سے اس طرح کی مدد، ڈاکٹر سبط علی تک رسائی۔۔۔۔۔ سعیدہ اماں جیسے خاندان سے ملنا۔ تعلیم کا مکمل کرنا اور پھر وہ جاب۔۔۔۔۔ صرف جلال انصر تھا جس کا خیال ہمیشہ اسے تکلیف میں مبتلا کردیتا تھا اور شاید اسے مل جاتا تو وہ خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھتی۔
آٹھ سالوں نے اس میں بہت سی تبدیلیاں پیدا کردی تھیں۔ گھر سے نکلتے وقت وہ جانتی تھی کہ اب دنیا میں اس کے نخرے اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ اسے کسی سے کوئی توقعات وابستہ کرنی تھیں نہ ہی ان کے پورا نہ ہونے پر تکلیف محسوس کرنی تھی۔ اس کا رونا دھونا بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جارہا تھا۔ بیس سال کی عمر میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوفزدہ اور پریشان ہونے والی امامہ ہاشم آہستہ آہستہ اپنا وجود کھوتی گئی تھی۔ نئی نمودار ہونے والی امامہ زیادہ پراعتماد اور مضبوط اعصاب رکھتی تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ بہت زیادہ محتاط بھی ہوگئی تھی۔ ہر چیز کے بارے میں، اپنی گفتگو کے بارے میں۔ اپنے طور اطوار کے بارے میں۔
ڈاکٹر سبط علی اور سعیدہ اماں دونوں کے خاندانوں نے اسے بہت محبت اور اپنائیت دی تھی لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ کوشش کرتی تھی کہ وہ کوئی ایسی بات یا حرکت نہ کرے، جو انہیں قابلِ اعتراض یا ناگوار لگے۔ ہاشم مبین کے گھر میں اسے یہ ساری احتیاطیں نہیں کرنی پڑتی تھیں مگر وہاں سے نکل کر اسے یہ سب کچھ سیکھنا پڑا تھا۔
سعیدہ اماں کی گمشدگی کے دوران وہ آفس میں تھی۔ چار بجے کے قریب جب وہ گھر آئی تو گھر کو تالا لگا ہوا تھا۔ اس کے پاس اس تالے کی دوسری چابی تھی، کیونکہ اس سے پہلے بھی سعیدہ اماں کئی بار اِدھر اُدھر چلی جایا کرتی تھیں۔ اسے تشویش نہیں ہوئی۔
لیکن جب مغرب کی اذان ہونے لگی تو وہ پہلی بار فکر مند ہوئی کیونکہ وہ شام کو بتائے بغیر کبھی یوں غائب نہیں ہوئی تھیں ساتھ والوں کے ہاں پتا کرنے پر اسے پتا چلا کہ ان کا بیٹا انہیں بلال کے گھر صبح چھوڑ آیا تھا۔ سعیدہ اماں پہلے بھی اکثر وہاں آتی جاتی رہتی تھیں اس لئے امامہ ان لوگوں کو اچھی طرح جانتی تھی۔ اس نے وہاں فون کیا تو اسے پتا چلا کہ وہ دوپہر کو وہاں سے جاچکی تھیں اور تب پہلی بار اسے صحیح معنوں میں تشویش ہونے لگی۔
اس نے باری باری ہر اس جگہ پتا کیا جہاں وہ جاسکتی تھیں مگر وہ کہیں بھی نہیں ملیں اور تب اس نے ڈاکٹر سبط علی کو اطلاع دی۔ اس کی حالت تب تک بے حد خراب ہوچکی تھی۔ سعیدہ اماں کا میل جول اپنے محلے تک ہی تھا۔ وہ اندرون شہر کے علاوہ کسی جگہ کو اچھی طرح نہیں جانتی تھیں۔ انہیں کسی دوسرے جگہ جانا ہوتا تو وہ ہمسایوں کے کسی لڑکے کے ساتھ جاتیں یا پھر امامہ کے ساتھ اور یہی بات امامہ کو تشویش میں مبتلا کررہی تھی۔
دوسری طرف سالار اندرون شہر کے سوا شہر کے تمام پوش علاقوں سے واقف تھا۔ اگر اسے اندرون شہر کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات بھی ہوتیں تب بھی وہ سعیدہ اماں کے ادھورے پتے کے باجود کسی نہ کسی طرح ان کے گھر پہنچ جاتا۔
ڈاکٹر سبط علی نے رات گئے اسے سعیدہ اماں کی خیریت سے اپنے کسی جاننے والے کے پاس ہونے کی اطلاع دی اور امامہ کی جیسے جان میں جان آئی۔
مزید ایک گھنٹے بعد دروازے کی بیل بجی تھی اور اس نے تقریباً بھاگتے ہوئے جاکر دروازہ کھولا۔ دروازے کی اوٹ سے اس نے سعیدہ اماں کے پیچھے کھڑے ایک خوش شکل آدمی کو دیکھا، جس نے دروازہ کھلنے پر اسے سلام کیا اور پھر سعیدہ اماں کو خداحافظ کہتے ہوئے مڑ گیا اور اس دوسرے دراز قامت شخص کے پیچھے چلنے لگا جس کی امامہ کی طرف پشت تھی۔ امامہ نے اس پر غور نہیں کیا وہ تو بے اختیار سعیدہ اماں سے لپٹ گئی تھی۔
سعیدہ اماں اگلے کئی دن اس کے سامنے ان دونوں کا نام لیتی رہیں، سالار اور فرقان۔ امامہ کو پھر بھی شبہ نہیں ہوا کہ وہ سالار۔۔۔۔۔ سالار سکندر بھی ہوسکتا تھا۔۔۔۔۔ مردہ لوگ زندہ نہیں ہوسکتے تھے اور اسے اگر اس کی موت کا یقین نہ بھی ہوتا تب بھی سالار سکندر جیسا شخص نہ تو ڈاکٹر سبط علی کا شناسا ہوسکتا تھا نہ ہی اس میں اس طرح کی اچھائیاں ہوسکتی تھیں جن اچھائیوں کا ذکر سعیدہ اماں وقتاً فوقتاً کرتی رہتی تھیں۔
اس کے کچھ عرصے بعد اس نے جس شخص کو اس رات سعیدہ اماں کے ساتھ سیڑھیوں پر کھڑے دیکھا تھا اس شخص سے اس کی پہلی ملاقات ہوئی۔ فرقان اپنی بیوی کے ساتھ ان کے ہاں آیا تھا۔ اسے وہ اور اس کی بیوی دونوں اچھے لگے تھے پھر وہ چند ایک بار اور ان کے گھر آئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی شناسائی میں اضافہ ہوگیا تھا۔
اسے جاب کرتے تب دوسال ہوچکے تھے۔ کچھ وقت شاید اور اسی طرح گزر جاتا۔ اگر وہ اتفاقاً ایک روز اس سڑک سے نہ گزرتی جہاں جلال کے بنائی ہوئے ہاسپٹل کے باہر اس کا نام آویزاں تھا۔ جلال انصر کا نام اس کے قدم روک دینے کے لئے کافی تھا مگر کچھ دیر تک ہاسپٹل کے باہر اس کا نام دیکھتے رہنے کے بعد اس نے طے کیا تھا کہ وہ دوبارہ اس سڑک پر کبھی نہیں آئے گی۔
جلال شادی کرچکا تھا۔ یہ وہ گھر چھوڑتے وقت ہی سالار سے جان چکی تھی اور وہ دوبارہ اس کی زندگی میں نہیں آنا چاہتی تھی مگر اس کا یہ فیصلہ دیرپا ثابت نہیں ہوا۔
دو ہفتے کے بعد فارماسیوٹیکل کمپنی کے آفس میں ہی اس کی ملاقات رابعہ سے ہوئی۔ رابعہ وہاں کسی کام سے آئی تھی۔ چند لمحوں کے لئے تو اسے اپنے سامنے دیکھ کر اس کی سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ وہ کس طرح کا ردعمل ظاہر کرے۔ یہ مشکل رابعہ نے آسان کردی۔ وہ اس سے بڑی گرمجوشی کے ساتھ ملی تھی۔
"تم یک دم کہاں غائب ہوگئی تھیں۔ کالج اور ہاسٹل میں تو ایک لمبا عرصہ طوفان مچا رہا۔"
رابعہ نے چھوٹتے ہی اس سے پوچھا۔ امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔
"بس میں گھر سے چلی گئی تھی۔ کیوں گئی تھی تم تو جانتی ہی ہوگی۔" امامہ نے مختصراً کہا۔
"ہاں، مجھے کچھ اندازہ تو تھا ہی مگر میں نے کسی سے ذکر نہیں کیا۔ ویسے ہم لوگوں کی بڑی کم بختی آئی۔ میری، جویریہ، زینب، سب کی۔۔۔۔۔ پولیس تک نے پوچھ گچھ کی ہم سے۔ ہمیں تو کچھ پتا ہی نہیں تھا تمہارے بارے میں، مگر ہاسٹل اور کالج میں بہت ساری باتیں پھیل گئی تھیں تمہارے بارے میں۔"
رابعہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھی مسلسل بولے جارہی تھی۔
"تم اکیلی ہی گئی تھیں؟" اس نے بات کرتے کرتے اچانک پوچھا۔
"ہاں۔" امامہ انٹر کام پر چائے کا کہتے ہوئے بولی۔
"مگر گئی کہاں تھیں؟"
"کہیں نہیں، یہیں لاہور میں تھی۔ تم بتاؤ، تم کیا کررہی ہو آج کل اور جویریہ۔۔۔۔۔ باقی سب۔"
امامہ نے بات بدلتے ہوئے کہا۔
"میں پریکٹس کررہی ہوں لاہور میں۔ جویریہ اسلام آباد میں ہوتی ہے۔ شادی ہوگئی ہے اس کی ایک ڈاکٹر سے۔ میری بھی فاروق سے ہوئی ہے۔ تمہیں تو یاد ہوگا کلاس فیلو تھا میرا۔"
امامہ مسکرائی۔ "اور زینب؟" اس کا دل بے اختیار دھڑکا تھا۔
"ہاں، زینب آج کل انگلینڈ میں ہوتی ہے۔ ریزیڈنسی کررہی ہے وہاں اپنے شوہر کے ساتھ۔ اس کے بھائی کے ہاسپٹل میں ہی فاروق پریکٹس کرتے ہیں۔"
امامہ نے بے اختیار اسے دیکھا۔ "جلال انصر کے ہاسپٹل میں؟"
"ہاں، اسی کے ہاسپٹل میں۔ وہ اسپیشلائزیشن کرکے آیا ہے کچھ عرصہ پہلے لیکن بے چارے کے ساتھ بڑی ٹریجڈی ہوئی ہے۔ چند ماہ پہلے طلاق ہوگئی ہے۔ حالانکہ اتنا اچھا بندہ ہے مگر۔"
امامہ اس کے چہرے سے نظر نہیں ہٹا سکی۔
"طلاق۔۔۔۔۔! کیوں؟"
"پتا نہیں، فارق نے پوچھا تھا اس سے۔ کہہ رہا تھا انڈراسٹینڈنگ نہیں ہوئی۔ بیوی بھی بڑی اچھی تھی اس کی۔ ڈاکٹر ہے وہ بھی لیکن پتا نہیں کیوں طلاق ہوگئی۔ ہم لوگوں کا تو خاصا آنا جانا تھا ان کے گھر میں۔ ہمیں کبھی بھی اندازہ نہیں ہوا کہ ایسا کوئی مسئلہ ہے دونوں کے درمیان۔ ایک بیٹا ہے تین سال کا ۔وہ جلال کے پاس ہی ہے۔ اس کی بیوی واپس امریکہ چلی گئی ہے۔"
رابعہ لاپروائی سے تمام تفصیلات بتا رہی تھی۔
"تم اپنے بارے میں بتاؤ یہ تو میں جان گئی ہوں کہ یہاں جاب کررہی ہو، مگر اسٹڈیز تو تم نے مکمل نہیں کی۔"
"ایم ایس سی کیا ہے کیمسٹری میں۔"
"اور شادی وغیرہ؟"
"وہ ابھی نہیں۔"
"پیرنٹس کے ساتھ تمہارا جھگڑا ختم ہوا یا نہیں؟"
امامہ نے حیرت سے اس کو دیکھا۔
"نہیں۔" پھر اس نے مدھم آواز میں کہا۔
وہ کچھ دیر اس کے پاس بیٹھی رہی پھر چلی گئی۔ امامہ باقی کا سارا وقت آفس میں ڈسٹرب رہی۔ اس نے جلال انصر کو کبھی بھلایا نہیں تھا۔ وہ اسے بھلا نہیں سکتی تھی۔ اس نے صرف اپنی زندگی سے اس کو الگ کردیا تھا مگر وہاں بیٹھے ہوئے اس دن اسے احساس ہوا کہ یہ بھی ایک خوش گمانی یا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ وہ جلال انصر کو اپنی زندگی سے الگ بھی نہیں کرسکتی تھی۔ وہ صرف اس کی زندگی میں داخل ہو کر اسے کسی پریشانی سے دوچار کرنا چاہتی تھی نہ ہی اس کی ازدواجی زندگی کو خراب کرنا چاہتی تھی لیکن یہ جاننے کے بعد کہ اس کی ازدواجی زندگی پہلے ہی ناکام ہوچکی ہے اور وہ ایک بار پھر اکیلا تھا۔ اسے یاد آیا آٹھ سال پہلے وہ کس طرح اس شخص کے حصول کے لئے بچوں کی طرح مچلتی رہی تھی۔ وہ اسے حاصل نہیں کرسکی تھی۔ تب بہت سی دیواریں، بہت سی رکاوٹیں تھیں جنہیں وہ پار کرسکتی تھی نہ جلال انصر کرسکتا تھا۔
مگر اب بہت وقت گزر چکا تھا۔ ان رکاوٹوں میں سے اب کچھ بھی ان دونوں کے درمیان نہیں تھا۔ اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی کہ وہ ایک شادی کرچکا تھا یا اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔
"مجھے اس کے پاس ایک بار پھر جانا چاہیے، شاید وہ اب بھی میرے بارے میں سوچتا ہو شاید اسے اب اپنی غلطی کا احساس ہو۔" امامہ نے سوچا تھا۔
اس نے آخری بار فون پر بات کرتے ہوئے اس سے جو کچھ کہا تھا، امامہ اس کے لئے اس کو معاف کرچکی تھی۔ جلال کی جگہ جو بھی ہوتا وہ یہی کہتا۔ صرف ایک لڑکی کے لئے تو کوئی بھی اتنے رسک نہیں لیتا اور پھر اس کا کیرئیر بھی تھا جسے وہ بنانا چاہتا تھا۔ اس کے پیرنٹس کی اس سے کچھ امیدیں تھیں جنہیں وہ ختم نہیں کرسکتا تھا۔ میری طرح وہ بھی مجبور تھا۔ بہت سال پہلے کہے گئے اس کے جملوں کی بازگشت نے بھی اسے دلبرداشتہ یا اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔
"مجھے اس کے پاس جانا چاہئے۔ ہوسکتا ہے یہ موقع مجھے اللہ نے ہی دیا ہو۔ ہوسکتا ہے اللہ نے میری دعاؤں کو اب قبول کرلیا ہو۔ ہوسکتا ہے اللہ کو مجھ پر اب رحم آگیا ہو۔"
وہ باربار سوچ رہی تھی۔
"ورنہ اس طرح اچانک رابعہ میرے سامنے کیوں آجاتی۔ مجھے کیوں یہ پتا چلتا کہ اس کی بیوی سے علیحدگی ہوچکی ہے۔ ہوسکتا ہے اب میں اس کے سامنے جاؤں تو۔۔۔۔۔۔" وہ فیصلہ کرچکی تھی۔ وہ جلال انصر کے پاس دوبارہ جانا چاہتی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"میں ڈاکٹر جلال انصر سے ملنا چاہتی ہوں۔" امامہ نے ریپشنسٹ سے کہا۔
"اپائنٹمنٹ ہے آپ کی؟ اس نے پوچھا۔
"نہیں، اپائنٹمنٹ تو نہیں ہے۔"
"پھر تو وہ آپ سے نہیں مل سکیں گے۔ اپائنٹمنٹ کے بغیر وہ کسی پیشنٹ کو نہیں دیکھتے۔" اس نے بڑے پروفیشنل انداز میں کہا۔
"میں پیشنٹ نہیں ہوں۔ ان کی دوست ہوں۔" امامہ نے کاؤنٹر پر ہاتھ رکھتے ہوئے مدھم آواز میں کہا۔
"ڈاکٹر صاحب جانتے ہیں کہ آپ اس وقت ان سے ملنے آئیں گی؟" ریپشنسٹ نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"نہیں۔" اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
"ایک منٹ، میں ان سے پوچھتی ہوں۔" اس نے ریسیور اٹھاتے ہوئے کہا۔
"آپ کا نام کیا ہے؟" وہ ریپشنسٹ کا چہرہ دیکھنے لگی۔
"آپ کا نام کیا ہے؟" اس نے اپنا سوال دہرایا۔
"امامہ ہاشم۔" اسے یاد نہیں اس نے کتنے سالوں بعد اپنا نام لیا تھا۔
"سر! کوئی خاتون آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ آپ کی دوست ہیں۔ امامہ ہاشم نام ہے ان کا۔"
وہ دوسری طرف سے جلال کی گفتگو سنتی رہی۔
"اوکے سر۔" پھر اس نے ریسیور رکھ دیا۔
"آپ اندر چلی جائیں۔" ریپشنسٹ نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا۔
وہ سر ہلاتے ہوئے دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔ جلال انصر کا ایک مریض باہر نکل رہا تھا اور وہ خود اپنی میز کے پیچھے کھڑا تھا۔ امامہ نے اس کے چہرے پر حیرت دیکھی تھی۔ وہ اپنے دھڑکتے دل کی آواز باہر تک سن سکتی تھی۔ اس نے جلال انصر کو آٹھ سال اور کتنے ماہ کے بعد دیکھا تھا۔ امامہ نے یاد کرنے کی کوشش کی۔ اسے یاد نہیں آیا۔
“What a pleasant surprise Imama” (کیسا خوشگوار سرپرائز ہے امامہ!)۔
جلال نے آگے بڑھ کر اس کی طرف آتے ہوئے کہا۔
"مجھے یقین نہیں آرہا، تم کیسی ہو؟"
"میں ٹھیک ہوں، آپ کیسے ہیں؟"
وہ اس کے چہرے سے نظریں ہٹائے بغیر بولی۔ پچھلے آٹھ سال سے یہ چہرہ ہر وقت اس کے ساتھ رہا تھا اور یہ آواز بھی۔
"میں بالکل ٹھیک ہوں، آؤ بیٹھو۔"
اس نے اپنی ٹیبل کے سامنے پڑی ہوئی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ خود ٹیبل کے دوسری جانب اپنی کرسی کی طرف بڑھ گیا۔
وہ ہمیشہ سے جانتی تھی۔ وہ جلال انصر کو جب بھی دیکھے گی اس کا دل اسی طرح بے قابو ہوگا مگر اتنی خوشی ،ایسی سرشاری تھی جو وہ اپنے رگ و پے میں خون کی طرح دوڑتی محسوس کررہی تھی۔
"کیا پیو گی؟ چائے، کافی سوفٹ ڈرنک؟" وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
"جو آپ چاہیں۔"
"اوکے، کافی منگوا لیتے ہیں۔ تمہیں پسند تھی۔"
وہ انٹر کام اٹھا کر کسی کو کافی بھجوانے کی ہدایت دے رہا تھا اور وہ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر داڑھی اب نہیں تھی۔ اس کا ہیر اسٹائل مکمل طور پر تبدیل ہوچکا تھا۔ اس کا وزن پہلے کی نسبت کچھ بڑھ گیا تھا۔ وہ پہلے کی نسبت بہت پر اعتماد اور بے تکلف نظر آرہا تھا۔
"تم آج کل کیا کررہی ہو؟" ریسیور رکھتے ہی اس نے امامہ سے پوچھا۔
"ایک فارماسیوٹیکل کمپنی میں کام کررہی ہوں۔"
"ایم بی بی ایس تو چھوڑ دیا تھا تم نے۔"
"ہاں، ایم ایس سی کیا ہے کیمسٹری میں۔"
"کونسی کمپنی ہے؟" امامہ نے نام بتایا۔
"وہ تو بہت اچھی کمپنی ہے۔"
وہ کچھ دیر اس کمپنی کے بارے میں تعریفی تبصرہ کرتا رہا۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔