top of page

پیرِ کامل از عمیرا احمد

(قسط نمبر 25 (آخری قسط

وہ سالار کے ساتھ خانہ کعبہ کے صحن میں بیٹھی ہوئی تھی۔ سالار اس کے دائیں جانب تھا۔ وہ وہاں ان کی آخری رات تھی۔ وہ پچھلے پندرہ دن سے وہاں تھے۔ کچھ دیر پہلے انہوں نے تہجد ادا کی تھی۔ وہ تہجد کے نوافل کے بعد وہاں سے چلے جایا کرتے تھے۔ آج نہیں گئے، آج وہیں بیٹھے رہے۔ ان کے اور خانہ کعبہ کے دروازے کے درمیان بہت لوگ تھے اور بہت فاصلہ تھا۔ اس کے باوجود وہ دونوں جہاں بیٹھتے تھے وہاں سے وہ خانہ کعبہ کے دروازے کو بہت آسانی سے دیکھ سکتے تھے۔ وہاں بیٹھتے وقت ان دونوں کے ذہن میں ایک ہی خواب تھا۔ وہ اس رات کو اب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ حرم پاک کے فرش پر اس جگہ گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے سالار سورۃ رحمٰن کی تلاوت کررہا تھا۔ امامہ جان بوجھ کر اس کے برابر بیٹھنے کی بجائے بائیں جانب اس کے عقب میں بیٹھ گئی۔ سالار نے تلاوت کرتے ہوئے گردن موڑ کر اسے دیکھا پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر آہستگی سے اپنے برابر والی جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ امامہ اٹھ کر اس کے برابر بیٹھ گئی۔ سالار نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ وہ اب خانہ کعبہ کے دروازے پر نظر جمائے ہوئے تھا۔ امامہ بھی خانہ کعبہ کو دیکھنے لگی۔ وہ خانہ کعبہ کو دیکھتے ہوئے اس خوش الحان آواز کو سنتی رہی جو اس کے شوہر کی تھی۔ فبای الاء ربکما تکذبان۔ اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ نوسال پہلے ہاشم مبین نے اس کے چہرے پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا تھا۔ "ساری دنیا کی ذلت اور رسوائی، بدنامی اور بھوک تمہارا مقدر بن جائے گی۔" انہوں نے اس کے چہرے پر ایک اور تھپڑ مارا۔ "تمہارے جیسی لڑکیوں کو اللہ ذلیل و خوار کرتا ہے۔ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑتا۔" امامہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ "ایک وقت آئے گا جب تم دوبارہ ہماری طرف لوٹو گی۔ منت سماجت کرو گی۔ گڑگڑاؤ گی۔ تب ہم تمہیں دھتکار دیں گے۔ تب تم چیخ چیخ کر اپنے منہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگو گی۔ کہو گی کہ میں غلط تھی۔" امامہ اشک بار آنکھوں سے مسکرائی۔ "میری خواہش ہے بابا!۔" اس نے زیر لب کہا۔ "کہ زندگی میں ایک بار میں آپ کے سامنے آؤں اور آپ کو بتا دوں کہ دیکھ لیجئے، میرے چہرے پر کوئی ذلت، کوئی رسوائی نہیں ہے۔ میرے اللہ اور میرے پیغمبر ﷺ نے میری حفاظت کی۔ مجھے دنیا کے لئے تماشا نہیں بنایا، نہ دنیا میں بنایا ہے نہ ہی آخرت میں میں کسی رسوائی کا سامنا کروں گی اور میں آج اگر یہاں موجود ہوں تو صرف اس لئے کیونکہ میں سیدھے راستے پر ہوں اور یہاں بیٹھ کر میں ایک بار پھر اقرار کرتی ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں۔ ان کے بعد کوئی پیغمبر آیا ہے نہ ہی کبھی آئے گا۔ میں اقرار کرتی ہوں کہ وہی پیرکامل ہیں۔ میں اقرار کرتی ہوں کہ ان سے کامل ترین انسان دوسرا کوئی نہیں۔ ان کی نسل میں بھی کوئی ان کے برابر آیا ہے نہ ہی کبھی آئے گا۔ اور میں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے آنے والی زندگی میں بھی کبھی اپنے ساتھ شرک کروائے نہ ہی مجھے آخری پیغمبر محمد ﷺ کے برابر کسی کو لاکھڑا کرنے کی جرات ہو۔ میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ زندگی بھر مجھے سیدھے راستے پر رکھے۔ بے شک میں اس کی کسی نعمت کو نہیں جھٹلا سکتی۔" سالار نے سورۃ رحمٰن کی تلاوت ختم کرلی تھی۔ وہ چند لمحوں کے لئے رکا پھر سجدے میں چلا گیا۔ سجدے سے اٹھنے کے بعد وہ کھڑا ہوتے ہوئے رک گیا۔ امامہ آنکھیں بند کئے دونوں ہاتھ پھیلائے دعا کررہی تھی۔ وہ اس کی دعا ختم ہونے کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ امامہ نے دعا ختم کی۔ سالار نے اٹھنا چاہا، وہ اٹھ نہیں سکا۔ امامہ نے بہت نرمی کے ساتھ اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ حیرت سے اسے دیکھنےلگا۔ "یہ جو لوگ کہتے ہیں نا کہ جس سے محبت ہوئی وہ نہیں ملا۔ ایسا پتا ہے کیوں ہوتا ہے؟" رات کے اس پچھلے پہر نرمی سے اس کا ہاتھ تھامے وہ بھیگی آنکھوں اور مسکراتے چہرے کے ساتھ کہہ رہی تھی۔ "محبت میں صدق نہ ہو تو محبت نہیں ملتی۔ نو سال پہلے میں نے جب جلال سے محبت کی تو پورے صدق کے ساتھ کی۔ دعائیں، وظیفے، منتیں، کیا تھا جو میں نے نہیں کر چھوڑا مگر وہ مجھے نہیں ملا۔" وہ گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی تھی۔ سالار کا ہاتھ اس کے ہاتھ کی نرم گرفت میں اس کے گھٹنے پر دھرا تھا۔ "پتا ہے کیوں؟ کیونکہ اس وقت تم بھی مجھ سے محبت کرنے لگے تھے اور تمہاری محبت میں میری محبت سے زیادہ صدق تھا۔" سالار نے اپنے ہاتھ کو دیکھا۔ اس کی ٹھوڑی سے ٹپکنے والے آنسو اب اس کے ہاتھ پر گر رہے تھے۔ سالار نے دوبارہ امامہ کے چہرے کی طرف دیکھا۔ "مجھے اب لگتا ہے کہ اللہ نے مجھے بہت پیار سے بنایا تھا۔ وہ مجھے کسی ایسے شخص کو سونپنے پر تیار نہیں تھا جو میری ناقدری کرتا، مجھے ضائع کرتا اور جلال، وہ میرے ساتھ یہی سب کچھ کرتا۔ وہ میری قدر کبھی نہ کرتا۔ نو سال میں اللہ نے مجھے ہر حقیقت بتا دی۔ ہر شخص کا اندر اور باہر دکھا دیا اور پھر اس نے مجھے سالار سکندر کو سونپا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ تم وہ شخص ہو جس کی محبت میں صدق ہے۔ تمہارے علاوہ اور کون تھا جو مجھے یہاں لے کر آتا۔ تم نے ٹھیک کہا تھا تم نے مجھ سے پاک محبت کی تھی۔" وہ بے حس و حرکت اسے دیکھ رہا تھا۔ "مجھے تم سے کتنی محبت ہوگی، میں نہیں جانتی۔ دل پر میرا اختیار نہیں ہے مگر میں جتنی زندگی تمہارے ساتھ گزاروں گی تمہاری وفادار اور فرمانبردار رہوں گی۔ یہ میرے اختیار میں ہے۔ میں زندگی کے ہر مشکل مرحلے، ہر آزمائش میں تمہارے ساتھ رہوں گی۔ میں اچھے دنوں میں تمہاری زندگی میں آئی ہوں۔ میں برے دنوں میں بھی تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گی۔" اس نے جتنی نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما تھا اسی نرمی سے چھوڑ دیا۔ وہ اب سر جھکائے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو صاف کررہی تھی۔ سالار کچھ کہے بغیر اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ وہ خانہ کعبہ کے دروازے کو دیکھ رہا تھا۔ بلاشبہ اسے زمین پر اتاری جانے والی صالح اور بہترین عورتوں میں سے ایک بخش دی گئی تھی۔ وہ عورت جس کے لئے نو سال اس نے ہر وقت اور ہرجگہ دعا کی تھی۔ کیا سالار سکندر کے لئے نعمتوں کی کوئی حد رہ گئی تھی اور اب جب وہ عورت اس کے ساتھ تھی تو اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ کیسی بھاری ذمہ داری اپنے لئے لے بیٹھا تھا۔ اسے اس عورت کا کفیل بنا دیا گیا تھا جو نیکی اور پارسائی میں اس سے کہیں آگے تھی۔ امامہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ سالار نے کچھ کہے بغیر اس کا ہاتھ تھام کر وہاں سے جانے کے لئے قدم بڑھا دیئے۔ اسے اس عورت کی حفاظت سونپ دی گئی تھی، جس نے اپنے اختیار کی زندگی کو اس کی طرح کسی آلائش اور غلاظت میں نہیں ڈبویا، جس نے اپنی تمام جسمانی اور جذباتی کمزوریوں کے باوجود اپنی روح اور جسم کو اس کی طرف نفس کی بھینٹ نہیں چڑھایا۔ اس کا ہاتھ تھامے قدم بڑھاتے ہوئے اسے زندگی میں پہلی بار پارسائی اور تقویٰ کا مطلب سمجھ میں آرہا تھا۔ وہ اس سے چند قدم پیچھے تھی۔ وہ حرم پاک میں بیٹھے اور چلتے لوگوں کی قطاروں کے درمیان سے گزر رہے تھے۔ وہ اپنی پوری زندگی کو جیسے فلم کی کسی اسکرین پر چلتا دیکھ رہا تھا اور اسے بے تحاشا خوف محسوس ہورہا تھا۔ گناہوں کی ایک لمبی فہرست کے باوجود اس نے صرف اللہ کا کرم دیکھا تھا اور اس کے باوجود اس وقت کوئی اس سے زیادہ اللہ کے غضب سے خوف نہیں کھا رہا تھا۔ وہ شخص جس کا آئی کیو لیول 150 تھا اور جو فوٹوگرافک میموری رکھتا تھا نوسال میں جان گیا تھا کہ ان دونوں چیزوں کے ساتھ بھی زندگی کے بہت سارے مقامات پر انسان کسی اندھے کی طرح ٹھوکر کھا کر گرسکتا تھا۔ وہ بھی گرا تھا بہت بار۔۔۔۔۔ بہت مقامات پر۔۔۔۔۔ تب اس کا آئی کیولیول اس کے کام آیا تھا نہ اس کی فوٹوگرافک میموری۔ ساتھ چلتی ہوئی لڑکی وہ دونوں چیزیں نہیں رکھتی تھی۔ اس کی مٹھی میں ہدایت کا ایک ننھا سا جگنو تھا اور وہ اس جگنو سے امڈتی روشنی کے سہارے زندگی کے ہر گھپ اندھیرے سے کوئی ٹھوکر کھائے بغیر گزر رہی تھی۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page