top of page

آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد

قسط نمبر ایک

اس نے دور سے سالار کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں سوفٹ ڈرنک کا ایک گلاس تھا۔
تم یہاں کیوں آکر بیٹھ گئی؟ امامہ کے قریب آتے ہوئے اس نے دور سے کہا۔
ایسے ہی۔۔۔۔ شال لینے آئی تھی۔۔۔۔ پھر یہی بیٹھ گئی۔ وہ مسکرائی۔ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے سالار نے سوفٹ ڈرنک کا گلاس اپنی ٹانگوں کے درمیان نچلی سیڑھی پر رکھ دیا۔ امامہ لکڑی کے ستون سے ٹیک لگائے ایک گھٹنے پر کھانے کی پلیٹ ٹکائے، کھاتے ہوئے دور لان میں ایک کینوپی کے نیچے اسٹیج پر بیٹھے گلوکار کو دیکھ رہی تھی، جو نئی غزل شروع کرنے سے پہلے سازندوں کو ہدایت دے رہا تھا۔ سالار نے کانٹا اٹھا کر اس کی پلیٹ سے کباب کا ایک ٹکڑا اپنے منہ میں ڈالا۔ وہ بھی اب گلوکار کی طرف متوجہ تھا۔ جو اپنی نئی غزل شروع کر چکا تھا۔
ہاں۔ اس نے مسکرا کر کہا وہ غزل سن رہی تھی۔
کسی کی آنکھ پرنم ہے، محبت ہوگئی ہوگی 
زبان پر قصۂ غم ہے، محبت ہوگئی ہوگی 
وہ بھی غزل سننے لگا تھا۔
کبھی ہنسنا کبھی رونا، کبھی ہنس ہنس کر رودینا 
عجب دل کا یہ عالم ہے، محبت ہوگئی ہوگی 
اچھا گا رہا ہے۔ امامہ نے ستائشی انداز میں کہا۔ سالار نے کچھ کہنے کی بجائے سر ہلا دیا۔
خوشی کا حد سے بڑھ جانا بھی اب اک بے قراری ہے
نہ غم ہونا بھی اک غم ہے محبت ہوگئی ہوگی 
سالار سوفٹ ڈرنک پیتے پیتے ہنس پڑا۔ امامہ نے اس کا چہرا دیکھا۔ وہ جیسے کہیں اور پہنچا ہوا تھا۔
تمھیں کچھ دینا چاہ رہا تھا میں۔۔۔۔۔ وہ جیکٹ کی جیب میں کچھ ڈھونڈ کر نکالنے کی کوشش کر رہا تھا۔
میں بہت دنوں سے تمھیں کچھ دینا چاہ رہا تھا لیکن۔۔۔۔ وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک ڈبیا تھی۔
امامہ کے چہرے پر بے حد مسکراہٹ آئی۔۔۔ اچھا تو اسے خیال آگیا۔۔۔۔۔ اس نے ڈبیا لیتے ہوئے سوچا اور اسے کھولا۔ وہ ساکت رہ گئی۔ اندر ایر رنگز تھے۔ ان ایر رنگز سے ملتے جلتے جو وہ اکثر اپنے کانوں میں پہنے رہتی تھی اس نے نظریں اٹھا کر سالار کو دیکھا۔
میں جانتا ہوں یہ اتنے ویلیو ایبل نہیں ہوں گے جتنے تمھارے ابو کے ہیں لیکن مجھے اچھا لگے گا اگر تم کبھی کبھی انہیں بھی پہنو ان ایر رنگز کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
تم نہیں پہننا چاہتی تو بھی ٹھیک ہے میں ریپلیس کرنے کے لئے نہیں دے رہا ہوں۔ سالار نے اس کی آنکھوں میں ہوتی نمی دیکھ کر بے ساختہ کہا۔ وہ نہیں جانتا تھا۔ بہت ساری چیزیں پہلے ہی اپنی جگہ بدل چکی ہیں۔ اور وہ اپنی جگہ بنا چکی ہیں۔ اس کی خواہش اور ارادے کے نہ ہونے کے باوجود۔۔۔
کچھ کہنے کے بجائے امامہ نے اپنے دائیں کان میں لٹکتا ہوا جھمکا اتارا۔
میں پہنا سکتا ہوں؟؟ سالار نے ایک ایر رنگ نکالتے ہوئے پوچھا۔ امامہ نے سر ہلا دیا۔ سالار نے باری باری اس کے دونوں کانوں میں وہ ایر رنگ پہنا دیئے۔
وہ نم آنکھوں سے مسکرائی۔ وہ بہت دیر تک کچھ کہے بغیر محبت سے اسے دیکھتا رہا۔
اچھی لگ رہی ہو۔ وہ اس کے کانوں میں لٹکتے ہوئے، ہلکورے کھاتے موتی کو چھوتے ہوئے مدھم آواز میں بولا۔
تمھیں کوئی مجھ سے زیادہ محبت نہیں کر سکتا۔ مجھ سے زیادہ خیال نہیں رکھ سکتا۔ میرے پاس ایک واحد قیمتی چیز تم ہو۔
اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ اس سے کہہ رہا تھا۔ وعدہ کر رہا تھا۔۔۔ یاد دہانی کرا رہا تھا۔۔۔ یاں کچھ جتا رہا تھا۔۔۔ وہ جھک کر اب اس کی گردن چوم رہا تھا۔
مجھے نوازا گیا ہے۔۔۔ سیدھا ہوتے ہوئے اس نے سرشاری سے کہا۔۔۔
رومانس ہورہا ہے؟؟؟ اپنے عقب میں آنے والی کامران کی آواز پر دونوں ٹھٹکے تھے۔۔۔ وہ شائد شارٹ کٹ کی وجہ سے برآمدے کے اس دروازے سے نکلا تھا۔
کوشش کررہیں ہیں۔۔ سالار نے پلٹے بغیر کہا۔
گڈ لک۔ وہ کہتے ہوئے ان کے پاس سےسیڑھیاں اترتا ہوا انہیں دیکھے بغیر چلا گیا۔ امامہ کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔ وہ جیھنپ گئی تھی سالار اور اس کی فیملی کم از کم ان معاملات میں بے حد آزاد خیال تھے ۔
کسی کو سامنے پاکر، کسی کے سرخ ہونٹوں پر 
انوکھا سا تبسم ہے، محبت ہو گئی ہوگی 
امامہ کو لگا وہ زیر لب گلوکار کے ساتھ گا رہا ہے۔
جہاں ویران راہیں تھیں، جہاں حیران آنکھیں تھیں 
وہاں پھولوں کا موسم ہے، محبت ہوگئی ہوگی 
لکڑی کی ان سیڑھیوں پر ایک دوسرے کے قریب بیٹھے وہ خاموشی کو توڑتی آس پاس کے پہاڑوں میں گونج کی طرح پھیلتی گلوکار کی سریلی آواز سن رہے تھے۔ زندگی کے وہ لمحے یادوں کا حصہ بن رہے تھے۔ 
دوبارہ نہ آنے کے لئے گزررہے تھے ان کے اپارٹمنٹ کی دیوار پر لگنے والی ان دونوں کی پہلی اکھٹی تصویر اس فارم ہاؤس کی سیڑھیوں ہی کی تھی۔ سرخ لباس میں گولڈن کڑھائی والی سیاہ پشمینہ شال اپنے بازوؤں کے گرد اوڑھے کھلے سیاہ بالوں کو کانوں کے پیچھے سمیٹے خوشی اس کی مسکراہٹ اور آنکھوں میں چمک نہیں بلکہ اس قرب میں جھلک رہی تھی جو اس کے اور سالار کے درمیان نظر آرہا تھا۔ سفید شرٹ اور سیاہ جیکٹ میں اسے اپنے ساتھ لگائے سالار کی آنکھوں کی چمک جیسے اس فوٹو گراف میں موجود دوسری ہر شے کو مات کر رہی تھی۔ کوئی بھی کیمرے کے لئے بنائے ہوئے اس ایک پوز میں نظر آنے والے جوڑے کو دیکھ کر چند لمحوں کے لئے ضرور ٹھٹکتا۔
سکندر نے اس فوٹو گراف کو فریم کروا کر انہیں ہی نہیں بھیجا تھا انہوں نے اپنے گھر کی فیملی وال فوٹوز میں بھی اس تصویر کا اضافہ کیا تھا

وہ شخص دیوار پر لگی تصویر کے سامنے اب پیچھلے پندرہ منٹ سےکھڑا تھا پلکیں جھپکائے بغیر ٹکٹکی لگائے اس لڑکی کا چہرہ دیکھتے ہوئے۔ چہرے میں کوئی شباہت تلاش کرتے ہوئے۔ اس شخص کے شجرہ میں دبے آتش فشاں کی شروعات ڈھونڈتے ہوئے۔ اگر وہ اس شخص کو نشانہ بنا سکتا تھا تو اسی ایک جگہ سے بنا سکتا تھا۔ وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے ساتھ ساتھ کچھ بڑبڑا بھی رہا تھا۔۔۔ خود کلامی۔۔۔ ایک اسکینڈل کا تانا بانا تیار کرنے کے لئے ایک کے بعد ایک مکرو فریب کا جال۔۔۔ وجوہات۔۔۔۔ حقائق کو مخفی کرنے۔۔۔۔ وہ ایک گہرا سانس لے کر اپنے عقب میں بیٹھے لوگوں کو کچھ ہدایت دینے کے لئے مڑا تھا۔
سی آئی اے ہیڈ کوارٹر کے اس کمرے کی دیواروں پر لگے بورڈ چھوٹے بڑے نوٹس، چارٹس، فوٹو گرافس اور ایڈریسز کی چٹوں سے بھرے ہوئے تھے۔
کمرے میں موجود چار آدمیوں میں سے تین اس وقت کمپیوٹر پر مختلف ڈیٹا کھنگالنے میں لگے ہوئے تھے۔
وہ یہ کام پچھلے ڈیڑھ ماہسے کر رہے تھے۔ اس کمرے میں جگہ جگہ بڑے بڑے ڈبے پڑے تھے جو مختلف فائلز، ٹیپس، میگزینز اور نیوز پیپر کے تراشوں اور دوسرے ریکارڈ سے بھرے ہوئے تھے۔ کمرے میں موجود ریکارڈ کیبنٹس پہلے ہی بھری ہوئی تھیں،، کمرے میں موجود تمام ڈیٹا ان کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسکس میں بھی محفوظ تھا۔
کمرے میں موجود آدمی پچھلے ڈیڑھ ماہ سے اس شخص کے بارے میں آن لائن آنے والے تمام ریکارڈ اور معلومات اکٹھی کر رہا تھا۔ کمرے میں موجود تیسرا آدمی اس شخص اور اس کی فیملی کے ہر فرد کی ای میلز کا ریکارڈ کھنگالتا رہا تھا۔ چوتھا شخص اس فیملی کی مالی معلومات چیک کرتا رہا تھا۔ اس ساری جدوجہد کا نتیجہ ان تصویروں اور شجرہ نسب کی صورت میں ان بورڈز پر موجود تھا۔
وہ چار لوگ دعوا کر سکتے تھے کہ اس شخص اور اس کی فیملی کی پوری زندگی کا ریکارڈ اگر خدا کے پاس موجود تھا تو اس کی ایک کاپی اس کمرے میں تھی۔ اس شخص کی زندگی کے بارے میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں تھی جو ان کے علم میں نہیں تھی یاں جس کے بارے میں وہ ثبوت نہ دے سکتے تھے۔
سی آئی اے کے شدید آپریشنز سے لے کر گرل فرینڈ تک اور اس کی مالی معاملات سے لے کر اسکی اولاد کی پرسنل اور پرائیوٹ لائف تک اس کے پاس ہر چیز کی تفصیلات تھیں۔
لیکن سارا مسئلہ یہ تھا کہ ڈیڑھ ماہ کی اس محنت اور پوری دنیا سے اکھٹے کئے ہوئے اس ڈیٹا میں سے وہ ایسی کوئی چیز نہیں نکال سکے تھے جس سے اس کی کردار کشی کرسکتے۔
وہ ٹیم جوپیندرہ سال سے اسی مقاصد پر کام کرتی رہی تھی یہ پہلی بار تھا کہ وہ اتنی سر جوڑ محنت کے باوجود اس شخص اور اس کے گھرانے کے کسی شخص کے حوالے سے کسی قسم کا بری حرکت یا عمل کی نشان دہی نہیں کر پائی تھی۔ دو سو پوانٹس کی وہ لسٹ جو انہیں دی گئی تھی وہ دو سو کراسز سے بھری ہوئی تھی اور یہ ان سب کی زندگی میں پہلی بار ہوا تھا۔ انہوں نے ایسا صاف ریکارڈ کسی کا نہیں دیکھا تھا۔
کسی حد تک ستائش کے جذبات رکھنے کے باوجود ایک آخری کوشش کررہے تھ۔ ایک آخری کوشش۔۔
کمرے کے ایک بورڈ سے دوسرے بورڈ اور دوسرے بورڈ سے تیسرے بورڈ تک جاتے جاتے وہ آدمی اس کے شجرہ نسب کی اس تصویر پر رکا ہوا تھا۔ اس تصویر کے آگے کچھ اور تصویریں تھیں اور ان کے ساتھ کچھ بلٹ پوائنٹس۔۔۔۔۔۔۔ ایک دم بجلی کا سا جھٹکا لگا۔ اس نے اس لڑکی کی تصویر کے نیچے تاریخ پیدائش دیکھی۔ پھر مڑ کر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کو وہ سال بتاتے ہوئے کہا۔
دیکھو اس سال یہ کہاں تھا؟
کمپیوٹر پر بیٹھے آدمی نے چند منٹوں کے بعد اسکرین دیکھتے ہوئے کہا۔
پاکستان میں۔۔۔۔۔۔ اس شخص کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آگئی تھی۔
کب سے کب تک؟۔۔۔ اس آدمی نے اگلا سوال کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ کمپیوٹر پر بیٹھے ہوئے آدمی نے تاریخیں بتائیں۔
آخر کار ہمیں کچھ مل ہی گیا۔ اس آدمی نے بے اختیار ایک سیٹی بجاتے ہوئے کہا تھا۔ انہیں جہاز ڈبونے کے لئے تار پیڈو مل گیا تھا۔۔۔۔ 
یہ پندرہ منٹ پہلے کی روداد تھی۔ پندرہ منٹ بعد اب وہ جانتا تھا کہ اسے اس آتش فشاں کا منہ کھولنے کے لئے کیا کرنا تھا۔

وہ یہاں کسی جذباتی ملاقات کے لئے نہیں آئی تھی۔ سوال و جواب کے لمبے چوڑے سیشن کے لئے بھی نہیں۔۔۔ لعنت و ملامت کے کسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بھی نہیں۔۔۔ وہ یہاں کسی کا ضمیر جنجھوڑنے آئی تھی۔۔۔ نہ ہی کسی سے نفرت کا اظہار کرنے کے لئے۔۔۔ اور نہ ہی کسی کو بتانے آئی تھی کہ وہ اذیت کے ماؤنٹ ایورسٹ پر کھڑی تھی۔۔۔ نہ ہی وہ اپنے باپ کو گریبان سے پکڑنا چاہتی تھی۔۔ نہ اسے یہ بتانا چاہتی تھی کہ اس نے اس کی زندگی تباہ کر دی ہے۔۔۔
اس کے صحت مند ذہن اور جسم کو ہمیشہ کے لئے مفلوج کر دیا تھا۔۔
وہ یہ سب کچھ کہتی۔۔۔ یہ سب کرتی اگر اسے یقین ہوتا کہ یہ سب کرنے کے بعد اسے سکون مل جائے گا۔۔۔
اس کا باپ احساس جرم یا پچھتاوے جیسی چیز کو پالنے لگا تھا،،،،
پچھلے کئی ہفتوں سے وہ آبلہ پا تھی۔۔۔ وہ راتوں کو سکون آور گولیاں لئے بغیر سو نہیں پارہی تھی اور اس سے بڑھ کر تکلیف دہ چیز یہ تھی وہ سکون آور ادویات لینا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ وہ سونا نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔ وہ سوچنا چاہتی تھی اس بھیانک خواب کے بارے میں جس میں وہ چند ہفتے پہلے داخل ہوئی تھی اور جس سے اب وہ ساری زندگی نکل نہیں سکتی تھی۔
وہ یہاں آنے سے پہلے پچھلی پوری رات روتی رہی تھی۔ یہ بے بسی کی وجہ سے نہیں تھا۔ یہ اذیت کی وجہ سے بھی نہیں تھا۔ یہ اس غصے کی وجہ سے تھا جو وہ اپنے باپ کے لئے اپنے دل میں اتنے دنوں سے محسوس کر رہی تھی۔ ایک آتش فشاں تھا یا جیسے کوئی الاو،ٔ جو اس کو اندر سے سلگا رہا تھا اندر سے جلا رہا تھا۔
کسی سے پوچھے، کسی کو بتائے بغیر یوں اٹھ کر آجانے کا فیصلہ جذباتی تھا، احمقانہ تھا اور غلط تھا۔ اس نے زندگی میں پہلی بار اک جذباتی، احمقانہ اور غلط فیصلہ، بے حد سوچ سمجھ کر کیا تھ۔ ایک اختتام چاہتی تھی وہ اپنی زندگی کے اس باب کے لئے جس کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتی تھی اور جس کی موجودگی کا انکشاف اس کے لئے دل دہلادینے والا تھا۔
اس کا ایک ماضی تھا وہ جانتی تھی لیکن اسے کبھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ماضی کا ماضی بھی ہو سکتا ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر تھا جب وہ خوش تھی اپنی زندگی میں۔ جب وہ خود کو باسعادت سمجھتی تھی۔ اور مقرب سے ملعون ہونے کا فاصلہ اس نے چند سیکنڈز میں طے کر لیا تھا۔ چند سیکنڈز شاید زیادہ وقت تھا شاید اس سے بھی کم وقت تھا جس میں وہ احساس کمتری، احساس محرومی، احساس ندامت اور ذلت و بدنامی کے ایک ڈھیر میں تبدیل ہوئی تھی۔
اور یہاں وہ اس کو دوبارہ وہی شکل دینے آئی تھی اس بوجھ کو اس شخص کے سامنے اتار پھینکنے آئی تھی جس نے وہ بوجھ اس پر لادا تھا۔ کسی کو اس وقت یہ پتا نہیں تھا کہ وہ وہاں تھی ۔۔۔۔ کسی کو پتا ہوتا تو وہاں آہی نہیں سکتی تھی ۔۔۔ اس کا سیل فون پچھلے کئی گھنٹوں سے آف تھا ۔۔ وہ چند گھنٹوں کے لئے خود کو اس دنیا سے دور لے آئی تھی جس کا وہ حصہ تھی ۔۔۔ اس دنیا کا حصہ یا پھر اس دنیا کا حصہ جس میں وہ اس وقت موجود تھی ۔۔۔ یا پھر اس کی کوئی بنیاد نہیں تھی ۔۔۔
وہ کہیں کی نہیں تھی ۔۔۔ اور جہاں کی تھی ۔ جس سے تعلق رکھتی تھی اس کو اپنا نہیں سکتی تھی ۔۔
انتظار لمبا ہوگیا تھا ۔۔۔ انتظار ہمیشہ لمبا ہوتا ہے ۔۔۔ کسی بھی چیز کا انتظار ہمیشہ لمبا ہوتا ہے ۔۔ چاہے آنے والی شے پاؤں کی زنجیر بننے والی ہو یاں پھر گلے کا ہار ۔۔۔ سر کا تاج بن کر سجنا ہو اس نے پاؤں کی جوتی ۔۔۔ انتظار ہمیشہ لمبا ہی لگتا ہے ۔۔
وہ ایک سوال کا جواب چاہتی تھی اپنے باپ سے ۔۔۔ صرف ایک چھوٹے سے سوال کا ۔۔۔ اس نے اس کی فیملی کو کیوں مار ڈالا؟؟

گرینڈ حیات ہوٹل کا پال روم اس وقت اسکرپ نیشنل اسپیلنگ بی کے ۹۲ ویں مابلے کے فائنل میں پہنچنے والے فریقین سمیت دیگر شرکاء، ان کے والدین، بہن بھائیوں اور اس مقابلے کو دیکھنے کے لئے موجود لوگوں سے کچھا کچھ بھرا ہونے کے باوجود ایسا خاموش تھا کہ سوئی گرنے کی آواز بھی سنی جا سکے۔
وہ دو افراد جو فائنل میں پہنچے تھے ان کے درمیان چودھواں راؤنڈ کھیلا جارہا تھا۔ تیرہ سالہ نینسی اپنے لفظ کے ہجے کرنے کے لئے اپنی جگہ پر آچکی تھی۔ پچھلے بیانوے سالوں سے اس پال روم میں دنیا کے بیسٹ اسپیلر کی تاج پوشی ہو رہی تھی۔ امریکا کی مختلف ریاستوں کے علاوہ دنیا کے بہت سارے ممالک میں اسپیلنگ بی کے مقامی مقابلے جیت کر آنے والے پندرہ سال سے کم عمر کے بچے اس آخری راؤنڈ کو جیتنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا رہے تھے۔ ایسی ہی ایک بازی کے شرکاء آج بھی اسٹیج پر موجود تھے۔
سسافراس نینسی نے رکی ہوئی سانس کے ساتھ پروناؤنسر کا لفظ سنا ۔۔ اس نے پروناؤسر کو لفظ دہرانے کے لئے کہا ۔۔ پھر اس نے لفظ کو دہرایا ۔۔ وہ چیمپیئن شپ ورڈ میں سے ایک تھا لیکن فوری طور پر اسے وہ یاد نہیں آسکا ۔۔ بہر حال اس کی ساؤنڈ سے وہ اسے بہت مشکل لگا تھا اور اگر سننے میں اتنا مشکل نہیں تھا تو اس مطلب تھا وہ ترکی لفظ ہو سکتا تھا۔
نو سالہ دوسرا فائنلسٹ اپنی کرسی پر بیٹھے گلے میں لٹکے اپنے نمبر کارڈ کے پیچھے انگلی سے اس لفظ کی ہجے کرنے میں لگا ہوا تھا ۔۔ وہ اس کا لفظ نہیں تھا لیکن وہاں بیٹھا ہر بچہ ہی لاشعوری طور پر اس وقت یہی کرنے میں مصروف تھا۔ جو مقابلے سے آؤٹ ہو چکا تھا۔
نینسی کا ریگولر ٹائم ختم ہو چکا تھا ۔۔
ایس ۔ اے ۔ ایس ۔ ایس ۔۔ اس نے رک رک کر الفاظ کی ہجے کرنا شروع کی وہ پہلے چار حروف بتانے کے بعد ایک لمحہ کے لئے رکی۔ زیر لب اس نے باقی کے پانچ حروف دہرائے پھر دوبارہ بولنا شروع کیا۔
اے ۔ ایف ۔ آر ۔ وہ ایک بار پھر رکی ۔ دوسرے فائنلسٹ نے بیٹھے بیٹھے زیر لب آخری دو حروف دہرائے ۔۔
یو ۔ ایس ۔۔ مائیک کے سامنے کھڑی نینسی نے بھی بالکل اس وقت یہی دو حروف بولے اور پھر بے یقینی سے اس گھنٹی کو بجتے سنا جو اسپیلنگ کے غلط ہونے پر بجتی تھی ۔۔ شاک صرف اس کے چہرے پر نہیں تھا ۔۔۔ دوسرے فائنلسٹ کے چہرے پر بھی تھا ۔۔ پروناؤنسر اب سسافراس کے درست اسپیلنگ دہرا رہا تھا ۔۔۔ نینسی نے بے اختیار آنکھیں بند کیں۔
آخری لیٹر سے پہلے اے ہونا چاہیئے تھا ۔۔۔ میں نے یو کیا سوچ کر لگا دیا؟
اس نے خود کو کوسا۔ تقریباَ فق رنگت کے ساتھ نینسی گراہم نے مقابلے کے شرکاء کے لئے رکھی ہوئی کرسیوں کی طرف چلنا شروع کردیا ۔۔
ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ یہ ممکنہ رنر اپ کو کھڑے ہو کر دی جانے والی داد و تحسین تھی ۔۔۔ نو سالہ دوسرا فائنل میں پہنچنے والا بھی اس کے لئے کھڑا تالیاں بجا رہا تھا ۔۔۔ نینسی کے قریب پہنچنے پر پر اس نے آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا ۔۔۔
نینسی نے ایک مدہم سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے جواب دیا اور اپنی سیٹ سنبھال لی۔ ہال میں موجود لوگ دوبارہ اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے اور دوسرا فائنلسٹ مائیک کے سامنے آچکا تھا ۔۔ نینسی اسے دیکھ رہی تھی۔
اسے ایک موہوم سی امید تھی کہ اگر وہ بھی اپنے لفظ ہجے غلط کرتا ہے تو وہ دوبارہ فائنل میں آسکتی ہے ۔۔۔
دیٹ واز آ کیچ 22 اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے اس نے کہا ۔۔ وہ اندارہ نہیں لگا سکی وہ اس کے لئے کیا کہہ رہا تھا یا وہ اس لفظ کو واقعی اپنے لئے کیچ 22 ہی سمجھ رہا تھا ۔۔۔ وہ چاہتی تھی ایسا ہوتا ۔۔ ہر کوئی چاہتا ۔۔۔ سینئر اسٹیج پر ان نو سالہ فائنلسٹ تھا ۔۔ اپنی اسی شرارتی مسکراہٹ اور گہری چمکتی آنکھوں کے ساتھ اس نے اسٹیج سے نیچے بیٹھے چیف پروناؤسر کو دیکھتے ہوئے سر ہلایا۔ جو ناتھن جواباَ مسکرایا تھا اور صرف جوناتھن ہی نہیں وہاں کے سب کے لبوں پر ایسی مسکراہٹ تھی ۔ وہ نوسالہ فائنلسٹ اس چیمپئن شپ کو دیکھنے والے حاضرین کا سویٹ ہارٹ تھا۔
اس کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی۔ چمکتی ہوئی تقریبا گول آنکھیں جو کسی کارٹون کریکٹر کی طرح پر جوش اور جان دار تھیں اور تقریبا گلابی ہونٹ جن پر وقتاَ فوقتاَ زبان پھیر رہا تھا اور جن پر آنے والا ذرا سا خم بہت سے لوگوں کو بلا وجہ مسکرانے پر مجبور کررہا تھا ۔۔۔ وہ معصوم فتنہ تھا یہ صرف اس کے والدین جانتے تھے جو دوسرے بچوں کے والدین کے ساتھ اسٹیج پر بائیں کی جانب بیٹھے ہوئے تھے ۔۔ وہاں بیٹھے دوسرے فائنلسٹس کے والدین کے برعکس وہ بے حد سکون تھے ۔۔ اس کے چہرے پر تھی تو وہ ان سات سالہ بیٹی کے چہرے پر تھی جو دو دن پر مشتمل اس پورے مقابلے کے دوران ہلکان رہی تھی اور وہ اب بھی آنکھوں پر گلاسز ٹکائے پورے انہماک کے ساتھ اپنے نو سالہ بھائی کو دیکھ رہی تھی جو پروناؤنسر کے لفظ کے لئے تیار تھا ۔۔Cappelleti
جو ناتھن نے لفظ ادا کیا۔ اس فائنلسٹ کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ آئی تھی جسے وہ بمشکل اپنی ہنسی کو کنٹرول کررہا ہو ۔۔ اس کی آنکھیں پہلے کلاک وائز اور پھر اینٹی کلاک وائز گھوم رہی تھیں ۔۔ ہال میں کچھ کھلکھلاہٹیں ابھری تھیں ۔۔ اس نے چیمپیئن شپ میں اپنا ہر لفظ سننے کے بعد ایسے ہی ری ایکٹ کیا تھا۔ کمال کی خود اعتمادی تھی اس میں کئی دیکھنے والوں نے اسے داد دی اس کے حصے میں آنے والے الفاظ دوسروں کی نسبت زیادہ مشکل ہوتے تھے یہ اس کے لئے مشکل وقت ہوتا تھا لیکن بے حد روانی اور بغیر اٹکے، بغیر گھبرائے اسی پر اعتماد مسکراہٹ کے ساتھ وہ ہر پہاڑ سر کرتا رہا تھا اور اب اس کی آخری چوٹی سامنے آگئی تھی۔
ڈیفینیشن پلیز اس نے اپنا ریگولر ٹائم استعمال کرنا شروع کیا ۔۔۔
اس کی بہن اسے بے چینی سے دیکھ رہی تھی اس کے والدین اب بھی سکون میں تھے اس کے تاثرات بتا رہے تھے کہ یہ لفظ اس کے لئے آسان تھا وہ ایسے ہی تاثرات کے ساتھ پچھلے تمام الفاظ ہجے کرتا تھا ۔۔
پلیز اس لفظ کو کسی جملے میں استعمال کرو وہ اب پروناؤنسر سے کہہ رہا تھا پروناؤنسر کا بتایا ہوا جملہ سننے کے بعد گلے میں لٹکے ہوئے کارڈ نمبر کی پشت پر انگلی سے وہ لفظ کو لکھنے لگا ۔۔۔
اب آپ کا ٹائم ختم ہونے والا ہے اسے آخری تیس سیکنڈز کے شروع ہونے کی اطلاع دی گئی جس میں اس نے اپنے لفظ کی ہجے کرنا تھا اس کی آنکھیں گھومنا بند ہوگئی ۔۔
سی اے پی پی ای ٹی آئی وہ ہجے کرتے ہوئے ایک لحظہ کے لئے رکا پھر ایک سانس لیتے ہوئے اس نے دوبارہ ہجے کرنا شروع کیا ۔۔
ای ٹی ٹی آئی ۔۔ 
ہال تالیوں سے گونج پڑا اور بہت دیر تک گونجتا رہا ۔۔
اسپیلنگ بی کا نیا چیمپئن صرف ایک لفظ کے فاصلے پر رہ گیا تھا ،،،
تالیوں کی گونج تھمنے کے بعد جوناتھن نے اسے آگاہ کیا کہ اسے اب ایک اضافی لفظ کے حروف بتانے ہیں ۔۔ 
اس نے سر ہلایا ۔۔۔ اس لفظ کی ہجے نہ کر سکنے کی صورت میں نینسی دوبارہ مقابلے میں آسکتی ہے ۔۔Weissnichtwo اس کے لئے لفظ پروناؤنس کیا گیا ایک لمحے کے لئے اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی پھر اس کا منہ کھلا اور اس کی آنکھیں پھیل گئی اوہ مائی گاڈ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا تھا وہ سکتہ میں تھا پوری چیمپیئن شپ میں یہ پہلی بار تھا کہ اس کی آنکھیں اور وہ خود اس طرح جامد ہوا تھا ۔۔۔
نینسی بے اختیا اپنی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی تو کوئی ایسا لفظ آگیا تھا جو اسے دوبارہ چیمپئن شپ میں لے جاسکتا تھا ۔۔
اس کے والدین کو پہلی بار اس کے تاثرات نے کچھ بے چین کیا تھا اس کا بیٹا اب اپنے نمبر کارڈ سے اپنا چہرہ حاضرین سے چھپا رہا تھا حاضرین اس کی انگلیوں اور ہاتھوں کی کپکپاہٹ بڑی آسانی سے اسکرین پر دیکھ سکتے تھے۔ 
اور ان میں سے بہت سو نے اس بچے کے لئے واقعی بہت ہمدردی محسوس کی۔ وہاں بہت کم تھے جو اسے جیتتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتا تھے ۔۔۔
ہال میں بیٹھا ہوا صرف ایک شخص مطمئن اور پر سکون تھا ۔۔۔ پر سکون ۔۔۔ یا پر جوش ۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔ کہنا مشکل تھا اور وہ اس بچے کی سات سالہ بہن تھی جو اپنے ماں باپ کے درمیان بیٹھی ہوئی تھی اور جس نے اپنے بھائی کے تاثرات پر پہلی بار بڑے اطمینان کے ساتھ کرسی کی پشت کے ساتھ مسکراتے ہوئے ٹیک لگائی۔ گود میں رکھے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو بہت آہستہ آہستہ اس نے تالی کے انداز میں بجانا شروع کیا اس کے ماں باپ نے بیک وقت اس کے تالی بجاتے ہاتھوں اور اس کے مسکراتے چہرے کو الجھے انداز میں دیکھا پھر اسٹیج پر اپنے لرزتے کانپتے کنفیوزڈ بیٹے کو جو نمبر کارڈ کے پیچھے اپنا چہرہ چھپائے انگلی سے کچھ لکھنے میں مصروف تھا ۔

اس کے پیروں کے نیچے وہ زمین جیسے سبز مخمل کی تھی… مخمل … یا کچھ اور تھا… تاحد نظر زمین پر سبزے کی طرح پھیلا ہوا … درختوں پر اُگنے جوالی پیلی کونپلوں جیسا سبز… اور پھر ایک دم سمندر کے اندر پیدا ہونے والی کائی جیسی رنگ لیے… نمی کے ننھے ننھے قطرے اپنے وجود پر لیے سبزے کی پتیاں معطر ہوا کے جھونکوں سے ہلتی جیسے کسی رقص میں مصروف تھیں… پانی کے ننھے شفاف موتی سبز پتیوں کے وجود پر پھسل رہے تھے، سنبھل رہے تھے یوں جیسے مخمور ہو کر بہک رہے ہوں… پتیوں کے وجود سے لپٹتے، ڈگمگاتے، سنبھلتے، پھسلتے…تیز ہوا کا ایک جھونکا چلتا، سبزے میں ایک لہر اُٹھتی، سمندر میں جوار بھاٹا کی پہلی لہر کی طرح اُٹھتی، رقص کرتی، لہراتی وہ سبزے کو سہلاتی، بہلاتی ایک عجیب سی سرشاری میں مبتلا کرتی ایک طرف سے دوسری طرف گزر جاتی۔ زمین جیسے رقص کرتنے میں مصروف تھی۔

سبزے کا وجود ننھے ننھے پھولوں سے سجا ہوا تھا… ہر رنگ کے پھولوں سے… اتنے رنگ اور ایسے رنگ جو نظر کو ششدر کر دیں۔ سبزے کے وجود پر بکھرے وہ ننھے ننھے پھول یہاں سے وہاں ہر جگہ تھے۔ سبزے میں ہوا سے پیدا ہونے والی ہر لہر اور ہر موج کے ساتھ وہ بھی عجیب مستی اور سرشاری سے رقص کرنے لگتے۔

آسمان صاف تھا… آنکھوں کو سکون دینے والا ہلکا نیلا اور اب بھی کسی گنبد کی طرح پھیلا ہوا… گہرا اونچا… بہت اونچا… یہاں سے وہاں تک ہر طرف۔

ہوا معطر تھی، مخمور تھی، گنگنا رہی تھی۔ وہاں موجود ہر شے کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہی تھی۔ ہنستی، چھیڑ کر جاتی پھر پلٹ کر آتی… کبھی تھپکتی… کبھی تھمتی… پھر چلتی… پھر گنگناتی… پھر لہراتی… وہاں تھی، نہیں تھی… کہاں تھی؟
وہ کسی راستے پر تھا… کیا راستہ تھا…! وہ کسی انتظار میںتھا۔ کیا انتظار تھا…! اس نے ایک گہرا سانس لیا۔ اس راستے کے دونوں طرف دو رویہ درختوں کی قطار کے ایک درخت کے ساتھ وہ ٹکا کھڑا تھا۔ سہارا لیے یا سہارا دیے۔

وہ آگئی تھی… اس نے بہت دور اس راستے پر اُسے نمودار ہوتے دیکھ لیا۔

وہ سفید لباس میں ملبوس تھی۔ بہت مہین، بہت نفیس … وہ ریشم تھا…؟ اطلس تھا…؟ کم خواب یا وہ کچھ اور تھا؟ اتنا ہلکا… اتنا نازک کہ ہوا کا ہلکا سا جھونکا اس سفید گاوؑن نما لباس کو اڑانے لگا… اس کی دودھیا پنڈلیاں نظر آنے لگتیں۔ وہ ننگے پاوؑں تھی اور سبزپر دھرے اس کے خوب صورت پاوؑں جیسے سبزے کی نرمی کو برداشت نہیں کر پارہے تھے۔ وہ پاوؑں رکھتی چند لمحوں کے لیے لڑکھڑاتی… جیسے مخمور ہو کر ہنستی… پھر سنبھل جاتی… پھر بڑے اشتیاق سے ایک بار پھر قدم آگے بڑھا دیتی۔

اس کے سیاہ بال ہوا کے جھونکوں سے اس کے شانوں اور اس کی کمر تک ہلکورے کھا رہے تھے۔ اس کے گالوں اور چہرے کو چومتے آگے پیچھے جا رہے تھے… اس کے چہرے پر آتے… اس کے سینے سے لپٹتے… اس کے کندھے پر، پھر ہوا میں لہرا کر ایک بار پھر نیچے چلے جاتے۔ وہ خوب صورت سیاہ چمک دار ریشمی زلفیں جیسے اس کے سفید لباس کے ساتھ مل کر اس کے وجود کے ساتھ رقص کرنے میں مصروف تھیں۔

اس کے مرمریں وجود پر وہ سفید لباس جیسے پھسل رہا تھا… سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا… ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ وہ اس کے جسم کے خدوخال کو نمایاں جکرتا، اسے پیروںسے کندھوں تک چومتا … اس کے وجود کے لمس سے مخمور ہوتا… ہوش کھوتا… دیوانہ وار اس کے وجود کے گرد گھومتا… کسی بھنور کی طرح اس کے جسم کو اپنی گرفت میں لیتا اس سے لپٹ رہا تھا۔ ہوا کا دوسرا جھونکا اس کے سیاہ ریشمی زلفوں کو بھی اس رقص میں شامل کر دیتا… وہ اس کے کندھوں اور کمر پر والہانہ انداز میں پھسلتیں… ہوا میں ہلکا سا اڑتیں پھر نرمی اور ملائمت سے اس کے چہرے اور سینے پر گرتیں… اس کے وجود سے پھوٹتی خوشبو سے یک دم سرشار ہوتیں… پھر اس کے جسم کو جیسے اپنے وجود سے چھپانے کی کوشش کرنے لگتیں۔ ہوا کا ایک اور جھونکا انہیں ہولے سے اٹھا کر پھر پیچھے پھینک دیتا۔
اس رقص میں اب پھر اس کے سفید لباس کی باری تھی… وہ آگے بڑھ آیا۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔ وہ عجیب سی حیرت میں مبتلا وہاں کی ہر شے کو سحر زدہ انداز میں دیکھ رہی تھی… بچوں جیسی حیرت اور اشتیاق کے ساتھ۔
اس راستے پر چلتے چلتے اس نے اسے دیکھ لیا… اس کے قدم تھمے، دونوں کی نظریں ملیں پھر اس کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آئی… پہلے مسکراہٹ پھر ہنسی… اس نے اسے پہچان لیا تھا… وہاں موجود ہ واحد وجود تھا، جسے وہ پہچانتی تھی۔
اس نے ہاتھ بڑھایا۔ وہ اس کا ہاتھ تھام کر اس کے قریب آگئی۔ دونوں ایک عجیب سی سرشاری میں ایک دوسرے کے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتے رہے۔
اس کی گہری سیاہ مسکراتی ہوئی آنکھیں، ہیرے کی کنپوں کی طرح چمک رہی تھیں اور یہ چمک اسے دیکھ کر بڑھ گئی تھی۔ اس کے خوب صورت گلابی ہونٹوں پر نمی کی ہلکی سی تہہ تھی، یوں جیسے وہ ابھی کچھ پی کر آئی ہو… اس کی ٹھوڑی ہمیشہ کی طرح اٹھی ہوئی تھی۔ اس کی صراحی دار گردن کو دیکھتے ہوئے اس نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی اپنی گرفت میں لے لیا… اس کی آنکھوں کی چمک اور اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی… وہ جیسے اس لمس سے واقف تھی، پھر وہ دونوں بے اختیار ہنسے۔
”تم میرا انتظار کر رہے تھے؟”
”ہاں۔”
”بہت دیر کر دی؟”
”نہیں… بہت زیادہ نہیں۔” وہ اس کا ہاتھ تھامے اس راستے پر چلنے لگا۔
ہوا ابھی بھی ان دونوں کے وجود کے ساتھ اور وہاں موجود ہر شے کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرنے میں مصروف تھی۔
وہ اب بھی بچوں جیسی حیرت اور خوشی کے ساتھ وہاں موجود ہر شے کو کھوجنے میں مصروف تھی۔ اس کی کھلکھلاہٹ اور شفاف ہنسی وہاں فضا کو ایک نئے رنگ سے سجانے لگے تھے۔ فضا میں یک دم ایک عجیب دلفریب سے ساز بجنے لگا تھا… وہ ٹھٹھکی، پھر بے اختیار کھلکھلائی… اس کے ہاتھ سے ہاتھ چھڑاتے ہوئے اس نے اس راستے پر قدم آگے بڑھائے، پھر مرد نے اسے دونوں بازو ہوا میں پھیلائے رقص کے انداز میں گھومتے دیکھا… وہ بے اختیار ہنسا۔ وہ اس راستے پر کسی ماہر بیلے رینا کی طرح رقص کرتی دور جا رہی تھی۔ اس کے جسم پر موجود سفید لباس اس کے گھومتے جسم کے گرد ہوا میں اب کسی پھول کی طرح رقصاں تھا۔ وہ اب آہستہ آہستہ ہوا میں اٹھنے لگی تھی… ہوا کے معطر جھونکے بڑی نرمی سے اسے جیسے اپنے ساتھ لیے جا رہے تھے۔ وہ اب بھی اسی طرح ہنستی، رقص کے انداز میں بازو پھیلائے گھوم رہی تھی۔ وہ سحر زدہ اسے دیکھتا رہا… وہ اب کچھ گنگنا رہی تھی، فضا میں یک دم کوئی ساز بجنے لگا تھا۔ پہلے ایک … پھر دوسرا … پھر تیسرا… پھر بہت سارے… پوری کائنات یک دم جیسے کسی سمفنی میں ڈھل گئی تھی اور وہ اب بھی ہوا میں رقصاں تھی۔ کسی مخملیں پر کی طرح ہوا کے دوش پر اوپر نیچے جاتے، وہ سحر زدہ اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی ساتھی رقص کرتے ہوئے ایک بار پھر اسے دیکھ کر کھلکھلا کر ہنسی، پھر اس نے اپنا ایک ہاتھ بڑھایا یوں جیسے اسے اپنے پاس آنے کی دعوت دے رہی ہو۔ وہ ہنس پڑا وہ ہاتھ بڑھاتی اور وہ کھنچا نہ چلا آتا۔
وہ بھی اس کا ہاتھ پکڑے اب فضا میں رقصاں تھا… زمین سے دور… اس کے قریب … اس کے ساتھ … یک دم دور کی، جیسے کائنات ٹھہر گئی ہو۔ وہ اب آسمان کو دیکھ رہی تھی پھر یک دم آسمان تاریک ہو گیا… دن رات میں بدل گیا تھا… اور رات دن سے بڑھ کر خوب صورت تھی… سیاہ آسمان خوب صورت چمکتے ہوئے ستاروں سے سجا ہوا تھا… ہر رنگ کے ستاروں سے… اور ان سب کے درمیان چاند تھا… کسی داغ کے بغیر، روشنی کا منبع۔
دن کی روشنی اجلی تھی… سکون آور تھی… مدہوش کر دینے والی تھی۔ رات کی روشنی میں بے شمار رنگ تھے، کائنات میں ایسے رنگ انہوں نے کب دیکھے تھے… کہاں دیکھے تھے۔ زمین جیسے ہر رنگ کی روشنی میں نہا رہی تھی۔ ایک ستارہ ٹمٹماتا… پھر دوسرا… پھر تیسرا… اور زمین پر کبھی ایک رنگ بڑھتا، کبھی دوسرا، کبھی تیسرا… آسمان کو جیسے کسی نے روشنیوں میں پرو دیا تھا۔
وہ اس کا ہاتھ پکڑے جیسے سرشاری کی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی… اس کی حیرت، اس کی سرشاری جیسے اسے محظوظ کر رہی تھی… گدگدا رہی تھی۔
وہ اب پھر زمین پر آگئے تھے۔ رات ایک بار پھر دن میں بدل گئی تھی… سبزہ، پھول، پتے، مہکتی معطر ہوا، سب وہیں تھے۔
اس کے ساتھ چلتے چلتے اس نے اپنے پیروں کے نیچے آتے مخملیں سبزے پر سجے پھولوں کو دیکھا پھر ہاتھ بڑھایا۔ اس کے ہاتھ میں وہ پھول آگیا، پھر دوسرا، پھر تیسرا… پھر دور دور تک پھیلے سبزے کے سارے پھول جیسے کسی مقناطیس کی طرح اس کی طرف آئے تھے۔ سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں… لاتعداد، بے شمار، اتنے کہ اس کے ہاتھ سنبھال نہیں پائے تھے۔ وہ اب اس کے ہاتھوں پر… اب اس کے بالوں پر، اب اس کے لباس پر، اب اس کے جسم پر… وہ خوشی سے بے خود ہو رہی تھی، سرشار ہو رہی تھی۔ پھر اس نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں ہوا میں اچھالا… وہ پلک جھپکتے میں آسمان کی طرف گئے… پورا آسمان پھولوں سے بھر گیا تھا۔ چند لمحوں کے لیے پھر پھولوں کی بارش ہونے لگی تھی۔ وہ دونوں ہنس رہے تھے۔ پھولوں کو بارش کے قطروں کی طرح مٹھیوں میں بھرتے اور چھوڑتے، بھاگتے، کھلکھلاتے وہ سب پھول زمین پر گر کر ایک بار پھر سبزے میں اپنی اپنی جگہ سج گئے تھے… وہاں جہاں وہ تھے… وہیں جہاں انہیں ہونا چاہیے تھا۔
وہ ایک بار پھر آسمان کو دیکھ رہے تھے، وہاں اب بادل نظر آرہے تھے۔ روئی کے گالوں جیسے حرکت کرتے بادل، وہ سب بادل وہاں جمع ہو رہے تھے، جہاں وہ کھڑے تھے… پھر اس نے آسمان پر بارش کا پہلا قطرہ دیکھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی ہتھیلی پر لیا۔ اس قطرے کو دیکھ کر دوبارہ ہنستے ہوئے آسمان کی طرف اچھال دیا۔ اس بار وہ قطرہ اوپر جا کر اکیلا واپس نہیں آیا تھا۔ وہ بہت سارے دوسرے قطروں کو ساتھ لے کر آیا تھا… بہت سارے نرم لمس کے گدگدانے والے قطرے… بارش برس رہی تھی اور وہ دونوں بچوں کی طرح ہنستے، کھلکھلاتے پانی کے ان قطروں کو ہاتھوں سے پکڑ کر ایک دوسرے پر اچھال رہے تھے… وہ بارش تھی۔ پانی تھا مگر وہ قطرے ان کے بالوں، ان کے جسم کو گیلا نہیں کر رہے تھے۔ وہ جیسے شفاف موتیوں کی بارش تھی، جو ان کے ہاتھ اور جسم کی ایک جنبش پر ان کے بالوں اور لباس سے الگ ہو کر دور جا گرتے… سبزرے اور پھولوں کے اوپر اب بارش کے شفاف موتی جیسے قطروں کی ایک تہہ سی آگئی تھی، یوں جیسے کسی نے زمین پر کوئی شیشہ پھیلا دیا ہو… اور وہ اس شیشے پر چل رہے تھے۔ ان کو اپنے سائے میں لیے وہ رکتے، ہاتھ ہلاتے، آسمان پر بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجتے پھر اپنی طرف بلاتے وہ آسمان پر جیسے پانی سے مصوری کر رہے تھے۔
پھر جیسے وہ اس کھیل سے تھک گئی… وہ رکی… بارش تھمی… زمین سے پانی کے قطرے غائب ہونے لگے پھر بادل… چند ساعتوں میں آسمان صاف تھا۔ یوں جیسے وہاں کبھی بادل نام کو کوئی شے آئی ہی نہ ہو۔
وہ اب اس کا ہاتھ پکڑ رہا تھا۔ اس نے چونک کر اسے دیکھا۔
”تمہیں کچھ دکھانا ہے۔” وہ مسکرایا۔
”کچھ اور بھی؟” اس کی خوشی کچھ اور بڑھی۔
”ہاں، کچھ اور بھی۔” اس نے اثبات میں سرہلایا۔
”کیا؟” اس نے بے ساختہ اس سے پوچھا تھا… وہ خاموسی سے مسکرا دیا۔
”کیا…؟” اس نے بچوں کی طرح اصرار کیا۔
وہ پہلے سے زیادہ پُراسرار انداز میں مسکرایا تھا۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑے اسی نئے راستے کی طرف جا رہا تھا۔ پھر ان دونوں کو دور سے کچھ نظر آنے لگا تھا۔
٭٭٭٭
سالار نے ہڑ بڑا کر آنکھ کھولی۔ کمرے میں مکمل تاریکی تھی۔ وہ فوری طور پر سمجھ نہیں سکا کہ وہ کہاں ہے۔ اس کی سماعتوں نے دور کہیں کسی مسجد سے سحری کے آغاز کا اعلان سنا۔ اس کمرے کے گھپ اندھیرے کو کھلی آنکھوں سے کھوجتے ہوئے اسے اگلا خیال اس خواب اور امامہ کا آیا تھا… وہ کوئی خواب دیکھ رہا تھا، جس سے وہ بیدار ہوا تھا۔
مگر خواب میں وہ امامہ کو کیا دکھانے والا تھا، اسے کچھ یاد نہیں آیا…”امامہ!” اس نے دل کی دھڑکن جیسے ایک لمحے کے لیے رکی… وہ کہاں تھی؟ کیا پچھلی رات ایک خواب تھی؟
وہ یک دم جیسے کرنٹ کھا کر اٹھا۔ اپنی رکی سانس کے ساتھ اس نے دیوانہ وار اپنے بائیں جانب بیڈ ٹیبل لیمپ کا سوئچ آن کیا۔ کمرے کی تاریکی جیسے یک دم چھٹ گئی۔ اس نے برق رفتاری سے پلٹ کر اپنی داہنی جانب دیکھا اور پرسکون ہو گیا۔ اس کی رکی سانس چلنے لگی۔ وہ وہیں تھی۔ وہ ”ایک خواب”سے کسی ”دوسرے خواب” میں داخل نہیں ہوا تھا۔
یک دم آن ہونے والے بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ کی تیز روشنی چہرے پر پڑنے پر امامہ نے نیند میں بے اختیار اپنے ہاتھ اور بازو کی پشت سے اپنی آنکھوں اور چہرے کو ڈھک دیا۔
سالار نے پلٹ کر لیمپ کی روشنی کو ہلکا کر دیا۔ وہ اسے جگانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اس سے چند فٹ کے فاصلے پر تھی۔ گہری پر سکون نیند میں۔ اس کا ایک ہاتھ تکیے پر اس کے چہرے کے نیچے دبا ہوا تھا اور دوسرا اس وقت اس کی آنکھوں کو ڈھانے ہوئے تھا۔ 
اس کی ادھ کھلی ہتھیلی اور کلائی پر مہندی کے خوب صورت نقش و نگار تھے۔ مٹتے ہوئے نقش و نگار، لیکن اب بھی اس کے ہاتھوں اور کلائیوں کو خوب صورت بنائے ہوئے تھے۔
سالار کو یاد آیا، وہ مہندی کسی اور کے لیے لگائی گئی تھی… اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی۔ اس نے بے اختیار چند لمحوں کے لیے آنکھیں بند کیں۔
کسی اور کے لیے؟
پچھلی ایک شام ایک بار پھر کسی فلم کی طرح اس آنکھوں کے سامنے سیکنڈ کے ہزاروں حصے میں گزر گئی تھی۔ اس نے سعیدہ اماں کے صحن میں اُس چہرے کو نو سال کے بعد دیکھا تھا اور نو سال کہیں غائب ہو گئے تھے۔ وہ ذرا سا آگے جھکا اس نے بڑی نرمی سے اس کے ہاتھ کو اس کے چہرے سے ہٹا دیا۔ بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ کی زرد روشنی میں اس سے چند انچ دور وہ اس پر جھکا، اسے مبہوت دیکھتا رہا۔ وہ گہرے سانس لیتی جیسے اسے زندگی دے رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے وہ جیسے کسی طلسم میں پہنچا ہوا تھا۔ بے حد غیر محسوس انداز میں اس نے امامہ کے چہرے پر آئے کچھ بالوں کو اپنی انگلیوں سے بڑی احتیاط سے ہٹایا۔
٭٭٭٭
”میں لائٹ آف کر کے نہیں سو سکتا۔” امامہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔ اس نے سالار کو سونے سے پہلے لائٹ آف کرنے کے لیے کہا تھا۔
فوری طور پر امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہے… اگر وہ لائٹ آف کر کے نہیں سو سکتا تھا تو وہ لائٹ آن رکھ کر نہیں سو سکتی تھی، لیکن وہ یہ بات اسے اتنی بے تکلفی سے نہیں کہہ سکتی تھی، جتنے اطمینان سے وہ اسے کہہ رہا تھا۔
”کیا ہوا؟” الارم سیٹ کر کے سیل فون کو بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اسے دیکھ کر ٹھٹھکا۔ وہ کمبل لپیٹے اسی طرح بیڈ پر بیٹھی جیسے کچھ سوچ رہی تھی۔ یہ سالار کے گھر اس کی پہلی رات تھی۔
”کچھ نہیں۔” وہ اپنے بال لپیٹتے ہوئے اپنا تکیہ سیدھا کرنے لگی۔
”تم شاید لائٹ آف کر کے سوتی ہو۔” سالار کو اچانک خود ہی احساس ہو گیا تھا۔ وہ بستر پر لیٹتے لیٹتے رک گئی۔
”ہمیشہ۔” اس نے بے ساختہ کہا۔
”پھر کچھ کرتے ہیں۔” سالار نے بے ساختہ گہرا سانس لے کر سر کھجاتے ہوئے کچھ سوچنے والے انداز میں کمرے کی لائٹس کا جائزہ لیا۔
”میں دیکھتا ہوں، دوسرے بیڈ روم میں زیرو کا بلب ہے اگر وہ…” وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔ امامہ نے تاثرات سے اسے لگا کہ یہ حل بھی اس کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔
”زیرو کے بلب کی کتنی روشنی ہوتی!” سالار نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھ کر کہا۔
”کمرے میں تھوڑی سی بھی روشنی ہو تو میں نہیں سو سکتی۔ میں ”اندھیرے ” میں سوتی ہوں۔” اس نے پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنا مسئلہ بتایا۔
”عجیب عادت ہے۔” وہ بے ساختہ کہہ کر ہنسا۔
اس کی بات سے زیادہ اس کی ہنسی امامہ کو کھلی۔
”ٹھیک ہے لائٹ آن رہنے دو۔” اس نے آہستہ سے کہا۔
”نہیں… نو پرابلم میں اسے آف کر رہا ہوں۔”
دونوں بیک وقت اپنے اپنے موقف سے دست بردار ہوئے تھے۔
سالار نے لائٹ آف کر دی اور پھر سونے کے لیے خود بھی بستر پر لیٹ گیا لیکن وہ جانتا تھا، یہ اس کے لیے مشکل ترین کام تھا۔ مارگلہ کی پہاڑی پر آٹھ سال پہلے گزاری ہوئی اس ایک رات کے بعد وہ کبھی کمرے کی لائٹ بند کر کے نہیں سو سکا تھا، لیکن اس وقت اس نے مزید بات نہیں کی۔ چند گھنٹوں کے بعد اسے دوبارہ سحری کے لیے اٹھ جانا تھا۔ وہ یہ چند گھنٹے بستر میں چپ چاپ لیٹ کر گزار سکتا تھا۔ ویسے بھی ”اندھیرا” تھا، پر آج وہ ”اکیلا” نہیں تھا۔
کچھ دیر دونوں کے درمیان مکمل خاموشی رہی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بات کا آغاز کیسے کریں… سالار کے لیے خاموشی کا یہ وقفہ زیادہ تکلیف دہ تھا۔
تاریکی میں امامہ نے سالار کو گہرا سانس لے کر کہتے سنا۔
”اب اگر اتنی بڑی قربانی دے رہا ہوں میں لائٹ آف کر کے تو ”کوئی ” ہاتھ ہی پکڑ لے۔” امامہ کو بے اختیار ہنسی آئی۔ وہ اندھیرے میں اس کے کچھ قریب ہوئی اور سالار کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”تمہیں ڈر لگ رہا ہے کیا؟” اس کے لہجے میں نرمی اور اپنائیت تھی۔
”اگر ہاں کہوں گا تو کیا کرو گی؟” سالار نے جان بوجھ کر اسے چھیڑا۔
”تسلی دوں گی اور کیا کروں گی۔” وہ محجوب ہوئی تھی۔
”جیسے اب دے رہی ہو؟” اسے امامہ کو تنگ کرنے میں مزا آرہا تھا لیکن یہ جملہ کہنے سے پہلے اس نے اپنے سینے پر دھرے اس کے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ اس کے متوقع جوابی عمل کو سالار سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا تھا۔ امامہ واقعی ہاتھ ہٹانے ہی والی تھی۔
”ڈر کیوں لگتا ہے تمہیں؟” امامہ نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
”ڈر نہیں لگتا، بس صرف سو نہیں سکتا۔”
”کیوں؟” وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔
وہ فوری جواب نہیں دے سکا۔ مارگلہ کی وہ رات سالار کی نظروں میں گھومنے لگی تھی۔ امامہ چند لمحے اس کے جواب کا انتظار کرتی رہی پھر بولی۔
”بتانا نہیں چاہتے…؟” سالار کو حیرانی ہوئی۔ وہ کیسے اس کا ذہن پڑھ رہی تھی؟
”اور ایسا کب سے ہے؟” امامہ نے اپنے سوال کو بدل دیا تھا۔
”آٹھ سال سے۔” سالار نے جواب دیا۔
وہ مزید کوئی سوال نہیں کر سکی۔ اسے بھی بہت کچھ یاد آنے لگا تھا… آٹھ سال، آٹھ سال… وہ آٹھ سال سے اندھیرے سے خوف زدہ تھا… اور وہ نو سال سے روشنی سے خوف کھاتی پھر رہی تھی… دنیا سے چھپتی پھر رہی تھی۔ اس نے سالار سے پھر کوئی سوال نہیں کیا۔ ایک دوسرے کے وجود میں پیوست کانٹوں کو نکالنے کے لیے ایک رات ناکافی تھی۔ وہ اب اس کے ہاتھ کی پشت کو چوم کر اسے اپنی بند آنکھوں پر رکھ رہا تھا۔ امامہ بے اختیار رنجیدہ ہوئی۔
”میں لائٹ ‘آن کر دیتی ہوں۔” اس نے کہا۔
”نہیں… اندھیرا اچھا لگنے لگا ہے مجھے۔” وہ اسی طرح اس کا ہاتھ آنکھوں پر رکھے بڑبڑایا تھا۔
٭٭٭٭
بہت نرمی سے جھک کر اس نے امامہ کے چہرے کو اپنے ہونٹوں سے چھوا۔ وہ اس سے باتیں کرتا کس وقت سویا تھا، اسے اندازہ نہیں ہوا اور اب وہ جاگا تو اسے حیرت ہو رہی تھی۔ اندھرے میں سونا اتنا مشکل اور اتنا ہولناک ثابت نہیں ہوا تھا، جتنا وہ سمجھتا رہا تھا۔
کمبل کو کچھ اوپر کھینچتے ہوئے اس نے اسے گردن تک ڈھانپ دیا اور پھر لیمپ آف کرتے ہوئے بڑی احتیاط سے بستر سے اٹھ گیا۔ ڈرائنگ روم کی طرف جاتے جاتے وہ اپنے سیل فون پر لگا الارم آف کر گیا۔
واش روم میں اس نے واش بیسن پر امامہ کے ہاتھ سے اتری کانچ کی کچھ چوڑیاں اور اس کے ایر رنگز دیکھے۔ اس نے ایر رنگز اٹھا لیے۔ وہ دیر تک انہیں اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھے دیکھتا رہا۔ وہ بہت خوب صورت تھے مگر اب پرانے ہو رہے تھے۔
جس وقت وہ نہا کر باہر نکلا، وہ تب بھی گہری نیند میں تھی۔ کمرے کی لائٹ آن کیے بغیر وہ دبے پاوؑں بیڈ روم سے باہر آگیا۔ بہت دور کسی مسجد میں کوئی نعت پڑھ رہا تھا یا محمد… آواز اتنی مدھم تھی کہ سمجھنا مشکل تھا۔ اس نے سٹنگ ایریا کی لائٹ آن کر دی۔ لائٹ آن کرتے ہی اس کی نظر سینٹر ٹیبل پر پڑے کافی کے دو مگز پر پڑی۔
وہ دنوں رات کو وہیں بیٹھے کافی پیتے ہوئے باتیں کرتے رہے تھے۔ صوفے پر اس کی اونی شال پڑی تھی، جس میں وہ اپنے پاوؑں چھپائے بیٹھی رہی تھی۔ رات ایک بار پھر جیسے کسی خواب کا قصہ لگنے لگی تھی… بے یقینی تھی کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی تھی… خوش قسمتی تھی کہ اب بھی گمان بنی ہوئی تھی۔
وہ بھول گیا کہ وہ بیڈ روم سے یہاں کیا کرنے آیا تھا۔ چند لمحوں کے لیے وہ واقعی سب کچھ بھول گیا تھا۔ بس ”وہ” تھی اور ”وہ” تھی تو سب کچھ تھا۔
اس کے سیل پر آنے والی فرقان کی کال نے یک دم اسے چونکا دیا تھا۔ کال ریسیو کیے بغیر وہ بیرونی دروازے کی طرف گیا۔ وہ اسے سحری دینے آیا تھا۔
٭٭٭٭
اس کی آنکھ الارم کی آواز سے کھلی تھی۔ مندھی آنکھوں کے ساتھ اس نے لیٹے لیٹے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑے اس الارم کو بند کرنے کی کوشش کی، لیکن الارم کلاک بند ہونے کے بجائے نیچے کارپٹ پر گر گیا۔ امامہ کی نیند یک دم غائب ہو گئی۔ الارم کی آواز جیسے اس کے اعصاب پر سوار ہونے لگی تھی۔ وہ کچھ جھلا کر اٹھی تھی۔ بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ آن کر کے وہ کمبل سے نکلی اور بے اختیار کپکپائی۔ سردی بہت تھی۔ اس نے کمبل ہٹاتے ہوئے بیڈ کی پائنتی کی طرف اپنی اونی شال ڈھونڈنے کی کوشش کی… وہ وہاں نہیں تھی۔ اس نے جھک کر کارپٹ پر دیکھا اب بھی بج رہا تھا۔ مگر نظر اب بھی نہیں آرہا تھا۔ اس کی جھنجھلاہٹ بڑھ گئی تھی۔ تب ہی اس نے اچانک کوئی خیال آنے پر سالار کے بستر کو دیکھا۔ وہ خالی تھا۔ اسے جیسے یک دم یاد آیا کہ وہ ”کہاں” تھی۔ جھنجھلاہٹ یک دم غائب ہوئی تو اور ساتھ ہی الارم کی آواز بھی… یہ سحری کا وقت تھا۔
امامہ، سالار کے گھر پر تھی ا ور یہ اس کی نئی زندگی کا پہلا دن تھا۔
وہ دوبارہ اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ کمبل کے ایک کونے سے اس نے اپنے کندھے ڈھانپنے کی کوشش کی۔ اس کے جسم کی کپکپاہٹ کچھ کم ہوئی۔ اس نے پہلی بار اپنے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑی چیزوں کو غور سے دیکھا۔ وہاں رات کو سالار نے گھڑی رکھی تھی… لیکن اب وہاں نہیں تھی۔ ایک چھوٹا رائٹنگ پیڈ اور پین بھی تھا۔ پاس ہی کارڈ لیس فون تھا۔ پانی کی ایک چھوٹی بوتل بھی وہیں تھی اور اس کے پاس اس کا سیل پڑا تھا۔ اسے ایک بار پھر الارام کلاک کا خیال آیا۔ اسے یاد تھا کہ اس نے الارم نہیں لگایا تھا۔ یہ کام سالار کا تھا۔ شاید اس نے اپنے لیے الارم لگایا تھا۔
پھر جیسے اس کے ذہن میں ایک جھماکہ سا ہوا۔ بیڈ کی وہ سائیڈ جو رات کو اس نے سونے کے لیے منتخب کی تھی، وہ سالار کا بستر تھا۔ وہ عادتاً دائیں طرف گئی تھی اور سالار اسے روک نہیں سکا۔ وہ کچھ دیر چپ چاپ بیٹھی رہی، پھر اس نے بے حد ڈھیلے انداز میں اپنا سیل فون اٹھا کر ٹائم دیکھا اور جیسے کرنٹ کھا کر اس نے کمبل اتار پھینکا۔ سحری ختم ہونے میں صرف دس منٹ باقی تھے اور سالار وہ الارم یقینا اسے بیدار کرنے کے لیے لگا کر گیا تھا۔ اسے بے ساختہ غصہ آیا، وہ اسے خود بھی جگا سکتا تھا۔
جب تک وہ کپڑے تبدیل کر کے لاوؑنج میں گئی، اس کا غصہ غائب ہو چکا تھا۔ کم از کم آج وہ اس سے خوش گوار موڈ میں ہی سامنا چاہتی تھی۔ سٹنگ ایریا کے ڈائننگ ٹیبل پر سحری کے لیے کھانا رکھا تھا۔ وہ بہت تیزی سے کچن میں کھانے کے برتن لینے کے لیے گئی تھی لیکن سنک میں دو افراد کے استعمال شدہ برتن دیکھ کر اسے جیسے دھچکا لگا تھا۔ وہ کھانا یقینا فرقان کے گھر سے آیا تھا اور وہ فرقان کے ساتھ ہی کھا چکا تھا۔ اسے خوامخواہ خوش فہمی ہوئی تھی کہ آج اس کے گھر میں پہلی سحری تو وہ ضرور اسی کے ساتھ کرے گا… بوجھل دل کے ساتھ ایک پلیٹ لے کر وہ ڈائننگ ٹیبل پر آگئی، لیکن چند لقموں سے زیادہ نہیں لے سکی۔ اسے کم از کم آج اس کا انتظار کرنا چاہیے تھا… اس کے ساتھ کھانا کھانا چاہیے تھا… امامہ کو واقعی بہت رنج ہوا تھا۔
چند لقموں کے بعد ہی وہ بڑی بے دلی سے ٹیبل سے برتن اٹھانے لگی۔
برتن دھوتے دھوتے اذان ہونے لگی تھی، جب اسے پہلے بار خیال آیا کہ سالار گھر میں نظر نہیں آرہا۔
اپنے ہاتھ میں موجود پلیٹ دھوتے دھوتے وہ اسے اسی طرح سنک میں چھوڑ کر باہر آگئی۔ اس نے سارے گھر میں دیکھا۔ وہ گھر میں نہیں تھا۔
پھر کچھ خیال آنے پر وہ بیرونی دروازے کی طرف آئی۔ دروازہ مقفل تھا لیکن ڈور چین ہٹی ہوئی تھی۔ وہ یقینا گھر پر نہیں تھا… کہاں تھا؟ اس نے نہیں سوچا تھا۔
اس کی رنجیدگی میں اضافہ ہوا۔ وہ اس کی شادی کے دوسرے دن اسے گھر پر اکیلا چھوڑ کر کتنی بے فکری سے غائب ہو گیا تھا۔ اسے پچھلی رات کی ساری باتیں جھوٹ کا پلندہ لگی تھیں۔ واپس کچن میں آکر وہ کچھ دیر بے حد دل شکستگی کی کیفیت میں سنک میں پڑے برتنوں کو دیکھتی رہی۔ وہ ”محبوبہ” سے ”بیوی” بن چکی تھی مگر اتنی جلدی تو نہیں۔ ناز برداری نہ سہی خیال تو کرنا چاہیے۔ اس کی آزردگی میں کچھ اور اضافہ ہوا تھا۔ ”چند گھنٹوں کے اندر کوئی اتنا بدل سکتا ہے، مگر رات کو تو وہ… ” اس کی زنجیدگی بڑھتی جا رہی تھی۔
”یقیناً سب کچھ جھوٹ کہہ رہا ہو گا ورنہ میرا کچھ تو خیال کرتا۔” وہ رنجیدگی اب صدمے میں بدل رہی تھی۔
وہ نماز پڑھ چکی تھی اور سالار کا ابھی بھی کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ اسے تھوڑی سی تشویش ہوئی۔ اگر وہ فجر کی نماز کے لیے بھی گیا تھا تو اب تک اسے آجانا چاہیے تھا۔ پھر اس نے اس تشویش کو سر سے جھٹک دیا۔
٭٭٭٭
سالار جس وقت دوبارہ اپارٹمنٹ میں آیا، وہ گہری نیند میں تھی۔ بیڈ روم کی لائٹ آف تھی اور ہیٹر آن تھا۔ وہ اور فرقان فجر کی نماز سے بہت دیر پہلے مسجد میں چلے جاتے اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے۔ فجر کی نماز کے بعد وہ دونوں وہیں سے بلڈنگ کے جم میں چلے جاتے اور تقریباً ایک گھنٹے کے ورک آوؑٹ کے بعد وہاں سے آتے اور آج یہ دورانیہ ”آمنہ” کے امامہ ہونے کی وجہ سے کچھ لمبا ہو گیا تھا۔ فرقان سحری کے وقت ان دونوں کے لیے کھانا لے کر آیا تھا اور وہ بھونچکا بیٹھا رہ گیا تھا۔ وہ رات کو سالار کے جس بیان کوصدمے کی وجہ سے ذہنی حالت میں ہونے والی کسی خراب کا نتیجہ سمجھ رہا تھا، وہ کوئی ذہنی خرابی نہیں تھی۔
وہ اطمینان سے اس کے سامنے بیٹھا سحری کر رہا تھا اور فرقان اسے رشک سے دیکھ رہا تھا۔ رشک کے علاوہ کوئی اس پر کر بھی کیا سکتا تھا۔
”کیا ہوا؟” سالار نے سحری کرتے ہوئے اس کی اتنی لمبی خاموشی پر اسے کچھ حیرانی سے دیکھا۔ فرقان اس کے سامنے بیٹھا یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔
”تم آج اپنی نظر اتروانا۔” فرقان نے بالآخر اس سے کہا۔
”اچھا…؟” وہ ہنس پڑا۔ اس سے زیادہ احمقانہ بات کم از کم اس گفتگو کے بعد کوئی نہیں کر سکتا تھا۔
”میں مذاق نہیں کر رہا۔” فرقان نے اپنے گلاس میں پانی انڈیلتے ہوئے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
جوکچھ ہوا تھا، اسے سمجھنے سے زیادہ اسے ہضم کرنے میں اسے دقت ہو رہی تھی۔ کسی کو بھی ہو سکتی تھی سوائے سامنے بیٹھے ہوئے اس شخض کے، جو اس وقت کانٹے کے ساتھ آملیٹ کا آخری ٹکڑا اپنے منہ میں رکھ رہا تھا۔
”اور اگر کوئی صدقہ وغیرہ دے سکو تو وہ بھی بہتر ہے۔” فرقان نے اس کے ردِعمل کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ سالار اب بھی خاموش رہا۔
”آمنہ سحری نہیں کرے گی؟” فرقان کو یک دم خیال آیا۔
”سو رہی ہے وہ ابھی… میں الارم لگا آیا ہوں، ابھی کافی وقت ہے سحری کا ٹائم ختم ہونے میں۔” سالار نے کچھ لاپروائی سے اس سے کہا۔
”فرقان! اب بس کرو…” اس سے بات کرتے کرتے وہ ایک بار پھر فرقان کی نظروں سے جھنجھلایا۔ وہ پھر اسے ویسے ہی دیکھ رہا تھا۔

مجھے اس طرح آنکھیں پھاڑ کر دیکھنا بند کرو۔” اس نے اس بار کچھ خفگی سے فرقان سے کہا۔
”تم… تم بہت نیک آدمی ہو سالار…! اللہ تم سے بہت خوش ہے…” وہ آملیٹ کا ایک اور ٹکڑا لیتے لیتے فرقان کی بات پر ٹھٹھک گیا۔
اس کی بھوک یک دم ختم ہو گئی تھی۔ مزید ایک لفظ کہے بغیر اس نے پلیٹ پیچھے ہٹا دی اور اپنے برتن اٹھا کر اندر کچن میں لے گیا۔ وہ خوشی، سرشاری، اطمینان اور سکون جو کچھ دیر پہلے جیسے اس کے پورے وجود سے چھلک رہا تھا، فرقان نے پلک جھپکتے اسے دھواں بن کر غائب ہوتے دیکھا۔
مسجد کی طرف جاتے ہوئے فرقان نے بالآخر اس سے پوچھا تھا۔
”اتنے چپ کیوں ہو گئے ہو؟” وہ اسی طرح خاموشی سے چلتا رہا۔
”میری کوئی بات بری لگی ہے؟”
وہ اب بھی خاموش رہا۔ مسجد کے دروازے پر اپنے جو گرز اتار کر اندر جانے سے پہلے اس نے فرقان سے کہا۔
”مجھے تم سب کچھ کہہ لینا فرقان! لیکن کبھی نیک آدمی مت کہنا۔”
فرقان کچھ بول نہیں سکا۔ سالار مسجد میں داخل ہو گیا تھا۔
٭٭٭٭
امامہ کی آنکھ گیارہ بجے سیل فون پر آنے والی ایک کال سے کھلی تھی، وہ ڈاکٹر سبط علی تھے۔ ان کی آواز سنتے ہی اس کا دل بھر آیا تھا۔
”میں نے آپ کو نیند سے جگا دیا؟”
وہ معذرت خواہانہ انداز میں بولے۔ انہوں نے اس کی رندھی ہوئی آواز پر غور نہیں کیا تھا۔
”نہیں، میں اٹھ گئی تھی۔” اس نے بستر سے اٹھتے ہوئے جھوٹ بولا۔
وہ اس کا حال احوال پوچھتے رہے۔ وہ بڑے بوجھل دل کے ساتھ تقریباً خالی الذہنی کے عالم میں ہوں ہاں میں جواب دیتی رہی۔
چند منٹ اور بات کرنے کے بعد انہوں نے فون بند کر دیا۔ کال ختم کرتے ہوئے اس کی نظر اپنے سیل فون میں چمکتے ہوئے نام پر پڑی تھی۔ وہ چونک اٹھی، اسے فوری طور پر یاد نہیں آیا کہ اس نے سالار کا نام اور فون نمبر کب محفوظ کیا تھا۔ یقینا یہ بھی اسی کا کارنامہ ہو گا۔ اس نے اس کا ایس ایم ایس پڑھنا شروع کیا۔
”پلیز جاگنے کے بعد مجھے میسج کرنا۔ مجھے ضروری بات کرنا ہے۔” اسے نجانے کیوں اس کا میسج پڑھ کر غصہ آیا۔
”بڑی جلدی یاد آگئی ہیں۔” وہ میسج کا ٹائم چیک کرتے ہوئے بڑبڑائی۔ وہ شاید دس، پچاس پر آیا تھا۔ ”اگر آفس جاتے ہوئے اسے میں یاد نہیں آئی تو آفس میں بیٹھ کر کیسے آسکتی ہوں۔” وہ اس وقت اس سے جی بھر کر بدگمان ہو رہی تھی اور شاید ٹھیک ہی ہو رہی تھی۔ وہ پچھلی رات کے لیے ”چیف گیسٹ” تھی اور اگلی صبح وہ اس کے ساتھ بن بلائے مہمان جیسا سلوک کر رہا تھا۔ کم از کم امامہ اس وقت یہی محسوس کر رہی تھی وہ اس وقت وہ باتیں سوچ رہی تھی جو سالار کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھیں۔
وہ کچھ عجیب انداز میں خود ترسی کا شکار ہو رہی تھی۔ اس نے کمبل تہہ کرتے ہوئے بستر ٹھیک کیا اور بیڈ روم سے باہر نکل آئی۔ اپارٹمنٹ کی خاموشی نے اس کی اداسی میں اضافہ کیا تھا۔ کھڑکیوں سے سورج کی روشنی اندر آرہی تھی۔ کچن کے سنک میں وہ برتن ویسے ہی موجود تھے جس طرح وہ چھوڑ کر گئی تھی۔
”ہاں، وہ بھلا کیوں دھوتا، یہ سارے کام تو ملازماوؑں کے ہوتے ہیں۔ لیکن میں تو نہیں دھووؑں گی، چاہے ایک ہفتہ ہی پڑے رہیں۔ میں ملازمہ نہیں ہوں۔” ان برتنوں کو دیکھ کر اس کی خفگی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔ اس وقت وہ ہر بات منفی انداز میں لے رہی تھی۔
وہ بیڈ روم میں آئی تو اس کا سیل فون بج رہا تھا۔ ایک لمحہ کے لیے اس کو خیال آیا کہ شاید سالار کی کال ہو، لیکن وہ مریم کی کال تھی۔ امامہ کا حال احوال پوچھنے کے بعد اس نے بڑے اشتیاق کے عالم میں امامہ سے پوچھا۔
”سالار نے منہ دکھائی میں کیا دیا تمہیں؟” امامہ چند لمحے بول نہیں سکی۔ اس نے تو کوئی تحفہ نہیں دیا تھا اسے، سالار کے نامہ اعمال میں ایک اور گناہ کا اضافہ ہو گیا تھا۔
”کچھ بھی نہیں۔” امامہ نے کچھ دل شکستہ انداز میں کہا۔
”اچھا…؟ چلو کوئی بات نہیں، بعد میں دے دے گا، شاید اسے خیال نہیں آیا۔” مریم نے بات بدل دی تھی، لیکن اس کا آخری جملہ امامہ کو چبھا۔ اسے خیال نہیں آیا… ہاں واقعی اسے خیال نہیں آیا ہو گا۔ وہ بے حد خفگی کے عالم میں سوچتی رہی۔
سالار سے اس کے گلے شکوے اس گھر میں آنے کے دوسرے دن ہی شروع ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود وہ لاشعوری طور پر اس کی کال کی منتظر تھی۔ کہیں نہ کہیں اسے اب بھی امید تھی کہ وہ کم از کم دن میں ایک بار تو اسے کال کرے گا۔ کم از کم ایک بار… ایک لمحے کو اسے خیال آیا کہ اسے میسج کر کے اسے اپنے ہونے کا احساس تو دلانا چاہیے۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے اس خیال کو ذہن سے جھٹک دیا۔
وہ بے حد بے دلی سے اپنے کپڑے نکال کر نہانے کے لیے چلے گئی۔ واش روم سے باہر نکلتے ہی اس نے سب سے پہلے سیل فون چیک کیا تھا وہاں کوئی میسج تھا اور نہ کوئی مسڈ کال۔
چند لمحے وہ سیل فون پکڑے بیٹھی رہی پھر اس نے اپنی ساری انا اور سارے غصے کو بالائے طاق رکھ کر اسے مسیج کر دیا۔
اس کاخیال تھا، وہ اسے فوراً کال کرے گا لیکن اس کا یہ خیال غلط ثابت ہوا تھا۔ پانچ منٹ… دس منٹ… پندرہ منٹ… اس نے اپنی انا کا کچھ اور مٹی کرتے ہوئے اسے میسج کیا۔ بعض دفعہ میسج بھی تو نہیں ہیں، اس نے اپنی عزت نفس کی ملامت سے بچنے کے لیے بے حد کمزور تاویل تلاش کی۔
”آج کل ویسے بھی نیٹ ورک اور سگنلز کا اتنا زیادہ مسئلہ ہے۔”
”عزت نفس” نے اسے جواباً ڈوب مرنے کے لیے کہا تھا۔ فون اب بھی نہیں آیا تھا، لنچ بریک کے باوجود۔ ماہ رمضان نہ ہوتا تو شاید وہ اس وقت اپنی ”عزت نفس” کو اس کے لنچ میں مصروف ہونے کا بہانہ پیش کرتی۔
اب وہ واقعی ناخوش تھی بلکہ ناخوش سے بھی زیادہ، اب اس کا دل رونے کو چاہ رہا تھا۔
کچھ دیر بعد اس نے سالار کے سیل پر کال کی۔ دو بیلز کے بعد کال کسی لڑکی نے ریسیو کی۔ ایک لمحے کے لیے امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ سالار کے بجائے کسی لڑکی کی آواز کی توقع نہیں کر رہی تھی۔
”میں آپ کی کیا ہیلپ کر سکتی ہوں میم؟” لڑکی نے بڑی شائستگی کے ساتھ اس سے پوچھا۔
”مجھے سالار سے بات کرنی ہے۔” اس نے کچھ تذبذب سے کہا۔
”سالار سکندر صاحب تو ایک میٹنگ میں ہیں۔ اگر آپ کوئی کلائنٹ ہیں اور آپ کو بینک سے متعلقہ کوئی کام ہے تو میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں یا آپ میسج چھوڑ دیں ان کے لیے… میٹنگ میں بریک آئے گی تو میں انہیں انفارم کر دوں گی۔” اس لڑکی نے بے حد پروفیشنل انداز میں کہا۔ امامہ خاموش رہی۔
”ہیلو… مس امامہ!” اس لڑکی نے یقینا سالار کے سیل پر اس کی آئی ڈی پڑھ کر اس کا نام لیا تھا۔ وہ اب اسے متوجہ کر رہی تھی۔
”میں بعد میں کال کر لوں گی۔” اس نے بددلی کے ساتھ فون بند کر دیا۔
”تو وہ میٹنگ میں ہے اور اس کا سیل تک اس کے پاس نہیں… اور مجھے کہہ رہا تھا کہ میں جاگنے کے بعد اسے انفارم کروں… کس لیے؟” وہ دل برداشتہ ہو گئی تھی۔
٭٭٭٭
“ارے بیٹا! میں تو کب سے تمہارے فون کے انتظار میں بیٹھی ہو۔ تمہیں اب یاد آئی سعیدہ اماں کی۔” سعیدہ اماں نے اس کی آواز سنتے ہی گلہ کیا۔
اس نے جواباً بے حد کمزور بہانے پیش کیے۔ سعیدہ اماں نے اس کی وضاحتوں پر غور نہیں کیا۔
”سالار ٹھیک تو ہے نا تمہارے ساتھ؟”
انہوں نے اس سوال کے مضمرات کا اس صورت حال میں سوچے بغیر پوچھا اور امامہ کے صبر کا جیسے پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔ وہ یک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ سعیدہ اماں بری طرح گھبرا گئی تھیں۔
”کیا ہوا بیٹا؟… ارے اس طرح کیوں رو رہی ہو…؟ میرا تو دل گھبرانے لگا ہے… کیا ہو گیا آمنہ؟” سعیدہ اماں کو جیسے ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔
”سالار نے کچھ کہہ دیا ہے کیا؟” سعیدہ اماں کو سب سے پہلا خیال یہی آیا تھا۔
”مجھے اس سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔” امامہ نے ان کے سوال کا جواب دیے بغیر کہا۔
سعیدہ اماں کی حواس باختگی میں اضافہ ہوا۔
”میں نے کہا بھی تھا آپ سے۔” وہ روتی جا رہی تھی۔
”کیا وہ اپنی پہلی بیوی کی باتیں کرتا رہا ہے تم سے؟”
سعیدہ اماں نے سالار کے حوالے سے واحد خدشے کے بے اختیار ذکر کیا۔
”پہلی بیوی…؟” امامہ نے روتے روتے کچھ حیرانی سے سوچا۔
لیکن سالار کے لیے اس وقت اس کے دل میں اتنا غصہ بھرا ہوا تھا کہ اس نے بلا سوچے سمجھے سعیدہ اماں کے خدشے کی تصدیق کی تھی۔
”جی…!” اس نے روتے ہوئے جواب دیا۔
سعیدہ اماں کے سینے پر جیسے گھونسا لگا۔ یہ خدشہ تو نہیں تھا لیکن ان کا خیال تھا کہ اپنے گھر لے جاتے ہی پہلے دن تو وہ کم از کم اپنی اس کئی سال پرانی منکوحہ کا ذکر نہیں کرے گا۔ امامہ کو سالار پر کیا غصہ آنا تھا جو سعیدہ اماں کو آیا تھا، انہیں یک دم پچھتاوا ہوا تھا۔ واقعی کیا ضرورت تھی یوں راہ چلتے کسی بھی دو ٹکے کے آدمی کو پکڑ کر یوں اس کی شادی کر دینے کی۔ انہوں نے پچھتاتے ہوئے سوچا۔
”تم فکر نہ کرو… میں خود سبط علی بھائی سے بات کروں گی۔” سعیدہ اماں نے بے حد غصے میں کہا۔
”کوئی فائدہ نہیں اماں! بس میری قسمت ہی خراب ہے۔”
سعیدہ اماں کے پاس آنے والی عورتوں کے منہ سے کئی بار سنا ہوا گھسا پٹا جملہ کس طرح اس کی زبان پر آگیا، اس کا اندازہ امامہ کو نہیں ہوا لیکن اس جملے نے سعیدہ اماں کے دل پر جیسے آری چلا دی۔
”ارے کیوں قسمت خراب ہے… کوئی ضرورت نہیں ہے وہاں رہنے کی… تم ابھی آجاوؑ اس کے گھر سے… ارے میری معصوم بچی پر اتنا ظلم… ہم نے کوئی جہنم میں تھوڑا پھیکنا ہے تمہیں۔”
امامہ کو ان کی باتوں پر اور رونا آیا۔ خود ترسی کا اگر کوئی ماوؑنٹ ایورسٹ ہوتا تو وہ اس وقت اس کی چوٹی پر جھنڈا گاڑ کر بیٹھی ہوتی۔
”بس ! تم ابھی رکشہ لو اور میری طرف آجاوؑ۔ کوئی ضرورت نہیں ہے ادھر بیٹھے رہنے کی۔”
سعیدہ اماں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔
یہ گفتگو مزید جاری رہتی تو شاید امامہ بغیر سوچے سمجھے روتے ہوئے اسی طرح وہاں سے چل بھی پڑتی۔ وہ اس وقت کچھ اتنی ہی جذباتی ہو رہی تھی لیکن سالار کے ستاروں کی گردش اس دن صرف چند لمحوں کے لیے اچھی ثابت ہوئی۔ سعیدہ اماں سے بات کرتے کرتے کال کٹ گئی تھی، اس کا کریڈٹ ختم ہو گیا تھا۔ امامہ نے لینڈ لائن سے کال کرنے کی کوشش کی لیکن کال نہیں ملی۔ شاید سعیدہ اماں نے فون کا ریسیور کریڈل پر ٹھیک سے نہیں رکھا تھا۔ وہ بری طرح جھنجھلائی۔
سعیدہ اماں سے بات کرتے ہوئے وہ اتنی دیر میں پہلی بار بہت اچھا محسوس کر رہی تھی، یوں جیسے کسی نے اس کے دل کا بوجھ ہلکا کر دیا ہو۔ اسے اس وقت جس ”متعصب” جانب داری کی ضرورت تھی، انہوں نے اسے وہی دی تھی۔ ان سے بات کرتے ہوئے روانی اور فراوانی سے بہنے والے آنسو اب یک دم خشک ہو گئے تھے۔
وہاں سے دس میل کے فاصلے پر اپنے بینک کے بورڈ روم میں بیٹھی evaluation team کو دی جانے والی پریزینٹیشن کے اختتامیہ سوال و جواب کے سیشن پر credibility and trust factors سے متعلقہ کسی سوال کے جواب میں بولتے ہوئے سالار کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس کے گھر پر موجود اس کی ایک دن کی بیوی اور نو سالہ ”محبوبہ” گھر پر بیٹھی اس کی ”ساکھ” اور ”نام” کا تیاپانچہ کرنے میں مصروف تھی۔ جس کو اس وقت اس وضاحت کی اس ایویلیویشن ٹیم سے زیادہ ضرورت تھی۔
سونا ہو گیا… رونا بھی ہو گیا… اب اور کیا رہ گیا تھا… امامہ نے ٹشو پیپر سے آنکھیں اور ناک رگڑتے ہوئے بالآخر ریسیور رکھتے ہوئے سوچا۔ اسے کچن کے سنک میں پڑے برتنوں کا خیال آیا، بڑی نیم دلی سے وہ کچن میں گئی اور ان برتنوں کو دھونے لگی۔
وہ شام کے لیے اپنے کپڑے نکالنے کے لیے ایک بار پھر بیڈ روم میں آگئی اور تب ہی اس نے اپنا سیل فون بجھتے سنا۔ جب تک وہ فون کے پاس پہنچی، فون بند ہو چکا تھا۔ وہ سالار تھا اور اس کے سیل پر یہ اس کی چوتھی مسڈ کال تھی۔ وہ سیل ہاتھ میں لیے اس کی اگلی کال کا انتظار کرنے لگی۔ کال کے بجائے اس کا میسج آیا۔ وہ اسے اپنے پروگرام میں تبدیلی کے بارے میں بتا رہا تھا کہ ڈاکٹر سبط علی کا ڈرائیور ایک گھنٹے تک اسے وہاں سے ڈاکٹر صاحب کے گھر لے جائے گا اور وہ افطار کے بعد آفس سے سیدھا ڈاکٹر صاحب کے گھر آنے والا تھا۔
چند لمحوں کے لیے اس کا دل چاہا، وہ فون کو دیوار پر دے مارے لیکن وہ اس کا اپنا فون تھا۔ سالار کو کیا فرق پڑتا۔
وہ اس سے رات کو اتنا لمبا چوڑا اظہار محبت نہ کرتا تو وہ آج اس سے توقعات کا یہ انبار لگا نہ بیٹھی ہوتی لیکن سالار کے ہر جملے پر اس نے لاشعوی طور پر پچھلی رات اپنے دامن کے ساتھ ایک گرہ باندھ لی تھی اور گرہوں سے بھرا وہ دامن اب اسے بری طرح تنگ کرنے لگا تھا۔
ڈاکٹر سبط علی گھر پر نہیں تھے۔ آنٹی کلثوم نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور وہ بھی جس حد تک مصنوعی جوش و خروش اور اطمینان کا مظاہرہ کر سکتی تھی، کرتی رہی۔ آنٹی کے منع کرنے کے باوجود وہ ان کے ساتھ مل کر افطار اور ڈنر کی تیاری کرواتی رہی۔
ڈاکٹر سبط علی افطار سے کچھ دیر پہلے آئے تھے اور انہوں نے امامہ کی سنجیدگی نوٹ کی تھی۔ مگر اس کی سنجیدگی کا تعلق سالار سے نہیں جوڑا تھا۔ وہ جوڑ بھی کیسے سکتے تھے۔
سالار افطار کے تقریباً آدھ گھنٹے بعد آیا تھا۔
اور امامہ سے پہلی نظر ملتے ہی سالار کو اندازہ ہو گیا تھا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ وہ اس کی خیر مقدمی مسکراہٹ کے جواب میں مسکرائی تھی، نہ ہی اس نے ڈاکٹر سبط علی اور ان کی بیوی کی طرح گرم جوشی سے اس کے سلام کا جواب دیا تھا۔ وہ بس نظریں چرا کر لاوؑنج سے اٹھ کر کچن میں چلی گئی تھی۔ ایک لمحہ کے لیے سالار کو لگا کہ شاید اسے غلط فہمی ہوئی ہے۔ آخر وہ اس سے کس بات پر ناراض ہو سکتی ہے۔
وہ ڈاکٹر سبط علی کے پاس بیٹھا ان سے باتیں کرتا ہوا اپنے ذہن میں پچھلے چوبیس گھنٹوں کے واقعات کو دہراتا اور کوئی ایسی بات ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہا جو امامہ کو خفا کر سکتی تھی۔ اسے ایسی کوئی بات یاد نہیں آئی۔ ان کے درمیان آخری گفت گو رات کو ہوئی تھی۔ وہ اس کے بازو پر سر رکھے باتیں کرتی سوئی تھی۔ خفا ہوتی تو… وہ الجھ رہا تھا…
”کم از کم میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جو اسے برا لگا ہو، شاید یہاں کوئی ایسی بات ہوئی ہو۔” سالار نے خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے سوچا۔ ”لیکن یہاں کیا بات ہوئی ہو گی…؟… شاید میں کچھ ضرورت سے زیادہ حساس ہو کر سوچ رہا ہوں، غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے مجھے۔”
وہ اب خود کو تسلی دے رہا تھا لیکن اس کی چھٹی حس اسے اب بھی اشارہ دے رہی تھی۔ بے شک وہ اس سے نو سال بعد ملا تھا مگر نو سال پہلے دیکھے جانے والا اس کا ہر موڈ اس کے ذہن پر رجسٹرڈ تھا اور وہ امامہ کے اس موڈ کو بھی جانتا تھا۔
ڈنر ٹیبل پر بھی زیادہ تر گفت گو ڈاکٹر سبط علی اور سالار کے درمیان ہی ہوئی۔ وہ آنٹی کے ساتھ وقفے وقفے سے سب کو ڈشز سرو کرتی رہی، خاموشی اب بھی برقرار تھی۔
وہ ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ مسجد میں تراویج پڑھنے آیا اور حفظ قرآن کے بعد آج پہلی بار تروایح کے دوران اٹکا۔ ایک بار نہیں دوبار… اس نے خود کو سنبھال لیا تھا لیکن وہ بار بار ڈسٹرب ہو رہا تھا۔
وہ ساڑھے دس بجے کے قریب ڈاکٹر سبط علی کے گھر سے سعیدہ اماں کے گھر جانے کے لیے نکلے تھے اور سالار نے بالآخر اس سے پوچھ ہی لیا۔
”تم مجھ سے خفا ہو؟”
کھڑکی سے باہر دیکھتے وہ چند لمحوں کے لیے ساکت ہوئی پھر اس نے کہا۔
”میں تم سے کیوں خفا ہوں گی؟” وہ بدستور کھڑکی کی طرف گردن موڑے باہر دیکھ رہی تھی۔ سالار کچھ مطمئن ہوا۔
”ہاں، میں بھی سوچ رہا تھا کہ ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی جس پر تمہار اموڈ آف ہوتا۔” کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے امامہ نے اس کی بات سنی اور اس کی برہمی کچھ اور بڑھی۔
”یعنی میں عقل سے پیدل ہوں جو بلا وجہ اپنا موڈ آف کرتی پھر رہی ہوں… اور اس نے میرے رویے اور حرکتوں کا نوٹس ہی نہیں لیا۔”
”میں تمہیں آج فون کرتا رہا لیکن تم نے فون ہی نہیں اٹھایا۔” وہ ڈرائیو کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
امامہ کو سوچتے ہوئے عجیب سی تسلی ہوئی۔
”اچھا ہوا نہیں اٹھایا یعنی اس نے محسوس تو کیا کہ میں جان بوجھ کر اس کی کال نہیں لیتی رہی۔”
”پھر میں نے گھر کے نمبر پر فون کیا۔ وہ بھی انگیجڈ تھا، تم یقینا اس وقت مصروف تھی اس لیے کال نہیں لے سکیں۔” وہ بے حد عام سے لہجے میں کہہ رہا تھا۔ وہاں بے نیازی کی انتہا تھی۔
امامہ کے رنج میں اضافہ ہوا۔ پھر اسے یاد آیا کہ اس کے فون کا بیلنس ختم ہو چکا تھا۔
”مجھے اپنے فون کے لیے کارڈ خریدنا ہے۔”
سالار نے اسے ایک دم کہتے سنا، وہ اپنا ہینڈ بیگ کھولے اس میں سے کچھ نکال رہی تھی اور جو چیز اس نے نکال کر سالار کو پیش کی تھی، اس نے چند لمحوں کے لیے سالار کو ساکت کر دیا تھا۔ وہ ہزار روپے کا ایک نوٹ تھا۔ وہ اس کے تاثرات سے بے خبر اب ونڈو سکرین سے باہر کسی ایسی شاپ کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی جہاں پر وہ کارڈز دستیاب ہوتے۔ سالار نے اپنی طرف بڑھے ہوئے اس کے ہاتھ کو پیچھے کرتے ہوئے کہا۔
”واپسی پر لیتے ہیں… اور اس کی ضرورت نہیں ہے۔”
امامہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
”تمہیں آنکھیں بند کر کے اپنا سیل فون تھما دیا تھا جب تم میری کچھ نہیں تھی تو اب کیا پیسے لوں گا تم سے!”
گاڑی میں کچھ عجیب سی خاموشی در آئی تھی۔ دونوں کو بیک وقت کچھ یاد آیا تھا اور جو یاد آیا تھا اس نے یک دم وقت کو وہیں روک دیا تھا۔
بہت غیر محسوس انداز میں امامہ نے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کے اس ٹکڑے کو بہت سی تہوں میں لپیٹنا شروع کر دیا۔ اس نے اس کی ساری رقم لوٹا دی تھی، بلکہ اس سے زیادہ ہی جتنی اس نے فون، فون کے بل اور اس کے لیے خرچ کی ہو گی۔ مگر احسان… یقینا اس کے احسانوں کا وزن بہت زیادہ تھا۔ اس نے کاغذ کی لپٹی تہوں کو دوبارہ بیگ میں ڈال لیا۔ صبح سے اکٹھی کی ہوئی بدگمانیوں کی دھند یکدم چھٹ گئی تھی یا کچھ دیر کے لیے امامہ کو ایسا ہی محسوس ہوا۔
باہر سڑک پر دھند تھی اور وہ بڑی احتیاط سے گاڑی چلا رہا تھا۔ امامہ کا دل چاہا، وہ اس سے کچھ بات کرے لیکن وہ خاموش تھا۔ شاید کچھ سوچ رہا تھا یا لفظ ڈھونڈ رہا تھا۔
”آج سارا دن کیا کرتی رہیں تم؟”
اس نے بالآخر گفت گو کا دوبارہ آغاز کرنے کی کوشش کی تھی۔ پورا دن فلیش کی طرح امامہ کی آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا۔ امامہ کو ندامت ہوئی، وہ جو کچھ کرتی رہی تھی، اسے بتا نہیں سکتی تھی۔
”میں سوتی رہی۔” اس نے پورے دن کو تین لفظوں میں سمیٹ دیا۔
”ہاں، مجھے اندازہ تھا، جاگ رہی ہوتیں تو میری کال ضرور ریسیو کرتیں۔” ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔
”پاپا، ممی اور انتیا آرہے ہیں کل شام۔” سالار نے کچھ دیر کے بعد کہا۔
امامہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
”تم سے ملنے کے لیے؟” اس نے مزید اضافہ کیا اور بالآخر سسرال کے ساتھ اس کا پہلا رابطہ ہونے والا تھا۔ امامہ کو اپنے پیٹ میں گرہیں لگتی محسوس ہوئیں۔
”تم نے انہیں میرے بارے میں بتایا ہے؟” اس نے بے حد نپے تلے الفاظ میں پوچھا۔
”نہیں، فی الحال نہیں، لیکن آج بتاوؑں گا پاپا کو فون پر۔” وہ ونڈو سکرین سے باہر دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
امامہ نے اس کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کی۔ کوئی پریشانی، تشویش، اندیشہ، خدشہ، خوف، پچھتاوا… وہ کچھ بھی پڑھنے میں ناکام رہی۔ اس کا چہرہ بے تاثر تھا اور اگر اس کے دل میں کچھ تھا بھی تو وہ اسے بڑی مہارت سے چھپائے ہوئے تھا۔
سالار نے اس کی کھوجتی نظروں کو اپنے چہرے پر محسوس کیا۔ اس نے امامہ کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔ امامہ نے بے اختیار نظریں ہٹائیں۔
”انیتا کی فلائٹ ساڑھے پانچ بجے اور پاپا کی سات بجے ہے… میں کل بینک سے جلدی ایئرپورٹ چلا جاوؑں گا، پھر ممی اور پاپا کو لے کر میرا خیال ہے نو یا ساڑھے نو بجے تک گھر پہنچوں گا۔”
”یہ تم نے کیا پہنا ہوا ہے؟” سالار نے یک دم اس کے لباس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔
تین گھنٹے پینتالیس منٹ کے بعد بالآخر اسے یاد آگیا کہ میں نے کچھ پہنا ہوا ہے۔ یہ سوچ کر امامہ کی خفگی میں کچھ اضافہ ہوا۔
”کپڑے۔” امامہ نے جواب دیا۔
سالار اس کی بات پر بے اختیار ہنسا۔ ”جانتا ہوں کپڑے پہنے ہیں، اسی لیے تو پوچھ رہا ہوں۔”
امامہ گردن موڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی کہ اب وہ تعریف کرے گا۔ اس نے سوچا۔ دیر سے سہی، لیکن اسے میرے کپڑے نظر تو آئے۔ اس کی خفگی میں کچھ اور کمی ہوئی۔
”کون سا کلر ہے یہ؟” سالار نے اپنے پیروں پر پہلی کلہاڑی ماری۔
کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے امامہ کا دل چاہا، وہ چلتی گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر کود جائے۔ پونے چار گھنٹے میں وہ اس کے کپڑوں کا رنگ بھی نہیں پہچان سکا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ اس نے اسے غور سے دیکھا نہیں تھا۔
”پتا نہیں۔” اس نے اسی طرح کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے بے حد سرد مہری سے کہا۔
”ہاں، میں بھی اندازہ نہیں کر سکا۔ آج کل خواتین پہنتی بھی تو بڑے عجیب عجیب کلر ہیں۔” سالار نے اس کے لہجے پر غور کیے بغیر عام سے انداز میں کہا۔
وہ زنک اور کاپر کے سب سے زیادہ اِن شیڈ کو ”عجیب” کہہ رہا تھا۔ امامہ کو رنج سا رنج ہوا۔ سالار شوہروں کی تاریخی غلطیاں دہرا رہا تھا۔ اس بار امامہ کا دل تک نہیں چاہا کہ وہ اس کی بات کا جواب دے، وہ اس قابل نہیں تھا۔ اسے یاد آیا، اس نے کل بھی اس کے کپڑوں کی تعریف نہیں کی تھی۔ کپڑے…؟ اس نے تو اس کی بھی تعریف نہیں کی تھی… اظہار محبت کیا تھیا اس نے … لیکن تعریف… ہاں، تعریف تو نہیں کی تھی اس نے … وہ جیسے پچھلی رات کو یاد کرتے ہوئے تصدیق کر رہی تھی، اسے دکھ ہوا۔ کیا وہ اُسے اتنی بھی خوب صورت نہیں لگی تھی کہ وہ ایک بار ہی کہہ دیتا۔ کوئی ایک جملہ، ایک لفظ، کچھ بھی نہیں، وہ ایک بار پھر خود ترسی کا شکار ہونے لگی۔ عورت اظہار محبت اور ستائش کو کبھی ”ہم معنی” نہیں سمجھتی۔ یہ کام مرد کرتا ہے اور غلط کرتا ہے۔
ڈرائیونگ کرتے ہوئے سالار کو اندازہ نہیں ہوا کہ گفت گو کے لیے موضوعات کی تلاش میں اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے اس نے کس قدر سنگین موضوع کو چھیڑ دیا تھا۔ وہ بڑے اطمینان سے جیسے ایک بارودی سرنگ کے اوپر پاوؑں رکھ کر کھڑا ہو گیا تھا جو اس کے پاوؑں اٹھاتے ہی پھٹ جاتی۔
سعیدہ اماں کی گلی میں گاڑی پارک کرنے کے بعد سالار نے ایک بار پھر امامہ کے موڈ میں تبدیلی محسوس کی۔ اس نے ایک بار پھر اسے اپنا وہم گردانا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ڈاکٹر سبط علی کے گھر پہ بھی غلط فہمی کا شکار رہا۔ آخر ہو کیا گیا ہے مجھے…؟ وہ بھلا کیوں صرف چوبیس گھنٹے میں مجھ سے ناراض ہوتی پھرے گی۔ اس نے اطمینان سے سوچا۔
سعیدہ اماں دراوزہ کھولتے ہی امامہ سے لپٹ گئی تھیں۔ چند لمحوں بعد وہ آنسو بہا رہی تھیں۔ سالار جزبز ہوا۔ آخر اتنے عرصے سے وہ اکٹھے رہ رہی تھیں۔ یقینا دونوں ایک دوسرے کو مس کر رہی ہوں گی۔ اس نے بالآخر خود کو سمجھا۔
سعیدہ اماں نے سالار کے سلام کا جواب دیا، نہ ہی ہمیشہ کی طرح اسے گلے لگا کر پیار کیا۔ انہوں نے امامہ کو گلے لگایا، اس سے لپٹ کر آنسو بہائے اور پھر اسے لے کر اندر چلی گئیں۔ وہ ہکا بکا دروازے میں ہی کھڑا رہ گیا تھا۔ انہیں کیا ہوا؟ وہ پہلی بار بری طرح کھٹکا تھا۔ اپنے احساس کو وہم سمجھ کر جھٹکنے کی کوشش اس بار کامیاب نہیں ہوئی۔ کچھ غلط تھا مگر کیا…؟ وہ کچھ دیر وہیں کھڑا رہا پھر اس نے پلیٹ کر بیرونی دروازہ بند کیا اور اندر چلا آیا۔
وہ دونوں کچھ باتیں کر رہی تھیں، اسے دیکھ کر یک دم چپ ہو گئیں۔ سالار نے امامہ کو اپنے آنسو پونچھتے دیکھا۔ وہ ایک بار پھر ڈسٹرب ہوا۔
”میں چائے لے کر آتی ہوں… بادام اور گاجر کا حلوہ بنایا ہے آج میں نے۔” سعیدہ اماں یہ کہتے ہوئے کھڑی ہوئیں۔ سالار نے بے اختیار نہیں ٹوکا۔
”سعیدہ اماں! کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم لوگ کھانا کھا کر آئے ہیں اور چائے بھی پی لی ہے۔ صرف آپ سے ملنے کے لیے آئے ہیں۔”
وہ کہتے کہتے رک گیا، اسے احساس ہوا کہ وہ پیش کش سرے سے اسے کی ہی نہیں گئی تھی۔ سعیدہ اماں مکمل طور پر امامہ کی طرف متوجہ تھیں اور امامہ اسے کچھ کھانے پینے میں متامل نظر نہیں آئی۔
”میں کھاوؑں گی اور میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں آپ کس طرح اٹھائیں گی برتن۔” امامہ نے سعیدہ اماں سے کہا اور پھر ان کے ساتھ ہی کچن میں چلی گئی۔ سالار ہونقوں کی طرح وہاں بیٹھا رہ گیا۔
اگلے پندرہ منٹ وہ اس صورت حال پر غور کرتا، وہیں بیٹھا کمرے کی چیزوں کو دیکھتا رہا۔
بالآخر پندرہ منٹ کے بعد امامہ اور سعیدہ اماں کی واپسی ہوئی۔ اسے امامہ کی آنکھیں پہلے سے کچھ زیادہ سرخ اور متورم لگیں، یہی حال کچھ اس کی ناک کا تھا۔ وہ یقینا کچن میں روتی رہی تھی مگر کس لیے؟ وہ اب الجھ رہا تھا۔ کم از کم اب وہ آنسو اسے سعیدہ اماں اور اس کی باہمی محبت و یگانگت کا نتیجہ نہیں لگ رہے تھے۔ سعیدہ اماں کے چہرے اور آنکھوں میں اسے پہلے سے بھی زیادہ سردمہری نظر آئی۔
اسے اس وقت چائے میں دلچسپی تھی نہ کسی حلوے کی طلب… کچھ بھی کھانا اس کے لیے بدہضمی کا باعث ہوتا لیکن جو ماحول یک دم وہاں بن گیا تھا، اس نے اسے ضرورت سے زیادہ محتاط کر دیا تھا۔ کسی انکار کے بغیر اس نے خاموشی سے پلیٹ میں تھوڑا سا حلوہ نکالا۔ امامہ نے ڈاکٹر سبط علی کے گھر کی طرح یہاں بھی اس سے پوچھے بغیر اس کی چائے میں دو چمچ چینی ڈال کر اسے کے سامنے رکھ دی، پھر اپنی پلیٹ میں لیا حلوہ کھانے لگی۔
چند منٹوں کی خاموشی کے بعد بالآخر سعیدہ اماں کی قوت برداشت جواب دے گئی تھی۔ اپنے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ ایک طرف رکھتے ہوئے انہوں نے اپنی عینک کو ناک پر ٹھیک کرتے ہوئے تیز نظروں سے سالار کو گھورا۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page