
آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد
قسط نمبر دس
نہیں یہ میں نے اپنے وکیل سے ایک ڈائیوورس ڈیڈ تیار کروایا ہے۔ اگر کبھی خدانخواستہ ایسی صورت حال ہو گئی تو یہ تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنے کی ایک کوشش ہے۔
مجھے تمہاری بات سمجھ نہیں آئی۔ وہ اب حواس باختہ تھی۔
ڈرو مت یہ کوئی دھمکی نہیں ہے۔ میں نے یہ پیپرز تمہارے تحفظ کے لیئے تیار کروائے ہیں۔ سالار نے اس کے کانپتے ہوئے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔
کیسا تحفظ؟ اسے اب بھی ٹھنڈے پسینے آرہے تھے۔
میں نے علیحدگی کی صورت میں فنانشل سیکیورٹی اور بچوں کی کسٹڈی تمہیں دی ہے۔
لیکن میں تو طلاق نہیں مانگ رہی۔ اس کی ساری گفتگو اس کے سر پر سے گزر رہی تھی۔
میں بھی تمہیں طلاق نہیں دے رہا، صرف قانونی طور پر خود کو پابند کر رہا ہوں کہ میں علیحدگی کے کیس کو کورٹ میں نہیں لے کر جاؤں گا۔ تمہیں علیحدگی کا حق اور بچوں کی کسٹڈی دے دوں گا۔جو بھی چیزیں اس عرصے میں حق مہر تحائف جیولری یا روپے اور پراپرٹی کی صورت میں تمہیں دوں گا وہ سب خلع یا طلاق دونوں صورتوں میں تمہاری ملکیت ہوگی۔ میں ان کا دعوی نہیں کروں گا۔
یہ سب کیوں کر رہے ہو تم؟ اس نے بے حد خائف انداز میں اس کی بات کاٹی۔
میں اپنے آپ سے ڈر گیا ہوں امامہ۔ وہ سنجیدہ تھا۔
میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مجھے تم پہ اتنا غصہ آسکتا ہے۔ میں نے تمہیں گھر سے نہیں نکالا لیکن اس رات میں نے پرواہ نہیں کی کہ تم گھر سے کیوں اور کہاں جا رہی ہو۔ میں اتنا مشتعل تھا کہ میں نے یہ پرواہ بھی نہیں کی کہ تم بحفاظت کہیں پہنچی بھی ہو یا نہیں۔ وہ بے حد صاف گوئی سے کہہ رہا تھا۔ اور پھر اتنے دن میں نے ڈاکٹر صاحب کی بات بھی نہیں سنی۔
I just wanted to punish you
وہ ایک لمحے کے لیے رکا۔
اور اس نے مجھے خوفزدہ کر دیا۔ میرا غصہ ختم ہوا تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں اتنا گر سکتا ہوں، میں تمہارے ساتھ اس طرح بی ہیو کرسکتا ہوں۔ لیکن میں نے کیا۔ بہرحال میں ایک انسان ہوں، تم کو ساتھی کی بجائے حریف سمجھوں گا تو شاید آئندہ بھی کبھی ایسا کروں۔۔ ابھی شادی کو تھوڑا وقت ہوا ہے۔ مجھے بہت محبت ہے تم سے، میں خوشی خوشی یہ سارے وعدے تم سے کر سکتا ہوں، سب کچھ دے سکتا ہوں تمہیں۔ لیکن کچھ عرصہ بعد اگر ایسی کوئی سچویشن آگئی تو پتا نہیں ھمارے درمیان کتنی تلخی ہو جائے۔ تب شاید میں اتنی سخاوت نہ دکھا سکوں اور ایک عام مرد کی طرح خودغرض بن کر تمہیں تنگ کروں۔ اس لیے اب ان دنوں جب میرا دل بڑا ہے تمہارے لیے، تو میں نے کوشش کی ہے کہ یہ معاملات طے ہوجائے۔ صرف زبانی دعوے نہ کروں تمہارے ساتھ۔ میری طرف سے میرے والد کے سگنیچرز ہیں اس پر۔ تم ڈاکٹر صاحب سے اس پر سائن کروا لو۔ وہ چاہیں تو پیپرز اپنے پاس رکھیں یا تم اپنے لاکر میں رکھوا دو۔ وہ آنکھوں میں آنسو لیے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
میں نے تو تم سے کوئی سیکیورٹی نہیں مانگی۔ اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔
لیکن مجھے تو دینی چاہیئے نا! میں یہ پیپرز جذبات میں آکر نہیں دے رہا تمہیں۔ یہ سب کچھ سوچ سمجھ کر کر رہا ہوں۔ تمہارے بارے میں بہت پوزیسیو، بہت ان سیکیور ہوں امامہ۔۔۔۔۔۔ وہ ایک لمحے کے لیئے ہونٹ کاٹتے ہوئے رکا۔
اور اگر کبھی ایسا ہوا کہ تم مجھے چھوڑنا چاہو تو میں تمہیں کتنا تنگ کرسکتا ہوں، تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے لیکن مجھے اندازہ ہوگیا ہے۔ وہ پھر رک کر ہونٹ کاٹنے لگا۔ تم میرا واحد اثاثہ ہو جسے میں پاس رکھنے کے لیے فیئر اور فاؤل کی تمیز کے بنا کچھ بھی کرسکتا ہوں اور یہ احساس بہت خوفناک ہے میرے لیے۔ میں تمہیں تکلیف پہنچانا چاہتا ہوں، نہ ہی تمہاری حق تلفی چاہتا ہوں ھم جب تک ساتھ رہیں گے بہت اچھے طریقے سے رہیںگے اور اگر کبھی الگ ہو جائیں تو میں چاہتا ہوں ایک دوسرے کو تکلیف دیے بغیر الگ ہوں۔
وہ اس کا ہاتھ تھپکتے ہوئے اٹھ کر چلاگیا۔ وہ پیپرز ہاتھ میں لییے بیٹھی رہی۔
****----***---****--
پودوں کو پانی کب سے نہیں دیا؟ اگلی صبح اس نے ناشتہ کی ٹیبل پر سالار سے پوچھا۔
پودوں کو؟ وہ چونکا۔ پتا نہیں، شاید کافی دن ہوگئے۔ وہ بڑبڑایا تھا۔
سارے پودے سوکھ رہے تھے۔ وہ اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے حیران تھی۔ وہ جم سے آنے کے بعد روز صبح پودوں کو پانی دیا کرتا تھا۔ اس سے پہلے کبھی بھی امامہ نے اسے روٹین بدلتے نہیں دیکھا۔ وہ سلائس کھاتے کھاتے ایک دم اٹھ کر ٹیرس کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ چند منٹوں بعد وہ پریشان سا واپس آیا تھا۔
ہاں۔ مجھے خیال ہی نہیں رہا۔۔ اس دن وہ پودوں کو پانی دے کر آئی تھی۔
تمہاری گاڑی فی الحال میں استعمال کر رہا ہوں۔ دو چار دن میں میری گاڑی آجائے گی تو تمہاری چھوڑ دوں گا۔۔ اس نے دوبارہ بیٹھتے ہوئے امامہ سے کہا۔۔
تمہاری گاڑی کہاں ہے۔۔۔؟
ورکشاپ میں ہے، لگ گئ تھی۔۔اس نے عام سے لہجے میں کہا۔۔۔۔وہ چونک گئی۔۔
کیسے لگ گئ؟؟؟
میں نے کسی گاڑی کے پیچھے مار دی تھی۔ وہ کچھ معذرت خواہانہ انداز میں اسے بتا رہا تھا۔ وہ اسکا چہرہ دیکھتی رہی وہ سلائس پر مکھن لگا رہا تھا۔ وہ ایکسپرٹ ڈرائیور تھا اور یہ ناممکن تھا کہ وہ کسی گاڑی کو پیچھے سے ٹکر مار دے۔
گھر میں آنے والی دراڑیں مرد اور عورت پر مختلف طریقے سے اثر انداز ہوتی ہے۔۔عورت کی پریشانی آنسو بہانے، کھانا چھوڑ دینے اور بیمار ہونے تک ہوتی ہے۔ مرد اس میں کچھ نہیں کرتا۔ اسکا ہر رد عمل اسکے آس پاس کی دنیا پر اثرانداز ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔
امامہ نے اسکے چہرے سے نظریں ہٹالی
***-----****-----------*
اس رات وہ ڈاکٹر صاحب کے گھر اس واقعے کے بعد پہلی بار لیکچر کے لیے گیا تھا۔ امامہ ھمیشہ کی طرح آج بھی انکے ساتھ تھی۔
ڈاکٹر صاحب نے آج بھی سالار کا استقبال کسی گرمجوشی کے بغیر صرف ہاتھ ملا کر کیا تھا۔ لیکچر کے بعد ڈنر پہ بھی انہوں نے سالار کے لیے وہی پرانی توجہ نہیں دکھائی۔ ڈنر پر فرقان بھی تھا اور ڈاکٹر صاحب فرقان سے گفتگو میں مصروف رہے۔۔سالار سے آنٹی نے تھوڑی سی بات چیت کی تھی۔ سالار سے زیادہ اس رات اس رویے کو امامہ نے محسوس کیا تھا۔ امامہ کو ڈاکٹر سبط علی کا سالار کو نظرانداز کرنا بری طرح چھبا تھا۔واپس آتے ہوئے وہ پریشان تھی۔
اس رات وہ سونے کے لیے نہیں گئی تھی۔ایک ناول لیکر وہ سٹڈی روم میں آگئ تھی۔وہ کام کرنے کی بجائے سگریٹ سلگائے بیٹھا تھا اسے دیکھ کر سگریٹ اس نے ایش ٹرے میں مسل دیا۔
کمرے میں اکیلی بیٹھی بور ہوتی۔ اس لیے سوچا یہاں آجاؤں۔۔اس نے سگریٹ کو نظرانداز کر کے سالار کو تاویل دی۔
تم ڈسٹرب تو نہیں ہوگے؟؟ اس نے سالار سے پوچھا۔
نہیں۔۔بلکل نہیں۔۔اس نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔
وہ راکنگ چیئر پہ جاکر بیٹھ گئی اور ناول کھول لیا۔۔وہ سگریٹ پینا چاہتا تھا لیکن اسکے سامنے نہیں پیتا تھا۔۔امامہ یہ جانتی تھی اس لیئے وہاں آکر بیٹھ گئ تھی۔
کچھ دیر وہ بے مقصد اسے دیکھتا رہا۔۔پھر اپنا لیپ ٹاپ نکال کر نہ چاہتے ہوئے بھی کام کرنے لگا تھا۔کافی دنوں کے بعد اس رات اس نے پریشان ہوکر سگریٹ کی بجائے کام کیا تھا۔ وہ پچھلے ایک ہفتے میں صرف گھر آکر نہیں بلکہ آفس میں بھی اسی طرح چین سموکنگ کر رہا تھا اب اسے عادتاً طلب ہورہی تھی۔۔۔
ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد اس نے بلآخر امامہ کو مخاطب کیا.
تم سو جاؤ کافی رات ہوگئی ہے۔۔۔امامہ نے چونک کر اسے دیکھا
تم فارغ ہوگئے ہو؟
نہیں مجھے ابھی کافی کام ہے۔
تو پھر میں بیٹھی ہوں ابھی تم کام ختم کرلو میرا بھی ایک چیپٹر رہتا ہے۔۔
سالار بے اختیار گہرا سانس لیکر رہ گیا۔۔یعنی آج رات وہ مزید کوئی سگرٹ نہیں پی سکتا تھا۔۔اس نے ایش ٹرے میں سگریٹ کے ادھ جلے ٹکڑوں کو قدرے مایوسی سے دیکھتے ہوئے سوچا.
مزید ایک گھنٹہ بعد جب وہ فارغ ہوا تو تب تک وہ اسی راکنگ چیئر پہ سو چکی تھی۔۔وہ اپنی کرسی پہ بیٹھا بے مقصد اسے دیکھتا رہا۔۔
اگلے چند دن بھی اسی طرح ہوتا رہا۔انکے درمیان آہستہ آہستہ گفتگو ہونے لگی تھی اور اسکا آغاز بھی امامہ کرتی تھی ۔۔سالار بے حد شرمندہ تھا اور اسکی خاموشی کی بنیادی وجہ یہی تھی۔وہ اس پورے واقعے سے بری طرح ہرٹ ہونے کے باوجود اسے بھلانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔
ڈاکٹر سبط علی نے اگلے ہفتے بھی سالار کیساتھ ویسے ہی سلوک کیا تھا اس بار امامہ کو پہلے سے بھی زیادہ رنج ہوا۔۔۔
******------****---*******
ابو! آپ سالار سے اچھی طرح بات کیوں نہیں کرتے؟
امامہ اگلے دن سہ پہر کو ڈاکٹر سبط علی کے آفس سے آنے کے بعد انکے گھر آئ تھی۔۔۔
کیسے بات کرنی چاہیئے؟ وہ بے حد سنجیدہ تھا۔۔
جیسے آپ پہلے بات کرتے تھے۔۔
پہلے سالار نے یہ سب نہیں کیا تھا۔۔اسکے بارے میں مجھے بڑی خوش گمانیاں تھی۔۔وہ مدھم آواز میں بولے۔۔
ابو وہ برا نہیں ہے۔۔وہ بہت اچھا ہے۔میری غلطی تھی۔ورنہ بات شاید اتنی نہ بڑھتی۔وہ بہت عزت کرتا ہے میری بہت خیال رکھتا ہے لیکن اب یہ سب ہونے کے بعد وہ بہت پریشان ہے۔۔۔وہ سر جھکائے وضاحتیں دے رہی تھی۔۔آپ جب اسے اگنور کرتے ہیں تو مجھے بہت ہتک محسوس ہوتی ہے۔۔وہ یہ سلوک ڈیزرو نہیں کرتا۔۔فرقان بھائی کے سامنے کتنی بے عزتی محسوس ہوتی ہوگی اسے۔۔۔وہ بے حد رنجیدہ تھی۔۔۔۔۔
ڈاکٹر سبط علی بے ساختہ ہنس پڑے۔۔امامہ نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔۔۔
میں جانتا ہوں سالار برا آدمی نہیں ہے وہ پریشان اور نادم ہے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ قصور اسکا زیادہ نہیں اور میرا اسکے ساتھ رویہ آپکو برا لگتا ہوگا۔۔وہ حیرانی سے ڈاکٹر سبط علی کی چہرہ دیکھنے لگی۔۔۔
بیٹا میں آپکو اسی بات کا احساس دلانا چاہتا تھا مرد جب غصے میں گھر چھوڑ کر جاتا ہے تو ویسے ہی واپس آجاتا ہے۔ اسکے گھر سے جانے پر اسکی عزت پہ کوئی حرف نہیں آتا نہ اسکی بیوی کی عزت پر حرف آتا ہے لیکن عورت جب غصے میں گھر سے نکلتی ہے تو اپنی اور مرد دونوں کی عزت لیکر باہر آتی ہے وہ واپس بھی آئے تو دونوں کی عزت کم ہوجاتی ہے ۔۔جھگڑا ہوا تھا، کوئی بات نہیں۔۔اس نے غصے میں برا بھلا کہہ دیا، جانے کا کہہ دیا، آپ گھر کے کسی دوسرے کمرے میں چلی جاتی، وہ ہاتھ پکڑ کر تو نہیں نکال رہا تھا نا۔۔صبح تک اسکا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا۔۔ایک آدھ دن میں بات ختم ہوجاتی، اتنا بڑا مسلہ نہ بنتا۔۔۔وہ رسانیت سے اسے سمجھا رہے تھے۔۔
مرد کے دل میں اس عورت کی کوئی عزت نہیں ہوتی جسے چھوٹی چھوٹی باتوں پہ گھر کی دہلیز پار کرنے کی عادت ہو۔۔اور یہ دوسری بار ہوا ہے۔۔۔اس نے چونک کر ڈاکٹر صاحب کو دیکھا۔۔
یاد ہے شادی کے دوسرے دن بھی آپ ناراض ہوکر سعیدہ اماں کے پاس رہ گئی تھی۔۔۔
امامہ نے نادم ہوکر سر جھکا لیا تھا۔۔اسے یہ واقعہ یاد نہیں رہا تھا۔۔۔
مرد کیساتھ انا کا مقابلہ کرنے والی عورت بیوقوف ہوتی ہے۔ وہ اسے اپنا دشمن بنا لیتی ہے۔ اکھڑ پن اور ضد سے مرد سے بات منوائی جاسکتی ہے لیکن اسکے دل میں اپنی محبت اور عزت نہیں بڑھائ جاسکتی۔۔اللہ نے آپکو محبت کرنے والا اور بہت سی خوبیوں والا شوہر دیا ہے اس نے آپکی عیب جوئی نہیں کی بلکہ آپ کو اپنے ساتھ لے گیا بہت کم مردوں میں یہ صفت ہوتی ہے۔ تو اگر کبھی کوئی کوتاہی ہوجائے اس سے تو اسکی مہربانیاں یاد کر لیا کریں
وہ سر جھکائے خاموشی سے انکی باتیں سنتی رہی۔اگر میں یہ سب باتیں اس وقت آپکو سمجھاتا جب آپ یہاں آئی تھی تو آپ کبھی میری بات نہ سمجھتی۔ آپ کو لگتا کہ اگر اس وقت آپ کے والدین ہوتے تو اس سچویشن میں آپکو سپورٹ کرتے۔ اس لیے یہ باتیں تب نہیں سمجھائی میں نے۔ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے، وہ اسے اس وقت کچھ کہتے تو وہ بری طرح دلبرداشتہ ہو جاتی۔
اس نے کچھ کہے بغیر وہ پیپرز نکال کر انہیں دیئے، جو سالار نے اسے دییے تھے۔ یہ سالار نے دیئے ہیں مجھے، لیکن مجھے اسکی ضرورت نہیں۔۔۔
ڈاکٹر سبط علی بے حد گہری مسکراہٹ کیساتھ وہ پیپرز پڑھتے رہیں، پھر ہنس پڑے۔۔۔۔
اس نے یہ بہت مناسب اور حکمت والا کام کیا ہے۔۔میں اپنے پاس آنے والے اکثر مردوں کو ان معاملات کے حوالے سے اسی طرح تصفیے کا کہتا ہوں اور کئی مردوں نے کیا بھی ہے۔ سالار کے ذہن میں بھی وہی چیزیں ہے، لیکن اس نے آپکے لیے کچھ زیادہ کردیا ہے۔۔ وہ پیپرز پر نظر ڈالتے ہوئے مسکرا رہے تھے۔۔۔
لیکن میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کچھ کہنا چاہتی تھی جب ڈاکٹر صاحب نے اسکی بات کاٹ دی۔۔۔
آپ بھی اس کا کچھ زیادہ خیال رکھا کریں۔۔۔
وہ اسے پیپرز لوٹا رہے تھے یہ جیسے گفتگو ختم کرنے کا ارادہ تھا۔۔۔۔
*******-----*****----******
اس دن وہ پورا رستہ ڈاکٹر صاحب کی باتوں کے بارے میں سوچتی رہی۔ انہوں نے اسے کبھی نصیحت نہیں کی تھی یہ پہلا موقع تھا۔۔کوئ نہ کوئ غلطی انہوں نے بھی محسوس کی تھی۔۔۔
تم ڈاکٹر صاحب کے پاس گئ تھی؟؟ سالار نے شام کو گھر آتے ہی سوال کیا۔۔
ہاں تمہیں کیسے پتا چلا؟؟ وہ کھانے کے برتن ٹیبل پر لگا رہی تھی۔۔
انہوں نے مجھے فون کیا تھا۔۔وہ گردن سے ٹائی نکالتے ہوئے بولا۔۔
اوہ۔۔۔کچھ کہا انہوں نے تم سے؟؟؟ اس نے سالار کا چہرہ غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔
نہیں ویسے ہی کچھ دیر باتیں کرتے رہیں۔۔
امامہ کو محسوس ہوا وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا ہے ۔۔ھمیشہ کی طرح کپڑے تبدیل کرنے کے لیئے بیڈروم میں جانے کی بجائے ٹائ نکال کر بے مقصد کچن کے کاؤنٹر سے ٹیک لگائے سلاد کھا رہا تھا۔
آج کیا ہے کھانے میں؟؟ شادی کے اتنے مہینوں میں پہلی دفعہ اس نے یہ سوال کیا تھا۔۔ امامہ نے اسے بتایا لیکن وہ حیران ہوئی تھی۔
اور سویٹ ڈش؟؟؟ یہ سوال پہلے سے بھی زیادہ اچھنبے والا تھا۔۔وہ میٹھے کا شوقین نہیں تھا. ۔۔۔
کل چائینیز بنانا۔۔وہ ایک بار پھر حیرانی سے اسکا چہرہ دیکھنے لگی۔۔وہ کھانے کے معاملے میں فرمائشیں کرنے کا کہاں عادی تھا۔۔
کل بھی چائینیز تھا۔۔۔فریج سے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے اس نے سالار کو جیسے یاد دلایا۔۔وہ گڑبڑا گیا۔۔۔
ہاں کل بھی چائینیز تھا کوئی بات نہیں کل پھر سہی۔۔۔
آئی مین اس میں کوئی حرج نہیں۔ امامہ نے صرف سر ہلایا۔۔وہ اب فریج سے چپاتیاں بنانے کے لیے آٹا نکال رہی تھی۔۔
ایکوا بلیو کلر تم پہ بہت اچھا لگتا ہے ۔۔اس نے حیرت سے سالار کو دیکھا۔۔۔
آ۔۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔ایکوا بلیو نہیں ہے یہ؟؟ اس کی آنکھوں کے تاثر نے اسے گڑبڑایا تھا۔۔
سالار تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے/؟امامہ نے کہا۔۔۔
کیوں کیا ہوا؟؟ مجھے لگا یہ ایکوا بلیو ہے۔۔۔
یہ ایکوا بلیو ہی ہے۔۔اسی لیے تو پوچھ رہی ہوں کہ مسئلہ کیا ہے۔۔
وہ اسکی بات پہ ہنس پڑا۔۔پھر کچھ کہے بغیر آگے بڑھا اور اسے ساتھ لگا لیا۔۔
میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔۔امامہ نے اسے کہتے سنا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ کس چیز کے لیئے شکریہ ادا کر رہا تھا۔۔
آئی ایم ریئلی سوری۔اینڈ آئ مین اٹ۔۔۔
وہ اب دوبارہ معذرت کر رہا تھا۔۔
آئ نو۔۔۔اس نے مدھم آواز میں کہا۔۔۔
آئی لو یو۔۔۔امامہ کا دل بھر آیا۔۔۔۔۔
تمہیں کیسے پتا چلا کہ یہ ایکوا بلیو ہے۔ ؟
اپنی پوروں سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے امامہ نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
تم ھمیشہ عجیب نام لیتی ہو کلرز کے۔ایکوا بلیو واحد عجیب نام تھا جو مجھے بلیو کلر کے لیئے اس وقت یاد آیا۔۔اس نے سادہ لہجے میں کہا۔۔۔وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی وہ کلر بلائنڈ تھا اسے اب اندازہ ہوچکا تھا۔۔
ویری سمارٹ۔۔اس نے جیسے اسے داد دی۔۔
یو تنگ سو۔۔وہ ہنسا۔۔۔
یس آئ ڈو۔۔۔
تھینک یو دن۔۔۔وہ کہتا ہوا کچن سے نکل گیا تھا۔۔۔
کچن کے وسط میں کھڑی وہ اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔۔
*****----*****-----****--**
کیا لو گی تم؟؟ سالار نے مینیو کارڈ پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔
میں تو شرمپ کی ڈشز میں سے کوئی ٹرائ کروں گا۔۔۔۔
وہ اسلام آباد میں دوسری بار کھانا کھانے نکلے تھے۔۔پندرہ منٹ بعد کھانا سرو ہوگیا اور کھانا کھانے کے دوران ویٹر نے ایک چٹ لاکر سالار کو دی اس نے حیرانی سے چٹ پر لکھی تحریر کو دیکھا۔۔۔۔
آپ یہ جگہ فوراً چھوڑ دے۔ سالار نے حیرانی سے سر اٹھا کے ویٹر کو دیکھا۔۔۔یہ کیا ہے؟
اس نے ویٹر سے پوچھا۔۔اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتا ایک کرنٹ اسے چھو کر گزرا۔۔وہ جان گیا تھا کہ وہ کیا تھا۔۔
بے حد برق رفتاری سے چند کرنسی نوٹ نکال کر اس نے ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے ویٹر کو بل کلیئر کرنے کا کہا۔۔۔امامہ حیرانی سے اسکی شکل دیکھنے لگی۔۔
کھانا چھوڑ دو، ہمیں جانا ہے۔۔اس نے کھڑے ہوکر کہا۔۔
لیکن کیوں۔۔۔وہ نہ سمجھی تھی۔۔
امامہ یہ تمہیں باہر جاکر بتاتا ہوں تم بیگ لے لو اپنا۔۔وہ کرسی دھکیلتا ہوا پلٹا اور پھر ساکت ہوگیا۔۔انہیں نکلنے میں دیر ہوگئ تھی۔۔اس نے کچھ فاصلے پر امامہ کے والد اور بڑے بھائ کو دیکھا اور وہ انہیں کی طرف آرہے تھے۔۔
وہ برق رفتاری سے امامہ کی کرسی کی طرف آیا۔۔امامہ ٹیبل کے نیچے اپنے قدموں میں رکھا ہوا بیگ اٹھا رہی تھی اس نے ابھی انہیں آتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔۔سالار کے اپنے قریب آنے پر بیگ اٹھاتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئ اور اس نے بھی اپنی فیملی کے افراد کو اپنی طرف آتا دیکھا۔۔ایک لمحہ میں اسکا خون خشک ہوگیا۔۔سالار نے کچھ کہنے کی بجائے اسے اپنے اوٹ میں کیا۔۔۔
سامنے سے ہٹو! ہاشم مبین نے پاس آتے ہی بلند آواز میں اس سے کہا۔۔
آس پاس ٹیبلز پہ بیٹھے لوگ یکدم انکی طرف متوجہ ہوئے۔۔نہ صرف کسٹمرز بلکہ ویٹرز بھی۔۔
آپ ھمارے ساتھ گھر چلیں، وہاں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔۔۔ سالار نے تحمل سے ہاشم مبین کو کہا۔۔۔
اس نے جواباً ایک گالی دیتے ہوئے اسے گریبان سے پکڑا اور کھینچ کر ایک طرف ہٹانے کی کوشش کی۔۔وسیم اور عظیم سے امامہ کو وہاں سے لے جانے کا کہا۔۔ہاشم کے برعکس وسیم اور عظیم دونوں کچھ متامل تھے۔۔وہ جانتے تھے اس طرح زبردستی اس ریسٹورنٹ سے کسی کو ہال سے باہر نہیں لے جاسکتے کیونکہ سیکیورٹی کا سامنا کیے بغیر امامہ کو بحفاظت وہاں سے لے جانا مشکل تھا۔۔
وہ سالار کے عقب میں اسکی شرٹ پکڑے تھر تھر کانپتی ہوئی تقریباً اس سے چپکی ہوئ تھی ۔۔۔۔جب ہاشم نے سالار کا گریبان پکڑتے ہوئے اسے کھینچا۔۔۔۔۔۔
سالار نے اپنا دفاع کرتے ہوئے گریبان چھڑاتے ہاشم مبین کو ذرا سا پیچھے دھکیلا۔انکے لیئے یہ دھکا کافی ثابت ہوا۔وہ پیر پھسلنے سے بے اختیار نیچے گرے۔۔ ریسپشن تب تک باہر موجود سیکورٹی کو انفارم کر چکا تھا۔۔اس دھکے نے عظیم کو بھی مشتعل کردیا تھا وہ بھی بلند آواز سے گالیاں دیتے ہوئے جوش میں آیا اور بے حد غیر متوقع انداز میں سالار کے جبڑے پر ایک گھونسا رسید کیا۔۔چند لمحوں کے لیئے اسکی آنکھوں کے سامنے جیسے اندھیرا چھا گیا وہ اسکے لیئے بالکل بھی تیار نہیں تھا۔وہ ذرا سا جھکا اور عظیم اسکے پیچھے کھڑی امامہ تک جاپہنچا۔اس نے کانپتے ہوئے سالار کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی۔ لیکن عظیم نے اسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئےنہ صرف سالار سے الگ کرنے کی کوشش کی بلکہ اسکے چہرے پر ایک زوردار تھپڑ رسید کیا۔۔سالار تب تک سنبھل کر سیدھا ہوکر اسے چھڑانے کے لیئے پلٹا تھا جب اسکے بائیں کندھے کی پشت پر درد کی ایک تیز لہر اٹھی اس نے ہونٹ بھینچ کر اپنی چیخ روکی۔۔وہ ہاشم مبین تھے جس نے ٹیبل پر پڑا ہوا چاقو اس کی پشت میں مارنے کی کوشش کی۔ لیکن آخری لمحے میں ہلنے کی وجہ سےوہ اسکے بائیں کندھے میں جا کر لگا تھا۔۔
سیکورٹی اور دوسرے ویٹرز تب تک قریب پہنچ چکے تھے اور ان تینوں کو پکڑ چکے تھے۔۔امامہ نے نہ تو ہاشم مبین کو سالار کو وہ چاقو مارتے دیکھا تھا اور نہ ہی سالار کو چاقو کندھے سے نکالتے دیکھا۔۔سالار اپنی جینز کی جیب سے سیل نکال کر سکندر کو فون پر وہاں آنے کے لیئے کہہ رہے تھے اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار تھے لیکن اسکے باوجود اپنا لہجہ نارمل رکھ کر سکندر سے بات کر رہا تھا۔۔وہ اپنے کندھے سے کمر تک خون کی نمی محسوس کر رہا تھا۔
آپ کو فرسٹ ایڈ کی ضرورت ہے آپ آجائیے۔۔مینجر نے اس کے پشت پر بہنے والے خون کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔
امامہ نے مینجر کی اس بات پر حیران ہو کر سالار کو دیکھا وہ اب فون ہر بات ختم کر رہا تھا۔۔امامہ نے اس کے ہاتھ کو پہلی بار نوٹس کیا تھاجو وہ کندھے کے اوپر رکھے ہوئے تھا۔۔
کیا ہوا ہے؟؟ امامہ نے قدرے سراسیمگی کے عالم میں پوچھا۔۔
کچھ نہیں۔۔۔۔سالار نے اپنا بازو سیدھا کیا۔۔امامہ نے اسکی خون آلود انگلیاں دیکھی ۔۔اس نے سمجھا شاید اسکا ہاتھ زخمی ہے۔
اسے کیا ہوا؟؟ اس نے کچھ حواس باختہ ہوکر پوچھا۔۔اس نے جواب دینے کی بجائے قریبی ٹیبل سے نیپکن اٹھا کر اپنے ہاتھ صاف کرتے ہوئے امامہ کو چلنے کا اشارہ کیا۔۔وہ مینجر کے کمرے میں آگئے۔۔وہ پولیس کو کال کر چکا تھا۔اور اب وہ پولیس کے آنے تک انہیں وہاں روکنا چاہتا تھا لیکن سالار زخمی تھا اسے فرسٹ ایڈ کی ضرورت تھی۔۔امامہ نے پہلی بار سالار کی خون آلود پشت دیکھی اور دھک سے رہ گئ تھی۔۔۔۔
اگلے پانچ منٹ میں پولیس، ایمبولینس اور سکندر آگے پیچھے پہنچے تھے ۔۔سکندر کے آتے ہی سالار نے امامہ کو گھر کی بجائے فوری طور پر کہیں اور بھیجنے کا کہا۔۔سکندر خود سالار کو ہاسپٹل لیجارہے تھے۔۔وہ چاہنے کے باوجود اس سے یہ نہ کہہ سکی کہ وہ اسکے ساتھ جانا چاہتی ہے۔
سکندر نے اسے فوری طور پر اپنے بڑے بھائی شاہنواز کے گھر بھیج دیا۔۔
وہ وہاں بت کی طرح آکر گیسٹ روم میں بیٹھ گئ۔سالار کو کسی نے چاقو سے زخمی کیا تھا یہ اس نے سن لیا تھا مگر یہ اسکے باپ نے کیا تھا یا بھائیوں میں سے کسی نے۔۔۔یہ وہ نہ جان سکی۔۔۔
ریسٹورنٹ کی سیکیورٹی نے پولیس کے آنے تک ان تینوں کو ایک کمرے میں بند کردیا تھا۔
اسے ابھی آئے ہوئے پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کہ سالار کی کال آگئ۔
تم پہنچ گئ۔۔۔اس نے امامہ کی آواز سنتے ہی کہا۔۔۔
ہاں۔۔تم کہاں ہو؟؟
ابھی کلینک پر ہوں۔۔سالار نے کہا۔۔
اور ابو؟؟؟
پاپا ساتھ ہیں میرے۔۔۔سالار نے اسکے لفظوں پر غور نہیں کیا۔۔
میں اپنے ابو کا پوچھ رہی ہوں۔۔اس نے بے ساختہ کہا۔۔۔
اسے امامہ کی یہ تشویش بہت بری لگی۔۔
وہ تینوں پولیس کسٹڈی میں ہیں یہاں سے فارغ ہوکر ھم وہی جائینگے۔۔امامہ کا دل ڈوبا۔۔۔
باپ اور بھائیوں کے حوالات میں ہونے کے تصور نے چند لمحوں کے لیئے اسے سالار کے زخمی ہونے سے لاپرواہ کردیا۔۔
سالار انہیں پلیز معاف کردو۔۔۔اور ریلیز کروا دو۔۔
سکندر اس وقت اسکے پاس تھے۔۔وہ امامہ سے کچھ کہہ نہ سکا لیکن وہ خفا ہوا تھا۔۔وہ اس سے زیادہ اپنی فیملی کے لیئے پریشان تھی۔۔
وہ زخمی تھا لیکن اس نے یہ تک پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ وہ اب کیسا ہے؟
میں تم سے بعد میں بات کروں گا۔۔اس نے کچھ کہنے کی بجائے فون بند کردیا.
کلینک میں اس کے چیک اپ میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔خوش قسمتی سے اسکی کوئ رگ کو نقصان نہیں پہنچا تھا۔۔۔
کلینک میں ہی سکندر کی فیملی کے افراد نے آنا شروع کر دیا اور سالار کو سکندر کے اشتعال سے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ معاملہ سنجیدہ نوعیت اختیار کر گیا ہے وہ خود بے حد ناراض ہونے کے باوجود معاملے کو ختم کرنے کے خواہشمند تھے لیکن سکندر نہیں مان رہے تھے۔۔۔
امامہ نے دو بار سالار سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ایک دفعہ اس نے فون نہیں اٹھایا اور دوسری دفعہ اس نے فون بند کردیا۔۔۔یہ دوسری بار ہوا تھا کہ اس نے اپنا سیل اس کی وجہ سے آف کیا تھا۔۔۔
کیوں پیروی نہ کروں اس کیس کی؟؟؟ انہیں چھوڑ دوں تاکہ اگلی بار وہ تمہیں شوٹ کردے۔۔۔
اس نے ہسپتال سے پولیس سٹیشن جاتے ہوئے گاڑی میں سکندر سے کہا تھا۔۔میں بات بڑھانا نہیں چاہتا ۔۔
بات بڑھ چکی ہے اب اور اسکی ابتدا انہوں نے ہی کی ہے۔۔سکندر بے حد مشتعل تھے۔۔۔پاپا وہ امامہ کی فیملی ہے۔۔اس نے بلآخر کہا۔۔
نہیں۔۔۔۔وہ امامہ کی فیملی تھی۔۔اگر اسے امامہ کی پرواہ ہوتی تو اس کے شوہر پر کبھی ہاتھ نہ اٹھاتے۔اور اگر انہیں پرواہ نہیں تو امامہ کو بھی ان کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے۔۔یہیں ایک حد تھی جو میں کبھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ پار کرے لیکن انہوں نے یہ حد پار کرلی ہے ۔میری فیملی میں سے کسی کو تکلیف پہنچے گی تو میں ہاشم فیملی کو کسی سیف ہیون میں نہیں رہنے دوں گا میں انہیں انہی کی زبان میں جواب دوں گا یہ بات تم اپنی بیوی کو بتا بھی دو اور سمجھا بھی دو۔۔
پاپا پلیز اس ایشو کو حل ہونا چاہیئے۔سالار نے باپ سے کہا۔۔
یہ خواہش انکو کرنی چاہیئے تب ہی یہ مسئلہ حل ہوگا۔ اسے میرے بیٹے کو ہاتھ لگانے کی جرات کیسے ہوئ اسکا خیال ہے میں یہ غنڈہ گردی براشت کرلوں گا؟؟ اب وہ مجھے پولیس سٹیشن سے نکل کر دکھائے۔۔انہیں ٹھنڈا کرنے کی ہر کوشش ناکام ہو رہی تھی۔
معاملہ کس حد تک بڑھ جائے گا اسکا اندازہ سالار کو نہیں تھا۔ یہ صرف دو بارسوخ فیملیز کا مسئلہ نہیں رہا تھا بلکہ یہ کمیونٹیز کا مسئلہ بن گیا تھا۔ اسلام آباد پولیس کے تمام اعلیٰ افسران اس معاملے کو حل کرنے کے لیے وہاں موجود تھے۔ ہاشم مبین کو سب سے زیادہ مسئلہ ریسٹورنٹ کی انتظامیہ کی وجہ سے ہو رہا تھا جہاں یہ سب کچھ ہوا۔
ابتدائی غصے اور اشتعال کے بعد بلآخر ہاشم فیملی نے واقعے کی سنگینی کو محسوس کرنا شروع کر دیا مگر مسئلہ یہ ہو رہا تھا کہ سکندر فیملی کسی قسم کی لچک دکھانے کو تیار نہ تھے۔
فجر تک وہاں بیٹھنے کے بعد بھی مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلا اور وہ گھر واپس آگئے۔
سالار واپسی پر سارا راستہ سکندر کو کیس واپس لینے پر قائل کرتا رہا اور ناکام رہا۔
شاہنواز کے گھر گیسٹ روم میں داخل ہوتے ہی امامہ نے اس سے پوچھا۔
ابو اور بھائی ریلیز ہوگئے؟ اسکا دماغ گھوم گیا تھا۔واحد چیز جس کی امامہ کو پرواہ تھی وہ یہ تھی کہ اس کے ابو اور بھائی ریلیز ہو جائے۔ اسکا زخم کیسا تھا۔ اسکی طبیعت کیسی تھی۔ امامہ کو جیسے اس سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔
نہیں۔۔۔اور ہونگے بھی نہیں۔۔۔ وہ بے حد خفگی سے کہتا ہوا واش روم چلاگیا۔ پین کلرز لینے کے باوجود اس وقت تک جاگتے رہنے کی وجہ سے اسکی حالت واقعی خراب تھی اور رہی سہی کسر امامہ کی عدم استحکام و بے توجہی نے پوری کردی تھی۔
وہ پولیس سٹیشن میں ہیں؟ اسکے واش روم سے نکلتے ہی اس نے سرخ سوجی ہوئی آنکھوں کیساتھ اس سے پوچھا تھا۔ وہ جواب دیے بغیر بیڈ پر کروٹ کے بل لیٹ گیا۔ اور آنکھیں بند کرلی۔
وہ اٹھ کر اسکے پاس آکر بیٹھ گئی۔
کیس واپس لے لو سالار۔ انہیں معاف کردو.۔ اسکے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے ملتجیانہ انداز میں اس سے کہا۔۔۔ سالار نے آنکھیں کھول دی۔۔۔۔
امامہ میں اس وقت سونا چاہتا ہوں تم سے بات نہیں کرنا چاہتا۔۔
میرے ابو کی کتنی عزت ہے شہر میں۔۔۔وہ وہاں کیسے رہ رہے ہونگے اور کیسے برداشت کر رہے ہونگے یہ سب کچھ۔ وہ رونے لگی۔۔۔
عزت صرف تمہارے ابو کی ہے؟ میری، میرے ماں باپ، میری فیملی کی کوئی عزت نہیں؟
وہ بے ساختہ کہہ گیا۔۔وی سر جھکائے ہونٹ کاٹتے ہوئے روتی رہی.
یہ سب میری وجہ سے ہوا ۔مجھے تم سے شادی نہیں کرنی چاہیئے تھی۔۔
تمہارے پاس ہر چیز کی وجہ شادی ہے۔۔تم میرے ساتھ شادی کر کے جہنم میں آگئ ہو ۔۔شادی نہ ہوئ ہوتی تو جنت میں ہوتی تم۔۔ہے نا۔۔۔۔۔وہ بری طرح برہم ہوا۔۔
میں تمہیں تو الزام نہیں دے رہی میں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے خائف ہوتے ہوئے کچھ کہنا چاہا ۔۔
کچھ میرے ساتھ بھی وفاداری کا مظاہرہ کرو۔ ویسی وفاداری جیسے تم اہنے باپ اور بھائیوں کے لیے دکھا رہی ہو۔۔۔وہ بول نہیں سکی۔۔اس نے جیسے اسے جوتا کھینچ مارا تھا۔۔اسکا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔
وہ ایک لفظ کہے بغیر اسکے بستر سے اٹھ گئ سالار نے آنکھیں بند کرلی۔۔
دوبارہ اسکی آنکھ ساڑھے بارہ بجے کندھے میں ہونے والی تکلیف سے کھلی۔اسے ٹمپریچر بھی ہورہا تھا۔کندھے کو حرکت دینا مشکل ہوگیا تھا۔ بستر سے اٹھتے ہی اسکی نظر امامہ پر پڑی ۔۔وہ صوفے پر بیٹھی ہوئ تھی۔۔وہ رکے بغیر واش روم چلا گیا.
نہا کر تیار ہونے کے بعد وہ باہر نکلا اور امامہ سے بات کیئے بغیر وہ بیڈروم سے چلا گیا۔۔اسے اپنا آپ وہاں اجنبی لگنے لگا تھا وہ واحد انسان تھا جو اس کی سپورٹ تھا اب وہ بھی اس سے برگشتہ ہورہا تھا۔
میں کیس واپس لے رہا ہوں۔۔ لنچ ٹیبل پر بیٹھےاس نے اعلانیہ انداز میں کہا۔ پورے ٹیبل پر ایک دم خاموشی چھا گئ۔وہاں سکندر کیساتھ شاہنواز اور اسکی فیملی بھی تھی۔۔
میں نے اس پورے معاملے کے بارے میں سوچا ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔طیبہ نے بے حد تلخی سے اسکی بات کاٹی۔۔
تم سوچنا کب کا چھوڑ چکے ہو۔۔۔یہ تمہاری بیوی کی پڑھائ گئ پٹی ہے۔۔
ممی۔۔۔۔امامہ کو اس ساری ایکویشن سے نکال دیں۔
اچھا تو پھر اسے طلاق دیکر اس مسئلہ کو ختم کردو ۔
وہ ماں کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے ہاتھ میں پکڑا کانٹا رکھ دیا۔۔۔
یہ میں کبھی نہیں کروں گا۔
تو پھر ہم بھی وہ نہیں کرینگے جو تم چاہتے ہو۔امامہ کے باپ اور بھائی جیل میں رہینگے۔۔طیبہ نے بھی اسکے انداز میں کہا۔۔۔۔
کیس واپس لینے کا مطلب ہے انکو شہہ دینا۔ تم پوری فیملی کو خطرے میں ڈال رہے ہو۔۔شاہنواز نے مداخلت کی۔۔۔
رسک تو کیس چلنے کی صورت میں بھی ہوگا۔۔۔ وہ جانتا تھا وہ جو کہہ رہا ہے اس سے پوری فیملی کی کتنی ملامت اسے ملنے والی تھی۔ وہ امامہ کو خوش کرسکتا تھا یا اپنی فیملی کو۔ اور اپنی فیملی کو ناخوش کرنا اسکے لیئے زیادہ بہتر تھا۔۔۔
**************
امامہ رات کے نو بجے تک ویسے ہی کمرے میں بیٹھی رہی ۔۔سالار کا کوئ اتا پتا نہیں تھا۔ وہ تھکن کے عالم میں صوفے پر کب سوگئ اسے انداۃ نہیں ہوا۔۔
رات گئے اسکی آنکھ سالار کے کندھا ہلانے پر کھلی تھی۔وہ ہڑبڑا گئ۔
اٹھ جاؤ ہمیں جانا ہے۔۔وہ کمرے سے اپنی چیزیں سمیٹ رہا تھا۔
وہ کچھ دیر بیٹھی آنکھیں رگڑتی رہی.
کیس واپس لے لیا ہے میں نے تمہاری فیملی ریلیز ہوگئ ہے ۔وہ ٹھٹکی تھی۔
وہ بیگ کی زپ بند کر رہا تھا۔۔کسی نے جیسے امامہ کے کندھوں سے منوں بوجھ ہٹادیا تھا۔۔اسکے چہرے پر آنے والے اطمینان کو وہ نوٹس کیے بغیر نہ رہ سکا۔
اسکے پیچھے باہر لاؤنج میں آتے ہوئے اس نے ماحول میں موجود تناؤ اور کشیدگی محسوس کی تھی۔۔۔شاہنواز اور سکندر دونوں ہی بے حد سنجیدہ تھے اور طیبہ کے ماتھے پر شکنیں تھی۔ وہ نروس ہوئ تھی۔ وہ سالار کیساتھ جس گاڑی میں تھی وہ ڈرائیور چلا رہا تھا۔ سالار پورا راستہ کھڑکی سے باہر دیکھتا رہا۔اور گہری سوچ میں ڈوبا رہا۔۔
گھر پہنچنے کے بعد بھی سب کی خاموشی اور سرد مہری ویسی ہی تھی ۔۔سالار طیبہ اور سکندر کے ساتھ باہر لاؤنج میں بیٹھ گیا اور وہ کمرے میں آگئ۔۔
آدھا گھنٹہ بعد ملازم اسے کھانے پہ بلانے آیا تھا۔۔
اسکی آمد سے کوئ خاص ردعمل نہیں ہوا. صرف سالار اپنی پلیٹ میں کچھ ڈالے بغیر اسکا انتظار کر رہا تھا۔ اس کے بیٹھنے پر اسی نے اس سے پوچھتے ہوئے چاول کی ڈش اسکی طرف بڑھائ اور پھر کھانے کے دوران وہ بغیر پوچھے کچھ نہ کچھ اس کی طرف بڑھاتا گیا۔۔۔
وہ کھانے کے بعد بیڈروم میں سالار کیساتھ ہی آئ تھی وہ ایک دفعہ پھر بات چیت کیئے بغیر سونے کے لیئے لیٹ گیا۔۔۔
سالار! آنکھیں بند کیئے اسکی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ جواب دے یا نہ دے۔۔
سالار؟
بولو۔۔بلآخر اس نے کہا۔۔
زخم گہرا تو نہیں تھا؟؟ نرم آواز سے اس نے پوچھا تھا ۔
کون سا والا؟؟ ٹھنڈے لہجے میں کیا ہوا سوال اسے لاجواب کرگیا.
تمہیں درد تو نہیں ہورہا؟؟
اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے سوال بدلا تھا۔۔۔
اگر ہو بھی تو کیا فرق پڑتا ہے۔۔میرا زخم ہے۔میرا درد ہے۔۔
وہ پھر لاجواب ہوئ۔۔
بخار ہورہا ہے تمہیں کیا؟ اسکا ہاتھ کندھے سے ہٹ کر پیشانی پہ گیا. ۔۔اسکا ہاتھ ہٹاتے ہوئے سالار نے بیڈ سائڈ لیمپ آن کردیا۔
امامہ تم وہ کیوں نہیں پوچھتی جو پوچھنا چاہتی ہو؟؟ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا اس نے۔
وہ چند لمحے بے بسی سے اسے دیکھتی رہی پھر جیسے ہتھیار ڈال دیئے۔۔
ابو سے کیا بات ہوئ تمہاری؟
اس نے جواب میں ہاشم مبین کی گالیوں کو بے حد بلنٹ انداز میں انگلش میں ٹرانسلیٹ کیا ۔۔امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔۔
میں گالیوں کا نہیں پوچھ رہی ویسے کیا کہا تھا انہوں نے۔۔۔؟
امامہ نے خفگی سے اسکی بات کاٹ دی۔۔
اوہ سوری۔۔۔انکی گفتگو میں ستر فیصد گالیاں تھی اور کتنا ایڈیٹ کرونگا۔۔ باقی باتوں میں انہوں نے مجھے کہا کہ میں سور ہوں لیکن کتے کی موت مروں گا اور جو کچھ میں نے انکی بیٹی کیساتھ کیا وہ میری بیٹی اور بہن کیساتھ ہو۔۔اسکے لیئے وہ خصوصی طور پہ بددعا فرمائیں گے۔۔تمہارے لیئے بھی انکے کچھ پیغامات ہیں لیکن وہ اس قابل نہیں کہ تمہیں بتا سکوں۔۔یہ تھی انکی گفتگو۔۔وہ نم آنکھوں کیساتھ گنگ بیٹھی اسکا چہرہ دیکھتی رہی۔
انہوں نے تم سے ایکسکیوز نہیں کی؟ بھرائ آواز میں اس نے پوچھا.
کی تھی انہوں نے۔۔۔انہیں بڑا افسوس تھا کہ اس وقت انکے پاس کوئی پسٹل کیوں نہیں تھا یا کوئی اچھا والا چاقو ۔۔کیونکہ وہ مجھے زندہ سلامت دیکھ کر بے حد ناخوش تھے۔۔اسکا لہجہ طنزیہ تھا۔۔
پھر تم نے کیس کیوں ختم کردیا۔؟؟
تمہارے لیئے کیا۔۔۔اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔۔وہ سر جھکا کر رونے لگی۔
میں تم اور تمہاری فیملی سے کتنی شرمندہ ہوں میں بتا نہیں سکتی۔۔اس سے تو اچھا تھا وہ مجھے مار دیتے۔۔۔۔
میں نے تم سے کوئی شکایت کی ہے؟؟ وہ سنجیدہ تھا۔۔
نہیں۔۔۔لیکن تم مجھ سے ٹھیک طرح بات نہیں کر رہے کوئ بھی نہیں کر رہا۔
میں کل رات سے خوار ہو رہا تھا مجھے تو تم رہنے دو مجھے اس حوالے سے تم سے کوئ شکایت نہیں لیکن جہاں تک میری فیملی کا تعلق ہے تو وہ تھوڑا بہت تو ری ایکٹ کرینگے۔۔۔یہ فطری بات ہے۔۔دو چار ہفتے گزر جائیں پھر سب ٹھیک ہوجائیں گے۔۔اس نے رسانیت سے کہا۔۔
امامہ نے بھیگی ہوئ آنکھوں سے اسے دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
میری کوئی عزت نہیں کرتا۔۔۔
سالار نے اسکی بات کاٹ دی۔۔یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو ۔۔کسی نے تم سے کچھ کہا؟؟ پاپا نے؟ ممی نے ی کسی اور نے؟
کسی نے کچھ نہیں کہا لیکن۔۔۔۔۔۔
سالار نے پھر اسکی بات کاٹ دی۔۔اور کوئی کچھ کہے گا بھی نہیں تم سے۔ جس دن تم سے کوئ کچھ کہے تب کہنا کہ تمہاری عزت نہیں کرتا کوئ۔۔۔وہ بے حد سنجیدہ تھا۔۔۔
میں تمہیں کبھی اپنے باپ کے گھر بھی نہیں لیکر آتا اگر مجھے یہ خدشہ ہوتا کہ تمہیں عزت نہیں ملے گی۔تم سے شادی جیسے بھی ہوئ تھی تم میری بیوی ہو اور ہمارے سرکل میں ایسا کوئی نہیں جو یہ بات نہیں جانتا۔
اب یہ رونا دھونا بند کردو۔ اس نے قدرے جھڑکنے والے انداز میں کہا ۔
ساڑھے چھ بجے کی فلائٹ ہے۔۔سو جاؤ اب۔اس نے آنکھیں بند کرلی وہ اسکا چہرہ دیکھنے لگی ۔۔کچھ بھی کہے بنا وہ اسکے سینے پہ سر رکھ کر لیٹ گئی یہ پرواہ کیے بغیر کہ اسکے سر رکھنے سے اسکے کندھے میں تکلیف ہوسکتی ہے۔۔وہ جانتی تھی وہ اسے کبھی نہیں ہٹائے گا۔۔اور سالار نے اسکو نہیں ہٹایا۔۔بازو اس کے گرد حمائل کرتے ہوئے اس نے دوسرے ہاتھ سے لائٹ آف کردی۔۔
ممی ٹھیک کہتی ہے۔۔۔اس کے سینے پہ سر رکھے اس نے سالار کو بڑبڑاتے سنا۔۔
کیا؟؟ وہ چونکی۔۔۔
تم نے مجھ پر جادو کیا ہوا ہے۔۔۔وہ ہنس پڑی۔۔۔
***---*****----***----**--
اس واقعے کے چند ہفتوں بعد وہ لاہور میں بھی بڑے محتاط رہے لیکن آہستہ آہستہ ہر ڈر اور خوف ختم ہونے لگا۔ امامہ کی فیملی کی طرف سے اس بار اسطرح کی دھمکیاں بھی نہیں ملی تھی جیسی امامہ کے چلے جانے کے بعد وہ سکندر کو دیتے تھے۔
پولیس اسٹیشن میں تصفیہ کے دوران سکندر نے ہاشم مبین کو صاف صاف بتا دیا تھا کہ سالار اور امامہ کو کسی بھی طرح پہنچنے والے نقصان کی ذمہ داری وہ ہاشم کے خاندان کے علاوہ کسی پہ نہیں ڈالے گے۔
سالار نے ٹھیک کہا تھا کچھ عرصہ بعد انکی فیملی کا رویہ بھی امامہ کیساتھ ٹھیک ہوگیا طیبہ کی تلخی بھی ختم ہوگئ اور اس میں زیادہ ہاتھ امامہ کا ہی تھا وہ فطرتاً صلح جو اور فرمانبرار تھی اور احسان مند ہونے کے لیے اتنا کافی تھاکہ وہ اس انسان کی فیملی تھی جو اسے سر پہ اٹھائے پھرتا تھا۔
*****-------*******---*****
کوئ وسیم ہاشم صاحب ملنا چاہتے ہیں آپ سے۔ اپنی آفس کی کرسی میں جھولتا سالار ایک دم ساکت ہوگیا۔۔
کہاں سے آئے ہیں؟؟
اسلام آباد سے۔۔کہہ رہے ہیں کہ آپکے دوست ہیں۔ ریسپشنسٹ نے مزید بتایا۔۔۔
بھیج دو۔۔۔۔اس نے انٹرکام رکھ دیا اور خود سیدھا ہوکر بیٹھ گیا ۔۔وسیم کے آنے کا وہاں مقصد کیا تھا۔۔وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر کرسی سے اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا تب وسیم دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔۔ایک لمحے کے لیئے دونوں ساکت ہوئے۔۔پھر سالار نے ہاتھ بڑھایا۔۔ایک طویل عرصے کے بعد دونوں کی ہونے والی یہ پہلی ملاقات تھی۔۔
کیا لوگے؟ چائے؟ کافی؟ سالار نے بیٹھتے ہوئے کہا۔
کچھ نہیں ۔۔۔میں صرف چند منٹ کے لیے آیا ہوں۔۔وسیم نے جواباً کہا۔۔وہ دونوں کسی زمانے میں گہرے دوست تھے لیکن اس وقت انکو اپنے درمیان موجود تکلف کی دیوار کو ختم کرنا بلکل مشکل لگ رہا تھا۔
سالار نے دوبارہ کچھ پوچھنے کی بجائے انٹرکام اٹھا کر چائے کا آرڈر دے دیا۔۔۔
امامہ کیسی ہے؟؟ اسکے ریسیور رکھتے ہی وسیم نے پوچھا۔۔
شی از فائن۔ سالار نے نارمل انداز میں جواب دیا۔۔
میں اس سے ملنا چاہتا تھا تمہارے گھر کا ایڈریس تھا میرے پاس لیکن میں تم سے پوچھنا چاہتا تھا۔ وسیم نے جتانے والے انداز میں کہا۔۔
ظاہر ہے تمہیں یہ پتا چل سکتا ہے کہ میں کہاں کام کرتا ہوں تو ہوم ایڈریس معلوم کرنا زیادہ مشکل نہیں تھا۔سالار نے معمول کے انداز میں کہا۔۔
میں ملنا چاہتا ہوں اس سے۔۔۔۔وسیم نے کہا۔۔
مناسب تو شاید نہ لگے لیکن پھر بھی پوچھوں گا۔۔کس لیئے؟ سالار نے جواباً فرینک انداز میں کہا.
کوئ وجہ نہیں ہے میرے پاس. وسیم نے جواباً کہا۔اس دن ریسٹورنٹ میں جو چٹ۔۔۔۔۔
وہ تم نے بھیجی تھی میں جانتا ہوں۔ سالار نے اسکی بات کاٹی تھی۔وسیم ایک لمحے کے لیئے بول نہ سکا۔۔
تم نے اور امامہ نے جو کچھ کیا وہ بہت غلط کیا۔لیکن اب جو بھی ہوا وہ ہوچکا۔۔میں امامہ سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔
تمہاری فیملی کو پتا ہے؟ سالار نے پوچھا۔۔
نہیں۔۔۔انہیں اگر پتا چل گیا تو وہ مجھے گھر سے نکال دینگے۔۔سالار اسکا چہرہ دیکھ ریا تھا سچ اور جھوٹ جانچنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔اسکی نیت کیا تھی وہ یہ اندازہ نہیں کرسکتا تھا۔لیکن وہ اور امامہ ایک دوسرے کے بہت قریب تھے وہ یہ جانتا تھا۔لیکن سالار کے لیئے پھر بھی یہ مشکل تھا کہ اسے ملنے کی اجازت دے.
وسیم میں نہیں سمجھتا کہ اب اسکا کوئی فائدہ ہے۔امامہ میرے ساتھ خوش ہے اپنی زندگی میں سیٹلڈ ہے۔میں نہیں چاہتا وہ اپ سیٹ ہوجائے یا اسے کوئی نقصان پہنچے۔۔۔
میں نا تو اسے اپ سیٹ کرنا چاہتا ہوں نا ہی اسے کوئ نقصان پہنچانا چاہتا ہوں۔ میں بس کبھی کبھی اس سے ملنا چاہتا ہوں۔وسیم نے بے تابی سے کہا۔۔
میں اس پر سوچوں گا وسیم لیکن یہ بڑا مشکل ہے۔۔میں نہیں چاہتا کہ کوئ تمہیں استعمال کر کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسیم نے اسکی بات کاٹ دی۔۔
میں بھی نہیں چاہتا کہ اسے کوئ نقصان پہنچے ۔ایسی کوئ خواہش ہوتی تو اتنے سالوں میں تم سے پہلے رابطہ کر لیا ہوتا۔میں جانتا تھا وہ شادی کر کے تمہارے ساتھ گئ تھی۔ تم انوالوڈ تھے پورے معاملے میں لیکن میں نے فیملی کو یہ نہیں بتایا۔۔
سالار ایک لمحے کے لیئے ٹھٹکا پھر اس نے کہا۔۔وہ اتنے عرصے سے میرے ساتھ نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔
نہیں ہوگی۔۔لیکن وہ تم سے شادی کر کے گئ تھی۔ یہ میں جانتا تھا۔۔
میں سوچوں گا وسیم۔۔۔سالار نے بحث کرنے کی بجائے پھر وہی جملہ دہرایا۔ وسیم مایوس ہوا تھا۔۔۔
میں دو دن کے لیئے ہوں لاہور میں ۔۔اور یہ میرا کارڈ ہے۔میں اس سے واقعی ملنا چاہتا ہوں۔۔وسیم نے کارڈ اسکے سامنے ٹیبل پر رکھ دیا اس رات وہ خلاف معمول کچھ زیادہ ہی پریشان تھا۔ امامہ نے نوٹس کیا لیکن وجہ معلوم نہیں تھی اسکو۔
وہ کھانے کے بعد کام کرنے کے لیئے معمول کے مطابق اسٹڈی میں جانے کی بجائے اسکے پاس آکر لاؤنج میں بیٹھ گیا۔ پانچ دس منٹ کی خاموشی کے بعد امامہ نے بلآخر ایک گہرا سانس لیکر اسے کہتے سنا۔۔
امامہ۔۔۔۔اگر تم وعدہ کرو کہ تم خاموشی اور تحمل سے میری بات سنو گی آنسو بہائے بغیر تو مجھے تم سے کچھ کہنا ہے.
وہ چونک کر اسکی طرف متوجہ ہوئی۔ کیا کہنا ہے؟ وہ کچھ حیران تھی۔۔
وسیم تم سے ملنا چاہتا ہے۔۔۔اس نے بلا تمہید کہا۔۔
وہ ہل نہ سکی۔
وسیم ۔۔ ۔میرا بھائی؟؟ امامہ کے لہجے میں بے یقینی تھی۔ سالار نے سر ہلادیا اور اسکو اپنی آج کی ملاقات کی تفصیلات بتانے لگا اور اس دوران برسات شروع ہوچکی تھی۔۔
سالار نے بے حد تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اسکے علاوہ وہ اور کس چیز کا مظاہرہ کرسکتا تھا۔۔۔
تم نے کیوں اسے یہاں آنے نہیں دیا۔۔تم اسے ساتھ لیکر آتے۔اس نے ہچکیوں میں روتے ہوئے اسکی بات کاٹی۔۔
مجھے پتا تھا وسیم مجھے معاف کردے گا وہ بھی مجھے اتنا مس کرتا ہوگا جتنا میں اسکو مس کرتی ہوں۔۔میں تم سے کہتی تھی نا کہ وہ۔۔۔۔۔۔ سالار نے اسکی بات کاٹی۔۔
جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے امامہ۔۔۔میں نہیں جانتا کہ وہ کیوں ملنا چاہتا ہے تم سے، لیکن اسکے تمہارے ساتھ ملنے سے بڑے نقصان دہ نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔ سا لار اسکے آنسووں سے متاثر ہوئے بغیر بولا تھا۔۔وہ وسیم کے حوالے سے واقع خدشات کا شکار تھا۔۔۔
کچھ نہیں ہوگا۔۔۔مجھے پتا ہے کچھ نہیں ہوگا۔۔وہ بہت اچھا ہے۔۔تم اسے فون کر کے ابھی بلا لو ۔
میں اسے کل بلواؤں گا لیکن وہ اگر کبھی اکیلے یہاں آنا چاہے یا تمہیں کہیں بلائے تو تم نہیں جاؤ گی۔۔سالار نے اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔
اور میں ایک بار پھر دہرا رہا ہوں نہ وہ یہاں اکیلا آئے گا نہ تم اس کے فون کرنے پہ کہیں جاؤ گی۔۔سالار نے بڑی سختی سے اسے تاکید کی۔
میں اسکے بلانے پہ کہیں نہیں جاؤں گی لیکن اسکے یہاں آنے پر کیوں اعتراض ہے تمہیں۔۔؟ اس نے احتجاج کیا۔
وہ میرے گھر پر ہوتے ہوئے آئے مجھے کوئ اعتراض نہیں لیکن وہ اکیلا یہاں نہ آئے وہ تو خیر میں نیچے سیکیورٹی والوں کو بھی بتادوں گا۔۔
وہ میرا بھائی ہے سالار۔۔۔امامہ کو بے عزتی محسوس ہوئی۔
جانتا ہوں، اسی لیئے تم سے یہ سب کہہ رہا ہوں میں تمہارے حوالے سے اس پر یا کسی پر بھی اعتبار نہیں کرسکتا۔۔
لیکن،،،،،،
تم مجھے صرف یہ بتاؤ تمہیں اس سے ملنا ہے یا نہیں۔۔۔اگر تمہیں بحث کرنی ہےاس ایشو پر تو بہتر ہے وسیم آئے ہی نا۔۔سالار نے اسے جملہ مکمل نہیں کرنے دیا۔۔
ٹھیک ہے میں اسے اکیلے نہیں بلاؤں گی یہاں۔۔۔امامہ نے گھٹنے ٹیک دیئے۔
مجھے اس سے فون پر بات کرنی ہے۔۔۔سالار نے کچھ کہنے کی بجائے وسیم کا وزٹنگ کارڈ لا کر اسے دیا۔۔وہ خود اسٹڈی میں چلا گیا۔۔چند بار بیل ہونے ہر وسیم نے فون اٹھایا تھا اور اسکی آواز سننے پر امامہ کے خحق میں آنسوؤں کا پھندا لگا تھا۔
ہیلو۔۔۔میں امامہ ہوں۔۔
وسیم دوسری طرف کچھ دیر بول نہ سکا اسکی آواز بھرانے لگی تھی وہ دو گھنٹے ایک دوسرے کیساتھ بات کرتے رہے تھے۔ وسیم شادی کرچکا تھا اور اسکے تین بچے تھے وہ بہتے آنسوؤں کیساتھ یہ سب سنتی رہی۔۔
سالار دو گھنٹے بعد اسٹڈی سے نکلا تھا وہ اس وقت بھی فون کان سے لگائے سرخ آنکھوں کیساتھ فون پر وسیم سے گفتگو میں مصروف تھی۔ وہ اسکے پاس سے گزر کر بیڈروم گیا تھا۔اور امامہ نے ایک بار بھی اسے سر اٹھا کر نہیں دیکھا۔۔وہ اسکا انتظار کرتے کرتے سو گیا۔۔فجر کی نماز کے لیئے جب وہ مسجد جانے کے لیئے اٹھا تو وہ اس وقت بھی بستر پر نہیں تھی۔لاؤنج میں آتے ہی وہ کچھ دیر کے لیئے ہل نہ سکا۔۔وہاں کا انٹیریر راتوں رات بدل چکا تھا۔۔
تم ساری رات یہ کرتی رہی ہو؟؟ سالار پانی پینے کے لیئے کچن میں گیا تھا۔ تو اس نے کچن کے فرش کو کیبنٹ سے نکالی گئ چیزوں سے بھرا ہوا پایا۔۔اسکا دماغ گھوم کر رہ گیا۔۔۔
کیا؟؟ وہ اسی طرح کام میں مصروف اطمینان سے بولی۔۔
تمہیں پتا ہے، کیا کرتی رہی ہو تم۔ سالار نے پانی کا گلاس خالی کر کے کاؤنٹر پہ رکھ دیا اور باہر نکل گیا۔۔۔بیرونی دروازے تک پہنچ کر وہ کسی خیال کے تحت واپس آیا تھا۔۔۔
امامہ۔۔۔۔آج سنڈے ہے اور میں ابھی مسجد سے آکر سوؤں گا. خبردار تم نے بیڈروم کی صفائی اس وقت شروع کی۔
پھر میں کس وقت صفائی کروں گی بیڈروم کی۔۔۔۔میں نے وسیم کو لنچ پہ بلوایا ہے۔۔امامہ نے پلٹ کر کہا۔۔سالار کی چھٹی حس نے بروقت کام کیا تھا۔۔۔۔
بیڈروم کی صفائی کا وسیم کے لنچ کیساتھ کیا تعلق ہے؟ وہ حیران ہوا تھا۔تم نے اسے بیڈروم میں بٹھانا ہے؟؟
نہیں۔۔۔لیکن،،، وہ اٹکی تھی۔۔۔
امامہ بیڈروم میں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔مجھے سونا ہے آکر ابھی۔۔ اس نے امامہ کو ایک بار پھر یاد دہانی کرائی تھی۔۔۔۔
یہ سامان لا دینا مجھے سونے سے پہلے، کھانے کی تیاری کرنی ہے مجھے۔۔۔۔امامہ نے کاؤنٹر پہ پڑی ایک لسٹ کی طرف اشارہ کیا۔۔
میں فجر کی نماز پڑھنے جارہا ہوں اور یہ سامان تمہیں سو کر اٹھنے کے بعد لا کر دوں گا۔۔وہ لسٹ کو ہاتھ لگائے بغیر چلا گیا۔۔
تمام حدشات کے باوجود واپسی پراس نے اپنے بیڈروم کو اسی حالت میں دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔۔۔
اس نے دس بجے مطلوبہ اشیاء لا کر دی تھیں۔۔کچن تب تک کسی ہوٹل کے کچن کی شکل اختیار کرچکا تھا۔۔۔۔وہ پتا نہیں کون کونسی ڈشز بنا رہی تھی۔ وہ کم از کم 25 افراد کا کھانا تھا۔۔جو وہ اپنے بھائی کے لیئے بنا رہی تھی۔ سالار نے اسے کوئی نصیحت نہیں ک۔وہ لاؤنج میں بیٹھا انگلش لیگ کا کوئ میچ دیکھتا رہا۔۔
وسیم دو بجے آیا تھا اور دو بجے تک امامہ کو گھر میں کسی مرد کی موجودگی کا احساس تک نہیں ہوا.
وسیم کا استقبال اس نے سالار سے بھی پہلے دروازے پر کیا تھا۔بہن اور بھائ کے درمیان ایک جذباتی سین ہوا۔۔
اسکے بعد ساڑھے چھ بجے تک وسیم کی موجودگی میں وہ ایک خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتا رہا۔۔وہ کھانے کی ٹیبل پر موجود تھا لیکن اسے محسوس ہورہا تھا کہ اسکا ہونا نہ ہونا برابر تھا۔۔امامہ کو بھائ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔۔امامہ نے کھانے کی ٹیبل پر اسے کچھ سرو بھی نہیں کیا۔
وسیم کے جانے کے بعد سالار کی توقع کے عین مطابق بچا ہوا تقریباً سارا کھانا ملازمہ فرقان اور چند دوسرے گھروں میں بھیج دیا گیا۔۔
وہ عشاء کی نماز پڑھ کر آیا تو وہ اسکے لیئے ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگا کر خود سو رہی تھی۔۔وہ ویک اینڈ پر رات کا کھانا ہمیشہ باہر کھاتے تھے ۔۔
اس نے پہلی بار امامہ کے گھر پہ موجودگی کے باوجود اکیلے ڈنر کیا اور وہ بری طرح پچھتایا وسیم کو امامہ سے ملنے کی اجازت دے کر۔
امامہ۔۔۔۔یہ وسیم نامہ بند ہوسکتا ہے اب۔۔؟؟ وہ تیسرا دن تھا جب ڈنر پر بلآخر سالار کی قوت برداشت جواب دے گئ تھی۔
کیا مطلب؟؟ وہ حیران ہوئ تھی۔۔
مطلب یہ کہ دنیا میں وسیم کے علاوہ بھی کچھ لوگ ہیں جن کی تمہیں پرواہ کرنی چاہیئے ۔۔سالار نے ان ڈائریکٹ انداز میں کہا۔۔۔
مثلاً کون؟؟ اس نے جواباً اتنی سنجیدگی سے پوچھا تھا کہ وہ کچھ بول نہ سکا۔۔۔
اور کون ہے جس کی مجھے پرواہ کرنی چاہیئے ۔۔وہ اب بڑبڑاتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
میرے کہنے کا مطلب تھا کہ تم گھر پہ توجہ دو اب۔۔
وہ اب اسکے علاوہ اور کیا کہتا۔۔یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ مجھ پہ توجہ دو۔۔
گھر کو کیا ہوا؟؟ وہ مزید حیران ہوئی۔۔وہ اس بار مزید کوئ تاویل نہ دے سکا۔۔
تمہیں میرا وسیم کے بارے میں باتیں کرنا اچھا نہیں لگتا؟؟ اس نے یکدم جیسے اندازہ لگایا۔۔اسکے لہجے میں ایسے بے یقینی تھی کہ وہ ہاں نہ کہہ سکا۔۔۔
میں نے کب کہا کہ مجھے برا لگتا ہے۔۔ویسے ہی کہہ رہا ہوں تمہیں. وہ بے ساختہ بات بدل گیا۔
ہاں میں بھی یہ سوچ رہی تھی تم ایسا کیسے سوچ سکتے ہو وہ تمہارا بیسٹ فرینڈ ہے۔۔وہ یکدم مطمئن ہوئ۔
سالار اس سے یہ نہ کہہ سکا کہ وہ اسکا فرینڈ ہے نہیں کبھی تھا۔۔۔
تمہارے بارے میں بہت کچھ بتاتا تھا وہ۔۔
سالار کھانا کھاتے کھاتے رکا۔۔۔میرے بارے میں کیا؟؟
سب کچھ۔۔وہ روانی سے بولی۔۔
سالار کے پیٹ میں گرہیں سی پڑی۔۔سب کچھ کیا؟؟ مطلب جو بھی تم کرتے تھے۔
سالار کی بھوک اڑی تھی۔
مثلاً کیا؟؟ وہ پتا نہیں اپنے کن حدشات کو ختم کرنا چاہتا تھا۔۔وہ سوچ میں پڑی۔۔
جیسے تم جن سے ڈرگز لیتے تھے انکے بارے میں،، اور جب تم لاہور میں اپنے کچھ دوسرے دوستوں کیساتھ ریڈ لائٹ ایریا گئے تھے۔۔۔۔۔ وہ بات مکمل نہ کرسکی. پانی پیتے ہوئے سالار کو اچھو لگا۔
تمہیں اس نے یی بھی بتایا ہے کہ میں۔۔۔۔۔۔۔۔سالار خود بھی اپنا سوال پورا دہرا نہ سکا۔۔۔
جب بھی جاتے تھے تو بتاتا تھا۔۔
سالار کے منہ سے بے اختیار وسیم کے لیئے زیرلب گالی نکلی تھی اور امامہ نے اسکے ہونٹوں کی حرکت کو پڑھا تھا۔۔وہ بری طرح اپ سیٹ ہوئ۔
تم نے اسے گالی دی ہے؟؟ اس نے شاکڈ ہوکر سالار سے کہا۔۔
ہاں وہ سامنے ہوتا تو میں اسکی دو چار ہڈیاں بھی توڑ دیتا ۔وہ اپنی بہن سے یہ باتیں جا کر کرتا تھا۔
میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔۔وو واقعی بری طرح برہم ہوا ۔سب کچھ کی دو جھلکیوں نے اسکے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیئے تھے۔امامہ اسکے بارے میں کیا کچھ جانتی ہے اسکا اندازہ اسے آج ہوا۔۔۔
تم میرے بھائی کو دوبارہ گالی مت دینا۔امامہ کا موڈ بھی آف ہوگیا تھا۔وہ کھانے کے برتن سمیٹنے لگی تھی۔ سالار کچھ کہنے کی بجائے بے حد خفگی سے کھانے کی میز سے اٹھ گیا تھا۔۔
وہ تقریباً دو گھنٹے بعد بیڈروم میں سونے کے لیئے آئ تھی۔۔وہ اس وقت معمول کے مطابق اپنی ای میلز چیک کرنے میں مصروف تھا۔وہ خاموشی سے اپنے بیڈ پر آکر لیٹ گئ۔۔۔
میں نے وسیم کو ایسا کچھ نہیں کہا جس پر تم اس طرح ناراض ہو کر بیٹھو۔۔
سالار نے مفاہمت کی کوششوں کا آغاز کردیا۔۔۔۔وہ اسی طرح بے حس و حرکت لیٹی رہی۔۔
امامہ میں تم سے بات کر رہا ہوں۔۔۔۔سالار نے کمبل کھینچا تھا۔۔
تم اپنے چھوٹے بھائی عمار کو وہی گالی دے کر دکھاؤ۔۔اسکے تیسری بار کمبل کھینچنے پر وہ بے حد خفگی سے اسکی طرف کروٹ بدل کر بولی۔
سالار نے بلا توقف وہی گالی عمار کو دی۔ چند لمحوں کے لیئے امامہ کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہے اس سے. اگر دنیا میں ڈھٹائی کی کوئ معراج تھی تو وہ سالار تھا۔
میں پاپا کو بتاؤں گی۔ امامہ نے بھرائ ہوئ آواز میں کہا۔۔
تم نے کہا تھا عمار کو گالی دینے کو۔ ویسے تمہارے بھائ کو اس سے زیادہ خراب گالیاں میں اس کے منہ پر دے چکا ہوں اور اس نے کبھی مائنڈ نہیں کیا۔ اگر تم چاہو تو اگلی بار جب وہ یہاں آئے تو میں تمہیں دکھا دوں گا۔۔۔
وہ جیسے کرنٹ کھا کر اٹھ بیٹھی تھی۔
تم وسیم کو یہاں میرے سامنے گالیاں دو گے؟؟ اسے بے حد رنج ہوا تھا۔۔
جو کچھ اس نے کیا ہے میری جگہ کوئ بھی ہوتا تو اسے گالیاں ہی دیتا اور وہ بھی اس سے بری۔ سالار نے لگی لپٹی کے بغیر کہا۔۔
لیکن چلو آئ ایم سوری۔۔وہ اسکی شکل دیکھ کر رہ گئ۔
سکندر ٹھیک کہتے تھے انکی یہ اولاد سمجھ میں نہ آنے والی چیز تھی۔
لیکن پاپا۔۔وہ میرا بڑا خیال رکھتے ہیں میری کوئ بات نہیں ٹالتے ہر خواہش پوری کرتے ہیں۔۔۔
اس نے ایک بار سکندر کے پوچھنے پر کہ وہ اسکا خیال رکھتا تھا کے جواب میں سالار کی تعریف کی تھی۔۔۔
امامہ یہ جو تمہارا شوہر ہے یہ اللہ نے اس دنیا میں صرف ایک پیس پیدا کیا ہے تیس سال میں نے باپ کے طور پر جس طرح اسکے ساتھ گزارے ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں۔۔یہ تمہارے سامنے بیٹھ کر تمہاری آنکھوں میں دھول جھونک سکتا ہے اور تمہیں کبھی پتا بھی نہیں چلے گا۔۔۔ اس نے جو کرنا ہوتا ہے وہ کر کے ہی رہتا ہے چاہے ساری دنیا ختم ہوجائے اسے سمجھا سمجھا کر اور کبھی اس خوش فہمی میں مت رہنا کہ یہ تمہاری بات مان کر اپنی مرضی نہیں کریگا۔۔۔سالار سر جھکائے مسکرا کر باپ کی باتیں سنتا رہا۔اور امامہ کچھ الجھی ہوئ کبھی اسے اور کبھی سکندر کو دیکھتی۔آہستہ آہستہ چل جائے گا. تمہیں پتا کہ سالار کیا چیز ہے۔۔
یہ پانی میں آگ لگانے والی گفتگو کا ماہر ہے۔
تمہارا امپریشن بہت خراب ہے پاپا پر۔۔تمہیں کوئ وضاحت کرنی چاہیئے تھی۔۔
کیسی وضاحت؟؟ وہ بلکل ٹھیک کہہ رہے تھے۔تمہیں انکی باتیں غور سے سننا چاہیئے تھی۔
وہ تب بھی اسکا منہ دیکھتی رہ گئ تھی اور اب بھی۔۔۔
آئ ایم سوری۔۔وہ پھر کہہ رہا تھا۔
تم شرمندہ تو نہیں ہو۔۔اس نے اسے شرمندہ کرنے کی آخری کوشش کی۔
ہاں وہ تو میں نہیں ہوں۔ لیکن چونکہ تمہیں میرا سوری کرنا اچھا لگتا ہے اس لیئے آئ ایم سوری۔۔
اس نے تپانے والی مسکراہٹ کیساتھ کہا۔۔امامہ نے جواب دینے کی بجائے بیڈ سائڈ ٹیبل پر پڑا پانی کا پورا گلاس پی لیا اور دوبارہ کمبل کھینچ کر لیٹ گئ۔
پانی اور لادوں؟؟ وہ اسے چھیڑ رہا تھا۔۔۔امامہ نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔۔۔