
آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد
قسط نمبر گیارہ
وہ نیند میں سیل فون کی آواز پہ بڑبڑائی تھی۔ وہ سالار کا سیل فون تھا۔
ہیلو! سالار نے نیند میں کروٹ لیتے ہوئے کال ریسیو کی۔امامہ نے دوبارہ آنکھیں بند کرلی۔
ہاں بات کر رہا ہوں۔ اس نے سالار کو کہتے سنا۔ پھر اسے محسوس ہوا جیسے وہ یکدم بستر سے نکل گیا تھا۔۔امامہ نے آنکھیں کھولتے ہوئے نیم تاریکی میں اسے دیکھنے کی کوشش کی وہ لائٹ آن کیے بغیر اندھیرے میں ہی لاؤنج میں چلا گیا تھا۔
وہ کچھ حیران ہوئی تھی وہ کس کا فون ہو سکتا ہے۔جس کے لیے وہ رات کے اس پہر یوں اٹھ کر کمرے سے باہر گیا تھا۔
ایک جینز اور شرٹ پیک کردو میری۔ مجھے اسلام آباد کے لیے نکلنا ہے ابھی۔
کیوں خیریت تو ہے؟؟ وہ پریشان ہوگئ تھی۔
سکول میں آگ لگ گئ ہے۔ اسکی نیند پلک جھپکتے غائب ہوگئ تھی۔
سالار اب دوبارہ فون پر بات کر رہا تھا بے حد تشویش کے عالم میں کمرے میں واپس آکر اس نے اسکا بیگ تیار کیا وہ تب تک کمرے میں واپس آچکا تھا۔
آگ کیسے لگی؟؟
یہ تو وہاں جا کر پتہ لگے گا۔۔وہ بے حد عجلت میں اپنے کپڑے لیکر واش روم چلا گیا۔وہ بیٹھی رہی وہ اسکی پریشانی کا اندازہ کر سکتی تھی۔۔۔
دس منٹ میں تیار ہو کر وہ نکل گیا اور امامہ نے باقی ساری رات اسی پریشانی میں دعائیں کرتے ہوئے کاٹی۔ ۔
سالار کے گاؤں پہنچنے کے بعد بھی آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا۔۔۔ وجہ بروقت فائر بریگیڈ کا دستیاب نہ ہونا تھا اور اسکا اتنے گھنٹوں تک نہ بجھ پانے کا کیا مطلب تھا وہ امامہ سمجھ چکی تھی۔۔
وہ پورا دن جلے پاؤں کی بلی کی طرح گھر میں پھرتی رہی۔ سالار نے اسے بلآخر آگ پر قابو پانے کی اطلاع دے دی۔مگر ساتھ یہ بھی کہ وہ اسکو رات کو فون کریگا اور اس رات وہ اسلام آباد میں رہنے والا تھا۔۔
سالار سے آدھی رات کے قریب اسکی بات ہوئی وہ آواز سے اتنا تھکا ہوا لگ رہا تھا کہ امامہ نے اس سے زیادہ دیر بات کرنے کی بجائے سونے کا کہہ کر فون بند کردیا۔ لیکن وہ خود ساری رات سو نہ سکی۔۔آگ عمارت میں لگائ گئ تھی ۔۔وہاں پولیس کو ابتدائ طور پر کچھ ایسے شواہد ملے تھے۔اور یہ بات امامہ کی نیند اور حواس باطل کرنے کے لیئے کافی تھی۔۔
وہ صرف سالار کا سکول نہیں تھا وہ پورا پروجیکٹ اب ایک ٹرسٹ کے تحت چل رہا تھا۔ جس کی مین ٹرسٹی سالار کی فیملی تھی۔۔
اور اس پروجیکٹ کو اسطرح کا نقصان ایکدم کون پہنچا سکتا ہے؟ یہی وہ سوال تھا جو اسے ہولا رہا تھا۔۔
اگلی رات کو وہ گھر پہنچا اور اسکے چہرے پر تھکن کے علاوہ اور کوئ تاثر نہیں تھا۔۔امامہ کو جیسے حوصلہ ہوا تھا۔
بلڈنگ کے سٹرکچر کو نقصان پہنچا ہے جس کمپنی نے بلڈنگ بنائ ہے وہ کچھ ایگزامن کر رہے ہیں اب دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ شاید بلڈنگ گرا کر دوبارہ بنانی پڑ جائے۔۔
کھانے کی ٹیبل پر امامہ کے پوچھنے پر اس نے بتایا۔۔
بہت نقصان ہوا ہوگا۔۔۔یہ سوال احمقانہ تھا لیکن امامہ حواس باختہ تھی۔۔
ہاں۔۔۔۔۔جواب مختصر تھا۔
سکول بند ہوگیا؟؟ ایک اور احمقانہ سوال۔۔
نہیں۔۔۔گاؤں کے چند گھر فوری طور پر خالی کروائے ہیں اور کرائے پر لیکر سکول کے مختلف بلاکس کو شفٹ کیا ہے وہاں پر۔۔ ابھی کچھ دنوں میں سمر بریک آجائے گی تو بچوں کا زیادہ نقصان نہیں ہو گا۔۔وہ کھانا کھاتے ہوئے بتا رہا تھا۔
اور پولیس نے کیا کہا؟؟ ادھر ادھر کے سوالوں کے بعد امامہ نے بلآخر وہ سوال کیا جو اسے پریشان کیے ہوئے تھا۔
ابھی تفتیش شروع ہوئ ہے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔۔سالار نے گول مول بات کی تھی۔ اس نے اسے یہ نہیں بتایا کہ دو دن اسلام آباد میں وہ اپنی فیملی کے ہر فرد سے اس کیس کے مشتبہ افراد میں امامہ کی فیملی کو شامل کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا کرتا رہا تھا۔
اب کیا ہوگا؟؟ تیسرا احمقانہ سوال۔۔
سب کچھ دوبارہ بنانا پڑے گا اور بس۔۔جواب اتنا ہی سادہ تھا۔۔
اور فنڈز۔۔۔۔۔وہ کہاں سے آئینگے؟ یہ پہلا سمجھدارانہ سوال تھا۔
انڈوومنٹ فنڈ ہے سکول کا۔۔اسکو استعمال کرینگے کچھ انویسمنٹ کی ہے میں نے وہاں سے رقم نکلواؤں گا۔ وہ اسلام آباد کا پلاٹ بیچ دوں گا۔۔فوری طور پر تو تھوڑا بہت کرلوں گا۔۔
پلاٹس کیوں؟؟ وہ بری طرح بدکی تھی۔۔امامہ نے نوٹس نہیں کیا تھا کہ وہ پلاٹس نہیں پلاٹ کہہ رہا تھا۔۔
اس سے فوری طور پر رقم مل جائے گی۔ بعد میں لے لوں گا ابھی تو مجھے اس میس سے نکلنا ہے۔۔
تم وہ حق مہر کی رقم لے لو، آٹھ دس لاکھ کے قریب ویڈنگ پر ملنے والی گفٹ کی رقم بھی ہوگی اور اتنے ہی میرے اکاؤنٹ میں پہلے سے بھی ہونگے۔ پچاس ساٹھ لاکھ تو یہ ہو جائے گا اور ۔۔۔۔۔۔۔سالار نے اسکی بات کاٹی۔۔۔
یہ میں کبھی نہیں کروں گا۔۔
قرض لے لو مجھ سے، بعد میں دے دینا۔
نو۔۔۔۔اسکا انداز ختمی تھا۔۔
میرے پاس بے کار پڑے ہیں سالار! تمہارے کام آئیں گے تو۔۔۔۔۔۔۔اس نے پھر امامہ کی بات کاٹ دی۔
میں نے کہا نا نہیں۔۔۔۔۔۔اس نے اس بار ترشی سے کہا۔
میرے پیسے اور تمہارے پیسے میں کوئ فرق ہے کیا؟؟
ہاں ہے۔۔۔اس نے اسی انداز میں کہا۔۔
وہ حق مہر اور شادی پر گفٹ میں ملنے والی رقم ہے میں کیسے لے لوں تم سے۔۔ میں بے شرم ہوسکتا ہوں لیکن بے غیرت نہیں۔۔
اب تم خوامخوا جذباتی ہو رہے ہو اور۔۔۔۔۔۔۔
سالار نے اسکی بات کاٹی۔۔کون جذباتی ہو رہا ہے۔۔کم از کم میں تو نہیں ہورہا ۔وہ اسے دیکھ کر رہ گئ۔۔
میں تمہیں قرض دے رہی ہوں سالار۔۔
بہت شکریہ۔ مگر مجھے اسکی ضرورت نہیں۔۔مجھے قرض لینا ہوا تو بڑے دوست ہیں میرے پاس۔
دوستوں سے قرض لو گے بیوی سے نہیں؟؟
نہیں۔۔۔۔
میں تمہاری مدد کرنا چاہتی ہوں سالار۔۔
ایموشنلی کرو فنانشلی نہیں۔
وہ اسے دیکھتی رہ گئ۔ اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے کسطرح قائل کرے ۔۔
اور اگر میں یہ رقم ڈونیٹ کرنا چاہوں تو؟؟ اسے بلآخر ایک خیال آیا۔
ضرور کرو۔۔۔اس ملک میں بہت سارے خیراتی ادارے ہیں۔۔تمہارا پیسہ ہے چاہے آگ لگادو۔ لیکن میں یا میرا ادارہ نہیں لے گا ۔۔اس نے ختمی انداز میں کہا۔۔۔
تم مجھے کچھ ڈونیٹ نہیں کرنے دو گے۔۔۔
ضرور کرنا لیکن مجھے فی الحال ضرورت نہیں۔۔
وہ ٹیبل سے اٹھ گیا تھا۔
وہ بے حد اپ سیٹ اسے جاتا دیکھ رہی تھی. اسکے لیئے وہ دو پلاٹس اسکے گھر کی پہلی دو اینٹیں تھی۔ اور یہی چیز اسکے لیئے تکلیف دہ تھی۔ اور وہ احساس جرم بھی تھا جو وہ اس سارے معاملے میں اپنی فیملی کے انوالو ہونے کی وجہ سے محسوس کر رہی تھی۔۔وہ کہیں نہ کہیں اس رقم سے جیسے اس نقصان کی تلافی کرنا چاہتی تھی لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ سالار نے اسکی سوچ کو پہلے سے پڑھ لیا تھا۔۔وہ جانتا تھا کہ امامہ یہ کوششیں کیوں کر رہی ۔
********-----***---*******
جو کچھ ہوا اس میں میرا کوئی قصور نہیں نہ ہی میری کوئ انوالومنٹ ہے۔۔۔
اسکے سامنے بیٹھا وسیم بڑی سنجیدگی سے اسے یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔اور میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ سب ابو نے کیا ہے۔ میں نے گھر میں ایسا کچھ نہیں سنا۔۔
وسیم نے ہاشم کا بھی دفاع کرنے کی کوشش کی۔امامہ قائل نہیں ہوئی۔ وہ سالار کے سامنے اپنی فیملی کا دفاع کرنے کی کوشش کر سکتی تھی وسیم کے سامنے نہیں۔۔۔۔یہ جو کچھ ہوا تھا اس میں اسکے اہپنے ہی باپ کا ہاتھ تھا۔۔
ابو سے کہنا یہ سب کرنے سے کچھ نہیں ملے گا سالار کو کیا نقصان ہوگا یا مجھے کیا نقصان ہوگا۔ایک سکول ہی جلا ہے۔ پھر بن جائے گا۔۔ان سے کہنا وہ کچھ بھی کرلے ھم کو فرق نہیں پڑے گا۔۔
میں ابو سے یہ سب نہیں کہہ سکتا۔۔میں بہت بزدل ہوں۔۔تمہاری طرح بہادر نہیں۔۔
تمہارے جانے کے بعد اتنے سالوں میں بہت دفعہ کمزور پڑا میں بہت دفعہ شش و پنج کا شکار بھی ہوا اور شک و شبہ کا بھی۔ ۔بہت دفعہ دل چاہتا تھا زندگی کے اس غبار کو میں بھی ختم کر لوں جس سے میری بینائی دھندلائی ہوئ ہے لیکن میں بہت بزدل ہوں۔تمہاری طرح سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نہیں جاسکتا۔۔۔۔
اب آجاؤ۔ امامہ کو خود احساس نہیں ہوا اس نے یہ بات کیوں اس سے کہہ دی۔
وسیم نے اس سے نظریں نہیں ملائ پھر سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔اب تو بہت مشکل ہے جب اکیلا تھا تب کچھ نہ کرسکا اب تو بیوی بچے ہیں۔۔۔
ھم تمہاری مدد کرسکتے ہیں۔۔میں اور سالار۔۔۔کچھ بھی نہیں ہوگا تمہیں۔۔اور تمہاری فیملی کو تم ایک بار کوشش تو کرو۔۔۔
امامہ بھول گئ تھی اس نے وسیم کو کیا ڈسکس کرنے کے لیے بلایا تھا۔اور کیا باتیں لیکر بیٹھ گئ۔
انسان بہت خود غرض اور بے شرم ہوتا ہے امامہ یہ جو ضرورت ہوتی ہے نا یہ صحیح اور غلط کی سب تمیز ختم کردیتی ہے۔ کاش میں زندگی میں مذہب کو پہلی ترجیح بنا سکتا۔۔ مگر مذہب پہلی ترجیح نہیں ہے میری۔ وسیم نے گہرا سانس لیا تھا۔جیسے کوئ رنج تھا جس نے بگولہ بن کر اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
میں تمہاری طرح فیملی نہیں چھوڑ سکتا مذہب کے لیئے۔ تمہاری قربانی بہت بڑی ہے۔
تم جانتے بوجھتے جہنم کا انتخاب کر رہے ہو صرف دنیا کے لیئے؟؟ اپنی بیوی بچوں کو بھی اسی راستے پہ لے جاؤ گے کیونکہ تم میں صرف جرات نہیں ہے۔سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کی۔۔
وہ اب بھائ کو چیلنج کر رہی تھی۔ وہ ایک دم اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔۔جیسے بے قرار تھا۔۔
تم مجھے بہت بڑی آزمائش میں ڈالنا چاہتی ہو۔۔۔
آزمائش سے بچانا چاہتی ہوں۔۔۔آزمائش تو وہ ہے جس میں تم نے خود کو ڈال رکھا ہے۔۔
اس نے اپنی گاڑی کی چابی اٹھا لی۔۔میں صرف اسی لیئے تم سے ملنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔وہ کہتے ہوئے اسکے روکنے کے باوجود اپارٹمنٹ سے نکل گیا تھا۔۔وسیم کو پارکنگ میں اپنی گاڑی کی طرف جاتا دیکھ کر اسے جیسے پچھتاوا ہوا تھا۔۔وہ وسیم سے تعلق توڑنا نہیں چاہتی تھی۔ لیکن اسے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔
****----******-----*****--*
وسیم میرا فون نہیں اٹھا رہا۔ امامہ نے اس رات کھانے پر سالار سے کہا۔
ہوسکتا ہے وہ مصروف ہو۔ سالار نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
نہیں۔ وہ ناراض ہے۔۔
اس بار سالار چونکا۔ وہ کیوں ناراض ہوگا۔۔
امامہ نے اسے اپنی اور وسیم کی ساری گفتگو سنا دی۔۔سالار گہرا سانس لیکر رہ گیا۔۔۔
تمہیں ضرورت کیا تھی اس سے اس طرح کی گفتگو کرنے کی۔ بالغ آدمی ہے وہ بزنس کر رہا ہے بیوی بچوں والا ہے اسے اچھی طرح پتا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے زندگی میں اور کیا نہیں۔۔۔تم لوگ آپس میں ملنا چاہتے ہو تو مذیب کو ڈسکس مت کرو۔ سالار نے اسے سنجیدگی سے سمجھایا۔
بات اس نے شروع کی تھی۔۔امامہ نے جیسے اپنا دفاع کیا۔
اور خود بات شروع کرنے کہ بعد اب وہ تمہاری کال نہیں اٹھا رہا تو تم انتظار کرو جب اسکا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا خود ہی تمہیں کال کرلے گا۔۔ سالار کہہ کر دوبارہ کھانا کھانے لگا۔۔وہ اسی طرح بیٹھی رہی۔
اب کیا ہوا؟؟ سالار نے سلاد کھاتے ہوئے اسکی خاموشی نوٹس کی۔۔
میری خواہش ہے وہ بھی مسلمان ہو جائے اور گمراہی کے اس دلدل سے نکل آئے۔۔
سالار نے ایک لمحہ رک کر اسے دیکھا اور پھر بڑی سنجیدگی سے کہا۔۔۔
تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔۔یہ اسکی زندگی اسکا فیصلہ ہے۔۔تم اپنی خوایش اس پر لاگو نہیں کرسکتی۔۔اور تم دوبارہ کبھی اس سے اس مسئلے پر بات نہیں کروگی نہ ہی سکول کے حوالے سے کسی گلے شکوے کے لیئے اسے بلاؤ گی۔میں اپنے مسئلے خود ہینڈل کرسکتا ہوں۔۔وہ کہہ کر کھانے کی ٹیبل سے اٹھ گیا۔۔امامہ اسی طرح حالی پلیٹ لیے بیٹھی رہی۔۔
****-----****---***----****
اسکول کی بلڈنگ کے سٹرکچر کو واقعی نقصان پہنچا تھا ۔یہ سالار کے لیے حالیہ زندگی کا سب سے بڑا مالیاتی نقصان تھا۔۔ مختلف کیمیکلز سے انتہائی مہارت کیساتھ عمارت کے مختلف حصوں میں آگ لگائ گئ تھی۔ یہ کسی عام چور اچکے کا کام نہیں تھا۔۔اگر مقصد سالار کو نقصان پہنچانا تھا تو اسے بے حد نقصان ہوا اگر مقصد اسے چوٹ پہنچانا تھا تو یہ پیٹ پر ضرب لگانے جیسا تھا۔۔وہ دوہرا ہوا تھا لیکن منہ کے بل نہیں گرا تھا۔۔
اسے چھوڑ دو سالار۔۔۔۔وہ دوسرے ویک اینڈ پر اسلام آباد میں تھے اور طیبہ اس بار جیسے گڑگڑا رہی تھی۔ تمہیں شادی کا شوق تھا اب پورا ہوگیا۔۔اب چھوڑ دو اسے۔۔۔
آپکو اندازہ نہیں آپ کتنا تکلیف پہنچاتی ہے مجھے جب آپ مجھ سے اسطرح بات کرتی ہے۔ سالار نے انکو بات مکمل نہیں کرنے دی۔
تم نے دیکھا نہیں انہوں نے کیا کیا ہے۔۔۔
ابھی کچھ ثابت نہیں ہوا ۔اس نے پھر ماں کی بات کاٹی۔۔
تم عقل کے اندھے ہو سکتے ہو ہم نہیں۔۔۔اور کون ہے دشمن تمہارا امامہ کی فیملی کے سوا۔۔۔طیبہ برہم تھی۔۔۔
اس سب میں امامہ کا کیا قصور ہے۔۔
یہ سب اس کی وجہ سے ہو رہا ہے تم یہ بات کیوں نہیں سمجھتے۔۔
نہیں سمجھتا۔۔اور نہ ہی سمجھوں گا۔ میں کل بھی آپ سے کہہ رہا تھا آج بھی کہتا ہوں اور
آئندہ بھی کہوں گا میں امامہ کو طلاق نہیں دوں گا۔آپ کو کوئی اور بات کرنی ہے تو میں بیٹھتا ہوں اس ایشو پہ مجھے نہ آج اور نہ ہی دوبارہ بات کرنی ہے۔
طیبہ کچھ بول نہ سکی تھی۔ وہ آدھ گھنٹہ بعد تکوہاں بیٹھا رہا پھر واپس بیڈروم آگیا امامہ ٹی وی دیکھ رہی تھی۔۔وہ اپنا لیپ ٹاپ نکال کر کچھ کام کرنے لگا تھا۔اسے عجیب سا احساس ہوا تھا وہ جس چینل کو دیکھ رہی تھی اس پر مسلسل اشتہار چل رہے تھے اور وہ انہیں بڑی یکسوئی سے دیکھ رہی تھی۔۔سالار نے وقتاً فوقتاً دو تین مرتبہ اسکو اور ٹی وی کو دیکھا۔ اس نے دس منٹ کے دوران ایک بار بھی اسے چائے کا مگ اٹھاتے نہیں دیکھا تھا۔
اس نے لیپ ٹاپ بند کر دیا اور اسکے پاس صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی سالار نے اسکے ہاتھ سے ریمورٹ لیکر ٹی وی آف کر دیا۔
تم نے میری اور ممی کی باتیں سنی ہیں کیا؟؟ وہ چند لمحوں کے لیےساکت ہوگئ۔وہ جن یا جادوگر نہیں تھا۔۔۔شیطان تھا اور اگر شیطان نہیں تھا تو شیطان کا سینئر منسٹر تھا۔اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جھوٹ بولنا بیکار تھا۔۔اس نے گردن سیدھی کرلی۔
ہاں۔ چائے بنانے گئ تھی میں اور تم دونوں لاؤنج میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے میں نے کچن میں سنا سب۔۔۔
وہ اسے یہ نہ بتا سکی کہ طیبہ کے مطالبے نے چند لمحوں کے لیےاسکے پیروں تلے زمین نکال دی تھی۔
تم جب یہاں آتے ہو تو وہ یہ کہتی ہیں تم سے؟؟
ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے سالار سے پوچھا جو اسے تسلی دینے کے لیئے کچھ الفاظ ڈھونڈ رہا تھا۔
نہیں۔۔۔ہر بار نہیں کہتی ۔۔کبھی کبھی وہ اوور ری ایکٹ کرجاتی ہیں۔۔اس نے ہموار لہجے میں کہا ۔۔۔
میں اب اسلام آباد کبھی نہیں آؤں گی۔ اس نے ایک دم کہا۔
لیکن میں تو آؤں گا اور میں آؤں گا تو تمہیں بھی آنا پڑے گا۔۔۔ الفاظ سیدھے تھے لہجہ نہیں۔۔
تم اپنی ممی کی سائڈ لے رہے ہو؟؟
ہاں۔۔۔جیسے میں نے انکے سامنے تمہاری سائڈ لی تھی۔
وہ اسکے جواب پر چند لمحے کچھ بول نہ سکی۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔
خاموشی کا ایک اور لمبا وقفہ آیا۔ پھر سالار نے کہا۔
زندگی میں اگر کبھی میرے اور تمہارے درمیان علیحدگی جیسی کوئ چیز ہوئ تو اسکی وجہ میرے پیرنٹس یا میری فیملی نہیں بنے گی۔۔کم از کم یہ ضمانت میں تمہیں دیتا ہوں۔۔وہ پھر بھی خاموش رہی تھی
کچھ بولو۔۔۔
کیا بولوں؟؟
جب تم خاموش ہوتی ہو تو بہت ڈر لگتا ہے مجھے۔
امامہ نے حیرانی سے اسے دیکھا وہ سنجیدہ تھا۔۔
مجھے لگتا ہے تم پتا نہیں اس بات کو کیسے استعمال کروگی میرے خلاف۔۔۔۔۔۔۔ کبھی۔۔۔۔۔۔اس نے جملہ مکمل کرنے کے بعد کچھ توقف سے ایک آخری لفظ کا اضافہ کیا ۔۔وہ اسے دیکھتی رہی لیکن خاموش تھی۔سالار نے اسکا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا۔۔۔
تم میری بیوی ہو امامہ، وہ میری ماں ہیں۔۔میں تمہیں شٹ اپ کہہ سکتا ہوں انہیں نہیں. وہ ایک ماں کی طرح سوچ رہی ہیں اور ماں کی طرح ری ایکٹ کر رہی ہیں جب تم ماں بنو گی تو تم بھی اسی طرح ری ایکٹ کرنے لگو گی۔ انہوں نے تم سے کچھ نہیں کہا مجھ سے کہا۔۔میں نے اگنور کردیا۔جس چیز کو میں نے اگنور کردیا اسے تم سیریسلی لوگی تو یہ حماقت ہوگی۔
وہ اسے سمجھا رہا تھا وہ خاموشی سے سنتی رہی جب وہ خاموش ہوا تو اس نے مدھم آواز میں کہا ۔۔۔
میرے لئے سب کچھ کبھی ٹھیک نہیں ہوگا۔۔جب سے شادی ہوئ ہے یہی سب کچھ ہورہا ہے تمہارے لیئے ایک کے بعد ایک مسئلہ آجاتا ہے مجھ سے شادی اچھی ثابت نہیں ہوئ تمہارے لیئے۔۔ابھی سےاتنے مسئلے ہورہے ہیں تو پھر بعد میں پتا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار نے اسکی بات کاٹ دی۔۔
شادی ایک دوسرے کی قسمت سے نہیں کی جاتی ایک دوسرے کے وجود سے کی جاتی ہے اچھے دنوں کے ساتھ کے لیئے لوگ فرینڈشپ کرتے ہیں شادی نہیں۔۔۔ھم دونوں کا ماضی حال مستقبل جو بھی ہے جیسا بھی ہے ایک ساتھ ہی ہے اب اگر تم کو یہ لگتا ہے کہ میں یہ توقع کر رہا تھا کہ تم سے شادی کے بعد پہلے میرا پرائز بانڈ نکلے گا یا پھر کوئی بونس ملے گا یا پروموشن ہوگی تو سوری مجھے ایسی توقعات نہیں ۔جو کچھ ہورہا ہے وہ بے وقت ہوسکتا ہے میرے لیے لیکن غیر متوقع نہیں۔۔۔
میں تمہارے لیے کس حد تک جاسکتا ہوں کتنا سنسیئر ہوں وہ وقت بتا سکتا ہے اس لیے تم خاموشی سے وقت کو گزرنے دو ۔۔یہ چائے ٹھنڈی ہوگئ ہے جاؤ دوبارہ چائے بنا لاؤ ۔۔پیتے ہیں۔۔۔وہ اسکا چہرہ دیکھتی رہی۔۔کوئ چیز اسکی آنکھوں میں امڈنے لگی تھی۔۔
اسکی ضرورت نہیں ہے امامہ ۔۔سالار نے اسکے چہرے پر پھسلتے آنسوؤں کو دیکھتے ہوئے اس سے نرمی سے کہا۔وہ سر ہلاتے ہوئے اپنی ناک رگڑتی اٹھ گئ۔۔
******----**&*----****---*
سالار نے اس مسئلے کو کیسے حل کیا تھا یہ امامہ نہیں جانتی تھی۔سکول کی دوبارہ تعمیر کیسے شروع ہوئ تھی اسے یہ بھی نہیں پتا تھا سالار پہلے سے زیادہ مصروف تھا اور اسکی زندگی میں آنے والا طوفان کسی تباہی کے بغیر گزر گیا تھا۔
***********************
مجھے ہاتھ دکھانے میں کوئ دلچسپی نہیں ہے۔ سالار نے دو ٹوک انکار کرتے ہوئے کہا تھا۔
لیکن مجھے ہے۔۔امامہ اصرار کر رہی تھی۔
یہ سب جھوٹ ہوتا ہے۔۔ سالار نے اسے بچوں کی طرح بہلانے کی کوشش کی۔
کوئ بات نہیں، ایک بار دکھانے سے کیا ہوگا۔اسکے انداز میں تبدیلی نہیں آئی تھی۔
تم کیا جاننا چاہتی ہو اپنے مستقبل کے بارے میں مجھ سے پوچھ لو۔۔
سالار اسے پامسٹ کے پاس لیجانے کے موڈ میں نہیں تھا۔ جو اس فائیو سٹار ہوٹل کی لابی میں تھا جہاں وہ کھانا کھانے آئے تھے۔
ویری فنی۔۔۔۔۔۔۔ اس نے مذاق اڑایا تھا۔اپنے مستقبل کا تو تمہیں پتا نہیں میرا کیا ہوگا۔
کیوں ۔تمہارا اور میرا مستقبل ساتھ ساتھ نہیں کیا۔۔سالار نے مسکرا کر اسے جتایا۔
اسی لیئے تو کہتی ہوں پامسٹ کے پاس چلتے ہیں اس سے پوچھتے ہیں۔امامہ کا اصرار بڑھا تھا۔
دیکھو ہمارا آج ٹھیک ہے ۔۔کافی ہے۔۔۔تمہیں کل کا مسئلہ کیوں ہورہا ہے۔۔۔وہ اب بھی رضامند نہیں تھا۔
مجھے ہے کل کا مسئلہ۔۔وہ کچھ جھلا کر بولی۔
کتنے لوگ ہاتھ دکھا کر جاتے ہیں اس پامسٹ کو ۔۔تمہیں پتا ہے میرے کولیگز کو اس نے انکے فیوچر کے بارے میں کتنا کچھ ٹھیک بتایا تھا۔ بھابھی کی بھی کتنی کزنز آئ تھی اسکے پاس۔۔۔۔۔۔امامہ اب اسے قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
بھابھی آئ تھی انکے پاس؟؟ سالار نے جواباً پوچھا تھا۔
نہیں۔۔۔۔وہ اٹکی۔۔
تو؟؟
تو یہ کہ انکو انٹرسٹ نہیں لیکن مجھے تو ہے۔اور تم نہیں لیکر جاؤ گے تو میں خود چلی جاؤں گی۔۔وہ یکدم سنجیدہ ہوگئ تھی۔
کس دن؟؟ سالار نے جیسے ٹالا۔۔
ابھی۔۔۔
وہ بے اختیار ہنسا اور اس نے جیسے ہتھیار ڈال کر کہا۔۔
پامسٹ کو ہاتھ دکھانا دنیا کی سب سے بڑی حماقت ہے اور میں تم سے ایسی حماقت کی توقع نہیں رکھتا تھا لیکن اب تم ضد کر رہی ہو تو ٹھیک ہے۔۔تم دکھا لو ہاتھ۔۔
تم نہیں دکھاؤ گے؟؟ اسکے ساتھ لابی کی طرف جاتے ہوئے امامہ نے پوچھا۔۔۔
نہیں۔۔۔سالار نے دو ٹوک انداز میں کہا۔۔
چلو کوئ بات نہیں ۔۔خود ہی تو کہہ رہے ہو کہ میرا اور تمہارا مستقبل ایک ہے تو جو کچھ میرے بارے میں پامسٹ بتائے گا وہ تمہارے بارے میں بھی تو ہوگا۔۔امامہ اسے چھیڑ رہی تھی۔
مثلاً ۔۔۔۔سالار نے بھنویں اچکاتے ہوئے پوچھا۔
مثلاً اچھی خوشگوار ازدواجی زندگی ۔۔اگر میری ہوگی تو تمہاری بھی ہوگی۔۔
ضروری نہیں ہے۔۔۔وہ اسے اب تنگ کرنے لگا۔۔
ہوسکتا ہے شوہر کے طور پر میری زندگی بڑی بری گزرے تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔
تو مجھے کیا؟؟ میری تو اچھی گزر رہی ہوگی۔۔امامہ نے کندھے اچکا کر بے نیازی دکھائ۔
تم عورتیں بڑی سیلفش ہوتی ہو ۔سالار نے چلتے چلتے جیسے اسکے رویئے کی مذمت کی۔
تو نہ کیا کرو پھر ھم سے شادی۔۔نہ کیا کرو ھم سے محبت۔۔۔ھم کونسا مری جارہی ہوتی ہیں تم مردوں کے لیئے۔۔۔۔
امامہ نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا تھا ۔وہ ہنس پڑا۔۔۔چند لمحوں کے لیئے وہ جیسے واقعی لاجواب ہوگیا تھا۔
ہاں ھم ہی مرے جا رہے ہوتے ہیں تم عورتوں پر۔۔۔۔عزت کی زندگی راس نہیں آتی شاید اس لیئے۔وہ چند لمحوں بعد بڑبڑایا۔۔
تمہارا مطلب ہے تم شادی سے پہلے عزت کی زندگی گزار رہے تھے۔؟؟امامہ ھمیشہ کی طرح فوراً برا مان گئ تھی۔
ھم شاید جنرلائز کر رہے تھے۔۔سالار اسکا بدلتا موڈ دیکھ کر گڑبڑایا۔۔
نہیں۔۔۔تم صرف اپنی بات کرو۔
تم آگر ناراض ہورہی ہو تو چلو پھر پامسٹ کی طرف نہیں جاتے۔۔سالار نے اسے بے حد سہولت سے موضوع سے ہٹایا۔
نہیں میں کب ناراض ہوں ویسے ہی پوچھ رہی تھی۔۔۔امامہ کا موڈ یکدم بدلا۔
ویسے تم کیا پوچھو گی پامسٹ سے؟؟ سالار نے بات کو مزید گھمایا۔۔۔
بڑی چیزیں ہیں۔۔۔امامہ سنجیدہ تھی۔۔
وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر تب تک وہ پامسٹ تک پہنچ چکے تھے۔۔۔
پامسٹ اب امامہ کا ہاتھ پکڑے عدسے کی مدد سے اسکی لکیروں کا جائزہ لے رہا تھا۔پھر اس نے بے حد سنجیدگی سے کہنا شروع کیا۔۔
لکیروں کا علم نہ تو ختمی ہوتا ہے نہ الہامی۔ ھم صرف وہی بتاتے ہیں جو لکیریں بتا رہی ہوتی ہیں بہر حال مقدر سنوارتا اور بگاڑتا اللہ تعالی ہی ہے۔۔۔وہ بات کرتے کرتے چند لمحوں کے لیئے رکا۔ پھر اس نے جیسے حیرانی سے اس کے ہاتھ پر کچھ دیکھتے ہوئے بے اختیار اسکا چہرہ دیکھا۔اور پھر برابر کی کرسی پر بیٹھے اسکے شوہر کو دیکھا جو اس وقت بلیک بیری پر میسجز دیکھنے میں مصروف تھا۔۔
بڑی حیرانی کی بات ہے۔۔ پامسٹ نے دوبارہ ہاتھ دیکھتے ہوئے کہا۔۔
کیا؟؟ امامہ نے کچھ بے تاب ہو کر پامسٹ سے پوچھا۔
آپکی یہ پہلی شادی ہے؟؟ سالار نے نظر اٹھا کر پامسٹ کو دیکھا۔۔اسکا خیال تھا یہ سوال اسکے لیئے تھا۔۔لیکن وہ امامہ سے مخاطب تھا۔۔
ہاں۔۔امامہ نے کچھ حیران ہوکر پہلے پامسٹ کو اور پھر اسے دیکھا۔۔
اوہ۔۔۔۔اچھا۔۔۔پامسٹ پھر کسی غور و حوض میں مصروف ہوگیا۔۔
آپکے ہاتھ پر دوسری شادی کی لکیر ہے۔۔ایک مضبوط لکیر۔۔۔ایک خوشگوار کامیاب دوسری شادی۔۔۔
پامسٹ نے امامہ کو دیکھتے ہوئے حتمی انداز میں کہا۔۔امامہ کا رنگ اڑ گیا۔۔اس نے گردن موڑ کر سالار کو دیکھا۔۔وہ اپنی جگہ ساکت تھا۔۔
آپ کو یقین ہے؟؟ امامہ کو لگا جیسے پامسٹ نے کچھ غلط پڑھا تھا۔
جہاں تک میرا علم ہے اسکے مطابق تو آپکے ہاتھ پر شادی کی دو لکیریں ہیں اور دوسری لکیر پہلی کی نسبت زیادہ واضح ہے۔۔
پامسٹ اب بھی اسکے ہاتھ پر نظریں جمائے ہوئے تھا ۔۔۔سالار نے امامہ کے کسی اگلے سوال سے پہلے والٹ سے ایک کرنسی نوٹ نکال کر پامسٹ کے سامنے میز پر رکھا پھر بڑی شائستگی سے کہتے ہوئے اٹھ گیا۔۔۔
تھینک یو۔۔بس اتنی انفارمیشن کافی ہے۔۔ھم لیٹ ہورہے ہیں ھمیں جانا ہے۔۔۔اسے اٹھ کر وہاں سے چلتا دیکھ کر امامہ نہ چاہنے کے باوجود اٹھ کر اسکے پیچھے آئ تھی۔۔۔
مجھے ابھی اور بہت کچھ پوچھنا تھا اس سے۔۔امامہ نے خفگی سے کہا۔۔
مثلاً؟؟ سالار نے کچھ تیکھے انداز میں کہا۔
اس نے مجھے اور پریشان کردیا ہے۔۔۔امامہ نے اسکے سوال کا جواب نہیں دیا۔۔لیکن جب وہ پارکنگ میں آگئے تو اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی سالار سے کہا۔۔۔
یہ تمہارا اپنا انتخاب تھا اس نے تمہیں نہیں بلایا تھا تم خود گئ اپنا مسقبل دیکھنے۔۔۔سالار نے بے رخی سے کہا۔۔۔
سالار تم مجھے چھوڑ دو گے کیا؟؟ امامہ نے پوچھا۔
یہ نتیجہ اگر تم نے پامسٹ کی پیش گوئی کے بعد نکالا ہے تو مجھے تم پر افسوس ہے۔۔سالار کو غصہ آیا تھا اس پر۔۔
ایسے ہی پوچھا ہے میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں پہلے کم وہم تھے میرے بارے میں کہ کسی پامسٹ کی مدد کی ضرورت پڑتی۔۔سالار کی خفگی کم نہیں ہوئ تھی۔
دوسری شادی تو وہ تمہاری پریڈیکٹ کر رہا ہ۔۔ایک کامیاب خوشگوار ازدواجی زندگی اور تم مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ کیا میں تمہیں چھوڑ دوں گا؟؟ یہ بھی تو ہوسکتا ہے تم مجھے چھوڑو۔۔۔سالار نے اس بار چھبتے ہوئے انداز میں کہا۔۔اس کی گاڑی اب مین روڈ پر آچکی تھی۔۔
میں تو تمہیں کبھی نہیں چھوڑ سکتی۔۔امامہ نے سالار کو دیکھے بغیر بے ساختہ کہا۔۔۔
پھر ہو سکتا ہے میں مر جاؤں اور اسکے بعد تمہاری دوسری شادی ہو۔۔۔سالار کو یکدم اسے چڑانے کی سوجھی۔۔
امامہ نے اس بار اسے خفگی سے دیکھا ۔تم بے وقوفی کی بات مت کرو۔
ویسے تم کرلینا شادی اگر میں مر گیا تو ۔۔اکیلی مت رہنا۔۔۔امامہ نے کچھ اور برا مانا۔۔۔۔۔
میں کچھ اور بات کر رہی ہوں تم کچھ اور بات کرنا شروع کردیتے ہو۔۔اور تمہیں اتنی ہمدردی دکھانے کی ضرورت نہیں۔
تم اصل میں یہ چاہتے ہو کہ اگر میں مر جاؤں تو تم دوسری شادی کرلینا۔وہ کچھ لمحوں کی بعد یکدم بولی۔۔وہ اسکی ذہانت پر عش عش کر اٹھا۔۔۔
تو کیا میں نہ کروں؟سالار نے جان بوجھ کر اسے چھیڑا۔
مجھے پامسٹ کے پاس جانا ہی نہیں چاہیئے تھا۔ وہ پچھتائ تھی۔
تم مجھے سود کے بارے میں سوال کر تی ہو اور خود یہ یقین رکھتی ہو کہ اللہ کے علاوہ کسی انسان کو دوسرے انسان کی قسمت کا حال پتا ہوتا ہے؟؟ وہ ھمیشہ سے صاف گو تھا۔ مگر اسکی صاف گوئ نے امامہ کو پہلے کبھی اتنا شرمندہ نہیں کیا تھا جتنا اسوقت کیا. ۔گھڑوں پانی پڑنے کا مطلب اب سمجھ آیا تھا اسے۔۔
انسان ہوں۔۔فرشتہ تو نہیں ہوں میں۔۔۔اس نے مدھم آواز میں کہا۔
جانتا ہوں۔۔اور تمہیں کبھی فرشتہ سمجھا بھی نہیں میں نے، مارجن آف ایرر دیتا ہوں تمہیں لیکن تم مجھے نہیں دیتی۔۔
وہ اسے دیکھ کر رہ گئ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا ۔وہ بہت کم کوئ بات غلط کرتا تھا امامہ کو اسکا اعتراف تھا۔۔
زندگی اور قسمت کا پتا اگر ان چیزوں سے چلتا تو پھر اللہ تعالی انسان کو کبھی عقل نہیں دیتا۔صرف یہی چیزیں دیکر اسے دنیا میں اتار دیتا۔۔۔
وہ گاڑی چلاتے ہوئے کہہ رہا تھا اور وہ شرمندگی سے سن رہی تھی۔جب مستقبل نہیں بدل سکتے تو پھر جاننے کا کیا فائدہ۔ بہتر ہے غیب غیب ہی رہے اللہ سے اسکی خبر کی بجائے اسکا رحم و کرم مانگنا زیادہ بہتر ہے۔
وہ بول ہی نہیں سکی تھی۔سالار بعض دفعہ اسے بولنے کے قابل نہیں چھوڑتا یہ یقین یہ اعتماد تو اسکا اثاثہ تھا۔۔یہ اسکے پاس کیسے چلا گیا. امامہ کو اس رات پہلی بار یہ بے چینی ہوئ تھی۔۔ وہ ساتھی تھے رقیب نہیں تھے۔وہ ایمان کے درجوں میں اس سے پیچھے تھا وہ اسے کیسے پیچھے چھوڑنے لگا تھا اب۔۔
*****-------****----*****-*
وہ سالار کیساتھ خانہ کعبہ کے صحن میں بیٹھی ہوئ تھی۔سالار اس کے دائیں جانب تھا یہ وہاں انکی آخری رات تھی۔وہ پچھلے پندرہ دن سے وہاں تھے۔اور اپنی شادی کے ساتویں مہینے عمرے کے لیئے آئے تھے۔احرام میں ملبوس سالار کے برہنہ کندھے کو دیکھتے ہوئے امامہ کو ایک لمبے عرصے کے بعد وہ خواب یاد آیا تھا۔۔سالار کے دائیں کندھے پر کوئ زخم نہیں تھا لیکن اسکے بائیں کندھے کی پشت پر اب بھی اس ڈنر نائف کا نشان تھا۔جو ہاشم مبین نے مارا تھا۔
تم نے پہلے کبھی مجھے اس خواب کے بارے میں نہیں بتایا۔ وہ امامہ کے منہ سے اس خواب کے بارے میں سن کر شاکڈ تھا۔کب دیکھا تھا تم نے یہ خواب؟؟
امامہ کو تاریخ مہینہ دن سب یاد ہے تھا۔ کیسے بھولتی۔۔اس دن وہ جلال سے ملی تھی اتنے سالوں کے لاحاصل انتظار کے بعد۔۔۔۔۔۔
سالار گنگ تھا۔۔وہ وہی رات تھی جب وہ یہاں امامہ کے لیے گڑگڑا رہا تھا۔اس آس میں کہ اسکی دعا قبول ہوجائے ۔۔یہ جانے بغیر کہ اسکی دعا قبول ہورہی تھی۔
اس دن میں یہاں تھا۔۔اس نے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے امامہ کو بتایا۔ اس بار وہ ساکت ہوئ۔
عمرہ کے لیئے؟؟
سالار نے سر ہلایا۔وہ سر جھکائے اپنے ہونٹ کاٹتا رہا۔وہ کچھ بول نہ سکی۔ صرف اسکو دیکھتی رہی۔
اس دن تم یہاں نہ ہوتے تو شاید۔۔
ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن کہہ نہ سکی۔
شاید؟؟ سالار نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔ یوں جیسے وہ چاہتا تھا کہ وہ بات مکمل کر لے۔۔وہ کیسے کہتی کہ وہ اس دن یہاں نہ ہوتا تو شاید جلال اس سے اتنی سرد مہری نہ برتتا۔۔وہ سب کچھ نہیں کہتا جو اس نے کہا تھا۔وہ اسکے اور جلال کے بیچ اللہ کو لے آیا تھا۔اور اس کے لیئے اللہ نے سالار کو چنا تھا۔۔
سالار کی باتیں اسکی سماعتوں سے چپک گئ تھی۔
اتنے سالوں میں جب بھی یہاں آیا تمہارے لیے بھی عمرہ کرتا۔۔
وہ بڑے سادہ لہجے میں امامہ کو بتا رہا تھا اسے رلا رہا تھا۔۔۔
تمہاری طرف سے ہر سال عید پر قربانی بھی کرتا رہا ہوں میں۔۔
کیوں؟؟ امامہ نے بھرائ ہوئ آواز میں اس سے پوچھا تھا۔۔
تم منکوحہ تھی میری۔ دور تھی لیکن میری زندگی کا حصہ تھی۔۔
وہ روتی گئ۔۔اسکے لیے سب کچھ اسی شخص نے کرنا تھا کیا۔۔۔
اسے سالار کے حافظ قرآن ہونے کا بھی اس وقت پتا چلا تھا۔۔۔وہ جلال کی نعت سن کر مسحور ہوجاتی تھی۔ وہاں حرم میں سالار کی قرات سن کر گنگ تھی۔
ایسی قرات کہاں سے سیکھی تم نے؟؟ وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔
جب قرآن پاک حفظ کیا تب۔۔۔۔۔۔ اب تو پرانی بات ہوگئ ہے۔اس نے بڑے سادہ لہجے میں کہا۔۔
امامہ کو چند لمحوں کے لیئے جیسے اپنے کانوں پہ یقین نہیں آیا۔
تم نے قرآن پاک حفظ کیا ہوا ہے؟؟؟ ڈاکٹر صاحب نے کبھی نہیں بتایا۔۔وہ شاکڈ تھی۔۔۔
تم نے بھی کبھی نہیں بتایا اتنے مہینوں میں۔۔
پتا نہیں ۔۔کبھی خیال نہیں آیا ۔ڈاکٹر صاحب کے پاس آنے والے زیادہ لوگ حفاظ ہیں۔۔میرا حافظ قرآن ہونا انکے لیئے انوکھی بات نہیں ہوگی۔۔وہ کہہ رہا تھا۔
تم اتنا حیران کیوں ہورہی ہو۔۔
آنسوؤں کا ایک ریلہ امامہ کی آنکھوں میں آیا
جلال کو پیڈسٹل پر رکھنے کی ایک وجہ اسکا حافظ قرآن ہونا بھی تھا۔ اور آج وہ جسکی بیوی تھی حافظ قرآن وہ بھی تھا۔ اللہ اسکے سامنے ہوتا تو وہ اسکے آگے گر کر روتی بہت کچھ مانگا تھا پر یہ تو صرف چاہا تھا۔ وہ اتنا کچھ دے رہا ہے اسکا دل چاہا وہ ایک بار پھر بھاگ کے حرم میں چلی جائے جہاں سے وہ ابھی آئی تھی۔
رو کیوں رہی ہو؟
وہ اسکے آنسوؤں کی وجہ جان نہ پایا۔ وہ روتے روتے ہنسی۔۔
بہت خوش ہوں اس لیئے۔ تمہاری احسان مند ہوں اس لیئے۔۔نعمتوں کا شکر ادا نہیں کر ہا رہی اس لیئے۔۔وہ روتی ہنستی اور کہتی جارہی تھی۔
بے وقوف ہو اس لیئے۔۔۔سالار نے جیسے خلاصہ کیا۔۔
ہاں وہ بھی ہوں۔۔۔اس نے پہلی بار سالار کی زبان سے اپنے لیے بے وقوف کا لفظ سن کر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا تھا۔
ایک لمحہ کے لیے امامہ نے آنکھیں بند کی پھر آنکھیں کھول کر حرم کے صحن میں خانہ کعبہ کے بالکل سامنے، برابر میں بیٹھے سالار کو دیکھا جو بہت خوش الحانی سے قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔۔
فبای آلاء ربکما تکذبٰن
اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔۔
تم جو کچھ کر رہی ہو امامہ! تم اس پر بہت پچھتاؤ گی، تمہارے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ ۔
نو سال پہلے یہ ہاشم مبین نے اس کو تھپڑ مارتے ہوئے کہا تھا۔
ساری دنیا کی ذلت رسوائ، بدنامی اور بھوک تمہارا مقدر بن جائے گی۔ انہوں نے اسکے چہرے پر ایک اور تھپڑ مارا تھا۔۔
تمہاری جیسی لڑکیوں کو اللہ ذلیل و خوار کرتا ہے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑتا۔۔۔امامہ کی آنکھیں نم ہوگئ۔ ایک وقت آئے گا تم ھماری طرف لوٹو گی، منت سماجت کروگی، گڑگڑاؤ گی تب ھم تمہیں دھتکار دیں گے تب تم چیخ چیخ کر اپنے منہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگو گی کہو گی کہ میں غلط تھی۔۔۔امامہ اشکبار آنکھوں سے مسکرائ۔۔
میری خواہش ہے بابا۔۔۔وہ زیر لب مسکرائ۔۔کہ زندگی میں ایک بار آپ کے سامنے آؤں اور آپکو بتادوں کہ دیکھ لیجئے۔ میرے چہرے پر کوئ ذلت و رسوائ نہیں ہے۔میرے اللہ نے میری حفاظت کی، مجھے دنیا کے سامنے تماشا نہیں بنایا۔ میں اگر آج یہاں بیٹھی ہوں تو صرف اس لیے کیونکہ میں سیدھے رستے پہ ہوں اور یہاں بیٹھے میں ایک بار پھر اقرار کرتی ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں۔۔اسکے بعد نہ کوئ پیغمبر آیا ہے اور نہ آئے گا۔۔وہی پیر کامل ہیں۔میں دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے میری آنے والی زندگی میں بھی اپنے ساتھ شرک کروائے نہ ہی مجھے اپنے آخری پیغمبر کے برابر کسی کو لاکھڑا کرنے کی جرات ہو
بے شک میں اسکےی کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتی۔
سالار نے سورہ رحمٰن کی تلاوت ختم کرلی تھی۔ چند لمحوں کے لیئے وہ رکا پھر سجدے میں چلا گیا۔سجدے سے اٹھنے کے بعد وہ کھڑا ہوتے ہوتے رک گیا۔۔امامہ آنکھیں بند کیے دونوں ہاتھ پھیلائے دعا مانگ رہی تھی۔وہ اسکی دعا ختم ہونے کے انتظار میں وہی بیٹھ گیا۔امامہ نے دعا ختم کی۔سالار نے ایک بار پھر اٹھنا چاہا لیکن اٹھ نہ پایا۔۔امامہ نے بہت نرمی سے اسکا دایاں ہاتھ پکڑ لیا۔وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔۔
یہ جو لوگ کہتے ہیں نا کہ جس سے محبت ہوئ وہ نہیں ملا۔ایسا پتا ہے کیوں ہوتا ہے۔۔۔محبت میں صدق نہ ہو تو محبت نہیں ملتی۔نو سال پہلے جب میں نے جلال سے محبت کی تو پورے صدق کیساتھ کی۔۔دعائیں، وظیفے، منتیں۔۔کیا تھا جو میں نے نہیں کیا لیکن وہ مجھے نہیں ملا. پتا ہے کیوں؟ کیونکہ اس وقت تم بھی مجھ سے محبت کرنے لگے تھے اور تمہاری محبت میں، میری محبت سے زیادہ صدق تھا۔سالار نے اپنے ہاتھ کو دیکھا اسکی ٹھوڑی سے ٹپکنے والے آنسو اب اسکے ہاتھ پر گر رہے تھے سالار نے دوبارہ امامہ کے چہرے کو دیکھا۔۔۔
مجھے اب لگتا ہے اللہ نے مجھے بڑے پیار سے بنایا ہے وہ مجھے ایسے کسی شخص کو سونپنے پر تیار نہیں تھاجو میری قدر نہ کرتا۔۔اور جلال کبھی میری قدر نہیں کرتا۔اللہ نے مجھے سالار سکندر کو سونپا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ تم وہ شخص ہو جسکی محبت میں صدق ہے۔تمہارے علاوہ اور کون تھا جو مجھے یہاں لیکر آتا۔ تم نے ٹھیک کہا تھا تم مجھ سے پاک محبت کرتے ہو. ۔
وہ بے حس و حرکت سا اسے دیکھ رہا تھا اس نے اس اعتراف اس اظہار کے لیئے کونسی جگہ چنی تھی۔وہ اسکے ہاتھ کو نرمی اور احترام سے چومتے ہوئے باری باری اپنی آنکھوں سے لگارہی تھی۔
مجھے تم سے کتنی محبت ہوگی میں یہ نہیں جانتی۔۔دل پر میرا اختیار نہیں ہے مگر میں جتنی بھی زندگی تمہارے ساتھ گزاروں گی تمہاری وفادار اور فرمانبردار رہوں گی۔۔زندگی کے ہر مشکل مرحلے ہر آزمائش میں تمہارے ساتھ رہوں گی۔میں اچھے دنوں میں تمہاری زندگی میں آئ ہوں میں برے دنوں میں بھی تمہارا ساتھ نہیں چھوڑوں گی۔
اس نے جتنی نرمی سے اسکا ہاتھ پکڑا تھا اسی نرمی سے چھوڑ دیا۔۔سالار کچھ کہے بغیر اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔وہ خانہ کعبہ کے دروازے کو دیکھ رہا تھا بلاشبہ اسے زمین پر اتاری جانے والی صالح اور بہترین عورتوں میں سے ایک دی گئ تھی وہ عورت جس کے لیئے سالار نے ہر وقت اور ہر جگہ دعا کی تھی۔
کیا سالار سکندر کے لیے نعمتوں کی کوئ حد رہ گئ تھی؟؟ اور جب وہ عورت اسکے ساتھ تھی تو اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ کیسی بھاری ذمہ داری لیے بیٹھا تھا اسے اس عورت کا کفیل بنادیا گیا تھا جو نیکی اور پارسائ میں اس سے کئ زیادہ تھی۔
سالار تم سے ایک چیز مانگوں۔۔؟؟امامہ نے جیسے اسکے سوچ کے تسلسل کو روکا تھا۔سالار نے رک کر اسکا چہرہ دیکھا وہ جانتا تھا وہ اس سے کیا مانگنے والی ہے۔۔
تم ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا آخری خطبہ پڑھو ۔۔سالار کو اندازہ نہیں تھا۔وہ اس سے یہ مطالبہ کرنے والی تھی۔۔
آخری خطبہ؟؟ وہ بڑبڑایا۔
ہاں وہی خطبہ جو انہوں نے جبل رحمت کے دامن میں دیا تھا۔ اس پہاڑ پر جہاں چالیس سال بعد آدم و حوا بچھڑ کر ملے اور بخشے گئے تھے ۔۔۔امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔۔
ایک جھماکے کے ساتھ سالار کو پتا چل گیا تھا وہ اس سے آخری خطبہ کیوں پڑھوانا چاہتی ہے۔
اس نے آخری خطبے کے بارے میں سالار سے ایک دن پہلے بھی پوچھا تھا۔۔تب وہ جبل رحمت پر کھڑے تھے۔۔
تمہیں آخری خطبہ کیوں یاد آگیا؟؟ سالار نے کچھ حیران ہوکر اسے دیکھا۔
یہیں پر آخری حج کے اجتماع سے خطاب کیا تھا نا انہوں نے؟؟ وہ جبل رحمت کی چوٹی کےدامن کو دیکھ رہی تھی۔۔
ہاں۔۔۔۔سالار نے اسکی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے نیچھے جھانکا۔۔
تمہیں انکا خطبہ یاد ہے؟؟ امامہ نے پوچھا۔۔
سارا تو نہیں ۔۔۔۔سالار یاد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اٹکا۔بس چند احکامات یاد ہوں گے۔اس نے بات مکمل کرلی تھی۔
جیسے؟ امامہ نے دل گردہ نکال دینی والی بے رحمی کیساتھ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔۔وہ اسے بڑی نازک جگہ پر کھڑا کر کے زندگی کا مشکل ترین سوال پوچھ رہی تھی۔
مجھے ٹھیک طرح سے وہ احکامات یاد نہیں۔ میں ایک بار آخری خطبہ کو دوبارہ پڑھوں گا۔ پھر تم پوچھ لینا جو پوچھنا چاہتی ہو۔۔سالار نے بچنے کی ایک ناکام کوشش کی۔
مجھے پورا یاد ہے اور آج یہاں کھڑی ہوں تو اور بھی یاد آرہا ہے۔ میں سوچ رہی ہوں کہ انہوں نے وہ آخری خطبہ یہاں کیوں دیا تھا جہاں آدم و حوا ملے تھے۔۔شاید اس لیے کیونکہ دنیا کا آغاز انہی دو انسانوں سے ہوا اور دین مکمل ہونے کا اعلان بھی اسی میدان میں ہوا۔۔۔
اور اسی میدان میں ایک دن دنیا کا خاتمہ بھی ہوگا۔۔۔سالار لقمہ دیے بغیر نہ رہ سکا۔۔
امامہ ہنس پڑی۔۔۔
تم ہنسی کیوں۔ سالار الجھا۔
تم تو کہہ رہے تھے تم کو وہ چند احکامات بھی یاد نہیں اب یہ کیسے یاد آگیا کہ انہوں نے دین مکمل ہونے کا اعلان یہاں کیا تھا۔۔
سالار لاجواب ہوا تھا۔ امامہ اسی پرسوچ انداز میں کہنے لگی.
مجھے لگتا ہے وہ خطبہ دنیا کے ہر انسان کے لیئے تھا ہم سب کے لیئے ۔۔اگر وہ سارے احکامات جو اس آخری خطبہ میں تھے ھم سب نے اپنائے ہوتے یا اپنا لیں تو دنیا بے سکونی کا شکار نہ ہوتی۔ جہاں آج ھم کھڑے ہیں اگر وہ نبی کریمﷺ کی اپنی امت کے لیے آخری وصیت تھی تو ہم بہت بد قسمت ہیں کہ انکی سنت تو ایک طرف ان کی وصیت تک ہمیں یاد نہیں۔عمل کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ وہ کچھ جذباتی انداز میں بولتی گئ۔ وہ عورت نو سال پہلے بھی اسکے پیروں تلے سے زمین نکال سکتی تھی اور آج بھی نکال رہی تھی۔
تمہیں سود کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات پتا ہے نا اس خطبے کے؟؟ وہ تلوار سالار کی گردن پہ آگری تھی۔ جس سے وہ بچنے کی آج تک کوشش کرتا آیا تھا۔ وہ کس جگہ پر کھڑی اس سے کیا پوچھ رہی تھی۔ایسی ندامت تو کبھی خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوکر اللہ کے سامنے بھی نہیں ہوئ تھی اسے جتنی اسے اس جگہ کھڑے ہوکر ہوئ۔ سالار کو اس وقت ایسا لگا جیسے جبل رحمت پہ پڑے ہر پتھر نے اس پر لعنت بھیجی تھی۔ پسینہ ماتھے پر نہیں پیروں کے تلووں تک آیا تھا۔ اسے لگا جیسے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے کھڑا ہے۔ پھر وہ وہاں پر ٹہر نہ سکا اور امامہ کا انتظار کیئے بغیر جبل رحمت سے اترتا چلا گیا۔ وہ رحمت کا حقدار نہیں تھا تو وہاں کیسے کھڑا ہوتا۔۔اسے نیچے آ کر محسوس ہوا ۔۔اور آج امامہ نے وہ سوال حرم میں کردیا تھا۔ سالار نے اس بار اس سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ اس سے کیا مانگے گی۔۔اس نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حرم کے صحن سے نکلنے سے پہلے امامہ سے کہا تھا۔۔
میں جب بھی سود چھوڑوں گا تمہارے لیئے نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔۔۔بلکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیئے چھوڑوں گا۔۔۔امامہ نے بڑی ٹھنڈی آواز میں کہا۔۔تو پھر انہی کے لیئے چھوڑ دو۔۔
سالار ہل نہ سکا۔ یہ عورت اسکی زندگی میں پتا نہیں کس لیئے آئ یا لائ گئ تھی۔۔اسکو اکنامکس اور حساب کے ہر سوال کا جواب آتا تھا سوائے اس ایک جواب کے۔۔
تم تو حافظ قرآن ہو سالار۔ پھر بھی اتنی بڑی خلاف ورزی کر رہے ہو قرآن پاک اور اللہ کے احکامات کی۔۔امامہ نے کہا۔
تم جانتی ہو میں انویسٹمنٹ بینکنگ کروا رہا ہوں لوگوں کو اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امامہ نے اسکی بات کاٹ دی۔۔تم کو یقین ہے کہ اس میں سود کا ایک ذرہ بھی شامل نہیں؟
سالار کچھ دیر بول نہ سکا۔۔پھر اس نے کہا۔
تم بینکنگ کے بارے میں میرا مؤقف جانتی ہو۔۔چلو میں چھوڑ بھی دیتا ہوں یہ۔ بالکل، ہر مسلم چھوڑ دے بنکوں کو۔۔۔اسکے بعد کیا ہوگا۔۔حرام، حلال میں تبدیل ہوجائے گا؟ اس نے بڑی سنجیدگی کیساتھ کہا۔۔
ابھی تو ہم حرام کام ہی سہی مگر اس سسٹم کے اندر رہ کر اس سسٹم کو سمجھ رہے ہیں ایک وقت آئے گا جب ہم ایک متوازی اسلامک اکنامک سسٹم لے آئیں گے۔
ایسا وقت کبھی نہیں آئے گا۔۔امامہ نے اسکی بات کاٹ دی.
تم ایسے کیوں کہہ رہی ہو؟؟
سود جن لوگوں کے خون میں رزق بن کے دوڑنے لگے۔وہ سود کو مٹانے کا کبھی نہیں سوچیں گے۔
سالار کو لگا امامہ نے اسکو طمانچہ مارا ہے۔ بات کڑوی تھی پر سچی تھی۔۔۔
میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ اگر تم چیزوں کو بدل نہیں سکتے تو اپنی قابلیت ایک غلط کام کو عروج پہ پہنچانے کے لیے استعمال مت کرو۔
سالار سکندر کو ایک بار پھر حسد ہوا تھا۔ کیا زندگی میں ایسا کوئ وقت آنا تھا جب وہ امامہ ہاشم کے سامنے دیو بنتا۔۔۔۔کبھی بونا نہ بنتا۔۔۔فرشتہ دکھتا شیطان نہیں دکھتا۔
میں آخری خطبہ پڑھوں گا۔۔۔کہنا وہ کچھ اور چاہتا تھا اور کہہ کچھ اور دیا۔۔
مجھ سے سنو گے؟؟ امامہ نے اسکا ہاتھ تھام کر بڑے اشتیاق سے کہا ۔۔
تمہیں زبانی یاد ہے؟؟ سالار نے پوچھا۔
اتنی بار پڑھا ہے، زبانی دہرا سکتی ہوں۔۔
سناؤ۔۔۔سالار نے اسکے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔
****----****----***----**-*
سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور ہم اسی کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد و مغفرت طلب کرتے ہیں۔ اور اسی کے سامنے توبہ کرتے ہیں اور اسی کے سامنے اپنے نفس کی خرابیوں اور برے اعمال سے پناہ چاہتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئ گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ گمراہ کردے اسے کوئ ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئ معبود نہیں اور اسکا کوئ شریک نہیں اور میں اعلان کرتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کا بندہ اور رسول ہے۔
اے لوگوں! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور تمہیں اسکی اطاعت کا حکم دیتا ہوں۔ اور اپنے خطبے کا آغاز نیک بات سے کرتا ہوں۔۔لوگوں سنو۔۔میں تمہیں وضاحت سے بتاتا ہوں کیونکہ شاید اسکے بعد کبھی تم سے اس جگہ نہ مل سکوں۔
اچھی طرح سن لو۔ اللہ تعالی نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور میں آج سے تمام سود کل عدم قرار دیتا ہوں اور سب سے پہلے وہ سود معاف کرتا ہوں جو لوگوں نے میرے چچا عباس بن عبدالمطلب کو ادا کرنا ہے۔ البتہ تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے۔ جس میں نہ اوروں کا نقصان ہے نہ تمہارا۔۔
*****----****----*****--**-
پینتیس سالہ غلام فرید ذات کے لحاظ سے کمہار تھا اور پیشے کے لحاظ سے سکول کا چوکیدار تھا۔ گاؤں میں رہتا تھا لیکن شہر میں بسنے کے خواب دیکھتا تھا۔ اسے راتوں رات امیر بننے کا بھی بڑا شوق تھا ۔۔
وہ سات بہنوں کا اکلوتا اور سب سے بڑا بھائ تھا۔جسکی شادی کا خواب اسکے پیدا ہوتے ہی ماں نے سجا لیا تھا۔دھوم دھام کی شادی نے اگلے کئ سال غلام فرید کو وہ قرض چکانے میں مصروف رکھا۔جب وہ قرض ختم ہوا تو پھر اسکی بہنوں کی شادیوں کے لیئے قرض لینا پڑا اور اس بار خاندان والوں کے انکار پر اس نے سود پر قرضہ لیا۔سات بہنیں تھی اگلے سال کسی نہ کسی کی شادی آجاتی تھی۔۔پچھلا قرضہ وہی کا وہی کھڑا رہتا۔مزید قرضہ سر چڑھ جاتا اور پھر ایک کے بعد ایک بچے کی پیدائش۔۔۔غلام فرید کو کبھی کبھی لگتا تھا کہ اسکا نام غلام قرض ہونا چاہیئے۔۔شادی کے تیرہ سالوں میں قرضہ تو اس نے ادا کردیا لیکن سود کی رقم اسکے سر پر اسکے بالوں سے بھی زیادہ ہوگئ تھی۔اسکی بیوی بھی سکول میں صفائ کا کام کرتی تھی۔دو بڑے بچے بھی گاؤں کی دو دکانوں پہ کام کرتے تھے کئ سالوں سے سود کی وہ سل پھر بھی اسکے سینے سے ہٹی ہی نہیں۔بوجھ تھا کہ بڑھتا ہی گیا۔کئ بار وہ سوچتا تھا کہ ایک رات چپکے سے بیوی بچوں سمیت گاؤں سے بھاگ جائے۔۔غلام فرید کے خوابوں کی گاڑی ساری رات چھکا چھک چلتی رہتی۔گاؤں سے بھاگ جانا آسان تھا لیکن ان لوگوں سے چھپنا آسان نہیں تھا جس سےاس نے قرضہ لیا ہوا تھا وہ لوگ اسکی چمڑی ادھیڑنے کےپر قادر تھے اور اسے کتوں کے آگے پھنکوا دیتے۔
راہ فرار غلام فرید کے پاس نہیں تھی اوراگر کوئ تھی تو صرف ایک۔۔۔کہ وہ امیر ہوجاتا۔۔اور پتا نہیں کیوں اسے لگتا تھا کہ وہ امیر ہوسکتا ہے۔۔۔۔
*******----*****----****-*
اے لوگوں میں نے تم میں ایسی چیزیں چھوڑی ہے کہ تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔یعنی اللہ کی کتاب اور نبی کی سنت۔ اور تم لغو سے بچو کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔۔۔
***---*******----*****-*
چنی، غلام فرید کی آخری اولاد تھی اگر اسکی بیوی نسیمہ زندہ رہتی۔ اور وہ سب کچھ نہ ہوتا جو ہوگیا۔ڈیڑھ سالہ چنی کو اسکی پیدائش سے پہلے کئ بار مارنے کی کوشش کی گئ۔ نسیمہ کو جب اپنے نویں بار حاملہ ہونے کا علم ہوا تو اس نے گاؤں کی دائ سے ملنے والی ہر اس چیز کا استعمال کیا جس سے اسقاط حمل ہوجاتا۔۔چنی کو تو کچھ نہیں ہوا لیکن خود نسیمہ ان مضر صحت ادویات کے استعمال سےکئ قسم کی بیماریوں کا شکار ہوگئ۔
چنی کو مارنے کی ایک کوشش تب بھی کی گئ جب ساتویں مہینے طبیعت خراب ہونے پر نسیمہ کو شہر جانا پڑا اور وہاں الٹرا ساؤنڈ میں اسے اپنے ہونے والے بچے کی جنس کا پتہ چلا۔ نویں اولاد لڑکی ہونے کا مطلب تھا کہ اسکی بیٹیوں کی تعداد چھ ہوجائے گی۔۔۔۔نسیمہ کو جیسے غش آگیا تھا۔۔سات بہنیں بیاہتے بیاہتے غلام فرید اور اسکا یہ حال ہوگیا تھا اب چھ بیٹیاں بیاہتے انہیں کس دوزخ سے گزرنا تھا۔۔اس خیال نے آخری دو تین مہینے میں اسے ہر اس بد احتیاطی پر اکسایا جس سے بچی کی جان چلی جاتی۔نسیمہ کی اپنی خوش قسمتی تھی کہ وہ خود جان سے ہاتھ نہین دھو بیٹھی اس سے۔۔۔۔۔۔۔۔
چنی صحتمند پیدا ہوئ۔ اسکا پیدا ہونا جیسے اسکی اپنی ذمہ داری بن گئ تھی۔ماں کو ہفتے بعد ہی ڈیوٹی پر جانا تھا۔۔یہ کوئی شہر نہیں تھا کہ میٹرنیٹی لیو جیسی سہولت سے اسے نوازا جاتا۔۔اور وہ بھی نویں بچے کی پیدائش پر۔ باہ کے پاس تو پہلے ہی اپنے بچوں کے لیئے وقت نہیں تھا۔اسکے سر کا بوجھ مزید بڑھ گیا تھا۔
دو کمروں کا وہ گھر جو غلام فرید کا واحد خاندانی ترکہ تھا۔ چنی کی پیدائش کے چند ہفتوں بعد سود میں گروی رکھا گیا تھا۔ اسکول والوں نے اس وقت میں غلام فرید کی مدد کی اور اسے ایک کوارٹر دے دیا جس میں صرف ایک کمرہ تھا لیکن یہ بھی غنیمت تھا. چنی کی پیدائش اپنے ماں باپ کو خوب یاد رہی کہ اسکی پیدائش نے انہیں بے گھر کیا۔۔لیکن چنی کی خوش قسمتی یہ تھی کہ روایتی انداز میں اس ہر منحوس کا لیبل نہیں لگا۔۔
نحیف و نزار، سانولی رنگت والی چنی سارا دن گرمی میں بان کی ایک چارپائ پر پڑی رہتی، روتی کھلبلاتی پھر خود ہی اپنا انگوٹھا چوستی اور سو جاتی ۔۔کسی بہن کو خیال آجاتا تو چنی کو اسکے سستے سے پلاسٹک کے اس فیڈر میں دودھ مل جاتا جس میں اسکے ہر بہن بھائ نے دودھ پیا تھا جو اتنے سالوں میں اتنا گدلا، میلا اور گھس گیا تھا کہ اس میں ڈالا جانے والا دودھ بھی میلا لگنے لگتا تھا. وہ بلاشبہ جراثیم کی آماجگاہ تھی۔لیکن وہ غریب کی اولاد تھی اور غریب کی اولاد بھوک سے مرجاتی ہے۔۔۔گندگی سے نہیں۔۔۔
پورے دن میں ایک بار ملنے والا دودھ کا فیڈر وہ واحد غذا تھی جس پر چنی سارا دن گزارا کرتی تھی۔نسیمہ شام کو تھکی ہاری آتی تھی جو بھی روکھی سوکھی ملتی کھا کر کمرے میں لیٹ کر اپنے کسی بچے سے اپنی ٹانگیں دبوا لیتی تھی اور وہی سوجاتی تھی اسے پتہ بھی نہیں تھا کہ اس کمرے میں ایک نوزائیدہ اولاد ہے۔ہاں کبھی کبھار وہ اس وقت چنی کو دیکھنے بیٹھ جاتی تھی جب بڑی بچیوں کو اچانک وہم ہوتا تھا کہ چنی مر گئ ہے کیونکہ وہ کبھی سانس نہیں لے پاتی اور کبھی اسکا جسم اتنا ٹھنڈا ہوجاتا کہ نسیمہ کو لگتا انکا بوجھ واقعی کم ہوگیا ہے۔۔۔لیکن چنی اپنے ماں باپ کےسارے ارمانوں پر پانی پھیرتے ہوئے پھر سانس لینا شروع کردیتی تھی۔
بھوک واحد مسئلہ نہیں تھا چنی کو۔۔۔سارا سارا دن وہ پیشاب اور پاخانہ میں لتھڑی پڑی رہتی تھی۔چنی کے جسم پر کھجلی ہوئ اور پھر ایسے بڑھ گئ جیسے اسکی جلد عادی ہوکر خود ہی ٹھیک ہوتی گئ۔
کئ ہفتوں تک کسی کو خیال نہیں آیا کہ چنی کی پیدائش رجسٹر کروانی ہے۔۔اسکا کوئ نام ہونا چاہیئے۔چنی نام اسے اس کی ماں نے اسکی جسامت دیکھ کر دیا تھا پھر گاؤں میں حفاظتی ٹیکوں کی مہم والے آئے تو غلام فرید کو چنی کا نام اور پیدائش رجسٹر کروانی پڑی غلام فرید نے اسکے لیئے بھی تین سو روپے کسی سے ادھار لیئے تھے۔اور وہ ادھار بھی گاؤں کی مسجد کے امام سے۔اور ان تین سو روپوں نے اسکی زندگی میں کیا کردار ادا کرنا تھا۔اسکا اندازہ نہ غلام فرید کو تھا نہ ہی اس بچی کو۔ جسکا نام کنیز رکھ دیا گیا تھا۔گاؤں میں کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ کنیز ولد غلام فرید عرف چنی کو اس نام کی کوئ ضرورت نہیں کیونکہ اسکو اللہ نے کسی اور کام کے لیے چنا تھا۔۔
++++******++++****+
دیکھو میں نے حق پہنچا دیا ہے۔ پس اگر کسی کے پاس امانت رکھوئ گئ ہے تو وہ اسکا پابند ہے کہ اس امانت رکھوانے والے کو اسکی امانت پہنچائے اور بیشک تم سب کو اللہ کی طرف لوٹنا اور حساب دینا ہے۔۔۔
++++----++++----++++
امام صاحب سے تین سو کا وہ قرض ہی تھا جس نے پہلی بار غلام فرید کو یہ احساس دلایا کہ امیر بننا کوئی اتنا مشکل کام نہیں۔مولوی نے اسکو قرض دینے کیساتھ یہ ذمہ داری بھی سونپی تھی کہ وہ سکول کے مالکان سے مسجد کے لیے چندہ لیکر انہیں دے۔مولوی ان لوگوں میں سے تھا جو آخرت میں بھی جنت چاہتا تھا اور دنیا میں بھی جنت جیسا عیش و آرام۔
غلام فرید نے اسکو یقین دلایا کہ سکول کے مالکان اسکی بہت مانتے ہیں۔مولوی سے جھوٹ تو بول دیا اس نے مگر اب مولوی کے بار بار اصرار کرنے پر اس نے سکول کے مالکان سے مسجد کے چندے کی بات کر ہی لی۔۔اسکول کے مالک نے مولوی کو بلایا اور اس سے تفصیلات مانگی کہ کس لیئے رقم چاہیئے۔۔اس نے چھوٹے موٹے اخراجات کی ایک لمبی تفصیل پیش کردی۔سکول کے مالک نے تفصیلات جاننے کے بعد نہ صرف اس وقت کچھ وم مہیا کی بلکہ ہر مہینے ایک معقول رقم دینے کا وعدہ بھی کرلیا۔۔مولوی کی خوشی کا کوئ ٹھکانہ نہ رہا۔اسکی نظروں میں غلام فرید کی عزت ایک دم بڑھ گئ اور گاؤں میں پہلی دفعہ غلام فرید کو کسی نے عزت دی تھی۔۔وہ بھی مسجد کے امام نے۔۔۔جس نے نہ صرف جمعے کے خطبے میں لاؤڈ سپیکر پر سکول مالکان اور انتظامیہ کی دردمندی کے قصیدے پڑے بلکہ غلام فرید کی کوششوں کو بھی سراہا۔۔
سکول کے مالک نے یہ رقم غلام فرید کے ہی ہاتھوں مولوی کو پہنچانے کا وعدہ کیا تھا۔اسکو سونپی جانے والی ذمہ داری نے اسکی اہمیت مولوی کی نظر میں دوگنی کردی۔اگر مولوی کو یہ رقم مسجد کے انتظام و انصرام کے لیئے چاہیئے ہوتی تو وہ اسکی بالکل عزت نہ کرتا۔۔۔مگر مولوی کو یہ رقم اپنے لیئے چاہیئے تھی۔گاؤں کے دوسرے زمیندار اور صاحب حیثیت لوگوں سے وصول پائے جانے والے چندوں کی طرح جن کے بارے میں مولوی سے کوئ سوال و جواب نہیں کرتا تھا۔۔۔البتہ ان سب لوگوں کو جمعہ کی نمازکے خطبے کے دوران لاؤڈ سپیکر پر اس چندے کا اعلان چاہیئے ہوتا تھا او مولوی اس اعلان کو قصیدوں کے تڑکے کیساتھ پیش کرنے کے ماہر تھے۔۔
یہ پہلی بار ہوا تھا کہ پیسوں کے حوالے سے جواب دہی کا سسٹم بنانے کی کوشش کی تھی جو مولوی کو قابل قبول نہیں تھی لیکن چندے کی ماہانہ رقم کا ٹھکرانے کا حوصلہ بھی نہیں تھا اس میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکول کا مالک وہاں دوسرے مہینے آیا تھا اور مولوی نے غلام فرید کے ساتھ ملکر مسجد میں ہونے والی تمام مروتیں اسے دکھائ تھی۔وہ مطمئن ہوکر لوٹا۔مگر یہ صرف اس مہینے ہوا اگلے مہینے غلام فرید کے ہاتھ سے وصول کرنے والے رقم کا مولوی نے کیا کیا تھا۔۔اسکا غلام فرید کو اندازہ بھی نہیں ہوا۔وہ مسجد میں دو چار بار گیا تھا اسکا استقبال خوب اچھی طرح کیا گیا۔۔مولوی نے اپنے گھر سے کھانا چائے پانی بھی دیا۔لیکن چندے کے استعمال کے بارے میں بس آئیں بائیں شائیں کرتا رہا۔۔غلام فرید کو چندے کے درست استعمال سے کوئ دلچسپی نہیں تھی مگر اپنے ہاتھ سے ہر مہینے بیس ہزار کی رقم جس مشکل سے مولوی کو دے رہا تھا یہ صرف وہ ہی جانتا تھا۔مگر اسے خوف تھا تو صرف اللہ کا ۔کیونکہ وہ مسجد کا پیسہ تھا۔۔اسکے دل سے چندے کے حوالے سے اللہ کا خوف ختم کرنے میں مولوی نے بنیادی کردار ادا کیا۔۔۔اگر مولوی مسجد کے پیسوں کو لوٹ کا مال سمجھ کر کھا رہا تھا تو غلام فرید کو بھی حق تھا۔۔اسکے سر پہ بھی تو قرضہ تھا وہ چار مہینے خود میں یہ ہمت پیدا کرتا رہا کہ وہ مولوی سے اس سلسلے میں بات کرسکے۔اسے ان پیسوں میں حصہ چاہیئے تھا۔۔آدھا آدھا یا کم از کم پانچ ہزار تو بنتا ہی تھا۔سکول کے مالک کو اطمینان ہوگیا تھا کہ مولوی نے مسجد کی حالت کو بہتر کرلیا ہوگا اسکے ماہانہ بھیجے گئے پیسوں سے قرآن پاک کی تعلیم کے لیئے آنے والے بچوں اور مسجد کے بنیادی قسم کے اخراجات پورے ہوتے رہینگے۔۔غلام فرید نگران تھا کہ وہ یہ دیکھے لہ مسجد میں آنے والے بچوں کو قرآن پاک قاعدے سپارے مسجد ہی مہیا کرے۔غلام فرید کو اندازہ ہوگیا تھا کہ مسجد میں آنے والے کسی بچے کو مسجد سے کچھ نہیں مل رہا اور اگر کچھ مل رہا تو بلکل بھی مفت نہیں مل رہا۔یہ اسکی بے چینی کا آغاز تھا۔۔اور اس وقت اسکی بے چینی اپنے انتہا پر پہنچ گئ جب چوتھے مہینے مولوی نے نیا موٹر سائیکل خرید لیا۔وی اسکی نئ موٹر سائیکل کو دیکھ کر اس قدر حسد اور خفگی کا شکار ہوا کہ وہ پیسوں کا ذکر کیئے بغیر صرف مٹھائ کھا کر آگیا تھا۔مولوی نے ماہانہ چندے کا پوچھا کیونکہ وہ مہینے کی پہلی تاریخ تھی۔غلام فرید نے اس دن مسجد میں بیٹھ کر پہلا جھوٹ بولا تھا کہ سکول کا مالک ملک سے باہر چلا گیا ہے اور ابھی واپس نہیں آیا۔۔مولوی کو ایک دم فکر لاحق ہوئ کہ اگر سکول کا مالک فوری طور پہ واپس نہ آیا تو پھر اس مہینے کے پیسے کون دے گا۔۔ غلام فرید نے اسکو سکول کے مالک کا فون نمبر دے دیا تھا جو غلط تھا۔۔۔۔۔
وہ بیس ہزار کی رقم جیب میں لیئے اس دن ایک عجیب سی کیفیت کیساتھ مسجد سے نکلا تھا یوں جیسے اسکی لاٹری نکلی تھی۔اسے پتا تھا مولوی ہر سال مختلف چیزوں سے اکٹھی ہونے والی رقم کو اپنی رقم کے طور پر گاؤں کے انہی سودخوروں کو بزنس میں سرمایہ کاری کے لیئے دیتے تھے جو سود خور غلام فرید جیسے ضرورتمندوں کو وہ رقم دیکر انہیں ساری عمر کے لیئے چوپایہ بنا دیتے ہیں۔
مولوی نے ایک ڈیڑھ ہفتہ مزید رقم کا انتظار کیا اور پھر کچھ بے صبری میں وہ نمبر گھما دیا تھا۔نمبر آف تھا۔ دو دن وقفے وقفے سے کئ بار فون کرنے پر بھی جب فون بند ملاتو مولوی غلام۔فرید کی بجائے سکول پہنچ گئے۔
اور وہاں جاکر انہیں یہ خبر ملی کہ سکول کا مالک کچھ دن پہلے سکول سے ہوکر جاچکے تھے۔۔مولوی کا پارہ اب ہائ ہوگیا تھا۔اس نے غلام فرید کو اسکے کوارٹر پر جالیااور جب غلام فرید نے انہیں ایک بار پھر وہی کہہ کر ٹرخانے کی کوشش کی تو مولوی نے اسکے جھوٹ کا پول کھول دیا کہ وہ سکول سے ہوکر آیا ہے اور سب جانتا ہے۔۔۔غلام فرید نے کہا کہ ہوسکتا ہے وہ آیا ہو اور اس دن میری چھٹی ہو اور مالک کی ملاقات مجھ سے نہیں ہوئ۔
مولوی اس پر کچھ زیادہ بھڑکے۔۔غلام فرید کو اندازہ ہوگیا کہ وہ اب مولوی سے مزید جھوٹ نہیں بول سکتا اسے اب دو ٹوک صاف صاف بات کرنی پڑی۔۔اس نے مولوی کو بتایا کہ اسے ہر مہینے اس رقم میں اپنا حصہ چاہیئے۔۔کچھ لمحوں کے لیئے مولوی کو یقین نہ آیا کہ گاؤں کا ایک کمی کمین مسجد کے امام سے کیا مطالبہ کر رہا ہے۔جب انہیں یقین آیا تو اسکے منہ سے غصہ میں جھاگ نکلنے لگا تھا۔تم اللہ کے گھر کے لیئے ملنے والے ہدیے سے اپنا حصہ مانگ رہے ہو دوزخی انسان۔۔
انہوں نے غلام فرید کو ڈرانے کی کوشش کی تھی لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ دوزخ جیسی زندگی گزار کر وہ موت کے بعد دوزخ سے کیا ڈرتا۔۔
اللہ کے گھر کے پیسے اگر اللہ کے گھر پہ لگتے تو کبھی نہ مانگتا مولوی صاحب۔۔۔اس نے بھی تن کر کہہ دیا اس سے۔۔مولوی نے اسکو دھمکایا کہ وہ سکول کے مالک سے بات کرینگے۔اور اسے سارا کچا چٹھا سنادینگے۔۔
جواباً غلام فرید نے اسے دھمکایا کہ وہ بھی سکول کے مالک کو یہ بتادے گا کہ مولوی چندے والی رقم کو خود استعمال کر رہے ہیں اور انہوں نے مسجد کے پیسوں کو ایک سود خور کو دے رکھا ہے اور وہ اسکا سود کھا رہے ہیں۔۔بلکہ وہ پورے گاؤں میں انکو بدنام کر دے گا۔مولوی کے تن بدن میں آگ لگ گئ تھی اسکا بس چلتا تو غلام فرید کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کتوں کو ڈال دیتا۔۔۔وہ اسے جی بھر کے برا بھلا کہتا رہا۔اس دن مولوی نے غلام فرید کو دنیا بھر کی ہر وہ گالی دی جو اس نے کبھی بھی کسی سے سنی تھی لیکن غلام فرید ڈھٹائ سے اپنے پیلے دانتوں کیساتھ منہ کھول کر انکے سامنے ہنستا رہا۔۔
ٹھیک ہے مولوی صاحب مجھے تو کیڑے پڑے گے سانپ اور بچھو قبر میں میری لاش نوچیں گے اور مجھے مرتےوقت کلمہ بھی نصیب نہیں ہوگا۔میرے ساتھ جو بھی مرنے کے بعد ہوگا لیکن آپکے بیس ہزار تو آپکی زندگی میں بند ہوجائیں گے۔۔۔اسی مہینے سے۔۔۔میں مالک کو کہہ دیتا ہوں کہ میں نے اس لیئے آپکو پیسے نہیں دییے کیونکہ آپ تو مسجد میں پیسہ لگا ہی نہیں رہے ہیں تو سوچیں زیادہ نقصان جنتی کا ہوا یا دوزخی کا۔۔۔
سب گالم گلوچ اور لعنت ملامت کی بعد مولوی نے گھر آکر اپنی بیوی سے مشورہ کیا اور پھر اگلے دن بڑے ٹھنڈے دل و دماغ کیساتھ مولوی نے غلام فرید کیساتھ پندرہ ہزار وصول کرنے پر اتفاق کرلیا۔اور اس سے بھی بڑی اعلی ظرفی کا مظاہرہ اس نے تب کیا جب غلام فرید نے کہا کہ اس مہینے کے بیس ہزار وہ پہلے ہی خرچ کرچکا ہے۔۔یہ پچھلے چار مہینے کے پیسوں سے اسکا کمیشن تھا۔مولوی کا دل چاہا کہ اس غلام فرید نامی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کو اپنے ہاتھوں سے گاؤں کے بیچ کھیتوں میں اس طرح پھانسی پر لٹکا دے جسطرح لوگ کھیتوں میں پرندوں کو ڈرانے کے لیئے بیچا لگاتے ہیں۔مگر اسے یاد آیا کہ سال کے آخر میں اس نے اپنی بیٹی کی شادی بھی کرنی تھی اور وہ زمین بھی خریدنی تھی جسکا بیعانہ وہ کچھ دن پہلے دے کر آئے تھے۔۔۔۔
غلام فرید کو یقین نہیں آیا تھا کہ بیٹھے بٹھائے اس کو ہر ماہ تنخواہ سے کچھ ہی تھوڑی رقم ملنے لگی تھی۔اور وہ رقم اگر وہ سود والوں کو دے دیتا تو بہت جلد اسکا سود ختم ہونے والا تھا۔۔مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ مولوی سے دشمنی پال کر اس نے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کرلی تھی۔۔۔۔۔سود لینے سے بھی بڑی غلطی۔۔۔
******----------***********
اے لوگوں! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو ۔تم نے اللہ کو گواہ بنا کر اسکو خود پر حلال کیا۔اور انہیں اپنی امان میں لیا۔تمہیں اپنی عورتوں پر حقوق حاصل ہیں بالکل ویسے ہی جیسے تمہاری عورتوں کو تم پر حقوق حاصل ہیں۔۔۔ان پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کیساتھ دوستی نہ کرے جسے تم پسند نہیں کرتے اور تمہاری حرمت کی نگہبانی کرے۔اور اگر وہ تمہاری فرمانبردار رہتی ہیں تو پھر یہ انکا حق ہے کہ تم انکے ساتھ اچھا سلوک کرو اور انکے نان نفقہ کی ذمہ داری اٹھاؤ۔۔۔۔
*******----------*********
احسن سعد نے تین سال کی عمر میں اپنی ماں کو اپنے باپ کے ہاتھوں پہلی بار پٹتے دیکھا تھا۔ اس نے کوئ بے حیائ کا کام کیا تھاوہ کام کیا تھا وہ تین سال کی عمر میں جان نہ سکا۔ لیکن اپنے باپ کی زبان سے بار بار ادا ہونے والا وہ لفظ اسکے ذہن پر نقش ہوگیا تھا۔
اسے یہ بھی یاد تھا کہ اسکے باپ نے اسکی ماں کے چہرے پہ دو تین تھپڑ بھی مارے تھے اسکا بازو بھی مروڑا تھا اور پھر اسے دھکا دیکر زمین پر گرا لیا تھا۔۔اسے وہ چاروں غلیظ گالیاں بھی یاد تھی۔جو اسکے باپ نے اسکی ماں کو دی تھی۔۔
وہ خوف کے مارے کمرے میں موجود صوفے کے پیچھے چھپ گیا تھا۔۔کیونکہ اسکو پہلا خیال یہ آیا تھا کہ اسکا باپ اب اسکو پٹے گا۔
اس کے باپ نے اسے چھپتے دیکھا تھا ۔مار کٹائ کے اس سین کے بعد فوراً اسکے باپ نے اسے صوفے کے پیچھے سے بڑے پیار سے نکالا تھا۔پھر اسے گود میں اٹھا کر گھر سے باہر لے گیا۔اگلے دو گھنٹے وہ باپ کیساتھ من پسند جگہوں کی سیر کرتا اور من پسند چیزیں کھاتا رہا لیکن اسکا ذہن وہی اٹکا ہوا تھا۔۔
تم تو میرے پیارے بیٹے ہو سب سے زیادہ پیارے ہو مجھے۔۔اس کا باپ ان دو گھنٹوں میں مسلسل بہلاتا رہا اسکو۔۔وہ باپ کے گلے بھی لگ جاتا اور باپ کے کہنے پر اسکو چومتا بھی لیکن وہ اس دن بہت خوفزدہ ہوا تھا۔۔
واپسی پر اس نے اپنی ماں کو معمول کے کاموں میں مصروف پایا تھا۔وہ کھانا پکا رہی تھی۔جیسے روز پکاتی تھی۔۔اسکے باپ کو چائے بنا کر دی تھی جیسے روز دیتی تھی۔مگر فرق صرف یہ تھا کہ آج انکے چہرے پہ انگلیوں کے چند نشان تھے اور انکی آنکھیں سرخ اور سوجھی ہوئ تھی۔اس دن اسکا دل ماں کے پاس سونے کو نہیں چاہا تھا۔وہ اپنی پانچ سالہ بہن کے بستر میں سونے لے لیئے گیا تھا اور بہت دیر تک سو نہ سکا۔
اگلے چند روز وہ پریشان رہا اور خاموش بھی ۔۔اسکی ماں نے اسکی خاموشی نوٹس کی یا نہیں لیکن اسکے باپ نے کی تھی۔وہ اسکا اکلوتا بیٹا تھا اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھااب وہ باپ سے ہلکا سا کھنچا تھاتو اس کے لیئے اسے نظرانداز کرنا نا ممکن تھا اگلے کئ دن اسکا باپ اس پر معمول سے زیادہ توجہ دیتا رہا اسکے سارے نخرے اٹھاتا اور ہر فرمائش پوری کرتا رہا۔وہ آہستہ آہستہ نارمل ہوتا گیا اور وہ پہلی اور آخری بار ہوا تھاجب اسکے باپ نے اسکی ماں کو مارنے کے بعد اسکے اتنے نخرے اٹھائے تھے۔بعد کے سالوں میں اسکی ماں کئ بار اسکے سامنے پٹی تھی اس نے ان غلیظ گالیوں کو معمول کے الفاظ میں تبدیل ہوتے دیکھا جب بھی انکے باپ کو غصہ آتا تھا تو وہ ان الفاظ کا بے دریغ استعمال کرتا تھا۔۔اب وہ خاموش تماشائی کی طرح وہ منظر دیکھتا تھا۔اور ایسے ہر منظر کے بعد اسکا باپ اسکو شام کی سیر کے لیئے لیکر جاتا تھا اور اسے بتایا کرتا تھا کہ اللہ بے حیائ کو کتنا ناپسند کرتا ہے اور عورت سب سے زیادہ بے حیائ کے کاموں میں ملوث ہے۔اور بے حیائ کرنے والوں کو سزا دینی چاہیئے۔
پانچ سال کی عمر میں قرآن پاک کی بہت ساری آیات اسکو باپ نے یاد کروائ تھی اور بے حیائ کے کاموں کی وہ فہرست بھی۔ جس کے کرنے پر عورت کو سزا دینا واجب ہوجاتا تھا۔اور بے حیائ کے ان کاموں میں شوہر کی نافرمانی، پردے کی پابندی نہ کرنا۔کسی نامحرم سے ملنا یا بات کرنا، گھر سے اجازت کے بغیر جانا، کسی قسم کا فیشن کا سنگھار کرنا، شوہر سے اونچی آواز میں بات کرنا، کھانا دیر سے یا بدمزہ بنانا، ٹی وی دیکھنا، میوزک سننا، نماز روزے کی پابندی نہ کرنا اسکے دادا دادی کی خدمت نہ کرنا اور اس طرح کے کئ کام تھے جو اسے مکمل ازبر تھے۔
وہ جن قاری سے قرآن سیکھتا تھا ان سے ماں باپ کے ادب کے بارے میں احکامات بھی سنتا تھا۔خاص طور پر ماں کے حوالے سے۔۔۔
مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ بے حیائ کے کام کرنے والی عورت کی وہ کیسے عزت کرسکتا تھا۔آسان تشریح اس کے باپ نے اسکو کی کہ وہ بڑا ہوکر مرد بننے والا ہے ایک ایسا مرد جو کسی بھی عورت کو بے حیائ کے کاموں پر سزا دینے کا اور گالیاں دینے کا پورا حق رکھتا ہے۔اسکا آئیڈیل، اسکا باپ تھا۔ باریش داڑھی کیساتھ اسلامی شعائر پر سختی سے کاربند، پانچ وقت نماز پڑھنے والا، ایک بے حد خوش اخلاق، نرم خو انسان اورسعادت مند بیٹا ۔۔۔۔جو زندگی کا ایک بڑا حصہ مغرب میں گزارنے کے بعد بھی ایک مثالی اور عملی مسلمان تھا۔ وہ بھی بڑا ہوکر ویسا ہی بننا چاہتا تھا
اے لوگوں تمہارے خون، تمہارے مال ایک دوسرے کے لیے اس طرح محترم ہیں جیسے آج کا یہ دن(عرفہ کا دن) یہ مہینہ اور یہ شہر۔
خبردار! زمانہ جاہلیت کی ہر رسم اور طریقہ آج میرے قدموں کے نیچے ہیں اور جاہلیت کے خون معاف کر دیئے گئے ہیں اور پہلا خون، جو میں اپنے خونوں سے معاف کرتا ہوں وہ ابن ربیعہ حارث کا خون ہے۔ دیکھو میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ پھر ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جاؤ۔
*********---------********
غلام فرید کی زندگی میں صرف چند اچھے مہینے آئے تھے۔ ایسے مہینے جس میں پہلی بار اس نے راتوں کو سکون سے سونا سیکھا تھا۔
غلام فرید بہت معصوم تھا یا شاید بہت بے وقوف۔وہ سمجھ رہا تھا کہ اس نے زندگی میں پہلی بار کوئی بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ جیسے امیر بننے کی طرف پہلا قدم اٹھایا ہے۔ مولوی کے ساتھ اس نے جو کچھ کیا تھا اسکے بعد کئ دن تک مولوی کی نیندیں اڑی رہی۔ بیس ہزار کی رقم بیٹھے بٹھائے پندرہ ہزار رہ گئ تھی۔ اسکا صدمہ تو تھا ہی لیکن ساتھ اس بات کا اندیشہ بھی اسے ہو گیا کہ مسجد کی رقم کو سود خوری کے کاروبار میں لگانے کی خبر اگر کسی طرح گاؤں میں پھیل گئ تو اور کچھ ہو نا ہو لیکن مستقبل میں اس کے چندے بند ہو جائیں گے۔
بدنامی کی تو خیر اسے فکر نہیں تھی وہ اگر بدنام ہو بھی جاتا تو بھی کوئ اسے مسجد کی امامت سے نہیں ہٹا سکتا تھا کیونکہ یہ اس کو باپ داد کی جاگیر کی طرح ورثے میں ملی تھی۔ اور گاؤں والوں کو تو صحیح طرح وضو کرنا بھی نہیں آتا تھا۔ وہ امام مسجد کو دینی لحاظ سے کیا جانتے۔ اور اگر ہٹا بھی دیتے تو اسکی جگہ لاتے کس کو؟
بیوی، مولوی کو سودی کاروبار میں لگائ رقم واپس لینے نہیں دے رہی تھی۔ وہ پہلا خیال تھا جو غلام فرید کی دھمکی کے بعد مولوی کو آیا تھا۔ وہ جتنی جلدی ہو سکے اپنی رقم واپس لے۔ تاکہ وہ غلام فرید کو جھوٹا ثابت کرسکیں۔
بیوی کا کہنا تھا اور کونسی ایسی جگہ ہے جہاں پیسہ لگانے پر پچیس فیصد منافع مل جائے۔ بنک والے تو آٹھ یا نو بھی رو دھو کر دیتے ہیں۔۔ بیٹیوں کے جہیز کہاں سے بنے گے؟ انکی شادی کے اخراجات کیسے پورے ہونگے ۔۔مسجد کی امامت تو تین وقت کی روٹی ہی پوری کرسکتی ہے۔مولوی کو بیوی کی باتیں سمجھ تو آرہی تھی لیکن ساتھ انکو یہ دھڑکا بھی لاحق تھا کہ کہیں کسی دن غلام فرید باقی پندرہ ہزار دینے سے انکاری نہ ہوجائے۔ اور انکا حدشہ ٹھیک نکلا۔
دو ماہ بعد غلام فرید نے اپنے گھر کے کچھ ناگزیر اخراجات کی بناء پر مولوی کو رقم دینے سے معذرت کرلی۔ اور ان سے اگلے ماہ کی مہلت مانگی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب مولوی نے گالم گلوچ لعنت و ملامت نہیں کی تھی انہیں۔مولوی نے اسکو جہنم سے ڈرانے کی بجائے خود اسکی زندگی جہنم بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔انہوں نے اپنی بیوی کو بتائے بغیر گاؤں کے اس شخص سے رقم کا مطالبہ یہ کہہ کر کیا تھا کہ مسجد کی تزئین و آرائش کی لیئے فوری طور پہ ایک بڑی رقم چاہیئے اس لیئے وہ چاہتے تھے کہ اپنی رقم میں سے کچھ مسجد میں چندہ کرے جو جواب مولوی کو ملا تھا وہ اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اس آدمی نے رقم واپس کرنے سے صاف انکار کر دیا۔اسکا کہنا تھا کہ فی الحال رقم کاروبار میں لگی ہوئ ہے اور وہ اگلے دو تین سال تک اسکا منافع تو دے سکتا ہے لیکن اصل رقم واپس نہیں کرسکتا۔۔مولوی کو وہاں کھڑے کھڑے دن میں تارے نظر آنے لگے۔ اس نے پانچ لاکھ کی رقم اس آدمی کو دی ہوئی تھی۔
اس دن غلام فرید سے مولوی کی نفرت کچھ اور بڑھ گئ۔ گھر جاکر انہوں نے بیوی کو یہ قصہ سنایا۔وہ بھی دل تھام کر رہ گئ مگر اس نے مولوی کو یہ کہہ کر تسلی دی ۔
چلیں مولوی صاحب دو تین سال بعد ہی سہی دے گا تو دے گا نا۔۔۔اور شکر ہے اس نے منافع دینے سے انکار نہیں کیا میں تو پہلے ہی آپکو روک رہی تھی. لیکن پتا نہیں آپکو کیا سوجھی کہ لگی لگائی روزی پہ لات مارنے چلے۔۔اسے مولوی سے یہ کہتے ہوئے یہ پتا نہیں تھا کہ یہ لگی لگائ روزی خود ہی انہیں لات مار دینے والی تھی۔۔
اگلے مہینے پھر مولوی کو غلام فرید سے پیسے نہیں ملے۔۔۔اور اس مہینے ساہوکار نے اس کو منافع کی رقم بھی نہیں دی تھی۔ ایک ماہ پہلے مولوی کے رقم کے مطالبے نے جیسے اسے چوکنا کر دیا تھا۔کہ وہ پارٹی ٹوٹنے والی ہے تو وہ کیوں منہ بھر بھر کے اسکو منافع کھلاتا۔۔۔اب اسکی باری تھی۔ دیا گیا سارا منافع واپس وصول کرنے کی۔لیکن اس نے مولوی سے یہ باتیں نہیں کی۔بلکہ اس سے چھ مہینے کی مہلت مانگی اور یہ کہا تھا کہ چھ ماہ کا منافع وہ اکٹھا دے گا پھر اس پر شدید مالی بحران آیا تھا اس نے مولوی سے نا صرف دعا کی درخواست کی بلکہ کوئ قرآنی وظیفہ بھی مانگا تھا۔
مولوی کو ٹھنڈے پسینے آگئے تھے اس کی باتیں سن کر۔ اور کچھ بعید نہیں کہ ہارٹ ہی فیل ہوجاتا۔ وہ لکھ پتی سے ککھ پتی بن گئے تھے وہ بھی دن دہاڑے۔۔
مولوی صاحب چپ چاپ وہاں سے تو اٹھ کر آگئے لیکن اس نے اپنے مالی نقصان کا سارا غصہ غلام فرید پہ اتارا تھا۔
انہوں نے سکول سے اسکے مالک کا نمبر لیا تھا اور پھر اسے فون کر کے غلام فرید پر جی بھر کر الزامات لگائے۔مالک کا رد عمل فوری تھا۔وہ پہلی فرصت میں گاؤں آیا تھا اور مولوی سے ملاقات کے بعد غلام فرید کی صفائیاں اور وضاحتیں سننے کے باوجود اسے نوکری سے فارغ کر دیا۔
غلام فرید کے سر پہ جیسے پہاڑ آگرا تھا۔ صرف اسے نہیں اسکی بیوی کو بھی نکال دیا گیا تھا اور ان سے کوارٹر بھی خالی کروالیا گیا تھا۔۔
گیارہ لوگوں کا وہ خاندان چھت سے بے چھت ہوگیا تھا۔ وسائل اتنے نہیں تھے کہ وہ گاؤں میں کوئ مکان کرائے پر لے لیتے ۔مولوی کے طفیل غلام فرید پورے گاؤں میں بیوی سمیت بدنام ہوگیا تھا۔وہ ایک چور تھا جس نے اللہ کے پیسوں کو بھی نہیں چھوڑا تھا۔گاؤں والوں نے مولوی کے دہرائے گئے قصے سن سن کر غلام فرید کا سوشل بائکاٹ کردیا۔ غلام فرید نے بھی مولوی کے کارنامے گاؤں والوں کو بتانے کی کوشش کی لیکن ایک کمین اور چور کی بات پہ کون یقین کرتا ۔۔مولوی بری الذمہ اور معصوم قرار پایا.
پتا نہیں وہ کونسا لمحہ تھا جب غلام فرید اپنا ذہنی توازن کھونا شروع ہوا۔بھوک اور تنگدستی نے اسکا دماغ خراب کردیا۔ گاؤں والوں کی باتوں اور طعنوں نے۔۔۔لڑکپن میں داخل ہوتی بیٹیوں پر پڑتی گاؤں کے لڑکوں کی گندی نظروں اور اپنی بے بسی نے۔یا پھر ان سود خوروں کی دھمکیوں نے جو اسے سود کی قسطیں ادا نہ کرنے پر بار بار اس احاطے کے ٹوٹے دروازے کےباہر کھڑے ہوکر مار پیٹ کرتے جہاں جانوروں کے ایک باڑے کے برابر غلام فرید نے بھی لکڑی کی چھت ڈال کر وقتی طور پہ اپنے خاندان کو چھت فراہم کی تھی۔
پتا نہیں کیا ہوا تھا غلام فرید کو ۔چنی ایک سال کی تھی جب غلام فرید نے ایک رات اپنے خاندان کے نو کے نو افراد کو ذبح کردیا ۔چنی واحد بچ گئ تھی۔وہ غلام فرید کو مری ہوئ لگی۔نو انسانوں کو مارنے کے بعد غلام فرید نے اپنی جان نہیں لی تھی۔وہ زندہ تھا ہی کب ۔۔خاندان کو مار دینا ہی وہ حل تھا جیسے، جو ایک ان پڑھ شخص نے غربت اور قرض سے نجات کے لیے نکالا تھا جب کوئ حل ہی باقی نہ رہا تھا۔۔
ایک سال کی چنی کو کچھ یاد نہیں تھا۔۔نہ قاتل نہ مقتول۔
*********---------**********
اے لوگوں نا تو میرے بعد کوئ پیغمبر یا نبی آئے گا نہ تمہارے بعد کوئ نئی امت، میں تمہارے پاس اللہ کی کتاب اور اپنی سنت چھوڑے جارہا ہوں اگر تم ان پر عمل کرو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوںگے
*******--------**********
وہ رات ہاشم مبین کی زندگی کی مشکل ترین راتوں میں سے ایک تھی۔ انہوں نے ایک بھیانک خواب دیکھا تھا کچھ دیر پہلے۔مگر خواب انسان جاگتی آنکھوں سے کیسے دیکھ سکتا ہے اور خواب میں بھی انسان کی اپنی اولاد اپنے والدین کے ساتھ ایسی بے رحمی کا سلوک کیسے کر سکتی ہے۔ کہ انسان ایک لمحے کے لیے اسکے اپنی سگی اولاد ہونے پر شبہ کرے۔۔۔
وہ اسٹڈی میں بیٹھے اپنی جائداد اور بنک بیلنس اور دوسرے اثاثہ جات کی فائلز اپنے سامنے میز پر ڈھیر کیے صرف یہ سوچ رہا تھا کہ یہ سب انکے ساتھ کیوں ہورہا تھا۔
اولاد باپ کے مرنے کے بعد ترکہ پر لڑے تو سمجھ میں آتا ہے۔ مگر اولاد ماں باپ کی زندگی میں ہی انکے سامنے اس طرح جائداد کے حصوں اور پائی پائی پر لڑے جیسے ماں باپ مر گئے ہو تو ماں باپ کو کونسی صلیب پر چڑھنا پڑتا ہے۔۔۔ ہاشم مبین آج کل اسی صلیب پر چڑھے ہوئےتھے۔ ہاشم مبین نے ساری زندگی ایک بادشاہ کی طرح گزاری تھی وہ سب پر حاوی رہے تھے اور انکی کسی بھی اولاد کی یہ مجال نہیں تھی کہ وہ اسکے سامنے سر اٹھائے۔ اور اب اسی ہاشم مبین پر وہی اولاد انگلیاں بھی اٹھا رہی تھی اور گستاخانہ باتیں بھی کر رہی تھی۔ اس نے ساری زندگی اپنی اولاد کو بہترین لائف سٹائل دینے کے لیے کئ سمجھوتے کیے۔۔جس میں وہ صحیح اور غلط کی تمیز بھی بھول گئے۔۔کب کب اس نے ضمیر کا سودا کیا تھا وہ بھی اسے یاد آرہا تھا اور کب کب انسانیت کا اور کب اپنےمذہب کا۔
وہ بے چین ہو کر اٹھ کر کمرے میں پھرنے لگے۔ مال و زر کا وہ ڈھیر جو اس نے اپنا مذہب بیچ اور بدل کر اکٹھا کیا تھا وہ شاید اسی قابل تھا کہ اسکی اولاد اسے لوٹ لیتی۔
اور پھر زندگی کے اس لمحے پر اسے ایک غلطی اور اس ایک غلطی کیساتھ امامہ یاد آئی۔
انہوں نے اسے ذہن سے جھٹکا۔۔ پھر جھٹکا۔۔ پھر جھٹکا۔۔اور پھر وہ رک گئے۔فائدہ کیا تھا اس کوشش کا. پہلے کبھی اس میں کامیاب ہوئے تھے جو آج ہوتے؟؟
کتنے سال ہوئے تھے اسے دیکھے ہوئے۔۔اس سے ملے ہوئے۔۔۔آخری بار انہوں نے اسے ہوٹل میں دیکھا تھا سالار کیساتھ۔۔اور آخری بار انہوں نے اسکی آواز کب سنی؟ اس سے کب بات کی تھی؟ انہیں یہ بھی یاد تھا ۔۔۔۔
یہ کیسے بھول جاتا۔۔وسیم کی موت پر۔۔
کتنے سال گزر گئے تھے ۔انہوں نے ایک گہرا سانس لیا ۔آنکھوں میں آنے والی نمی صاف کی ۔۔پتا نہیں یہ نمی وسیم کے لیئے آئ تھی یا امامہ کے لیئے۔۔۔
آنے والے ہفتے میں سب کچھ بکنا اور بٹنا تھا۔۔ یہ گھر، یہ فیکٹری، زمین، پلاٹس، اکاؤنٹس گاڑیاں، سب اثاثے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر کچھ بٹنے کے قابل نہ تھا تو وہ ہاشم مبین اور اسکی بیوی تھی۔جنہیں کوئ بھی ساتھ رکھنے پر تیار نہیں تھا ۔۔۔۔
یہ وہی رات تھی جب انہوں نے پہلی بار امامہ سے ملنے کا سوچا تھا یہ وہی رات تھی جب انہوں نے سوچا کہ شاید انکی باقی اولاد کی طرح امامہ کو بھی جائداد میں حصہ دینا چاہیئے۔۔اور وہ یہ جانتے تھے کہ وہ اس سوچ پر کبھی عمل نہیں کرسکتے ۔وہ امامہ کو اپنی جائداد کا وارث نہیں بناسکتے تھے کیونکہ اس کے لیئے اسے بہت سارے اعترافات کرنے پڑتے۔ عمر کے اس حصے میں اس نے پہلی دفعہ یہ سوچا کہ وہ کچھ اعتراف کر لیں تاکہ ضمیر کا بوجھ تھوڑا کم ہو۔۔گناہ کا بوجھ گھٹانا تو اب ناممکن رہا.
*********-----***********
اور شیطان سے خبردار رہو وہ اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ زمین پر اسکی پرستش کی جائے لیکن وہ اس بات پر راضی ہے کہ تمہارے درمیان فتنہ و فساد پیدا کرتا رہے اس لیئے تم اس سے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کرو۔۔