top of page

آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد

قسط نمبر بارہ

مویشیوں کے اس احاطے میں اپنے خاندان کی لاشوں کے پاس چند گھنٹے بیٹھے رہنے کے بعد غلام فرید اس رات پہلی بار جا کر جانوروں کے باڑے میں سویا تھا۔
اس کے خاندان کی لاشیں صبح سویرے دودھ لینے والے کچھ لوگوں نے دیکھی تھی اور اسکے بعد گاؤں میں کہرام مچ گیا۔ غلام فرید اس کہرام کے دوران بھی جانوروں کے باڑے میں ہی چھری پاس رکھے بیٹھا اسے گھورتا رہا۔
پورا گاؤں اس احاطے میں آگیا تھا تو لوگوں نے غلام فرید کو بھی دیکھ لیا۔ اور اس خون آلود چھری کو بھی۔وہ پہلا موقع تھا جب گاؤں میں سے کوئ اسکو گالی نہ دے سکا ہمیشہ کی طرح۔ وہ اس سے دہشت زدہ ہوگئے تھے۔اس کو دور دور سے دیکھ کر ایسے سرگوشیاں کر رہے تھے جیسے وہ چڑیا گھر میں رکھا ہوا پنجرے میں بند کوئ جنگلی جانور ہو۔اس دن گاؤں میں سے کسے نے نا تو اسے ماں، بہن، بیوی، بیٹی کی فحش گالی دی تھی نا ہی کوئ طعنہ دیا تھا اور نہ ہی لعنت و ملامت ۔۔نہ ڈرایا، دھمکایا گیا۔۔اور نہ اسے یاد کرایا گیا کہ اس نے اگر اس تاریخ تک سود کی قسط ادا نہ کی تو اسکے ٹکڑے کرنے کے بعد اسکی بیوی اور بیٹیوں کیساتھ کیا کیا جائے گا۔
زندگی میں پہلی بار اس دن غلام فرید نے جیسے چند لمحوں کے لیے جانور بننے کے بعد انسان جیسا درجہ حاصل کرلیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
پولیس آنے سے قبل مولوی صاحب بھی موقع واردات پر پہنچے وہ رستے میں سن چکے تھے کہ غلام فرید نے کیا کیا تھا۔۔لیکن اسکے باوجود نو لاشوں اور اسکے درمیان بلکتی ایک بچی نے ان پر لرزہ طاری کردیا۔ اسے لگا جیسے غلام فرید کو اللہ نے اسکے کیئے کی سزا دی ہے۔۔ اس برائی پر جو اس نے مولوی کیساتھ کی تھی۔اور یہ بات وہ اگلے کئی مہینے جمعے کے خطبے میں دہراتے رہے۔اپنی مومنیت رجسٹر کروانے کا اس سے اچھا اور کونسا موقع ہوسکتا تھا۔۔
پولیس کے پہنچنے پر مولوی صاحب نے ہی انکا استقبال کیا تھا اور وہ شیطان دکھایا تھا جو پھانسی کا حقدار تھا۔ اس شیطان نے کسی بھی مزاحمت کے بغیر خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔
ہاں میں نے ہی مارا ہے سب کو اور صرف اس لیئے کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ بھی ویسی زندگی جیے جیسے غلام فرید جی رہا تھا۔میں کچھ بھی کرلیتا کسی جائز طریقے سے اپنا قرض نہیں اتار سکتا تھا۔ غلام فرید نے پولیس کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کہا۔۔
*****-*****-------********
جان جاؤ کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور تمام مسلمان ایک امت ہے۔ کسی کے لیئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائ سے کچھ لے سوائے اسکے جسے اسکا بھائ رضامندی سے دے اور اپنے نفس پر اور دوسرے پر زیادتی نہ کرو۔
********---------*********
بھوک سے روتی بلکتی اور خون میں لتھڑی ہوئ چنی کو سب سے پہلے جس نے دیکھا اس نے اسے بھی زخمی سمجھا تھا۔ لیکن جب اسکی مدد کرنے اور اسے طبی امداد دینے کے لیئے اٹھایا گیا تو. یہ پتا چل گیا کہ وہ صحیح سلامت تھی۔گاؤں والوں کے لیئے یہ ایک معجزہ تھا۔غلام فرید کا کوئ بھائ نہیں تھا اور بہنوں میں سے صرف ایک اس بات پر تیار ہوئ کہ وہ چنی کو انکے پاس رکھے گی۔ نسیمہ کے خاندان میں کوئ بھی اس پر تیار نہیں ہوا تھا کہ وہ ایک قاتل کی بیٹی کو اپنے گھر میں پالے۔
لیکن فوری طور پر چنی کی دیکھ بھال، صلہ رحمی کے جذبے کے تحت انکے ایک پرانے ہمسائے نے کرنا شروع کردی۔ چنی کو پیدائش کے بعد زندگی میں پہلی بار پیٹ بھر کر خوراک اور اچھے کپڑے اور بستر نصیب ہوا تھا اس دن۔۔جس دن اسکا خاندان قتل ہوا ۔وہ چنی جس کو کبھی ماں باپ نے غور سے نہیں دیکھا تھا اسے دیکھنے پورا گاؤں امڈ آیا۔سوائے اسکے دودھیالی اور ننھیالی خاندانوں کے۔ جنہیں یہ خدشہ تھا کہ کہیں یہ ذمہ داری انکے گلے نہ پڑ جائے۔۔۔غربت اتنی بڑی لعنت ہوتی ہے کہ انسان کے اندر سے خونی رشتوں اور انسانیت کے بنیادی صفات مٹا دیتی ہے ۔۔
صرف غلام فرید کی ایک بہن ایسی تھی جس کے چار بچے تھے اور ان میں سے بھی تین بیٹے تو دونوں خاندانوں کا دباؤ اسی پر پڑا تھا۔۔۔صدمے اور غم سے بے حالی کی کیفیت میں وہ اپنے اکلوتے بھائ کی آخری نشانی کو اپنے پاس رکھنے پر تیار تو ہوگئ تھی۔ لیکن اسکے شوہر اور سسرال والوں نے اسکا وہ صدمہ اس حادثے کے دوسرے دن ہی اپنے تیوروں اور ناراضگی سے ختم کردیا۔اس سے پہلے کہ وہ باقیوں کی طرح چنی کی ذمہ داری سے ہاتھ اٹھاتی اس علاقے میں انتظامی عہدیداران اور سیاست دانوں اور سماجی شخصیات کی آمد شروع ہوگئ۔ اور جو بھی آرہا تھا وہ چنی کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے ساتھ کچھ نہ کچھ مالی امداد بھی کرتے جاتے تھے۔
مالی امداد کے لیے دیے جانے والے چیکوں اور کیش رقومات کے سلسلے نے ایک دم چنی کے رشتہ داروں کے اندر صلہ رحمی جگا دی۔ چنی بوجھ نہیں بلکہ بوجھ ہٹانے والی تھی۔اسکا اندازہ سب کو ہو گیا۔اور یہاں سے چنی کی کفالت کے لیے جھگڑوں کا آغاز ہوگیا۔۔
دونوں سائڈ سے پورے کے پورے خاندان والے اس ہمسایہ کے گھر دھرنا دیکر بیٹھ گئے ۔۔۔اور نوبت لڑائ تک پہنچی تو اس ہمسایہ نے پولیس کو بلوا لیا۔۔۔پولیس نے چنی کو اس ہمسایہ کی کفالت میں رینے دیا اور فریقین سے کہا کہ وہ چنی کی کسٹڈی کے لیے عدالت سے رجوع کرے۔ تب تک بچی اسی گھر میں رہیگی۔۔ 
چنی کو اپنے پاس رکھنے والے ہمسایہ نے اس کے لیئے ملنے والی نقد رقومات کو چنی پر خرچ کرنے کے بہانے کھل کر خرچ کرنا شروع کردیا۔ جیسے وہ ایک بہتی گنگا تھی جس میں ہر کوئ ہاتھ دھو رہا تھا۔ 
کیش رقوم کا وہ سلسلہ بہت جلد ختم ہو گیا۔ لوگوں کی ہمدردیاں اسکی یاداشتوں کےساتھ کم ہوتی گئ۔۔اور پھر ایک وقت آیا جب چنی ہمسایوں کے لیئے ایک بوجھ بن گئ تھی۔۔سرکاری امداد کا وہ چیک جسکو استعمال کرنے پر فی الحال پابندی تھی اور وہ صرف اسکو مل سکتا تھا جسے چنی کی کسٹڈی ملتی اور وہ اسکے رشتہ داروں میں ہی کسی کو ملنا تھی۔ سو اس سے پہلے کہ عدالت کیس کا فیصلہ کرتی ہمسائے چنی کے سب سے بڑے ماموں کو کچھ رقم کے عوض چنی تھما گئے تھے اور ساتھ انہوں نے عدالت میں بیان بھی دیا کہ چنی اسی ماموں کے گھر سب سے زیادہ اچھی پرورش پاسکتی ہے ۔۔
تین مہینے بعد تمام رشتہ داروں کی آہ و بکا کے باوجود چنی کا وہ ماموں چنی کی کسٹڈی اور دس لاکھ روپے کی رقم کا چیک عدالت سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
سونے کی چڑیاں اب ماموں کے سر پر بیٹھ گئ تھی اس سے پہلے ایک ریڑھا چلا کر پھل سبزیاں ادھر سے اُدھر ڈھوتا تھا۔ دس لاکھ سے اس نے فوراً زمین کا ایک ٹکڑا خرید کر کاشتکاری کا آغاز کردیا ۔چنی کی اس طرح ناز برداری یہاں نہیں کی گئ جیسی وقتی طور پہ سہی لیکن اس کے ہمسایہ نے کی تھی۔
ماموں کے بچوں نے زندگی میں پہلی بار اپنے باپ کے پاس اتنا پیسہ دیکھا تھا۔ جس سے وہ انہیں سب کچھ لیکر دے سکتا تھا۔اللہ نے معجزاتی طور پر انکی زندگی بدل دی تھی لیکن اس معجزے کا سہرا کوئ بھی چنی کے سر باندھنے کو تیار نہیں تھا۔ چنی کی صحیح خوش قسمتی کا آغاز اس دن ہوا تھا جب چنی کے خاندان کیساتھ ہونے والے حادثے کے تقریباً چھ مہینے کے بعد سکول کا مالک چنی کو دیکھنے آیا تھا۔ جہاں غلام فرید کام کرتا تھا اور ایک سزا کے طور پر نکالے جانے نے چنی سے اس کا خاندان چھین لیا تھا۔
*********-------*********
تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔کسی عرب کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئ فضیلت نہیں مگر تقوٰی کے۔ اور اپنے غلاموں کا خیال رکھو جو تم کھاؤ اس میں سے انکو کھلاؤ اور جو تم پہنو اسی میں سے انکو پہناؤ اور اگر وہ ایسی خطا کرے جو تم معاف نہ کرنا چاہو تو انہیں فروخت کر دو لیکن کوئ سزا مت دو۔۔
************&&*******
بیرونی گیٹ ہمیشہ کی طرح گھر میں کام کرنے والی میڈ نے کھولا تھا۔ سالار نے ابھی ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولا ہی تھا جب ہر روز کی طرح لان میں کھیلتے اسکے دونوں بچے بھاگتے ہوئے اس کے پاس آگئے تھے۔ چار سالہ جبریل پہلے پہنچا تھا۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے اس نے اپنے بیٹے کا چہرہ چوما تھا وہ پسینے میں شرابور تھا۔
السلام علیکم۔۔گاڑی میں پڑے ٹشو باکس سے ٹشو نکال کر اس نے جبریل کا ماتھا اور چہرہ صاف کیا ۔۔دو سالہ عنایہ ہانپتی کانپتی شور مچاتی گرتی پڑتی اسکے پاس آگئ تھی۔۔اس نے ہمیشہ کیطرح اسے گود میں لیا تھا بہت زور سے اسے بھینچنے کے بعد اس نے باری باری بیٹی کے دونوں گال چومے ۔جبریل تب تک گاڑی کا دروازہ بند کرچکا تھا۔
اس نے عنایہ کو نیچے اتار دیا۔وہ دونوں باپ سے ملنے کی بعد دوبارہ لان میں بھاگ گئے تھے۔ وہ کچھ دیر کھڑا اپنے بچوں کو دیکھتا رہا پھر گاڑی کے پچھلے حصے سے اپنا بریف کیس اور جیکٹ نکالتے ہوئے وہ گھر کے اندرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔۔
امامہ تب تک اس کے استقبال کے لیئے دروازے تک آچکی تھی۔دونوں کی نظریں ملی تھی۔وہ اسکے پاس آتی ہوئ مسکرائ۔۔
تم جلدی آگئے آج۔؟؟
اس نے ہمیشہ کی طرح اسے گلے لگاتے ہوئے کہا ۔۔ہاں آج زیادہ کام نہیں تھا۔
تو ڈھونڈ لیتے۔۔وہ اسکے ہاتھ سے جیکٹ لیکر ہنسی۔۔وہ جواب دینے کی بجائے مسکرایا۔
وہ اس کے لیے پانی لے آئی۔
تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟وہ اسکے ہاتھ میں پکڑی ٹرے سے گلاس اٹھا رہا تھا۔جب امامہ نے اچانک پوچھا تھا۔اس نے چونک کر اسکی شکل دیکھی۔
ہاں۔۔بالکل۔۔کیوں؟؟ 
نہیں۔ مجھے تھکے ہوئے لگے ہو اس لیئے پوچھ رہی ہوں۔۔سالار نے جواب دینے کی بجائے گلاس منہ سے لگایا وہ ٹرے لیکر چلی گئ۔۔
کپڑے تبدیل کر کے وہ سٹنگ ایریا میں آگیا تھا۔ کانگو کا موسم اسے کبھی پسند نہیں رہا تھا اس کی وجہ وہ بارش تھی جو کسی بھی وقت شروع ہو سکتی تھی اور اب بھی شاید کچھ دیر میں پھر شروع ہونے والی تھی۔
چائے۔ وہ امامہ کی آواز پر باہر لان میں دیکھتے ہوئے بے اختیار پلٹا ۔وہ ایک ٹرے میں چائے کے دو مگ اور ایک پلیٹ میں چند بسکٹ لیئے کھڑی تھی۔۔۔
تھینکس۔ وہ مگ اور ایک بسکٹ اٹھاتے ہوئے مسکرایا۔
باہر چلتے ہیں بچوں کےپاس۔۔وہ باہر جاتے ہوئے بولی۔
میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں کسی کال کا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔
وہ سر ہلاتے ہوئے باہر چلی گئ۔۔چند منٹوں بعد اس نے امامہ کو لان میں نمودار ہوتے دیکھا تھا۔ لان کے ایک کونے میں پڑی کرسی پر بیٹھتے وہ کھڑکی میں سالار کو دیکھ کر مسکرائ تھی۔ وہ بھی جواباً مسکرا دیا تھا۔۔۔
امامہ اب مکمل طور پر بچوں کی طرف متوجہ تھی۔۔چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے دائیں کندھے پر پڑی شال سے اپنے جسم کا وہ حصہ چھپائے جہاں ایک نئی زندگی پرورش پارہی تھی ۔انکے ہاں تیسرے بچے کی آمد متوقع تھی۔
سالار کے ہاتھ میں پکڑی چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ایک گہری سانس لیکر اس نے مگ پاس پڑے ٹیبل پر رکھ لیا۔
امامہ کا اندازہ ٹھیک تھا، وہ ٹھیک نہیں تھا۔وہ کھڑکی سے باہر نظر آنے والی ایک خوش حال فیملی دیکھ رہا تھا ایک پرفیکٹ لائف اور اسکے بچوں کے بچپن کے قیمتی لمحے،، اپنے اندر ایک اور ننھا وجود لیے اسکی بیوی کا مطمئن اور مسرور چہرہ۔۔ 
چند پیپرز کو پھاڑ کر پھینک دینے سے زندگی ایسی ہی خوبصورت رہ سکتی تھی۔۔
وہ ایک لمحے کے لیے بری طرح کمزور پڑا تھا۔ اولاد اور بیوی واقعی انسان کی آزمائش ہوتے ہیں. 
اسکا فون بجنے لگا تھا۔۔ایک گہرا سانس لیکر اس نے فون کرنے والے کی آئ ڈی دیکھی۔کال ریسیو کرتے ہوئے اسے اندازہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اس وقت وہ دوسری طرف کس سے بات کرنے والا تھا اسے اپنی فیملی کی زندگی اور استعفیٰ میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا تھا۔۔۔
*********------*******--*
خوب سن لو۔۔اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ پانچ وقت کی نماز قائم کرو۔ رمضان کے روزے رکھو۔اپنے مال کی زکواۃ خوشی سے ادا کرو ۔۔اپنے حاکم کی اطاعت کرو ۔۔چاہے وہ ایک ناک کٹا حبشی ہی کیوں نا ہو۔۔اور اس طرح اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔۔۔
افریقہ کا دوسرا سب سے بڑا ملک کانگو، پچھلی کئ دہائیوں سے دنیا میں صرف پانچ چیزوں کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا۔
خانہ جنگی۔۔۔۔جس میں اب تک پینتالیس لاکھ لوگ جان گنوا چکے تھے۔۔۔۔غربت کے لحاظ سے یو این کے اکنامک اینڈکٹر میں، کانگو یو این کے 188ممالک کی فہرست میں 187ویں نمبر پہ تھا۔۔معدنی وسائل کے ذخائر کے لحاظ سے کانگو دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔۔گھنے جنگلات سے بھرا ہوا اور پگمیز یعنی پستہ قامت سیاہ فام لوگ کانگو کے ان جنگلات میں صدیوں سے پائ جانے والی انسانوں کی ایک ایسی نسل جو مہذب زمانے کے واحد غلام، جنہیں غلام بنانا قانوناً جائز تھا۔۔ورلڈ بنک نے یو این کی خوراک کے عالمی ادارے کیساتھ مل کر کانگو میں ان جنگلات کی تباہی کے ایک عظیم الشان پراجیکٹ کا آغاز کیا۔۔
سالار سکندر جس وقت اس پراجیکٹ کے ہیڈ کے طور پر کانگو پہنچا تو اس منصوبے کو تین سال گزر چکے تھے۔۔اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ ورلڈ بنک اسے کس طرح استعمال کرنے والا تھا لیکن اسے یہ اندازہ بہت جلد ہوگیا تھا ایباکا سے ملاقات کے بعد۔۔۔
********---------********
پیٹرس ایباکا سے سالار کی پہلی ملاقات بڑے ڈرامائ انداز میں ہوئ تھی۔ اسے کانگو میں آئے تقریباً ایک سال ہونے والا تھا جب لاموکو نامی جگہ کو اپنی ٹیم کیساتھ وزٹ کرتے ہوئے پیٹرس ایباکا تقریباً دو درجن کے قریب پگمیز کیساتھ اچانک وہاں آگیا تھا۔ گارڈز نے ایباکا اور اسکے گروپ کو یکدم نمودار ہوتے دیکھ کر حواس باختگی کے عالم میں بے دریغ فائرنگ شروع کر دی۔
سالار نے دو پگمیز کو زخمی ہو کر گرتے دیکھا اور باقیوں کو درختوں کی اوٹ میں چھپتے اور پھر بلند آواز میں ایباکا کو کسی درخت کی اوٹ سے انگریزی زبان میں یہ پکارتے سنا تھا کہ وہ حملہ کرنے نہیں آئے بات کرنے آئے ہیں ۔سالار اس وقت اپنی گاڑی کی اوٹ میں تھا سب سے پہلے اس نے ایباکا کی پکار سنی۔۔چند لمحوں کے لیئے وہ حیران رہ گیا تھا کسی پگمیز کا انگریزی بولنا۔۔یقیناً حیران کن تھا لیکن اس سے زیادہ حیران کن اس کا امریکی لب و لہجہ تھا جس میں ایباکا چلا چلا کر کہہ رہا تھا کہ اسے ان سے بات کرنی ہے وہ صرف ملنا چاہتا ہے اسکے پاس کوئ ہتھیار نہیں۔۔
سالار نے گارڈز سے کہا کہ وہ اس پکارنے والے آدمی سے بات کرنا چاہتا ہے۔ فائرنگ بند کردیں۔۔کیونکہ دوسری طرف سے نہ تو فائرنگ ہورہی اور نہ ہی کسی ہتھیار کا استعمال۔۔۔۔۔
اسکے گارڈز کچھ دیر تک اس سے بحث کرتے رہے اور اس بحث کو ختم کرنے کا واحد حل سالار نے نکالا تھا۔۔جو اس کی زندگی کی سب سے بڑی بے وقوفی ثابت ہوسکتی تھی۔ اگر دوسرا گروپ واقعی مسلح ہوتا وہ یکدم زمین سے اٹھ کر گاڑی کی اوٹ سے باہر نکل آیا تھا اسکے گارڈز پگمیز کی اچانک آمد پر اتنے حواس باختہ نہیں ہوئے تھے جتنے اس کے بالکل اس طرح سامنے آجانے سے ہوئے تھے۔ سالار انکی حواس باختگی سمجھ سکتا تھا یہ پاکستان نہیں تھا بلکہ خانہ جنگی کا شکار کانگو تھا ۔۔جہاں کسی کی جان لینا مچھر کے برابر تھا۔۔۔
فائرنگ اب بند ہوگئ تھی۔ اسکی تقلید میں اسکے گارڈز بھی باہر نکل آئے تھے۔ فائرنگ کے تھمتے ہی ایباکا بھی نکل آیا تھا۔سالار نے چلا کر گارڈز کو گولی چلانے سے منع کیا۔پھر وہ اس ساڑھے چار فٹ قد کے بے حد سیاہ، چپٹی ناک والے اور موٹی سیاہ آنکھوں والے آدمی کی طرف متوجہ ہوا۔۔جو اپنے ساتھیوں کے برعکس جینز اور شرٹ میں تھا۔ ان ننگے پاؤں والے پگمیز کے درمیان جاگرز پہنے وہ عجیب سا لگ رہا تھا۔۔
پیٹرس ایباکا ۔۔۔اس پستہ قامت شخص نے آگے بڑھتے ہوئے سالار سے اپنا تعارف کرواتے ہوئے سالار سے ہاتھ ملانے کے لیئے ہاتھ بڑھایا، جسے تھامنے سے پہلے سالار نے بڑے نپے تلے انداز میں اسکا سر سے پاؤں تک جائزہ لیا ۔۔وہ ابھی تک یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ بھی ان مفلوک الحال لوگوں میں ہوگا جو غیر ملکیوں کی گاڑیاں سامنے آنے پر امداد کے لیے انکے سامنے آجاتے ہیں ۔۔سالار بھی ایباکا سے کسی ایسی ہی ڈیمانڈ کا انتظار کر رہا تھا۔لیکن جواباً ایباکا کی زبان سے اپنا نام سن کر حیران رہ گیا۔۔اس نے ایباکا سے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا تو پھر وہ اسے کیسے جانتا تھا۔وہ ایباکا سے یہ سوال کیئے بنا نہ رہ سکا۔اس نے بتایا کہ وہ اسکے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے۔ لوموکا مین ہونے والے وزٹ کے بارے میں بھی، اسے بنک کے آفس میں کام کرنے والے کسی مقامی آدمی نے بتایا تھا جس نے ایباکا کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود سالار سے ملاقات کے لیئے اپوائنمنٹ کے حصول میں مدد سے انکار کر دیا تھا۔ وہ سالار کے آفس نمبرز پر روزانہ ڈھیروں کالز کرتا تھا۔ویب سائٹ پر موجود اسکی ای میل پر اس نے سینکڑوں ای میلز کی تھی۔جنکا جواب ہر بار صرف موصولی ہی کا آیا تھا۔فون کالز ریسیو کرنے والے سالار کے عملے کے افراد اس کی ملاقات کا مقصد جان کر اسے بڑے نارمل انداز میں ٹال دیتے تھے۔ اسکی گفتگو سنتے ہوئے سالار اسکے بیان و زبان سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔ یہ ناقابل یقین بات تھی لیکن اس کے بعد سالار نے جو کچھ سنا تھا اس نے اس کے چودہ طبق روشن کر دیئے تھے ۔۔پیٹرس ایباکا ہاورڈ بزنس اسکول کا گریجویٹ اور وال سٹریٹ میں جے پی مارگن گروپ کیساتھ پانچ سال کام کرنے کے بعد کانگو آیا تھا۔۔
اپنے والٹ سے نکالے ہوئے کچھ ویزٹنگ کارڈز اس نے سالار کی طرف بڑھادیئے۔۔اس نے بے حد بے سے اسے پکڑا تھا ۔کانگو کے جنگلات میں تیروں اور نیزوں سے شکار کر کے بھوک مٹانے والا جنگلی ہاورڈ سکول تک کیسے پہنچ گیا اور پھر وہ جے پی مارگن گروپ کے ساتھ منسلک رہنا ۔۔تو پھر وہ یہاں کیا کررہا تھا۔۔
اس سوال کا جواب ایباکا نے سالار سکندر کو اسکے آفس میں دوسرے دن اپنی دوسری ملاقات میں کاغذات کے ایک انبار کیساتھ دیا تھا۔ جو وہ اس ملاقات میں سالار سکندر کو دینے آیا تھا۔۔
ایباکا کا دس سال کی عمر میں لوموکا میں ایک بچے کے طور پر ایک مشنری سے متعارف ہوا تھا جو اسے اپنے ساتھ کانگو کے جنگلات میں وہاں کے لوگوں کیساتھ رابطہ اور کمیونیکیشن کے لیئےساتھ لیئے پھرتا رہا اور پھر اسےاس حد تک اس بچے سے لگاؤ ہو گیا کہ بیماری کی وجہ سے کانگو چھوڑنے پر وہ ایباکا کو بھی اپنے ساتھ امریکہ لے گیا تھا جہاں اس نے اسے پیٹریس کا نام دیا ۔
ایک نیا مذہب بھی، لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے ایباکا کو تعلیم دلوائی۔۔ایباکا بے حد ذہین تھا اور رپورنڈ جانسن نے اسکی ذہانت کو جانچ لیا۔وہ ایباکا کو اسکے بعد ہر سال کانگو لاتا رہا جہاں ایباکا کا خاندان اسی طرح جی رہا تھا۔ دس سالہ ایباکا نے اگلے پچیس سال امریکہ میں گزارے مگر اسکے بعد وہ امریکہ چھوڑ آیا تھا۔ 
وہ اپنے لوگوں کے پاس رہنا چاہتا تھا۔کیونکہ انہیں اس کی ضرورت تھی اور انہیں اسکی ضرورت اس لیئے تھی کیونکہ ورلڈ بنک سے ہونے والے تعاون سے بہت سے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ جنگل کے اس حصے میں شروع ہو گیا تھا۔۔جہاں ایباکا کا قبیلہ آباد تھا۔اس کا خاندان اور اس سے بڑھ کر وہ دس ہزار لوگ جو جنگل کے اس حصے سے بے دخل کیئے جارہے تھے۔ جس میں وہ صدیوں سے رہ رہے تھے۔جنگل کٹنے جارہا تھا وہ ساری زمین صاف ہوتی پھر وہاں اس معدنیات کی تلاش شروع ہوتی جو اس منصوبے کا دوسرا حصہ تھا۔اور ایباکا کا مسئلہ اسکا اپنا خاندان نہیں تھا۔اسکا مسئلہ وہ پورا جنگلات کا حصہ تھا جو اب جگہ جگہ زونز بنا کر کاٹا جارہا تھا۔
ہم پانچ لاکھ لوگ ہیں۔ لیکن یہ جنگل تو کانگو کے ساڑھے تین کروڑ لوگوں کو روزگار دے رہا ہے ۔ورلڈ بنک ٹمبر انڈسٹری کو معاونت دے رہا ہے کیونکہ اس سے ہماری غربت ختم ہوگی جب جنگل ہی غائب ہوکر یورپ اور امریکہ کی فیکٹریز اور شورومز میں مہنگے داموں بکنے والی لکڑی کی اشیاء میں تبدیل ہوجائیں گی تو کانگو کے لوگ کیا کرینگے۔ تم لوگ ہم سے وہ بھی چھیننا چاہتے ہو جو اللہ نے ہمیں دیا ہے۔اگر ہم ویسٹ میں ان سے سب کچھ چھیننے پہنچ جائے تو تمہیں کیسا لگے گا۔؟؟ایباکا نے اپنا کیس بہت تہذیب سے پیش کیا تھا۔
سالار کے پاس اسکے سوالوں کے رٹے رٹائے جوابات تھے اس پراجیکٹ کی طرح کانگو میں ہونے والی اور بہت سی پراجیکٹس کی تفصیلات اسکی انگلیوں پر تھی۔ وہ وہاں ورلڈ بنک کا کنٹری ہیڈ تھا۔ مگر ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ پیٹرس ایباکا کے انکشافات اور سوالات اسے پریشان کرنے لگے تھے۔ بہت کچھ ایسا تھا جو اسکی ناک کے نیچے ہو رہا تھا لیکن اسکو پتا نہیں تھا۔ لیکن وہ اس سب کا حصہ دار تھا۔کیونکہ وہ سب کچھ اسی کے دستخطوں سے منظور ہورہا تھا۔
ایباکا کے فائلوں کے انبار وہ کئ ہفتوں تک پڑھتا رہا۔کئی ہفتے وہ اپنے آپ سے جنگ کرتا رہا۔۔ورلڈ بنک کی ایما پر وہاں ایسی کمپنیوں کو لکڑی استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئ تھی جنکا ٹریک ریکارڈ افریقہ کے دوسرے بہت سے ممالک میں اسی حوالے سے قابل اعتراض رہا تھا۔ لکڑی کٹ رہی تھی جنگل صاف ہورہا تھا آبادی بے دخل ہورہی تھی اور جن شرائط پر ان کمپنیز کو لائسنس دیا گیا تھا وہ ان شرائط کو بھی پورا نہیں کر رہی تھی۔ انہیں لکڑی کے عوض اس علاقے کے لوگوں کی معاشی حالت سدھارنے کا فریضہ دیا گیا تھا۔ اور وہ کمپنیاں کروڑوں ڈالرز کی لکڑی لے جانے کے عوض چند عارضی نوعیت کے سکول اور ڈسپنسریز لوگوں کو فراہم کر رہی تھی۔خوراک خشک دودھ نمک اور مسالا جات کی شکل میں دی جا رہی تھی۔۔اور یہ سب ورلڈ بنک آفیشلز کے نگرانی کے باوجود ہورہا تھا کیونکہ پگمیز کو اس ملک میں اچھوت کا درجہ حاصل تھا۔وہ ان کمپنیز کے خلاف عدالت نہیں جا سکتے تھے۔اگلے دو ماہ سالار کو ایباکا کیساتھ انفرادی حیثیت میں ان جگہوں کو خود جاکر دیکھنے میں لگے جن کے بارے میں ایباکا نے اسے دستاویزات دی تھی۔۔اور پھر اسے اندازہ ہوگیا کہ وہ دستاویزات اور ان میں پائی جانے والی معلومات بالکل ٹھیک تھی۔ضمیر کا فیصلہ بہت آسان تھا۔جو کچھ ہو رہا تھا غلط ہورہا تھا۔ وہ اسکا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا۔لیکن مشکل یہ تھی کہ اب وہ کیا کرے۔ایک استعفی دیکر اس ساری صورت حال کو اسی طرح چھوڑ کر نکل جاتا یا وہ وہاں پر ہونے والی بے ضابطگیوں کے خلاف آواز بلند کرتا۔جو کچھ ورلڈ بنک وہاں کر رہا تھا۔وہ انسانیت کی دھجیاں اڑانے کے برابر تھا۔


افریقہ میں ایباکا سے ملنے کے بعد زندگی میں پہلی بار سالار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خطبے کے ان الفاظ کو سمجھا تھا کہ کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی سبقت نہیں۔ وہ ھمیشہ ان الفاظ کو صرف ذات برادری اور اونچ نیچ کے حوالے سے دیکھتا رہا تھا۔ وہ اس سیاہ فام آبادی کا استحصال دیکھ رہا تھا جو دنیا کے ایک بڑے خطے پر بستی تھی۔ اور پھر اس گوری آبادی کی ذہنی پسماندگی کی ہوس کو دیکھ رہا تھا جس کا وہ بھی حصہ تھا۔ اسے خوف محسوس ہوا۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آخری الفاظ آنے والے زمانوں کے حوالے سے اسی سیاہ فام آبادی کے حوالے سے پیش گوئی کی گئی تھی۔ یا کوئی تنبیہہ جسے صرف سفید فام لوگ ہی نہیں مسلمان بھی نظر انداز کیے ہوئے تھے۔ صدیوں پہلے غلامی کا جو طوق سیاہ فاموں سے ہٹایا گیا تھا۔ اکیسویں صدی کے مہذب زمانے میں افریقہ میں استعماریت نے وہ طوق ایک بار پھر اس کے گلوں میں ڈال دیا تھا۔
انہیں سیاہ فام لوگوں میں ایک ایباکا بھی تھا۔ جو امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں اپنی زندگی کے پچیس سال گزارنے کے بعد بھی وہاں سے اس سیاہ دور میں لوٹ آیا تھا۔ صرف اپنے لوگوں کی بقاء کے لیے۔ بقاء کے لفظ کا مفہوم سالار نے ایباکا سے سیکھا تھا اور اسکے لیے کیا کیا قربان کیا جاسکتا ہے وہ ابھی اس سے سیکھ رہا تھا۔ وہ اگر سالار سکندر کو متاثر کر رہا تھا تو وہ کسی کو بھی متاثر کر سکتا تھا۔
وہ دنیا کے دو ذہین ترین انسانوں کا آمنا سامنا تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا ایک متاثر ہوتا اور دوسرا نہیں ہوتا۔
سالار سکندر! میں زندگی میں تم سے زیادہ قابل اور ذہین انسان سے نہیں ملا۔ سالار مسکرا کر رہ گیا۔
میں خود انٹرنیشنل آرگنائزیشنز میں کام کر چکا ہوں اور ان میں کام کرنے والے مختلف افراد سے مل چکا ہوں، لیکن تم ان سب میں سے مختلف ہو اور مجھے یقین ہے تم میری مدد کروگے۔
تعریف کا شکریہ، لیکن اگر تم اس خوشامد کا سہارا لیکر میری مدد چاہتے ہو اور تمہارا خیال ہے کہ میں تمہارے منہ سے یہ سب سننے کے بعد آنکھیں بند کر کے تمہاری خاطر اس صلیب پر چڑھ جاؤں گا تو میرے بارے میں تمہارا اندازہ غلط ہے۔ میں جو کچھ بھی کروں گا، سوچ سمجھ کے کروں گا۔
ایباکا کی اس فیاضانہ تعریف کو خوشامد قرار دینے کے باوجود سالار جانتا تھا ایباکا کو اس کی شکل میں ایک مسیحا مل گیا ہے۔ مسیحا بھی وہ جو ورلڈ بنک میں کام کرنے کے باوجود اپنا ضمیر زبرستی بے ہوش تو کر سکتا تھا، سلا نہیں سکتا تھا۔۔
تمہارا سینس آف ہیومر بہت اچھا ہے۔ ایباکا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ 
یہ چیز مجھ میں نہیں پائ جاتی۔
سالار نے ترکی بہ ترکی کہا۔۔۔اور جس صورت حال میں تم مجھے ڈال بیٹھے ہو اس کے بعد تو کئ سالوں تک بھی اسکے پیدا ہونے کے کوئ امکانات نہیں۔۔۔
میں بہت سارے مسلمانوں کیساتھ پڑھتا رہا ہوں، کام کرتا رہا ہوں، ملتا رہا ہوں، مگر تم ان سے مختلف ہو۔۔وہ عجیب تبصرہ تھا۔
میں کس طرح مختلف ہوں۔؟ سالار پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔
تم ایک اچھے مسلمان ہونے کیساتھ ایک اچھے انسان بھی ہو۔ جن سے میرا واسطہ پڑا تھا وہ یا تو اچھے مسلمان تھے یا اچھے انسان۔۔۔
سالار کچھ دیر بول نہ سکا۔۔ بولنے کے قابل ہی کہاں چھوڑا تھا اسے افریقہ کے اس بے دین انسان نے۔
اچھا مسلمان تمہاری نظر میں کیا ہے؟؟ سالار نے بہت دیر خاموش رہنے کی بعد پوچھا۔
تمہیں میری بات بری تو نہیں لگی۔ ایباکا ایک دم محتاط ہوگیا۔
نہیں، مجھے تمہاری بات انٹرسٹنگ لگی۔ مگر تمہاری زبان سے ادا ہونے والا یہ پہلا جملہ تھا جس میں تمہاری کم علمی جھلکی۔
اس بار ایباکا الجھا۔ وہ مذہب ڈسکس کرنے نہیں بیٹھے تھے وہاں لیکن مذہب ڈسکس ہورہا تھا۔ 
اچھا مسلمان؟؟ جو باعمل ہو، ساری عبادات کرتا ہے، پورک نہیں کھاتا، شراب نہیں پیتا، نائٹ کلب نہیں جاتا۔ میرے نزدیک وہ ایک اچھا مسلمان ہے۔ جیسے ایک اچھا عیسائی یا ایک اچھا یہودی۔۔۔
ایباکا کو اندازہ نہیں تھا وہ اپنی کم علمی میں جو باتیں کر رہا تھا وہ سالار کو شرمسار کرنے کے لیے کافی تھیں۔۔ایباکا اسے اچھا مسلمان بھی مان رہا تھا اور اچھا انسان بھی۔ لیکن کیا وہ اس معیار پہ پورا اترتا تھا۔۔۔۔
ریونڈ جانسن کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ سالار نے بے ساختہ کہا۔
ویل۔۔۔ ایباکا کہہ کر مسکرایا تھا انکے مجھ پر بہت احسانات ہیں لیکن وہ کبھی میرے آئیڈیل نہ بن سکے۔۔۔
کیوں؟ وہ سوال و جواب سالار کو عجیب لطف دے رہے تھے۔
انکے احسانوں کی ایک قیمت تھی وہ مجھے کرسچن بنانا چاہتے تھے جب میں نے وہ مذہب اپنا لیا تو انہوں نے وہ سارے احسانات ایک کرسچن بچے پر کیئے۔ ایک انسان کے طور پہ ایک انسان سمجھ کر تو اس نے میرے لیئے کچھ نہیں کیا۔ مذہب کسی کے دل و دماغ میں زبردستی نہیں ڈالا جا سکتا۔
میں نے تھوڑا بہت سب مذاہب کا مطالعہ کیا۔ لیکن پتہ نہیں کیوں جو انسان ان مذاہب کا پیروکار ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی اچھائیاں کھو بیٹھتا ہے ۔تمہیں لگ رہا ہوگا میں فلاسفر ہوں۔ ایباکا کو بات کرتے کرتے احساس ہوا تھا۔سالار بہت دیر سے خاموش تھا۔
نہیں؟ اتنا فلاسفر تو میں بھی ہوں۔۔ سالار نے مسکرا کر کہا۔۔تم امریکہ سے یہاں واپس کیسے آگئے۔
؟ سالار نے اس سے وہ سوال کیا جو اسے اکثر الجھاتا تھا۔
ایک چیز جو میں نے ریونڈ جانسن سے سیکھی تھی وہ اپنے لوگوں کے لیئے ایثار تھا، اپنی ذات سے آگے کسی دوسرے کے لئے سوچنا۔امریکہ بہت اچھا تھا وہاں میرا مستقبل تھا۔لیکن صرف میرا مستقبل تھا۔میری قوم کے لیے کچھ نہیں تھا۔میں کانگو میں کچھ اور بننے کا خواب لیکر آیا ہوں۔ایباکا کہہ رہا تھا۔
اور وہ کیا؟؟ سالار کو پھر تجسس ہوا۔
کانگو کا صدر بننے کا۔ سالار کے چہرے پر مسکراہٹ آئ۔
تم ہنسے نہیں؟؟ ایباکا نے جواباً کہا تھا۔۔
تم نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس پہ میں ہنس پڑوں۔ ہارورڈ سکول سے پڑھنے کے بعد تمہیں اتنے ہی بڑے خواب دیکھنے چاہیئے۔۔ایباکا اسکی بات پر مسکرا دیا تھا۔۔
وہ مہینے سالار کے لیے بے حد پریشانی کے تھے۔۔کیا کرنا چاہیئے اور کیا کر سکتا تھا کے درمیان فاصلہ تھا۔ وہ ایباکا کی مدد نہ بھی کرتا تب بھی وہ جتنی جانفشانی سے اپنی حقوق کی جنگ لڑ رہا تھا سالار کو یقین تھا جلد یا بدیر ورلڈ بنک کے چہرے پر کالک ملنے والا ایک بڑا سکینڈل سامنے آنے والا ہے۔ حفاظتی اقدامات کا وقت اب گزر چکا تھا پیٹرس ایباکا صرف کنگالا یا سواحلی بولنے والی ایک پگمی نہ تھا جسے کانگو کے جنگلات تک محدود کیا جاسکتا ہے۔ وہ امریکہ میں اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزارنے والا شخص تھا جس کے کانٹیکٹس تھے اگرچہ وہ اس وقت اس کے کام نہیں آرہے تھے لیکن اس سے وہ کمزور نہیں پڑا تھا بلکہ زیادہ طاقتور بن کر ابھرا تھا۔وہ نہ صرف پگمیز بلکہ بانٹو قبیلے کی آواز بھی بن چکا تھا۔ جن کا انحصار جنگلات پہ تھا۔۔
اگلا کوئ قدم اٹھانے سے پہلے ہی ایباکا کیساتھ اس کا میل جول ان لوگوں کی نظروں میں آگیا تھا جن کے مفادات ورلڈ بنک کے ذریعے پورے ہو رہے تھے۔سالار پہ نظر رکھی جانے لگی تھی اس سے پہلے کے اس کے خلاف کوئ کاروائی ہوتی انگلینڈ کے ایک اخبار نے ایباکا کی فراہم کی گئ معلومات کی تحقیق کرنے کے بعد کانگو کے پگمیز اور ورلڈ بنک کے کانگو بارانی جنگلات میں ہونے والے پراجیکٹس کے بارے میں ایک کور سٹوری شائع کی تھی۔ جس میں ورلڈ بنک کے کردار کے حوالے سے بہت سارے اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔
واشنگٹن میں ورلڈ بنک کے ہیڈ کوارٹر میں جیسے ہلچل مچ گئ۔ ورلڈ میڈیا میں اس معاملے کی رپورٹنگ اور کوریج کو دبانے کی کوشش کی گئ مگر اس سے پہلے ہی یورپ اور ایشیاء کے بہت سارے ممالک کے ممتاز اخبارات اس آرٹیکل کو ری پرنٹ کر چکے تھے اور ورلڈ بنک میں وہ ہلچل اس وقت عروج پر پہنچی جب سالار سکندر کی طرف سے ہیڈ آفس کو کانگو میں چلنے والے ان ہراجیکٹس کے حوالے سے ایک تفصیلی ای میل کی گئ۔ اور یہی وہ وقت تھا جب سالار کو نامعلوم ذرائع سے دھمکیاں ملنے کا آغاز ہوا۔ وہ پراجیکٹس جو ان چلانے والی کمپنیوں کو اربوں ڈالرز کی آمدنی دے رہے تھے۔ بنک کے اپنے کنٹری ہیڈ کی مخالفت کا باعث بنتے تو وہ کمپنیز اور ان کے پیچھے کھڑی بین الاقوامی خاموش طاقتیں، خاموش تماشائی تو نہ بنے رہتے۔ کوئ عام صورت حال ہوتی تو اس وقت تک سالار سے استعفی لیکر اسے بڑے ہتک آمیز طریقے سے ملازمت سے فارغ کیا جا چکا ہوتا۔ مگر اس وقت اسکا استعفی انٹرنیشنل میڈیا کے تجسس کو ابھار دیتا۔
ای میل کا جواب سالار کو ایک تنبیہہ کی شکل میں دیا گیا تھا۔ جو سادہ الفاظ میں خاموش ہو جانے کی تاکید کی تھی۔
بنک نے نہ صرف اس ای میل میں ہونے والے اسکے تجزیہ کو ناپسند کیا تھا بلکہ پیٹرس ایباکا کی فراہم کردہ معلومات پر گارڈین میں شائع ہونے والی کور سٹوری کا ملبہ بھی اس کے سر پر ڈالتے ہوئے اسے ایباکا اور اس کور اسٹوری میں استعمال ہونے والی معلومات کا ذریعہ قرار دیا گیا ۔۔۔۔
یہ الزام سالار سکندر کے فروفیشنل کام پر ایک دھبہ تھا۔ پیٹرس ایباکا سے ہمدردی رکھنے، متاثر ہونے اور میل جول رکھنے کے باوجود سالار نے اسے بنک کے کسی انفارمیشن یا دستاویزات کی بات بھی نہیں کی تھی۔ ایباکا نے ساری معلومات کہاں سے لی تھی وہ ایباکا کے علاوہ اور کوئ نہیں جانتا تھا۔ اس تنبیہ کے جواب میں سالار نے بنک کو اپنے استعفی کی پیشکش کی تھی۔ اسے اب یہ محسوس ہوا کہ اسے مانیٹر کیا جاتا تھا۔ اسکی فون کالز ٹیپ ہورہی تھی۔اور اسکی ای میلز ہیک ہورہی تھی۔دنوں میں اسکے آفس کا ماحول تبدیل ہوگیا تھا ۔۔اس نے بنک کی ناراضی اور ہدایات کے باوجود ایباکا سے نہ تو اپنا میل جول ختم کیا نہ ہی رابطہ۔۔۔
استعفی کی پیشکش کیساتھ اس نے بنک کو کانگو میں چلنے والے جنگلات پراجیکٹ کے خلاف اپنی تفصیلی رپورٹ بھی بھیجی تھی جو سالار کی اپنی معلومات تھی۔اور توقع کے مطابق انہیں واشنگٹن طلب کر لیا گیا تھا۔
امامہ کو اس ساری صورت حال کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ وہ امید سے تھی اور سالار اسے اس ٹینشن کا حصہ دار نہیں بنانا چاہتا تھا جس سے وہ گزر رہا تھا۔۔۔ وہ صرف ایباکا اوراسکے جدوجہد کے بارے میں جانتی تھی۔ 
امامہ کو صحیح معنوں میں تشویش تب ہوئی جب اس نے میڈیا میں سالار سکندر کا نام بھی نمودار ہوتے دیکھا جسکے بارے میں میڈیا کہہ رہا تھا کہ وہ اس پراجیکٹ کے حوالے سے ہیڈ آفس کو اختلافی رپورٹ دے چکا تھا۔
اور انہیں حالات میں اچانک واشنگٹن سے اسکا بلاوا آگیا تھا اور یہ وہ وزٹ تھا جس پر امامہ نے آخر اس سے پوچھ ہی لیا۔
سب کچھ ٹھیک ہے سالار؟؟ وہ اس رات سالار کی پیکنگ کر رہی تھی۔ جب اس نے اچانک پوچھا۔۔ وہ اپنا بریف کیس تیار کر رہا تھا۔
ہاں یار! تم کیوں پوچھ رہی ہو؟؟ سالار نے جواباً اس سے پوچھا۔
تم واشنگٹن کیوں جا رہے ہو؟؟ وہ اپنے خدشوں کو کسی مناسب سوال کی شکل میں نہ ڈھال سکی۔
میٹنگ ہے۔۔اور میں تو اکثر آتا جاتا رہتا ہوں اس بار تم اس طرح سوال کیوں کر رہی ہو۔اس نے اپنا بریف کیس بند کر کے امامہ سے کہا۔
پہلے کبھی تم اتنے پریشان نہیں لگے۔
نہیں۔۔۔ایسی کوئ بڑی پریشانی نہیں ہے۔ بس شاید یہ ہوگا کہ مجھے اپنی جاب چھوڑنی پڑے گی۔امامہ کے کندھے ہر ہاتھ رکھ کر اس نے ممکنہ حد تک اپنا لہجہ نارمل رکھنے کی کوشش کی۔ اس بار بھونچکا ہونے کی باری امامہ کی تھی۔
جاب چھوڑنی پڑے گی؟؟ تم تو اپنی جاب سے بہت خوش تھے۔۔وہ حیران نہ ہوتی تو کیا ہوتی۔
تھا۔۔۔۔لیکن اب نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔سالار نے مختصراً کہا۔کچھ مسئلے ہیں، تمہیں آکر بتاؤں گا۔ تم اپنا اور بچوں کا خیال رکھنا ۔۔کہاں ہیں دونوں؟؟ 
سالار نے بات بڑی سہولت سے بدل دی تھی۔ایک لمحے کو اسے خیال آیا کہ ان حالات میں اسے اہنے بچوں اور امامہ کو کنشاسا میں اکیلا چھوڑ کر نہیں جانا چاہیئے۔لیکن حل کیا تھا اسکے پاس۔امامہ کی پریگنینسی کے آخری مراحل چل رہے تھے ۔وہ ہوائی جہاز کا سفر نہیں کر سکتی تھی۔۔
تم اپنا اور بچوں کا خیال رکھنا۔میں صرف تین دن کے لیئے جارہا ہوں۔ جلدی واپس آؤں گا۔وہ اب بچوں کے کمرے میں سوئے ہوئے جبریل اور عنایہ کو پیار کر رہا تھا۔ اسکی فلائٹ چند گھنٹوں بعد تھی۔
ملازمہ کو اپنے پاس گھر پہ رکھنا میری غیر موجودگی میں۔۔اس نے امامہ کو ہدایت کرتے ہوئے کہا۔
تم ہماری فکر مت کرو۔ تین دن کی ہی تو بات ہے تم صرف اپنی میٹنگ کو دیکھو۔ آئی ہوپ وہ ٹھیک رہے. امامہ کو اس وقت تشویش اس میٹنگ کی تھی۔
اسے آدھے گھنٹے میں نکلنا تھا اسکا سامان پیک تھا۔وہ دونوں چائے کا ایک آخری کپ پینے کے لیے لاؤنج میں ساتھ بیٹھے تھے۔اور اس وقت چائے کا پہلا گھونٹ پینے سے پہلے سالار نے اس سے کہا۔
میں تم سے محبت کرتا ہوں اور ھمیشہ کرتا رہوں گا۔۔۔
امامہ اپنی چائے اٹھاتے ہوئے ٹھٹکی، پھر ہنسی ۔۔۔
آج بہت عرصہ بعد تم نے کہیں جانے سے پہلے ایسی کوئ بات کہی ہے ۔۔خیریت ہے۔؟؟ 
وہ اب اسکا ہاتھ تھپک رہی تھی۔سالار نے مسکرا کر چائے کا کپ اٹھا لیا۔
ہاں خیریت ہے لیکن تمہیں اکیلا چھوڑ کر جارہا ہوں اس لیئے فکرمند ہوں۔۔۔۔۔
اکیلی تو نہیں ہوں میں۔۔۔۔جبریل اور عنایہ میرے ساتھ ہے۔ تم پریشان مت ہونا۔۔۔۔۔
سالار چائے کا گھونٹ بھرتا رہا امامہ بھی چائے پینے لگی۔ لیکن اسے یہ محسوس ہوا جیسے وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔۔۔
تم مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہو؟ وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔۔وہ چائے پیتے ہوئے چونکا پھر مسکرایا۔۔
وہ ھمیشہ اسے بوجھ لیتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں لیکن ابھی نہیں کروں گا واپس آکر کروں گا۔۔۔اس نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا۔ 
مجھے تمہاری یہ عادت سخت ناپسند ہے۔۔۔۔۔۔ہر دفعہ کہیں جاتے ہوئے مجھے الجھا جاتے ہو۔ میں سوچتی رہوں گی کہ پتا نہیں کیا اعتراف کرنا ہے۔۔
امامہ نے ھمیشہ کی طرح برا مانا تھا اور اسکا گلہ غلط نہیں تھا۔وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتا تھا ۔اور جان بوجھ کر کرتا تھا۔۔
اچھا دوبارہ کبھی نہیں کروں گا ۔۔وہ ہنستے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔اس کے جانے کا وقت ہو رہا تھا۔۔بازو پھیلائے وہ ہمیشہ کی طرح جانے سے پہلے امامہ سے آخری بار مل رہا تھا۔۔ہمیشہ کی طرح گرمجوش معانقہ۔ 
آئ ول مس یو۔۔جلدی آنا۔۔وہ ہمیشہ کی طرح جذباتی ہوئ تھی اور وہی کلمات دہرائے تھے۔۔جو وہ ہمیشہ دہراتی تھی۔
پورچ میں کھڑے ایک آخری بار اس کو خدا حافظ کہنے کے لیئے اس نے الوداعیہ انداز میں سالار کی گاڑی کے چلتے ہی ہاتھ ہلایا تھا۔۔گاڑی تیز رفتاری سے طویل پورچ کو عبور کرتے ہوئے کھلے ہوئے گیٹ سے باہر نکل گئ۔امامہ کو لگا تھا وقت اور زندگی دونوں تھم گئے تھے۔۔وہ جب کہیں چلا جاتا وہ اسی کیفیت سے دوچار ہوتی ۔۔۔۔
*********----------*******
وہ اس وقت نیویارک میں تھی۔ اسکے ہاں پہلا بچہ ہونے والا تھا۔وہ ساتویں آسمان پر تھی کیونکہ جنت اسکے پیروں کے نیچے آنے والی تھی نعمتیں ہی تھی کہ گنی نہیں جارہی تھی۔ تیسرا مہینہ تھا اسکی پریگنینسی کا جب سالار نے ایک رات اسے نیند سے جگا دیا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پائ تھی کہ سالار نے اسے نیند سے جگا کر کیا بتانے کی کوشش کی تھی۔اور یہیں کیفیت سالار کی بھی تھی اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔کہ وہ اسے کن الفاظ میں اتنے بڑے نقصان کی اطلاع دے۔ اس سے پہلے سکندر اور وہ یہیں ڈسکس کر رہے تھے۔کہ امامہ کو اطلاع دینی چاہیئے یا اس حالت میں اس سے یہ خبر چھپانی چاہیئے۔۔
سکندر کا خیال تھا کہ امامہ کو ابھی نہیں بتانا چاہئیے لیکن سالار کا فیصلہ تھا کہ وہ اس سے اتنی بڑی خبر چھپا کر ساری عمر کے لیے اسے کسی رنج میں مبتلا نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔وہ وسیم سے ویسے بھی رابطے میں تھی۔اسے ویسے بھی ایک آدھ دن میں اطلاع مل جاتی۔ وہ دونوں قادیانوں کی ایک عبادت گاہ پر ہونے والی فائرنگ میں درجنوں دوسرے لوگوں کی طرح مارے گئے تھے اور امامہ چند گھنٹوں پہلے یہ نیوز دیکھ چکی تھی وہ اس جانی نقصان پر رنجیدہ بھی ہوئ تھی۔ایک انسان کے طور پر۔مگر اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان لوگوں میں اس کے دو اتنے قریبی لوگ بھی شامل ہوسکتے ہیں۔۔اسے شبہ ہوتا بھی کیسے۔۔وہ اسلام آباد کی عبادت گاہ نہیں تھی کسی اور شہر کی تھی سعد اور وسیم وہاں کیسے جاسکتے ہیں۔اور وسیم تو اپنی عبادت گاہ بھی بہت کم جاتا تھا۔۔۔بے یقینی اس لیے بھی تھی کیونکہ ایک ہفتہ بعد وہ اور سعد نیویارک آنے والے تھے وہ دس سال بعد سعد سے مل رہی تھی ۔۔۔بے یقینی اس لیئے بھی تھی کیونکہ وسیم نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے عقائد سے تائب ہوجائے گا۔اور وہ سعد کو بھی سمجھائے گا جو اس سے زیادہ کٹر تھا اپنے عقائد میں ۔ ۔۔ایک دن پہلے تو اس نے وسیم سے بات کی تھی۔۔۔
اور سالار۔۔۔وہ کیا کہہ رہا تھا ۔۔۔کیا وہ پاگل ہوگیا تھا۔یا وہ کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہی تھی۔
وہ صبر نہیں تھا۔۔وہ شاک بھی نہیں تھا۔۔وہ بے یقینی تھی۔۔سالار کو اندازہ تھا مگر وہ یہ نہیں سمجھ رہا تھا کہ اسے اس انکشاف کے بعد اس سے کیسے نکالے۔۔۔
وہ کئی گھنٹے گم صم، آنسو بہائے بغیر سالار کے کسی سوال اور بات کا جواب دیئے بغیر ایک بت کی طرح وہی بستر پہ بیٹھی رہی، یوں جیسے انسان نہیں برف کی سل بن گئ تھی۔۔اسکی حالت کو دیکھ کر سالار کو شدید پچھتاوا ہوا کہ اس نے سکندر کی بات نہ مان کر غلطی کردی ہے۔۔سالار اپنے ڈاکٹر کزن کو بلا لایا تھا گھر پر ہی اسے دیکھنے۔۔۔
اس کے بعد کیا ہوا تھا امامہ کو ٹھیک سے یاد نہیں۔۔سالار کو لمحہ لمحہ یاد تھا۔وہ کئ ہفتے اس نے اسے پاگل پن کی سرحد پر جاتے اور وہاں سے پلٹتے دیکھا۔وہ چپ ہوتی تو کئ کئ دن چپ رہتی، روتی تو گھنٹوں روتی، سوتی تو پورا دن اور رات آنکھیں نہیں کھولتی اور جاگتی تو دو، دو دن بستر پر چند لمحوں کے لیئے بھی لیٹے بغیر، لاؤنج سے بیڈروم اور بیڈروم سے لاؤنج کے چکر کاٹتے کاٹتے اپنے پاؤں سجالیتی۔۔۔یہ صرف ایک معجزہ تھا کہ اسکی ذہنی حالت اور کیفیت میں بھی جبریل کو کچھ نہیں ہوا تھا۔ وہ جیسے یہ فراموش ہی کر بیٹھی تھی کہ اسکے اندر ایک اور زندگی پرورش پا رہی تھی۔۔۔
اور وحشت جب کچھ کم ہوئ تو اس نے سالار سے پاکستان جانے کا کہا۔اسے اپنے گھر جانا تھا ۔۔سالار نے اس سے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ وہ کس گھر کو اپنا گھر کہہ رہی ہے ۔۔اس نے خاموشی سے دو سیٹیں بک کروالی تھی۔۔۔۔
مجھے اسلام آباد جانا ہے۔ اس نے سالار کے پوچھنے پر کہا تو اس نے بحث نہیں کی تھی۔اگر اسکے گھر والوں سے ملاقات اسکو نارمل کر دیتی تو وہ اس ملاقات کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا تھا 
ہاشم مبین انکے ہمسائے تھے۔انکے گھر آنے والی قیامت سے سالار کا خاندان بے خبر نہیں تھا۔۔مذہب کا فرق تھا۔۔خاندانی اختلافات تھے، دشمنی تھی لیکن اس کے باوجود انکی یہ خواہش کبھی نہ تھی کہ ہاشم مبین کیساتھ ایسا ہوتا۔۔بڑھاپے میں دو بیٹوں کی موت کیسا صدمہ تھا، سکندر اندازہ کرسکتے تھے۔۔وہ خود باپ تھے۔انہوں نے ہاشم مبین کے گھر جا کر ان سے تعزیت کی تھی۔اس صدمے میں بھی بہت سرد مہری سے ہاشم مبین نے اسکی تعزیت قبول کی تھی۔ 
سکندر کو امید نہیں تھی کہ وہ امامہ سے ملیں گے۔ اس نے سالار سے اپنی خدشات کا اظہار ضرور کیا تھا لیکن امامہ کو جس حالت میں انہوں نے دیکھا تھا وہ سالار کو ایک کوشش کرنے سے روک نہ سکے تھے۔۔انہیں امامہ کو دیکھ کر دلی رنج ہوا۔ ہاشم مبین نے نہ صرف فون پر سکندر سے بات کرنے سے انکار کیا تھا بلکہ سالار کو گھر پر گیٹ سے اندر جانے نہیں دیا۔سکندر اور وہ دونوں مایوسی کے عالم میں واپس آگئے۔امامہ کی سمجھ میں اس کی مایوسی اور بے بسی نہ آسکی تھی۔
سالار اسکے سامنے بے بس تھا لیکن پہلی بار اس نے امامہ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے تھے۔۔
تمہیں اگر اپنے گھر جانا ہے تو پہلے اپنے باپ سے بات کر لو وہ اجازت دے تو پھر میں تمہارے ساتھ چلوں گا۔لیکن میں تمہیں بغیر اجازت کے وہاں گیٹ پر گارڈز کے ہاتھوں ذلیل ہونے کے لیے نہیں بھیج سکتا۔۔
اسکے رونے اور گڑگڑانے کے باوجود سالار نہیں پگھلا تھا۔امامہ نے اپنے باپ سے فون پر بات کر کے اجازت لے لی تھی۔مگر اس فون کال نے سب کچھ بدل دیا۔جو چیز سالار اسے نہیں سمجھا سکا تھا وہ ہاشم مبین نے اس کو سمجھا دی تھی۔
یہ جو کچھ ہوا ہے تمہاری وجہ سے ہوا ہے تم جن لوگوں کیساتھ بیٹھی ہو انہی لوگوں نے جان لی ہے میرے دونوں بیٹوں کی۔ اور تم اب میرے گھر آنا چاہتی ہو۔قاتلوں کیساتھ میرے گھر آنا چاہتی ہو۔وہ ہذیانی انداز میں چلاتے اور گالیاں دیتے رہے۔۔
تم لوگ۔۔۔اور ہم لوگ۔۔فرق کتنا بڑا تھا امامہ کو یاد آگیا تھا۔ ہاشم مبین کی مزید کوئ بات سننے سے پہلے اس نے فون بند کردیا۔اسکے بعد وہ بلک بلک کر روئ تھی۔اس گھر میں صرف وسیم اسکا تھااور وسیم جاچکا تھا۔
وہ سالار کیساتھ واپس نیو یارک آگئ تھی۔ وہ سمجھ رہا تھا وہ نارمل ہوگئ تھی آہستہ آہستہ ٹھیک ہوجائے گی۔لیکن ایسا نہ ہوا وہاں کی تنہائ نے امامہ کے اعصاب کو مفلوج کرنا شروع کیا۔سالار پی ایچ ڈی کر رہا تھا اور ساتھ ہی ایک آرگنائزیشن میں پارٹ ٹائم کام کرتا تھا۔وہ صبح پانچ بجے گھر سے نکلتا تھااور رات کو آٹھ، نو بجے اسکی واپسی ہوتی تھی اور وہ واپسی پہ اتنا تھکا ہوا ہوتا تھا کہ ایک دو گھنٹہ ٹی وی دیکھ کر کھانا کھا کر سو جاتا ۔۔امامہ بارہ چودہ گھنٹے ایک بیڈروم کے آٹھویں منزل کے اس اپارٹمنٹ میں بالکل تنہا ہوتی تھی۔۔۔وسیم اسکے ذہن سے نہیں نکلتا تھا وہ روز اپنے فون میں موجود اسکے اور اپنے میسجز کو جو سینکڑوں کی تعداد میں ہوتے پڑھنا شروع کر دیتی اور پھر گھنٹوں اسی میں گزار دیتی ۔۔تسلی دلاسا اور دل جوئ کے لیئے سالار جو کر سکتا تھا، کرچکا تھا۔
وہ صبح سویرے گھر سے اسکے بارے میں سوچتے ہوئے نکلتا اور رات کو جب گھر واپس آتا تو بھی اسی کے بارے میں سوچ رہا ہوتا۔ امامہ کی ذہنی کیفیت نے جیسے اسکے اعصاب شل کرنا شروع کر دیئے۔جبریل کی پیدائش میں ابھی بہت وقت تھا۔اور وہ اسے اس جہنم سے نکالنا چاہتا تھا۔جس میں وہ ہر وقت نظر آتی تھی۔
سائکاٹرسٹ اسکی پریگنینسی کی وجہ سے اس کو تیز دوائیاں نہیں دے رہے تھے۔
اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے سے پہلے ہی ایک رات امامہ نے کہا تھا۔۔۔۔۔
مجھے پاکستان جانا ہے۔
کیوں؟؟ سالار کو اپنا سوال خود بے تکا لگا۔ 
پھر اس نے جو کہا تھا اس نے سالار کا دماغ بھک سے اڑا دیا۔
کل میں نے وسیم کو دیکھا۔ وہاں کچن کاؤنٹر کے پاس، وہ پانی پی رہا تھا۔۔۔بات کرتے ہوئے اسکی آواز بھرائ 
مجھے لگتا ہے میں کچھ عرصہ اور یہاں رہوں گی تو پاگل یوجاؤں گی ۔یا شاید ہونا شروع ہوچکی ہوں اور میں ایسا نہیں چاہتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے، ہم واپس چلے جاتے ہیں مجھے صرف چند ہفتے دے دو سب کچھ وائنڈ اپ کرنے کے لیئے۔۔سالار نے لمحوں میں فیصلہ کیا تھا۔اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے امامہ نے نفی میں سر ہلایا۔
تم پی ایچ ڈی کر رہے ہو۔ تم کیسے جاسکتے ہو میرے ساتھ۔۔
میں پی ایچ ڈی چھوڑ دوں گا۔۔ڈاکٹریٹ کی ڈگری ضروری نہیں، تم اور تمہاری زندگی ضروری ہے۔۔۔۔۔سالار نے جواباً کہا۔۔۔۔
کچھ کہنے کی کوشش میں امامہ کی آواز بھرائ وہ کہہ نہ پائ اس نے دوبارہ بولنے کی کوشش کی اور اس بار وہ بلک بلک کر رونے لگی تھی۔
نہیں تم ساتھ نہیں آؤ گے۔۔یہ کیوں ضروری ہے کہ ساری زندگی تم قربانیاں ہی دیتے رہو میرے لیئے۔۔۔اب پی ایچ ڈی چھوڑ دو۔۔۔اپنا کیرئیر چھوڑو۔۔تمہاری زندگی ہے۔ قیمتی ہے تمہارا وقت، تم کیوں اپنی زندگی کے اتنے قیمتی سال میرے لیئے ضائع کرو۔۔۔ 
سالار نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ کوئ اور موقع ہوتا تو اسکا یہ اعتراف اسکو خوشی دیتا لیکن اب اسے تکلیف دے رہی تھی۔۔وہ روتے ہوئے اسی طرح کہہ رہی تھی۔ ۔۔۔آئی ایم ناٹ سوٹیبل فار یو۔۔۔۔جتنا سوچتی ہوں مجھے یہی احساس ہوتا ہے تمہارا ایک برائٹ فیوچر ہے لیکن میرا وجود تمہاری ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ مجھے احساس جرم ہوتا ہے ۔
وہ چپ چاپ اسکا چہرہ دیکھ رہا تھا وہ رو رہی تھی اور بول رہی تھی۔میں تم سے بہت شرمندہ ہوں لیکن میں بے بس ہوں، میں کوشش کے باوجود بھی اپنے آپ کو نارمل نہیں رکھ پاتی۔۔۔۔اور اب۔۔۔وسیم کو دیکھنے کے بعد تو میں اور بھی.۔۔۔۔۔۔اور بھی۔۔۔۔۔۔وہ بولتے بولتے رک گئ۔۔صرف اسکے آنسو اور ہچکیاں نہیں تھمی تھی۔۔۔
سالار تم بہت اچھے انسان ہو، بہت اچھے ہو، تم بہت قابل ہو۔۔۔۔۔تم مجھ سے بہتر عورت ڈیزرو کرتے ہو، میں نہیں ۔۔ تمہیں ایسی عورت ملنی چاہیئے جو تمہارے جیسی ہو۔۔تمہیں زندگی میں آگے بڑھنے میں سپورٹ کرے، میری طرح تمہارے پاؤں کی بیڑی نہ بنے۔۔
اور یہ سب کچھ تم آج کہہ رہی ہو جب ھم اپنا پہلا بچہ ایکسپیکٹ کر رہے ہیں؟؟ 
مجھے لگتا ہے یہ بچہ بھی مر جائے گا۔ اس نے عجیب بات کہی تھی۔۔۔سالار نے اسکا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی۔ اس نے ہاتھ چھڑا لیا۔۔۔
تم کیوں اس طرح سوچ رہی ہو ۔۔اسے کچھ نہیں ہوگا سالار پتا نہیں کس کو تسلی دینا چاہتا تھا۔ لیکن اس وقت امامہ سے زیادہ اسکی حالت قابل رحم ہو رہی تھی۔۔
تم بس مجھے پاکستان بھیج دو۔۔ امامہ نے اسکی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔۔۔اس نے ایک بار پھر وہی مطالبہ دہرایا تھا۔
میں تمہیں اسلام آباد نہیں بھیجوں گا۔۔سالار نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
مجھے وہاں جانا بھی نہیں۔۔۔میں سعیدہ اماں کے پاس رہ لوں گی۔وہ اسکی بات پر حیران ہوا تھا۔سعیدہ اماں نہیں، تم ڈاکٹر صاحب کے پاس چلی جاؤ اگر وہاں رہنے پر تیار ہو تو میں تمہیں بھیج دیتا ہوں۔۔سالار نے کچھ سوچ کر کہا۔ 
ٹھیک ہے مجھے انہیں کے پاس بھیج دو۔۔۔وہ تیار ہوگئ تھی۔۔۔
اگر تم وہاں جا کر خوش رہ سکتی ہو تو ٹھیک ہے ۔۔واپس کب آؤ گی؟؟ 
وہ خاموش رہی۔۔۔
واپس آجانا۔۔۔اس کی لمبی خاموشی کو سالار نے مختصر زبان دی تھی۔۔ مشورہ نہیں تھا۔منت تھی۔خواہش نہیں تھی، بے بسی تھی۔۔۔امامہ نے اسکی بات خاموشی سے سن کر خاموشی سے ہی اسکا جواب دیا۔
وہ ایک ہفتہ بعد پاکستان واپس چلی آئ تھی اور جیسے کسی قید سے چھوٹ آئ تھی۔ وہ واپس نہ آنے کے لیئے جارہی تھی سالار کو اسکا احساس اسکی ہر ہر حرکت سے ہو رہا تھا۔ لیکن وہ پھر بھی اسے جانے دینا چاہتا تھا۔اگر دوری سے وہ صحت یاب ہوسکتی تھی تو دور ہوجائے لیکن وہ ٹھیک ہوجائے۔۔۔چار مہینے اور گزرتے تو اسکی اولاد دنیا میں آجاتی۔اور وہ اسکی بقا بھی چاہتا تھا اور ہمت بھی اپنی جانتا تھا جو آہستہ آہستہ ختم ہو رہی تھی۔وہ ڈپریشن امامہ کے وجود سے جیسے اسکے وجود میں داخل ہونے لگا تھا۔۔۔
جس شام اسکی فلائٹ تھی۔ وہ ایک بار پھر دل گرفتہ ہورہا تھا اسے لگا اب وہ گھر ٹوٹنے والا تھا جسے اس نے بہت مشکل سے بنایا تھا۔۔امامہ بھی خاموش تھی لیکن پتا نہیں کیوں سالار کو وہ پرسکون لگی۔۔پر سکون، مطمئن۔۔خوش۔۔وہ اسکے چہرے کی کتاب پر اس دن یہ نہیں پڑھنا چاہتا تھا۔۔
مت جاؤ۔۔۔۔۔وہ ٹیکسی کے آنے پر اسکا بیگ اٹھا کر لاؤنج میں لے آیا تھا۔۔وہ اپنا ہینڈ کیری کھینچتے ہوئے اس کے پیچھے آئ تھی۔۔اور وہ بھی دوسرے سامان کی طرح سالار کو تھمانے کی کوشش کی، جب سالار نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔۔اس نے خلاف توقع ہاتھ نہیں کھینچا تھا بس ہاتھ، اسکے ہاتھ میں رہنے دیا تھا۔۔بہت دیر سالار اسکا ہاتھ یوں ہی پکڑے رہا تھا پھر اس نے بہت دل گرفتگی سے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔وہ لمس امامہ کیساتھ آیا تھا۔ اس قید سے آزاد ہونے کے بعد بھی اسے بے قرار کرتا تھا۔وہ کئ سال بعد ایک دفعہ پھر ڈاکٹر سبط علی کے گھر پناہ لینے آئ تھی۔اور اس بار بھی پناہ مل گئ۔ ڈاکٹر صاحب اور اسکی بیوی اسکی ذہنی حالت سے واقف تھے۔کچھ دنوں کے لیئے امامہ نے یوں محسوس کیا تھا جیسے وہ کسی قید تنہائی سے نکل آئ تھی۔ مگر یہ کیفیت بھی وقتی تھی۔سکون یہاں بھی نہیں تھا۔۔۔سالار اسے روز فون کرتا تھا کبھی وہ ریسیو کر لیتی اور کبھی نہیں۔۔۔کبھی وہ اس سے لمبی بات کرتی، کبھی مختصر۔۔
******
پتہ نہیں کتنے دن تھے جو اس نے اسی طرح گزارے ۔
نہر کے کنارے اونچے لمبے درخت ہوا سے ہلتے تو انکے پتوں سے سورج کی کرنیں چھن چھن کر نہر کے پانی پر پڑتی لحظہ بھر کے لیئے اسے روشن کرتی غائب ہوتی۔۔۔
بس ایک لمحہ تھا جب اس نے سوچا کہ اسے اس پانی میں اترنا چاہئیے۔۔ اس سے پہلے کہ وہ قدم اٹھاتی کسی عورت کی آواز پر ٹھٹک گئ تھی۔۔۔
یہ ذرا گٹھا تو بندھوا دے میرے ساتھ بٹیا۔۔
وہ ایک ستر، اسی سالہ بوڑھی عورت تھی۔جو ایندھن کے لیے وہاں درختوں کی خشک لکڑیاں چننے کے بعد اسے ایک چادر نما کپڑے میں باندھ رہی تھی۔۔اس نے کچھ کہے بنا نہر کے کنارے سے ہٹتے ہوئے اسکی طرف قدم بڑھا دیے۔۔ گٹھا اتنا بڑا تھا کہ اسے یقین نہیں تھا کہ وہ اسکو اپنے سر پر اٹھا لے گی لیکن اس نے امامہ کی مدد سے وہ گھٹا بڑی آرام سے سر پر اٹھا لیا۔۔
ذرا میری بکری کی رسی مجھے پکڑانا۔۔امامہ کو تامل ہوا لیکن پھر اس نے جا کر تھوڑی بہت جدوجہد کے بعد اس بکری کی رسی پکڑ ہی لی تھی۔
آپ چلیں میں ساتھ چلتی ہوں۔۔کہاں جانا ہے آپکو۔۔
بس یہ یہاں آگے ہی جانا ہے، سڑک کے دوسری طرف۔بوڑھی عورت نے سڑک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے بتایا ۔۔
امامہ بکری کی رسی کھینچتی ہوئ، چپ چاپ اسکے پیچھے چل پڑی۔
سڑک پار کرتے ہی امامہ کو دس بیس کے قریب وہ جھگیاں نظر آگئ جنہیں اماں اپنا گھر کہتی تھی۔ وہ کچھ تامل کے بعد ایسی ہی ایک جھگی میں اماں کے پیچھے چلتی ہوئ داخل ہوئ۔
اس نے احاطے کے ایک کونے میں سر پر لادا ہوا گٹھرا اتار پھینکا تھا ۔۔ایک چولہے پر مٹی کی ایک ہنڈیا چڑھی ہوئ تھی۔وہاں ایک آسودہ سی حرارت تھی جیسے وہ کسی گرم آغوش میں آگئ تھی۔
اری تو کھڑی کیوں ہے اب تک۔۔بیٹھ کر دم تو لے۔ میری خاطر کتنا چلنا پڑ گیا تجھے۔میں نے کہا بھی تھا میں لے جاتی ہوں بکری کو، میرا تو روز کا کام ہے۔ پر تُو تو شہر کی کُڑی ہے تجھ سے کہاں ہوتی ہے کوئ مشقت۔۔۔
اس نے کچھ فاصلے ہر ہڑی چوکی کو اسکی طرف کھسکایا۔
میں بھی مشقت ہی کاٹتی آئی ہوں اماں۔۔یہ مشقت تو کچھ بھی نہیں۔۔۔
امامہ اس سے کہتے ہوئے آگے بڑھ آئ تھی۔۔وہ بوڑھی عورت ہنس پڑی۔۔۔
بس مجھے مشقت نہیں لگتی۔۔۔تجھے لگتی ہے۔۔یہی تو فرق ہے۔۔
امامہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی وہ اس حلیے اور اس جگہ رہنے والی عورت سے ایسی بات کی توقع نہیں رکھتی تھی۔
آدمی کیا کرتا ہے تیرا؟؟ وہ اماں کے اس سوال پر اچانک چونکی۔۔۔
کیا کرتا ہے؟ اس نے جیسے یاد کرنے کی کوشش کی۔۔کام کرتا ہے۔
کیا کام کرتا ہے۔۔؟ اماں نے پھر پوچھا۔۔
باہر کام کرتا ہے۔۔وہ بڑبڑائ۔۔
پردیس میں ہے؟ بوڑھی عورت نے پوچھا۔
ہاں۔۔۔وہ اسی طرح ساگ کو دیکھتے ہوئے بولی۔
تُو یہاں کس کے پاس ہے؟ سسرال والوں کے پاس؟؟ 
نہیں۔۔۔۔۔۔۔
پھر؟؟؟ 
میں کسی کےپاس نہیں۔۔۔
آدمی نے گھر سے نکال دیا کیا۔۔اس نے چونک کر اماں کا چہرہ دیکھا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔
تو پھر لڑ کر آئی ہے کیا؟؟ 
نہیں۔۔اس نے بے ساختہ سر ہلادیا۔۔
تو پھر یہاں کس لیے آئ ہے؟؟ 
سکون کے لیئے۔۔اس نے بے اختیار کہا۔۔
سکون کہیں نہیں ہے۔۔وہ اس عورت کا چہرہ دیکھنے لگی۔
جو چیز دنیا میں ہے ہی نہیں، اسے دنیا میں کیا ڈھونڈنا۔۔اس نے حیرت سے اس عورت کو دیکھا۔وہ گہری بات کر گئ تھی۔
پھر بندہ رہے کیوں دنیا میں، اگر بے سکون ہی رہنا ہے۔۔وہ اس سے یہ سوال نہیں پوچھنا چاہتی تھی جو پوچھ لیا تھا۔
تو پھر کہاں رہے؟؟ وہ لاجواب ہوئ۔
تیرا آدمی کہتا نہیں، واپس آنے کو؟ 
پہلے کہتا تھا، اب نہیں کہتا۔
بیچارہ اکیلا ہے وہاں؟؟ 
وہ ایک لمحے کے لیئے ٹھٹکی۔ہاں۔۔اس نے مدھم آواز میں کہا۔
تُو اکیلا چھوڑ کر آگئ اسے؟ اس نے جیسے افسوس کیا تھا۔
تجھ سے پیار نہیں کرتا تھا؟؟ وہ ایک لمحہ کے لیے ساکت ہوئ۔
کرتا تھا۔۔اسکی آواز بے حد مدھم تھی۔۔
خیال نہیں رکھتا تھا؟ ۔
رکھتا تھا۔۔۔آواز اور بھی مدھم ہوتی گئ۔۔
روٹی کپڑا نہیں دیتا تھا؟؟ 
دیتا تھا۔ وہ اپنی آواز بمشکل سن پائ۔۔
تو نے پھر بھی چھوڑ دیا اسے۔ تو نے بھی اللہ سے بندے والا معاملہ کیا اسکے ساتھ۔سب کچھ لیکر بھی دور ہوگئ اس سے۔
وہ بول نہ سکی۔
تجھے یہ ڈر بھی نہ لگا کہ کوئ دوسری عورت لے آئے گا وہ؟ 
نہیں۔۔۔۔
تجھے پیار نہیں ہے اس سے؟؟ کیا سوال آیا تھا۔
کبھی پیار کیا تھا؟؟ آنکھوں میں سیلاب آیا ۔
کیا تھا۔۔اس نے آنسوؤں کو بہنے دیا۔
پھر کیا ہوا۔۔
نہیں ملا۔۔سر جھکائے اس نے آگ میں کچھ لکڑیاں ڈالی۔
ملا نہیں یا اس نے چھوڑ دیا۔۔اس کے منہ میں جیسے ہری مرچ آئ۔۔
اس نے چھوڑ دیا۔۔
پیار نہیں کرتا ہو گا۔۔اماں نے بے ساختہ کہا۔۔۔
پیار کرتا تھا، لیکن انتظار نہیں کرسکتا تھا۔۔اس نے پتا نہیں کیوں صفائ دی اسکی۔
جو پیار کرتا ہے وہ انتظار کرتا ہے۔ جواب کھٹاک سے آیا تھا۔
اس آدمی کی وجہ سے گھر چھوڑ آئ اپنا؟؟ 
نہیں، بس وہاں بے سکونی تھی مجھے اس لیئے۔۔
کیا بے سکونی تھی۔۔وہ برستی آنکھوں کیساتھ بتاتی گئ۔۔۔
اماں چپ چاپ سنتی رہی۔ اسکے خاموش ہونے پر بھی وہ کچھ نہ بولی۔
وہاں نہر کنارے کیا کر رہی تھی/؟
بہت بزدل ہوں اماں ۔۔مرنے کے لیے نہیں کھڑی تھی۔
یعنی تم تو بڑی بہادر ہو۔ مجھ سے بھی زیادہ بہادر۔۔
نہیں میں تو بہت کمزور ہوں۔۔امامہ نے کہا۔
تجھے اپنی ہونے والی اولاد کا بھی خیال نہیں آتا۔پیار نہیں آتا اس پر۔۔۔اسکی آنکھیں ایک بار پھر برسنے لگی۔
کوئ اسطرح گھر چھوڑ کے آتا ہے جیسے تم چھوڑ کر آگئ۔۔۔۔مر جاتے ہیں بڑے بڑے پیارے مر جاتے ہیں پر کوئ ایک کے مرنے پر باقیوں کو چھوڑ دیتا ہے؟؟؟ 
میں اب کسی سے پیار نہیں کرنا چاہتی اماں۔۔۔میں جس سے بھی پیار کرتی ہوں وہ مجھ سے چھن جاتا ہے۔۔بار بار پیار کروں۔۔بار بار گنوا دوں۔۔میں اب اس تکلیف سے نہیں گزر سکتی۔۔
وہ روتی جارہی تھی۔۔
یہ تو نہیں، بلکہ یہ تو کوئ انسان بھی نہیں کرسکتا کہ اپنوں کو اس لیئے چھوڑ دے کہ اسکے بچھڑنے کی تکلیف سے بچ جائے۔ایک کا درد جھیل نہیں پا رہی ہو تو سب کو اکٹھا چھوڑ کر سہہ پاؤ گی؟؟ امامہ کے پاس جواب نہیں تھا۔۔
اس جھگی کے اندر میرا جوان بیٹا ہے ٹھہرو ذرا میں اسے لیکر آتی ہوں ۔۔
وہ عورت ایکدم اٹھ کر اندر چلی گئ۔چند منٹ کے بعد وہ ایک ریڑھی نما ٹرالی کو دھکیلتی ہوئ باہر لائ۔جس میں ایک دبلا پتلا مرد ایک بستر پر لیٹا ہوا قہقہے لگا رہا تھا۔ جیسے وہ ماں کی توجہ ملنے پر خوش ہو۔ وہ ذہنی اور جسمانی طور پہ معذور تھا۔
میرا اکلوتا بیٹا ہے یہ۔اڑتیس سال میں نے اسکے سہارے گزارے ہیں اللہ کے بعد۔
پانچ بیٹے پیدا ہوئے پر ختم ہوگئے۔ پپھر یہ پیدا ہوا تو شوہر نے کہا اسے کسی درگاہ پہ چھوڑ آتے ہیں۔میں نہیں پال سکتا ایسی اولاد کو۔۔پر میں کیسے مان سکتی تھی مجھے تو پیار ہی بڑا تھا اس سے۔۔
شوہر دو چار سال سمجھاتا رہا پر میں نہ مانی۔۔اللہ کی دی ہوئ چیز کو کیسے پھینک دیتی۔۔
شوہر کو بڑا پیار تھا مجھ سے، پر اسے اولاد بھی چاہیئے تھی۔وہ مرگیا تو ساری جائداد رشتہ داروں نے چھین لی بس بیٹا میرے پاس رہنے دیا۔یہ ٹھیک ہوتا تو یہ بھی چھین لیتے ۔۔اڑتیس سال سے اسکا اور میرا ساتھ ہے۔ اسکو شوہر کے کہنے پر درگاہ چھوڑ آتی تو میرا کیا ہوتا۔
کوئ بوجھ تھا جو امامہ کے کندھوں سے ہٹ رہا تھا۔کوئی سحر تھا جو ٹوٹ رہا تھا۔
جو وچھوڑا اللہ نے دیا اس پر صبر کر اور خود کسی کو وچھوڑا نہ دے۔اللہ پسند نہیں کرتا یہ۔
غم بہت بڑا تھا میرا اماں۔
اللہ نے تجھے غم دیا تم نے اپنے آدمی کو۔۔۔تو کونسا اپنا غم اپنے اندر رکھ کر بیٹھ گئ تھی۔
اسے سالار یاد آیا۔۔اسکی آنکھیں دھندلائ۔
اسکی محبت، اسکی عنایات یاد آئ اور اس اولاد کا خیال آیا جسے اس نے بڑی دعاؤں میں مانگا تھا اور جب دعا پوری ہوئ تو وہ کسی چیز کی قدر نہیں کر رہی تھی۔
وہ جانے سے پہلے ایک بار پھر اس بوڑھی عورت سے ملنے آئ تھی اسکے لیئے کچھ چیزیں لیکراسے بے حد کوشش کے باوجود نہ وہ جھگی ملی نہ وہ عورت۔
جبریل سکندر اپنی پیدائش سے بھی پہلے اپنی ماں کے بہت سارے رازوں کا امین تھا۔۔۔
••••**********
امریکہ کے ہسپتال کے نیورو سرجری کے ڈیپارٹمنٹ کے آپریشن تھیٹر میں ڈاکٹر جس شخص کا دماغ کھولے بیٹھے تھے۔ وہ آبادی کے اس 2.5 فیصد سے تعلق رکھتا تھا جو 150آئ کیو لیول رکھتے تھے۔اور اسکے ساتھ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے۔۔۔
وہ آپریشن آٹھ گھنٹے سے ہو رہا تھا اور نجانے مزید کتنی دیر جاری رہنا تھا۔ڈاکٹرز کی اس ٹیم کو لیڈ کرنے والا ڈاکٹر دنیا کے قابل ترین سرجن میں سے ایک مانا جاتا تھا

واشنگٹن میں ورلڈ بنک کے ہیڈ کوارٹرز میں وہ سالار سکندر کی پہلی میٹنگ نہیں تھی وہ درجنوں بار وہاں آ جا چکا تھا۔ مگر اپنی زندگی میں وہ کبھی کسی بورڈ روم میں دماغ پر اتنا بوجھ لیکر نہیں بیٹھا تھا جتنا اس دن بیٹھا تھا۔
وہ فلائٹ کے دوران دو گھنٹے سویا تھا اور باقی کا وقت اس نے اس پریزنٹیشن کو بار بار دیکھتے اور اس میں تبدیلیاں اور اضافے کرتا گزارا جو وہ اس میٹنگ میں پیش کرنے آیا تھا۔ سالار کو سانپوں کے بل میں بیٹھ کر اس کا زہر نکالنے کی تجویز پیش کرنی تھی۔ اور اسے اپنی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں کوئی خوش فہمی یا غلط فہمی نہیں تھی۔
اس کی فلائٹ واشنگٹن میں جس وقت پہنچی اس کے ٹھیک چار گھنٹے بعد ورلڈ بنک کے دربار میں اس کی حاضری تھی۔ وہ ایک بار پھر ہوٹل کے کمرے میں سوئے بغیر کاغذات کا وہ پلندہ دیکھتا رہا جو اسے پریزنٹیشن کے ساتھ بورڈ روم میں تقسیم کرنا تھے۔ان کاغذات کے ڈھیر کو اگر وہ کورٹ میں پیش کر دیتا تو وہ کیس جیت جاتا۔ لیکن سوال یہ تھا کہ دنیا میں ایسی کون سی عدالت تھی جو اس کیس کو سنتی۔ ایباکا عالمی عدالت انصاف میں جانے کے وسائل نہیں رکھتا تھا اور وہ ورلڈ بنک میں کام کرتا تھا۔ وہ اپنے پروفیشنل معاملات خفیہ رکھنے کا پابند تھا۔ اسے یہ معلوم بھی نہیں تھا کہ پیٹرس ایباکا اس وقت نیویارک کے ایک ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا۔
*********-------*********
اس بورڈ روم کا ماحول ویسا نہیں تھا جیسا اس نے ھمیشہ دیکھا تھا۔ سنجیدگی ہر بورڈروم کا حصہ ہوتی ہے لیکن جو اس نے اس دن وہاں دیکھی وہ سرد مہری تھی۔ وہاں بیٹھے سات کے سات لوگوں کے چہروں اور آنکھوں میں ایک جیسی سرد مہری تھی۔ایسی سرد مہری جو کسی بھی کمزور اعصاب کے انسان کو حواس باختہ کرنے کے لیے کافی تھی۔ بے تاثر چہرے اور اوسان خطا کرنے والی نظریں۔۔ ایک بیضوی شکل کی میز کے گرد ٹانگوں پر ٹانگیں رکھے وہ پانچ مرد اور دو عورتیں اس کام کے ماہر تھے جو وہ اس وقت کر رہے تھے۔ ورلڈ بنک کے سالار سکندر جیسے کئی باضمیر ایمپلائیز کا دھڑن تختہ کر چکے تھے۔ سالار سکندر انکے سامنے کیا شے تھا کم از کم اس میٹنگ کے آغاز سے پہلے وہ یہی سوچ کر آئے تھے۔
سالار سکندر نے میٹنگ کے آغاز میں اس میٹنگ کی سربراہی کرنے والے ہیڈ کے ابتدائی کلمات بڑے تحمل سے سنے تھے۔ وہ سالار سکندر کی نا اہلی، ناکامیوں اور کوتاہیوں کو ڈسکس کر رہے تھے ۔سالار نے باقی چھ لوگوں کی نظریں خود پر جمی محسوس کی۔
میں ان میں سے کسی بھی بات کا جواب دینے سے پہلے اس پراجیکٹ کے حوالے سے ایک پریزنٹیشن دینا چاہتا ہوں، کیونکہ میرا خیال ہے کہ ان میں سے بہت سارے سوالات اور اعتراضات کے جواب موجود ہے جو آپ لوگ مجھ پر کر رہے ہیں۔۔۔۔
سالار نے مائیکل کے ابتدائی کلمات کے بعد اس کے کسی الزام کا جواب دینے کی بجائے کہا۔
سالار ایک کے بعد ایک سلائیڈ پراجیکٹر پر دکھاتا گیا۔ ان سات لوگوں نے وہ پریزنٹیشن بے تاثر چہرے کیساتھ ساکت بیٹھے، دم سادھے دیکھی۔
لیکن اس کے ختم ہونے کے بعد ان ساتوں کے ذہن میں جو خدشہ ابھرا تھا وہ ایک ہی تھا۔ سالار سکندر کے ہاتھ میں وہ گرینیٹ تھا جس کی پن وہ نکالے بیٹھا تھا۔ وہ جہاں بھی پھٹتا تباہی پھیلا دیتا۔
پروجیکٹر کی سکرین تاریک ہوئی۔ سالار نے اپنے لیپ ٹاپ کو بند کرتے ہوئے ان ساتوں کے چہروں پر نظر ڈالی۔۔اتنے سالوں کی پبلک ڈیلنگ کے بعد وہ اتنا اندازہ تو لگا پایا تھا کہ اس نے وہ پریزنٹیشن وہاں پیش کرنے میں اپنا وقت ضائع کیا تھا۔
تو تم اس پراجیکٹ میں کام نہیں کرنا چاہتے؟ 
مائیکل نے خاموشی توڑتے ہوئے اس سے جو سوال کیا تھا اس نے سالار کے خدشات کی تصدیق کی۔
میں چاہتا ہوں کہ ورلڈ بنک کانگو میں اس پراجیکٹ کو ختم کر دے۔ سالار نے بھی وقت ضائع کیے بغیر کہا۔
تم مضحکہ خیز باتیں کر رہے ہو ۔اتنے سالوں سے شروع کیے جانے والے ایک پراجیکٹ کو ورلڈ بنک ایک چھوٹے سے عہدیدار کے کہنے پر ختم کر دے کیونکہ اسے بیٹھے بٹھائے یہ فوبیا ہوگیا ہے کہ بنک کانگو میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے پراجیکٹس کو سپورٹ کر رہا ہے۔
وہ جولیا پٹرورڈ تھی۔ جس نے بے حد تضحیک آمیز انداز میں سلگا دینے والی مسکراہٹ کیساتھ سالار سے کہا تھا۔
اگر میں فوبیا کا شکار ہوں یا یہ میرا دماغی خلل ہے تو یہ بیماری اس وقت ان جنگلات میں بسنے والے لاکھوں لوگوں کو لاحق ہوچکی ہے۔ سالار نے ترکی بہ ترکی جواب دیا تھا۔
تم کیا ہو؟ کس حیثیت میں کانگو میں بیٹھے ہو؟ ورلڈ بنک کے ایک ایمپلائی کے طور پر یا ایک ہیومن رائٹ ایکٹوسٹ کے طور پر؟ کانگو کے لوگ یا پگمیز تمہارا درد سر نہیں ہے، تمہاری ترجیح صرف ایک ہونی چاہیے کہ تم مقررہ وقت پر پراجیکٹ مکمل کرو۔
اس بار بات کو ترشی سے کاٹنے والا الیگزنڈر رافیل تھا۔ جو ورلڈ بنک کے صدر کے قریبی معاونین میں سے ایک تھا۔
تم نے وہ کانٹریکٹ پڑھا ہے۔ وہ شرائط و ضوابط پڑے ہیں جس سے اتفاق کرتے ہوئے تم نے سائن کیئے تھے۔تم اپنے کانٹریکٹ کی خلاف ورزی کر رہے ہو۔۔۔اور بنک تمہیں جاب سے نکالنے کا پورا اختیار رکھتا ہے، اسکے بدلے میں۔
میں نے اپنا کانٹریکٹ پڑھا ہے اور ورلڈ بنک کا چارٹر بھی پڑھا ہے۔ دونوں میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ مجھے کوئی ایسا کام کرنا پڑے گا جو بنیادی انسانی حقوق اور کسی ملک کے قوانین کی دھجیاں اڑا کر ہو سکے۔۔ اگر ایسی کوئی شق میرے کانٹریکٹ میں شامل تھی تو آپ مجھے ریفرنس دے۔
الیگزنڈر رافیل چند لمحے بول نہ سکا۔ اس کے ماتھے پر بل تھے اور مسلسل تناؤ میں رہنے کی وجہ سے وہ مستقل جھریوں میں تبدیل ہو چکے تھے۔
اور تم اپنے آپ کو ان لوگوں سے زیادہ قابل سمجھتے ہو جنہوں نے یہ پراجیکٹ کئی سال کی تحقیق کے بعد شروع کیا تھا۔تم سمجھتے ہو جن لوگوں نے فزبلٹی بنائ تھی وہ ایڈیٹس تھے۔وہ اب تضحیک آمیز انداز میں اس سے پوچھ رہا تھا۔۔
نہیں، وہ ایڈیٹس نہیں تھے نہ میں ایڈیٹ ہوں۔۔وہ فیئر نہیں تھے اور میں ہوں۔ بات صرف اس دیانت کی ہے جو فزبلٹی تیار کرتے وقت نظرانداز کی گئ ہے ورنہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اس پراجیکٹ کی فزبلٹی رپورٹ تیار کرنے والے اتنے عقل کے اندھے اور نا اہل ہو کہ انہیں وہ سب نظر نہ آیا ہو جو مجھے نظر آیا ہے اور میرے علاوہ لاکھوں مقامی لوگوں کو نظر آ رہا ہے۔۔۔ورلڈ بنک کو اس پراجیکٹ کے حوالے سے زیادہ انویسٹیگیشن کرنی چاہئے ایک انکوائری کمیٹی بنا کر۔۔۔مجھے یقین ہے کہ اگر اس کمیٹی نے دیانت داری سے کام کیا تو انہیں بھی یہ سب نظر آجائے گا جو مجھے نظر آرہا ہے۔۔سالار نے رافیل کے ہتک آمیز جملوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔
میرے خیال میں بہتر ہے کہ اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لیے ایک کام کیا جائے جو واشنگٹن اور گومبے میں تمہارے آفس میں اس پراجیکٹ کے حوالے سے پیدا ہوگیا ہے۔
اس بار بولنے والا بل جاؤلز تھا۔ تم ریزائن کردو۔ جیسے تم نے پریزنٹیشن اور بنک کے ساتھ ہونے والی آفیشل خط و کتابت میں بھی آفر کیا تھا کہ اس پراجیکٹ کو تم اس طرح نہیں چلا سکتے۔۔ وہ بڑے تحمل اور رسانیت سے جیسے سالار سکندر کو صلاح دے رہا تھا۔
اگر یہ آپشن ورلڈ بنک کو مناسب لگتا ہے تو مجھے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ مجھے بھی اس مسئلے کا حل صرف میرا استعفی نظر آرہا ہے۔ لیکن میں اپنی استعفے کی وجوہات میں اس پریزنٹیشن میں دیئے جانے والے سارے اعداد و شمار کو بھی شامل کروں گا اور اپنے تحفظات بھی لکھوں گا اور میں اس استعفے کو پبلک کروں گا۔
بورڈ روم میں چند لمحوں کے لیے خاموشی چھائی تھی۔ وہ بلآخر اس ایک نکتے پر آگئے تھے جس کے لیے سالار کو واشنگٹن طلب کیا تھا۔ جو ورلڈ بنک کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنسا ہوا تھا۔ بورڈ روم میں بیٹھے ان سات افراد کے صرف دو ٹاسک تھے۔ یا سالار کو اس پراجیکٹ کے چلانے کے لیے راضی کرلیا جائے یا پھر اس سے خاموشی سے استعفی لیا جائے اور وہ ذاتی وجوہات کی بناء پر ہو۔۔ اب مسئلہ اس سے بڑھ گیا تھا۔وہ نہ صرف استعفے میں یہ سب کچھ لکھنا چاہتا تھا بلکہ اسے پبلک بھی کرنا چاہتا تھا۔
اگلے تین گھنٹے وہ ساتوں سالار کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ انہوں نے ہر حربہ استعمال کرلیا تھا۔جب دلیلوں سے کام نہیں بنا تو انہوں نے بنک کے کانٹریکٹ میں استعفے کے حوالے سے کچھ شقوں کو اٹھا کر اسے دھمکی دی تھی کہ وہ جاب کے دوران اپنے علم میں لائے گئے تمام فروفیشنل معلومات کو صیغہ راز میں رکھنے کا پابند ہے۔ اور استعفے کو پبلک کرنے اور اس رپورٹ کو میڈیا پر لانے پر اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جاسکتی تھی۔ اور اسے نہ صرف مالی طور پر لمبا چوڑا ہرجانہ بھرنا پڑتا بلکہ وہ آئندہ بنک یا اس سے منسلک کسی بھی چھوٹے بڑے ادارے کی جاب کرنے کے لیے نااہل قرار دیا جاتا۔سالار کو پتا تھا یہ دھمکی نہیں تھی۔۔۔بہت بڑی دھمکی تھی۔۔۔
دباؤ اور دھمکیاں جتنی بڑھتی گئی سالار سکندر کی ضد بھی اتنی ہی بڑھتی گئ۔ اگر سکندر عثمان کہتے تھے کہ ڈھٹائی میں اسکا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا تو وہ ٹھیک کہتے تھے۔
تم کیا چاہتے ہو؟؟ تین گھنٹے کے بعد بلآخر مائیکل نے اسکی ضد کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے اس سے پوچھا۔۔
ایک غیر جانبدارانہ انکوائری ٹیم جو نئے سرے سے اس پراجیکٹ کا جائزہ لے۔ اور اسکے بعد پگمیز اور ان بارانی جنگلات کے بہترین مفاد میں اس پراجیکٹ کو ختم کیا جائے یا کوئ ایسا حل نکالا جائے جو ان جنگلات میں رہنے والے لوگوں کے لیے قابل قبول ہو اور میں مقامی لوگوں کی بات کر رہا ہوں۔ وہاں کی مقامی حکومت کی بات نہیں کر رہا۔۔
سالار نے جواباً وہی مطالبہ دہرایا۔
تمہاری قیمت کیا ہے؟ الیگزنڈر نے سالار کو جیسے بات کرنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔۔کوئی تو ایسی چیز ہوگی جسکے لیے تم اس مطالبے سے ہٹ جاؤ۔۔ہمیں بتاؤ وہ کونسی ایسی چیز ہے جس پر تم ہم سے سودا کرلو۔۔رافیل نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ سالار نے ٹیبل پر رکھی اپنی چیزیں سمیٹنی شروع کردی۔
میری کوئی قیمت نہیں۔۔اور میں نے ورلڈ بنک کو اسی غلط فہمی میں جوائن کیا تھا کہ میں ایسے لوگوں کے ساتھ کام کروں گا جو دنیا میں اپنی پروفیشنل مہارت اور قابلیت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ اگر بروکرز کے ساتھ کام کرنا ہوتا تو بیچنے، خریدنے اور قیمت لگانے والا، تو اسٹاک ایکسچینج میں کرتا یا کسی بنک میں انویسمنٹ بنکنگ۔۔۔
وہ نرم لہجے میں ان کے منہ پر جوتا مار گیا تھا۔ اور اس چوٹ کی شدت وہاں بیٹھے ساتوں نے ایک ساتھ محسوس کی۔ وہ سادہ زبان میں انہیں دلال کہہ رہا تھا اور ٹھیک کہہ رہا تھا۔
ان ساتوں میں سے کسی نے مزید کچھ نہیں کہا ۔۔ستے ہوئے اور تنے ہوئے چہروں کیساتھ وہ بھی اپنے کاغذات اور لیپ ٹاپ سنبھالنے لگے تھے۔ میٹنگ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئ تھی۔اور سالار کو اندازہ ہوا تھا کہ اسکے بعد ورلڈ بنک میں اس کا کیرئیر بھی ختم ہوگیا تھا۔۔۔۔
وہ میٹنگ ہیڈ کوارٹر میں ہونے والی ہر میٹنگ کی طرح ریکارڈ ہوئی تھی۔۔۔لیکن سالار کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ میٹنگ براہ راست کسی دوسری جگہ بھی پیش کی جا رہی تھی۔سالار کے اس بورڈ روم سے نکلنے سے پہلے اس سے نمٹنے کے لیئے دوسری حکمت عملی طے ہو گئ تھی۔
الیگزنڈر رافیل سالار کے پیچھے آیا تھا اور اس نے چند منٹوں کے لیے سالار سے علیحدگی میں بات کرنا چاہی ۔۔سالار کچھ الجھا لیکن پھر آمادہ ہوگیا۔وہ کونسی بات تھی جو میٹنگ میں نہیں کہی جا سکتی تھی اور یہاں کہی جا رہی تھی۔الیگزنڈر رافیل کے آفس میں وہ مزید اسی پیرائے کی کوئ گفتگو سننے کی توقع کیساتھ گیا تھا مگر اپنے آفس میں الیگزنڈر رافیل کا رویہ انکے ساتھ حیران کن طور پر مختلف تھا۔
مجھے یہ ماننے میں کوئی شبہ نہیں کہ میں تمہاری رپورٹ سے بہت متاثر ہوا ہوں اور صرف میں نہیں پریزیڈنٹ بھی۔ اس کے پہلے ہی جملے نے سالار کو حیران کردیا۔صدر ہمیشہ تم سے بہت ساری توقعات رکھتے تھے۔افریقہ کے لیئے جو وژن انکا ہے انکو صرف تم عملی جامہ پہنا سکتے ہواور یہ پراجیکٹ ان سینکڑوں پراجیکٹس میں سے بہت چھوٹا پراجیکٹ ہے جو وہ تمہارے لیے سوچتے ہیں وہ بہت بڑی شے ہے۔تمہارے ذریعے افریقہ کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے اور میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ صدر افریقہ کے بارے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ وہ وہاں سے غربت اور بھوک مٹانا چاہتے ہیں۔ایباکا ایک بے وقوف آدمی ہے۔۔وہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے جو افریقہ کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔
تم نے کوئی سوال نہیں کیا۔۔۔رافیل کو اسکی خاموشی چبھی۔اگر وہ سالار کو صدر کے حوالے سے تعریفی کلمات پہنچا کر جوش دلانا چاہتا تھا تو وہ ناکام ہو رہا تھا۔سالار کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئ تھی۔
میرے پاس جو بھی سوال تھے وہ میں اپنی رپورٹ میں اٹھا چکا ہوں مجھے خوشی ہے کہ صدر افریقہ میں میرے کام سے اور اس رپورٹ سے متاثر ہے۔ لیکن میں زیادہ خوش تب ہوں گا جب اس رپورٹ پر مجھے ورلڈ بنک سے کوئی پازیٹیو رسپانس آئے گا۔
بنک تمہیں وائس پریذیڈنٹ کا عہدہ دینا چاہتا ہے اور یہ پریذیڈنٹ کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے ہورہا ہے۔اور اس سلسلے میں امریکن گورنمنٹ سے بھی بات ہوئ ہے انکی. 
رافیل ایسے بات کر رہا تھا جیسے بہت بڑے راز افشا کر رہا ہو اس پر۔۔ اس کی مایوسی کی انتہا نہ رہی تھی جب اس نے میز کے دوسری طرف بیٹھے اپنے سے پندرہ سال چھوٹے اس مرد کے چہرے کو اس خبر پہ بھی بے تاثر پایا۔۔
اور اس عہدے کے بدلے میں مجھے کیا کرنا ہے؟ رافیل کو اتنی لمبی تقریر کے بعد اتنا دو ٹوک سوال سننے کی توقع نہیں تھی۔۔
پریذیڈنٹ کو اس پراجیکٹ پر تمہاری سپورٹ چاہیئے۔ مطلق اور غیر مشروط سپورٹ۔۔
رافیل نے اب تمہیدوں میں وقت ضائع نہیں کیا تھا۔۔
میرا خیال ہے وہ میں نہیں دے سکوں گا۔ اس پراجیکٹ کے حوالے سے میں اپنی رائے بتا چکا ہوں۔مراعات اور عہدے میرے سٹینڈ کو نہیں بدل سکتے۔۔کیا کچھ اور کہنا ہے؟؟ 
سالار سکندر کو رافیل اس ملاقات سے پہلے کچھ نہیں سمجھتا تھا اور اب اسے بے وقوف سمجھ رہا تھا۔۔ اتنا بڑا عہدہ اسے پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا جا رہا تھا اور وہ اسے ٹھکرا رہا تھا۔۔ غرور تھا تو بے جا تھا۔۔بے وقوفی تھی تو انتہا کی۔
تمہیں سب کچھ آتا ہے۔ٹیکٹ نہیں آتے اس لیئے تم کامیابی کے سب سے اوپر والے زینے پر کبھی کھڑے نہیں ہو سکو گے۔وہ اس سے ایسی بات نہیں کہنا چاہتا تھا پھر بھی کہہ بیٹھا تھا۔۔
اگر ٹیکٹ فل کا مطلب بے ضمیر اور بد دیانت ہونا ہے تو پھر یہ خصوصیت میں کبھی اپنے اندر پیدا نہیں کرنا چاہوں گا۔۔میں اپنا استعفٰی آج ہی میل کر دوں گا۔۔۔۔سالار اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page