
آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد
قسط نمبر تیرہ
سالار جب ورلڈ بنک.، ہیڈ کوارٹر سے نکلا اس وقت بوندا باندی تھی۔ وہ کیب پر وہاں آیا تھا اور واپس بھی اسی میں جانا تھا مگر جو کچھ پچھلے چند گھنٹوں میں اندر بھگت آیا تھا۔اس کے بعد وہ بے مقصد پیدل فٹ پاتھ پر چلتا رہا۔ چلتے چلتے اس نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔ وہ چند دن پہلے تک اپنے آپ کو دنیا کا مصروف ترین انسان سمجھتا تھا اور اب چند گھنٹوں بعد دنیا کا بے کار ترین انسان۔۔
کچھ عجیب سی ذہنی کیفیت تھی اسکی۔ فی الحال کرنے کے لیئے کچھ بھی نہ تھا۔۔کوئ میٹنگ، کوئ وزٹ کوئ ایجنڈا۔۔کوئ فون کال، ای میل، کوئ پریزنٹیشن بھی نہیں۔۔لیکن سوچنے کے لیے بہت کچھ تھا۔ایک لمحے کے لیئے چلتے چلتے اسے خیال آیا کیا ہو اگر وہ سمجھوتہ کر لے؟ وہی سے واپس ہیڈ کوارٹر چلا جائے ۔وہ پیش کش قبول کر لے جو ابھی اسے دی گئ تھی۔کوئ مشکل اور ناممکن تو نہیں تھا یہ۔۔ابھی سب کچھ اس کے ہاتھ میں تھا۔۔ورلڈ بنک میں پہلے سے بھی بڑا عہدہ مل جاتا اسے۔ کیا برائ تھی اگر وہ کچھ دیر کے لیے ضمیر کو سلا دیتا۔۔کانگو اس کا ملک نہیں۔۔نا ہی پگمیز اس کے لوگ۔۔۔۔پھر؟؟
واقعی ٹھیک کہا تھا رافیل نے، وہ کیوں یہ سب کر رہا تھا ان کےلیئے۔۔اور یہ سب کرتے کرتے اپنے آپکو یہاں لایا تھا۔جہاں آگے کنواں تھا پیچھے کھائ۔۔لیکن پھر اسے وہ غربت اور بد حالی نظر آئی جو اس نے وہاں کے لوگوں میں دیکھی تھی۔ وہ امید بھری نظریں یاد آئ تھی۔۔جن سے وہ اسے دیکھتے تھے۔کاغذات کا وہ پلندہ یاد آیا جسکا ایک ایک لفظ کہہ رہا تھا کہ وہاں انسانیت کی تذلیل ہو رہی تھی۔وہ غلامانہ استحصال تھا جو اس کا مذہب چودہ سو سال پہلے ختم کرچکا تھا۔۔۔
اور یہ سب یاد کرتے ہوئے اسے امامہ بھی یاد آئی تھی۔
اس نے جیب سے سیل فون نکال کر اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی پر نہیں ہوا۔ایک عجیب سی اداسی اور تنہائی نے اسے آگھیرا تھا۔
سوچوں کی رفتار ایک دم ٹوٹی تھی۔وہ کس بحران میں کیا سوچنے بیٹھ گیا۔اس نے ہر منفی سوچ کو ذہن سے جھٹک دیا تھا۔ شاید یہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہورہا تھا۔ اس نے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کی تھی۔
اپنے ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر اپنا لیپ ٹاپ والا بیگ رکھ کر اس نے معمول کے انداز میں ٹی وی آن کیا تھا۔۔ایک مقامی چینل پر واشنگٹن میں صبح سویرے ہونے والے ایک ٹریفک حادثے کی خبر چل رہی تھی۔ جس میں دو مسافر موقع پر مر گئے تھے۔جبکہ تیسرا شدید زخمی حالت میں ہسپتال میں تھا سالار نے ہاتھ میں پکڑے ریمورٹ سے چینل بدلنا چاہا لیکن پھر سکرین پر چلنے والی ایک ٹکر کو دیکھتے ہوئے جامد ہوگیا۔اسکرین میں اسکرول پر اب اس حادثے کی تفصیلات دی جارہی تھی اس میں زخمی ہونے والے شخص کا نام پیٹرس ایباکا بتایا جارہا تھا جو کہ ایک انقلابی تھا۔ اور سی این این کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے آرہا تھا۔ سالار کا دماغ جیسے بھک سے اڑ گیا۔
سالار جانتا تھا کہ وہ امریکہ میں ہے کئ دنوں سے۔ وہ امریکہ روانہ ہونے سے پہلے اس سے ملنے آیا تھا اور اس نے سالار کو بتایا تھا کہ اس کے کچھ دوستوں نے بلآخر بڑی کوششوں کے بعد کچھ بڑے نیوز چینلز کے نیوز پروگرامز میں اس کی شرکت کے انتظامات کیئے تھے۔
اس کا مطلب ہے کہ چھری میری گردن پر گرنے والی ہے۔سالار نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا۔ تم اگر اس پراجیکٹ کے حوالے سے ورلڈ بنک اور اسکے عہدیداران پر تنقید کروگے تو سب سے پہلے میں ہی نظر میں آؤں گا۔۔اور یہ چینلز مجھ سے رسپانس کے لیئے رابطہ کریں گے۔۔
سالار کو اس مشکل صورت حال کا اندازہ ہونے لگا تھا جس میں وہ پیٹرس ایباکا کے انٹرویوز کے بعد پھنستا۔ وہ آتش فشاں جو عرصے سے پک رہا تھا اب پھٹنے والا تھا۔اور بہت سو کو ڈبونے والا تھا۔۔
میں تمہیں بچانے کی پوری کوشش کروں گا۔۔ایباکا نے اسے یقین دلایا تھا۔میں تم پر کوئی تنقید نہیں کروں گا۔بلکہ تمہاری سپورٹ کے لیے تمہاری تعریف کروں گا۔۔تم اب آئے ہو، یہ پراجیکٹ تو پہلے سے جاری ہے۔
ایباکا بے حد سنجیدہ تھا لیکن سالار کیساتھ ساتھ وہ خود بھی یہ جانتا تھا کہ اس کی یہ یقین دہانی ایک خوش فہمی تھی۔سالار اس پراجیکٹ کی سربراہی کر رہا تھا۔اور نہ ہی اسے جمعہ جمعہ چار دن ہوئے تھے وہاں آئے۔۔۔
اسے بھی میڈیا کی شدید تنقید کا سامنا ہونے والا تھا۔
تم جلد سے جلد ورلڈ بنک چھوڑ دو ۔میں تمہاری رپورٹ کا حوالہ دوں گا کہ تم اس پراجیکٹ سے ناخوش تھے اور تمہارے اس پوزیشن کو چھوڑنے کی وجہ بھی یہی ہے۔۔۔ایباکا نے جیسے اسے ایک راہ دکھائ تھی۔
میں اس سے پہلے ایک کوشش ضرور کروں گا کہ بنک کو مجبور کر سکوں کہ اس پراجیکٹ پر نظر ثانی کرے۔
وہ دونوں کا آخری رابطہ تھا۔ نیوز چینل بتا رہا تھا کہ بچنے والے مسافر کی حالت تشویش ناک تھی۔اس نے اپنا فون نکال کر یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ ایباکا کو کہاں لے جایا گیا تھا۔ عجیب اتفاق تھا لیکن ایکدم اسکا فون رابطوں کے مسائل کا شکار ہونے لگا تھا۔ کچھ دیر پہلے امامہ اور اب بھی وہ یہاں لوکل کال بھی نہیں کر پا رہا تھا۔کچھ دیر سیل فون کیساتھ مصروف رہنے کے بعد اس نے جھنجھلا کر کمرے میں موجود فون لائن اٹھا کر اسے استعمال کرنے کی کوشش کی وہ لائن بھی کام نہیں کر رہی تھی۔ سالار حیران ہوا تھا۔وہ ایک فائیو سٹار ہوٹل میں تھا اور اسکی فون لائن کا کام نہ کرنا حیران کن ہی تھا۔اس نے انٹرکام پر آپریٹر کے ذریعے ایک کال بک کروائی تھی۔۔۔
اگلا آدھا گھنٹہ وہ آپریٹر کی کال کا انتظار کرتا رہا ۔۔سالار کو لگا جیسے اس کو کسی سے بھی رابطہ کرنے سے روکا جا رہا ہے۔۔ اس بار کہی بھی خود کال کرنے کی بجائے اس نے ریسیپشنسٹ سے کہا تھا کہ وہ اسے پولیس انکوائری سے پتا کر کے بتائے کہ آج صبح واشنگٹن میں ہونے والے اس ٹریفک حادثے کے زخمی کو کہاں لے جایا گیا تھا۔۔اس نے چند ہی منٹوں میں سالار کو اسپتال کا نام بتا دیا۔ سالار نے اسکو کانگو میں اپنا گھر اور امامہ کا سیل فون نمبر دیا تھا۔وہ اگلی کال وہاں کرنا چاہتا تھا۔لیکن وہاں رابطہ نہ ہو سکا۔
اسپتال پہنچ کر پیٹرس کو تلاش کرنا مشکل نہیں تھا لیکن اسے ایباکا سے ملنے نہیں دیا گیا۔ وہ مخدوش حالت میں تھا اور اسکی سرجری کے بعد اسے مصنوعی تنفس پر رکھا گیا تھا۔اپنے آپ کو ایباکا کا رشتہ دار ظاہر کرنے پر اسے بحر حال دور سے دیکھنے کی اجازت دی گئ۔ مگر استقبالیہ پر موجود شخص نے اسے بے یقینی اور شبہ کی نظر سے دیکھا۔ ایک پگمی اور ایک ایشیائ کی رشتہ داری کیسے ممکن تھی۔
اسپتال کی آئ سی یو میں نالیوں، تاروں اور پٹیوں میں جکڑے ایباکا کو وہ پہلی نظر میں پہچان نہ پایا۔سالار کی سمجھ میں نہیں ایا کہ وہ کیا کرے۔۔اسکا اور ایباکا کا انسانیت کا رشتہ تھا صرف، پھر بھی وہ عجیب غمزدہ حالت میں کھڑا تھا وہاں۔
وہاں کھڑے کھڑے سالار کو ایک بار پھر خیال آیا کہ وہ چاہتا تو اب بھی سب ٹھیک کرسکتا تھا ایباکا مر رہا تھا اور اسکے مرنے کیساتھ ہی وہ سارے حقائق و شواہد بھی غائب ہونے والے تھے ۔۔پگمیز کو فوری طور پر ایباکا کا متبادل نہیں مل سکتا تھا۔جو کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے حق کی بات اس دبنگ انداز میں کہہ سکتے، جس انداز میں ایباکا کہتا تھا۔۔شاید یہ ایک موقع اسے قدرت دے رہی تھی۔۔وہ الجھا۔۔۔بھٹکا۔۔ضمیر کا چابک ایک بار پھر اس پر برسا تھا۔
اسکے اپنے ہوٹل واپسی پر ایک اور بڑا سانحہ اسکا منتظر تھا۔اسکے کمرے میں اسکا لاکر کھلا ہوا تھا۔اور اس میں موجود اسکا پاسپورٹ اور کچھ دوسرے اہم ڈاکومینٹس غائب تھے اور اس کا وہ بیگ بھی غائب تھا جس میں اسکا لیپ ٹاپ اور اس رپورٹ سے متعلقہ تمام ثبوتوں کی کاپیاں تھی۔سالار کو چند لمحے یقین ہی نہیں آیا کہ یہ اسکا کمرہ ہے۔
بے حد طیش کے عالم۔میں اس نے فون اٹھا کر فوری طور پر اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کی اطلاع مینیجر کو دی اور اسے اپنے کمرے میں طلب کرلیا گیا۔مینیجر اور سیکیورٹی گارڈز کے اسکے کمرے میں آنے پر اسکا دماغ یہ جان کر بھک سے اڑ گیا کہ اس پورے فلور پر صفائی سے متعلقہ کام کرنے کے لیئے پچھلے دو گھنٹے اس فلور کے سی سی ٹی وی کیمرے آف کیئے گئے تھے۔ایک لمحےکے لیئے اسے لگا جیسے اسکے ہاتھ پاؤں کٹ گئے ۔اسکے پاس جو کچھ بھی تھا وہ اس لیپ ٹاپ اور اس بیگ میں تھا۔اسکی ایک کاپی اسکے پاس اور ایک گومبے میں اسکے گھر کے باس لاکر میں تھی جو امامہ کی تحویل میں دیکر آیا تھا۔
وہ پہلا موقع تھا جب سالار نے ایک عجیب سا خوف محسوس کیا تھا۔۔ایباکا کا ایک حادثے میں زخمی ہونا اب اسے ایک اتفاق نہیں لگ رہا تھا ۔کوئ تھا جو ایباکا کو نقصان پہنچانے کے بعد اسکے ہاتھ پیر کاٹ رہا تھا۔اسے بے بس کر رہا تھا۔ پہلا خیال جو اس وقت اسے آیا تھا وہ امامہ اور اپنے بچوں کا تحفظ تھا۔ان سے رابطہ ہر قیمت پر ضروری تھا۔اسے امامہ کو متنبہ کرنا تھا کہ وہ ان ڈاکومینٹس کیساتھ پاکستان ایمیسی یا کسی پولیس اسٹیشن چلی جائے کم از کم تب تک جب تک وہ خود وہاں نہیں پہنچ جاتا۔۔
اس نے مینیجر سے کہا تھا کہ وہ پولیس میں رپورٹ کروانا چاہتا ہے اسکی قیمتی چیزوں کی حفاظت یقیناً ہوٹل کی ذمہ داری نہیں تھی لیکن کم از کم ہوٹل اتنی ذمہ داری تو دکھاتا کہ اس کی عدم موجودگی میں اس فلور کے سی سی ٹی وی سسٹم کو آف نہ کیا جاتا۔
مینیجر نے معذرت کرتے ہوئے فوری طور پر اسے اس نقصان کی تلافی کی آفر کی تھی اور اس سے درخواست کی تھی کہ وہ پولیس کو اس معاملے میں انوالو نہ کرے ۔لیکن سالار اس وقت اپنے حواسوں میں نہیں تھا وہ اپنے کمرےسے ہی باہر نہیں نکلا تھا وہ اس ہوٹل سے بھی باہر نکل آیا تھا۔۔۔
ایک فون بوتھ سے اس نے ایک بار پھر کانگو میں گھر اور امامہ کا نمبر ملانے کی کوشش کی نتیجہ وہی آیا تھا اسکا ذہن ماؤف ہورہا تھا۔۔
اس نے بلآخر پاکستان میں سکندر عثمان کو فون کیا تھا اور جب اسے فون پر انکی آواز سنائی دی تو کچھ دیر کے لیے اسے یقین نہیں آیا کہ وہ بلآخر کسی سے بات کرنے میں کامیاب ہو پا رہا تھا۔ سکندر کو بھی اسکی آواز سے پتا چل گیا تھا کہ وہ پریشان تھا۔
سالار نے کوئ تفصیلات بتائے بغیر مختصر انہیں بتایا کہ وہ اپنے سفری دستاویزات گم کر چکا ہے اور اس وجہ سے وہ فوری طور پر اگلی فلائٹ سے واپس نہیں جاسکتا۔اور وہ امامہ سے رابطہ نہیں کر پا رہا ۔اس نے سکندر سے کہا کہ وہ پاکستان سے امامہ کو کال کریں اور اگر رابطہ نہ ہوسکے تو پھر فارن آفس میں اپنے جاننے والوں کے ذریعے کنشاسا میں پاکستان ایمبیسی کے ذریعے انہیں تلاش کریں اور فوری طور پر اس سے کہے کہ لاکر میں پڑے سارے ڈاکومینٹس سمیت ایمبیسی چلی جائے۔۔سکندر عثمان بری طرح ٹھٹکے۔
ایسا کیا ہوا ہے کہ تمہیں یہ سب کرنا پڑ رہا ہے۔ سالار سب ٹھیک ہے نا۔۔
پاپا اسوقت آپ صرف وہ کریں جو میں کہہ رہا ہوں ۔۔میں تفصیل آپکو بعد میں بتاؤں گا۔۔وہ جھنجھلا گیا تھا۔
میں تھوڑی دیر تک آپ کو خود کال کر کے پوچھتا ہوں آپ میرے فون پر کال مت کریں نہ ہی میرے نمبر پر میرے لیے کوئ میسج چھوڑیں۔۔اس نے باپ کو مزید تاکید کی۔
سالار تم مجھے پریشان کر رہے ہو۔سکندر عثمان کا ان ہدایات کو سن کر خوفزدہ ہونا لازمی تھا۔
سالار نے فون بند کردیا تھا۔وہ باپ کو یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ اسکے اپنے حواس اس وقت اس سے زیادہ خراب ہورہے تھے۔فون بوتھ سے کچھ فاصلے پر پڑی ایک بنچ پر بیٹھے ہوئے اس نے بے اختیار خود کو ملامت کی تھی اسے اپنی فیملی کو کانگو میں چھوڑ کر نہیں آنا چاہیئے تھا۔۔اور ان حالات میں۔۔۔۔میٹنگ جاتی بھاڑ میں۔۔۔۔وہ اسے آگے پیچھے کروا دیتا ۔۔۔کیا ضرورت تھی اتنی مستعدی دکھانے کی۔۔۔۔
اب رات ہورہی تھی اور صبح سے لیکر اس وقت تک اسکے سیل پر نہ کوئ کال آئ تھی نہ ٹیکسٹ میسج۔۔۔فون سگنلز کو بہترین حالت میں دکھا رہا تھا مگر سالار کو یقین تھا اس کا فون اور فون کے ذریعے ہوئےاسکے رابطوں کو کنٹرول کیا جا رہا تھا۔۔اور کس لیئے۔۔۔ وہ یہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔۔
وہ اگر اسے نقصان پہنچانا چاہتے تھے تو ان سب ہتھکنڈوں کے بغیر نقصان پہنچاتے۔ جیسے ایباکا پر وار کیا تھا۔۔اور اگر اسے بنک سے نکالنا تھا تو یہ کام تو وہ خود کر رہا تھا۔پھر یہ سب کیوں؟؟؟
اسکی ریڑھ کی ہڈی میں جیسے سنسناہٹ ہوئ تھی۔اسے اچانک احساس ہوا وہ لوگ اسے احساس دلانا چاہتے تھے کہ اسے مانیٹر کیا جا رہا تھا۔۔اسے نقصان پہنچایا جاسکتا تھا۔۔اور کس کس قسم کا۔۔اور اسے یہ بھی بتایا جارہا تھا اور یہ سب ورلڈ بنک نہیں کرسکتا۔۔صرف ورلڈ بنک نہیں۔۔۔اسے سی آئی اے چیک کر رہی تھی۔۔پتا نہیں جو پسینے چھوٹے تھے وہ جسم کے ٹھنڈا ہونے پر چھوٹے تھے یا گرم ہونے پر۔۔۔۔۔۔۔لیکن سالار کچھ دیر کے لیے پانی میں نہا گیا تھا۔اسکا دماغ اس وقت بالکل خالی تھا۔۔یہ اسکے فرشتوں نے بھی کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ وہ کبھی ایسے معاملے میں انوالو ہوسکتا ہے کہ سی آئی اے اسکے پیچھے پڑ جاتی اور اب اسے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ پراجیکٹ ورلڈ بنک کی خواہش نہیں امریکہ کی خواہش تھا۔اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا تھا۔۔۔
وہ ڈیڑھ گھنٹہ وہاں بت کی طرح بیٹھا رہا ۔۔اسے تین دن کے لیئے واشنگٹن میں رہنا تھا لیکن اب اپنی سفری دستاویزات گم ہوجانے کے بعد اسے یقین تھا وہ فوری طور پر واپس نہیں جاسکتا۔کم از کم تب تک جب تک وہ ان مطالبات میں کوئی لچک نہ دکھاتا جو وہ ان سے کر رہے تھے۔
ڈیڑھ گھنٹہ بعد اس نے سکندر عثمان کو دوبارہ فون کیا تھا اور انہوں نے اسے بتایا کہ امامہ اوراسکے بچے گھر پر نہیں ہے۔ گھر لاکڈ ہے اور وہاں کوئ ملازم یا گارڈ نہیں ہے۔ جو انکے بارے میں کوئ اطلاع دیتا۔۔۔ایمبیسی کے افسران نے اس سلسلے میں کانگو کے وزارت داخلہ سے رابطہ کیا تھا مگر جو بھی پتا چلتا اس کی فیملی کے بارے میں وہ فوری پتا نہیں چل سکتا تھا۔۔کچھ وقت تو لگتا ہے۔۔۔۔
جو کچھ وہ فون پر سن رہا تھا۔اس کے جسم میں کپکپاہٹ دوڑانے کے لیے کافی تھا۔امامہ اور اسکے بچے کہیں نہیں جاسکتے تھے ۔۔اس سے پوچھے اور اسے اطلاع دییے بغیر۔۔۔۔گارڈ بنک کے فراہم کیے ہوئے تھے۔یہ کیسے ممکن تھا کہ گھر لاکڈ ہونے پر وہ بھی وہاں سے چلے گئے۔۔۔
میں کوشش کر رہا ہوں فوری طور پر ایمبیسی میرے ویزے کا انتظام کرے اور میں وہاں جا کر خود اس سارے معاملے کو دیکھوں۔۔۔۔۔۔سکندر اسے تسلی دینے کی کوشش کر رہے تھے۔
تم بھی کوشش کرو کہ فوری طور پر وہاں پہنچو ۔۔امریکن ایمیبیسی کو اس کی گمشدگی کی اطلاع دو۔تم تو امریکن نیشنل ہو تمہارے بچے بھی۔۔۔ وہ ہماری ایمبیسی سے زیادہ مستعدی سے انہیں تلاش کرلیں گے۔۔۔
سکندر نے ایک راستہ دکھایا تھا اور بالکل ٹھیک دکھایا تھا۔لیکن وہ باپ کو اس وقت یہ کہہ نہ پایا کہ وہ امریکن گورنمنٹ کیساتھ ہی الجھ پڑا ہے۔۔۔۔سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا سالار۔ تم پریشان مت ہو۔۔کانگو میں ابھی اتنا بھی اندھیر نہیں مچا کہ تمہاری فیملی اس طرح غائب ہوجائے۔۔۔۔جواب میں کہنے کے لیے سالار کے پاس کچھ نہ تھا۔۔۔مزید کچھ کہے بغیر اس نے فون رکھا اور فون بوتھ سے باہر آگیا تھا۔۔۔اس فون بوتھ سے واپس ہوٹل جانے میں اسے صرف پانچ منٹ لگے تھے لیکن اس وقت وہ پانچ منٹ اسے پانچ ہزار سال لگ رہے تھے۔۔۔آزمائش تھی کہ بلا کی طرح اس کے سر پر آئ تھی اور اس بھی زیادہ اسکی فیملی کے سر پر۔۔۔
وہ ہوٹل لے کمرے میں آکر دروازہ بند کر کے خود پر قابو نہیں رکھ پایا تھا۔۔۔وہ بے اختیار چیخیں مارتا رہا تھا۔۔اس ہوٹل کے ساتویں فلور کے ایک ڈبل گلیزڈ شیشوں والے ساؤنڈ پروف کمرے کے دروازے کو اندر سے لاک کیے وہ اسکے ساتھ چپکا پاگلوں کی طرح چلاتا رہا۔۔بالکل اس طرح جب کئ سال پہلے مارگلہ کی پہاڑیوں پر ایک تاریک رات میں ایک درخت سے بندھا چلاتا رہا تھا۔۔بے بسی کی وہی انتہا اس نے آج بھی محسوس کی تھی۔۔اور اس سے زیادہ شدت سے محسوس کی تھی کیونکہ تب جو بھی گزر رہا تھا اس کے اپنے اوپر گزر رہا تھا اور آج جو بھی گزر رہا تھا اسکی بیوی اور کم سن بچوں پر گزر رہا تھا۔اور ان کو پہنچنے والی تکلیف کا تصور بھی سالار کو جیسے صلیب پر لٹکا رہا تھا۔۔وہ لوگ جو اس کے اعصاب کو شل کرنا چاہتے تھے وہ اس میں کامیاب ہو رہے تھے۔وہ اگر اسے اوندھے منہ دیکھنا چاہتے تھے تو وہ اوندھے منہ پڑا تھا۔۔۔
وہ رات سالار پر بہت بھاری تھی۔۔وہ ساری رات ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں سویا۔۔امامہ۔جبریل اور عنایہ کے چہرے اسکی آنکھوں کے سامنے گھومتے رہے تھے۔
اگلی صبح وہ آفس کے اوقات شروع ہونے سے بہت دیر پہلے ورلڈ بنک کے ہیڈ کوارٹر پہنچا تھا۔۔۔
الیگزنڈر رافیل نے سالار کو اپنے کمرے کی طرف آتا ہوا بڑے اطمینان سے دیکھا تھا۔ یہ وہ سالار نہیں تھا جو کل یہاں آیا تھا۔ایک دن اور ایک رات نے اسے پہاڑ سے مٹی کردیا تھا۔
مجھے صدر سے ملنا ہے۔
اس نے آتے ہی جو جملہ کہا رافیل اس جملے کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ اسکا خیال تھا کہ وہ اس سے کہے گا کہ وہ اسکی تمام شرائط ماننے کے لیے تیار ہے۔
پریزیڈنٹ سے ملاقات۔۔۔۔۔بہت مشکل ہے یہ تو۔۔۔۔کم از کم اس مہینے میں تو یہ ممکن نہیں۔۔۔اور پھر اس ملاقات کی ضرورت ہی کیوں پیش آئ تمہیں۔۔۔اگر تمہیں وہ سب دہرانا ہے جو کل کہا تھا تو وہ میں ان تک پہنچا چکا ہوں۔۔۔
کچھ لمحوں کے لیے سالار کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہے۔۔وہ ورلڈ بنک کے اس دفتر میں رونا نہیں چاہتا تھا لیکن اس وقت اسے لگ رہا تھا جیسے کسی بھی لمحے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے گا۔
کنشاسا میں کل سے میری فیملی غائب ہے ۔میری بیوی۔۔۔میرا بیٹا اور میری بیٹی۔۔۔۔ اپنے لہجے پر قابو پاتے ہوئے اس نے رافیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہنا شروع کیا۔۔۔
اوہ۔۔۔۔۔بہت افسوس ہوا۔۔۔تمہیں فوری طور پر واپس جانا چاہیئے کانگو، تاکہ پولیس کی مدد سے اپنی فیملی کو برآمد کروا سکو۔۔
میرا پاسپورٹ اور سارے ڈاکومینٹس گم ہوچکے ہیں ہوٹل کے کمرے سے سب کچھ غائب ہوا ہے کل۔۔اور اب میں کل واپس کنشاسا نہیں جاسکتا۔۔مجھےہیڈ کوارٹر کی مدد چاہیئے اپنے پاسپورٹ اور دوسرے دستاویزات کے لیے۔۔۔اور مجھے ورلڈ بنک سے فوری طور پر ڈاکومینٹس چاہیئے تاکہ میں اپنا پاسپورٹ لے سکوں۔۔۔
رافیل نے اسکی بات خاموشی سے سننے کے بعد اسے بڑی سرد مہری سے کہا۔۔۔۔
ان حالات میں ورلڈ بنک تمہیں نئے پاسپورٹ کےلیے کوئ لیٹر جاری نہیں کرسکتا کیونکہ تم آج ریزائن کر رہے ہو۔۔میرا خیال ہے تمہیں معمول کے طریقہ کار کے مطابق پاسپورٹ کے لیے اپلائ کرنا چاہیئے اور پھر کانگو جانا چاہیئے۔۔۔۔ایک ویزیٹر کے طور پر۔۔۔۔۔۔اگر تم ورلڈ بنک کے ایمپلائ ہوتے تو ھم تمہاری فیملی کے لیے کسی بھی حد تک جاتے لیکن اب انکا تحفظ ہماری ذمہ داری نہیں۔۔۔تمہارے لیے زیادہ مناسب یہ ہے کہ تم کنشاسا میں امریکن ایمبیسی سے رابطہ کرو یا پاکستان ایمبیسی سے۔۔۔تم اوریجنلی پاکستان سے ہو نا؟؟
سالار اس کے اس تضحیک آمیز جملے کو شہد کے گھونٹ کی طرح پی گیا۔ رافیل کے دو ٹوک انکار نے اسکے ذہنی ہیجان میں اضافہ کر دیا تھا۔زندگی میں کبھی کسی مغربی ادارے سے اسے اتنی شدید نفرت نہیں ہوئی جتنی اس وقت اسے ورلڈ بنک سے ہوئ تھی۔۔۔وہ اپنی زندگی کے بہترین سال اور صلاحیتیں مغرب کو دیتا آیا تھا ۔۔اقوام متحدہ اور اس کے باقی ادارے اور اب ورلڈ بنک۔۔۔کل تک وہ وہاں ایک خاص اسٹیٹس کیساتھ آتا رہا تھا اور آج وہ اس سے ایسا سلوک کر رہے تھے جیسے وہ ایک بھکاری ہو۔جس کے لیئے ورلڈ بنک کےپاس کچھ نہیں۔
بعض لمحے انسانوں کی زندگی میں تبدیلی کے لمحے ہوتے ہیں ۔۔صرف ایک لمحے کی ضرورت ہوتی ہے۔پہلی دفعہ مارگلہ کی پہاڑی پر موت کے خوف سے وہ اس طرز زندگی سے تائب ہوا تھا جو وہ گزارتا آیا تھا اور آج دوسری بار امامہ اور اپنے بچوں کی موت کے خوف اور ورلڈ بنک میں اپنے سینئرز کے ہاتھوں ملنے والی تذلیل کے بعد وہ فیصلہ کر بیٹھا تھا۔ جو وہ اب تک کتراتا رہا تھا۔۔۔بعض خوف، سارے خوف کھا جاتے ہیں۔۔۔سالار کیساتھ بھی اس دن وہی ہوا تھا ۔وہاں بیٹھے اس نے اس دن یہ طے کیا تھا کہ وہ اگلے دس سال میں ورلڈ بنک سے بڑا ادارہ بنائے گا۔ وہ دنیا کے اس مالیاتی نظام کو الٹ دے گا، جس پر مغرب قابض تھا۔۔
تم مزید کسی ایشو کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہو؟؟ رافیل نے بظاہر بے نیازی جتاتے ہوئے اس سے کہا۔
نہیں۔۔ وہ مزید کچھ کہے بغیر اٹھ گیا۔۔۔رافیل بھونچکا رہ گیا تھا۔وہ اسے اپنی بیوی بچوں کی زندگی کے لیئے گڑگڑاتا دیکھنا چاہتا تھا۔۔لیکن سالار سکندر ان حالات میں بھی اٹھ کر چلا گیا تھا۔۔۔۔رافیل کو لگا اس کا ذہنی توازن خراب ہوچکا تھا۔۔۔
ہیڈ کوارٹرز کی عمارت سے اس طرح نکلتے ہوئے سالار کو خود بھی ایسے لگا تھا جیسے اس کا ذہنی توازن خراب ہو چکا تھا۔۔اور وہ اتنا بے حس اور بے رحم تو نہیں ہوسکتا تھا کہ امامہ اور بچوں کے لیئے وہاں کچھ بھی کیئے بغیر آجائے۔وہ وہاں کمپرومائز کرنے گیا تھا اپنی بیوی اور بچوں کی زندگی بچانے لے لیئے ان کی شرائط ماننے کی نیت سے گیا تھا لیکن رافیل کے رویے نے جیسے اسکا ذہن الٹ کر رکھ دیا تھا۔۔
میں ان میں سے کسی سے بھی اپنی فیملی کی زندگی کی بھیک نہیں مانگوں گا۔۔ان میں سے کسی کے سامنے نہیں گڑگڑاؤں گا۔۔عزت اور ذلت دونوں اللہ کے ہاتھ میں ہے۔اللہ نے ہمیشہ مجھے عزت دی ہے اور ذلت جب بھی میرا مقدر بنی ہے میرے اپنے فیصلوں کی وجہ سے بنی ہے۔۔۔
میں آج بھی اللہ سے ہی عزت مانگوں گا۔ پھر اگر اللہ مجھے ذلت دے گا تو میں اللہ کی دی ہوئی ذلت بھی قبول کر لوں گا۔لیکن میں دنیا کے کسی اور شخص سے ذلت نہیں لوں گا۔۔نہ جھکوں گا۔۔۔نہ کمپرومائز کروں گا۔
وہ ریت کا ٹیلا بن کر اندر گیا تھا اور آتش فشاں بن کر باہر آیا تھا۔۔وہ وہی لمحہ تھا جب اس نےامامہ اور اپنے بچوں کی زندگیاں بھی داؤ پر لگا دی تھی
سالار سکندر کو پھانسنے کے لیے جو پھندا تیار کیا گیا تھا وہ اس سے بچ کر نکل گیا تھا اور جن لوگوں نے وہ پھندا تیار کیا تھا انہیں اندازہ نہیں تھا کہ بساط کس طرح پلٹنے والی ہے۔ وہ اس کو مات دینا چاہتے تھے وہ انہیں شہ مات دینا چاہتا تھا۔۔اور اللہ بیشک بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔
*******----------*********
وہ دن ورلڈ بنک کے لیے بڑی خوش خبری لیکر آیا تھا۔ پیٹرس ایباکا کوما کی حالت میں مر گیا تھا۔ سالار نے وہ خبر بنک سے واپس آ کر ٹی وی پر سنی تھی۔یہ اسکے لیئے ایک اور دھچکا تھا۔لیکن وہ رات ورلڈ بنک کےلیئے سیاہ ترین رات تھی۔ ایباکا مرنے سے پہلے ورلڈ بنک کی موت کا سامان کر گیا تھا۔۔۔
******-****-----********
ایکسکیوز می۔۔۔۔۔وہ کہتے ہوئے اٹھ کر بار کی طرف چلی گئ۔اسکی نظروں نے جیکی کا تعاقب کیا۔۔
اس نے نظر ہٹاتے ہوئے اپنے سامنے پڑے اورنج ڈرنک کا ایک گھونٹ لیا۔بہت عرصے بعد وہ کسی عورت کیساتھ اکیلا بار میں بیٹھا تھا۔
وہ ہاتھ میں پکڑے گلاس سے دوسرا گھونٹ لے رہا تھا۔ جب جیکی دو شیمپئن کے گلاس لیکر واپس آگئ ۔۔
میں نہیں پیتا۔۔۔۔اس نے ایک گلاس اپنے سامنے رکھنے پر چونک کر اسے یاد دلایا۔
یہ۔شیمپیئن ہے۔۔۔جیکی نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا۔۔
شیمپئن شراب نہیں ہے کیا؟؟ وہ ٹیبل پر پڑی سگریٹ کی ڈبیا سے اب ایک سگریٹ نکال کر لائٹر کی مدد سے سلگا رہا تھا۔۔
جیکی نے آگے جھکتے ہوئے بڑی سہولت کیساتھ اس کے ہونٹوں میں دبا سگریٹ نکال لیا۔ وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔
وہ اب اسی سگریٹ کو اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں دبائے بائیں ہاتھ میں شیمپئن کا گلاس پکڑے مسکراتے ہوئے سگریٹ کے کش لے رہی تھی۔۔
اس نے نظریں چراتے ہوئے سگریٹ کی ڈبیا سے ایک اور سگریٹ نکال لی۔
آؤ ڈانس کریں۔۔۔وہ۔جیکی کی آفر پر ایک بار پھر چونکا۔
میں ڈانس نہیں کرتا۔ اس نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے لائٹر رکھا۔
آتا نہیں ہے۔۔۔جیکی ہنسی تھی۔۔۔۔
پسند نہیں ہے۔۔۔وہ مسکرایا تھا۔
شراب کبھی نہیں پی تم نے؟؟ جیکی نے پوچھا۔۔
بہت عرصہ پہلے۔۔۔اس نے جیسے اعتراف کیا۔۔۔
شیمپیئن؟؟ جیکی نے مصنوعی حیرت سے کہا۔۔
یہ بھی۔۔۔۔۔بے تاثر چہرے کیساتھ اس نے کہا۔
وہ دعوے کیساتھ کہہ سکتی تھی کہ یہ مرد کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ کر سکتا تھا اور وہ بھی بری طرح اس کی طرف ملتفت ہورہی تھی۔۔۔
تمہاری شیمپئن۔۔۔۔جیکی نے ایک بار پھر یاد دلایا۔
تم لے سکتی ہو۔۔اس نے جواباً گلاس اسکی طرف بڑھا دیا۔۔۔
اگر پہلے پیتے تھے تو اب اس میں کیا برائی نظر آئ تمہیں۔۔۔جیکی اس بار سنجیدہ ہوئ تھی۔
لطف حاصل کرنے کے لیے پیتا تھا جب لطف ختم ہوگیا تو شراب بھی چھوڑ دی۔
وہ اسکی بات پہ بے اختیار ہنسی تھی۔۔۔وہ آگے جھکی اور اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اس نے کہا۔۔۔
کیا تم جانتے ہو مجھے تم میں ایک ساحرانہ کشش محسوس ہوتی ہے۔۔۔
وہ مسکرایا تھا۔۔۔جیسے اس کے جملے سے محظوظ ہوا تھا۔۔۔
زہے نصیب۔۔۔اس نے جواباً کہا۔۔۔
جیکی نے بڑے غیر محسوس انداز میں میز پر رکھے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ۔۔وہ ہٹانا چاہتا تھا لیکن چاہتے ہوئے بھی نہ ہٹا سکا۔ وہ دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتے رہے۔۔
پھر جیکی نے کہا۔۔۔
کیا تم ایک رات کے تعلق پر یقین رکھتے ہو؟
جواب فوری آیا تھا۔۔۔
بالکل۔۔۔۔۔
××××----××××××----××××
اینڈرسن کووپر دو ہفتے بعد کانگو میں بارانی جنگلات کے حوالے سے ایک پروگرام کرنے جا رہا تھا۔ اس نے انگلینڈ اور یورپ کے اخبارات میں ایباکا کے انٹرویوز اور پگمیز کی بقاء کے لیئے چلائ جانے والی مہم کے بارے میں بنیادی معلومات لینے کے بعد اپنی ٹیم کے ایک فرد کے ذریعے اس سے رابطہ کیا تھا۔۔۔اور آج ایباکا کو کووپر سے خفیہ ملاقات کرنی تھی اور ایباکا خوشی سے بے قابو تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ کام اتنی جلدی ہوسکتا ہے۔ وہ واشنگٹن میں کئ دنوں سے کئ چینلز کے لوگوں سے ملتا رہا تھا اور امید و نا امیدی کے درمیان لڑھک رہا تھا۔۔۔ایباکا کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اینڈرسن کووپر کی طرف سے ملنے والی کال نے اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرلیا تھا۔ مگر تاخیر بس تھوڑی سی ہوئ تھی اسکی نگرانی کرنے والوں سے۔ایک سراسیمگی اور بد حواسی پھیلی تھی ان لوگوں میں جنہوں نے یہ طے کرنا تھا کہ اب اچانک سی این این کے منظر میں آجانے کے بعد وہ فوری طور پر ایباکا کا کیا کریں۔۔۔تشویش اس بات پر بھی ہوئی تھی کہ اگر ایباکا اور پگمیز کے حوالے سے کووپر نے پروگرام کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ تو اور کتنے ایسے صحافی تھے جو اس پراجیکٹ کے حوالے سے پروگرام کرنے کی تیاریوں میں تھے۔۔۔
ایباکا جن چھوٹے موٹے چینلز اور جرنلسٹس کو بڑا اور طاقتور سمجھ کر واشنگٹن میں ان کے ساتھ ساتھ وقت گزارتا آرہا تھا وہ سب پہلے ہی ایباکا کی نگرانی کرنے والوں کی فہرست میں شامل تھے۔ اور یہاں بھی ایباکا کو مانیٹر کرنے والے لوگوں کو اچانک درپیش آنے والا چیلنج یہی تھا۔ اگر وہ پروگرام کووپر ایباکا سے پہلے پیش کرنے کا ارادہ نہ کرچکا ہوتا تو سی آئ اے کے لیئے کوپر کو اس آفیشنسی صحافت سے روکنے کا واحد حل یہ تھا کہ ایباکا کو اس تک کسی بھی قیمت پر نہ پہنچنے دیا جاتا۔لیکن یہاں کووپر ایباکا سے اس اسٹیج پر رابطہ کر رہا تھا جب مبادہ اور اسکی ٹیم پہلے ہی اس ایشو پر بہت زیادہ کام کرنے کے بعد کانگو روانگی کی تیاریوں میں تھی۔یہ تھا وہ چیلنج جس نے فوری طور پر ایباکا اور کووپر کی ملاقات کے حوالے سے سی آئی اے کو پریشان کیا تھا۔ اور اس پریشانی میں اضافہ تب ہوا تھا جب ایباکا اس کال ملنے کے فوراً بعد ہی واشنگٹن سے نیویارک کے لیے چل پڑا تھا۔ اور جب تک انکا اگلا لائحہ عمل طے ہوتا ایباکا ٹائم وارنر سینٹر پہنچ چکا تھا۔
اینڈرسن کوپر کیساتھ دو گھنٹوں کی ایک گرما گرم نشست کے بعد وہ جب سی این این سٹوڈیوز سے باہر نکلا تھا تو ایباکا کا جوش پہلے سے زیادہ بڑھ گیا تھا۔
اسے پہلی بار سالار سے رابطے کا خیال آیا ۔۔۔
اینڈران کووپر کے ساتھ سوال وجواب کے اس آف کیمرہ سیشن میں سالار سکندر کا ذکر بار بار آیا تھا۔کہ کیسے اس نے اس پراجیکٹ کے حوالے سے اس کے تحفظات کو سنجیدگی سے سنا اور چھ ماہ انکے ساتھ ان جنگلات میں جا جا کر مقامی لوگوں سے حقائق اکھٹے کرتا رہا۔ سالار سکندر کے لیے اپنے ستائشی جذبات کووپر تک پہنچاتے ہوئے ایباکا کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس نے سالار سکندر کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔
ایباکا نے اس عمارت سے نکلنے کے بعد سینٹرل پارک کیطرف جاتے ہوئے بے حد خوشی کے عالم میں سالار کو ٹیکسٹ کیا تھا۔وہ اسے بتانا چاہتا تھا کہ وہ اب سی این این تک رسائی حاصل کرچکا تھا۔وہ ٹیکسٹ بہت لمبا تھا اور اس میں بہت کچھ تھا۔سالار اس وقت اپنی فلائٹ پر تھا اور کچھ گھنٹوں بعد جب وہ واشنگٹن میں اترا تب تک اسکے رابطوں کے تمام ذرائع زیر نگرانی آچکے تھے۔ ایباکا کی آخری ای میل سالار سکندر کو اسکی موت کے بعد ملی تھی۔لیکن ان لوگوں کو سالار سکندر کے جہاز اترنے سے بھی کئ گھنٹہ پہلے مل گئ تھی جو ایباکا کی زندگی اور موت کے حوالے سے فیصلہ کر رہے تھے۔۔ایباکا کی فوری موت انہیں نہیں چاہیئے تھی۔انہیں فی الحال کچھ گھنٹوں کے لیئے اسکی زندگی چاہیئے تھی۔اپنی تحویل میں ایباکا کو رکھتے ہوئے وہ اب اسی کے ذریعے اس کیس کو بند کرنا چاہتے تھے۔۔اور اسکے بعد وہ ایباکا سے جان چھڑا لیتے ۔۔اسکی طبعی موت کے ذریعے۔۔۔
کووپر سے ایباکا کی ہونے والی اچانک ملاقات نے سی آئ اے کو ایکدم پسپا کردیا تھا۔۔۔وہ ایباکا اور سالار دونوں کو اکٹھے نہیں مار سکتے تھے۔
سالار کو فی الحال صرف خوفزدہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اور سی آئ اے کو اندازہ نہیں تھا کہ انہوں نے غلط حکمت عملی غلط آدمی پر لاگو کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔۔
ایباکا کو چند گھنٹوں کی بعد بروکلین کے ایک ایسے علاقے کی تنگ و تاریک گلی میں روکا گیا تھا جہاں ایک قریبی عمارت میں ایباکا کو اپنے ایک دوست سے ملنا تھا۔ سی آئ اے سمجھتے تھے کہ ایباکا انکے لیے حلوہ ہے جسے وہ آسانی سے قابو کرلیتے۔ ایسا نہیں ہوا تھا۔ایباکا ان دو افراد سے بڑی بے جگری سے لڑا تھا جنہوں نے اچانک اس کے قریب گاڑی روک کر اسے ریوالور دکھا کر اندر بٹھانے کی کوشش کی تھی ۔۔اس نے ساری زندگی امریکہ کی مہذب دنیا میں گزاری تھی لیکن جنگلی زندگی اس کی سرشت میں تھی اسے اپنا دفاع کرنا آتا تھا۔ وہ خود لہولہان تھا تو ان دونوں افراد کو بھی لہولہان کرچکا تھا۔ پتا نہیں یہ ایباکا کی بد قسمتی تھی، ان دونوں ایجنٹس کی یا سی آئ اے کی۔۔۔۔کہ لڑتے لڑتے ریوالور ایباکا کے ہاتھ میں آگیا تھا اور پھر اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ان دونوں افراد پر گولی چلا دی۔گولی ایک کو لگی تھی لیکن دوسرا خود پر ہونے والے فائر سے بہت پہلے اپنا ریوالور نکال کر ایباکا پر دو فائر کرچکا تھا جو اس کے سینے میں لگے تھے۔۔۔
ان فائرز نے اس سڑک پر چلتے راہ گیر کو وہاں سے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا اور ان ہی میں سے کسی نے پولیس کو بھی فون کیا تھا۔ لیکن پولیس کے آنے سے پہلے ہی وہ دونوں ایجنٹس شدید زخمی حالت میں تڑپتے ایباکا کو گاڑی میں ڈال کر فرار ہوگئے تھے۔ جس ایجنٹ کی ٹانگ میں گولی لگی تھی۔وہ ہوش وحواس میں تھا اور ایباکا کو گاڑی میں لیکر فرار ہوتے ہوئے اس نے اپنے سرپرستوں کو سارے واقعے سے آگاہ کر دیا تھا۔
ایباکا کی وہ حالت اس دن سی آئ اے کے لیے دوسرا جھٹکا تھی۔انہیں ایباکا کی زندگی چند گھنٹوں کے لیے چاہیئے تھی تاکہ وہ ان تمام چیزوں کو بھی نابود کرے جو ایباکا کے مرنے کے بعد کسی اور کے ہاتھ لگ جانے کی صورت میں ان کے لیئے کوئ اور ایباکا کھڑا کردیتا۔ ایباکا سے پہلے چند لوگوں نے رابطہ کرکے اسے اس سارے معاملے سے ہٹ جانے کے لیے رشوت کے طور پر بلینک چیک پیش کیا تھا۔۔لیکن ایباکا کا انکار اقرار میں نہیں بدلا تھا۔قیمت ھمیشہ اقرار کی ہوتی ہے ۔انکار انمول ہوتا ہے۔۔ان پیش کشوں کے انکار کے بعد ایباکا کو پہلی بار یہ خدشات لاحق ہونے لگے تھے کہ اگر اسے خریدا نہیں جا سکتا تو اسے مارا جاسکتا ہے۔۔اور اسی وجہ سے ایباکا نے اپنے بہت سے دوستوں اور ساتھیوں کے پاس ان دستاویزات کی کاپیاں رکھ دی تھی۔سی آئ اے کو اس کی خبر بھی تھی ایباکا نے اگر سینکڑوں کاپیاں امریکہ کانگو اور انگلینڈ میں اپنے دوستوں کے پاس رکھوائ تھی تو سی آئ اے کو ان سینکڑوں لوگوں کی معلومات تھی۔ وہ دستاویزات ہر اس جگہ سے چوری کر کے انکی جگہ کچھ اور ڈاکومنٹس رکھ دیئے جاتے تھے۔اور ایباکا کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوا کہ اس کے پیچھے اس پراجیکٹ کے حوالے سے سارے سراغ مٹائے جارہے تھے۔
فی الحال دنیا میں صرف دو شخص تھے جن کےپاس وہ دستاویزات اپنی اصل شکل میں موجود تھی۔پیٹرس ایباکا۔ اور سالار سکندر۔۔۔ایباکا اب زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا اور سالار اگلے دن خوار ہونے والا تھا۔ مگر سی آئ اے کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ وہ ایباکا کے دستخط کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ جسکی انہیں فوری ضرورت تھی۔ تاکہ وہ اسکے لاکرز کھلوا سکتے جہاں اسکی اصل دستاویزات تھی۔انکی حکمت عملی یہ تھی کہ وہ ان اصلی دستاویزات کو حاصل کرنے کے بعد ایباکا کو ختم کردے مگر سب کچھ الٹ ہوا ۔
پلان اے اور پلان بی ناکام ہوچکا تھا۔اب سی آئ اے کو پلان سی سے کام لینا تھا۔ لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایباکا کے پاس ایک پلان ڈی تھا جس کا انہیں کبھی پتا نہ چل سکا۔۔۔وہ کانگو میں اپنی۔گرل فرینڈ کے پاس ایک وصیت چھوڑ آیا تھا۔
******-------****---*****
امامہ کو اندازہ نہیں تھا وہ کتنی دیر تک بے ہوشی کی حالت میں رہی یا رکھی گئ تھی مگر بے ہوشی جب ختم ہونا شروع ہوئی تو اس نے جیسے بے اختیاری کے عالم میں سب سے پہلے اس وجود کو ڈھونڈنا شروع کیا جسے اس نے پہلی بار اور آخری بار آپریشن تھیٹر میں بے ہوش ہونے سے پہلے دیکھا تھا۔تکلیف کی حالت میں بھی اسے یاد تھا کسی نے اسے بتایا تھا کہ وہ لڑکا تھا۔۔۔
درد سے بے حال اس نے محمد حمین سکندر کو اپنی آغوش میں لیتے ہوئے اسے چوما تھا اور پھر اسے چومتی چلی گئی ۔وہ بے حد کمزور تھا۔اور وجہ اسکی قبل از وقت پیدائش تھی۔وہ تین ہفتے قبل دنیا میں آیا تھا ۔۔نیم غنودگی میں وہ اپنا بستر ٹٹولتی رہی اس بات کا احساس کیے بغیر کے وہ نوزائیدہ بچہ اسکے بستر پر نہیں سو سکتا تھا۔ بے ہوشی ختم ہورہی تھی اسکی یاداشت آہستہ آہستہ واپس آرہی تھی۔ دماغ نے کام کرنا شروع کیا تھا ۔۔جبریل۔۔۔۔۔عنایہ۔۔۔۔سالار۔۔۔۔۔وہ کچھ بے چین ہوئ تھی۔امامہ نے یاد کرنے کی کوشش کی۔کہ وہ وہاں کیسے آئ ۔۔ذہن پر زور دیکر۔۔۔۔
----*******----***----***--*
سی آئ اے کے لیئے سب سے بڑی پریشانی سالار کی فیملیتھی ۔انہیں غائب کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کام تھا ۔مگر انہیں یہ احساس دلائے بغیر غائب کرنا کہ انہیں غائب کیا جا رہا ہے بہت مشکل تھا۔سالار جس رات واشنگٹن کے لیے روانہ ہوا تھا اسکے اگلے دن امامہ کی گائناکالوجسٹ نے اسے فون کیا تھا۔امامہ کے معائنہ کی تاریخ تین دن بعد کی تھی ۔اس کی امریکن ڈاکٹر نے اسے اسی دن ایمرجنسی میں آنے کے لیے کہا تھا۔۔۔۔امامہ نے کسی غور و حوض کے بغیر جانے کی ہامی بھر لی۔۔
وہ ہمیشہ کی طرح جبریل اور عنایہ کیساتھ پیڈی کو بھی ہسپتال لیکر گئ تھی۔ اسکی ڈاکٹر نے اسکا الٹراساؤنڈ کرنے کے بعد کچھ تشویش کے عالم میں اس سے کہا تھا کہ اسے بچے کی حرکت ابنارمل محسوس ہو رہی ہے اس کو کچھ اور ٹیسٹ کروانے ہونگے اور ساتھ انہیں کچھ انجیکشن لینا ہونگے۔امامہ کو تشویش ہوئی تھی تو صرف یہ کہ سالار وہاں نہیں تھا۔وہ اس سے پہلے ہمیشہ اس کے ساتھ وہاں آتی تھی ایسے معائنوں کے لیے۔۔۔۔ڈاکٹر نے انہیں فوری طور پر ہاسپٹل میں کچھ گھنٹوں کے لیے یہ کہہ کر ایڈمٹ کیا تھا کہ انہیں اسکو زیر نگرانی رکھنا تھا۔۔
اسے ایک کمرے میں شفٹ کیا گیا اور جو انجکشن امامہ کو دیئے گئے وہ درد بڑھانے والے انجکشن تھے۔امامہ کو گھر سے غائب اور سالار اور اپنی کسی فیملی ممبر سے رابطہ منقطع رکھنے کے لیے سی آئ اے کے پاس اس سے بہترین حل نہیں تھا کہ اسکے بچے کی قبل از وقت پیدائش عمل میں لائ جائے۔۔۔۔
امامہ انجکشن لگوانے سے قبل ہسپتال کے کمرے میں ہی پیڈی، جبریل اور عنایہ کو لے آئ تھی۔اس وقت بھی اسکا یہی خیال تھا کہ چند گھنٹوں بعد وہ واپس گھر چلی جائے گی۔لیکن اسے پہلی بار تشویش تب ہوئی جب اسے درد زہ ہونا شروع ہوا اور ڈاکٹر نے اسکی تصدیق بھی کر دی کہ انجیکشن کے ری ایکشن میں شاید انہیں بچے کی زندگی بچانے کے لیے اسے فوری طور پر دنیا میں لانا پڑے۔۔
وہ پہلا موقع تھا جب امامہ بری طرح پریشان ہوئ تھی۔۔۔اسکی سمجھ میں نہ آیا کہ بچوں کو کہاں بھیجے۔اسکے ڈاکٹر نے مدد کی پیشکش کی لیکن امامہ کے لیے تو یہ ناممکن تھا۔وہ اپنی اولاد کے بارے میں جنون کی حد تک محتاط تھی۔وہ پہلی بار جبریل کو گود میں لینے پر بلک بلک کر روئ تھی لگتا تھا اولاد نہیں معجزہ تھا اسکے لیے۔۔ سالار کہتا تھا وہ جبریل کی عاشق تھی۔اور وہ ٹھیک کہتا تھا۔اسے جبریل کے سامنے واقعی کچھ نظر نہیں آتا تھا۔عنایہ۔۔۔سالار دونوں کہیں پیچھے چلے جاتے تھے۔وہ اس پر بھروسا کرتی تھی اور چار سال کے اس بیٹے کو ہرجگہ اپنے ساتھ یوں رکھتی تھی جیسے وہ بہت بڑا ہو۔ جبریل عام بچوں جیسی عادات نہیں رکھتا تھا ۔۔ذہانت باپ سے ورثے میں ملی تھی لیکن برداشت اس نے کہاں سے سیکھ لی یہ امامہ نہیں جان پائی۔۔جبریل میں عجیب سی سنجیدگی اور ذمہ داری تھی جو اس کے معصوم چہرے پر بلا کی سجتی تھی۔۔۔
وہ ہر چیز کا بے حد خاموشی سے مشاہدہ کرنے کا عادی تھا۔۔۔امامہ کون سی چیز کہاں رکھتی تھی یہ جبریل کو یاد رہتا تھا وہ سالار سکندر کی غیر موجودگی مین اس گھر کا بڑا تھا۔ امامہ کو اب بہت گھبراہٹ ہورہی تھی وہ چاہتی تھی اسکی ڈلیوری کم از کم تب تک ٹل جائے جب تک سالار امریکہ پہنچ جائے اوروہ اس سے بات کرلے۔اسے صورت حال سے آگاہ کرلے وہ اسکے اور بچوں کی فوری دیکھ بھال کے لیئے تو کچھ کرتا ہی لیکن کم از کم وہ اس سے ڈلیوری سے پہلے ایک بار بات تو کرلیتی۔۔وہ خوف جو ہمیشہ اسے اپنے حصار میں لیتا رہا تھا وہ اب بھی لے رہا تھا ۔۔اور کیا ہوا۔۔۔۔۔اگر ڈلیوری کے دوران وہ مر جائے تو۔۔۔اور یہ تو تھی جو اسے ہر بار آپریشن تھیٹر میں جاتے ہوئےسالار سے ایک بار معافی مانگنے پر مجبور کرتی۔اپنی احسان مندی جتانےپر مجبور کرتی لیکن بس زبان اگر ایک جملے پر آ کر اٹکتی تھی تو وہ اس سے محبت کا اظہار تھا۔وہ حمین کی پیدائش سے پہلے موت کے خوف میں مبتلا ہوئی تھی۔اور اس بار پہلے سے کئ گنا زیادہ ۔۔کیونکہ سالار دور تھا۔۔۔۔۔وہ تنہا تھی اور اس کے بچے کمسن۔۔اسکی خواہش پوری نہ ہوسکی درد بڑھ رہا تھا اور ڈاکٹر اسے آپریشن تھیٹر میں لیجانا چاہتی تھی۔کیونکہ کیس نارمل نہیں تھا۔اسے آپریشن کرنا تھا۔۔ امامہ نے جبریل کو عنایہ کی ذمہ داری سونپی تھی۔اسے بہن کا خیال رکھنے اور اسے کبھی اکیلا نہ چھوڑنے کا کہا تھا۔جبریل نے ہمیشہ کی طرح سر ہلایا تھا فرمانبرداری سے۔۔۔آپ نیا بے بی لے آئیں میں اس بے بی کا خیال رکھوں گا۔۔۔
چار سالہ جبریل نے انگلش میں ماں کو تسلی دی۔۔اور اس کی تسلی سے امامہ کے ہونٹوں پر اس تکلیف میں بھی مسکراہٹ آئ تھی۔۔آپریشن تھیٹر جانے سے قبل اس نے دونوں کو گلے لگا کر چوما۔۔۔
******------*****---******
یوٹیوب پر کسی نے ایک ویڈیو اپلوڈ کی تھی جس میں ایک سیاہ فام بروکلین کے پس ماندہ حصہ میں ایک پاس سے گزرنے والی گاڑی سے یک دم نکلنے والے دو سفید فاموں سے لڑتا نظر آیا۔ ویڈیو اس بلڈنگ میں رہنے والے ایک سیاہ فام نو عمر بچے نے ہینڈی کیم سے بنائ تھی جو اس جگہ سے بالکل قریب ایک بلڈنگ کی دوسری منزل کی کھڑکی سے اسکول پراجیکٹ کے سلسلے میں ایک ویڈیو شوٹ کر رہا تھا۔میرے پڑوسی۔۔۔۔۔ اس نے اپنی گلی میں شروع ہونے والی اس لڑائی کو اتفاقاً لیکن بڑی دلچسپی سے یہ سوچتے اور کمنٹری کرتے ہوئے ریکارڈ کیا تھا کہ وہ اس علاقے میں ہونے والی اسٹریٹ فائٹ کو بھی اپنے اطرف کے امتیازی فیچر کے طور پر پیز کریگا۔لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ سٹریٹ فائٹ گولیاں مارنے پر ختم ہوگی۔۔
سی آئ اے کی بد قسمتی یہ تھی کہ وہ ویڈیو بہت قریب سے بنائ گئ تھی اور اس میں نظر آنے والے تینوں افراد کے چہرے واضح تھے۔اس بچے نے ویڈیو شوٹ کرتے ہوئے بھی چلا چلا کر ان دونوں افراد کو سیاہ فام کو کھینچ کر گاڑی میں ڈالنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس کوشش میں ناکامی کے بعد اس نے گاڑی کا نمبر پلیٹ زوم کر کے ریکارڈ کیا تھا۔
پولیس کو وہ ویڈیو دینے سے پہلے اس نے وہ ویڈیو سیاہ فاموں کے ساتھ امریکہ میں ہونے والی زیادتیوں پر مبنی ایک ویب سائٹ پر منتقل کی تھی اور اس ویب سائٹ نے اسے یوٹیوب پر۔اس پر بے شمار لوگوں نے رد عمل کا اظہار کیا وہ ویڈیو یوٹیوب سے اب نیوز چینلز پر آگئ تھی اور وہاں سے بین الاقوامی نیٹ ورکس پر۔۔
پیٹرس ایباکا کو پہچاننا مشکل نہیں تھا وہ جلد پہچانا گیا۔۔طوفان یوٹیوب پر کیا مچا تھا طوفان تو وہ تھا جو سی آئ اے کے ہیڈکوارٹرز میں آیا تھا۔ایک آسان ترین سمجھنے والا آپریشن سی آئ اے کے منہ پر ذلت اور بدنامی تھوپنے والا تھا۔۔۔ساتھ امریکی حکومت اور ورلڈ بنک بھی پھنسنے والے تھا۔کبھی کبھی انسان کو اس کی بے وقوفی نہیں اسکی ضرورت سے زیادہ چالاکی لے ڈوبتی ہے اور سی آئ اے کیساتھ بھی اس وقت یہی ہوا تھا۔وہ اسے کسی زخمی کا حادثہ دکھا کر اس سے جان چھڑانا چاہتے تھے اور یہ کام وہ واشنگٹن میں کرنا چاہتے تھے جہاں سالار سکندر موجود تھا۔ اور اس دن واشنگٹن میں صرف ایک حادثہ ہوا تھا۔ جس کا ایک زخمی پیٹرس ایباکا کو ظاہر کر کے دونوں کا تبادلہ کیا گیا تھا۔ ہاسپٹل انتظامیہ کو ایباکا کے حوالے سے معلومات تھی ۔۔
اس کی حالت مسلسل بگڑ رہی تھی اور سی آئ اے سرجری کے بعد ہاسپٹل سے اسے اپنے ٹھکانے پر لیجا کر بھی اس سے کوئ کام کی بات نہ پوچھ سکی۔ تو اب انہیں اس سے وہ آخری کام لینا تھا جس کے لیئے اسے واشنگٹن پہنچایا گیا تھا اور جس کے لیئے نیوز چینل پر بار بار اس حادثے کے زخمی اور مرنے والوں کے نہ صرف نام چلائے گئے تھے بلکہ انکی پاسپورٹ سائز کی تصویریں بھی۔۔۔سی آئ اے کو یقین تھا کہ نیوز چینل پر چلنے والی یہ خبر سالار کے علم میں ضرور آئے گی اور انہیں یہ بھی یقین تھا کہ سالار اس سے ملنے ضرور جاتا۔
اندازے درست ثابت ہوئے وہ خبر سالار نے دیکھ بھی لی تھی اور وہ فوری طور پر اس سے ملنے بھی چلا گیا ۔۔سالار کو ہاسپٹل آنے جانے میں تقریباً دو گھنٹے لگے اور اتنا ہی وقت چاہیے تھا سی آئ اے کو اسکے کمرے سے لیپ ٹاپ سمیت ہر اس چیز کا صفایا کرنے کے لیے، جسے وہ کام کی سمجھتے تھے۔۔سب کچھ ویسے ہی ہوا تھا جیسے اس کا پلان تھا۔لیکن نتیجہ وہ نہیں نکلا جس کی انہیں توقع تھی۔۔۔۔
وہ ویڈیو انہیں لے ڈوبی تھی۔ کوئی بھی اس ویڈیو میں نظر آنے والے چہرے کے نقوش نہیں بھول سکتا تھا۔ وہ حادثے میں زخمی ہوکر مرنے والے ایباکا کی شناخت نہیں بدل سکتے تھے۔۔وہ نیوز چینلز پر ایباکا کی تصویریں نہ چلوا چکے ہوتے تو اس حادثے کے فوری بعد شدید زخمی فرد کے طور پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ت شاید سی آئ اے یہی کرتی اور ایباکا کو واشنگٹن کے اس ہاسپٹل سے فوری طور پر واپس نیویارک منتقل کر دیا جاتا لیکن وہ ایک غلطی کے بعد دوسری نہیں تیسری اور چوتھی غلطی بھی کر بیٹھے تھے۔۔۔
اس جلتی آگ کو بجھانے کی کوشش بہت جلد شروع کی گئی۔۔انہوں نے یوٹیوب سے اس ویڈیو کو مٹانے کی کوشش کی وہ اسے بلاک نہیں کر سکتے تھے کیونکہ یہ شور شرابے کو بڑھا دیتا لیکن بار بار اپلوڈ ہونے والے لنکس کو مٹا رہے تھے۔ اور اس میں کوشش کے باوجود ناکام ہورہے تھے۔ ۔۔وہ آگ امریکہ سے کانگو پہنچ گئ تھی۔
ایباکا کی موت کی وجہ کیا ہوسکتی تھی۔۔۔کون اسے مار سکتا تھا۔اور کیوں مارسکتا تھا۔۔اس کو صرف وہ شخص بتا سکتا تھا جسکا نام ایباکا کووپر کے سامنے کئ بار لے چکا تھا۔ جو واشنگٹن میں اس سے ملنے کے لیے آنے والا واحد ملاقاتی تھا۔امریکہ کے ہر نیوز چینل پر اس رات سالار سکندر کا نام اس حوالے سے چل رہا تھا۔اور ہر کوئی سالار سکندر سے رابطہ کرنے میں ناکام تھا۔۔۔۔
*******------***--********
اس رات اپنے ہوٹل کے کمرے میں بیٹھے ان تمام نیوز چینلز کی کوریج ماؤف دماغ کیساتھ سالار بھی دیکھ رہا تھا۔ سی آئ اے بھی دیکھ رہی تھی اور ورلڈ بنک کے وہ سارے کرتا دھرتا بھی جو دو دن سے سالار سکندر کو ہراساں کرنے کے لیئے تن من دھن کی بازی لگا بیٹھے تھے۔
پیٹرس ایباکا کو اس ویڈیو میں نشانہ بنتے دیکھ کر سالار کو اس رات یقین ہو گیا تھا کہ اسکی فیملی زندہ نہیں ہے۔ وہ لوگ اگر ایباکا کو مار سکتے تھے تو وہ اور اس کی فیملی کیا شے تھی۔۔۔۔ اس رات اگر اسے کسی شے میں دلچسپی تھی تو وہ صرف اپنی فیملی کی زندگی تھی۔۔۔اور کچھ نہیں۔۔۔اپنا آپ بھی نہیں۔۔۔
اور سی آئ اے میں اس آپریشن کو کرنے والے لوگ اس رات صرف ایک بات سوچ رہے تھے کہ سالار سکندر کا کیا کرنا تھا اب۔۔۔زندہ رکھنا تھا۔۔۔۔مار دینا تھا۔۔۔زندہ رکھنا تھا تو پھر اس کی کھلنے والی وہ زبان کیسے بند رکھے جو ورلڈ بنک سمیت بہت سے دارالحکومتوں میں بھونچال برپا کرتی۔۔مار دیتے تو کیسے مارتے۔۔۔۔کہ اس کی موت ایباکا کی طرح سی آئ اے کے منہ پر ایک اور بدنامی کے دھبے کا اضافہ نہ کر دیتی۔۔یا پھر کنشاسا میں موجود اس کی فیملی کی زندگی کے ذریعے اسے بلیک میل کرتے۔۔قید میں وہ اسے رکھ نہیں سکتے تھے۔۔۔
زندگی یا موت۔۔۔۔زندگی۔۔۔۔موت۔۔ ۔۔
پھر فیصلہ ہوگیا تھا لیکن وہ سی آئ اے نے نہیں بلکہ کانگو کے عوام نے کیا تھا۔۔۔
++++++****+++++****
چار سالہ جبریل نے اپنے خاندان کو درپیش آنے والے بحران میں جو رول ادا کیا وہ اس نے زندگی میں کئ بار ادا کرنا تھا۔
امامہ کے جانے کے بعد پیڈی کو اچانک خیال آیا کہ امامہ اسے گھر سے کچھ چیزیں لانے کا کہہ گئ تھی پیڈی نے سوچا کہ وہ وہاں بچوں کو اکیلا چھوڑنے کی بجائے اپنے ساتھ لے جائے گی پھر واپس لے آئے گی۔ جبریل نے اس ساتھ لیجانے والی کوشش کے جواب میں صاف انکار کرتے ہوئے اسے یاد دلایا تھا کہ ممی نے اس سے کہا تھا کہ وہ وہی رہیں گے۔ وہ انہیں ساتھ نہیں لے جائے گی۔ پیڈی کو یاد آیا اور اس نے دوبارہ اصرار نہیں کیا۔۔۔
وہ جبریل کو جانتی تھی۔چار سال کی عمر میں بھی وہ بچہ کسی طوطے کی طرح ماں باپ کی باتیں رٹ کر پھر وہی کرتا تھا اور مجال تھی کہ کسی دوسرے کی باتوں میں آ کر وہ امامہ اور سالار کی کسی ہدایت کو فراموش کرتا۔ پیڈی انہیں امامہ کی ڈاکٹر کی ایک اسسٹنٹ کے پاس چھوڑ کر فوری طور پر گھر چلی گئ ۔انکی عدم موجودگی میں عنایہ کو نیند آنے لگی تھی ۔ڈاکٹر کی اسسٹنٹ نے نیند میں جھولتی ہوئی دو سال کی اس بچی کو اٹھا کر ایک بنچ پر لٹانے کی کوشش کی اور جبریل نے اسے روک دیا۔۔وہ وہاں سے عنایہ سمیت ہٹنا نہیں چاہتا تھا جہاں پیڈی انہیں بٹھا کر گئ تھی۔ اسسٹنٹ کچھ حیران ہوکر واپس اپنی ٹیبل پر گئ۔۔وہ ایک انٹرسٹنگ بچہ تھا۔۔۔اس نے اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اسے دیکھ کر سوچا۔۔دو سالہ عنایہ اب جبریل کی گود میں سر رکھے سو رہی تھی اور وہ بے حد چوکنا بیٹھا بہن کے سر کو اپنے ننھے ننھے بازوؤں کے ھلقے میں لیے ملاقاتی کمرے میں آنے جانے والوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔اور تب وہ عورت ان دونوں کے برابر آکر بیٹھ گئ اور اس نے جبریل کو ایک مسکراہٹ دیتے ہوئے اس کا سر تھپتھپایا۔۔اور جواباً اس بچے کے تاثرات نے اسے سمجھا دیا تھا کہ اسے یہ بے تکلفی اچھی نہیں لگی۔۔اس عورت نے دوسری بار سوئی ہوئی عنایہ کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے کی کوشش کی تو اس بار جبریل نے اسکا ہاتھ بڑی نرمی سے پرے کرتے ہوئے سرگوشی میں کہا۔۔
She is sleeping
اوہ سوری۔۔امریکن عورت اسے دیکھ کر مسکرائ۔۔
اس عورت نے اپنا پرس کھول کر اس میں سے چاکلیٹ کی ایک بار نکال کر جبریل کی طرف بڑھائ۔۔
No thanks
جواب چاکلیٹ بڑھانے سے بھی پہلے آگیا تھا۔۔
میرے پاس کچھ کھلونے ہیں۔۔۔اس بار اس عورت نے زمین پر رکھے ایک بیگ سے ایک اسٹفڈ کھلونا نکال کر جبریل کی طرف بڑھایا۔ اسکی سرد مہری کی دیوار توڑنے کی یہ آخری کوشش تھی۔
جبریل نے اس کھلونے پر نظر ڈالتے ہوئے نہایت شائستگی سے اس سے کہا۔۔
آپ ہمیں تنگ کرنا بند کریں گی پلیز۔۔۔۔
ایک لمحے کے لیے وہ عورت چپ ہی رہ گئ تھی۔یہ جیسے شٹ اپ کال تھی۔مگر وہ وہاں منہ بند کرنے کے لیے نہیں آئ تھی۔۔۔انہیں ان دونوں بچوں کو وہاں سے لے جانا تھا اور انکا خیال تھا آتے جاتے ملاقاتیوں میں دو کمسن بچوں کو بہلا پھسلا کر وہاں سے لیجانا کون سا مشکل تھا۔ زور زبردستی وہ اتنے لوگوں کے سامنے عنایہ کے ساتھ کرسکتے تھے جبریل کیساتھ نہیں۔۔۔۔۔
اب وہ منتظر تھی کہ عنایہ کی طرح وہ چار سالہ بچہ بھی تھک کر سو جائے پھر شاید ان کو کسی طرح وہاں سے ہٹا دیا جاتا۔ وہ دس پندرہ منٹ بیٹھے رہنے کے بعد وہاں سے اٹھ گئ تھی۔۔اسے ان بچوں کے حوالے سے نئ ہدایات لینی تھی اور پانچ منٹ بعد جب وہ واپس آئ تو پیڈی وہاں ان کے پاس موجود تھی۔۔۔۔
وہ عورت ایک گہرا سانس لیکر رہ گئ۔ وہ ان دونوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتے تھے صرف اپنی نگرانی میں رکھنا چاہتے تھے جب تک امریکہ میں سالار کیساتھ معاملات طے نہ ہو جائے۔۔
عنایہ اب جاگ گئ تھی اسے باتھ روم جانا تھا ۔پیڈی اسے باتھ روم لیکر جانا چاہتی تھی اس نے جبریل کو ایک بار پھر وہی ٹھہرنے کا کہا لیکن وہ نہیں ٹھہرا۔ وہ کسی بھی طرح عنایہ کو اپنی آنکھوں سے اوجھل کرنے پہ تیار نہیں تھا۔ پیڈی کو اسے بھی باتھ روم لے جانا پڑا۔وہ عورت بھی ان کے پیچھے باتھ روم آئ تھی۔اور جبریل نے اس عورت کو ایک بار پھر نوٹس کیا تھا۔۔
تم ہمارے پیچھے کیوں پڑی ہو؟
واش بیسن میں ہاتھ دھونے میں مصروف وہ عورت اس بچے کا جملہ سن کر جیسے ایڑھیوں پر گھومی تھی۔۔پیڈی نے اس عورت کو دیکھا اور معذرت خواہانہ انداز میں مسکرائ۔ جیسے وہ جبریل کی اس بات سے متفق نہیں تھی۔ پینتالیس سال کی اس عورت نے مسکراتے ہوئے اس چار سالہ بچے کو سراہا تھا۔وہ پہلی بار ایک چار سالہ بچے سے پسپا ہوئ تھی۔وہ جن بھی ماں باپ کی اولاد تھا کمال تربیت ہوئ تھی اسکی۔۔ پیڈی ان دونوں کو لیکر وہاں سے چلی گئ تھی لیکن وہ عورت نہیں گئ تھی۔ وہ ایک بار پھر اس بچے سے وہ جملہ نہیں سننا چاہتی تھی۔بہتر تھا اس کے بھیجنے والے اسکی جگہ کسی اور کو بھیج دیتے۔
پیڈی امامہ سے ڈیڑھ گھنٹہ بعد بھی نہ مل سکی تھی کیونکہ ڈاکٹر نے کہا تھا وہ ہوش میں نہیں۔آپریشن ٹھیک ہوا تھا لیکن اسے خواب آور دوائیاں دی جا رہی تھی۔پیڈی نے امامہ کے فون سے بار بار سالار کا نمبر ملانے کی کوشش کی لیکن ہر بار ناکام ہوئی۔وہ اسے اس کے بیٹے کی خبر دینا چاہتی تھی اور ساتھ یہ اطلاع بھی کہ اسکے بچے انکے پاس محفوظ ہیں۔۔۔پیڈی نے بار بار امامہ سے ملنے کی کوشش کی کیونکہ اب عنایہ بھی بے قرار ہو رہی تھی۔ڈاکٹر نے اسے ان کوییٹر میں پڑا حمین تو دکھا دیا تھا لیکن امامہ تک رسائی نہیں دی تھی۔اس نے ایک بار پھر اسے دونوں بچوں کو اسکی تحویل میں دینے کا کہا اور ہمیشہ کی طرح جبریل اڑ گیا تھا ۔۔نیند سے بوجھل آنکھوں اور تھکاوٹ کے باوجود عنایہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے بیٹھا ہوا تھا۔ کیونکہ ممی نے اسے عنایہ کا خیال رکھنے کا کہا تھا۔ اس نے وہ بے بی بوائے بھی دیکھ لیا تھا جسے ممی لینے گئ تھی لیکن ممی کہاں تھی یہ سوال اب صرف اسے ہی نہیں پیڈی کو بھی پریشان کر رہا تھا۔ وہ اب کنشاسا میں سالار کے آفس کے ذریعے اس سے رابطہ کرنے میں مصروف تھی لیکن سالار غائب تھا اور کانگو میں ورلڈ بنک پر قیامت ٹوٹنے والی تھی۔
--------*********---------
پیٹرس ایباکا اپنی موت کے چوبیس گھنٹوں میں ہی صرف کانگو کے پگمیز کا نہیں بلکہ پورے افریقہ کا ہیرو بن گیا تھا۔ اس خطے نے آج تک صرف بکنے والے حکمران دیکھے تھے اس خطے نے ہیرو پہلی بار دیکھا تھا۔ جان دینے والا ہیرو ۔ایباکا ساری زندگی پرامن طریقوں سے جدوجہد کرنے والا تھا اور اس کا درس دیتا تھا لیکن اپنی موت کے بعد اس کی جو وصیت منظر عام پر آئی تھی اس میں اس نے پہلی بار غیر متوقع اور غیر فطری موت کی صورت میں اپنے لوگوں کو لڑنے کے لیے اکسایا تھا۔اس جنگل کو بچانے کے لیے انہیں سفید فاموں کو مار بھگانا تھا۔چاہے اسکے لیئے کچھ بھی کرنا پڑے۔اپنی اس وصیت میں اس نے ورلڈ بنک، امریکہ اور ان دوسری عالمی طاقتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ان سب کے خلاف جہاد کرنے کا کہا تھا۔۔وہ مسلمان نہیں تھا لیکن مذاہب کا تقابلی جائزہ لیتا رہا تھا اور اسے اپنے لوگوں کیساتھ ہونے والی نا انصافی اور ظلم کے خلاف بغاوت کے لیئے جہاد سے زیادہ موزوں لفظ نہیں ملا تھا۔۔اس نے صرف پگمیز کو مخاطب کیا تھا صرف انہیں جنگلوں سے نکل کر شہروں میں آ کر لڑنے کا کہا تھا۔ ورلڈ بنک اور ان آرگنائزیشنز کے ہر دفتر پر حملہ کر کے وہاں کام کرنے والوں کو مار بھگانے کا کہا تھا لیکن اس رات وہ صرف پگمیز نہیں تھے جو ایباکا کی کال پر ورلڈ بنک کیساتھ ان غیر ملکی آرگنائزیشنز پر چڑھ دوڑے تھے۔وہ کانگو کے استعماریت کے ہاتھوں سالوں سے استحصال کا شکار ہوتے ہوئے عوام تھے جو باہر نکل آئے تھے۔۔
کنشاسا میں اس رات تاریخ کے وہ سب سے بڑے فسادات ہوئے تھے جس میں کوئی سیاہ فام نہیں صرف سفید فام مارے گئے تھے۔۔ورلڈ بنک کے آفسوں پر حملہ کر کے اسے لوٹنے کے بعد اسکو آگ لگا دی گئ تھی۔اور یہ سلسلہ صرف وہاں تک نہیں رکا تھا۔۔ورلڈ بنک کے حکام کی رہائش گاہوں پر بھی حملے، لوٹ مار اور قتل و غارت ہوئی تھی اور ان میں سالار سکندر کا گھر بھی تھا۔۔۔وہ سالار سکندر کا گھر نہیں تھا جسے آگ لگائ گئ تھی وہ ورلڈ بنک کے سربراہ کا گھر تھا جسے ہجوم نے اس رات تباہ کیا تھا۔۔۔ورلڈ بنک کے چالیس افراد ان فسادات میں مارے گئے تھے۔ اور یہ نچلے عہدوں پر کام کرنے والے لوگ نہیں تھے وہ ورلڈ بنک کی سینئر اور جونیئر مینجمنٹ تھی۔۔اپنی اپنی فیلڈ کے ماہر اور نامور لوگ۔۔
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ورلڈ بنک اور سی آئ اے ہیڈ کوارٹرز میں آپریشن روم کی دیواروں پر لگی اسکرینوں پر تینوں اداروں کے سینئر حکام دم سادھے، بے بسی کیساتھ کانگو میں ہونے والے ان فسادات کے مناظر دیکھ رہے تھے ۔انہیں بچانے کی کوششیں ہو رہی تھی لیکن فوری طور پر کوئ بھی کانگو کے ان فسادات میں عملی طور پر کود سکتا تھا۔جو جانی اور مالی نقصان ہوا تھا وہ پورا کر لیا جاتا لیکن جو ساکھ اور نام ڈوبا تھا اسے بحال کرنے کے لیئے کوئ معجزہ چاہیئے تھا۔۔۔
ان فسادات کے آغاز سے بالکل پہلے اینڈرسن کووپر نے ایباکا کیساتھ ہونے والے اس آف کیمرہ سیشن کو اپنے پروگرام میں چلا دیا تھا۔ تب تک اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس رات کانگو میں کیا ہونے والا تھا۔اس سیشن میں ایباکا نے امریکہ اور ورلڈ بنک پر شدید تنقید کرتے ہوئے انہیں گدھ اور ڈاکو قرار دیا تھا جو کانگو کو نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔ اور کوئ انکا ہاتھ نہیں روک پا رہا تھا۔۔
پیٹرس ایباکا کا وہ آخری انٹرویو افریقہ میں لوگوں نے اسٹیڈیم اور چوکوں پر روتے ہوئے بڑی اسکرینوں پر سنا تھا۔۔اور اس کی گفتگو میں ورلڈ بنک کے صرف ایک عہدیدار کی تعریف تھی۔ جو بنک کو اس پراجیکٹ کی انکوائری پر مجبور کر رہا تھا
اور ایسا نہ کرنے پر وہ ورلڈ بنک کو چھوڑ دینا چاہتا تھا۔ ایباکا نے اپنی زندگی کو لاحق ہونے والے خطرات کی بات بھی کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ طاقتیں جو اسے مار ڈالنا چاہتی ہیں وہ سالار سکندر کو بھی مار ڈالیں گے۔
سالار سکندر کا نام پیٹرس ایباکا کے بعد ایک رات میں افریقہ میں زبان زد عام ہو گیا تھا۔ افریقہ میں ویسی شہرت پہلی بار کسی غیر ملکی کو نصیب ہوئی تھی۔اور وہ غیر ملکی اس وقت واشنگٹن میں اپنے کمرے میں ٹی وی پر یہ سب دیکھ رہا تھا۔پھر بار بار باہر جا کر پاکستان فون کر کے اپنی فیملی کے بارے میں سکندر سے پتا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔کاش اسے وہ نام وری نہ ملتی۔۔اس نے سوچا۔
نیوز چینلز یہ بتا رہے تھےکہ کنٹری ہیڈ سمیت سارے گھروں کو لوٹا گیا تھا اور بہت سے گھروں میں اموات بھی ہوئی۔کچھ افسران کی بیویوں پر حملے ہوئے اور کسی کے بچے مارے گئے۔۔۔
ٹی وی پر وہ سب کچھ دیکھتے ہوئے وہ شدید پریشان تھا۔
-------**********----------
میرے بچے کہاں ہیں؟؟ اس نے اٹینڈنٹ کی شکل دیکھتے ہی ہوش و حواس سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا سوال یہی کیا تھا۔
وہ کچھ دیر میں آپ کے پاس آجائیں گے آپکو ہاسپٹل سے کہیں منتقل کرنا ہے۔اٹینڈنٹ نے بے حد مودب انداز میں کہا۔امامہ نے بستر سے اٹھنے کی کوشش کی اور بے اختیار کراہ کر رہ گئی۔زخم والی جگہ اب سن نہیں رہی تھی۔اسے لگا جیسے کسی نے ایک خنجر اسکے پیٹ میں گھونپا ہے۔۔اٹینڈنٹ نے جلدی سے آگے بڑھ کر انہیں لٹانے میں مدد دی۔اور پھر ٹرے میں ایک انجیکشن اٹھا کر سرنج میں بھرنے لگی جو وہ لائی تھی۔۔۔
مجھے کوئی انجکشن نہیں لگوانا میں نے اپنے بچوں کو دیکھنا ہے۔امامہ نے بے حد ترشی سے اسے کہا۔۔۔
یہ آپ کی تکلیف کم کر دے گا۔آپکی حالت ابھی ٹھیک نہیں ہے۔اٹینڈنٹ نے کہتے ہوئے گلوکوز کی بوتل میں سرنج کی سوئی گھونپ دی۔
امامہ نے اپنے ہاتھ کی پشت پر ٹیپ کیساتھ چپکائی ہوئی سرنج نکال لی۔۔۔
مجھے فی الحال کسی میڈیسن کی ضرورت نہیں مجھے اپنے بچوں سے ملنا ہے اور اپنے شوہر سے بات کرنی ہے۔۔
وہ اس بار زخم کی تکلیف کو نظر انداز کرتے ہوئے اٹھ بیٹھی اور اس نے اٹینڈنٹ کا ہاتھ جھٹک دیا تھا۔۔وہ کچھ دیر چپ کھڑی رہی پھر خاموشی سے کمرے سے نکل گئی۔
اسکی واپسی آدھ گھنٹہ بعد پیڈی، جبریل اور عنایہ کیساتھ ہوئی۔کمرے کا دروازہ کھلتے ہی ماں پر پہلی نظر پڑتے ہی جبریل اور عنایہ شور مچاتے ہوئے اس کی طرف آئے۔ اور اسکے بستر پر چڑھ کر اس سے لپٹ گئے تھے۔ دو دن کے بعد ماں کو دیکھ رہے تھے۔پیڈی بھی بے اختیار لپک کر انکےپاس آئ۔ دو دن سے امامہ کو نہ دیکھنے پر اور ڈاکٹرز کی بار بار کی لیت لعل پر امامہ کے حوالے سے اسکے ذہن میں عجیب وہم آرہے تھے۔ اور اب امامہ کو بخیریت دیکھ کر وہ بھی جذباتی ہوئے بنا نہ رہ سکی۔۔۔
تم نے سالار کو اطلاع دی؟؟ امامہ نے پیڈی کو دیکھتے ہی اس سے پوچھا۔
میں کل سے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن ان کا نمبر نہیں مل رہا میں نے انکے آفس کے سٹاف سے بھی رابطہ کیا لیکن وہ کہہ رہے ہیں کہ سالار صاحب کے ساتھ انکا بھی رابطہ نہیں ہو پا رہا
امامہ کے دماغ کو ایک جھٹکا لگا تھا۔۔
کل؟؟ وہ بڑبڑائی۔۔آج کیا تاریخ ہے؟؟
پیڈی نے جو تاریخ بتائی وہ اس دن کی نہیں تھی جس دن اسے ہاسپٹل لایا گیا تھا۔اس نے اپنا بیگ لیکر اس میں سے فون نکال کر اس پر کال کرنے کی کوشش کی۔۔اٹینڈنٹ نے انہیں بتایا کہ ہاسپٹل کے اس حصے میں سگنلز نہیں آتے۔وہ اسکا منہ دیکھ کر رہ گئ تھی۔اپنے سیل فون پر اس نے سب چیٹ ایپس اور ٹیکسٹ میسجز چیک کر لیئے تھے کل سے آج تک اس میں کچھ بھی نہیں تھا۔۔ اس سے پہلے کہ وہ پیڈی سے کچھ پوچھتی اس نے اسے کانگو میں ہونے والے فسادات کے بارے میں بتایا تھا۔اور ساتھ یہ بھی کہ انکے گھر پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔۔۔۔امامہ سکتے میں آگئ۔۔
یہ وہ پہلے لمحہ تھا جب امامہ کو سالار کے حوالے سے بے قراری ہوئی۔ پیٹرس ایباکا مارا گیا تھا تو سالار کہاں تھا؟ وہ بھی تو واشنگٹن میں تھا۔پیڈی نے اسے نیوز چینل پر چلنے والی ساری خبریں بتا دی تھی۔ایباکا کیسے مارا گیا اور کیسے اس کی موت سامنے آئ اور اس سے آخری بار ملنے کے لیے جانے والا سالار سکندر تھا اور وہ اسی وقت سے غائب ہے۔
امامہ کے ہاتھ کانپنے لگے تھے۔اسکا خیال تھا کہ اسے دنیا میں سب سے زیادہ محبت جبریل سے تھی لیکن اب جب سالار اس کی زندگی سے کچھ دیر کے لیے عجیب طرح سے غائب ہوا تھا تو اس کے اوسان خطا ہونے لگے تھے۔
وہ جبریل اور عنایہ کو اسی طرح بستر پر چھوڑ کر درد سے بے حال ہوتے ہوئے بھی لڑکھڑاتے قدموں سے فون لیے کمرے سے باہر نکل آئ۔اسے ہاسپٹل میں اس جگہ جانا تھا جہاں سے وہ اس سے بات کرسکتی۔اسے اسکے گھر تباہ ہونے کا بھی خیال نہیں آیا تھا گھر، بچے سب کچھ یکدم اس ایک شخص کے سامنے بے معنی ہو گیا تھا جو اسکا سائبان تھا۔جو زندگی کی دھوپ میں اسکے لیے تب چھاؤں بنا تھا جب اسکا وجود حدت سے جھلس رہا تھا۔
اٹینڈنٹ اور پیڈی نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ رکی۔وہ ننگے پاؤں پھوڑے کی طرح دکھتے جسم کیساتھ کوریڈور میں نکل آئی تھی۔۔
سالار وہاں ہوتا تو اسے اس حالت میں بستر سے بھی اٹھنے نہیں دیتا لیکن مسئلہ ہی یہی تھا کہ سالار وہاں نہیں تھا۔۔اسکا جسم ٹھنڈا پڑ رہا تھا۔یہ موسم نہیں تھا جو اسے لرزا رہا تھا خوف تھا جو رگوں میں خون جما رہا تھا۔اسکا پورا جسم پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔
آپکے شوہر بالکل ٹھیک ہیں میں تھوڑی دیر میں آپکی ان سے بات کروا دیتی ہوں۔۔
امامہ چلتے چلتے ساکت ہوئی اور اٹینڈنٹ کی آواز پر پلٹی۔۔۔۔اور پھر وہاں کھڑے کھڑے موم کی طرح پگھلنے لگی۔۔۔۔۔۔۔
سی آئی اے اور ورلڈ بنک کے ساتھ امریکن گورنمنٹ کو ایک ہی وقت میں سالار کی ضرورت پڑی تھی۔کانگو میں اگر اس وقت کوئی انکی عزت بحال کرنے کی پوزیشن میں تھا تو وہ سالار سکندر ہی تھا۔ پاور گیم ون مین شو بن گیا تھا۔افریقہ میں جو آگ ایباکا کی موت نے لگائی تھی ویہ سالار سکندر کی زندگی ہی بجھا سکتی تھی ۔فیصلہ تاخیر سے ہوا تھا لیکن ہوگیا۔۔۔
اس آپریشن کے تباہ کن نتائج نہ صرف سی آئی اے میں بہت سے لوگوں کی کرسیاں لے جانے والے تھے بلکہ ورلڈ بنک میں بھی بہت سے سر کٹنے والے تھے۔تاج کہیں اور رکھا جانے والا تھا۔
سالار اس سب سے بے خبر ہوٹل کے کمرے میں اب بھی نیوز چینلز دیکھ رہا تھا۔ وہ کچھ دیر پہلے اپنے باپ سے بات کر کے آیا تھا سالار کے سر میں درد شروع ہوا تھا۔
What is next to existasy
آہ کیا سوال تھا۔۔۔کیا یاد دلایا تھا ۔۔کیا یاد آیا تھا۔
Pain......
And what is next to pain
اتنے سالوں بعد ایک بار پھر وہ سوال و جواب اس کے ذہن میں چلنے لگے تھے۔آخر کتنے مواقع آئے تھے زندگی میں اسے سمجھانے کہ اس کے بعد کچھ نہیں ہے۔۔۔عدم وجود۔۔خالی پن۔۔۔۔۔۔
And what is next to nothingness
اسکا اپنا سوال ایک بار پھر اسکا منہ چھڑانے آیا تھا۔۔
Hell,,,,
جہنم کوئی اور جگہ تھی کیا؟ اس نے بے اختیار کراہتے ہوئے سوچا۔
دو دن بعد اسکا سیل فون جیسے موت کی نیند سے جاگا تھا ۔۔وہ میوزک اور وہ روشنی۔۔اسے لگا وہ خواب دیکھ رہا ہے۔۔وہ میوزک اس نے امامہ کی کالر آئی ڈی کیساتھ محفوظ کیا ہوا تھا۔۔۔
سیل فون پر اسکا مسکراتا چہرہ اسکا نام۔سالار کو لگا وہ واقعی جنت میں کہیں تھا۔اس نے کانپتے ہاتھوں سے کال ریسیو کی۔لیکن ہیلو نہیں کہہ سکا۔وہ امامہ نے کہا تھا۔بے قرار، بے آواز۔ وہ بول ہی نہ سکا۔سانس لینا تو بہت بڑی بات تھی اپنے قدموں پر کھڑا تھا تو کمال تھا۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف سے وہ بے قراری سے اسکا نام لے رہی تھی ۔۔بار بار۔۔۔سالار کا پورا وجود کانپنے لگا تھا۔وہ آواز اسے ہرا کر رہی تھی۔۔کسی بنجر سوکھے پیڑ پر بارش کے بعد بہار میں پھوٹنے والی سبز کونپلوں کی طرح ۔۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتا تھا لیکن اسکے سامنے رو نہیں سکتا تھا۔۔وہ مرد تھا۔۔بولنا مشکل تھا پر بولنا ضروری تھا۔
امامہ۔۔۔۔اس نے اپنے حلق میں پھنسے ہوئے نام کو آزاد کیا تھا۔۔۔
دوسری طرف وہ پھوٹ پھوٹ کر روئ تھی۔وہ عورت تھی یہ کام آسانی سے کر سکتی تھی۔وہ بے آواز روتا رہا۔۔وہ دوزخ سے گزر کر آئے تھے۔۔
بے آواز روتے ہوئے سالار نے اسی طرح کھڑے کھڑے اس کمرے کے درمیان میں امامہ کی ہچکیاں اور سسکیاں سنتے اپنے جوتے اتارے۔۔پھر وہ گھٹنوں کے بل سجدے میں جاگرا تھا۔۔۔
کئی سال پہلے وہ ریڈ لائٹ ایریا میں امامہ کے نہ ہونے پر اسی طرح ایک طوائف کے کوٹھے پر سجدے میں جا گرا تھا۔۔۔آج وہ امامہ کے ہونے پر سجدے میں گرا تھا۔۔
بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔۔وہ کن کہتا ہے اور چیزیں ہو جاتی ہیں۔۔گمان سے آگے، بیان سے باہر۔بیشک اللہ ہی سب سے بڑا اور طاقتور ہے۔۔