top of page

آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد

قسط نمبر چودہ

ہی از کیوٹ۔۔۔جبریل نے حمین پر ایک نظر ڈالنے کے بعد تین لفظوں میں بڑے محتاط اور مفصل انداز میں اپنے خاندان میں اس نئے اضافے پر تبصرہ کیا تھا۔۔اس کے برعکس عنایہ بڑے اشتیاق سے والہانہ انداز میں اس چھوٹے بھائی کو دیکھ رہی تھی جس کی آمد کے بارے میں وہ مہینوں سے سن رہی تھی۔امامہ کی باتیں سن سن کر اسے چھوٹے بھائی سے زیادہ اس پری کو دیکھنے کی دلچسپی ہوگئ تھی جو انکے گھر روز یہ دیکھنے آتی تھی۔کہ انہیں بھائ کی ضرورت تھی یا نہیں۔وہ امامہ سے زیادہ پری کے بارے میں اشتیاق سے پوچھتی تھی۔۔جبریل نے نہ کبھی بھائی کے بارے میں سوال کیا نہ ہی پری کے بارے میں۔۔کیونکہ اسے پتا تھا ممی جھوٹ بول رہی تھی۔کیونکہ نہ پریاں ہوتی ہیں نہ بھائی کو پری نے لانا تھا۔بھائ کو اسپتال سے آنا تھا اور اسپتال خود جانا پڑے گا۔اور وہ بھی کار سے سڑک کے ذریعے اس اسپتال میں جہاں وہ ممی کیساتھ جاتے تھے۔۔۔لیکن اس نے یہ معلومات صرف عنایہ کیساتھ تنہائی میں شیئر کی تھی امامہ کے سامنے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ممی جھوٹ بولتی ہیں۔۔۔عنایہ نے اس سے پوچھا۔۔۔۔۔
نہیں ۔۔۔وہ جھوٹ نہیں بولتی لیکن تم چھوٹی ہو اس لیے وہ تم سے کہتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے بڑے مدبرانہ انداز میں بہن کو سمجھایا تھا۔
وہ اس وقت امریکن ایمبیسی کے اندر موجود ایک چھوٹے سے میڈیکل یونٹ میں تھے۔ وہ طوفان جو انکی زندگی اڑانے آیا تھا۔کچھ بھی تہس نہس کیے بغیر قریب سے گزرتا چلا گیا۔امامہ اپنے بچوں کیساتھ سالار سے بات چیت کے بعد اب پرسکون تھی۔اس نے وقفے وقفے سے پاکستان میں سب سے بات کی تھی اور سب سے حمین کی پیدائش پر مبارکباد وصول کی تھی۔۔۔۔
سالار نے اسے ہر بات سے بے خبر رکھا تھا ۔فون پر ان کی لمبی بات نہیں ہوسکی تھی۔سالار نے اسے آرام کرنے کا کہا تھا۔اس نے امامہ سے کہا تھا کوئ سگنلز اور سیٹلائٹ کا مسئلہ تھا جسکی وجہ سے اسکا رابطہ اس سے نہیں ہو پارہا تھا۔۔اور اسی وجہ سے وہ اس قدر پریشان تھا۔
امامہ نے اس سے ایباکا کے حوالے سے بات کی تو اس نے اسے تسلی دی کہ سب ٹھیک ہے وہ پریشان نہ ہو اسکی زندگی کو خطرہ نہیں۔۔وہ اس سلسلے میں پولیس سے رابطے میں ہے۔
امامہ مطمئن ہوگئ تھی۔
پیڈی اب بھی اس کے ساتھ تھی اور وہ کمرے میں چلتے ہوئے ٹی وی پر کانگو کے حالات کے حوالے سے چلنے والی خبریں دیکھ رہی تھی۔جہاں ایباکا کا ذکر آرہا تھا وہاں سالار سکندر کا بھی ذکر ہو رہا تھا اس انٹرویو کی جھلکیاں بھی بار بار چل رہی تھی جس میں ایباکا نے بار بار سالار کے بارے میں اچھے الفاظ میں بتایا تھا اور اسکی اور اپنی زندگی کے حوالے سے لاحق خطرات کا بھی ذکر کیا تھا۔۔۔
سالار سے بات کرنے کے بعد امامہ کی جو پریشانی ختم ہوئ تھی۔ وہ ایک بار پھر سر اٹھانے لگی۔ وہ مصیبت میں تھا لیکن اسے کیوں بے خبر رکھ رہا تھا۔امامہ کو اسکا احساس ہونے لگا تھا ۔وہ وہاں بیٹھ کر اس سے فون پر سوالات کرنا نہیں چاہتی تھی وہ اسکے سامنے بیٹھ کر اس سے پوچھنا چاہتی تھی۔کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
ممی۔۔۔۔جبریل نے اسے مخاطب کیا۔۔۔
پاپا کو کون مارنا چاہتا ہے۔
وہ اسکے سوال پر منجمد ہوگئی تھی۔امامہ کو ٹی وی دیکھتے ہوئے اندازہ نہیں ہوا تھا کہ وہ بھی اس کے ساتھ بیٹھا ہوا وہ سب دیکھ اور سن رہا ہے۔۔ وہ بلا کا ذہین تھا اپنے باپ کی طرح۔۔۔ امامہ اور سالار اس کے سامنے گفتگو میں بہت محتاط رہتے تھے۔
امامہ نے ٹی وی آف کر دیا وہ اب اسے ٹالنا چاہتی تھی ۔
کوئ آپکے پاپا کو نہیں مارنا چاہتا۔۔اس نے جبریل کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔اللہ آپکے پاپا کی حفاظت کر رہا ہے اور م سب کی بھی۔۔وہ اسے تھپتھپاتےہوئے بولی۔۔۔
اللہ نے پیٹرس ایباکا کی حفاظت کیوں نہیں کی؟؟ 
امامہ لاجواب ہوگئ۔۔۔جبریل کے سوال اسے ہمیشہ لاجواب کر دیتے۔۔۔وہ بحث نہیں کرتا تھا صرف پوچھتا تھا۔جواب سنتا تھا سوچتا تھا اور خاموش ہوجاتا تھا۔مگر امامہ سمجھ نہ پاتی کہ اسکے جواب نے اسے قائل کیا تھا یا نہیں۔۔۔وہ بچہ گہرا تھا۔ اس کا احساس اسے تھا۔لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کے حوالے سے بہت ساری باتیں سوچتا تھا۔ جو وہ ان سے پوچھتا کبھی نہیں تھا۔۔
دیکھو تمہارا چھوٹا بھائی کیسا لگتا ہے تمہیں۔۔۔امامہ نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
ہی از کیوٹ۔۔۔۔اس نے جواب دیا. 
تمہارے جیسا لگتا ہے نا۔۔امامہ نے اسے خوش کرنے کی کوشش کی۔۔
مجھے تو نہیں لگتا۔۔جبریل کو شاید ماں کی یہ مماثلت اچھی نہیں لگی۔
اچھا تم سے کیسے ڈفرنٹ ہے۔۔امامہ نے دلچسپی سے پوچھا۔
اس کی مونچھیں ہیں۔۔میری تو نہیں ہیں۔
امامہ بے ساختہ ہنسی۔وہ حمین کے چہرے اور بالائ لب پر آنے والی روئیں کو دیکھ کر کہہ رہا تھا۔
یہ میری طرح لگتا ہے۔۔۔عنایہ نے بڑی مدھم آواز میں اٹکتے ہوئے امامہ کو مطلع کیا تھا۔
وہ عنایہ کی مدھم آواز پر ہنس پڑی تھی۔وہ احتیاط کر رہی تھی کہ سویا ہوا بھائی بیدار نہ ہوجائے۔انہیں اندازہ نہیں تھا وہ سویا ہوا بھائی نہیں، سویا ہوا جن تھا جو بیدار ہونے کے لیے اپنے باپ کی آمد کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔
سی آئ اے نے جس بچے کو تین ہفتے پہلے دواؤں کے اثر سے قبل از وقت دنیا میں لانے کی کوشش کی تھی۔ اگر انہیں محمد حمین سکندر کا تعارف ہوجاتا تو وہ اس پیدائش کو کم از کم تین سو سال تک روکتے۔۔۔
مستقبل سے بے خبر امامہ بڑی محبت سے اسے سوئے ہوئے دیکھ رہی تھی۔جو دو دن بعد ہی خراٹیں لے رہا تھا۔
کیا یہ خراٹے لیتا ہے؟ جبریل نے اسکے خراٹے نوٹس کرتے ہوئے بے یقینی سے ماں کو دیکھا۔
امامہ اسکے مشاہدے پر حیران ہوئ تھی۔۔۔جبریل کے احساس دلانے پر اس نے پہلی بار غور کیا تھا۔
نہیں۔۔۔وہ بس گہرے سانس لے رہا ہے۔۔۔
ممی کیا یہ آپ کا لاسٹ بے بی ہے۔۔سوال ڈائریکٹ آیا تھا اور سنجیدگی سے کیا گیا تھا۔امامہ کو سمجھ نہ آیا کہ وہ ہنسے یا شرمندہ ہو۔۔۔پیڈی ہنس پڑی تھی۔۔۔
ہاں سویٹ ہارٹ یہ لاسٹ بے بی ہے۔۔۔اس نے جیسے جبریل کو تسلی دی۔
ہم دو بھائی اور ایک بہن ہے۔۔جبریل نے انگلیوں کو چھو کر گنا۔۔۔۔
ہاں ڈیئر۔۔۔امامہ نے اسکا منہ چوم کر اسے یقین دلایا۔۔۔اسے پتا نہیں تھا اسکے گھر ایک اور بچی نے پرورش پانی تھی۔۔ کنیز غلام فرید عرف چنی۔۔۔۔۔۔
-----------********-----------
سکندر عثمان کے گھر آنے والا وہ مہمان ناقابل یقین تھا۔وہ ان کے گھر کئ بار گئے تھے مصالحت کے طور پر. تعزیت کے لیئے۔لیکن ہاشم مبین کبھی اس کے گھر نہیں آیا تھا۔۔وہ اب اسکے پڑوس میں نہیں رہے تھے وہ گھر بک چکا تھا۔سکندر پہلی نظر میں اسے پہچان نہ پایا۔۔اسکی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ اسکے ساتھ کیا رویہ رکھیں۔۔
مجھے امامہ سے بات کرنی اور ملنا ہے۔چند ہی جملوں کے بعد ہاشم مبین نے ان سے کہا تھا۔
وہ یہاں نہیں ہے۔۔سکندر نے بڑے محتاط انداز میں بتایا۔
میں جانتا ہوں وہ کانگو میں ہے میں وہاں کا نمبر لینا چاہتا ہوں وہاں کے حالات خراب ہیں وہ ٹھیک تو ہے نا؟؟ 
انہوں نے رک رک کر ایک ہی سانس میں ساری باتیں کہیں۔
ہاں وہ سالار اور بچے ٹھیک ہیں۔۔۔وہ فون نمبر کا مطالبہ گول کر گئے تھے۔
میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں ایک بار اس سے ملنا چاہتا ہوں۔وہ اپنا مطالبہ نہیں بھولا تھا۔
میں امامہ سے پوچھے بنا آپکو اسکا نمبر یا ایڈریس نہیں دے سکتا۔۔سکندر نے بلا تمہید کہا۔۔
میں اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اب۔۔۔۔اس نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔۔
آپ اسے بہت زیادہ نقصان پہنچا ہی چکے ہیں وہ اب اپنی زندگی میں سیٹ ہے اپنے بچوں کیساتھ بہت خوش مطمئن زندگی گزار رہی ہے آپ کیوں ایک بار پھر اسے ڈسٹرب کرنا چاہتے ہیں آپ کی بیٹی نے پہلے ہی آپکی وجہ سے بہت تکلیف اٹھائ ہے آپ اب اسے چھوڑ دے بخش دے اسے۔۔۔
ہاشم مبین کے چہرے کی جھریاں ایک دم بڑھی تھی پھر انہوں نے مدھم آواز میں کہا۔
میں جانتا ہوں مجھے احساس ہے۔
سکندر عثمان بول نہ سکے اسے یہ جملہ سننے کی توقع نہیں تھی۔بس ایک آخری بار اس سے ملنا چاہتا ہوں اس کی ایک امانت ہے وہ دینی ہے مجھے۔اور اس سے معافی مانگنی ہے۔
آپ مجھے اپنا فون نمبر اور ایڈریس دے میں اس سے بات کروں گا پھر آپ سے رابطہ کروں گا آپ کہاں رہتے ہیں اب۔۔۔۔سکندر نے اس سے پوچھا۔
ایک اولڈ ہوم میں۔۔۔۔۔سکندر چپ کے چپ رہ گئے۔ہاشم مبین اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
امامہ کو بتا دیں کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے ۔۔پھر وہ مجھ سے بات ضرور کرے گی۔۔
اپنی نشست سے کھڑے ہوئے سکندر عثمان اگلے جملے پر دم بخود رہ گئے تھے۔۔۔
********---------********
جیکی بے اختیار ہنسی۔۔جواب غیر متوقع نہیں تھا۔کوئی مرد اسکی کشش کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا تھا۔۔
اوہ واؤ گریٹ۔۔۔جیکی نے شیمپئن کا ایک اور گھونٹ لیتے ہوئے قاتلانہ مسکراہٹ کیساتھ اس سے کہا۔
میں ایک رات کے تعلق پر یقین رکھتا ہوں لیکن صرف حوروں کے ساتھ۔۔۔
اس شخص کا اگلا جملہ اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔۔۔
حور۔۔۔وہ کون ہے۔۔۔اسکی سمجھ میں نہ آیا۔۔۔سالار سکندر نے اپنے والٹ سے ایک وزٹنگ کارڈ نکال کر اسکی پشت پر پین سے کچھ لکھا اور انگلیوں کے نیچھے دبائے ہوئے اسے جیکی کی طرف بڑھا دیا۔جیکی نے عربی میں لکھا ایک جملہ دیکھا۔
یہ کیا ہے۔۔میں اسے پڑھ اور سمجھ نہیں سکتی۔اس نے کندھے اچکا کر سالار کو دیکھا جو اب اپنے گلاس کے نیچے کچھ نوٹ دباتے ہوئے اس سے کہہ رہا تھا۔ میں نے تمہارے ڈرنکس کی ادائیگی کردی ہے۔۔جیکی نے انگلی اور انگوٹھے میں دبے اس کارڈ کو سالار کو دکھایا اور دوبارہ کہا۔۔میں یہ پڑھ اور سمجھ نہیں سکتی۔۔۔۔۔
جنہوں نے آپکو بھیجا ہے وہ پڑھ بھی لیں گے سمجھ بھی لیں گے اور سمجھا بھی دینگے۔
جیکی کو اس کے جملے پر کرنٹ لگا۔اسکی مسکراہٹ سب سے پہلے غائب ہوئی۔۔
Excuse me....
اس نے لاعلمی ظاہر کرنے کی کوشش کی۔۔۔
Exceesed
وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
سی آئ اے ہیڈ کوارٹرز میں بیٹھے ہوٹل کے اس کمرے کو کنڈکٹ کر کے اور خفیہ کیمرے اور مائیکرو فون کی مدد سے گفتگو سنتے ان پانچ لوگوں کو پسینہ آیا۔
انہوں نے بے اختیار ایک دوسرے کو دیکھا اور اس شخص کو گالی دی تھی۔۔وہ اس شخص کو پیش کیا جانے والا خراج تحسین تھا۔وہ اس پھندے سے بچ کر نکلنے والا پہلا مرد تھا۔
اس کارڈ پر کیا لکھا ہے۔۔۔سی آئی اے کی سٹنگ ٹیم کے لیڈر نے آدھ گھنٹہ بعد جیکی کے اس کمرے میں آنے سے پہلے وہاں بلوائے عربی مترجم سے پوچھا۔۔۔
اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم۔۔مترجم نے وہ تحریر پڑھی۔۔
مطلب؟؟ 
میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔۔مترجم نے روانی سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔
ان سب لوگوں نے جیکی اور جیکی نے انہیں دیکھا۔۔۔پھر قاتلانہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔۔
مجھے یقین ہے کہ یہ میرے بارے میں نہیں۔۔۔۔
---------+++++++-------
آپریشن کے دوران نیورو سرجن چند لمحوں کے لیے رکا ۔ایک نرس نے بنا کہے اسکے ماتھے پر ابھرنے والے پسینے کے قطروں کو صاف کیا۔۔وہ ایک بار پھر اپنے سامنے ٹیبل پر کھلے پڑے اس دماغ پر جھکا جو دنیا کے ذہین ترین دماغوں میں سے ایک تھا۔۔اور جو ایک گولی کا نشانہ بننے کے بعد اس کے سامنے تھا۔۔وہ امریکہ کی تاریخ کا کم عمر اور سب سے قابل سرجن تھا۔لیکن آج اسے پہلی بار لگ ریا تھا کہ اسکا ہنڈرڈ پرسنٹ کامیابی کا ریکارڈ ختم ہونے والا ہے۔ وہ ٹیبل سے ہٹا ۔اسے کسی چیز کی ضرورت پڑی تھی اس آپریشن میں کامیابی کے لیئے۔۔۔
•••••••••
کھڑکی سے سالار نے واشنگٹن میں ڈوبتے ہوئے سورج پر اک آخری نظر ڈالی۔ڈوبتے ہوئے سورج کی نارنجی شعاعیں جہاز کے دودھیا پروں کو بھی ایک روپہلا رنگ دے رہی تھی۔۔جہاز اب ہزاروں فٹ کی بلندی پر تھا۔نہ آسمان پر نہ زمین پر۔۔۔اور یہی کیفیت سالار کی بھی تھی ۔۔37سال کی عمر میں وہ ورلڈ بنک کا کم عمر ترین وائس پریزڈنٹ تھا۔اور اسکی تعیناتی چار دن پہلے ہوئی تھی۔
ورلڈ بنک کے بورڈ آف گورنرز کے ایک ہنگامی اجلاس نے متفقہ طور پر اسے افریقہ کے لیے نیا نائب صدر ۔۔نیا چہرہ چنا تھا۔۔۔
امریکا کا ہر چھوٹا بڑا چینل اس وقت ایک یہی خبر بریکنگ نیوز کی طرح چلا رہا تھا کہ سالار سکندر کی زندگی خطرے میں تھی اور وہ غائب کیوں تھا۔وہ اس صورت حال کے بارے میں کوئ بیان کیوں نہیں دے رہا۔ ایباکا کے بارے میں خاموش کیوں تھا ادھر سالار ورلڈ بنک کے صدر سے ملاقات کی تیاری کر رہا تھا۔جو ورلڈ بنک کے صدر کی درخواست پر ہو رہی تھی۔۔۔صدر کی منت بھری درخواستوں ہر وہاں صدر کے ذاتی استعمال میں آنے والی کاروں میں سے ایک شوفر سمیت لیموزین میں بادشاہوں کی طرح پروٹوکول کیساتھ وہاں بلایا جا رہا تھا ۔۔۔۔ 
ہیڈ کوارٹرز کے باہر پریس موجود تھا، اپنے مشین گن جیسے کیمروں اور مائیکس کیساتھ۔۔بجلی کی طرح فلیش لائٹس کے جھماکوں کیساتھ۔۔۔انہیں اطلاح کس نے دی تھی یہ سالار کے لیئے حیرت کی بات نہیں تھی۔ وہ سرکس کا وہ جانور تھا جسے بنک اور سی آئ اے اب نچا کر تماشہ لوٹنا چاہتے تھے۔اور وہ اپنی اگلی حکمت عملی ترتیب دے رہا تھا۔۔۔۔ ۔اسے اگر ناچنا ہی تھا تو اپنی شرطوں پر۔۔۔
وہ لیموزین سے اتر کر اپنے کھلے کوٹ کے بٹن بند کرتا فلیش لائٹس کے جھماکوں سے کچھ فاصلے پر ڈرائیو وے کے دونوں اطراف میں لگی ہوئ وارننگ ٹیپ کے پار کیمرہ مینوں اور جرنلسٹس کی بھیڑ کی طرف ایک نظر ڈالے بغیر عملے کے افراد کی رہنمائ میں لمبے لمبے قدموں کیساتھ اندر چلا گیا۔
کچھ نئے لوگوں کے علاوہ بورڈ روم میں وہ سب لوگ موجود تھے جس سے وہ کچھ دن پہلے بھی ملا تھا۔۔ لیکن اب سب کچھ بدل چکا تھا۔ سالار کا استقبال وہاں ایک ہیروں کے طور پر تالیاں بجاتے اور خیر مقدمی نعروں سے ہوا۔۔۔یوں جیسے وہ کوئی جنگ جیت کر کسی بادشاہ کے دربار میں اپنی خدمات کا کوئی اعزاز لینے آیا ہو۔ان سب کے چہروں پر مسکراہٹیں اور نرمی تھی۔آنکھوں میں ستائش اور ہونٹوں پر داد و تحسین۔۔۔سالار سکندر صرف یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ وہ کر کے کیا آیا تھا جس کے لیئے ایسا استقبال کیا گیا۔۔۔میز پر صدر کی سیٹ کے دائیں جانب پہلی نشست پر اسے بٹھایا گیا ۔۔ ۔ 
اس کی آمد کے پانچ منٹ بعد ورلڈ بنک کا صدر بورڈ روم میں آگیا۔۔سالار سکندر بھی باقی سب کی طرح احتراماً کھڑا ہوگیا۔۔
ورلڈ بنک کو آپ پر فخر ہے۔۔۔اس کے ساتھ ہی استقبالی کلمات کی ادائیگی کے بعد صدر کے منہ سے نکلنے والے پہلے جملے کو سن کر سالار کا دل قہقہہ مار کر ہنسنے کو چاہا۔۔صدر کے جملے پر بورڈ روم نے تالیاں بجائیں ۔
صدر نے کانگو کی صورت حال سے گفتگو کا آغاز کیا تھا اور وہاں ورلڈ بنک کے ملازمین پر ہونے والے حملوں میں زخمی اور مارے جانے والوں کے لیئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئ۔اس کے بعد ایباکا کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا تھا چند جملوں میں اور پھر وہ سالار سکندر کی رپورٹ پر آگیا تھا۔جو بنک کے بورڈ آف گورنرز نے پڑھ لی تھی نہ صرف پڑھ لی تھی بلکہ اس رپورٹ کی تمام سفارشات کو مانتے ہوئے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا ۔
سالار سکندر نہ حیران ہوا تھا نہ متاثر۔۔۔اسے اندازہ تھا ورلڈ بنک اس سے کم میں کانگو میں داخل نہیں ہو سکتا۔۔انہیں اب وہ پراجیکٹ ختم کرنا ہی تھا۔۔۔وہ خاموشی سے صدر کی گفتگو سنتا رہا۔اور گفتگو کے اختتام پر سالار سکندر کو دی جانے والی نئی ذمہ داریوں کا اعلان کیا۔۔بورڈ روم میں بجتی تالیوں کیساتھ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ اپنی بے وقعت خدمات کے صلے میں ملنے والے ایم ترین عہدہ کی قدر و قیمت کا اندازہ لگا رہا تھا۔سالار کو وہاں بیٹھے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ دنیا کے طاقتور ترین مالیاتی ادارے کے ہیڈکوارٹرز میں نہیں کسی گھٹیا تھیٹر میں چلنے والے مزاخیہ ڈرامے کے سامنے بیٹھا ہے۔۔ جس میں ہر ایکٹر اوور ایکٹنگ کر رہا تھا۔
میں صدر اور بورڈ میں موجود تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے یہاں آنے کا موقع دیا اور مجھے خوشی ہے کہ اس رپورٹ کو بنیاد بناتے ہوئے اس کی تمام سفارشات کو مان لیا گیا ہے۔مجھے امید ہے اس قدم کے اٹھانے سے ورلڈ بنک کو ایک بار پھر کانگو میں اپنی ساکھ بحال کرنے میں مدد ملے گی۔۔۔سالار نے بہت مختصر بات کی تھی۔ٹو دی پوائنٹ۔۔۔پروفیشنل۔۔۔جذباتیت کے بغیر۔۔۔۔۔اور اسی دو ٹوک انداز میں جس کے لیئے وہ مشہور تھا۔۔
میں شکر گزار ہوں کہ ورلڈ بنک اور بورڈ آف گورنرز نے مجھے نائب صدر کے لیے منتخب کیا ہے لیکن میں اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے یہ عہدہ سنبھال نہیں پاؤں گا۔۔مجھے یقین ہے بنک کی ٹیم میں اس عہدے کے لیے مجھ سے زیادہ موزوں لوگ موجود ہیں ۔
صدر نے بے چینی سے اپنی نشست پر پہلو بدلا۔۔۔اسے اپنی ساکھ بچانا تھی اور یہ کام اس وقت صرف سالار کرسکتا تھا۔میٹنگ اس کے بعد ختم ہوئی اور اس کے بعد سالار ورلڈ بنک کے صدر سے اکیلے میں ملا تھا۔۔وہاں کا ماحول کچھ اور تھا اور باتیں بھی۔
مجھے اپنے کمرے سے چوری ہونے والی تمام چیزیں چاہیے۔۔۔لیپ ٹاپ۔۔ٹریول ڈاکومنٹس۔۔۔میرے باقی ڈاکومنٹس۔۔۔۔سالار نے اس کمرے میں میٹنگ کے شروع میں ہی ایجنڈا سیٹ کیا تھا۔۔وہ اپنی باتیں منوانے آیا تھا آج۔۔۔
آپ کے کمرے سے چوری ہونے والی چیزوں سے ورلڈ بنک کا کیا تعلق۔۔۔۔
صدر نے انجان بننے کی کوشش کی۔ سالار نے اسکی بات کاٹ دی۔۔۔
اگر میری چیزیں نہیں مل سکتی تو پھر مجھے کسی بھی ایشو پر بات کرنے یہاں نہیں بیٹھنا۔۔۔۔۔
صدر نے لہجہ نرم کرتے ہوئے جیسے اسے چمکارا۔۔میں ہدایت جاری کرتا ہوں کہ فوری طور پر آپکے نقصان کی تلافی کی جائے اور آپکے ڈاکومنٹس کا متبادل ۔۔۔۔۔
سالار نے اسی اکھڑ پن سے اسکی بات کاٹی۔۔۔مجھے اپنی چیزیں چاہیئے۔۔ نہ تلافی چاہیئے نہ متبادل۔۔۔مجھے اپنے اوریجنل ڈاکومنٹس چاہیئے۔۔۔
خاموشی کے ایک لمبے وقفے کے بعد صدر نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔ٹھیک ہے مل جائیں گے۔۔۔لیکن ورلڈ بنک اور امریکہ کو کانگو میں آپ کی ضرورت ہے۔ ایک شرط اس نے منوائ ایک شرط انہوں نے رکھ دی۔
میں کسی کی کٹھ پتلی بن کر کانگو میں وہاں کے انسانوں کا استعمال نہیں کرسکتا نہ ہی کروں گا۔اس نے دو ٹوک کہا۔
آپ کانگو میں جا کر وہ کریں جو آپ کرنا چاہتے ہیں۔۔صدر نے کہا۔۔۔
میں بندھے ہاتھوں سے کہیں کچھ نہیں کرسکتا۔
نائب صدر کے طور پر آپ کو لامحدود اختیارات دیئے جائینگے۔۔آپ پراجیکٹ کو روکنا چاہیں آپکو ہیڈکوارٹر کی منظوری کی ضرورت نہیں آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔۔۔۔
چند لمحوں تک سالار بول نہ سکا۔۔یہ جھانسہ تھا تو پکا تھا۔۔۔۔جتنے اختیارات آپ مجھے دیکر کانگو بھیجنا چاہتے ہیں اتنے آپ کسی کو بھی دیں وہ صورت حال سنبھال لے گا۔۔سالار نے کہا۔
ایشو اختیارات کا نہیں ہے نیت کا ہے۔۔جو کچھ تم افریقہ میں کرنا چاہتے ہو وہ کوئی دوسرا نہیں کرنا چاہے گا۔
کچھ وقت لو، سوچو، پھر فیصلہ کرو۔۔۔۔۔اسے قید کر کے آزاد کیا گیا تھا۔۔۔
اس نے واپسی پر میڈیا سے بات نہیں کی۔۔۔الجھن تھی کہ اور بڑھی تھی۔ہوٹل واپس آتے ہی اس نے کمرے میں ٹی وی پر نہ صرف ورلڈ بنک ہیڈ کوارٹر جاتے اپنی فوٹیج دیکھ لی بلکہ نیوز چینل پر اپنی تعیناتی کی بریکنگ نیوز بھی پڑھ لی۔
وہ اسکے لیے انکار کو مشکل بنا رہے تھے جال کی ڈوریاں کستے جارہے تھے۔۔۔اسکا سیل فون منٹوں میں مبارکباد کے پیغامات اور کالز سے بجنے لگا تھا۔۔۔۔۔۔۔
ورلڈ بنک جوائن کرنے کے فیصلے سے امامہ خوش نہیں تھی اسکا اعتراض وہی تھا اور وہی تھا۔۔۔تم بیشک ورلڈ بنک کے پراجیکٹس سے منسلک ہورہے ہو لیکن وہ کرتا تو سود کا کاروبار ہی ہے نا۔چھوٹے بنک افراد کا استعمال کرتا ہے اور ورلڈ بنک قوموں کا۔۔۔مجھے بتاؤ فرق کیا ہوا۔۔۔آسان قرضہ۔۔۔سستا قرضہ۔۔۔لونگ ٹرم قرضہ۔۔۔شارٹ ٹرم قرضہ۔۔۔آسان شرائط قرضہ۔۔۔کوئ ایسا قرضہ ہے ورلڈ بنک کیساتھ جس پر وہ سود نہ لیتا ہو۔۔۔۔۔۔۔اس نے سالار کے ساتھ بحث کی تھی۔۔۔
اگر ہم اسی طرح ایک ایک چیز میں میخ نکالتے رہیں گے تو پھر اس معاشرے اور اس سسٹم میں تو کہیں بھی کام نہیں کر سکیں گے کیونکہ یہ تو پورا معاشرہ سود پر کھڑا ہے اور وہ ہمارے لیے اپنے سسٹم کو نہیں بدلیں گے۔۔ اس نے امامہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔پھر تو ہمیں حلال کھانے کی کوشش بھی ترک کرنی چاہیئے ۔۔پھر تم سپر سٹور میں ڈبوں پر ان کے اجزاء کیوں چیک کرتے رہتے ہو ۔۔بس یہ سمجھ کر کھا لینا یہ سب کچھ کہ یہ ہمارا نہیں انکا معاشرہ ہے اور اپنے سپر سٹور میں وہ چیزیں رکھیں گے جو انہیں پسند ہو۔۔۔۔
امامہ نے اسے لاجواب کردیا تھا۔۔وہ بحث جاری رکھنے کی بجائے وہاں سے اٹھ گیا تھا۔۔۔لیکن امامہ کی ناراضگی کے باوجود اس نے ورلڈ بنک جوائن کرلیا ۔اور امامہ کو اس نے اپنا ایگریمنٹ اور جاب پروفائل کے کاغذات زبردستی پڑھ پڑھ کر سنائے ۔۔اس نے سب کچھ سننے کے بعد اس پیپرز کو واپس لفافے میں ڈال کر اسے دیتے ہوئے کہا۔۔
تم سود کے پیسے سے انسانیت کی خدمت اور بہتری کے خواب دیکھ رہے ہو اور تمہیں لگتا ہے اس میں فلاح ہے۔۔۔۔۔نہیں ہے۔۔۔۔۔سود کا ثمر انسانوں کی زندگی بدل سکتا ہے مگر تباہی میں۔۔۔۔بہتری میں نہیں۔۔۔۔اس کی یہ برملا تنقید سالار کو خفا بھی کرتی تھی اور کمزور بھی۔۔اس دن امامہ کو فون کرتے ہوئے اسے احساس تھا کہ وہ اس سے کیا سننے جارہا ہے لیکن خلاف توقع اس نے اس نئے عہدے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔۔وہ اس سے جبریل، عنایہ اور حمین کی باتیں کرتی رہی۔۔۔یہاں تک کہ سالار کا احساس جرم حد سے گزر گیا۔وہ جیسے چاہتا تھا کہ وہ اسے ملامت کرے۔۔کوئ تو مبارکباد دینے کی بجائے اسکے ضمیر کو کچوکے لگائے۔۔۔۔۔
تمہیں پتا ہے ورلڈ بنک نے مجھے وائس پریزیڈنٹ۔۔۔۔۔۔۔
امامہ نے اسکو بات مکمل نہیں کرنے دی۔۔ہاں۔۔۔یک حرفی جواب آیا۔۔
تو؟؟ سالار کو تسلی نہیں ہوئ۔۔
تو کیا؟؟ امامہ نے مدھم آواز میں پوچھا۔۔
تو تم کچھ نہیں کہو گی؟ اس نے جان بوجھ کر یہ نہیں کہا تھا کہ تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔
یس۔۔۔ایک اور یک حرفی جواب آیا۔۔۔۔
کیوں؟؟ وہ بے قرار ہوا۔۔
تم ہر فیصلہ اپنی مرضی سے کرتے ہو ۔۔۔پھر رائے دینے کا فائدہ۔۔۔
سالار ایک لمحہ کے لیے خاموش ہوا پھر اس نے مدہم آواز میں کہا۔۔
میں نے ابھی آفر قبول نہیں کی۔۔۔۔۔
کر لو گے۔۔میں جانتی ہوں۔۔۔جواب نے اسے ہنسایا۔
اس میں ہنسنے والی تو کوئی بات نہیں تھی ۔۔امامہ نے کہا۔۔۔
میں جب بھی تمہاری بات نہیں مانتا، نقصان اٹھاتا ہوں۔۔۔اس بار وہ ہنس پڑی۔۔ بڑی خوشی ہوئ یہ بات سن کر۔۔لیکن میں یہ تو نا سمجھوں نا کہ تم آئندہ ہمیشہ میری بات مانا کروگے۔۔اس نے سالار پر چوٹ کی تھی۔
بالکل۔۔۔۔جواب تڑاخ سے آیا تھا۔۔۔
اس بار دونوں ہنس پڑے تھے۔۔۔پھر سالار نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
یہی وہ بات تھی جو کانگو سے آتے ہوئے تم سے کہنا چاہتا تھا۔ 
امامہ کو یاد آگیا تھا اسے ایک اعتراف کرنا تھا واپس آکر۔۔۔۔۔۔۔
اوہ۔۔۔۔میں نے سوچا پتا نہیں کیا کہنا چاہتے ہو۔وہ دھیرے سے ہنسی اور کہا۔ایسا کیا ہوا جو تم یہ بات کر رہے ہو مجھ سے یا تب کہنا چاہ رہے تھے۔۔۔۔
سالار کی سمجھ میں اسکا جواب نہیں آیا۔۔۔
تم مجھ سے شیئر نہیں کرنا چاہتے۔۔امامہ نے اسکی خاموشی کو ایک پہیلی کی طرح بوجھا۔
ابھی نہیں۔۔۔اس نے جواب دیا۔۔
یہاں کب آؤ گے؟ امامہ نے بات بدل دی تھی۔
ابھی فلائٹس بند ہیں کنشاسا کے لیے ۔۔لیکن تم تو پریشان نہیں ہو نا؟؟ سالار نے پوچھا۔۔۔
اب نہیں ہوں اور تم بھی پریشان مت ہونا۔۔مجھے اور حمین کو علاج کی تمام سہولیات مل رہی ہیں۔امامہ نے اس کے لہجے میں نمودار ہوتی تشویش کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔۔۔سالار نے مطمئن ہوکر کچھ دیر جبریل اور عنایہ سے بات چیت کی اور اسکے بعد کال ختم کر کے وہ اس لیپ ٹاپ اور کاغذات کی طرف متوجہ ہوا جو ابھی کچھ دیر پہلے ایک سر بہ مہر تھیلے میں ایک شخص اسکے کمرے میں دے گیا تھا سب کچھ بالکل محفوظ حالت میں تھا۔کوئ چیز ڈیلیٹ یا غائب نہیں ہوئ تھی۔اسکے باوجود سالار کو انباکس میں جاتے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ کوئ اس سے پہلے بھی وہاں تھا کیونکہ انباکس میں موجود سات گھنٹے پہلے تک آنے والی ہر ای میل کھولے اور پڑھے جانے کی نشاندہی کر رہی تھی۔۔انباکس میں موجود ای میلز پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے ایک ای میل پر ایک لمحہ کے لیے اسکا دل رکا۔۔وہ پیٹرس ایباکا کا آخری پیغام تھا۔۔
تمہیں پتا ہے میں اس وقت کہاں کھڑا ہوں۔۔۔ٹائم وارنر سینٹر۔۔۔اور کس لیے؟؟ ۔۔۔میں ابھی کچھ دیر پہلے اینڈرسن کووپر کیساتھ تھا سی این این سٹوڈیوز میں۔اس کے شو میں شرکت سے پہلے ابتدائ بات چیت کے سیشن کے لیئے۔۔۔ مجھے پتا ہے اس وقت تم کہو گے۔۔۔اوہ مائ گاڈ۔ man you did it
جس چیز نے اس وقت سالار کی آنکھوں کو دھندلایا تھا وہ مسکراہٹیں تھی ایباکا کے جملے کے اختتام پر۔۔اینڈرسن کووپر سے ملنے کے بعد میں نے سب سے پہلا میسج تمہیں کیا ہے۔ کیونکہ میں یہاں تک کبھی نہیں پہنچتا اگر مجھے تمہاری صورت میں ورلڈ بنک کی بے ضمیر دنیا میں ضمیر کی جھلک نہ دکھائ دیتی۔میں ان دیووں کے سامنے واقعی بونا تھا جو میرے ملک کو لوٹنا چاہتے تھے لیکن پھر میں تم سے ملا اور مجھے لگا کہ مجھے ابھی ہتھیار نہیں ڈالنے چاہیئے۔۔واشنگٹن پہنچ جاؤ تو مجھے انفارم کرنا ہم دونوں کو ملنا ہے۔کافی دن ہوگئے سٹار بکس کی کافی پیئے۔ اور اس دفعہ بل میں پے کرونگا۔ای میل کا اختتام ایک اور مسکراہٹ سے ہوا تھا۔ایک آنکھ مارتی شرارتی مسکراہٹ سے۔۔۔
کانگو کی تاریخ کو ایباکا نے اپنے خون سے بدلا تھا۔۔۔سالار نے ای میل بند کردیا۔۔۔
اس رات وہ مصلے پر بیٹھا گڑگڑاتا رہا۔۔۔اللہ سے آزمائش میں آسانی کی بھیک،،، سیدھے رستے کی بھیک جس سے وہ بھٹک گیا تھا اور ان لوگوں میں شامل نہ کرنے کی بھیک جن پر اللہ کا عذاب آتا ہے۔۔
فجر کے وقت اسے ڈاکٹر سبط علی کی خیال آیا تھا۔اور خیال نہیں آیا تھا وہ جیسے دیوانہ وار انکی طرف لپکا تھا۔۔۔وہ ایمرجنسی میں ٹکٹ حاصل کر کے اگلی رات پاکستان دوڑا چلا آیا تھا۔ ڈاکٹر سبط علی اس سے ہمیشہ کی طرح گرمجوشی سے ملے اور کچھ حیرانی سے۔۔ وہ کئ سالوں بعد اچانک اس طرح ان کے پاس بھاگتا ہوا آیا تھا۔۔۔انہوں نے سالار سے باری باری سب کی خیریت دریافت کی۔۔۔
امامہ ٹھیک ہے؟ 
جی۔۔۔۔
جبریل کیسا ہے؟ 
وہ بھی ٹھیک ہے۔
عنایہ؟؟ 
وہ بھی۔۔
اور حمین؟؟ 
وہ بھی۔۔۔وہ ایک ایک کے بارے میں بتاتا گیا اور ڈاکٹر سبط علی الحمد للہ کہتے رہے۔پھر انہوں نے پوچھا۔۔۔
اور تم؟؟؟ 
نہیں۔۔۔میں ٹھیک نہیں ہوں۔۔اس بار سالار بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ وہ دم بخود اسے دیکھتے رہے۔۔وہ پہلی بار ایسے ٹوٹ کر رویا تھا۔۔۔۔
مجھ سے ایک گناہ ہو گیا ہے ڈاکٹر صاحب۔اس نے روتے ہوئے اپنا چہرہ رگڑتے ہوئے کہا۔۔۔
مجھے مت بتانا۔۔سالار نے حیران ہوکر انکا چہرہ دیکھا۔۔
آپ کو بتانے کے لیے ہی یہاں آیا ہوں۔۔۔
میں تمہارا گناہ جان کر کیا کروں گا۔۔اب روک نہیں سکتا تمہیں۔۔۔پچھتاوا دیکھ چکا ہوں۔بہتر ہے اپنے اور اللہ کے درمیان رکھو اسے۔۔۔جو پردہ ہے اسے پڑا رہنے دو ۔اللہ غفور الرحیم ہے۔۔انہوں نے ہمیشہ کی طرح تحمل سے انہیں سمجھایا تھا۔۔
میں بتاؤں گا نہیں تو میںری گمراہی ختم نہیں ہونگی۔آپکو اندازہ نہیں میں کتنی تاریکی میں کھڑا ہوں۔۔مجھے اس تاریکی سے خوف آنے لگا ہے۔۔۔میں نے سود والا رزق چن کر اللہ کی حد توڑ دی ہے۔اور مجھے ایک کے بعد ایک پریشانی آرہی ہے۔میری سمجھ میں نہیں آرہا میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توبہ کرلو اور وہ رزق چھوڑ دو۔۔۔انہوں نے بلا توقف بڑی سہولت سے کہا۔
توبہ آسان ہے مگر دلدل سے نکلنا آسان نہیں میرے لیئے۔۔۔
انہوں نے سالار کی بات کے جواب میں کہا۔۔آسان تو دنیا میں کچھ بھی نہیں ہوتا لیکن ممکن بنا لیا جاتا ہے۔۔۔۔
میں سینتیس سال کا ہوں اپنی عمر کے دس سال میں نے دنیا کے بہترین مالیاتی اداروں میں کام کیا سارا رزق سود سے کمایا۔

حمین بہت خوش قسمت ثابت ہوا ہے تمہارے لیے۔سکندر عثمان نے فون پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا۔ وہ گہری سانس لے کر رہ گیا۔
وہ ٹھیک ہے نا؟
ہاں، وہ بالکل ٹھیک ہے۔ سٹیبل ہے۔ سالار نے انہیں بتایا۔ تب سکندر کو سکول کا کوئی چوکیدار یاد آیا تھا۔ جو ان سے کچھ رقم ادھار لینے آیا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ سود پر کوئی رقم لی تھی اس کے ماں باپ نے، اس کی بہنوں کی شادی کے لیے۔ اور وہ ابھی تک سود اتار رہا ہے۔ اب شاید کوئی اور مسئلہ آن پڑا ہے انہیں۔
سکندر عثمان سالار کو بتا رہے تھے اور سالار کو لگا کسی نے اس کے گلے کی رسی میں ایک گرہ اور ڈال دی تھی۔ بعض دفعہ جب اللہ کوئی چیز منہ پر مار کر تنبیہہ کرنا چاہتا ہے تو پھر ہر جگہ سے وہی بات بار بار گشت کرتی ہوئی آتی ہے۔
اس کے پی ایچ ڈی کے لیے امریکہ جانے کے بعد سکندر عثمان ہی گاؤں کے اسکول کو دیکھتے رہے تھے۔ ہفتے میں ایک بار وہاں جاتے اور اسکول کی انتظامیہ اور ملازمین کے معاملات دیکھتے۔
آپ اس کی مدد کریں، اس کا قرضہ اتار دیں۔ سالار نے ان سے کہا۔
ہاں۔ تاکہ وہاں لائن لگ جائے قرض مانگنے والوں کی۔ہمیں کیا پتا وہ سچ بول رہا یا جھوٹ۔ یہاں گاؤں، دیہات میں ستر فیصد لوگ سود پر ایک دوسرے سے قرض لیتے بھی ہیں اور دیتے بھی۔یہ ان کی زندگی اور کاروبار کا سائیکل ہے۔ تم یا میں اسے روک سکتے ہیں نہ بدل سکتے ہیں۔ سالار یہ بات سن کر دنگ رہ گیا تھا کہ وہ وبا کہاں کہاں تک ناسور کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔
اسی رات اپنے ہوٹل میں ورلڈ بنک کے کچھ ساتھیوں سے اس کی ملاقات تھی۔ انہیں کانگو کے لیے اپنا لائحہ عمل ڈسکس کرنا تھا۔ گپ شپ کے بعد وہ اس ہوٹل کے نائٹ کلب میں ان سب کے اصرار پر ایک اسپینی گلوکارہ کو سننے کے لیے گیا تھا اور وہاں جیکی اس سے آ ٹکرائی تھی۔ ایسی جگہ پر اتنی پرکشش عورت کا اس پر یوں فدا ہونا اور اس کے ساتھیوں کا اس کے اطراف سے ایک دم، ایک ایک کر کے غائب ہونا، سالار نظرانداز نہیں کر سکا۔ اسے ہنسی آئی تھی۔
مغرب کو ہر فرسٹریشن کا علاج الکحل اور عورت کی شکل میں کیوں سوجھتا ہے؟ ان کی ہر ترغیب کی ابتدا اور انتہا عورت ہی کیوں ہوتی ہے؟ اور سی آئی اے کو آخر جلدی کس بات کی تھی؟ اس کو ٹریپ کرنا تھا تو اتنا گھسا پٹا منصوبہ تو نہیں بناتے۔مستقبل میں اس کو استعمال کرنے کے لیے کوئی کمزوری چاہیے تھی تو کچھ انتظار تو کرتے۔
وہ وہاں سے اٹھ آیا تھا اور اب وہ اس جہاز پر تھا۔اس سفر میں اس نے یہ طے کیا تھا کہ وہ اپنی نوکری سے کمائے جانے والے پیسوں سے اپنے خاندان کی کفالت نہیں کرے گا۔ اس کے لیے کسی بھی ذریعے سے ان کی کفالت کوئی مسئلہ نہیں تھا۔وہ بہت سی امریکن یونیورسٹیز میں لیکچرز کے لیے مدعو ہوتا رہا تھا۔ اور اس کے لیے اسے معاوضہ بھی دیا جاتا رہا تھا۔
اسے اب ورلڈ بنک کی نائب صدارت صرف دو چیزوں کے لیے درکار تھی۔ وہ قرض سر سے اتار دیتا جو ایباکا نے اس کے لیے چھوڑا تھا اور وہ کچھ مہلت حاصل کر لیتا، سود سے پاک پہلے بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی تشکیل کے لیے۔ مقصد بڑا تھا۔وسائل بھی اتنے ہی درکار تھے۔ دل کہتا تھا یہ بے وقوفی ہے اور ضمیر کہتا تھا کہ راستہ ہے تو یہی ہے۔
----------------------------------
اس کا ہاتھ پکڑے اب وہ اسے کسی راستے پر لے جانے لگا تھا۔ وہ ایک جھیل تھی، ہلکی نیلی رنگت کے شفاف پانی کی ایک جھیل۔ جس کے پانی میں رنگ برنگی مچھلیاں تیرتی ہوئی وہ دیکھ سکتی تھی۔
اور اس کی تہہ میں بے شمار رنگوں کے موتی اور سیپیاں۔۔۔۔۔۔۔ جھیل کے چاروں اطراف پر پھول تھے۔اس کے قدموں کو روکنے والی شے جھیل کے کنارے پر موجود لکڑی کی وہ خوبصورت کشتی تھی۔
یہ میری ہے۔ وہ اس سے ہاتھ چھڑا کر بچوں کی طرح بھاگتی ہوئی کشتی کی طرف گئی۔ وہ اس کے پیچھے لپکا۔ وہ دونوں کشتی میں بیٹھ گئے۔ ہوا کا ایک تیز جھونکا کشتی کو پانی میں لے گیا۔ دونوں بے اختیار ہنسے تھے۔ پانی پر تیرتا ایک ہنس اس کی طرف آ گیا تھا۔پھر دوسرا۔۔۔۔۔۔۔ پھر تیسرا۔۔۔۔۔۔۔ وہ کشتی کے گرد اب دائرہ بنا کر تیر رہے تھے۔ وہ پاس سے گزرتے ہر ہنس کو چھوتی کھلکھلا رہی تھی۔
امامہ ہڑبڑا کر اٹھی تھی نیند سے۔ اس نے اپنی کلائی پر کسی کا لمس محسوس کیا تھا۔ سالار اس کے قریب کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ خواب آور دواؤں کے زیر اثر ہوتے ہوئے بھی ایک دم اپنا ہاتھ اس کے ہاتھوں سے کھینچتی ہوئی کہنیوں کے بل اٹھ کر بیٹھنے لگی تھی سالار نے اسے روکا۔
اٹھو مت!
تم واقعی آگئے ہو؟ اسے اب بھی جیسے یقین نہیں آیا تھا۔
وہ دھیرے سے ہنسا۔ تمہیں بتایا تو تھا کہ آجاؤں گا۔
یہ تو نہیں بتایا تھا کہ کب آؤ گے؟ اور تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں؟
بس، میں نے سوچا تمہاری نیند خراب ہو گی۔ وہ مدھم آواز میں بات کر رہا تھا۔ دوسرے بستر پر جبریل اور عنایہ گہری نیند سو رہے تھے۔
تمہیں کیا ہوا ہے؟ امامہ نے سالار کے چہرے کو پہلی بار غور سے دیکھا۔اس کی آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ حلقے اور آنکھیں سرخ اور یوں سوجھی ہوئی تھی جیسے کئی راتوں سے نہیں سویا ہو۔
کچھ نہیں۔ بس اتنے دن گھر سے دور رہا، شاید اس لیے پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار نے اس سے آنکھیں ملائے بغیر کہا۔امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ اسے یک دم اپنا خواب یاد آ گیا۔
سالار تمہیں پتا ہے، ابھی میں کیا خواب دیکھ رہی تھی؟ سالار نے چونک کر اسے دیکھا۔
کیا؟
میں نے خواب میں ایک گھر دیکھا، جھیل کنارے۔ جہاں تم مجھے لے کر جا رہے تھے، ایک کشتی میں بٹھا کر۔
وہ دم بخود رہ گیا تھا۔ جو گھر اس نے امریکہ میں اس کے لیے mortgage کیا تھا، وہ سمندر کے ایک جھیل نما ٹکڑے کے کنارے تھا۔ اس نے ابھی امامہ کو بتایا نہیں تھا۔ وہ اسے سرپرائز دینا چاہتا تھا اس کی اگلی سالگرہ پر۔
جس جھیل کے کنارے وہ گھر تھا، وہ بے پناہ خوبصورت تھی۔ سفید کنول کے پھولوں سے بھری ہوئی، نیلے پانی کی جھیل۔جس میں ہر طرف راج ہنس تیر رہے تھے۔ اور پانی میں رنگ برنگی مچھلیاں۔
وہ بول نہیں پا رہا تھا۔ جس جھیل کنارے اس نے وہ گھر خریدا تھا وہ بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ ایک لمحہ کے لیے اس نے سوچا شاید امامہ کو اس گھر کا پتا لگ گیا ہے، شاید اس نے لیپ ٹاپ میں اس گھر کی تصویر دیکھ لی تھی اور اب جان بوجھ کر اسے چھیڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔
لیکن ایسا تھا تو اس نے لیپ ٹاپ کب دیکھا تھا؟ پچھلے کئی دنوں میں تو یہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس کا لیپ ٹاپ اس کے پاس تھا۔
اور گھر کیسا تھا؟ وہ کریدے بغیر نہ رہ سکا۔
شیشے کا۔
سالار کے رونگٹے کھڑے ہونے لگے۔ وہ گھر بھی شیشے کا تھا۔
اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟ امامہ کو اس کی نظریں عجیب سی لگی۔
اس نے امامہ سے نظریں ہٹا لی۔ وہ اسے یہ نہیں بتا سکا کہ کنشاسا آنے سے پہلے ڈاکٹر سبط علی سے مل کر واشنگٹن آنے کے بعد، اس گھر کی mortgage کینسل کروا چکا تھا۔ امامہ کے خوابوں کا گھر اس کے ہاتھ سے جا چکا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اسے عجیب پچھتاوا ہوا۔ اسے یہ بھی خیال آیا تھا کہ وہ اس گھر کو واپس حاصل کر لے، فوری طور پر امریکہ بات کر کے۔ وہ اس وقت جس پوزیشن میں تھا وہ یہ کرسکتا تھا۔ مگر دوسرے ہی لمحے اس نے ذہن کو جھٹکا تھا۔یہ صرف سی آئی اے نہیں تھی جو اس کے لیے جال بچھا رہی تھی۔ شیطان بھی وہی تھا۔ اس کے بندوں کو اپنے بندوں میں بدلنے کے لیے کمر بستہ۔ جال سی آئی اے نے عورت کا پھینکا تھا تو شیطان نے گھر کا۔زن، زر، زمین۔ انسان انہیں تین چیزوں کی وجہ سے سردار بنتا ہے اور انہیں کی وجہ سے سر دار تک جاتے ہیں۔ سالار سی آئی اے کو ”اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم“ کہہ کر جوتا مار آیا تھا تو کیسے ممکن تھا شیطان خود اٹھ کر سامنے نہ کھڑا ہوتا۔ اور شیطان کے منہ پر تھوک کر آنے والا جس کی پناہ اور حفاظت کا دعوی کر کے وہ آیا تھا یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ رب اپنے بندے کی حفاظت کے لیے وہاں نہ ہوتا۔وہ حافظ قرآن تھا۔ گناہ پر اس کے لیے سزا زیادہ تھی تو نیکی پر اس کے لیے انعام بھی بے پناہ۔۔۔۔۔
حمین کیسا ہے؟ وہ ایک دم بات کو وہی چھوڑ کر حمین کے انکوبیٹر کی طرف آیا تھا۔ شیطان نے افسوس سے ہاتھ ملے۔ وہ بات چھوڑ کر کیسے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ جس برق رفتاری سے آیا تھا اور پل بھر میں غائب ہوا، بس وسوسہ اور وہم ڈالنا تھا، وہ ڈال گیا۔
بالکل ٹھیک ہے، دیکھو! سو رہا ہے۔ امامہ نے وہی تکیے سے ٹیک لگائے کہا۔
سالار نے انکوبیٹر کو کھول کر پہلی بار حمین سالار کو گود میں لیا۔ اسے جھکے جھکے سینے سے لگایا اور چوما۔ وہ کمزور بچہ، باپ کے لمس پر کسمسایا پھر اس نے آنکھیں کھولی۔ سیاہ موٹی گول آنکھیں۔ اس نے باپ کو دیکھا۔ پلکیں جھپکائے بغیر وہ اسے دیکھتا رہا۔سالار بھی مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔ پھر اس کے ماتھے پر چند بل آئے تھے، ناک اوپر چڑھی اور پھر حمین نے پوری قوت سے گلا پھاڑ کر رونا شروع کر دیا۔ اس کی آواز اتنی باریک اور تیز تھی کہ چند لمحوں کے لیے سالار ہکا بکا رہ گیا۔ اس کے ننھے وجود کے اندر اتنی جان کہاں سے آئی تھی۔ جبریل اور عنایہ اس کی آواز پر ہڑبڑا کر اٹھے تھے۔ پیڈی ایک دم اندر آ گئی۔ سالار حمین کو واپس انکوبیٹر میں رکھنے کی جدوجہد میں مصروف تھا لیکن وہ ایک ہفتے کا بچہ ایک بار انکوبیٹر سے نکلنے کے بعد دوبارہ واپس اندر نہ جانے کے لیے جتنی جدوجہد کر سکتا تھا، وہ کر رہا تھا۔ اس کا بس چلتا تو اپنے ہاتھوں کی پشت، سینے، ناک اور جسم کے ہر حصہ پر لگی نالیوں اور تاروں کو کھینچ کر اتار دیتا۔ وہ ان میں سے کسی چیز کو تو نہیں اتار سکا لیکن وہ ہلکا سا ڈائپر اس کے جسم کے مسلسل جھٹکوں سے کھل گیا تھا جو صرف رسماً ہی اسے باندھا گیا تھا۔ وہ یک دم ٹارزن کے بچے جیسے حلیے میں آ گیا تھا۔ بستر سے چھلانگ لگا کر باپ کی طرف بھاگتے جبریل نے اپنے چھوٹے بھائی کے اس دلیرانہ اقدام پر بے اختیار چیخ مار کر آنکھوں پہ ہاتھ رکھا۔
Baba! baby is naked
بابا! بے بی ننگا ہے
وہ آنکھیں بند نہ کرتا تو بے شرمی کے اگلے مظاہرے پر یقیناً پتھر کا ہو جاتا۔ کیونکہ بے بی اب اس پانی سے فراغت حاصل کر رہا تھا جو ٹیوبز کے ذریعے اس کے اندر منتقل کیا جا رہا تھا۔ پیڈی کو حمین تھماتے ہوئے سالار بے یقینی سے پیشاب سے بھیگی اپنی شرٹ کو دیکھ رہا تھا۔ یہ کارنامہ اس کے پہلے دو بچے نہ کر سکے تھے۔
تم نے پتا نہیں اسے کیسے پکڑا ہے۔ کتنے سخت ہاتھ لگائے ہیں کہ وہ اس طرح رو رہا ہے۔ پیڈی! لیڈی ڈاکٹر کو بلاؤ؟ بلکہ اسے مجھے دو۔ امامہ اس کی حالت کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اپنے روتے ہوئے بیٹے کی طرف متوجہ، اپنے بستر سے بے قراری کے عالم میں اتر رہی تھی۔
بابا میں اپنی آنکھیں کھولو؟ جبریل اندھوں کی طرح ہاتھ پھیلائے باپ کو ڈھونڈتے، لڑکھڑاتے قدموں سے آنکھیں بند کیے سالار کی طرف آیا تھا۔ وہ اس چھوٹے بھائی کی بے پردگی دیکھنے کو تیار نہیں تھا جو اس وقت لٹل سٹوارٹ کی طرح انکوبیٹر سے باہر کودنے کو تیار تھا۔
عنایہ ایک بار ہڑبڑا کر جاگنے کے بعد سالار کی طرف متوجہ ہوئے بغیر دوبارہ سو چکی تھی۔ سالار نے جبریل کے پھیلے ہاتھوں کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
Yes! you can
اس نے جبریل کو خود سے لپٹائے ہوئے بھرائی آواز میں کہا۔ جبریل نے آنکھیں کھول کر سب سے پہلے چور نظروں سے انکوبیٹر کو دیکھا جہاں اب حمین پیڈی اور امامہ کے وجود کے پیچھے چھپ گیا تھا۔ 
بابا آپ کیوں رو رہے ہیں؟ باپ کی طرف متوجہ ہوتے ہی اس نے پہلی نظر میں اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے۔ اور اس کے جملے نے امامہ کو بھی پلٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔
سالار کی پشت اب اس کی طرف تھی اور وہ جبریل کو لپٹائے چومے جا رہا تھا
--------------------------------
گھر مکمل طور پر جل گیا تھا۔ نقصان کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ مگر یہ ورلڈ بنک کی طرف سے فراہم کردہ رہائش گاہ تھی۔ سالار کنشاسا پہنچنے کے اگلے ہی دن اس گھر کو دیکھنے آیا تھا۔ لوٹ مار کے بعد اب وہاں جو بچا تھا وہ ملبہ اور راکھ تھی۔ وہ پھر بھی خوش نصیبوں میں تھا۔ کیونکہ اس ملبے میں اس کے کسی پیارے کی ہڈیاں نہیں تھی۔ گھر کو لگنے والی آگ میں وہ چھوٹی موٹی ساری جیولری، سیونگ، سرٹیفکیٹس اور اس کے بچوں کی انشورنس کے پیپرز راکھ ہوئے تھے یا لوٹ لیے گئے تھے۔ لیکن اس چھوٹی موٹی جیولری کی قیمت بھی چالیس لاکھ سے کم نہیں تھی۔ اس گھر میں اور بھی بہت کچھ چلا گیا تھا جس کا امامہ کو صدمہ تھا لیکن سالار کو نہیں۔ اس کے لیے یہ کافی تھا کہ اس کا خاندان سلامت تھا۔
وہ ایمبیسی سے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں منتقل ہو گئے تھے۔
میں چاہتا ہوں، جب ڈاکٹر حمین کو سفر کے قابل قرار دیں تو تم بچوں کو لے کر پاکستان چلی جاؤ۔ 
سالار نے ایک رات امامہ سے کہا تھا۔
کیوں؟ وہ ناخوش ہوئی تھی۔
کیونکہ جو کانگو میں ہو چکا ہے۔ میں اب تم لوگوں کے لیے کوئی رسک نہیں لے سکتا۔
کانگو اتنا غیر محفوظ ہے تو تم یہاں کیوں رہنا چاہتے ہو؟ تم بھی واپس چلو۔ امامہ نے جواباً کہا تھا۔ سالار گہرا سانس لے کر رہ گیا۔ میں فی الحال نہیں جا سکتا۔
فی الحال؟ امامہ نے جواباً پوچھا۔ 
اگلے پانچ سال۔
ہرگز نہیں۔
امامہ نے کافی کا کپ رکھ دیا۔
تمہاری ضد مجھے کمزور کر دے گی۔ تم اور بچے یہاں رہیں گے تو میں بہت پریشان رہوں گا۔ اپنے کام پر دھیان نہیں دے پاؤں گا۔ تم لوگ محفوظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
تمہیں لگتا ہے تم یہاں کانگو میں بیٹھے ہو گے تو میں اور بچے پاکستان میں عیش کریں گے؟ تم اپنے سکون کے لیے مجھے بے سکون کرنا چاہتے ہو۔ میں نہیں جاؤں گی سالار۔ مجھے وہی رہنا ہے جہاں تم رہو گے۔اگر یہاں خطرہ آئے تو پھر سب کے لیے آئے اور اگر تحفظ ہو تو بھی سب کے لیے۔
وہ اس کی شکل دیکھ کر رہ گیا۔ وہ جانتا تھا وہ اس ضد سے نہیں ہٹے گی۔
تم کچھ کرنا چاہ رہے ہو، جسے مجھ سے چھپا رہے ہو، لیکن تم چھپا نہیں سکو گے میں جان جاؤں گی تم نہ بھی بتاؤ۔ وہ اب شکی بیویوں کی طرح اسے کرید رہی تھی۔
کچھ نہیں۔ مجھے کیا کرنا ہے۔ جنگلوں میں مارا مارا پھر رہا ہوں، ایباکا کے ساتھیوں سے ملنے اور مذاکرات کرنے کے لیے۔ سالار نے بات ٹالنے کی کوشش کرتے ہوئے ہنس کر کہا۔
ایک مہینے تک پھر بھی پاکستان چلیں گے۔
تم چلو گے؟ امامہ نے بیچ میں ہی اس کی بات کاٹ دی۔
ہاں، چلوں گا یار! اب اتنی بھی بے اعتباری ٹھیک نہیں۔
اس نے جیسے برا مانتے ہوئے کافی کا گھونٹ لے کر کپ رکھ دیا۔
*-------------------------------*
کانگو کے عوام کے لیے سالار کا چہرہ استحصالی سامراج کا چہرہ نہیں تھا بلکہ وہ ان کے لیے ایباکا کا قریبی اور قابل اعتماد ساتھی کا چہرہ تھا۔ ایباکا کے خاندان نے اس کی موت کے بعد کسی بھی غیر ملکی ادارے یا حکومت کے نمائندوں سے ملنے سے انکار کر دیا تھا لیکن سالار کی ملاقات کی درخواست کو اس نے رد نہیں کیا وہ اس سے بڑی خوشدلی سے ملے۔سالار نے ایباکا کی آخری ای میل اسے دی تھی جو اس نے سالار کو کی تھی۔ اس ای میل کا پرنٹ آؤٹ اگلے دن بڑے بڑے مقامی اخبارات میں شائع ہوا۔ 
افریقہ اب پیٹرس ایباکا کی جسد خاکی کے استقبال اور تدفین کی تیاریاں کر رہا تھا۔ امریکہ حکومت ابتدائی طور پر میت کو واپس نہیں بھیجنا چاہتی تھی کیونکہ انہیں خدشہ تھا پیٹرس ایباکا کی تدفین کے لیے اکٹھا ہونے والا لاکھوں کا مجمع ایک بار پھر سے کانگو میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کر سکتا ہے۔ مگر یہ سالار سکندر کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں ایباکا کی فیملی کا دباؤ اور اصرار تھا کہ وہ ایباکا کی میت کی واپسی ممکن بنائے اور وہ اس بات کی گارنٹی دینے پر تیار تھے کہ ایباکا کی تدفین پرامن ہو گی۔ سالار نے ورلڈ بنک کی انتظامیہ کے ذریعے امریکی حکومت کو یہ بات باور کروائی کہ ایباکا کی لاش کی باعزت واپسی کانگو کے عوام کے دلوں میں اس غصے کو ختم کرنے میں معاون ہو گی۔ امریکی حکومت دو ہفتے بعد اس کی میت بھیجنے پر تیار ہو گئی تھی۔
ورلڈ بنک کی انتظامیہ نے سالار کو ایباکا کی آخری رسومات میں شریک ہونے سے روکا تھا جس کے لیے اسے ایباکا کی فیملی نے مدعو کیا تھا اور سالار نے اس دعوت نامے کو قبول کر لیا تھا۔
امامہ بھی اس فیصلے سے ناخوش اور خوفزدہ تھی اور اسے سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سالار اس کی منت سماجت کے دوران ائیر پورٹ جانے سے پہلے دو نفل پڑھنے کے لیے کھڑا ہو گیا تھا۔ وہ بے بسی سے بچوں کو لیے بیٹھ گئی۔
اگر مجھے کچھ ہو گیا تو تم بچوں کو لے کر فوری پاکستان چلی جانا۔ اس انتظار میں مت بیٹھی رہنا کہ میری ڈیڈ باڈی مل جائے۔
اس نے نفل پڑھنے کے بعد اس سے پہلا جملہ یہی کہا۔
امامہ کے دل پر چوٹ پڑی۔ تم بڑے بے رحم ہو۔ اس نے آنکھیں رگڑتے ہوئے کہا۔
تم سے کم۔ سالار نے ہنستے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگایا۔
جبریل باپ کے ساتھ ہی دروازے تک آیا۔ دروازے سے نکلتے ہوئے اس نے امامہ کو خدا حافظ کہا تو اس نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
تم واپس آجاؤ گے نا؟ وہ برستی آنکھوں سے منت بھرے انداز میں کہہ رہی تھی۔
اس نے امامہ سے نظریں ملائے بغیر اس کا ہاتھ نرمی سے ہٹا کر چوما۔ ان شاءاللہ! پھر جھک کر اپنی ٹانگ سے چپکے جبریل کو اٹھاتےہوئے اس کا منہ چوما اور کہا اپنی ممی اور بہن کا خیال رکھنا۔ 
I always do baba
بابا میں ہمیشہ ہی رکھتا ہوں۔ جبریل نے اسے یقین دلایا۔
سالار نے ایک بار پھر اس کا منہ چوما۔ آئی ایم پراؤڈ آف یو! سالار نے اسے گود سے اتار دیا اور سب کو خدا حافظ کہا۔ دروازے میں برستی آنکھوں کے ساتھ کھڑی امامہ کو دیکھے بغیر۔ 
----------***********-------
لاکھوں لوگوں کے ہجوم میں سالار نے ایئر پورٹ پر ایباکا کی میت وصول کی۔ کوئی ہتھیاروں سے مسلح اس قبائلی ہجوم میں جانے کا رسک نہیں لینا چاہتا تھا جن کو جان لینے اور دینے کے علاوہ کچھ نہیں آتا تھا۔۔
وہ وہاں نہتا تھا۔ اور تن تنہا اسی دلیری سے اپنے ساتھ ایک بھی گارڈ لیے بغیر اندر چلا گیا تھا۔
دنیا میں کروڑوں ٹی وی اسکرینز پر لائیو نشر ہونے والا وہ ایونٹ لاکھوں کے اس ہجوم میں صرف ایک شخص کو فوکس کیے ہوئے تھا۔ اور بار بار۔وہ اس مجمع کے سامنے بیٹھا تھا جس میں سے کوئی بھی اس پر گولی چلاتا تو یہ بھی پہچانا نہیں جا سکتا تھا کہ وہ کہاں تھا اور کون تھا۔
اگر وہ مجمع اس پر چڑھ دوڑتا تو اللہ کے سوا کوئی نہیں تھا۔ جو اس مجمع کے ہاتھوں اس کی بوٹیوں کے بھی ٹکڑے ہونے سے روک سکتا۔ اور یہ احساس سالار کو اسٹیج پر بیٹھے ان لاکھوں لوگوں کے سامنے ہو رہا تھا۔ اس کے دل پر لاکھوں لوگوں کی ہیبت طاری ہو رہی تھی اور اس کی زبان پر قرآنی آیات کا ورد تھا۔
امریکہ میں سی آئی اے اور ورلڈ بنک کے ہیڈ کوارٹرز میں اسکرین پر نظر آنے والا وہ شخص ان سب کو اپنی ہیبت میں لے رہا تھا۔ جن کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا تھا۔ دلیری ہو تو ایسی۔ جرات ہو تو ایسی۔وہ گنگ تھے۔ دم بخود اور مرعوب۔
وہ شخص اب پیٹرس ایباکا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے نشست سے اپنا نام پکارے جانے پر اٹھ رہا تھا۔ لاکھوں لوگوں کا مجمع اس کے لیے تالیاں بجا کر داد و تحسین دے رہے تھے۔ وہ اس وقت پوری دنیا کے کیمروں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اسٹیج کے بالکل اوپر کافی بلندی پر ایک بلیک ہاک ہیلی کاپٹر میں سی آئی اے کے کچھ کمانڈوز اس مجمع کو ٹی وی اسکوپس سے مانیٹر کر رہے تھے۔ چند اور بلیک ہاکس آس پاس کی عمارتوں کو۔ وہ سالار سکندر کی حفاظت اور زندگی کے لیے اس وقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ سالار سکندر روسٹرم کے پیچھے پہنچ چکا تھا۔ مجمع کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ اب وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کے بعد قرآنی آیات کی تلاوت کر رہا تھا۔۔
**********************
وہ ٹی وی آن نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اسے بے چینی کے باعث بند کر کے بھی نہیں بیٹھ سکتی تھی۔ وہ سرد اور بے حس و حرکت وجود کے ساتھ بت بنی اس شخص کو ٹی وی پر دیکھ رہی تھی۔ اگر اس کے وجود میں کہیں حرکت تھی تو وہ اس کے دل کی دھڑکن تھی۔ سالار سکندر نے زندگی میں بہت ساری تقریریں کی تھی لیکن ان میں سے کوئی تقریر لاکھوں کے ایسے مجمع کے سامنے نہیں تھی۔ جس سے وہ انسانی ہمدردی کے علاوہ کوئی تعلق نہیں رکھتا تھا۔ وہ مقامی زبان میں ان سے بات کر رہا تھا اور وہ ترجمہ ہو کر اس کے ساتھ اسکرین پر آرہا تھا۔ نہ امامہ کو اندازہ تھا اور نہ سالار سکندر کو کہ وہ آج افریقہ کے اس سیاہ فام مجمعے کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا آخری خطبہ دہرائے گا۔ اس نے ہمیشہ کی طرح بسم اللہ سے تقریر کا آغاز کیا پھر قرآنی آیات سنائی کہ عزت اور ذلت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس کے بعد اس نے سر اٹھا کر مجمع کو دیکھا۔ ایک لمحے کے لیے وہ بھول گیا کہ اسے کیا کہنا تھا۔ اس نے دوبارہ روسٹرم پر رکھے اس کاغذ پر نظر دوڑائی جس پر اس نے تقریر کے نکات لکھے تھے۔وہ ہمیشہ صرف نکات لکھ کر ہی تقریر کیا کرتا تھا۔اسے اپنی یاداشت اور علم پر ایسا ہی اندھا یقین تھا۔اور اب وہ بالکل خالی ذہن کے ساتھ ہونقوں کی طرح اس مجمع کو دیکھ رہا تھا جو اس کے اگلے الفاظ کے منتظر تھے۔ اس کے پچھلے الفاظ ان کے سر سے گزرے تھے۔ افریقہ کے وہ قبائل جو اس وقت وہاں اکھٹے تھے وہ آج بھی اللہ کی عبادت نہیں کرتے تھے نہ ہی اللہ کے وجود کو مانتے اور پہچانتے تھے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب اسے آخری خطبہ یاد آیا تھا۔۔میں ایک ایسی تنظیم کا حصہ ہوں جنہوں نے ماضی میں اس خطے اور آپ لوگوں کیساتھ بہت زیادتیاں کی ہیں آپ لوگوں کو کمتر سمجھا گیا۔ آپ لوگوں کے حقوق چھینے گئے اور آپ لوگوں کے وسائل پر ناجائز قبضہ کیا گیا۔۔میں ان سب کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہوں کیونکہ میں ایک ایسے مذہب کا ماننے والا ہوں جو یہ سب گناہ قرار دیتا ہے میں ایک ایسے مذہب کا ماننے والا ہوں جس کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امانتوں میں خیانت سے منع کرتے تھے وہ اپنے بھائی کے لیئے بھی وہی پسند کرنے کی تلقین کرتے تھے جو اپنے لیئے۔۔۔۔۔جنہوں نے بتایا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئ برتری نہیں۔ وہ انسانی مساوات کی بات کرتے تھے۔ذات پات، رنگ و نسل کو نہیں مانتے تھے۔سالار سکندر حافظ تھا، مبلغ نہیں تھا۔ مقرر تھا، مفسر نہیں تھا۔۔زندگی میں کبھی اس نے اپنے پروفیشن میں مذہب کو لانے کی کوشش نہیں کی تھی وہ آج بھی اسی نیت سے وہاں آیا تھا پر اس وقت جو زبان سے نکل رہا تھا وہ دل کی آواز تھی جو دلوں تک جا رہی تھی۔۔
افریقہ میں غیر انسانی حالات میں رہنے والا وہ سیاہ فام مجمع اس کی باتیں سن رہا تھا اور اب پہلی بار ساکت و صامت خاموشی کے ساتھ سن رہا تھا۔۔۔اور اس خاموشی کو ایک بے اختیار داد و تحسین نے توڑا تھا یہ داد سالار سکندر کے جملے پر نہیں ملی تھی یہ داد خاتم النبیین کے آخری خطبے کے ایک بنیادی فلسفے کو ملی تھی۔آج چودہ سو سال بعد بھی وہ پیغام دلوں کو تسخیر کر رہا تھا ان پر مرہم بھی رکھ رہا تھا۔اس لیئے کہ وہ پیغام انسانیت کے لیئے تھا ۔ہیڈ کوارٹرز میں بیٹھے لوگ اب بھی گنگ تھے۔لاکھوں کا وہ مجمع اس آدمی کو اپنے رعب میں نہیں لے پا رہا تھا لیکن اسکی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ اس لاکھوں کے مجمعے کو جیسے اس کی مٹھی میں لے آئے تھے۔۔سالار نے وہ اسم اعظم پڑھتے ہوئے افریقہ کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا تھا جو چودہ سو سال پہلے بھیجا گیا تھا۔
امامہ بھی دم بخود تھی۔ وہ شخص کس جگہ کھڑا کیا دہرا رہا تھا ۔۔۔
یہ لوگ بابا کے لیے تالیاں کیوں بجا رہے ہیں؟؟ وہ جبریل کے سوال پر جیسے چونک پڑی۔امامہ اسکا چہرہ دیکھ کر رہ گئ۔تالیوں کی گونج اب تھم رہی تھی۔وہ بہت دیر تک بجتی رہی تھی۔اتنی دیر تک کہ سالار کو یاد آگیا تھا کہ اسے آج وہاں کیا کہنا تھا۔لیکن اب اپنے بھولے ہوئے الفاظ یاد آنے پر اتنی خوشی نہیں ہوئی ۔۔۔تاثیر اس میں تھی جو بھول کر یاد آیا تھا۔۔۔۔
میں افریقہ میں اپنے مذہب کے انہیں اصولوں اور اسی سوچ کیساتھ کام کرنے آیا ہوں اور میں آپ لوگوں سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر مجھے یہ احساس ہوا کہ میں ان اصولوں پر آپ لوگوں کی فلاح کے لیے کام نہیں کرسکتا تو میں یہاں سے چلا جاؤں گا۔لیکن میں ان طاقتوں کے ہاتھ مضبوط نہیں کرونگا جنکے خلاف پیٹرس ایباکا نے جنگ کی اور جن سے لڑتے ہوئے اس نے جان دی۔لیکن ایباکا نے اپنی جان اس لیے قربان نہیں کی کہ وہ اپنے لوگوں کو بدترین حالت میں جیتا دیکھے وہ اپنے لوگوں کے لیئے خواب دیکھتا تھا۔۔۔ایک اچھی زندگی کا خواب۔۔۔۔۔سالار سکندر اب انہیں ایباکا کی آخری ای میل سنا رہا تھا۔
لاکھوں کا وہ مجمع جو ناقابل تسخیر پہاڑ لگ رہا تھا اب تسخیر ہو چکا تھا۔وہ سالار کے الفاظ پر رو رہا تھا۔۔تالیاں بجا رہا تھا۔اسکے الفاظ پر نعرے لگا رہا تھا۔
سالار اپنی تقریر ختم کر کے روسٹرم سے ہٹ چکا تھا۔واپس اپنی نشست کی طرف جاتے ہوئے لاکھوں کا وہ مجمع سالار سکندر کا نام پکار رہا تھا۔آنسو صرف اس مجمع کی آنکھوں سے نہیں بلکہ امامہ کی آنکھوں سے بھی روانہ ہو چکے تھے۔وہ مجمع سالار کو اپنا نجات دہندہ کے طور پر دیکھتے ہوئے رو رہا تھا اور امامہ اس نجات دہندہ کی جان ایک بار پھر بچ جانے پر ۔ ۔۔۔۔
آپ کیوں رو رہی ہیں ممی۔۔جبریل نے کچھ پریشان ہو کر ماں کو دیکھا ۔۔امامہ نے کچھ بھی کہے بغیر اسے خود سے لپٹا لیا تھا۔
----------------------------------
تمہیں پتا ہے تمہارے اندر خودکشی کرنے کی خواہش آج بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح سترہ سال پہلے تھی۔ سالار سکندر نے لیپ ٹاپ پر آخری ای میل کا جواب دیتے ہوئے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے امامہ کی آخری پھٹکار سنی ۔۔۔وہ اب اپنا کام نمٹا چکا تو امامہ کی طرف متوجہ ہوا۔وہ پریشان تھی اسے اندازہ تھا۔جو کچھ آج ہوا تھا اس کے بعد اس کے ذہنی تناؤ کا اندازہ لگا سکتا تھا۔
تم ٹھیک کہتی ہو۔۔۔سالار نے لیپ ٹاپ بند کر کے بیڈ کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
تمہیں پتا ہے مجھے تمہاری کیوں ضرورت ہے اور میں کیوں فکرمند رہتی ہوں تمہارے لیے۔۔؟؟
وہ اسکے اعتراف پر برہم ہوئ تھی۔کیونکہ بچے پریشان ہوجاتے ہیں۔تم کوئی سپرمین نہیں ہو جو وہ تمہارے کمالات دیکھ کر تالیاں بجائیں گے۔تمہیں کچھ ہوگا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بات کرتے کرتے روہانسی ہوگئ۔ بات مکمل نہ کرسکی۔وہ گہری خاموشی کیساتھ اسکی بات سنتا رہا۔پھر اس نے سر اٹھا کر امامہ کو دیکھا جو اسکے بالمقابل کھڑی تھی اور وہ بستر پر بیٹھا ہوا تھا۔۔
تم ٹھیک کہتی ہو۔جواب پہلے سے مدھم آواز میں آیا تھا۔۔۔وہ اور برہم ہوئ۔
میں مذاق نہیں کر رہی۔۔اسے لگا جیسے ہمیشہ کی طرح وہ اسے زچ کر رہا ہے۔
اب اگر ایک بار پھر تم نے یہ جملہ دہرایا تو میں اس کمرے سے چلی جاؤں گی تمہیں میری ہر بات احمقانہ لگ رہی ہے۔
یو آر رائٹ۔۔ وہ اس بار زچ ہوکر جھلاتے ہوئے ہنس پڑی تھی۔پھر اسکے پاس بستر پر بیٹھ گئ۔۔۔
آخری خطبہ سنا رہے تھے آج تو سارا سناتے ادھوری بات کیوں کی۔۔وہ اب اس پر طنز کر رہی تھی۔
ہمت نہیں پڑی۔۔۔اسی لیے تو کہتا ہوں تم جو بھی کہتی رہی ہو ٹھیک کہتی رہی ہو کل بھی اور آج بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امامہ اس کا منہ دیکھ کر رہ گئ۔
پیٹرس ایباکا اپنی زندگی کے آخری لمحے تک امن کے لیئے لڑا۔وہ نیویارک کی ایک سڑک پر اپنی جان بچانے کے لیے لڑتا رہا انہی طاقتوں کے ہرکاروں کیساتھ جنکے ساتھ تم کھڑے ہو اور جنکے ساتھ ملکر تم افریقہ کی تقدیر بدلنا چاہتے کو۔۔۔اس نے سالار کو وہ آئینہ دکھایا جو صرف اسے امامہ ہاشم ہی دکھا سکتی تھی تم سمجھتے ہو وہ تمہیں یہ سب کرنے دینگے؟؟؟ 
تم سمجھتی ہو میں یہ سب کرنا چاہتا ہوں؟؟ اس نے جواباً اسی انداز میں پوچھا۔۔۔وہ بول نہیں سکی۔۔۔پھر امامہ نے پوچھا۔۔۔۔
پھر تم کیا کرنا چاہتے ہو۔
میں پہلا اسلامی مالیاتی نظام بنانا چاہتا ہوں جو سود سے پاک ہو لیکن پوری دنیا کے لیے ہو باضابطہ قابل عمل اور جو اس کی جگہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔جواب اتنا غیر متوقع تھا کہ وہ حیرانی سے سالار سکندر کا چہرہ دیکھ کر رہ گئ۔
تمہیں لگتا ہے میں نہیں کر پاؤں گا؟؟؟ بہت دیر تک ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اس خاموشی کو سالار نے توڑا تھا۔
یہ کام دنیا میں اگر کوئ کر سکتا ہے تو وہ صرف تم کر سکتے ہو سالار۔
اس بار گنگ ہونے کی باری سالار کی تھی۔یہ جواب نہیں وہ اعتماد تھا جس کی اسے ضرورت تھی۔اسکا خون بڑھا۔۔اور سیروں کے حساب سے بڑھا تھا۔
تھینک یو۔۔۔امامہ کی طرف دیکھے بغیر سر جھکائے سالار نے اپنا تشکر اس تک پہنچا دیا۔شکریہ کی ضرورت سمجھ میں نہیں آئ تھی لیکن وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی یوں جیسے وہ منتظر تھی کہ وہ کچھ کہے۔۔۔۔۔
تمہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔۔بلآخر سالار نے کہا ۔وہ ہنس پڑی یوں جیسے اس نے کوئ عجیب بات کردی ہو۔۔۔
تم مشکلات کی بات مجھ سے کر رہے ہو سالار؟ زندگی میں بڑے برے دن گزارے ہیں میں نے۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا۔۔۔۔۔
لیکن وہ برے دن میری وجہ سے نہیں آئے تھے اب شاید میری وجہ سے بھی آئے۔سب سے مشکل چیز یہی ہے میرے لیئے میں جو کرنے جارہا ہوں اسکے اثرات تم تک اور بچوں تک آئیں گے۔ واحد کمزور کرنے والی شے یہی ہے مجھے۔۔
تم یہ مت سوچو۔ جو کرنا چاہتے ہو وہ کرو باقی دیکھا جائے گا۔ زندگی اس سے بدتر تو بہرحال نہیں ہو گی جیسی میں گزار آئی ہوں۔
امامہ کو اس وقت یہ بات کرتے ہوئے اندازہ نہیں تھا کہ جن مشکلات سے سالار خوفزدہ تھا وہ یہ مشکلات نہیں تھی جو وہ سوچ رہی تھی۔وہ صرف مالی مسائل کے حوالے سے اسے متنبہ کر رہا تھا۔
میں سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوئی تھی، بچپن سے دنیا کی ہر نعمت ملی۔ پھر ایک اور وقت آیا جب اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتی تھی۔ دوسروں کے سر پر محتاجی کی زندگی گزانی پڑی۔ نوکری کرنا پڑی، وہ وقت بھی گزر گیا۔ پھر تمہارے ساتھ گزرے پچھلے سات سال میں دنیا کی ہر نعمت و آسائش ملی۔ پہلے سے بڑھ کر اور بہتر۔۔۔۔ لیکن میں یہ کبھی نہیں بھولی کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ چیزوں کی اہمیت نہیں ہوتی، انسان کا کوئی نعم البدل نہیں۔ تو جب تک بچے اور تم میرے پاس ہو مجھے کوئی پرواہ نہیں۔
اس نے سالار کو دیکھا۔ وہ خاموشی سے اس کی بات سن رہا تھا۔ وہ اسے ہولانا نہیں چاہتا تھا یہ کہہ کر کے بچے اور وہ بھی کبھی اس سے چھن سکتے تھے۔جیسے پہلے چھین لیے گئے تھے اور ہر آزمائش مال پر شروع ہو کر مال پر ختم نہیں ہوتی

پہلی بار سالار کی نظر امامہ کے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی پر پڑی تھی۔ جو اس نے اسے شادی کے تحفے کے طور پر دی تھی۔ وہ بے حد حیرانی کے عالم میں اسے دیکھتے ہوئے کچھ بولنا بھی بھول گیا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ انگوٹھی بھی اس گھر میں موجود لاکر میں پڑے دوسرے زیورات کے ساتھ جل گئی ہو گی۔ اس جگمگاتی بیش قیمت انگوٹھی کو اب اس کی مخروطی انگلی میں سجا دیکھ کر اسے ایک عجیب سی خوشی ہوئی تھی۔ ناقابل بیان خوشی۔ اس نے امامہ کا ہاتھ تھام لیا۔
یہ کہاں سے آئی؟ گفتگو کا موضوع عجیب انداز میں بدلا تھا۔ امامہ ہنسی اور اس نے ہتھیلی پر ہی اپنا ہاتھ پھیلا دیا تھا۔ اسے سالار کی خوشی اور کیفیت کا اندازہ تو نہیں ہوا لیکن خود وہ اس انگوٹھی کو دیکھ کر کھل سی گئی۔ اس کے ساتھ اس کی جذباتی وابستگی تھی۔ وہ دیر سے ملا تھا لیکن منہ دکھائی کا تحفہ تھا۔ اور اس کے ہاتھ میں جب وہ پہنی ہوتی تھی تو اس کی خوبصورتی دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتی تھی اتنا تو امامہ جانتی تھی لیکن اس کی قیمت کا اندازہ اسے آج بھی نہیں تھا۔ سالار نے اس کے ایئر رنگز اور چین کو نوٹس نہیں کیا اور وہ انگوٹھی پہ اٹک گیا تھا بس۔
تم نے میرے ایئر رنگز اور چین نہیں دیکھی؟ وہ اسے اب دونوں چیزیں ہاتھ سے چھوتے ہوئے دکھا رہی تھی کسی بچے کی طرح خوشی اور جوش سے۔سالار نے مسکراتے ہوئے ان چیزوں کو دیکھا اور پھر امامہ کے یک دم سب بھول بھال کر جگمگا اٹھنے والے چہرے پر نظر ڈالی۔ تینوں چیزوں کو دیکھتے ہوئے اسے یاد آیا تھا۔ وہ چین ڈاکٹر سبط علی کی دی ہوئی تھی اور ایئر رنگز امامہ کو شادی کے تحائف میں اس کے ساس سسر نے دیے تھے اور وہ انگوٹھی اس نے سکندر عثمان کی طرف سے ملنے والی جائداد میں سے ایک پلاٹ کو بیچ کر خریدی گئی۔ ان تینوں میں سے کوئی چیز سود اور حرام کے پیسے سے نہیں خریدی گئی تھی اور وہ زیور واپس آگیا تھا۔
تم کیا سوچ رہے ہو؟ امامہ نے اسے مخاطب کیا۔
کچھ نہیں ایسے ہی اک خیال آیا تھا۔ سالار گہرا سانس لیکر بات ٹال گیا تھا۔
اس انگوٹھی کی قیمت کیا ہے؟ پتا نہیں امامہ کو ایک دم سے اس کی قیمت کا خیال کیسے آگیا۔
یہ انمول ہے۔ کیونکہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔ سالار نے اس کا ہاتھ چوما اور وہی جواب دیا جو اس انگوٹھی کے پہناتے وقت دیا تھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح سرشار ہوئی تھی۔ یہ بہت دفعہ پیش کیا جانے والا خراج تحسین تھا جو ہر بار نیا لگتا تھا کیونکہ ہمیشہ اچھا لگتا تھا۔
پیکنگ مکمل ہو گئی؟ سالار نے موضوع بدل دیا۔
ہاں۔ مکمل ہو گئی۔ امامہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ تین دن بعد پاکستان جا رہے تھے۔
تم کتنے دن ٹھہرو گے وہاں؟ امامہ نے پوچھا۔
ایک ہفتہ۔ سالار نے لیٹے لیٹے جواب دیا۔
کیوں؟ تم ہمارے ساتھ وہاں زیادہ دن کیوں نہیں ٹھہرو گے۔ امامہ کو اعتراض ہوا۔
ایک ہفتہ بھی زیادہ ہے میرے لیے۔ کام کا ڈھیر ہے یہاں اور مجھے تمہارے واپس آنے سے پہلے گھر کا بندوبست بھی کرنا ہے۔
میں بھی تمہارے ساتھ ہی ایک ہفتہ بعد واپس آجاؤں گی۔ ِامامہ نے کہا۔
نہیں، تم اب ایک ماہ بعد ہی آنا۔ تمہیں آرام کی ضرورت ہے، وہاں گھر کا ماحول تبدیل ہو گا تو بہت اچھا محسوس کرو گی۔ یہاں بچوں کے ساتھ بہت پریشانی ہوتی ہے تمہیں۔ سالار نے اسے کہا۔
مجھے بچوں سے زیادہ تمہاری پریشانی ہوتی ہے۔ وہ ایک بار پھر وارڈروب کے سامنے کھڑی تھی۔ سالار نے اسے دیکھا۔ وہ وارڈروب سے ٹیک لگائے اسے دیکھ رہی تھی۔ اور اس کے انداز میں کچھ تھا جس نے سالار کو چونکا دیا۔
میری کیا پریشانی؟ اس نے پوچھا تھا۔
پتا نہیں۔ بس مجھے ڈر لگتا ہے۔ اس نے آدھی بات کر کے وارڈروب دوبارہ کھولی۔
کس چیز سے ڈر لگتا ہے؟ سالار نے پوچھا۔ امامہ نے ویسے ہی کھڑے کھڑے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ کس چیز سے ڈر لگتا ہو گا مجھے؟ وہ جیسے کسی سائکاٹرسٹ سے اپنے مسئلے کا حل پوچھ رہی تھی۔ 
میری موت سے؟ اور وہ سائکاٹرسٹ بے حد بے رحم تھا۔
امامہ ہل نہ سکی۔ اس نے جیسے نشتر اس کے جسم میں موجود ناسور پر سیدھا ہی مار دیا تھا۔
ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟ سالار اس کی نظروں سے الجھا تھا۔
تم بہت بے رحم ہو اور ہمیشہ سے ہو۔
تم نے سوال کیا تھا مجھ سے، میں نے اندازہ لگایا۔ صحیح اندازہ لگایا کیا؟ وہ جیسے داد چاہتا تھا۔
اب تمہیں پتا چلا، میں تم سے کیوں کہتی ہوں کہ تمہارے اندر آج بھی موت کشش رکھتی ہے۔ وہ جو کہنا چاہ رہی تھی وہ کہہ نہ سکی اور جو کہہ دیا اس کے غلط ہونے کا اندازہ ہو گیا اسے۔
موت سے کون فیسی نیٹ ہوتا ہے امامہ، کوئی پاگل ہو گا جو ایسے سوچے گا۔ اور ایک وقت میں، میں پاگل تھا اب نہیں ہوں۔ وہ عجیب انداز میں مسکراتے ہوئے بولا۔
اب بھی ہو۔ امامہ کہے بنا نہ رہ سکی۔ وہ ہنسا تھا یوں جیسے اس کے جملے سے محظوظ ہوا ہو۔
تم ہمیشہ ٹھیک کہتی ہو۔
اس کی ہنسی نے امامہ کو کم تپایا اور اس کے جملے نے زیادہ۔ وہ وارڈروب کو پوری قوت سے بند کرتی ہوئی واش روم میں گھس گئی۔ اسے پتا تھا وہ اب اسے زچ کرے گا اور کرتا ہی جائے گا۔ یہ اس کا ذہنی تھکن اتارنے کا ایک طریقہ تھا۔ اسے زچ کرنا۔
---------------
کانگو بحران اور اس سے پہلے ہونے والے واقعات سی آئی اے کے لیے سالار سکندر کو اس لسٹ میں ڈالنے کا باعث بنا تھا جن پر باقاعدہ نظر رکھی جاتی تھی۔ وہ افریقہ میں اب ان کا سب سے اہم کارندہ تھا۔ ان کے لیے کام کر رہا تھا لیکن ان کا ساتھی نہیں تھا۔ اس نے کانگو اور افریقہ میں ایک بے حد نازک صورت حال میں ان سب کو ایک شرمناک صورت حال سے نکالا تھا۔ اس کی تقریر میں اپنے ہی ادارے اور سامراجی قوتوں پر کی جانے والی تنقید کسی کو بری نہیں لگی۔اگر صورت حال کنٹرول میں آ جاتی تو وہ اس سے زیادہ گالیاں کھانے پر تیار تھے لیکن اگر کوئی چیز سالار سکندر کی تقریر میں انہیں قابل اعتراض لگی وہ اپنے مذہب اور پیغمبر کا حوالہ تھا۔ وہ افریقہ میں بے شک ان کے لیے اہم تھا لیکن کوئی اہم ترین شخص بھی اسلامی سوچ کے پرچار کے لیے ورلڈ بنک کا عہدہ استعمال نہیں کر سکتا تھا۔
سی آئی اے کو سالار سکندر کو مانیٹر کرتے ہوئے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کسی اسلامی مالیاتی نظام کو قائم کرنے کا سوچ رہا ہے جو سود سے پاک ہو۔ ان کے لیے یہ پریشان کن بات نہیں تھی۔ وہ اس کو ایک خیالی پلاؤ سے زیادہ اہمیت دینے پر تیار نہیں تھے۔اگر کوئی بات پریشان کن تھی تو وہ سالار کا یک دم سامنے آنے والا مذہبی تشخص تھا۔ جو ان کے نزدیک افریقہ جیسی حساس جگہ پر ان کے لیے پریشانیاں کھڑی کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اسے ہر جگہ مانیٹر کیا جانے لگا اور پہلی غیر معمولی سرگرمی جو سی آئی اے نے ریکارڈ کی تھی، وہ ایباکا کی تدفین کے تین ہفتے بعد مسقط میں سالار سکندر کی سمندر میں ایک لانچ پر پانچ لوگوں سے ایک ملاقات تھی۔ جن میں سے ایک مسقط کی رائل فیملی سے تھا۔ سالار سمیت وہ پانچوں پرانے شناسا اور دوست تھے۔ ایک ہی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ وہ اپنی اپنی فیلڈ کے نامور لوگ تھے۔ وہ سب دنیا کے انڈر فورٹی گلوبل لیڈرز کی فہرست میں شامل تھے جن کے بارے میں پیش گوئی تھی کہ وہ دس سال بعد دنیا کے ممتاز ترین لیڈرز میں سے ہوں گے۔ ان میں سے کوئی بات سی آئی اے کے لیے پریشان کن نہیں تھی سوائے اس آخری مماثلت کے۔ سالار سمیت وہ پانچ کے پانچ افراد مسلمان تھے۔ باعمل اور حافظ قرآن۔
--------------------
وہ پاکستان میں امامہ کے قیام کا تیسرا ہفتہ تھا۔ وہ شروع کے دو ہفتے لاہور میں ڈاکٹر سبط علی اور سعیدہ اماں کے پاس گزار کر اب باقی دو ہفتے اسلام آباد رہنے آئی تھی۔ 
وہاں ان کی آمد کا دوسرا دن تھا جب سالار نے اسے امریکہ میں کسی پرانے دوست کے بارے میں بتایا تھا جو اب اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان میں مقیم تھا اور سالار سے ملنا چاہتا تھا۔ اسے مبارکباد دینے کے لیے۔
کئی سالوں بعد سعد اپنی فیملی کے ساتھ سالار سے ملنے اس کے گھر آیا تھا۔ وہ مکمل طور پر باریش تھا، اس کی داڑھی سفید ہو چکی تھی جس کو اس نے رنگا نہیں تھا۔ وہ بے حد مہنگے برانڈڈ شلوار قمیص میں ملبوس تھا۔ لیکن شلوار ٹخنوں سے اوپر تھی۔اس کے ساتھ نقاب لیے ہوئے اس کی بیوی، ایک آٹھ سالہ بچہ اور دو بچیاں بھی تھی۔
وہ اور اس کی بیوی سالار اور امامہ سے بڑی گرم جوشی سے ملے۔ امامہ جانتی تھی سعد سالار کے شناساؤں میں سے تھا، قریبی دوست نہیں۔ لیکن اس کے باوجود سعد اپنی گپ شپ اور بلند و بانگ قہقہوں کے دوران سالار کے اس کے ساتھ امریکہ میں گزرے ہوئے وقت کے بارے میں ایسے ایسے قصے نکال کر سناتا رہا جیسے وہ اور سالار گہرے دوست رہے ہو۔
مجھے تو ہمیشہ سے اندازہ تھا کہ سالار بہت ترقی کرنے والا ہے بس ذرا قبلہ خراب تھا اس کا۔ چائے پینے کے دوران اس نے امامہ پر انکشاف کیا جیسے۔۔امامہ اور سالار نے بے اختیار ایک دوسرے کو دیکھا اور مسکرا کر رہ گئے۔
اور اب دیکھیے بھابھی کیسا بدلا ہے۔ میری کوششیں کیسے رنگ لائی ہیں۔ سعد کہہ رہا تھا اور سالار نے اپنا کپ رکھتے ہوئے اسی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ لیکن تم بالکل نہیں بدلے۔ میری کوششیں کوئی رنگ نہیں لا سکی۔ اس کا مجھے بڑا افسوس ہے۔ سالار نے جتانے والے انداز میں کہا۔ سعد نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔
ارے ہم پر کہاں کسی کا رنگ چڑھنا تھا۔ ہم پر تو اپنا ہی رنگ بڑا پکا تھا۔ بھابھی یہ آپ کا شوہر نائٹ کلب اور ڈسکو کا بڑا شوقین تھا۔ مجھے بھی کھینچ کھینچ کر ساتھ لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔ نت نئی لڑکیوں سے دوستی، بڑی رنگین زندگی گزاری اس نے۔
سالار نے ٹھیک کہا تھا، وہ نہیں بدلا تھا۔ پیشتر لوگ خود کو بہترین مسلمان ثابت کرنے کے لیے دوسروں کے ہر عیب اور خامی کو دکھانے اور جتانے کی وبا میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کا اسلام انہیں صرف مقابلہ اور موازنہ سکھاتا ہے، پردہ پوشی نہیں۔ وہ اپنی بیوی کے سامنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ کتنے نیک شخص کی بیوی ہے۔ احساس کمتری کی یہ ایک بھیانک شکل ہوتی ہے۔ سعد اب اپنے انکشاف سے جیسے خود ہی محظوظ ہوا تھا اور پلیٹ میں ایک نیا کباب رکھتے ہوئے ہنس رہا تھا۔امامہ کا چہرہ پھیکا پڑا تھا۔
بھابھی! بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے سعد۔ میری کافی رنگ برنگی لڑکیوں سے دوستی تھی لیکن سعد کو صرف ایک ہی رنگ کی لڑکی پسند تھی۔ اور میں ذرا شوقین مزاج تھا، ڈسکو اور کلبز آتا جاتا رہتا تھا۔ لیکن سعد ظاہر ہے میرے جیسا شوقین مزاج نہیں تھا اس لیے وہ اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ گھر پر ہی رہنا پسند کرتا تھا۔
کباب تو سعد نے پلیٹ میں رکھ لیا تھا لیکن پلیٹ اس کے ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچی تھی۔ سالار نے کئی سالوں بعد ایسی کم ظرفی اور بے لحاظی کا مظاہرہ کیا تھا جو ایک زمانے میں اس کا شناختی نشان تھا۔
کیا نام تھا اس کا؟ ہاں، آسٹیفنی! اب تو علیک سلیک ہی رہ گئی ہو گی یا وہ بھی نہیں۔ اس کی یاداشت سفاکانہ حد تک تیز تھی۔ اور اس وقت اس نے سعد کا قتل ہی کر دیا تھا۔ سعد کا اندر کا سانس اندر اور باہر کا سانس باہر رہ گیا۔ اس سب کی ابتدا سعد نے کی تھی اور انتہا اب سالار کر رہا تھا۔ سعد جواب کیا دیتا اس کا تو سانس لینا محال ہوگیا تھا۔
امامہ اس کی بیوی کے تاثرات دیکھ نہ پائی کیونکہ اس کے چہرے پر نقاب تھا۔ لیکن اس کی آنکھیں یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ وہ سالار کے انکشافات سے خوش نہیں ہوئی تھی۔ امامہ کو بھی سالار کا یہ جوابی وار کچھ بھایا نہیں۔
بھابھی آپ کچھ لیں۔ اس نے صورت حال کو سنبھالتے ہوئے بروقت سعد کی بیوی عالیہ کی توجہ اس گفتگو سے ہٹانے کی کوشش کی۔
نہیں۔ بچے اور یہ لے رہے ہیں، بس کافی ہیں۔ ہم کچھ دیر پہلے ہی کسی لنچ سے آئے ہیں تو مجھے طلب نہیں۔ امامہ کو عالیہ کا لہجہ بے حد کھردرا لگا۔
آپ تو ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتی تھی نا؟ کیا سوال تھا جو سعد کی بیوی کی زبان سے امامہ کے لیے نکلا تھا۔ کمرے میں ایک دم خاموشی نہیں سکتہ چھایا تھا۔وہ تجسس نہیں تھا جوابی وار تھا۔ سعد سے نہیں آیا تھا اس کی بیوی سے آیا تھا۔
نہیں۔ الحمدللہ میں مسلمان ہوں۔ چائے کا کپ ہونٹوں سے ہٹا کر امامہ نے بے حد مشکل سے مسکرانے کی کوشش کی۔
اوہ! اچھا، مجھے انہوں نے یہ نہیں بتایا تھا۔ وہ اسی بے نیازی سے سعد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔ تو بھابھی آپ پھر کوئی ادارہ جوائن کر لیں نا۔ آپ کو تو بہت زیادہ اصلاح اور علم کی ضرورت ہو گی۔ جب تک آپ پاکستان میں ہے، آپ میرے ساتھ مدرسے چلیں۔ وہاں درس قرآن بھی ہوتا ہے اور روحانی اور اخلاقی تربیت بھی۔ 
آپ کا بہت شکریہ۔ لیکن مجھے اسلام قبول کیے اور قادیانیت چھوڑے سولہ سترہ سال ہو چکے ہیں اور میں ایک حافظ قرآن کی بیوی ہوں۔ امامہ نے اس کی بات بڑی نرمی سے کاٹی۔
وہ تو میں بھی ہوں۔ عالیہ نے اسی انداز میں کہا۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
آپ کو نہیں پڑا ہو گا، مجھے پڑا ہے۔
بھابھی آپ کو اس حوالے سے جب بھی ہماری مدد کی ضرورت پڑے، ہم حاضر ہیں۔ اب میل جول تو ہوتا رہے گا۔ میں ان شاءاللہ اس سال وقت نکال کر تبلیغ کے لیے کچھ دن کانگو بھی آؤں گا۔ تو آپ لوگوں کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔ ویسے بھی اچھا ہے ہمارے بچے آپس میں ملتے رہے۔ سعد نے اپنی طرف سے بروقت مداخلت کرتے ہوئے گفتگو سنبھالنے کی کوشش کی۔
جی بھابھی! ٹھیک کہہ رہے ہیں یہ۔ ہمارے بچوں کو آپس میں ملتے رہنا چاہیے اور ہمیں بھی۔ بہت سی چیزوں میں آپ کو اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہوئے ہماری رہنمائی کی ضرورت ہو گی۔ عالیہ نے اپنے شوہر کی گفتگو مکمل کرنے کی کوشش کی۔
اگر کبھی ایسی ضرورت پڑی تو میں اور امامہ ضرور آپ سے رہنمائی لینے کی کوشش کریں گے لیکن فی الحال ہمیں لگتا ہے ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ اس بار سالار نے گفتگو میں مداخلت کر کے جیسے ایک فل سٹاپ لگانے کی کوشش کی۔
یار بچے کہاں ہیں تمہارے؟ تم ان سے تو ملواتے۔ میں چاہتا ہوں احسن اور جبریل بھی آپس میں متعارف ہو۔
جی، جی ضرور۔ بچے ابھی ملازم لا ہی رہا ہو گا۔ وہ لان میں کھیل رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہاں کوئی اور بات ہوتی ملازم کے ساتھ عنایہ اور جبریل کمرے میں داخل ہوئے تھے۔ سعد نے دونوں بچوں کو بڑی گرم جوشی سے پیار کیا۔ پھر جبریل اور احسن کو ایک دوسرے سے متعارف کیا۔ وہ دونوں ایک جیسے تھے۔ریزروڈ، تمیزدار۔
وہ لوگ آدھ گھنٹہ اور بیٹھے تھے اور پھر انہیں اپنے گھر آنے کی دعوت دے کر چلے گئے۔ وہ ایک یادگار اور خوشگوار ملاقات نہیں تھی لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کی ہر ملاقات ایسا ہی تاثر لیے ہوئے رہنے والی تھی۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page