
آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد
قسط نمبر پندرہ
سالار ایک ہفتہ بعد واپس کانگو چلا گیا تھا اور امامہ اسلام آباد سے لاہور سالار کے ساتھ آئی تھی۔ وہاں سے واپس اسلام آباد آنے پر امامہ اور بچوں کو سکندر اور طیبہ کے ساتھ بہت سا وقت گزارنے کو ملا تھا۔ اور اس کے جانے میں ابھی ایک ہفتہ باقی تھا۔جب سکندر نے بڑے غور و خوض کے بعد اس کو ہاشم مبین کے بارے میں بتایا تھا۔
وہ مجھ سے کئی دفعہ ملنے آئے ہیں۔ تمہارا نمبر لینے کے لیے۔ لیکن میں اتنی ہمت اپنے اندر نہیں پاتا تھا کہ تمہارا اور ان کا رابطہ کرواتا۔ کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ تم پھر پریشان ہو۔
سکندر عثمان اس سے کہہ رہے تھے۔ لیکن مجھےلگا میں بہت زیادتی کروں گا تمہارے ساتھ بھی اور ان کے ساتھ بھی۔ اگر ان کی یہ خواہش پوری نہ کروں۔وہ بے یقینی سے ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ وہ مجھ سے کیوں ملنا چاہتا ہے؟
یہ سوال انسان ماں باپ سے نہیں پوچھتا۔ سکندر نے دھیمے لہجے میں اس سے کہا۔ اس کے حلق میں جیسے پھندا لگا تھا۔ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے یہ سوال انسان ماں باپ سے نہیں پوچھتا۔ لیکن اسے تو یہ بھول ہی گیا تھا کہ اس کے ماں باپ بھی ہیں۔ زندگی کے سولہ سترہ سال ان کے بغیر گزارے، ان کے ہوتے ہوئے بھی۔ وہ آج بھی ان سے محبت کرتی تھی، آج بھی ان کے لیے جذباتی تھی۔ لیکن پچھلے چند سالوں نے سب بدل دیا تھا۔
اب ملنے کا فائدہ نہیں۔
سکندر کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس سے ملنے سے انکار کر رہی تھی۔ وہ تو صرف اپنے خاندان سے ملنے کے لیے منتیں کرتی رہی تھی۔ انکار تو ہمیشہ دوسری طرف سے ہوتا تھا۔
ماں باپ کے بارے میں ہم فائدے اور نقصان نہیں سوچتے۔ صرف حق اور فرض سوچتے ہیں۔
انہوں نے اس بار بھی ٹھیک کہا تھا۔
پاپا میں اب اس معلق پل پر نہیں جھول سکتی۔ میرے بچے ہیں اب، میں اپنی ذہنی الجھنیں ان تک منتقل نہیں کرنا چاہتی۔ میں بہت خوش اور پرسکون ہوں اپنی زندگی میں۔ بس ایسے ہی رہنا چاہتی ہوں۔کسی لعنت ملامت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی اب۔ کسی معافی تلافی کی ضرورت بھی نہیں رہی اب۔بس جو گزر گیا، وہ گزر گیا۔ میں واپس پلٹ کر نہیں دیکھنا چاہتی۔
اسے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ اس کی آنکھیں کب برسنا شروع ہوئی۔
امامہ! وہ مسلمان ہو چکے ہیں۔ وہ جامد ہو گئی تھی۔سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا ردعمل دے۔ خوش ہو؟ وہ خوش تھی۔ رو پڑے؟ وہ پہلے ہی رو رہی تھی۔ اللہ کا شکر ادا کرے؟ وہ ہمیشہ کرتی رہتی تھی۔
وہ مسلمان نہ ہوتے، تب بھی میں تم سے کہتا کہ ان سے مل لو۔ بعض گناہوں کی سزا جب اللہ دینا چاہتا ہے تو پھر ہمیں نہیں دینی چاہیے۔ سکندر نے اسے سمجھایا تھا۔ وہ اس کی اندر کی کیفیت سے بے خبر تھا۔ سوال معافی کا تو تھا ہی نہیں۔ وہ ان کا سامنا اس لیے نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ وہ اپنے وجود کو بکھرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اس نے بے حد مشکل سے اپنے آپ کو سمیٹا تھا۔
اس نے سکندر عثمان سے بحث نہیں کی۔ وہ اگلے دن ہاشم مبین سے ملنے پر بھی تیار ہو گئی۔ لیکن وہ اس رات سو نہ سکی تھی۔
وہ اگلے سہ پہر ان کے گھر آئے تھے۔ وہ کمرے میں آئی تو باپ پر پہلی نظر پڑتے ہی روئی نہ ہی رونے کا تہیہ کیے ہوئے تھی۔ وہ بے حد ضعیف لگ رہے تھے۔ یہ تنتنے والا وہ وجود نہیں تھا جس سے وہ ساری زندگی ڈرتی رہی تھی۔ ہاشم مبین نے اسے گلے لگایا۔وہ نم آنکھوں سے بڑے حوصلے سے ان سے مل کر الگ ہوئی تھی۔ پہلے کی طرح ان سے لپٹی نہیں رہی تھی۔اور پھر وہ آمنے سامنے صوفوں پر بیٹھ گئے۔ کمرے میں ان دونوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ وہ دونوں تھے اور طویل اور گہری خاموشی۔ پھر اس خاموشی کو ہاشم مبین کی ہچکیوں اور سسکیوں نے توڑا۔ وہ اب بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا۔ امامہ انہیں چپ چاپ دیکھتی رہی۔ وہ بھی بے آواز روتی رہی۔اس کی آنکھوں سے برسنے والے آنسو اس کی ٹھوڑی سے ٹپکتے ہوئے اس کی گود میں رکھے ہاتھوں پر گر رہے تھے۔
وقت واقعی بڑا ظالم ہوتا ہے۔ مجھ سے بہت بڑا گناہ ہو گیا۔ میں نے بہت بڑا ظلم کیا اپنے آپ پر۔ اپنے خاندان پر۔ پتا نہیں کیسے ہو گیا یہ سب کچھ۔
ہاشم مبین روتے ہوئے اعتراف کر رہے تھے اور امامہ کو یاد آ گیا تھا۔ انہوں نے ایک بار اس سے کہا تھا کہ جو کچھ وہ کرنے جا رہی تھی وہ اس پر بہت پچھتائے گی۔ ایک وقت آئے گا، اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا۔ اور وہ واپس پلٹ کر ان سے معافی مانگنے آئے گی۔ اور تب وہ اسے معاف نہیں کریں گے۔
مجھے لگتا ہے امامہ! مجھے تمہاری بد دعا لگ گئی ہے۔ہاشم مبین نے روتے ہوئے کہا۔
مجھے بد دعا کا کبھی خیال بھی نہیں آیا ابو۔ آپ کے لیے کیا، کسی کے لیے بھی نہیں۔ اس نے بلآخر ہاشم مبین سے کہا۔ آپ نے دیر سے کیا، لیکن صحیح اور اچھا فیصلہ کیا۔ یہ ایک جملہ کہتے ہوئے امامہ کو بے حد تکلیف ہوئی تھی۔ اسے وسیم یاد آیا تھا۔ اسے اپنا وہ خاندان یاد آیا تھا جو سارا غیر مسلم تھا اور غیر مسلم ہی رہنے والا تھا۔ واپس تو یا وہ پلٹی تھی یا ہاشم مبین۔۔۔۔۔۔۔
تمہارا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی مجھ میں۔ بہت وقت لگا دیا میں نے تمہارے سامنے آنے میں۔ لیکن بس معافی مانگنا چاہتا تھا اور تمہاری ایک امانت تھی میرے پاس۔ وہ مرنے سے پہلے تمہیں دینا چاہتا ہوں۔وہ اب اپنے ساتھ لائے ہوئے بیگ سے ایک لفافہ نکال کر اسے دے رہے تھے۔
یہ کیا ہے؟ اس نے لفافہ تھامے بغیر ان سے پوچھا۔
جائداد میں تمارا حصہ۔ اسی حصے کے لیے تمہارے بھائیوں کو خفا کر دیا ہے میں نے۔ وہ یہ بھی لینا چاہتے تھے مجھ سے۔ لیکن میں تمہاری چیز انہیں نہیں دے سکتا تھا۔ ساری عمر تمہیں کچھ نہیں دے سکا۔ کچھ تو دینا چاہتا تھا تمہیں مرنے سے پہلے۔
وہ ان کی بات پر رو پڑی۔ ابو اس کی ضرورت نہیں تھی مجھے، میں اسے لے کر کیا کروں گی۔ اگر میرے بھائیوں کو میرا حصہ دینے سے ان کی زندگی میں آپ کے لیے کوئی گنجائش نکلتی ہے تو انہیں دیں۔
ہاشم مبین نے بے حد مایوسی سے نفی میں سر ہلایا۔میں اب ان کے لیئلے غیر مسلم ہوں امامہ۔ وہ مجھے اپنی زندگی سے نکال کر پھینک چکے ہیں۔ جیسے کبھی میں نے تمہیں نکالا تھا۔ وہ شکست خوردہ انداز میں کہہ رہے تھے۔
پھر آپ میرا حصہ بیچ کر اپنے لیے کوئی گھر لے لیں۔کوئی جگہ۔ میرے پاس اب سب کچھ ہے۔ امامہ نے وہ لفافہ پکڑ کر ان کے بیگ میں واپس رکھ دیا تھا۔
تم نے مجھے معاف نہیں کیا؟ انہوں نے رنجیدگی سے کہا۔
میں آپ کو معاف کرنے والی کون ہوتی ہوں ابو۔ یہ فیصلہ تو آپ کے لیے اللہ نے کرنا ہے۔ میں صرف یہ دعا کر سکتی ہوں کہ اللہ آپ کو معاف کر دے۔ بڑی معافی تو وہاں سے آنی چاہیے۔
وہ سر جھکائے بیٹھے رہے پھر انہوں نے کہا۔
تم ہم سے ملتی رہو گی نا؟ عجیب آس اور حسرت تھی۔ امامہ نے سر ہلا دیا تھا۔ ماں باپ کا یہ حال اسے دل گرفتہ کیے ہوئے تھا۔ ہاشم مبین کے چہرے پر اس ملاقات کے دوران پہلی بار مسکراہٹ آئی تھی۔
میں جائداد کا یہ حصہ تمہارے بچوں کے نام کر دیتا ہوں امامہ۔
ابو میں آپ کی جائداد اور روپے پیسے میں سے کچھ بھی نہیں لوں گی۔ میں لوں گی بھی تو سالار واپس کر دے گا۔ اس نے ہاشم سے دو ٹوک انداز میں کہا تھا۔
ہاشم مبین کچھ دیر بیٹھے رہے۔ پھر اسے ساتھ لے کر اس کی ماں سے ملوانے لے گئے۔ سکندر اور ان کی بیوی بھی ساتھ گئے تھے۔ وہ ایک اور جذباتی ملاقات تھی۔
تم اب بہت بہادر ہو گئی ہو۔ اس رات سالار نے اس سے کہا۔ اس نے اپنے اس دن کی روداد سنائی تھی اسے فون پر۔
کیسے؟ وہ اس کے تبصرے پر حیران ہوئی۔ تم آج ایک بار بھی نہیں روئی مجھے اپنے پیرنٹس سے ملاقات کے بارے میں بتاتے ہوئے۔ وہ چپ رہی، پھر اس نے سالار سے کہا۔
آج ایک اور بوجھ میرے کندھوں اور دل سے ہٹ گیا ہے۔ بہت دیر سے سہی لیکن اللہ تعالی نے گمراہی سے نکال لیا ہے میرے ماں باپ کو۔ دعائیں قبول ہوتی ہیں سالار۔ دیر سے سہی، لیکن قبول ہو جاتی ہے۔ امامہ کے لہجے میں عجیب طمانیت تھی جو ہزاروں میل دور بیٹھے سالار نے محسوس کی۔
تمہاری ہو جاتی ہے۔ اس نے مدھم آواز میں امامہ سے کہا۔
کیا تمہاری نہیں ہوتی؟ اس نے جواباً پوچھا۔
میری بھی ہوتی ہیں۔ لیکن تمہاری زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کہہ رہا تھا۔
الحمد اللہ! امامہ نے جواباً کہا۔ وہ ہنس پڑا۔
تم میرے پیرنٹس کو اولڈ ہوم سے نکال کر انہیں کوئی گھر لے دو۔ ان کے پاس میرے جائداد کا جو حصہ ہے اسے بیچ کر۔ بے شک چھوٹا گھر ہو لیکن میں انہیں اولڈ ہوم میں نہیں دیکھ سکتی۔
میں پاپا سے کہہ دوں گا وہ کر دیں گے یہ کام۔ ان کا خیال بھی رکھیں گے۔ تم اسلام آباد میں مستقل رہنا چاہتی ہو تو رہ سکتی ہو امامہ۔ تم اور بچے وہاں۔۔۔۔۔۔۔۔
امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ میں تمہارے پاس رہنا چاہتی ہوں اور اسی تاریخ کو واپس آرہی ہوں۔
--------------------------
سی آئی اے نے سالار سکندر کی اس سرگرمی کو صرف مانیٹر اور ریکارڈ نہیں کیا تھا اس ملاقات میں شامل پانچ افراد کو بھی اپنی واچ لسٹ میں ڈال دیا تھا۔ اگلے آنے والی مہینوں میں سالار سکندر اور ان پانچ افراد کے بہت سارے تفریحی دورے ہوتے رہے تھے۔ لیکن اب سی آئی اے صرف سالار سکندر کی نہیں، ان پانچ افراد کی نقل و حرکت کو بھی مانیٹر کر رہی تھی۔ وہ پانچ افراد سالار سے صرف چند ماہ ملتے رہے پھر اس کے بعد ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ وہ پانچ افراد اب آپس میں نہیں مل رہے تھے لیکن انفرادی طور پر اسی طرح ملاقاتیں کر رہے تھے۔
وہ ایک اسلامی مالیاتی سسٹم پر کام کر رہے تھے اور یہ بات سی آئی اے جانتی تھی لیکن اس نظام کی شکل کیا تھی۔ وہ اسے بوجھنے میں کامیاب نہیں ہو رہے تھے۔ اور اس کی وجہ صرف ایک تھی۔ ایک جگسا پزل کی طرح اس نظام سے منسلک ہونے والے سب افراد کے پاس اس کا ایک ایک ٹکڑا تھا۔ اور وہ اس ٹکڑے کو اچھی طرح جانتا اور سمجھتا تھا۔۔ لیکن وہ ٹکڑا اس تصویر میں کہاں لگنا تھا یہ صرف ایک شخص جانتا تھا۔ سالار سکندر۔
--------------------
ممی! حمین کب بڑا ہو گا؟ اس دن جبریل نے اپنی آرٹ بک میں کچھ بناتے ہوئے امامہ سے پوچھا۔
بڑا تو ہو گیا ہے۔ امامہ نے اس کے سوال اور انداز پر غور کیے بغیر کہا۔
تو پھر روتا کیوں ہے؟ امامہ بے چارگی سے اپنے بڑے بیٹے کو دیکھ کر رہ گئی۔
آپ اس سے پوچھیں کہ اس کو کیا چاہیے؟ وہ امامہ کو جیسے مسئلے کا حل بتا رہا تھا۔
میں پوچھ نہیں سکتی اور یہ بتا نہیں سکتا۔امامہ اب بھی اسے اٹھائے لاؤنج میں ٹہلتے ہوئے اسے تھپک رہی تھی۔ وہ بغیر آنسوؤں کے گلا پھاڑ پھاڑ کر روتا تھا اور پھر رونے کے بیچوں بیچ بھی دلچسپ چیز نظر آنے پر ایک دم رونا بند کر کے اس کا جائزہ لینے میں مصروف ہو جاتا اور جب اس کام سے فارغ ہو جاتا تو ایک بار پھر اپنے رونے کے سلسلے کو وہی سے جاری رکھتا جہاں چھوڑا تھا۔
سات آٹھ ماہ کی عمر میں ہی اس نے بیک وقت چار دانت نکالنے شروع کیے۔
اس کو جلدی کس بات کی ہے؟ بیک وقت چار دانتوں کو نکلتے دیکھ کر سالار نے کہا۔ جبریل اور وہ، حمین سکندر کے بارے میں ایک جیسے تاثرات رکھتے تھے۔
یہ تم خود اس سے پوچھ لو۔ امامہ نے جواب دیا۔
حمین ان چار دانتوں کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے بھی صرف بڑوں کے کھانے والی ہر اس چیز میں دلچسپی لیتا تھا جو چٹخارے والی ہوتی تھی۔اپنے پوپلے منہ کے ساتھ بھی چپس اس کی پسندیدہ خوراک تھی۔ جسے وہ صرف چبا نہیں سکتا تھا، نگل بھی سکتا تھا۔ وہ چپس کا پیکٹ تک پہچانتا تھا اور ایسا ممکن نہیں تھا کہ جبریل اور عنایہ اس کے قریب بیٹھ کر کوئی چیز اطمینان سے، اسے کھلائے بغیر خود کھا لیتے۔
وہ عجیب و غریب بچہ تھا اور یہ نام اس کے بارے میں سالار نے دیا تھا۔ جس کا خیال تھا کہ اس نے ایسی مخلوق کبھی نہیں دیکھی۔
سکندر عثمان نے اس سے کہا تھا۔ میں نے دیکھی ہے۔وہ تمہاری کاپی ہے۔
یہ زیادتی ہے۔ سالار نے اس کی بات پر احتجاج کیا تھا۔ وہ اور طیبہ ان کے پاس کانگو آئے تھے جب وہ دونوں حمین سکندر کے ہاتھوں بننے والی اس کی درگت دیکھ رہے تھے۔ وہ تب دس ماہ کا تھا اور سب سے پہلے اس نے جو لفظ بولنا شروع کیا تھا وہ "سالا" تھا۔ اور ہر بار سالار کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر وہ بے حد خوشی سے ہاتھ پاؤں مارتا سالا سالا چلاتے ہوئے اس کی طرف جانے کی کوشش کرتا۔
بیٹا بابا! پہلی بار سالار کے لیے وہ لفظ سن کر ہنسی سے بے حال ہونے کے باوجود امامہ نے اس لفظ کو بدلنے کی کوشش کی تھی۔ وہ سالار پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے توڑ توڑ کر سکھا رہی تھی۔ با۔۔۔۔۔۔۔با۔
"سالا" حمین نے ماں کی محنت پر پانی پھیرتے ہوئے سالار کے لیے وہی لفظ استعمال کیا جو وہ سالار کے لیے اپنی ماں کو پکارتے سنتا تھا۔
تم اسے بابا مت سکھاؤ صرف ”ر“ لگوا دو میرے نام کے ساتھ۔ یہ بھی غنیمت ہے میرے لیے۔سالار نے اسے مشورہ دیا تھا۔ وہ بہرحال کچھ زیادہ محظوظ نہیں ہوا تھا اس طرز تخاطب سے، جو سکندر اور طیبہ کے لیے ایک تفریح بن گئی تھی۔ جبریل تحمل سے اپنے اکلوتے چھوٹے بھائی کو دیکھتا رہتا تھا جس نے اس کے گھر کے امن و سکون کو تہہ و بالا کر کے رکھا ہوا تھا۔ پہلے اس کا خیال تھا کہ حمین بڑا ہو جائے اور چلنا شروع ہو جائے تو ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن جب اس نے چلنا شروع کیا تو یہ دیکھ کر اسے اندازہ ہوا کہ وہ اس مسئلے کا غلط حل تھا۔
حمین سکندر کو پیر نہیں پر مل گئے تھے۔ اور وہ اب کہیں بھی جا سکتا تھا اور کہیں سے مراد کہیں بھی۔۔۔ اور اس کی فیورٹ جگہ باتھ روم تھی۔ وہ بھی وہاں اس وقت جانا پسند کرتا تھا جب جبریل اسے باتھ روم میں جاتا دکھائی دیتا اور جبریل نے اس کے ہاتھوں کئی بار خاصی شرمناک صورت حال کا سامنا کیا۔ جس باتھ روم کو بچے استعمال کرتے تھے اس میں لاک نہیں تھا اور دروازے کا ہینڈل گھما کر اسے کھولنا حمین کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ جبریل کے لیے حمین کی موجودگی میں باتھ روم جانا جان جوکھوں کا کام تھا۔ وہ باتھ روم کے دروازے کی اندرونی طرف باتھ روم میں پڑی ان سب چیزوں کو رکاوٹوں کے طور پر دروازے کے سامنے ڈھیر کرتا۔
سالار سکندر اگر اسے عجیب و غریب کہتا تھا تو حمین سکندر باپ کے دیے گئے اس ٹائٹل پر پورا اترنے کی کوشش کر رہا تھا اور پوری دل جمعی کے ساتھ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نائب صدر کے طور پر سالار نے افریقہ کے لیے کسی مشین کی طرح کام کیا تھا۔ وہ مشکل ترین اہداف کے حصول کے لیے نامساعد ترین حالات میں کام کر رہا تھا اور کامیابی سے کر رہا تھا۔
سالار سکندر کی ملازمت کا دورانیہ ختم ہونے کے قریب آرہا تھا۔ بنک نے یہ دورانیہ ختم ہونے سے دو سال پہلے ہی سالار سکندر کو ملازمت میں توسیع کی آفر کی تھی اور اس نے یہ آفر قبول نہیں کی تھی۔ پھر اس آفر کو بار بار بہتر پیکجز کے ساتھ اسے اصرار کیساتھ پیش کیا جاتا رہا۔ لیکن سالار کا انکار قائم رہا تھا۔ وہ افریقہ میں اپنے قیام کو اب ختم کرنا چاہتا تھا۔ اور ورلڈ بنک کے ساتھ امریکن حکومت کے لیے بھی یہ تشویش کی بات تھی۔ افریقہ کو سالار سکندر سے بہتر کوئی نہیں چلا سکتا تھا۔ اس نے پچھلے چند سالوں میں نہ صرف ورلڈ بنک کی ساکھ اور امیج کو ہی افریقہ میں بدل کر رکھ دیا تھا بلکہ اس نے امریکن حکومت کے لیے بھی وہاں خیر سگالی کے جذبات دوبارہ پیدا کرنے میں بہت کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کا ورلڈ بنک کو اس وقت چھوڑ کر جانا ان کے لیے بڑا دھچکا ہوتا۔ لیکن وہ رکنے پر تیار نہیں تھا اور امریکن حکومت کو سوچنا پڑ رہا تھا کہ وہ اسے ایسی کیا چیز پیش کرے جو اسے روک سکے۔
ورلڈ بنک کی صدارت ہی یقیناً ایک ایسا تاج تھا جو اس کو پہنا کر اسے روکا جا سکتا تھا۔ سالار اس عہدے کے لیے موزوں ترین اور کم عمر ترین امیدوار تھا۔ مگر اس عہدے پر سالار کی تعیناتی امریکی حکومت کے لیے خود ایک مسئلہ بن گئ تھی۔ وہ ایک بنیاد پرست مسلمان کو وہ ورلڈ بنک کا صدر نہیں بنا سکتے تھے۔ اور وہ اس بنیاد پرست مسلمان کو کسی اور چیز کی آفر کر کے روک بھی نہیں پا رہے تھے۔لیکن ابھی امریکی حکومت اور ورلڈ بنک کے پاس اس پر سوچنے کے لیے وقت تھا کیونکہ سالار کی ملازمت کا دورانیہ ختم ہونے میں ابھی ایک سال باقی تھا۔
اس ایک سال میں سالار سکندر کی زندگی میں تین بڑے واقعات ہوئے اور ان تینوں نے ان کی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑے۔ ان واقعات نے ایک بار پھر اس کی زندگی بدل دی۔
-------------------------------
چنی سے سالار سکندر کا تعارف غائبانہ رہا تھا۔ غلام فرید کے حوالے سے سکندر عثمان سے اسے کئی بار خبریں ملتی رہی تھی۔ سکندر عثمان نے غلام فرید کے ذریعے گاؤں کی مسجد کے امام کو پہنچائی جانے والی امداد کے بارے میں سالار کو مطلع کر دیا تھا کیونکہ یہ امداد سالار کے کہنے پر ہی اس نے شروع کی تھی۔ غلام فرید کو اس میں ہیر پھیر کے نتیجے میں ملازمت سے فارغ کرنے کا حکم سالار ہی کا تھا۔بد دیانتی اور بے ایمانی اس کے لیے قطعی ناقابل برداشت تھی۔
غلام فرید کے ہاتھوں ایک بچی کے سوا پورے خاندان کا قتل سکندر عثمان کو بری طرح ہلا گیا۔ وہ اب غلام فرید کے لیے سوائے اس کے کچھ نہیں کر سکتے تھے اور اس کی بچ جانے والی واحد اولاد کی دیکھ بھال اور کفالت کی ذمہ داری اٹھائیں۔ اور سالار کے کہنے پر وہ سکندر عثمان نے اٹھا لی تھی۔ وہ اس کے لیے ماہانہ رقم دیتے تھے جو اس کے رشتہ دار آ کر لے جاتے تھے اور کبھی کبھار وہ سکندر عثمان کو چنی بھی دکھا دیتے تھے۔ تاکہ انہیں تسلی رہے کہ وہ رقم واقع اس پر خرچ ہو رہی ہے۔ یہ شاید اسی طرح چلتا رہتا اگر سالار اس سال اپنی فیملی کے ساتھ دو ہفتوں کے لیے پاکستان نہ آیا ہوتا۔ ایک لمبے عرصے کے بعد سکندر کی بجائے وہ خود گاؤں کا سکول دیکھنے گیا تھا۔ اسکول انتظامیہ کے چند لوگوں کے ساتھ سالار اچانک اس کے گھر گیا۔ جس ڈیڑھ سال کی چنی کو سالار نے دیکھا وہ اسے سات آٹھ ماہ کی ایک بچی لگی تھی۔ بے حد کمزور، دبلی پتلی، اس کی سانولی رنگت یرقان جیسی پیلاہٹ لیے ہوئے تھی۔اس کا چہرہ سیاہ پیپ زدہ دانوں سے بھرا ہوا تھا۔ جس وقت سالار اس گھر کے صحن میں داخل ہوا وہ دانہ چگتی ہوئی مرغیوں کے پاس بیٹھی تھی اور اس دانے اور گندگی کو بلا تکلف اپنے منہ میں ڈال رہی تھی۔ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کی کفالت کے لیے معقول رقم بھیجنے کے باوجود وہ اس حال میں ہو سکتی ہے۔ چنی کے رشتہ دار نروس اور گھبرائے ہوئے تھے وہ لوگ ڈسپلے اور پریزنٹیشن کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اسے اب سجا سنوار نہیں سکتے تھے۔
یہ بس ایسے ہی رہتی ہے۔ جتنی بار بھی کپڑے بدلو یہ جا کر مرغیوں میں گھس جاتی ہے۔ حمیدہ! اری او حمیدہ! ذرا چنی کو دیکھ۔۔۔۔۔ کپڑے بدلوا، صاحب نے ملنا ہے۔
وہ پہلا موقع تھا جب سالار نے چنی کو بغور دیکھا۔
سالار نے چنی کو اٹھا لیا اور وہ بھی بڑے آرام سے کسی جھجک کے بغیر اس کے پاس آ گئی۔ اس نے زندگی میں پہلی بار اس حلیے کا شخص دیکھا تھا۔سالار نے اسے تھپکتے ہوئے پچکارا تھا۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی۔
ہاں بس تھوڑی بیمار ہی رہتی ہے۔ شروع سے ہی ایسی ہے۔ ڈاکٹر کی دوائی سے بھی فرق نہیں پڑا۔ اب پیر صاحب سے دم کرا کے لائے ہیں۔ انہوں نے تعویز بھی دیا ہے گلے میں ڈالنے کے لیے۔۔۔۔۔۔ حمیدہ وہ تو ابھی ڈالا نہیں تم نے۔
سالار میاں بیوی سے اب اس بچی کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ اور وہ گڑبڑائے ہوئے اس کے چہرے اور جسم پر رستے ہوئے دانوں کی وجوہات اور علاج بیان کر رہے تھے۔
سالار کو احساس ہو گیا کہ وہ غلط جگہ پر تھی۔ اس کا خیال نہیں رکھا جا رہا تھا۔ اس کی کفالت کے لیے دی جانے والی امداد اس پر خرچ نہیں ہو رہی تھی۔پتا نہیں وہ کون سی ذہنی رو تھی جس میں اس نے چنی کو فوری طور پر وہاں سے لے جانے اور کسی دارالامان میں داخل کروانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے یہ فیصلہ چنی کے رشتہ داروں کو بھی سنا دیا تھا۔ ان کے احتجاج کے باوجود وہ چنی کو وہاں سے لے آیا تھا۔اس گاؤں سے اسلام آباد واپسی پر سالار اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتا رہا تھا اور چنی برابر والی سیٹ پر بیٹھی دروازے کی کھڑکی سے چپکی اطمینان سے پورا راستہ باہر دیکھتی رہی۔ وہ اگر بے چین ہوئی تھی تو صرف تب، جب سالار نے اسے گاڑی میں بٹھاتے ہوئے اسے سیفٹی بیلٹ باندھنے کی کوشش کی تھی۔ جو اس کے ہاتھ پاؤں مارنے پر سالار نے کھول دی تھی۔ اسے اس وقت حمین یاد آیا تھا۔ وہ بھی اس عمر میں اسی طرح سیٹ بیلٹ سے جان چھڑاتا تھا۔
بیلٹ کھولنے پر وہ ایک بار پھر پرسکون ہوگئی تھی۔اس نے ایک بار بھی سالار کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ سالار اس کا انہماک دیکھ کر مسکراتا رہا تھا۔ اس نے راستے میں ایک جگہ رک کر اسے ایک جوس کا ڈبہ اور بسکٹ کا ایک پیکٹ لے کر دیا۔ وہ منٹوں میں دونوں چیزیں کھا گئی جیسے وہ کئی دنوں کی بھوکی تھی۔
اسلام آباد آتے ہوئے گاڑی میں سفر کے دوران سالار اس بچی کی رہائش کے لیے مناسب ترین جگہ کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس وقت ایک لمحے کے لیے بھی اس نے نہیں سوچا کہ وہ اسے خود پالے گا۔ وہ اتنی بڑی ذمہ داری لینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور اگر سوچتا بھی تو امامہ سے پوچھے بنا نہیں کر سکتا تھا۔
اسلام آباد پہنچنے پر گھر کے گیراج میں اس کے بچوں نے بھاگتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ گاڑی کے اندر سب سے پہلے چنی کو ساڑھے تین سالہ حمین سکندر نے دیکھا۔ ہمیشہ کی طرح اس کی آنکھیں گول ہو گئی تھی، یوں جیسے اس نے جنگل کا کوئی جانور دیکھ لیا تھا۔ سالار نے حمین کو ہٹا کر گاڑی کا دروازہ کھولا اور چنی کو باہر نکال لیا۔ چنی سے آنے والی بدبو کے بھبھکے سب سے پہلے حمین نے ہی محسوس کیے۔
اوہ مائی گاڈ! یہ کتنی بدبودار گندی اور بد صورت ہے۔وہ بے اختیار ناک پہ ہاتھ رکھے کہتا گیا۔
حمین! سالار نے اسے ڈانٹنے والے انداز میں پکار کے گھورا۔
لیکن ٹھیک ہے۔ شاید اسے اس طرح رہنا پسند ہو۔ میرا مطلب ہے کچھ لوگ مختلف ہوتے ہیں۔ مجھے اس کا ہیئر اسٹائل اچھا لگا ہے۔ یہ کول ہے۔
حمین نے ہمیشہ کی طرح باپ کی پھٹکار کے بعد سیکنڈز میں اپنا بیان تبدیل کر دیا تھا۔
بابا! میں بھی اس کی طرح ہیئر اسٹائل بنانا چاہتا ہوں۔ سالار نے اس کی زبان کی قینچی کو نظرانداز کیا تھا۔ وہ ایک چھوٹے سائز کا خاموش نہ ہونے والا جن تھا۔ جو اس گھر کے افراد کے گرد ہر وقت منڈلاتا رہتا تھا اور اس کے سوالات۔۔۔۔۔۔ ختم نہ ہونے والے سوالات نے امامہ اور سالار کی آئیڈیل والدین بننے کی ہر خواہش اور معلومات کو ختم کردیا تھا۔
I think she is goldi look
حمین کی تعریفوں کا سلسلہ جاری تھا۔
یہ گولڈی لک نہیں ہے، یہ گندی ہے، اس نے کئی ہفتوں سے اپنے بال نہیں دھوئے۔ جبریل نے اسے ٹوک کر بتایا۔ وہ تینوں اب سالار کے پیچھے اندر جا رہے تھے۔
آل رائٹ! مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ کول نہیں۔ جواب پھر تڑاخ سے آیا تھا۔ جبریل بے اختیار پچھتایا۔ اس نے اس کے تبصرے کا جواب دے کر سالار کے پیچھے لگنے والی بلا اپنے پیچھے لگا لی تھی۔
اگر میں کئی مہینوں تک اپنے بال نہ دھوؤں تو میرے بال بھی ایسے ہوں گے؟ میرا مطلب ہے گولڈن براؤن یا ایش گرے یا مسٹرڈ یلو۔ اس کا ذہن اب کہیں سے کہیں پہنچ چکا تھا۔
نہیں۔ جبریل نے بے حد سخت لہجے میں فل سٹاپ لگایا۔
اوکے! حمین نے اطمینان سے کہا۔ لیکن میں اپنے بال ڈائی تو کر سکتا ہوں۔
جبریل نے اس بار اسے مکمل طور پہ نظرانداز کیا۔
امامہ نے سالار کو اس بچی کو اٹھائے دیکھا۔ وہ طیبہ کے ساتھ بیٹھی چائے پی رہی تھی۔ اور وہ چائے پینا ہی بھول گئی۔
یہ کون ہے؟
بعد میں بتاؤں گا۔ تم اسے نہلا کر کپڑے بدل دو اس کے۔ پھر میں اس کو ڈاکٹر کو دکھانا چاہتا ہوں۔
امامہ کچھ الجھی تھی لیکن وہ اسے لےکر چلی گئی تھی۔ اسے نہلانے کی کوشش کے آغاز میں ہی اسے پتا چل گیا تھا کہ اس بچی کے بالوں کو کاٹے بغیر اس کو نہلایا نہیں جا سکتا۔ اس کے سر میں بڑے بڑے پھوڑے تھے اور اس سے رسنے والی پیپ نے اس کی بالوں کی لٹوں کو آپس میں اس طرح جوڑ دیا تھا کہ اب ان کا کھلنا ممکن نہیں تھا۔ اس نے شیونگ کٹ میں پڑی قینچی سے چنی کے سارے بال جڑ سے کاٹنے شروع کیے۔ وہ اس کا سر گنجا نہیں کر سکتی تھی کیونکہ وہ پھوڑوں سے بھرا ہوا تھا۔ امامہ کو اس بچی کو نہلاتے ہوئے بہت رحم اور ترس آیا تھا۔ چنی چپ چاپ نہاتی رہی اس نے رونا دھونا نہیں مچایا۔ نہ ہی بال کٹنے پر پھوڑوں پہ ہاتھ لگنے پر کسی تکلیف کا اظہار کیا تھا۔
وہ بلآخر جب چنی کو مکمل یو کٹ میں نہلا دھلا کر حمین کا ہی ایک جوڑا پہنائے باہر لائی تو اسے دیکھ کر سب سے پہلے چیخ مارنے والا حمین تھا۔
اوہ مائی گاڈ! ممی آپ نے اسے مزید بدصورت اور خوفناک بنا دیا ہے۔ اور آپ نے میری سب سے فیورٹ شرٹ بھی خراب کر لی۔ ممی یہ لڑکی تھی، آپ نے اسے لڑکا بنا دیا۔ اللہ اس کے لیے آپ کو معاف نہیں کرے گا۔ امامہ کو اس کی بات پر ہنسی آئی۔ سالار ٹھیک کہتا تھا وہ عجیب و غریب ہی تھا۔
--------------------
اس سال صرف چنی سالار سکندر کے خاندان میں نہیں آئی تھی۔ اس سال کا دوسرا بڑا واقعہ سالار سکندر کے برین ٹیومر کی تشخیص تھا۔
اب اس کا کیا کرو گے؟ امامہ نے اپنے بیڈ پر سالار اور اپنے درمیان پرسکون گہری نیند میں چنی کو دیکھتے ہوئے سالار سے پوچھا اور وہ بھی اس وقت چنی کو ہی دیکھ رہا تھا.
زندگی میں پہلی بار کسی نے محبت اور شفقت سے اس کا پیٹ بھرنے تک اسے کھلایا تھا۔ اور وہ بے حد رغبت سے امامہ اور حمین کے ہاتھوں سے لقمے لے لے کر کھاتی رہی۔ خاص طور پر حمین کے ہاتھوں سے۔ جو بہت ضد کر کے اس کار خیر میں شامل ہوا تھا۔
اوہ مائی گاڈ! حمین نے اپنے ہاتھ میں پکڑا پہلا ہی لقمہ کھانے پر جیسے خوشی سے مخصوص انداز میں چیخ مارتے ہوئے نعرہ لگایا تھا۔ ممی یہ مجھےپسند کرتی ہے۔
چھ فٹ دور بیٹھے جبریل نے ایک کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک لمحے کے لیے نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر بے حد تحمل سے اگلا صفحہ پلٹتے ہوئے جوابی سرگوشی کی۔
صرف یہی تمہیں پسند کرتی ہے۔
سالار نے کچھ دیر پہلے ہی امامہ کو اس کے اور اس کے باپ اور خاندان کے حوالے سے پیش آنے والے تمام واقعات کو اپنے احساس جرم کے ساتھ آگاہ کیا تھا اور چنی کے لئے امامہ کی ہمدردی اور ترس میں بے پناہ اضافہ کر دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اہم ترین سوال وہ تھا جو اس وقت امامہ نے پوچھا تھا۔
میں اسے کسی یتیم خانے یا ویلفیئر ہوم میں داخل کروانے لایا ہوں۔ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا مجھ پہ اتنی ذمہ داری تو آتی ہے کہ میں اس کی زندگی خراب نہ ہونے دوں۔ سالار نے سنجیدگی سے امامہ سے کہا۔
تم احساس جرم کا شکار ہو رہے ہو؟ اس کے اعتراف کے باوجود امامہ کہے بغیر نہ رہ سکی۔
ہاں۔ جو کچھ اس کے باپ نے اپنے خاندان کے ساتھ کیا اس میں میں بھی قصوروار ہوں، تھوڑی سی زیادہ کنسرن دکھاتا میں تو یہ سب نہ ہوتا جو ہو گیا۔ سالار اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ امامہ نے اس کا ہاتھ تھپکا۔
تم اسے اپنے پاس رکھ کر کسی یتیم خانے میں داخل نہیں کروا سکتے ہو۔ خاص طور پر اس صورت حال میں، جب اس کے رشتہ دار موجود ہیں اور کورٹ نے انہیں اس کی گارڈین شپ بھی دے رکھی ہے۔ وہ تمہارے خلاف قانونی کاروائی کر سکتے ہیں۔ امامہ نے جیسے اسے خبردار کیا تھا۔
مجھے پرواہ نہیں۔ اس کا بھی کچھ نہ کچھ انتظام کر لوں گا۔ فی الحال میں نے اپنی لیگل ٹیم سے کہا ہے کہ وہ اس کے بارے میں مجھے ایڈوائس کریں۔ کورٹ کو اپروچ کیا جا سکتا ہے۔ اس بچی کے لیے گارڈین شپ بدلی جا سکتی ہے۔ وہ امامہ سے کہہ رہا تھا اور اس ساری گفتگو کے دوران سالار نے ایک لمحے کے لیے بھی اس بچی کو گود میں لینے کے آپشن پر سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ صرف اس بچی کی بہتر نگہداشت چاہتا تھا۔
یہ خیال پہلی بار اس گھر میں حمین کو آیا تھا جو دوسرے دن امامہ سے چنی کا نام پوچھنے کی جدوجہد کر رہا تھا۔
مجھے یاد ہی نہیں رہا تمہارے بابا سے اس کا نام پوچھنا۔
امامہ کو اس کے استفسار پر یاد آیا۔
میں اس کا نام رکھ دوں؟ حمین نے ماں کی بات کے جواب میں اسے تجویز پیش کی۔
نہیں تم یہ نہیں کر سکتے۔ جبریل نے جیسےاسے لگام ڈالنے کی کوشش کی۔
کیوں؟ حمین نے اپنا پورا منہ اور آنکھیں بیک وقت پوری طرح کھول کر انہیں گول کرتے ہوئے تعجب کی انتہا پر پہنچتے ہوئے کہا۔
کیونکہ اس کا پہلے ہی ایک نام ہے۔ جبریل نے اسی ٹھنڈے انداز میں اس کے سوال کا ایسے جواب دیا جیسے وہ اس کی عقل پر افسوس کر رہا ہو۔
تمہیں اس کا نام پتا ہے؟ تڑاق سے اگلا سوال جبریل کی طرف اچھالا گیا۔
نہیں۔ جبریل گڑبڑایا۔
حمین نے اسی انداز میں اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسی ڈرامائی انداز میں کہا۔ ممی اس کا نام نہیں جانتی۔ وہ اب امامہ کی طرف متوجہ تھا۔ وہ جیسے عدالت میں اس کا کیس لڑنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہا تھا۔
اور تم؟ کیا تم نہیں چاہتے کہ اس کا کوئی نام ہو؟
اس کے انداز میں اس قدر ملامت تھی کہ ایک لمحہ کو جبریل کو بھی مدافعانہ انداز اختیار کرنا پڑا۔
میں نے یہ تو نہیں کہا۔
میں نے خود سنا ہے۔ حمین نے اپنی موٹی موٹی سیاہ آنکھیں مکمل گول کرتے ہوئے اہم گواہ کا رول ادا کیا۔
جبریل نے فوری طور پر اپنا چہرہ کتاب کے پیچھے چھپانے میں ہی عافیت سمجھی۔ وہ اس چھوٹے بھائی کو تو تب بھی چپ نہیں کروا سکا تھا جب اسے بولنا نہیں آتا تھا۔
حمین! اس کے پیرنٹس نے اس کا کوئی نہ کوئی نام ضرور رکھا ہو گا۔ وہ اتنی بڑی ہے۔
امامہ نے اس بار مداخلت کرنا ضروری سمجھا۔ حمین کو اس کی بات پر جیسے کرنٹ لگ گیا۔
پیرنٹس۔۔۔۔۔۔ اس کے حلق سے عجیب سی آواز نکلی۔جبریل کو کتاب ہٹا کر اسے دیکھنا پڑ گیا۔
اوہ مائی گاڈ! حمین کی آواز صدمہ زدہ تھی۔ پھر یہ ان کے پاس کیوں نہیں؟
اس نے اسی صدمے میں امامہ سے جیسے احتجاجاً کہا تھا۔ اور یہ وہ سوال تھا جس کا جواب امامہ نہ دے سکی، اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔
کیا اس کا کوئی بہن یا بھائی بھی نہیں؟
نہیں، اس کا کوئی بھی نہیں۔ امامہ نےجواب دیا۔حمین کا چہرہ کھل اٹھا۔۔
تب تو میں اس کا نام رکھ سکتا ہوں۔ گفتگو جہاں سے شروع ہوئی تھی، گھوم پھر کر پھر وہی آگئی تھی۔ حمین کوئی بات بھولتا نہیں تھا اور یہ اس کے ماں باپ کی بدقسمتی تھی۔
اوکے! تم اس کا نام رکھ لو۔ امامہ نے جیسے ہاتھ جوڑنے والے انداز میں اس کے سامنے ہتھیار ڈالے۔
ممی! کیا یہ ہمارے ساتھ رہے گی؟ حمین نے ایک اور سوال سے اسے مشکل میں ڈالنا ضروری سمجھا۔
نہیں۔ امامہ نے اسی طرح کام میں مصروف اس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر کہا۔
کیوں؟ حمین نے جیسے چیخ نما انداز میں سوال کیا۔امامہ صرف گہری سانس لے کر رہ گئی۔
جب تمہارے بابا آئیں گے تو ان ہی سے پوچھنا۔ اس نے بلا کو اپنے سر سے ٹالنے کی کوشش کی۔
ممی! کیا ہم اسے اڈاپٹ کر سکتے ہیں؟ امامہ کا دماغ گھوم گیا تھا اس سوال پر۔
نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔
تم اسے اڈاپٹ کیوں کرنا چاہتے ہو؟ جبریل نے جیسے ہول کر کہا۔
کیونکہ مجھے ایک بے بی چاہیئے۔
اس نے بے حد نروٹھے انداز میں اعلان کیا۔ جبریل جیسے غش کھا گیا تھا۔ امامہ دم بخود اپنے ساڑھے تین سالہ بیٹے کی شکل دیکھ کر رہ گئی۔ جبکہ لاؤنج میں آتے ہوئے سکندر عثمان اپنی ہنسی پر قابو نہیں رکھ سکے تھے۔ حمین نے سکندر عثمان کو اندر آتے اور ہنستے دیکھ لیا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر جا کر ان کی ٹانگوں سے لپٹ گیا اور اس نے ایک بار پھر وہ مطالبہ پیش کیا۔
ایک دن آئے گا جب بے بی آپ کے پاس ہو گا۔ انہوں نے اسے تھپکتے ہوئے تسلی دی۔
ایک دن؟ حمین کی آنکھیں عادتاً گول ہوئی۔ آج کیوں نہیں؟
سکندر نے زمین پر بیٹھی کھلونوں سے کھیلتی چنی کو دیکھا۔ جتنا ترحم اور احساس جرم سالار کے دل میں چنی کے لیے تھا اتنا ہی سکندر کے دل میں بھی اس کے لیے تھا۔ وہ جیسے ان دونوں کا مشترکہ احساس جرم تھا۔
بیٹا اسے واپس جانا ہے۔ وہ آپ کی بے بی نہیں ہو سکتی ۔سکندر نے اب حمین کو سمجھانے کی کوشش کا آغاز کیا۔
اسے کہاں جانا ہے؟ حمین کو سکندر کی بات پر ایک اور جھٹکا لگا۔
اپنی فیملی کے پاس۔ سکندر نے مختصراً کہا۔
لیکن ممی نے تو کہا تھا کہ اس کی کوئی فیملی نہیں ہے۔
سکندر نے امامہ اور امامہ نے انہیں دیکھا۔ آپ کے بابا اس کو کسی نرسری میں داخل کروانا چاہتے ہیں۔امامہ نے اس کے لیے ایک جواب ڈھونڈا۔
یہ ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتی؟ ہمارا گھر اتنا بڑا ہے۔ اس نے ہاتھ پھیلا کر اتنا پر زور دیا۔
یہ ہمارا گھر نہیں ہے۔ یہ آپ کے دادا ابو کا گھر ہے۔اندر آتے ہوئے سالار نے اس کے سوال کا جواب پیش کیا۔
حمین سوچ میں پڑا۔
یہ ہمارے ساتھ کنشاسا میں رہ سکتی ہے۔ اسے کنشاسا والے گھر کا خیال آیا۔
لیکن وہ بھی ہمارا گھر نہیں، ہم اسے جلد چھوڑ دیں گے۔
سالار نے بے حد سنجیدگی سے اس کے ساتھ یوں بات کرنی شروع کی جیسے وہ کسی بڑے آدمی سے بات کر رہا ہو۔
حمین اب بھی سوچ میں پڑا تھا، جیسے وہ چنی کے لیے ایک گھر کی تلاش میں تھا۔ جہاں اسے رکھا جا سکتا اور امامہ کو گھر کے ذکر پر جیسے اپنا گھر یاد آیا۔
ہمارے پاس اپنا گھر کیوں نہیں ہے؟
ہمارا اپنا گھر ہو گا۔ امامہ نے جیسے حمین کو بہلایا۔
کب؟
بہت جلد۔
امامہ چائے بنا کر سکندر اور سالار کو پیش کر رہی تھی۔
اسی لیے منع کرتا تھا میں کہ فضول خرچیاں مت کرو۔ وقت پر اپنا گھر بنا لو۔ جیسے تمہارے سارے بھائیوں نے بنا لیے۔ سکندر عثمان کو اس موضوع گفتگو سے وہ پلاٹ اور وہ انگوٹھی یاد آئی۔ وہ پلاٹ اس وقت ہوتا تو چار پانچ کروڑ کا ہوتا۔ اس رنگ کی اس وقت کی مارکیٹ پرائس سے ڈبل۔سکندر نے روانی سے کہا۔ اپنے لیے چائے ڈالتی امامہ ایک لمحے کے لیے ٹھٹکی۔
کس رنگ کی؟ اس نے جیسے حیران ہو کر سکندر سے پوچھا۔
جو رنگ تم نے پہنی ہوئی ہے۔ سکندر نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔ سالار کو غلطی کا احساس ہوا لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ امامہ نے بے یقینی سے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی کو دیکھا۔ پھر سالار کو اور پھر سکندر عثمان کو۔
یہ پلاٹ بیچ کر آئی ہے؟
ہاں۔ ایک کروڑ سینتیس لاکھ کی۔ ذرا سوچو دس گیارہ سال پہلے وہ پلاٹ نہ بکتا تو آج وہ اسلام آباد میں جس جگہ پر ہے اس سے چار گنا زیادہ قیمت ہو چکی ہوتی۔
سکندر نےنہ امامہ کے تاثرات پر غور کیا، نہ سالار کے۔ وہ روانی میں چائے پیتے ہوئے بات کرتے گئے۔
امامہ ساکت اور دم بخود سالار کو دیکھ رہی تھی جو اس سے نظریں چرائے چائے پینے میں مصروف تھا اس وقت وہ یہی کر سکتا تھا۔
کمرےمیں یکدم اپنی بات کے اختتام پر چھانے والی خاموشی سے سکندر عثمان کو لگا کچھ ٹھیک نہیں۔
چائےکا آخری گھونٹ لیتے ہوئے وہ رکے۔ انہوں نے ساکت بیٹھی امامہ کو دیکھا جو سالار کو گھور رہی تھی۔ پھر سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں انہیں اس خاموشی کی وجہ سمجھ آ گئی تھی۔
اسے اب بھی نہیں پتا؟ انہوں نے بے یقینی سے اپنے بیٹے سے پوچھا۔
اب پتا چل گیا ہے۔ سکندر کی سمجھ میں نہیں آیا وہ فوری طور پر اس انکشاف پر کیا رد عمل کرے۔ جو ایک راز کو غیر ارادی طور پر افشا کرنے پر ان کی شرمندگی چھپا لیتا۔
امامہ نے اپنے ہاتھ کی پشت کو پھیلا کر اس انگوٹھی کو دیکھا۔ پھر سکندر کو اور پھر سالار کو۔ وہ اگر کہتا تھا کہ وہ انمول تھی تو غلط نہیں کہتا تھا۔ اس کی زندگی میں بہت سارے لمحے آئے جب اس کا دل بس سالار کے گلے لگ جانے کو چاہا تھا۔ کسی لفظ اور کسی اظہار کے بغیر۔
*******------******-----**
تم نے رنگ اتار دی؟ اس رات امامہ کے ہاتھ میں اس رنگ کو نہ پا کر وہ پوچھے بنا نہ رہ سکا۔
میں بے وقوف نہیں ہوں جو اتنی قیمتی رنگ ہر وقت پہنے رہوں۔ امامہ نے جواباً کہا۔ تمہیں مجھے بتانا چاہیے تھی اس کی قیمت۔ اس نے سالار سے کہا۔
صرف اس خدشے کے تحت نہیں بتایا تھا تمہیں اور دیکھ لو میرا اندازہ ٹھیک تھا۔ تم اسے بھی اب لاکر میں رکھ دو گی۔
سالار کچھ ناخوش سا دوبارہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہوا۔ ایک لمحہ کے لیے امامہ خاموش رہی پھر اس نے کہا
تو اور کہاں رکھوں؟ ساتھ لیے پھرنا بے وقوفی ہے۔ گم ہو جائے تو؟ مجھے تو ہارٹ اٹیک ہی ہو جائے گا جو ایک کروڑ سے بھی مہنگی انگوٹھی میں گم کر دوں۔
تقریباً سوا دو کروڑ۔
سالار ٹی وی پر نظریں جمائے بڑبڑایا۔ امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا۔
کیا؟
اس کی موجودہ قیمت۔ وہ اسی انداز میں بولا۔
اس لیے تو نہیں پہن رہی۔۔ بے وقوفی تھی ویسے یہ۔اس نے ایک ہی سانس میں کچھ توقف کے بعد کہا۔
کیا؟ سالار اس بار اس کی طرف متوجہ ہوا۔
ایک پلاٹ بیچ کر انگوٹھی خریدنا اور وہ بھی اتنی مہنگی۔ میں تمہاری جگہ ہوتی تو کبھی نہ خریدتی۔
اسی لیے تم میری جگہ نہیں ہو امامہ! سالار نے جتانے والے انداز میں کہا۔ وہ نادم ہوئی لیکن اس نے ظاہر نہیں کیا۔
وہ پلاٹ ہوتا تو آج اسے بیچ کر گھر بنا چکے ہوتے ہم۔اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
تمہارے خوابوں کا ایکڑوں پر پھیلا ہوا گھر چند کروڑ میں بن جاتا؟
وہ اب اسے چڑانے والے انداز میں کچھ یاد دلا رہا تھا۔اور امامہ کو ایک جھماکے کےساتھ وہ سکریپ بک یاد آئی جس میں اس نے اپنے ممکنہ گھر کی ڈھیروں ڈرائنگز بنا رکھی تھی۔
اچھا کیا مجھے یاد دلا دیا۔ میں تو کل ہی وہ سکریپ بک نکالتی ہوں، مدت ہو گئی اسے دیکھے ہوئے اور اس میں کچھ ایڈ کیے۔۔
امامہ کا ذہن برق رفتاری سے انگوٹھی سے ہٹ کر گھر پر چلا گیا تھا اور پھر سالار کو امریکہ میں خریدے اور بیچ دینے والے گھر کا خیال آیا۔
تمہیں ایک چیز دکھاؤں؟ سالار نے ٹیبل پر پڑے اپنے لیپ ٹاپ کو اٹھا لیا۔
کیا؟ وہ چونکی۔
سالار اب لیپ ٹاپ کھول کر اس میں سے تصویروں والے حصے میں جا کر اس گھر کی تصویریں ڈھونڈ رہا تھا اور وہ چند منٹوں میں سکرین پر نمودار ہو گئی تھی۔
یہ کیا ہے؟ امامہ نے ایک کے بعد ایک اسکرین پر نمودار ہونے والی ان تصویروں کو دیکھتے ہوئے سالار سے پوچھا۔۔۔
ایک گھر۔۔۔۔۔۔۔ ایک جھیل۔۔۔۔۔۔ اس کے گرد پھیلا لان۔۔۔۔۔۔
وہ اس کی بات پر ہنسی۔
وہ تو مجھے نظر آرہا ہے، لیکن کس کا گھر ہے یہ۔
اس نے سالار سے پوچھا۔ اور مجھے کیوں دکھا رہے ہو؟
جب حمین پیدا ہوا تھا اور میں تمہارے پاس امریکہ سے آیا تھا تو اس رات تم نے مجھے بتایا تھا کہ تم نے خواب میں ایک گھر دیکھا تھا۔ کیا وہ گھر ایسا تھا۔ تمہیں خواب یاد ہے نا؟ سالار نے اس سے پوچھا۔
ہاں یاد ہے۔ لیکن وہ گھر ایسا نہیں تھا۔ وہ جھیل بھی ایسی نہیں تھی۔ اور یہ کہہ کر اس نے سالار کے احساس جرم سے جیسے ہوا نکال دی۔
کیوں؟ تم کیوں پوچھ رہے ہو یہ سب؟ اور یہ گھر کس کا ہے؟ امامہ کو اب الجھن ہوئی۔
تمہارے لیے خریدا تھا۔ سالار پھر تصویروں کو سکرول کرنے لگا۔
امامہ کو اس کی بات پر جیسے جھٹکا لگا۔ کیا مطلب میرے لیے۔
ہاں تمہارے لیے mortagage کیا تھا امریکہ میں ۔تمہیں سرپرائز دینا چاہتا تھا۔ تمہاری برتھ ڈے پر گفٹ کر کے لیکن۔۔۔۔۔۔
لیکن؟ امامہ نے اس کے خاموش ہونے پر پوچھا۔
لیکن پھر میں نے اسے بیچ دیا۔ سود سے میں دنیا میں تو گھر لے سکتا تھا، جنت میں گھر نہیں لے سکتا۔
تم لے بھی لیتے تو میں اس گھر میں کبھی نہیں جاتی۔ صرف ایک گھر ہی کی تو فرمائش کی ہے تم سے پوری زندگی میں، وہ بھی حرام کے پیسے سے بنا کر دیتے مجھے؟ امامہ نے سنجیدگی سے کہا۔
میں تمہارے خوابوں کا گھر بنا کر دینا چاہتا تھا ایکڑوں پر پھیلا۔۔۔۔۔ جھیل کنارے۔۔۔۔۔۔۔ سمر ہاؤس۔۔۔۔۔۔۔اور جلدی بنانا چاہتا تھا۔ بڑھاپے تک پہنچنے سے پہلے۔
امامہ نے سر جھٹکا۔ تم واقعی بے وقوف ہو۔ میرے خوابوں کے گھر کی اینٹیں حرام کے پیسوں سے رکھی جائے یہ خواہش نہیں کی تھی میں نے اور ایکڑوں کا گھر تم سے کہا تھا لیکن دعا اللہ سے کرتی تھی کہ وہ اسے مکمل کرے اور اتنے وسائل دے۔ تم سے ایک بار بھی میں نے نہیں کہا کہ اتنا کماؤ یا اسی سال گھر کھڑا کر کے دو۔ کبھی بھی یاد دہانی نہیں کرائی تمہیں۔ پھر کیوں جلدی تھی تمہیں اس گھر کے لیے۔
اسے افسوس ہو رہا تھا۔
تم نے کبھی مجھ سے نہیں کہا، مجھے ریمانڈ نہیں دیئے، لیکن مجھے پتا تو تھا نا کہ تمہاری خواہش ہے یہ۔ میں چاہتا تھا میں تمہاری خواہش پوری کردوں۔ تم نے صرف ایک چیز مانگی تھی مجھ سے اس لیے۔وہ اس سے کہتا جا رہا تھا۔ امامہ ہنس پڑی۔
تم خواب دیکھ رہے ہو سود سے پاک ایک اسلامی مالیاتی نظام کا، جسے دنیا میں رائج کر سکو اور میں خواب دیکھتی ہوں ایکڑوں پر پھیلے ایک گھر کا۔ حلال کے پیسے سے بنے ہوئے گھر کا۔ خواب تمہارا بھی اللہ ہی پورا کر سکتا ہے اور میرا بھی۔ اس لیے اسے اللہ پر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ویسے بھی میں نے سوچا ہے وہ انگوٹھی بیچ کر اس سے کوئی پلاٹ تو لے کر رکھ ہی سکتی ہوں میں۔
سالار نے بے حد خفگی سے اس کی بات کاٹی۔ تم اسے بیچ دو گی؟
وہ ہنس پڑی۔ نہیں، تم سمجھتے ہو میں اسے بیچ سکتی ہوں؟
ہاں۔ سالار نے اسی نروٹھے انداز میں کہا۔ وہ ایک بار پھر ہنس پڑی۔ تمہیں پتا ہے دنیا میں صرف ایک مرد ہے جو میرے لیے ایسی انگوٹھی خرید سکتا ہے۔
اب تم رو کر مجھے جذباتی کرو گی۔ سالار نے اس کی آنکھوں میں ابھرتی نمی کو دیکھ کر حفاظتی بند باندھنے کی کوشش کی۔
یہ انگوٹھی انمول ہے۔ تم انمول ہو۔ اس نے ٹھیک بھانپا تھا۔ امامہ کی آنکھیں برسنے لگی تھی۔
پھر ایک بات مانو۔ سالار نے اس کا ہاتھ تھاما۔
کیا؟
اسے ہاتھ میں پہن لو۔
گم ہو جائے گی۔ وہ روتے ہوئے بولی۔
میں اور لے دوں گا۔ اس نے امامہ کے آنسو پونچھے۔
تمہارے پاس بیچنے کے لیے اب کچھ ہے ہی نہیں۔امامہ نے آنسوؤں کی بارش میں بھی ہوش مندی دکھائی۔ وہ ہنسا۔
تم مجھے ایسٹیمیٹ کر رہی ہو۔
اس سے پہلے وہ کچھ اور کہتا باہر میٹرس پر سویا ہوا حمین جاگ گیا۔
وہ دونوں بیک وقت اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ نیند مین کچھ بڑبڑایا تھا۔
اب کیا کہہ رہا ہے؟ سالار حیران ہوا۔
امامہ نے اسے دوبارہ لٹا کر تھپکنا شروع کر دیا اور اس کے برابر انگوٹھا منہ میں ڈالے لیٹی ہوئی چنی کو دیکھا۔
سالار اس کے بارے میں جو بھی طے کرنا ہے جلدی کرو۔ حمین جس طرح اس سے اٹیچ ہو رہا ہے میں نہیں چاہتی کچھ اور وقت یہاں رہنے کے بعد یہ یہاں سے جائے تو وہ اپ سیٹ ہو۔
امامہ نے چنی پر چادر ٹھیک کرتے ہوئے سالار سے کہا۔
صبح طے کر لوں گا کہ اسے کہاں چھوڑ کر آنا ہے۔ جو دو چار ادارے مجھے مناسب لگ رہے ہیں ان کے بارے میں انفارمیشن لایا ہوں۔
اگلے دن وہ اس بچی کو لے کر ان چاروں اداروں میں گئے تھے جہاں وہ اسے رکھنا چاہتے تھے۔ دو اداروں نے مناسب قانونی کاروائی کے بغیر اس بچی کو فوری طور پر اپنی تحویل میں لینے سے انکار کر دیا۔ جن دو اداروں نے اس بچی کو وقتی طور پر لینے پر آمادگی ظاہر کی وہاں بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال کے انتظامات دیکھ کر وہ دونوں خوش نہیں ہوئے۔
شام کو وہ پھر چنی کے ساتھ واپس گھر پہنچ چکے تھے اور حمین کی باچھیں چنی کو ایک بار پھر دیکھ کر کھل گئی تھی۔ وہ صبح بھی بڑی مشکل سے چنی کو رخصت کرنے پر تیار ہوا تھا۔ اور اب چنی کی واپس آمد اس کے لیے اک بگ نیوز تھی۔
اگلے چند دن سالار نے چنی کی گارڈین شپ کے حوالے سے قانونی کاروائی کرنے اور چنی کی پیدائش اور اس سے متعلقہ باقی کاغذات پورے کرنے کی کوشش کی اور جب دو تین دنوں میں وہ ان کاموں میں پھنسا رہا تو حمین نے چنی کے بارے میں یہ بھی دریافت کیا کہ وہ گونگی تھی۔ کیونکہ وہ ان تین چار دنوں میں بالکل خاموش رہی۔
اور یہ چنی کے بارے میں ایک خوفناک انکشاف تھا جس نے امامہ اور سالار دونوں کو ہولا دیا تھا۔
ممی یہ گونگی ہے۔ حمین نے کہا۔ مجھے پوتا یقین ہے۔
نہیں، سن تو رہی ہے۔ امامہ نے چنی سے بات کرنے کی کوشش کے بعد نتیجہ نکالتے ہوئے کہا۔وہ ہر آواز پر متوجہ ہوتی تھی۔
ممی یہ امپورٹنٹ نہیں ہے۔ اہم بات بولنا ہے۔ اور یہ بول نہیں سکتی۔ حمین نے اس کی معذوری پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اپنی آنکھوں میں حتی المقدور رنجیدگی اور افسوس شامل کیا۔
سب سے اہم بات سننا ہے۔ امامہ نے بڑے غلط موقع پر اپنے بیٹے کو نصیحت کی کوشش کی تھی۔
میں ایسا نہیں سمجھتا، یہاں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں، جو سن سکتی ہیں لیکن چند ہی ایسی ہے جو بول سکتی ہے ۔
محمد حمین سکندر کی دانائی نے امامہ کو ہمیشہ کی طرح چاروں شانے چت گرایا تھا۔
----------********-----------
چنی کے نصیب میں کسی ادارے میں پرورش پانا نہیں لکھا تھا۔ اس کے نصیب میں سالار سکندر کے گھر میں ہی پلنا بڑھنا لکھا تھا۔ جب تک سالار قانونی معاملات کو نپٹا کر چنی کے لیے ایک ادارے کا انتخاب کرتا۔ چنی کو شدید نمونیہ ہو گیا تھا۔ دو دن بعد ان لوگوں کو واپس کانگو جانا تھا۔ ان کی تین ہفتے کی چھٹی ختم ہو رہی تھی۔ ایک عجیب خدشہ ان دونوں کو لاحق ہوا تھا اگر اس بچی کی نگہداشت نہیں ہوتی اور اگر وہ اس کے اس طرح چھوڑ جانے پر خدانخواستہ مر جاتی تو وہ خود کو کبھی معاف نہیں کرتے۔ سالار اور امامہ نے فیصلہ کیا کہ امامہ بچوں کے ساتھ تب تک وہی رہے گی جب تک چنی کی حالت سنبھل نہیں جاتی۔سالار واپس چلا گیا تھا۔
امامہ دو ہفتے اور پاکستان میں رہی۔ چنی کی حالت سنبھل گئی تھی۔ مگر اب وہ بچوں کے ساتھ اور خاص طور پر حمین کے ساتھ اس طرح اٹیچ ہو گئی تھی کہ وہ ان سے الگ ہونے پر تیار ہی نہیں تھی۔سالار ان لوگوں کو پاکستان سے واپس لے جانے کے لیے آیا تھا اور حمین کو بتائے بنا وہ دوبارہ چنی کو ایک ادارے میں چھوڑنے گیا۔ وہ دونوں بار اس سے لپٹ کر چیخیں مار کر رونے لگی۔ وہ اس کے علاوہ کسی اور کی گود میں بھی جانے کو تیار نہیں تھی۔ وہ زبردستی اسے تھما کر باہر نکلتا اور اس کی چیخوں کی آواز سن کر کسی عجیب کیفیت میں واپس چلا آتا وہ اس کیگود میں آتے ہی چپ ہو جاتی۔
وہ جبریل کو قرآن پاک خود حفظ کروا رہا تھا اور پاکستان سے چلے جانے کے بعد دو ہفتوں تک وہ روز اسکائپ پر جبریل کو پڑھاتا۔ پھر بچوں اور امامہ سے بات کرتا تو چنی بھی اس ماحول کا حصہ ہوتی۔ وہ سالار کو اسکرین پر نمودار ہوتے دیکھ کر اسی طرح خوشی سے چیخیں مارتی۔ اوں آں کرتی۔۔۔ اور اس نے اپنی زندگی کا پہلا لفظ بھی سالار کے پاکستان آنے پر اسے دیکھ کر باقی بچوں کے ساتھ اس کی طرف بھاگتے ہوئے ادا کیا تھا۔ با۔۔۔۔۔با۔۔۔۔۔۔ وہ سالار کی طرف بھاگتے ہوئے بولتی جا رہی تھی اور اس بات کو سب سے پہلے حمین نے نوٹس کیا۔
اوہ مائی گاڈ! یہ بول سکتی ہے۔سالار کی طرف بھاگتے ہوئے حمین کو جیسے بریک لگ گئی۔ وہ اپنی موٹی آنکھیں گول کر کے چنی کو دیکھ رہا تھا۔ جو اب سالار کے پیروں سے لپٹی تھی۔ سالار عنایہ کو اٹھائے ہوئے تھا۔ اور وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹی با۔۔۔۔۔با۔۔۔۔۔۔ بولتی جا رہی تھی۔ منہ اوپر کیے ہوئے، چمکتی آنکھوں کیساتھ، پدرانہ شفقت اگر کوئی چیز تھی تو اس وقت سالار نے چنی کے لیے وہی محسوس کی۔اور کس رشتے سے، یہ اسے سمجھ نہیں آیا۔
سالار نے عنایہ کو اتارا اور اپنی ٹانگوں سے لپٹی چنی کو اٹھا لیا۔ وہ کھلکھلائی۔ اس نے عنایہ کی طرح باری باری سالار کے گال چومے۔ پھر وہ سالار کی گردن کے گرد ہاتھ لپیٹ کر اس کے ساتھ یوں چپک گئی کہ اب نیچے نہیں اترے گی۔ وہ کیسے ان کے گھر اور زندگیوں کا حصہ بن گئی انہیں احساس تک نہیں ہوا۔سوائے حمین کے، جو دن میں تقریباً تین سو بار یہ اعلان کرتا تھا کہ وہ اس کی بہن ہے۔
سالار واپس جانے سے پہلے امامہ کے ساتھ بیٹھ کر چنی کے لیے ہر امکان کو زیر غور لاتا رہا تھا۔ اور ہر امکان کو رد کرتا رہا یہاں تک کہ امامہ نے کہہ ہی دیا۔
تم اسے اڈاپٹ کرنا چاہتے ہو؟
ہاں۔ لیکن یہ کام تمہاری مرضی کے بنا نہیں ہو سکتا۔پالنا تو تمہیں ہے۔ تم پال سکتی ہو؟ سالار نے اس سے پوچھا۔
پہلے کون پال رہا ہے؟ امامہ نے عجب جواب دے کر جیسے سالار کو اس مشکل سے نکال لیا تھا۔
اگر اس کے نصیب میں ہمارے ہی گھر میں پرورش پانا لکھا ہے تو ہم کیسے روک سکتے ہیں۔
چنی کو اڈاپٹ کرتے وقت سالار نے اس کو اپنی ولدیت بھی دی تھی۔
رئیسہ سالار اپنے نصیب میں اور اپنے سے منسلک ہر شخص کے نصیب میں خوش نصیبی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ خوش نصیبی کا وہ پرندہ جو جس کے سر پر بیٹھتا اسے بادشاہ بنا دیتا۔ اور اسے ایک بادشاہ ہی کی ملکہ بننا تھا۔
--------******---***---------
کانگو کا آخری سال سالار کے لیے کئی حوالوں سے بے حد ہنگامہ خیز رہا۔ وہ ورلڈ بنک کے ساتھ اپنے آخری سال میں اپنے سارے معاملات کو وائنڈ اپ کر رہا تھا۔ امریکی حکومت نے اسے صدر کے عہدے کی پیشکش کی تھی۔ ورلڈ بنک کا پہلا کم عمر ترین مسلمان صدر۔ بیالیس سال کی عمر میں اس عہدے پر کام کرنے کے لیے کوئی کچھ بھی کرنے کو تیار ہو سکتا تھا۔
وہ تاریخ کا حصہ بن سکتا تھا۔ بےحد آسانی سے۔ اس نے امریکہ میں ہونے والی میٹنگ اور اس آفر کے بارے میں سب سے پہلے کانگو واپس آنے پر امامہ کو بتایا تھا۔
تو؟ اس نے سالار سے پوچھا۔
تو کیا؟ سالار نے اسی انداز میں کہا۔
تم نے کیا کہا؟ امامہ نے اس سے پوچھا۔
میں نے سوچنے کے لیے ٹائم لیا ہے۔ امامہ اس کے جواب سے بے حد ناخوش ہوئی۔
سوچنے کے لیے ٹائم؟ تم انکار کر کے نہیں آئے؟ اس نے جیسے سالار کو یاد دلایا۔
انکار کیا تھا، قبول نہیں ہوا۔ مجھے سوچنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تم کیا سوچ رہے ہو سالار؟ تم یہ آفر قبول کرنا چاہتے ہو؟ اس نے سالار سے ڈائریکٹ سوال کیا۔
کرنی چاہیے کیا؟ سالار نے جواباً پوچھا۔
نہیں۔ اتنا حتمی اور دو ٹوک جواب آیا تھا کہ سالار بول ہی نہ سکا۔
تمہیں یاد نہیں تم کس مقصد کے لیے کام کر رہے ہو اور کیا کرنا چاہتے ہو؟ امامہ نے جیسے اسے یاد دلایا۔
بالکل یاد ہے۔
پھر الجھن کس بات کی ہے؟ امامہ نے پوچھا۔
الجھن نہیں ہے، صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ ابھی تھوڑا وقت چاہیے مجھے اپنے پروجیکٹ کو عملی شکل میں دنیا کے سامنے لانے کے لیے۔ورلڈ بنک کے صدر کے طور پر کام کر لوں گا تو اس پروجیکٹ میں بہت مدد ملے گی۔ ڈھیروں کمپنیز اور انویسٹرز ہمارے پاس آئیں گے۔ بہت سی جگہوں پر مجھے تعارف کروانا ہی نہیں پڑے گا۔
امامہ نے اسے ٹوکا۔ بس! صرف یہ وجہ ہے؟ وہ ان چند انسانوں میں سے تھی جس کے سامنے وہ جھوٹ نہیں بول سکتا تھا۔ وہ اس کا جھوٹ پکڑ لیتی تھی پتا نہیں یہ خصوصیت ساری بیویوں کی ہوتی ہیں یا صرف امامہ ہاشم کی تھی۔
ورلڈ بنک کے صدر کے طور پر ایک مسلمان کی تعیناتی ایک اعزاز بھی تو ہے۔ سالار نے اس بار بے حد مدھم آواز میں وہ ترغیب بھی سامنے رکھی۔
ورلڈبنک کیا ہے سالار؟ کچھ بھی نہیں۔ سود کا کام کرنے والی قوموں کا اجتماع اور کیا ہے؟ کیا اعزاز والی بات ہے اس میں کہ سود کا کام کرنے والی ان قوموں کی سربراہی ایک مسلمان کے پاس ہو۔ یہ اعزاز نہیں بلکہ شرم سے ڈوب مرنے والی بات ہے ایک مسلمان کے لیے۔
امامہ نے جیسے اسے آئینہ نہیں جوتا دکھایا تھا۔ جس پروجیکٹ پر تم کام کر رہے ہو اس میں کامیابی تمہیں اللہ نے دینی ہے۔ تمہارے علم، تجربے اور قابلیت اور ورلڈ بنک کے ساتھ منسلک شناخت نے نہیں۔ تم اب چالیس سال کے ہو چکے ہو، بچے بڑے ہو رہے ہیں۔ پانچ سال ورلڈ بنک کا صدر رہنے کے بعد تم سینتالیس سال کے ہو چکے ہو گے۔ پھر اس کے بعد تم ایک اسلامی مالیاتی نظام پر کام کرنا شروع کرو گے؟ جب تم اپنی ساری جوانی ورلڈ بنک کو دے چکے ہو گے۔ تم یقیناً مذاق کر رہے ہو پھر۔۔۔۔۔۔ اپنے ساتھ، اور ان لوگوں کے ساتھ، جنہیں تم ایک ممکنہ انقلاب کا حصہ بنائے بیٹھے ہو۔ وہ کہتے ہوئے اٹھ گئی۔
تمہیں پتا ہے امامہ! میری زندگی کا سب سے بہترین اثاثہ کیا ہے؟ تمہاری یہ ظالمانہ صاف گوئی۔ جو مجھے میری اوقات میں لے آتی ہے۔ تم مجھ سے امپریس کیوں نہیں ہو جاتی؟
امامہ اس بار رک کر اسے دیکھنے لگی۔
میں الجھا تھا لیکن گمراہ نہیں ہوا۔ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ وقت گزرتا جارہا ہے۔ وہ اب اپنا اعترافی بیان دے رہا تھا۔ امامہ کو چہرہ کھل اٹھا تھا۔
مجھے تم سے متاثر ہونے تمہارے، گن گانے کے لیے بنایا ہی نہیں گیا سالار۔ اس کے لیے دنیا ہے۔مجھے تمہیں چیلنج کر کے تمہیں آگے بڑھانے کے لیے تمہارا ساتھی بنایا گیا ہے۔ یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا۔ وہ اب مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آفر میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آگئی تھی اور ورلڈ بنک کے اگلے ممکنہ صدر کے طور پر سالار سکندر کا نام بہت سی جگہوں پر اچھالا جانے لگا۔ یہ اس کے خاندان اور حلقہ احباب کے لیے بے حد فخر کا باعث بننے والی خبر تھی اور سالار کے انکار کرنے کے باوجود کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہ تھا کہ وہ اس آفر کو قبول کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔
سکندر عثمان خاص طور پر اس کے اس فیصلے سے خوش نہیں ہوئے تھے۔
تم عقل سے پیدل ہو اور ہمیشہ رہو گے۔ انہوں نے بے حد خفگی کا اظہار کرتے ہوئے سالار سے کہا۔
سالار چند دن کے لیے پاکستان آیا ہوا تھا اور سکندر نے ضروری سمجھا تھا کہ وہ ایک بار اسے سمجھانے کی کوشش کرتے اور اس کوشش کے دوران سالار کی بتائی ہوئی وجہ پر وہ سیخ پا ہو گئے۔
تم ورلڈ بنک کا صدر نہیں بننا چاہتے۔ تم سود سے پاک ایک اسلامی مالیاتی نظام بنانے کا خیالی پلاؤ پکاتے اور کھاتے رہنا چاہتے ہو۔ وہ اتنا تلخ ہونا نہیں چاہتے تھے جتنا ہو گئے تھے۔ تمہاری طرح ڈھیروں لوگ یہ خیالی پلاؤ بنا رہے ہیں، ساری دنیا میں اور بناتے ہی جا رہے ہیں۔ نہ پہلے کوئی کچھ کر سکا تھا نہ ہی آئندہ کچھ ہونے والا ہے۔ اور مجھے یقین ہے تمہارے اس ذہنی فتور کے پیچھے امامہ کا ہاتھ ہو گا۔ اس سے مشورہ تو کیا ہو گا نا تم نے۔
تم جانتے ہو سالار یہ جو موجودہ نظام ہے اسے ہٹانا کیوں مشکل ہے؟ کیونکہ یہ افراد کا بنایا ہوا نظام نہیں ہے۔ ریاستوں کا بنایا ہوا نظام ہے۔ فلاحی ریاستوں کا نظام۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بے شک اسلامی نہ ہو لیکن اپنے اندر اس نظام کو چلا کر کم از کم اپنے معاشرے میں لوگوں کو ایک فلاحی سسٹم دیے ہوئے ہیں۔ تم افراد کو چیلنج کر سکتے ہو ریاستوں کو نہیں۔
آپ ٹھیک کہتے ہیں، جب تک کسی قوم کے افراد صرف اپنے لیے جیئے اور مریں گے تب تک کچھ نہیں بدلے گا۔ جب لوگ قوم کے لیے سوچنا شروع کر دیں گے، سب کچھ بدل جائے گا۔ اس نے سکندر عثمان سے کہا۔
جن معاشروں اور اقوام کی مثالیں آپ دے رہے ہیں ان کے ڈھیروں افراد نے اپنی زندگیاں لیبارٹریز، لائبریریز پر صرف اس خواب اور عزم کے ساتھ گزاری تھی کہ جو کام وہ فرد کے طور پر کر رہے ہیں وہ ان کی قوم کے لیے بہتر ثابت ہو۔ ان میں سے کوئی بھی پرسنل گلوری کے لیے زندگی قربان نہیں کر رہا تھا۔ وہ بانی اور موجد کے طور پر کوئی پہچان بنا کر تاریخ کا حصہ بننا چاہتے تھے اور یہی خواہش میری بھی ہے۔ایک کوشش مجھے بھی اپنی قوم کے لیے کرنے دے۔
سکندر عثمان بہت دیر تک کچھ بول ہی نہ سکے تھے۔ اس نے ان ہی کی باتوں کا حوالہ دے کر ان سے بحث کی تھی اور ہمیشہ کی طرح وہ بحث جیت گیا۔
ورلڈ بنک کے کتنے صدر گزر چکے ہیں مجھ سے پہلے؟ کسی کو نام بھی یاد نہیں ہوں گےکہ انہوں نے ورلڈ بنک کے صدر کے طور پر کیا کارنامے سرانجام دیے تھے۔ ایک کوشش کرنا چاہتا ہوں شاید اس میں کامیاب ہو جاؤں اور اگر ناکام بھی رہا تو بھی کوئی احساس جرم تو نہیں ہو گا کہ میں سود کھانے اور کھلانے والوں کے ساتھ زندگی گزار کر مرا۔
ٹھیک ہے۔ تم جو کچھ کرنا چاہتے، ہو کرو۔ انہوں نے بے حد مایوسی سے کہا۔ تم نے پہلے کبھی میری بات نہیں مانی تو اب کیسے مانو گے۔ سالار مسکرایا۔ وہ باپ کی مایوسی کو سمجھ سکتا تھا۔ وہ ان کا خواب توڑ رہا تھا۔
مجھے یقین ہے پاپا، میں جو بھی کرنے جا رہا ہوں وہ صحیح ہو گا۔ اس لیے آپ پریشان نہ ہو۔ اس نے سکندر کو تسلی دی۔
اور یہ یقین تمہیں کیوں ہے؟ سکندر طنز کیے بغیر نہ رہ سکے۔
کیونکہ آپ نے زندگی میں جب جب مجھے جس بھی فیصلے سے روکا ہے وہ میرے لیے بہت اچھا ثابت ہوا ہے۔ آپ کی ممانعت گڈ لک چارم ہے میرے لیے۔
سکندر ٹھیک کہتے تھے وہ واقعی ڈھیٹ تھا۔ مگر اس نے سینس آف ہیومر باپ سے ہی لیا تھا۔ جن کا پارہ لمحہ میں چڑھا اور اترا اور وہ ہنس پڑے۔
کمینے!
شکریہ! سالار نے جوابی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
--------------------------------
اور یہ فلو کب سے چل رہا ہے تمہارا؟ فرقان نے سالار سے پوچھا۔ وہ آٹھ مہینے کے بعد مل رہے تھے۔
یہ تو اب ایک ڈیڑھ ماہ سے کچھ مستقل ہی ہو گیا ہے۔ آتا جاتا رہتا ہے۔ سر درد کے ساتھ۔ شاید کسی چیز کی الرجی ہے۔ سالار نے لاپروایئ سے کہا۔
تم کوئی میڈیسن لے رہے ہو؟ فرقان نے پوچھا۔
ہاں وہی اینٹی بائیوٹک لیکن اثر کبھی ہوجاتا ہے کبھی نہیں۔ سالار نے بتایا۔
تم بلڈ ٹیسٹ کروالو کہیں کوئی اور مسئلہ نہ ہو۔فرقان اس وقت مر کے بھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ مسئلہ اتنا بڑا ہو سکتا ہے۔ سالار کے کروائے جانے والے ٹیسٹس نے فرقان کے پیروں کے نیچے سے زمین نکال دی تھی۔ اسے یہ یقین ہی نہیں آیا تھا کہ یہ رپورٹس سالار کی ہو سکتی ہے۔
کیوں؟ مزید ٹیسٹس کیوں؟ کوئی ایسا سیریس مسئلہ تو نہیں مجھے۔ دوسرے دن مزید ٹیسٹ کا کہنے پر سالار نے ایک بار پھر لاپروائی سے اس کی بات ہوا میں اڑانے کی کوشش کی۔ اسے لاہور میں کاموں کا ڈھیر نپٹانا تھا اور اس ڈھیر میں کسی ہاسپٹل میں جا کر مزید ٹیسٹ کروانا اس کے لیے بے حد مشکل کام تھا۔ فرقان خود میں ہمت پیدا نہیں کر سکا کہ وہ اسے بتاتا کہ اس کے ابتدائی ٹیسٹ کس چیز کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔
یہ ضروری ہے سالار۔ کام ہوتے رہیں گے لیکن صحت پر کمپرومائز نہیں کیا جا سکتا۔ فرقان نے جواب میں کہا۔
صحت بالکل ٹھیک ہے یار! صحت کو کیا ہوا ہے؟ ایک معمولی فلو ہونے پر تم نے مجھے ڈاکٹروں کی طرح ہاسپٹلز کے چکروں پر لگا دیا۔ سالار نے اسی انداز میں کہا۔
اور ویسے بھی اگلے مہینے مجھے امریکہ جانا ہے وہاں میڈیکل چیک اپ کروانا ہے۔ تم فکر نہ کرو سب ٹھیک ہے۔ وہ اب اسے ٹالنے کی کوشش کر رہا تھا۔
سب ٹھیک نہیں ہے سالار۔ فرقان کو بلآخر اسے ٹوکنا پڑا۔
کیا مطلب۔؟ سالار اس کی بات پر ٹھٹکا۔
میں تمہارے پاس پہنچ رہا ہوں آدھے گھنٹے میں۔فرقان نے فون پر مزید کچھ کہے فون رکھ دیا تھا۔
سالار اس کے انداز پر الجھا تھا۔ لیکن وہ اسے صرف ایک ڈاکٹر کا فروفیشنلزم سمجھا۔
تم فوری طور پر کہیں نہیں جا رہے۔ مجھے اسی ہفتے میں تمہارے سارے ٹیسٹس کروانے ہیں۔ اور اس کے بعد ہی تم کہیں جا سکتے ہو۔
فرقان واقعی نہ صرف آدھے گھنٹے میں پہنچ گیا تھا بلکہ اس نے سالار کو اپنی سیٹ کینسل کروانے کے لیے بھی کہہ دیا تھا۔
کیا مسئلہ ہے فرقان؟ تم مجھے صاف صاف کیوں نہیں بتا دیتے۔ کیا چھپا رہے ہو؟ کیوں ضرورت ہے مجھے اتنے لمبے چوڑے ٹیسٹس کی؟ سالار اب پہلی بار واقعی کھٹکا تھا۔ فرقان کو احساس ہو گیا کہ اسے بتائے بغیر وہ اسے ٹیسٹس پر آمادہ نہیں کر سکتا تھا۔
میں صرف یہ کنفرم کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کوئی ٹیومر نہیں ہے۔ وہ دنیا کا مشکل ترین جملہ تھا جسے ادا کرنے کے لیے فرقان نے وہ سارے لفظ اکھٹے کیے یوں جیسے سالار سے زیادہ وہ اپنے آپ کو تسلی دینا چاہتا تھا۔
ٹیومر؟ سالار نے بے یقینی سے کہا۔
برین ٹیومر! فرقان نے اگلے دو لفظ جس دقت سے کہے سالار اس دقت سے بھی انہیں بول نہیں سکا۔ اس کے کان سائیں سائیں کرنے لگے تھے۔ وہ بے یقینی سے فرقان کو دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
یہ ٹیسٹس جو تم نے کروائے ہیں یہ انڈیکیٹ کر رہے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خود بھی جملہ پورا نہیں کر پایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔+-------+
اس نے فون پر سالار کو کال ملائی۔ چند مرتبہ بیل جانے کے بعد فون اٹھا لیا گیا لیکن اٹھانے والا فرقان تھا۔ امامہ حیران ہوگئی سالار لاہور میں تھا اور اس نے کچھ مصروفیات کی بنا پر اپنی سیٹ آگے کروا لی ہے۔ اس نے امامہ کو بتایا تھا اور یہ بھی بتایا کہ فرقان اس کے بار بار فلو کی وجہ سے اسے بلڈ ٹیسٹ کروانے کا کہہ رہا تھا اور امامہ نے اسے کہا تھا کہ اسے فرقان کی بات مان لینی چاہئے۔
لیکن اس کے بعد امامہ اور سالار کی ان ٹیسٹ رپورٹس کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔
اور اب فرقان ایک بار پھر سالار کے فون پر تھا تو یہ لاہور میں اس کی سالار سے تیسری ملاقات تھی ان چند دنوں میں۔۔ وہ سوچے بنا نہ رہ سکی۔وہ اب اس سے اس کا اور بچوں کا حال پوچھ رہا تھا لیکن اس کا انداز بہت عجیب تھا۔ وہ خوش مزاجی جو اس کے طرز تخاطب کا حصہ ہوتی تھی وہ آج امامہ کو مکمل طور پر غائب محسوس ہوئی۔
سالار ابھی تھوڑی دیر میں فون کرتا ہے تمہیں۔ اس نے ابتدائی علیک سلیک کے بعد کہا۔
فون آپ کو کیسے دے دیا اس نے؟ یہ بات امامہ کو بے حد حیران کن لگی۔
ہاں، وہ ہاسپٹل میں آئے ہوئے تھے اور سالار کو مجھ سے کام تھا ۔وہ ذرا واش روم تک گیا ہے تو فون یہیں چھوڑ گیا۔
امامہ کے لیے یہ ناقابل یقین تھا۔وہ واش روم جاتے ہوئے اپنا فون کہیں چھوڑ کر جانے والوں میں نہیں تھا۔ لیکن اس نے مزید سوال جواب کی بجائے سالار کی کال کا انتظار مناسب سمجھا۔
سالار ایم آر آئی کروا رہا تھا۔ اور اس کے ہونے والے ٹیسٹ ان سارے خدشات کی تصدیق کر رہے تھے جو فرقان کو ہوئے تھے۔ اسے برین ٹیومر تھا۔ برین ٹیومر مہلک تھا اس کی بھی تصدیق ہو گئی اور وہ پہلا موقع تھا جب سالار نے پہلی بار بیٹھ کر اپنی زندگی کے بیالیس سالوں کے بارے میں سوچا۔ مہلت کا وہ اصول جو قرآن مجید میں تھا اسے اب سمجھ آیا۔لیکن یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ وہ قانون اب اس کی اپنی زندگی پر لاگو ہونے جارہا تھا۔
میڈیکل سائنس بہت ترقی کر گئی ہے۔ ہر چیز کا علاج ممکن ہے۔ اس ٹیومر کے مہلک ہونے کی تصدیق پر فرقان اس سے کم اپ سیٹ نہیں ہوا تھا لیکن اس کے باوجود اس نے گم صم بیٹھے سالار کو تسلی دینا شروع کی۔
تم اب صرف اتنا سوچو کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس نے سر اٹھا کر فرقان کو دیکھا اور کہا۔ تم ڈاکٹر ہو کر مجھ سے یہ بات کہہ رہے ہو۔ فرقان بول نہ پایا۔ وہ دونوں دیر تک چپ رہے۔
تم فوری طور پر امریکہ چلے جاؤ،، بلکہ میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ وہاں بہترین ڈاکٹرز اور اسپتال ہیں۔ہو سکتا ہے وہاں اس کا علاج ہو جائے یا کوئی اور حل ہو۔ وہ اب ڈاکٹر بن کر نہیں اس کا ایک عزیز دوست بن کر بات کر رہا تھا۔
امامہ سے کیا کہوں؟ اس نے عجیب سوال کیا۔
ابھی کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ایک بار امریکہ سے ٹیسٹ ہونے دو۔ دیکھو، وہاں کے ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں۔ فرقان نے کہا۔
یہاں کے ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں؟ فرقان اس کے اس سوال کو نظرانداز کر گیا تھا۔
پاکستان میں برین ٹیومر کا علاج اور نیورو سرجری اتنی ایڈوانسڈ نہیں جتنی امریکا میں، اس لیے یہاں کے ڈاکٹرز کی رائے میرے لیے اتنی اہمیت نہیں رکھتی۔
اسے فرقان کی بے بسی پر خود سے زیادہ ترس آرہا تھا وہ اسے کچھ بتانا بھی نہیں چاہتا تھا اور کچھ چھپانا بھی نہیں
حمین جاؤ بھائی کو بلا کے لاؤ وہ سونے سے پہلے تم لوگوں کو دعا پڑھا دے۔ پتا نہیں اتنی دیر کیوں لگا دی اس نے،، بچوں کو پڑھانے سے فارغ ہونے کے بعد انہیں سونے کے لیئے لیٹنے کا کہتے ہوئے امامہ کو جبریل یاد آیا۔اسے کمرے سے گئے کافی دیر ہوگئ تھی۔۔
آج میں پڑھاتا ہوں۔۔حمین نے اعلان کرتے ہی دونوں ہاتھ کسی نمازی کی طرح سینے پر باندھتے ہوئے جذب کے عالم میں دعا پڑھنے کےلیئے اپنا منہ کھولا اور امامہ نے اسے ٹوکا۔۔۔
حمین۔۔۔بھائی پڑھائے گا۔
حمین نے بند آنکھیں کھولی اور ہاتھ بھی۔۔۔اس سے پہلے کے وہ کمرے سے نکل جاتا امامہ نے نائٹ سوٹ کے اس پاجامے پر لگی گرہ کو دیکھا جو وہ ابھی ابھی باتھ روم سے پہن کر نکلا تھا۔پاجامے کے اوپری حصے کو ازار بند کی بجائے ایک بڑی سی گرہ لگا کر کسا گیا تھا۔
ادھر آؤ۔۔امامہ نے اسے بلایا۔۔۔یہ کیا ہے۔۔۔اس نے جھک کر نیچھے بیٹھتے ہوئے اس گرہ کو کھولنے کی کوشش کی تاکہ پاجامہ کو ٹھیک کرسکے۔
حمین نے ایک چیخ ماری اور جھٹکا کھا کر اس گرہ پر دونوں ہاتھ رکھے پیچھے ہٹا۔۔۔۔ممی نہیں۔۔۔
اسکی سٹرنگ کہاں ہے۔۔۔امامہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اس گرہ کو باندھنے کی وجہ کیا تھی۔
میں نے سکول میں کسی کو دے دی۔۔۔
امامہ نے حیرانی سے پوچھا۔۔۔۔کیوں۔۔۔
چیریٹی میں۔۔حمین نے جملہ مکمل کر دیا
امامہ نے ہکا بکا ہوکر اپنے اس بیٹے کا اعتماد اور اطمینان دیکھا۔۔چیریٹی میں؟؟ وہ واقعی حیران تھی۔۔صرف ایک ڈوری کو؟
نہیں۔۔۔مختصر جواب آیا۔
پھر؟
ڈوری سے بیگ کو باندھا تھا۔
کس بیگ کو۔۔امامہ کا ماتھا ٹھنکا۔
اس بیگ کو جس میں کھلونے تھے۔ جواب اب پورا آیا تھا۔
کس کے کھلونے۔۔امامہ کے ماتھے پر بل پڑے ۔۔
ویل۔۔۔۔حمین نے اب ماں، رئیسہ اور عنایہ کو باری باری ۔۔۔محتاط انداز میں دیکھا اور اپنے جواب کو گول مول کرنے کی بہترین کوشش کی۔۔۔وہ کئ لوگوں کے تھے۔
امامہ کو ایک لمحے میں سمجھ آیا۔۔۔۔
کون تھے۔کس کو دیے۔کیوں دیے۔کس سے اجازت لی۔۔۔اس نے یکے بعد دیگرے تابڑ توڑ سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا جب حمین سکندر نے مہاتما بدھ بننے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے بہن بھائیوں کے کھلونے دان کییے تھے اور اسکے بہن بھائیوں میں اگر بلا کا تحمل نہ ہوتا تو اس کے اس کارنامےپر ہر بار بلا کا رن پڑتا۔۔۔
عنایہ کی آنکھیں اب آنسوؤں سے لبالب بھر گئ تھی۔اس چھوٹے بھائ نے یہ طے کیا ہوا تھا کہ وہ انکی ہر چیز کو کسی بھی وقت مشنری جذبہ کے تحت کسی کو بھی دے سکتا ہے۔۔
ممی۔۔۔عنایہ بری طرح بلبلائ۔۔۔
چیریٹی گناہ نہیں ہے۔۔۔حمین نے اپنی آنکھیں عادتاً گول کرتے ہوئے ان دو الفاظ کا ایک بار پھر استعمال کیا جو پچھلے کئ دنوں سے بار بار اسکی گفتگو میں آرہے تھے۔۔
تم نے میرے کھلونے چرائے۔عنایہ کا بس چلتا تو وہ اسے پیٹ ڈالتی۔کم از کم رات کے اس پہر جب اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ اسکا کون کون سا کھلونا چیریٹی میں دے آیا ہے۔۔
صبح بات کرینگے اس بارے میں۔۔ابھی نہیں۔۔۔امامہ نےمداخلت کی۔اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی صوفےپہ پڑا اس کا سیل فون بجنے لگا اسکا خیال تھا وہ سالار کی کال تھی۔۔
امامہ نے سیل فون پر سکندر عثمان کا نام چمکتے دیکھا اور کال ریسیو کرتے ہوئے اس نے تینوں بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
سالار کہاں ہے۔۔۔سکندر نے اسکے سلام کا جواب دیتے ہی عجیب اضطراب کے عالم میں پوچھا تھا۔
ایک ڈنر میں گئےہیں بس ابھی آنے والے ہونگے۔
میں اسے کال کر رہا تھا وہ ریسیو نہیں کر رہا ۔امامہ کو ان کے لہجے میں پریشانی اور گھبراہٹ محسوس ہوئ۔۔
ہوسکتا ہے ڈنر میں آپکی کال نہ لے پارہے ہو وہ اکثر ایسی فنکشنز میں اپنا سیل سائلنٹ پر لگادیتے ہیں۔۔۔۔۔خیریت ہے نا پاپا؟؟ وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
تم لوگوں نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔اتنی بڑی بات مجھ سے کیوں چھپائ۔؟سکندر عثمان حواس باختگی میں کہتے چلے گئے انہیں کچھ دیر پہلے انکے ایک قریبی عزیز نے اس حوالے سے فون کیا تھا۔اس عزیز نے سالار کی بیماری کے حوالےسے یہ خبر کسی چینل پر دیکھ لی تھی اور فوری طور پر افسوس کا اظہار کرنے کے لیئے سکندر عثمان کو فون کیا۔۔۔اور سکندر شاکڈ رہ گئے تھے۔اس نے حواس باختگی کے عالم میں سالار کو کالز کرنا شروع کر دی تھی جو اس نے ریسیو نہیں کی۔۔۔
اس ڈنر میں بیٹھنے سے پہلے سکندر عثمان کی کال آنے سے پہلے سالار کو پتا چل گیا تھا کہ میڈیا میں اس کی بیماری کی خبر بریک ہو چکی ہے۔ اسکے اسٹاف نے اسے اطلاع دی تھی اور وہ سکتے میں آگیا تھا۔سکندر عثمان کا نام اپنے فون پر چمکتا دیکھ کر سالار کی بھوک ختم ہوگئ تھی۔۔
اسے یقین تھا کہ وہ کال کس مقصد کےلیے کی جارہی ہے۔لیکن وہ وہاں بیٹھ کر سکندر سے بات کرنے کی ہمت ہی نہ کر سکا۔وہ بوجھ جس نے کئ مہینوں سے اسے دہرا کر رکھا تھا ایک دم جیسے اور بہت سے لوگوں کی کمریں جھکا دینے والا تھا۔اور اگر سکندر کو یہ خبر مل چکی تھی تو امامہ؟؟؟
وہ آگے نہیں سوچ سکا۔
کیا نہیں بتایا پاپا؟ کیا چھپایا ہے آپ سے؟؟ امامہ کی سمجھ میں سکندر کی بات نہ آئ۔
برین ٹیومر کے بارے میں۔۔سکندر نے جیسے کراہتے ہوئے کہا۔۔۔امامہ اب بھی کچھ نہیں سمجھی۔۔
برین ٹیومر؟ کس کے برین ٹیومر کے بارے میں؟ وہ الجھی۔۔اور وہ پہلا موقع تھا جب سکندر کو احساس ہوا کہ وہ بھی انکی طرح بے خبر تھی۔۔
پاپا آپ کس کے برین ٹیومر کی بات کر رہے ہیں؟ امامہ نے ایک بار پھر پوچھا۔۔۔جواب سکندر عثمان کے حلق میں اٹک گیا۔
پاپا۔۔۔۔امامہ انکے مسلسل خاموش رہنے پر ایک مرتبہ پھر اپنا سوال دہرانا چاہتی تھی لیکن دہرا نہ سکی۔۔بجلی کے کوندے کی طرح اس کے دماغ میں اپنے ہی سوال کو جواب آیا۔سکندر کس کی بیما ری پر یوں بے چین ہوسکتے ہیں۔ سالار. ۔۔کیا وہ سالار کی بات کر رہے ہیں۔۔سالار کے برین ٹیومر کی۔۔اسے کئی ہفتہ پہلے کی فرقان اور اپنی بات چیت یاد آئ۔ ہاسپٹل کا وزٹ۔۔۔سالار کا بدلہ ہوا رویہ۔۔۔۔۔۔
وہ بے یقینی کے عالم میں فون ہاتھ میں لیے بیٹھی رہی۔۔فون پر اب دونوں طرف خاموشی تھی۔
آپ سے کس نے کہا۔۔امامہ نے کانپتی ہوئی آواز میں ان سے پوچھا۔
اس نے تمہیں نہیں بتایا؟؟ سکندر نے عجیب بے بسی سے امامہ سےپوچھا۔
امامہ کو اس سوال کا جواب دینے یا سوچنے کا موقع نہیں ملا۔۔۔باہر ہارن کی آواز سنی اس نے۔
میں کچھ دیر میں آپ سے بات کرتی ہوں پاپا۔اس نے سرد پڑتے ہاتھوں میں تھامے فون کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے سکندر سے کہا۔
مجھے تمہیں نہیں بتانا چاہیئے تھا۔۔وہ اپنے پچھتاوے کا اظہار کیے بغیر رہ نہ سکے۔۔امامہ نے فون بند کردیا۔سب کچھ یکدم ہی بے معنی ہوگیا تھا کسی بت کی طرح فون کو گود میں رکھے ساکت بیٹھی تھی وہ۔۔
ممی آپ ٹھیک ہیں؟
امامہ نے چونک کر حمین کو دیکھا۔جواب دینے یا کوئی اور سوال کرنے کی بجائے وہ اٹھ کر باہر نکل گئ۔حمین کچھ اور الجھا تھا۔۔۔۔
تم ابھی تک جاگ رہے ہو؟ سالار نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہی وہاں پڑے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے جبریل کو دیکھ لیا تھا۔ باپ کی آواز جبریل کو کرنٹ کی طرح لگی تھی۔برق رفتاری سےاس نے کمپیوٹر کی سکرین پر وہ سائٹ بند کی جو وہ کھولے بیٹھا تھا۔اور وہ اب باپ کا استقبال کرنے کے لیے تیار تھا۔امامہ ہارن کی آواز سن کر بھی نہیں آئ تھی۔جبریل ہارن کی آواز سن ہی نہ سکا۔اس کا ذہن جس گرداب میں پھنسا تھا وہاں وہ سن بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔۔۔
میں ایک اسائمنٹ کی تیاری کر رہا تھا۔۔جبریل نے اپنے سامنے کھڑے سالار کو دیکھے بنا نظریں ملائے بنا کہا۔وہ باپ کا چہرہ کیوں نہیں دیکھ پا رہا تھا۔
سالار نے جبریل کا چہرہ دیکھا۔اس کے عقب میں ڈیسک ٹاپ پر ورلڈ بنک کا ہوم پیج دیکھا ۔
بہت دیر ہوگئ ہے ۔ساڑھے دس ہو رہے ہیں اور تمہیں دس بجے سے پہلے پہلے سب کام مکمل کرلینا چاہیئے۔ یاد ہے؟
سالار نے اسے یاددہانی کرائی۔۔۔
جبریل نے اس بار بھی باپ کو دیکھے بغیر سر ہلایا اور اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
تمہاری ممی کہاں ہے؟ سالار نے اس سے پوچھا۔ہارن کی آواز کے باوجود بھی نہیں آئ تھی وہ۔اور جبریل رات کے اس پہر لاؤنج میں ڈیسک ٹاپ پر اکیلا موجود تھا۔ اسکے گھر میں یہ خلاف معمول تھا۔
وہ خدشہ جو اسے ڈنر میں لاحق ہوا تھا وہ جسے یقین میں بدلتا جارہا تھا۔۔۔
جبریل کو جواب دینا نہیں پڑا۔۔بچوں کے کمرے کا دروازہ کھول کر وہ باہر آگئ تھی۔ سالار نے اسے دیکھا اور اسکے چہرے پر پڑنے والی ایک نظر ہی اسے یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ اسکے بدترین خدشات ٹھیک ثابت ہوئے تھے۔ اس لاونج میں موجود تینوں افراد عجیب ڈرامائی انداز میں وہاں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے۔۔۔وہ خاموشی جبریل نے پہلی بار اپنے گھر میں اپنے ماں باپ کے درمیان ایک دیوار کی طرح حائل ہوتی دیکھی تھی۔ اور اس خاموشی نے اسکے خوف کو اور بڑھایا تھا۔وہ بلا کو ذہین تھا لیکن دنیا کی کوئی ذہانت انسانی رشتوں کے الجھے دھاگوں کو سلجھا نہیں سکتی۔ نہ خاموشی کی دیواریں چھید سکتی ہے۔
گڈ نائٹ۔۔۔۔اسے جیسے راہ فرار سوجھی تھی۔وہ دو لفظ بول کر ماں باپ کو دیکھے بنا وہاں سے غیر متوازن چال کے ساتھ گیا۔۔لاؤنج میں کھڑے رہ جانے والے ان دونوں افراد نے اسے نہیں دیکھا تھا۔وہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ ۔۔ایک نظر۔۔۔پھر دوسری اور پھر تیسری۔۔۔۔پھر سالار پلٹ کر اپنے بیڈروم کی طرف گیا۔وہ اس سے زیادہ ان نظروں کا سامنا نہیں کرسکتا تھا۔۔
وہ اس کے پیچھے میکانی انداز میں اندر آئ تھی یوں جیسے کسی ٹرانس میں ہو۔۔۔وہ سحرزدہ نہیں تھی دہشت ذدہ تھی۔
سالار اب بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ڈنر جیکٹ کو صوفے پر پھینکتے ہوئے اس نے فون ٹراؤزر کی جیب سے نکالا جو بج رہا تھا۔۔۔وہ سکندر عثمان تھے۔اس کی آواز سنتے ہی سکندر اپنا حوصلہ کھو بیٹھے۔۔۔سالار نے زندگی میں پہلی بار باپ کو روتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔
تم نے طے کر رکھا ہے کہ تم ساری عمر مجھے چین نہیں لینے دو گے۔۔سکندر نے آنسوؤں کے درمیان کہا۔ وہ اولاد کی تکلیف پر پریشان ہونے والے باپ تھے رو پڑنے والے باپ نہیں تھے۔۔آج ان کا یہ زعم بھی اسی اولاد نے ختم کیا تھا۔جو اتنے سالوں سے اسکے لیئے فخر کا باعث رہا تھا۔