top of page

آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد

قسط نمبر سولہ

اس بار تو میں نے کچھ بھی نہیں کیا پاپا۔ اس جملے نے سکندر کو اور بھی زخمی کردیا۔
میں اور تمہاری ممی کنشاسا آرہے ہیں اسی ہفتے۔انہوں نے اپنے آپ پہ قابو پانے کی کوشش کی۔
پاپا کیا فائدہ ہے میں وقت نہیں دے پاؤں گا سب کچھ وائنڈ اپ کر رہا ہوں میں یہاں پھر آجاؤں گا پاکستان آپ کے پاس۔۔۔اس نے اپنے باپ کو سمجھانے کی کوشش کی وہ ان حالات میں ان دونوں کو اپنے سامنے نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
آپ پریشان نہ ہو میں بالکل ٹھیک ہوں ٹریٹمنٹ ہورہا ہے۔آپ صرف دعا کرین۔۔ممی سے بات کروائیں میری۔۔طیبہ بھی اسی کیفیت میں تھی جس میں سکندر عثمان تھے۔اس کی بیماری کا انکشاف ایک آتش فشاں کی طرح تھا جس نے اس سے جڑے ہر شخص کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا تھا۔
کمرے میں ٹہلتے ہوئے فون کان سے لگائے وہ اپنے ماں باپ کو تسلیاں دیتے ہوئے اس وجود سے بے خبر نہیں تھا جو کمرے میں اس ساری گفتگو کے درمیان کسی بت کی طرح ساکت کھڑا تھا۔
سالار نے بلآخر فون بند کر دیا ۔اس نے فون رکھ کر امامہ کو دیکھا۔اسکا چہرہ سفید تھا۔۔۔بالکل بے رنگ یوں جیسے اس نے کسی بھوت کو دیکھ لیا ہو۔۔
بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔۔خاموشی کو سالار نے توڑا تھا ۔اس نے ہاتھ بڑھا کر امامہکا ہاتھ پکڑا اور اسے صوفے کی طرف لے آیا۔وہ کھینچی چلی آئ تھی کسی روبوٹ کی مانند۔۔۔۔
تمہیں کس نے بتایا؟؟ گفتگو کا آغاز بھی اب اسی کو کرنا تھا۔
تم نے کیوں نہیں بتایا؟ سوال کا جواب غیر متوقع تھا۔
ہمت نہیں پڑی۔ جواب نے امامہ کی بھی ہمت توڑ دی۔وہ کم حوصلہ تو کبھی نہیں تھا تو کیا وہ خبر اس بیماری کی نوعیت اس حد تک خراب تھی کہ وہ کم ہمت ہو رہا تھا۔
وہ اسے دیکھے بنا جوتوں کے تسمے کھولتے ہوئے اسے اپنی بیماری کے بارے میں بتا ریا تھا. 
ٹیومر کی تشخیص ۔۔نوعیت۔ممکنہ علاج۔۔متوقع مضمرات۔ وہ دم سادھے سب کچھ سنتی گئ۔
تم ٹھیک ہوجاؤ گے نا؟؟ اس نے ساری گفتگو کے بعد اس کا کندھا دونوں ہاتھوں سےپکڑ کر منت والے انداز میں پوچھا تھا۔وہ جواب ہی نہ دے سکا۔۔ 
امامہ تم جا کر سو جاؤ۔۔اس نے اپنے کندھے سے اسکے دونوں ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا ۔۔وہ اپنے جوتے اٹھا کر صوفے سے اٹھ جانا چاہتا تھا لیکن اٹھ نہ سکا۔وہ اب پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔بچوں کی طرح اس کے کندھے سے لگی۔وہ اسے سونے کا کہہ رہا تھا نیند تو ہمیشہ کے لیے اب اسکی زندگی سے چلی گئ تھی۔وہ جو ایک گھر اتنی مشکل سے بنایا تھا وہ ٹوٹنے جارہا تھا۔۔سائبان ہٹنے والا تھا۔اور وہ اسے کہہ رہا تھا کہ وہ سو جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس سے لپٹی ہچکیوں کیساتھ روتی رہی ۔۔وہ مجرموں کی طرح چپ سر جھکائے بیٹھا رہا۔۔
میں رپورٹس دیکھنا چاہتی ہوں ۔وہ روتے روتے یکدم بولی۔سالار نے ایک لفظ کہے بغیر اٹھ کر کیبنٹ سے فائلز کا ایک پلندہ لاکر اسکے سامنے سینٹر ٹیبل پر رکھ دیا۔۔وہ کپکپاتے ہاتھوں سے رپورٹس دیکھنے لگی دھندلائ آنکھوں کیساتھ وہ ان کاغذات کو دیکھتے ہوئے جیسے یہ یقین کرنا چاہتی تھی کہ کچھ اور تو نہیں جو وہ چھپا رہا ہے۔کوئ اور بری خبر ۔۔پیروں سے باقی ماندہ زمین بھی نکال دینے والا انکشاف۔۔۔ہر کاغذ اسکی آنکھوں کی دھند کو گہرا کر رہا تھا۔فائل کو بند کرتے ہوئے اس نے سالار کو دیکھا ۔۔۔
میڈیکل سائنس غلط بھی تو کہہ سکتی ہے۔
سالار رندھی ہوئ آواز میں کہے گئے اس جملے پر ہنس پڑا۔۔وہ غلط آدمی کو غلط جملے سے امید دلانے کی کوشش کررہی تھی۔
ہاںسائنس غلط بھی کہہ سکتی ہے۔۔ڈاکٹر کی تشخیص اور علاج بھی. اس نے امامہ کی بات کو رد نہیں کیا تھا۔وہ اسکی اذیت کو اور بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔۔۔
تم ٹھیک ہوجاؤگے نا؟ اسکا بازو ایک بار پھر تھاما گیا تھا۔سوال دہرایا گیا تھا۔۔
اگر میرے ہاتھ میں ہوتا تو ضرور۔۔۔۔لیکن یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لیئے ان شاء اللہ۔۔
وہ پھر ہچکیوں سے رو پڑی۔اس بار سالار نے اسے لپٹا لیا۔وہ مرد تھا رونا نہیں چاہتا تھا لیکن جذباتی ہورہا تھا۔۔۔۔
امامہ تمہیں بہادر بن کر ان سب کا مقابلہ کرنا ہے۔۔وہ روتی رہی سالار اسے ساتھ لگائے تھپکتا رہا۔۔
تم ٹھیک ہوجاؤ گے۔۔اس نے جیسے خود پر قابو رکھتے ہوئے کہا۔
تم پھر سوال کر رہی ہو۔۔۔۔سالار کو لگا اسکی ذہنی کیفیت ٹھیک نہیں۔
نہیں۔۔۔بتا رہی ہوں۔۔تمہیں بہادر بن کر ان سب کا مقابلہ کرنا ہے ۔۔وہ اسکا جملہ اسی سے دہرا رہی تھی۔۔۔بیماری ہے۔۔موت تو نہیں۔۔۔کیسی تسلی تھی جو اس نے دی۔۔۔امامہ سرخ سوجھی ہوئ آنکھوں سے اسے امید دلا رہی تھی۔۔۔۔
تم کہتی ہو تو مان لیتا ہوں۔۔۔وہ مسکرایا۔۔۔امامہ کی آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک اور سیلاب آیا۔۔۔
میں نے زندگی میں تمہیں بہت سارے آنسو دییے ہیں تمہارے رونے کی بہت ساری وجوہات کا باعث بنا ہوں میں ۔۔اسکے آنسوؤں نے عجیب کانٹا چھبویا تھا سالار کو۔۔۔۔
بہتے آنسوؤں کیساتھ سر ہلاتے ہوئے وہ ہنسی۔۔۔
ہاں پر میری زندگی میں خوشی اور ہنسی کے سارے لمحات کی وجہ بھی تم ہو۔
وہ اسکا چہرہ دیکھ کر رہ گیا۔۔پھر یکدم کھڑا ہوا۔
سو جاؤ بہت رات ہوگئ ہے۔وہ کپڑے تبدیل کرنے واش روم چلاگیا۔
جب وہ واپس آیا وہ اسی طرح وہاں بیٹھی تھی۔ان ہی فائلوں کے پلندے کو ایک بار پھر گود میں لییے۔۔یوں جیسے اس میں جھوٹ ڈھونڈ رہی ہو۔۔کوئ غلطی کوئ غلط فہمی۔۔امید تو وہاں نہیں تھی۔۔
سالار نے کچھ کہے بنا خاموشی سے اسکی گود سے وہ ساری فائلیں اٹھا لی۔
امامہ ایل وعدہ کرو۔۔
کیا؟ اس نے دوپٹے سے اپنا چہرہ رگڑتے ہوئے کہا۔
بچوں کو کچھ پتا نہیں چلنا چاہیئے۔۔وہ بہت چھوٹے ہیں۔۔۔
امامہ نے سر ہلادیا۔۔۔
-----------+++++----------
برین ٹیومر کیا ہوتا ہے؟ حمین نے دعا کا آخری لفظ پڑھتےہی جبریل سے پوچھا ۔جبریل کا رنگ اڑ گیا۔۔
تم کیوں پوچھ رہے ہو۔۔۔جبریل نے دل میں دعا کی کہ اسے کچھ پتا نہ ہو۔۔۔
ہماری فیملی میں کسی کو برین ٹیومر ہے۔۔حمین نے بلآخر اعلان کیا۔۔ میرا خیال ہے کہ دادا کو ہے۔انہوں نے ممی کو بتایا ہے اوروہ اپ سیٹ ہوگئ۔
جبریل اسکا چہرہ دیکھ کر رہ گیا۔تو اسکی ماں تک بھی یہ خبر پہنچ چکی تھی۔اور اسکے دادا تک بھی ۔۔وہ بچہ سوچ رہا تھا۔
کیا دادا مرنے والے ہیں۔؟حمین نے لیٹے لیٹے رازدارانہ انداز میں جبریل سےپوچھا۔
نہیں۔۔۔۔اس نے بے اختیار کہا۔
تھینک گاڈ۔۔۔مجھے ان سے بہت پیار ہے۔۔۔حمین نے جیسے سکون کا سانس لیا۔
حمین تم یہ بات کسی کو مت بتانا۔۔جبریل نے ایک دم اسے ٹوکا۔
دادا کے برین ٹیومر والی؟ وہ۔متجسس ہوا۔۔
ہاں۔۔
کیوں؟ 
اوہ۔ہاں حمین کو سمجھ آگیا تھا۔دادا نے ممی کو بتایا تو وہ۔اپ سیٹ ہوگئ اب تم کسی اور کو بتاؤ گے تو وہ بھی اپ سیٹ ہوجائے گا۔
جبریل جتنے حفاظتی بند باندھ سکتا تھا اس وقت باندھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔وہ ننھا بچہ اپنے ماں باپ کے اس راز کو راز رکھنے کےلیئے ہلکان ہورہا تھا۔
اوہ مائ گاڈ۔۔یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔لوگوں کو اپ سیٹ کرنا گناہ ہے نا؟ 
ہاں یہ بہت بڑا گناہ ہے۔جبریل نے اسکو ڈرایا۔
آہاں۔۔۔اوکے۔۔۔
حمین کی آواز میں خوف تھا وہ سیدھا ہوکر لیٹ گیا۔
جبریل کچھ دیر اس طرح لیٹا رہا اور حمین کے سونے کا انتظار کرتا رہا۔جب اسے یقین ہوا کہ وہ سو چکا ہے تو تو وہ بڑی احتیاط سے بستر سےاٹھا اور دبے قدموں چلتا ہوا دروازہ کھول کر لاؤنج میں آگیا۔جبریل نے کمپیوٹر آن کیا اور دوبارہ ان ہی میڈیکل ویب سائٹ کو دیکھنے لگا جنہیں سالار کے آنے سے پہلے دیکھ دہا تھا ۔۔
سالار اپنی بیماری کے بارے میں جتنا کچھ جانتا تھا جبریل اس ایک رات میں اس سے دس گنا زیادہ جان چکا تھا۔
++++++++------++++++
بیماری کے انکشاف کے اثرات اسے اگلے ہی دن پتا چلنا شروع ہوئے۔ بورڈ آف گورنرز کے پانچوں ارکان کے بعد باری باری بہت سے ایسے لوگوں نے اسے میسیجز اور کالز شروع کیے جو ان کے اس مالیاتی نظام سے وابستہ ہونے کے لیئے فنانشل امداد دے رہے تھے۔وہ اس ادارے میں اپنے انویسمنٹ کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہو گئے تھے۔
یہ سالار سکندر اور اسکے ساتھیوں کےلیئے ایک بڑا دھچکا تھا۔اس اسٹیج پر اس طرح کی عدم اعتمادی ان کے ادارے کی ساکھ کے لیئے بہت نقصان دہ تھی۔۔۔کچھ بڑے سرمایہ کار پیچھے ہٹ گئے تھے۔اور واپس تب آنے کےلیئ ے تیار تھے جب انہیں انکا ادارہ کام کرتا کامیاب ہوتا نظر آتا۔۔۔
+++++-----------++++++
سالار کچھ دیر کےلیے یہ سب چھوڑ دو۔۔۔امامہ نے اس رات بلآخر اس سے کہا تھا۔
وہ بہت دیر تک فون پر کسی سے بات کرتا رہا تھا۔امامہ بہت دیر تک کھانے کی ٹیبل پر اسکا انتظار کرنے کے بعد وقفے وقفے سے اسے دیکھنے بیڈروم آتی رہی۔لیکن اسے مسلسل مصروف دیکھ کر اس نے بچوں کو کھانا کھلا دیا اور جب وہ بیڈروم آئ تو سالار فون ختم کر رہا تھا۔۔کھانے کا پوچھنے پر اس نے انکار کردی۔وہ صوفے پر بیٹھا ہاتھوں کی انگلیوں سے اپنی آنکھیں مسل رہا تھا۔
اور بے حد تھکا ہوا لگ رہا تھا۔وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئی وہ جس کرائسس میں تھا وہ اس سے بے خبر نہیں تھی لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔
کیا چھوڑ دوں؟ وہ آنکھیں مسلتے ہوئے چونکا۔
کام۔۔۔
اچھا۔۔۔۔۔وہ ہنس پڑا۔
سب کچھ چھوڑ کر صرف اپنے علاج پر توجہ دو۔اپنی صحت اپنی زندگی پر ۔ہمارے لیئے صرف وہ اہم ہے۔وہ اب جیسے اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
امامہ۔۔میرے پاس چوائس نہیں ہے اور میرے پاس وقت بھی نہیں ہے کہ ایک وقت میں صرف ایک کام کروں۔وہ اس کی بات سن کر چند لمحے بول نہ پائ۔
میں ہر طرح سے مشکل میں ہوں آج کل۔۔۔برے وقت میں نے پہلے بھی دیکھے ہیں لیکن ایسا برا وقت نہیں کہ جس چیز کو بھی ہاتھ لگاؤں ریت ہوجائے 
وہ سر جھکائے کہہ رہا تھا۔امامہ کی آنکھیں نم ہونے لگی۔وہ کئ ہفتوں سے لگاتار رو رہی تھی اسکے باوجود آنکھیوں کا پانی ختم نہیں ہورہا تھا وہ کنواں بن گئ تھی۔
گناہگار تو ہوں میں،، ہمیشہ سے ہوں۔۔۔۔گمان اور غرور تو کبھی نہیں کیا میں نے۔کیا بھی تو توبہ کرلی۔۔لیکن پتا نہیں کیا گناہ کر بیٹھا ہوں کہ یوں پکڑ میں آیا ہوں۔۔۔
آزمائش ہے سالار۔۔گناہ کی سزا کیوں سمجھ رہے ہو۔۔امامہ نے اس کی کلائ پر ہاتھ رکھا۔۔
کاش آزمائش ہی ہو اور ختم ہو جائے نہ ختم ہونے والی سزا نہ ہو۔۔وہ بڑبڑایا۔
تمہارے پاس کتنی سیونگز ہے؟ اس نے بات کرتے کرتے موضوع بدل دیا۔
میرے پاس۔۔۔وہ الجھی۔۔پتا نہیں۔۔پاکستان میں بنک میں کافی رقم ہو گی۔مجھے اماؤنٹ کا پتا نہیں۔۔۔تمہیں ضرورت ہے کیا۔اس نے ایک دم سالار سے پوچھا۔۔۔
نہیں۔۔مجھے ضرورت نہیں لیکن شاید تمہیں اسے اب استعمال کرنا پڑے بچوں کے لیئے ۔۔یہاں سے پاکستان جائیں گے تو وہاں کتنا عرصہ پاپا کے پاس تمہیں بچوں کیساتھ ٹھہرنا پڑے مجھے ابھی اندازہ نہیں۔۔وہاں پاپا کے پاس بچوں کی تعلیم کم از کم متاثر نہیں ہوگی۔امریکہ میں فی الحال تم سب کو رکھنا افورڈ نہیں کرسکتا میں خاص طور پر اب جب میری جاب ختم ہو رہی ہے اور میں اپنے ادارے لے لانچ کرنے کی پروسس میں بھی بے حد مسائل کا شکار ہوں اور اس پر یہ ٹیومر۔۔۔۔ورلڈ بنک کی جاب کے ساتھ میڈیکل انشورنس بھی ختم ہوجائے گی۔جو امریکہ میں میری ہیلتھ انشورنس ہے وہ کینسر ٹریٹمنٹ کور نہیں کرتی۔اس لیے میری سمجھ میں نہیں آریا کہ میں کیا کروں اور کیا نہیں ۔۔۔۔۔۔
سالار تم صرف ایک چیز پر دھیان دو. اپنے آپریشن اور علاج پر۔باقی ساری چیزیں ہوجائے گی بچوں کی تعلیم تمہارا ادارہ سب کچھ۔۔۔اور پیسوں کے بارے میں پریشان مت ہو۔۔بہت کچھ ہے میرے پاس جو بیچا جا سکتا ہے۔۔ 
سالار نے اسے ٹوک دیا۔۔نہیں کوئ بھی چیز اب نہیں بیچوں گا اسے تمہارے پاس ہی رہنا چاہیئے اب۔۔۔میں گھر نہیں دے سکا تمہیں تو کچھ تو ہونا چاہیئے تمہارے پاس کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امامہ نے اس کے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھ دیا ۔۔اب اس سے آگے کچھ مت کہنا۔ مجھ سے یہ مت کہنا کہ میں مسقبل کا سوچوِ۔۔یہ سب میرے پاس ہو اور تم نہ ہو تو میں مستقبل کا کیا کروں گی۔پانی اسکے گالوں پر کسی آبشار کی طرح گر رہا تھا۔مستقبل کچھ نہیں ہے سالار ۔جو ہے بس حال ہے۔پڑھ لکھ جائیں گے بچے بھی۔۔میں نے کل کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے۔وہ روتی رہی۔
تمہیں پتا ہے امامہ مجھے کس چیز کا رنج سب سے زیادہ ہے۔۔تم ٹھیک کہتی تھی کہ میں نے اپنی زندگی کا بہترین وقت سود پر کھڑے اداروں کے لیے کام کرتے گزارا۔۔۔۔صرف کچھ سال پہلے میں نے کام کرنا شروع کیا ہوتا اپنے ادارے کے لیئے تو آج یہ ادارہ اپنے پیروں پہ کھڑا ہوچکا ہوتا۔
مجھے یہ بیماری تب ہوئ ہوتی تو مجھے رنج نہ ہوتا کہ میں اپنے کیے کا ازالہ نہ کرسکا۔۔ یہ بہت بڑا پچھتاوا ہے میرا جو کسی طوق کی طرح گردن میں لٹکا ہوا ہے۔۔۔وہ بے حد رنجیدہ تھا۔
تم کیوں سوچ رہے ہو ایسے۔۔تم کوشش تو کررہے ہو محنت تو کر رہے ہو۔۔۔اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔۔۔وہ اس کی باتوں پر تڑپ اٹھی۔
ہاں لیکن اب بہت دیر ہوگئ ہے۔
تم امید چھوڑ بیٹھے ہو؟؟ 
نہیں امید تو نہیں چھوڑی لیکن۔۔۔۔
وہ بات کرتے کرتے ہونٹ کاٹنے لگا ۔مجھے کبھی یہ لگا ہی نہیں تھا کہ وقت تھوڑا رہ گیا ہے۔جب تک سب ٹھیک رہتا ہے ہمیں لگتا ہے ہمارے پاس وقت بہت ہے۔ہم وہ سارے کام پہلے کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے نفس کو پسند ہیں وہ سارے کام زندگی کے آخری حصے کے لیئے رکھ چھوڑتےہیں جو اللہ کو پسند ہے۔میں بھی مختلف نہیں تھا۔میں نے بھی ایسا ہی کیا۔سالار اپنے ہاتھ مسل رہا تھا بے حد رنج کے عالم میں۔۔مجھ سے بہتر کوئ نہیں سمجھ سکتا کہ روز قیامت کیسی ہوگی۔وہ ایک بار پھر دنیا میں لوٹانے کی پکار کیسی ہوگی۔۔۔وہ ایک موقع اور مانگنے کی التجا کیا ہوگی۔۔اسکی آواز بھرا گئ تھی۔۔۔۔۔اب میں صرف اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی نہیں صرف مجھے اس کام کی تکمیل کرلینے دے جو میں کرنا چاہتا ہوں اور اگر یہ کام میں نہ کرسکا تو پھر میری دعا ہے کہ یہ کام میری اولاد پایہ تکمیل تک پہنچائے اگر میں نہ رہا تو پھر تم جبریل کو اکانومسٹ۔۔ 
امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔۔کیوں سوچتے ہو تم ایسے۔ 
سوچنا چاہیے امامہ۔۔
تم ہی یہ کام کرو گے سالار۔ ۔کوئ اور نہیں کرسکے گا۔تمہاری اولاد میں سے بھی کوئی نہیں۔۔۔ہر کوئ سالار سکندر نہیں ہوتا. 
وہ زندگی میں پہلی بار اعتراف کر رہی تھی ۔۔اسکے غیر معمولی ہونے کا۔اس کے خاص ہونے کا. 
سالار نے اس رات اس سے بحث نہیں کی تھی۔۔اسکی اپنی ہمت جتنی ٹوٹی تھی۔ وہ امامہ کی ہمت اس طرح توڑنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممی میں آپکو سیب کاٹ کر لا کردوں۔۔۔؟امامہ جبریل کی بات پر حیران ہوئ ۔یہ آفر حمین کی طرف سے تو نارمل بات تھی لیکن جبریل اس طرح کے کام نہیں کرتا تھا۔۔
نہیں۔تم کھانا چاہ رہے ہو تو میں تمہیں کاٹ دوں؟؟ امامہ نے جواباً اسے آفر کیا۔۔۔
نہیں۔۔جبریل نے جواب دیا۔۔اسکے بچے اسکی تکلیف اور پریشانی محسوس کرنا شروع ہوگئے تھے اور یہ کوئ اچھی علامت نہیں تھی۔۔اس نے جبریل کو غور سے دیکھا۔ ۔۔۔
آپ ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں۔۔۔جبریل نے ماں کی نظریں خود پر مبذول پاکر پوچھا۔ وہ مسکرا دی۔
تم بڑے ہو گئے ہو۔۔۔۔۔۔جبریل نے ماں کو جھینپ کر دیکھا۔پھر ایک شرمیلی مسکراہٹ کیساتھ ماں سے کہا۔۔۔
تھوڑا سا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں۔۔تھوڑے سے۔۔۔۔جلد ہی پورے بھی بڑے ہوجاؤ گے۔۔۔وہ اس سے بولی۔۔۔
لیکن میں بڑا نہیں ہونا چاہتا۔۔۔بیگ میں کپڑے رکھتے ہوئے امامہ نے اسے کہتے سنا۔۔۔
کیوں؟؟ اسے اچھنبا ہوا۔۔۔
ایسے ہی۔۔۔اس نے بڑے عام سے انداز میں ماں سے کہا۔۔۔۔۔
جبریل میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔اسے یہ جملہ بولتے ہی اسکے ہلکےپن کا احساس ہوا۔۔۔
مجھے پتا ہے۔۔۔۔
امامہ اس سے نظریں چرا گئ تھی۔جبریل نے جیسے ماں کا پردہ رکھا۔امامہ کی چھٹی حس نے ایک عجیب سا سگنل دیا تھا۔اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ سب کچھ جانتا تھا۔۔۔۔
جبریل۔۔۔۔۔۔
جی ممی۔۔۔وہ اس کے مخاطب کرنےپر اسکی طرف متوجہ ہوا۔۔۔وہ بات کرتے کرتے رہ گئ۔۔۔وہ بات بدل گئ۔۔۔۔
تمہارا قرآن پاک ختم ہونے والا ہے پھر ماشاءاللہ تم حافظ قرآن بن جاؤ گے۔۔تم نے قرآن پاک سے ابھی تک کیا سیکھا؟ وہ ماں کے سوال پر کام کرتے کرتے ٹھٹک گیا۔
بہت ساری چیزیں ہیں۔اس نے ذرا سوچ کر ماں سے کہا۔
لیکن اگر کوئی ایک چیز ہو جو تمہیں سب سے امپورٹنٹ لگتی ہو اور اچھی بھی۔۔
آپکو پتا ہے مجھے کیا چیز سب سے امپورٹنٹ لگتی ہے قرآن پاک میں۔ وہ اب دلچسپی سے بات کرنے لگا۔۔۔
کیا؟؟ 
امید۔۔۔
امامہ اسکا منہ دیکھنے لگی ۔۔کیسے؟؟ جواب وہ ملا تھا جس نے کسی مرہم کی طرح اسکے زخموں کو ڈھانپا تھا۔۔۔
دیکھیں سارا قرآن ایک دعا ہے۔۔تو دعا امید ہوتی ہے نا۔۔۔ہر چیز کے لیے دعا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے نا کہ اللہ ہر مشکل میں ہمیں امید بھی دے رہا ہے۔یہ مجھے سب سے اچھی چیز لگتی ہے قرآن میں کہ ہم کبھی ناامید نہ ہو۔کوئی گناہ ہوجائے تب بھی اور کوئ مشکل آجائے تب بھی۔کیونکہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔۔اس کا دس سالہ بیٹا بے حد آسان الفاظ میں اسے وہ چیز تھما رہا تھا جو اس کے ہاتھ سے چھوٹ چکی تھی۔
جبریل بات کرتے کرتے رک گیا، اس نے ماں کی آنکھوں میں آنسوؤں کی چمک دیکھی۔
کیا میں نے کچھ غلط کہہ دیا؟ اس نے ایک دم محتاط ہو کر ماں سے پوچھا۔
امامہ نے نم آنکھوں کے ساتھ نفی میں سر ہلایا۔ نہیں تم نے بالکل ٹھیک کہا اور تم نے ٹھیک چیز چنی۔

ناشتے کی میز پر امامہ نے جبریل کی سوجھی ہوئی آنکھیں دیکھی تھی جو سلام کر کے سالار یا امامہ سے نظریں ملائے بغیر آ کر کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔
تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟ 
امامہ نے اس کا ماتھا چھو کر جیسے ٹمپریچر معلوم کرنے کی کوشش کی۔
جی میں ٹھیک ہوں۔ جبریل کچھ گھبرایا۔
چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے سالار نے بھی اسی لمحے جبریل کو دیکھا تھا لیکن کچھ کہا نہیں۔
تم جاگتے رہے ہو کیا ساری رات؟ امامہ کو اس کی آنکھیں ابھی بھی تشویش میں مبتلا کر رہی تھی۔۔۔۔
نہیں ممی یہ بہت رویا ہے۔اس سے پہلے کہ جبریل کوئ اور بہانہ بنانے کی کوشش کرتا حمین نے سلائس کا کونہ دانتوں سے کاٹتے ہوئے جبریل کو جیسے بھرے بازار میں ننگا کر دیا۔۔کم از کم جبریل کو ایسا ہی محسوس ہوا تھا۔۔۔ٹیبل پر موجود سب لوگوں کی نظریں بیک وقت جبریل کے چہرے پر گئیں۔ وہ جیسے پانی پانی ہوا۔۔
ایک لفظ بھی کہے بغیر امامہ نے سالار کو دیکھا۔ سالار نے نظریں چرائی۔
سلائس کے کونے کترتا ہوا حمین بے حد اطمینان سے رات کے اندھیرے میں بستر میں چھپ کر بہائے گئے ان آنسوؤں کی تفصیلات کسی کمنٹری کرنے والے انداز میں بغیر رکے بتاتا چلا جا رہا تھا۔۔۔
جبریل روز روتا ہے اور اسکی آوازوں کی وجہ سے میں سو نہیں پاتا اور جب میں اس سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ جاگ رہا ہے تو جواب نہیں دیتا۔۔ایسے ظاہر کرتا ہے جیسے سو رہا ہے۔۔مگر مجھے۔۔۔۔ ۔ 
ناشتے کی میز پر حمین کے انکشافات نے عجیب خاموشی پیدا کر دی تھی۔
اور ممی مجھے پتا ہے کہ یہ کیوں روتا ہے۔۔
حمین کے آخری جملے نے امامہ اور سالار کے پیروں کے نیچے سے نئے سرے سے زمین کھینچی تھی۔
لیکن میں یہ بتاؤں گا نہیں کی کیونکہ میں نے جبریل سے پرامس کیا ہے کہ میں کسی سے اس کو شیئر نہیں کرونگا۔ میں کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتا۔
حمین نے اعلان کرنے والے انداز میں ان کو چونکا دیا اور دہلا دیا۔ ۔سالار اور امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا رد عمل ظاہر کرے۔
میں نہیں روتا۔۔
حمین کے خاموش ہونے کے بعد ماں باپ کو دیکھتے ہوئے جبریل نے حلق میں پھنسی ہوئ آواز کیساتھ جیسے اپنا پہلا دفاع کرنے کی کوشش کی اور حمین نے اس پہلی کوشش کو پہلے ہی وار میں زمین بوس کردیا۔۔۔۔
اوہ مائی گاڈ۔۔۔تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔ 
تم حافظ قرآن ہو کر جھوٹ بولتے ہو۔۔
جبریل پر کچھ اور پانی پڑا۔۔۔اس کا چہرہ کچھ اور سرخ ہوا۔۔۔
ممی جھوٹ بولنا گناہ ہے نا۔۔۔اس نے ماں سے تصدیق کرنے کی کوشش کی۔
حمین خاموش ہو جاؤ اور ناشتہ کرو۔۔اس بار سالار نے مداخلت کی اور اسے کچھ سخت لہجے میں گھرکا۔۔۔اپنے حواس بحال کرنے کے بعد صورت حال کو سنبھالنے اور جبریل کو اس سے نکالنے کی یہ اس کی پہلی کوشش تھی۔
امامہ اب سرد ہاتھوں سے وہاں بیٹھی جبریل کو دیکھ رہی تھی۔ ناشتہ ختم کرنے تک سالار نے حمین کو دوبارہ اس کے احتجاج کے باوجود منہ کھولنے نہیں دیا۔
ان چاروں کو پورچ میں کھڑی گاڑی میں بٹھانے اور ڈرائیور کے ساتھ سکول بھیجنے کے بعد امامہ سالار کے پیچھے اندر آگئ تھی۔۔
جبریل کو میری بیماری کے بارے میں پتا ہے۔۔۔۔
سالار نے اندر آتے ہوئے مدھم آواز میں اسے بتایا۔ وہ اس کے پیچھے آتے آتے رک گئ۔۔پاؤں اٹھانا بھی کبھی دنیا کا مشکل ترین کام بن جاتا ہے۔
رات کو بات ہوئی تھی میری اس سے۔۔۔سالار اسے بتا رہا تھا۔۔۔۔
کب؟ اس نے بمشکل آواز نکالی۔
رات گئے۔۔۔تم سو رہی تھی۔ میں لاؤنج میں کسی کام سے گیا تھا وہ کمپیوٹر پر برین ٹیومر کے علاج کے بارے میں جاننے کے لیئے میڈیکل ویب سائٹ کھولے بیٹھا تھا۔۔۔وہ کئی ہفتوں سے ساری ساری رات یہی کرتا رہا ہے۔ میں نے پوچھا نہیں ۔اسے کس نے بتایا کب پتا چلا لیکن مجھے لگتا ہے اسے شروع سے ہی پتا ہے۔۔۔ 
محمد جبریل سکندر کنویں سے زیادہ گہرا تھا۔ وہ ماں باپ کیساتھ ایک بار پھر ایک بے آواز تماشائ کی طرح ان کی زندگی کی تکلیف اور اذیت کو جھیل رہا تھا۔۔۔۔
اس نے تم سے کیا کہا؟ امامہ کے حلق میں اٹکی چیز آنسوؤں کے گولے میں بدلی ۔۔۔۔۔
بابا۔۔میں آپ کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا. مدھم آواز میں سالار کے جواب نے ایک نشتر کی طرح اسے کاٹا تھا۔۔۔۔ 
اس نے تم سے وہ کہا جو میں نہ کہہ سکی۔ سالار نے اپنے کندھے پر اس کے ہاتھوں کی نرمی اور اس کے لفظوں کی گرمی کو بیک وقت محسوس کیا۔
میں کچھ ہفتوں تک آپریشن کروا رہا ہوں۔۔۔دو ہفتوں میں یہاں سے واپس پاکستان جائیں گے تم لوگوں کو وہاں چھوڑ کر پھر امریکہ جاؤں گا سرجری کے لیئے. 
مجھے تمہیں ایک کام سونپنا ہے امامہ۔۔۔سالار نے امامہ سے کہا۔
کیا؟ وہ رندھی ہوئ آواز میں بولی۔
ابھی نہیں بتاؤں گا آپریشن کے لیئے جانے سے پہلے بتا دوں گا۔۔۔
سالار مجھے کوئی کام مت دینا۔۔۔۔۔۔کچھ بھی۔۔۔وہ رو پڑی۔
کوئ بڑا کام نہیں ہے ۔۔۔۔۔
میں کوئی آسان کام بھی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔اس نے سر جھٹکتے بے بسی سے کہا۔ وہ ہنس پڑا۔ 
اپنی آٹو بایو گرافی لکھ رہا ہوں پچھلے کچھ سالوں سے۔۔سوچتا تھا بڑھاپے میں پبلش کراؤں گا۔۔وہ خاموش ہوا۔۔پھر بولنے لگا۔۔وہ نامکمل ہے ابھی ۔لیکن تمہارے پاس رکھوانا چاہتا ہوں۔۔۔یہ چاروں ابھی بہت چھوٹے ہیں۔ مجھے نہیں پتا آپریشن کا کیا نتیجہ نکلے گا مجھے یہ بھی نہیں پتا کہ آگے کیا ہونے والا ہے لیکن پیچھے جو کچھ ہو چکا ہے وہ لکھ چکا ہوں میں اور چاہتا ہوں تم اسے ان چاروں کے لیئے اپنے پاس محفوظ کر لو. ۔۔وہ اس سے کھل کر یہ نہیں کہہ پایا تھا کہ اسکے مرنے کے بعد وہ اسکے بچوں کے ہوش سنبھالنے پر ان سے انکے باپ کا تعارف ان ہی کے لفظوں میں کرائے۔۔ ۔۔
کتنے چیپٹرز ہیں اس کتاب کے۔۔۔اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی پوچھا۔
سینتیس سال کی عمر میں پہلا چیپٹر لکھا تھا۔۔ پھر ہر سال ایک چیپٹر لکھتا رہا ہوں ۔ہر سال ایک لکھنا چاہتا تھا۔۔زندگی کے پہلے پانچ سال ۔۔پھر اگلے ۔۔پھر اس سے اگلے۔۔۔ابھی زندگی کے صرف چالیس سال ریکارڈ کر پایا ہوں۔۔۔وہ بات کرتے کرتے رکا۔۔ چیپٹر گنوائے بغیر وہ عمر گنوانے بیٹھ گیا تھا۔ 
چالیس کے بعد بھی تو زندگی ہے۔ اکتالیس۔۔بیالیس۔۔۔وہ بات کرتے کرتے اٹکی۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو ہے اسے میں ڈاکومنٹ نہیں کرنا چاہتا۔ تم کرنا چاہتی ہو تو کر لو۔۔
کہاں ہے کتاب؟ ۔۔وہ یہ سب نہیں پوچھنا چاہتی تھی پھر بھی ہوچھ رہی تھی۔
اسی کمپیوٹر میں ہے۔۔وہ کمپیوٹر آن کرنے لگا۔اور ڈیسک ٹاپ پر پڑے ایک فولڈر کو کھول کر اس نے امامہ کو دکھایا۔۔فولڈر کے اوپر ایک نام چمک رہا تھا تاش۔۔۔
تاش؟؟ امامہ نے رندھی آواز میں پوچھا۔۔
نام ہے میری آٹو بائیو گرافی کا۔۔۔وہ اب اسے فائلز دکھا رہا تھا۔
انگلش میں لکھی جانے والی آٹو بائو گرافی کا نام اردو میں رکھو گے؟؟ وہ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
میری زندگی کو اس لفظ سے زیادہ بہتر کوئی بیان نہیں کر سکتا ۔کیا فرق پڑتا ہے تم لوگوں کے لیئے لکھی ہے تم لوگ تو سمجھ سکتے ہو تاش کیا ہے۔۔۔۔۔۔
وہ صفحات کو سکرول ڈاؤن کر رہا تھا لفظ بھاگتے جارہے تھے پھر غائب ہو رہےتھے بالکل ویسے ہی جیسے اس کی زندگی کے سال غائب ہوئے تھے۔۔پھر وہ آخری صفحے پر جارکا تھا۔ آدھا صفحہ لکھا ہوا تھا آدھا خالی تھا۔۔سالار نے سر اٹھا کر امامہ کو دیکھا۔۔۔نم آنکھوں کے ساتھ وہ اسے دیکھ رہی تھی۔
تم پڑھنا چاہو گی؟ اس نے مدھم آواز میں امامہ سے پوچھا۔اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
+++++----------++++++
وہ کتاب اس دن امامہ نے اسکے آفس جانے اور بچوں کے سکول واپس آنے سے پہلے ختم کر لی تھی۔۔۔اس نے بڑی بے رحمی سے اپنی زندگی کو رقم کیا تھا۔وہ سفاکی کی حد تک صاف گوئی دکھا رہا تھا۔ اپنے سارے عیب، ساری غلطیاں، ساری گمراہیاں۔۔۔۔۔۔
اور پھر اس کی زندگی میں امامہ ہاشم نے کیا رول ادا کیا ۔۔اسکی اولاد نے کیا تبدیلی کی تھی اور اسکے باپ نے اسکے لیئے کیا کیا۔اور اس رزق نے کیا تباہی کی تھی، وہ بھی جو سود سے کمایا۔۔۔
آٹھویں چیپٹر کے آخری لائن میں امامہ نے ایک لائن لگاتے ہوئے اگلا صفحہ کھولا تھا۔
سالار سکندر کی زندگی کے نویں چیپٹر کا آغاز۔۔۔
******--------+++++*****
تم نے کتاب پڑھی؟ اس رات سالار نے واپس آکر سونے سے پہلے پوچھا۔
نہیں۔۔۔۔اس نے فوراً کہا۔
مجھے اس کتاب کو اس کمپیوٹر سے ہٹا دینا چاہیئے۔سالار کو اچانک خیال آیا۔۔
کیوں؟ وہ حیران ہوئ۔
میں نہیں چاہتا جبریل اسے پڑھے وہ اکثر یہی کمپیوٹر استعمال کرتا ہے۔ تمہارے لیپ ٹاپ میں محفوظ کرلیتا ہوں۔
جب بچوں کے لیے لکھ رہے ہو تو بچوں سے چھپانا کیوں چاہتے ہو؟ 
میں اس عمر میں انہیں یہ سب نہیں پڑھانا چاہتا۔
تو پھر مجھے بھی مت پڑھاؤ۔۔۔امامہ نے کہا۔۔۔
میں یہ کتاب کبھی نہیں پڑھوں گی اور میں کبھی اپنے بچوں کو بھی یہ کتاب نہیں پڑھاؤں گی۔امامہ نے جیسے اعلان کیا۔
ٹھیک ہے مت پڑھنا ۔پبلش کروا دینا۔۔۔۔
تم سمجھتے کیا ہو ۔۔دنیا کیا کرے گی تمہاری آٹو بائیوگرافی پڑھ کر؟ بے بسی کا شدید احساس تھا جو غصے میں بدلا تھا۔
وہ اس کے اس انداز پہ چونکا اور پھر مسکرا دیا۔
آج کئی مہینوں بعد تمہیں مجھ پہ غصہ آیا ہے۔۔
اس نے امامہ کو چھیڑا۔۔اس نے بھی کئی مہینوں بعد اسے چڑایا تھا اسی انداز میں جس سے وہ چڑتی تھی۔۔
وہ واش روم کا دروازہ کھول کر اندر گھس گئ تھی۔ وہ روز صبح طے کرتی تھی کہ اسے آج نہیں رونا۔۔مگر ہر روز شام تک آنسو سب کچھ تہس نہس کر چکے ہوتےتھے۔ وہ اب بھی وہاں اندر باتھ ٹب کے کونے پر بیٹھی بے آواز رو رہی تھی۔۔۔
++-----+++++----++-----
کنشاسا سے پاکستان آنے سے پہلے اس نے چاروں بچوں کو اکٹھا بٹھا کر سمجھایا تھا۔
ہم اب جہاں جا رہے ہیں وہ ہمارا گھر نہیں ہے وہاں ہم گیسٹ ہیں اور ہمیں وہاں جتنی دیر رہنا ہے اچھے مہمانوں کی طرح رہنا ہے اور اچھے مہمان کیا کرتے ہیں؟ 
اچھے گیسٹ ڈھیر ساری چیزیں لاتے ہیں۔ مزے مزے کی باتیں کرتے ہیں اور جلدی چلے جاتے ہیں اور کوئ بھی کام نہیں کرتے ریسٹ کرتے ہیں۔۔حمین نے حسب عادت سبقت کرتے ہوئے جواب دےکر امامہ کو ایک ہی وار میں لاجواب کردیا۔
اسے ہنسی آگئ۔۔۔ماں کو ہنستے دیکھ کر حمین بے حد جذباتی ہوگیا۔
ہرا۔۔۔۔۔میں جیت گیا۔۔۔اس نےہوا میں مکا لہراتے ہوئے صحیح جواب بوجھ لینے کا اعلان کیا۔۔۔
کیا اس نے ٹھیک کہا ہے؟ عنایہ کو جیسے یقین نہیں آیا۔۔
نو۔۔۔۔امامہ نے کہا۔۔حمین کے چہرے پر بے یقینی جھلکی۔۔
اچھے مہمان کسی کو تنگ نہیں کرتے۔ کسی سے کوئ فرمائش نہیں کرتے۔ کسی چیز میں نقص نہیں نکالتے۔اور ہر کام میزبان سے اجازت لیکر کرتے ہیں۔وہ اپنے کاموں کا بوجھ میزبان پر نہیں ڈالتے۔۔۔امامہ نے انہیں سمجھانے والے انداز میں کہا۔۔۔
اوہ مائی گاڈ۔۔ممی میں اچھا گیسٹ نہیں ہونا چاہتا میں بس گیسٹ بننا چاہتا ہوں۔۔۔حمین نے ماں کی بات کاٹتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔۔
ہم دادا، دادی کے گھر جا رہے ہیں اور ہمیں وہاں ایسے رہنا ہے جس سے انہیں شکایت یا کوئ تکلیف نہ ہو۔۔امامہ نے حمین کو جواب دیا، وہ مطمئن نہ ہوا۔۔
اوکے۔۔۔۔۔عنایہ، رئیسہ اور جبریل نے بیک وقت ماں کو اطمینان دلایا تھا۔۔ 
اور ہم اپنے گھر کب جائیں گے؟ حمین نے سوال بدلہ اور امامہ کو چپ لگ گئ۔۔
ہم نیا گھر خریدیں گے۔۔۔عنایہ نے جیسے اس چپ کا دفاع کیا۔۔۔۔
کہاں؟ حمین کو مکمل جواب چاہیئے تھا۔
جہاں بابا ہونگے۔۔جبریل نے اس بار اسے مکمل جواب دینے کی کوشش کی۔
اور بابا کہاں ہونگے؟ حمین نے ایک اور منطقی سوال پوچھا جو امامہ کو چھبا تھا۔۔۔
ابھی ھم پاکستان جا رہے ہیں پھر جہاں بابا جائیں گے ہم وہاں چلے جائیں گے۔۔۔جبریل نےماں کی آنکھوں میں امڈنے والی نمی کو بھانپا۔۔۔
واؤ یہ تو بہت اچھا ہے۔ حمین بلآخر مطمئن ہوا۔۔۔۔۔
میں بابا کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔۔۔اس نے جیسے اعلان کر کے ماں کو اپنی ترجیح بتائ۔۔۔
امامہ ان چاروں سے اور کچھ نہ کہہ سکی۔۔۔اور انہیں سونے کا کہہ کر خود انکے کمرے سے نکل آئ۔۔۔
ممی۔۔۔۔۔۔۔حمین اسکے پیچھے لاؤنج میں نکل آیا تھا۔امامہ نے اسےپلٹ کر دیکھا۔۔۔
یس۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آپکو کچھ بتانا چاہتا ہوں لیکن میں کنفیوز ہوں۔اس نے ماں سے کہا۔
کیوں؟ وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔۔۔۔
کیونکہ میں اپنا وعدہ نہیں توڑنا چاہتا۔اس نے الجھن کی وجہ بتائ۔
لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں آپکا سیکرٹ جانتا ہوں۔۔۔امامہ کا دل اچھل کر جیسے خلق میں آگیا تھا۔
میں جانتا ہوں آپ اپ سیٹ ہو۔ وہ کہہ رہا تھا اور امامہ جیسے کچھ اور زمین میں گڑی۔۔۔وہ اب اسکے اور قریب آگیا تھا ۔۔۔پلیز آپ اپ سیٹ نہ ہو۔۔اس نے ماں کی کمر کے گرد اپنے بازو لپیٹتے ہوئے کہا۔۔جب آپ روتی ہیں تو مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔۔۔۔
تم کیا جانتے ہو؟ وہ اتنا چھوٹا سا جملہ ادا نہیں کر پا رہی تھی۔۔وہ صرف اسے تھپکنےلگی۔۔۔
دادا ٹھیک ہو جائیں گے۔۔وہ اب اسے تسلی دینے لگا۔امامہ کو لگا جیسے اس نے سننے میں غلطی کر دی ہے۔وہ شاید بابا کہہ رہا تھا۔
میں نے دادا سے پوچھا۔۔امامہ مزید الجھی۔
کس سے کیا پوچھا؟ 
دادا سے پوچھا انہوں نے کہا وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔۔ 
دادا کو کیا ہوا؟ وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔
دادا کو برین ٹیومر نہیں ہوا۔دادا کو الزائمر ہے۔۔۔لیکن وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔۔۔
امامہ کوا دماغ بھک سے اڑا تھا۔
------------++++++**------
سالار کو کچھ مت بتانا۔۔۔۔
پاکستان پہنچنے کے بعد سب سے پہلا کام جو کام تھا وہ امامہ نے یہی کیا تھا۔ اس نے سکندر عثمان سے اس انکشاف کے بارے میں پوچھا تھا جو سکندر عثمان نے حمین کے برین ٹیومر کے حوالے سے سوالوں کے جواب میں کیا تھا اور انہوں نے جواباً اسے بتایا تھا کہ ایک مہینے پہلے روٹین کے ایک میڈیکل چیک اپ میں ان کی اس بیماری کی تشخیص ہوئ تھی۔۔لیکن انہیں سب سے پہلے پریشانی یہ تھی کہ کہی امامہ نے سالار سے اس کا ذکر نہ کیا ہو۔۔۔اس لیے انہوں نے پہلی بات یہی بتا دی۔
میں اسے پریشان نہیں کرنا چاہتا اسکا آپریشن ہونے والا ہے ۔۔وہ اب بھی اپنے سے زیادہ سالار کے لیے فکرمند تھا۔۔
پاپا میں نہیں بتاؤں گی اسے۔۔میں بھی نہیں چاہتی کہ وہ پریشان ہو۔امامہ نے انہیں تسلی دی۔۔آپ جانتے ہیں آپ سے بہت اٹیچڈ ہے وہ اپنی بیماری بھول جائے گا۔۔۔۔۔۔۔
جانتا ہوں۔۔۔سکندر نے ایک رنجیدہ مسکراہٹ سے سر ہلایا۔۔۔۔اس عمر میں اپنی بیماری کی فکر نہیں مجھے میں نے زندگی گزار لی اپنی اور اللہ کا شکر ہے بہت اچھی گزاری ہے۔اس کو صحت مند رینا چاہیئے۔۔۔انہوں نے آخری جملہ عجیب حسرت سے کہا۔۔۔
اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اس کی بیماری بھی خود لیتا اور اپنی زندگی کے جتنے سال باقی ہیں وہ بھی اسے دے دیتا۔۔۔
امامہ نے ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔۔ 
آپ بس اس کے لیئے دعا کریں پاپا۔ ماں باپ کی دعا میں بڑا اثر ہوتاہے۔۔۔
دعا کے علاوہ۔ل اور کوئ کام نہیں ہے مجھے۔۔۔میں سوچتا تھا اس نے مجھے نوعمری اور جوانی میں بہت ستایا تھا۔۔۔لیکن جو میرے بڑھاپے میں ستا رہا ہے یہ۔۔۔۔۔۔وہ بات مکمل نہ کرسکے ۔۔۔رو دیے۔۔۔۔
ایک کام کرینگے پاپا؟ امامہ نے انکا ہاتھ تھپکتے ہوئے کہا۔
کیا؟ 
اپنی انگلی میں پہنی ہوئ انگوٹھی اتارتے ہوئے امامہ نے انکے ہاتھ کھولتے ہوئے ان کی ہتھیلی پر وہ انگوٹھی رکھ دی۔۔۔
اسے بیچ دیں۔۔۔۔۔۔وہ اسکا چہرہ دیکھنے لگے۔۔۔
کیوں؟؟ انہوں نے بمشکل کہا۔۔۔
مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔۔ 
کتنے؟؟
جتنے مل سکیں۔۔۔
امامہ۔۔۔۔
انہوں نے کچھ کہنا چاہا امامہ نے روک دیا۔۔۔
انکار مت کریں۔۔۔یہ کام میں آپ کے علاوہ کسی اور سے نہیں کرواسکتی۔۔۔۔وہ نم آنکھوں کیساتھ چپ چاپ امامہ کو دیکھتے رہے۔۔۔
----------------------------------
اپنے آپریشن سے دو ہفتے پہلے نیویارک میں سالار سکندر اور SIF کے بورڈ آف گورنرز نے پہلے گلوبل اسلامک انویسمنٹ فنڈ کے قیام کا اعلان کردیا ۔۔
پانچ ارب روپے کے سرمایہ سے قائم کیا گیا 
Samar investment fund
یہ وہ پہلی اینٹ تھی اس مالیاتی نظام کی جو سالار اور اسکے پانچ ساتھی اگلے بیس سالوں میں دنیا کی بڑی فنانشل مارکیٹوں میں سود پر مبنی نظام کے سامنے لیکر آنا چاہتے تھے۔اگر سالار کی بیماری کا انکشاف میڈیا پر اتنے زور و شور سے نہیں کیا جاتا تو ایس آئ ایف کے بورڈ آف گورنرز اس فنڈ کا آغاز ایک ارب ڈالر کے سرمایہ سے دنیا کے پچاس ممالک میں بیک وقت کرتے اور وہ ٹارگٹ مشکل ضرور تھا ناممکن نہیں تھا۔۔۔۔سالار کی بیماری نے جیسے پہلے ہی قدم پر انکی کمر توڑ دی تھی۔۔۔لیکن اسکے باوجود بورڈ آف گورنرز ٹوٹا نہیں تھا۔۔۔۔۔وہ اکٹھے رہے تھے ۔۔۔جڑے رہے تھے۔۔۔کیونکہ ان چھ میں سے کوئ شخص بھی یہ کام کاروبار کے طور پر نہیں کر رہا تھا ۔۔وہ ایک اندھی کھائ میں کودنے کے مجاہدانہ جذبے سے کر رہے تھے۔۔۔۔
سالار سکندر عامل کلیم موسی بن رافع ابوذر سلیم علی اکمل اور راکن مسعود پر مشتمل ایس ائ ایف کا بورڈ آف گورنرز دنیا کے بہترین بورڈ آف گورنر میں گردانا جاسکتا تھا۔۔۔۔وہ چھ کے چھ افراد اپنی فیلڈ کا پاور ہاؤس تھے۔۔۔
یہ ایک بڑے کام کی طرف ایک چھوٹا قدم تھا۔اتنا چھوٹا قدم کے بڑے مالیاتی اداروں نے اسکو سنجیدگی سے لیا بھی نہیں۔۔۔فنانشل میڈیا نے اس پر پروگرامز کیئے اور خبریں لگائ دلچسپی دکھائ لیکن کسی نے بھی اسے آئندہ آنے والے سالوں کےلیئے اپنے لیئے کوئ خطرہ نہیں سمجھا تھا۔
ایک قابل عمل مالیاتی نظام کے طور پر دنیا میں موجود نظام کو ٹکر دینے کےلیئے ایس آئ ایف کو فنانشل viability دکھانی تھی۔۔جو ابھی کسی کو نظر نہیں آئ تھی۔۔۔صرف ان چھ دماغوں کے علاوہ جو اسکے پیچھے تھے۔۔ ایس آئ ایف کے قیام کا اعلان اپنے کندھوں پر لدے ایک بھاری بوجھ کو ہٹادینے جیسا تھا۔۔۔۔کم از سالار کو ایسا ہی محسوس ہوا۔
امریکہ میں ایک ہفتے کے دوران اس نے درجنوں میٹنگز اور سیمینارز اٹینڈ کی تھی اور کچھ یہی حال بورڈ آف گورنرز کے دوسرے ممبرز کا بھی تھا۔۔ایک ہفتہ بعد اسے پاکستان جاکر اہنے بچوں سے ملنا تھا اور پھر واپس آکر امریکہ میں سرجری کروانی تھی ۔۔اسکا شیڈول اپائنمنٹس سے بھرا تھا۔
ایک ہفتہ کے اختتام تک وہ ایس آئ ایف کے ان سرمایہ کاروں میں سے کچھ کو واپس لانے میں کامیاب ہوگئے تھے جو سالار کی بیماری کی خبر سن کر پیچے ہٹ گئے تھے۔۔۔یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔۔بارش کا وہ پہلا قطرہ جسکا ان سب کو انتظار تھا۔۔۔
سالار ائ ایف کے قیام کے لیئے تو سرمایہ کار لانے میں کامیاب ہوگیا تھا لیکن وہ ذاتی طور پر خود اس میں کوئ بڑی انویسمنٹ نہیں کرسکا تھا۔۔کچھ اثاثے جو اسکے پاس تھے انہیں بیچ کر بھی اسکا حصہ کروڑ سے بڑھ نہ سکا تھا۔۔۔۔
مگر اس فنڈ کی اناؤنسمنٹ کے ایک دن بعد سکندر نے اسے امریکہ فون کیا تھا. 
میں پانچ کروڑ کی انویسمنٹ کرنا چاہتا ہوں ایس آئ ایف میں۔۔۔انہوں نے ابتدائ گپ شپ کے بعد کہا۔
آپ اتنی بڑی رقم کہاں سے لائیں گے؟ وہ چونکا۔
باپ کو غریب سمجھتے ہو تم۔۔۔۔وہ خفا ہوئے۔۔۔سالار ہنس پڑا. 
اپنے سے زیادہ نہیں۔۔۔
تم سے مقابلہ نہیں ہے میرا۔۔سکندر نے بے نیازی سے کہا۔۔۔تمہیں میرے برابر آنے کے لیئے دس بیس سال لگیں گے۔۔
شاید نہ لگے۔۔۔۔
چلو دیکھیں گے۔۔۔ابھی تو مجھے بتاؤ یہاں پاکستان میں لوکل آفس اور کیا طریقہ کار ہے۔۔انہوں نے بات بدلی تھی۔۔۔
آپ نے اب کیا بیچا ہے؟ سالار نے اسے بات بدلنے نہیں دی۔۔۔
فیکٹری۔۔۔۔وہ سکتے میں رہ گیا۔۔۔۔
اس عمر میں میں نہیں سنبھال سکتا اب ۔۔کامران سے بات کی ۔۔وہ اور اسکا ایک دوست لینے پر تیار ہوگئے ۔۔مجھے ویسے بھی فیکٹری میں سب کا حصہ دینا تھا. وہ ایسے اطمینان سے بات کر رہے تھے جیسے کوئ معمولی بات ہو۔۔۔
آپ کام کرتے تھے پاپا۔۔۔آپ نے چلتا ہوا بزنس کیوں ختم کردیا۔۔کیا کریں گے اب آپ۔۔وہ بے حد ناخوش ہوا تھا۔۔
کرلوں گا کچھ نہ کچھ۔۔۔یہ تمہارا مسلہ نہیں۔۔۔اور نہیں بھی کروں گا تو بھی کیا ہے ۔تم باپ کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے کیا ۔باپ ساری عمر اٹھاتا رہا ہے ۔وہ اسے ڈانٹ رہے تھے۔
آپ نے میرے لیئے کیا ہے یہ سب؟ سالار رنجیدہ تھا۔
ہاں۔۔۔۔۔اس بار سکندر نے بات گھمائے پھرائے بغیر کہا۔
پاپا مجھ سے پوچھنا چاہیئے تھا آپکو۔۔۔مشورہ کرنا چاہیئے تھا۔۔۔
تم زندگی میں کونسا کام میرے مشورے سے کرتے رہے ہو ۔ہمیشہ صرف اطلاع دیتے ہو۔۔وہ بات کو ہنسی میں اڑانے کی کوشش کر رہے تھے۔ 
وہ محظوظ نہیں ہوا۔۔اسکا دل عجیب طرح سے بوجھل ہوا تھا۔۔۔
کیا ہوا؟؟ سکندر نے اسکی خاموشی کو کریدا۔
آپ مجھ پر اتنے احسان کیوں کرتے ہیں۔کب تک کرتے رہینگے۔وہ کہے بنا نہ رہ سکا۔۔۔
جب تک میں زندہ ہوں۔۔سکندر اسکی زندگی کی بات نہیں کرسکے تھے۔
آپ مجھ سے زیادہ جیئے گے۔۔۔۔۔
وقت کا کس کو پتا ہوتا ہے ۔۔۔سکندر کو لہجہ پہلی بار سالار کو عجیب لگا۔۔۔
------**-*---------------------
جبریل تم ان سب کا خیال رکھ لو گے؟؟ امامہ نے شاید کوئ دسویں بار اس سے پوچھا تھا 
جی ممی میں رکھ لوں گا۔ یو ڈونٹ وری۔۔۔اور اس نے دسویں بار ایک ہی جواب دیا۔
وہ سالار کی سرجری کے وقت اسکے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔اور سالار کے بے حد منع کرنے کے باوجود وہ پاکستان میں بچوں کے پاس رہنے پر تیار نہیں ہوئ تھی۔
اس وقت تمہیں میری ضرورت ہے بچے اتنے چھوٹے نہیں ہیں کہ وہ میرے بغیر ہفتہ نہیں گزار سکتے۔۔۔اس نے سالار سے کہا۔
اور اب جب سیٹ کنفرم ہوگئ تھی تو اسے بچوں کی بھی فکر ہورہی تھی۔وہ پہلی بار انہیں اکیلا چھوڑ کر جارہی تھی وہ بھی اتنی لمبی مدت کے لیئے۔۔
دادی بھی پاس ہوگی تمہارے انکا بھی خیال رکھنا۔۔۔
جی رکھوں گا۔۔۔۔
اور ہوم ورک کا بھی۔۔ابھی تم سب کے سکولز نئے ہیں ۔تھوڑا ٹائم۔لگے گا ایڈجسٹ ہونے میں۔ چھوٹے بہن بھائ گھبرائے تو تم سمجھانا۔۔
جی۔۔۔۔۔۔۔
میں اور تمہارے پاپا روز بات کرینگے تم لوگوں سے۔
آپ واپس کب آئیں گی؟ جبریل نے اتنی دیر میں پہلی بار ماں سے پوچھا۔
ایک مہینہ تک۔۔۔شاید تھوڑا زیادہ وقت لگے گا۔سرجری ہوجائے تب پتا لگے گا ۔۔اس نے سوچتے ہوئے کہا۔۔
زیادہ سے زیادہ بھی رکھیں گے تو دوسرے دن تک رکھیں گے اگر کوئ کمپلیکیشن نہ ہوئ ورنہ دوسرے دن پاپا گھر آجائیں گے۔
امامہ نے حیران ہوکر اسے دیکھا۔۔۔تمہیں کیسے پتا؟ 
آئی ریڈ اباؤٹ اٹ۔۔۔۔اس نے ماں سے نظریں ملائے بغیر کہا۔
کیوں؟؟ 
انفارمیشن کے لیئے۔۔جبریل نے سادگی سے کہا۔وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر نظریں ہٹا لی۔۔۔وہ اپنے ہینڈ بیگ میں کچھ تلاش کرنے لگی۔۔۔ایک دم اسے محسوس ہوا جیسے جبریل اسکا چہرہ دیکھ رہا تھا۔امامہ نے ایک لحظہ سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔
کیا ہوا؟؟ اس نے جبریل سے پوچھا۔۔۔اس نے جواباً امامہ کی کنپٹی کے قریب نظر آنے والے ایک سفید بال کو اپنی انگلیوں سے پکڑتے ہوئے کہا۔آپکے کافی بال سفید ہوگئے ہیں۔۔۔۔وہ ساکت اسے دیکھتی رہی۔۔۔
امامہ۔نے اسکے ہاتھ سے اپنا بال چھڑا کر اسکا ہاتھ چوما۔۔اب گرے ہیئر کے بارے میں پڑھنا شروع مت کرنا۔۔امامہ نے ۔آنکھوں کیساتھ مسکراتے ہوئے اسے چھیڑا۔۔۔۔
وہ جھینپا پھر مدھم آواز میں بولا۔
میں پہلے ہی پڑھ چکا ہوں ۔۔سٹریس ان ہیلدی ڈائٹ مین ریزن ہیں۔۔۔
وہ حمین نہیں جبریل تھا۔سوال سے پہلے جواب ڈھونڈنے والا۔۔
وہ اسکا چہرہ دیکھتی رہی۔۔ایک وقت وہ تھا جب اسکا کوئ نہیں رہا تھا اور ایک وقت یہ تھا جب اسکی اولاد اسکے سفید بالوں سے بھی پریشان ہورہی تھی۔۔۔۔
----------------------------------
ساڑھے تین کروڑ کا وہ چیک دیکھ کر وہ کچھ دیر ہل نہ سکا تھا۔وہ لفافہ امامہ نے کچھ دیر پہلے اسے دیا تھا۔اس وقت وہ فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔اور لفافہ کھولتے ہوئے اس نے امامہ سے پوچھا۔۔
اس میں کیا ہے؟ سوال کا جواب ملنے سے پہلے اسکے نام کاٹا گیا وہ چیک اس کے ہاتھ میں آگیا تھا۔۔سالار نے سر اٹھا کر امامہ کو دیکھا۔
میں یہ۔چاہتی ہوں کہ تم یہ رقم لے لو۔۔اپنے ہاس رکھو۔یا ایس آئ ایف میں انویسٹ کرو۔۔
تم نے وہ انگوٹھی بیچ دی؟ سالار نے بے ساختہ پوچھا۔۔۔۔وہ ایک لمحہ کچھ بول نہ سکی پھر مدھم آواز میں کہا۔۔
میری تھی۔۔۔بیچ سکتی تھی۔
بیچنے کے لیئے تمہیں نہیں دی تھی۔۔وہ خفا تھا یا شاید رنجیدہ۔۔تم چیزوں کی قدر نہیں کرتی۔۔وہ کہے بنا نہ رہ سکا۔
چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے امامہ نے ست ہلایا۔
ٹھیک کہتے ہو۔میں چیزوں کی قدر نہیں کرتی انسانوں کی کرتی ہوں۔۔۔
انسانوں کی بھی نہیں کرتی۔۔سالار خفا تھا۔
صرف تمہاری نہیں کی شاید اسی لیئے سزا ملی۔۔نمی آنکھوں میں آئ تھی۔۔آواز کیساتھ ہاتھ بھی کپکپایا۔۔۔خاموشی آئ، رکی، ٹوٹی۔۔۔۔
تم بے وقوف ہو۔۔وہ اب خفا نہیں تھا۔اس نے چیک لفافے میں ڈال کر اسی طرح میز پر رکھ دیا۔۔
تھی۔۔۔۔امامہ نے کہا۔
اب بھی ہو۔۔۔سالار نے اصرار کیا۔۔۔
عقل مندی کا کرنا کیا ہے اب میں نے۔۔اس نے جواباً پوچھا۔
یہ رقم اب اپنے پاس رکھو۔۔بہت سی چیزوں میں ضرورت پڑے گی تمہیں۔۔۔سالار نے کہا۔
میرےپاس کافی رقم ہے اکاؤنٹ خالی تو نہیں۔بس میں چاہتی تھی کہ میں ایس آئ ایف میں کنٹری بیوٹ کروں۔۔۔وہ کہہ رہی تھی۔۔۔۔
زیور بیچ کر کنٹری بیوٹ نہیں کروانا چاہتا میں تم سے۔۔۔تم صرف دعا کرو اسکے لیئے۔
زیوت سے صرف پیسہ مل سکتا ہے۔اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
میں ویسے بھی زیور نہیں پہنتی سالوں سے لاکر میں پڑا ہے سوچ رہی تھی وہ بھی۔۔۔۔۔۔ 
سالار نے اسکو بات مکمل نہیں کرنے دی۔بے حد سختی سے کہا۔
تم اس زیور کو کچھ نہیں کروگی وہ بچوں کے لیئے رکھا رہنے دو۔میں کچھ نہیں لوں گا اب تم سے۔وہ خاموش ہوگئ۔۔۔
سالار نے مگ رکھ دیا اور اسکی طرف مڑ کر جیسے بے بسی سے کہا۔۔
کیوں کر رہی ہو یہ سب کچھ؟ 
کچھ کہے بنا اسکے بازو پر ماتھا ٹکائے اس نے ہاتھ اسکے گرد لپیٹ لییے۔۔۔وہ پہلا موقع تھا جب سالار کا احساس ہوا کہ جوں جوں اسکے آپریشن کی تاریخ قریب آرہی تھی وہ اس سے زیادہ حواس باختہ ہورہی تھی۔۔
تم میرے ساتھ مت جاؤ امامہ یہی رہو بچوں کیساتھ۔۔سالار نے ایک بار پھر اس سے کہا۔
بچے ابھی چھوٹے ہیں ۔انکو اکیلا چھوڑ کر تم میرے ساتھ کیسے رہوگی۔وہ پریشان ہوجائیں گے۔۔
نہیں ہونگے۔۔میں نے انہیں سمجھا دیا ہے۔۔وہ ٹس سے مس نہ ہوئ۔
وہاں فرقان ہوگا میرے ساتھ پاپا ہونگے تمہیں یہی رہنا چاہیئے بچوں کےپاس۔۔۔سالار نے دوبارہ اصرار کیا۔
تمہیں میری ضرورت نہیں ہے؟ وہ خفا ہوئ۔
ہمیشہ۔۔۔۔سالار نے اسکا سر چوما۔۔
ہمیشہ؟؟ 
اس بیگ میں میں نے سب چیزیں رکھ دی ہے۔ سالار نے یکدم بات بدلی۔
ساتھ لے جانے کے لیئے؟ امامہ نے سمجھے بغیر اسی طرح اسکے ساتھ لگے لگے کہا۔
نہیں اپنی ساری چیزیں۔۔۔چابیاں پیپرز بنک کے پیپرز ہر وہ ڈاکومنٹ جو بچوں سے متعلق ہے ۔اکاؤنٹ میں جو پیسے ہیں چیک بک سائن کردیا ہے اور اپنی ایک وصیت بھی۔ ۔۔ 
سرجری میں خدانخواستہ کوئ کملیکیشن ہوجائے تو حفاظتی تدبیر ہے
سالار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے جیسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا 
تمہارے نام ایک خط بھی ہے اس میں۔۔۔
میں نہیں پڑھوں گی۔۔اسکے گلے میں آنسوؤں کا پھندا لگا۔
چلو پھر تمہیں ویسے ہی سناؤں جو لکھا ہے۔۔۔وہ اب اس سے پوچھ رہا تھا۔
نہیں۔۔۔۔اس نے پھر ٹوک دیا۔
تم کتاب پڑھنا نہیں چاہتی خط نہیں پڑھنا چاہتی مجھے سننا نہیں چاہتی پھر تم کیا چاہتی ہو۔۔۔وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
میں نے کتاب پڑھ لی ہے۔اس نے بلآخر اعتراف کرلیا۔
وہ چونکا نہیں تھا۔۔۔میں جانتا ہوں۔۔۔
کوئ اپنی اولاد کے لیئے ایسا تعارف چھوڑ کے جاتا ہے؟ اس نے جیسے شکایت کی۔
سچ نہ لکھتا؟ وہ ہوچھ رہا تھا۔
جس بات کو اللہ نے معاف کردیا اسے بھول جانا چاہیئے۔۔
پتا نہیں معاف کیا بھی ہے یا نہیں۔۔۔یہ۔تو اللہ جانتا ہے۔
اللہ نےپردہ تو ڈال دیا ہے نا۔۔۔میں نہیں چاہتی میری اولاد یہ پڑھے۔۔کہ انکے باپ نے زندگی میں ایسی غلطیاں کی ہیں جو انکی نظروں میں تمہارا حترام ختم کردے۔۔وہ اس سے کہہ رہی تھی۔۔۔۔
جھوٹ بولتا اور لکھتا کہ میں پارسا پیدا ہوا تھا اور فرشتوں جیسی زندگی گزاری؟؟ 
نہیں۔۔۔بس انسانوں جیسی گزاری۔
وہ بے اختیار ہنسا۔۔۔شیطان لگ رہا ہوں کیا اس کتاب میں؟ 
میں اس کتاب کو ایڈٹ کروں گی۔۔وہ بولی۔۔
یعنی مجھے مومن بنا دوگی؟ 
وہ زندگی میں نہ بنا سکی تو کتاب میں کیا بناؤں گی۔۔۔۔وہ کہے بنا نہ رہ سکی۔
وہ پھر ہنسا۔۔۔یہ بات بھی ٹھیک ہے۔
کیا نام رکھو گی پھر میری آٹو بائوگرافی کا؟؟ 
آب حیات۔۔۔۔اس نے بے اختیار کہا۔اسکا رنگ اڑا اور پھر مسکرایا۔۔
وہ تو کوئ بھی پی کر نہیں آتا۔اس نے کہا۔
تلاش تو کرسکتا ہے نا۔۔امامہ نے کہا۔
لاحاصل۔ہے۔۔۔
وہ تو پھر زندگی بھی ہے۔وہ لاجواب ہوکر چپ ہوگیا۔۔۔۔
تم نے زندگی تاش کا کھیل سمجھ کر جی ہے اور اس کتاب کو بھی ایسا ہی لکھا ہے ۔زندگی باون پتوں کا کھیل نہیں۔۔۔ان دو سو پچاس صفحات میں اعترافات ہیں لیکن ایسی کوئ بات نہیں جسے پڑھ کر تمہاری اولاد تمہارے جیسا بننا چاہے۔میں چاہتی ہوں تم اسے آب حیات سمجھ کر لکھو تاکہ اسے پڑھ کر تمہاری اولاد ہی نہیں بلکہ کوئ بھی پڑھے تو تمہارے جیسا بننا چاہے۔۔۔وہ اس سے کہتی رہی۔۔۔
میرے پاس اب شاید مہلت نہیں اتنی۔سالار نے مدھم آواز میں کہا۔
تم مانگو۔۔۔جو چیز اللہ میرے مانگنے پر نہیں دیتا تمہارے مانگنے پر دیتا ہے۔سالار نے اسے عجیب لہجے میں کہا۔
مجھے یقین ہے تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔اس نے سالار کا ہاتھ تھاما۔۔۔
مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔۔۔وہ عجب رنجیدگی سے مسکرایا۔۔۔ابھی تو بہت کچھ ہے جو ہمیں ساتھ کرنا ہے۔۔ساتھ حج کرنا ہے۔تمہارے لیئے اک گھر بنانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
امامہ نے سر جھکا لیا ۔۔۔وہ بھی اندھیرے میں صرف جگنو چاہتی تھی اندھیرا نہیں
------------------------------
آپریشن ٹیبل پر لیٹے اینیستھیزیا لینے کے بعد بے ہوشی میں جانے سے پہلے سالار ان سب کے بارے میں سوچتا رہا جن سے وہ پیار کرتا تھا۔امامہ جو آپریشن تھیٹر سے باہر بیٹھی تھی سکندر عثمان جو اس عمر میں بھی اسکے منع کرنے کے باوجود اسکو اپنی نظروں کے سامنے سرجری کےلیئے بھیج رہے تھے۔۔اسکی ماں جو اسکے بچوں کو سنبھالے پاکستان میں بیٹھی تھی۔
اور اسکی اولاد جبریل حمین عنایہ رئیسہ اسکی نظروں کے سامنے باری باری ایک ایک کا چہرہ آ رہا تھا۔چہرے آوازیں سوچ آہستہ آہستہ مدھم ہونا شروع ہوئ اور پھر غائب ہوتی چلی گئ۔۔ 
---------------------------------
چار گھنٹے کا آپریشن آٹھ گھنٹے تک چلا گیا تھا۔سکندر فرقان اور سالار کے دونوں بڑے بھائ وہاں اسکو تسلیاں دے رہے تھے اور وہ گم صم صرف دعائیں کرتی رہی تھی۔آٹھ گھنٹے میں وہ اپنی فیملی کے اصرار کے باوجود کچھ کھا پی نہ سکی۔۔۔وہ پچھلی ساری رات بھی جاگتی رہی تھی. 
اس آٹھ گھنٹوں میں پتا نہیں اس نے کتنی دعائیں کی وظیفیں کییے اللہ کے رحم کو کتنی بار پکارا اس نے گنتی نہیں کی تھی۔۔۔
آپریشن کا بڑھتا ہوا دورانیہ اسکی تکلیف اذیت اور خوف کو بڑھا رہا تھا

آٹھ گھنٹے بعد بلآخر اسے آپریشن کامیاب ہونے کی اطلاع تو مل گئ تھی ڈاکٹرز نے اس کا ایک ٹیومر تو ختم کر دیا تھا لیکن دوسرا ختم نہ کر سکے اسے سرجری کے ذریعے ریمو کرنا انتہائ خطرناک تھا۔ وہ بے حد نازک جگہ پر تھا۔
آٹھ گھنٹے بعد امامہ اور سکندر عثمان نے اسے دیکھا تھا۔ وہ ابھی ہوش میں نہیں تھا۔۔ہوش میں آنے کے بعد ہی ڈاکٹرز آپریشن کی صحیح طرح کامیابی منا سکتے تھے۔جب وہ ہوش میں آنے کے بعد بات چیت شروع کرتا اپنی فیملی کو پہچانتا۔۔اپنے ذہن کے متاثر نہ ہونے کا ثبوت دیتا۔۔۔امامہ ایک دریا پار کر آئ تھی اب آگے ایک اور دریا کا سامنا تھا۔امامہ بہت دیر تک اسے نہ دیکھ سکی۔تاروں اور ٹیوبز میں جکڑا ہوا وہ اسے دیکھنے کی کوشش کرنے کے باوجود اس پر نظر نہ جما سکی وہ وہاں سے باہر آگئ۔۔۔
وہ لوگ اب اسپتال میں نہیں ٹھہر سکتے تھے ۔نہ چاہتے ہوئے بھی اسےاسپتال سے واپس اپنے کرائے کے اپارٹمنٹ میں آنا پڑا۔۔۔سکندر عثمان اسکے ساتھ تھے سالار کے دونوں بھائ اور فرقان اسپتال کے قریب اپنے کچھ دوستوں کے پاس رہ رہے تھے۔ سکندر عثمان کو انکے کمرے میں چھوڑ کر وہ اپنے کمرے میں آئ۔وہاں عجیب سناٹا تھا یا شاید وحشت تھی۔۔وہ بے حد تھکی ہوئی تھی۔سونا چاہتی تھی پر سو نہ سکی۔اسکے اسمارٹ فون پر جبریل سکائپ پر آن لائن نظر آ رہا تھا۔وہ بے اختیار اسے کال کرنے لگی۔
بابا کیسے ہیں۔۔۔اس نے سلام دعا کے بعد پہلا سوال کیا۔
وہ ٹھیک ہیں آپریشن ٹھیک ہو گیا ڈاکٹرز اب انکے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔۔وہ اسکو بتانے لگی۔
آپ پریشان نہ ہو وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔۔وہ ہمیشہ کی طرح ماں کو تسلی دے رہا تھا۔
جبریل تم تلاوت کرو کسی ایسی سورۃ کی کہ مجھے نیند آجائے۔۔وہ اولاد کے سامنے اتنی بے بس اور کمزور ہو کر نہیں آنا چاہتی تھی لیکن ہوگئ تھی۔۔۔۔۔
جبریل نے لیپ ٹاپ کی اسکرین اور اسکا ستا ہوا چہرہ دیکھا۔۔
آپ کو سورہ رحمان سناؤں؟؟ 
ہاں۔
اوکے۔۔۔میں وضو کر کے آتا ہوں۔۔آپ بستر پہ لیٹ جائے۔۔وہ پچھلے دو دن میں پہلی بار مسکرائی تھی۔۔۔۔۔
ممی آپ سو گئ؟ اس نے جبریل کی آواز پر ہڑ بڑا کے آنکھیں کھولی۔۔۔
نہیں۔۔امامہ نے کہا۔
میں شروع کروں؟ جبریل نے کہا۔
ہاں۔۔۔۔سر پر ٹوپی رکھے ہاتھ سینے پر باندھے وہ اپنی خوبصورت آواز میں سورہ رحمان کی تلاوت کر رہا تھا۔۔۔اسے سالار سکندر یاد آنا شروع ہو گیا تھا وہ اس سے یہی سورہ سنتی تھی اور جبریل کو یہ بات بھی یاد تھی۔۔دس سال کا جبریل اس سورہ کی تلاوت کرتے ہوئے اپنی ماں کو مسحور اور دم بخود کر رہا تھا۔اس کا جیسے دل پگھل رہا تھا۔
اور تم اپنے رب کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔۔۔
وہ پڑھتا رہا اور اس کا دل بھر آیا۔۔بے شک اللہ کی نعمتیں بے شمار تھی وہ شکر ادا نہیں کرسکتی تھی۔اور سب سے بڑی نعمت وہ اولاد تھی جس کی آواز میں اللہ کا وہ اعلان اس کے کانوں تک پہنچ رہا تھا۔
ممی۔۔۔جبریل نے تلاوت ختم کرنے کے بعد بے حد مدھم آواز میں اسے پکارا۔اسے یوں لگا جیسے تلاوت سنتے ہوئے وہ سو گئ ہیں۔ وہ سوئ نہیں تھی۔لیکن سکون میں تھی جیسے جیسے کسی نے اسکے سر اور کندھوں کا بوجھ اتار کر اسے ہلکا کردیا ہو 
جبریل تم عالم بننا۔تمہاری آواز میں بہت تاثیر ہے۔۔اس نے جبریل سے کہا۔
ممی مجھے نیورو سرجن بننا ہے۔ امامہ نے آنکھیں کھولی وہ بے حد سنجیدہ تھا۔
میری خواہش ہے کہ تم عالم بنو۔امامہ نے اس بار زور دے کر کہا۔۔وہ جانتی تھی وہ نیورو سرجن کیوں بننا چاہتا ہے. ۔۔
حمین زیادہ اچھا عالم بن سکتا ہے میں نہیں۔۔۔۔۔۔وہ الجھا جھجکا۔۔۔
تم زیادہ لائق اور قابل ہو بیٹا۔۔
سوچوں گا۔۔آپ سو جائیں۔۔۔اس نے ماں سے بحث نہیں کی۔۔بات بدل دی۔۔
--------------------------------
وہ دس سال کا تھا جب اس کے باپ کی موت ہوئ۔اور اس موت نے اس کی پوری فیملی کو ہلا کررکھ دیا۔۔باپ کی موت اچانک ہوئ تھی اور وہ اس سے سنبھل نہ سکا۔۔اگلے کئ سال۔۔۔وہ تعلیم میں دلچسپی لینے، زندگی میں کچھ کرنے اور بڑا نام بنانے کے خاتمے کا سال تھا اور یہی وہ سال تھا جب اس نے اپنے باپ کے ایک اچھے جاننے والے اور ان کے ہمسایہ میں رہنے والے خاندان میں بہت زیادہ آنا جانا شروع کیا۔ یہی وہ وقت تھا جب اس نے دنیا کے ہر مذہب میں دلچسپی لینا شروع کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرینڈ حیات ہوٹل کا بال روم اس وقت سپیلنگ بی کے 92ویں مقابلے کے دو فائنلسٹ سمیت دیگر شرکاء کے والدین بہن بھائیوں اور اس مقابلے کو دیکھنے کے لیئے موجود لوگوں سے کچھا کچ بھرا ہونے کے باوجود اس وقت پن ڈراپ سائلنس کا منظر پیش کر رہا تھا۔۔۔ دونوں فائنلسٹ کے درمیان راؤنڈ فورٹین کھیلا جارہا تھا۔تیرہ سالہ نینسی اپنا لفظ اسپیل کرنے کےلیئے اس وقت اپنی جگہ پر آچکی تھی۔امریکہ کی مختلف ریاستوں کے علاوہ دنیا کے بہت سارے ممالک میں اسپیلنگ بی کے مقامی مقابلے جیت کر آنے والے پندرہ سال سے کم عمر کے بچے اس آخری راؤنڈ کو جیتنے کے لیئے سر ھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے ۔
Sassafras
نینسی نے رکی ہوئی سانس کیساتھ پروناؤنسر کا لفظ سنا۔۔اور پرونائونسر سے لفظ دہرانے کو کہا۔۔۔اس نے دہرایا۔۔۔وہ چمپیئن شپ ورڈز میں سے ایک تھا۔۔لیکن فوری طور پر اسے یہ یاد نہ آسکا۔۔۔۔۔
نوسالہ دوسرا فائنلسٹ اپنی کرسی پر بیٹھا۔۔نینسی کا ریگولر ٹائم ختم ہوچکا تھا۔اس نے لفظ اسپیل کرنا شروع کیا ۔۔۔s.a.s.s پہلے چار لیٹرز بتانے کے بعد وہ ایک لمحہ کو رکی ۔۔۔زیر لب اس نے باقی لیٹرز دہرائے اور پھر دوبارہ بولنا شروع کیا۔۔
A.f.r
وہ ایک بار پھر رکی۔۔ دوسرے فائنلسٹ نے بیٹھے بیٹھے زیر لب آخری دو لیٹرز کو دہرایا U.sاور نینسی نے بھی بلکل اس وقت یہی دو لیٹرز بولے اور پھر بے یقینی سے اس گھنٹی کو بجتے سنا جو اسپیلنگ کے غلط ہونے پر بجتی تھی۔۔حیرت صرف اس کے چہرے پر نہیں تھی اس دوسرے فائنلسٹ کے چہرے پر بھی تھی۔ ۔پروناؤنسر اب درست اسپیلنگ دہرا رہا تھا۔ 
تقریباً فق ہوتی رنگت کیساتھ نینسی نے مقابلے کے شرکاء کے لیئے رکھی ہوئ کرسیوں کی طرف چلنا شروع کیا ۔۔ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔۔یہ رنراپ کو کھڑے ہوکر داد دی جارہی تھی نو سالہ فائنلسٹ بھی اسکے لیئے کھڑا ہوکر تالیاں بجا رہا تھا۔۔ہال میں موجود لوگ دوبارہ اپنی نشست سنبھال چکے تھے اور دوسرافائنلسٹ مائک کے سامنے آچکا تھا۔نینسی نے کسی موہوم امید کے تحت اسے دیکھنا شروع کیا۔۔اگر وہ اپنے لفظ کو مس اسپیل کرتا تھا وہ دوبارہ فائنل راؤنڈ میں آجاتی۔۔۔
اسٹیج پر اب وہ نو سالہ فائنلسٹ تھا ۔اپنی شرارتی مسکراہٹ اور گہری سیاہ چمکتی آنکھوں کیساتھ۔۔اس نے چیف پروناؤنسر کو دیکھتے ہوئے سرہلایا۔ ۔جوناتھن جواباً مسکرایا تھا۔۔۔وہ اس چیمپئن شپ کو دیکھنے والے کراؤڈ کا سویٹ ہارٹ تھا۔۔اسکے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی ۔۔۔
Cappelletti
جوناتھن نے لفظ ادا کیا۔
اس فائنلسٹ کے چہرے پر ایسی مسکراہٹ آئ جیسے وہ اپنی ہنسی کو کنٹرول کررہا ہو۔۔اسکی آنکھیں پہلے کلاک وائس پھر اینٹی کلاک وائس گھومنا شروع ہوگئ تھی۔۔۔ہال میں کچھ کھلکھلاہٹیں ابھری۔۔اس نے اپنا ہر لفظ سننے کے بعد ایسا ہی ری ایکٹ کیا تھا بھینچی ہوئ مسکراہٹ اور گھومتی ہوئ آنکھیں۔۔۔کمال کی خود اعتمادی تھی۔کئ دیکھنے والوں نے اسے داد دی۔
Your finish time starts.
اسے ان آخری تیس سیکنڈز کے شروع ہونے کی اطلاع دی گئ جس میں اس نے اپنا لفظ اسپیل کرنا تھا۔۔اسکی آنکھیں گھومنا بند ہوئی۔
Cappelleti
اس نے ایک بار پھر اپنے لفظ کو دہرایا اور پھر اسپیل کرنا شروع کردیا۔
C,a,p,p,e,l,l
وہ رکا اور پھر ایک سانس لیتے ہوئے اس نے دوبارہ اسپیل کرنا شروع کیا۔
E.t.t.i
ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
اسپیلنگ بی کا چیمپئن اب صرف ایک لفظ کے فاصلے پر تھا۔۔
تالیوں کی گونج تھمنے کے بعد جوناتھن نے اسے آگاہ کیا کہ اب اسے ایک اضافی لفظ اسپیل کرنا تھا۔ اس نے سر ہلایا۔۔۔۔۔اس لفظ کو اسپیل نہ کر سکنے کی صورت میں نینسی ایک بار پھر واپس مقابلے میں آجاتی۔
Weissnichtwo
اسکے لیئے لفظ پروناؤنس کیا گیا۔ایک لمحے کےلیئے اسکے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئ۔۔اوہ مائی گاڈ۔۔اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔وہ شاکڈ تھا۔۔۔یہ پہلا موقع تھا جب اس کی آنکھیں اور وہ خود اس طرح جامد ہوا تھا۔
نینسی بے اختیار اپنی کرسی پر سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔تو بلآخر کوئ ایسا لفظ آگیا تھا جو اسے چیمپئن شپ میں واپس لا سکتا تھا۔
اس کے والدین کو پہلی بار اسکے تاثرات نے پریشان کیا۔۔۔۔حاضرین اسکی انگلیوں اور ہاتھوں کی کپکپاہٹ بڑی آسانی سے اسکرین پر دیکھ سکتے تھے ۔۔۔۔
ہال میں بیٹھا ہوا صرف ایک فرد ریلیکسڈ تھا۔۔۔یہ اسکی سات سالہ بہن تھی ۔جس نے بھائی کے تاثرات پر پہلی بار بڑے اطمینان کیساتھ کرسی کی پشت کیساتھ مسکراتے ہوئے ٹیک لگائی تھی۔۔۔گود میں رکھے ہوئے اپنے ہاتھوں کو بہت آہستہ آہستہ اس نے بے تابی کے انداز میں بجانا شروع کیا ۔اس کے ماں باپ نے بیک وقت اس کے تالی بجاتے ہاتھوں اور اسکے مسکراتے چہرے کو الجھے انداز میں دیکھا اور پھر اپنے لرزتے کانپتے کنفیوز بیٹے کو دیکھا۔۔
ہال اب آہستہ آہستہ تالیاں بجا رہا تھا۔۔وہ اب اپنا کارڈ نیچے کر چکا تھا جیسے ذہنی تیاری کرچکا ہو۔۔۔ W.e.i.s.s.n.i.c.h.t.w.o
حمین سکندر نے ایک ہی سانس میں رکے بغیر لفظ کے ہجے کییے۔۔
An unknown place
ایک نا معلوم مقام۔۔۔۔اس نے لفظ کے ہجے کرتے ہی اسی رفتار سے اس کا مطلب بتایا۔۔پھر اسکی نظریں پروناؤنسر پر ٹکی۔
پروناؤنسر کے منہ سے نکلی درست کی آواز ہال میں گونج اٹھنے والی تالیوں میں گم ہو گئ۔۔وہ اسپیلنگ بی کے نئے فاتح کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے جو اسٹیج پر فلیش لائٹس اور ٹی وی کیمروں کی چکا چوند کردینے والی روشنیوں میں ساکت کھڑا تھا۔۔ یوں جیسے وہ ابھی تک اس شاک سے نکل نہ پایا ہو کہ وہ جیت چکا ہے۔۔یہ حمین سکندر تھا اور یہ حمین سکندر ہی ہو سکتا تھا۔۔۔۔
پہلا جملہ جو اس کے سامنے لگے مائک نے حاضرین تک پہنچایا تھا اس نے تالیوں کی گونج میں ایک بلند شگاف قہقہے کی آواز کو بھی شامل کیا تھا۔
اوہ مائ گاڈ۔۔۔۔۔وہ اس سے زیادہ کچھ نہ بول سکا۔۔حاضرین کی ہنسی نے اسے کچھ اور نروس کیا۔۔پھر اس نے حاضرین کی تالیوں کا جواب دیا۔ اس نے پلٹ کر اس طرف دیکھا جہاں اسکے ماں باپ اور رئیسہ بیٹھے تھے۔وہ اب سب کے ساتھ کھڑے اسکے لیئے تالیاں بجا رہے تھے۔۔۔حمین سکندر تقریباً بھاگتا ہوا ان کی طرف گیا اور اسکے ساتھ ہی وہ سپاٹ لائٹ بھی گئ جو اس سے پہلے اسٹیج پر فوکس تھی۔۔وہ تالیاں بجاتی اور آنسو بہاتی امامہ سے آکر لپٹا تھا۔۔۔پھر وہ سالار سے لپٹ گیا ۔۔۔۔کیا آپ کو مجھ پر فخر ہوا؟ اس نے ہمیشہ کی طرح باپ سے پوچھا۔
بہت فخر۔۔۔۔۔۔اس نے اسے تھپکتے ہوئے کہا۔
اس کی آنکھیں چمکی مسکراہٹ گہری ہوئی پھر وہ رئیسہ کی طرف گیا دونوں ہتھیلیاں پھیلاتے ہوئے اس نے بازو ہوا میں بلند کرتے ہوئے رئیسہ کے پھیلائے ہوئے ہاتھوں پر ہائ فائ کیا۔۔اپنے گلے میں لٹکا ہوا نمبر اتار کر اس نے رئیسہ کے گلے میں ڈالا۔۔پھر جھک کر اسے تھوڑا سا اٹھایا۔۔وہ کھلکھلائ۔۔حمین نے اسے نیچے اتارا اور پھر اسی طرح بھاگتا ہوا واپس اسٹیج کی طرف گیا۔۔
آخری لفظ کتنا مشکل تھا؟ ابتدائ کلمات کے بعد میزبان نے اس سے پوچھا 
آخری لفظ تو بے حد آسان تھا۔ حمین نے بڑے اطمینان سے کہا۔۔ہال میں قہقہہ گونجا۔۔
تو پھر مشکل کیا تھا۔۔۔میزبان نے اسے چھیڑنے والے انداز میں پوچھا۔
اس سے پہلے پوچھے جانے والے سارے الفاظ۔۔حمین نے ترکی بہ ترکی کہا۔
کیوں؟ 
کیونکہ میں ہر لفظ بھول گیا تھا بس تکے لگاتا رہا ایک آخری لفظ تھا جو میں آنکھیں بند کر کے بھی ہجے کرسکتا تھا۔۔
آخری لفظ اتنا آسان کیوں لگا تھا آپکو۔۔۔میزبان نے پوچھا۔۔۔
رئیسہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حمین نے فخریہ انداز میں کہا۔ کیونکہ میں اور میری بہن نامعلوم مقام سے آئے ہیں۔۔ہال ایک بار پھر تالیوں اور قہقہوں سے گونج اٹھا۔۔۔۔ہال میں لگی اسکرین پر گلاسز لگائے شرماتی رئیسہ ابھری تھی۔امامہ اور سالار بھی ہنس پڑے۔۔۔۔۔
زندگی میں اب تک ان سب کی وجہ سے ان دونوں کی زندگی میں ایسے بہت سے فخر کے لمحات آئے تھے۔۔۔
ممی اگلے سال میں بھی حصہ لوں گی۔۔ان کے درمیان بیٹھی ہوئ رئیسہ نے اپنے گلے میں لٹکے حمین کے کارڈ کو ہلاتے ہوئے سرگوشی میں امامہ کو اطلاع دی۔۔۔امامہ نے اسے تھپکا جیسے اسے تسلی دے کر ہامی بھر رہی ہو۔۔۔
اسٹیج پر اب حمین کو ٹرافی دی جا رہی تھی۔۔حاضرین ایک بار پھر کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے ہوئے داد دے رہے تھے ۔۔۔وہاں سے کئ کلومیٹر دور واشنگٹن کے ایک قدرے نواحی علاقے کے ایک گھر میں بیٹھے جبریل اور عنایہ ٹی وی پر اس پروگرام کی لائیو کوریج دیکھ رہے تھے۔عنایہ کچھ دیر پہلے اپنے ٹیسٹ کی تیاری ختم کر کے بیٹھی تھی جسکی وجہ سے وہ امامہ اور سالار کیساتھ نہ جاسکی اور جبریل اسکے ساتھ رہ گیا تھا۔۔اب جب اس تیسری ٹرافی کے انکے گھر آنےکا فیصلہ ہوگیا تھا تو وہ بے حد خوش تھے۔ان سب کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا۔۔حسد اور رقابت تو ان چاروں میں تھی ہی نہیں۔۔ٹی وی دیکھتے ہوئے گھنٹی کی آواز سنائی دی۔۔ جبریل اس وقت اپنے لیئے ملک شیک بنانے میں مصروف تھا عنایہ دروازے پہ چلی گئ۔ کی ہول سے اس نے باہر جھانکا ۔۔۔وہاں گیارہ سالہ ایرک کھڑا تھا۔ ۔۔عنایہ چند لمحوں کے لیئے وہی کھڑی رہی۔ وہ اسکا کلاس فیلو اور ہمسایہ تھا ۔۔جبریل گھر پہ نہیں ہوتا تو وہ دروازہ کبھی نہ کھولتی۔۔۔۔۔وہ باہر کی ہول پر نظریں جمائے یوں کھڑا تھا جیسے اس سوراخ سے یہ دیکھ پا رہا ہو کہ اسے اندر سے دیکھا جارہا تھا اور دیکھنے والا کون تھا یہ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔
باہر کون ہے؟ وہ جبریل تھا جو اچانک اس کے پیچھے آگیا تھا۔۔۔وہ ہڑبڑا کر پلٹی۔۔پھر اس نے کہا۔ 
ایرک۔۔۔۔۔۔
دونوں بہن بھائ ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔۔وہ بے مقصد اور کسی بھی وقت دوستوں کو گھر نہیں بلا سکتے تھے۔۔۔لیکن ایرک کے لیئے ان سب کے دلوں میں ہمدردی تھی۔۔
اچھا آنے دو شاید اسے بھی ٹیسٹ کا کچھ پوچھنا ہو۔۔۔جبریل نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔۔دونوں ہاتھ جینز کی جیبوں میں ڈالے ایرک نے دروازہ کھلنے پر اپنے امریکن لب و لہجے میں ہمیشہ کی طرح بمشکل انہیں السلام علیکم کہا۔۔۔
مبارک ہو۔۔۔۔۔ایرک نے وہی کھڑے کھڑے جبریل کے پیچھے جھانکتی عنایہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
تھینک یو۔۔۔جبریل نے بھی اتنا ہی مختصر جواب دیا۔۔وہ بات کرتے ہوئے دروازے کے سامنے سے ہٹ گئے۔۔۔ایرک اسی طرح جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اندر آگیا۔۔
تم نے ٹیسٹ کی تیاری کر لی۔ ۔عنایہ اس سے پوچھے بنا نہ رہ سکی۔۔۔
نہیں۔۔۔۔وہ چلتے ہوئے لاؤنج میں آگیا تھا۔
کیوں؟ 
بس ایسے ہی۔۔۔اس نے جواب دیا۔
بیٹھ جاؤ۔۔۔عنایہ نے اسے اسی طرح کھڑے دیکھ کر کہا۔جبریل تب تک لاؤنج کے ایک طرف موجود کچن ایریا میں دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔۔۔۔
ایرک تمہاری ممی کو پتا ہے کہ تم یہاں ہو؟؟ جبریل کو فریج میں سے دودھ نکالتے ہوئے اچانک خیال آیا۔۔۔
میرا خیال ہے۔۔۔۔ایرک نے کان سے مکھی اڑانے والے انداز میں کہا۔۔۔
انہیں نہیں پتا؟ 
وہ دودھ کی بوتل کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے ٹھٹکا۔۔
اسے پچھلے ہفتے کا خیال آیا تھا جب ایرک کی ممی اسے ڈھونڈتے ہوئے وہاں آئی تھی۔اور انہوں نے شکایت کی تھی کہ وہ انہیں بتائے بغیر گھر سے نکلا تھا اور وہ اتفاقاً اسے ڈھونڈنے پر پتا چلا کہ وہ گھر پر تھا ہی نہیں۔۔۔تب ہی وہ ان لوگوں کے گھر آئی تھی۔ کیونکہ انہیں پتا تھا کہ وہ انہیں کہی اور نہیں تو وہاں مل جائے گا۔
ممی گھر پر نہیں ہے۔۔۔ایرک نے جبریل کے تنبیہی انداز کو بھانپا۔۔
کہاں گئ ہیں؟ جبریل اتنی پوچھ گچھ کبھی نہ کرتا اگر وہ ایرک نہ ہوتا۔۔
کسی دوست کے پاس گئ ہے۔سبل اور مارک بھی انکے ساتھ ہیں۔اس نے جبریل کو بتایا۔۔۔۔۔
تم ساتھ نہیں گئے۔۔۔عنایہ نے اس سے پوچھا۔۔۔
میں نے ٹیسٹ کی تیاری کرنی تھی۔۔اس نے ترکی بہ ترکی کہا۔۔۔عنایہ اسے دیکھ کر رہ گئ۔
چلو پھر ٹیسٹ کی تیاری کرتے ہیں۔۔۔عنایہ نے جواباً اسے کہا۔
یہ سب واپس کب آئیں گے۔۔ایرک نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
واپس آرہے ہونگے۔۔۔عنایہ نے اسے بتایا اور اسے دیکھنے لگی۔
میں کوئ گیم کھیل سکتا ہوں ؟؟اس نے کہا۔۔۔عنایہ ہچکچائ۔۔۔
نہیں۔۔۔۔عنایہ کی جگہ جبریل نے جواب دیتے ہوئے اسکے ہاتھ سے ریمورٹ لےلیا۔
اس وقت ہمارے گھر میں کوئ گیمز نہیں کھیلتا کافی دیر ہوچکی ہے۔۔۔۔۔
جبریل نے اسے اپنے گھر کے قوانین نرمی سے بتائے۔۔
لیکن میں تو ایک آؤٹ سائڈر اور مہمان ہوں۔۔۔۔ایرک نے جبریل سے کہا۔۔۔ 
نہیں تم باہر کے نہیں ہو۔۔جبریل نے جواباً اس سے کہا۔۔ایرک بول نہیں سکا۔۔وہ جیسے اس سے یہی سننا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔
میں ڈنر ٹیبل سیٹ کردوں سب آنے والے ہونگے ۔۔عنایہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ایرک وقفے وقفے سے اسے اور جبریل کو دیکھتا رہا دونوں اپنے کاموں میں مصروف تھے اسے اپنی موجودگی بے مقصد نظر آئ لیکن وہ پھر بھی وہاں سے جانے پر تیار نہیں تھا۔۔اس گھر میں زندگی تھی سکون تھا۔۔جو اب اسکے گھر میں نہیں تھا۔
کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر عنایہ کے پاس آیا اور کچھ کہے بنا خود ہی ٹیبل سیٹ کرنے میں اسکی مدد کرنے لگا۔۔۔عنایہ نے سات سیٹس لگائ جو ایرک نے بھی نوٹس کیا اس نے جیسے بن کہے یہ جان لیا تھا کہ وہ وہاں سے کھانا کھا کر جائے گا۔۔ 
حمین اور رئیسہ کیساتھ سالار اور امامہ کی آمد پر انکا پرجوش استقبال کیا گیا۔اور اس میں ایرک بھی شامل تھا۔۔
کھانے کی میز پر انکے ساتھ کھانا کھاتے اور خوش گپیوں کرتے ہوئے ڈوربیل بجنے پر بھی ایرک کو یہ خیال نہیں آیا کہ وہ اسکی ممی کیرلین ہوگی۔۔وہ بے حد ناخوش تھی اور ہمیشہ کی طرح انکے گھر آنےپر اس نے معمول کے انداز میں خوشگوار رسمی جملوں کا تبادلہ نہیں کیا تھا اس نے اندر آتے ہی ایرک کا پوچھا اور وہاں ایرک کے ہونے کی تصدیق پر وہ اندر آگئ تھی۔۔اس نے لاؤنج میں کھڑے کھڑے ایرک کو ڈانٹنا شروع کیا ۔وہ سبل اور مارک کو اسکے پاس چھوڑ کر کسی دوست کے ساتھ ڈنر پر گئ تھی۔۔اور وہ سبل اور مارک کے سوتے ہی نکل آیا تھا۔۔اور جب کیرولین واپس آئ تو اس نے سبل اور مارک دونوں کو گھر میں روتے ہوئے پریشان اور ایرک کو وہاں سے غائب پایا تھا۔۔۔۔۔۔
ایرک نےماں کی ڈانٹ پھٹکار خاموشی سے سنی۔۔ شرمندگی اسے اس بات کی ہوئ کہ اسکا جھوٹ سب کے سامنے کھلا تھا۔۔۔۔۔ایرک کے جانے کے کچھ دیر بعد بھی وہاں خاموشی چھائی رہی۔۔یہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ اس صورت حال پر کیا رد عمل ظاہر کرے۔ایرک سے ان سب کو ہمدردی تھی اور انکی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ کیسے اسے اپنے گھر سے دور رکھیں۔۔۔
اتنا اچھا بچہ تھا۔۔پہلے کبھی جھوٹ نہیں بولتے دیکھا اسے۔پتا نہیں اب کیا ہوگیا۔۔۔امامہ نے ٹیبل سے برتن اٹھاتے ہوئے جیسے تبصرہ کیا۔۔۔
جیمز کی موت نے ایسا کردیا ہے اسے۔۔سالار نے جواب دیا۔۔برتن سنک میں رکھتی ہوئ امامہ عجیب انداز میں ٹھنڈی پڑی تھی۔۔دو دن بعد سالار کا طبی معائنہ تھا۔یہ دیکھا جاتا تھا کہ اسکے دماغ میں موجود ٹیومر کس حالت میں ہے ۔۔بڑھنے لگا تھا۔۔۔گھٹنے لگا تھا۔۔اسکے دماغ میں کوئ اور ٹیومر تو نہیں بنا تھا۔۔کتنے ٹیسٹس تھے جنکے رپورٹس وہ دم سادھے دیکھتی رہتی تھی۔۔کوئ معمولی سی خراب رپورٹ بھی اسے بے حال کردیتی تھی۔۔اور یہ سب تین سال سے ہورہا تھا۔۔۔اب سالار کی زبان سے جیمز کی موت کا سن کر اور اسکی موت نے اسکے بیٹے کو کیسے متاثر کیا تھا وہ ایک بار پھر منجمد ہوگئ تھی۔۔۔۔کچن میں سنک کے سامنے کھڑے اس نے لاؤنج میں بیٹھے سالار کو دیکھا۔۔۔اسکے گرد بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف اپنے بچوں کو دیکھا۔۔۔وہ خوش قسمت تھی کہ وہ اب بھی انکی زندگیوں میں تھا۔۔۔کوئ اسے دیکھ کر یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ اسے کوئ ایسی بیماری بھی تھی۔۔وہ صرف علاج کے دورانیہ میں بیمار لگتا تھا ۔سرجری کے لیئے سر کے بال صاف کرادینے کی وجہ سے اور اسکے بعد علاج کی وجہ سے بھی۔۔۔۔۔
تب اسکے چہرے پر یکدم جھریاں آگئ تھی بہت کم وقت میں اسکا وزن بہت کم ہوا تھا۔۔ایک کے بعد ایک چھوٹے بڑے انفیکشنز کا شکار ہوتا رہا تھا۔۔۔۔
وہ سرجری کے بعد پاکستان واپس آنا چاہتی تھی لیکن آ نہ سکی۔۔۔وہ اسے وہاں اکیلے اس جنگ لڑنے کے لیئے اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی اسے۔۔۔وہ کام چھوڑ کر گھر بیٹھنے پر تیار ہی نہیں تھا۔۔وہ سرجری کے ایک ہفتہ بعد ہی دوبارہ ایس آئ ایف کے پروجیکٹس لییے بیٹھا تھا۔۔۔اور وہ صرف بیٹھی اسے دیکھتی رہتی۔۔۔
تیمارداری عیادت دیکھ بھال ان لفظوں کو سالار سکندر نے بے معنی کر کے رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی زمہ داری خود اٹھا رہا تھا۔۔وہ پھر بھی اسے تنہا چھوڑنے پر تیار نہیں تھی۔۔۔چھ سات ماہ کے بعد وہ بلآخر صحتمند ہونا شروع ہوا تھا اسکے نئے بال اگ آئے تھے۔۔۔اسکا وزن بڑھ گیا تھا اور وہ جھریاں بھی غائب ہوئ جو راتوں رات آئی تھی۔۔۔وہ اب پہلے جیسا سالار نظر آتا تھا۔۔۔لیکن وہ ٹیومر اسکے اندر موجود تھا ایک خاموش آتش فشاں کی طرح۔۔۔اثرات کے بغیر حرکت کے بغیر۔۔۔لیکن اپنا بھیانک وجود رکھتے ہوئے ۔جیسے نظر نہ آنے والی موت۔۔۔کبھی بھی آسکتی ہے اور کہی بھی آجاتی ہے۔۔۔
لاؤنج میں حمین کسی بات پر ہنستے ہوئے سالار کا چہرہ دیکھتے ہوئے اسکی سرجری کے بعد پہلی بار اسے دیکھنا یاد آیا تھا۔۔۔ 
آٹھ گھنٹے سرجری کے بعد پہلی بار اسے دیکھنا ۔۔پھر اگلی صبح اسپتال جاکر اسے دوبارہ دیکھنا ۔۔۔جب وہ ہوش میں آیا تھا ۔۔اسکے متورم پپوٹے ہلنے لگے تھے۔۔۔وہ آنکھیں کھولنے کی جدوجہد کر رہا تھا۔۔۔۔۔
سالار۔۔۔۔۔۔۔سالار۔۔۔۔۔۔۔وہ بے اختیار اسے پکارنے لگی تھی۔اس نے بلآخر آنکھیں کھول دی۔۔۔۔اس نے سالار کو چہرہ چھوا اور پھر اسے پکارا۔۔۔اس بار سالار نے اسے دیکھا لیکن ان آنکھوں میں اسکے لیئے کوئ پہچان نہیں تھی وہ صرف اسے دیکھ رہا تھا اسے پہچاننے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔۔امامہ کو دھچکا لگا تھا۔۔کیا وہ واقعی اسے پہچان نہیں پارہا تھا۔۔۔ڈاکٹرز نے اس خدشے کا اظہار آپریشن سے پہلے کیا تھا کہ اسکی یاداشت جاسکتی ہے۔۔وہ شدید صدمے کا شکار ہوئ تھی۔۔گنگ۔۔دم بخود ۔۔وہ سرد ہاتھ پیروں سے ان آنکھوں کو دیکھتی رہی جو اسے اجنبی کی طرح دیکھ رہی تھی۔۔۔پھر جیسے ان آنکھوں میں چمک آنا شروع ہوئ۔۔جیسے اسکا عکس ابھرنا شروع ہوا اسکی پلکیں اب ساکت نہیں تھی۔وہ جھپکنے لگی تھی مانوسیت کا احساس لییے۔۔۔بیڈ پر اسکے ہاتھ کے نیچے سالار کے ہاتھ میں حرکت ہوئ۔۔سالار کی زبان سے جو پہلا لفظ نکلا تھا وہ اسکا نام نہیں تھا۔۔۔وہ الحمدللہ تھا۔۔۔۔اور امامہ کو پہلی بار الحمدللہ کا مطلب سمجھ میں آیا تھا۔۔اس نے امامہ کا نام اگلے جملے میں لیا اور امامہ کو لگا اس نے زندگی میں پہلی بار اپنا نام سنا تھا۔زندگی میں پہلی بار اسے اپنا نام خوبصورت لگا تھا۔۔اس نے پہلی چیز پانی مانگی اور امامہ کو لگا دنیا میں سب سے قیمتی چیز پانی ہی تو ہے اور اس نے کلمہ پڑھا تھا۔۔کوئ مرتے ہوئے تو کلمہ پڑھتا ہے پھر زندہ ہوجانے پر اس نے کلمہ۔پڑھتے ہوئے کسی کو پہلی بار دیکھا تھا اور ان سب کے دوران سالار نے امامہ کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔۔جنت تھی جو ہاتھ میں تھی۔۔۔
تمہیں نہیں آنا یہاں؟؟ سالار نے ایکدم اسے مخاطب کیا ۔۔وہ ابھی بھی کچن کے سنک سے ٹیک لگائے وہی کھڑی تھی۔۔۔دور تھی۔۔۔اس لیئے خود پر قابو پاگئ تھی ۔۔آنسو بھی چھپا گئ تھی۔۔۔
ہاں میں آتی ہوں۔۔۔میں سب باتیں یہاں بھی تو سن رہی ہوں۔۔۔اس نے کہا۔۔۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page