top of page

آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد

قسط نمبر سترہ

عائشہ عابدین اپنے باپ کے انتقال کی سات ماہ بعد پیدا ہوئ تھی۔تین بہنوں میں سب سے چھوٹی۔۔وہ ڈاکٹرز کے ایک نامور خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔عائشہ کی ماں نورین نے اپنی بیٹی کو تھوڑے عرصے کے لیئے پاکستان میں اپنی ماں کے پاس بھیج دیا تھا۔۔وہ امریکہ میں میڈیسن جیسے پروفیشن سے منسلک تھے۔ دونوں بیٹیوں کیساتھ اس نوزائیدہ بچی کو شوہر کی اچانک موت کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں سنبھال نہیں سکتی تھی۔۔عائشہ اگلے پانچ سال پاکستان میں رہی۔ عائشہ کی نانا نانی کو اس سے اتنی انسیت ہو گئ تھی اور وہ بھی ان کے ساتھ خوش اور مطمئن تھی۔کہ نورین اسے واپس نہ لے جاسکی۔۔۔پانچ سال بعد بلآخر وہ عائشہ کو امریکہ اپنے پاس لے آئ لیکن عائشہ کا دل وہاں نہ لگا۔۔وہ اپنی بہنوں کیساتھ مانوس نہیں تھی۔نورین بہت مصروف تھی اور کسی کے پاس عائشہ کے لیئے وقت نہیں تھا۔۔وہ دو سال وہاں کسی نہ کسی طرح گزارتی رہی لیکن سات سال کی عمر میں نورین کو ایک بار پھر اسکی ضد پر اسے پاکستان بھجنا پڑا لیکن اس بار نورین کو اسکے رہن سہن کے حوالےسے فکر ہونے لگی تھی۔وہ عائشہ کو مستقل امریکہ میں ہی رکھنا چاہتی تھی کیونکہ پاکستان میں ان صرف انکے والدین رہ گئے تھے جو پاکستان چھوڑ کر امریکہ آنے پر تیار نہیں تھے۔
پاکستان بھیجنے کے باوجود نورین کی کوشش تھی کہ عائشہ اور اس کی بہنوں نریمان اور رائمہ میں لگاؤ پیدا ہو جائے اور ان کی کوشش کامیاب ثابت ہوئ تھی۔۔عائشہ اور اسکی دونوں بہنیں اب ایک دوسرے کے قریب آنے لگی تھی۔۔
دس سال کی عمر میں عائشہ ایک بار پھر امریکہ آئی تھی۔۔اور اس بار اسے وہاں رہنے میں پہلے جیسے مسلئے پیش نہیں آئے تھے۔ لیکن اب ایک نیا مسئلہ درپیش تھا۔وہ سکول میں جا کر پریشان ہونے لگی تھی۔۔وہ پاکستان میں بھی کو ایجوکیشن میں پڑھتی رہی تھی مگر وہاں اور یہاں کے ماحول میں فرق تھا۔۔۔عائشہ کو سکول اچھا نہیں لگتا تھا نورین سمجھتی تھی کہ وہ کچھ عرصہ بعد خود ہی ٹھیک ہو جائیں گی لیکن جب ایک سال بعد اسکی حالت ٹھیک نہیں ہوئ اور گریڈز خراب آنے لگے تو نورین کو اسے ایک بار پھر پاکستان بھیجنا پڑا۔ وہ اب اسے او لیولز کے بعد وہاں بلوانا چاہتی تھی۔ کیونکہ ان کا خیال تھا تب تک وہ کچھ سمجھدار ہوجائے گی۔
تیرہ سال کی عمر میں عائشہ عابدین ایک بار پھر امریکہ رہنے آئی تھی۔لیکن اس بار وہاں وہ اپنے لیے ایک نیا مسئلہ دیکھ رہی تھی۔ امریکہ اسے اسلامک ملک نہیں لگ رہا تھا۔وہاں کی شخصی آزادی اسکے لیئے پریشان کن تھی۔ وہاں لباس کے بارے میں روا رکھنے والی آزادی اسے ہولانے لگی تھی لیکن ان میں سب سے بڑا چیلنج اسکے لیے یہ تھا کہ وہ وہاں حجاب میں بھی خود کو غیر محفوظ سمجھتی تھی۔ جو اس نے پاکستان میں لینا شروع کیا تھا اور جس سے نورین خوش نہیں تھی۔ اس بار نورین نے بلآخر گھٹنے ٹیک دیے۔ یہ مان لیا تھا کہ عائشہ کا امریکہ میں اب کوئ مستقبل نہیں تھا۔ انہوں نے اسے امریکہ سے ایک بار پھر واپس پاکستان بھیج دیا۔ یہ عائشہ عابدین کا انتخاب تھا کہ اسے اپنی زندگی ایک اسلامک ملک میں گزارنی تھی۔عائشہ کے نانا نانی نے اسے کانونٹ میں پڑھانے کے باوجود بے باک انداز میں اس کی پرورش نہیں کی تھی۔ عائشہ کو انہوں نے گھر میں ایک ایسے مولوی سے قرآن پڑھایا تھا جو کسی کم فہم رکھنے والا کوئی روایتی مولوی نہیں تھا۔۔۔وہ ایک اچھے ادارے کے طلبا کو قرآن اور حدیث کی تعلیم دیتا تھا۔۔خود عائشہ کے نانا نانی بھی دین اور دنیا کی بہت سمجھ رکھتے تھے ۔وہ اعلی تعلیم یافتہ تھے۔۔عائشہ ایک ایسے ماحول میں جہاں دین کی سمجھ بوجھ اور اسمیں گہری دلچسپی کے ساتھ پیدا ہوئ تھی جہاں پر حرام اور حلال کی تلواروں سے ڈرانے کی بجائے دلیل اور منطق سے اچھائ اور برائ سمجھائ جاتی تھی یہی وجہ تھی کہ عائشہ اپنے مذہب سے جذباتی لگاؤ رکھتی تھی۔۔۔
وہ نماز باقاعدگی سے پڑھتی تھی اور حجاب اوڑھتی تھی روزے بھی رکھتی تھی اپنے نانا نانی کیساتھ حج بھی کر چکی تھی لیکن اسکے ساتھ وہ فنون لطیفہ کی ہر صنف میں بھی دلچسپی رکھتی تھی۔۔پینٹنگز بنا لیتی تھی اسکول میں پورے لباس کیساتھ پیراکی کےمقابلوں میں بھی حصہ لیتی تھی۔۔ہر وہ کام کرتی تھی جس میں اسے دلچسپی ہوتی اور نانا نانی کی اجازت ہوتی۔۔۔
نورین اپنے ماں باپ کی اس حوالے سے بہت احسان مند تھی ۔نورین کی خواہش تھی کہ عائشہ ڈاکٹر بنتی۔ اگر نورین کی خواہش نہ ہوتی تو وہ ڈاکٹر بننے کی بجائے آرکیٹیکٹ بنتی۔۔لیکن نورین کی خواہش کو مقدم سمجھتے ہوئے اس نے زندگی کے بہت سارے مقاصد بدل دیے تھے۔
----------------------
وہ اگلی صبح پھر انکے دروازے پر کھڑا تھا۔ امامہ نے لانڈری سے کپڑے نکال کر چند منٹ پہلے ڈرائپر میں ڈالے تھے اسے آج گیراج صاف کرنا تھا اور بیل بجنے پر اسکے بارے میں سوچتی ہوئ نکلی تھی۔۔تو اس نے ایرک کو سامنے کھڑا پایا۔۔۔لیکن وہ دروازے سے ہٹی نہیں۔۔ایرک نے ہمیشہ کی طرح اپنے مخصوص انداز میں سلام کیا تھا لیکن وہ پھر بھی وہی کھڑی رہی تھی۔۔
آپ اندر آنے کو نہیں کہیں گی؟ ایرک نے بلآخر کہا۔۔
تم سکول نہیں گئے؟ امامہ نے اسکا سوال گول کیا۔
نو۔۔۔دراصل میری طبیعت خراب ہے۔۔ایرک نے نظریں ملائے بغیر کہا۔۔۔
طبیعت کو کیا ہوا۔۔وہ نہ چاہتے ہوئے بھی نرم پڑی۔۔۔
مجھے لگتا ہے مجھے کینسر ہے۔۔۔ایرک نے اطمینان سے کہا۔۔
وہ کچھ لمحے ہکا بکا رہی۔
فار گاڈ ایک۔۔جو بھی منہ میں آئے بول دیتے ہو ۔ایسے ہوتا ہے کینسر ۔ 
وہ اسے ڈانٹتی چلی۔گئ۔ایرک کو مایوسی ہوئ ۔اسے امامہ سے ہمدردی کی توقع تھی ۔
آپکو کیسے پتہ مجھے کینسر نہیں۔۔۔اس نے امامہ سے کہا۔۔امامہ نے خاموشی سے اسکا راستہ چھوڑا اور ایپرن کی ڈوریاں کمر کے گرد کستے ہوئے دروازہ کھلا چھوڑ کر اندر چلی گئ۔ایرک نے اندر آتے ہوئے دروازہ بند کردیا۔
امامہ کچن میں اپنے کام میں مصروف ہوگئ کاؤنٹر پر پڑے سیل فون سے کسی سورت کی تلاوت ہورہی تھی جو وہ کام کرتے ہوئے سن رہی تھی۔۔۔ایرک نے بھی وہ تلاوت سنی اسکی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کھڑا رہے یا بیٹھ جائے بات کرے یا نہ کرے۔۔
اس نے جبریل کو کئ بار تلاوت کرتے سنا تھا جب وہ تلاوت کرتا تھا تو کوئ اور بات نہیں کرتا تھا۔۔۔اسکی یہ مشکل امامہ نے آسان کردی اس نے سیل فون پر وہ تلاوت بند کردی۔
جبریل کی آواز ہے؟؟ اس نے پوچھا۔
ہاں۔۔۔۔
بہت پیاری ہے۔۔۔۔
امامہ اس بار مسکرائ۔۔
میں بھی سیکھنا چاہتا ہوں یہ قرآن۔ ایرک نے کہا امامہ خاموش رہی۔۔۔
میں سیکھ سکتا ہوں کیا؟ 
اس نے امامہ کو خاموش پاکر سوال کیا۔۔
دلچسپی ہو تو سب کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ اس نے اپنے جواب کو مناسب کر کے پیش کیا۔۔۔
آپ سکھا سکتی ہیں؟؟ اسکا اگلا سوال اور بھی گھما دینے والا تھا۔
نہیں، میں نہیں سکھا سکتی۔ امامہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔۔۔
جبریل سکھا سکتا ہے؟ اس نے متبادل حل پیش کیا۔
وہ مصروف ہے بہت اجکل۔ اسے ہائ سکول ختم کرنا ہے اس سال۔ امامہ نے جیسے بہانہ پیش کر دیا۔
میں انتظار کرسکتا ہوں۔ایرک کے پاس بھی متبادل حل تھا۔
مسز سالار آپ مجھے پسند نہیں کرتی۔۔اس کے اگلے سوال پر وہ بری طرح چونکی۔۔
سب تمہیں بہت پسند کرتے ہیں پھر میں کیوں نہیں کروں گی۔۔۔اس نے بڑے تحمل سے اسے سمجھایا۔
آپ مجھے ایڈاپٹ کر سکتی ہیں؟اگلا سوال اتنا اچانک تھا کہ وہ اسکے لیے پراٹھا بنانا بھول گئ

ایرک تمہاری ممی ہیں، دو بہن بھائی ہیں، تمہاری فیملی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلیز! ایرک نے اس کی بات کاٹ کر پلیز کہہ کر جیسے اس کی منت کی۔
تمہاری ممی تم سے بہت پیار کرتی ہے ایرک!۔ وہ کبھی تمہیں کسی اور کو نہیں دیں گیاور تمہیں ان کے ہوتے ہوئے کسی اور کے پاس جانے کی ضرورت بھی نہیں۔امامہ نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
ممی کے پاس ایک بوائے فرینڈ ہے، وہ جلد ہی ان سے شادی کر لیں گی۔ کیا آپ تب مجھے ایڈاپٹ کر سکتی ہیں؟ اس نے اس مسئلے کا بھی حل نکالا تھا۔
تم کیوں چاہتے ہو ہمارے پاس آنا؟ وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
کیونکہ یہ مجھے گھر لگتا ہے۔ بہت مختصر جملے میں اس بچے کا ہر نفسیاتی مسئلہ چھپا تھا۔ وہ کس تلاش میں کہاں کہاں پھر رہا تھا۔ امامہ کا دل اور پگھلا۔
تم اپنی ممی کو چھوڑ کر ہمارے پاس آنا چاہتے ہو، یہ تو اچھی بات نہیں ہے۔ امامہ نے اسے جذباتی بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔
ممی مجھے چھوڑ دیں گی۔ میں نے آپ کو بتایا نا، ان کا ایک بوائے فرینڈ ہے۔ ایرک کے پاس اس جذباتی حربے کا جواب تھا۔
وہ شادی کر لیں، اپنے بوائے فرینڈ کے پاس رہیں۔ کچھ بھی ہو، لیکن تم ان کے بیٹے رہو گے۔ تم سے ان کی محبت کم نہیں ہو گی۔ وہ تمہیں اپنی زندگی سے نہیں نکال سکتیں۔ اس نے کیرولین کی وکالت کر کے ایرک کی مایوسی کو اور بڑھایا۔
میں عنایہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے اگلے جملے نے امامہ کا دماغ گھما دیا۔ وہ اگلے کئی لمحے بول نہ سکی تھی۔
یہ بھی نہیں ہو سکتا۔ اس نے بلآخر ایرک سے کہا۔
کیوں؟ وہ بے تاب ہوا۔
تم ابھی اس طرح کی بات کرنے کے لیے بہت چھوٹے ہو۔ اسے اس سے زیادہ مناسب جواب نہیں سوجھا۔
جب میں بڑا ہو جاؤں، تب شادی کر سکتا ہوں اس سے؟
نہیں۔ اس بار اس نے صاف گوئی سے کہا۔
کیوں؟ وہ اتنی آسانی سے ہار ماننے والا نہیں تھا۔
اس سے شادی کیوں کرنا چاہتے ہو تم؟ وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
کیونکہ میں اسے پسند کرتا ہوں۔
لیکن ہو سکتا ہے، وہ تمہیں پسند نہ کرتی ہو، اتنا کہ تم سے شادی پر تیار ہو جائے۔ ایرک کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔
کیا اس نے آپ سے ایسا کہا؟ اس نے ایک بچگانہ سوال کیا۔
نہیں! وہ بہت چھوٹی ہے، تمہیں پسند یا ناپسند کرنے کے بارے میں ابھی سوچ بھی نہیں سکتی۔ لیکن یہ میں تم سے کہہ رہی ہوں ایرک! اس طرح کی باتیں کرنا اور سوچنا چھوڑ دو۔ ورنہ ہمارے لیے شاید تم سے ملنا جلنا ممکن نہیں رہے گا۔ ایرک اس کی خفگی سے کچھ پریشان ہوا۔
تم کیا کر سکتے ہو، عنایہ کے لیے؟ اس نے بے حد سنجیدگی سے ایرک سے پوچھا۔۔
سب کچھ۔ 
اسے وہی جواب ملا، جس کی توقع تھی۔
اوکے پھر سکول جاؤ، باقاعدگی سے۔ دل لگا کر پڑھو۔اپنا کوئی کیریئر بناؤ۔ عنایہ کسی ایسے لڑکے کو تو کبھی پسند نہیں کر سکتی جو سکول نہ جاتا ہو، اپنی ماں کی بات نہیں مانتا ہو، اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی پرواہ نہ کرتا ہو۔ اور پھر جھوٹ بولتا ہو۔
ایرک کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ امامہ نے جیسے دو سیکنڈز میں اس کی زندگی کی پہلی محبت کا تیاپانچہ کر لیا تھا۔
وہاں یک دم خاموشی چھائی تھی۔ پھر اس نے امامہ سے کہا۔
میں اپنے آپ کو ٹھیک کر لوں گا۔
یہ بہت اچھا ہو گا ایرک! لیکن اس کے ساتھ ایک وعدہ بھی کرنا ہے تم نے مجھ سے۔
کیا؟ وہ الجھا۔
جب تک تم ہائی سکول پاس کر کے یونیورسٹی میں نہیں چلے جاتے، تم عنایہ سے اس طرح کی کوئی بات نہیں کرو گے۔
میں وعدہ کرتا ہوں، میں ایسا ہی کروں گا۔
اور جب تک تم یونیورسٹی نہیں پہنچ جاتے، ہم دوبارہ اس ایشو پر بات نہیں کریں گے۔ محبت، شادی، عنایہ۔ امامہ نے جیسے ان تین چیزوں کے گرد ریڈ زون لگاتے ہوئے اس سے کہا۔
امامہ کا خیال تھا کہ اس نے حفاظتی بند باندھ دیا تھا۔ تھوڑے عرصے تک وہ بھول جائے گا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ ایرک ایک عام امریکن بچہ نہیں تھا۔
**************
احسن سعد کا باپ اس بات پر ہمیشہ فخر کرتا تھا کہ اس کا بیٹا آج کے زمانے میں پاکستان کے بہترین انگلش میڈیم اور کو ایجوکیشن میں پڑھنے کے باوجود ایک سچا اور پکا مسلمان تھا۔ داڑھی رکھتا تھا، پانچ وقت کی نماز مسجد میں پڑھتا تھا، حج اور عمرے کی سعادت حاصل کر چکا تھا۔ لڑکیوں سے کوسوں دور بھاگتا تھا۔ باعمل ہونے کے ساتھ پوزیشن ہولڈر بھی تھا۔ سعد اور اس کی بیوی اس پر جتنا فخر کرتے کم تھا۔ اور یہ فخر وہ برملا لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ ان کا گھر ان کے سوشل سرکل میں ایک آئیڈیل گھر سمجھا جاتا تھا۔ لیکن یہ صرف اس کی ماں کا خاندان تھا جو اس آئیڈیل گھر کی کھوکھلی بنیادوں سے واقف تھا اور احسن سعد کے باپ کو پسند نہیں کرتا تھا۔
سعد نے ایک امیر اور اچھے خاندان میں شادی کی تھی۔ لیکن اس کے بعد اپنی بیوی کو اس نے ایک اچھی اور مسلمان عورت بنانے کے لیے جو کچھ کیا تھا وہ اس کے خاندان سے پوشیدہ نہیں تھا۔ اگر شادی کے پہلے سال ہی احسن پیدا نہ ہوا ہوتا تو اس کی بیوی کے ماں باپ کب کی اس کی علیحدگی کروا چکے ہوتے۔ سعد اپنی بیوی کو ایک باحجاب، فرمانبردار، دین سے قریب اور دنیا سے دور رہنے والی بیوی بنانا چاہتا تھا۔ جس کے لیے وہ مذہب کا نام استعمال کرتا تھا۔ سعد میں اس کے علاوہ کوئی خرابی نہیں تھی کہ وہ اپنی بیوی کو اس سانچے میں ڈھالنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتا تھا۔ گالم گلوچ سے لے کر مار کٹائی تک اور ماں باپ کے گھر جانے پر پابندی لگانے سے گھر میں قید کرنے تک۔ اس کی بیوی کے میکے والوں کے پاس ہزار دلیلوں کے باوجود سعد کے قرآن و حدیث اور مذہبی حوالوں کا جواب نہیں تھا۔ اگر ان کے پاس دین کا علم ہوتا تو وہ سعد کے قرآن و حدیث کے حوالوں کا سیاق و سباق بھی انہیں بتا دیتے۔
وقت بدلنے کے ساتھ سعد نہیں بدلا تھا۔ بلکہ اس کی بیوی بدلتی چلی گئی۔ اس نے ذہنی طور پہ یہ مان لیا تھا کہ وہ واقعی اسلام سے دور تھی اور دین کی تعلیمات وہی تھی جو سعد اس کے کانوں میں ڈالتا تھا۔ اور اسے ویسا کرنا تھا، جیسے اس کا شوہر کہتا۔ایک اسٹیج آ گیا کہ دونوں میاں بیوی سوچ کے حساب سے ایک جیسے ہو گئے۔ اس کی بیوی بھی اب سعد کی طرح لوگوں پر فتوے نافذ کرنے لگی تھی۔اس کا خیال تھا کہ جو خلاف اسلام کام وہ روک سکتے ہیں، روک دیں اور جسے برا کہہ سکتے ہیں، اسے برا نہ کہیں بلکہ سب کے سامنے اس طرح مطعون کریں کہ اگلا شرم سے پانی پانی ہو جائے۔ اسلام میں حکم کے علاوہ حکمت نام کی بھی ایک چیز ہے جس سے وہ نا واقف تھے۔
احسن سعد نے ایک ایسے گھر میں پرورش پائی تھی جہاں پر اس کے ماں باپ نے اسے لوگوں کو اسی کسوٹی پر پرکھنا سکھایا، جس پر وہ پرکھا کرتے تھے۔اس نے ماں باپ کے درمیان بچپن میں ہی ہر قسم کے جھگڑے دیکھے تھے اور اس نے سیکھا تھا کہ شوہر اور بیوی کا تعلق ایسا ہی ہونا چاہیئے۔ حاکم اور محکوم، برتر اور کمتر کا۔ عزت اور احترام پیار و محبت کا نہیں۔
احسن سعد کو کچھ چیزوں سے شدید نفرت تھی۔ جن میں ماڈرن عورت اور امریکہ سر فہرست تھے۔احسن کی فیملی کی سب سے خوفناک بات یہ تھی کہ اس گھر میں رہنے والا ہر فرد خود کو پرفیکٹ سمجھتا تھا۔ انہیں احساس تک نہیں تھا کہ ان میں بہت سارے نقائص بھی ہیں۔
احسن بھی اپنے آپ کو کامل سمجھتا تھا۔ سب برائیوں سے مبرّا اور سب اچھائیوں کا منبع۔ احسن نے اپنے باپ سعد سے بہت سی چیزیں وراثت میں پائی۔شکل و صورت، ذہانت، مزاج اور عادات۔ لیکن جو سب سے بری چیز احسن نے اپنے باپ سے لی تھی، وہ منافقت تھی۔ اسے ماڈرن عورت اور امریکہ سے نفرت بھی تھی اور وہ ایک ماڈرن عورت سے شادی بھی کرنا چاہتا تھا۔ جس کے پاس امریکن شہریت بھی ہو۔ اور وہ امریکہ میں اعلی تعلیم بھی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس کا باپ ٹھیک کہتا تھا، وہ جو مانگتا اسے مل جاتا۔ اسے یہ دونوں چیزیں بھی ملنے والی تھی۔ اس کی خوش قسمتی ایک اور خاندان کی بدقسمتی میں بدلنے والی تھی۔
****************
تمہیں پتا ہے JB! لڑکیاں تمہیں ہاٹ سمجھتی ہیں۔
ڈنر ٹیبل پر ایک دم خاموشی چھا گئی۔ وہ ایسا ہی غیر متوقع جملہ تھا جو حمین نے پاستا کھاتے ہوئے بڑے بھائی کے گوش گزار کر دیا تھا۔ 
امامہ، سالار، عنایہ اور رئیسہ نے بیک وقت حمین کو دیکھا پھر جبریل کو، جو سرخ ہوا تھا۔ وہ شرمندگی نہیں غصہ تھا، جو اکثر اسے حمین کے بے لاگ تبصروں پہ آجاتا تھا۔ 
مجھے بھی کول کہتی ہیں، لیکن تمہیں تو ہاٹ سمجھتی ہیں۔ کس قدر افسوس کی بات ہے نا!۔
اس نے ماں باپ کی نظروں کی پرواہ کی، نا ہی جبریل کے سرخ ہوتے چہرے کی۔
Will you please shut up.....
جبریل نے اس دفعہ کچھ سخت لہجے میں اسے روکا۔
حمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔! امامہ نے بھی اسے تنبیہہ کی۔
میں غلط نہیں کہہ رہا ممی۔ میری جاننے والی ہر لڑکی کا جبریل پر کرش ہے۔ حمین نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
جبریل نے اس بار ہاتھ میں پکڑا ہوا کانٹا پلیٹ میں رکھ دیا۔ یہ جیسے اس کے صبر کے پیمانہ کے لبریز ہونے کی نشانی تھی۔
یہاں تک کہ میری گرل فرینڈز بھی۔
فرینڈز!۔ سالار نے اسے ٹوکا۔
جو بھی ہو۔ اس نے بات اسی انداز میں جاری رکھی۔مین یو آر سو لکی۔
امامہ اپنی بے انتہا کوشش کے باوجود اپنی ہنسی پہ قابو نہ پا سکی۔ اسے حمین کی گفتگو سے زیادہ جبریل کے رد عمل پہ ہنسی آ رہی تھی۔ جس کی کانوں کی لوؤیں تک سرخ ہو گئی تھی۔ وہ ماں کے ہنسنے پر کچھ اور جزبز ہوا۔
تو تمہارا کیا خیال ہے، کون سی چیز اسے لڑکیوں میں پاپولر کرتی ہے؟ سالار نے صورت حال کو سنبھالنے کی کوشش کی۔
اس کی بہت سی ریزن ہیں۔ لڑکیاں ان لڑکوں کو پسند نہیں کرتی جو بہت بولتے ہو، اور جے بی بالکل بات نہیں کرتا۔
اور۔۔۔۔۔۔۔۔!
سالار نے اسے آگے بولنے کی ترغیب دی۔
اور لڑکیوں کو وہ لڑکے اچھے لگتے ہیں جو ان کی کبھی نہ ختم ہونے والی باتیں سن سکتے ہو۔ اور جے بی سب کی باتیں سنتا ہے۔ خواہ وہ کتنی ہی احمق ہو۔ 
اس بار سالار کو بھی ہنسی آئی۔ جو اس نے گلا صاف کر کے چھپائی۔
بلآخر جبریل نے اسے ٹوکا۔ تمہیں پتا ہے حمین! لڑکیاں ان لڑکوں کو پسند کرتی ہے، جو ایڈیٹ نہیں ہوتے۔ اس کا اشارہ حمین کی سمجھ میں آ گیا تھا۔
ہاں! یہ اسی صورت ممکن ہے، اگر لڑکیاں خود احمق نہ ہو۔
بابا! 
اس بار عنایہ نے سالار کو پکارا۔ اور اس نے حمین کے تبصرے پر احتجاج کیا تھا۔
تم ان دونوں لڑکیوں کے بارے میں کیا کہو گے؟ سالار نے پوچھا۔
تین کہیں بابا! آپ ممی کو لڑکیوں کی صف سے کیوں نکال رہے ہیں؟ حمین نے سوال کا جواب گول کیا۔ وہ اسمارٹ نہیں، سپر اسمارٹ تھا۔ ہوشیار اور موقع شناس۔
حمین بس کر دو۔ امامہ نے اس بار اپنی ہنسی پہ قابو پاتے ہوئے کہا۔ 
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ اسے ڈانٹے یا اس کی باتوں پہ ہنسے۔ وہ جو بھی کہہ رہا تھا، غلط نہیں تھا۔ جبریل تیرہ سال کی عمر میں بھی اپنے قد کاٹھ کی وجہ سے بڑا لگتا تھا۔ اس کی آنکھیں سالار کی آنکھیں تھیں۔ بڑی، سیاہ اور بے حد گہری۔ وہ اسی کی طرح بے حد متحمل مزاج تھا۔ اور وہ اگر لڑکیوں میں مقبول تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سب کے لیے ایک پہیلی تھا۔ جبریل اپنی کشش سے بے خبر تھا اور اسے اس کشش کو استعمال کرنے میں دلچسپی بھی نہیں تھی۔
لیکن دنیا میں اگر کوئی خاموشی اور متحمل مزاجی کے اس پہاڑ میں شگاف ڈال کر اسے برہم کر سکتا تھا تو وہ حمین تھا۔ جبریل کو تنگ کرنا اس کی زندگی کا دلچسپ اور پسندیدہ ترین کام تھا۔ اس نے جبریل کو ایک سال سے بھائی کہنا چھوڑ دیا تھا۔ کیونکہ اسے لگتا تھا جے بی کول ہے۔ وہ ہر چیز میں کولنیس نکالتا تھا۔
بابا! جب میں اسپیلنگ بی جیت کر آؤں گی تو میں بھی اپنے سارے کلاس فیلوز کو بلاؤں گی۔ رئیسہ نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے سالار کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
رئیسہ سالار زندگی میں کوئی بڑا کام کرنا چاہتی تھی۔ اس بات سے بے خبر کہ اس کی قسمت میں صرف بڑے کام لکھے ہیں۔
**************
بابا مجھے آپ کو حمین کے بارے میں کچھ بتانا ہے۔رئیسہ کی منمناتی آواز پر سالار بیرونی دروازے سے نکلتے نکلتے ٹھٹک گیا تھا۔ وہ اس وقت واک کے لیے نکل رہا تھا اور رئیسہ ہمیشہ کی طرح اسے دروازے تک چھوڑنے آئی تھی۔ سالار کو اچھنبا ہوا تھا۔وہ کبھی کسی کی شکایت نہیں کرتی تھی اور حمین کی شکایت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ وہ اس کی سب سے بڑی رازدان تھی۔
سالار نے کچھ غور اور حیرانی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ کیا بتانا ہے؟ 
رئیسہ نے جواب دینے کی بجائے پلٹ کر لاؤنج کی طرف دیکھا، جہاں سےحمین کی آواز آ رہی تھی۔ وہ امامہ سے باتیں کر رہا تھا۔
کچھ ہے جو میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں۔ اس نے سرگوشی نما آواز میں سالار سے کہا۔ اس بارسالار نے اس کا ہاتھ پکڑا اور دروازہ کھول کر باہر جاتے ہوئے اس سے کہا۔
آؤ! ہم واک کے لیے چلتے ہیں۔ اسے ندازہ ہو گیا تھا کہ وہ گھر کے اندر حمین کے بارے میں بات کرتے ہوئے جھجک رہی تھی۔
رئیسہ چپ چاپ اس کے ساتھ باہر نکل آئی تھی۔
تو حمین کے بارے میں تم کیا بتانا چاہتی ہو؟ پانچ، دس منٹ کی واک اور ہلکی پھلکی گپ شپ کے بعد اس نے رئیسہ سے پوچھا۔
رئیسہ نے فوری طور پہ کچھ جواب نہیں دیا۔ وہ سوچ میں پڑ گئی۔ 
آئی ایم ناٹ شیور! اس نے کہا۔ کچھ ہے، جو میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں۔ لیکن مجھے یہ نہیں پتا کہ مجھے بتانا چاہیے یا نہیں۔ وہ ہمیشہ اسی طرح بات کرتی تھی۔ ہر لفظ بولنے سے پہلے دس دفعہ تول کر۔
تم مجھ پر ٹرسٹ کر سکتی ہو۔ سالار نے جیسے اسی تسلی دی۔
مجھے آپ پر ٹرسٹ ہے، لیکن میں حمین کو بھی ہرٹ نہیں کرنا چاہتی۔ یہ اس کا سیکرٹ ہے اور یہ اچھی بات نہیں کہ میں اس کا سیکرٹ کسی کو بتاؤں۔ شاید مجھے نہیں بتانا چاہیے۔ میں پوری طرح شیور نہیں، میں ابھی سوچ رہی ہوں۔
ایسی کیا بات ہے رئیسہ! سالار نے نرم آواز میں اسے کریدا۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ حمین کے بارے میں جو بھی بات ہے، وہ ایک سیکرٹ رہے گی۔ اس نے رئیسہ سے کہا۔ مگر وہ متاثر نہیں ہوئ۔
بابا! آپ حمین سے بہت خفا ہو جائیں گے اور میں یہ نہیں چاہتی۔ اس بار رئیسہ نے اپنے خدشات کا اظہار کھل کر کیا۔ سالار کی چھٹی حس نے اسے سگنل دینا شروع کیے۔
رئیسہ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ سالار نے اس بار سنجیدگی سے اسے گھرکا۔ اگر حمین نے ایسا کچھ کیا ہے، جو تمہیں لگتا ہے کہ ہمیں پتا ہونا چاہیے۔ تو تم کو ہمیں بتا دینا چاہیے۔ اس طرح کوئی بھی چیز چھپانا ٹھیک نہیں۔ رئیسہ کی یہ پردہ پوشی سالار کو اس وقت بہت بری لگی تھی۔
مجھے ایک دن دیں۔ رئیسہ نے اس کے لہجے میں جھلکتی خفگی کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔ میں آپ کو کل بتا دوں گی۔
وہ بے اختیار گہرا سانس لے کر رہ گیا۔ انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش زور زبردستی سے نہیں کی تھی۔
ٹھیک ہے، ایک دن اور سوچ لو اور پھر مجھے بتا دو۔اس نے بات ختم کر دی۔ 
لیکن رئیسہ کے انکشاف سے پہلے ہی سکول سے امامہ کو کال آ گئی تھی۔ اگلے دن سکول میں انہیں حمین کے بارے میں جو بتایا گیا، اس نے کچھ دیر کے لیے اس کے ہوش و حواس اڑا دیے۔ وہ جونیئر ونگ میں بزنس کر رہا تھا اور ایسی ہی ایک بزنس ڈیل کے نتیجے میں ایک بچہ اپنا ایک بے حد مہنگا گیم گنوانے کے بعد اپنے ماں باپ کو اس لین دین کی تفصیلات سے آگاہ کر بیٹھا تھا اور اس کا پتا اس کے والدین کی شکایت سے چلا تھا۔ جس کے نتیجے میں سکول نے تحقیقات کی تھی اور حمین سکندر کو پہلا وارننگ لیٹر ایشو ہوا تھا۔ سالار کا دماغ واقعی گھوم کر رہ گیا تھا۔
اس بزنس کے آغاز کو بہت وقت نہیں گزرا تھا۔ بزنس کا آغاز اتفاقی تھا۔ اس کی کلاس میں اس کا ایک کلاس فیلو ایسے جوگرز لے کر آیا تھا۔، جنہیں دیکھ کر حمین سکندر مچل گیا تھا۔ امامہ نے ان برانڈڈ سنیکرز کی خواہش کو رد کر دیا تھا۔ کیونکہ۔چند ہفتے پہلے حمین نے نئے سنیکرز لیے تھے۔ حمین سکندر ہر روز اسپورٹس آورز میں اپنے اس کلاس فیلو کے سنیکرز دیکھتا اور انہیں حاصل کرنے کے طریقے سوچتا۔ اس نے ان سنیکرز کو بارٹر ٹریڈ کے ذریعے حاصل کرنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا۔
کوئی ایسی چیز، جس کے بدلے میں وہ کلاس فیلو ان سنیکرز کو حمین کو دے دیتا۔ اس کا وہ کلاس فیلو حمین کے اتنے ڈائریکٹ سوال پر کچھ گڑبڑا گیا۔ اس نے کچھ تامل کے بعد حمین کو یہ بتایا تھا کہ وہ ایک اور کلاس فیلو کی گھڑی کو پسند کرتا تھا اور اگر اسے وہ مل جائے تو اس کے بدلے وہ سنیکرز دے سکتا ہے۔ جس کلاس فیلو کی گھڑی اس نے مانگی تھی، اسے ایک اور کلاس فیلو کی سائیکل میں دلچسپی تھی اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سائیکل والے کو ایک اور کلاس فیلو کے بیگ میں۔ 
یہ سلسلہ چلتے چلتے حمین سکندر کے پاس موجود ایک کی بورڈ تک آ گیا تھا، جو وہ کبھی کبھار سکول لے جا کر بجاتا تھا۔ اور حمین نے فوری طور پر اس کی بورڈ کے بدلے وہ سنیکرز حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور پھر دوسرے ہی دن اس کو عملی جامہ پہنا دیا۔ 
بزنس کا پہلا اصول مؤثر اسٹریٹیجی اور دوسرا وقت پہ درست استعمال۔ سالار سکندر کے منہ سے دن رات سننے والے الفاظ کو اس کے نو سالہ بیٹے نے کس مہارت سے استعمال کیا تھا۔ اگر سالار دیکھ لیتا تو عش عش کر اٹھتا۔
حمین سکندر کی کلاس کے بارہ افراد نے اگلے دن سکول گراؤنڈ میں اپنی پسندیدہ ترین چیز کے حصول کے لیے اپنی کم فیورٹ چیز کا تبادلہ کیا تھا اور تبادلے کی اس چین کے ذریعے حمین سکندر وہ سنیکرز حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
کلائنٹس کا اطمینان، کاروبار کا تیسرا اصول ہے اور نو سال کی عمر میں سالار سکندر کے اس بیٹے نے یہ تینوں چیزیں مدنظر رکھی تھی۔ وہ اس وقت گیارہ مسرور کسٹمرز کے درمیان راجہ اندر بنا تھا۔ جو اس کا شکریہ ادا کرتے نہیں تھک رہے تھے۔
اور اگر ان میں سے کسی نے اپنی کوئی چیز واپس مانگ لی تو؟ رئیسہ نے اس کے سامنے اپنے خدشے کا اظہار کر دیا۔
ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ حمین نے پر اعتماد انداز میں کہا۔
کیوں؟ حمین نے اس کے کیوں کے جواب میں اپنی جیب سے ایک کانٹریکٹ نکال کر اسے دکھایا۔ جس پر حمین سمیت بارہ لوگوں کے سائن تھے اور اس کانٹریکٹ پر اس لین دین کے حوالے سے شرائط و ضوابط درج تھے۔ جس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ ایک دفعہ چیزوں کا تبادلہ ہونے کے بعد واپس نہیں ہو سکتی تھی۔
اگر ممی، بابا نے تمہارے سنیکرز دیکھ لیے تو؟ حمین نے اس کے سوال پہ سر کھجاتے ہوئے کہا، اب یہی ایک الجھن ہے۔ میں ان کے سامنے یہ نہیں پہنوں گا، ہم انہیں بتائیں گے ہی نہیں۔
کیوں؟ رئیسہ اب بھی مطمئن نہیں تھی۔
پیرنٹس بہت سی باتیں نہیں سمجھتے۔ حمین نے جیسے کسی بزرگ کی طرح فلسفہ جھاڑا۔ اس بزنس ڈیل کے ایک ہفتہ بعد ان گیارہ لوگوں میں سے ایک اور لڑکا اس کے پاس آن موجود ہوا تھا۔ اس بار اسے کلاس کے ہی ایک لڑکے کے گلاسز چاہیے تھے اور وہ حمین کے ذریعے یہ ڈیل کرنا چاہتا تھا اور اس کے لیے وہ حمین کو پانچ ڈالرز دینے پر تیار تھا۔ وہ رقم بڑی نہیں تھی، لیکن حمین اس ترغیب کے سامنے ٹہر نہ سکا۔ ایک بار پھر اس نے ایک پوری بارٹر چین کے ذریعے وہ برانڈڈ سن گلاسز اپنے کلائنٹ کو ڈیلیور کر دیے تھے اور پانچ ڈالرز کما لیے تھے۔ یہ اس کی زندگی کی پہلی کمائی تھی اور رئیسہ کو اس کا بھی پتا تھا۔۔ وہ اس بار بھی خوش نہیں تھی۔ یہ بزنس اس کی کلاس سے نکل کر اسکول میں پھیل گیا تھا۔اسکول میں چند مہینوں میں سب کو یہ پتا تھا کہ اگر کسی کو سکول میں کسی دوسرے بچے کی کوئی چیز پسند آ جائے تو اس کے حصول کے لیے حمین سکندر واحد نام تھا، جس کی خدمات وہ حاصل کر سکتے تھے۔ حمین کو خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا کرنے جا رہا۔ تین ماہ کے اس عرصے میں حمین نے اس بزنس سے 175 ڈالرز کمائے تھے اور رئیسہ اس کے ہر لین دین سے واقف تھی۔
حمین کے پاس اب بہت سے پیسے تھے، جو اس نے ممی بابا سے نہیں لیے تھے۔
سالار اور امامہ نے اسکول میں حمین سے زیادہ بات چیت نہیں کی تھی۔ سالار نے اس سے کہا تھا وہ اس مسئلے پر گھر میں بات کریں گے اور پھر وہ چلے گئے۔ لیکن حمین پریشان ہو گیا تھا۔
چھٹی کے وقت حمین نے رئیسہ کو اس صورت حال سے آگاہ کر دیا تھا جو اسے پیش آئی تھی۔ وہ بے حد پریشان ہو گئی تھی۔
وارننگ لیٹر؟ اسے یقین نہیں آیا تھا کہ حمین کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے۔ میں نے تمہیں کتنی بار منع کیا تھا لیکن تم نے بات نہیں مانی۔
مجھے توقع نہیں تھی کہ ایسا ہو جائے گا۔ وہ دونوں سکول بس میں سوار ہونے کی بجائے اب اس مسئلے کو ڈسکس کرنے میں مصروف تھے۔
بابا اور ممی بہت خفا ہوئے ہوں گے؟ رئیسہ نے اس سے پوچھا۔ تمہیں بہت ڈانٹا کیا؟
نہیں! یہاں تو نہیں ڈانٹا لیکن گھر جا کر ڈانٹیں گے۔ بابا نے کہا تھا، انہیں مجھ سے ضروری باتیں کرنی ہے گھر جا کر۔ حمین کچھ فکرمند انداز میں کہہ رہا تھا۔
وہ تمہیں سکول سے نکال دیں گے کیا؟ رئیسہ کو تشویش ہوئی۔
نہیں، ایسا تو نہیں ہو گا۔ بابا نے معذرت کی ان سے۔اور وہ مان بھی گئے۔ حمین نے اسے بتایا۔
کتنی بری بات ہے۔ رئیسہ کو اور افسوس ہوا۔ بابا کو کتنا برا لگا ہو گا۔ وہ بہت شرمندہ ہو گئے ہوں گے۔ اور ممی بھی ہو رہی ہوں گی۔
مجھے پتہ ہے۔ حمین کچھ خجل تھا۔
تمہیں یہ نہیں کرنا چاہیئے تھا حمین۔
جبریل اور عنایہ کو اس حوالے سے کچھ نہیں بتانا۔سالار نے امامہ کو گھر ڈراپ کرتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
اس دن سکول سے واپسی پر حمین جتنا سنجیدہ تھا امامہ اس سے بھی زیادہ سنجیدہ تھی۔ ہر روز کی طرح پرجوش سلام کا جواب سلام سے ملا تھا، نہ ہی ہمیشہ کی طرح وہ اس سے جا کر لپٹا تھا۔ اور نہ ہی امامہ نے ایسی کوشش کی تھی۔ اور یہ سرد مہری کا مظاہرہ صرف حمین کے ساتھ نہیں بلکہ رئیسہ کے ساتھ بھی ہوا تھا۔
*************
رات کے کھانے سے فارغ ہو کر سالار نے باقی بچوں کے اپنے کمرے میں جانے کے بعد حمین اور رئیسہ کو وہاں روک لیا تھا، وہ دونوں سالار کے سامنے صوفے پر بیٹھے نظریں جھکائے اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہے تھے۔
تمہیں یہ سب پتا تھا نا رئیسہ؟ سالار نے رئیسہ کو مخاطب کیا۔
اس نے سر اٹھایا اور پھر کچھ شرمندہ انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ یس بابا۔!
اور تم حمین کے بارے میں مجھے یہی بتانا چاہتی تھی؟ 
اس سوال پر اس بار چونک کر حمین نے رئیسہ کو دیکھا۔ جس نے ایک بار پھر سر ہلایا۔
تم نے مجھے بہت مایوس کیا۔ سالار نے جواباً رئیسہ سے کہا۔
بابا آئی ایم سوری! رئیسہ نے روہانسی ہو کر کہا۔
یہ قابل معافی نہیں۔ انہوں نے جواباً کہا۔
بابا اس میں رئیسہ کا کوئی قصور نہیں۔ حمین نے اس کی حمایت کرنے کی کوشش کی۔ سالار نے اسے ترشی سے جھڑک دیا۔ 
شٹ اپ! حمین اور رئیسہ دونوں گم صم ہو گئے۔انہوں نے سالار کے منہ سے اس طرح کے الفاظ اور اس انداز میں ان کا اظہار پہلی بار دیکھا تھا۔
تم اب یہاں سے جاؤ۔ سالار نے رئیسہ سے کہا۔ جس کی آنکھیں اب آنسوؤں سے بھر رہی تھی اور سالار کو اندازہ تھا وہ چند لمحوں میں رونا شروع کر دیے گی اور وہ فی الحال وہاں بیٹھ کر اسے بہلانا نہیں چاہتا تھا۔
رئیسہ چپ چاپ وہاں سے چلی گئی۔
تمہیں سکول میں بزنس کے لیے بھیجا تھا؟ سالار نے حمین سے بات چیت شروع کر دی۔
نہیں۔
پھر کس کام کے لیے بھیجا تھا؟ سالار نے اگلا سوال کیا۔
پڑھنے کے لیے۔ حمین کا سر اب بھی جھکا ہوا تھا۔
اور تم یہ پڑھ رہے تھے؟ سالار نے بے حد خفگی سے کہا۔ میں ناخوش ہوں۔ سالار نے اس سے کہا۔۔
آئی ایم سوری! جواب تڑ سے آیا تھا۔
تمہیں یہ سب کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
حمین نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔ پھر اس نے باپ کو سنیکرز کے جوڑے کی وجہ سے اسٹارٹ کیے جانے والے اس بزنس کی تفصیلات بتانا شروع کی۔ سالار ٹوکے بغیر سنتا رہا۔ حمین نے اب کچھ بھی نہیں چھپایا۔
جب وہ خاموش ہوا تو سالار نے اس سے پوچھا۔ وہ کانٹریکٹس کہاں ہیں جو تم نے ان سب سے سائن کروائے ہیں؟
حمین وہاں سے اٹھ کر کمرے میں گیا اور کچھ دیر بعد ایک فائل لے کر آ گیا۔ سالار نے فائل کھول کر اس کے اندر موجود معاہدے کی شقوں پہ نظر ڈالی، پھر حمین سے پوچھا۔
یہ کس نے لکھی ہے؟ 
میں نے خود۔ اس نے جواب دیا۔
سالار اس معاہدے کو پڑھنے لگا۔ سالار متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ سالار نے فائل بند کی، پھر اس سے پوچھا۔
اور جو رقم تم نے ان سب سے لی ہے، وہ کہاں ہے؟
میرے پاس۔ حمین نے جواب دیا۔
کچھ خرچ کی؟ سالار نے پوچھا۔
نہیں۔ اس نے کہا۔
سالار نے سر ہلایا اور فائل اسے دیتے ہوئے کہا۔ اب تم ایک لیٹر لکھو گے جس میں تم اپنے ان سب کلائنٹس سے معذرت کرو گے اور انہیں ان کی رقم اور وہ چیزیں لوٹاؤ گے، جو تمہارے پاس ہیں۔ اس کے بعد تم وہ ساری چیزیں ان سب لوگوں تک واپس پہنچاؤ گے جو تم نے ایکسچینج کی ہے۔ حمین چند لمحے ساکت رہا پھر سر ہلا دیا۔
اوکے! اور میں یہ کیسے کروں؟ اس نے سالار سے کہا۔
تم ایک بزنس مین ہو، تمہیں اگر وہ بزنس کرنا آتا تھا تو یہ بھی آنا چاہیے۔ سالار اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اور پھر جب تم یہ کام ختم کر لو گے تو ہم دوبارہ بات کریں گے، تمہارے پاس ایک ہفتہ ہے۔
اسے وہاں بیٹھے بیٹھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کا باپ اسے کس پریشانی میں ڈال گیا تھا۔ 
********************
اس بزنس کا اگلا تجربہ، حمین سکندر کی زندگی کا سب سے سبق آموز تجربہ تھا۔ وہ ایک ہفتہ کی بجائے ایک دن میں یہ کام کرنا چاہتا تھا لیکن اگلے ہی دن اسے پتا چل گیا کہ سالار نے اس کام کے لیے اسے ایک ہفتہ کیوں دیا تھا۔
حمین سکندر اگلے دن سکول میں اس بزنس کے ذریعے ہونے والے بزنس معاہدوں کو ختم کرنے میں پہلی بار اسکول کے سب سے ناپسندیدہ اسٹوڈنٹ کے درجے پر فائز ہو رہا تھا۔ کامیابی انسان کو ایک سبق سکھاتی ہے اور ناکامی دس۔ لیکن حمین سکندر نے پندرہ سیکھے۔
بابا! آئی ایم سوری۔ گاڑی سے اترتے ہوئے سالار کو دیکھ کر لپکتی ہوئی رئیسہ اس کے پاس آئی تھی۔ وہ رئیسہ کی پہلی غلطی تھی، جس پر سالار نے اسے ڈانٹا تھا اور اسے کل سے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی۔
سالار نے اپنی اس منہ بولی بیٹی کو دیکھا، جو پروانوں کی طرح اپنے ماں باپ کے گرد منڈلاتی پھرتی تھی۔
تمہیں پتا ہے، تم نے کیا غلطی کی؟ سالار نے ایک دن کی خاموشی کے بعد اس کو معاف کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
یس! مجھے آپ کو اور ممی کو سب بتانا چاہیے تھا۔
رئیسہ نے اپنے گلاسز ٹھیک کرتے ہوئے سر جھکا کر کہا۔
اور؟ سالار نے مزید کریدا۔ 
اور مجھے حمین کو سپورٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔لیکن بابا! میں نے اس کو سپورٹ کبھی نہیں کیا۔
تم نے خاموش رہ کر اسے سپورٹ کیا۔ سالار نے کہا۔
بابا! میں نے اسے منع کیا تھا، لیکن اس نے مجھے کنوینس کر لیا تھا۔ رئیسہ نے وضاحت دی۔
اگر اس نے تمہیں کنوینس کر لیا تھا تو پھر تم مجھے کیوں بتانا چاہتی تھی؟ سالار نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور کہا۔ تم کنوینس نہیں ہوئی تھی، تمہارے دل میں تھا کہ حمین ٹھیک کام نہیں کر رہا۔
رئیسہ نے سر ہلا دیا۔
یہ زیادہ بری بات تھی۔ تمہیں پتا تھا وہ ایک غلط کام کر رہا ہے لیکن تم نے اسے کرنے دیا، چھپایا۔
وہ مجھ سے ناراض ہو جاتا بابا۔ رئیسہ نے کہا۔
تو کیا ہوتا؟ سالار نے سنجیدگی سے کہا۔
میں اسے ناراض نہیں کر سکتی۔ اس نے بے بسی سے کہا۔
اس کی ناراضگی اس سے بہتر تھی، جتنی پریشانی وہ اب اٹھائے گا۔ تمہیں اندازہ ہے، سکول میں کتنی شرمندگی اٹھانی پڑے گی اسے اب۔ رئیسہ نے ایک بار پھر سر ہلا دیا۔
وہ تمہارا بھائی ہے، دوست ہے، تم اس سے بہت پیار کرتی، ہو میں جانتا ہوں۔ لیکن اگر کوئی ہمیں عزیز ہو تو اس کی غلطی ہمیں عزیز نہیں ہونی چاہیے۔ وہ سر ہلاتے سن رہی تھی اور ذہن نشین کر رہی تھی۔
سالار خاموش ہوا تو رئیسہ نے سر اٹھا کر اس سے پوچھا۔
کیا میں اب بھی آپ کو اچھی لگتی ہوں بابا؟ سالار نے اس کے گرد بازو پھیلا کر اسے سینے سے لگاتے ہوئے اس کا سر چوما۔
یس!
رئیسہ کھل اٹھی۔ وہ ایسی ہی تھی چھوٹی سی بات پر پریشان ہونے والی، چھوٹی سی بات پہ خوش ہو جانے والی

عنایہ نے ایرک کو کھڑکی سے دیکھا تھا اور دیکھتی رہ گئ تھی۔
عنایہ! کچن میں کام کرتی امامہ نے اسے اتنی دیر کھڑکی سے باہر جھانکتے دیکھ کر پکارا تھا۔ عنایہ اس قدر مگن تھی کہ اسے ماں کی آواز سنائی نہیں دی۔امامہ کچن ایریا سے خود بھی سٹنگ ایریا کی اس کھڑکی کے سامنے آ گئ جس سے عنایہ باہر دیکھ رہی تھی اور کھڑکی سے باہر نظر آنے والے منظر نے اسے بھی عنایہ ہی کی طرح منجمد کیا تھا۔ ایرک ایک کیکڑے کی طرح اپنے چاروں ہاتھوں اور پیروں پر چل رہا تھا۔ وہ چوپائے کی طرح نہیں چل رہا تھا۔ وہ اپنی پشت کے بل چل رہا تھا۔ اپنا پیٹ اونچا کیے، اپنے دونوں ہاتھوں کے بل اپنے اوپری دھڑ کو اٹھائے۔ اپنی ٹانگیں، گھٹنوں کے بل اٹھائے۔ وہ بڑی دقت سے چل بلکہ رینگ رہا تھا۔ لیکن رکے بغیر، بے حد اطمینان سے۔ وہ اس طرح ادھر سے ادھر جاتے ہوئے چہل قدمی میں مصروف تھا جیسے یہ اس کے چلنے کا نارمل طریقہ تھا۔ وہ جب تھک جاتا، بیٹھ کر تھوڑی دیر سانس لیتا پھر اسی طرح چلنا شروع کر دیتا۔
یہ کیا کر رہا ہے؟ عنایہ نے اب کچھ پریشان ہوکر امامہ سے پوچھا۔۔
پتا نہیں۔
کیا یہ چل نہیں سکتا؟ عنایہ کو تشویش ہوئ۔
پتا نہیں۔ امامہ اور کیا جواب دیتی۔
جبریل تم ذرا جا کر اسے اندر لے آؤ۔ جبریل اوپر والی منزل سے سیڑھی اتر رہا تھا۔ جب امامہ نے پلٹ کر اسے کہا۔
کسے؟ جبریل نے جواباً کھڑکی کےپاس آتے ہوئے کہا اور امامہ کو اس کے سوال کا جواب دینے کی ضرورت نہ پڑی۔ اس نے ایرک کو دیکھ لیا تھا۔ پھر وہ رکے بنا باہر نکل آیا۔
ہیلو! جبریل نے ایرک کے ساتھ ٹہلتے ہوئے اس سے کہا۔ اس کی سرخ ہوتی رنگت، پھولا ہوا سانس اور ماتھے پر چمکتے پسینے کے قطروں سے اسے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ تھک چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود صرف لوگوں کی توجہ حاصل کیے رکھنے کے لیے خود پر ظلم کر رہا تھا۔
ہیلو! اس نے بھی جبریل کی ہیلو کا جواب اتنے ہی پرجوش لیکن تھکے ہوئے انداز میں دیا تھا۔
یہ کوئ نئ ایکسرسائز ہے؟ جبریل نے اس کے ساتھ ہلکے قدموں سے چلتے ہوئے کہا۔
نہیں۔ ایرک کا جواب آیا۔
پھر؟
میں کیکڑا ہوں۔ اور کیکڑے ایسے ہی چلتے ہیں۔ ایرک نے اس بار اس کی طرف دیکھے بنا کہا۔
اوہ آئی سی! جبریل نے بے اختیار کہا۔ اور یہ تبدیلی کب آئ؟ آخری بار جب میں نے تمہیں دیکھا تھا تو تم انسان تھے۔ جبریل اس سے یوں بات کر رہا تھا جیسے اسے اس کی بات کا یقین آگیا تھا۔
آج رات، ایرک نے پھولے ہوئے سانس کیساتھ کہا۔
اوہ! کیکڑے اکثر رک کر آرام بھی کرتے ہیں، تم نہیں کرو گے؟ جبریل نے بلآخر اسے مشورہ دینے والے انداز میں کہا۔
ایرک کے لیے جیسے تنکے کو سہارا والی بات ہوئ تھی۔ وہ ڈھے جانے والے انداز میں فٹ پاتھ پر چت لیٹے ہوئے بولا ۔ 
اوہ یس! میں بھول گیا تھا۔ اچھا ہوا تم نے یاد دلا دیا۔اس نے جبریل کے قدموں میں لیٹے لیٹے کہا۔
ڈونٹ مائنڈ! کیکڑے اتنی ایفرٹ کرنے کے بعد کھاتے پیتے بھی ہیں۔ جبریل نے اسے اگلی بات یاد دلائ۔
آہاں! مجھے بھی کھانے کو کچھ چاہیئے۔ ایرک کی بھوک واقعی اس کی بات سے چمکی تھی۔ اس کے بازو اور کمر اس وقت شل ہو رہے تھے۔
ہمارے گھر میں کیکڑوں کی کچھ خوراک ہے، اگر تمہیں انٹرسٹ ہو تو تم جا کے کھا سکتے ہو۔ جبریل نے کہا۔
ایرک ایکدم اسی طرح کیکڑا بنے بنے اس کے ساتھ چلنے لگا۔ جبریل رکا اور اس نے بڑی شائستگی سے اس سے کہا۔ مجھے اچھا لگے گا اگر تم کچھ دیر کے لیے دوبارہ انسان بن جاؤ۔ میری ممی اور بہن کیکڑوں سے بہت ڈرتی ہیں۔
وہ رکا، بیٹھا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
جبریل کیساتھ گھر میں داخل ہوتے ہوئے اس نے امامہ اور عنایہ کی حیران نظریں محسوس کر لی تھی۔
ایرک تم کیا کر رہے تھے باہر؟ اس کے اندر آتے ہی عنایہ نے اس سے پوچھا تھا۔ سوہ جواباً فاتحانہ انداز میں مسکرایا۔ یوں جیسے وہ جو چاہتا تھا حاصل کر لیا ہو۔
یہ ایرک نہیں ایک کیکڑا ہے۔ جبریل نے اس کا تعارف کرایا۔ اور بہتر ہے آئندہ اسے اسی نام سے پکارا جائے۔
تم اتنے دن سے آئے کیوں نہیں؟ امامہ نے موضوع بدلنے کوشش کی۔
میں مصروف تھا۔ وہ اب اپنے بازو اور کلائیاں دبا رہا تھا۔
جبریل اور عنایہ نے نظروں کا تبادلہ کیا اور ہنسی کو روکا۔ انہیں اندازہ تھا ایک کیکڑا بن کر پندرہ بیس منٹ چہل قدمی کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے اب۔۔۔۔
تم بعض دفعہ بے حد احمقانہ حرکتیں کرتے ہو۔ عنایہ نے اس سے کہا۔
تم واقعی ایسا سمجھتی ہو؟ ایرک اس کے تبصرے پر کچھ مضطرب ہوا۔
ہاں بالکل۔
ایرک کے چہرے پر اب کچھ مایوسی آئ۔
اگر تم ہمارے گھر کے اندر آنا چاہتے تھے تو اس کا سیدھا راستہ دروازے پر دستک دے کر اجازت مانگنا ہے۔ کیکڑا بن کر ہمارے گھر کے سامنے پھرنا نہیں یا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم خود تمہیں کیھنچ کھینچ کر اندر بلائیں۔ عنایہ نے کچھ خفگی سے کہا۔
ایرک کا چہرہ سرخ ہوا۔ یہ شرمندگی تھی اس بات کی کہ وہ اس کی حرکت کو سمجھ گئے تھے۔
مسز سالار مجھے پسند نہیں کرتی۔ ایرک نے اس کی بات کے جواب میں امامہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ امامہ اسے دیکھ کر رہ گئ۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کے پہلی بار سمجھانے کا اثر ایرک پر یہ ہو گا۔
خیر! وہ تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں کرتا۔ خاص طور پر میں، بٹ یو آر سٹل ویلکم۔ یہ جبریل تھا جو فریج سے سوفٹ ڈرنک نکال رہا تھا۔
میرے بھی تمہارے بارے میں ایسے ہی خیالات ہیں۔ایرک نے اسے ٹکڑا توڑ جواب دیا۔
اوہ ریئلی! جبریل اسے زچ کر رہا تھا۔
مسز سالار! میں فریج سے کوئ ڈرنک لے سکتا ہوں؟ 
نہیں۔ جو آخری تھا وہ میں نے لے لیا۔ لیکن تم یہ پی سکتے ہو۔ امامہ سے پہلے جبریل نے اس سے کہا اور اپنے ہاتھ میں پکڑا وہ کین جس سے اس نے ابھی دو گھونٹ لیے تھے اس کے سامنے رکھ دیا۔ اور خود اندرونی کمرے کی طرف چلا گیا۔ عنایہ لاؤنج کی صفائ میں امامہ کی مدد کر رہی تھی۔ ایرک کچھ دیر دیکھتا رہا پھر اس نے کین اٹھا کر ایک ہی سانس میں اسے ختم کر لیا۔
اگر مدد کی ضرورت ہو تو میں مدد کر سکتا ہوں۔ایرک نے انہیں آفر کی۔
تمہارے بازو اب دو دن تک کچھ اٹھانے کے قابل نہیں ہوں گے اس لیے آرام کرو۔ ہم خود ہی کرلیں گے ایرک۔ امامہ نے جواباً اس سے کہا۔
میرا نام ایرک نہیں ہے۔ ایرک نے بے حد سنجیدگی سے امامہ کو جواب دیا۔
ہاں ہاں پتا ہے تمہارا نام اب کیکڑا ہے۔ عنایہ نے ہوور چلاتے ہوئے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
میرا نام عبداللہ ہے۔۔۔امامہ اور عنایہ نے بیک وقت پہلے اسے پھر ایک دوسرے کو دیکھا۔
کیا مطلب؟ امامہ کچھ ہکا بکا سی رہ گئ۔
اب میرا نام ایرک نہیں، عبداللہ ہے۔ ایرک نے اپنا جملہ سنجیدگی سے دہرایا۔
کس نے بدلا ہے تمہارا نام؟ عنایہ بھی دنگ تھی۔
میں نے خود۔ اس نے فخریہ انداز میں کہا۔
ایرک ایک بہت خوبصورت نام تھا۔ امامہ نے اس سے کہا۔ کیوں عنایہ؟ اس نے روانی میں عنایہ سے پوچھا۔
عبداللہ زیادہ خوبصورت نام ہے ممی! عنایہ نے ماں کی تائید نہیں کی لیکن بڑے جتانے والے انداز میں بتایا کہ وہ عبداللہ سے کیا مفہوم لے رہی ہے۔
امامہ جس موضوع سے بچنا چاہتی تھی بات پھر وہی آگئ تھی۔
اس نام کا مطلب جانتے ہو؟ امامہ نے اگلا سوال کیا۔
ہاں۔ اللہ کا بندہ۔ اس نے ایک بار پھر امامہ کو لاجواب کر دیا۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ سب مجھے عبداللہ کہا کرے اب۔ اس نے اگلا مطالبہ کیا۔
اس سے کیا ہو گا؟ اس بار امامہ کے سوال پر وہ خاموش ہو گیا۔ واقعی اس سے کیا ہو سکتا تھا۔
وہ کچھ دیر ایسے ہی کھڑا رہا پھر کچھ کہے بغیر خاموشی سے دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ امامہ کو عجیب قلق ہوا۔
عبداللہ برا نہیں ہے۔ وہ عنایہ کی آواز پر کرنٹ کھا کر پلٹی تھی۔
عنایہ! وہ ایرک ہے۔ صرف نام بدل لینے سے وہ عبداللہ نہیں ہو سکتا بیٹا۔ امامہ نے کہنا ضروری سمجھا تھا۔ عنایہ خاموش رہی تھی۔
--------------------------
سالار نے اس فائل میں لگے کاغذات کو باری باری دیکھا، آخری کاغذ فائل میں رکھنے کے بعد اس نے اپنے سامنے بیٹھے حمین کو دیکھا۔ فائل بند کی اور اسے واپس تھما دی۔
تو اس سارے تجربے سے تم نے کیا سیکھا؟ 
بہت سی باتیں۔ حمین نے گہرا سانس لیکر کہا۔ سالار نے اپنی ہنسی چھپائ۔
صرف دو باتیں بتا دو۔
بچے اچھے کلائنٹس نہیں ہوتے۔ اس نے بے ساختہ کہا۔
اور؟ سالار نے پوچھا۔
بزنس آسان نہیں ہے۔ اس نے سالار سے کہا۔
درست۔ سالار نے اس کی تائید کی۔ پھر اس سے کہا۔ہر وہ چیز جو اچھی لگے اور دوسروں کی ملکیت ہو ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہو سکتی۔ ہماری پسندیدہ چیز وہی ہونی چاہیئے جو کہ ہمارے پاس ہے، کسی دوسرے کی چیز چھیننے کا حق ہمیں نہیں۔
تمہیں پتا ہے، انسان کے پاس سب سے طاقتور چیز کیا ہے؟ اس نے حمین سے پوچھا۔
کیا؟ حمین نے کہا۔
عقل۔ اگر اس کا درست استعمال آتا ہو۔ اور تمہیں پتا ہے، انسان کے پاس سب سے خطرناک چیز کیا ہے؟ 
کیا؟ حمین نے پھر اسی انداز میں کہا۔
عقل۔ اگر اس کا درست استعمال نہ آتا ہو تو یہ صرف دوسروں کو نہیں خود آپ کو بھی تباہ کر سکتی ہے۔
حمین جانتا تھا سالار کس کی عقل کی بات کر رہا تھا۔ وہ اس کی ہی بات کر رہا تھا۔۔
وہ دنیا کے دو ذہین ترین دماغ تھے۔ صرف باپ بیٹا نہیں۔ پینتالیس سال کی عمر میں وہ ایک سود سے پاک اسلامی مالیاتی نظام کا ڈھانچہ کھڑا کر چکا تھا۔ وہ رسک لیتا تھا، چیلنج قبول کرتا تھا، نئے راستے ڈھونڈنا اور بنانا جانتا تھا۔ برین ٹیومر سے لڑتے ہوئے بھی وہ اپنی زندگی کے ایک، ایک دن کو بامقصد گزار رہا تھا۔ ایک دنیا اس کے نام سے واقف تھی۔ ایک دنیا اسے مانتی تھی، وہ جس فورم پہ کھڑا ہو کر بات کرتا تھا فنانس کی دنیا کے گرو اس کو خاموشی اور توجہ سے سنتے تھے۔ وہ فنانس کی دنیا میں لیجنڈری کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔
اس سارے تجربے نے حمین سکندر کو پہلی بار سنجیدہ کیا تھا۔ اس نے اس رات ایک بات اپنے باپ کو نہیں بتائی تھی اور وہ یہ تھی کہ اسے زندگی میں بزنس ہی کرنا تھا اپنے باپ سے زیادہ بڑا اور کامیاب بننا تھا۔ اسے دنیا کا امیر ترین آدمی بننا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
ممی میں قرآن پاک پڑھنا چاہتا ہوں۔ ڈنر ٹیبل پر اس رات ایرک اپنی فیملی کے ساتھ کئ دنوں بعد ساتھ بیٹھا تھا۔ کیرولین کا بوائے فرینڈ بھی وہی تھا۔
وہ کیا ہے؟ ایک لمحہ کو کیرولین کی سمجھ میں نہ آیا۔ کہ وہ کس چیز کے پڑھنے کی خواہش کا اظہار کر رہا ہے۔
مسلمز کی ہولی بک۔ جو عنایہ کی فیملی پڑھتی ہے۔اس نے ماں کو وضاحت دی۔
کیرولین کے پارٹنر رالف نے کھانا کھاتے کھاتے رک کر ان دونوں کو دیکھا۔
تم ٹرانسلیشن پڑھنا چاہتے ہو؟ کیرولین نے کہا۔
نہیں میں عربی پڑھنا چاہتا ہوں۔ جیسے وہ پڑھتے ہیں۔ وہ سنجیدہ تھا۔
لیکن تمہیں عربی نہیں آتی۔ کیرولین بھی اب سنجیدہ تھی۔
ہاں! لیکن جبریل مجھے سکھا دے گا۔ اس نے ماں سے کہا۔
اس کی ضرورت کیا ہے؟ کیرولین کو خاموش دیکھ کر رالف بولے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ مسلمانوں کی ہولی بک ہے تمہیں اس کو پڑھنے کے لیے ایک نئ زبان سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ تم اس کی ٹرانسلیشن پڑھ سکتے ہو اگر تمہیں ایک کتاب کے طور پر اسے پڑھنے میں دلچسپی ہے تو۔ اس نے رالف کی بات کا جواب دینے کی زحمت بھی نہیں کی۔۔
ممی! رالف کو مکمل طور پر نظرانداز کر کے اس نے سوالیہ انداز میں کیرولین کی طرف دیکھا۔
وہ ایک گہرا سانس لیکر رہ گئ۔ اس کے اور ایرک کے تعلقات آج کل جس نوعیت کے تھے اس میں یہ بڑی بات تھی کہ وہ کسی کام کے لیے اس سے اجازت مانگ رہا تھا ورنہ وہ کوئ کام کر کے بھی اسے بتانے کی زحمت نہیں کرتا تھا۔
تمہاری اسٹڈیز متاثر ہو گی ایرک۔ کیرولین کو جو واحد مسئلہ تھا اس نے اس کا ذکر کیا۔۔
وہ متاثر نہیں ہو گی۔ آئ پرامس۔ اس نے فوراً ماں کو یقین دہانی کرا دی۔
اوکے! ٹھیک ہے، لیکن اگر تمہاری اسٹڈیز متاثر ہوئی تو میں تمہیں روک دوں گی۔
ایرک کا چہرہ کھل اٹھا۔
تم کب جاؤ گے جبریل کے پاس قرآن پڑھنے؟ کیرولین نے پوچھا۔
ہفتے میں دو بار۔ ایرک نے کہا۔
ٹھیک ہے۔ وہ جیسے مطمئن ہوئ۔
آپ جبریل کی ممی کو فون کر کے بتا دیں کہ آپ نے مجھے اجازت دے دی ہے۔ ایرک نے کہا۔
ٹھیک ہے میں فون کر دوں گی۔۔ کیرولین نے کہا۔ ایرک شکریہ ادا کرتے ہوئے کھانا کھا کے اٹھ کھڑا ہوا۔
تم بے وقوفی کر رہی ہو۔ اس کے وہاں سے جاتے ہی رالف نے بے حد ناخوش انداز میں کیرولین سے کہا۔
کیسی بے وقوفی؟ وہ سمجھتے ہوئے بھی نہ سمجھی تھی۔
تمہارا بیٹا پہلے ہی تمہارے لیے درد سر بنا ہوا ہے اور تم اسے قرآن پاک اور عربی سیکھنے بھیج رہی ہو تاکہ وہ انتہا پسند ہو جائے۔ وہ بھی ایک مسلمان خاندان کے پاس۔
کیرولین ہنس پڑی تھی۔
تم اس خاندان کو جانتے نہیں ہو رالف۔۔ میں ساڑھے تین سال سے جانتی ہوں۔ نیبرز ہیں ہمارے۔ جیمز کی موت کے بعد انہوں نے ہمارا بہت خیال رکھا۔ میں مارک اور سبل کو اکثر ان لوگوں کے پاس چھوڑ کر جاتی تھی۔ وہ ایرک کو کچھ برا نہیں سکھائیں گے۔ سکھانا ہوتا تو اسے میری اجازت کے بنا بھی سکھانا شروع کر دیتے۔ مجھے کیسے پتا چلتا۔کیرولین کہہ رہی تھی۔
تم پھر بھی سوچ لو۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ ایک ڈسٹربڈ بچے کو قرآن پڑھانا۔ وہ اگر مسلمانوں کی طرح تشدد پسند ہو گیا تو؟ رالف کے اپنے خدشات تھے۔
ایرک اس اجازت کے اگلے ہی دن دوبارہ امامہ اور سالار کے گھر پہنچ گیا جبریل کے پاس قرآن پاک کا آغاز کرنے۔
وہ ایک دن پہلے بھی اسی طرح جبریل کے پاس گیا تھا۔ وہ اس وقت قرآن کی تلاوت کر رہا تھا۔ ایرک اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا تھا اور پھر اس کے پاس اتنی دیر تک بیٹھا رہا کہ جبریل کو بلآخر تلاوت ختم کر کے اس سے پوچھنا پڑا تھا کہ وہ وہاں کسی کام سے تو نہیں آیا تھا؟ 
میں بھی ایسے قرآن پاک پڑھنا اور سیکھنا چاہتا ہوں جیسے تم پڑھ رہے ہو۔ اس نے جبریل کو جواب دیا۔ وہ اس کی شکل دیکھ کر رہ گیا۔
میری تو یہ مذہبی کتاب ہے اس لیے پڑھ رہا ہوں میں، تم پڑھ کر کیا کرو گے؟ اس نے ایرک کو سمجھانے کی کوشش کی۔
مجھے دلچسپی ہے، جاننے میں اور مجھے اچھا لگتا ہے جب تم تلاوت کرتے ہو۔ ایرک نے جواباً کہا۔ تم انٹرنیٹ پر ٹرانسلیشن پڑھ سکتے ہو یا میں تمہیں دے دوں گا ایک انگلش ٹرانسلیشن۔ اور تمہیں تلاوت اچھی لگتی ہے تو تم وہ بھی وہاں سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہو۔ تمہیں اس کے لیے قرآن پاک کی تلاوت سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ جبریل نے نرمی سے اسے جیسے راستہ دکھایا تھا۔
لیکن میں ٹرانسلیشن نہیں پڑھنا چاہتا اور میں تلاوت سننا نہیں خود کرنا چاہتا ہوں۔ جیسے تم کرتے ہو۔ 
ایرک اب بھی مصر تھا۔
یہ بہت لمبا کام ہے ایرک، ایک دن میں نہیں ہو سکتا۔ جبریل نے اسے ٹالنے کی کوشش کی، وہ نہ ٹلا۔
کتنا لمبا کام ہے؟ ایرک نے پوچھا۔
تمہیں تو کئ سال لگ جائیں گے۔
اوہ! تو کوئ مسئلہ نہیں، میرے پاس بہت وقت ہے۔ ایرک نے مطمئن ہو کر کہا۔
جبریل عجب مشکل میں پڑ گیا تھا۔ 
تم سب سے پہلے اپنی ممی سے پوچھو۔ جبریل نے بلآخر کہا۔
ممی کو کوئ ایشو نہیں ہو گا، مجھے پتا ہے۔ اس نے جبریل کو یقین دلانے کی کوشش کی۔
اگر انہیں کوئ ایشو نہیں ہو گا تو انہیں یہ بات ممی سے یا مجھ سے کہنی ہو گی۔ جبریل اس کی یقین دہانی سے متاثر ہوئے بغیر بولا۔
میں اپنے لیے کچھ بھی فیصلہ کر سکتا ہوں۔ مجھے ہر کام ممی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ ایرک نے اس سے کہا۔
تم ابھی چھوٹے ہو ایرک اور زیادہ سمجھدار بھی نہیں ہو۔ جب تک تم اٹھارہ سال کے نہیں ہو جاتے۔تمہیں اپنا ہر کام ممی سے پوچھ کر کرنا چاہیئے اور یہ کوئ بری بات نہیں۔جبریل نے اسے سمجھایا تھا۔
بلآخر ایرک نے ہار مان لی۔ اور اگلے دن ماں کی اجازت کیساتھ آنے کا کہا۔

امامہ کے لیے کیرولین کی فون کال ایک سرپرائز تھی۔ اس نے بڑے خوشگوار انداز میں اس سے بات چیت کرتے ہوئے امامہ کو اس اجازت کے بارے میں بتایا تھا جو اس نے ایرک کو دی تھی اور امامہ حیران رہ گئ۔
اسے ایرک اور جبریل کے درمیان ہونے والی گفتگو کا علم نہیں تھا۔
ممی! مجھے یقین تھا نہ وہ اپنی ممی سے بات کرے گا، نہ ہی وہ اسے اجازت دیں گی۔ جبریل نے ماں کے استفسار پر اسے بتایا۔
لیکن اب اس کی ممی نے مجھے کال کر کے کہا ہے کہ انہیں کوئ اعتراض نہیں ہے تو اب کیا کریں؟ امامہ نے کہا۔
کیا کرنا ہے؟ وہ ہنس پڑا۔ قرآن پاک سکھاؤں گا اسے اب۔ جبریل نے ماں سے کہا تھا۔
اسے اپنے جواب پہ امامہ کے چہرے پہ خوشی نظر نہیں آئی۔
آپ کو پریشانی کس بات کی ہے؟ جبریل نے جیسے ماں کو کریدنے کی کوشش کی۔ امامہ اس سے کہہ نہ سکی کہ اسے سارا مسئلہ عنایہ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ مجھے کوئ مسئلہ نہیں ہے۔ جو بھی ہوتا ہے اللہ کی مرضی سے ہی ہوتا ہے اور ہم کچھ بھی بدلنے پہ قادر نہیں ہے۔ ٹھیک ہے، ایرک تم سے قرآن پاک سیکھنا چاہتا ہے تو تم اسے سکھاؤ۔ امامہ نے بلآخر جیسے ہتھیار ڈال دییے۔
--------------------------
گیارہ سال کی عمر میں قرآن پاک سے ایرک کا وہ پہلا باقاعدہ تعارف تھا۔ اس سے پہلے وہ اس کتاب کا صرف نام جانتا تھا۔ جنرل نالج کے طور پہ۔۔۔
وہ سالار اور امامہ کے گھر جا کر مسلمانوں کے قریب ہوا تھا اور جبریل کی تلاوت سن سن کر وہ قرآن پاک سے متاثر ہونا شروع ہو گیا تھا۔ وہ زبان اور وہ تلاوت اسے جیسے کسی فینٹسی میں لے جاتی تھی۔
جس دن اس نے جبریل سے قرآنی قاعدہ کا پہلا سبق لیا تھا اس رات اس نے آن لائن قرآن پاک کا پورا انگلش ترجمہ پڑھ لیا تھا۔ وہ کتابیں پڑھنے کا شوقین اور عادی تھا اور اس نے قرآن کو بھی ایک کتاب کے طور پہ پڑھا تھا۔ بہت ساری چیزوں کو سمجھتے ہوئے، بہت سی چیزوں کو نہ سمجھتے ہوئے، بہت سی باتوں سے متاثر ہوتے ہوئے، بہت سے احکامات سے الجھتے ہوئے، بہت سارے واقعات کو اپنی کتاب بائبل سے منسلک کرتے ہوئے۔ 
جبریل کو حیرت نہیں ہوئی تھی جب اگلے دن ایرک نے اسے قرآنی قاعدہ کا سبق بالکل ٹھیک ٹھیک سنایا تھا۔ لیکن وہ یہ جان کر خاموش ضرور ہو گیا تھا کہ ایرک نے ایک رات میں بیٹھ کر قرآن پاک کا پورا ترجمہ پڑھ لیا تھا۔
اس کا فائدہ کیا ہوا؟ جبریل نے اس سے پوچھا۔
کس چیز کا؟ قرآن پاک پڑھنے کا؟ ایرک نے اس کے سوال کی وضاحت چاہی۔
ہاں۔ جبریل نے جواب دیا۔
ایرک کو کوئ جواب نہیں سوجھا۔ اس کا خیال تھا کہ جبریل اس سے متاثر ہو گا۔ وہ متاثر نہیں ہوا تھا، الٹا اس سے سوال کر رہا تھا۔
فائدہ تو نہیں سوچا میں نے۔ میں نے تو بس تجسس میں پڑھا ہے قرآن پاک۔ایرک نے کہا۔
تو اب تمہای کیا رائے ہے قرآن پاک کے بارے میں؟ اب بھی سیکھنا چاہتے ہو؟ جبریل نے اس سے پوچھا۔
ہاں۔ اب اور بھی زیادہ۔۔۔ ایرک نے کہا۔ مجھے یہ بے حد انٹرسٹنگ لگی ہے۔
جبریل اس کی بات پہ مسکرایا تھا۔
مقدس کتابوں کو صرف پڑھ لینا کوئ بڑی بات نہیں ہوتی۔ جبریل نے اس سے کہا تھا۔ اسے پڑھنے کیساتھ ساتھ اس پہ عمل بھی ضروری ہے۔
ایرک اس کو بغور دیکھتے ہوئے اس کی بات سن رہا تھا۔
اس دن جبریل نے اسے دوسرا سبق قرآنی قاعدہ کا نہیں دیا تھا۔ اس نے اسے دوسرا سبق ایک اچھا انسان بننے کے حوالے سے دیا تھا۔
کوئ بھی ایسی چیز جس کا تعلق اللہ سے ہے اور پھر جو ہم سیکھتے ہیں تو پھر اس دن ہمارے اندر دوسروں کے لیے کچھ زیادہ بہتری آنی چاہیئے تاکہ نظر آئے کہ ہم کوئ خاص چیز سیکھ رہے ہیں۔
وہ سارے سبجیکٹ جو ہم سکول میں پڑھتے ہیں اور جو ہم وہاں سیکھتے ہیں وہ ہماری پرسنالٹی پر اثر انداز نہیں ہوتے، وہ صرف تب ہمارے کام آتے ہیں جب ہمیں ایگزامز دینا ہو، جاب کرنی ہو، یا بزنس کرنا ہو۔کتابیں ہمیں باعلم بناتی ہیں۔ باعمل ہمیں صرف وہ کتاب بنا سکتی ہے جو اللہ تعالی نے انسان کو صرف باعمل کرنے کے لیے اتاری ہے۔
ایرک اس کی بات بڑی توجہ سے سن رہا تھا۔
بابا نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر ہم اچھے انسان نہ بن سکیں تو عبادت کرنے اور مذہب کے بارے میں پڑھنے کا کوئ فائدہ نہیں۔ کیونکہ مذہب اور مذہبی کتابیں اللہ نے صرف ایک مقصد کے لیے اتاری ہیں۔ کہ ہم اچھے انسان بن کر رہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا خیال رکھیں۔ خاص طور پر ان کا، جو ہماری ذمہ داری ہے۔ جیسے تمہارے چھوٹے بہن بھائ اور تمہاری ممی تمہاری ذمہ داری ہیں۔جبریل بڑی ذہانت سے گفتگو کو اس موضوع کی طرف موڑ رہا تھا جس پہ وہ ایرک سے بات کرنا چاہتا تھا۔ تو اب تم نے دیکھنا ہے کہ جس دن تم قرآن پڑھ کر جاتے ہو اس دن تمہارے اندر کیا تبدیلی آتی ہے۔ اس دن تم اپنی فیملی کے لیے اور دوسروں کے لیے، کیا اچھا کام کرتے ہو۔ جبریل نے جیسے اسے چیلنج دیا تھا۔
میں کوشش کروں گا۔ ایرک نے وہ چیلنج قبول کر لیا تھا۔ پھر اس نے جیسے اس کی مدد مانگی۔ تو آج میں گھر جا کر کیا کروں؟
تم آج ایسا کام مت کرنا جس سے تمہا ری ممی اپ سیٹ ہوتی ہے۔
جبریل نے اس سے کہا۔ ایرک کچھ خجل ہوا۔
تم مجھے عبداللہ کہا کرو۔ ایرک نے جان بوجھ کر موضوع بدلنے کے لیے اسے ٹوکا۔
عبداللہ تو اللہ کا بندہ ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ مہربان، سب کا خیال رکھنے والا اور سب کا احساس کرنے والا، کسی کو تکلیف نہ دینے والا۔ میں تمہیں عبداللہ تب کہنا شروع کروں گا جب تم سب سے پہلے اپنی ممی کو تکلیف دینا بند کرو گے۔
جبریل نے اس کی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا تھا۔ ایرک جیسے کچھ اور خجل ہوا۔ ایک لمحے کے لیے اسے لگا کہ جبریل اس سے جو کچھ کہہ رہا تھا وہ اس کی ممی کے کہنے پہ کہہ رہا تھا لیکن اس نے خاموشی سے بات مان لی۔
اس دن ایرک گھر جا کر پہلی بار رالف سے خوش دلی سے ملا تھا۔ رالف اور کیرولین کو ایک لمحے کے لیے لگا شاید ایرک سے غلطی ہوئ ہے یا پھر انہیں وہم ہو رہا ہے۔ اس نے پہلی بار رالف سے خوش مزاجی کا مظاہرہ کیا تھا۔
ایرک رکے بغیر وہاں سے چلا گیا۔ رالف اور کیرولین نے ایک دوسرے کو حیرانی سے دیکھا۔
اس کو کیا ہوا؟ رالف نے کچھ خوشگوار حیرت سے کہا۔
پتا نہیں۔ کیرولین نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
وہ پہلی تبدیلی نہیں تھی جو ایرک میں آئ تھی۔ وہ آہستہ آہستہ مزید تبدیل ہوتا گیا۔ قرآن پاک کا سبق اب ہر روز وہ لینے جایا کرتا تھا۔ اگر کبھی جبریل نہ ہوتا تو حمین یا امامہ اسے سبق پڑھا دیتے۔ لیکن ایرک کو یہ اعتراف کرنے میں عار نہیں تھا کہ جیسے جبریل اسے پڑھاتا تھا ویسے کوئ نہیں پڑھا سکتا تھا۔ 
اس گھر میں ایرک کی جڑیں اب زیادہ گہری اور مضبوط ہو گئ تھی۔ امامہ کی تمام تر احتیاط کے باوجود۔۔۔
------------------------------
جبریل لوگوں کو نا سمجھ میں آنے والے انداز میں متاثر کرتا تھا۔ تیرہ سال کی عمر میں اس کا ٹھہراؤ عام بچوں کے برعکس تھا۔ سالار کی بیماری نے امامہ کے ساتھ اسے بھی بدل دیا تھا۔ اس نے امریکہ میں سالار کی سرجری اور اس کے بعد وہاں امامہ کے قیام کے دوران تینوں چھوٹے بہن بھائیوں کی پرواہ کسی باپ کی طرح کی تھی۔ سکندر اور طیبہ، سالار کے بچوں کی تربیت سے پہلے بھی متاثر تھے لیکن ان کی غیر موجودگی میں جبریل نے جس طرح ان کے گھر پر اپنے بہن بھائ کا خیال رکھا تھا وہ ان کو مزید متاثر کر گیا تھا۔ ایک دس سالہ بچہ کئ مہینے اپنے کھیل کود، اپنی سرگرمیاں بھلا بیٹھا تھا اور یہی وہ وقت تھا جب جبریل ذہنی طور پر بھی بدلتا گیا۔
تیرہ سال کی عمر میں ہائ سکول سے ڈسٹنکشن کے ساتھ پاس کر کے یونیورسٹی جانے والا وہ اپنے سکول کا پہلا اسٹوڈنٹ تھا۔ اور وہ وہاں بل گیٹس فاؤنڈیشن کی ایک اسکالرشپ پر پہنچا تھا۔ وہ پہلی سیڑھی تھی جو میڈیسن کی طرف جاتے ہوئے اس نے چڑھی تھی۔ 
سالار سکندر کے خاندان کا پہلا پرندہ یونیورسٹی پہنچ چکا تھا۔
------------------------------
گرینڈ حیات ہوٹل کا بال روم اس وقت نیشنل اسپیلنگ بی کے 93ویں مقابلے کے فائنلسٹ کا پہلا راؤنڈ منعقد کروانے کے لیے تیار تھا۔ حمین سکندر اپنے ٹائٹل کا دفاع کر رہا تھا اور رئیسہ سالار اس مقابلے میں پہلی دفعہ حصہ لے رہی تھی۔
رئیسہ اس وقت اسٹیج پر اپنے پہلے لفظ کے بولے جانے کے انتظار میں تھی۔ رئیسہ نے پوچھا جانے والا لفظ بے حد غور سے سنا تھا۔ وہ لفظ غیر مانوس نہیں تھا۔ وہ انہی الفاظ میں شامل تھا جس کی اس نے تیاری کی تھی۔
Crustaceology
اس نے زیر لب اس لفظ کو دہرایا پھر بنا آواز کے اس کے ہجے کیے اور پھر بلآخر اس نے اس لفظ کو ہجے کرنا شروع کیا۔
C.r.u.s.t.a.c.o.l.o.g.y
رئیسہ نے بےیقینی کے عالم میں اس گھنٹی کو سنا تھا جو لفظ غلط ہونے پر بجی تھی۔ اس کا رنگ فق ہوا۔ لیکن اس سے زیادہ حمین سکندر کا، جسے اس کے بولنے کے دوران ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ اس نے کیا غلطی کی تھی۔ ہال میں امامہ اور سالار، جبریل اور عنایہ کیساتھ عجیب سی کیفیت میں بیٹھے تھے وہ اس کی توقع بہت پہلے سے کر رہے تھے۔ رئیسہ کا فائنل راؤنڈ تک پہنچنا بھی ان کے لیے ناقابل یقین ہی تھا۔ اس نے اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر پر پرفارمنس دکھائ تھی۔ وہ پہلا مکا تھا جو رئیسہ نے سیدھا منہ پہ کھایا تھا۔
حمین اس سے کچھ کرسیوں کے فاصلے پر تھا۔ ان کے درمیان کچھ اور فائنلسٹ تھے۔ لیکن اس کے باوجود اس نے اٹھ کر رئیسہ کی کرسی پر آ کر اس کا کندھا تھپکا تھا۔
حمین سکندر اسٹیج پر اب پہلے لفظ کے لیے کھڑا تھا اور اس کا استقبال تالیوں کیساتھ ہوا تھا۔ وہ اگر پچھلے سال ڈارلنگ آف دی کراؤڈ تھا تو اس سال بھی وہ ہاٹ فیورٹ کے طور پہ مقابلے میں کھڑا تھا۔ پچھلے سارے راؤنڈز میں اس نے مشکل ترین الفاظ کو حلوے کی طرح بوجھا تھا۔
Vignettee
اس کا لفظ بولا جارہا تھا۔ وہ حمین سکندر کے لیے ایک اور حلوہ تھا۔ وہ اس سے زیاد مشکل اور لمبے الفاظ کے ہجے کر چکا تھا۔ رئیسہ نے بھی زیرلب کئ دوسرے فائنلسٹس کی طرح وہ لفظ ہجوں کی طرح درست طور پر ادا کیا۔
V.i,g.n.e.t.t.e
بیل بجی۔ ہال میں سکتہ ہوا، پھر سرگوشیاں ابھریں۔پھر پروناؤنسر نے درست اسپیلنگ ادا کیے۔ حمین نے سر جھکا کر جیسے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور اپنی کرسی کی طرف چلنا شروع کیا۔
وہ اس مقابلے کا پہلا اپ سیٹ تھا۔ پچھلے سال کا چیمپئن اپنے پہلے ہی لفظ کو ہجے کرنے میں ناکام رہا تھا۔ ہال میں بیٹھے سالار، امامہ، جبریل اور عنایہ بیک وقت پریشانی کی ایک عجیب کیفیت سے گزرے تھے۔ وہ ایک ہی راؤنڈ میں رئیسہ کی ناکامی دیکھ کر حمین کی کامیابی پہ تالیاں نہیں بجانا چاہتے تھے اور انہیں بجانی بھی نہیں پڑی تھی۔ لیکن حمین سے لفظ نہ بوجھنا غیر متوقع تھا۔
لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا اس دن انہیں وہاں بیٹھے مقابلے کے آخر تک اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
رئیسہ اگلے دو لفظ بھی نہ بوجھ سکی تھی اور حمین سکندر بھی۔ وہ دونوں فائنل مقابلے کے ابتدائ مرحلے میں ہی مقابلے سے آؤٹ ہو گئے تھے۔
رئیسہ کی یہ پرفارمنس غیر متوقع نہیں تھی۔ لیکن حمین سکندر کی ایسی پرفارمنس اس رات ایک بریکنگ نیوز تھی۔ پچھلے سال کا چیمپئن مقابلے سے آؤٹ ہو گیا تھا اور حمین کے چہرے کا اطمینان ویسا ہی تھا جیسے اسے کوئ فرق ہی نہ پڑا ہو۔ وہ دونوں مقابلے سے باہر ہونے کے بعد اپنے ماں باپ کے پاس آ کر بیٹھ گئے تھے۔
دونوں نے ان دونوں کو تھپکا تھا۔ تسلی دی تھی۔ یہ ہی کام جبریل اور عنایہ نے بھی کیا تھا۔
بہت اچھے۔ انہوں نے اپنے چھوٹے بہن بھائی کا حوصلہ بندھایا تھا۔
انہوں نے اس سال کے نئے چیمپئن کو بھی دیکھا تھا اور ان انعامات کے ڈھیر کو بھی جو اس پر نچھاور کیے جا رہے تھے۔ رئیسہ کا غم جیسے کچھ اور بھی بڑھا۔ وہ سالار سکندر کا نام روشن نہ کر سکی تھی۔جیسے ان کے بڑے بہن بھائ کرتے تھے۔ وہ ان جیسی نہیں تھی۔ اسے شدید احساس کمتری ہوا۔ وہ سب اس سے بہتر شکل و صورت کے تھے، اس سے بہترین ذہنی صلاحیتیں رکھتے تھے۔ وہ کسی بھی طرح ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔
ان کے گھر میں لانے والی ٹرافیز، میڈلز میں اس کا بہت تھوڑا حصہ تھا۔ آج پہلی بار وہ رنجیدہ ہوئ تھی۔
تم اداس ہو؟ یہ حمین کی سرگوشی تھی جو اس نے گاڑی میں ہونے والی سب کی گفتگو کے درمیان اس کے کان میں کی تھی۔
نہیں۔ رئیسہ نے اسی انداز میں جواب دیا۔ 
مجھے پتا ہے تم اداس ہو۔ حمین نے ایک اور سرگوشی کی۔
تم نیکسٹ ایئر جیت سکتی ہو۔ اس نے جیسے رئیسہ کو آس دلائ۔
مجھے پتا ہے لیکن اگلا سال بہت دور ہے۔ اس نے مدھم آواز میں کہا۔
حمین نے اس کی کمر میں گدگدی کرنے کی کوشش کی وہ سکڑ کر پیچھے ہٹی۔ اسے ہنسی نہیں آئ تھی۔ وہ ہنسنا چاہتی بھی نہیں تھی۔
میں بھی تو ہارا ہوں۔ حمین کو اس کے موڈ کا اندازہ ہو گیا تھا۔ 
تم جیتے بھی تو تھے نا۔ اس نے جواباً کہا۔
وہ تو یونہی تکا لگ گیا تھا۔ اس نے جیسے اپنا ہی مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
رئیسہ جواب دینے کی بجائے کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی۔ یہ جیسے اعلان تھا کہ وہ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتی۔

رئیسہ اپ سیٹ ہے۔
اس رات سالار نے امامہ سے سونے سے پہلے کہا تھا۔
میں جانتی ہوں اور اسی لیے نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس مقابلے میں حصہ لیتی جن میں باقی تینوں ٹرافیز جیت چکے تھے لیکن تم نے منع نہیں کیا اسے۔امامہ نے اس سے کہا۔
میں کیسے اسے منع کرتا۔ یہ کہتا کہ تم نہیں جیت سکتی اس لیے مت حصہ لو۔ اور پھر وہ فائنل راؤنڈ تک پہنچی۔ بہت اچھا کھیلی ہے۔ یہ زیادہ اہم چیز ہے۔سالار نے اپنے ہاتھ سے گھڑی اتارتے ہوئے بیڈ سائڈ ٹیبل پر رکھ دی۔
وہ بہت سمجھدار ہے۔ ایک دو دن تک ٹھیک ہوجائے گی جب میں اسے سمجھاؤں گی کہ حمین بھی تو ہارا ہے۔ لیکن اسے پرواہ تک نہیں۔ اسے اپنے سے زیادہ رئیسہ ہی کی فکر تھی۔ امامہ نے کہا۔
اسے فکر کیوں ہو گی۔ وہ تو اپنی مرضی سے ہارا ہے۔سالار نے بے حد اطمینان سے کہا۔
امامہ ٹھٹک گئ۔ کیا مطلب ہے تمہارا؟
سالار نے گردن موڑ کر اسے دیکھا اور مسکرایا۔ تمہیں اندازہ نہیں ہوا؟ 
کس بات کا؟ کہ وہ جان بوجھ کر ہارا ہے؟ ایسا نہیں ہو سکتا۔ امامہ نے خود سوال پوچھا اور خود ہی جواب دیا۔
تم پوچھ لینا اس سے کہ ایسا ہو سکتا ہے یا نہیں۔سالار نے بحث کیے بغیر اس سے کہا۔ وہ اب سونے کے لیے لیٹ گیا۔ امامہ ہکا بکا اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔پھر جیسے اس نے جھلا کر کہا۔
تم باپ بیٹا عجیب ہو۔ بلکہ عجیب ایک مہذب لفظ ہے۔
تم جبریل کو مائنس کیوں کر جاتی ہو ہر بار۔ سالار نے اسے چھیڑا۔
شکر ہے وہ حمین اور تمہاری طرح نہیں ہے۔ لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا حمین کیوں اس طرح کرے گا۔ وہ اب الجھی ہوئ تھی۔
رئیسہ کے لیے۔ سالار نے جواباً اس سے کہا۔
اور مجھے اس پر فخر ہے۔ اس نے آنکھیں بند کر کے کروٹ لی اور سائڈ ٹیبل لیمپ آف کر دیا۔
وہ غلط نہیں کہتی تھی وہ دونوں باپ بیٹا ہی عجیب تھے۔ 
-------------------------------
رئیسہ تم سو کیوں نہیں رہی؟ عنایہ نے اسے ایک کتاب کھولے، سٹڈی ٹیبل پر بیٹھے دیکھ کر پوچھا تھا۔
میں وہ الفاظ دیکھنا اور یاد کرنا چاہتی ہوں جو مجھے نہیں آتے۔ عنایہ اسے دیکھ کر رہ گئ۔
انہیں ابھی گھر واپس آئے ایک گھنٹہ ہی ہوا ہو گا اور وہ ایک بار پھر سے کتاب لیکر بیٹھ گئ تھی۔
تم نے پہلے ہی بہت محنت کی ہے رئیسہ۔ یہ صرف تمہاری بدقسمتی تھی۔ عنایہ کو اندازہ نہیں ہوا وہ اسے تسلی دینے کے لیے جن الفاظ کا انتخاب کر رہی تھی وہ بڑے غلط تھے۔ وہ الفاظ رئیسہ کے دماغ میں جیسے کھب گئے تھے۔
اب سو جاؤ۔ عنایہ نے کسی بڑے کی طرح اسے تھپکا تھا۔
میں نہیں سو سکتی۔ مدھم آواز میں رئیسہ نے کہا۔
عنایہ کو یوں لگا جیسے رئیسہ کی آواز بھرائ ہوئ تھی۔ رئیسہ نے کتاب بند کر کے ٹیبل پہ رکھی اور پھر وہاں سے اٹھ کر بستر پہ آئ اور اوندھے منہ لیٹ کر اس نے بلک بلک کر رونا شروع کر دیا۔
رئیسہ۔۔۔۔۔۔۔! رئیسہ پلیز۔۔۔۔! عنایہ خود بھی روہانسی ہو گئ تھی۔ رئیسہ چھوٹی چھوٹی بات پہ رونے والی بچی نہیں تھی اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ رئیسہ اپنے بدقسمت ہونے پر رو رہی تھی۔

تم کیا کر رہے ہو اس وقت؟ امامہ لاؤنج میں ہونے والی کھڑکھڑاہٹوں کو سن کر رات کے اُس وقت باہر نکل آئی تھی، وہ اُس وقت تہجّد کے لیے اٹھی تھی۔ جبریل اس ویک اینڈ پر گھر آیا ہوا تھا اور کئی بار وہ بھی رات کے اس پہر پڑھنے کے لیے جاگتا اور پھر کچھ نہ کچھ کھانے کے لیے کچن جاتا۔ مگر اس بار اُس کا سامنا حمین سے ہوا تھا۔ وہ کچن کاؤنٹر کے سامنے پڑی ایک سٹول پر بیٹھا سلیپنگ سوٹ میں ملبوس آئس کریم کا ایک لیٹر والا کین کھولے اُسی میں سے آئس کریم کھانے میں لگا ہوا تھا۔
امامہ کو سوال کرنے کے ساتھ ہی جواب مل گیا تھا اور اُس نے اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی بے حد خفگی کے عالم میں کاؤنٹر کے سامنے آتے ہوئے اُس سے کہا۔
حمین یہ وقت ہے آئس کریم کھانے کا؟ اور وہ بھی اس طرح؟” اُس کا اشارہ اُس کے کین کے اندر ہی آئس کریم کھانے کی طرف تھا۔
میں نے صرف ایک سکوپ کھانی تھی۔ وہ ماں کے یک دم نمودار ہونے اور اپنے اس طرح پکڑے جانے پر گڑبڑایا تھا۔
لیکن یہ کھانے کا کوئی وقت نہیں ہے۔ امامہ نے اُس کے ہاتھ سے چمچ کھینچ لیا اور ڈھکن سے کین بند کرنے لگی۔
ابھی تو واقعی ایک چمچ ہی کھائی ہے میں نے۔ وہ بے اختیار کراہا۔ دانت صاف کر کے سونا۔ امامہ نے اُس کے جملے کو نظر انداز کرتے ہوئے کین کو واپس فریزر میں رکھ دیا۔ حمین جیسے احتجاجاً اسی انداز میں سٹول پر بیٹھا رہا۔
ایک تو میں آج ہارا اور میں نے اپنا ٹائٹل کھو دیا۔ دوسرا آپ مجھے آئس کریم کے دو سکوپس تک نہیں لینے دے رہیں۔ اس نے جیسے ماں سے احتجاجاً کہا۔ وہ چند لمحوں کے لیے کاؤنٹر کے دوسری طرف کھڑی اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اُسے دیکھتی رہی پھر اُس نے مدہم آواز میں کہا۔
ٹائٹل تم نے اپنی مرضی سے کھویا ہے۔ تمہاری اپنی چوائس تھی یہ۔ حمین کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔ وہ ماں کو دیکھتا رہا پھر اُس نے کہا۔
who told you that?
یہ ضروری نہیں۔ امامہ نے کہا۔ 
آل رائٹ! مجھے پتہ ہے۔ اُس نے ماں سے نظریں ملائے بغیر کہا۔
کس نے؟ امامہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
بابا نے۔ اس کا جواب کھٹاک سے آیا تھا۔ وہ دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے کو ہاتھ کی پشت کی طرح جانتے تھے۔
بہت غلط کام تھا۔ تمہیں یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ امامہ نے جیسے اسے ملامت کرنے کی کوشش کی۔ 
تم نے یہ کیوں کیا؟ امامہ کو پوچھنا پڑا۔ 
آپ جانتی ہیں ممّی۔ وہ سٹول سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ 
رئیسہ کے لیے؟ امامہ نے وہ جواب دیا جس کی طرف اُس نے اشارہ کیا تھا۔
فیملی کے لیے۔۔۔۔۔۔ جواب کھٹاک سے آیا تھا۔ آپ نے سکھایا تھا اپنے بہن بھائیوں سے مقابلہ نہیں ہوتا۔ میں جیت جاتا تو اُسے ہرا کر ہی جیتتا نا۔ اُسے بہت دکھ ہوتا۔ امامہ بول نہیں سکی۔ وہ دس سال کا تھا لیکن بعض دفعہ وہ 100 سال کی عمر والوں جیسی باتیں کرتا تھا، اُسے سمجھ نہیں آئی، وہ اُس سے کیا کہتی۔ ڈانٹتی؟ نصیحت کرتی؟ حمین سکندر لاجواب نہیں کرتا تھا۔ بے بس کر دیتا تھا۔
“Goodnight” 
وہ اب وہاں سے چلا گیا تھا۔ امامہ اُسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔ اُن سب کا اُس کے بارے میں یہ خیال تھا کہ حمین صرف اپنے بارے میں سوچتا تھا، وہ لاپروا تھا، حسّاس نہیں تھا، نہ ہی وہ دوسروں کا زیادہ احساس کرتا تھا۔
بڑوں کے بعض خیالات اور بعض اندازے بچے بڑے غلط موقع پر غلط ثابت کرتے ہیں۔ امامہ چپ چاپ کھڑی اُسے جاتا دیکھتی رہی۔ سالار نے ٹھیک کہا تھا۔ اسے اپنی اولاد پر فخر ہوا تھا۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page