top of page

آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد

قسط نمبر آٹھارہ

بابا آپ رئیسہ سے بات کرسکتے ہیں؟ عنایہ نے ایک دو دن بعد سالار سے کہا، وہ اس وقت ابھی آفس سے واپس آیا تھا اور کچھ دیر میں اُسے پھر کہیں جانے کے لیے نکلنا تھا۔ جب عنایہ اس کے پاس آ گئی تھی اور اُس نے بنا تمہید اس سے کہا تھا۔
کس بارے میں؟ سالار نے جیسے کچھ حیران ہو کر پوچھا۔ فوری طور پر اُس کے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں آئی تھی، جس پر اُسے رئیسہ سے بات کرنی پڑتی۔
وہ اپ سیٹ ہے۔ وہی spelling bee کی وجہ سے۔ عنایہ نے اُس کو بتانا شروع کیا۔ میں اس کو سمجھا رہی ہوں۔ لیکن مجھے لگتا ہے، میری بات اسے سمجھ نہیں آرہیں۔ وہ دوبارہ spelling bee میں حصّہ لینا چاہتی ہے اور وہ ہر روز رات کو بیٹھ کر تیّاری کرتی ہے اور مجھے بھی کہتی ہے کہ میں اُس کی تیّاری کرواؤں۔ عنایہ اب اُسے تفصیل سے مسئلہ سمجھا رہی تھی۔
پہلے تو حمین تیّاری کروا رہا تھا اُسے۔ سالار کو یاد آیا۔
ہاں حمین اور میں نے دونوں نے کروائی تھی۔ لیکن اب وہ مجھ سے کہتی ہے کہ میں اُسے تیّاری کرواؤں۔ I don’t mind doing that لیکن مجھے نہیں پتہ کہ اسے دوبارہ حصّہ لینا چاہیے یا نہیں۔ پھر ابھی تو ایک سال پڑا ہے اس مقابلے میں۔ اسے اپنی سٹڈیز پر زیادہ دھیان دینا چاہیے۔ عنایہ دھیمے لہجے میں باپ کو سب بتاتی گئی تھی۔ 
سالار کو غلطی کا احساس ہوا، انہیں رئیسہ سے فوری طور پر بات کرنی چاہیے تھی۔ یہ ان کی غلط فہمی تھی کہ وہ ایک آدھ دن میں ٹھیک ہو جاتی۔
اُسے بھیجو۔ اُس نے عنایہ سے کہا، وہ چلی گئی۔ سالار نے اپنی گھڑی دیکھی۔ اُس کے پاس 20 منٹ تھے گھر سے نکلنے کے لیے۔ وہ کپڑے پہلے ہی تبدیل کر چکا تھا اور اب کچھ فائلز دیکھ رہا تھا۔ رئیسہ اور عنایہ امامہ کی نسبت اُس سے زیادہ قریب تھیں۔ اُنہیں جو بھی اہم بات کرنی ہوتی تھی وہ امامہ سے بھی پہلے سالار سے کرتی تھیں۔
بابا! دروازے پر دستک دے کر رئیسہ اندر داخل ہوئی تھی۔
آؤ بیٹا! صوفے پر بیٹھے ہوئے سالار نے استقبالیہ انداز میں اپنا ایک بازو پھیلایا تھا، وہ اُس کے قریب صوفہ پر آ کر بیٹھ گئی۔ سالار نے اُسے صوفہ سے اُٹھا کر سامنے پڑی سینٹر ٹیبل پر بٹھا دیا۔ وہ کچھ جز بز ہوئی تھی لیکن اُس نے احتجاج نہیں کیا، وہ دونوں اب بالکل آمنے سامنے تھے۔ سالار کچھ دیر کے لئے خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ گول شیشوں والی عینک سے اُسے دیکھتے ہوئے وہ ہمیشہ کی طرح بے حد توجہ سے اُس کی بات سننے کی منتظر تھی۔ اُس کے گھنے سیاہ بالوں میں بندھا ہوا ربن تھوڑا ڈھیلا تھا۔ جو اُس کے کندھوں سے کچھ نیچے جانے والے بالوں کو گُدّی سے لے کر سر کے بالکل درمیان تک باندھے ہوئے تھا لیکن ایک طرف ڈھلکا ہوا تھا۔ ماتھے پر آنے والے بالوں کو روکنے کے لئے رنگ برنگی ہیئر ربنز سے اُس کا سر بھرا ہوا تھا، یہ عنایہ کا کارنامہ تھا، رئیسہ کو ہیئر ربنز پسند تھے۔ سالار کو یاد بھی نہیں تھا وہ اُس کے لئے کتنے ربنز خرید چکا تھا لیکن ہر روز بدلے جانے والے کپڑوں کے ساتھ میچنگ ربنز دیکھ کر انہیں بھی اندازہ ہو جاتا تھا کہ رئیسہ اس معاملے میں خود کفیل تھی۔
عنایہ نے مجھے بتایا کہ تم اپ سیٹ ہو۔ سالار نے بالآخر بات کا آغاز کیا۔ وہ یک دم بلش ہوئی۔ 
نہیں…! نہیں تو۔ اس نے گڑبڑا کر سالار سے کہا۔ سالار اُسے دیکھتا رہا، رئیسہ نے چند لمحے اُس کی آنکھوں میں دیکھنے کی کوشش کی، پھر نظریں چُرالیں۔ پھر جیسے کچھ مدافعانہ انداز میں ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
“I am not very upset…. Just a little bit” 
اُس نے اب سر جھکا لیا تھا۔ 
“And why is that?” 
سالار نے جواباً پوچھا۔ 
“Because I am very unlcky” 
اس نے بے حد ہلکی آواز میں کہا۔ سالار بول ہی نہیں سکا۔ اُسے اُس سے اس جملے کی توقع نہیں تھی۔
“That’s so wrong to say Raeesa.”
سالار سیدھا بیٹھے بیٹھے آگے کو جھک گیا، وہ اب کہنیاں اپنے گھٹنوں پر ٹکائے اس کے دونوں ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔ اُس کے ہاتھوں پر آنسوؤں کے قطرے گرے تھے۔ وہ سر جھکائے باپ کے سامنے بیٹھی اب رو رہی تھی۔ اُس کے گلاسز دھندلا گئے تھے۔ سالار کو تکلیف ہوئی، یہ پہلا موقع تھا اُس نے رئیسہ کو اس طرح روتے دیکھا تھا۔ عنایہ بات بات پر رو پڑنے والی تھی، رئیسہ نہیں۔
“I am..........” 
وہ ہچکیوں کے درمیان کہہ رہی تھی۔
“No you are not” 
سالار نے اُس کے گلاسز اتارتے ہوئے انہیں میز پر رکھا اور رئیسہ کو اٹھا کر گود میں بٹھا لیا۔ وہ باپ کی گردن میں بازو ڈالے اُس کے ساتھ لپٹی ہوئی رو رہی تھی۔ جیسے spelling bee آج ہی ہاری تھی۔ سالار کچھ کہے بغیر console کرنے والے انداز میں اُسے تھپکتا رہا۔
“I let you down Baba” 
ہچکیوں کے درمیان اُس نے رئیسہ کو کہتے سنا۔ بالکل بھی نہیں رئیسہ …I am very proud of you سالار نے اُسے کہا۔ امامہ بالکل اُسی لمحے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آئی تھی اور وہیں ٹھٹھک گئی تھی، سالار نے ہونٹوں پر انگلی کے اشارے سے اُسے خاموش رہنے کا کہا تھا۔ 
میں نے اتنی محنت کی تھی۔ لیکن میں کبھی حمین، جبریل بھائی اور عنایہ آپی کی طرح کچھ بھی جیت نہیں سکتی۔ کیوں کہ میں lucky نہیں ہوں۔
وہ اس کے سینے میں منہ چھپائے اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی تھی۔ سالار کی طرح امامہ کو بھی عجیب تکلیف ہوئی تھی اُس کی اس بات سے۔ وہ صوفہ پر آ کر سالار کے برابر بیٹھ گئی تھی۔ کافی کا وہ مگ اُس نے ٹیبل پر رکھ دیا جو وہ سالار کو دینے آئی تھی۔ یہ سالار نہیں تھا امامہ تھی جس نے رئیسہ پر جان ماری تھی۔ اُس کی learning disabilities دور کرنے کے لئے۔ اُسے بولنا اور درست بولنا سکھانے کے لئے۔ اُسے پڑھنا لکھنا سکھانے کے لئے۔ سالار نے صرف اُسے adopt کیا تھا، امامہ نے اُس کی زندگی بدل دی تھی اور اُس کا خیال تھا اب سب کچھ ٹھیک تھا۔ لیکن وہ فرق جو وہ اپنے آپ میں اور اُن تینوں میں دیکھ رہی تھی۔ اُس نے ان دونوں کو ہی پریشان کیا تھا۔
وہ رونے دھونے کے بعد اب خاموش ہو گئی تھی، سالار نے اُسے خود سے الگ کرتے ہوئے کہا۔
“Enough?”
رئیسہ نے گیلے چہرے کے ساتھ سر ہلایا۔ اُس کے بال ایک بار پھر بے ترتیب تھے۔ ربن ایک بار پھر ڈھیلا ہو چکا تھا۔ سالار سے الگ ہوتے ہوئے اُس نے امامہ کو دیکھا تھا اور جیسے کچھ اور نادم ہوئی۔ سالار نے اُسے ایک بار پھر ٹیبل پر بٹھا دیا۔
تمہیں کیوں لگتا ہے۔ وہ تینوں lucky ہیں اور تم نہیں؟ سالار نے اُسے بٹھانے کے بعد اُس کے گیلے گلاسز اٹھا کر ٹشو سے اس کے شیشے رگڑتے ہوئے اُس سے پوچھا۔
کیوں کہ وہ جس چیز میں حصّہ لیتے ہیں جیت جاتے ہیں، میں نہیں جیتتی۔ وہ ایک بار پھر رنجیدہ ہوئی۔ وہ ایگزامز میں مجھ سے اچھے گریڈز لیتے ہیں، میں کبھی اے پلس نہیں لے سکتی۔ میں کوئی بھی ایسا کام نہیں کر سکتی جو وہ نہیں کر سکتے۔ لیکن وہ بہت سے ایسے کام کر سکتے ہیں جو میں نہیں کر سکتی۔
آٹھ سال کی وہ بچی above average تھی۔ لیکن اُس کا تجزیہ excellent تھا۔
دنیا میں صرف ہر مقابلہ جیتنے والے lucky نہیں ہوتے۔ سب کچھ کر جانے والے lucky نہیں ہوتے۔ Lucky وہ ہوتے ہیں، جنہیں یہ پتہ چل جائے کہ وہ کس کام میں اچھے ہیں اور پھر وہ اُس کام میں excel کریں اور فالتو کاموں میں اپنی energy ضائع نہ کریں۔ وہ اب اسے سمجھا رہا تھا۔ رئیسہ کے آنسو تھم چکے تھے وہ اب باپ کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”You have done exceptionally well 
لیکن بس تم spelling bee میں اتنا ہی اچھا پرفارم کر سکتی تھی۔ وہاں کچھ بچے ایسے ہوں گے جو تم سے زیادہ اچھے تھے اور انہوں نے تمہیں ہرا دیا۔ لیکن اُن درجنوں بچوں کا سوچو جنہیں تم ہرا کر فائنل راؤنڈ میں پہنچی تھی، کیا وہ بھی unlucky ہیں؟ وہ کیا یہ سوچ لیں کہ وہ ہمیشہ ہارتے رہیں گے؟ سالار اُس سے پوچھ رہا تھا، رئیسہ نے بے اختیار سر نفی میں ہلایا۔
حمین، جبریل اور عنایہ کبھی سپورٹس میں اتنے exceptional نہیں رہے، جتنے بہت سے دوسرے بچے ہیں۔ اس لئے یہ مت کہو وہ سب کر سکتے ہیں۔ اس بار امامہ نے اُسے سمجھایا، رئیسہ نے سر ہلایا۔ بات ٹھیک تھی، وہ سپورٹس میں اچھے تھے لیکن وہ سپورٹس میں اپنے سکولز کے سب سے نمایاں اسٹوڈنٹس نہیں تھے۔
تمہیں اب یہ دیکھنا ہے کہ تم کس چیز میں بہت اچھا کر سکتی ہو اور پھر تمہیں اُسی چیز میں دل لگا کر کام کرنا ہے۔ کوئی بھی کام اس لئے نہیں کرنا کہ وہ جبریل، حمین اور عنایہ کر رہے ہیں۔ سالار نے بے حد سنجیدگی سے کہا تھا۔
یہ ضروری نہیں ہوتا کہ صرف اے پلس والا ہی زندگی میں بڑے کام کرے گا۔ بڑا کام اور کامیابی تو اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ تم دعا کیا کرو کہ اللہ تم سے بہت بڑے کام کروائے اور تمہیں بہت کامیابی دے۔ رئیسہ نے اُن گلاسز کو ٹھیک کیا جو سالار نے اُسے لگائے تھے۔ 
تم رئیسہ ہو۔ حمین، جبریل اور عنایہ نہیں ہو۔ اور ہاں تم اُن سے الگ ہو that’s the best thing الگ ہونا بہت اچھی چیز ہوتا ہے رئیسہ اور زندگی spelling bee کا ایک مقابلہ نہیں ہوتا جس میں کچھ لفظ spell کر کے ٹائٹل جیتنے کے بعد ہم خود کو lucky اور نہ جیتنے پر unlucky سمجھیں۔ وہ اب اُس کا ربن دوبارہ باندھ رہا تھا، بال ٹھیک کرتے ہوئے۔
زندگی میں words کو spell کرنے کے علاوہ بھی بہت ساری skills چاہیے۔ ایک، دو نہیں۔ 100-50 اور تمہارے پاس بہت ساری skills ہیں۔ اور بھی آئیں گی۔ You will shine like a star جس جگہ بھی جاؤ گی، جو بھی کرو گی۔
رئیسہ کی آنکھیں، چہرہ اور ہونٹ بیک وقت چمکے تھے۔
اور پتہ ہے صحیح معنوں میں lucky کون ہوتا ہے؟ وہ جس کی اچھائی اور اخلاق لوگوں کو اُسے یاد رکھنے پر مجبور کر دے اور تم میری بہت اچھی اور بہت اخلاق والی lucky بیٹی ہو۔ وہ اب ٹیبل سے اُتر کر باپ کے گلے لگی تھی، جیسے اُسے سمجھ آ گئی تھی کہ وہ اسے کیا سمجھانا چاہ رہا تھا۔
“Yes I am” 
اُس نے بڑی گرم جوشی سے سالار سے کہا، اُس سے الگ ہو کر وہ امامہ کے گلے لگی۔ امامہ نے اُس کی ہیئر ربنز نکال کر ایک ٹھیک کیں۔
سالار نے کافی کا ایک سپ لیا اور اُسے ادھورا چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا، اُسے تاخیر ہو رہی تھی۔
بابا مجھ سے خفا تو نہیں ہوئے نا؟ سالار کے جانے کے بعد رئیسہ نے امامہ سے پوچھا۔ 
نہیں خفا نہیں ہوئے۔ لیکن تمہارے رونے سے ہمارا دل دُکھا۔ امامہ نے جواباً کہا۔ 
”I am so sorry Mummy… 
میں دوبارہ کبھی نہیں روؤں گی۔ اُس نے امامہ سے وعدہ کیا، امامہ نے اُسے تھپکا۔
تم میری بہادر بیٹی ہو۔ عنایہ آپی کی طرح بات بات پر رونے والی تو نہیں۔ رئیسہ نے پرجوش انداز میں سر ہلایا، اُس کے ماں باپ اُسے سب سے زیادہ بہادر اور اخلاق والا سمجھتے تھے اور یہ اُسے پتہ ہی نہیں تھا۔ وہ بات چیت آٹھ سالہ رئیسہ کے ذہن پر نقش ہو گئی تھی۔ امامہ اور سالار کو دوبارہ کبھی اُس کو ایسی کسی بات پر سمجھانا نہیں پڑا تھا۔ اُسے اب یہ طے کرنا تھا کہ وہ کس کام میں اچھی تھی کس کام میں excel کر سکتی تھی۔ اُس کے باپ نے اُسے کہا تھا۔ lucky وہ تھا، جو یہ بوجھ لیتا اور پھر اپنی energy کسی اور چیز میں ضائع کرنے کے بجائے اسی ایک چیز میں لگاتا۔ رئیسہ بھی lucky کی اس نئی تعریف پر پورا اُترنے کی جد و جہد میں مصروف تھی۔
*************
حمین سکندر کا انتخاب MIT کے SPLASH پروگرام میں ہو گیا تھا۔ وہ اپنے سکول کے اس پروگرام کے لئے منتخب ہونے والا پہلا اور واحد بچہ تھا۔ اس پروگرام کے تحت MIT ہر سال غیر معمولی ذہانت کے حامل کچھ بچوں کو دنیا کی اُس ممتاز ترین یونیورسٹی میں چند ہفتے گزارنے اور وہاں پڑھانے والے دُنیا کے قابل ترین اساتذہ سے سیکھنے کا موقع دیتی۔ یہ بہترین دماغوں کو بے حد کم عمری میں ہی کھوجنے، پرکھنے اور چننے کا MIT کا اپنا ایک عمل تھا۔
امامہ اور سالار کے لئے حمین سکندر کے سکول کی طرح یہ بے حد اعزاز کی بات تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ یہ جاننے پر کہ حمین سکندر کا انتخاب ہو گیا تھا، فکرمند ہوئے تھے۔ وہ جبریل سکندر کو تن تنہا کہیں بھی بھیج سکتے تھے لیکن حمین کو اکیلے، اس عمر میں، اتنے ہفتوں کے لئے کہیں بھیجنا ان کے لئے بے حد مشکل فیصلہ تھا۔ خاص طور پر امامہ کے لئے جو اُس دس سال کے بچّے کو خود سے الگ کر کے اس طرح اکیلے بھیجنے پر بالکل تیّار نہیں تھی لیکن یہ سکول کا اصرار اور حمین کی ضد تھی جس نے اُسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔
ہم ان کی قسمت کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔ کل کیا ہوتا ہے؟ کس طرح ہوتا ہے؟ کوئی چیز ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے، تو میں مستقبل کے خوف کی وجہ سے انہیں گھر میں قید نہیں کروں گا کہ دنیا انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔ سالار نے واضح طور پر اُسے کہا تھا۔
اُسے جانے دو۔ دیکھنے اور کھوجنے دو دنیا کو۔ ہماری تربیت اچھی ہو گی تو کچھ نہیں ہو گا اسے۔ اُس نے امامہ کو تسلّی دی اور وہ بھاری دل سے مان گئی تھی۔
حمین سکندر ساڑھے دس سال کی عمر میں پہلی بار MIT کی دنیا کھوجنے گیا تھا۔ ایک عجیب تجسس اور جوش و خروش کے ساتھ۔ MIT سے زیادہ اُسے اس بات پر ایکسائٹمنٹ ہو رہی تھی کہ وہ کہیں اکیلا جا رہا تھا۔ کسی بڑے کی طرح۔
اُسے گھر سے بھیجتے ہوئے اُن سب کا خیال تھا، وہ وہاں چند دن سے زیادہ نہیں رہ پائے گا ایڈجسٹ نہیں ہو گا۔ Home sick ہو جائے گا اور واپس آنے کی ضد کرے گا اُن کی توقعات بالکل غلط ثابت ہوئی تھیں۔ ایسا بالکل نہیں ہوا تھا۔ حمین سکندر وقتی طور پر ہی سہی لیکن وہاں جا کر وہ سب کچھ بھول گیا تھا۔ وہ ”دُنیا” تھی اور ”دُنیا” نے اس ساڑھے دس سال کے بچّے کو بری طرح fascinate کیا تھا۔ اُس دنیا میں ذہانت واحد شناختی علامت تھی اور وہ بے حد ذہین تھا۔ وہاں سے واپس آتے ہوئے وہ اپنے ماں باپ کے لئے یہ خوش خبری بھی لایا تھا کہ SPLASH میں آنے والا دنیا کا ذہین ترین دماغ قرار دیا گیا تھا۔ 150 کی ذہانت رکھنے والے صرف چند بچوں میں سے ایک۔ جنہوں نے اس پروگرام کو اس شناخت کے ساتھ اٹینڈ کیا تھا اور اپنی صلاحیتوں کے حساب سے اُن بچوں میں سرفہرست۔ حمین سکندر کو نہ صرف اُس کی ذہنی صلاحیتوں کی وجہ سے سنگل آؤٹ کیا گیا تھا بلکہ MIT نے اُسے ان بچوں میں بھی سر فہرست رکھا تھا جن کی پرورش MIT مستقبل کے ذہین ترین دماغوں کی کھوج کے پروگرام کے تحت کرنا چاہتی تھی۔ اور حمین بے حد خوش تھا اس سب کے اغراض و مقاصد سے پوری طرح باخبر نہ ہونے کے باوجود وہ صرف اسی بات پر خوش تھا کہ اُسے اب بار با رMIT میں جانے کے مواقع ملنے والے تھے کیوں کہ اُس ادارے نے کچھ منتخب بچوں کے لئے ہر سال MIT کے کچھ پروگرامز میں شرکت اوپن کر دی تھی۔ یہ اُن بچوں کی ذہانت کو ایک tribute یا previlage تھی۔
مجھے ہر سال وہاں جانا ہے۔ اس نے گھر آتے ہی کھانے پر ماں باپ کو اطلاع دی تھی۔ جنہوں نے اُس کی بات کو زیادہ توجہ سے نہیں سنا تھا۔ اگر کسی چیز پر سالار سکندر نے غور کیا تھا تو وہ یہ تھی کہ وہ اتنے دن اُن سے الگ رہنے کے باوجود بے حد خوش اور مطمئن تھا۔
نہیں میں نے کسی کو miss نہیں کیا۔ میں نے وہاں بہت انجوائے کیا۔ اُس نے اپنی ازلی صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امامہ کی ایک بات کے جواب میں اعلان کیا تھا اور وہ دونوں اسے دیکھ کر رہ گئے 
تھے۔ وہ بڑا ہوتا اور ایسی بات کرتا تو وہ زیادہ غور نہ کرتے لیکن وہ ایک بچہ تھا اور اگر کسی جگہ کے ماحول میں اس قدر مگن ہو گیا تھا کہ اسے اپنی فیملی بھی بھول گئی تھی اور وہ اپنے گھر اور گھر والوں سے strong bonding ہونے کے باوجود انہیں بھول گیا تھا تو یہ کوئی بڑی حوصلہ افزا بات نہیں تھی اُن دونوں کے لئے۔
آپ کو پتہ ہے بابا! مجھے اگلے سال ڈھیر ساری previlages ملیں گی، جب میں وہاں جاؤں گا پھر اُس سے اگلے سال اُس سے بھی زیادہ۔ پھر اُس سے اگلے سال اُس سے بھی زیادہ۔ وہ بے حد ایکسائٹمنٹ سے اُن دونوں کو بتا رہا تھا جیسے وہ یہ پلان خود ہی کر کے آیا تھا کہ اُسے اب وہاں ہر سال جانا تھا۔
آپ کو پتہ ہے، میں MIT کے کسی بھی Summer program کے لئے اپلائی کروں تو مجھے enrol کر لیں گے وہ، اور مجھ سے کوئی فیس نہیں لیں گے، بلکہ مجھے وہاں سب کچھ فری ملے گا۔ اُس کا خیال تھا اُس کے ماں باپ اس خبر پر اُس کی طرح ایکسائٹڈ ہو جائیں گے۔ وہ ایکسائٹڈ نہیں ہوئے تھے، وہ سوچ میں پڑ گئے تھے۔
تو بابا آپ مجھے ہر سال وہاں بھیجا کریں گے نا؟” اس نے بالآخر سالار سے کہا۔ وہ جیسے آتے ہی جانے کی یقین دہانی چاہتا تھا۔
اگلا سال بہت دور ہے حمین۔ جب اگلا سال آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ سالار نے گول مول انداز میں اُس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
لیکن ہمیں پلاننگ تو ابھی سے کرنی چاہیے نا۔ وہ حمین کو دیکھ کر رہ گیا تھا۔ وہ پہلی بار کام کو پلان کرنے کی بات کر رہا تھا یہ اُس ننھے ذہن پر MIT کا پہلا اثر تھا۔
میں نے سوچا ہے۔ میں MIT سے ہی پڑھوں گا۔ اس نے جیسے باپ کو بتایا تھا۔ ”بہت زیادہ” وہ دونوں اُس کی بات سے محفوظ ہوئے۔ وہاں جانے سے پہلے تک وہ تعلیم میں دلچسپی نہ رکھنے کا اعلان کرتا رہتا تھا اور اُس کو یقین تھا دُنیا کا بڑا انسان وہ ہوتا ہے جو صرف ہائی سکول تک پڑھے اور بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ چونکہ خود بھی ایک بڑا انسان بننا چاہتا تھا تو وہ بھی صرف ہائی سکول تک ہی پڑھنا چاہتا تھا۔
اور اُس کے بعد؟” سالار نے اُس سے پوچھا۔
اُس کے بعد میں نوبل جیتوں گا۔ اُس نے بے حد اطمینان سے کہا تھا۔ یوں جیسے وہ spelling bee کی بات کر رہا ہو۔ وہ دونوں اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئے۔
**********
آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں پاپا؟ سالار نے بے حد نرمی سے سکندر عثمان سے پوچھا تھا۔ وہ دو گھنٹے سے اُن کے پاس بیٹھا، باتیں کرنے سے زیادہ اُن کی باتیں سن رہا تھا۔ ان کی گفتگو میں اب الزائمر جھلکنے لگا تھا۔ وہ جملوں کے درمیان رک کر کسی لفظ کو یاد نہ آنے پر گڑبڑاتے، اُلجھتے، جھلاتے، اور بھول جاتے۔ اور پھر وہ بات کرتے کرتے اٹھ کر کمرے میں ادھر ادھر جاتے ہوئے چیزیں اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگے تھے۔ یوں جیسے انہیں کسی چیز کی تلاش تھی۔ سالار نے انہیں بالآخر ٹوک کر پوچھ ہی لیا تھا۔
یہیں رکھا تھا۔ انہوں نے سالار کے جواب میں کہا، وہ اپنے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل کے پاس کھڑے تھے۔ سالار بہت دور صوفہ پر بیٹھا ہوا تھا۔
کیا؟ سالار نے کُریدا۔ 
ایک سگار باکس کامران نے بھیجا تھا، وہی دکھانا چاہتا تھا تمہیں۔” انہوں نے بے حد ایکسائٹڈ انداز میں کہا اور ایک بار پھر تلاش شروع کر دی۔ سگار باکس چھوٹی چیز نہیں تھا وہ اس کے باوجود اُسے تکیے اٹھا اٹھا کر ڈھونڈ رہے تھے۔ پتہ نہیں اُس وقت ان کے ذہن میں ڈھونڈنے والی چیز کی کوئی شکل بھی تھی یا نہیں۔ وہ الزائمر کے اُس مریض کو پہلی بار اس حالت میںمرض کے اثرات کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ جو اُس کا باپ تھا۔
شاید ملازم نے کہیں رکھا ہے۔ میں اُسے بلاتا ہوں۔ انہوں نے بالآخر تھک کے کہا تھا۔ وہ اب واپس سالار کے پاس آ کر بیٹھ گئے تھے اور انہوں نے اُسے آوازیں دینا شروع کر دیں۔ سالار نے اُنہیں ٹوکا۔
پاپا انٹرکام ہے اس کے ذریعہ بلائیں۔ سالار نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا انٹرکام کا ریسیور اٹھاتے ہوئے باپ سے کہا۔
اس سے وہ نہیں آتا۔ انہوں نے جواباً کہا اور دوبارہ اُسے آوازیں لگانے لگے۔ وہ ایک ہی سانس میں جسے آوازیں دے رہے تھے اُن کے گھر اس وقت وہ ملازم موجود نہیں تھا، وہ چھٹی پر تھا اور سالار یہ جانتا تھا۔ وہ اُن کا پرانا ملازم تھا، اُسے لگا اُسے باپ کی مدد کرنی چاہیے۔ ملازم کو خود بلانا چاہیے۔
نمبر بتا دیں. میں بلاتا ہوں اُسے۔ سالار نے سکندر عثمان کو ایک بار پھر ٹوکا تھا۔
نمبر نہیں پتہ، ٹھہرو میں فون سے دیتا ہوں تمہیں۔ انہوں نے اُس کی بات کے جواب میں کہا تھا اور پھر رکے بغیر اپنی جیبیں ٹٹولنے لگے۔ سالار عجیب کیفیت میں انٹرکام کا ریسیور ہاتھ میں لئے بیٹھا رہا
وہ سیل فون جسے اُس کا باپ تلاش کر رہا تھا وہ سامنے میز پر پڑا تھا۔ وہ اُس انٹرکام کے نمبر کو، اپنے سیل فون کی یادداشت میں ڈھونڈنا چاہتا تھا۔ اور وہ انٹرکام پر اُس ملازم کا یک حرفی نمبر یاد نہیں رکھ پاتا تھا۔ وہ الزائمر کے جن کے ہاتھوں اپنے باپ کو زیر ہوتے دیکھ رہا تھا، تکلیف بڑا چھوٹا لفظ تھا اس کیفیت کے لئے جو اُس نے محسوس کی تھی۔ وہ بہت عرصے کے بعد امامہ اور بچوں کے ساتھ دو ہفتے کے لئے پاکستان آیا تھا۔ طیّبہ کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی اور سالار اور اُس کی ملاقات کئی مہینوں سے نہیں ہوئی تھی اور اب وہ طیّبہ کے ہی بے حد اصرار پر بالآخر پاکستان آیا تھا اپنی فیملی کے ساتھ تو اپنے والدین کی حالت کو دیکھ کر بہت اپ سیٹ ہوا تھا۔خاص طور پر سکندر عثمان کو دیکھ کر۔
اُس نے انہیں ہمیشہ بے حد صحت مند اور چاق و چوبند دیکھا تھا۔ وہ ایک مشین کی طرح کام کرتے رہے تھے ساری زندگی۔ اور کام اُن کی زندگی کی سب سے پسندیدہ تفریح تھی اور اب وہ بڑی حد تک گھر تک محدود ہو گئے تھے۔ گھر میں سکندر عثمان اور نوکروں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔
اسلام آباد میں ہی مقیم سالار کا بڑا بھائی اپنی فیملی کے ساتھ اپنے گھر میں رہتا تھا۔ وہ سکندر عثمان اور طیّبہ کو اپنے ساتھ تو رکھنے پر تیّار تھا لیکن وہ، اُس کے بیوی، بچے، سکندر عثمان کے اُس پرانے گھر میں شفٹ ہونے پر تیّار نہیں تھے اور طیّبہ اور سکندر عثمان اپنا گھر چھوڑ کر بیٹے کے گھر نہیں جانا چاہتے تھے۔ سالار سمیت سکندر کے تینوں بیٹے بیرونِ ملک تھے، بیٹی کراچی۔ وہ گھر جو کسی زمانے میں افراد خانہ کی چہل پہل سے گونجتا تھا اب خالی ہو چکا تھا۔ سالار پہلی بار سکندر عثمان کی بیماری کے انکشاف پر بھی بے حد اپ سیٹ ہوا تھا۔ وہ انکشاف اُس پر اُس کی سرجری کے کئی مہینوں بعد ہوا تھا اور وہ بھی بے حد اتفاقی انداز میں جب سکندر عثمان اپنے ایک طبّی معائنے کے لئے امریکہ گئے تھے اور سالار کو اُن کی بیماری کی تفصیلات کا پتہ چلا تھا۔
آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟ اُس نے سکندر عثمان سے شکایت کی تھی۔ انہوں نے جواباً لاپروا انداز میں ہنستے ہوئے کہا تھا۔
کیا بتاتا یار۔ مجھے اپنی بیماری سے زیادہ تمہاری بیماری کا دُکھ ہے۔ میں 70 کا ہو چکا ہوں کوئی بیماری ہو نہ ہو کتنا جیوں گا میں؟ اور اس عمر میں الزائمر کے بغیر بھی کچھ یاد نہیں رہتا انسان کو۔ وہ اپنی بیماری کو معمول بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایسے جیسے یہ کوئی چیز ہی نہیں تھی۔
اور اب وہی بیماری اُس کے سامنے اُس کے باپ کی یادداشت کو گُھن کی طرح کھانے لگی تھی۔
زندگی عجیب شے ہے، انسان اُس کے طویل ہونے کی دعا بھی کرتا ہے اور اس کی طوالت کے اثرات سے ڈرتا بھی ہے۔
سکندر عثمان ابھی تک سیل فون ڈھونڈتے جا رہے تھے۔ سالار نے فون اُٹھا کر اپنے باپ کے ہاتھ میں دے دیا۔
اوہ… اچھا…ہاں… یہ رہا… انہوں نے فون ہاتھ میں لیا پھر سوچنے لگے تھے، کس لیے لیا تھا۔
یہ فون کس لیے دیا ہے تم نے؟ میں نے مانگا تھا کیا؟ وہ اب اُس سے پوچھ رہے تھے، کوئی چیز سالار کے حلق میں گولہ بن کر پھنسی۔
نہیں، بس میں دینا چاہ رہا تھا آپ کو۔ وہ کہتے ہوئے یک دم اُٹھ گیا۔ وہ باپ کے سامنے رونا نہیں چاہتا تھا۔
تم اتنی جلدی جا رہے ہو، کیا اور نہیں بیٹھو گے؟ وہ جیسے مایوس ہوئے تھے۔
بیٹھوں گا، تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔ وہ اُن سے نظریں چراتا بھرّائی آواز میں کہتا ہوا وہاں سے نکل گیا تھا۔
اپنے بیڈ روم سے متصل باتھ روم میں، باتھ ٹب کے کنارے بیٹھا وہ خود پر قابو نہیں رکھ سکا تھا۔ وہ سکندر عثمان کے بے حد قریب تھا اور یہ قربت آج عجیب طرح سے اذیّت دے رہی تھی اُسے۔ وہ اپنی زندگی کے ہنگاموں میں اتنا مصروف رہا تھا کہ اُس نے سکندر عثمان کی بگڑتی ہوئی ذہنی حالت کو نوٹس ہی نہیں کیا تھا۔ نوٹس تو تب کرتا جب وہ اُن سے باقاعدگی سے مل پاتا۔ SIF اُسے گرداب کی طرح الجھائے ہوئے تھا اُس کے پروجیکٹس نے اب اس کے پیروں کو پروں میں تبدیل کر دیا تھا۔ وہ سفر میں رہتا تھا۔ چار پانچ سال میں SIF دنیا کی بڑی فنانشل مارکیٹس میں ایک شناخت بنا رہا تھا۔ بے حد منفرد انداز میں تیز رفتار ترقی کے ساتھ۔ کام کی اس رفتار نے اُسے بہت سی چیزوں سے بے خبر بھی کیا تھا۔ وہاں بیٹھے ہوئے اُس نے اعتراف کیا تھا اور اب وہ حل ڈھونڈ رہا تھا اور حل ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہا تھا۔ وہ دونوں اُن کے ساتھ مستقل امریکہ شفٹ ہونے پر کبھی تیار نہیں ہوتے، سالار کو اس کا اندازہ تھا اور امریکہ چھوڑ کر اُن کے پاس مستقل آجانا سالار کے لئے ممکن نہیں تھا۔ اس کے باوجود حل سامنے تھا۔ بے حد مشکل تھا، لیکن موجود تھا

امامہ تم بچوں کے ساتھ پاکستان شفٹ ہو جاؤ۔” اُس رات اُس نے بالآخر انتظار کیے بغیر وہ حل امامہ کے سامنے پیش کر دیا تھا۔ امامہ کو اس کی بات سمجھ میں ہی نہیں آئی تھی۔
”کیا مطلب” میں چاہتا ہوں تم حمین، عنایہ اور رئیسہ کے ساتھ پاکستان آجاؤ۔ میرے پیرنٹس کو میری ضرورت ہے، میں اُن کے پاس نہیں ٹھہر سکتا لیکن میں انہیں اس حالت میں اکیلا بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ تم نے دیکھا ہے پاپا کو۔” وہ بے حد رنجیدہ تھا۔
”ہم انہیں اپنے پاس رکھ سکتے ہیں وہاں امریکہ میں…” امامہ نے جیسے ایک تجویز پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔
”وہ یہ گھر نہیں چھوڑیں گے اور میں اس عمر میں انہیں اور اپ سیٹ کرنا نہیں چاہتا۔ تم لوگ یہاں شفٹ ہو جاؤ… میں آتا جاتا رہوں گا… جبریل ویسے بھی یونیورسٹی میں ہے، اُسے گھر کی ضرورت نہیں ہے اور میں تو امریکہ میں بھی سفر ہی کرتا رہتا ہوں زیادہ۔ مجھے وہاں فیملی کے ہونے نہ ہونے سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔” وہ اُس سے نظریں ملائے بغیر کہہ رہا تھا۔ امامہ اُس کا چہرہ دیکھتی رہی وہ سب کچھ اس طرح آسان بنا کر پیش کر رہا تھا جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ دو منٹوں کا کام تھا جو کیا جا سکتا تھا۔
”تمہارے اپنے پیرنٹس بھی ہیں یہاں، وہ بھی بہت بوڑھے ہیں۔ تم یہاں رہو گی تو ان سب کی دیکھ بھال کرسکو گی…” وہ اُس سے کہہ رہا تھا۔ امامہ نے کچھ خفگی سے اُس سے کہا۔
”تم یہ سب میرے پیرنٹس کے لئے نہیں کر رہے سالار۔ اس لئے ان کا حوالہ نہ دو۔”
”تم ان کے بارے میں فکر مند نہیں ہوتی کیا؟ انہیں اس عمر میں دیکھ بھال کی ضرورت ہوگی… کوئی 24 گھنٹے ساتھ نہ رہے، چند گھنٹے ہی رہے لیکن حال چال پوچھنے والا ہو۔” وہ کہہ رہا تھا۔ اپنے پیرنٹس کی بات کرنے سے زیادہ اُس کے پیرنٹس کی بات کر رہا تھا۔ امامہ کو بُرا لگا… اُسے اس جذباتی بلیک میلنگ کی ضرورت نہیں تھی۔
”سالار اتنے سالوں میں کبھی پہلے تم نے میرے پیرنٹس کی دیکھ بھال کو ایشو بنا کر مجھے پاکستان میں رکھنے کی بات نہیں کی۔ آج بھی اُن کو ایشو نہ بناؤ۔” وہ کہے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔
”ہاں نہیں کی تھی کیوں کہ آج سے پہلے میں نے کبھی اپنے پیرنٹس کا یہ حال بھی نہیں دیکھا تھا۔” اُس نے جواباً کہا۔ وہ قائل نہیں ہوئی۔
”مجھے جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔” اُس نے اسی انداز میں کہا تھا۔
”تم ان کے پاس رہنا نہیں چاہتی؟ یہاں میرے گھر پر؟” سالار نے دو ٹوک انداز میں اُس سے پوچھا۔
”میں تمہارے ساتھ بھی رہنا چاہتی ہوں۔” اُس نے جواباً کہا۔ سالار نے اُس سے نظریں چُرا لیں۔
”اُن سب کو تمہاری ضرورت ہے امامہ۔” 
”اور تم؟ تمہیں میری ضرورت نہیں ہے؟” امامہ نے گِلہ کیا تھا۔
”ان سب کے پاس زندگی کے زیادہ سال نہیں ہیں۔ میں یہ بوجھ اپنے ضمیر پر نہیں لینا چاہتا کہ میں نے زندگی کے آخری سالوں میں اپنے ماں باپ کی پروا نہیں کی۔” وہ کہہ رہا تھا۔ وہ اُس سے کہہ نہیں سکی وہ اُس کے ساتھ بھی تو اسی لئے چپکی رہنا چاہتی تھی۔ اُسے بھی تو اُس کی زندگی کا پتہ نہیں تھا۔ ڈاکٹرز نے کہا تھا 5-7 سال۔ زیادہ سے زیاہ دس سال۔ اور وہ اُسے اُس سے بھی پہلے اپنے سے الگ کررہا تھا۔ وہ یہ ساری باتیں سوچنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ زندگی کے کسی بھیانک خواب کے بارے میں… مستقبل کے بُرے دنوں کے بارے میں… وہ فی الحال صرف حال کے بارے میں سوچنا چاہتی تھی… جو سامنے تھا… جو آج تھا… وہ اُسی میں جینا چاہتی تھی۔ ”تمہیں میری ضرورت ہے سالار… اکیلے تم کیسے رہو گے؟” وہ اُس سے کہہ رہی تھی۔” میں رہ لوں گا امامہ… تم جانتی ہو میں کام میں مصروف رہتا ہوں تو مجھے سب کچھ بھول جاتا ہے۔” یہ سچ تھا لیکن اُس کو نہیں کہنا چاہیے تھا۔ امامہ ہرٹ ہوئی تھی وہ کچھ بول نہیں سکی اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے پل میں بھر گئی تھیں۔سالار اُس کے برابر صوفہ پر بیٹھا تھا اُس نے امامہ سے نظریں چُرانے کی کوشش کی تھی نہیں چرا سکا۔
”زندگی میں انسان صرف اپنی ضرورتوں کے بارے میں سوچتا رہے تو خود غرض ہوجاتا ہے۔” اُس نے امامہ کو جیسے وضاحت ایک فلاسفی میں لپٹ کر پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔امامہ قائل نہیں ہوئی۔
”مجھے پتہ ہے تمہیں ضرورت نہیں ہے… نہ میری نہ بچوں کی۔ تمہارے لئے کام کافی ہے… کام تمہاری فیملی ہے، تمہاری تفریح بھی… لیکن میری زندگی میں تمہارے اور بچوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ میرا کام اور تفریح صرف تم لوگ ہو۔” اُس نے بھرائی ہوئی آواز میں گلہ بھی کیا ، اُس کی بے حسی بھی بتائی، اپنی مجبوری بھی سنائی۔
”تم یہ نہیں سوچتے کہ تم ابھی انڈر ٹریٹمنٹ ہو، تمہیں بھی کسی خیال رکھنے والے کی ضرورت ہے۔” وہ جیسے اُسے یاد دلا رہی تھی بیماری کا نام لئے بغیر، کہ اُسے بھی تیمار دار کی ضرورت تھی۔
”پرانی بات ہوگئی امامہ… میں ٹھیک ہوں پانچ سال سے اس بیماری کے ساتھ زندگی گزاررہا ہوں… کچھ نہیں ہوتا مجھے۔” اس نے جیسے امامہ کے خدشات دیوار پر پڑھ کر بھی پھونک سے انہیں اڑایا تھا۔
”میں پاپا کو اس حال میں یہاں اس طرح نہیں چھوڑ سکتا نوکروں کے سر پر… میں حمین کو اُن کے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔ لیکن میں حمین کو اکیلا یہاں نہیں رکھ سکتا اس لئے تمہاری ضرورت ہے اس گھر کو۔ تم اسے request سمجھو… خود غرضی یا پھر اصرار… لیکن میں چاہتا ہوں تم پاکستان آجاؤ… یہاں اس گھر میں۔” اس نے سالار کی آواز اور آنکھوں میں رنجیدگی دیکھی تھی۔
”میرے لئے تمہارے بغیر رہنا بے حد مشکل ہے… میں عادی ہو گیا ہوں تمہارا بچوں کا… گھر کے آرام کا… لیکن میرے ماں باپ کے بے حد احسانات ہیں ہم پر…صرف مجھ پر ہی نہیں ہم دونوں پر… میں اپنی comfort کو اُن کی comfort کے لئے چھوڑنے کا حوصلہ رکھتا ہوں… یہ فرض ہے مجھ پر۔” وہ جو کچھ اُس سے کہہ رہا تھا وہ مشورہ اور رائے نہیں تھی نہ ہی درخواست…وہ فیصلہ تھا جو وہ کر چکا تھا اور اب صرف اُسے سنا رہا تھا۔
وہ اُس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی وہ غلط نہیں کہہ رہا تھا لیکن غلط وقت پر کہہ رہا تھا، وہ اُس سے قربانی مانگ رہا تھا لیکن بہت بڑی مانگ رہا تھا۔ وہ کچھ بھی کہے بغیر اُس کے پاس سے اُٹھ گئی تھی۔ وہ saint نہیں تھی لیکن یہ بات سالار کو سمجھ نہیں آتی تھی۔
*****
دو ہفتوں کے بعد امریکہ واپس جاتے ہوئے سالار نے سکندر عثمان کو اپنے فیصلے کے بارے میں بتایا تھا وہ خوش نہیں ہوئے تھے۔
”نہیں بے وقوفی کی بات ہے یہ… امامہ اور بچوں کو یہاں شفٹ کرنا۔” انہوں نے فوری طور پر کہا تھا۔ ”ان کی سٹڈیز کا ہحج ہوگا اوریہاں کیوں لارہے ہو اُنہیں تُک کیا بنتی ہے؟” سالار نے انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ اُن کے لئے کررہا تھا یہ سب۔
”بس پاپا! وہاں مشکل ہورہا ہے سب کچھ manage کرنا، مالی طور پر۔” اُس نے باپ سے جھوٹ بولا وہ انہیں زیرِ احسان کرنا نہیں چاہتا تھا۔ ”بہت زیادہ ہوتے جارہے ہیں وہاں اخراجات۔ saving بالکل نہیں ہو رہی۔ یہاں کچھ عرصہ رہیں گے تو تھوڑا بہت save کر لیں گے ہم۔” اُس نے بے حد روانی سے سکندر عثمان سے کہا۔
”لیکن تم تو کہہ رہے تھے SIF بہت کامیاب ہے… تمہارا پیکج بہت اچھا ہے۔” وہ کچھ متوحش ہوئے۔
”ہاں وہ تو بہت اچھا جارہا ہے اُس کے حوالے سے مسائل نہیں ہیں مجھے لیکن بس savings نہیں ہو پا رہی پھر بچیاں بڑی ہو رہی ہیں میں چاہ رہا ہوں کچھ سال پاکستان میں رہیں۔ اپنی ویلیوز کا پتہ ہو، پھر لے جاؤں انہیں۔” اُس نے اپنے بہانے کو کچھ اضافی سہارے دیے۔ سکندر عثمان ابھی بھی پوری طرح قائل نہیں ہوئے تھے۔
”تم اکیلے کیسے رہو گے سالار؟ تمہارا ابھی علاج ہو رہا ہے۔ بیوی، بچوں کے بغیر وہاں کون خیال رکھے گا تمہارا؟”وہ اپنی تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔
”میں سوچ رہا ہوں، میرے پاس جو اکاؤنٹ میں کچھ رقم ہے وہ تمہیں دے دوں تاکہ تمہیں اگر کوئی فنانشل مسئلہ ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” سالار نے اُن کی بات کاٹ دی۔
”بس پاپا! اب نہیں۔” اُس نے باپ کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ ”اب اور کچھ نہیں۔ کتنا کریں گے آپ میرے لئے؟ مجھے بھی کچھ کرنے دیں۔ احسان نہیں کر سکتا تو حق ہی ادا کرنے دیں مجھے۔” اُس نے عجیب بے بسی سے باپ سے کہا۔
”مجھے تمہاری فکر رہے گی۔” سالار نے ایک بار پھر اُن کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ”مجھے بھی آپ کی فکر رہتی ہے پاپا۔”
”اس لئے رکھنا چاہتے ہو ان سب کو یہاں؟” سکندر عثمان جیسے بوجھ گئے تھے۔
”آپ جو چاہے سمجھ لیں۔”
”میں اور طیّبہ بالکل ٹھیک ہیں، پرانے ملازم ہیں ہمارے پاس، وفادار۔ سب ٹھیک ہے۔ تم میری وجہ سے یہ مت کرو۔” وہ اب بھی تیّار نہیں تھے، اولاد پر انہوں نے ہمیشہ احسان کیا تھا۔ احسان لینے کی عادت ہی نہیں تھی اُنہیں اور وہ بھی عمر کے اس حصّہ میں۔ بے حد خواہش ہونے کے باوجود، مجبور ہونے کے باوجود، سکندر عثمان اولاد کو اپنی وجہ سے تکلیف میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ ”میں ویسے بھی سوچتا ہوں فیکٹری جایا کروں کبھی کبھار۔ کام مکمّل طور پر چھوڑ دیا ہے اس لئے زیادہ بھولنے لگا ہوں میں۔” وہ اپنے الزائمر کی شکل بدل رہے تھے۔
”تمہارے بیوی اور بچوں کو تمہارے پاس رہنا چاہیے سالار۔ تم زبردستی انہیں یہاں مت رکھو۔ میرے اور طیّبہ کے لئے بس۔” انہوں نے جیسے سالار کو سمجھانے کی کوشش کی۔
”زبردستی نہیں رکھ رہا پاپا! اُن کی مرضی سے ہی رکھ رہا ہوں۔ وہ یہاں آکر ہمیشہ خوش ہوتے رہیں ہیں، اب بھی خوش ہوں گے۔” اُس نے باپ کو تسلّی دی تھی۔ اُسے اندازہ بھی نہیں تھا، باپ کا تجربہ کتنا درست ہونے والا تھا۔
*****
”میں پاکستان نہیں جاؤں گا۔” پاکستان شفٹ ہونے کی سب سے زیادہ مخالفت حمین سکندر کی طرف سے آئی تھی اور یہ مخالفت صرف سالار کے لئے ہی نہیں امامہ کے لئے بھی خلاف توقع تھی۔ وہ پاکستان جانے کے لئے ہمیشہ تیار رہتا تھا۔ دادا کے ساتھ اُس کی بنتی بھی بہت تھی اور وہ دادی کا لاڈلا بھی تھا۔ پاکستان میں اُسے بڑی attractions دکھتی تھیں اور اب یک بیک مستقل طور پر پاکستان جاکر رہنے پر سب سے زیادہ اعتراضات اُسی نے کیے تھے۔
”بیٹا دادا اور دادی بوڑھے ہو گئے ہیں۔ تم نے دیکھا، وہ بیمار بھی تھے۔ انہیں care کی ضرورت ہے۔” امامہ نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”اُن کے پاس servants ہیں۔ وہ اُن کا اچھی طرح خیال رکھ سکتے ہیں۔” وہ بالکل قائل ہوئے بغیر بولا۔

”سرونٹ اُن کی اچھی کیئر نہیں کرسکتے۔” امامہ نے جواباً کہا۔
”آپ انہیں اولڈ ہوم بھیج دیں۔” وہ اُس معاشرے کا بچہ تھا۔ اُسی معاشرے کا بے رحم لیکن عملی حل بتا رہا تھا۔
”کل کو ہم بوڑھے ہو جائیں گے تو تم ہمیں بھی اولڈ ہوم میں بھیج دو گے۔” امامہ نے کچھ ناخوش ہوتے ہوئے اُس سے کہا۔
”آپ انہیں یہاں لے آئیں۔” حمین نے ماں کی خفگی کو محسوس کیا۔
”وہ یہاں نہیں آنا چاہتے۔ وہ اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہتے۔” امامہ نے اُس سے کہا۔
”پھر ہم بھی اپنا گھر کیوں چھوڑیں؟ میں اپنا سکول کیوں چھوڑوں؟” وہ دنیا کے دس ذہین ترین دماغوں میں سے ایک تھا۔ غلط بات نہیں کہہ رہا تھا۔ Rationally بات کر رہا تھا۔ دماغ کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہوتا ہے۔ وہ عقل سے سوچتا ہے، دل سے نہیں۔
”یہ ہمارا گھر نہیں ہے حمین! کرائے کا ہے۔ ہم صرف یہاں رہ رہے ہیں اور جب ہم سب پاکستان چلے جائیں گے تو بابا اور جبریل اس گھر کو چھوڑ دیں گے کیوں کہ انہیں اتنے بڑے گھر کی ضرورت نہیں ہوگی۔ جبریل ویسے بھی یونیورسٹی میں ہے۔ تمہارے بابا نیویارک شفٹ ہونا چاہتے ہیں۔” امامہ اُسے کہتی چلی گئی تھی۔
”جبریل پاکستان نہیں جائے گا؟” حمین نے پوچھا۔
”نہیں، تمہارے بابا اُسے اس لئے پاکستان بھیجنا نہیں چاہتے کیوں کہ وہ یونیورسٹی میں ہے۔ اُس کی سٹڈیز متاثر ہوں گی۔” امامہ نے اُسے سمجھایا۔
”میری بھی تو ہوں گی، مجھے بھی ہر سال MIT جانا ہے، میں کیسے جاؤں گا۔” وہ خفا ہوا تھا اور بے چین بھی۔ اُسے اپنا سمر پروگرام خطرے میں پڑتا دِکھا تھا۔
”تم ابھی سکول میں ہو۔ جبریل یونیورسٹی میں ہے… اور پاکستان میں بہت اچھے سکولز ہیں تم cover کر لو گے سب کچھ… جبریل نہیں کر سکے گا اُسے آگے میڈیسن پڑھنی ہے…” امامہ اُسے logic دینے کی کوشش کر رہی تھی جو حمین کے دماغ میں نہیں بیٹھ رہی تھی۔
“That’s not fair Mummy” 
حمین نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”اگر جبریل پاکستان نہیں جائے گا تو میں بھی نہیں جاؤں گا… مجھے MIT جانا ہے۔” وہ واضح طور پر بغاوت کررہا تھا۔
”ٹھیک ہے تم مت جاؤ… میں عنایہ اور رئیسہ چلے جاتے ہیں تم یہاں رہنا اپنے بابا کے پاس…” امامہ نے یک دم اُس سے بحث کرنا بند کر دیا تھا۔”یہ تمہارے بابا کا حکم ہے اور ہم سب اس کو مانیں گے… تم disobey کرنا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی، میں مجبور نہیں کروں گی۔”
امامہ کہتے ہوئے وہاں سے اُٹھ کر چلی گئی تھی۔ دُنیا کے وہ دو بہترین دماغ ایک دوسرے کے بالمقابل آگئے تھے۔
”تم پاکستان نہیں جانا چاہتے حمین؟” اُس رات سالار نے حمین کو بٹھا کر پوچھا تھا۔ امامہ نے اُسے ڈنر سے کچھ دیر پہلے اس کے انکار کے بارے میں بتایا تھا۔
”نہیں۔” حمین نے باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ ”اور کوئی بھی جانا نہیں چاہتا۔” اُس نے مزید تبصرہ کیا۔
”میں کسی اور کی نہیں صرف تمہاری بات کر رہا ہوں۔” سالار نے اُسے ٹوک دیا، حمین سر جھکائے چند لمحے خاموش بیٹھا رہا پھر اُس نے سر اُٹھا کر باپ کو دیکھا اور نفی میں سر ہلا دیا۔
”وجہ؟” سالار نے اُسی انداز میں کہا۔
”بہت ساری ہیں۔” اُس نے بے حد مستحکم انداز میں باپ کو جواب دیا۔
”کسی بھی کام کو کرنے یا نہ کرنے کی صرف ایک وجہ ہوتی ہے، باقی سب بہانے ہوتے ہیں۔ اس لئے تم صرف وجہ بتاؤ، بہانے نہیں۔” سالار نے اپنے گیارہ سالہ بیٹے کے ذخیرۂ الفاظ کی ہوا نکالتے ہوئے کہا۔ حمین اس میٹنگ کے لئے پہلے سے تیّار تھا اور وجوہات کو جمع کرنے پر بھی اچھا خاصا وقت صرف کر چکا تھا۔ باپ نے جیسے انگلی سے پکڑ کر دوبارہ زیرو پر کھڑا کر دیا تھا۔
”میں پاکستان میں adjust نہیں ہوسکتا۔” حمین نے بالآخر وہ ایک وجہ تلاش کر کے پیش کی۔
”اگر تم کانگو میں adjust ہوسکتے ہو تو پاکستان میں بھی ہو جاؤ گے۔ افریقہ سے زیادہ برا نہیں۔” سالار نے اُسی انداز میں کہا۔
”تب میں چھوٹا تھا۔” حمین نے مدافعانہ انداز میں کہا۔
”تم اب بھی چھوٹے ہی ہو۔” سالار نے بات کاٹی۔
”لیکن میں بڑا ہو رہا ہوں۔”حمین نے جیسے اعتراض کیا۔
”اُس میں کافی time لگے گا… تمہارے لئے کم از کم پچیس سال۔” سالار نے بے حد سنجیدگی سے اُسے tease کیا وہ باپ کو دیکھ کر رہ گیا۔
“I am serious Baba” 
اُس نے سالار کی بات سے محفوظ ہوئے بغیر کہا۔ ”میں پاکستان نہیں جانا چاہتا۔ It’s not a good idea for Mummy either ” وہ کسی بڑے کی طرح باپ کے فیصلے پر تبصرہ کررہا تھا۔ سالار خاموشی سے اُس کی بات سُن رہا تھا۔
”مجھے یہاں تعلیم حاصل کرنی ہے۔ میں وہاں holidays پر جاسکتا ہوں ہمیشہ کے لئے نہیں۔” وہ بالکل امریکی انداز میں بے حد صاف گوئی سے باپ کو بتا رہا تھا کہ وہ کیا کر سکتا تھا اور کیا نہیں۔
”چند سالوں کی بات ہے حمین۔ اُس کے بعد تم بھی اس قابل ہوجاؤ گے کہ امریکہ میں واپس آکر کہیں بھی پڑھ سکو۔” سالار نے اُس کی بات کے جواب میں کہا، وہ گیارہ سال کا بچّہ باپ کو بے حد مدلّل دلائل دینے کی کوشش کررہا تھا۔
”چند سال سے بہت فرق پڑتا ہے۔ ایک سال سے بھی بہت فرق پڑتا ہے۔” اُس نے سالار کی بات کے جواب میں کہا۔
”تو تم یہ قربانی نہیں دو گے؟” سالار نے اس بار بات بدلی۔
”جبریل بھی تو دے سکتا ہے قربانی… آپ بھی تو دے سکتے ہیں۔ میں ہی کیوں؟” اُس نے جواباً اُسی انداز میں کہا۔
دنیا کے بڑے بڑے اداروں کے برابر ہو کے، ان کے سامنے بیٹھ کر اُن سے financial deals کرنا اور بات تھی۔ اُن کے سوالات اور اعتراضات کے انبار کو سمیٹنا آسان کام تھا۔ اپنے گیارہ سال کے بیٹے کو اس بات پر قائل کرنا زیادہ مشکل تھا کہ وہ قربانی کیوں دے جو اُس کا بھائی نہیں دے رہا تھا…اُس کا باپ بھی نہیں دے رہا تھا… پھر وہ کیوں؟
اور اس کیوں کا جواب فارمولوں اور equations میں نہیں ملتا تھا، صرف اُن اخلاقی اقدار میں ملتا تھا جن سے اُس نے اپنی اولاد کی تربیت کی تھی لیکن اس کے باوجود اُس کی اولاد اُس سے یہ سوال کررہی تھی۔
”تم جانتے ہو تمہارے دادا کو الزائمر ہے، وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں اور انہیں ضرورت ہے کہ کوئی ان کے پاس ہو… تم سے انہیں زیادہ محبت ہے اس لئے میں چاہتا تھا تم اُن کے پاس رہو۔”سالار نے جیسے وہ جواب ڈھونڈنا شروع کیے جن سے وہ اسے سمجھا پاتا۔
”ویسے بھی جب تمہاری ممی، عنایہ اور رئیسہ کے ساتھ یہاں سے چلی جائیں گی تو تم یہا ں کس کے پاس رہو گے؟ گھر میں تمہاری دیکھ بھال کے لئے کوئی نہیں ہوگا۔”سالار نے کہنا شروع کیا۔
“I can take care of myself” حمین نے باپ کی
بات ختم ہونے پر کہا تھا۔”میں اتنا چھوٹا نہیں ہوں بابا… میں اکیلا رہ سکتا ہوں۔ آپ مجھے بورڈنگ میں بھی رکھ سکتے ہیں یا پھر میں کسی relative کے پاس بھی رہ سکتا ہوں۔” اُس نے سالار کے سامنے ایک کے بعد ایک solutions رکھنا شروع کیا۔
”اُن میں سے ایک بھی option میرے لئے قابلِ قبول نہیں ہے، تمہیں سب کے ساتھ پاکستان جانا ہے۔” سالار نے دو ٹوک انداز میں اُس سے کہا۔
”آپ مجھ میں اور جبریل میں فرق کیوں کرتے ہیں بابا؟” اُس کے اگلے جملے نے سالار کا دماغ گھما کر رکھ دیا تھا۔ اس نے اپنے گیارہ سالہ بیٹے کا چہرہ دیکھا جس نے زندگی میں پہلی بار اُس سے ایسا سوال یا ایسی شکایت کی تھی۔ 
”فرق…؟ تم اس فرق کو define کرسکتے ہو؟” سالار پہلے سے بھی زیادہ سنجیدہ ہو گیا تھا۔ وہ سمجھتا تھا اُسے پانچ منٹ لگنے والے تھے زیادہ سے زیادہ اُسے سمجھانے میں اور اب جیسے یہ ایک پینڈورہ باکس ہی کھلنے لگا تھا۔
”آپ جبریل کو مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں۔” اگلا تبصرہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک تھا۔ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ دیکھتے رہے۔ پھر کچھ دیر بعد سالار نے اُس سے کہا۔
”اور میں اُسے کیوں بہترسمجھتا ہوں؟” وہ جیسے اُس کے اس الزام کی بھی وضاحت چاہتا تھا۔
”کیوں کہ وہ حافظِ قرآن ہے… میں نہیں ہوں۔” بے حد روانی سے کہے گئے اس جملے نے سالار کو فریز کیا تھا… وہ واقعی پینڈورہ باکس ہی کھول بیٹھا تھا لیکن بہت غلط حوالے سے۔
وہ باغی نہیں تھا… نہ ہی بدتمیز نہ ہی بدلحاظ، لیکن وہ جو سوچتا اور محسوس کرتا تھا وہ کہہ دیتا تھا۔ زندگی میں پہلی بار سالار کو لگا وہ سکندر عثمان تھا اور اپنے سامنے آن بیٹھا تھا… لاجواب… بے بس… تاریخ یقیناً اپنے آپ کو دہراتی تھی لیکن اپنی مرضی کے وقت پر۔
”تمہیں جبریل برا لگتا ہے؟” سالار نے بے حد مدہم آواز میں اُس سے پوچھا۔
”He is my only brother… 
مجھے وہ کیسے بُرا لگ سکتاہے، لیکن مجھے آپ لوگوں کا یہ attitude اچھا نہیں لگتا…” حمین کو یہ شکایت کب سے ہونی شروع ہوئی تھی اُس کا اندازہ سالار کو نہیں ہوا۔ لیکن وہ اس وقت وہاں عجیب سی کیفیت میں بیٹھا ہوا تھا۔
”ایسا نہیں ہے حمین۔” اُس نے بالآخر حمین سے کہا۔ وہ اپنے سلیپنگ سوٹ کے پاجامے کو گھٹنے سے رگڑ رہا تھا جیسے اُس میں سوراخ ہی کر دینا چاہتا ہو۔
”بابا… میں آجاؤں؟” وہ جبریل تھا جو دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہوا تھا… گفتگو کے عجیب مرحلے پر وہ اندر آیا تھا۔ سالار اور حمین دونوں ہی اپنی اپنی جگہ پر کچھ جزبز ہوئے تھے۔
”ہاں آجاؤ۔” سالار نے اُس سے کہا، وہ اندر آکر حمین کے برابر میں صوفہ پر بیٹھ گیا پھر اُس نے ایک نظر حمین کو دیکھا جو اُس سے نظریں نہیں ملا رہا تھا پھر اُس نے باپ سے کہا۔
”دادا کے پاس میں پاکستان چلا جاتا ہوں… میں زیادہ اچھے طریقے سے اُن کی دیکھ بھال کر سکوں گا” کمرے میں عجیب خاموشی چھائی تھی۔ نہ سالار کچھ کہہ سکا، نہ حمین کچھ بول سکا تھا۔ اُن دونوں کی آواز زیادہ اونچی نہیں تھی لیکن جبریل پھر بھی یقیناً یہ گفتگو سُن کر ہی آیاتھا۔
”ممی اور حمین یہیں رہیں آپ کے پاس… میں اکیلے بھی اُن کو سنبھال سکتا ہوں۔” وہ ہمیشہ کی طرح مدہم، مستحکم آواز میں کہہ رہا تھا۔
”پاکستان میں ویسے بھی میڈیسن کی تعلیم کے لئے کم وقت لگتا ہے۔ یونیورسٹی کا سال ضائع ہونے سے بھی فرق نہیں پڑے گا۔” وہ اتنے آرام سے کہہ رہا تھا جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا… جبریل ایسا ہی تھا، کسی panic کے بغیر مسئلے کا حل نکالنے والا۔
”میں تم سے بعد میں بات کروں گا جبریل۔”سالار نے اُسے درمیان میں ہی ٹوک دیا۔
”میں گھر میں سب سے بڑا ہوں بابا… میری ذمّہ داری سب سے زیادہ ہے… حمین کو آپ یہیں رہنے دیں اور مجھے جانے دیں… اور میں یہ سب بہت خوشی سے کہہ رہا ہوں، مجھے کوئی خفگی نہیں ہے۔”جبریل نے سالار کے ٹوکنے کے باوجود اُس سے کہا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔
اُس کے کمرے سے جانے کے بعد بھی سالاراور حمین خاموش ہی بیٹھے رہے تھے وہ بے حد awkward صورت حال تھی جس کا سامنا ان دونوں نے چند لمحے پہلے کیا تھا۔
”میرے اور امامہ کے لئے تم میں اور جبریل میں کوئی فرق نہیں۔ اُسے قرآن پاک حفظ کرنے کے لئے عزت دیتے ہیں لیکن تم تینوں پر اُسے برتری نہیں دیتے۔ اس لئے یہ کبھی مت سمجھنا کہ ہم دونوں تم چاروں میں کوئی تفریق کریں گے۔” سالار نے بہت لمبی خاموشی کے بعد اُس سے کہنا شروع کیا تھا۔
”تمہارے دادا میری ذمّہ داری ہیں اور میرا خیال تھا میں اپنی ذمّہ داری تمہارے اور جبریل کے ساتھ بانٹ سکتا تھا… اس لئے یہ کوشش کی۔ لیکن تم پر زبردستی نہیں کروں گا میں… تم نہیں جانا چاہتے، مت جاؤ۔” سالار اُس سے کہتے ہوئے اٹھ کر چلا گیا، حمین وہیں بیٹھا رہا… سر جھکائے… خاموش…سوچتے ہوئے۔

“I hope you are not upset with me”
جبریل سٹڈی ٹیبل پر بیٹھا پڑھ رہا تھا جب اُس نے کمرے کا دروازہ کھلتے اور حمین کو اندر آتے دیکھا۔ دونوں کے درمیان خاموش نظروں کا تبادلہ ہوا پھر جبریل دوبارہ اپنی کتاب کی طرف متوجہ ہوگیا۔ حمین بستر پر جاکر لیٹا اُسے دیکھتا رہا۔ پھر اُس نے بالآخر اُسے مخاطب کیا تھا۔
“Upse?t” 
جبریل نے پلٹ کر اُسے کچھ حیرانی دیکھا تھا ”کیوں؟” حمین اُٹھ کر بیٹھ گیا بڑے محتاط انداز میں اُس نے گفتگو کا آغاز کیا۔
”تم نے ہماری باتیں سُنی تھیں؟” وہ کچھ بھی کہنے سے پہلے جیسے تصدیق چاہتا تھا۔ ایک لمحہ کے لیے جبریل اُسے دیکھتا رہا، پھر اُس نے سر ہلاتے ہوئے کہا ”ہاں” حمین کے تاثرات بدلے۔ ہلکی شرمندگی نے اُسے جیسے کچھ اور defensive کیا تھا۔
”اسی لئے پوچھ رہا تھا تم مجھ سے خفا تو نہیں ہو نا؟” حمین نے اب اپنے جملے کو ذرا سا بدلا۔”نہیں” جبریل نے اُسی انداز میں کہا۔حمین اپنے بستر سے اُٹھ کر اُس کے قریب آکر کھڑا ہوگیا۔”لیکن مجھے مایوسی ضرور ہوئی۔” جبریل نے اُس کے قریب آنے پر جیسے اپنے جملے کو مکمّل کیا۔حمین اب سٹڈی ٹیبل سے پشت ٹکائے کھڑا تھا۔
I didn’t mean that…” تم میرے بھائی ہو اور میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں…Trust me I have nothing against you…”حمین نے جیسے اُسے صفائی دینے کی کوشش کی۔
“I know it….”
جبریل نے نرمی سے اُسے ٹوکا اور اُس کا بازو ہلکے سے تھپتھپایا ” لیکن تمہیں بابا سے ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی”…He must have been shocked… جبریل اب اُسے سمجھا رہا تھا۔”تم واقعی سمجھتے ہو کہ وہ مجھے تم سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں… فرق کرتے ہیں؟” وہ اُس سے کہہ رہا تھا”جبکہ مجھے لگتا تھا وہ تمہیں زیادہ importance دیتے ہیں۔” جبریل نے جواباً اُسے کہا تھا…”کافی سال ایسے ہی لگتا رہا…” جبریل نے جیسے بات ادھوری چھوڑی، حمین نے کچھ تجسس سے کریدا ”پھر؟” ”پھر میں بڑا ہوگیا۔” وہ مسکرایا تھا…And I realized…” کہ ایسا نہیں ہے۔” وہ کہہ رہا تھا ” کچھ qualities کو وہ مجھ میں زیادہ پسند کرتے ہیں کچھ تم میں، لیکن انہوں نے ہم دونوں میں کبھی فرق نہیں کیا، اگر کیا بھی ہوگا تو اُس کی کوئی وجہ ہوگی۔” وہ اُس کا بڑا بھائی تھا اور بڑے بھائی ہی کی طرح اُسے سمجھا رہا تھا۔ حمین خاموشی سے بات سُن رہا تھا۔ جب اُس نے بات ختم کی تو حمین نے اُس سے کہا۔
”میں یہ نہیں چاہتا کہ تم اپنی یونیورسٹی چھوڑ کر پاکستان جاؤ… میں اتنا selfish نہیں ہوں…” وہ جیسے اُسے صفائی دینے کی کوشش کررہا تھا “I just want to stay here” اُس نے جبریل سے کہا تھا۔
” تمہیں کوئی selfish سمجھ بھی نہیں رہا حمین … تمہاری چوائس کی بات ہے اور بابا اس لئے تمہیں سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کیوں کہ تم چھوٹے ہو اور یہاں تم اکیلے نہیں رہ سکتے… بابا بہت بزی ہیں، کئی بار کئی کئی دن گھر نہیں آ پاتے… تم اکیلے کیسے رہو گے اُن کے ساتھ… صرف اس لئے تمہیں پاکستان بھیجنا چاہتے تھے وہ…” اُس نے جبریل کی بات کاٹ دی اور بے حد ہلکی لیکن مستحکم آواز میں اُس سے کہا۔ I don’t want you to go to Pakistan” تمہاری سٹڈیز متاثر ہوں گی… میں چلا جاؤں گا…حالانکہ میں خوش نہیں ہوں لیکن مجھے لگتا ہے میں سب کو ناراض کر کے یہاں stay نہیں کرسکتا۔” وہ کہتے ہوئے اپنے بستر کی طرف چلا گیا۔ جبریل کو لگا وہ کچھ اُلجھا ہوا تھا… جبریل اُسے لیٹتے ہوئے دیکھتا رہا پھر اُس نے حمین سے کہا۔
”چند سالوں کی بات ہے حمین… پھر بابا تمہیں بھی واپس امریکہ بلا لیں گے”…You can pursue your dreams… جبریل نے جیسے اُسے تسلّی دینے کی کوشش کی۔
“I don’t dream much…” اُس نے جواباً چادر اپنے اوپر کھینچتے ہوئے کہا تھا… جبریل اُسے دیکھ کر رہ گیا… حمین کے دماغ میں کیا تھا اُسے بوجھنا بڑا مشکل تھا، صرف دوسروں کے لئے ہی نہیں، شاید اُس کے اپنے لئے بھی۔
جبریل ایک بار پھر اپنی سٹڈی ٹیبل پر پڑھنے بیٹھ گیا تھا وہ اُس ویک اینڈ پر گھر آیا ہوا تھا اب اُسے کل پھر واپس جانا تھا، اُس کا اگلا سمسٹر شروع ہونے والا تھا۔
“?Who will stay with Baba” کاغذ پر کچھ لکھتے ہوئے اُس کا ہاتھ رُک گیا… جبریل نے پلٹ کر ایک بار پھر بستر پر لیٹتے ہوئے حمین کو دیکھا، اُس نے تقریباً دس منٹ بعد اُسے مخاطب کیا تھا جب وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ سو چکا تھا۔ اور اُس کے سوال نے کسی کرنٹ کی طرح اُسے جیسے حمین کی سوچ تک رسائی دی تھی۔ وہ واقعی بے حد گہرا تھا…یہ MIT نہیں تھی… امریکہ نہیں تھا… جو حمین کو واپس جانے سے کھینچ رہا تھا… یہ سالار سکندر کی بیماری تھی جس نے حمین کو اُسے اکیلا چھوڑ دینے پر متوحش کیا تھا۔
وہ وہاں باپ کے پاس رُکنا چاہتا تھا… بغیر اُسے یہ بتائے کہ وہ اُس کی وجہ سے وہاں رہنا چاہتا تھا… کیوں کہ وہ اُس کے بارے میں فکرمند تھا… بالکل اُسی طرح جیسے سالار سکندر اپنے باپ کے بارے میں فکرمند تھا ، لیکن اُسے یہ بتانا نہیں چاہتا تھا…
” تم بابا کی وجہ سے رُکنا چاہتے ہو؟” جبریل نے جیسے اُس کا راز افشا کر دیا تھا۔ حمین کے چادر سے ڈھکے وجود میں حرکت ہوئی… شاید اپنے دل کا بھید یوں فاش ہوجانے کی توقع نہیں تھی اُسے… لیکن اُس نے جواب نہیں تھا… اُس نے چادر بھی اپنے چہرے سے نہیں ہٹائی… جبریل پھر بھی اُسے دیکھتا رہا۔
حمین سکندر ایک خرگوش کی طرح سُرنگیں بنانے کا ماہر تھا… پلک جھپکنے میں کیا کیا کھود کر کہاں سے کہاں پہنچنے کا شوقین… وہ پلک جھپکتے میں دل سے نکلتا تھا وہ لمحہ بھر میں دل میں واپس آنکلتا تھا۔
جبریل سکندر اپنے اُس چھوٹے بھائی کو دیکھتا رہا جس کی اُسے اکثر سمجھ نہیں آتی تھی اور جب آتی تھی تو اُسے اپنی سمجھ بوجھ پر شک ہونے لگتا تھا۔
******
”تم سب لوگ جارہے ہو؟” بار بار پوچھنے اور اس کا جواب عنایہ سے ہاں میں ملنے کے باوجود ایرک کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ ممکن تھا اور کبھی ہوسکتا تھا۔
”لیکن کیوں؟” اگلا سوال کرنے کا خیال اُسے بڑی دیر بعد آیا تھا حالانکہ عنایہ اُس سوال سے پہلے اس کا بھی جواب دے چکی تھی۔
”بابا چاہتے ہیں ہم کچھ سال دادا دادی کے پاس رہیں… وہ اکیلے ہیں پاکستان میں۔” عنایہ سے ہمیشہ کی طرح بڑے تحمل سے اس کے اس سوال کا جواب ایک بار پھر دہرایا۔
”چند سال؟ کتنے سال؟” ایرک بے حد ڈسٹربڈ تھا۔”پتہ نہیں…” عنایہ نے جواب دیا اور اُسے واقعی اس سوال کا جواب نہیں پتہ تھا۔
”لیکن یہ گھر کیوں چھوڑ رہے ہو تم لوگ؟ تمہارے فادر اور جبرل تو نہیں جا رہے؟” ایرک نے اُسی انداز میں کہا تھا۔
”بابا نیویارک شفٹ ہورہے ہیں جبریل ویسے ہی یونیورسٹی میں ہے… اتنا بڑا گھر ہماری ضرورت نہیں رہا اب۔” عنایہ نے دہرایا۔ لیکن تم پریشان مت ہو… ہم لوگ امریکہ تو آتے جاتے رہیں گے…اور تم پاکستان آسکتے ہو… جب بھی تمہارا دل چاہے۔” عنایہ کو اندازہ تھا اُس کی اپنی فیملی کے ساتھ جذباتی وابستگی کا… وہ اُن کے بغیر اکیلا رہ جانے والا تھا۔
وہ دونوں اس وقت سکول کے گراؤنڈ کے ایک بینچ پر بریک کے دوران بیٹھے ہوئے تھے…ایرک نے اُس کی باتوں کے جواب میں کچھ بھی نہیں کہا تھا، وہ بس خاموش بیٹھا رہا تھا یوں جیسے اُس shock کو digest کرنے کی کوشش کررہا تھا جو عنایہ کے انکشاف نے اُسے دیا تھا۔
”کیا میں تم لوگوں کے ساتھ نہیں جاسکتا؟” ایک لمبی خاموشی کے بعد ایرک نے بالآخر اُس سے کہا۔ سوال نے عنایہ کو مشکل میں ڈال دیا۔ جواب وہ جانتی تھی لیکن دے نہیں سکتی تھی۔
”تمہاری ممّی اور فیملی کو تمہاری ضرورت ہے، تم اُنہیں چھوڑ کر ہمارے ساتھ کیسے جاسکتے ہو؟” عنایہ نے اپنے انکار کو بے حد مناسب الفاظ میں اُس تک پہنچایا تھا۔
”ممّی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا… میں اُن سے اجازت لے سکتا ہوں… کیا تم لوگ مجھے اپنے ساتھ رکھ سکتے ہو؟” ایک اور سوال آیا… عنایہ ایک بار پھر وہیں کھڑی ہوگئی۔
”ایرک میں نہیں جانتی… میں ممّی اور بابا سے پوچھ سکتی ہوں لیکن اپنی فیملی کو اس طرح چھوڑ کر ایک دوسری فیملی کے ساتھ جانا ٹھیک نہیں ہے۔” عنایہ نے کہا تھا۔ وہ 13 سال کی تھی اُسے بڑوں کی طرح نہیں سمجھا سکتی تھی پھر بھی اُس نے کوشش کی تھی۔
ایرک اُس کی بات پر خاموش رہا پھر اُس نے کہا
”چند سالوں تک میں ویسے ہی یونیورسٹی چلا جاؤں گا… گھر سے تو ویسے بھی جانا ہی ہوگا مجھے۔” اُس نے سوچے سمجھے بغیر کہا۔
”پھر تو اور بھی ضروری ہے کہ یہ وقت تم اپنی فیملی کے ساتھ گزارو۔” عنایہ نے اُسی نرم لہجے میں کہا۔
”میں اپنے آپ کو تمہاری فیملی کا حصّہ سمجھتا ہوں، کیا تم لوگ ایسا نہیں سمجھتے؟” ایرک نے جواباً اُس سے کہا اور جیسے پھر سے اُسے مشکل میں ڈالا۔
”میں ممّی سے بات کروں گی ایرک۔” عنایہ نے اس argument سے نکلنے کے لئے جیسے ایک حل تلاش کیا۔
”اگر تم لوگ چلے گئے تو میرا گھر ایک بار پھر سے ٹوٹ جائے گا۔” ایرک نے اُس سے کہا ”میرے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں رہے گی جہاں میں جا سکوں۔” اُس نے جیسے منّت والے انداز میں کہا تھا یوں جیسے یہ سب عنایہ کے ہاتھ میں تھا، وہ چاہتی تو سب کُچھ رک جاتا۔
عنایہ کا دل بُری طرح پسیجا تھا۔
”ایسے مت کہو ایرک… دور جانے سے یہ تھوڑی ہوتا ہے کہ تمہارے ساتھ ہمارا تعلق بھی ختم ہوجائے گا، ہم لوگ ملتے رہیں گے… بات بھی کریں گے Emails بھی… چھٹیوں میں تم ہمارے پاس پاکستان آسکتے ہو… اور ہم یہاں امریکہ… کچھ بھی ختم ہونے نہیں جارہا۔” عنایہ نے اُسے تسلّی دینے کی کوشش کی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایرک ٹھیک کہہ رہا تھا… فاصلہ دیو ہوتا ہے، سارے تعلق کھاجاتا ہے… پیار کا، دل کا ، دوستی کا، رشتوں کا۔
”اگر وہ سب نہیں رک سکتے تو تم رُک جاؤ۔”ایرک نے یک دم اُس سے کہا، وہ بُری طرح گڑبڑائی۔
”میں کیسے رُک سکتی ہوں… پہلے ہی حمین ضد کررہا ہے… اور اُس کی بات کوئی نہیں مان رہا اور مجھے تو کوئی اعتراض بھی نہیں ہے… میں ممّی کی help کرنا چاہتی ہوں دادا دادی کا خیال رکھنے میں۔” اُس نے ایرک سے کہا تھا، وہ بے اختیار اُس سے کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن رُک گیا۔ اتنے سال عنایہ کے ساتھ پڑھنے اُس کے ساتھ دوستی اور تقریباً ہر روز اُس کے گھر جانے کے باوجود اُن کے درمیان ایسی بے تکلفی نہیں تھی کہ وہ اُسے کچھ بھی کہہ دیتا یا کہہ سکتا۔ عنایہ سکندر کا وہ رکھ رکھاؤ ماں باپ کی طرف سے genes میں آیا تھا یا خاندانی تربیت تھی، لیکن یہ جس بھی وجہ سے تھا اس نے عنایہ سکندر کو ہمیشہ اپنی کلاس کے لڑکوں کے لئے enigmatic رکھا تھا اور ایرک کے لئے fantasy… وہ جس معاشرے میں پل بڑھ رہے تھے وہاں “I love you” ہیلو ہائے جیسی چیز بن کر رہ گئی تھی… کوئی بھی کسی سے بھی کبھی بھی کہہ سکتا تھا اور سننے کے لئے تیّار رہتا تھا۔ نہ یہ بُری چیز سمجھی جاتی تھی نہ بُرا بنادینے والی چیز… اس کے باوجود ایرک کو جھجھک تھی اُسے لگتا تھا وہ اگر کبھی عنایہ سے اپنی محبّت کا اظہار اس طرح کرے گا تو وہ ناراض ہوجائے گی اور پھر شاید اس گھر میں اُس کا داخلہ ہی بند ہوجائے گا۔ اور پھر اس نے امامہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایسی کوئی بات عنایہ سے نہیں کہے گا جب تک وہ بڑا نہیں ہوجاتا، زندگی میں کچھ بن نہیں جاتا… اور ایرک اب اچانک اپنے آپ کو ایک مخمصے میں پارہا تھا… وہ اب جارہی تھی… شاید ہمیشہ کے لئے… اور پتہ نہیں وہ لوگ دوبارہ کبھی مل بھی پاتے تھے یا نہیں تو کیا اُسے اُس سے کہنا چاہیے تھا وہ سب جو وہ عنایہ کے لئے دل میں محسوس کرتا تھا… یا ایسے ہی خاموش رہنا چاہیے تھا۔
اُس دن پہلی بار عنایہ کے حوالے سے ایرک بُری طرح پریشان ہوا تھا… اُسے یہ نہیں لگ رہا تھا کہ و ہ جارہی تھی، اُسے لگ رہا تھا وہ اُسے کھونے والا تھا… اور اُس کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل فور ی طور پر سمجھ نہیں آرہا تھا اور جو حل وہاں بیٹھے بیٹھے ایرک کا بالآخر سمجھ آیا تھا… وہ کس قدر بے وقوفانہ تھا اس کا اُسے اندازہ بھی نہیں تھا۔
******
“I want to marry your daughter” 
یہ اُس دو صفحوں پر مشتمل خط کی ہیڈ لائن تھی جو سالار کو ایرک کی طرف سے ملا تھا اور سالار نے بے حد خاموشی کے عالم میں اُس خط کو پڑھا تھا۔ وہ شاکڈ ہوا تھا اس لئے نہیں کہ وہ ایرک کی طرف سے ایسے کسی خط کی توقع نہیں کر رہا تھا بلکہ اس لئے کیوں کہ اُس نے یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ عنایہ اتنی بڑی ہو گئی ہے کہ کوئی اُس کے حوالے سے اُس سے ایسی بات بھی کر سکتا تھا… وہ اس معاملے میں روایتی ہی تھا جسے ابھی بھی اپنی بیٹی بہت چھوٹی لگ رہی تھی۔
امامہ اُسے چائے دینے بیڈروم میں آئی تھی جب اُس نے ڈاک چیک کرتے سالار کو ایک کاغذ ہاتھ میں لئے سوچوں میں گُم دیکھا۔ وہ چائے کا کپ رکھ کر جانے لگی تھی جب سالار نے اُسے روک لیا اور وہ خط اُسے تھما دیا۔ امامہ نے کچھ اُلجھے انداز میں اُس خط کو پکڑا تھا لیکن پہلی ہیڈنگ پر نظر ڈالتے ہی اُس کا دماغ جیسے بھک سے اُڑ گیا تھا… دوسری لائن پر نظر ڈالے بغیر بھی وہ جانتی تھی وہ کون ہوسکتا تھا، غصّے کی ایک لہر اُس کے اندر اتر آئی تھی اور سُرخ چہرے کے ساتھ اُس نے سالار سے کہا ”ایرک؟”
سالار نے سر ہلاتے ہوئے چائے کا سپ لیا اور اُسے کہا ”سارا لیٹر پڑھو۔” امامہ نے لیٹر پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا ”اسے پڑھے بغیر بھی میں جانتی ہوں اُس نے کیا لکھا ہوگا۔” وہ پھر بھی خط پڑھ رہی تھی۔ سالار چونکا تھا ”تم سے بات کی ہے اُس نے پہلے؟” ”نہیں میں پھر بھی جانتی ہوں” امامہ نے بالآخر خط ختم کرتے ہوئے اُسے تہہ کر کے سالار کی طرف بڑھایا۔ وہ بہت خفا لگ رہی تھی۔
خط میں ایرک نے حتی المقدور بے حد مناسب انداز میں سالار سکندر سے عنایہ کے لئے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تھا… وہ اُس سے کس قدر محبت کرتا تھا اور کیوں اُس کے لئے عنایہ کا ساتھ ضروری تھا… پھر اُس نے سالار کو بتایا تھا کہ وہ اُس کے لئے کیا کیا کرسکتا تھا اور عنایہ کو وہ کتنا خوش رکھے گا۔
وہ خط اُس کی اپنی بیٹی کے حوالے سے نہ لکھا گیا ہوتا تو سالار اُس خط کو پڑھ کر محفوظ ہوتا ، ہنستا اور شاید ایرک سے چھیڑ چھاڑ بھی کرتا لیکن وہ اُس کی اپنی بیٹی کے حوالے سے تھا… بچگانہ ہوتے ہوئے بھی issue بچگانہ نہیں رہا تھا۔ عنایہ پسند کرتی ہے ایرک کو؟” جو پہلا خیال سالارکے ذہن میں آیا تھا وہ اب یہ آیا تھا۔
”تم کیسی باتیں کرتے ہو سالار… عنایہ بے چاری کو پتہ تک نہیں ہوگا کہ یہ کیا خیالی پلاؤ پکاتا رہتا ہے… اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو وہ مجھ سے کہتی… ایرک ایک فیملی فرینڈ ہے، بوائے فرینڈ نہیں ہے۔” امامہ نے بے حد ناگواری سے اُس کے سوال کو بالکل رد کرتے ہوئے جواب دیا ۔
” یہ ضروری نہیں ہے امامہ کہ ہمیں اپنی اولاد کے دل کی ہر بات پتہ ہو۔” امامہ نے اُس کی بات کاٹ دی اور کہا ”مجھے ہے” وہ ہنس پڑا ” میں دن رات اُن کے ساتھ رہتی ہوں سالار… تم نہیں رہتے… تم باپ ہو اولاد کو اور طرح جانتے ہو، میں ماں ہوں اُن کو اور طرح دیکھتی ہوں۔” اُس نے سالار کے ہنسنے پر جیسے وضاحت کی تھی۔ ”تم ٹھیک کہہ رہی ہو اس کے باوجود یہ ضروری نہیں ہے کہ 24 گھنٹے بھی اگر اولاد کو نظروں کے سامنے رکھا جائے تو اُن کے دلوں کو بھی دیکھا جاسکے۔ میں خوش فہمیاں اور غلط فہمیاں دونوں ہی نہیں پالتا امامہ… باپ ہوں اس لئے rational ہوکر سوچ رہا ہوں… ماں کی طرح جذباتی ہوکر نہیں۔” امامہ چند لمحوں کے لئے خاموش ہوگئی، وہ ٹھیک کہہ رہا تھا، وہ دونوں کئی سالوں سے اکٹھے تھے اُسے یہ خوش گمانی نہیں ہونی چاہیے تھی کہ عنایہ کو ایرک کی پسندیدگی کے بارے میں بالکل ہی اندازہ نہیں ہوگا۔اُس کا دل چاہتا تھا نہ ہو… لیکن سالار دماغ کی بات کہہ رہا تھا۔
” میں عنایہ سے پوچھ لوں گی۔” اُس نے یک دم کہا ”کیا؟” سالار چائے پیتے پیتے رکا”ایرک کے حوالے سے… اس خط کے حوالے سے… لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا میں کیسے اُس سے…” وہ عجیب طرح سے اُلجھ کر رکی “She is just a kid” سالار اُس کی بات پر ہنستا ” ہاں یہ خط پڑھتے ہوئے میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ کوئی میری بیٹی کے بارے میں اس طرح سوچ بھی کیسے سکتا ہے…She is just a kid… لیکن یہ زندگی ہے اور ہم امریکہ میں رہ رہے ہیں جہاں آٹھ نو سال کے بچے بچیاں بھی بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز کے concept سے واقف ہیں۔ اس لئے ہمیں بھی کچھ زیادہ realistic ہوکر اس صورت حال کو دیکھنا پڑے گا… تم ابھی عنایہ سے بات مت کرو… مجھے ایرک سے بات کرنے دو۔” سالار نے جیسے اُ س صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک حل نکالا۔
”اور اُس سے مل کر تم کیا کرو گے؟” امامہ کو جیسے یہ حل پسند نہیں آیا تھا ”اسی حوالے سے گفتگو کروں گا… اُسے سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ یہ سب کتنا بچگانہ ہے اور کیوں ممکن نہیں ہے۔”سالار نے جواباً کہا۔
”دو تین سال پہلے بھی ایرک نے ایسی ہی بات کی تھی عنایہ کے بارے میں… تب بھی میں نے اُسے سمجھایا تھا کہ ایسا نہیں ہوسکتا، وہ مسلمان نہیں ہے اور بے حد چھوٹا ہے لیکن میں کچھ سختی سے منع اس لئے نہیں کرسکی تھی اُسے کیوں کہ اُس وقت وہ اپنے باپ کی موت کی وجہ سے بہت اپ سیٹ تھا۔ میں نہیں چاہتی تھی وہ اور اپ سیٹ ہو۔” امامہ نے سالار کو پہلی بار ایرک کے ساتھ ہونے والی وہ گفتگو دہرائی تھی۔
سالار اُس کی بات پر جیسے حیران ہوا ”تم نے کیا کہا تھا تب اُسے؟” 
میں نے اُس سے کہا کہ وہ ابھی صرف اپنی تعلیم پر توجہ دے اور مجھ سے وعدہ کرے کہ وہ عنایہ سے اس بارے میں بات نہیں کرے گا جب تک وہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کر لیتا۔”امامہ نے اُسے بتایا۔
“?And he agreed”
سالار نے جواباً اس سے پوچھا۔ امامہ نے سر ہلادیا ”اُس نے عنایہ سے کبھی کوئی ایسی ویسی بات نہیں کی ورنہ وہ مجھے ضرور بتاتی۔” امامہ نے کہا۔
”اسی لئے اس نے خط میں ریفرنس دیا ہوا تھا کہ وعدے کے مطابق میں عنایہ کے بجائے آپ سے اپنی خواہش کا اظہار کر رہا ہوں… اور میں سمجھ نہیں پارہا تھا کہ وہ کس وعدے کا ریفرنس دے رہا ہے۔” سالار پہلی بار amused نظر آیا تھا۔ امامہ کے چہرے پر اب بھی سنجیدگی تھی۔
”میرا خیال ہے اب مجھے اس سے ضرورملنا چاہیے، یہ ساری صورت حال بے حد دل چسپ ہے۔” سالار نے کہا اور امامہ نے بُرا منایا۔
” کیا دلچسپی ہے اس صورت حال میں؟ تمہیں زندگی میں ہمیشہ weird لوگ اور weird situations ہی اچھی لگی ہیں۔” وہ کہے بغیر نہیں رہ سکی۔
”بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو تم… تم سے میری شادی اس کا ثبوت ہے… اور دیکھو یہ کتنی اچھی رہی ہے ہم دونوں کے لئے” وہ اُسے tease کررہا تھا… اپنی اُس wit لئے جو اُس کا خاصہ تھی۔
زندگی کے اتنے سال ساتھ گزارنے کے باوجود وہ آج بھی اُسے لاجواب کردینے کی صلاحیت رکھتا تھا اور وقتاً فوقتاً اس کا مظاہرہ کرتا رہتا تھا۔
”تم ایرک سے مل کر کیا کرنا چاہتے ہو؟” امامہ نے اُس کے تبصرے کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔
”بات چیت کرنا چاہتا ہوں، اُس کی sincerity دیکھنا چاہتا ہو ں اُس پروپوزل کے حوالے سے۔”
وہ ہول کر رہ گئی تھی ” کیا مطلب ہے تمہارا سالار؟ تم ایک تیرہ سال کے بچے کے پروپوزل کی بات کر رہے ہو… ایک غیر مسلم کی… اور تم اپنی بیٹی کے لئے اسے consider کرنے کی بات کررہے ہو؟ تمہارا دماغ ٹھیک ہے نا؟ یہ مذاق نہیں ہے…”امامہ نے بے حد خفا ہوکر اُس سے کہا تھا۔
”ہاں میں جانتا ہوں یہ مذاق نہیں ہے۔ وہ تیرہ سال کا بچّہ ہے ، یہ میں بھی جانتا ہوں… غیر مسلم ہے ، یہ بھی میں جانتا ہوں… لیکن وہ تیرہ سال کا بچّہ اگر دس گیارہ سال کی عمر میں بھی یہی پروپوزل دیتا ہے اور اپنے وعدے کی پاسداری کر رہا ہے تو پھر میں اُسے غیر سنجیدگی سے نہیں لے سکتا۔” سالار اب سنجیدہ ہو گیا تھا۔ امامہ بے یقینی سے اُس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”تم عنایہ کے لئے اُسے consider نہیں کرسکتے…Don’t tell me کہ تم ایسا کررہے ہو؟”
”میں صرف اُس ایک option کو دیکھ رہا ہوں جو زندگی میں پہلی بار میری بیٹی کے حوالے سے آیا ہے۔” سالار نے جواباً کہاتھا۔
”سالار میں کسی غیر مسلم کا option اپنی بیٹی کے لئے consider نہیں کروں گی۔” امامہ نے دو ٹوک انداز میں اُس سے کہا ”مذاق میں بھی نہیں۔” سالار نے اُس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
” کسی غیر مسلم کا option میں بھی consider نہیں کروں گا لیکن کسی ایسے غیر مسلم کا ایسا ضرور کروں گا جو مسلمان ہونے کی خواہش اور ارادہ رکھتا ہو۔” اُس نے بھی اُسی انداز میں کہا۔
”میں اُس option کو بھی consider نہیں کروں گی… میں نہ idealistic ہوں نہ ہی fantasies پر یقین رکھتی ہوں، میں اپنی بیٹی کو کسی مشکل صورت حال میں نہیں ڈالوں گی، ایسے کسی ممکنہ رشتے کے ذریعہ۔” امامہ نے اُس کی بات کے جواب میں کہا۔
”ہم رسک دوسروں کے لئے لے سکتے ہیں، دوسروں کو نصیحتیں بھی کرسکتے ہیں اور دوسروں کو ایسے بڑے کاموں پر اکسا بھی سکتے ہیں اور اُن کی حوصلہ افزائی بھی کر سکتے ہیں لیکن یہ سب چیزیں اپنے بچوں کے لئے ہم نہیں چاہ سکتے۔” وہ کہتی گئی تھی۔
”میں نے تم سے شادی کر کے ایک رسک لیا تھا امامہ… مجھے بھی بہت روکا گیا تھا… بہت سارے وہم میرے دل میں بھی ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی… دُنیا میں لوگ ایسے رسک لیتے ہیں، لینے پڑتے ہیں…” سالار نے جواباً اُس سے جو کہا تھا اُس نے امامہ کی زبان سے سارے لفظ چھین کر اُسے جیسے گونگا کر دیا تھا… وہ بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا لیکن اُسے ایرک کے ساتھ اپنا موازنہ اور اس انداز میں اچھا نہیں لگا تھا۔ ”ایرک اور مجھ میں بہت فرق ہے۔ مذہب میں فرق ہوگا، لیکن کلچر میں نہیں… ہم ہمسائے تھے ایک جیسے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے… بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔” وہ اپنے دفاع میں پرجوش دلائل دیتے دیتے یک دم اپنا جوش کھوتی چلی گئی ،اُسے یک دم اندازہ ہوا تھا کہ اپنے دماغ میں دیا جانے والا اُس کا ہر argument اُس کے اور ایرک کے درمیان موجود مماثلت کو مزید ثابت کر رہا تھا۔
”میں ایرک کے option پر غور نہیں کررہا… عبداللہ کے option پر کررہا ہوں… 13 سال کی عمر میں میں اپنی بیٹی کی کسی سے شادی نہیں کروں گا لیکن اگر 13 سال کی عمر میں بھی میری بیٹی کی وجہ سے کوئی میرے دین کی طرف راغب ہو رہا ہے تو میں صرف اس لئے اسے shut up call نہیں دوں گا کہ یہ میری غیرت اور معاشرتی روایات پر ضرب کے برابر ہے… مجھے معاشرے کو نہیں، اللہ کو منہ دکھانا ہے۔” سالار نے جیسے ختم کرنے والے انداز میں بات کی تھی۔ امامہ قائل ہوئی یا نہیں، لیکن خاموش ہوگئی تھی، اُس کی بات غلط نہیں تھی لیکن سالار کی بھی درست تھی، وہ دونوں اپنے perspecitve سے سوچ رہے تھے اور دوسرے کے perspective کو بھی سمجھ رہے تھے۔ وہ پہلا موقع تھا جب امامہ نے شکر ادا کیا تھا کہ وہ پاکستان جا رہے تھے اور عنایہ اور ایرک ایک دوسرے سے دور ہو جاتے تو اس کے خیال میں ایرک کے سر سے عنایہ کا بھوت بھی اُتر جاتا۔ سالار کے برعکس وہ اب بھی یہ ماننے پر تیّار نہیں تھی کہ ایرک کی اسلام اور عنایہ میں دلچسپی lasting ہو سکتی تھی۔اُسے یقین تھا 13 سال کا وہ بچہ 24-25 سال کا ہوتے ہوئے زندگی کے بہت سارے نشیب و فراز سے گزرتا اور زندگی کی رنگینیوں سے بھی متعارف ہوتا پھر سالار سکندر کا خاندان اور اُس خاندان کی ایک لڑکی عنایہ سکندر، ایرک عبداللہ کو کہاں یاد رہتی اور اتنی یاد کہ وہ اُس کے لئے اپنا مذہب چھوڑ کر اُس کے پیچھے آت امامہ اس بات پر بھی اللہ تعالیٰ کی شکر گزار تھی کہ وہ سب کچھ one sided تھا اگر عنایہ اس کا حصہ ہوتی تو اُس کی پریشانی اس سے سوا ہوتی۔
******
”ممی ایرک ہمارے ساتھ پاکستان جانا چاہتا ہے۔” کچن میں کام کرتی امامہ ٹھٹھک گئی۔ عنایہ اُس کے ساتھ کچن میں ہاتھ بٹارہی تھی جب اُس کے ساتھ کام کرتے کرتے اُس نے اچانک امامہ سے کہا تھا۔ امامہ نے گردن موڑ کر اس کا چہرہ بغور دیکھا تھا۔ عنایہ اُس کی طرف متوجہ نہیں تھی، وہ ڈش واشر میں برتن رکھ رہی تھی۔
”تمہیں پتہ ہے ایرک نے تمہارے پاپا کو خط لکھا ہے۔” امامہ نے کُریدنے والے انداز میں یک دم عنایہ سے کہا۔ وہ کچھ گلاس رکھتے ہوئے چونکی اور ماں کو دیکھنے لگی، پھر اُس نے کہا۔
”اُس نے پاپا سے بھی یہی بات کی ہوگی… وہ بہت اپ سیٹ ہے چند دنوں سے… ہر روز مجھے request کررہا ہے کہ یا تو اُس کو بھی ساتھ لے جاؤں یا پھر خود بھی یہی رہ جاؤں۔” اُس کی بیٹی نے بے حد سادگی سے اُس سے کہا تھا۔ وہ اب دوبارہ برتن رکھنے میں مصروف ہوگئی تھی۔
امامہ اپنے جس خدشے کی تصدیق کرنا چاہ رہی تھی، اُس کی تصدیق نہ ہونے پر اُس نے جیسے شکر کیا تھا… وہ خط کے مندرجات سے واقف نہیں تھی۔
”مجھے ایرک پر ترس آتا ہے۔” عنایہ نے ڈش واشر بند کرتے ہوئے ماں سے کہا۔ امامہ نے کچن کیبنٹ بند کرتے ہوئے ایک بار پھر اُسے دیکھا، عنایہ کے چہرے پر ہمدردی تھی اور ہمدردی کے علاوہ اور کوئی تاثر نہیں تھا اور اس وقت امامہ کو اُس ہمدردی سے بھی ڈر لگا تھا۔
”کیوں ترس آتا ہے؟ ” امامہ نے کہا ”کیوں کہ وہ بہت اکیلا ہے۔” عنایہ نے جواباً کہا ”خیر ایسی کوئی بات نہیں ہے۔اُس کی فیملی ہے… ممی بہن بھائی دوست… پھر اکیلا کہاں سے۔” ” لیکن ممی وہ اُن سب سے اُس طرح close تو نہیں ہے جس طرح ہم سے ہے۔” عنایہ نے اُسے defend کیا ”تو یہ اُس کا قصور ہے، وہ گھر میں سب سے بڑا ہے، اُسے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا خود خیال رکھنا چاہیے۔” امامہ نے جیسے ایرک کو قصور وار ٹھہرانے کی کوشش کی۔
”اگر جبریل اپنی فیملی کے بجائے کسی دوسرے کی فیملی کے ساتھ اس طرح attach ہوکر یہ محسوس کرنے لگے کہ وہ اکیلا ہے تو تمہیں کیسا لگے گا؟” امامہ نے جیسے اُسے ایک بے حد مشکل equation حل کرنے کے لئے دے دی تھی۔ عنایہ کچھ دیر کے لئے واقعی ہی بول نہیں پائی پھر اُس نے بے حد مدپم آواز میں کہا۔
”ممّی ہر ایک جبریل کی طرح خوش قسمت نہیں ہوتا۔” امامہ کو اُس کا جملہ عجیب طرح سے چبھا، اُس کی بیٹی نے شاید زندگی میں پہلی بار کسی دوسرے شخص کے بارے میں اپنی ماں کی رائے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے جیسے اُسے defend کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کوشش نے امامہ کو پریشان کیا تھا۔
”ایرک چھوٹا بچہ نہیں ہے عنایہ!” امامہ نے کچھ تیز آواز میں اُس سے کہا۔
” وہ 13 سال کا ہے… ” اُس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔ عنایہ نے حیران ہوکر ماں کا چہرہ دیکھا نہ اُسے اور نہ ہی خود امامہ کو سمجھ آئی تھی کہ اس جملے کا مطلب کیا تھا۔ واحد چیز جو عنایہ اخذ کرپائی تھی وہ یہ تھی کہ اُس کی ماں کو اس وقت ایرک کا تذکرہ اور اُس کی زبان سے تذکرہ اچھا نہیں لگا تھا لیکن یہ بھی حیران کن بات تھی کیوں کہ ایرک کا ذکر اُن کے گھر میں اکثر ہوتا تھا۔
”ممّی کیا میں ایرک کا خط پڑھ سکتی ہوں؟” غیر متوقع طور پر عنایہ نے فرمائش کی تھی، جبکہ امامہ سمجھ رہی تھی وہ اب گفتگو کا موضوع بدل دے گی۔
”نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔” امامہ نے حتمی انداز میں کہا ، وہ اب اس موضوع کو شروع کردینے پر پچھتا رہی تھی۔
”حمین نے پڑھا ہو گا وہ خط۔ ایرک اُسے ایک خط پڑھا رہا تھا… میرا خیال ہے یہ وہی خط ہوگا۔”
عنایہ نے کچن سے نکلتے ہوئے اُس کے اوپر جیسے بجلی گرائی تھی… ”حمین نے؟” امامہ کو یقین نہیں آیا

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page