top of page

آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد

قسط نمبر انیس

ہاں میں نے ایرک اور اُسے بیٹھے کوئی کاغذ پڑھتے دیکھا تھا۔ میرا خیال ہے یہ خط ہی ہو گا۔ کیوں کہ ایرک ہر کام اُس سے پوچھ کر کر رہا ہے آج کل۔ But I ۔am not sure “عنایہ نے اپنے ہی اندازے کے بارے میں خود ہی بے یقینی کا اظہار کیا۔
”ہر شیطانی کام کے پیچھے حمین ہی کیوں نکلتا ہے آخر؟” امامہ نے دانت پیستے ہوئے سوچا تھا، وہ اس وقت یہ بھی بھول گئی تھی کہ اُسے کچن میں کیا کام کرنا تھا۔ اُسے اب یقین تھا کہ ایرک کو اس خط کا مشورہ دینے والا حمین ہی ہو سکتا تھا۔
******
اور امامہ کا اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔ وہ خط ایرک نے لکھا تھا اور حمین نے اُسے ایڈٹ کیا تھا۔ اُس نے اُس خط کے ڈرافٹ میں کچھ جذباتی جملوں کا اضافہ کیا تھا اور کچھ حد سے زیادہ جذباتی جملوں کو حذف کیا تھا۔
ایرک اُس کے پاس ایک خط کا ڈرافٹ لایا تھا۔ یہ بتائے بغیر کہ وہ خط وہ سالار سکندر کے نام لکھنا چاہتا تھا، اُس نے حمین سے مدد کی درخواست کی تھی کہ وہ ایک مسلم گرل فرینڈ کو پرپوز کرنا چاہتا تھا اور اُس کے باپ کو خط لکھنا چاہتا تھا۔ حمین نے جواباً اسے مبارک باد دی تھی۔ ایرک نے اُس سے کہا تھا کہ کیوں کہ وہ مسلم کلچر کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا اس لئے اُسے اُس کی مدد درکار تھی، اور حمین نے وہ مدد فراہم کی تھی۔
محمد حمین سکندر نے Muslim sensitivites کو مدِنظر رکھتے ہوئے اُس کے لیٹر کو redraft کیا تھا۔ اور ایرک نے نہ صرف اُس کا شکریہ ادا کیا تھا۔ بلکہ جب سالار سکندر نے اُسے ملاقات کی دعوت دی تو اُس نے حمین کو اس بارے میں بھی مطلع کیا تھا۔حمین کی excitement کی کوئی حد نہیں تھی۔ اُس کا دل تو یہ چاہ رہا تھا کہ ایرک کا یہ راز سب سے کہہ دے، لیکن اُس نے ایرک سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس راز کو کسی سے نہیں کہے گا۔ عنایہ نے ایک آدھ دن اُس گٹھ جوڑ کے بارے میں اُسے کریدنے کی کوشش کی تو بھی اُس نے صرف یہ کہا تھا کہ وہ ایک ضروری لیٹر لکھنے میں ایرک کی مدد کر رہا تھا، لیکن خط کس کے نام تھا اور اُس میں کیا لکھا جا رہا تھا؟ عنایہ کے کُریدنے پر بھی حمین نے یہ راز نہیں اُگلا تھا۔
”مجھے پتہ ہے، ایرک نے وہ خط کس کے لئے لکھوایا تھا۔” عنایہ، امامہ کے پاس سے ہو کر سیدھا حمین کے پاس پہنچی تھی۔ وہ اُس وقت اپنے کمرے میں کمپیوٹر پر کوئی گیم کھیلنے میں مصروف تھا اور عنایہ کے اس تبصرے پر اُس نے بے اختیار دانت پیستے ہوئے کہا۔ ”مجھے پہلے ہی پتہ تھا، وہ کوئی راز نہیں رکھ سکتا۔ مجھے کہہ رہا تھا، کسی کو نہ بتاؤں۔ خاص طور پر تمہیں اور اب خود تمہیں بتا دیا اُس نے۔” حمین خفا تھا، اُس کا اندازہ یہی تھا کہ یہ راز ایرک نے خود ہی فاش کیا ہو گا۔
”ایرک نے مجھے نہیں بتایا۔ مجھے تو ممّی نے بتایا ہے۔” اس بار حمین گیم کھیلنا بھول گیا تھا، اُس کے ہیرو نے اُس کے سامنے اونچی چٹان سے چھلانگ لگائی اور وہ اُسے سمندر میں گرنے سے نہیں بچا پایا۔ کچھ ویسا ہی حال اُس نے اپنا بھی اس وقت محسوس کیا تھا۔ ایک دن پہلے ہی اس کے اور ممّی کے تعلقات میں پاکستان جانے کے فیصلے نے پھر سے گرم جوشی پیدا کی تھی اور اب یہ انکشاف۔
”ممّی نے کیا بتایا ہے؟” حمین کے منہ سے ایسے آواز نکلی جیسے اُس نے کوئی بھوت دیکھا تھا۔
”ممّی نے بتایا کہ ایرک نے پاپا کو کوئی خط لکھا ہے اور مجھے فوراً خیال آیا کہ جو خط تم پڑھ رہے تھے، وہ وہی ہو سکتا ہے۔” عنایہ روانی میں بتا رہی تھی اور حمین کے دماغ میں جیسے دھماکے ہو رہے تھے۔ ”کاٹو تو بدن میں لہو نہ ہونا“ اس وقت اُس پر مصداق ثابت ہوتا۔ ایسی کون سی مسلم گرل فرینڈ بن گئی تھی، یک دم ایرک کی؟ جس کے باپ کو خط لکھوانے کے لئے اس کی ضرورت پڑتی۔ جبکہ 24 گھنٹے وہ اگر کسی کے گھر بھی آتا تھا تو وہ خود ان ہی کا گھر تھا۔ پھر اُس کی عقل میں یہ بات کیوں نہیں آئی یا وہ excitement میں اتنا ہی اندھا ہو گیا تھا کہ اُس نے یہ سوچ لیا کہ ایرک کبھی عنایہ کے حوالے سے ایسا کچھ نہیں سوچ سکتا۔ حمین اپنے آپ کو ملامت کر رہا تھا اور ملامت بڑا چھوٹا لفظ تھا اُن الفاظ کے لئے جو وہ اُس وقت اپنے اور ایرک کے لئے استعمال کر رہا تھا۔
”تم بول کیوں نہیں رہے؟” عنایہ کو اُس کی خاموشی کھٹکی تھی۔ 
”میں نے سوچا ہے میں اب کم بولوں اور زیادہ سوچوں گا۔” حمین نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے اُس تک وہ خبر پہنچائی جس پر اُسے یقین نہیں آیا۔
۔“Keep dreaming” اُس نے اپنے چھوٹے بھائی کو tease کرنے والے انداز میں کہا۔
”ممّی نے تمہیں بتایا، اُس خط میں کیا ہے؟” حمین اس وقت گلے گلے اس دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔
”نہیں، لیکن میں نے انہیں بتایا کہ یہ خط حمین کی مدد سے لکھا گیا ہو گا، میں اُس سے پوچھ لوں گی۔ اُس خط میں کیا لکھا تھا ایرک نے پاپا کو؟” عنایہ اب اُس سے پوچھ رہی تھی۔ حمین بے اختیار کراہا تھا۔ وہ مصیبت کو دعوت نہیں دیتا تھا مصیبت خود آکر اُس کے گلے کا ہار بن جاتی تھی۔
******
ایرک کو سالار نے خود دروازے پر ریسیو کیا تھا۔ وہ ویک اینڈ تھا اور اس وقت اُن کے بچے سائیکلنگ کے لئے نکلے ہوئے تھے۔ گھر پر صرف امامہ اور سالار تھے۔
”یہ آپ کے لئے!” ایرک نے اپنے ایک ہاتھ میں پکڑے چند پھول جو گلدستے کی شکل میں بندھے ہوئے تھے اُس کی طرف بڑھا دیے۔ سالار نے ایک نظر اُن پھولوں پر ڈالی، اُسے یقین تھا اُس میں سے کچھ خود اُس ہی کے لان سے لئے گئے تھے۔ لیکن اُس نے اسے نظر انداز کیا تھا۔
”اس کی ضرورت نہیں تھی۔” اُس نے اُسے اندر لاتے ہوئے شکریہ کے بعد کہا۔ ایرک فارمل میٹنگ کے لئے آیا تھا اور آج پہلی بار سالار نے اُسے فارمل گیٹ اپ میں دیکھا تھا۔
”بیٹھو!” سالار نے اُسے وہیں لاؤنج میں ہی بیٹھنے کے لئے کہا۔ ایرک بیٹھ گیا۔ سالار اُس کے بالمقابل بیٹھا اور اُس کے بعد اُس نے ٹیبل پر پڑا ایک لفافہ کھولا۔ ایرک نے پہلی بار غور کیا، وہ اُسی کا خط تھا اور سالار اب اُس خط کو دوبارہ کھولتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ ایرک بے اختیار نروس ہوا تھا۔ خط لکھ بھیجنا اور بات تھی اور اب اُسی خط کو اپنے سامنے اُس بندے کے ہاتھ میں دیکھنا جس کے نام وہ لکھا گیا تھا، دوسری۔
سالار نے ایک ڈیڑھ منٹ لیا۔ پھر اُس خط کو ختم کرتے ہوئے ایرک کو دیکھا۔ ایرک نے نظریں ہٹا لیں۔
”کیا عنایہ کو پتہ ہے، تمہاری اس خواہش کے بارے میں؟” سالار نے بے حد ڈائریکٹ سوال کیا تھا۔
”میں نے مسز سالار سے وعدہ کیا تھا کہ میں عنایہ سے کبھی ایسی کوئی بات نہیں کروں گا اس لئے میں نے آپ کو خط لکھا۔” ایرک نے جواباً کہا، سالار نے سر ہلایا اور پھر کہا۔
”اور یہ واحد وجہ ہے جس کی وجہ سے میں نے تمہیں یہاں بلایا ہے، تمہارا خط پھاڑ کر نہیں پھینکا۔ تم وعدہ کر کے نبھا سکتے ہو، یہ بہت اچھی کوالٹی ہے۔”
سالار سنجیدہ تھا اور اُس نے بے حد بے دھڑک انداز میں کہا تھا۔ ایرک کی تعریف کی تھی، لیکن اُس کے لہجے اور چہرے کی سنجیدگی نے ایرک کو خائف کیا تھا۔
”تو تم عنایہ سے شادی کرنا چاہتے ہو؟” سالار نے اُس خط کو اب واپس میز پر رکھ دیا تھا اور اُس کی نظریں ایرک پر جمی ہوئی تھیں۔ ایرک نے سر ہلایا۔ ”پہلی بات یہ ایرک کہ صرف شادی کی نیّت کر کے مذہب بدل لینا بہت چھوٹی بات ہے۔ ہمارا دین اس کی اجازت دیتا ہے، اسے بہت پسند نہیں کرتا۔” سالار نے کہا۔
”تمہارے پاس مسلمان ہونے کے لئے میری بیٹی سے شادی کے علاوہ کوئی اور وجہ ہے؟” سالار نے اُسی انداز میں اُس سے اگلا سوال کیا تھا۔ ایرک خاموش بیٹھا اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”مذہب کی تبدیلی ایک بہت بڑا فیصلہ ہے اور یہ نفس کی کسی خواہش کی وجہ سے نہیں ہونا چاہیے، عقل کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ کیا تمہاری عقل تمہیں یہ کہتی ہے کہ تمہیں مسلمان بن کر اپنی زندگی اللہ کے احکامات کے مطابق گزارنی چاہیے؟” اُس نے ایرک سے پوچھا، وہ گڑبڑایا۔

”میں نے اس پر سوچا نہیں۔” 
”میرا بھی یہی اندازہ ہے کہ تم نے اس پر سوچا نہیں۔ 
اس لئے بہتر ہے پہلے تم اس پر اچھی طرح سوچو۔” سالار نے جواباً اس سے کہا۔
”میں کل پھر آؤں؟” ایرک نے اُس سے کہا۔
”نہیں! تم ابھی کچھ سال اس پر سوچو کہ تمہیں مسلمان کیوں بننا ہے؟ اور اُس کی وجہ عنایہ نہیں ہونی چاہیے۔” سالارنے اُس سے کہا۔
”میں ویسے بھی عنایہ کی شادی ”صرف مسلمان” سے نہیں کروں گا، مسلمان ہونے کے ساتھ اُسے ایک اچھا انسان بھی ہونا چاہیے۔” اُس نے کہا۔
ایرک کے چہرے پر یک دم مایوسی اُبھری۔
”یعنی آپ میرا پروپوزل قبول نہیں کر رہے؟” اُس نے سالار سے کہا۔
”فوری طور پر نہیں، لیکن تقریباً دس سال بعد جب مجھے عنایہ کی شادی کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنا ہوگا تو میں تمہیں ضرور consider کروں گا۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے، ان دس سالوں میں تم ایک اچھے مسلمان کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان بن کر بھی رہو۔” سالار نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
۔“Can you guide me to this” ایرک نے یک دم کہا۔ سالار چند لمحے خاموش رہا، وہ اُسی ایک چیز سے بچنا چاہتا تھا، اسی ایک چیز کو avoid کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اب ایرک نے اُس سے بالکل direct مدد مانگ لی تھی۔
”ہاں، ہم سب تمہاری مدد کر سکتے ہیں، لیکن اُس کے لئے رشتہ جوڑنا ضروری نہیں ہے ایرک! ہم انسانیت کے رشتے کی بنیاد پر بھی تمہاری مدد کر سکتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔” سالار نے بالآخر جواباً کہا۔
”13 سال کی عمر میں سکول میں پڑھتے ہوئے تم شادی کرنا چاہتے ہو اور تمہیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ شادی ذمہ داریوں کا دوسرا نام ہے۔ تم اپنی فیملی کی ذمّہ داریوں سے بھاگتے ہوئے ایک اور فیملی بنانے کی کوشش کر رہے ہو۔ تم اس فیملی کی ذمّہ داری کیسے اُٹھاؤ گے؟ مذہب بدل کر ایک دوسرے مذہب میں داخل ہونا اُس سے بھی بڑا کام ہے، کیا تمہارے پاس اتنا وقت اور passion ہے کہ تم اپنے اس نئے مذہب کو سمجھو، پڑھو اور اُس پر عمل کرو؟ کیا تم اُن پابندیوں سے واقف ہو جو یہ نیا مذہب تم پر لگائے گا؟” سالار اب اُس پر جرح کر رہا تھا۔
”میں قرآن پاک کو ترجمے سے پڑھ چکا ہوں، میں پہلے ہی سب چیزیں جانتا ہوں اور میں عمل کر سکتا ہوں۔” ایرک بھی سنجیدہ ہوگیا تھا۔
”ٹھیک ہے۔ پھر ایسا کرتے ہیں کہ دس سال کا ایک معاہدہ کرتے ہیں۔ اگر 23 سال کی عمر میں تمہیں لگا کہ تمہیں عنایہ سے ہی شادی کرنی ہے تو پھر میں عنایہ سے تمہاری شادی کر دوں گا۔ شرط یہ ہے کہ ان دس سالوں میں تم کو ایک اچھے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان کے طور پر بھی نظر آنا چاہیے۔” سالار نے ایک اور بالکل سادہ کاغذ اُس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
”یہ بہت لمبی مدّت ہے۔” ایرک نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
”ہاں۔ لیکن یہ وہ مدّت ہے جس میں مجھے تمہارے فیصلے تمہاری sincerity کو ظاہر کریں گے، تمہارے بچگانہ پن کو نہیں۔” سالار نے جواباً اس سے کہا۔ وہ سالار کو دیکھتا رہا، بے حد خاموشی سے۔ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پھر اُس نے کہا۔
”مسٹر سالار سکندر آپ مجھ پر دراصل اعتبار نہیں کر رہے۔” اس نے بے حد blunt ہو کر سالار سے کہا۔
”اگر کر رہے ہوتے تو مجھ سے دس سال کے انتظار کا نہ کہتے۔ لیکن ٹھیک ہے، آپ اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔” اُس نے کہا، میز پر پڑا ایک قلم اُٹھایا۔ وہاں پڑے سادے کاغذ کے بالکل نیچے اپنا نام لکھا، اپنے دستخط کئے اور تاریخ ڈالی۔ پھر قلم بند کر کے واپس میز پر اُس کاغذ کے اوپر رکھ دیا۔ ”میں عنایہ سے متاثر نہیں ہوا، میں آپ اور آپ کے گھر سے متاثر ہوا، آپ کی بیوی کی نرم مزاجی اور آپ کی اصول پسندی سے، اُن values سے، جو آپ نے اپنے بچوں کو دی ہیں اور اس ماحول سے، جہاں میں ہمیشہ آکر اپنا آپ بھول جاتا تھا۔ وہ مذہب، یقیناً اچھا مذہب ہے جس کے پیروکار آپ لوگوں جیسے ہوں۔ میں عنایہ کے ساتھ ایک ایسا ہی گھر بنانا چاہتا تھا کیوں کہ میں بھی اپنی اور اپنے بچوں کے لئے ایسی زندگی چاہتا ہوں۔ میں جانتا تھا آپ لوگوں کے خاندان کا حصّہ بننا اتنا آسان نہیں ہو گا لیکن میں کوشش کرتا رہوں گا۔ کیوں کہ کوشش تو آپ کا مذہب ہی کرنے کو کہتا ہے، جو اب میرا مذہب بھی ہو گا۔”
وہ کسی تیرہ سال کے بچّے کے الفاظ نہیں تھے اور وہ اتنے جذباتیت سے بھرپور بھی نہیں تھے جیسا اُس کا خط تھا۔ لیکن اُس کے باوجود اُس کے اُن جملوں نے صرف سالار کو نہیں امامہ کو بھی بُری طرح متاثر کیا تھا۔ وہ چند لمحے پہلے لاؤنج میں داخل ہوئی تھی اور اُس نے صرف ایرک کے جملے سنے تھے۔ ایرک اب اُٹھ کر کھڑا ہو چکا تھا۔ اُس نے امامہ کو بھی دیکھا اور اُسے ہمیشہ کی طرح سلام کیا، پھر خداحافظ کہہ کر وہاں سے نکل گیا۔ لاؤنج میں ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ بیرونی دروازے کے بند ہونے کی آواز پر امامہ آگے بڑھ آئی تھی، اُس نے لاؤنج کی سینٹر ٹیبل پر پڑا وہ کاغذ اُٹھا کر دیکھا جس پر ایرک دستخط کر کے گیا تھا، اُس کاغذ پر صرف ایک نام تھا عبداللہ اور اُس کے نیچے دستخط اور تاریخ۔
امامہ نے سالار کو دیکھا، اُس نے ہاتھ بڑھا کر وہ کاغذ امامہ کے ہاتھ سے لیا، اُسے فولڈ کر کے اُسی لفافے میں ڈالا جس میں ایرک کا خط تھا۔ اور پھر اُسے امامہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”یہ دوبارہ آئے گا اور اگر میں نہ بھی ہوا اور یہ اپنے وعدے پر پورا اترا تو تم بھی اُس وعدے پر پورا اُترنا، جو میں نے اُس سے کیا ہے۔ امامہ نے کپکپاتی انگلیوں سے کچھ بھی کہے بغیر وہ لفافہ پکڑا تھا۔
*****
عائشہ عابدین کو زندگی میں پہلی بار اگر کسی لڑکے سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا تھا، تو وہ جبریل سکندر تھا۔ پاکستان میں رہتے ہوئے بھی اُس نے اپنی بڑی بہن نساء عابدین سے جبریل کے بارے میں اتنا کچھ سُن رکھا تھا کہ وہ ایک فہرست بنا سکتی تھی۔ نساء جبریل کی کلاس فیلو تھی اور اُس سے ”شدید” متاثر اور مرعوب۔ اس کے باوجود کہ وہ خود ایک شاندار تعلیمی کیریئر رکھنے والی اسٹوڈنٹ تھی۔
عائشہ فیس بک پر اپنی بہن کی وال پر اکثر جبریل کے comments پڑھتی تھی جو وہ اُس کی بہن کے status updates پر دیتا رہتا تھا۔ عائشہ بھی کئی بار ان updates پر تبصرہ کرنے والوں میں سے ہوتی تھی لیکن جبریل سکندر کی wit کا مقابلہ وہاں کوئی بھی نہیں کر پاتا تھا۔ اُس کے comments نساء عابدین کی وال پر بالکل الگ چمکتے نظر آتے تھے۔ اور جب وہ کسی وجہ سے وہاں تبصرہ نہیں کر پاتا تو کئی بار اُس کے کلاس فیلوز کے تبصروں کی لمبی قطار کے بیچ میں جبریل کی خاموشی اور غیر حاضری کو بُری طرح miss کیا جاتا۔ اور ان miss کرنے والوں میں سرفہرست عائشہ عابدین تھی۔ جسے خود بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ جبریل کے comments پڑھتے پڑھتے بے حد addictive ہو گئی تھی۔
نساء کے ساتھ جبریل کی مختلف فنکشنز اور سرگرمیوں میں اکثر بہت ساری گروپ فوٹوز نظر آتی تھیں۔ لیکن عائشہ کو ہمیشہ جبریل کی فیملی کے بارے میں curiosity تھی۔ وہ سالار سکندر سے واقف تھی کیوں کہ اُس کا تعارف نساء نے ہی کروایا تھا۔ لیکن اُس کی فیملی کے باقی افراد کو دیکھنے کا اُسے بے حد اشتیاق تھا اور یہی اشتیاق اُسے بار بار جبریل کی فرینڈز لسٹ میں نہ ہونے کے باوجود اُس کی تصویروں کو کھوجنے کے لئے مجبور کرتا تھا، جہاں اُسے رسائی حاصل تھی۔ کچھ تصویریں وہ دیکھ سکتی تھی، کچھ وہ نہیں دیکھ سکتی تھی۔ لیکن ان تصویروں میں، جن تک اُسے رسائی حاصل تھی، اُن میں جبریل کی فیملی کی تصاویر نہیں تھیں۔
جبریل بھی غائبانہ طور پر عائشہ سے واقف تھا، اور اس تعارف کی وجہ فیس بک پر نساء کے status updates پر ہونے والے تبصروں میں اُن کا حصہ لینا تھا۔ اور نساء نے اپنی وال پر جبریل کو اپنی بہن سے متعارف کروایا تھا۔ وہ غائبانہ تعارف بس اتنا ہی رہا تھا کیوں کہ جبریل نے کبھی اُس کی ID کھوجنے کی کوشش نہیں کی اور عائشہ کی اپنی وال پر تصویریں بہت کم تھیں، اُس سے بھی زیادہ کم وہ لوگ تھے جنہیں اُس نے اپنی contact list میں add کیا ہوا تھا۔ نساء کے برعکس اُس کا حلقہ احباب بے حد محدود تھا، اور اُس کی کوشش بھی یہی رہتی تھی کہ وہ اُسے اتنا ہی محدود رکھے۔
عائشہ کو جبریل کے بارے میں ہمیشہ یہ غلط فہمی رہی کہ وہ نساء میں انٹرسٹڈ تھا اور اس تاثر کی بنیادی وجہ خود نساء تھی جو اس بات کو ایڈمٹ کرنے میں کبھی تامّل نہیں کرتی تھی کہ عمر میں اُس سے چھوٹا ہونے کے باوجود وہ جبریل کو پسند کرتی تھی۔ ایک دوست کے طور پر جبریل کی اُس سے بے تکلفی تھی، ویسی ہی بے تکلّفی جیسی اُس کی اپنی دوسری کلاس فیلوز سے بھی تھی اور نساء نے کبھی اس بے تکلّفی کو misinterpret نہیں کیا تھا۔ کیوں کہ جبریل لڑکیوں کے ساتھ بے تکلّفی اور دوستی میں بھی بہت ساری حدود و قیود رکھتا تھا اور بے حد محتاط تھا۔ نساء عمر میں اُس سے چار سال بڑی تھی۔ وہ اپنے قد کاٹھ اور maturity دونوں سے پندرہ سولہ سال کا نہیں لگتا تھا اور نساء یہ بھی جانتی تھی۔ یونیورسٹی میں اتنا وقت گزار لینے کے باوجود جبریل ابھی تک گرل فرینڈ نامی کسی بھی چیز کے بغیر تھا، تو ایسے حالات میں سالار سکندر کی اُس لائق اولاد پر قسمت آزمائی کرنے کے لئے کوئی بھی تیّار ہو سکتا تھا۔ صرف نساء ہی نہیں۔
عائشہ عابدین ان سب چیزوں سے واقف تھی نساء کی جبریل میں دلچسپی اُن کے گھر میں ایک اوپن سیکرٹ تھا لیکن ان دونوں کے future کے حوالے سے نہ تو اُن کو کوئی assurance تھی نہ ہی کسی اور کو نساء ذہانت اور قابلیت سے متاثر ہونے والوں میں سے تھی اور جبریل سکندر وہ پہلا شخص نہیں تھا جس نے اُسے متاثر کیا تھا، مگر فی الحال یہ جبریل ہی تھا جس کا ذکر وہ کرتی رہتی تھی۔
عائشہ عابدین ایک passive observer کی طرح یہ سب کچھ دیکھتی آرہی تھی اور جب تک وہ جبریل سے ملی، وہ اُس سے پہلے ہی بہت متاثر تھی۔
یونیورسٹی کے ایک فنکشن میں وہ پہلی بار جبریل سے بالآخر ملنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ نساء کو اندازہ نہیں تھا کہ عائشہ صرف جبریل سے ملنے کے لئے اُس کے ساتھ یونیورسٹی آنے پر تیّار ہوئی ہے، ورنہ وہ جب بھی امریکہ آتی اُن سب کی کوششوں کے باوجود اپنی مرضی کی جگہوں کے علاوہ کہیں نہیں جاتی تھی یونیورسٹی میں ہونے والی کوئی تقریب تو وہ شاید کوئی آخری چیز تھی جس کے لئے عائشہ یونیورسٹی آتی اور نساء نے یہ بات جبریل سے اُسے متعارف کرواتے ہوئے کہہ بھی دی تھی۔
جبریل سکندر وہ پہلا لڑکا تھا جسے دیکھنے کا عائشہ عابدین کو اشتیاق ہوا تھا اور جبریل سکندر ہی وہ پہلا لڑکا تھا جسے عائشہ عابدین اپنے ذہن سے نکالنے میں اگلے کئی سال تک کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔
تصویریں کبھی کبھار کسی شخص کی شخصیت اور وجاہت کو کیموفلاج کر دیتی ہیں اور بہت اچھا کرتی ہیں۔ محمد جبریل سکندر charismatic تھا خطرناک حد تک متاثر اور مرعوب کرنے والی شخصیت رکھتا تھا 16 سال کی عمر میں بھی وہ تقریباً چھے فٹ قد کے ساتھ سالار سکندر کی گہری سیاہ آنکھیں اور اپنی ماں کے تیکھے نین نقوش اور بے حد بھاری آواز کے ساتھ ایک عجیب ٹھہراؤ کا منبع دِکھتا تھا ایک بے حد casual ڈارک بلو جینز اور دھاری دار بلیک اینڈ وائٹ ٹی شرٹ میں ملبوس جبریل سکندر مسکراتے ہوئے پہلی بار عائشہ عابدین سے مخاطب ہوا تھا اور وہ بُری طرح نروس ہوئی تھی وہ نروس ہونا نہیں چاہتی تھی لیکن جبریل سے وہاں کھڑے صرف مخاطب ہونا بھی اُسے اُس کے پیروں سے ہلانے کے لئے کافی تھا۔ وہ صرف نساء ہی نہیں کسی بھی عمر کی کسی بھی لڑکی کو پاگل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ عائشہ عابدین نے دل ہی دل میں اعتراف کیا تھا۔
”کیوں؟ آپ کو اچھا نہیں لگتا امریکہ آکر گھومنا پھرنا؟” اُس نے نساء کے کسی تبصرے پر عائشہ سے پوچھا تھا۔
”نہیں مجھے اچھا لگتا ہے، لیکن بہت زیادہ نہیں۔” وہ گڑبڑائی۔ اُس نے خود کو سنبھالا، پھر جبریل کے سوال کا جواب دیا جس کی آنکھیں اُسی پر ٹکی ہوئی تھیں۔ وہ اب سینے پر بازو لپیٹے ہوئے تھا۔ وہ اُس کے جواب پر مسکرایا تھا پھر اُس نے نساء کو فنکشن کے بعد عائشہ کے ساتھ کسی ریسٹورنٹ میں کافی کی دعوت دی تھی جو نساء نے قبول کر لی تھی، وہ دونوں اپنے کچھ دوستوں کا انتظار کرتے ہوئے گپ شپ میں مصروف ہو گئے تھے عائشہ ایک بار پھر passive observer بن گئی تھی۔ نساء ایک بہت dominating لڑکی تھی اور گھر میں وہ ہر کام اپنی مرضی اور اپنے طریقے سے کروانے کی عادی تھی لیکن عائشہ نے نوٹس کیا تھا، نساء جبریل کے ساتھ اُس طرح نہیں کر رہی تھی۔ وہ اُس کی پوری بات سن کر کچھ کہتی اور اُس کی بہت سی باتوں سے اتفاق کر رہی تھی۔ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے عائشہ عابدین کو وہ بے حد اچھے لگ رہے تھے ایک پرفیکٹ کپل جس پر اُسے رشک آ رہا تھا اور جبریل سے اس طرح متاثر ہونے کے باوجود وہ اُسے نساء کی زندگی کے ساتھی کے طور پر ہی دیکھ رہی تھی نساء کا taste اور چوائس ہر چیز میں اچھی اور منفرد تھی اور جبریل اُس کا ایک اور ثبوت ہے۔
فنکشن کے بعد وہ نساء اور جبریل کے کچھ دوستوں کے ساتھ ایک کیفے میں کافی پینے گئی تھی، یہ ایک اتفاق تھا یا خوش قسمتی کہ چھے لوگوں کے اُس گروپ میں جبریل اور عائشہ کی سیٹس ایک دوسرے کے ساتھ تھیں۔ نساء جبریل کے بالمقابل میز کے دوسری جانب تھی اور عائشہ کے دوسری طرف نساء کی ایک اور دوست سوزین۔
عائشہ عابدین کی nervousness اب اپنی انتہا کو تھی۔ وہ اُس کے اتنے قریب تھی کہ اُس کے پرفیوم کی خوشبو محسوس کر رہی تھی۔ ٹیبل پر دھرے اُس کے ہاتھ کی کلائی میں بندھی گھڑی سے ڈائل پر ٹک ٹک کرتی سوئی دیکھ سکتی تھی لیکن اگر وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی تو وہ گردن موڑ کر اُسے اتنے قریب سے دیکھنا تھا۔ وہ غلط جگہ بیٹھ گئی تھی عائشہ عابدین کومینیو دیکھتے ہوئے احساس ہوا تھا۔
جبریل میزبان تھا اور وہ سب ہی سے پوچھ رہا تھا، اُس نے عائشہ سے بھی پوچھا تھا۔ عائشہ کو مینیو کارڈ پر اُس وقت کچھ بھی لکھا نہیں دکھ رہا تھا۔ جو دکھ بھی رہا تھا وہ اس احساس سے غائب ہو گیا تھا کہ وہ گردن موڑ کر اُسے دیکھ رہا تھا۔ ”جو سب لیں گے میں بھی لے لوں گی۔” عائشہ نے جیسے سب سے محفوظ حل تلاش کیا تھا، جبریل مسکرایا اور اُس نے اپنا اور اُس کا آرڈر ایک ہی جیسا نوٹ کروایا۔ وہ ایک ویجی ٹیبل پیزا تھا جسے اُس نے ڈرنکس کے ساتھ آرڈر کیا تھا اور بعد میں کافی کے ساتھ چاکلیٹ موز۔ نساء اپنا آرڈر پہلے دے چکی تھی اور باقی سب لوگ بھی اپنے آرڈر نوٹ کروارہے تھے۔ ہیم برگر… شرمپس…stuffed turkey… یہ امریکن دوستوں کے آرڈرز تھے۔ نساء نے ایک Salmon Sandwich منگوایا تھا۔
”میں اس سال میڈیکل میں چلی جاؤں گی، میرا ایڈمیشن ہو گیا ہے۔”روٹین کی گفتگو کے دوران جبریل کے سوال پر یک دم اُس نے بتایا۔
۔“Fantastic!” اُس نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ خود بھی میڈیسن میں ہی جا رہا تھا۔
وہ سب لوگ گفتگو میں مصروف تھے اور اس گفتگو میں اُس کی خاموشی کو جبریل ہی وقتاً فوقتاً ایک سوال سے توڑتا۔ وہ جیسے اُسے بوریت سے بچانے کی کوشش کررہا تھا یا پھر engage کرنے کی اور عائشہ نے یہ چیز محسوس کی تھی۔ وہ جن ٹین ایجرز کو جانتی تھی، وہ اور طرح کے تھے یہ اور طرح کا تھا۔
کھانا آنے پر وہ اُسی طرح گفتگو میں مصروف خود کھانے کے ساتھ ساتھ عائشہ کو بھی سرو کرتا رہا۔ یوں جیسے وہ روٹین میں یہ سب کرنے کا عادی رہا ہو۔
محمد جبریل سکندر سے ہونے والی وہ پہلی ملاقات اور اُس میں ہونے والی ایک ایک چیز عائشہ عابدین کے ذہن اور دل دونوں پر نقش ہو گئی تھیں۔
”جس بھی لڑکی کا یہ نصیب ہو گا، وہ بے حد خوش قسمت ہوگی۔” اُس نے سوچا تھا۔ ”کاش یہ نساء ہی کو مل جائے!” اُس نے بے حد دل سے خواہش اور دعا کی تھی۔ اُس عمر میں بھی اُس نے اپنی زندگی کے حوالے سے کچھ بھی سوچنا شروع نہیں کیا تھا۔ اگر کرتی تو جبریل وہ پہلا لڑکا ہوتا جس جیسے شخص کی خواہش وہ اپنے لئے بھی کرتی۔ جبریل نے اُس کے لاشعور کو اُس پہلی ملاقات میں اس طرح اثر انداز کیا تھا۔
”میں تمہارے لئے بہت دعا کر رہی ہوں نساء کہ تمہاری شادی جبریل سے ہو جائے جب بھی ہو وہ بہت اچھا ہے۔” اس کیفے سے اُس شام گھر واپس آنے کے بعد عائشہ نے نساء سے کہاتھا۔ وہ جواباً ہنسی۔
”خیر ابھی شادی وغیرہ کا تو کوئی سین نہیں ہو سکتا ہم دونوں کے لئے وہ بہت young ہے اور مجھے اپنا کیریئر بنانا ہے، لیکن مجھے وہ بہت پسند ہے اور اگر کبھی بھی اُس نے مجھ سے کچھ کہا تو میں انکار نہیں کروں گی کون انکار کر سکتا ہے جبریل کو۔” اپنے بیڈروم میں کپڑے تبدیل کرنے کے لئے نکالتے ہوئے نساء نے اُس سے کہا۔
”اُس کے ماں باپ نے بہت اچھی تربیت کی ہے اُس کی۔ تم نے دیکھا، وہ کس طرح تمہیں توجہ دے رہا تھا۔ مجھے یاد نہیں، میں کبھی اپنے ساتھ کوئی guest لے کر گئی ہوں اور جبریل نے اُسے اس طرح attention نہ دی ہو۔” وہ کہتی چلی گئی۔ عائشہ کا دل عجیب انداز میں بُجھا۔ تو وہ توجہ سب ہی کے لئے ہوتی تھی اور عادت تھی، favor نہیں۔ اُس نے کچھ مایوسی سے سوچا۔ “Fair enough”
”تمہیں پتہ ہے، مجھے کیوں اچھا لگتا ہے وہ…؟” نساء اُس سے کہہ رہی تھی۔ ”وہ حافظِ قرآن ہے۔ بے حد practising ہے۔ کبھی تم اُس کی تلاوت سنو۔ لیکن اتنا مذہبی ہونے کے باوجود وہ بہت لبرل ہے، تنگ نظر نہیں ہے۔ جیسے بہت سارے new born Muslims ہو جاتے ہیں۔ نہ ہی اس کو میں نے کبھی دوسروں کے حوالے سے judgemental پایا ہے۔ مجھے نہیں یاد کبھی اُس نے میرے یا کسی اور فی میل کلاس فیلو کے لباس کے حوالے سے کچھ کہا ہو یا ویسے کسی کے بارے میں comment کیا ہو۔
۔Never” نساء کہتی جا رہی تھی وہ لباس کے معاملے میں خاصی ماڈرن تھی اور اُسے یہ قابلِ قبول نہیں ہو سکتا تھا کہ کوئی اُس پر اس حوالے سے کوئی قدغن لگاتا اور جبریل میں اُسے یہ خوبی بھی نظر آگئی تھی۔
عائشہ بالکل کسی سحر زدہ معمول کی طرح یہ سب سُن رہی تھی۔ نساء کے انکشافات نے جیسے عائشہ کے لئے اُس کی زندگی کے آئیڈیل لائف پارٹنر کی چیک لسٹ میں موجود اینٹریز کی تعداد بڑھا دی تھی۔
اُس رات عائشہ عابدین نے بڑی ہمّت کر کے جبریل کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجی تھی اور پھر کئی گھنٹے وہ اس انتظار میں رہی کہ وہ کب اُسے add کرتا ہے۔
وہ فجر کے وقت نمار کے لئے اُٹھی تھی اور اُس وقت نماز پڑھنے کے بعد اُس نے ایک بار پھر فیس بُک چیک کیا تھا اور خوشی کی ایک عجیب لہر اُس کے اندر سے گزری تھی، وہ add ہوچکی تھی۔ اور جو پہلی چیز عائشہ نے کی تھی، وہ اُس کی تصویروں میں اُس کی فیملی کی تصویروں کی تلاش تھی۔ اور اُسے ناکامی نہیں ہوئی تھی۔ اُس کے اکاؤنٹ میں اس کی فیملی کی بہت ساری تصاویر تھیں۔ سالار سکندر کی، حجاب میں ملبوس امامہ کی، اُس کی ٹین ایجر بہن عنایہ کی، حمین کی، اور رئیسہ کی۔ جبریل کے انکلز اور کزنز کی، جو اُن کی فیملی کے برعکس بے حد ماڈرن نظر آرہے تھے لیکن اُن سب میں عجیب ہم آہنگی نظر آ رہی تھی۔
وہ جبریل سکندر سے دوستی کرنا چاہتی تھی، لیکن وہ ہمّت نہیں کر پائی تھی۔ لیکن وہ اور اُس کی فیملی یک دم جیسے اُس کے لئے ایک آئیڈیل فیملی کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ ایسی فیملی جس کا وہ حصہ بننا چاہتی تھی۔ وہ اُس فیملی کا حصہ نہیں بن سکی تھی لیکن عائشہ عابدین کو احسن سعد اور اُس کی فیملی سے پہلی بار متعارف ہو کر بھی ایسا ہی لگا تھا کہ وہ جبریل سکندر جیسا خاندان تھا…اور احسن سعد جبریل سکندر جیسا مرد۔ قابل، باعمل مسلمان، حافظِ قرآن۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عائشہ عابدین نے جبریل سکندر کے دھوکے میں احسن سعد کو اپنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
******
اس کتاب کا پہلا باب اگلے نو ابواب سے مختلف تھا۔ اسے پڑھنے والا کوئی بھی شخص یہ فرق محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کہ پہلا باب اور اگلے نو ابواب ایک شخص کے لکھے ہوئے نہیں لگ رہے تھے۔ وہ ایک شخص نے لکھے تھے بھی نہیں۔
وہ جانتی تھی وہ اُس کی زندگی کی پہلی بد دیانتی تھی، لیکن یہ نہیں جانتی تھی کہ وہی آخری بھی ہو گی۔ اس کتاب کا پہلا باب اس کے علاوہ اب اور کوئی نہیں پڑھ سکتا تھا۔ اُس نے پہلا باب بدل دیا تھا۔
نم آنکھوں کے ساتھ اُس نے پرنٹ کمانڈ دی۔ پرنٹر برق رفتاری سے وہ پچاس صفحے نکالنے لگا جو اس کتاب کا ترمیم شدہ پہلا باب تھا۔
اُس نے ٹیبل پر پڑی ڈسک اُٹھائی اور بے حد تھکے ہوئے انداز میں اُس پر ایک نظر ڈالی۔ پھر اُس نے اسے دو ٹکڑوں میں توڑ ڈالا۔ پھر چند اور ٹکڑے۔۔ اپنی ہتھیلی پر پڑے ان ٹکڑوں کو ایک نظر دیکھنے کے بعد اُس نے انہیں ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔
ڈسک کا کور اُٹھا کر اُس نے زیرِ لب اس پر لکھے چند لفظوں کو پڑھا، پھر چند لمحے پہلے لیپ ٹاپ سے نکالی ہوئی ڈسک اُس نے اس کور میں ڈال دی۔
پرنٹر تب تک اپنا کام مکمل کرچکا تھا۔ اُس نے ٹرے میں سے ان صفحات کو نکال دیا۔ بڑی احتیاط کے ساتھ اس نے اُنہیں ایک فائل کور میں رکھ کر اُنہیں دوسری فائل کورز کے ساتھ رکھ دیا جن میں اس کتاب کے باقی نو ابواب تھے۔
ایک گہرا سانس لیتے ہوئے وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ کھڑے ہو کر اُس نے ایک آخری نظر اُس لیپ ٹاپ کی مدھم پڑتی سکرین پر ڈالی۔
اسکرین تاریک ہونے سے پہلے اس پر ایک تحریر اُبھری تھی۔ ”!Will be waiting”
اُس کی آنکھوں میں ٹھہری نمی یک دم چھلک پڑی تھی۔ وہ مسکرا دی۔ اسکرین اب تاریک ہونے لگی۔ اُس نے پلٹ کر ایک نظر کمرے کو دیکھا پھر بیڈ کی طرف چلی آئی۔ ایک عجیب سی تھکن اُس کے وجود پر چھانے لگی تھی۔ اس کے وجود پر یا ہر چیز پر… بیڈ پر بیٹھ کر چند لمحے اُس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑی چیزوں پر نظر دوڑائی۔
وہ پتہ نہیں کب وہاں اپنی رسٹ واچ چھوڑ گیا تھا… شاید رات کو جب وہ وہاں تھا، وہ وضو کرنے گیا تھا۔پھر شاید اُسے یاد ہی نہیں رہا تھا۔ وہ رسٹ واچ اٹھا کر اُسے دیکھنے لگی۔ سیکنڈز کی سوئی کبھی نہیں رُکتی، صرف منٹ اور گھنٹے ہیں جو رُکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سفر ختم ہوتا ہے… سفر شروع ہو جاتا ہے۔
بہت دیر تک اس گھڑی پر انگلیاں پھیرتی وہ جیسے اس کے لمس کو کھوجتی رہی۔ وہ لمس وہاں نہیں تھا۔ وہ اس کے گھر کی واحد گھڑی تھی جس کا ٹائم بالکل ٹھیک ہوتا تھا۔ صرف منٹ نہیں…سیکنڈز تک…کاملیت اس گھڑی میں نہیں تھی، اس شخص کے وجود میں تھی جس کے ہاتھ پر وہ ہوتی تھی۔
اُس نے آنکھوں کی نمی صاف کرتے ہوئے اس گھڑی کو دوبارہ سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ کمبل اپنے اوپر کھینچتے ہوئے وہ بستر پر لیٹ گئی۔اُس نے لائٹ بند نہیں کی تھی۔اُس نے دروازہ بھی مقفل نہیں کیا تھا۔ وہ اُس کا انتظار کررہی تھی۔ بعض دفعہ انتظار بہت ”لمبا” ہوتا ہے… بعض دفعہ انتظار بہت مختصر ہوتا ہے۔
اُس کی آنکھوں میں نیند اُترنے لگی۔ وہ اسے نیند سمجھ رہی تھی… ہمیشہ کی طرح آیت الکرسی کا ورد کرتے ہوئے وہ اُسے چاروں طرف پھونک رہی تھی۔ جب اُسے وہ یاد آیا۔ وہ اس وقت وہاں ہوتا تو اُس سے آیت الکرسی اپنے اوپر پھونکنے کی فرمائش کرتا۔
بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑے ایک فوٹو فریم کو اُٹھا کر اس نے بڑی نرمی کے ساتھ اُس پر پھونک ماری۔ پھر فریم کے شیشے پر جیسے کسی نظر نہ آنے والی گرد کو اپنی انگلیوں سے صاف کیا، چند لمحے تک وہ فریم میں اس ایک چہرے کو دیکھتی رہی پھر اُس نے اس کو دوبارہ بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ سب کچھ جیسے ایک بار پھر سے یادآنے لگا تھا۔ اُس کا وجود ایک بار پھر سے ریت بننے لگا تھا۔آنکھوں میں ایک بار پھر سے نمی آنے لگی تھی۔
اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ آج ”اُسے” بہت دیر ہوگئی تھی۔ امامہ نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولی تھیں۔کمرے میں نیم تاریکی تھی۔ سالار اُس کے برابر میں سورہا تھا۔ اُس نے وال کلاک پر نظر ڈالی، رات کا آخری پہر تھا۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی… عجیب خواب تھا… وہ کس کا انتظار کر رہی تھی اُسے خواب میں بھی سمجھ نہیں آیا تھا۔ کتاب کے وہ دس ابواب سالار کے تھے۔ وہ کتاب سالار ہی لکھ رہا تھا اور ابھی تک اُس کے نو ابواب لکھے جا چکے تھے۔ دسواں نہیں۔ وہ گھڑی بھی سالار کی تھی اور سالار نے حمین کی پچھلی برتھ ڈے پر اُس کی ضد اور اصرار پر اُسے دی تھی اور اب وہ گھڑی حمین باندھتا تھا۔ اور اُس نے خواب میں اپنے آپ کو بوڑھا دیکھا تھا۔ وہ اُس کا مستقبل تھا۔ وہ کسی کو یاد کر رہی تھی، کسی کے لئے اداس تھی، مگر کس کے لئے، اور وہ کسی کا انتظار کر رہی تھی؟ اور کوئی نہیں آ رہا تھا۔ مگر کون؟ اور پھر وہ تحریر… Will be waiting… وہ خواب کی ایک ایک detail کو دہرا رہی تھی۔ ایک ایک جزئیات کو دہرا سکتی تھی۔
وہ بستر سے اُٹھ گئی، بے حد بے چینی کے عالم میں… اُن کی پیکنگ مکمّل ہو چکی تھی۔ وہ اس گھر میں اُن کی آخری رات تھی اُس کے بعد وہ اُن سب کے ساتھ پاکستان جانے والی تھی اور سالار اور جبریل کو وہیں رہ جانا تھا۔
ایک بار پھر سے اُس کا گھر ختم ہو جانا تھا۔ یہ جیسے اُس کی زندگی کا ایک پیٹرن ہی بن گیا تھا۔ گھر بننا، گھر ختم ہونا، پھر بننا، پھر ختم ہونا، ایک عجیب ہجرت تھی جو ختم ہی نہیں ہوتی تھی۔ اور اس ہجرت میں اپنے گھر کی وہ خواہش اور خواب پتہ نہیں کہاں چلا گیا تھا۔ وہ اُس رات اس طرح خواب سے جاگنے کے بعد بھی بہت اُداس تھی۔
پہلے وہ سالار کی بے انتہا مصروفیت کی وجہ سے اُس کے بغیر اپنے آپ کو رہنے کی عادی کر پائی تھی اور اب پاکستان چلے جانے کے بعد اُسے جبریل کے بغیر بھی رہنا تھا۔
وہ چلتے ہوئے کمرے میں موجود صوفہ پر جا کر بیٹھ گئی۔ اُسے لگ رہا تھا جیسے اُس کے سر میں درد ہونے لگا تھا اور صوفہ پر بیٹھتے ہوئے اُسے ایک بار پھر اُس خواب کا خیال آنے لگا تھا۔ اُس خواب کے بارے میں سوچتے سوچتے وہ بُری طرح ٹھٹھکی۔ کتاب کے دس ابواب، اُس کی اُداسی، اُس کا بڑھاپا، کسی کو یاد کرنا۔
اُسے یاد آیا تھا۔ اُس کتاب کا ہر باب سالار کی زندگی کے پانچ سالوں پر مشتمل تھا۔ ڈاکٹرز نے سالار کو سات سے دس سال کی زندگی کی مہلت دی تھی اور کتاب کا دسواں باب 50 سال کے بعد ختم ہو رہا تھا

پریذیڈنٹ نے کافی کا خالی کپ واپس میز پر رکھ دیا۔ پچھلے پانچ گھنٹے میں یہ کافی کا آٹھواں کپ تھا جو اس نے پیا تھا۔اُس نے زندگی میں کبھی اتنی کافی نہیں پی تھی، مگر زندگی میں کبھی اُسے اس طرح کا فیصلہ بھی نہیں کرنا پڑا تھا۔ وہ آگے گڑھا اور پیچھے کھائی والی صورت حال سے دوچار تھا اور اپنے عہدِ صدارت کے ایک بہت غلط وقت پر ایسی صورت حال سے دوچار ہوا تھا۔
کانگریس کے الیکشنز سر پر تھے اور یہ فیصلہ ان الیکشنز کے نتائج پر بری طرح اثر انداز ہوتا۔ بری طرح کا لفظ شاید ناکافی تھا، اس کی پارٹی دراصل الیکشن ہارجاتی لیکن اس فیصلہ کو نہ کرنے کے اثرات زیادہ مضر تھے۔ وہ اسے جتنا ٹال سکتا تھا ، ٹال چکا تھا، جتنا کھینچ سکتا تھا، کھینچ چکا تھا۔اب اُس کے پاس ضائع کرنے کے لئے وقت نہیں تھا۔ کچھ lobbies کی قوتِ برداشت جواب دے رہی تھی۔ کچھ power players دبے لفظوں میں اپنی ناراضگی اور شدیدردِّعمل سے اُسے خبردار کررہے تھے۔ فارن آفس اُسے مسلسل متعلقہ ممالک سے امریکی سفارت خانوں کی تقریباً روزانہ کی بنیاد پر آنے والی queries اور concerns کے بارے میں آگاہ کررہا تھا اور خود وہ دو ہفتے کے دوران مستقل ہاٹ لائن پر رہا تھا۔
امریکہ کی بین الاقوامی پسپائی ایک الیکشن ہارنے سے زیادہ سنگین تھی مگر اس کے پاس آپشنز نہ ہونے کے برابر تھے، اپنی کیبنٹ کے چھے اہم ترین ممبرز کے ساتھ پانچ گھنٹوں کی طویل گفت و شنید کے بعد وہ جیسے تھک کر پندرہ منٹ کی ایک بریک لینے پر مجبور ہوگیا تھا۔ اور اس وقت وہ اس بریک کے آخری چند کچھ منٹ گزاررہا تھا۔
ٹیبل سے کچھ پیپرز اُٹھا کر وہ دوبارہ دیکھنے لگا تھا، وہ کیبنٹ آفس میں ہونے والی پانچ گھنٹے کی طویل میٹنگ کے اہم نکات تھے۔اُس کی کیبنٹ کے وہ چھے ممبرز دو برابر گروپس میں بٹے ہوئے دو مختلف لابیز کے ساتھ تھے۔ وہ ٹائی اس کے کاسٹنگ ووٹ سے ٹوٹنے والی تھی اور یہی چیز اسے اتنا بے بس کررہی تھی۔ اس فیصلے کی ذمّہ داری ہر حال میں اسی کے سر پر آرہی تھی۔ یہ اس کے عہدِ صدارت میں ہوتا اور اُس کے کاسٹنگ ووٹ سے ہوتا۔اگر ہوتا تو… اور اس ذمّہ داری کو وہ لاکھ کوشش کے باوجود کہیں اور منتقل نہیں کر پارہا تھا۔
اُس نے ہاتھ میں پکڑے کاغذات کو ایک نظر پھر دیکھنا شروع کیا۔ وہ بُلٹ پوائنٹس اس وقت حقیقتاً اُسے بُلٹس کی طرح لگ رہے تھے۔
بریک کے آخری دو منٹ باقی تھے جب وہ ایک فیصلہ پر پہنچ گیا تھا۔ بعض دفعہ تاریخ بنانے والے کے ہاتھوں کو خود جکڑ کر خود کو بنواتی ہے۔
اور تاریخ 17 جنوری 2030 کو بھی یہی کر رہی تھی۔
******
ہشام نے پہلی بار اُس لڑکی کو سوڈان میں دیکھا تھا۔ UNHCR کے ایک کیمپ پر کسی پناہ گزین گونگی عورت کے ساتھ اشاروں میں بات کرتے اور اُسے کچھ سمجھاتے۔ وہ پاکستانی یا انڈین تھی۔ ہشام نے اُس کے نقوش اور رنگت سے اندازہ لگایا تھا، اور پھر اُس کے گلے میں لٹکے کارڈ پر اُس کا نام پڑھ کر اُسے اُس کا نام پتہ چل گیا تھا۔
بے حد معمولی شکل و صورت کی ایک بے حد دبلی پتلی گھنے بالوں والی ایک سانولی رنگت کی ایک دراز قامت لڑکی… اُس کا پانچ فٹ سات انچ قد اُس کی واحد خاصیت لگی تھی اُس پہلی ملاقات میں ہشام کو۔
وہ ایک عورت سے بات کرتے کرتے ہشام کی طرف متوجہ ہوئی، ایک co-worker کے طور پر اُسے مسکراہٹ دی اور ہاتھوں کے اشارے سے ہیلو اور حال چال پوچھا، اُس لڑکی نے بھی ہاتھوں کے اشارے سے اُس کو جواب دیا۔ دونوں نے بیک وقت اپنے گلے میں لٹکے کارڈز پکڑ کر اوپر کرتے ہوئے اور اُس پر انگلی پھیرتے ہوئے جیسے خود کو متعارف کیا۔ وہ CARE کی ورکر تھی، وہ ریڈکراس کا اور وہ دونوں USA سے آئے تھے۔ رسمی تعارف اور وہاں کے حالات کے بارے میں اشاروں میں ہی بات کرنے کے بعد وہ دونوں آگے بڑھ گئے تھے۔
اُن کی دوسری ملاقات دوسرے دن ہوئی تھی۔ لکڑی کے عارضی باتھ رومز کی تنصیب و تعمیر والی جگہ پر۔ وہ آج بھی اُس سے پہلے وہاں موجود تھی اور کچھ تصویریں لے رہی تھی۔ وہ کچھ سامان لے کر وہاں آیا تھا ایک لوڈر گاڑی میں لٹکے… دونوں نے ایک بار پھر اشاروں کی زبان میں رسمی علیک سلیک کی۔
تیسری ملاقات لمبی تھی، وہ ایڈ ورکرز کے ایک ڈنر میں ملے تھے… ڈنر ہال کے باہر کوریڈور میں… دونوں دس منٹ اشاروں کی زبان میں بات کرتے رہے… وہ پاکستان سے تھی، وہ بحرین سے… وہ نیو یارک یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا، وہ سٹی یونیورسٹی نیو یارک میں… وہ فنانس کا اسٹوڈنٹ تھا ، وہ سوشل سائنسز کی… اور ان دونوں کے درمیان کامن چیز صرف ایک تھی۔ ریلیف ورک، جس میں وہ دونوں اپنی ٹین ایج سے انوالوڈ تھے… اُن دونوں کا Academic C.V اتنا لمبا نہیں تھا جتنا اُن کا Extra-Curricular کوریڈور میں کھڑے اُن دس منٹوں میں اُن دونوں نے ایک دوسرے کے بارے میں ہی پوچھا اور جانا تھا… اشاروں کی زبان میں سوالات بہت تفصیلی ہو گئے تھے لیکن ہشام کا دل چاہا تھا وہ اُس سے اور بھی سوال کرتا… وہ قوتِ گویائی رکھتی تو وہ کر ہی لیتا… اُس کے ساتھ کھڑے اُس نے سوچا تھا… وہ اُسے اُس شام اتنی ہی دل چسپ لگی تھی اور اس سے پہلے کہ وہ دونوں ہمیشہ کی طرح مل کر آگے بڑھ جاتے… اُس کوریڈور سے بہت سارے گزرنے والے ایڈ ورکرز میں سے ایک جو اُن دونوں کو جانتا تھا اُس نے اُنہیں بلند آواز میں دور سے مخاطب کرتے ہوئے ہیلو کہا اور ساتھ حال احوال دریافت کیا۔ وہ دونوں بیک وقت اُس کی طرف مخاطب ہوئے۔ انہوں نے بیک وقت اُس کی ہیلو کا جواب دیتے ہوئے جواباً اُس کی خیریت دریافت کی اور پھر دونوں نے بیک وقت کرنٹ کھا کر ایک دوسرے کو دیکھا۔ stunned silence میں… اور پھر دونوں قہقہہ لگا کر ہنسے تھے… اور ہنستے ہی گئے تھے… سُرخ ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ… اپنی شرمندگی چھپانے کے لئے اُن کے پاس اس سے اچھا طریقہ کوئی اور نہیں تھا اُس وقت…
اُن دونوں کا پہلا تعارف ”خاموشی” نے کروایا تھا اور وہ خاموشی ہمیشہ اُن کے ہر جذبے کی آواز بنی رہی… وہ جیسے اُن کا سب سے دل چسپ کھیل تھا… جب ایک دوسرے سے کچھ بھی خاص کہنا ہوتا تو Sign Language میں بات کرنے لگتے۔ ہنستے کھلکھلاتے، بوجھتے، بھٹکتے، سنبھلتے، سمجھتے… کیا کھیل تھا…!!
وہ اُس وقت یونیورسٹی میں ابھی گئے ہی تھے… ہشام کو حیرت تھی اُن کی ملاقات اس سے پہلے کیوں نہیں ہوئی۔ وہ دونوں ایک جیسی relief agencies کے ساتھ کام کر رہے تھے، لیکن اس سے پہلے وہ صرف امریکہ کے اندر ہی طوفانوں اور سیلابوں کے دوران ہونے والے ریلیف ورک سے منسلک رہے تھے، یہ پہلا موقع تھا کہ وہ دونوں امریکہ سے باہر ہونے والے کسی ریلیف کیمپ میں حصّہ لینے کے لئے گئے تھے۔
نیو یارک واپسی کے بعد بھی اُن دونوں کا رابطہ آپس میں ختم نہیں ہوا تھا… دو مختلف یونیورسٹیز میں ہونے کے باوجود وہ ایک دوسرے سے وقتاً فوقتاً مختلف سوشل ایونٹس میں ملتے رہتے تھے کیوں کہ دونوں مسلمان طلبہ کی تنظیم سے بھی وابستہ تھے… اور پھر یہ رابطہ وقتاً فوقتاً ان سوشل ایونٹس سے ہٹ کر بھی ہونے لگا… وہ دونوں ایک دوسرے کی فیملی سے بھی مل چکے تھے اور اب بہت باقاعدگی سے ملنے لگے تھے۔ دونوں کے والد ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے تھے…
ہشام امریکہ میں بحرین کے سفیر کا بیٹا تھا، اور بحرین کے سفارت خانے میں ہونے والی اکثر گیدرنگز میں اُسے بھی انوائیٹ کیا جاتا تھا۔ اُس کی ماں ایک فلسطینی نژاد ڈاکٹر تھی اور اس کا باپ امریکہ کے علاوہ بہت سے یورپین ممالک میں بحرین کی نمائندگی کر چکا تھا۔ دو بہن بھائیوں میں وہ بڑا تھا اور اُس کی بہن ابھی ہائی سکول میں تھی۔
ریلیف ورک میں دل چسپی ہشام کو اپنی ماں سے وراثت میں ملی تھی جو ہشام کے باپ سے شادی سے پہلے ریڈ کراس کے ساتھ منسلک تھی اور فلسطین میں ہونے والے ریلیف کیمپس میں اکثر اُن امدادی ٹیموں کے ساتھ جاتی تھی جو امریکہ سے جاتی تھیں۔ شادی کے بعد اُس کا وہ کام صرف فنڈز اکٹھے کرنے اور donations تک محدود رہ گیا تھا۔ مگر ہشام نے اپنی ماں فاطمہ سے یہ شوق وراثت میں لیا تھا۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ شوق بڑھتا ہی گیا تھا۔
اُس لڑکی سے ملنے کے بعد اُسے اپنا شوق اور جنوں بہت کم اور کمتر لگا تھا۔ وہ اُس کم عمری میں جن ریلیف پروجیکٹس کے ساتھ منسلک رہی تھی، بہت کم ایسا ہوا تھا کہ ریلیف آپریشن کے بعد بہترین خدمات کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے والوں میں اُس کا نام نہ ہوتا۔ اُس سے میل جول کا آغاز ہونے کے بعد ہشام کو احساس ہوا کہ اُن کے درمیان انسانیت کی خدمت کا جذبہ ایک واحد کامن چیز نہیں تھی، اور بھی بہت سی دلچسپیاں مشترکہ تھیں اور صرف دلچسپیاں اور مشاغل ہی نہیں… خصوصیات بھی… دونوں کتابیں پڑھنے کے شوقین تھے اور بہت زیادہ… دونوں کو تاریخ میں دل چسپی تھی… دونوں پھرنے پھرانے کے شوقین تھے اور دونوں بہت زیادہ باتونی نہیں تھے… سوچ سمجھ کر بات کرنے کے عادی تھے۔
ہشام کی پوری زندگی لڑکیوں کے ساتھ مخلوط تعلیمی ماحول اور معاشرے میں گزری تھی… نہ اُس کے لئے لڑکیاں نئی چیز تھیں، نہ اُن سے دوستی… لیکن زندگی میں پہلی بار وہ کسی لڑکی سے متاثر ہو کر اُس کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ اُس کا کبھی کوئی آئیڈیل نہیں رہا تھا لیکن اُسے لڑکیوں میں جو چیزیں اٹریکٹ کرتی تھیں، اُن میں سے کوئی بھی چیز اُس لڑکی میں نہیں تھی… نہ وہ حسین تھی… نہ سٹائلش، نہ ایسی ذہین کہ اگلے کو چاروں شانے چِت کردے لیکن اس کے باوجود وہ اُسے کسی مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچتی تھی… نظر کا ایک جدید انداز کا چشمہ لگائے وہ سادہ سی جینز اور کُرتیوں میں اکثر flip flops میں بہت سی stilleto heels والی لڑکیوں کے سامنے ہشام کو زیادہ پرکشش محسوس ہوتی تھی… خود میں مگن، دوسروں سے بے نیاز… کالرڈ کُرتیوں اور شرٹس میں سر کے بال جُوڑے کی شکل میں باندھے اپنی لمبی نیلی گردن کو کسی راج ہنس کی طرح لہراتی وہ ہمیشہ اُسے فون یا ٹیبلٹ ہاتھ میں پکڑے اپنے حال میں مگن ملتی تھی، اُن بہت سی دوسری لڑکیوں کے برعکس جو اُسے دیکھتے ہی بے حد attentive ہو جاتی تھیں۔ ہشام عرب تھا، عورت کی اداؤں سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود اداؤں ہی سے گھائل ہونے والا، لیکن اُس لڑکی کے پاس کوئی ادا سرے سے تھی ہی نہیں اس کے باوجود وہ گھائل ہورہا تھا۔
”میرے معاشرے میں اگر مرد کسی عورت کے ساتھ کہیں جائے تو کھانے کا بل وہ دیتا ہے، عورت نہیں۔” ہشام نے پہلی بار اُسے کہیں کھانے کی دعوت دی تھی اور بِل کی ادائیگی کے وقت اُسے پرس نکالتے دیکھ کر اُس نے بڑی سنجیدگی سے روکتے ہوئے کہا تھا۔ وہ جواباً مسکراتے ہوئے پرس سے کچھ نوٹ نکالتے ہوئے اُس سے بولی ”اور میرے باپ نے مجھے کہا تھا کہ اپنے باپ اور بھائی کے علاوہ کسی مرد کے ساتھ بھی کھانا کھاتے ہوئے اپنا بل خود دینا، یہ تمہیں ہر خوش فہمی اور اُسے ہر غلط فہمی سے دور رکھے گا… اس لئے یہ میرے حصّہ کا بل…” اُس نے نوٹ میز پر رکھتے ہوئے ہشام سے کہا تھا۔ مسکرائی وہ اب بھی تھی، ہشام چند لمحوں کے لئے لاجواب ہوا تھا… وہ بڑا مہنگا ریسٹورنٹ تھا جہاں وہ اُسے لایا تھا اور وہ جب بھی کسی لڑکی کو وہاں لا کر بل خود ادا کیا کرتا تھا، اُسے اُس لڑکی کی طرف سے بے حد ناز بھرا اور مصنوعی حیرت اور گرم جوشی سے بھرپور شکریہ موصول ہوتا تھا۔ آج کچھ خلافِ توقع چیز ہوگئی تھی۔
”ریسٹورنٹ مہنگا تھا میں اس لئے کہہ رہا تھا۔” وہ جملہ اگلے کئی ہفتے ہشام کو اکیلے میں بھی دانت پیسنے پر مجبور کرتا رہا تھا… شرم ساری میں اُس نے زندگی بھر کبھی کسی عورت کو ایسی توجیہہ نہیں دی تھی۔
”شکریہ لیکن میں بہت امیر ہوں۔” اُس لڑکی نے جواباً مسکراتے ہوئے اُس سے کہا۔
”اس کا مطلب ہے تم میرا بل بھی دے سکتی ہو۔” وہ پتہ نہیں کیوں کہنے لگا تھا۔
”بل نہیں دے سکتی لیکن بل دینے کے لئے اُدھار دے سکتی ہوں۔” اُس نے جواباً اُس سے کہا۔
۔”So very kind of you… پھر دے دو…” ہشام نے اُسی روانی سے کہا۔ وہ پہلی بار اُلجھی، اُسے دیکھا پھر اُس نے اپنے پرس سے بل کی بقایا رقم نکال کر اُس کی طرف بڑھائی، ہشام نے وہ رقم پکڑ کر بل پر رکھتے ہوئے فولڈر بند کرتے ہوئے ویٹر کی طرف بڑھا دیا۔
اُس لڑکی نے اتنی دیر میں اپنا بیگ کھول لیا۔ وہ اُس میں سے کچھ تلاش کر رہی تھی، چند لمحے گود میں رکھے بیگ میں ہاتھ مارتے رہنے کے بعد اُس نے بالآخر ایک چھوٹی ڈائری نکالی اور پھر اُس کے بعد پین… میز پر ڈائری رکھ کر اُس نے اُس ڈائری میں اُس رقم کا اندراج کیا جو اُس نے کچھ دیر پہلے ہشام کو اُدھار دی تھی۔ پھر اُس نے پین اور ڈائری دونوں ٹیبل کے اوپر سے ہشام کی طرف بڑھائے۔ اُس نے کچھ حیران ہو کر دونوں چیزیں پکڑیں اور پھر اُس سے کہا۔
” یہ کیا ہے؟” لیکن سوال کے ساتھ ہی اُسے پہلی نظر ڈائری پر ڈالتے ہی جواب مل گیا تھا… وہ اُس کے signatures اُس رقم کے سامنے چاہتی تھی جہاں اُس نے اُدھار دی جانے والی رقم لکھی تھی۔ وہ چند لمحوں کے لئے اُس کی شکل دیکھ کر رہ گیا، وہ اب اپنے گلاسز اُتار کر اُنہیں صاف کرتے ہوئے دوبارہ لگارہی تھی۔ معمول کی طرح خود میں محو اور اُسے نظر انداز کئے یوں جیسے یہ سب ایک روٹین کی بات تھی۔ ہشام نے پین سنبھال کر دستخط کرنے سے پہلے ڈائری کے صفحے پلٹ کر بڑے تجسس سے لیکن محظوظ ہونے والے انداز میں دیکھا… وہاں چھوٹی بڑی رقموں کی ایک قطار تھی اور لینے والا صرف ایک ہی شخص تھا جس کا نام نہیں تھا صرف دستخط تھے، مختلف تاریخوں کے ساتھ لیکن کہیں بھی ادائیگی والے حصے میں کسی ایک رقم کی بھی ادائیگی نہیں کی گئی تھی۔
”مجھے اندازہ نہیں تھا تم اتنی calculated ہو… ہر چیز کا حساب رکھتی ہو؟” ڈائری پر دستخط کرتے ہوئے ہشام کہے بغیر نہیں رہ سکا۔
”اگر میں لکھوں گی نہیں تو بھول جاؤں گی اور معاملات میں تو clarity ضروری ہوتی ہے۔” اُس لڑکی نے جواباً اطمینان کے ساتھ کہا، وہ اب اُس سے ڈائری اور پین لے کر واپس اپنے بیگ میں رکھ چکی تھی۔
”ڈائری سے تو لگتا ہے تم واقعی بہت امیر ہو… اتنی دریا دلی سے کس کو قرض دے رہی ہو؟” ٹیبل سے اُٹھتے ہوئے ہشام نے اُس کو کُریدا، وہ بات گول کر گئی۔ اُن کے درمیان اتنی بے تکلفی نہیں تھی کہ وہ اُسے زیادہ کُریدتا مگر اُس ڈائری میں کئے ہوئے اُس آدمی کے دستخط اُسے یاد رہ گئے تھے۔ وہ اُن دستخط سے اتنا تو اندازہ لگا ہی چکا تھا کہ وہ کسی مرد کے دستخط تھے۔
ایک ہفتے بعد اُس نے اُس لڑکی کو وہ قرض واپس کرتے ہوئے اُس کی ڈائری میں ادائیگی کے حصّے میں اپنے دستخط paid کی تحریر کے ساتھ کرتے ہوئے ایک بار پھر سے ڈائری اُلٹ پلٹ کر دیکھی… وہ ڈائری اُس سال کی تھی، اور سال کے شروع سے اُس مہینے تک کسی صفحے پر کوئی ادائیگی نہیں تھی، لیکن اُدھار لینے کی رفتار میں تسلسل تھا… چھوٹی بڑی رقمیں، لیکن لاتعداد بار۔
”اس سال تمہیں کوئی اُدھار واپس کرنے والا میں پہلا شخص ہوں۔” ہشام نے جیسے بڑے فخریہ انداز میں کہا، اُس نے مسکرا کر اُس سے ڈائری اور نوٹ دوبار ہ واپس لئے، نوٹوں کو ہشام کے سامنے گنا، اپنے پرس سے چند چھوٹے نوٹ نکال کر ہشام کو واپس کیے کیوں کہ اُس نے راؤنڈ فگر میں رقم واپس کی تھی۔
”چھوڑو اسے رہنے دو۔” ہشام نے نوٹ واپس دینے کی کوشش کی۔”اتنی بڑی رقم نہیں ہے یہ۔”اُس نے جیسے لاپرواہی سے کہا۔ 
”کافی کا ایک کپ اور ایک ڈونٹ آسکتا ہے، ایک ویفل آئس کریم آسکتی ہے یا ایک برگر۔” اُس نے بڑے اطمینان سے جواباً کہا تھا، وہ ہنسا۔
”تم واقعی ضرورت سے زیادہ حساب کتاب کرتی ہو۔” 
”میری ماں کہتی ہے روپیہ مشکل سے کمایا جاتا ہے اور اُس کی قدر کرتے ہوئے اُسے خرچ کرنا چاہیے۔” اُس نے جیسے ایک بار پھر ہشام کو لاجواب کیا تھا، ذرا سی شرمندگی دکھائے بغیر۔
”اس طرح تو تم واقعی بہت امیر ہو جاؤ گی۔” ہشام نے اُسے tease کیا۔
”انشا اللہ!” 
اُس نے جواباً اتنے اطمینان سے کہا کہ ہشام کو ہنسی آگئی تھی۔ ہنسنے کے بعد ہشام کو احساس ہوا شاید یہ مناسب نہیں تھا کیوں کہ وہ اُسی طرح سنجیدہ تھی۔
”تمہیں بُرا تو نہیں لگا؟” اُس نے کچھ سنبھلتے ہوئے اُس سے پوچھا۔
”کیا؟” 
”میرا ہنسنا…”
”نہیں… مجھے کیوں بُرا لگے گا… تم کیا مجھ پر ہنسے تھے؟” ہشام نے سر کھجایا، لڑکی سیدھی تھی، سوال ٹیڑھا تھا۔
”یہ جس کو اتنے اُدھار دیتی رہی ہو، یہ کون ہے؟” اُس نے بھی اُس سے ایک ٹیڑھا سوال کیا تھا۔
”ہے کوئی۔” وہ ایک بار پھر نام گول کر گئی۔ 
”تم نام بتانا نہیں چاہتی؟” وہ کہے بغیر نہیں رہ سکا۔ 
”نہیں۔” وہ چند لمحوں کے لئے چُپ رہا پھر اُس نے کہا ”بہت زیادہ قرضہ نہیں ہو گیا اس کے سر؟” اس کی سوئی اب بھی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
”میں اُسے انکار نہیں کر سکتی…” ہشام عجیب طرح سے بے چین ہوا۔ 
”پیسے کے معاملے میں کسی پراعتبار نہیں کرنا چاہیے۔” شاید زندگی میں پہلی بار اُس نے کسی کو ایسا مشورہ دیا تھا۔ 
”پیسے کے بارے میں نہیں، میں ویسے ہی اعتبار کرتی ہوں اُس پر۔” 
اُس نے بڑے آرام سے کہا تھا۔ ہشام کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اُس سے کیا کہے؟ وہ اُن کی دوستی کا آغاز تھا اور وہ ایک دوسرے کی ذاتیات میں دخل اندازی نہیں کر سکتے تھے، اُن کے درمیان ایسی بے تکلفی نہیں تھی۔
اُس شخص کا تعارف بھی ہشام سے بہت جلد ہی ہو گیا تھا۔
******
تالیوں کی گونج نے حمین سکندر کی تقریر کے تسلسل کو ایک بار پھر توڑا تھا، روسٹرم کے پیچھے کھڑے چند لمحوں کے لئے رُک کر اُس نے تالیوں کے اس شور کے تھمنے کا انتظار کیا۔
وہ MIT کے graduating students کا اجتماع تھا، اور وہ وہاں commencement speaker کے طور پر بلایا گیا تھا۔ پچھلے سال وہ MIT کے graduating students میں شامل تھا۔ Saloon School Of Management سے ڈسٹنکشن کے ساتھ نکلنے والوں میں سے ایک اور اس سال وہ یہاں graduating students سے خطاب کر رہا تھا۔ MIT وہ واحد یونیورسٹی نہیں تھی جس نے اُسے اس سال اس اعزاز کے قابل سمجھا تھا۔ Ivy League کی چند اور نامور یونیورسٹیز نے بھی اُسے مدعو کیا تھا۔
24 سال کی عمر میں حمین سکندر پچھلے تین سالوں کے دوران دُنیا کے بہترین entreprenuers میں سے ایک مانا جا رہا تھا، اُس ایک آئیڈیا کی وجہ سے جو پچھلے کچھ سالوں میں ایک بیج سے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا تھا۔
۔Trade an Idea کے نام سے اُس کی ڈیجیٹل فنانس کمپنی نے پچھلے تین سالوں میں گلوبل مارکیٹس میں دھوم مچا رکھی تھی۔ دُنیا کے 125 بہترین مالیاتی اور کاروباری ادارے اُس کمپنی کے باقاعدہ کلائنٹس تھے اور ڈیڑھ ہزار چھوٹے ادارے بالواسطہ اُس کی خدمات سے فائدہ اُٹھا رہے تھے۔
اور یہ سب تین سال کی مختصر مدّت میں ہوا تھا، جب وہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کمپنی کی بنیاد رکھنے میں بھی مصروف تھا۔
۔Trade an Idea کا concept بے حد دل چسپ اور منفرد تھا اور ایک عام user کو وہ ابتدائی طور پر کسی digital game جیسا لگتا۔
اُس کی ابتداء بھی حمین سکندر نے بے حد چھوٹے پیمانے پر کی تھی۔ ایک ویب سائٹ پر اُس نے دنیا کی سو بہترین یونیورسٹیز کے اسٹوڈنٹس کو ایک آن لائن چیلنج دیا تھا۔ ایسا کوئی آئیڈیا trade کرنے کے لئے جس کے لئے انہیں یا تو فنانس چاہیے تھا یا کسی کمپنی کی سپورٹ اور یا پھر وہ اپنا idea کسی خاص قیمت پر trade کرنے کے لئے تیّار تھے۔ لیکن trading اور traders دونوں بے حد مختلف تھے۔
اُس ویب سائٹ پر تین کوئز تھے… اے کیٹگری، بی اور سی کیٹگری… ہر کوئز میں بیس سوالا ت تھے اور ویب سائٹ پر رجسٹریشن کے لئے ایک پاس ورڈ ضروری تھا جو اس کوئز میں کامیاب ہونے کے بعد بھیجا جاتا ہے اور وہی نمبر اُس trader کی ID تھی۔
کیٹگری A کا کوئز مشکل ترین تھا اور ناک آؤٹ کے انداز میں timed تھا۔ کیٹگری B اور C اُس سے آسان تھے اور نہ timed تھے اور نہ ہی اُن میں ناک آؤٹ ہوتا تھا۔ یہ ان تین کیٹگریز کی درجہ بندی تھی جو وہاں آنے والے traders کی پرفارمنس پر automatically انہیں مختلف کیٹگریز میں رکھتی تھی۔ جو A کیٹگری میں آگے نہ جا پاتا وہ B کے کوئز میں حصہ لیتا اور جو B میں بھی آگے نہ جاپاتا تو وہ C میں اور جو C میں بھی آگے نہ جا پاتا تو اُسے Trade an Idea کی طرف سے kick out کر دیا جاتا تھا اس پیغام کے ساتھ کہ ابھی اُسے اور سیکھنے کی ضرورت ہے… ٹریڈنگ اُس کا کام نہیں۔ اے کیٹگری کے کوئز میں کامیاب ہو جانے والے غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں کے حامل افراد ایک پاس ورڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے اور پھر اگلے مرحلے تک رسائی کرتے… ایک ایسے ٹریڈ سینٹر میں جہاں بہترین یونیورسٹیز کے بہترین دماغ اپنے اپنے ideas کو رجسٹر کروانے کے بعد آن لائن موجود ٹریڈرز کے ساتھ اپنے ideas کے حوالے سے بات چیت کرتے… وہ گروپ ڈسکشن بھی ہو سکتی تھی اور وہ ٹریڈرز کی آپس میں گفت و شنید بھی… پہلے مرحلے پر حمین صرف پانچ بڑی کمپنیز کو اس بات پر آمادہ کر پایا تھا کہ وہ اس ٹریڈ روم میں idea لے کر آنے والوں کے ideas سُنیں اور اُس پر اُن سے بات چیت کریں، اگر اُنہیں کسی کا idea پسند آجائے تو… اس کے عوض اُنہیں TAI کو ایک مخصوص فیس ادا کرنی تھی، اگر وہاں کوئی idea انہیں پسند آجاتا اور وہ اُسے خریدنے، اُس میں invest کرنے یا اُس میں پارٹنر شپ کرنے پر تیار ہوتے تو۔
کیٹگری بی میں پیش ہونے والے آئیڈیاز کی trading بھی اسی فارمولا کے تحت ہوتی تھی، لیکن وہاں ایک اضافی چیز یہ تھی کہ وہاں اپنے ideas کے ساتھ آنے والے مختلف نوجوان افراد interactions کے ذریعہ اپنی پسند کے کسی ایک جیسے idea پر collaboration کرسکتے تھے اور اگر ایسی کوئی collaboration کسی آئیڈیا کو عملی شکل تک ڈھال دیتا تو Trade an Idea اُس collaboration کے لئے بھی انہیں ایک فیس چارج کرتا۔
کیٹگری C اس سے بھی آسان تھی، وہاں trade کے لئے آنے والے traders اپنے ideas کو barter بھی کر سکتے تھے یعنی کسی بھی trader کو اگر دوسرے کا idea پسند آتا اور وہ اُسے cash سے خریدنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو، تو پھر وہ اُس idea کے بدلے کچھ اور idea, skill, service یا پروجیکٹ اُسے پیش کر سکتا تھا۔
وہ بہت basic سا فارمولا تھا۔ جو حمین نے صرف ذہانت کو encash کرنے کی بنیاد پر نکالا تھا اور اپلائی کیا تھا۔
پہلی بار اُس کی کلائنٹ بننے والی پانچ میں سے تین کمپنیز کو وہاں پہلے مہینے میں تین ایسے آئیڈیاز پسند آگئے تھے جن کے traders کو انہوں نے hire کرلیا تھا۔
تین سال پہلے کلائنٹس اور ٹریڈرز کی ایک محدود تعدار سے شروع ہونے والی کمپنی اب ان basic tradings سے بہت آگے بڑھ چکی تھی، وہ اب خود Trade an Idea پر آنے والے ٹریڈرز سے ایسے ideas اور بزنس پروپوزلز لے لیتی جس میں انہیں potential نظر آتا اور وہ اپنے بڑے کلائنٹس کی ضروریات اور دل چسپی کے مطابق مختلف ideas اور پروجیکٹس انہیں شیئر کردیتی۔
۔Trade an Idea نے پچھلے تین سال میں تین سو ایسی نئی کمپنیز کی بنیاد رکھی تھی جن کے ideas اُن کے پلیٹ فارم پر آنے کے بعد مختلف بین الاقوامی کمپنیز نے اُن ideas میں investment کی تھی۔Trade an Idea سے ملنے والے ideas پر تکمیل پانے والے پروجیکٹس کی کامیابی کا 90% ratio تھا۔
دُنیا کے سو بہترین اداروں کے بہترین اسٹوڈنٹس کو ایک پلیٹ فارم پر لانے والا یہ ادارہ اب دُنیا کی ہزاروں یونیورسٹیز کے لاکھوں اسٹوڈنٹس کو اپنے اپنے ideas گھر بیٹھے آن لائن نامور اور کامیاب ترین کمپنیز کے نمائندوں کے سامنے پیش کرنے کا موقع دے رہا تھا۔ وہ پلیٹ فارم ایک نئے entreprenuer کے لئے ایک ڈریم پلیٹ فارم تھا۔ Trade an Idea اب ان ہی کیٹگریز کے ساتھ ایک اور ایسی کیٹگری کا اضافہ کر چکا تھا جہاں کوئی بھی شخص اپنی خسارے میں جانے والی کمپنی، بزنس، سیٹ اپ پروجیکٹ بیچ سکتا تھا اور آن لائن ہی اُس کی evaluation بھی کروا سکتا تھا۔
حمین سکندر کا نام دُنیا کی کسی بھی بڑی مالیاتی کمپنی کے لئے اب نیا نہیں تھا۔ اُس کی کمپنی trade کے نئے اصول لے آئی تھی اور اُن نئے اصولوں پر کام کررہی تھی۔
”اکثر لوگوں کا خیال ہے میں رول ماڈل ہوں… ہو سکتا ہے میں بہت ساروں کے لئے ہوں… لیکن خود مجھے رول ماڈل کی تلاش کبھی نہیں رہی…” تالیوں کا شور تھم جانے کے بعد اُس نے دوبارہ کہنا شروع کیا تھا۔ ”رول ماڈلز اور آئیڈیلز کتابوں میں زیادہ ملتے ہیں اور میرے ماں باپ کو ہمیشہ مجھ سے یہ شکایت رہی کہ میں کتابیں نہیں پڑھتا۔” وہاں بیٹھے ہوئے اسٹوڈنٹس میں کھلکھلاہٹیں اُبھری تھیں اور اگلی ایک نشست پر بیٹھی امامہ بھی ہنس پڑی تھی۔
”میں نے اپنی زندگی میں دل چسپی سے صرف ایک کتاب پڑھی تھی اور وہ میرے باپ کی آٹو بائیوگرافی تھی… وہ بھی بارہ سال کی عمر میں اپنی ماں کے لیپ ٹاپ میں۔” سامنے والی نشستوں پر بیٹھی امامہ کا رنگ فق ہو گیا، وہ ہنسنا یک دم بھول گئی تھی۔
”اور وہ واحد کتاب ہے جس کو میں نے بار بار پڑھا… وہ۔۔۔۔۔۔۔ وہ واحد کتاب ہے جو میرے لیپ ٹاپ میں بھی ہے… میرے باپ کی آٹو بائیو گرافی کی بہترین بات یہ ہے کہ اُس میں کوئی ہیرو، کوئی آئیڈیل، کوئی رول ماڈل نہیں ہے، اور اُسے پڑھتے ہوئے مجھے ہمیشہ یہ احساس ہوا کہ میرا باپ کتنا lucky ہے کہ اُسے کسی سے inspire ہو کر اُس جیسا نہیں بننا پڑا، زندگی گزارنے کے اُن کے اپنے اصول اور فارمولاز اُن کے بچپن اور جوانی کو dictate کرتے رہے۔”
وہ کہتا جا رہا تھا اور وہاں بیٹھی امامہ عجیب سے شاک اور شرمندگی میں بیٹھی تھی، وہ کتاب جسے وہ آج بھی publish کروانا نہیں چاہتی تھی، صرف اس لئے کیوں کہ وہ اپنی اولاد کو اُن کے باپ کے حوالے سے کسی شرمندگی میں مبتلا نہیں دیکھنا چاہتی تھی… وہ کتاب اُس کی تیسری اولاد بارہ سال کی عمر میں صرف ایک بار نہیں، بار بار پڑھتا رہا تھا۔ اُس کی ایک کاپی اُس کے لیپ ٹاپ تک بھی چلی گئی تھی اور وہ بے خبر تھی۔
”میں نے اُس کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ طے کیا تھا کہ مجھے inspire ہونے جیسا آسان کام نہیں کرنا… inspire کرنے جیسا مشکل کام کر کے دیکھنا ہے۔” وہ کہہ رہا تھا۔
”میرا تعارف کرواتے وقت وہ ساری چیزیں گنوائی گئیں جن سے آپ سب کے سانس رُک جائیں، آنکھیں جھپکنا بند ہو جائیں، منہ کُھلے کے کُھلے رہ جائیں… میں نے کس عمر میں کیا کر دیا، اور کس عمر میں کیا… اس سال میری کمپنی کا ٹرن اوور کیا تھا… دُنیا کے دس بہترین entreprenuer میں، میں کس نمبر پر ہوں… دُنیا کی کون کون سی کمپنیاں میری کلائنٹ ہیں… آپ میں سے اگر کوئی مجھ سے اور میری کامیابی سے متاثر نہیں ہوا یہ سب سُن کر بھی تو مجھے حیرت ہو گی…” وہ رُکا، جیسے مجمع کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اُس نے کہا۔
”لیکن اس تعارف میں بہت سے ایسے facts شامل ہیں جن کو سُن کر آپ کو مجھ میں اپنا آپ یا اپنے آپ میں میں دِکھنے لگوں گا… جیسے اس تعارف میں یہ حقیقت شامل نہیں ہے کہ میں آج تک کوشش کے باوجود کبھی اپنی بہن سے لیا گیا قرض واپس نہیں کر سکا۔” مجمع میں ہلکی تالیوں کے ساتھ قہقہے گونجے۔
حمین بے حد سنجیدہ تھا۔
”لیکن میں ایک دن وہ ساری رقم واپس کروں گا یہ وہ وعدہ ہے جو میں اُس سے 8 سال کی عمر سے کر رہا ہوں جب میں نے اُس سے پہلی بار قرض لیا تھا، اور میں کبھی وعدہ پورا نہیں کر سکا۔” وہ ہنستے ہوئے مجمع کے سامنے بے حد سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔ میری بہن کے پاس ڈائریز کا ایک ڈھیر ہے جس میں اُس نے اُس سے اُدھار لیے جانے والے ایک ایک سینٹ کا بھی حساب رکھا ہوا ہے۔” تالیوں کے شور میں وہ رُکا۔ ”اور ہر اچھے بزنس مین کی طرح میں بھی اتنی بڑی رقم فوری طور پر کسی کو نہیں دے سکتا چاہے وہ قرضہ کی واپسی ہی کیوں نہ ہو…” وہ بول رہا تھا۔
”اور میں سُست ہوں، ضرورتاً جھوٹ بولتا ہوں، چیزیں اکثر بھول جاتا ہوں، دوستوں کو مایوس کرتا ہوں۔” اُس کے ہر جملے پر وہ اسٹوڈنٹس پر جوش انداز میں تالیاں بجا رہے تھے جیسے کسی rock star کو داد دے رہے ہوں۔
”اور ان تمام خامیوں کے ساتھ بھی مجھے اگر most inspirational person کی فہرست میں رکھا جاتا ہے تو یہ خوف ناک بات ہے… خوف ناک اس لئے کیوں کہ ہم ایک ایسے زمانے میں داخل ہو چکے ہیں جہاں صرف کامیابی ہمیں قابلِ عزت اور قابلِ رشک بنا رہی ہے… ہماری انسانی خصوصیات اور خوبیاں نہیں۔”
تالیوں کے شور نے ایک بار پھر اُسے رُکنے پر مجبور کیا تھا۔ مجمع اب اُس کے سینس آف ہیومر کو نہیں، اُس کے اُن الفاظ کو سراہ رہا تھا۔
۔”MIT کے graduating students کو یہ بات کہتے ہوئے میں stupid لگوں گا کہ اُن چیزوں کو redefine کریں جو ہمارے لئے inspirational ہونی چاہیے… میں دس سال کا تھا جب میرے باپ نے مجھے زبردستی پاکستان بھیج دیا… مجھے اور میری فیملی کو… کیوں کہ میرے دادا کو الزائمر تھا، اور میرے باپ کا خیال تھا اُنہیں ہماری ضرورت تھی… میں نے اگلے چھے سال اپنے دادا کے ساتھ گُزارے تھے… دنیا کی کوئی یونیورسٹی مجھے وہ تربیت اور علم نہیں دے سکتی جو الزائمر کے ہاتھوں اپنی یادداشت کھوتے ہوئے اُس 75 سال کے بوڑھے نے اپنے دس سال کے پوتے کو دی… MIT بھی نہیں…” سنّاٹے کو تالیوں نے توڑا تھا۔ پھر اُس کے لئے کھڑے ہو جانے والے ہجوم نے اگلے کئی منٹ اپنے ہاتھ نہیں روکے۔
”میں ہمیشہ سوچتا تھا اس سب کا فائدہ کیا تھا… مجھے امریکہ میں ہونا چاہیے تھا، دادا کے پاس نہیں… لیکن پھر آہستہ آہستہ سب کچھ بدلنا شروع ہو گیا… مجھے اُن کے ساتھ بیٹھنا، بات کرنا، سننا اور اُن کی مدد کرنا اچھا لگنے لگا… دس سال کا بچہ کبھی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی انسان سامنے پڑی ہوئی چیز کا نام کیسے بھول سکتا ہے… لیکن میں یہ سب دیکھ رہا تھا اور اس سب نے مجھے ایک چیز سکھائی۔ ”There is no tomorrow“ جو بھی ہے، آج ہے… اور آج کا بہترین مصرف ہونا چاہیے…”کل” چانس ہے، ہو سکتا ہے، آپ کو نہ ملے۔”
اُس نے تقریر ختم کر دی تھی۔ وہ پورا مجمع ایک بار پھر اُس کے لئے کھڑا ہو چکا تھا، تالیاں بجاتے ہوئے۔
امامہ بھی تالیاں بجارہی تھی، ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اُسے دیکھتے ہوئے… اُسے داد دیتے ہوئے… اُس کی اولاد نے اُسے ایسے بہت سے فخریہ لمحے دیے تھے… بہت سارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آہستہ آہستہ اُس گھر کے سارے پرندے اُڑ گئے تھے… جبریل، عنایہ، حمین رئیسہ… مگر ہر ایک کی پرواز شاندار تھی، وہ جس آسمان پر بھی اُڑ رہے تھے… فاتحانہ انداز میں اُڑ رہے تھے۔
”تم سمجھدار ہو گئے ہو یا ایکٹنگ کر رہے تھے؟” وہاں سے واپسی پر امامہ نے اُس سے گاڑی میں کہا تھا۔ وہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے ہنس پڑا۔ 
”ایکٹنگ کر رہا تھا، یہ تو ظاہر ہے… غلط سوال کرلیا آپ نے مجھ سے۔” اُس نے ماں کی بات کے جواب میں کہا تھا۔
”تم بے حد خراب ہو حمین!” امامہ کو یک دم جیسے یاد آیا۔
”میں بھی سوچ رہا تھا آپ بابا کی آٹو بائیوگرافی بھول کیسے گئیں؟” حمین نے ماں کے اس جملے پر برق رفتاری سے کہا۔
”تمہیں اُسے نہیں پڑھنا چاہیے تھا۔” امامہ اب بھی سنجیدہ تھی۔
”آپ ہی کہتی ہیں، کتابیں پڑھنا اچھی عادت ہے۔” اُس نے ماں سے کہا 
”میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ کتابیں چوری کر کے اور بغیر اجازت پڑھو۔”امامہ نے اُسی سنجیدگی سے اُسے ڈانٹا۔
”زندگی میں پہلی اور آخری بار کوئی کتاب چوری کر کے پڑھی ہے۔ آپ تسلّی رکھیں میں اتنا passionate نہیں ہوں ریڈنگ کے بارے میں۔” اُس نے بڑے اطمینان سے کہا۔ امامہ اگر اُسے شرمندہ دیکھنا چاہتی تھی تو یہ اُس کی غلط فہمی تھی۔ اُس کے پاس ہر logic اور ہر بہانہ تھا۔ سالار کا بیٹا تھا تو ان چیزوں کی افراط تھی اُس کے پاس۔
”ممّی آپ خوامخواہ ہی پریشان ہوتی رہتی ہیں، ہم بڑے ہو چکے ہیں، آپ ہر بات ہم سے راز نہیں رکھ سکتیں۔” اُس نے ماں کا کندھا تھپکتے ہوئے جیسے اُسے یاد دلایا۔
”باقی تینوں ہو چکے ہیں، تم نہیں ہوئے۔”
امامہ نے اُس کی بات کو ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے اُڑاتے ہوئے کہا۔٠
۔”That’s not fair آپ نے میری speech نہیں سُنی کیا؟” اُس نے بے ساختہ اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا۔
”وہ speech عنایہ نے لکھی ہوگی۔” امامہ نے کہا۔ ایک لمحہ کے لئے وہ لاجواب ہوا اور ونڈ سکرین سے باہر دیکھتے ہوئے بھی اُسے امامہ کی چبھتی نظروں کا احساس ہو رہا تھا۔
۔”She just edited it” اُس نے بالآخر اعتراف کیا…
۔”As always” امامہ نے جتانے والے انداز میں کہتے ہوئے گہرا سانس لیا۔
۔”You know it very well میں ساری عمر speeches لکھتا رہا ہوں، کرتا رہا ہوں، یہ مشکل نہیں ہے میرے لئے، میں خود بھی کر سکتا ہوں۔” ”کر سکتے ہو، بالکل کر سکتے ہو۔ لیکن بس یہ نہ کہو کہ تمہاری speech سُن کر تمہارے سمجھدار ہونے کا یقین کر لوں۔”
امامہ مزید کچھ کہنے کے بجائے خفگی کے عالم میں خاموش ہو گئی اور ونڈ سکرین سے باہر دیکھنے لگی۔
”غصّے میں آپ بہت حسین لگتی ہیں۔” اُس نے یک دم بڑی سنجیدگی سے ماں سے کہا، امامہ نے گردن موڑ کر اُسے دیکھا۔ ”یہ بھی میں نے بابا کی کتاب میں کہیں پڑھا تھا… چیپٹر نمبر فائیو میں؟ نہیں شاید فور میں۔’‘ وہ اب اپنا بازو اُس کے کندھے کے گرد پھیلائے ماں کو منانے کی کوشش کررہا تھا۔
”واقعی لکھا ہے تمہارے بابا نے؟” امامہ نے جیسے بے یقینی سے اُسے پوچھا، اس کے باوجود کہ وہ یہ کتاب درجنوں بار پڑھ چکی تھی۔ ایڈٹ، ری ایڈٹ کر چکی تھی اُس کے باوجود ایک لمحہ کے لئے اُسے واقعی شائبہ ہوا۔
”لکھا تو نہیں، لیکن اگر آپ کہیں تو میں edit کر کے شامل کر دیتا ہوں… آپ کو ویسے بھی پتہ ہے میں غلط باتوں کا چیمپئن ہوں۔” اُس نے بے حد اطمینان سے ماں سے کہا۔ وہ ہنس پڑی، وہ واقعی یہ بھی کر سکتا تھا، اُس کے لئے اُسے شبہ نہیں تھا۔
******
”ہم کہیں مل سکتے ہیں؟” اسکرین چمکی۔
”کہاں؟” تحریر اُبھری۔
”جہاں بھی تمہیں آسانی ہو، میں آجاؤں گا۔” جواب آیا۔
”اچھا سوچتی ہوں۔” لفظوں نے کہا۔
وہ خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا تھا اور وہ وہاں مقامِ ملتزم کے سامنے کھڑا تھا کتنی بار وہ یہاں آیا تھا اور کتنی بار یہاں آ کر کھڑا ہوا تھا، اُسے اب گنتی بھی بھول چکی تھی۔ لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی و ہ وہاں اسی حالت میں کھڑا تھا۔ ہیبت کے عالم میں، عجز کی کیفیت میں۔ دنیا کی کوئی جگہ سالار سکندر کو مٹی نہیں کرتی تھی، صرف وہ جگہ تھی جو اُسے خاک بنا دیتی تھی اور وہ ”خاک” بننے ہی وہاں آتا تھا ہر بار اپنی اوقات جاننے اور اُس کی یاددہانی کے لئے… ہر بار جب دُنیا اُسے کسی چوٹی پر بٹھاتی تھی تو وہ اپنے فخر اور تکبر کو دفنانے یہاں آتا تھا۔ آج بھی آیا تھا بلکہ بلایا گیا تھا۔
خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا جا رہا تھا۔ سیڑھی لگی ہوئی تھی۔ اور وہ دُنیا کے مختلف خطّوں سے آئے اُن دس مسلمانوں میں شامل تھا جنہیں خانہ کعبہ کے اندر ہونے والی صفائی کی سعادت کے لئے چنا گیا تھا۔ اور یہ اعزاز اُس کے حصے کس نیکی کے عوض آیا تھا، یہ اُسے ابھی تک سمجھ نہیں آرہا تھا۔ کرم تو وہ تھا ہی اور کرم تو اُس پر اللہ کا ہمیشہ ہی رہا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے نامہ اعمال میں ایسی کوئی نیکی کھوج رہا تھا جو ایسے کرم کا باعث بنتی۔
وہ شاہی خاندان کا مہمان بن کر پچھلے سالوں میں کئی بار عمرے کی سعادت حاصل کر چکا تھا۔ امامہ کے ساتھ بھی، اُس کے بغیر بھی۔ مگر یہ دعوت نامہ جو وہاں سے اس بار آیا تھا، وہ سالار سکندر کو کسی اور ہی کیفیت میں لے گیا تھا۔ ایسا انعام اور اتنا انعام، ایسا کرم اور اتنا کرم۔ وہ خطا کار اور گناہ گار تھا۔ ایسا کیا کر بیٹھا تھا کہ اب یوں درگزر کر رہا تھا، یوں عطا کر رہا تھا، وہ بھی جو وہم و گمان میں بھی نہ آنے والی باتیں ہوں۔
وہ اُس دعوت نامے کو آنکھوں سے لگا کر روتا رہا تھا۔ کیا صاف کرنا تھا اُس نے وہاں جا کر۔ سب صفائی تو اُس کے اپنے اندر ہونے والی تھی اور ہوتی آ رہی تھی۔
امامہ بھی وہاں تھی، ایک دوسری قطار میں اُن ہی افراد کی فیملیز کے ساتھ۔ وہ اُسے بھی ساتھ لایا تھا اور وہ اُسے رشک سے دیکھ رہی تھی، اس کے علاوہ وہ اور کیا کر سکتی تھی۔ اُس کے گھر امریکہ سے آنے والا وہ ”مہمان” اس بار اُس کے لئے ایسی سعادت لانے والا تھا، اس کا اندازہ تو اُسے تھا ہی نہیں۔ وہ اُسے ہمیشہ سرپرائز کرتا تھا، بغیر بتائے آ جاتا تھا جب بھی کبھی اُسے وقت ملتا تھا۔ دو دن کے لئے، تین دن کے لئے۔ اس بار بڑے عرصے کے بعد اُس نے امامہ کو اپنی آمد کے بارے میں پہلے سے بتایا تھا۔
“تمہارے لئے ایک سرپرائز ہے۔” اُس نے امامہ سے کہا تھا اور وہ ہمیشہ کی طرح سرپرائز بوجھ گئی تھی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا اُس نے وہ پہیلیاں نہ بوجھی ہوں جو سالار اُس کے سامنے رکھتا تھا۔
”تم مجھے عمرے پر لے کر جاؤ گے۔” اُس نے کئی اندازے لگانے کے بعد اُس سے فون پر کہا اور اُس کے ہنسنے پر امامہ نے فاتحانہ انداز میں کہا۔
”مجھے پتا تھا۔”
لیکن جس سعادت کے لئے اللہ نے اُسے اس بار بلایا تھا اُسے اس کا اندازہ نہیں تھا، وہ اُسے نہیں بوجھ سکی تھی اور جب اُس صبح اُس نے بالآخر امامہ کو وہ دعوت نامہ دکھایا تھا تو وہ گنگ ہو کر رہ گئی تھی۔ اور پھر وہی ہوا تھا جو ہوتا آیا تھا، جو ہونا تھا وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page