top of page

آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد

قسط نمبر بیس

تم اس لیے رو رہی ہو کہ یہ دعوت نامہ تمہارے لئے نہیں ہے؟” سالار نے اُس کے بہتے آنسو روکنے کے لئے جیسے اُسے چھیڑا۔
”نہیں، میں صرف اس لئے رو رہی ہوں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ آنسوؤں کے درمیان رُکی۔ ”اللہ تم سے اتنا پیار کیوں کرتا ہے۔” وہ پھر رونے لگی تھی۔ ”حسد نہیں ہے…رشک ہے… تمہارا اعزاز ہے لیکن مجھے لگ رہا ہے میرے سر پر تاج بن کر سجا ہے۔” وہ آنسوؤں کے بیچ کہتی جارہی تھی۔
”جو بھی اعزاز ہیں، تمہاری وجہ سے ہی آئے ہیں امامہ… پہلے بھی… اب بھی… کوئی اور زندگی کا ساتھی ہوتا تو یہ سب نہ ہوتا۔” اُس نے جواباً اُس سے کہا تھا۔
اور اب خانہ کعبہ کے کُھلتے ہوئے دروازے سے وہ سالار سکندر کو سیڑھیاں چڑھ کر اندر جاتا دیکھ رہی تھی۔ وہ اندر جانے والا آخری شخص تھا۔
معجزہ ہی تھا وہ زندہ تھا…صحت مند، تندرست، چاق و چوبند… اس عمر میں بھی 20-22 گھنٹے کام کرتے رہنے کی سکت کے ساتھ۔
ڈاکٹرز کہتے تھے اُس کی زندگی معجزہ تھی اور اُس کی ایسی صحت مند زندگی معجزے سے آگے کی کوئی شے… 42 سال کی عمر میں اُسے ٹیومر ہوا تھا اور وہ اب 60 سال کا تھا… جو ٹیومر اُسے ہوا تھا، وہ سات سے دس سال کے اندر انسان کو ختم کردیتا تھا اور وہ 18 سال سے زندہ تھا… ہر چھے مہینے کے بعد اپنی رپورٹس کو دیکھتا تھا… اُس کے دماغ میں موجود ٹیومر آج بھی تھا…اُسی جگہ پر… اُسی سائز میں…اور بس…
وہ رب جو سمندروں کو باندھ دیتا تھا، اور اُنہیں اُن کی حدوں سے باہر نکلنے نہیں دیتا تھا…اُس کے سامنے وہ چند ملی میٹر کا ایک ناسور کیا شے تھا؟
موت اور اُس کے بیچ زندگی نہیں دعائیں آکر کھڑی ہوئی تھیں اور سالار سکندر کو خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوتے ہوئے بھی یہ یاد تھا کہ وہ کس کی دعاؤں کی وجہ سے وہاں آج بھی اپنے قدموں پر کھڑا تھا۔ وہ امامہ ہاشم کے علاوہ کسی اور کی دعائیں ہو ہی نہیں سکتی تھیں جو اُسے زندگی بن کر یوں لگی تھیں۔
”کتنے سال سے میں نے اپنے لئے کوئی دعا ہی نہیں کی… جو بھی دعا کی ہے، تمہارے اور بچوں سے شروع ہوکر تم اور بچوں پر ہی ختم ہوجاتی ہے جب تک مجھے اپنا آپ یاد آتا ہے… مجھے دعا ہی بھول جاتی ہے۔” وہ اکثر اُس سے ہنستے ہوئے کہا کرتی تھی۔یوں جیسے ایک ماں اور بیوی کی پوری کہانی لکھ دیتی تھی۔
”دیکھو اللہ تمہیں کہاں کہاں بلاتے ہیں، کہاں کہاں دعا کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔” یہاں آتے ہوئے امامہ نے بڑی حسرت سے اُس سے کہا تھا اور اب خانہ کعبہ کے اندر کھڑے وہ اُس سے کہنا چاہتا تھا کہ وہ اُسے جہاں بھی بلاتا تھا ،وہ اُسے ہر اُس جگہ پر امامہ کو بھی یاد رکھواتا تھا۔جیسے اُسے جتاتا اور بتاتا ہو کہ اُسے کیسی درجے والی عورت کا ساتھ عطا کیا گیا تھا۔
اُس گھر کے اندر کی دُنیا اور دُنیا تھی۔ اس کائنات کا حصہ ہوتے ہوئے بھی وہاں کروڑوں نہیں آئے تھے، لاکھوں نہیں، ہزاروں نہیں۔ بس ہر صدی میں چند سو… اور ایک وہ صدی تھی جب وہاں پیغمبر ﷺ آئے تھے… وہاں کی ہر جگہ، ہر دیوار پر اُن کا لمس تھا اور پھر سینکڑوں سال بعد وہاں سالار سکندر بھی کھڑا تھا… ہیبت نہ آتی تو کیسے نہ آتی… صاف کرنا تھا تو کیا چیز صاف کرنی تھی… اپنے وجود کے علاوہ تو اُسے وہاں صاف کرنے والی کوئی شے نظر ہی نہیں آرہی تھی۔
”تم اندر جا کر کیا مانگو گے سالار؟” اُس نے خانہ کعبہ آتے ہوئے اُس سے پوچھا تھا۔ ”تم بتاؤ کیا مانگوں؟” سالار نے جواباً اُس سے پوچھا۔
”پتہ نہیں کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا۔” وہ رونے لگی… اور اُس دعوت نامہ کو دیکھنے کے بعد بار بار یہی ہورہا تھا وہ بار بار بات کرتے ہوئے رونے لگتی تھی… جیسے دل بھر آتا ہو… جیسے خوشی کی حد ختم ہوجاتی ہو۔
”تم سارے ستونوں کو ہاتھ لگا کر آنا… ساری دیواروں کو…اُن کو نبی پاک ﷺ نے بھی چھوا ہوگا، کسی نہ کسی کو… پھر تم باہر آؤ گے تو سب سے پہلے میں تمہارا ہاتھ چھوؤں گی۔” وہ بچوں جیسے انداز میں کہہ رہی تھی۔
اور خانہ کعبہ کے اندر اُس کی دیواروں، ستونوں کو آبِ زم زم سے دھوتے، چھوتے سالار سکندر کو سمجھ آگیا تھا امامہ ہاشم کیوں یاد آتی ہے ایسی ہر جگہ پر… کیوں دعا والی ہر جگہ پر سب سے پہلے اُس کے لئے دعا کرنا یاد آتا تھا… کیوں کہ وہ عشقِ رسولۖ تھا… خالص تھا… غرض کے بغیر تھا… قربانیوں سے گندھا تھا، یہ کیسے ممکن تھا وہاں سے جواب نہ ملتا… بُھلا دیا جاتا۔
”تُم نے اندر جاکر میرے لیے کیا مانگا؟” اُس کے باہر آنے پر امامہ نے عجیب بے تابی سے اُس سے پوچھا تھا۔ وہ ابھی اُس کے پاس آیا ہی تھا، اُس کے دونوں ہاتھ پکڑے وہ اب اُس سے پوچھ رہی تھی۔
”مانگا ہے کچھ… بتا نہیں سکتا۔” سالار نے جواباً عجیب مسکراہٹ کے ساتھ کہا ” جب پوری ہوجائے گی دُعا پھر بتاؤں گا۔” اُس نے اُسے جیسے اگلا سوال کرنے سے روک دیا تھا۔
”میں جانتی ہوں کیا مانگا ہے… لیکن میں بھی بتاؤں گی نہیں، دیکھتی ہوں قبول ہوتی ہے تمہاری دعا یا نہیں۔” امامہ نے جواباً عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ اُس سے کہا تھا۔
******
اسفند کی موت کی اطلاع عائشہ عابدین کو دینا جبریل سکندر کی ذمہ داری نہیں تھی، اس کے باوجود وہ اُس بچّے کی ماں سے ملنے آیا تھا اور عائشہ عابدین کو دیکھتے ہی کچھ دیر کے لئے وہ گنگ ہوگیا تھا۔ کچھ ایسا ہی حال عائشہ عابدین کا تھا، وہ دونوں کئی سالوں بعد ایک دوسرے سے ملے تھے اور ملتے ہی ایک دوسرے کو پہچان گئے تھے، اور اب یہ شناخت جیسے اُن کے حلق کا کانٹا بن گئی تھی۔
عائشہ کویقین نہیں آیا تھا کہ امریکہ کے بہترین ہاسپٹل میں بہترین ڈاکٹر کے ہاتھوں بھی اُس کے بچّے کی جان جاسکتی تھی۔ وہ خود ڈاکٹر تھی، اسفند کی چوٹ کی نوعیت اور سنگینی کو جانتی تھی لیکن وہ خود جس ہاسپٹل میں ریذیڈنسی کررہی تھی، وہاں اُس نے اس سے بھی زیادہ سنگین اور پیچیدہ نوعیت کے آپریشنز کے بعد بھی مریضوں کو صحت یاب ہوتے دیکھا تھا۔ لیکن اُس کا اپنا بیٹا اُن خوش قسمت لوگوں میں شامل کیوں نہیں ہوسکا تھا۔ اس سوال کا جو جواب عائشہ عابدین نے ڈھونڈا تھا ، وہ ایک لمبے عرصہ تک اُسے بھوت بن کر چمٹا رہاتھا۔
اُس نے غم کو پہلی بار مجسّم حالت میں دیکھا تھا، اُس شخص کی شکل میںجو اُسے اُس کی متاعِ حیات چھن جانے کی خبر سنانے آیا تھا… اور وہ وہ شخص تھا جس کے سراب نے عائشہ عابدین کو اُس عذاب میں ڈالا تھا جس میں وہ تھی۔
ایک ڈاکٹر کی طرح جبریل اُسے بتاتا گیا تھا کہ آپریشن کیوں ناکام ہوا، اسفند کی حالت کیوں بگڑی… کیوں نہیں سنبھل سکی… اور ان تمام تفصیلات کو دہراتے ہوئے جبریل سکندر کے لاشعور میں ڈاکٹر ویزل کے ہاتھ کی وہ حرکت بار بار آتی رہی، بار بار سر سے جھٹکنے کے باوجود… وہ ایک بت کی طرح گم صم اُس کی بات سنتی رہی یوں جیسے وہ اُس کے بیٹے کے بارے میں نہیں کسی اور کے بارے میں بات کررہا تھا۔
”آپ کے ساتھ کوئی اور ہے؟” اپنی کسی بات کے جواب میں ایک مکمّل خاموشی رکھنے کے باوجود جبریل اُس سے ایک بار پھر پوچھے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ اُسے وہ اس وقت نارمل نہیں لگ رہی تھی اور اُسے احساس ہوا تھا کہ اُسے اُس کی فیملی میں کسی اور سے بات کرنی چاہیے تھی۔ یا اگر اب کرسکتا تھا تو اب کرلے۔ عائشہ عابدین نے اُس کی بات کے جواب میں نفی میں سر ہلادیا۔ جبریل اُس کا چہرہ دیکھنے لگا تھا۔ اُسے سمجھ نہیں آیا تھا وہ اُس سے اگلا سوال کیسے کرے… سوال ہونے کے باوجود… فیملی نہیں تھی تو کہاں تھی… وہ کیا سنگل پیرنٹ کے طور پر اسفند کی پرورش کررہی تھی…؟ شوہر اگر نہیں بھی تھا تو کوئی اور تو فیملی میں ہوتا… اُس کی ماں اور بہنیں… وہ مزید کچھ نہیں سوچ سکا… عائشہ نے یک دم اُس سے کہا تھا”آپ جائیں… میں manage کرلوں گی سب کچھ۔” اُس کی آواز جیسے کسی گہرے کنویں سے آئی تھی… اُسے پتہ تھا وہ ”سب کُچھ” کیا تھا اور جبریل کو بھی اندازہ تھا وہ کس طرف اشارہ کررہی تھی۔
ایک روتی بلکتی ہوئی ماں کو تسلی دینا آسان کام تھا، لیکن بظاہر ہوش و حواس میں نظر آتی ایک خاموش گم صم ماں کو تسلی دینا اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا۔ وہ صرف چند منٹوں کے لئے اُس بچے کی فیملی سے ملنے آیا تھا اور اب یہ ملاقات ختم کرنا اُس کے لئے پہاڑ بن گیا تھا۔ اُس نے زندگی میں پہلی بار کسی مریض کو مرتے نہیں دیکھا تھا، لیکن کسی بچے کو پہلی بار مرتے دیکھا تھا… عائشہ عابدین سے مل کر اُس کا رنج کچھ اور بڑھا تھا… وہ اُس آپریشن کو lead نہیں کررہا تھا نہ ہی وہ اسفند کی موت کا ذمّہ دار تھا، اس کے باوجود یہ احساس اُس کا ساتھ چھوڑنے پر تیّار نہیں تھا کہ اُس آپریشن میں ڈاکٹر ویزل سے کچھ غلطی ہوئی تھی، آپریشن کے فوراً بعد ڈاکٹر ویزل اور اُس کی بات چیت نہیں ہوسکی تھی۔ وہ عجیب اضطراب اور پریشانی کے عالم میں وہاں سے گئے تھے۔ سب کا اندازہ تھا وہ اس آخری آپریشن کی ناکامی سے اپ سیٹ ہوئے تھے ، صرف جبریل تھا جس کا خیال تھا وہ خود بھی اپنی غلطی کا اندازہ لگاچکے تھے لیکن اب اس صورت حال کے درمیان وہ پھنسا کھڑا تھا… ضمیر کی چبھن اور انسانی ہمدردی… لیکن اُس سے بھی بڑھ کر شناسائی کا وہ پرانا تعلق جو اُس کے اور عائشہ عابدین کے درمیان نکل آیا تھا۔
”کوئی دوست ہے یہاں آپ کا؟” جبریل اب اُس کے قریب بیٹھ گیا تھا۔ اُسے ابھی تک یہ اندازہ نہیں ہوا تھا کہ وہ اُسے پہچانی ہے یا نہیں اور اُسے اس صورت حال میں اپنا تعارف کروانا چاہیے یا نہیں۔
”نہیں” عائشہ نے سر جھکائے اُسے دیکھے بغیر کہا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ اپنی گود میں رکھے اُن پر نظریں جمائے سر جھکائے بیٹھی تھی… جبریل اُس کے برابر والی کُرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔اُس نے بے حد نرمی سے عائشہ کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔ عائشہ نے عجیب وحشت بھری نظروں سے اُسے دیکھا تھا۔
”میرا خیا ل ہے، ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔” اُس کا ہاتھ بڑی نرمی سے اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے جبریل نے اُس سے کہا تھا۔ وہ اُسے رلانا نہیں چاہتا تھا لیکن اُس کا چہرہ دیکھتے ہوئے اُسے اندازہ ہوا تھا کہ اُسے اس وقت پھوٹ پھوٹ کر رونے کی ضرورت تھی… سکتے کی وہ کیفیت غیر فطری تھی۔
میں جبریل سکندر ہوں… نسا کا کلاس فیلو اور دوست… اور مجھے بہت افسوس ہے کہ ہم اسفند کو نہیں بچا سکے۔” وہ مدہم آواز میں اُس کا ہاتھ تھپکتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ عائشہ نے گردن موڑ کربھی اُس کو نہیں دیکھا تھا۔ وہ اس وقت کسی کو پہچاننا نہیں چاہتی تھی، خاص طور پر ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کو۔
”مجھے بتائیں میں آپ کے لئے کیا کرسکتا ہوں؟” جبریل نے اُس کے ہاتھوں کی ٹھنڈک محسوس کی تھی، یوں جیسے اُس نے برف کو ہاتھ میں لے لیا تھا، وہاں کا ٹمپریچر بھی عائشہ عابدین کے وجود کی ٹھنڈک کو غائب کرنے میں ناکام ہورہا تھا۔
۔”Please leave me alone…میری وجہ سے اپنا وقت ضائع نہ کریں… آپ ڈاکٹر ہیں، کسی کو آپ کی ضرورت ہوگی۔” اُس نے جبریل کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ کھینچتے ہوئے رُک رُک کر اُس سے کہا تھا۔ وہ اب اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں کے بیچ دبا کر بیٹھ گئی تھی… یوں جیسے یہ چاہتی نہ ہو کہ کوئی اُس کا ہاتھ پکڑے ، اُسے تسلی دے۔کرسی کی edge پر بیٹھی اپنے وجود کو جوتوں کے پنجوں پر ٹکائے وہ آگے پیچھے جھول رہی تھی یوں جیسے کسی گہری سوچ میں کسی ذہنی انتشار میں ہچکولے کھارہی ہو۔
وہ پہلی بار تھا کہ جبریل نے عائشہ عابدین کو غور سے دیکھا تھا… بے حد حیرانی کے عالم میں… سیاہ جینز اور سیاہ ہی جیکٹ میں ملبوس گردن کے گرد ایک گرے رنگ کا مفلر لپیٹے اُس کی ہم عمر وہ لڑکی اب اُس کی ہم عمر نہیں لگ رہی تھی… اُس کے کندھوں سے نیچے تک لہراتے سیاہ چمکدار بالوں میں جگہ جگہ سفید بال تھے… اُس کی رنگت زرد تھی اور آنکھیں سُرخ… یوں جیسے وہ عادی رونے عالوں میں سے تھی یا پھر ساری ساری رات جاگنے والوں میں سے… اُس کے سر پر وہ حجاب بھی نہیں تھا جو سالوں پہلے اُس کی پہچان تھا… ڈاکٹر نورین الہیٰ کے خاندان میں وہ حجاب لینے والی پہلی اور واحد لڑکی تھی اور بے حد اچھی خاندانی اقدار رکھنے کے باوجود جبریل جانتا تھا کہ نسا اور اُس کے خاندان کا رجحان مذہب کی طرف نہیں تھا۔ صرف عائشہ عابدین تھی جو مذہبی رجحان اور بے حد واضح طور پر ایسی ہی پہچان بھی رکھتی تھی اور اُس کی وجہ شاید اُس کا پاکستان میں قیام پذیر ہونا تھا، یہ جبریل کا اندازہ تھا۔ عائشہ سے اُس کی کبھی اتنی تفصیلی ملاقاتیں نہیں ہوئیں کہ اُسے اُس کی شخصیت کا صحیح اندازہ ہوپاتا… وہ جس عمر میں اُس سے ملا تھا، وہ ٹین ایج تھی اور اُس عمر میں اُسے بات بات پر مسکرانے اور بلش کرنے والی وہ لڑکی عنایہ اور رئیسہ جیسی ہی لگی تھی… اُس نے اس سے زیادہ غور اس پر نہیں کیا تھا، اس کے باوجود کہ وہ اُس کے فیس بک پر موجود تھی اور کبھی کبھار اُس کی تصویروں کو لائیک کرتی نظر آتی تھی، پھر وہ غائب ہوگئی تھی۔ اُسے نسا سے پتہ چلا تھا کہ میڈیسن کی تعلیم کے دوران ہی اُس کی شادی ہوگئی تھی اور اُس وقت جبریل نے مبارک باد کا میسج اُس کی وال پر لگانا چاہا تو اُسے پتہ چلا کہ وہ اب اُس کے contacts میں نہیں تھی… عائشہ عابدین سے اُس کا وہ پہلا تعارف بس یہی تک ہی رہا تھا… نسا اور وہ بہت جلد دو مختلف سٹیٹس کے ہاسپٹلز میں چلے گئے تھے…اُن کے درمیان ایک دوست اور کلاس فیلو کے طور پر موجود رشتہ بھی کچھ کمزور پڑنے لگا تھا… نسا اب کہیں engaged تھی اور جبریل اپنے پروفیشن میں بے حد مصروف… اور اس تیز رفتار سے گزرنے والی زندگی میں عائشہ عابدین کسی سپیڈ بریکر کی طرح آئی تھی۔ جبریل نے اُس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنا سیل فون نکال کر اُس میں سے نسا کا نمبر ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ چند لمحوں میں اُسے نمبر مل گیا تھا۔
”کیا میں نساء کو فون کر کے بلاؤں؟”اُس نے عائشہ سے کہا ” نہیں” جبریل اُس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا۔ وہ عجیب تھی یا ہوگئی تھی، جبریل کی سمجھ میں نہیں آیا یا پھر یہ صدمہ تھا جس نے اُسے یو ں بے حال کردیا تھا۔
جبریل کو لوگوں پر ترس آتھا تھا ہمیشہ ہی… ہمدردی اُس کی گھٹی میں تھی لیکن اس کے باوجود وہ ایک معروف ڈاکٹر تھا، ایک ایک منٹ دیکھ کر چلنے والا… اُس نے وہاں بیٹھے بیٹھے سوچا تھا، وہ ہاسپٹل کے متعلقہ شعبے سے کسی کو یہاں بھیجتا ہے تاکہ وہ عائشہ عابدین کی مدد کرے اور اُس کی فیملی کے دوسرے افراد سے رابطہ کر سکے۔ وہ اُٹھنے لگا تھا جب اُس نے عائشہ عابدین کی آواز سُنی تھی۔
”آپ کو پتہ ہے میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا ہے؟” وہ رُک کر اُسے دیکھنے لگا ، وہ اُس کی طرف متوجہ نہیں تھی، لیکن خود کلامی کے انداز میں بول رہی تھی۔
”کیوں کہ میں اللہ کی نافرمان عورت ہوں، اللہ نے مجھے سزا دی ہے۔ احسن سعد ٹھیک کہتا ہے۔” جبریل اُسے دیکھتا رہا گیا تھا۔ عائشہ عابدین نے جیسے وہ بوجھ اتار کر اُس کے سامنے پھینکنے کی کوشش کی تھی جو اُس کے لئے آزار بن گیا تھا۔ احسن سعد کون تھا، جبریل نہیں جانتا تھا اور وہ اُس کے بارے میں جو کہتا تھا، جبریل اُس کی وجہ سے بھی ناواقف تھا۔ مگر اُس کے وہ دو جملے اُس دن اُس کے پیروں کی زنجیر بن گئے تھے۔
*****
گاڑی بالآخر پورچ میں آکر رُکی اور اندر سے امامہ بڑی تیز رفتاری سے باہر نکلی تھی۔ گاڑی تب تک رُک چکی تھی اور اُس کی اگلی سیٹ سے ایرک اُتر رہا تھا۔ پہلی نظرمیں امامہ اُسے پہچان نہیں سکی۔ وہ واقعی بدل گیا تھا۔ لمبا تو وہ پہلے بھی تھا، لیکن اب وہ پہلے کی طرح بہت دبلا پتلا نہیں رہا تھا۔
اُس کے ہاتھوں میں دو گلاب کی کلیوں اور چند سبز شاخوں کا ایک چھوٹا سے بُکے تھا… ہمیشہ کی طرح… امامہ کو یاد تھا وہ بچپن میں بھی اکثر اُسے اسی طرح ایک پھول اور دو پتوں والی شاخیں اکثر دیتا تھا… جب بھی اُسے کسی خاص موقع پر ملنے آتا تو… اور بعض دفعہ وہ پورا ”گلدستہ ”اُس کے گھرکے لان سے ہی بنایا گیا ہوتا تھا۔
ایرک اُس سے سلام کے بعد گلے ملنے کے لئے بے اختیار آگے بڑھا پھر جھینپ کر خود ہی ٹھٹھکا ، شاید اُسے کوئی خیال آگیا تھا… امامہ نے آگے بڑھ کر تھپکنے والے انداز میں اُس کے گرد بازو پھیلایا تھا۔
”میں تمہیں پہچان ہی نہیں سکی، تم بڑے ہوگئے ہو… بہت بدل بھی گئے ہو۔” اُس نے ایرک سے کہا، وہ مسکرا یا۔
”لیکن آپ نہیں بدلیں…آپ ویسی ہی ہیں۔” وہ ہنس پڑھی تھی ” سننے میں کتنا اچھا لگتا ہے کہ کچھ نہیں بدلا… حالانکہ سب کچھ بدل گیا ہے۔ میں بھی بوڑھی ہوگئی ہوں۔” وہ ہنس رہی تھی۔
”بڑھاپے کی definition اب شاید بدل گئی ہوگی۔” ایرک نے برجستگی سے کہا ، وہ پھر ہنس پڑی۔
”یہ آپ کے لئے۔” ایرک نے اُسے وہ چھوٹا سا گلدستہ تھمایا تھا۔
”تمہاری عادتیںنہیں بدلیں… لیکن پھول بدل گیا ہے۔” امامہ نے گلدستہ ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ” کیونکہ ملک بدل گیا ہے۔” اُس نے دوبدو کہا۔
”ہاں یہ بھی ٹھیک کہا تم نے… سامان کہاں ہے تمہارا؟” امامہ کو یک دم خیال آیا وہ گاڑی سے اس گلدستے اور ایک چھوٹے بیگ کے علاوہ خالی ہاتھ اُترا تھا۔
”ہوٹل میں … میں وہیں رہوں گا، بس آپ سے ضروری ملاقات کرنی تھی، اس لئے آیا ہوں۔” ایرک نے اُس کے ساتھ اندر جاتے ہوئے کہا۔
”پہلے تم ہمیشہ ہمارے پاس آیا کرتے تھے اور یہیں رہتے تھے، اس بار کسی اور کے پاس آئے ہو کیا؟” امامہ کو لگا تھا وہ شاید پاکستان اپنے کسی پروفیشنل کام سے آیا تھا۔ نہیں کسی اور کے پاس تو نہیں آیا لیکن بس مجھے لگا اس بار کسی ہوٹل میں رُک کر بھی دیکھنا چاہیے۔” وہ بات گول کرگیا تھا۔
وہ لنچ کا وقت تھا اور اُس نے صبح جب فون پر اُس سے ملاقات کے لئے بات کی تھی تو امامہ نے لنچ کے کھانے پر خاص اہتمام کیا تھا۔ ایرک کو جو چیزیں پسند تھیں، اُس نے بنوائیں تھیں اور ایرک نے اُس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے بڑے شوق سے کھانا کھایا تھا۔
لنچ کے دوران گپ شپ میں ایرک اور اُس کے درمیان ہر ایک کے بارے میں بات ہوئی تھی سوائے عنایہ کے… ایرک نے اُس کا ذکر تک نہیں کیا تھا اور امامہ نے یہ بات نوٹس کی تھی… حوصلہ افزا تھی یہ بات لیکن پتہ نہیں کیوں اُسے غیر معمولی لگی تھی…اور اُس کی چھٹی حس نے اُسے جو سگنل دیا تھا، وہ ٹھیک تھا۔
لنچ کے بعد چائے کا آخر ی سپ لے کر کپ رکھتے ہوئے ایرک نے اپنے بیگ سے ایک لفافہ نکال کر اُس کے سامنے میز پر رکھ دیا تھا۔ امامہ ابھی چائے پی رہی تھی، وہ بُری طرح ٹھٹھکی تھی۔
”یہ کیا ہے؟”
”آپ دیکھ لیں۔”
اُس نے امامہ سے کہا، پلک جھپکتے اُس خوبصورت لفافے کو کھولنے سے بھی پہلے… اُس کے چہرے سے مسکراہٹ یک دم غائب ہوگئی تھی، وہ اس ایک لمحے کو avoid کرنا چاہ رہی تھی اور وہ پھر بھی سامنے آکر کھڑا ہوگیا تھا۔ لفافے کے اندر ایک خوبصورت کاغذ پر بے حد خوبصورت طرزِ تحریر میں ایرک نے وہی لکھا ہوا تھا جس کا اُسے خدشہ تھا۔ وہ عنایہ کے لئے اس کی طرف سے ایک فارمل پروپوزل تھا۔ اس وعدے کے ساتھ کہ وہ اُسے بہت خوش رکھے گا اور آفر کے ساتھ کہ وہ اس پروپوزل کے لئے اُن کی تمام شرائط قبول کرنے پر تیار ہے۔
امامہ کی نظریں کچھ دیر اُس کاغذ پر جمی رہیں اور ایرک کی اُس پر۔ پھر امامہ نے کاغذ کو اُس لفافے میں واپس ڈال کر اُسے میز پر رکھ دیا تھا۔ ایرک سے اب نظر ملانا اور سامنا کرنا یک دم مشکل ہوگیا تھا۔ اُس نے بالآخر ایرک کو دیکھا، وہ سنجیدہ تھا اور گفتگو کا آغازاُسی نے کردیا تھا۔
”آپ نے کئی سال پہلے مجھ سے کہا تھا میں پڑح لکھ کر کچھ بن جاؤں پھر آپ سے اس بارے میں بات کروں اور تب تک میں عنایہ سے بھی اس موضوع پر کبھی بات نہ کروں۔ دیکھیں میں نے آپ کی دونوں شرائط پوری کی ہیں۔” اُس نے کہا تھا اور اُس کے دونوں جملوں نے امامہ کے لئے جواب کو اور بھی مشکل کردیا تھا۔
”میں جانتا ہوں مسز سالار، آپ کے لئے میں ایک بہت مشکل انتخاب ہوں لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ایک بُرا انتخاب ثابت نہیں ہوں گا۔” ایرک نے جیسے اُس کی مشکل بھانپتے ہوئے خود ہی اُسے یقین دہانی کروانے کی کوشش کی تھی۔
وہ اُس کا چہرہ دیکھتی رہی، وہ اچھا لڑکا تھا… بُرا ہوتا تو اُسے بُرا بھلا کہنا کتنا آسان ہوتا… امامہ نے دل میں سوچا تھا…وہ انکار کی ہر وجہ اپنی طرف سے ختم کر آیا تھا… مسلمان بھی ہوگیا تھا، ایک اچھے پروفیشن میں بھی تھا۔ خاندانی اعتبار سے بھی اچھا تھا۔ امامہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ پھر بھی اُسے انکار کیا کہہ کے کرے… یہ کہہ کے کہ اُسے خوف اور خدشات تھے، اُس کے نومسلم ہونے کے حوالے سے… یا یہ کہے کہ وہ صرف ایک پاکستانی سے عنایہ کی شادی کرنا چاہتی تھی جو اُس کے اپنے کلچر سے واقف ہو… اُس کے ذہن میں اس وقت جوابات جیسے بھاگ رہے تھے اور کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو تسلی بخش ہوتا لیکن اس کے باوجود اُسے ایک جواب تو ایرک کو دینا ہی تھا۔
”تم بہت اچھے ہو ایرک۔” امامہ نے بالآخر اپنا گلا صاف کرتے ہوئے کہنا شروع کیا ۔”عبداللہ!” اُس نے امامہ کو بیچ میں ٹوک کر جیسے اُس کی تصحیح کی۔ وہ ایک لحظہ کے لئے خاموش ہوئی پھر اُس نے جیسے بڑی مشکل سے اُس سے کہا ”عبداللہ… تم بڑے اچھے لڑکے ہو اور میں تمہیں پسند کرتی ہوں لیکن عنایہ کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہے، میں نہیں جانتی عنایہ تمہارے پروپوزل کے حوالے سے کیا سوچتی ہے… اُس کی پسند ناپسند بے حد اہم ہے۔” وہ جملہ ادا کرتے ہوئے بھی امامہ کو احساس ہورہا تھا وہ ایک بے تکی بات کررہی تھی… اگر بات عنایہ کی پسند ناپسند کی تھی ، تو پھر رشتہ پکاتھا۔ ایرک کے لئے اُس کی پسندیدگی بہت واضح تھی۔
”میں نے عنایہ سے پہلے اس لئے بات نہیں کی کیوں کہ آپ نے مجھ سے وعدہ لیا تھا ، میں یہ بات جب بھی کروں گا، آپ سے ہی کروں گا۔” اُس نے امامہ کی بات کاٹ کر جیسے اُسے یاددہانی کروائی تھی۔
”میں سالار سے بات کروں گی، تم دو ہفتے پہلے آجاتے تو اُن سے تمہاری ملاقات ہوجاتی… وہ یہیں تھے کچھ دن۔”امامہ نے جواباً کہا تھا ، فوراً ہاں کہہ دینے سے یہ بہتر تھا۔
”وہ جہاں بھی ہوں گے، میں اُن سے ملنے جاسکتا ہوں، میں جانتا ہوں وہ بڑے مصروف ہیں لیکن پھر بھی۔” ایرک نے اُس سے کہا ”آپ کو تو میرے پروپوزل پر کوئی اعتراض نہیں ہے نا؟” وہ یک دم خوش ہوا تھا اور اُس کے چہرے پر چھلکنے والی خوشی اور اطمینان نے جیسے امامہ کو احساسِ جُرم دیا تھا۔
” میں نے تمہیں بتایا ہے عبداللہ تم بہ بہت اچھے ہو، لیکن میری خواہش ہے کہ عنایہ کی شادی جس سے بھی ہو، وہ صرف نام کا مسلمان نہ ہو، نیک ہو، دین دار ہو، سمجھ بوجھ رکھنے کے ساتھ ساتھ دین کی تعلیمات پر عمل بھی کرتا ہو۔” امامہ نے بالآخر اُس سے کہنا شروع کیا ، وہ بے حد سنجیدہ تھی۔ وہ اُس کی بات بے حد غور سے سُن رہا تھا۔
”مرد کو دین کا پتہ نہ ہو تو عورت کے لئے بہت مسئلہ ہوجاتا ہے۔یہ ایک پوری نسل کی تربیت کی بات ہوتی ہے۔ ہم لوگ لبرل مسلمان ہیں لیکن بے دین اور بے عمل نہیں ہیں اور نہ ہی ایسے ہونا چاہتے ہیں، نہ اپنی اگلی نسلوں کے لئے یہ چاہتے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ تم کتنے practicing ہو اور اسلام کے بارے میں تمہارے concepts کتنے واضح ہیں لیکن عنایہ بہت مذہبی ہے… میں نہیں چاہتی اُس کی شادی کسی ایسی جگہ ہو جہاں میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کی وجہ مذہبی اعتقادات اور اُن پر عمل کا ہونا یا نہ ہونا ہو۔” وہ کہتی جارہی تھی۔
”تمہیں شاید پتہ نہ ہو لیکن میں بھی نومسلم تھی۔اپنے مذہب کو ترک کر کے اسلام کی صحیح تعلیمات اختیار کی تھیں میں نے… فیملی، گھر سب چھوڑا تھا… بڑے مسائل کا سامنا کیا تھا … یہ آسان نہیں تھا۔”اُس کی آواز بُھرّا گئی تھی، وہ رُکی اپنی آنکھیں پونچھتے وہ ہنسی یوں جیسے اپنے آنسوؤں کو چھپانا چاہتی ہو۔
” یہ آسان کام نہیں تھا۔” اُس نے دوبارہ کہنا شروع کیا ”لیکن سالار نے بہت آسان کردیا میرے لئے… وہ practicing مسلمان ہے اور میں اپنی بیٹی کے لئے اُس کے باپ جیسامسلمان ہی چاہتی ہوں، زندگی میں اتنی تکلیفیں برداشت کر کے اتنی لمبی جد و جہد کے بعد میں اپنی اگلی نسل کو پھر سے بے دین اور بے عمل دیکھنا نہیں چاہتی۔ تم مسلمان تو ہو لیکن شاید اسلام کی تعلیمات میں اتنی دلچسپی نہ ہو کیوں کہ مسلمان ہونے کی تمہاری وجہ ایک لڑکی سے شادی ہے۔ شادی ہوجائے گی تمہاری دلچسپی دین میں ختم ہوجائے گی… کچھ عرصہ بعد شاید تمہیں یہ بھی پروا نہ رہے کہ تم مسلمان ہو۔ حرام اور حلال کے درمیان جو دیوار ہم اُٹھا کر رکھتے ہیں، تمہارے لئے وہ اُٹھانا ضروری نہ ہو… محبت بہت دیرپا چلنے والی شے نہیں ہے، اگر دو انسانوں کے بیچ عادات ، اعتقادات اور خیالات کی خلیج ہو تو۔” ایرک نے اُس کی گفتگو کے درمیان اُسے ایک بار بھی نہیں ٹوکا تھا، وہ صرف خاموشی سے اُس کی باتیں سنتا رہا۔
”تم کسی ویسٹرن لڑکی سے شادی کرلو تو تمہاری بہت اچھی نبھے گی…” وہ اب اُسے جیسے مشورہ دیتے ہوئے راستہ دکھانے کی کوشش کررہی تھی۔ وہ مسکرا دیا۔
”کوئی اچھی مسلمان لڑکی جو وہیں سے ہو۔” اس بار اُس نے اس لمبی گفتگو کے دوران پہلی بار امامہ کو ٹوکا۔
”وہ جو بھی ہو گی،آپ کی بیٹی تو نہیں ہو گی مسز سالار۔”امامہ خاموش ہوگئی۔
”آپ نے اچھا کیا یہ سب کچھ کہا مجھ سے… جو بھی آپ کے خدشات ہیں، میں اب اُنہیں دیکھ سکتا ہوں، اور آپ کو وضاحت بھی دے سکتا ہوں۔ نو سال ہو گئے ہیں مجھے عبداللہ بنے… لیکن مجھے لگتا ہے مسلمان میں بہت پہلے سے تھا… تب سے جب آپ لوگوں کے خاندان سے ملنا شروع ہوا تھا…” وہ بہت سوچ سوچ کے ٹھہر ٹھہر کر کہہ رہا تھا۔
”میں بہت زیادہ باعمل اور باکردار مسلمان نہیں ہوں… آپ کے بیٹوں جیسا تو بالکل بھی نہیں ہوں… لیکن اپنے آس پاس نظر آنے والے بہت سے مسلمانوں سے بہتر ہوں۔ نو سال میں میں نے اپنے دین کے حوالے سے صرف حرام اور حلال ہی کو نہیں سمجھا اور بھی بہت کچھ سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے پتہ ہے آپ کبھی قادیانی تھیں، پھر آپ تائب ہوکر مسلمان ہوئیں… مجھ سے یہ مت پوچھیے گا کہ یہ مجھے کس نے بتایا لیکن میں یہ جانتا ہوں اور اس لئے آپ سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ آپ مجھ سے زیادہ ہمدردی رکھیں گی۔ آپ کی طرح میں بھی اپنی اگلی نسل کو اچھا انسان اور مسلمان دیکھنا چاہتا ہوں… صرف مسلمان نہیں… اس لئے آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں… ایک اچھی دین دار عورت ہی ایک اچھے گھرانے کی بنیاد رکھتی ہے… یہ بھی دین نے ہی بتایا ہے مجھے۔” امامہ اُس کی باتیں سُن رہی تھی، عبداللہ اُس کے انکار کو بہت مشکل کرتا جارہا تھا ۔ وہ جو بھی اُس سے کہہ رہا تھا، وہ clarity کے ساتھ کہہ رہا تھا۔
”مجھے عنایہ بہت اچھی لگتی ہے، محبت کرتا ہوں اُس سے لیکن شادی کا فیصلہ صرف محبت کی وجہ سے نہیں کیا نہ ہی مذہب کی تبدیلی محبت کا نتیجہ ہے… میری زندگی میں آپ اور آپ کی فیملی کا ایک بہت پازیٹو رول رہا ہے… میں آپ لوگوں کے مذہب سے بعد میں متاثر ہوا تھا، آپ لوگوں کی انسانیت اور مہربانی سے پہلے متاثر ہوا تھا… اور میری زندگی کے ایک بہت مشکل phase میں مجھے آپ لوگوں کا حُسنِ سلوک یاد ہے… ایک ایک چیز… آپ کہیں تو میں دہرا سکتا ہوں… میں اُس مذہب کے awe میں آگیا تھا جو ایسے خوبصورت انسان بنانے کی صلاحیت اور قدرت رکھتا تھا… میں اُس وقت بہت چھوٹا تھا، آپ لوگوں کے لئے جو محسوس کرتا تھا، اُسے آپ لوگوں کو بتا نہیں سکتا تھا۔ اب اتنے سالوں بعد مجھے موقع ملا ہے تو میں بتا رہا ہوں۔” وہ رُکا… سر جھکائے بہت دیر خاموش رہا۔

آپ لوگ میری زندگی میں نہ آتے تو میں ایک بہت بُرا انسان بنتا۔ پاپا کی موت کے بعد میں ویسے ہی تھا جیسے سمندر میں ایک چھوٹی سی کشتی، جس کی کوئی سمت نہیں ہوتی۔ ڈوب جاتی، تو ڈوب جاتی۔ میں اُس وقت بہت دعا کیا کرتا تھا کہ مسٹر سکندر کو کچھ نہ ہو، اُن کا ٹریٹمنٹ صحیح ہو جائے کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا آپ کے گھر میں وہ تکلیف آئے جس سے میں اور میری فیملی گزر رہی تھی۔” وہ چپ ہو گیا۔ امامہ بھی بول نہیں سکی۔ پانی دونوں کی آنکھوں میں تھا اور درد بھی اور دونوں یہ دونوں چیزیں چھپانے کی کوشش میں تھے۔
”میں پاکستان صرف آپ سے بات کرنے اور یہ سب بتانے کے لئے آیا ہوں۔ آپ نے اپنی بیٹی کی تربیت بہت اچھی کی ہے۔ وہ بہت عزت اور حیا والی ہے اور میں نے اتنے سالوں میں اُس کے لئے محبت کا جذبہ رکھنے کے باوجود اُن حدود کا احترام کیا ہے جو آپ نے اُس کے لئے طے کی ہیں اور جسے اُس نے کبھی نہیں توڑا۔ میں آپ کی بیٹی کو اتنی ہی عزت اور احترام کے ساتھ اپنی زندگی اور گھر کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔” عبداللہ نے اپنے بیگ سے ایک چھوٹی سی ڈبیا نکال کر اُس لفافے کے اوپر رکھ دی۔ جو اُس نے میز پر رکھا تھا۔
اُس خوبصورت لفافے کے اوپر ایک خوبصورت سُرخ ڈبیا میں عنایہ سکندر کا نصیب تھا، جو اُتنا ہی خوبصورت تھا۔ نم آنکھوں کے ساتھ امامہ اُس ڈبیا سے نظریں نہیں ہٹا سکی۔ اُس کی مرضی سے کبھی کچھ نہیں ہوتا تھا، لیکن جو بھی ہوتا تھا، وہ بہترین ہوتا تھا۔
*****
۔”Ring خوبصورت ہے، پر نقلی ہے۔” حمین نے ڈنر ٹیبل پر بیٹھے فش اور چپس کھاتے ہوئے ڈبیا کو رئیسہ کی طرف سرکایا، جو سلاد کا ایک پیالہ کھاتے ہوئے اس کی بات سُن رہی تھی۔
کُھلی ہوئی ڈبیا کو بند کرتے ہوئے اُس نے اُسی ہاتھ سے اپنے گلاسز ٹھیک کیے اور بڑے تحمل سے کہا۔
۔”I know”
وہ فش اور چپس تقریباً نگل رہا تھا اور ساتھ TV لاؤنج میں اسکرین رگبی کا ایک میچ دیکھ رہا تھا۔
رئیسہ ویک اینڈ گزارنے وہاں آئی تھی، امریکہ واپس آنے کے بعد اور اگلے دن عنایہ بھی وہاں پہنچ رہی تھی اور اس وقت ایک فاسٹ فوڈ سے ہوم ڈیلیوری کروانے کے بعد وہ کھانا کھانے میں مصروف تھے جب رئیسہ نے وہ انگوٹھی اُسے دکھائی تھی۔
”تم نے کسی کو دینی ہے یا تمہیں کسی نے دی ہے؟” حمین نے میچ دیکھتے دیکھتے چلی ساس کی بوتل تقریباً اپنی پلیٹ میں خالی کرتے ہوئے اُس سے پوچھا۔
”ہشام نے دی ہے۔” رئیسہ نے کسی تمہید کے بغیر مدہم آواز میں بے حد سنجیدگی سے کہا۔ اس بار حمین نے سکرین سے نظریں ہٹا لی تھیں۔
”جب وہ واپس آئے گا تو میں اُسے واپس کر دوں گی۔” اُس نے ایک لمحہ کے توقف کے بعد اُسی سانس میں کہا۔
”مطلب؟” حمین اب سنجیدہ ہو گیا تھا۔
”اُس نے مجھے پروپوز کیا ہے لیکن میں نے اُس کا پروپوزل قبول نہیں کیا۔ میں چاہتی ہوں پہلے دونوں فیملیز آپس میں بات کرلیں۔” رئیسہ نے اُسے مختصراً بتایا۔ 
”لیکن ہشام تو ابھی اپنی فیملی کے ساتھ بحرین میں ہوگا۔ اُس کی فیملی کیا وہاں سے آ کر بات کرے گی؟” حمین نے جواباً اُس سے پوچھا۔ وہ کچھ دیر پہلے ہشام اور اُس کی فیملی کے حوالے سے بات کر رہے تھے۔
تین دن پہلے بحرین میں ہونے والے رائل فیملی کے اُس پلین کریش میں وہاں کے حکمران اور اُس کی فیملی کے چھے افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ بحرین کا حکمران ہشام کا تایا تھا اور اُس حادثے کی اطلاع ملنے کے فوری بعد ہشام اپنی فیملی کے ساتھ بحرین چلا گیا تھا۔ رئیسہ بھی اُس کے ساتھ ہی امریکہ واپس آئی تھی۔
”ہشام تو آجائے گا اگلے ہفتے، لیکن اُس کی فیملی ابھی رہے گی وہاں۔” رئیسہ نے اُس سے کہا۔
”تو پھر کیا ہوگا؟”حمین نے دوبارہ چپس کھانا شروع کرتے ہوئے کہا۔
”اسی لئے تو تم سے بات کر رہی ہوں، تم بتاؤ۔” رئیسہ نے اُسے جواباً کہا۔
”ممی کریں گی صاف صاف دو ٹوک انکار۔” چلی ساس میں مچھلی کا ٹکڑا ڈبوتے ہوئے حمین نے جیسے مستقبل کا نقشہ دو جملوں میں اُس کے سامنے کھینچا۔
”ہاں مجھے پتہ ہے۔” رئیسہ نے گہرا سانس لیا۔” 
تمہیں پسند تو نہیں ہے نا؟” حمین نے اُس سے اس طرح سرسری سے انداز میں پوچھا جیسے یہ کوئی عام سی بات تھی۔
”ہے۔” اُس نے یک لفظی جواب دیا اور ایک پورا زیتون اُٹھا کر نگلا۔
۔”Too bad” حمین نے جیسے افسوس کرنے والے انداز میں کہا۔
”عنایہ اور عبداللہ کا پتہ ہے تمہیں اس کے باوجود تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” رئیسہ نے اُس کی بات کاٹی۔
”ہشام پیدائشی مسلمان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” 
”لیکن بحرینی ہے، بلکہ عرب ہے۔” حمین نے اُسے بات مکمل کرنے کا موقع نہیں دیا تھا۔
”ویسے تو وہ امریکی ہے۔” رئیسہ نے جیسے مدافعانہ انداز میں کہا۔
”امریکی تو ممّی کو ویسے ہی زہر لگتے ہیں۔” حمین نے بے حد اطمینان سے تصویر کا ایک اور تاریک پہلو اُسے دکھایا۔
”اسی لئے تم سے بات کر رہی ہوں۔” رئیسہ نے سلاد کھانا بند کر دیا۔
”تم ایک بات بتاؤ، تمہیں صرف وہ پسند ہے یا محبت وغیرہ ہے؟” رئیسہ نے اُسے جواباً گھورا۔
”صرف جنرل نالج کے لئے پوچھ رہا ہوں۔” حمین نے مدافعانہ انداز میں بے اختیار کہا۔
”یہ جنرل نالج کا سوا ل نہیں ہے۔” رئیسہ نے جتانے والے انداز میں کہا۔
”کامن سینس کا ہو گا پھر… وہ تو میری ویسے ہی خراب ہے۔” پلیٹ صاف کرتے ہوئے حمین نے بے حد اطمینان سے کہا۔
”تم کچھ کر سکتے ہو یا نہیں؟” رئیسہ نے اُس کو اگلا جملہ بولنے سے پہلے کہا۔
”میں صرف کوشش کر سکتا ہوں لیکن اس کا فائدہ نہیں… لیکن سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ تم میری ملاقات ہشام سے کراؤ… میں دیکھنا چاہتا ہوں تمہارے حوالے سے وہ دراصل کتنا سیریس ہے۔”
”وہ میں کروا دوں گی، وہ مسئلہ نہیں ہے۔” رئیسہ نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔
”اور اگر ممّی یا بابا نہیں مانتے پھر؟” حمین نے یک دم اُس سے کہا۔ وہ خاموش بیٹھی رہی، پھر اُس نے کہا۔
”مجھے وہ اچھا لگتا ہے لیکن ایسی جذباتی وابستگی نہیں ہے کہ میں اُسے چھوڑ نہ سکوں۔”
”اچھے کی امید رکھنی چاہیے لیکن بدترین کے لئے تیار رہنا چاہیے… بابا کو اعتراض نہیں ہوگا، لیکن ممّی کا میں کہہ نہیں سکتا، کوشش کروں گا… لیکن ہشام نے اپنی فیملی سے بات کی ہے تمہیں پروپوز کرنے سے پہلے؟ کیوں کہ اگر اس کی فیملی کو کوئی اعتراض ہوا تو ممی بابا میں سے کوئی بھی اس پروپوزل پر غور نہیں کرے گا۔” حمین کو بات کرتے کرتے خیال آیا تھا۔ اپنی فیملی سے بات کر کے ہی اُس نے مجھ سے بات کی ہے، اُس کی فیملی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔” رئیسہ نے اُسے جیسے یقین دہانی کروائی تھی۔
حمین اُس کی بات سنتے ہوئے اپنے میز پر دھرے فون کی سکرین پر کچھ دیکھ رہا تھااور اپنی انگلی سے سکرین کو سکرول کررہا تھا، رئیسہ کو لگا اُس نے اُس کی بات غور سے نہیں سنی تھی۔
”تم میری بات سُن رہے ہو؟” رئیسہ نے جیسے اُسے متوجہ کیا۔
”ہاں، میں ہشام کے بارے میں search کر رہا ہوں۔” اُس نے جواباً کہا۔
”کیا؟” رئیسہ چونکی۔
”ہشام کو اور اُس کی فیملی کو پتہ ہے کہ تم ایڈاپٹڈ ہو؟” حمین اُسی طرح سکرین سکرول کر رہا تھا…
”ہشام کو پتہ ہے تو ظاہر ہے اُس کی فیملی کو بھی پتہ ہو گا۔” وہ ایک لمحہ کے لئے ٹھٹھکی اور پھر اُس نے کہا۔
”اوہ!” حمین اپنے فون کی سکرین پر کچھ پڑھتے پڑھتے بے اختیار چونکا تھا۔
”کیا ہوا؟” رئیسہ چونکی۔
”تمہارے لئے ایک اچھی خبر ہے اور شاید بُری بھی۔” حمین نے ایک گہرا سانس لے کر سر اُٹھایا اور اُسے دیکھا اور پھر اپنا فون اُس کے سامنے رکھ دیا۔

وہ شخص دیوار پر لگی رئیسہ کی تصویر کے سامنے اب پچھلے پندرہ منٹ سے کھڑا تھا۔ پلکیں جھپکائے بغیر، ٹکٹکی لگائے اس لڑکی کا چہرہ دیکھتے ہوئے… چہرے میں کوئی شباہت تلاش کرتے ہوئے، سالار سکندر کے شجرہ میں دبے آتش فشاں کی شروعات ڈھونڈتے ہوئے۔ اگر وہ اس شخص کو نشانہ بنا سکتا تھا تو اسی ایک جگہ سے بنا سکتا تھا۔ وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے کچھ بڑبڑا بھی رہا تھا، خود کلامی…ٍ۔ ایک سکینڈل کا تانا بانا تیار کرنے کے لئے ایک کے بعد ایک مکر و فریب کا جال، وجوہات، حقائق کو مخفی کرنےٍ۔ وہ ایک گہرا سانس لے کر اپنے عقب میں بیٹھے لوگوں کو کچھ ہدایات دینے کے لئے مڑا تھا۔
سی آئی اے ہیڈ کوارٹرز کے اس کمرے کی دیواروں پر لگے بورڈز چھوٹے بڑے نوٹس، چارٹس، فوٹوگرافس اور ایڈریسز کی چِٹوں سے بھرے ہوئے تھے۔
کمرے میں موجود چار آدمیوں میں سے تین اس وقت بھی کمپیوٹر پر مختلف ڈیٹاکھنگالنے میں مصروف تھے ، یہ کام وہ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے کررہے تھے۔ اس کمرے میں جگہ جگہ بڑے بڑے ڈبّے پڑے تھے جو مختلف فائلز، ٹیپس، میگزینز اور نیوز پیپرز کے تراشوں اور دوسرے ریکارڈ سے بھرے ہوئے تھے، کمرے میں موجود ریکارڈ کیبنٹس پہلے ہی بھری ہوئی تھیں ، کمرے میں موجودتمام ڈیٹا ان کمپیوٹرز کی ہارڈ ڈسکس میں بھی محفوظ تھا۔
کمرے میں موجود دو آدمی پہلے ڈیڑھ ماہ سے سالار سکندر کے بارے میں آن لائن آنے والا تمام ریکارڈ اور معلومات اکٹھی کرتے رہے تھے۔ کمرے میں موجود تیسرا شخص سالار اور اس کی فیملی کے ہر فرد کے ای میلز کا ریکارڈ کھنگالتا رہا تھا۔ چوتھا شخص اس کی فیملی اور مالی معلومات کو چیک کرتا رہا تھا۔اس ساری جدوجہد کا نتیجہ ان تصویروں اور شجرہ نسب کی صورت میں ان بورڈز پر موجود تھا۔ وہ چار لوگ دعویٰ کرسکتے تھے کہ سالار اور اُس کی فیملی کی پوری زندگی کا ریکارڈ اگر خدا کے پاس موجود تھا تو اس کی ایک کاپی اس کمرے میں بھی تھی۔ سالار کی زندگی کے بارے میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو اُن کے علم میں نہیں تھی یا جس کے بارے میں وہ ثبوت نہیں دے سکتے تھے۔
۔CIA کے Sting Operations سے لے کر اُس کی ٹین ایج کی گرل فرینڈز تک اور اُس کے مالی معاملات سے لے کر اُس کی اولاد کی پرسنل اور پرائیوٹ لائف تک اُن کے پاس ہر چیز کی تفصیلات تھیں۔
لیکن سارا مسئلہ یہ تھا کہ ڈیڑھ دو ماہ کی اس محنت اور پوری دنیا سے اکٹھے کیے ہوئے اس ڈیٹا میں سے وہ ایسی کوئی چیز نہیں نکال سکے تھے جس سے وہ اس کی کردار کشی کر سکتے۔
وہ ٹیم جو پندرہ سال سے اس طرح کے مقاصد پر کام کرتی رہی تھی۔ یہ پہلی بار تھا کہ وہ اتنی سر توڑ محنت کے باوجود اس شخص اور اس کے گھرانے کے کسی شخص کے حوالے سے کسی قسم کا سکینڈل نکال نہیں پائی تھی۔ دو سو پوائنٹس کی جو چیک لسٹ اُنہیں دی گئی تھی، وہ دو سو کراسز سے بھری ہوئی تھی اور یہ اُن کی زندگی میں پہلی بار ہو رہا تھا۔ انہوں نے ایسا صاف ریکارڈ کسی کا نہیں دیکھا تھا۔
کسی حد تک وہ ستائش کے جذبات رکھنے کے باوجود ایک آخری کوشش کررہے تھے۔ ایک آخری کوشش۔ کمرے کے ایک بورڈ سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے بورڈ تک جاتے جاتے وہ آدمی سالار کے فیملی ٹری کی اس تصویر پر رُکا تھا۔ اس تصویر کے آگے کچھ اور تصویریں تھیں اور ان کے ساتھ کچھ بلٹ پوائنٹس۔ ایک دم جیسے اُسے بجلی کا جھٹکا لگا تھا۔ اُس نے اس لڑکی کی تصویر کے نیچے اس کی تاریخِ پیدائش دیکھی پھر مڑ کر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کو وہ سال بتاتے ہوئے کہا۔
”دیکھو اس سال ان dates پر یہ کہاں تھا؟”
کمپیوٹر پر بیٹھے ہوئے آدمی نے چند منٹوں کے بعد سکرین پر نمودار ہونے والی تحریر پڑھتے ہوئے کہا۔
”پاکستان۔”
سوال کرنے والے آدمی کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آئی تھی۔
”کب سے کب تک؟”
اُس آدمی نے اگلا سوال کیا، کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے ہوئے شخص نے کی بورڈ پر انگلیوں کو حرکت دیتے ہوئے، اسکرین پر دیکھتے ہوئے اُسے تاریخیں بتائیں۔
”آخرکار ہمیں کچھ مل ہی گیا۔” اس آدمی نے بے اختیار ایک سیٹی بجاتے ہوئے کہا تھا۔ اُنہیں جہاز ڈبونے کے لئے تارپیڈو مل گیا تھا۔
یہ پندرہ منٹ پہلے کی روداد تھی۔ پندرہ منٹ بعد وہ اب جانتا تھا کہ اُسے اس آتش فشاں کا منہ کھولنے کے لئے کیا کرنا تھا۔
*****
اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو مٹھیوں کی طرح بھینچ کر کھولا، ایک بار، دو بار، تین بار، پھر اپنی آنکھوں کو انگلیوں کی پوروں سے مسلا۔ کُرسی کی پشت سے ٹیک لگائے، اپنی لمبی ٹانگوں کو اسٹڈی ٹیبل کے نیچے رکھے foot holder پر سیدھا کرتے ہوئے وہ جیسے کام کرنے کے لئے ایک بار پھر تازہ دم ہو گیا تھا۔ پچھلے چار گھنٹے سے مسلسل اُس laptop پر کام کرتے رہنے کے باوجود، جو اس وقت بھی اُس کے سامنے کھلا ہوا تھا اور جس پر چمکتی گھڑی اس وقت سوئٹزر لینڈ میں رات کے 2:34 ہو جانے کا اعلان کر رہی تھی۔
وہ ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم کا keynote اسپیکر تھا جس کی تقریر کل دنیا کے ہر بڑے چینل اور اخبار کی ہیڈ لائنز بننے والی تھی۔ 3:40 پر اُس نے بالآخر اپنا کام ختم کیا۔ laptop کو بند کر کے وہ اسٹڈی ٹیبل سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا، وہ موسم سرما تھا اور ڈیوس میں سورج طلوع ہونے میں ابھی وقت تھا۔ اتنا وقت کہ وہ چند گھنٹے کے لئے سو جاتا۔ اور چند گھنٹوں کی نیند اُس کے لئے کافی تھی، نماز کے لئے دوبارہ جاگنے سے پہلے۔ وہ اُس کی زندگی کا معمول تھا اور اب اتنے سالوں سے تھا کہ اُسے معمول سے زیادہ عادت لگنے لگا تھا۔ صوفہ کے سامنے موجود سینٹر ٹیبل پر سوئٹزر لینڈ اور امریکہ کے کچھ بین الاقوامی جریدوں کی کاپیز پڑی تھیں اور اُن میں سے ایک کے سرورق پر حمین سکندر کی تصویر تھی۔ 500 Young Global Leaders کی فہرست میں پہلے نمبر پر براجمان، اپنی مخصوص شرارتی مسکراہٹ اور چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ کیمرہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہوئے۔
ایک لمحہ کے لئے سالار کو یونہی لگا تھا جیسے وہ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا تھا۔ اُسی اعتماد، دلیری اور وقار کے ساتھ جو اس کا خاصہ تھا۔
سالار سکندر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لہرائی، اُس نے جھک کر وہ میگزین اُٹھایا تھا۔ وہ ورلڈ اکنامک فورم میں پہلی بار آ رہا تھا اور دنیا کے اس prestigious فورم کا جیسے نیا پوسٹر بوائے تھا۔ وہاں پڑا کوئی میگزین ایسا نہیں تھا جس میں اُس نے حمین سکندر یا اُس کی کمپنی کے حوالے سے کچھ نہ پڑھا ہو۔
۔”Devilishly Handsome, Dangerousl Meticulous” سالار سکندر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ گہری ہوئی۔ وہ ہیڈ لائن حمین سکندر کے بارے میں تھی۔ جس سے اس کی ملاقات کل اُسی فورم میں ہونے والی تھی، جہاں اُس کا بیٹا بھی خطاب کرنے والا تھا۔ اُس نے اُس میگزین کو دوبارہ سینٹر ٹیبل پر رکھ دیا۔
اُس کے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑا سیل فون کھٹکا، بستر پر بیٹھتے ہوئے سالار نے اُسے اُٹھا کر دیکھا۔ وہ واقعی شیطان تھا، خیال آنے پر بھی سامنے آ جاتا تھا۔
۔”Awake?” وہ حمین سکندر کا ٹیکسٹ تھا، اُسے باپ کی روٹین کا پتہ تھا۔ وہ خود بھی insomniac تھا۔
۔”Yes” سالار نے جواباً ٹیکسٹ کیا۔ 
”بڑی اچھی فلم آرہی تھی، سوچا آپ کو بتادوں۔” جواب آیا۔ سالار کو اُس سے ایسے ہی کسی جواب کی توقع تھی۔ دوسرا ٹیکسٹ آیا جس میں اُس چینل کا نمبر بھی تھا جس پر وہ مووی آرہی تھی، اُس کی کاسٹ کے ناموں کے ساتھ جس میں چارلیز تھیرن کا نام بلاک لیٹرز میں لکھا ہوا تھا۔ وہ باپ کو تنگ کرنے کے موڈ میں تھا۔ سالار کو اندازہ ہو گیا تھا۔
۔”Thank you for the recommendation” سالار نے زیرِ لب مسکراہٹ کے ساتھ اُس کے ٹیکسٹ کا جواب دیا۔ اُس کی بات کا جواب نہ دینا اس سے زیادہ بہتر تھا۔
۔”I am seriously thinking of getting married” اگلا جملہ بے سر و پیر کے تھا۔ سالار سکندر گہرا سانس لے کر رہ گیا۔ وہ ورلڈ اکنامک فورم کا ینگ سٹار سپیکر تھا جو اپنی تقریر سے ایک رات پہلے باپ سے رات کے اس وقت اس طرح کی بے تکی باتیں کر رہا تھا۔
۔”What an idea! Tread it on TAI” اُس نے اُسے جوابی ٹیکسٹ کیا اور پھر گڈ نائٹ کا میسج۔ کھٹاک سے ایک smiley اُس کی اسکرین پر اُبھری تھی۔ دانت نکالتے ہوئے۔
۔”I am serious” سالار فون رکھ دینا چاہتا تھا، لیکن پھر رُک گیا۔
۔“Options چاہیے یا approval ؟” اُس نے اس بار بے حد سنجیدگی سے اُسے ٹیکسٹ کیا۔
۔”Suggestions” جواب اُسی تیز رفتاری سے آیا۔
۔”TV بند کر کے سو جاؤ۔” اُس نے جواباً اُسے ٹیکسٹ کیا۔
”بابا میں صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ رئیسہ اور عنایہ کی شادی کیے بغیر میرا شادی کرنا مناسب نہیں، خاص طور پر جب جبریل کی شادی کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔” وہ اُس کے اس جملے پر اب بالآخر کھٹکا تھا۔ اُس کی باتیں اتنی بے سروپا نہیں تھیں، جتنا وہ اُنہیں سمجھ رہا تھا۔ رات کے اس پہر وہ فلم سے اپنی شادی اور اپنی شادی سے عنایہ اور رئیسہ کی شادی کا ذکر لے کر بیٹھا تھا تو کوئی مسئلہ تھا۔ اور مسئلہ کہاں تھا، یہ سالار کو ڈھونڈنا تھا۔
”تو؟” اُس نے اگلے ٹیکسٹ میں جیسے کچھ اور اُگلوانے کے لئے دانہ ڈالا، جواب خاصی دیر بعد آیا۔ یعنی وہ اب سوچ سوچ کر ٹیکسٹ کر رہا تھا۔ وہ دونوں باپ بیٹا جیسے شطرنج کی ایک بساط بچھا کر بیٹھ گئے تھے۔
”تو بس پھر ہمیں عنایہ اور رئیسہ کے حوالے سے کچھ سوچنا چاہیے۔” جواب سوچ سمجھ کر آیا تھا، لیکن مبہم تھا۔
”رئیسہ کے بارے میں یا عنایہ کے بارے میں؟” سالار نے بڑے کُھلے الفاظ میں اُس سے پوچھا۔ حمین کو شاید باپ کے اس بے دھڑک سوال کی توقع نہیں تھی، وہ امامہ نہیں تھی جس کو وہ گھما پھرا لیتا تھا، وہ سالار سکندر تھا جو اُسی کی طرح لمحوں میں بات کی جڑ تک پہنچ جاتا تھا۔
”رئیسہ کے بارے میں۔” بالآخر اُسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہنا پڑا، سالار کے لئے جواب غیر متوقع نہیں تھا۔ لیکن حیران وہ اُس کی ٹائمنگ پر ہوا تھا۔
”تم خود رئیسہ کے لئے بات کر رہے ہو یا رئیسہ نے تمہیں بات کرنے کے لئے کہا ہے؟” سالار کا اگلا ٹیکسٹ پہلے سے بھی direct تھا۔ حمین کا جواب اور بھی دیر سے آیا۔ 
”میں خود کر رہا ہوں۔” سالار کو اُس کے جواب پر یقین نہیں آیا۔
”رئیسہ کہیں انوالوڈ ہے؟” اُس نے اگلا ٹیکسٹ کیا۔ جواب ایک بار پھر دیر سے آیا اور یک دم سالار کو احساس ہوا کہ یہ ٹیکسٹنگ دو لوگوں کے درمیان نہیں ہو رہی تھی۔ تین لوگوں کے درمیان ہو رہی تھی۔ وہ، حمین اور رئیسہ۔
وہ تاخیر جو حمین کی طرف سے جواب آنے پر ہو رہی تھی، وہ اس لئے ہو رہی تھی کیوں کہ وہ سالار کے ساتھ ہونے والے سوال، جواب رئیسہ کو بھی بھیج رہا تھا اور پھر اُس کی طرف سے آنے والے جوابات اُسے فار ورڈ کر رہا تھا۔ وہ اُن دونوں کی بچپن کی عادت تھی، ایک دوسرے کے لئے spokes person کا رول ادا کرنا اور زیادہ تر یہ رول رئیسہ ہی اُس کے لئے کیا کرتی تھی۔
”کوئی اُسے پسند کرتا ہے۔” جواب دیر سے آیا تھا لیکن اُس کے direct سوال کے بدلہ میں بے حد ڈپلومیٹک انداز میں دیا گیا تھا اور یہ حمین کا انداز نہیں تھا۔ یہ رئیسہ کا انداز تھا۔
”کون پسند کرتا ہے؟ ہشام؟” سالار نے جواباً بے حد اطمینان سے ٹیکسٹ کیا۔ اُسے یقین تھا اُس کے جوابیہ سوال نے دونوں بہن، بھائی کے پیر تلے سے کچھ لمحوں کے لئے زمین نکالی ہو گی۔ اُن کو یہ اندازہ نہیں ہو سکتا تھا کہ سالار اتنا ”باخبر” ہو سکتا تھا۔
حسبِ توقع ایک لمبے وقفے کے بعد ایک پورے منہ کھولے ہنستی ہوئی smiley آئی تھی۔
۔”Good Shoot” یہ حمین کا جواب تھا۔
”رئیسہ سے کہو آرام سے سو جائے۔ ہشام کے بارے میں آمنے سامنے بیٹھ کر بات ہو گی۔ میں اس وقت آرام کرنا چاہتا ہوں اور تم دونوں اب مجھے مزید کوئی ٹیکسٹ نہیں کرو گے۔” 
سالار نے ایک voice message حمین کو بھیجتے ہوئے فون رکھ دیا۔ وہ جانتا تھا اس کے بعد وہ واقعی بھوتوں کی طرح غائب ہو جائیں گے،خاص طور پر رئیسہ۔
*****
جبریل نیند میں فون کی آواز پر ہڑبڑا کر اُٹھا تھا۔ اُسے پہلا خیال ہاسپٹل کا آیا تھا لیکن اُس کے پاس آنے والی وہ کال ہاسپٹل سے نہیں آئی تھی، اُس پر نساء کا نام چمک رہا تھا۔ وہ غیر متوقع تھا۔ ایک ہفتے پہلے اسفند کی تدفین کے دوران اُس کی ملاقات نساء سے ایک لمبے عرصے کے بعد ہوئی تھی اور اُس کے بعد اس طرح رات کے اس وقت آنے والی کال۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کال ریسیو کرتے ہوئے دوسری طرف سے اُس نے جبریل سے معذرت کی تھی کہ وہ رات کے اس وقت اُسے ڈسٹرب کر رہی تھی اور پھر بے حد اضطراب کے عالم میں اُس نے جبریل سے کہا تھا۔
”تم عائشہ کے لئے کچھ کر سکتے ہو؟” جبریل کچھ حیران ہوا۔
”عائشہ کے لئے کیا؟”
”وہ پولیس کسٹڈی میں ہے۔”
۔”What?” وہ ہکا بکا رہ گیا ”کیوں؟”
”قتل کے کیس میں؟” وہ دوسری طرف سے کہہ رہی تھی۔ جبریل شاکڈ رہ گیا۔ 
”کس کا قتل؟” وہ اب رونے لگی تھی۔
”اسفند کا۔” جبریل کا دماغ گھوم کر رہ گیا۔
*****
وہ یخنی میں ڈوبے ہوئے روٹی کے ٹکڑے چمچے کے ساتھ اپنے باپ کو کھلا رہا تھا، اُس کا باپ لقمے کو چبانے اور نگلنے میں تقریباً دو منٹ لے رہا تھا۔ وہ ہر بار صرف اتنی ہی یخنی پیالے میں ڈالتا جس میں ایک ٹکڑا ڈوب جاتا پھر چمچہ سے اس ٹکڑے کو باپ کے منہ میں ڈالنے کے بعد وہ بے حد تحمل سے پیالے میں نیا ٹکڑا ڈالتا جو گرم یخنی میں پھولنے لگتا تھا۔ وہ ایک ہی وقت میں یخنی اس پیالے میں ڈالتا تو یخنی اب تک ٹھنڈی ہو چکی ہوتی۔ یخنی کا ایک پیالہ پینے میں اس کا باپ تقریباً ایک گھنٹہ لگاتا تھا۔ ٹھنڈی یخنی میں ڈوبے ہوئے روٹی کے ٹکڑے بھی وہ اسی رغبت سے کھاتا جیسے وہ ان گرم لقموں کو کھا رہا تھا۔ سکندر عثمان کے ذائقے کی حس آہستہ آہستہ ختم ہورہی تھی، گرم اور ٹھنڈی خوراک میں تخصیص کرنا وہ کب کا چھوڑ چکے تھے۔ صرف اُن کی دیکھ بھال کرنے والے فیملی کے افراد تھے جو اس تخصیص کو اُن کے لئے اب بھی برقرار رکھنے کی کوشش کررہے تھے۔ وہ اب بھی خوراک کو اُن کے لئے ممکنہ حد تک ذائقہ دار بناکر دے رہے تھے ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اس ذائقے سے لطف اندوز ہو سکتے تھے نہ اس ذائقے کو یاد رکھ سکتے تھے۔ باپ کو کھانا کھلانے کے ساتھ ساتھ سالار اور امامہ نے بھی وہیں بیٹھے بیٹھے کھانا کھایا تھا۔ وہ جب بھی یہاں آتا تھا، تینوں وقت کا کھانا باپ کے کمرے میں اُسے کھانا کھلاتے ہوئے یہی کھاتا تھا اور اس کی عدم موجودگی میں یہ کام امامہ اور بچے کرتے تھے۔ ان کے گھر کا ڈرائنگ روم ایک عرصہ سے نہ ہونے کے برابر استعمال ہورہا تھا۔ اس کے ماں باپ کا بیڈروم اس کی فیملی کے افراد کی بہت ساری سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ یہ اُس شخص کو تنہائی سے بچانے کی ایک کوشش تھی جو کئی سالوں سے اس کمرے میں بستر تک محدود تھا اور الزائمر کی آخری اسٹیج میں داخل ہو چکا تھا۔
ٹرالی میں پڑا نیپکن اُٹھا کر اُس نے سکندر عثمان کے ہونٹوں کے کونے سے نکلنے والی یخنی کے وہ قطرے صاف کیے جو چند لمحے پہلے نمودار ہوئے تھے۔ انہوں نے خالی آنکھوں سے اُسے دیکھا جن سے وہ اُسے ہمیشہ دیکھتے تھے۔ وہ اُنہیں کھانا کھلاتے ہوئے جواب کی توقع کے بغیر اُن سے بات کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ اس کے باپ کی خاموشی کے وقفے اب گھنٹوں پر مشتمل ہونے لگے تھے۔ گھنٹوں کے بعد کوئی لفظ یا جملہ اُن کے منہ سے نکلتا تھا جس کا تعلق اُن کی زندگی کے کسی سال کی کسی یاد سے ہوتا تھا اور وہ سب اس جملے کو سال کے ساتھ جوڑنے کی کوشش میں لگ جاتے تھے۔
سکندر عثمان کھانا کھاتے ہوئے ہمیشہ یک ٹک اُسے دیکھتے تھے۔ اب بھی دیکھ رہے تھے۔ سالار جانتا تھا اُس کا باپ جیسے ایک اجنبی کا چہرہ پہچاننے کی کوشش کررہا تھا۔ ان کو کھانا کھلانے کی کوئی احتیاط، کوئی محبت، کوئی لگن اُن کی یادداشت پر کہیں محفوظ نہیں ہورہی تھی۔ وہ ایک اجنبی کے ہاتھ سے کھانا کھا رہے تھے اور اُن کے ختم ہوتے ہوئے دماغی خلیے اُس اجنبی کے چہرے کو کوئی نام دینے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔
سالار جانتا تھا کہ اس کے باپ کو اُس کے ہاتھ سے کھایا ہوا وہ دوپہر کا کھانا بھی یاد نہیں ہوگا ۔ وہ جتنی بار اُس کے کمرے میں آتا ہوگا، وہ اپنے باپ کے لئے ایک نیا شخص ، ایک نیا چہرہ ہوگا اور صرف وہی نہیں، اُس کی فیملی کے باقی سب افراد بھی۔ سکندر عثمان شاید حیران ہوتے ہوں گے کہ اُن کے کمرے میں بار بار نئے لوگ کیوں آتے تھے۔ وہ اپنے گھر میں ”اجنبیوں” کے ساتھ رہ رہے تھے۔
اُس نے یخنی کا آخری چمچ اپنے باپ کے منہ میں ڈالا۔ پھر پیالہ ٹرالی میں رکھ دیا۔ اب وہ اپنے باپ کو چمچ کے ساتھ پانی پلا رہا تھا۔ اُس کا باپ لمبا گھونٹ نہیں لے سکتا تھا۔
امامہ کچھ دیر پہلے کمرے سے اُٹھ کر گئی تھی۔ اُس کا سامان پہلے ہی ایئر پورٹ جا چکا تھا۔ اب باہر ایک گاڑی اُس کے انتظار میں کھڑی تھی جو اسے تھوڑی دیر میں ایئرپورٹ لے جاتی۔ اس کا سٹاف بے صبری سے اس کمرے سے اُس کی برآمدگی کا منتظر تھا۔
سالار نے گلاس واپس رکھتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ کر اپنے باپ کی گردن کے گرد پھیلا ہوا نیپکن ہٹایا۔ پھر کچھ دیر تک سکندر عثمان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے وہ بیٹھا رہا۔آہستہ آہستہ اس نے انہیں اپنی روانگی کا بتایا تھا اور اُس تشکر و احسان مندی کا بھی جو وہ اپنے باپ کے لئے ہمیشہ محسوس کرتا تھا خاص طور پر آج۔ سکند ر عثمان خالی نظروں سے اُسے دیکھ اور سُن رہے تھے۔ وہ جانتا تھا وہ کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ لیکن یہ ایک رسم تھی جو وہ ہمیشہ ادا کرتا تھا۔ اُس نے اپنی بات ختم کرنے کے بعد باپ کے ہاتھ چومے پھر اُنہیں لٹا کر کمبل اوڑھا دیا، اور کچھ دیر بے مقصد بیڈ کے پاس کھڑا اُنہیں دیکھتا رہا تھا۔ اُس کے بعد پتہ نہیں کب وہ اپنے باپ کے پاس آنے کے قابل ہوتا۔ سالار یہ نہیں جانتا تھا وہ آخری کھانا تھا جو اُس نے اپنے باپ کے ساتھ کھایا تھا۔
تاش کا ترپ کا پتّہ پھینکا جانے والا تھا اور ”مہلت” ختم ہونے والی تھی۔

لاک اپ میں بیٹھے اُس رات عائشہ عابدین نے اپنی زندگی کو recap کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اُس کی زندگی میں اتنا بہت کچھ ہو چکا تھا کہ وہ اس کوشش میں بھی ناکام ہو رہی تھی۔ یوں جیسے وہ 28 سال کی زندگی نہیں تھی آٹھ سو سال کی زندگی تھی۔ کوئی بھی واقعہ اُس ترتیب سے یاد نہیں آ رہا تھا جس ترتیب سے وہ اُس کی زندگی میں ہوا تھا اور وہ یاد کرنا چاہتی تھی۔
لاک اپ کے بستر پر چت لیٹے، چھت کو گھورتے ہوئے اُس نے یہ سوچنے کی کوشش کی تھی کہ اُس کی زندگی کا سب سے بدترین واقعہ کیا تھا۔ سب سے تکلیف دہ تجربہ اور دور۔۔۔۔۔۔۔۔ 
باپ کے بغیر زندگی گزارنا؟
احسن سعد سے شادی؟
اُس کے ساتھ، اُس کے گھر میں گزارا ہوا وقت؟
ایک معذور بیٹے کی پیدائش؟
احسن سعد سے طلاق؟
اسفند کی موت؟
یا پھر اپنے ہی بیٹے کے قتل کے الزام میں دن دہاڑے ہاسپٹل سے پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونا؟
اور ان سارے واقعات کے بیچوں بیچ کئی اور ایسے تکلیف دہ واقعات جو اُس کے ذہن کی دیوار پر اپنی جھلک دکھاتے ہوئے جیسے اُس فہرست میں شامل ہونے کے لئے بے قرار تھے۔
وہ طے نہیں کر سکی۔ ہر تجربہ، ہر حادثہ، اپنی جگہ تکلیف دہ تھا، اپنی طرح سے ہولناک۔ وہ اُن کے بارے میں سوچتے ہوئے جیسے زندگی کے وہ دن جینے لگی تھی اور اگلے واقعہ کے بارے میں سوچنا شروع کرتے ہوئے اُسے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو رہا تھا کہ پچھلا واقعہ زیادہ تکلیف دہ تھا یا پھر جو اُسے اب یاد آ رہا تھا۔
کبھی کبھار عائشہ عابدین کو لگتا تھا کہ وہ ڈھیٹ تھی۔ تکلیف اور ذلّت سہہ سہہ کر وہ اب شرمندہ ہونا اور درد سے متاثر ہونا چھوڑ چکی تھی۔ زندگی میں وہ اتنی ذلّت اور تکلیف سہہ چکی تھی کہ شرم اور شرمندگی کے لفظ جیسے اُس کی زندگی سے خارج ہو گئے تھے۔ وہ اتنی ڈھیٹ ہو چکی تھی کہ مرنا بھی بھول گئی تھی۔ اُسے کسی تکلیف سے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ دل تھا تو وہ اتنے ٹکڑے ہو چکا تھا کہ اب اور ٹوٹنا اُس کے بس میں نہیں رہا تھا۔ ذہن تھا تو اُس پر جالے ہی جالے تھے۔ عزتِ نفس، ذلّت، عزّت جیسے لفظوں کو چھپا دینے والے جالے۔ یہ سوچنا اُس نے کب کا چھوڑدیا تھا کہ یہ سب اُس کے ساتھ ہی کیوں ہوتا تھا، اُس نے تو کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ اس سوال کا جواب ویسے بھی اُسے احسن سعد نے رٹوا دیا تھا۔
”لکھو! اس کاغذ پر کہ تم گناہ گار ہو۔ اللہ سے معافی مانگو، پھر مجھ سے معافی مانگو، پھر میرے گھر والوں سے معافی مانگو، بے حیا عورت!”
پتہ نہیں یہ آواز اُس کے کانوں میں گونجنا بند کیوں نہیں ہوتی تھی۔ دن میں، رات میں، سینکڑوں بار ان جملوں کی بازگشت اُسے اُس کے اس سوال کا جواب دیتی رہتی تھی کہ یہ سب اُس کے ساتھ ہی کیوں ہوتا تھا۔
وہ ایک گناہ گار عورت تھی۔ یہ جملہ اُس نے اتنی بار اپنے ہاتھ سے کاغذ پر لکھ کر احسن سعد کو دیا تھا کہ اب اُسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ جملہ حقیقت تھا۔ اُس کا گناہ کیا تھا، صرف یہ اُسے یاد نہیں آتا تھا۔ مگر اُسے پھر بھی یقین تھا کہ جو بھی گناہ اُس نے کبھی زندگی میں کیا ہو گا۔ بہت بڑا ہی کیا ہو گا۔ اتنا بڑا کہ اللہ تعالیٰ اُسے یوں بار بار ”سزا” دے رہا تھا… سزا کا لفظ بھی اُس نے احسن سعد اور اُس کے گھر میں ہی سُنا اور سیکھا تھا… جہاں گناہ اور سزا کے لفظ کسی ورد کی طرح دہرائے جاتے تھے… ورنہ عائشہ عابدین نے تو احسن سعد کی زندگی میں شامل ہونے سے پہلے اللہ کو خود پر صرف ”مہربان” دیکھا تھا۔
”بے حیا عورت!” وہ گالی اُس کے لئے تھی۔ عائشہ عابدین کو گالی سُن کر بھی یہ یقین نہیں آیا تھا… زندگی میں پہلی بار ایک گالی اپنے لئے سُن کر وہ گنگ رہ گئی تھی… کسی مجسمے کی طرح… کھڑی کی کھڑی… یوں جیسے اُس نے کوئی سانپ یا اژدہا دیکھ لیا تھا… وہ ناز و نعم میں پلی تھی… گالی تو ایک طرف، اُس نے کبھی اپنے نانا نانی یا ماں سے اپنے لئے کوئی سخت لفظ بھی نہیں سُنا تھا… ایسا لفظ جس میں عائشہ کے لئے توہین یا تضحیک ہوتی اور اب اُس نے اپنے شوہر سے اپنے لئے جو لفظ سُنا تھا اُس میں تو الزام اور تہمت تھی… وہ ”بے حیا” تھی… عائشہ عابدین نے اپنے آپ کو بہلایا تھا، سو تاویلیں دے کر کہ یہ گالی اُس کے لئے کیسے ہوسکتی تھی… یا شاید اُس نے غلط سُنا تھا… یا پھر اُن الفاظ کا مطلب وہ نہیں تھا جو وہ سمجھ رہی تھی… وہ اُس کیفیت پر ایک کتاب لکھ سکتی تھی ۔ ان توجیہات، اُن وضاحتوں پر جو پہلے گالی سُننے کے بعد اگلے کئی دن عائشہ عابدین نے اپنے آپ کو دیں تھیں… اپنی عزّتِ نفس کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے… Antibiotics کے ایک کورس کی طرح… لیکن یہ سب صرف پہلی گالی کی دفعہ ہوا تھا، پھر آہستہ آہستہ عائشہ عابدین نے ساری توجیہات اور وضاحتوں کو دفن کردیا تھا… وہ اب گالیاں کھاتی تھی اور بے حد خاموشی سے کھاتی تھی، اور بہت بڑی بڑی… اور اُسے یقین تھا کہ وہ یہ گالیاں deserve کرتی تھی کیونکہ احسن سعد اُسے یہ کہتا تھا… پھر وہ مارا کھانا بھی اسی سہولت سے سیکھ گئی تھی… اپنی عزّتِ نفس کو ایک اور سلیپنگ ڈوز دیتے ہوئے… پانچ افراد کا وہ گھرانہ اُسے یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گیا تھا کہ اُس کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا تھا، وہ اُسے deserve کر رہی تھی ۔
وہ مومنین کے ایک ایسے گروہ میں پھنس گئی تھی جو زبان کے پتھروں سے اُسے بھی مومن بنانا چاہتے تھے کیونکہ وہ ” گناہ گار ” تھی۔
احسن سعد اُس کی زندگی میں کیسے آیا تھا اور کیوں آ گیا تھا… ایک وقت تھا اُسے لگتا تھا وہ اُس کی خوش قسمتی بن کر اُس کی زندگی میں آیا تھا اور پھر ایک وہ وقت تھا جب اُسے وہ ایک ڈراؤنا خواب لگنے لگا تھا، جس کے ختم ہونے کا انتظار وہ شدّ و مد سے کرتی تھی… اور اب اسے لگتا تھا وہ وہ عذاب تھا جو اللہ تعالیٰ نے اُسے اُس کے کردہ، ناکردہ گناہوں پر اس دنیا میں ہی دے دیا تھا۔
وہ ہاؤس جاب کررہی تھی جب احسن سعد کا پروپوزل اُس کے لئے آیا تھا۔ عائشہ کے لئے یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ اُس کے لئے درجنوں پروپوزلزپہلے بھی آچکے تھے اور اس کے نانا نانی کے ہاتھوں رد بھی ہوچکے تھے۔ اُس کا خیال تھا کہ یہ پروپوزل بھی کسی غور کے بغیر رد کر دیا جائے گا کیونکہ اُس کے نانا، نانی اُس کی تعلیم مکمل ہوئے بغیر اُسے کسی قسم کے رشتے میں باندھنے پر تیار نہیں تھے۔ مگر اس بار ایسا نہیں ہوا تھا… احسن سعد کے والدین کی میٹھی زبان عائشہ عابدین کی فیملی پر اثر کرگئی تھی، اور اس پر بھی۔
”ہمیں صرف ایک نیک اور اچھی بچی چاہیے، اپنے بیٹے کے لئے… باقی سب کچھ ہے ہماری پاس، کسی چیز کی کمی نہیں ہے… اور آپ کی بیٹی کی اتنی تعریفیں سنی ہیں ہم لوگوں نے کہ بس ہم آپ کے ہاںجھولی پھیلا کر آئے بغیر نہیں رہ سکے” احسن کے باپ نے اُس کے نانا سے کہا تھا۔ عائشہ عابدین جو جب پتہ چلا تھا کہ اُس کی ایک نند اُس کے ساتھ میڈیکل کالج میں ہی پڑھتی تھی… اُن دونوں کا آپس میں بہت رسمی سا تعارف تھا… مگر اُسے حیرت ہوئی تھی کہ اُس رسمی تعارف پر بھی اُس کی اتنی تعریفیں وہ لڑکی اپنی فیملی میں کرسکتی تھی جو کالج میں بالکل خاموش اور لئے دیے رہتی تھی… عائشہ عابدین کے لئے کسی کی زبان سے اپنی تعریفیں سُننا کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی، وہ کالج کے سب سے نمایاں سٹوڈنٹس میں سے ایک تھی، اور وہ ہر طرح سے نمایاں تھی، academic قابلیت میں، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں اور پھر اپنی personality کی وجہ سے بھی… وہ اپنے batch کی نہ صرف حسین بلکہ بے حد سٹائلش لڑکیوں میں گردانی جاتی تھی … بے حد practicing مسلمان ہوتے ہوئے بھی اور مکمل طور پر حجاب اوڑھے ہوئے بھی… حجاب عائشہ عابدین پر سجتا تھا… یہ اُس کے charisma کو بڑھانے کی چیز تھی اور یہ رائے اُس کے بارے میں لڑکے اور لڑکیوں کی متفقہ رائے تھی… اور اب اُس لڑکی کے لئے احسن سعد کا پروپوزل آیا تھا، جس کی فیملی کو اُس کے نانا نانی نے پہلی ملاقات میں ہی Ok کر دیا تھا۔ پتہ نہیں کون ”سادہ” تھا… اُس کے نانا، نانی جنہیں احسن کے ماں باپ بہت شریف اور سادہ لگے تھے یا پھر وہ خود کہ انہوں نے اُس خاندان کے بارے میں لمبی چوڑی تحقیق صرف اس لئے نہیں کروائی کیونکہ انہوں نے احسن سعد کے ماں باپ کی دینداری کا پاس کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے شادی سے پہلے احسن سعد اور عائشہ کی ایک ملاقات کروانا ضروری سمجھاتھا… احسن سعد اُس وقت امریکہ میں ریذیڈنسی کررہا تھا اور چھٹیوں میں پاکستان آیا ہوا تھا۔
احسن سعد سے پہلی ملاقات میں عائشہ کو ایک لمبے عرصہ کے بعد جبریل یاد آیا تھا… اُسے وہ جبریل کی طرح کیوں لگا تھا، عائشہ کو اس سوال کا جواب کبھی نہیں ملا۔ وہ شکل و صورت میں صرف مناسب تھا، تعلیمی قابلیت میں بے حد اچھا… اور بات چیت میں بے حد محتاط… اُس کا پسندیدہ موضوع صرف ایک تھا مذہب، جس پر وہ گھنٹوں بات کرسکتا تھا اور اُس کے اور عائشہ عابدین کے درمیان connecting factor یہی تھا… پہلی ہی ملاقات میں وہ دونوں مذہب کی بات کرنے لگے تھے اور عائشہ عابدین اُس کے awe میں آئی تھی۔ وہ حافظِ قرآن تھا اور وہ اُسے بتارہا تھا کہ اُس کی زندگی میں کبھی کسی لڑکی کے ساتھ دوستی نہیں رہی، وہ عام لڑکوں کی طرح کسی اُلٹی سیدھی حرکتوں میں نہیں پڑا… وہ مذہب کے بارے میں جامع معلومات رکھتا تھا… اور وہ معلومات عائشہ سے بے حد زیادہ تھیں لیکن وہ ایک سادہ زندگی گزارنا چاہتا تھا اور عائشہ بھی یہی چاہتی تھی… ایک عملی مسلمان گھرانے کے خواب دیکھتے ہوئے… وہ احسن سعد سے متاثر ہوئی تھی اور اُس کا خیا ل تھا وہ اپنی عمر کے دوسرے لڑکوں سے بے حد mature اور مختلف تھا… وہ اگر کبھی شادی کرنے کا سوچتی تھی تو ایسے ہی آدمی سے شادی کرنے کا سوچتی تھی… احسن سعد پہلی ملاقات میں اُسے متاثر کرنے میں کامیاب رہا…اُس کی فیملی اُس کے گھر والوں سے پہلے ہی متاثر تھی… یہ صرف نورین الہیٰ تھی جس نے احسن کی فیملی پر کچھ اعتراضات کئے تھے۔ اُسے وہ بے حد ”کٹّر” لگے تھے اور اُس کی اس رائے کو اُس کے اپنے ماں باپ نے یہ کہتے ہوئے رد کردیا تھا کہ وہ خود ضرورت سے زیادہ لبرل تھی اس لئے وہ اُنہیں اس نظر سے دیکھ رہی تھی۔ نورین شاید کچھ اور بحث و مباحثہ کرتی اگر اُسے یہ نہ محسوس ہوجاتا کہ عائشہ عابدین بھی وہی چاہتی تھی جو اُس کے ماں باپ چاہتے تھے۔ نورین الہیٰ نے اپنے ذہن میں ابھرنے والے تمام خدشات کو یہ کہہ کر سُلا دیا تھا کہ عائشہ کو احسن کے والدین کے پاس نہیں رہنا تھا… امریکہ احسن کے ساتھ رہنا تھا اور امریکہ کا ماحول بڑے بڑوں کو moderate کر دیتا تھا

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page