
آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد
قسط نمبر اِکیس
شادی بہت جلدی ہوئی تھی اور بے حد سادگی سے… یہ احسن سعد کے والدین کا مطالبہ تھا اور عائشہ اور اُس کے نانا، نانی اُس پر بے حد خوش تھے… عائشہ ایسی ہی شادی چاہتی تھی اور یہ اُسے اپنی خوش قسمتی لگی تھی کہ اُسے ایسی سوچ رکھنے والا سسرال مل گیا تھا۔ احسن سعد کی فیملی کی طرف سے جہیز کے حوالے سے کوئی مطالبہ نہیں آیا تھا بلکہ انہوں نے سختی سے عائشہ کے نانا نانی کو اُن روایتی تکلفات سے منع کیا تھا۔ مگر یہ عائشہ کی فیملی کے لئے اس لئے ممکن نہیں تھا کیونکہ عائشہ کے لئے اُس کے نانا نانی بہت کچھ خریدتے رہتے تھے اور جس کلاس سے وہ تعلق رکھتی تھی ، وہاں جہیز سے زیادہ مالیت کے تحائف دلہن کے خاندان کی طرف سے موصول ہوجاتے تھے اور عائشہ کی شادی کی تقریب میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ بہت سادگی سے کی جانے والی تقریب بھی شہر کے ایک بہترین ہوٹل میں منعقد ہوئی تھی، احسن سعد اور اُس کے خاندان کو عائشہ اور اُس کی فیملی کی طرف سے دیے جانے والے تحائف کی مالیت بے شک لاکھوں میں تھی مگر اس کے برعکس شادی پر دیے جانے والے عائشہ کے ملبوسات اور زیورات احسن سعد کے خاندانی رکھ رکھاؤ اور مالی حیثیت سے مطابقت نہیں رکھتے تھے… وہ صرف مناسب تھے… عائشہ کی فیملی کا دل برا ہوا تھا لیکن عائشہ نے اُنہیں سمجھایا تھا اُس کا خیال تھا، وہ ”سادگی” سے شادی کرنا چاہتے تھے اور اگر انہوں نے زیورات اور شادی کے ملبوسات پر بھی بہت زیادہ پیسہ خرچ نہیں کیا تو بھی یہ ناخوش ہونے والی بات نہیں تھی، کم از کم اُس کا دل صرف ان چھوٹی موٹی باتوں کی وجہ سے کھٹّا نہیں ہوا تھا۔
اُس کا دل شادی کی رات اُس وقت بھی کھٹّا نہیں ہوا تھا، جب کمرے میں آنے کے بعد اُس کے قریب بیٹھ کر پہلا جملہ احسن سعد نے اپنی نئی نویلی دلہن اور اُس کے حسن پر نہیں کہا تھا بلکہ اُس کی ماں کے حوالے سے کہا تھا۔
” تمہاری ماں کو شرم نہیں آتی… اس عمر میں فاحشاؤں کی طرح sleeveless لباس پہن کر مردوں کے ساتھ ٹھٹھے لگاتی پھر رہی ہے… اور اُسی طرح تمہاری بہنیں اور تمہارے خاندان کی ساری عورتیں پتہ نہیں آج کیا پہن کر شادی میں شرکت کرنے پہنچی ہوئی تھیں۔” عائشہ کا اندر کا سانس اندر اور باہر کا باہر رہ گیا تھا، جو اُس نے اپنے کانوں سے سُنا تھا، اُسے اُس پر یقین نہیں آیا تھا ، احسن کا یہ لب ولہجہ اتنا نیا اور اجنبی تھا کہ اُسے یقین آ بھی نہیں سکتا تھا، اُن کے درمیان نسبت طے ہونے کے بعد وقتاً فوقتاً بات چیت ہوتی رہی تھی اور وہ ہمیشہ بڑے خوشگوار انداز اور دھیمے لب و لہجہ میں بڑی شائستگی اور تمیز کے ساتھ بات کرتا تھا، اتنا اکھڑ لہجہ اُس نے پہلی بار سُنا تھا اور جو لفظ وہ اُس کی ماں اور خاندان کی عورتوں کے لئے استعمال کر رہا تھا، وہ عائشہ عابدین کے لئے ناقابلِ یقین تھے۔
”تمہاری ماں کو کیا آخرت کا خوف نہیں ہے؟ مسلمان گھرانے کی عورت ایسی ہوتی ہے؟ اور پھر بیوہ ہے وہ۔” عائشہ آنکھیں پھاڑے اُس کا چہرہ دیکھ رہی تھی، وہ اُسے یہ سب کیوں سُنا رہا تھا؟ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ ایک دن کی دلہن تھی اور یہ وہ لفظ نہیں تھے جو وہ سننے کے لئے اپنی زندگی کے ایک اہم دن کے انتظار میں تھی۔ وہ آدھا گھنٹہ ایسی عورتوں کے بارے میں لعنت ملامت کرتا رہا تھا اور اُسے یہ بھی بتاتا رہا تھا کہ اُس کی فیملی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اُس کی ماں اور بہنیں اتنی آزاد خیال تھیں اور امریکہ میں اُن کا یہ لائف سٹائل تھا… انہوں نے تو اُس کے نانا نانی اور خود اُسے دیکھ کر یہ رشتہ طے کیا تھا۔ وہ احسن سعد سے یہ کہنے کی جرات نہیں کرسکی کہ وہ اس رشتہ کے طے ہونے پہلے امریکہ میں دو تین بار اُس کی ماں اور بہنوں سے مل چکا تھا… اور نسبت طے ہوتے ہوئے بھی اُس کی فیملی اُس کی ماں اور بہنوں سے مل چکی تھی… وہ آزاد خیال تھے تو یہ اُن سے چھپا ہوا نہیں تھا جس کا انکشاف اُس رات ہونے پر وہ یوں صدمہ زدہ ہوگئے تھے۔ احسن سعد کے پا س مذہب کی ایسی تلوار تھی جس کے سامنے عائشہ عابدین بولنے کی ہمت نہیں کرسکتی تھی۔ اُس نے دل ہی دل میں یہ مان لیا تھا کہ غلطی اُس کی ماں اور بہنوں ہی کی تھی… وہ اسلامی لحاظ سے مناسب لباس میں نہیں تھیں اور احسن اور اُس کی فیملی اگر خفا تھی تو شاید یہ جائز ہی تھا۔
اُس رات احسن سعد نے اس ابتدائیے کے بعد ایک لمبی تقریر میں اُسے بیوی اور ایک عورت کی حیثیت سے اُس کا درجہ اور مقام سنا اور سمجھا دیا تھا… جو سیکنڈری تھا… وہ سر ہلاتی رہی تھی… وہ ساری آیات اور احادیث کے حوالے آج کی رات کے لئے ہی جیسے اکٹھا کرتا رہا تھا… وہ بے حد خاموشی سے سب کچھ سُنتی گئی تھی… وہ وقتی غصہ نہیں تھا، وہ ارادتاً تھا… وہ اُسے نفسیاتی طور پر ہلادینا چاہتا تھا اور وہ اُس میں کامیاب رہا تھا۔عائشہ جیسی پر اعتماد لڑکی کی شخصیت پر یہ پہلی ضرب تھی جو اُس نے لگائی تھی… اُس نے اُسے بتایا تھا کہ اُس گھر اور اُس کی زندگی میں وہ اُس کے ماں باپ اور بہنوں کے بعد آتی ہے… اور ہاں اس فہرست میں اُس نے اللہ کو بھی پہلے نمبر پر رکھا تھا… عائشہ عابدین کو اُس نے جیسے اُس دائرے سے باہر کھڑا کردیا تھا جس کے اندر اُس کی اپنی زندگی گھومتی تھی۔ 21 سال کی ایک نوعمر لڑکی جس طرح ہراساں ہوسکتی وہ ویسے ہی ہراساں اور حواس باختہ ہوئی تھی۔احسن سعد نے اُس سے کہا تھا اُس کے اور عائشہ کے درمیان جو بات چیت ہوگی عائشہ اُسے کسی سے share نہیں کرے گا… عائشہ نے اُس کی بھی حامی بھرلی تھی، اُس کا خیال تھا یہ ایک عام وعدہ تھا جو ہر مرد بیوی سے لیتا تھا… مگر وہ ایک عام وعدہ نہیں تھا، احسن سعد نے اُس کے بعد اُس سے قرآن پاک پر رازداری کا حلف لیا تھا یہ کہتے ہوئے کہ وہ اُس کی بیوی تھی اور شوہر کے طور پر وہ یہ استحقاق رکھتا تھا کہ وہ اُسے جو کہے وہ اُس کی اطاعت کرے… 21 سال کی عمر تک وہ عائشہ عابدین کی زندگی کی سب سے بُری رات تھی لیکن اُسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس کے بعد بُری راتوں کی گنتی بھی بھولنے والی تھی۔
اُس رات احسن سعد کا غصّہ اور رویّہ صرف اُس کا غصّہ اور رویّہ نہیں تھا۔ اگلی صبح عائشہ عابدین کو اُس کی فیملی بھی اُسی انداز میں ملی تھی… بے حد سرد مہری، بے حد اکھڑا ہوا لہجہ، اُس کا احساسِ جرم اور بڑھا تھا اور اُس نے دعا کی تھی کہ اُس رات ولیمہ کی تقریب میں اُس کی ماں اور بہنیں ایسے کوئی لباس نہ پہنیں جس پر اُسے ایک اور طوفان کا سامنا کرنا پڑے۔
لیکن شادی کے چند دنوں کے اندر اُسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اُس کی فیملی کی خفگی کی وجہ اُس کی اپنی فیملی کا آزاد خیال ہونا نہیں تھا… اُن کی خفگی کی وجہ اُن کی توقعات کا پورا نہ ہونا تھا جو وہ عائشہ کی فیملی سے لگائے بیٹھے تھے، شادی سادگی سے کرنے اور جہیز یا کچھ بھی نہ لانے کا مطلب ”کچھ بھی” نہ لانا نہیں تھا۔ اُن کو توقع تھی کہ اُن کے اکلوتے اور اتنے قابل بیٹے کو عائشہ کی فیملی کوئی بڑی گاڑی ضرور دیتی… عائشہ کے نام کوئی گھر، کوئی پلاٹ ، کوئی بینک بیلنس ضرور کیا جاتا… جیسے اُن کے خاندان کی دوسری بہوؤں کے نام ہوتا تھا… شادی سادگی سے ہونے کا مطلب اُن کے نزدیک صرف شادی کی تقریبات کا سادہ ہونا تھا۔ شادی کے تیسرے دن یہ گلے شکوے عائشہ سے کر لیے گئے تھے اور اس کوشش کے ساتھ کہ وہ انہیں اپنی فیملی تک پہنچائے جو عائشہ نے پہنچا دئیے تھے اب شاکڈ ہونے کی باری اس کی فیملی کی تھی۔ شادی کے تین دن بعد پہلی بار نورین الہیٰ نے اپنی بیٹی کو یہ آپشن دیا تھا کہ وہ ابھی اُس رشتہ کے بارے میں اچھی طرح سوچ لے… جو لوگ تیسرے دن ایسے مطالبے کرسکتے ہیں، وہ آگے چل کر اُسے اور بھی پریشان کرسکتے تھے، عائشہ ہمت نہیں کرسکی تھی… اپنی دوستوں اور کزنز کے ٹیکسٹ میسجز اور کالز اور چھیڑ چھاڑ کے دوران وہ یہ ہمّت نہیں کر سکی تھی کہ وہ ماں سے کہہ دیتی کہ اُسے طلاق چاہیے تھے۔ اُس نے وہی راستہ چُنا تھا جو اس معاشرے میں سب چنتے تھے… سمجھوتے کا اور اچھے وقت کے انتظار کا… اُس کا خیال تھا یہ سب کچھ وقتی تھا… یہ چند مطالبے پورے ہونے کے بعد سب کچھ بدل جانے والا تھا اور پھر ایک بار وہ احسن کے ساتھ امریکہ چلی جاتی تو وہ اور احسن اور طریقے سے زندگی گزارتے۔
احسن کی فیملی کی ساری شکایات ختم کر دی گئی تھیں۔ اُسے شادی کے ایک ہفتہ کے بعد ایک بڑی گاڑی دی گئی تھی، عائشہ کے نام نورین نے اپنا ایک پلاٹ ٹرانسفر کردیا تھا اور عائشہ کے نانا نے اُس کو کچھ رقم تحفے میں دی تھی جو اُس نے احسن کے مطالبے پر اُس کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردی تھی۔ وہ اُس کے بعد دو ہفتوں کے لئے ہنی مون منانے بیرونِ ملک چلے گئے تھے۔
احسن سعد نے پہلی بار اُس پر ہاتھ بھی ہنی مون کے دوران کسی با ت پر برہم ہو کر اُٹھایا تھا۔ اُس سے پہلے اُس نے اُسے گالیاں دی تھیں… عائشہ عابدین سے بہت بڑی غلطی ہو گئی تھی، اپنی زندگی کے بارے میں… عائشہ نے جان لیا تھا… اُس کا شوہر بہت اچھا مسلمان تھا لیکن اچھا انسان نہیں تھا اور عائشہ نے اُس کا انتخاب اُس کے اچھے مسلمان ہونے کی وجہ سے کیا تھا، اس دھوکے میں جس میں وہ اُن بہت سارے اچھے مسلمانوں اور انسانوں کی وجہ سے آئی تھی جو منافق اور دو رُخے نہیں تھے۔
وہ ایک مہینہ کے بعد واپس امریکہ چلا گیا تھا لیکن ایک مہینہ میں عائشہ بدل گئی تھی۔ وہ ایک عجیب و غریب خاندان میں آگئی تھی۔ جو بظاہر تعلیم یافتہ اور روشن خیال تھا لیکن اندر سے بے حد گھٹن ذدہ تھا اور اس گھٹن اور منافقت کا منبع احسن سعد کا باپ تھا اس کا اندازہ اُسے بہت جلد ہو گیا تھا… احسن صرف اپنے باپ کی copy بن گیا تھا اور اُسے اپنی ماں کی copy بنانا چاہتا تھا جسے وہ ایک آئیڈیل مسلمان عورت سمجھتا تھا… وہ اور اُس کی بہنیں، وہ عائشہ عابدین کو اُن کے جیسا بنانا چاہتا تھا… اور عائشہ عابدین کو بہت جلد اندازہ ہو گیا تھا وہ ”آئیڈیل مسلم عورتیں” نفسیاتی مسائل کا شکار تھیں، اُس گھر کے ماحول اور سعد کے رویے اور مزاج کی وجہ سے… اُس کی نندوں کے لئے رشتوں کی تلاش جاری تھی، لیکن عائشہ کو یقین تھا جو معیار احسن اور سعد اُن دونوں کے لئے لے کر بیٹھے تھے ، ان کے لئے رشتوں کی تلاش اور بھی مشکل ہوجاتی تھی۔
عائشہ شادی کے دو مہینوں کے اندر اندر اُس ماحول سے وحشت ذدہ ہوگئی تھی۔ اور اس سے پہلے کہ وہ احسن سعد کا لیا ہوا حلف توڑ کر اپنے نانا، نانی سے سب کچھ share کرتی اور انہیں کہتی کہ وہ اُسے اس جہنم سے نکال لیں… اُسے پتہ چلا تھا کہ وہ پریگننٹ تھی… وہ خبر جو اُس وقت اُسے خوش قسمتی لگتی، اُسے اپنی بدقسمتی لگی تھی۔عائشہ عابدین ایک بار پھر سمجھوتہ کرنے پر تیار ہوگئی، ایک بار پھر اس اُمید کے ساتھ کہ بچہ اس گھر میں اُس کے سٹیٹس کو بدل دینے والا تھا اور کچھ نہیں تو کم از کم اُس کے اور احسن سعد کے تعلق کو تو… یہ بھی اُس کی خوش فہمی تھی، وہ پریگننسی اُس کے لئے ایک اور پھندہ ثابت ہوا تھا۔ احسن سعد اور اُس کی فیملی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ بچے کی پیدائش تک پاکستان میں ہی رہے گی۔ عائشہ نے نو مہینے جتنے صبر اور تحمل کے ساتھ گزارے تھے، صرف وہ ہی جانتی تھی۔ وہ ہاؤس جاب کے بعد جاب کرنا چاہتی تھی لیکن اُس کے سسرال والوں اور احسن کو یہ پسند نہیں تھا اس لئے عائشہ نے اُس پر اصرار نہیں کیا۔ اُس کے سسرال والوں کو عائشہ کا بار بار اپنے نانا نانی کے گھر جانا اور اُن کا اپنے گھر آنا بھی پسند نہیں تھا تو عائشہ نے یہ بات بھی بنا چوں چراں کے مان لی تھی۔ وہ اب کسی سوشل میڈیا فورم پر نہیں تھی کیوں کہ احسن کو خود ہر فورم پر ہونے کے باوجود یہ پسند نہیں تھا کہ وہ وہاں ہو اور اُس کے contacts میں کوئی مرد ہو، چاہے وہ اُس کا کوئی رشتہ دار یا کلاس فیلو ہی کیوں نہ ہو اور عائشہ نے اپنی بہنوں کے اعتراضات کے باوجود اپنی ID ختم کر دی تھی، اُس کے پاس ویسے بھی کوئی ایسی بات نہیں تھی جس کے اظہار کے لئے اُسے فیس بک کے کسی اکاؤنٹ کی ضرورت پڑتی۔
احسن سعد کی ماں کو یہ پسند نہیں تھا کہ وہ اپنے کمرے میں اکیلے بیٹھے، صبح دیر تک سوتی رہے، عائشہ صبح سویرے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد ہر حالت میں لاؤنج میں آجاتی تھی۔ گھر میں ملازم تھے لیکن ساس سسر کی خدمات اُس کی ذمہ داری تھی اور اُسے اس پر بھی اعتراض نہیں ہوتا تھا۔ کھانا بنانے کی وہ ذمہ داری جو اس سے پہلے تین خواتین میں تقسیم تھی، اب عائشہ کی ذمہ داری تھی اور یہ بھی وہ چیز نہیں تھی جس سے اُسے تکلیف پہنچتی… وہ بہت تیز کام کرنے کی عادی تھی اور نانا نانی کے گھر میں بھی وہ بڑے شوق سے اُن کے لئے کبھی کبھار کھانا بنایا کرتی تھی… وہ ذمہ داریوں سے نہیں گھبراتی تھی، تذلیل سے گھبراتی تھی۔ اُس گھر کے افراد ستائش اور حوصلہ افزائی جیسے لفظوں سے نا آشنا تھے… وہ تنقید کرسکتے تھے، تعریف نہیں… یہ صرف عائشہ نہیں تھی جس کی خدمت گزاری کو وہ سراہنے سے قاصر تھے، وہاں کوئی بھی کسی کو سراہتا نہیں تھا۔
وہ اس گھر میں یہ سوال کرتی تو اپنے آپ کو ہی احمق لگتی کہ اُس نے کھانا کیسا بنایا تھا…شروع شروع میں بڑے شوق سے کیے جانے والے ان سوالات کا جواب اُسے بے حد تضحیک آمیز جملوں اور تمسخر سے ملا تھا، کبھی کبھار اُسے لگتا وہ بھی نفسیاتی ہونا شروع ہو گئی تھی۔
احسن سعد اُس کے لئے ایک ایسا ضابطہ طے کر گیا تھا، وہ غلطی کرے گی تو کاغذ پر لکھ کر اپنی غلطی کا اعتراف کرے گی… اللہ سے حکم عدولی کی معافی مانگے گی، پھر اُس شخص سے جس کی اُس نے نافرمانی کی ہو۔
ایک ہفتے میں کم از کم ایک بار عائشہ ایسا ایک معافی نامہ گھر کے کسی نہ کسی فرد کے نام لکھ رہی ہوتی تھی اور پھر آہستہ آہستہ اُسے اندازہ ہوا، وہ معافی نامہ بھی سعد کی ایجاد تھی…احسن سعد اپنا سارا بچپن اپنی غلطیوں کے لئے اپنے باپ کو ایسے معافی نامے لکھ لکھ کر دیتا رہتا تھا اور اب اپنی بیوی کے گلے میں اُس نے وہی رسی ڈال دی تھی۔
عائشہ پہلے حجاب کرتی تھی، اب وہ نقاب اور دستانے پہننا بھی شروع ہو گئی تھی۔ اُس نے بال کٹوانا چھوڑ دیا تھا، بھنوؤں کی تراش خراش، چہرے کے بالوں کی صفائی، سب کچھ چھوڑ دیا تھا کیونکہ اُس گھر کی عورتیں ان میں سے کوئی کام نہیں کرتی تھیں… وہ آئیڈیل عورتیں تھیں اور عائشہ عابدین کو اپنے آپ کو اُن کے مطابق ڈھالنا تھا۔ اپنے باہر کو دوسروں کے بنائے ہوئے سانچوں میں ڈھالتے ڈھالتے عائشہ عابدین کے اندر کے سارے سانچے ٹوٹنا شروع ہو گئے تھے۔
اُس کے نانا، نانی اور فیملی کو یہ پتہ تھا کہ اُس کے سسرال والے اچھے لوگ نہیں تھے، لیکن عائشہ اُس گھر میں کیا برداشت کررہی تھی، اُنہیں اس کا اندازہ نہیں تھا… وہ اُس حلف کو نبھار ہی تھی جو وہ شادی کی پہلی رات لے بیٹھی تھی، کوئی بھی اُس سے ملنے پر اُس سے فون پر بات کرنے پر اُسے کریدتا رہتا عائشہ کے پاس بتانے کو کچھ بھی نہیں ہوتا تھا سوائے اس کے کہ وہ اپنے گھر میں بہت خوش تھی اور اُس کی ناخوشی دوسرے کی غلط فہمی تھی اور ان نو مہینوں کے دوران اُس کا اور احسن سعد کا تعلق نہ ہونے کے برابر تھا… وہ شادی پر واپس جانے کے بعد بچے کی پیدائش تک دوبارہ واپس نہیں آیا تھا، ان کے درمیان فون پر اورskype پر بات بھی بہت مختصر ہوتی اور اُس میں تب وقفہ پڑ جاتا جب احسن کے گھر میں کوئی اُس سے خفا ہوتا، وہ امریکہ میں ہونے کے باوجود گھر میں ہونے والے ہر معاملے سے آگاہ رکھا جا رہا تھا، خاص طور پر عائشہ کے حوالے سے۔
عائشہ کو کبھی کبھار لگتا تھا وہ شوہر اور بیوی کا رشتہ نہیں تھا، ایک بادشاہ اور کنیز کا رشتہ تھا۔احسن سعد کو اُس میں ویسی ہی اطاعت چاہیے تھی اور وہ اپنے دل پر جبر کرتے ہوئے وہ بیوی بننے کی کوشش کر رہی تھی جو بیوی احسن سعد کو چاہیے تھی۔ اسفند کی پیدائش تک کے عرصے میں عائشہ عابدین کچھ کی کچھ ہوچکی تھی۔ جس گھٹن میں وہ جی رہی تھی، اُس گھٹن نے اس کے بچے کو بھی متاثر کیا تھا… اُس کا بیٹا اسفند نارمل نہیں تھا۔ یہ عائشہ عابدین کا ایک اور بڑا گناہ تھا۔
******
اوول آفس سے ملحقہ ایک چھوٹے سے کمرے میں پروٹوکول آفیسر کی رہنمائی میں داخل ہوتے ہوئے سالار سکندر کے انداز میں اُس جگہ سے واقفیت کا عنصر بے حد نمایاں تھا۔ وہ بڑے مانوس انداز میں چلتے ہوئے وہاں آیا تھا اور اُس کے بعد ہونے والے تمام “rituals” سے بھی وہ واقف تھا۔ وہ یہاں کئی بار آچکا تھا… کئی وفود کا حصّہ بن کر… لیکن یہ پہلا موقع تھا جب وہ وہاں تنہا بُلایا گیا تھا۔
اُسے بٹھانے کے بعد وہ آفیسر اندرونی دروازے سے غائب ہو گیا تھا… وہ پندرہ منٹ کی ایک ملاقات تھی جس کے بلٹ پوائنٹس وہ اس وقت ذہن میں دہرا رہا تھا، وہ امریکہ کے بہت سارے صدور سے مل چکا، لیکن جس صدر سے وہ اُس وقت ملنے آیا تھا… ”خاص” تھا… کئی حوالوں سے۔
وال کلاک پر ابھی 9:55 ہوئے تھے … صدر کے اندر آنے میں پانچ منٹ باقی تھے… اُس سے پہلے 9:56 پر ایک ویٹر اُس کو پانی serve کر کے گیا تھا… اُس نے گلاس اُٹھا کر رکھ دیا تھا۔ 9:57 پر ایک اور اٹینڈنٹ اُسے کافی سرو کرنے آیا تھا۔اُس نے منع کردیا۔9:59 پر اوول آفس کا دروازہ کھلا اور صدر کی آمد کا اعلان ہوا… سالار اُٹھ کر کھڑا ہوگیا تھا ۔
اوول آفس کے دروازے سے اُس کمرے میں آنے والا صدر، امریکہ کی تاریخ کا کمزور ترین صدر تھا…وہ 2030 کا امریکہ تھا… بے شمار اندرونی اور بیرونی مسائل سے دوچار ایک کمزور ملک… جس کی کچھ ریاستوں میں اس وقت خانہ جنگی جاری تھی… کچھ دوسری میں نسلی فسادات… اور ان سب میں وہ امریکہ کا وہ پہلا صدر تھا جس کی کیبنٹ اور تھنک ٹینکس میں مسلمانوں اور یہودیوں کی تعداد اب برابر ہوچکی تھی، اُس کی policies کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ بھی اندرونی خلفشار کا شکار تھی… لیکن یہ وہ مسائل نہیں تھے جن کی وجہ سے امریکہ کا صدر اُس سے ملاقات کررہا تھا۔
امریکہ اپنی تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی اور بینکنگ بحران کے دوران اپنی بین الاقوامی پوزیشن اور ساکھ کو بچانے کے لئے سر توڑ کوشش کررہا تھا اور SIF کے سربراہ سے وہ ملاقات اُن ہی کوششوں کا ایک حصّہ تھی…اُن آئینی ترامیم کے بعد جو امریکہ کو اپنے ملک کی economy کو مکمل طور پر ڈوبنے سے بچانے کے لئے کرنی پڑی تھیں۔
اپنی تاریخ کے اس سب سے بڑے مالیاتی بحران میں جب امریکہ کی اسٹاک ایکسچینج کریش کر گئی تھی… اُس کے بڑے مالیاتی ادارے دیوالیہ ہو رہے تھے… ڈالر کی مسلسل گرتی ہوئی ویلیو کو کسی ایک جگہ روکنا مشکل ہو گیا تھا اور امریکہ کو تین مہینے کے دوران تین بار اپنی کرنسی کو استحکام دینے کے لئے اُس کی ویلیو خود کم کرنی پڑی تھی… صرف ایک ادارہ تھا جو اس مالیاتی بحران کو جھیل گیا تھا… لڑکھڑانے کے باوجود وہ امریکہ کے بڑے مالیاتی اداروں کی طرح زمین بوس نہیں ہوا تھا، نہ ہی اس نے ڈاؤن سائزنگ کی تھی، نہ بیل آؤٹ پیکجز مانگے تھے…اور وہ SIF تھا… پندرہ سال میں وہ ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے طور پر اپنی شاندار ساکھ اور نام بنا چکا تھا اور امریکہ اور بہت سے دوسرے چھوٹے ملکوں میں وہ بہت سے چھوٹے بڑے اداروں کو mergers کے ذریعے اپنی چھتری تلے لاچکا تھا اور وہ چھتری مغربی مالیاتی اداروں کی شدید مخاصمت اور مغربی حکومتوں کے سخت ترین امتیازی قوانین کے باوجود پھیلتی چلی گئی تھی… پندرہ سالوں میں SIF نے اپنی survival اور ترقی کے لئے بہت ساری جنگیں لڑی تھیں اور ان میں سے ہر جنگ چومکھی تھی لیکن SIF اور اُس سے منسلک افراد ڈٹے رہے تھے اور پندرہ سال کی اس مختصر مدت میں مالیاتی دنیا کا ایک بڑا مگرمچھ اب SIF بھی تھا جو اپنے بقا کے لئے لڑی جانے والی ان تمام جنگوں کے بعد اب بے حد مضبوط ہوچکا تھا…امریکہ، یورپ اور ایشیا اُس کی بڑی مارکیٹس تھیں لیکن یہ افریقہ تھا جس پر SIF مکمل طور پر قابض تھا… وہ افریقہ جس میں کوئی گورا 2030 میں SIF کے بغیر کوئی مالیاتی ٹرانزیکشن کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا… افریقہ SIF کے ہاتھ میں نہیں تھا، سالار سکندر کے ہاتھ میں تھا جسے افریقہ اور اُس کے leaders نام اور چہرے سے پہچانتے تھے… پچھلے پندرہ سالوں میں صرف سالار کا ادارہ وہ واحدادارہ تھا جو افریقہ کے کئی ممالک میں بدترین خانہ جنگی کے دوران بھی کام کرتا رہا تھا اور اُس سے منسلک وہاں کام کرنے والے سب افریقی تھے اور SIF کے mission statement پر یقین رکھنے والے… جو یہ جانتے تھے جو کچھ SIF ان کے لئے کررہا تھا، اور کرسکتا تھا وہاں دنیا کا کوئی اور مالیاتی ادارہ نہیں کرسکتا تھا۔ SIF افریقہ میں ابتدائی دور میں کئی بار نقصان اُٹھانے کے باوجود وہاں سے نکلا نہیں تھا، وہ وہاں جما اور ڈٹا رہا تھا اور اُس کی وہاں بقا کی بنیادی وجہ سود سے پاک وہ مالیاتی نظام تھا جو وہاں کی لوکل انڈسٹری اور انڈسٹریلسٹس کو نہ صرف سود سے پاک قرضے دے رہا تھا بلکہ اُنہیں اپنے وسائل سے اُس انڈسٹری کو کھڑا کرنے میں انسانی وسائل بھی فراہم کر رہا تھا۔
پچھلے پندرہ سالوں میں SIF کی افریقہ میں ترقی کی شرح ایک سٹیج پر اتنی بڑحھ گئی تھی کہ بہت سے دوسرے مالیاتی اداروں کو افریقہ میں اپنا وجود قائم رکھنے کے لئے SIF کا سہارا لینا پڑا تھا۔
سالار سکندر سیاہ فاموں کی دُنیا کا بے تاج بادشاہ تھا اور اُس کی یہ پہچان بین الاقوامی تھی۔ افریقہ کے مالیاتی نظام کی کنجی SIF کے پاس تھی اور سالار سکندر کے اُس دن وائٹ ہاؤس میں بیٹھے ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ امریکہ ورلڈ بینک کو دیے جانے والے فنڈز میں اپنا حصہ ادا کرنے کے قابل نہیں رہا تھا اور ورلڈ بینک کو فنڈز کی فراہمی میں ناکام رہنے کے بعد اُس سے سرکاری طور پر علیحدگی اختیار کررہا تھا… ورلڈ بینک اُس سے پہلے ہی ایک مالیاتی ادارے کے طور پر بُری طرح لڑکھڑا رہا تھا… یہ صرف امریکہ نہیں تھا جو مالیاتی بحران کا شکار تھا، دُنیا کے بہت سے دوسرے ممالک بھی اسی کساد بازاری کا شکار تھے اور اس افراتفری میں ہر ایک کو صرف اپنے ملک کی اکانومی کی پروا تھی، اقوامِ متحدہ سے منسلک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کی اقتصادیات پر قابض رہنا اب نہ صرف ناممکن ہوگیا تھا بلکہ دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں آئے ہوئے مالیاتی بحران کے بعد اب یہ بے کار بھی ہوگیا تھا…
ورلڈ بینک اب وہ سفید ہاتھی تھا جس سے وہ ساری استعماری قوتیں جان چھڑانا چاہتی تھیں اور کئی جان چھڑا چکی تھیں۔ اقوامِ متحدہ کا وہ چارٹر جو اپنے ممبران کو ورلڈ بینک کے ادرے کو فنڈز فراہم کرنے کا پابند کرتا تھا ،اب ممبران کے عدم تعاون اور عدم دلچسپی کے باعث کاغذ کے ایک پرزے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ اقوامِ متحدہ اب وہ ادارہ نہیں رہا تھا جو بین الاقوامی برادری کو سینکڑوں سالوں سے چلنے والے ایک ہی مالیاتی نظام میں پروئے رہنے پر مجبور کرسکتا… دُنیا بدل چکی تھی اور گھڑی کی سوئیوں کی رفتار کے ساتھ مزید بدلتی جا رہی تھی اور اس رفتار کو روکنے کی ایک آخری کوشش کے لئے امریکہ کے صدر نے SIF کے سربراہ کو وہاں بلایا تھا۔
ایوان ہاکنز نے اندر داخل ہوتے ہوئے اپنے اُس پرانے حریف کو ایک خیر مقدمی مسکراہٹ دینے کی کوشش کی جو اُس کے استقبال کے لئے مودبانہ اور بے حد باوقار انداز میں کھڑا تھا… سیاست میں آنے سے پہلے ایوان ایک بڑے مالیاتی ادارے کا سربراہ رہ چکا تھا ، سالار سکندر کے ساتھ اُس کی سالوں پرانی واقفیت بھی تھی اور رقابت بھی… SIF نے امریکہ میں اپنی تاریخ کا پہلا بڑا merger اُس کے ادارے کو کھا کر کیا تھا، اور اُس merger کے بعد ایوان کو اپنے عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔ وہ آج امریکہ کا صدر تھا لیکن وہ ناکامی اور بدنامی آج بھی اُس کے portfolio میں ایک داغ کے طور پر موجود تھی۔ یہ ایوان کی بدقسمتی تھی کہ اتنے سالوں کے بعد وہ اُسی پرانے حریف کی مدد لینے پر ایک بار پھر مجبور ہوا تھا … وہ اُس کے دورِ صدارت میں اُسے دھول چٹانے آن پہنچا تھا… یہ اُس کی کیفیات تھیں… سالار کی نہیں… وہ وہاں کسی اور ایجنڈے کے ساتھ آیا تھا…اُس کا ذہن کہیں اور پھنسا ہوا تھا۔
”سالار سکندر…” چہرے پر ایک گرم جوش مسکراہٹ کا نقاب چڑھائے ایوان نے سالار کا استقبال تیز رفتاری سے اُس کی طرف بڑھتے ہوئے یوں کیا تھا جیسے وہ حریف نہیں رہے تھے… بہترین دوست تھے جو وائٹ ہاؤس میں نہیں کسی گالف کورس پر مل رہے تھے۔ سالار نے اُس کی خیر مقدمی مسکراہٹ کا جواب بھی اتنی ہی خوش دلی کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے دیا تھا۔ دونوں کے درمیان رسمی کلمات کا تبادلہ ہوا… موسم کے بارے میں ایک آدھ بات ہوئی، جو اچھا تھا اور اُس کے بعد دونوں اپنی اپنی نشست سنبھال کر بیٹھ گئے تھے۔ وہ one on one ملاقات تھی، کمرے کے دروازے اب بند ہوچکے تھے اور وہاں اُن دونوں کا سٹاف نہیں تھا اور اس one on one ملاقات کے بعد اُن دونوں کی ایک مشترکہ پریس کانفرنس تھی جس کے لئے اس کمرے سے کچھ فاصلے پر ایک اور کمرے میں دنیا بھر کے صحافی بے تابی سے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس ملاقات سے پہلے اُن دونوں کی ٹیم کے افراد کئی بار آپس میں مل چکے تھے، ایک فریم ورک وہ ڈسکس بھی کرچکے تھے اور تیار بھی… اب اس ملاقات کے بعد باضابطہ طور پر وہ دونوں وہ اعلان کررہے تھے جس کی بھنک میڈیا کو پہلے ہی مل چکی تھی۔
امریکہ اب ورلڈ بینک کے ذریعے نہیں SIF کے ذریعے دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں گھسنا چاہتا تھا، خاص طور پر افریقہ میں اور اس کے لئے وہ ورلڈ بینک سے باضابطہ علیحدگی اختیار کر رہا تھا… مگر اُس کے سامنے مسئلہ صرف ایک تھا، امریکہ کا ایجنڈا SIF کے ایجنڈے سے مختلف تھا اور اس ملاقات میں سالار سکندر کو ایک بے حد informal انداز میں ایک آخری بار ان امریکی مفادات کے تحفظ کی یاد دہانی کروانی تھی… امریکہ SIF کی ٹیم کے بہت سارے مطالبات مان کر اُس فریم ورک پر تیار ہوا تھا۔ یہ وہ امریکہ نہیں رہا تھا جو بندوق کی نوک پر کسی سے بھی کچھ بھی کروا سکتا تھا۔ یہ انتشار کا شکار ایک کھوکھلا ہوتا ہوا ملک تھا جو بات سُنتا تھا… مطالبات مانتا تھا اور اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹ جاتا تھا… یا پھر آخری حربے کے طور پر اپنے مفادات کی خاطر وہ کرتا تھا جو اس بار بھی اس میٹنگ کے اچھے یا بُرے نتیجے کے ساتھ پہلے سے مشروط تھا۔
میٹنگ کا نتیجہ ویسا ہی نکلا تھا جیسا ایوان کو توقع تھی۔ سالار سکندر کو SIF کے ایجنڈے کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں تھا، نہ ہی امریکی حکومت کے ایجنڈے کے حوالے سے۔ وہ امریکی حکومت کی مدد کرنے پر تیار تھا، اُس فریم ورک کے تحت جو اُس کی ٹیم نے تیار کیا تھا۔ لیکن SIF کو امریکہ کا ترجمان بنانے پر تیار نہیں تھا۔ اُس نے ایوان کی تجویز کو شکریہ کے ساتھ رد کر دیا تھا۔ دو مگرمچھوں کے درمیان دشمنی ہو سکتی تھی، دوستی نہیں۔ مگر دشمنی کے ساتھ بھی وہ ایک ہی پانی میں رہ سکتے تھے، بڑے محتاط اور پُر امن طریقے سے، اپنی اپنی حدود میں۔ اور اُس نے ایوان کو بھی یہی مشورہ دیا تھا جس سے ایوان نے اتفاق کیا تھا۔ سالار سکندر سے انہیں جیسے جواب کی توقع تھی، انہیں ویسا جواب ہی ملا تھا۔
۔SIF کو اب ایک نئے سربراہ کی ضرورت تھی، جو زیادہ “flexible” ہوتا اور زیادہ سمجھدار بھی۔ سالار سکندر میں ان دونوں چیزوں کی اب کچھ کمی ہو گئی تھی۔ یہ ایوان کا اندازہ تھا۔
۔CIA کو SIF کے نئے سربراہ کے بارے میں تجاویز دینے سے پہلے SIF کے پرانے سربراہ کو ہٹانے کے لئے احکامات دے دیئے گئے تھے اور یہ اس میٹنگ کے بعد ہوا تھا۔
اُس سے پہلے ایوان نے سالار سکندر کے ساتھ اُس پریس کانفرنس میں شرکت کی تھی جس میں امریکہ نے باقاعدہ طور پر ملک میں ہونے والے مالیاتی کرائسس سے ہٹنے کے لئے نہ صرف SIF کی مدد لینے کا اعلان کیا تھا بلکہ SIF کے ساتھ طے پانے والے اس فریم ورک کا بھی اعلان کیا تھا جس کی منظوری صدر نے بے حد دباؤ کے باوجود دے دی تھی۔
ایوان ہاکنز کو اس اعلان کے وقت ویسی ہی تضحیک محسوس ہو رہی تھی جیسی اُس نے اُس وقت محسوس کی تھی جب اُس کے مالیاتی ادارے کا merger، SIF کے ساتھ ہوا تھا اور جس کے بعد وہ اپنے عہدے سے فارغ ہو گیا تھا۔ اُسے یقین تھ،ا تاریخ اس بار اپنے آپ کو کچھ مختلف طریقے سے دہرانے والی تھی۔ اس دفعہ اسکرین سے غائب ہونے والا اُس کا پرانا حریف تھا، وہ نہیں۔
******
رئیسہ سالار کی زندگی پر اگر کوئی کتاب لکھنے بیٹھتا تو یہ لکھے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کہ وہ خوش قسمت تھی، جس کی زندگی میں آتی تھی اُس کی زندگی بدلنا شروع کر دیتی تھی۔ وہ جیسے پارس پتھر جیسا وجود رکھتی تھی، جو اُس سے چھو جاتا، سونا بننے لگتا۔
سالار سکندر کے خاندان کا حصّہ بننے پر بھی وہ اُن کی زندگی میں بہت ساری تبدیلیاں لے آئی تھی اور اب ہشام سے منسلک ہونے کے بعد اس کی زندگی کے اُس خوش قسمتی کے دائرے نے ہشّام کو بھی اپنے گھیراؤ میں لینا شروع کر دیا تھا۔
بحرین میں ہونے والے اُس طیّارے کے حادثے میں امیر سمیت شاہی خاندان کے کچھ افراد ہلاک نہیں ہوئے تھے، وہ دراصل بحرین کی بادشاہت کے حصّہ داروں کی ہلاکت تھی۔ پیچھے رہ جانے والا ولی عہد بے حد نوجوان، ناتجربہ کار اور عوام سے بہت دور تھا اور اُس حلقے میں بے حد ناپسندیدہ تھا، جو امیر کا حلقہ تھا۔
ہشّام کے باپ صباح بن جرّاح کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ وہ امیر اور شاہی خاندان کے افراد کی تدفین کی تقریبات میں شرکت کے لئے جب بحرین پہنچے گا تو بادشاہت کا ہُما اُس کے سر پر آن بیٹھے گا۔ بحرین کی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس میں ولی عہد کو برطرف کرتے ہوئے بادشاہت کی فہرست میں بہت نیچے کے نمبر پر براجمان صباح کو اکثریتی تائید سے بحرین کا نیا امیر نامز کر دیا گیا تھا۔ اس عہدے پر اُسے وقتی طور پر فائز کیا گیا تھا، مگر اگلے چند ہفتوں میں کونسل نے اس حوالے سے حتمی فیصلہ بھی کر دیا تھا۔ ولی عہد کی نامزدگی کونسل کے اگلے اجلاس تک کے لئے ملتوی کر دی گئی تھی۔
یہی وہ خبر تھی جو رئیسہ کو حمین نے سنائی تھی۔ خبر اتنی غیر متوقع اور ناقابلِ یقین تھی کہ رئیسہ کو بھی یقین نہیں آیا تھا، لیکن جب اُسے یقین آیا تو وہ ایکسائٹیڈ ہوئی تھی۔
”اور اب بُری خبر کیا ہے؟ وہ بھی سنا دو۔” اُس نے حمین سے پوچھا۔
”ہشّام اور تمہاری شادی میں اب بہت ساری رکاوٹیں آئیں گی صرف اُس کے خاندان کی طرف سے نہیں، پورے شاہی خاندان کی طرف سے۔” حمین نے اُسے بنا کسی تمہید کے کہا۔ وہ فکرمند ہونے کے باوجود خاموش ہو گئی تھی۔
ہشّام سے اُس کی ملاقات امریکہ واپسی کے دوسرے دن ہی ہو گئی تھی۔ وہ ویسا ہی تھا۔ بے فکرا، لاپروا، اپنے باپ کے بدلے جانے والے اسٹیٹس کے بارے میں زیادہ دلچسپی نہ دکھاتا ہوا۔ اُس کا خیال تھا، اُس کے باپ کو ملنے والا وہ عہدہ وقتی تھا۔ چند ہفتوں کے بعد کونسل اُس کے باپ کی جگہ شاہی خاندان کے اُن افراد میں سے کسی کو اس عہدے پر فائز کرے گی جو جانشینی کی دوڑ میں اُس کے باپ سے اوپر کے نمبر پر تھے۔
”تم نے اپنی فیملی سے بات کی؟” اُس نے چھوٹتے ہی رئیسہ سے وہ سوال کیا تھا جس کے حوالے سے وہ فکرمند تھی۔
”حمین سے بات ہوئی میری اور حمین نے بابا سے بھی بات کی ہے، لیکن بابا کو ہمارے حوالے سے پہلے ہی کچھ اندازہ تھا۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ مجھ سے اس ایشو پر آمنے سامنے بات کریں گے۔ لیکن حمین تم سے ملنا چاہتا ہے۔” رئیسہ نے اسے بریف کیا تھا۔
حمین ہشّام سے چند بار سرسری انداز میں پہلے بھی مل چکا تھا، لیکن یہ پہلی بار تھا کہ حمین نے خاص طور پر اُس سے ملنے کی فرمائش کی تھی۔
”مل لیتا ہوں۔ میں تو اتنا مصروف نہیں رہتا، وہ رہتا ہے۔ تم اُس سے co-ordinate کر لو کہ کب ملنا چاہے گا؟” ہشّام نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اُس سے کہا تھا۔
”تمہاری فیملی کو میری adoption کا پتہ ہے؟” اس بار رئیسہ نے بالآخر اُس سے وہ سوال کیا تھا جو بار بار اُس کے ذہن میں آرہا تھا۔
”نہیں، میری کبھی اُن سے اس حوالے سے بات نہیں ہوئی۔ لیکن تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو؟” ہشام اُس کی بات پر چونکا تھا۔
”اُنہیں اعتراض تو نہیں ہو گا کہ میں adopted ہوں؟”
”کیوں اعتراض ہو گا؟ میرا نہیں خیال کہ میرے پیرنٹس اتنے تنگ نظر ہیں کہ اس طرح کی باتوں پر اعتراض کریں گے۔” ہشّام نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا۔
”میں اپنے والدین کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔” اُس نے رئیسہ سے کہا تھا۔
حمین سے اُس کی ملاقات دو ہفتے بعد طے ہوئی تھی مگر اُس سے پہلے ہی ہشّام کو ایک بار پھر ایمرجنسی میں بحرین بلا لیا گیا تھا۔ اُس کے باپ کی کونسل نے متفقہ فیصلے سے امیر کے طور پر توثیق کر دی تھی اور ہشّام بن صباح کو بحرین کا نیا ولی عہد نامزد کر دیا گیا تھا۔ ایک خصوصی طیّارے کے ذریعے ہشّام کو بحرین بلایا گیا تھا اور وہاں پہنچنے پر یہ خبر ملنے پر اُس نے سب سے پہلے فون پر رئیسہ کو یہ اطلاع دی تھی۔ وہ بے حد خوش تھا۔ رئیسہ چاہتے ہوئے بھی خوش نہیں ہو سکی۔ وہ ایک ”عام آدمی” سے یک دم ایک ”خاص آدمی” ہو گیا تھا۔ حمین کی باتیں اُس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ ہشّام بہت جلدی میں تھا، اُن دونوں کے درمیان صرف ایک آدھ منٹ کی گفتگو ہو سکی تھی۔ فون بند ہونے کے بعد رئیسہ کے لئے سوچ کے بہت سارے در کُھل گئے تھے، وہ fairy tales پر یقین نہیں کرتی تھی کیونکہ اُس نے جس فیملی میں پرورش پائی تھی وہاں کوئی fairy tale نہیں تھی۔ وہاں اتفاقات اور انقلابات نہیں تھے۔ کیریئر، زندگیاں، نام، سب محنت سے بنائی جا رہی تھیں اور رئیسہ سالار کو اپنے سامنے نظر آنے والی وہ fairy tale بھی ایک سراب لگ رہی تھی۔
وہ ایک عرب امریکن سے شادی کرنا چاہتی تھی، ایک عرب بادشاہ سے نہیں۔ اُسے luxuries کی خواہش نہیں تھی اور اُس کی زندگی کے مقاصد اور تھے۔ اور چند دن پہلے تک اُس کے اور ہشّام کی زندگی کے مقاصد ایک جیسے تھے۔ اب وہ لمحہ بھر میں ریل کی پٹڑی پر جانے والے دو ٹریک بنے ہوئے تھے۔ مخالف سمت میں جانے والے ایک دوسرے ٹریک ہو گئے تھے۔
وہ بہت غیر جذباتی ہو کر اب حمین کی اُس گفتگو کو یاد کر رہی تھی جو اُس نے ہشّام کے حوالے سے کی تھی اور وہ تب کی تھی جب ہشّام ولی عہد نہیں بنا تھا اُسے اب جاننا تھا کہ حمین ہشّام کے بارے میں اب کیا سوچتا تھا۔
ہشّام کے حوالے سے یہ خبر بھی حمین نے ہی اُسے اُس رات دی تھی جب وہ سونے کی تیّاری کر رہی تھی۔ وہ ایک کانفرنس اٹینڈ کرنے کے لئے Montreal میں تھا۔
”میں جانتی ہوں۔” اُس نے جواباً ٹیکسٹ کیا۔
”مجھے مبارک باد دینی چاہیے یا افسوس کرنا چاہیے؟” جواباً ٹیکسٹ آیا تھا۔ وہ اُس کے مزاج سے واقف تھا۔ وہ مسکرا دی۔
”تمہاری رائے کیا ہے؟” اُس نے جواباً پوچھا۔
”افسوسناک خبر ہے۔”
”جانتی ہوں۔” اُس نے حمین کے ٹیکسٹ پر اتفاق کیا۔
جواباً اُس کی کال آنے لگی تھی۔
”اتنا بھی اپ سیٹ ہونے والی بات نہیں ہے۔” حمین نے ہیلو سنتے ہی بڑے خوشگوار لہجہ میں اُس سے کہا تھا۔ وہ اُس کی آواز کا ہر انداز پہچانتا تھا۔
”میں اپ سیٹ تو نہیں ہوں۔ بس یہ سب غیر متوقع ہے اس لیے۔۔۔۔۔” رئیسہ نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”میرے لئے غیر متوقع نہیں ہے یہ، مجھے اندازہ تھا اس کا۔” اُس نے جواباً کہا تھا۔
”تو پھر اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟” رئیسہ نے ایک بار پھر ادھورے جملے میں اُس سے مسئلے کا حل پوچھا۔
”تم نے کہا تھا تم اس پروپوزل کے حوالے سے بہت زیادہ جذباتی نہیں ہو۔” حمین نے اطمینان سے لمحہ بھر میں تصویر کا سیاہ ترین پہلو اُسے دکھایا یعنی ہشّام کو بھول جانے کا مشورہ دیا۔
۔“?You really think so” رئیسہ کو جیسے یقین نہیں آیا۔ ”تمہیں لگتا ہے میری اور اُس کی شادی نہیں ہو سکتی؟”
”ہو سکتی ہے۔ لیکن اُس کی شادی صرف تمہارے ساتھ ہو اور تمہارے ساتھ ہی رہے، یہ میرے لئے زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ عرب بادشاہ ”حرم” رکھتے ہیں۔” حمین نے اُسے جتایا تھا۔ تصویر کا ایک اور رُخ اُسے دکھایا جو اُس نے ابھی دیکھنا شروع بھی نہیں کیا تھا۔
”میں جانتی ہوں۔” اُس نے مدہم آواز میں کہا، پھر اگلے ہی جملے میں جیسے اُس کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔” لیکن ہشّام کے باپ نے شاہی خاندان کا حصّہ ہوتے ہوئے بھی کبھی دوسری شادی نہیں کی۔”
”وہ امریکہ میں سفیر رہے، بادشاہ کبھی نہیں رہے۔” حمین نے ترکی بہ ترکی کہا۔ دونوں کے درمیان اب خاموشی کا ایک لمبا وقفہ آ گیا تھا۔
۔“?So it’s all over”
اُس نے بالآخر حمین سے پوچھا۔ حمین کے دل کو کچھ ہوا۔ وہ پہلی محبت تھی جو اُس نے کبھی نہیں کی تھی، مگر اُس نے پہلی محبت کا انجام بہت بار دیکھا تھا۔۔ لیکن اب رئیسہ کو اُس انجام سے دو چار ہوتے دیکھ کر اُسے دلی تکلیف ہوئی تھی۔
”تمہارا دل تو نہیں ٹوٹے گا؟” وہ بے حد فکرمند انداز میں اُس سے پوچھ رہا تھا۔ رئیسہ کا دل بھر آیا۔
”ٹوٹے گا، لیکن میں برداشت کر لوں گی۔” رئیسہ نے بھرّائی ہوئی آواز میں اپنی آنکھوں میں آئی نمی پونچھتے ہوئے کہا۔
حمین کا دل اور پگھلا، ”ساری دُنیا میں تمہیں یہی ملا تھا؟” اُس نے دانت پیستے ہوئے رئیسہ سے کہا تھا۔
”مسئلہ شادی نہیں ہے رئیسہ، مسئلہ آئندہ کی زندگی ہے۔ کوئی گارنٹی نہیں ہے اس رشتے میں۔” حمین نے ایک بار پھر اُس کے ہتھیار ڈالنے کے باوجود جیسے اُس کا دُکھ کم کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ خاموش ہو گئی، کال ختم ہو گئی تھی۔ مگر ہشام نا رئیسہ کے ذہن سے نکلا تھا نہ ہی حمین کے۔
اگلے دن کے اخبارات نہ صرف بحرین کے نئے امیر اور ولی عہد کے بارے میں تصویروں اور خبروں سے بھرے ہوئے تھے بلکہ اُن خبروں میں ایک خبر نئے ولی عہد ہشّام بن صبّاح کی منگنی کی بھی تھی، جو بحرین کے ہلاک ہونے والے امیر کی نواسی سے طے پا رہی تھی۔ وہ خبر حمین اور رئیسہ دونوں نے پڑھی تھی اور دونوں نے ایک دوسرے سے شیئر نہیں کی تھی۔
******
”کوئی تم سے ملنا چاہتا ہے۔”
وہ اگلی صبح تھی۔ ساری رات لاک اپ میں جاگتے رہنے کے بعد وہ ناشتہ کے بعد کافی کا ایک کپ ہاتھ میں لئے بیٹھی تھی جب ایک آفیسر نے لاک اپ کا دروازہ کھولتے ہوئے ایک کارڈ اُس کے ہاتھ میں تھمایا اور کارڈ پر لکھا ہوا نام دیکھ کر عائشہ عابدین کا دل چاہا تھا وہاں کوئی سوراخ ہوتا تووہ اُس میں گھس کر چھپ جاتی۔ پتہ نہیں اُس شخص کے سامنے اُسے اب اور کتنا ذلیل ہونا تھا دُنیا سے غائب ہو جانے کی خواہش اُس نے زندگی میں کتنی بار کی تھی، لیکن شرم کے مارے اُس نے پہلی بار کی تھی۔
وہ پولیس آفیسر کے ساتھ وہاں آئی تھی جہاں وہ ایک اٹارنی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اُس کی رہائی کے لئے کاغذات لئے، جس پر اب صرف اُس کے signatures ہونے تھے۔
جبریل اور اُس کے درمیان رسمی جملوں کا تبادلہ ہوا تھا، ایک دوسرے سے نظریں ملائے بغیر۔ پھر اُس اٹارنی سے اُس کی بات چیت شروع ہوئی تھی، کاغذات، دستخط، اور پھر اسے رہائی کی نوید دے دی گئی تھی۔
بے حد خاموشی کے عالم میں وہ دونوں بارش کی ہلکی پھوار میں پولیس سٹیشن سے باہر پارکنگ میں گاڑی تک آئے تھے۔
”میں بہت معذرت خواہ ہوں۔ میری وجہ سے بار بار آپ کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، نساء کو آپ کو فون نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میں کچھ نہ کچھ انتظام کر لیتی۔ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔”
گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر اُس کے برابر بیٹھی عائشہ نے پہلی بار اپنی خاموشی توڑتے ہوئے بے حد شائستگی سے جبریل کی طرف دیکھے بغیر اُسے مخاطب کیا تھا۔
جبریل نے گردن موڑ کر اُسے دیکھا۔ اُس کے جملے میں وہ آخری بات نہ ہوتی تو وہ نساء کی اس بات پر کبھی یقین نہیں کرتا کہ وہ mentally upset تھی۔ وہ اپنے خلاف parental negligence کے تحت فائل ہونے والے قتل کے ایک الزام کو معمولی بات کہہ رہی تھی۔
”آپ نے کچھ کھایا ہے؟” جبریل نے جواباً بڑی نرمی سے اُس سے پوچھا تھا۔ عائشہ نے سر ہلا دیا۔ وہ اب اُسے بتانے لگی تھی کہ وہ کسی قریبی بس سٹاپ یا ٹرین سٹیشن پر اُسے ڈراپ کر دے تو وہ خود گھر پہنچ سکتی تھی۔ جبریل نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اُس کی ہدایات سنیں اور ٹھیک ہے کہہ دیا۔ مگر وہ وہاں نہیں رُکا تھا جہاں وہ اُسے ڈراپ کرنے کے لئے کہہ رہی تھی، وہ سیدھا اُس کے گھر پہنچ گیا تھا۔ اُس بلڈنگ کے سامنے جہاں اس کا اپارٹمنٹ تھا، عائشہ نے اُس سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ اُسے اُس کے گھر کا ایڈریس کیسے پتہ تھا۔ وہ اُس کا شکریہ ادا کر کے گاڑی سے اُترنے لگی تو جبریل نے اُس سے کہا۔
”کافی کا ایک کپ مل سکتا ہے؟” وہ ٹھٹھکی اور اُس نے پہلی بار جبریل کا چہرہ دیکھا۔
”گھر پر کافی ختم ہو چکی ہے، میں کچھ ہفتوں سے گروسری نہیں کر سکی۔” اُس نے کہتے ہوئے دوبارہ دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا۔
”میں چائے بھی پی لیتا ہوں۔” جبریل نے اُسے پھر روکا۔
”میں چائے نہیں پیتی، اس لئے لاتی بھی نہیں۔” عائشہ نے اس بار اُسے دیکھے بغیر گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔
”پانی تو ہو گا آپ کے گھر؟”
جبریل اپنی طرف کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا اور اُس نے گاڑی کی چھت کے اوپر سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔ اس بار عائشہ اُسے صرف دیکھتی رہی تھی۔
اُس کا اپارٹمنٹ اس قدر صاف ستھرا اور خوبصورتی سے سجا ہوا تھا کہ اندر داخل ہوتے ہی جبریل چند لمحوں کے لئے ٹھٹھک گیا تھا، جن حالات کا وہ شکار تھی، وہ وہاں کسی اور طرح کا منظر دیکھنے کی توقع کر رہا تھا۔
”آپ کی aesthatics بہت اچھی ہے۔”
وہ عائشہ سے کہے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ عائشہ نے جواباً کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ اپنا لونگ کوٹ اُتارتے اور دروازے کے پیچھے لٹکاتے ہوئے وہ لاؤنج میں سیدھا کچن ایریا کی طرف گئی، کچھ بھی کہے بغیر اُس نے ایک کیبنٹ کھول کر کافی کا جار نکال لیا تھا اور پھر پانی گرم کرنے لگی تھی۔
جبریل لاؤنج میں کھڑا اُس جگہ کا جائزہ لے رہا تھا، جہاں آنے والا کوئی شخص بھی یہ جان جاتا کہ اُس گھر میں ایک بچہ تھا جو اُس گھر میں رہنے والوں کی زندگی کا محور تھا۔
لاؤنج میں بنے play area میں اسفند کے کھلونے پڑے ہوئے تھے۔ دیواروں پر جگہ جگہ عائشہ اور اُس کی تصویریں۔ جبریل نے نظریں چرا لی تھیں۔ پتہ نہیں اس guilt کو وہ کیا کہتا اور اس کا کیا کرتا جو بار بار عائشہ عابدین کے بچے کے حوالے سے اُسے ہوتا تھا۔ اُس نے مُڑ کر عائشہ کو دیکھا تھا، وہ بے حد میکانکی انداز میں اُس کے لئے کافی کا ایک کپ تیار کر رہی تھی، یوں جیسے وہ کوئی waitress تھی۔ پورے انہماک سے ایک ایک چیز کو ٹرے میں سجاتے اور رکھتے ہوئے باقی ہر چیز سے بے خبر۔ اس چیز سے بھی کہ وہاں جبریل بھی تھا۔
وہ اب کافی کی ٹرے لے کر لاؤنج میں آ گئی تھی۔ سینٹر ٹیبل پر کافی کے ایک کپ کی وہ ٹرے رکھتے ہوئے وہ کچھ کہے بغیر صوفہ پر بیٹھ کر اُس سے پوچھنے لگی۔
۔“?Sugar”
”مجھے کافی کڑوی نہیں لگتی۔” جبریل اُس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا۔
۔“?Milk? Cream” عائشہ نے شوگر پاٹ چھوڑتے ہوئے باقی دو چیزوں کے بارے میں پوچھا۔ جو ٹرے میں رکھی ہوئی تھیں۔
”یہ بھی نہیں۔ مجھے کچھ دیر میں ہاسپٹل کے لئے نکلنا ہے۔” جبریل نے اب مزید کچھ کہے بغیر وہ کپ اُٹھا لیا تھا جو عائشہ نے میز پر اُس کی طرف بڑھایا تھا۔ اُس نے بڑی خاموشی کافی پی۔ کپ دوبارہ میز پر رکھا اور پھر اپنی جیب سے ایک لفافہ نکال کر میز پر رکھتے ہوئے اُس سے کہا ۔
”اسے آپ میرے جانے کے بعد کھولیں۔ پھر اگر کوئی سوال ہو تو میرا نمبر یہ ہے۔” اُس نے کھڑے ہوتے ہوئے جیب سے ایک وزیٹنگ کارڈ نکال کر میز پر اُسی لفافے کے پاس رکھ دیا۔
”حالانکہ میں جانتا ہوں آپ سوال نہیں کرتیں۔ مجھے فون بھی نہیں کریں گی۔ اس کے باوجود مجھے اسے پڑھنے کے بعد آپ کے کسی سوال کا انتظار رہے گا۔”
عائشہ نے خاموشی سے میز پر پڑے اُس لفافے اور کارڈ کو دیکھا پھر سر اُٹھا کر کھڑے جبریل کو۔ دُنیا میں ایسی تمیز اور تہذیب والے مرد کہاں پائے جاتے ہیں۔ اُس نے سامنے کھڑے مرد کو دیکھتے ہوئے سوچا تھا اور اگر پائے جاتے تھے تو اُن میں سے کوئی اُس کا نصیب کیوں نہیں بنا تھا۔ وہ کھڑی ہو گئی تھی۔
جبریل کو اپارٹمنٹ کے دروازے پر چھوڑ کر آنے کے بعد اُس نے اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے جھانک کر پارکنگ کو دیکھا جہاں وہ ابھی کچھ دیر میں نمودار ہوتا اور پھر وہ نمودار ہوا تھا اور وہ تب تک اُسے دیکھتی رہی جب تک وہ گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلا نہیں گیا۔
پھر وہ میز پر پڑے اُس لفافے کی طرف آئی تھی۔ اُس سفید لفافے کو اُس نے اُٹھا کر دیکھا جس پر اُس کا نام جبریل کی خوبصورت ہینڈ رائٹنگ میں لکھا ہوا تھا۔
۔Miss Aisha Abedeen
پھر اُس نے لفافے کو کھول لیا۔
******
کاغذ کی اس چٹ پر احسن سعد کا نام اور فون نمبر لکھا ہوا تھا۔ ریسپشن سے جبریل کو بتایا گیا تھا کہ وہ شخص کئی بار اُسے کال کر چکا تھا اور ایمرجنسی میں اُس سے بات کرنا یا ملنا چاہتا تھا۔ جبریل اُس وقت چھے گھنٹے آپریشن تھیٹر میں گزارنے کے بعد تھکا ہوا گھر جانے کے لئے نکل رہا تھا جب یہ چٹ اُس کے حوالے کی گئی تھی، اُس چٹ پر اُس کے لئے ایک میسج بھی تھا۔
******
ٹیلی اسکوپ سے اس نے ایک بار پھر اس بینکوئٹ ہال کی کھڑکی سے اندر نظر ڈالی۔ ہال میں سیکورٹی کے لوگ اپنی اپنی جگہ پر مستعد تھے۔ care taker staff بھی اپنی اپنی جگہ پر تھا۔ اس بینکوئٹ ہال کا داخلی دروازہ اس قد آدم کھڑکی کے بالکل سامنے تھا جس کھڑکی کے بالمقابل ساٹھ فٹ چوڑی، دو رویہ مین روڈ کے پار ایک عمارت کی تیسری منزل کے ایک اپارٹمنٹ میں وہ موجود تھا۔ اس اپارٹمنٹ کے بیڈ روم کی کھڑکی کے سامنے ایک کرسی رکھے وہ ایک جدیدsniperرائفل کی ٹیلی اسکوپک سائٹ سے کھڑکی کے پردے میں موجود ایک چھوٹے سے سوراخ سے اس بینکوئٹ ہال میں جھانک رہا تھا۔ بینکوئٹ ہال کا داخلہ دروازہ کھلا ہوا تھا اور کوریڈور میں استقبالی قطار اپنی پوزیشن لے چکی تھی۔ اس کی گھڑی پر 9:02 بجے تھے۔ مہمان نو بج کر پندہ منٹ پر اس کو ریڈور میں داخل ہونے والا تھا اور تقریباً ایک گھنٹہ اور پندہ منٹ وہاں گزارنے کے بعد وہ وہاں سے جانے والا تھا۔ مہمان کے اس ہوٹل میں پہنچنے سے اس کی روانگی کے بعد تک اس علاقے میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ کے لیے ہر طرح کا مواصلاتی رابطہ جام ہونے والا تھا۔ یہ سیکورٹی کے ہائی الرٹ کی وجہ سے تھا۔ ڈیڑھ گھنٹہ کے لیے وہاں سیل فون اور متعلقہ کوئی ڈیوائسز کام نہیں کر سکتی تھی۔ لیکن وہ ایک پروفیشنل ہٹ مین تھا۔ اس سے پہلے بھی اسی طرح کے ہائی الرٹس میں کامیابی سے کام کرتا رہا تھا۔ اس کو ہائر کرنے کی وجہ بھی اس کی کامیابی کاتناسب تھا جو تقریباً سو فی صد تھا۔ وہ صرف دو لوگوں کو مارنے میں ناکام رہا تھا اور اس کی وجہ اس کے نزدیک اس کی بری قسمت تھی۔ پہلی بار اس کی رائفل لاسٹ سیکنڈز میں اس اسٹینڈ سے ہل گئی تھی، جس پر وہ رکھی تھی اور دوسری بار خیر دوسری بار کا قصہ طویل تھا۔
وہ پچھلے دو مہینے سے اس اپارٹمنٹ میں رہ رہا تھا۔ اس دن سے تقریباً ایک مہینہ پہلے سے جب وہ یہ ہوٹل اس بینکوئٹ کے لئے مختص کیا گیا تھا۔ جنہوں نے اسے اس اہم کام پر مامور کیا تھا۔ اس تقریب کے لیے اس ہوٹل اور ہوٹل کے اس بینکوئٹ ہال کا انتخاب کرنے والے بھی وہی تھے۔
اس مہمان کو ختم کرنے کا فیصلہ چار ماہ پہلے ہوا تھا۔ وقت، جگہ اور قاتل کا انتخاب بے حد ماہرانہ طریقے سے بڑے غور و خوض کے بعد کیا گیا تھا۔ اس مہمان کے سال کی مکمل مصروفیات کے شیڈول میں سے مقام، ملک اور ممکنہ قاتلوں کے نام شارٹ لسٹ کیے گئے تھے۔ پھر ہر جگہ اور تاریخ پر ہونے والے اس حادثے کے اثرات پر سیر حاصل بحث کی گئی تھی۔ فوری اثرات اور اس سے نمٹنے کی حکمت عملی پر بات کی گئی تھی۔ ممکنہ ردِ عمل کے نقصانات سے بچنے کے لیے منصوبے تیار کیے گئے تھے۔ ایک قاتلانہ حملے کے ناکام ہو جانے کی صورت میں ہونے والے ممکنہ ردِ عمل اور نقصانات پر غور کیا گیا تھا اور ہر میٹنگ کے بعد ”کام” کی جگہیں اور تاریخیں بدلتی رہی تھیں، لیکن قاتل ایک ہی رہا تھا۔ کیوںکہ وہ موزوں ترین تھا۔ اس شہر میں اس تاریخ پر اس تقریب کے لیے سیکیورٹی کی وجوہات کے باعث تین مختلف ہوٹلز کا نام لسٹ میں رکھا گیا تھا، لیکن اسے ہائر کرنے والے جانتے تھے کہ تقریب کہاں ہو گی۔
اس سے دو ماہ پہلے ہی اسے اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر ستائس سالہ لڑکی سے دوستی کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اس لڑکی کے چار سالہ پرانے بوائے فرینڈ سے بریک اپ کے لیے ایک پروفیشنل کال گرل کا استعمال کیا گیا تھا جو اس کے کار ڈیلر بوائے فرینڈ سے ایک کار خریدنے کے بہانے ملی تھی اور اسے ایک ڈرنک کی آفر کر کے ایک موٹل لے گئی تھی۔
اس کال گرل کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کی ریکارڈنگ دوسرے دن اس لڑکی کو میل میں موصول ہو گئی تھی۔ اس کا بوائے فرینڈ نشے میں تھا اسے پھنسایا گیا تھا اور یہ سب ایک غلطی تھی، لیکن اس کے بوائے فرینڈ کی کوئی تاویل، اس کے غصے اور رنج کو کم نہیں کر سکی تھی۔ اس کی گرل فرینڈ کے لئے یہ بات اس لئے بھی زیادہ تکلیف دہ تھی۔ زیادہ ناقابل برداشت تھی، کیونکہ وہ تین ہفتے بعد شادی کرنے والے تھے۔ اس نے اپنے بوائے فرینڈ کا سامان گھر کے دروازے سے باہر نہیں پھینکا تھا۔ اسے اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے باہر پھینکا تھا۔ سڑک پر بکھرے سامان کو اکٹھا کرتے ہوئے خود کو اور اس کال گرل کو کوستے ہوئے بھی اس کا بوائے فرینڈ یہ سوچ رہا تھا کہ چند ہفتوں میں اس کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور وہ دونوں دوبارہ اکٹھے ہو جائیں گے۔ جنہوں نے ان کا تعلق ختم کروایا تھا۔ انہیں اس بات کا اندیشہ بھی تھا۔ چنانچہ معاملات کو پوائنٹ آف نوریٹرن تک پہنچانے کے لیے اس لڑکی کے کمپیوٹر کو ہیک کیا گیا تھا۔ اس کی اور اس کی گرل فرینڈ کی بے حد قابل اعتراض تصویروں کو اس کی ای میل آئی ڈی کے ساتھ بہت ساری ویب سائٹس پر اَپ لوڈ کر دیا گیا تھا۔
یہ جیسے تابوت میں آخری کیل تھی۔ اس لڑکی نے اپنے بوائے فرینڈ کی ای میل آئی ڈی سے بھیجا ہوا پیغام پڑھا تھا۔ جس میں لکھا تھا کہ اس نے اپنے بریک اَپ کے بعد اس کی ساری پکچرز کو قابل اعتراض ویب سائٹس سے اَپ لوڈ کر دیا ہے۔ اس کی گرل فرینڈ نے پہلے وہ لنکس وزٹ کیے تھے۔ پھر اپنے بوائے فرینڈ کی اس کال گرل کے ساتھ ویڈیو کو اَپ لوڈ کیا تھا اور اس کے بعد اپنے سابقہ بوائے فرینڈ کو اس کے شو روم میں جا کر اس کے کسٹمرز کے سامنے اس وقت سامنے اس وقت پیٹا تھا، جب وہ انہیں ایک جدید ماڈل کی گاڑی تقریباً بیچنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔
۔”Happy families drive this car” اس نے تقریباً چھپن بار یہ جملہ اس جوڑے کے سامنے دہرایا تھا جو ٹیسٹ ڈرائیوکے لیے وہاں موجود تھے اور اس کے ساتھ اس نے ایک سو چھپن بار یہ جھوٹ بھی بولا تھا کہ کس طرح خود بھی اس کار کو ذاتی استعمال میں رکھنے کی وجہ سے اس کا اور اس کی گرل فرینڈ کا ریلیشن شپ مضبوط ہوا تھا۔ اس کے بوائے فرینڈ کو مار کھانے پر اتنا شاک نہیں لگا تھا۔ چار سالہ کورٹ شپ میں وہ اپنی گرل فرینڈ کے ہاتھوں اس شہر کی تقریباً ہر مشہو رپبلک پیلس پر پٹ چکا تھا اور یہ تو بہرحال اس کا اپنا شو روم تھا۔ جتنا اسے اپنی گرل فرینڈ کے الزام سن کر شاک لگا تھا۔
اس کے چیخنے چلانے اور صفائیاں دینے کے باوجود اس کی گرل فرینڈ کو یقین تھا کہ اس نے شراب کے نشے میں یہ حرکت کی ہوگی۔ ورنہ اس کی ذاتی لیپ ٹاپ میں موجود تصویریں اس کی ای میل ایڈریس کے ساتھ کون اَپ لوٹ کر سکتا تھا۔
اس بریک اَپ کے ایک ہفتے کے بعد وہ نائٹ کلب میں اسے سے ملا تھا۔ چند دن ان کی ملاقاتیں اسی بے مقصد انداز میں ہوتی رہیں تھیں۔ وہ میڈیک ٹیکنیشن تھی اور اس نے اپنا تعارف پینٹر کے طور پر کروایا تھا۔ وہ ہر بار اس لڑکی کو ڈرنکس کی قیمت خود ادا کرتا تھا۔ چند دن کی ملاقاتوں کے بعد اس نے اسے گھر پہ مدعو کیا تھا اور اس کے بعد وہاں کا آنا جانا زیادہ ہونے لگاتھا۔ وہ اس بلڈنگ کے افراد کو ایک ریگولر وزیٹر کا تاثر دینا چاہتا تھا اور دو ماہ کے اس عرصے میں وہ اس اپارٹمنٹ کی دوسری چابی بنوا چکا تھا اور ایک ہفتہ پہلے وہ اس لڑکی کی عدم موجودگی میں اس کے اپارٹمنٹ پر وہ اسنائپر رائفل اور کچھ دوسری چیزیں بھی منتقل کر چکا تھا۔ وہ جانتا تھا اس تقریب سے ایک ہفتہ پہلے اس علاقے کی تمام عمارتوں پر سیکورٹی چیک ہو گا۔ وہ تب ایسا کوئی بیگ اسکریننگ کے بغیر عمارت میں منتقل نہیں کر سکے گا اور اس وقت بھی اس علاقے کی تمام بلڈنگز بے حد ٹائٹ سیکورٹی میں تھیں۔ وہ ایک ریگولر وزیٹر نہ ہوتا تو اس وقت اس بلڈنگ میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس بلڈنگ سے پچاس میل دور اس کی گرل فرینڈ کو اسپتال میں کسی ایمرجنسی کی وجہ سے روک لیا گیا تھا۔ ورنہ اس وقت وہ اپنے اپارٹمنٹ پر ہوتی۔ پارکنگ میں کھڑی اس کی کار کے چاروں ٹائر پنکچر تھے اور اگر وہ ان دونوں چیزوں سے کسی نہ کسی طرح بچ کر بھی گھر روانہ ہو جاتی تو راستے میں اس کو چیک کرنے کے لیے کچھ اور بھی انتظامات کیے گئے تھے۔
نو بج کر تیرہ منٹ ہو رہے تھے۔ وہ اپنی رائفل کے ساتھ مہمان کے استقبال کے لئے بالکل تیار تھا۔ جس کھڑکی کے سامنے وہ تھا، ہوٹل کے اس بینکوئٹ ہال کی وہ کھڑکی بلٹ پروف شیشے کی بنی تھی۔ ڈبل گلیزڈ بلٹ پروف شیشہ۔ یہی وجہ تھی کہ ان ونڈوز کے سامنے کوئی سیکورٹی اہلکار تعینات نہیں تھے۔ تعینات ہوتے تو اس نشانہ باندھنے میں یقینا دقت ہوتی، لیکن اس وقت اسے پہلی بار یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اسے اس سے پہلے کسی کو مارنے جکے لئے اتنی جامع سہولیات نہیں ملی تھیں۔ مہمان کو ریڈور میں چلتے ہوئے آنا تھا۔ ایلویٹر سے نکل کر کوریڈور میں چلتے ہوئے بینکوئٹ ہال کے داخلی دروازے تک اس مہمان کو شوٹ کرنے کے لیے اس کے پاس پورے دو منٹ کا وقت تھا۔ ایک بار وہ بینکوئٹ ہال میں اپنی ٹیبل کی طرف چلا جاتا تو اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا، لیکن دو منٹ کا وقت س جیسے پروفیشنل کے لیے دو گھنٹے کے برابر تھا۔
اس بینکوئٹ ہال کی تمام کھڑکیاں بلٹ پروف تھیں۔ صرف اس کھڑکی کے سوا جس کے سامنے وہ تھا۔ تین ہفتے پہلے بظاہر ایک اتفاقی حادثے میں اس کھڑکی کا شیشہ توڑا گیا تھا۔ اسے تبدیل کروانے میں ایک ہفتہ لگا تھا اور تبدیل کیا جانے والا شیشہ ناقص تھا۔ یہ صرف وہ لوگ جانتے تھے جنہوں نے یہ سارا منصوبہ بنایا تھا۔ اسٹیج تیار تھا اور اس پر وہ فنکار آنے والا تھا جس کے لیے یہ ڈراما کھیلا جا رہا تھا