top of page

آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد

قسط نمبر سات

وہ کچن میں کام کر رہی تھی جب سالار سحری کے لیے وہاں گیا۔ وہ جواب دینے کی بجائے مسکرائی۔ سالار کو حیرت ہوئی۔
آج اس نے سحری ختم کرنے میں بڑی عجلت دکھائی تھی اور کیوں دکھائی تھی یہ راز زیادہ دیر تک راز نہیں رہا تھا۔ کھانا ختم کرتے ہی وہ اپنا اسکیچ بک اٹھا لائی تھی۔
یہ میں نے سکیچ کرلیا ہے جس طرح کا گھر میں کہہ رہی تھی۔
سحری کرتے ہوئے سالار بری طرح چونکا تھا۔ وہ اپنی کسی ہدایت پر اتنا فوری عمل درآمد کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ وہ اسکیچ بک اس کے سامنے کھولے بیٹھی تھی۔ ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے اسکیچ بک کو تھامے ہوئے سالار نے ایک نظر اس پر ڈالی اور دوسری اس گھر پر جو اسکیچ میں نظر آرہا تھا۔ گھر سے زیادہ اسے اسٹیٹ کہنا زیادہ بہتر تھا۔ اس نے ہر وہ چیز شامل کی تھی جس کا ذکر اس نے رات کو کیا تھا۔پہاڑوں کے دامن میں کھلے سبزے میں ایک چھوٹا گھر جس کے سامنے ایک جھیل تھی اور اس کے اردگرد چھوٹے چھوٹے سٹرکچرز تھے اور سمر ہاؤس۔ اس نے اپنے سٹرکچرز کو کلر بھی کیا ہوا تھا۔
اور یہ آگے بھی ہے۔ اس نے سالار کو سکیچ بک بند کرتے دیکھ کر جلدی سے اگلا صفحہ پلٹ دیا۔
وہ اس کے گھر کا یقیناً عقبی حصہ تھا۔ جہاں پر اصطبل اور پرندوں کی مختلف قسم کی رہائش گاہیں بنائی گئی تھی۔ اس میں وہ فش فارم بھی تھا جس کا وہ رات کو ذکر کر رہی تھی۔
تم رات کو سوئی نہیں۔ سکیچ بک بند کرتے سالار نے اس سے پوچھا۔
یہ سکیچز گھنٹوں کی محنت کے بغیر نہیں بن سکتے تھے۔ امامہ کو اس تبصرے نے جیسے مایوس کر دیا۔وہ سالار سے کچھ اور سننے کی توقع کر رہی تھی۔
اچھا ہے نا؟ اس نے سالار کے سوال کا جواب
دیئے بغیر کہا۔
کانٹا ہاتھ میں لیئے دیر تک وہ اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
بہت اچھا ہے۔ ایک لمبی سی خاموشی کے بعد کہے جانے والے اس جملے سے وہ کھل اٹھی۔ تمہارے دونوں پلاٹس بیچ کر ہم کسی جگہ پر ذرا بڑی جگہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرا بڑی جگہ؟ ایک ایکڑ کی بات کر رہی ہو کم از کم تم۔ اور زمین تو چلو کسی نہ کسی طرح ہاتھ آجائے گی لیکن اس گھر کی مینٹینینس کے اخراجات۔۔۔۔۔ویل۔۔۔ مجھے کم از کم کروڑ پتی ہو کر مرنا پڑے گا۔ اگر ارب پتی نہیں تو۔ سالار نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
امامہ نے بے حد خفگی سے سکیچ بک بند کر دی۔ ٹھیک ہے میں نہیں کروں گی اب گھر کی بات۔
وہ پلک جھپکتے ہی اٹھ کر سکیچ بک سمیت غائب ہوگئی۔
وہ کانٹا ہاتھ میں پکڑے بیٹھا رہ گیا۔ وہ ایک بہت مضحکہ خیز صورت حال کا سامنا کر رہا تھا۔ سالار سحری ختم کر کے بیڈروم میں آگیا۔ا مامہ صوفے پر سکیچ بک کھولے بیٹھی تھی۔ سالار کو دیکھ کر اس نے سکیچ بک بند کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔
اگر تمہں فوری طور پہ گھر چاہئیے تو میں خرید دیتا ہوں تمہیں۔ اس نے بے حد سنجیدگی کے ساتھ اس کے پاس صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
مجھے اس طرح کا گھر چاہیئے۔ اس نے پھر سکیچ بک اٹھا لی۔
ایک ایکڑ ہو یا نہ ہو لیکن ایسا ایک بنا دوں گا میں تمہیں۔ وعدہ۔ لیکن اب یہ ہوم مینیا کو اپنے سر سے اتارو۔
وہ امامہ کا کندھا تھپکتے ہوئے اٹھ گیا۔
وہ بے اختیار مطمئن ہو گئی۔ وعدے کا لفظ کافی تھا فی الحال اس کے لیے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ رمضان کے باقی دن بھی اسی طرح گزرے تھے۔عید کے فوراً بعد سالار کا بنک کوئی نیا انویسٹمنٹ پلان لانچ کرنے والا تھا۔ اور وہ ان دنوں اسی سلسلے میں بہت مصروف رہا۔ امامہ کی مصروفیت کا دائرہ گھر سر شروع ہو کر گھر پہ ہی ختم ہوتا تھا۔ وہ اسے دن میں دو تین بار بنک سے چند منٹ کے لیے کال کر لیتا تھا۔
امامہ کا خیال تھا کہ وہ وقتی طور پر مصروف ہے اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ وقتی طور پہ اپنی مصروفیت کو حتی الامکان کم کیے ہوئے تھا۔
بازاروں میں عید کی تیاریوں کی وجہ سے رش بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ اپنی مصروفیت کے باوجود اسے ہر رات ایک آدھ گھنٹے کے لیے باہر لے جایا کرتا تھا۔ وہ روزانہ رات کے اس ایک گھنٹے کا انتظار کرتی تھی۔
وہ عید سے دو دن قبل اسلام آباد آگئے تھے۔ کامران اور معیز اپنی فیملیز کے ساتھ پاکستان آئے ہوئے تھے۔وہ ان سے فون پر بات کر چکی تھی لیکن سالار کی بیوی کی حیثیت سے یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ وہ سب اس سے بہت دوستانہ انداز سے ملے۔ وہ کون تھی وہ سب پہلے سے جانتے تھے۔ لہذا کسی نے کوئی سوال نہیں کیا۔
وہ سکندر عثمان کی وسیع و عریض سٹنگ ایریا میں بیٹھی، وہاں موجود تمام لوگوں کی گپ شپ سن رہی تھی۔ سالار کے تینوں بھائیوں کے سسرال اسلام آباد میں ہی تھی اور اس وقت موضوع گفتگو تینوں بھائیوں کی سسرال کی طرف سے آنے والے قیمتی تخائف تھے جو عید پر ان کے لیے بھیجے گئے تھے۔امامہ کو وہاں بیٹھے شدید احساس کمتری ہوا۔ اس کے اور سالار کے پاس وہاں کسی دوسرے سے کسی تحفے کی تفصیلات شیئر کرنے کے لیے کچھ نہ تھا ۔
اسلام آباد آنے سے پہلے ڈاکٹر سبط علی سعیدہ اماں اور ڈاکٹر فرقان کے علاوہ ان کی بیٹیوں نے بھی اس کے لیے کچھ کپڑے بھجوائے تھے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی چیز اس کے ماں باپ کے گھر سے نہیں آئی تھی۔ کچھ چیزوں کی کمی اس کی زندگی میں ہمیشہ رہنی تھی۔ 
تم نے کیا بنوایا ہے عید کے لیے؟ کامران کی بیوی زوہا نے اچانک پوچھا۔
میں نے؟ وہ گڑبڑائی۔
چند لمحوں کے لیے سب کی نظریں اس پر جم گئی۔
سالار نے کپڑے لے کر دیے ہے مجھے ۔ قمیص شلوار ہی ہے۔
امامہ کے لیے تو عید کے کپڑے میں نے بھی بنوائے ہیں ۔یہ پہلی عید ہے اس کی۔ تم عید پر تو میرے والے کپڑے ہی پہننا۔ طیبہ نے مداخلت کرتے ہوئے اسے بتایا۔
امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے کندھوں کے بوجھ میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم صبح چل رہی ہو میرے ساتھ؟ 
سالار نائٹ ڈریس میں ملبوس چند لمحے پہلے واش روم سے نکلا تھا۔ پہلی دفعہ کی طرح اس بار بھی وہ اسی کھڑکی کے سامنے کھڑی تھی۔
ہاں۔ اس نے سالار کو دیکھے بغیر کہا۔
طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟ اپنے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اس نے غور سے امامہ کو دیکھا۔
ہاں۔ اس نے اسی انداز میں جواب دیا۔ سالار کمبل کھینچتے ہوئے بیڈ پر لیٹ گیا۔ امامہ نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ وہ اپنے سیل پر الارم سیٹ کر رہا تھا۔ وہ سوچے سمجھے بغیر اس کی طرف آگئی۔ سالار نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ کچھ کہے بغیر اس کے قریب بیٹھ گئی۔ سیل فون سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ حیران ہوا۔ وہ پریشان تھی اور یہ پوچھنے کے لیے اسے اب تصدیق کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ پہلے کی طرح اب بھی اس کی اداسی کو اسلام آباد آنے کا نتیجہ ہی سمجھا تھا۔ لیٹے لیٹے سالار نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ وہ اس کے ہاتھ کی گرفت میں اپنے ہاتھ کو دیکھتی رہی۔ پھر اس نے نظریں اٹھا کر سالار کو دیکھا۔
تمہیں مجھ سے شادی نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ وہ بھونچکا سا رہ گیا۔
پھر کس سے شادی کرنی چاہیئے تھی۔ وہ حیران ہوا۔
کسی سے بھی۔ میرے علاوہ کسی سے بھی۔
اچھا مشورہ ہے لیکن دیر سے ملا ہے۔ اس نے بات مذاق میں اڑانے کی کوشش کی۔ امامہ نے ہاتھ چھڑا دیا۔ 
تم پچھتا رہے ہو نا اب؟ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
میں کیوں پچھتاؤں گا۔ وہ اب سنجیدہ ہوگیا ۔
تمہیں پتہ ہوگا۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن سالار نے اسے روک دیا۔
نہیں مجھے نہیں پتا۔ تم بتادو۔ وہ واقعی حیرت زدہ تھا۔
تمہارا بھی دل چاہتا ہوگا کہ کوئی تمہیں بھی کپڑے دے۔۔تحائف دے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بات مکمل نہ کرسکی۔اس کی آواز پہلے بھرائی اور پھر آنسو ٹپکنے لگے۔
وہ ہکا بکا اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ جو بات اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی وہ اس کے لیے احساس جرم بن رہی تھی۔
میرے خدایا۔۔۔ امامہ تم کیا کیا سوچتی رہتی ہو۔۔۔۔۔وہ واقعی ششدر تھا۔ وہ اپنی آنکھوں کو رگڑ کر صاف کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
بس تمہیں مجھ سے شادی نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ وہ دلبرداشتہ تھی۔
بات تحفوں کی نہیں تھی بلکہ سبکی کی تھی جو لاؤنج میں بیٹھے ان لوگوں کے درمیان اس نے محسوس کی تھی۔
سالار نے جواب میں کچھ کہنے کی بجائے اسے گلے سے لگا کر تسلی دینے والے انداز میں تھپکا۔ اسے تسلی نہیں ہوئی اس نے اس کا ہاتھ ہٹایا اور اٹھ کر چلی گئی۔ آدھے گھنٹے تک واش روم میں آنسو بہانے کے بعد اس کے دل کا بوجھ تو ہلکا نہیں ہوا البتہ اس کے سر میں درد ہونے لگا تھا۔ کپڑے تبدیل کر کے جب واپس وہ کمرے میں آئی تو وہ کمرے کی لائٹ آن کیے ہوئے اسی طرح بیٹھا تھا۔ امامہ کو کچھ شرمندگی ہوئی۔ وہ اس سے کچھ نہ کہتی تو ٹھیک تھا۔ وہ اس سے نظریں ملائے بغیر بیڈ کی دوسری طرف آ کر لیٹ گئی۔ وہ بھی لائٹس آف کر کے لیٹ گیا۔ اس نے امامہ کو مخاطب نہیں کیا تھا۔ اور یہ اس کے لیے جیسے نعمت مترقبہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امامہ بی بی آپ اتنی عقلمند نہیں جتنا میں آپ کو سمجھتا تھا۔ بہت ساری چیزیں ہیں جس میں آپ خاصی حماقت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
اگلی صبح گاؤں جاتے ہوئے ڈرائونگ کے دوران وہ بے حد سنجیدگی سے اسے کہہ رہا تھا۔ وہ سامنے سڑک کو دیکھتی رہی۔ 
کیا ہو جاتا ہے تمہیں بیٹھے بٹھائے۔ کیوں الٹی سیدھی باتیں سوچتی رہتی ہو؟ 
تم اب مجھ سے اس طرح کی باتیں کر کے مجھے اپ سیٹ کر رہے ہو۔ اس نے نہایت بیزاری سے کہا۔
میں بات کروں گا۔ اس نے جواباً اسے ڈانٹا تھا۔
مجھے سسرال کے کپڑوں اور تحائف میں دلچسپی نہیں ہے۔ تمہیں کیا لگتا ہے کیا میں عید پر سسرال سے آئے کپڑے پہنوں گا؟ ہاں البتہ تمہیں اگر اس بات کا دکھ ہے کہ تمہیں تحائف نہیں ملے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں ہے مجھے دکھ۔۔۔پھر؟ امامہ نے بےحد خفگی سے اس کی بات کاٹی۔
تو پھر یہ ہے کہ میں تمہیں لے دیتا ہوں یہ سب کچھ، پہلے بھی لے کر دیے ہیں، سالار کا لہجہ کچھ نرم پڑا۔
تم یہ سب کچھ نہیں سمجھ سکتے۔ امامہ نے اسی انداز میں کہا۔
ہاں ہو سکتا ہے، لیکن تم بھی یہ بات سمجھ لو کہ کچھ چیزیں تم بدل نہیں سکتی تمہیں اسے قبول کرنا ہوگا۔
کیا تو ہے۔
تو پھر اتنا رونا کیوں۔
سب نے محسوس کیا ہوگا کہ میری فیملی نے۔۔۔۔۔ اس نے رنجیدہ ہوتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی۔
تم سے کسی نے کچھ کہا؟ 
نہیں۔
تو پھر؟ 
کہا نہیں لیکن پھر بھی دل میں سوچا تو ہوگا نا۔
تم ان کے دلوں تک مت جاؤ جو میں کہہ رہا ہوں تم صرف وہ سنو۔ سالار نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ یہ بے معنی چیزیں ہیں، ایک نارمل ارینج میرج ہوتی تو بھی میں سسرال سے کوئی تحائف لینا پسند نہیں کرتا۔ جن رواجوں کو میں پسند نہیں کرتا ان کی وجہ سے کوئی حسرت اور پچھتاوے بھی نہیں مجھے۔
تم سے زیادہ کوئی قیمتی گفٹ ہو سکتا ہے میرے لیے؟ وہ جانتا تھا کہ وہ اس کی بات سے متاثر نہیں ہو رہی ہو گی۔ اس نے امامہ سے مزید کچھ نہ کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وسیع و عریض کمپاؤنڈ اور اس کے اندر موجود چھوٹی بڑی عمارتوں نے چند لمحوں کے لیے امامہ کو حیران کردیا۔ اس نے سالار سے اس سکول اور دوسرے پراجیکٹس کے بارے میں سرسری تذکرہ سنا تھا لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ کام اتنا منظم ہو رہا ہے۔
کمپاؤنڈ میں آج صرف ڈسپنسری کھلی تھی۔ اور اس وقت بھی وہاں مریضوں کی ایک خاصی تعداد موجود تھی۔ یہ عید کی تعطیلات تھی۔
سالار کی گاڑی کو کمپاؤنڈ میں داخل ہوتے دیکھ کر کچھ دیر کے لیے کمپاؤنڈ میں ہلچل مچ گئی۔ کیئرٹیکر اسٹاف ایک دم الرٹ ہوگئے۔ وہاں کام کرنے والے اکثر افراد آج چھٹی پر تھے۔ اور جو وہاں موجود تھے انہوں نے کمپاؤنڈ کے آخری کونے میں انیکسی کے سامنے گاڑی رکنے کے بعد سالار کے ساتھ گاڑی سے نکلنے والی چادر میں ملبوس اس لڑکی کو دلچسپی سے دیکھا۔
انیکسی کا چوکیدار پہلا آدمی تھا جسے سالار نے اپنی بیوی سے متعارف کرتے ہوئے اپنی شادی کے بارے میں مطلع کیا تھا۔ اور وہ جانتا تھا جب تک وہ عمارت کے دوسرے حصوں تک جائے گا تب تک اس کی شادی کی خبر ہر طرف پھیل چکی ہوگی۔
انیکسی کے سامنے موجود لان سے گزرتے ہوئے امامہ نے بڑی دلچسپی سے اپنے قرب وجوار میں نظر اڑائی۔ بہت عرصہ بعد وہ ایسی کھلی فضا میں سانس لے رہی تھی کچھ دیر کے لیے اداسی کی ہر کیفیت کو اس نے غائب ہوتے محسوس کیا۔
ہم یہاں بیٹھ جاتے ہیں۔
انیکسی کے برآمدے میں پہنچتے ہی اس نے سالار سے کہا۔ جو چوکیدار سے دروازہ کھلوا رہا تھا۔
نہیں یہاں کچھ دیر بعد تمہیں سردی لگے گی۔ اندر لاؤنج میں بیٹھ کر بھی تمہیں یہ سب کچھ اسی طرح نظر آئے گا۔ فی الحال ذرا میں ڈسپنسری کا ایک راؤنڈ لوں گا تمہیں اگر یہاں بیٹھنا ہے تو بیٹھ جاؤ۔سالار نے اس سے کہا۔
نہیں۔ میں تمہارے ساتھ چلوں گی۔ اس نے فوراً کہا۔
کبھی ہم بھی یہاں رہنے کے لیے آئے گے۔ اس نے بے اختیار کہا۔
اچھا۔۔ امامہ کو لگا جیسے وہ اسے بہلا رہا ہے ۔۔۔۔دس منٹ بعد وہ اسے مرکزی عمارت اور اس سے منسلک دوسرے حصے دکھا رہا تھا۔ اور سٹاف کو کچھ ہدایات بھی دیتا جا رہا تھا۔
وہ سب لوگ کہہ رہے ہیں مٹھائی کھلائے جی۔چوکیدار نے سالار کو دوسرے لوگوں کی فرمائش سنا دی۔
چلیں۔۔۔۔آج افطار اور افطار ڈنر کا انتظام کرلیں۔ میں اکاؤنٹنٹ کو بتا دیتا ہوں۔ سالار نے مسکرا کر کہا۔
دو گھنٹے وہاں گزارنے کے بعد جب وہ اس کے ساتھ وہاں سے نکلی تو پہلی بار اپنے دل میں اس کے لیے عزت کے کچھ جذبات لیے ہوئے تھی۔
یہ سب کیوں کر رہے ہو تم؟ اس نے رستے میں اس سے پوچھا۔
اپنی بخشش کے لیے۔ جواب غیر متوقع تھا لیکن کہنے والا بھی تو سالار سکندر تھا۔
مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم اتنے رحمدل ہو۔ چند لمحے خاموش رہ کر امامہ نے اس سے کہا۔
نہیں۔ رحمدل نہیں ہوں نا ہی ترس کھا کہ کسی کے لیئے کچھ کر رہا ہوں۔ ذمہ داری سمجھ کے کر رہا ہوں۔ رحمدل ہوتا تو مسئلہ ہی کیا تھا۔ آخری جملہ اس نے جیسے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
کیسے شروع کیا یہ سب کچھ؟
وہ اسے فرقان سے اپنی ملاقات اور اس پراجیکٹ کے آغاز کے بارے میں بتانے لگا۔ وہ چپ چاپ سنتی رہی۔
اس کے خاموش ہونے پر اس نے جیسے سراہنے والے انداز میں کہا۔ بہت مشکل کام تھا۔
نہیں وہ لائف سٹائل بدلنا زیادہ مشکل تھا جو میرا تھا۔ وہ چند لمحے بول نہ سکی۔ اس کا اشارہ جس طرف تھا اسے یاد کرنا بہت تکلیف دہ تھا۔
ہر کوئی اس طرح کا کام نہیں کرسکتا۔ وہ مدھم آواز میں بولی۔
ھر کوئی کر سکتا ہے لیکن کرنا نہیں چاہتا۔ سروس آف ہیومینیٹی کسی کی چیک لسٹ پر نہیں ہوتی، میں خوش قسمت تھا کہ آگئی۔ وہ ہنسا۔۔۔۔۔
تم بہت بدل گئے ہو۔ امامہ نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ مسکرایا۔
زندگی بدل گئی تھی میں کیسے نہ بدلتا۔ نہ بدلتا تو سسرال سے آنے والے عید کے تحائف کے انتظار میں بیٹھا ہوتا۔ امامہ نے اس کے طنز کا برا نہیں مانا۔
میں مانتی ہوں کہ میں بہت ٹیپیکل ہوں۔ اس نے اعتراف کیا۔
ٹپیکل نہیں ہو، زندگی کو دیکھا نہیں ہے ابھی تم نے۔ وہ سنجیدہ ہوا۔
کم از کم یہ تو نہ کہو، مجھے زندگی نے بہت کچھ دکھایا اور سکھایا ہے۔ امامہ نے کچھ رنجیدگی سے اس کی بات کاٹی تھی۔
مثلاً کیا؟؟ سالار نے پوچھا۔
کیا نہیں سکھایا زندگی نے، گنوا نہیں سکتی میں۔ بہت سبق سکھائے ہیں زندگی نے مجھے۔
سبق سکھائے ہوں گے گُر نہیں۔
امامہ نے چونک کر اس کا چہرہ دیکھا۔ وہ عجیب سے انداز میں مسکرایا تھا۔ وہ سیدھی باتیں کبھی بھی نہیں کرتا تھا۔
اچھا لگ رہا ہوں کیا؟ سڑک پر نظریں جمائے ڈرائیو کرتے ہوئے وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
کیا؟ وہ اسے دیکھتے ہی بری طرح گڑبڑائی۔
تم مجھے دیکھ رہی ہو، اس لیے پوچھ رہا ہوں۔ امامہ نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا پھر بےاختیار ہنس پڑی۔ چند لمحوں کے لیے واقعی وہ اسے بے حد اچھا لگا تھا۔
-**********************
عید کے چاند کا اعلان عشاء سے کچھ پہلے ہوا تھا اور اس اعلان کے فوری بعد سکندر نے ان دونوں کو ایک گھنٹے کے اندر اندر اپنی شاپنگ مکمل کر کے واپس آنے کا کہا تھا۔
انہوں نے شاپنگ نہیں کی تھی بلکہ ایک ریسٹورنٹ سے ڈنر کیا۔ اس کے بعد مہندی لگوا کر اور چوڑیاں خرید کر واپس آگئی تھی۔ سالار کم از کم آج رات واقعی محتاط تھا۔ اور سکندر کی ہدایات کو نظرانداز نہیں کر رہا تھا۔ کیونکہ امامہ کے گھر میں مسلسل گاڑیوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا۔ اور وہ لوگ بھی انہی مارکیٹس میں جاتے تھے جہاں سالار کی فیملی جاتی تھی۔
ساڑھے دس بجے کے قریب وہ گھر پہ تھے۔ اور اس وقت گھر میں کوئی موجود نہ تھا۔
سالار پچھلے دو گھنٹوں سے مختلف لوگوں کی فون کالز سن رہا تھا۔ یہ سلسلہ گھر آنے تک جاری تھا۔ امامہ بیزار ہونے لگی تھی۔
چلو کافی بناتے ہیں اور پھر فلم دیکھتے ہیں۔ سالار نے بلآخر اس کی بیزاری کو محسوس کرلیا تھا۔
میں ہاتھ دھو لوں؟ امامہ نے ہاتھوں پر لگی مہندی کو دیکھ کر کہا۔
نہیں۔ میں بناؤں گا کافی، تم بس میرے ساتھ کچن میں آجاؤ۔
تم بنا لوگے؟ 
بہت اچھی۔۔۔۔۔ اس نے سیل آف کرتے ہوئے ٹیبل پر رکھا۔
مہندی لگے ہوئے دونوں ہاتھ کچن کی ٹیبل پر کہنیاں ٹکائے وہ اسے کافی بناتے ہوئے دیکھتی رہی۔ کچن میں رکھے بلیک کرنٹ اور چاکلیٹ فج کیک کے دو ٹکڑے لیکر وہ کافی ٹرے میں رکھنے لگا تو امامہ نے کہا، کچھ فائدہ ہوا میرے کچن میں آنے کا؟ 
ہاں تم نے مجھے کمپنی دی، اس نے ٹرے اٹھا کر کچن سے باہر نکلتے ہوئے کہا۔
تم اکیلے بھی بنا سکتے تھے خوامخوا مجھے اپنے ساتھ لائے۔
تمہیں دیکھتے ہوئے زیادہ اچھی بنی ہے۔ وہ اس کی بات پر ہنسی۔
یہ بڑی چیپ بات ہے۔
اوہ ریئلی۔۔۔۔ وہ تمہارے رومینٹک ناولز میں بھی تو ہیرو ایسی ہی باتیں کرتا ہے۔
تم میری بکس کی بات کیوں کرتے ہو۔ وہ ایک دم بگڑی۔
اوکے۔۔۔۔ اوکے سوری۔ سالار نے ساتھ چلتے ہوئے ٹرے سے ایک ہاتھ ہٹا کر اس کے گرد ایک لمحے کے لیے حمائل کردیا۔
کونسی موویز لی تھی تم نے؟ بیڈروم میں آکر صوفے پر بیٹھتے ہوئے امامہ نے پوچھا۔
سالار نے مارکیٹ سے آتے ہوئے ایک مووی شاپ سے کچھ سی ڈیز لی تھی۔ سی ڈی پلیئر پر مووی لگاتے ہوئے سالار نے ان موویز کے نام دہرائے۔
ریموٹ پکڑے وہ کمبل اٹھا کر خود بھی صوفے پر آگیا اس کی اور اپنی ٹانگوں پر کمبل پھیلا کر اس نے کارنر ٹیبل پہ پڑا کافی کا مگ اٹھا کر امامہ کی طرف بڑھایا۔
تم پیو۔ پکڑنے کی ضرورت نہیں۔ اس نے امامہ کو مہندی والے ہاتھوں سے مگ پکڑنے سے روکا۔
سکرین پر فلم کے کریڈٹس چل رہے تھے۔ امامہ نے کافی کا گھونٹ لیا۔
کافی اچھی ہے۔ اس نے ستائشی انداز میں مسکرا کے سر ہلایا۔
تھینک یو۔ سالار نے دوسرے ہاتھ سے اپنا مگ اٹھایا۔
وہ اب سکرین کی طرف متوجہ تھا جہاں چارلی تھیرن نظر آرہی تھی۔ امامہ نے اس کا انہماک محسوس کیا تھا۔ وہ کچھ بے چین ہوئی۔ وہ اس ایکٹریس سے ناواقف تھی۔
یہ کون ہے؟ امامہ نے اپنا لہجہ حتی المقدور نارمل رکھتے ہوئے کہا۔
تم نہیں جانتی؟ سالار اب کانٹے کے ساتھ کیک کا پیس اس کے منہ میں ڈال رہا تھا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔
چارلیز تھیرن ہے۔ میرے نزدیک دنیا کی سب سے خوبصورت عورت ہے۔ کیک امامہ کو کڑوا لگا تھا۔ وہ پورا سکرین کی طرف متوجہ تھا۔
خوبصورت ہے نا؟ کیک کھاتے ہوئے اس نے سکرین سے نظریں ہٹا کر امامہ کو دیکھا۔
ٹھیک ہے بس۔ اس نے سرد مہری سے کہا۔
مجھے تو خوبصورت لگتی ہے۔ سکرین پہ نظریں جمائے وہ بڑبڑایا۔
امامہ کی دلچسپی اب فلم سے ختم ہوگئی تھی۔
خوبصورت ہے لیکن بری ایکٹریس ہے۔ چند سین گزرنے کے بعد اس نے کہا۔
آسکر جیت چکی ہے۔ ابھی تک اس کی نظریں سکرین پر تھی۔ امامہ کو چارلیز اور بری لگی۔
مجھے اس کی ناک اچھی نہیں لگ رہی۔ چند لمحے مزید گزرنے پر امامہ نے کہا۔
ناک کون دیکھتا ہے۔ وہ اسی انداز میں بڑبڑایا۔ امامہ نے چونک کر اسے دیکھا۔ سالار سنجیدہ تھا۔
پھر؟؟ 
مجھے بال پسند ہیں اس کے۔ امامہ دوبارہ سکرین دیکھنے لگی۔
سالار کو بے اختیار ہنسی آئی۔ اس نے ہنستے ہوئے امامہ کو ساتھ لگایا۔
تم ذرا بھی ذہین نہیں ہو۔
کیا ہوا؟ امامہ کو اس کے ہنسنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔
کچھ نہیں ہوا۔ مووی دیکھو۔ امامہ نے ریموٹ اٹھا کر سی ڈی پلیئر بند کردیا۔
کیا ہوا؟؟ وہ چونکا
فضول مووی ہے۔ بس تم مجھ سے باتیں کرو۔ امامہ نے جیسے اعلان کردیا۔
باتیں ہی تو کر رہا ہوں۔ مہندی خراب ہوئی ہو گی۔سالار نے اس کا ہاتھ دیکھتے ہوئے کہا۔
نہیں سوکھ گئی ہے۔ میں ہاتھ دھو کر آتی ہوں۔ وہ ریموٹ رکھ کر چلی گئی۔
چند منٹوں کے بعد جب وہ واپس آئی تو مووی دوبارہ آن تھی۔ امامہ کو آتے دیکھ کر اس نے مووی آف کردی۔ وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ کافی پیتے ہوئے سالار نے اس کے مہندی والے ہاتھ باری باری پکڑ کر دیکھے۔
تمہارے ہاتھوں پر مہندی بہت اچھی لگتی ہے۔اس کی ہتھیلی اور کلائی کے نقش و نگار پر انگلی پھیرتے ہوئے اس نے کہا۔ وہ بلاوجہ مسکرا دی۔
چوڑیاں کہاں ہیں۔ سالار کو یاد آیا۔
پہنوں؟ وہ پرجوش ہوئی۔
ہاں۔۔۔۔
وہ چوڑیاں پہن کر دوبارہ اس کے پاس آگئی۔ اس کی کلائی ایکدم سرخ چوڑیوں سے سج گئی۔ اپنی کلائیاں سالار کے سامنے کر کے اس نے اسے چوڑیاں دکھائی۔
پرفیکٹ۔ وہ نرمی سے مسکرایا۔ وہ اب اس کی چوڑیوں پر انگلی پھیر رہا تھا۔ معجزہ لگتا ہے یہ۔ چند لنحوں بعد گہری سانس لی کر کہا اس نے۔
اپنے بازو اس کے گرد حمائل کر کے اس نے امامہ کو خود سے قریب کیا۔ امامہ نے اس کے سینے پہ سر رکھ دیا۔ وہ اس شخص سے محبت نہیں کرتی تھی لیکن بار بار اس کی قربت میں ایسے ہی سکون اور تحفظ کا احساس ہوتا۔ وجہ وہ رشتہ تھا جو ان کے درمیان تھا یا کچھ اور۔ 
ایک بات مانو گی؟ سالار نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے ملائمت سے کہا۔ 
کیا؟ اس کے سینے پہ سر رکھے امامہ نے سر اونچا کر کے اسے دیکھا۔
وعدہ کرو پہلے۔ 
اوکے۔ امامہ نے بے اختیار وعدہ کرلیا۔
فلم دیکھنے دو مجھے۔ وہ بے حد خف ہوکر الگ ہوئی اس سے۔
میں دیکھنے کے لیے لیکر آیا ہوں امامہ۔
تم دوسری موویز بھی لیکر آئے ہو ان میں سے کوئی دیکھ لو۔
اوکے ٹھیک ہے۔ امامہ حیران ہوئی کہ وہ اتنی جلدی کیسے مان گیا۔ سی ڈی پلیئر میں مووی تبدیل کر کے وہ دوبارہ صوفے پر بیٹھ گیا۔
اب خوش؟ اس نے امامہ سے پوچھا۔
وہ مطمئن انداز میں مسکا کر دوبارہ اس کے قریب ہو گئی۔ اس کے سینے پہ سر ٹکائے اس نے فلم کے کریڈٹس دیکھے۔ وہ اسے بہت آہستہ آہستہ تھپک رہا تھا۔ امامہ کو نیند آگئی۔ اس کی آنکھ لگ جاتی اگر تیسرے سین میں اسے چارلیز تھیرن نظر نہ آتی۔
کچھ کہے بغیر اس نے سر اٹھا کر سالار کو دیکھا۔
آٰئی ایم سوری تینوں موویز اسی کی ہیں۔ اس نے ایک شرمندہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
دیکھنے دو یار۔ اس نے جیسے التجا کی تھی۔
امامہ نے چند لمحے سکرین کو دیکھنے کے بعد کہا۔
تعریف نہیں کروگے تم اس کی۔
آئی پرامس۔ سالار نے بے ساختہ کہا۔ 
وہ خوبصورت نہیں ہے۔ امامہ نے جیسے اسے یاد دلایا۔
بالکل بھی نہیں۔ سالار نے تائید کی۔ 
اور بری ایکٹریس ہے۔
بے حد۔ امامہ کو تسلی ہوئی۔
اور تم اسے اس طرح اب کبھی نہیں دیکھو گے جیسے پہلے دیکھ رہے تھے۔ اس بار سالار ہنس پڑا۔
کس طرح دیکھتا ہوں میں؟ 
تم دیکھتے نہیں گھورتے ہو اسے۔
کون ایسا نہیں کرے گا وہ اتنی۔ سالار روانی میں کہتے کہتے رک گیا۔
کہہ دو نا کہ خوبصورت ہے۔ امامہ نے اس کی بات مکمل کرلی۔
میں تمہارے لیے اس کو بہن نہیں بنا سکتا۔
تو صرف ایکٹریس سمجھو اسے۔
ایکٹریس ہی تو سمجھ ریا ہوں یار۔۔۔۔۔۔چھوڑو۔۔۔۔۔۔میں نہیں دیکھتا۔۔۔۔۔۔۔۔ آدھی مووی تو ویسے ہی گزر گئی ہے۔۔۔سالار نے اس بار کچھ خفا ہوکر ریموٹ سے مووی آف کردی۔
امامہ بے حد مطمئن انداز میں صوفے سے اٹھ کر کھڑی ہوئی وہ اب صوفے سے چیزیں سمیٹ رہا تھا۔
کمبل لے آؤ گے نا تم؟ واش روم کی طرف جاتے ہوئے امامہ نے پوچھا۔
جی لے آؤں گا کوئی اور حکم ہو تو وہ بھی دیں۔
وہ کمبل اٹھاتے ہوئے خفگی سے بڑبڑایا۔
سکندر نے عید کے تحفے کے طور پہ ایک بریسلیٹ دیا تھا اسے اور سوائے سالار کے سب نے ہی اسے کچھ نہ کچھ دیا تھا۔ امامہ کا خیال تھا، وہ اس بار ضرور اسے زیور میں کوئی چیز تحفے میں دے گا۔ اسے لاشعوری طور پہ جیسے انتظار تھا کہ وہ اسے کچھ دے۔ اس نے اس بار بھی اسے کچھ رقم دی تھی۔ وہ کچھ مایوس ہوئی لیکن اس نے سالار سے کوئی شکایت نہیں کی۔
عید کی رات شہر کے نواح میں واقع سکندر عثمان کے فارم ہاؤس میں ایک بڑا فیملی ڈنر تھا۔ وہاں سالار کی بیوی کی حیثیت سے پہلی بار وہ متعارف ہوئی تھی۔اور طیبہ کے تیار کیے گئے سرخ لباس میں وہ بالکل نئی نویلی دلہن لگ رہی تھی۔ امامہ کو اب احساس ہوا تھا کہ سالار کا اسے اسلام آباد لانے اور اپنی شناخت نہ چھپانے کا فیصلہ ٹھیک تھا۔ اسے اس عزت و احترام کی اشد ضرورت تھی جو اسے وہاں ملی تھی۔
اوپن ایر میں باربی کیو کے دوران اپنی پلیٹ لیکر وہ کچھ دیر کے لیے فارم ہاؤس کے برآمدے میں لکڑیوں کی سیڑھیوں پہ بیٹھ گئی۔ باقی افراد ٹولیوں کی شکل میں سامنے کھلے سبزے میں ڈنر کرتے ہوئے مختلف سرگرمیوں میں مصروف تھے۔
تم یہاں کیوں آکر بیٹھ گئی؟ امامہ کے قریب آتے ہوئے اس نے دور سے کہا۔
ایسے ہی۔ شال لینے آئی تھی۔ پھر یہیں بیٹھ گئی۔ وہ مسکرائی۔ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے سالار نے سوفٹ ڈرنک کا گلاس اپنی ٹانگوں کے درمیان نچلی سیڑھی پہ رکھا۔
امامہ لکڑی کے ستون سے ٹیک لگائے ایک گھٹنے پر کھانے کی پلیٹ ٹکائے کھانا کھاتے ہوئے دور لان میں سٹیج پر بیٹھے گکوکار کو دیکھ رہی تھی۔
سالار نے اس کا کانٹا اٹھا کر اس کی پلیٹ سے کباب کا ایک ٹکڑا اپنے منہ میں ڈالا۔ وہ اب گلوکار کی طرف متوجہ تھا جو اپنی غزل شروع کرچکا تھا۔
انجوائے کر رہی ہو؟ سالار نے اس سے پوچھا۔
ہاں۔ اس نے مسکرا کر کہا۔ وہ اب غزل سن رہی تھی۔ 
کسی کی آنکھ پرنم ہے محبت ہوگئی ہوگی۔
زباں پر قصہ غم ہے محبت ہوگئی ہوگی۔
وہ بھی سوفٹ ڈرنک پیتے ہوئے غزل سننے لگا۔
کبھی ہنسنا کبھی رونا کبھی ہنس ہنس کے رو دینا، 
عجب دل کا یہ عالم ہے محبت ہوگئی ہوگی۔
اچھا گا رہا ہے۔۔امامہ نے ستائشی انداز میں کہا۔۔
سالار نے کچھ کہنے کی بجائے سر ہلا دیا۔
خوشی کا حد سے بڑھ جانا بھی اب اک بیقراری ہے
نہ غم ہونا بھی اک غم ہے محبت ہوگئی ہوگی۔۔۔
سالار سوفٹ ڈرنک پیتے ہوئے ہنس پڑا۔ امامہ نے اس کا چہرہ دیکھا۔ وہ شاید کہیں اور پہنچا ہوا تھا۔
تمہیں کچھ دینا چاہ رہا تھا میں نے۔
وہ جیکٹ کی جیب سے کچھ نکالنے کی کوشش کر رہا تھا۔
بہت دنوں سے دینا چاہتا تھا لیکن۔۔۔۔۔۔۔ وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔ 
اس کے ہاتھ میں اک ڈبیا تھی۔ امامہ کے چہرے پہ بے اختیار مسکراہٹ آئی۔ تو بلآخر اسے اس کا خیال آ ہی گیا۔ اس نے ڈبیا لیتے ہوئے سوچا اور اسے کھولا۔ وہ ساکت رہ گئی۔ اندر ایر رنگز تھے۔ ان ایر رنگز سے تقریباً ملتے جلتے جو وہ اکثر پہنا کرتی تھی۔ اس نے نظریں اٹھا کر سالار کو دیکھا۔
میں جانتا ہوں یہ اتنے ویلیوایبل تو نہیں ہوں گے جتنے تمہارے فادر کے ہیں لیکن مجھے اچھا لگے گا اگر تم کبھی کبھار اسے بھی پہنو۔
ان ایر رنگز کو دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
تم نہیں پہننا چاہیتی تو بھی ٹھیک ہے۔ میں ریپلیس کرنے نہیں دے رہا۔ سالار نے اس کی آنکھوں میں نمودار ہوتی نمی کو دیکھ کر بے ساختہ کہا۔
کچھ کہنے کی بجائے امامہ نے اپنے دائیں کان میں لٹکتا جھمکا اتارا۔
میں پہنا سکتا ہوں؟ 
سالار نے ایک ایر رنگ نکالتے ہوئے کہا۔ امامہ نے سر ہلادیا۔ سالار نے باری باری اس کے کانوں میں ایر رنگز پہنا دیئے۔ وہ نم آنکھوں کے ساتھ مسکرا دی۔ وہ دیر تک مبہوت سا اسے دیکھتا رہا۔
اچھی لگ رہی ہو۔ مجھ سے زیادہ کوئی تم سے محبت نہیں کرسکتا، کوئی مجھ سے زیادہ تمہاری پرواہ نہیں کرسکتا۔ مجھ سے زیادہ خیال نہیں رکھ سکتا تمہارا۔ میرے پاس تمہارے علاوہ کوئی قیمتی چیز نہیں۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ اسے کہہ رہا تھا۔ مجھے نوازا گیا ہے۔ سیدھا ہوتے ہوئے اس نے امامہ سے کہا۔
رومانس ہو رہا ہے؟ اپنے عقب میں آنے والی کامران کی آواز پہ وہ ٹھٹکے۔
کوشش کر رہے ہیں۔ سالار نے پلٹے بغیر کہا۔۔ 
گڈ لک۔۔۔۔۔۔ وہ کہتا ہوا اس کے پاس سے سیڑھیوں سے اترتے ہوئے انہیں دیکھے بغیر چلاگیا۔
امامہ کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔ وہ جھینپ گئی تھی۔ سالار اور اس کی فیملی کم از کم ان معاملات میں آزاد خیال تھے۔ 
لکڑی کی ان سیڑھیوں پر ایک دوسرے کے پاس بیٹھے وہ گلوکار کی سریلی آواز کو سن رہے تھے
زندگی کے وہ لمحے یاد بن رہے تھے۔
*********---*-*****----*-*
لاہور واپسی پر عید ڈنر کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ وہ امامہ کو اپنے سوشل اور بزنس سرکل میں متعارف کروا رہا تھا۔
عید کے چوتھے دن وہ اسے پہلی بار اپنے ہی بنک کی طرف سے دیے گئے عید کے ڈنر میں لیکر گیا تھا اور ایک بڑے ہوٹل میں ہونے والے اس ڈنر میں جاتے ہی امامہ کو پسینہ آنے لگا۔ گیدرنگ کا ایک بڑا حصہ غیر ملکی مردوں اور عورتوں پر مشتمل تھا۔ وہ فیملی ڈنر تھا۔کم از کم سالار اسے یہ ہی بتا کر اسے وہاں لایا تھا۔ لیکن وہاں آنے والی فیملیز کون تھی یہ اس نے نہیں بتایا تھا۔ چند لمحوں کے لیے اسے لگا جیسے وہ مس ورلڈ کے مقابلہ حسن میں آگئی ہو۔ وہاں موجود عورتیں بیس سے ساٹھ سال کی عمر تک کے درمیان تھی لیکن یہ طے کرنا زیادہ مشکل تھا کہ ان میں سے کون عمر کی کس سیڑھی پر ہے۔ سگریٹ پیتے ہوئے ہاتھ میں ڈرنکس لیے وہ گرمجوشی اور بے تکلفی کے ساتھ مختلف مردوں سے گلے ملتے ہوئے گفتگو میں مصروف تھیں۔ شیفون کے لباس پر دوپٹہ اوڑھے امامہ کو اپنا آپ الو باٹا لگا۔
وہاں کھڑے جیسے اس نے خود کو جانچنا شروع کیا تھا۔ اس نے پہلی بار سالار اور اپنے حلییے کا فرق بھی نوٹس کیا۔ ایک برانڈڈ سیاہ ڈنر سوٹ میں سرخ دھاری دھار ٹائی کے ساتھ وہ بالکل اس ماحول کا حصہ لگ رہا تھا۔ وہاں کھڑے اس پر یہ ہولناک انکشاف بھی ہوا کہ اس کا حلیہ سالار کی اس لک کے ساتھ بالکل میچ نہیں کر رہا۔ وہ اوڈ کپل تھے۔ اسے احساس کمتری کا دوسرا بڑا دورہ بڑے غلط وقت اور غلط جگہ پر پڑا تھا۔ وہ اس کا تعارف باری باری مختلف لوگوں سے کروا رہا تھا۔ اور امامہ اس پذیرائی اور گرمجوشی پر حیران تھی۔ جو اسے مل رہی تھی۔ پھر اسے ایکدم احساس ہوا اس کی وجہ بھی سالار تھا۔ یہ پروٹوکول مسز سالار سکندر کے لیے تھا۔ امامہ ہاشم کے لیے نہیں۔ یہ ٹیگ جس کے گلے میں لٹکا ہوتا، اسے یہ ہی پروٹوکول ملتا۔ چاہے اس کا حلیہ اس سے بھی بدتر ہوتا۔ اس کا احساس کمتری کا پارہ اوپر جا رہا تھا۔ سالار کے ساتھ کھڑےاسے اپنے ہی حلییے کی چند اور خواتین بھی بلآخر اس مجمع میں نظر آ ہی گئی۔ اور اسے کچھ حوصلہ ملا۔
ڈرنک پلیز! مشروبات کی ٹرے پکڑے ویٹر نے بالکل اس کے پاس آ کر کہا۔ وہ چونکی اور اس نے ٹرے پر نظر دوڑائی۔ وائن گلاس میں ایپل جوس تھا۔ اس نے ایک گلاس اٹھا لیا۔ اپنے سامنے کھڑے ایک غیر ملکی جوڑے سے باتیں کرتے ہوئے سالار نے بے حد غیر محسوس انداز میں امامہ کو دیکھے بنا اس کے ہاتھ سے گلاس لے لیا ۔وہ چونک اٹھی۔ ایک لمحے کے لیے اسے خیال آیا جیسے وہ خود پینا چاہتا ہو لیکن اس کا گلاس ہاتھ میں لیے اسی طرح وہ اس جوڑے سے باتیں کرتا رہا۔ ویٹر دائرے میں کھڑے تمام افراد کو سرو کرتا ہوا واپس سالار کے پاس آیا۔ سالار نے امامہ کا گلاس بے حد غیر محسوس انداز سے ٹرے میں واپس رکھتے ہوئے ویٹر سے کہا۔
سوفٹ ڈرنک پلیز۔
امامہ کچھ سمجھ نہیں پائی تھی۔ ٹرے میں رکھا اپنا گلاس اس نے دور جاتے دیکھا۔ پھر اس نے سالار کو دیکھا وہ اب بھی وہاں مصروف تھا۔ ویٹر چند لمحوں بعد ایک دوسری ٹرے لیے موجود تھا۔ اس بار اس کے گلاس اٹھانے سے پہلے ہی سالار نے ایک گلاس اٹھا کر اسے دیا اور دوسرا خود پکڑ لیا۔
اوہ ہیلو۔۔۔۔سالار۔۔۔۔۔۔۔ وہ چالیس پینتالیس سال کی ایک عورت تھی جس نے سالار کے قریب آتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا۔ اور پھر بے حد دوستانہ انداز میں بے تکلفی کے ساتھ اس کے بازو پہ ہاتھ رکھ لیا۔ وہ وہاں موجود دوسرے مردوں کی طرح عورتوں سے گلے نہیں مل ریا تھا۔ لیکن ان میں سے کچھ عورتوں سے ہاتھ ملا رہا تھا۔ امامہ کے لیے یہ ہضم کرنا بالکل مشکل ہو رہا تھا۔
مجھے کسی نے تمہاری بیوی کے بارے میں بتایا۔ یہ میرے لیے ایک بڑی خبر ہے۔ کب شادی کی تم نے؟ وہ عورت اب کہہ رہی تھی اس سے۔ سالار نے شائستگی سے امامہ کا تعارف کرایا۔
مسز لئیق نے اس سے ملتے ہوئے اسے ڈنر پر مدعو کیا۔ سالار نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کوئی دن طے کیے بغیر دعوت قبول کرلی۔ امامہ نے اپنے عقب میں کسی کو دیکھ کر سالار کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔
ہائے رمشا۔۔۔۔
امامہ نے بےاختیار پلٹ کر دیکھا۔ 
اوہ ہائے۔۔۔۔ رمشا بھی مسکراتی ہوئی اس کے پاس آئی۔ سالار نے دونوں کا ایک دوسرے سے تعارف کرایا۔رمشا بڑی خوشدلی سے اس سے ملی۔ 
بڑی لکی ہیں آپ۔ اگر آپ اسے نہ ملتی تو اس بندے سے میں نے شادی کرلینی تھی۔ رمشا نے بڑی بے تکلفی سے امامہ سے کہا۔ بسکچھ دیر ہوگئی مجھے سالار سے ملنے میں۔ وہ بھی جواباً خوشدلی سے ہنسا تھا۔
ولیمہ کب ہے؟ وہ پوچھ رہی تھی۔
بیس تاریخ کو اسلام آباد میں۔ وہ سالار سے کہہ رہی تھی۔ امامہ نے اس بار سالار کو اسے ٹالتے نہیں دیکھا۔وہ اس کے ساتھ ملاقات طے کر رہا تھا۔ اس کے پاس آنے والی وہ پہلی لڑکی تھی جس کے ساتھ سالار کا رویہ کچھ زیادہ ہی بے تکلفی لیے ہوئے تھا۔ امامہ اس پر سے نظریں نہ ہٹا سکی۔
************************
کوئی بات کرو۔ واپسی پر سالار نے اس کی خاموشی محسوس کر کے کہا۔
کیا بات کروں۔؟
کوئی بھی۔ وہ پھر خاموش ہوگئی۔
عجیب لوگ تھے سارے۔ کچھ دیر بعد سالار نے اسے بڑبڑاتے ہوئے سنا۔ وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
عجیب کیوں؟
تمہیں عورتیں اس طرح کی لباس میں یہ سب کرتی اچھی لگتی ہے؟ اس نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اس سے پوچھا۔ 
تم نے وہ پہنا جو تمہیں اچھا لگا۔ انہوں نے بھی وہ پہنا جو ان کو اچھا لگا۔ اس نے بے یقینی سے سالار کو دیکھا۔ کم از کم وہ اس سے ایسے جواب کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ 
تمہیں کچھ برا نہیں لگا؟ 
میرے لیے وہ سب ریسپیکٹ ایبل لوگ تھے۔ کچھ میرے کلائنٹس تھے اور کچھ کو میں ویسے ہی جانتا ہوں۔
تمہیں برا کیوں لگے گا سالار تم مرد ہو۔ تمہیں تو بہت اچھا لگے گا اگر تمہیں عورتیں اس طرح کے کپڑوں میں نظر آئیں گی۔ بات کرتے ہوئے اسے اندازہ نہیں ہوا کہ اس کا لہجہ کتنا سخت تھا۔ سالار کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
میں ایسی گیدرنگز میں مرد بن کر نہیں جاتا مہمان بن کر جاتا ہوں۔ مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ کس نے کیا پہنا ہے۔ میرے لیے ہر عورت بغیر اپنے پہناوے کے قابل احترام ہے۔ میں لباس کی بنا پر کسی کا کردار نہیں جانتا۔ اگر تمہارا خیال ہے کہ تم نے دوپٹا لیا ہوا ہے تو تم قابل عزت ہو۔ اور وہ عورت جو ایک قابل اعتراض لباس پہنے ہوئے ہے وہ عزت کے قابل نہیں۔ تو تم بالکل غلط ہو۔ وہ بول نہ سکی۔ سالار کے لہجے میں پہلی بار اس نے ترشی محسوس کی۔
تمہیں کیسا لگے گا اگر کوئی تمہارے پردے کی وجہ سے تمہارے بارے میں یہ ہی بات کہے۔ جیسی تم ان کے بارے میں کہہ رہی ہو۔
تم ان کی حمایت کیوں کر رہے ہو۔ وہ جھنجھلائی۔
میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ دوسرے لوگ کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں یہ سب پسند ہے؟ وہ اس کے سوال پر ہنسا تھا۔
یہ ایشو نہیں ہے مجھے یہ سب اپنی زندگی کے لیے پسند نہیں ہے لیکن مجھے ایسے ڈنر میں اس لیے جانا پڑتا ہے کیونکہ مجھے اپنی جاب کی وجہ سے کسی حد تک سوشل رہنا ہے۔
ایک بات پوچھوں؟ سالار نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔ لیکن کچھ کہا نہیں۔
اگر میں تمہاری زندگی میں نہیں آتی تو تم اس طرح کی لڑکیوں سے شادی کرلیتے جو آج وہاں تھی؟ 
وہ رمشا کا نام لینا چاہتی تھی لیکن اس نے نہیں لیا۔
تمہارا مطلب ہے کہ میں پردہ کرنے والی اور پردہ نہ کرنے والی میں سے کس سے شادی کرتا؟ سالار نے براہ راست سوال کر دیا۔
وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی وہ واقعی یہ ہی پوچھنا چاہتی تھی۔
آنیسٹلی میں تمہیں ایک بات بتاؤں۔ میں کسی عورت کا صرف پردہ دیکھ کر اس سے شادی نہ کرتا۔ کسی عورت کا پردہ کرنا نہ کرنا میرے لیے اتنا اہم نہیں جتنا اس میں کچھ دوسری خوبیوں کا ہونا۔ اسے آج شاک پہ شاک لگ رہے تھے۔ اگر ایک عورت اللہ کے احکامات پہ عمل کرتی ہیں سر اور جسم چھپاتی ہے۔
لیکن میں اس ایک چیز کے علاوہ بھی اس عورت میں کچھ اور خوبیاں چاہتا جس سے میں نے شادی کرنی ہوتی۔
کیسی خوبیاں؟ اسے تجسس ہوا۔
صبر و برداشت اور اطاعت۔ وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔
یہ دونوں نادر کوالٹیز ہیں۔ باقی سب کچھ ہوتا ہے لڑکیوں میں۔ ڈگریز، اوور لک اور مینرزم اور پردہ بھی۔ لیکن یہ دو کوالٹیز ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ اگر اسے کوئی زعم تھا تو ختم ہوگیا تھا۔
میں کیوں اچھی لگی تمہیں؟ اس نے بلآخر سالار سے پوچھ ہی لیا۔ خالی پردہ تمہیں امپریس نہیں کرتا۔تحمل اور اطاعت تو کبھی دکھائی نہیں میں نے۔ پھر؟
پتہ نہیں۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب مجھے کبھی نہیں ملا۔ تمہیں ناپسند کرنے کے کئی جواز بتا سکتا ہوں۔ لیکن پسند کرنے کے لیے میرے پاس کوئی جواز نہیں۔ وہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
پہلے تم مجھے intrigue کرتی تھی۔ پھر تم مجھے ایریٹیٹ کرنے لگی اس کے بعد تم مجھے haunt کرنے لگی۔ پھر میں تم سے جیلس ہونے لگا۔ پھر حسد کرنے لگا اور پھر محبت۔ وہ قدرے بے بسی سے ہنسا۔ 
ان ساری سٹیجز میں صرف ایک چیز کامن تھی۔ میں تمہیں کبھی بھی اپنے ذہن سے نہیں نکال سکا۔ مجھے تمہارا خیال آتا تھا اور آتا ہے۔ اور بس میرا دل تمہاری طرف کھنچتا تھا۔ خوار جو کرنا تھا اللہ نے مجھے میری اوقات بتا کر۔ بس اور کوئی بات نہیں تھی۔ اس لیے یہ تو کبھی پوچھو ہی مت کہ کیوں اچھی لگی تم مجھے۔ وہ محبت سے زیادہ بے بسی کا اظہار تھا۔
اور اگر یہ سب نہ ہوا ہوتا تو پھر تم میرے بجائے کسی اور لڑکی سے شادی کر لیتے۔ مثلاً رمشا سے۔۔۔
سالار نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر ہنس دیا۔۔۔
تو یہ سوال رمشا کی وجہ سے ہو رہے تھے۔ یو آر سلی۔
تمہیں پسند ہے نا وہ؟ وہ اس کی ہنسی کو نظرانداز کر کہ سنجیدہ ہی رہی۔
ایک دوست اور کولیگ کے طور پر۔ سالار نے کہا۔
امامہ نے کچھ نہیں کہا۔ سالار کو لگا جیسے وہ گہری سوچ میں ہے۔
کیا ہوا؟ سالار نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
کچھ نہیں۔ تمہارے ساتھ کھڑی اچھی لگی تھی وہ مجھے اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔،،،
بعض دفعہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے بہت سے لوگ اچھے لگتے ہیں حتی کہ دو دشمن بھی ساتھ ساتھ کھڑے اچھے لگتے ہیں۔ اس سے کیا ہوتا ہے۔ سالار نے اس کی بات کاٹی۔
کچھ نہیں، ایسے ہی خیال آیا تھا۔
میں تمہارے ساتھ بہت خوش ہوں امامہ! یہ میری زندگی کا سب سے اچھا وقت ہے۔ فی الحال دنیا میں ایسی کوئی شے نہیں جس کی مجھے کمی محسوس ہو رہی ہو۔ اس لیے تم اپنے اندازوں اور خیالوں سے باہر آؤ۔ ڈنر میں جاؤ، کھانا کھاؤ، لوگوں سے گپ شپ کرو اینڈ دیٹس اٹ۔۔۔ اس دنیا کو اپنے ساتھ گھر لیکر مت آؤ۔
اس رات ناول پڑھتے ہوئے وہ سالار کیساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ وہ اپنے لیپ ٹاپ پر کچھ کام کر رہا تھا۔ ناول سے نظریں ہٹا کر وہ سالار کو دیکھنے لگی۔ وہ اپنے کام میں منہمک تھا۔
سالار ۔ اس نے کچھ دیر بعد اسے مخاطب کیا۔
ہاں! اسی طرح کام کرتے ہوئے اس نے کہا۔
تم اچھے انسان ہو ویسے۔ اس کی تعریف کرتے ہوئے وہ عجیب سی شرمندگی محسوس کر رہی تھی۔
اچھا۔۔۔ وہ اسی طرح مصروف تھا۔ امامہ کو لگا اس نے اس کی بات غور سے نہیں سنی۔ میں نے تمہاری تعریف کی ہے۔ اس نے دہرایا۔
بہت شکریہ۔ اس کا لہجہ اب بھی اتنا ہی سرسری تھا۔
تمہیں خوشی نہیں ہوئی؟ اس کا اتنا نارمل رہنا ہی۔امامہ کو ہضم نہیں ہوا تھا۔
کس چیز سے؟ وہ چونکا۔
میں نے تمہاری تعریف کی۔
اور میں نے تمہارا شکریہ ادا کردیا۔
لیکن تمہیں اچھا نہیں لگا؟ وہ کچھ متجسس تھی۔
کیا اچھا لگتا مجھے؟ میری باتیں سن کر مجھے اچھا آدمی کہہ رہی ہو۔ عمل دیکھ کر کہتی، تب خوشی ہوتی مجھے۔ اور فی الحال میں ایسا کوئی عمل تمہیں پیش نہیں کرسکتا۔ امامہ بول نہ سکی۔ وہ پھر اپنے لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ تھا۔ وہ کچھ دیر چپ چاپ اس کا چہرہ دیکھتی رہی اور پھر کہا۔ 
تم نے میرے ہاتھ سے وہ ڈرنک کیوں لی تھی؟ اسے اچانک یاد آیا تھا۔
کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ تم مجھے شوٹ کر دو۔وہ اس کے بے تکے جواب پر حیران ہوئی۔
یہ کیا بات ہوئی؟
شراب تھی وہ۔ وہ ہل نہ سکی۔
سوری! سالار نے اسکرین سے نظریں ہٹاتے ہوئے اس سے معذرت کی۔ امامہ کا رنگ اڑ گیا تھا۔ 
ان پارٹیز میں ہارڈ ڈرنک بھی ہوتی ہے۔ سوشل ڈرنک سمجھی جاتی ہے وہاں۔ وہ سنجیدگی سے اسے بتاتے ہوئے دوبارہ اسکرین کی طرف متوجہ ہوا۔ 
امامہ کا دل یکدم جیسے ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا تھا۔اس نے زندگی میں پہلی بار شراب دیکھی تھی اور شراب ہاتھ میں لی تھی۔ اگر وہ سالار کے ساتھ کھڑی نہ ہوتی تو شاید پی بھی لیتی۔ اس کا شوہر ان پارٹیز میں جانے کا عادی تھا۔ا ور وہ وہاں کس حد تک اجتناب کر پاتا تھا۔ کرتا بھی تھا یا نہیں۔۔۔ اس کا اعتماد پھر تڑخنے لگا۔
وہ چند ہفتوں میں کسی کا کردار نہیں جانچ سکتی تھی۔ وہ بھی تب جب وہ اسے شادی کے اس پہلے مہینے میں مکمل طور پر متاثر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
چند لمحے پہلے دل میں سالار کے لیے نمودار ہونے والا احترام سیکنڈز میں غائب ہوا تھا۔
وہ جس شیشے سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ پھر دھندلا گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ سالار سے اگلا جملہ کیا کہے وہ اپنی ای میلز کی طرف متوجہ ہوچکا تھا۔ وہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل آٰئی۔دوسرے بیڈروم کے واش روم میں آکر وہ بے مقصد اپنا دایاں ہاتھ رگڑ رگڑ کر دھوتی رہی۔ وہ احمقانہ حرکت تھی لیکن اس وقت وہ اپنی ڈپریشن ختم کرنے لے لیے اور کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ وہ بے مقصد گھر کے ہر کمرے میں پھرتی رہی نیند اس کی آنکھوں سے مکمل غائب ہوچکی تھی۔
اللہ سکون کے آسمان کو اندیشوں کی زمین کے بغیر کیوں نہیں کھڑا کرتا۔ اس نے سوچا۔ وہ تاریکی اور سردی میں کتنی ہی دیر ٹیرس کی ریلنگ کے پاس کھڑی رہی وقت کا احساس ہی نہیں ہوا۔
تم کیا کر رہی ہو یہاں؟ اپنے عقب میں سالار کی آواز نے اس کی سوچوں کے تسلسل کو توڑا۔ وہ کمرے سے اس کی طویل عدم موجودگی کی بنا پر اسے ڈھونڈتا ہوا یہاں آگیا تھا۔
میں۔۔۔۔ امامہ نے چونک کر پلٹ کر اسے دیکھا۔ میں نیچے دیکھ رہی تھی۔
نیچے کیا ہے؟ سالار نے اس کے قریب آکر نیچے جھانکا۔
نیچھے؟ امامہ کو خود پتہ نہیں تھا۔ نیچے۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔ سالار نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے کی کوشش کی۔ وہ اسے غائب دماغ لگی تھی۔یا پریشان۔۔۔
اندر چلیں؟ وہ کچھ کہنے کی بجائے شال ٹھیک کرتے ہوئے اس کے ساتھ اندر آگئی۔
تم سو جاؤ میں تھوڑی دیر بعد آؤں گی۔ اس نے اندر آتے ہوئے سالار سے کہا۔
میں کچھ دیر ٹی وی دیکھوں گی۔ سالار ٹھٹک گیا۔
امامہ ریموٹ ہاتھ میں لیکر اب ٹی وی آن کر رہی تھی۔ شادی کے بعد پہلی بار وہ ٹی وی دیکھنے میں اتنی دلچسپی ظاہر کر رہی تھی۔
ٹی وی پر کوئی خاص پروگرام آرہا ہے؟ اس نے پوچھا۔
نہیں ویسے ہی دیکھوں گی۔ امامہ نے اس کی طرف دیکھے بنا کہا۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ چلا جائے۔
وہ جانے کی بجائے صوفے پر اس کے قریب آکر بیٹھ گیا۔ اس نے امامہ کے ہاتھ سے ریموٹ لیکر ٹی وی آف کردیا۔ امامہ نے کچھ جز بز ہوکر اسے دیکھا۔
میں شراب نہیں پیتا امامہ۔ میں یہ پھل چکھ چکا ہوں، اس کا ذائقہ کیا ہے؟ اس کا اثر کیا ہے؟ میں دونوں سے واقف ہوں۔ مجھے شراب میں کوئی غم ڈبونا ہے نا کسی سرور کی تلاش ہے۔ میرے لیے یہ ان گناہوں میں سے ایک ہے جن کو میں چھوڑ چکا ہوں۔ تم ہر روز بس اللہ سے یہ دعا کیا کرو کہ وہ مجھے سیدھے راستے سے نہ بھٹکائے۔ وہ اس سے سوال کی توقع کر رہی تھی جواب کی نہیں۔ وہ کسی سائکالوجسٹ کی طرح اس کا ذہن پڑھ رہا تھا۔
اب تمہیں ٹی وی دیکھنا ہے تو دیکھو۔ ورنہ آکر سو جاؤ۔ گڈ نائٹ۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ٹی وی آن کر کے ریموٹ امامہ کے ہاتھ میں دیا اور بیڈروم میں چلا گیا۔ وہ اسے دیکھتی رہ گئی تھی۔
************-------**--****
سالار کے ساتھ اس گفتگو نے اس کے لیے بہت آسانی پیدا کر دی تھی۔ دوبارہ ڈنر پر جاتے ہوئے امامہ نے وہاں آنے والے لوگوں کو نہیں جانچا تھا۔ اس بار وہ اسے اتنے برے بھی نہیں لگے۔
تم کسی سے کوئی بات کیوں نہیں کرتی؟ وہ شاید چوتھا ڈنر تھا جب واپسی پر رات کو سونے سے قبل کپڑے تبدیل کرتے سالار نے اس سے پوچھا تھا۔ وہ ناول پڑھتے ہوئے چونکی۔
کیسی بات؟ 
کوئی بھی بات۔ وہ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
جب کوئی مجھ سے کچھ پوچھتا ہے تو میں جواب دیتی ہوں۔
لیکن تم بھی تو کسی سے کچھ پوچھا کرو۔ وہ ان پارٹیز میں اس کی مسلسل خامشی کو نوٹ کر رہا تھا۔
کیا پوچھا کرو؟
تم حال چال پوچھا کرو۔ پھر فیملی کے بارے میں پوچھا کرو، بچوں کے بارے میں بات کر سکتی ہو۔ فار گاڈ امامہ عورتوں کو تو یہ بتانا نہیں پڑتا کہ انہوں نے آپس میں کیا باتیں کرنی ہے۔ وہ اسے بتاتے ہوئے کچھ سٹپٹا گیا۔
اچھا میں کوشش کروں گی۔ اس نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
میرا یہی سوشل سرکل ہے، یہی لوگ بار بار ملیں گے تمہیں۔ ان ہی میں سے تم نے دوست بنانے ہیں۔
لیکن میں نے دوست بنا کر کیا کرنا ہے؟ اس نے دوبارہ ناول کھولتے ہوئے کہا۔ سالار نے ہاتھ بڑھا کر ناول اس سے لے لیا۔ 
کتابیں اچھی ہوتی ہے لیکن ایک دنیا اس کے باہر ہے۔وہ بھی اچھی ہے۔ وہ سنجیدہ تھا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
لوگوں سے چھپ چھپ کر بھاگ بھاگ کر اب بہت مشکل ہو گیا ہے دوبارہ ان کے ساتھ چلنا۔ وہ خود بھی سمجھ نہ پائی کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔
اسی لیے چاہتا ہوں کہ تم لوگوں کیساتھ انٹرایکٹ کرو ۔اب ضرورت نہیں رہی چھپنے کی۔ جہاں میں تمہیں لیکر جاتا ہوں، وہاں تم میری فیملی ہو۔ وہاں تم سے کوئی تمہاری فیملی کے بارے میں انویسٹی گیٹ نہیں کریگا۔ وہ اسے سمجھا رہا تھا۔
اچھا میں کوشش کروں گی۔ اس نے غیر محسوس انداز میں سالار سے کتاب لیتے ہوئے کہا۔
بھابھی کے ہاں بھی جایا کرو۔ وہ اسے نوشین کے بارے میں کہہ رہا تھا۔
جاتی ہوں۔ اس نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔ وہ اسے چپ چاپ کچھ دیر دیکھتا رہا۔
اب اس طرح مت دیکھو مجھے۔ امامہ نے اس کی نظریں اپنے چہرے پر محسوس کرتے ہوئے گردن موڑ کر کہا۔ میں نے کہا ہے نا میں کوشش کروں گی۔
وہ کچھ کہنے کی بجائے کمبل لیتا ہوا چت لیٹ گیا۔وہ دوبارہ کتاب پڑھنے لگی لیکن کچھ دیر بعد پھر اسے سالار کی نظریں خود پر محسوس ہوئی۔
اب کیا ہے؟ اس نے کچھ جھنجھلا کر سالار کو دیکھا۔
کچھ نہیں۔ امامہ نے اس کی نظروں میں عجیب سا تاثر محسوس کیا تھا۔ وہ بہت سنجیدگی کے ساتھ کچھ سوچ رہا تھا۔
********-----*****---***
عید کے دو ہفتے بعد اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ان کے ولیمہ کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔ اگر سالار کی ضد نہ ہوتی تو سکندر کبھی اس تقریب لے لیے اسلام آباد کا انتخاب نہ کرتے۔ ولیمہ کی تقریب خاصی سادگی سے ہوئی۔ دو ہزار کے قریب افراد کی موجودگی میں امامہ اتنا ہی غیر آرام دہ محسوس کر رہی تھی جتنا اسے کرنا چاہیئے تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ خوش تھی۔ وہ باقاعدہ طور پر سالار کی فیملی کا حصہ بن کر جیسے کسی چھت کے نیچے آ گئی تھی۔
وہ ولیمہ کے بعد دو ہفتوں کے لیے بہماس گئے تھے۔پاکستان سے باہر سالار کے ساتھ امامہ کا یہ پہلا سفر تھا۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ زندگی میں دوبارہ کبھی ان پندرہ دنوں جیسے پرسکون اور بے فکری کے دن ان کی زندگی میں دوبارہ کبھی نہیں آنے والے تھے۔ ان کا رشتہ نیا تھا لیکن تعلق پرانا تھا۔
سالار کا فون انٹرنیشنل رومنگ پر تھا۔ لیکن دن کا زیادہ وقت وہ آف رہتا تھا۔ بنک اور ان سے متعلقہ کاموں کو اس نے پندرہ دنوں کے لیے اپنی زندگی سے نکال دیا تھا۔ سالار بہماس پہلے بھی دو مرتبہ آچکا تھا۔ وہ اسے لیکر ان تمام جگہوں پر جارہا تھا جہاں کی سی فوڈز مشہور تھی۔
ہم اپنے گھر میں اس طرح کا ایک لانچ بنائیں گے۔
سالار نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ ایک لمحے کے لیے اسے مذاق لگا۔ لیکن وہ سنجیدہ تھی۔ 
کس پر بنائیں گے؟ سالار نے اسے جیسے کچھ یاد دلانے کی کوشش کی۔
جھیل پر۔ بلا کی سنجیدگی تھی۔
اور جھیل کہاں سے آئے گی؟ وہ ہکا بکا تھا۔
وہ تم بناؤ گے نا۔ وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔
اور اس جھیل میں پانی کہاں سے آئیگا؟ 
امامہ نے ایک لمحے کے لیے سوچا۔۔۔۔ نہر سے۔ وہ ہنس پڑا لیکن امامہ نہیں ہنسی۔ 
پانی کی نہر نکالنا دودھ کی نہر نکالنے سے زیادہ مشکل ہے سویٹ ہارٹ۔
اس نے امامہ کے کندھوں پر بازو پھیلایا۔ امامہ نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
تم نہیں بنا کر دوگے؟ وہ سوال نہیں تھا۔ دھمکی تھی۔
ھم یہاں آجایا کرینگے بلکہ اگلے سال میں تمہیں ماریشس لیکر جاؤں گا۔ پھر اس سے اگلے سال مالدیپ۔۔۔
امامہ نے اس کی بات کاٹی۔
تم نہیں بنا کردوگے جھیل۔۔۔
امامہ جھیل کیسے بنا کر دوں میں تمہیں۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ھم کسی ایسی جگہ پر گھر بنائے جہاں قدرتی طور پر آس پاس اس طرح پانی ہو۔ سالار نے اسے ٹالنے کی کوشش کی۔
ہاں یہ ٹھیک ہے۔ اس پر بر وقت اثر ہوا تھا اور سالار نے جیسے سکھ کا سانس لیا۔
سالار تم بہت اچھے ہو۔ امامہ نے اب اس کا ہاتھ پیار سے پکڑ کر کہا۔
امامہ یہ بلیک میلنگ ہے۔ سالار نے ہاتھ چھڑائے بنا گہرا سانس لیکر احتجاج کیا۔ وہ اس کے جھوٹ کو اس کے گلے کی ہڈی بنا رہی تھی۔
ہاں۔۔۔ہے تو۔۔۔اس نے بڑے آرام سے کندھے اچکا کر ہنستے ہوئے کہا۔
وہاں دوبارہ امامہ نے باقی دن لانچ کا ذکر نہیں کی اور اس پر سالار نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اسے امید تھی کہ وہ بھول جائیگی۔
واپس آنے کے چوتھے دن بعد اس نے فخریہ انداز میں سالار کو اس گھر کے نئے ڈیزائنز دکھائے۔ وہ جھیل اور لانچ بھی اس کا حصہ بن چکے تھے۔ وہ ہنی مون اسے بہت مہنگا پڑا تھا۔ وہ دنیا کی پہلی بیوی تھی جس نے ہنی مون پر جھیل اور لانچ کی شاپنگ کی تھی۔ اور وہ دنیا کا پہلا شوہر تھا جس نے اس شاپنگ پر اعتراض نہیں کیا تھا۔
ان کے اپارٹمنٹ کی دیوار پر اب کچھ اور تصویروں کا اضافہ ہوگیا تھا۔ جن میں ایک چیز کامن تھی۔ ان کے چہرے اور آنکھوں میں نظر آنے والی خوشی اور چمک اور ان کے ہونٹوں پر موجود مسکراہٹ۔
وہ ایک دوسرے کے لیے بنے تھے۔ کم از کم وہ تصویریں ہر لحاظ سے یہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ 
زندگی آہستہ آہستہ اپنے معمول پر آرہی تھی۔ سالار واپس آنے کےبعد مصروف ہوگیا۔ وہ بنک سے تقریباً دس بجے گھر آرہا تھا اور پہلے کی طرح گھر سے باہر کافی کے لیے نکلنے کا سلسلہ کچھ عرصہ کے لیے منقطع ہو گیا۔ سالار کے اصرار کے باوجود وہ کھانے پہ اس کا انتظار کرتی تھی۔
وہ نوشین کے ساتھ اب وقتاً فوقتاً گھر سے نکلنے لگی تھی۔ اس کی زندگی کا دائرہ اب گھر سے باہر بڑھنے لگا تھا اور سالار اس چیز کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page