top of page

آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد

قسط نمبر آٹھ

وہ اس دن چینل سرفنگ کر رہی تھی جب اس کی نظریں ایک چینل پہ ٹھہر گئی۔ چند لمحوں کے لیے اس کو اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آیا۔ وہ اسٹاک مارکیٹ کے حوالے سے کوئی پروگرام تھا۔ اور اس میں شامل دو شرکاء میں سے ایک سالار بھی تھا۔ ایک لمحے کے لیے امامہ کو یقین نہیں آیا۔ وہ اسکرین پر سالار کو دیکھ رہی ہے لیکن چند لمحوں کے بعد سالار کا نام اور اس کا عہدہ اسکرین پر چند لمحوں کے لیے فلیش ہوا۔
تو وہ مجھ سے جھوٹ بول رہا تھا؟ امامہ نے اس کا عہدہ دیکھ کر سوچا۔ وہ پی آر سے منسلک نہیں تھا لیکن اس وقت اسے اسکرین پر دیکھتے ہوئے وہ اتنی ایکسائٹڈ تھی کہ اس نے سالار کے جھوٹ اور اس کی وجوہات پر غور ہی نہیں کیا۔ زندگی میں پہلی بار اس نے فنانس سے متعلق کوئی پروگرام اتنے شوق اور لگن سے دیکھا تھا۔ آدھ گھنٹا اس پروگرام میں اسے سنتے اور دیکھتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ وہ بہت امپریسیو تھا۔ کمپوزڈ، کانفیڈنٹ، بے حد شارپ اور مکمل پروفیشنل۔ وہ زندگی میں پہلی بار اس کی شکل و صورت اور پرسنالٹی پر غور کر رہی تھی۔ اور پہلی بار اسے احساس ہوا کہ اس کی آواز بہت اچھی ہے۔ شادی کے دو ہی مہینے بعد اپنے شوہر کو ٹی وی پر دیکھتے ہوئے وہ بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔
سالار کسی پوسٹ لنچ میٹنگ میں تھا جب امامہ نے اسے کال کی۔ میٹنگ ختم ہو رہی تھی، اس لیے وہ کال لیتے ہوئے بورڈ روم سے باہر آیا۔
سالار تم ٹی وی پہ آئے ہو؟ اس نے چھوٹتے ہی کہا۔
ایک لمحے کے لیے سالار سمجھ نہ سکا۔
کیا؟ 
تم ٹی وی چینل پہ آئے تھے ایک پروگرام میں اور تم نے مجھے بتایا بھی نہیں۔
دوماہ پہلے ریکارڈ کیا تھا، انہوں نے ریپیٹ کیا ہوگا۔ سالار کو یاد آگیا۔
تم کیا کر رہی ہو۔؟ اس نے موضوع بدلا، لیکن امامہ کس حد تک متاثر تھی اس پروگرام سے، اس کا اندازہ اسے گھر آ کر ہی ہوا۔
میں نے اسے ریکارڈ کر لیا ہے۔ وہ کھانا کھا رہے تھے جب امامہ نے اسے بتایا۔
کسے؟ وہ چونکا، کیونکہ وہ کوئی اور بات کر رہے تھے۔
تمہارے اس پروگرام کو۔
اس میں ریکارڈ کرنے والی کیا بات تھی۔ وہ حیران ہوا۔
تم ٹی وی پر بہت اچھے لگ رہے تھے۔ امامہ نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے کہا۔
اور تم انویسٹمنٹ بنکنگ میں ہو۔ پی آر میں نہیں۔امامہ نے اسے بتایا۔ وہ مسکرایا لیکن اس نے جواباً کچھ نہیں کہا۔۔۔
تم نے دیکھا ہے اپنا پروگرام؟ 
سالار نے کانٹا ہاتھ سے رکھتے ہوئے اس سے کہا۔
سویٹ ہارٹ ایسے بہت سے پروگرامز ہوتے ہیں جن میں ہر روز بہت سارے ایکسپرٹس بلائے جاتے ہیں اس میں ایسی کون سی خاص بات ہے کہ اس کو بیوی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جائے۔ اس سے پہلے بھی کئی پروگرامز میں آچکا ہوں اور آئندہ بھی کہیں نہ کہیں نظر آتا رہوں گا۔ یہ بھی میری جاب کا ایک حصہ ہے۔
وہ اس کا ہاتھ تھپک کر اب دوبارہ کانٹا اٹھا رہا تھا۔ امامہ چند لمحے کچھ بول نہ سکی۔ اس نے جیسے ٹھنڈے پانی کا گلاس اس پر انڈیل دیا تھا ایسے وہ شرمندہ ہو رہی تھی۔
سالار سود حرام ہے نا۔
وہ خود سمجھ نہ پائی کہ اس نے سالار کی باتوں کے جواب میں یہ کیوں کہا۔ شاید یہ اس شرمندگی کا ردعمل تھا۔
ہاں۔ وہ کانٹے سے کباب کا ایک ٹکڑا اٹھاتے ہوئے صرف ایک لمحے لے لیٰے ٹھٹکا۔ بالکل اسی طرح جس طرح جھوٹ حرام ہے۔ غصہ حرام ہے۔ غیبت حرام ہے۔ منافقت، تہمت اور بد دیانتی حرام ہے۔ وہ اطمینان سے کہہ رہا تھا۔
میں ان چیزوں کی بات نہیں کر رہی۔ امامہ نے اس کی بات کاٹی۔ اس نے جواباً امامہ کی بات کاٹی۔
کیوں؟ کیا ان ساری چیزوں سے معاشرے کو کم نقصان پہنچتا ہے؟ امامہ کو جواب نہیں سوجھا۔
تم جسٹی فائی کر رہے ہو سود کو؟ اس نے بلآخر کہا۔۔ 
نہیں میں جسٹی فائی نہیں کر رہا، میں صرف یہ کہہ رہا تھا کہ ھم جز کو کل سے الگ نہیں کر سکتے۔اسلامی معاشرے کو سود اتنا نقصان نہیں پہنچا رہا جتنا دوسری خرابیاں۔ وہ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
میں اگر پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی پانچ خرابیاں بتاؤں اور کہوں ان میں سے کوئی ایک ختم کردو جس سے معاشرہ بہتر ہو جائے۔ کرپشن کو، غربت کو، نا انصافی کو، بدیانتی یا سود کو۔ تو میں شرط لگاتا ہوں امامہ یہ پانچواں آپشن کبھی بھی کسی کی پہلی ترجیح نہیں ہو گا۔ وہ چیلنج کر رہا تھا اور وہ چیلنج جیت بھی سکتا تھا۔ کیونکہ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا وہ بھی پہلی چار میں سے ہی ایک کو ختم کرنا چاہیں گی۔ امامہ نے دل ہی دل میں اعتراف کیا۔
اور سود صرف بنکنگ میں تو نہیں ہے۔ کوئی یوٹیلٹی بل لیٹ ہو جاتا ہے تو اس پر سرچارج لگ جاتا ہے۔ سکول، کالج کی فیس لیٹ ہوجائے تو اس پر فائن لگ جاتا ہے۔ یہ بھی تو سود کی قسمیں ہیں۔
اس کے پاس اس کی توجیہات کا کوئی جواب نہیں تھا۔
تو تم بنکنگ میں اس لیے ہو کیونکہ تم سود کو دوسری برائیوں جیسی عام برائی سمجھتے ہو؟ امامہ نے بحث سمیٹنے کی کوشش کی۔
نہیں، میں اسے بہت بڑی لعنت سمجھتا ہوں تو پھر میری سوچ میں کیا تبدیلی آئے گی۔ یہ سوچ لیکر ساری دنیا کے مسلمان بنک میں کام کرنا بند کردے۔اور دوسرے مذاہب والوں کو کھلا راستہ چھوڑیں کہ وہ آئے اور ٹیک اوور کرے۔ ھماری اکانومی کو اپنی مٹھی میں لے لیں۔ جب چاہے، جیسے چاہے، ھمارا گلہ دبا دے۔
امامہ الجھی نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔ سود کے بارے میں یہ انکی پہلی بحث تھی۔
۔**********************---*****
رمضان میں اور اس کے بعد امامہ کو کھانا پکانے کا کوئی خاص موقع نہیں ملا تھا۔ لیکن اب وہ اس کے لئے باقاعدہ طور پہ گھر کا کھانا بنانے لگی۔ وہ سی فوڈز کے علاوہ کسی خاص کھانے کا شوقین نہیں تھا۔سی فوڈز کو شدید ناپسند کرنے کے باوجود وہ ہفتے میں اس کے لیے ایک یا دو بار ڈبے میں بند سی فوڈز کی جگہ بازار سے تازہ سی فوڈ لا کر پکانے لگی۔
اتوار کا دن تھا اور وہ لنچ کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ کسی دوست سے فون پر بات کرتے ہوئے سالار کو وہم سا ہوا تھا کہ وہ سنک کے سامنے کھڑی رو رہی ہے۔
ریموٹ کنٹرول سے ٹی وی آف کرتے ہوئے اور دوست کو خدا حافظ کہتے ہوئے وہ صوفے سے اٹھ کر کچن میں آگیا۔ سنک کے سامنے کھڑی وہ رو نہیں رہی تھی بلکہ زار و قطار رو رہی تھی۔ سالار کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔
کیا ہوا؟ 
نفی میں سر ہلا کر وہ اسی طرح اپنے کام میں مصروف رہی۔ سالار نے ہاتھ بڑھا کر سنک کا نل بند کردیا۔
کیوں رو رہی ہو تم؟ وہ واقعی سمجھنے سے قاصر تھا۔ امامہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے ماں باپ کے گھر میں نے کبھی ان چیزوں کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔ جنہیں اب مجھے دھونا پڑ رہا ہے۔پانی دوبارہ کھولتے ہوئے اس نے بھرائی آواز میں کہا۔
وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔ اس کے گھر میں بھی سی فوڈز اتنے ہی شوق سے کھائے جاتے تھے لیکن وہ ان سے شدید قسم کی کراہیت رکھتی تھی۔ 
سالار کو کچھ دیر سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کہے
میں نے تمہیں کب کہا ہے کہ مجھے یہ بنا کر دو۔
تم نے خود کہا تھا میں تمہیں سی فوڈ لا کر دوں گا اور تم آج یہ بنانا۔
سالار نے پھر کچھ خفگی سے پانی بند کردیا۔
چھوڑو، مت بناؤ۔ اس نے سختی سے کہتے ہوئے وہ برتن سنک سے اٹھا کر شیلف پر رکھ دیے۔
یہ بات نہیں ہے۔ میں سوچ رہی تھی جب شوہر کو بنا کر کھلا سکتی ہوں، تو ماں باپ کو بھی بنا کر کھلا دیتی۔ اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔
کیا رنج تھا، کیا پچھتاوا تھ۔ وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔
اس کے منع کرنے کے باوجود اس نے اس دن سی فوڈ ہی تیار کیا۔ لیکن اس کی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر سالار کو اس قدر احساس جرم ہوا کہ وہ ٹھیک طرح کھانا بھی نہ کھا سکا۔
میں آہستہ آہستہ یہ سی فوڈ کھانا چھوڑ دوں گا۔ تمہیں یہ دوبارہ گھر پر نہیں بنانا پڑے گا۔
نہیں، تمہیں پسند ہے تم کیوں چھوڑو گے؟ پتہ نہیں مجھے ایسے ہی خیال آگیا تو۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ میری ناپسندیدگی کم ہوجائے گی۔
میں۔۔۔۔۔۔
امامہ نے اسکی بات کاٹ دی۔ رہنے دو بس۔۔۔۔۔۔۔ اگر کچھ چھوڑنا ہے تو یہ جو تم انرجی ڈرنکس وغیرہ پیتے ہو انہیں چھوڑ دو میں تمہیں کچھ فریش جوسز بنا کر دوں گی۔
وہ ہنس پڑا۔ وہ واقعی ان ڈرنکس کا بہت عادی تھا اور اس کی بنیادی وجہ اس کا لائف اسٹائل اور اس کا پروفیشن تھا۔ اس کے سہارے وہ ساری رات آرام سے کام کیا کرتا تھا۔ وہ امامہ کے ہاتھ کے بنے کھانے کا عادی ہونے لگا تھا۔ امامہ اس کے رات کو بہت دیر سے گھر آنے پر بھی اسے تازہ چپاتی بنا کر دینے کی عادی ہو گئی تھی۔ اور سالار نے زندگی میں ایسی چپاتی نہیں کھائی تھی۔ وہ ناشتے میں سلائس اور ایک انڈا کھا کر چائے، کافی کے ایک کپ کے ساتھ بھاگ جانے والا آدمی تھا۔ اور زندگی میں پہلی دفعہ ناشتہ کا کوئی مینیو ہونے لگا تھا۔ انڈا، تلے ہوئے یا ابلے ہوئے کی جگہ مختلف قسم کے آملیٹ ملنے لگے۔ بعض دفعہ پراٹھا ہوتا۔ ڈبے کی جگہ تازہ جوس کے گلاس نے لے لی تھی۔ لنچ کے لیے گھر کے بنے سینڈوچز اور سلاد ہوتا۔ شروع شروع میں وہ امامہ کے اصرار پر کچھ بے دلی سے اس لنچ پیک کو گھر سے لاتا تھا لیکن آہستہ آہستہ اس کی ناخوشی ختم ہونے لگی۔ وہ گھر کا کھانا تھا۔ بہت ویلیوایبل تھا۔کیونکہ اس کو بنانے کے لیئے صبح سویرے اٹھ کر اس کی بیوی اپنا کچھ وقت صرف کرتی تھی۔ وہ پانی کے اس گلاس کا بھی اس طرح عادی ہونے لگا تھا، جو ہر روز گھر میں داخل ہوتے ہی وہ اسے دیتی تھی۔
میں دودھ نہیں پیتا۔ جب اس نے پہلی بار گرم دودھ کا گلاس اسے دیا تو اس نے بے حد شائستگی سے اسے بتایا۔
کیوں؟ جواباً اس نے اتنی حیرت کا اظہار کیا کہ وہ شرمندہ سا ہوکر رہ گیا۔
مجھے پسند نہیں ہے۔
مجھے تو بڑا پسند ہے۔ تمہیں کیوں نہیں پسند؟
مجھے اس کا ذائقہ اچھا نہیں لگتا۔ وہ سوچ میں پڑ گئی۔
تو میں اس میں اوولٹین ڈال دوں؟ سالار نے اس کے جواب کو مکمل ہونے سے پہلے ہی گلاس اٹھا کر پی لیا۔ وہ زہر پی سکتا تھا لیکن اوولٹین نہیں۔
اس کے اپنے گھر میں مردوں کا جس طرح خیال رکھا جاتا تھا۔ وہ بھی اس کا اسی طرح خیال رکھ رہی تھی۔
*****----****-----*****-----***---
امامہ کے لیے زندگی بدل گئی تھی یا بہت عرصہ کے بعد پھر شروع ہوئی تھی۔ سالار نے اس سے کبھی کوئی سوال نہیں کیا وہ اس گھر کے سیاہ و سفید کی مالک تھی۔
یہ ناممکن تھا کہ ایسا شخص کسی کی دعاؤں کا حصہ نہ بنے۔ اسے کبھی نماز کے بعد دعا کرتے ہوئے سالار کو یاد نہیں کرنا پڑا تھا۔۔۔۔
******************
آر یو شیور۔۔۔ تم اکیلے رہ لوگی؟ سالار اب بھی جیسے یقین دہانی چاہتا تھا۔۔
وہ دو ہفتوں کے لیے نیویارک اپنے بنک کے کسی ورکشاپ کے سلسلے میں جا رہا تھا۔
میں رہ لوں گی۔ ویسے بھی فرقان بھائی اور بھابھی تو پاس ہی ہیں، کچھ نہیں ہوتا۔ اس نے سالار کو تسلی دی۔ اس کی فلائٹ صبح گیارہ بجے تھی وہ اس وقت پیکنگ سے فارغ ہوا تھا۔ 
میرے بغیر رہ لو گی تم؟ اس نے امامہ کی بات سننے کے بعد کہا۔
ہاں، دو ہی ہفتوں کی تو بات ہے۔ امامہ نے بےحد اطمینان سے کہا۔
دو ہفتوں میں پندرہ دن ہوتے ہیں۔ سالار نے بریف کیس بند کرتے ہوئے کہا۔
کوئی بات نہیں، گزر جائیں گے۔
سالار نے گہرا سانس لیا۔ ہاں، تمہارے تو گزر جائینگے، میرے نہیں گزریں گے، میں تو ابھی سے تمہیں مس کرنے لگا ہوں یار۔ وہ ہنس پڑی۔
پہلے بھی تو جاتے ہو تم۔ دو ہفتے پہلے دبئ گئے تھے۔پچھلے مہینے سنگاپور۔ اس نے تسلی دینے والے انداز میں یاد دلایا۔ 
دو دن کے لیے دبئ گیا تھا اور چار دن کے لیےسنگاپور۔ یہ تو دو ہفتے ہیں۔
ہاں تو، دو ہفتے ہیں نا۔ دو مہینے یا دو سال تو نہیں۔اس نے کمال اطمینان سے کہا۔
سالار اسے دیکھ کر رہ گیا۔
چلو اچھا ہے یہ بھی۔ نا میں یاد آؤں گا، نا ہی نظر آؤں گا، نا میرا کوئی کام ہوگا۔ وقت ہی وقت ہوگا تمہارے پاس۔ وہ نجانے اس سے کیا سننا چاہتا تھا۔
ہاں! کافی وقت ہوگا، میں ایک دو پینٹنگز مکمل کر لوں گی۔ گھر کے کچھ اور کام ہے، وہ بھی کرلوں گی۔میں نے بہت کچھ پلان کیا ہوا ہے۔
اس نے ناول پکڑے اپنی جماہی روکنے کے لیئے منہ پہ ہاتھ رکھا۔ وہ ہنس پڑا تھا۔
تمہارے لیے تو blessing in disguise ہوگیا ہے میرا ٹرپ۔ میں نے تو سوچا ہی نہیں تھا کہ میری وجہ سے تمہارے اتنے کام پینڈنگ ہو رہے ہیں۔ اگر اس کے لہجہ میں گلہ تھا تو امامہ نے نوٹس نہیں کیا۔
چلو یہ بھی اچھا ہے۔ وہ بڑبڑایا۔
ویزہ لگا ہوتا تو میں تمہیں ساتھ لے جاتا۔ اسے پھر کچھ خیال آیا تھا۔
تم پریشان مت ہو میں یہاں پہ بالکل ٹھیک رہوں گی۔ امامہ نے فوراً سے پیشتر کہا۔ سالار جواب دینے کی بجائے چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔
کیا دیکھ رہے ہو۔؟ امامہ اسے دیکھ کر مسکرائی۔
تمہارا اطمینان۔۔۔۔
میں فلمی ہیروئنز کی طرح ڈائلاگ نہیں بول سکتی۔
صرف فلمی ہیروئنز ہی ڈائلاگ بولتی ہیں؟ 
نہیں، ہیرو بھی بولتے ہیں۔ وہ اطمینان سے ہنسی۔سالار مسکرایا تک نہیں تھا۔ وہ پھر سنجیدہ ہوگئی۔
مت جاؤ پھر؟ اگر اتنا مس کر رہے ہو تو۔ اس نے جیسے اسے چیلنج کیا۔ 
پیار سے کہتی تو نہ جاتا. لیکن میں تمہارا کوئی چیلنج قبول نہیں کروں گا۔ مجھے تم سے ہار پسند ہے۔ وہ ہنسی. 
تم بات بدل رہے ہو۔ 
نہیں خود کو تسلی دے رہا ہوں۔ چلو آؤ تمہیں کافی پلوا کر لاؤں۔
وہ یکدم بستر سے اٹھ کر بولا۔
اس وقت؟ رات کے اس وقت امامہ تیار نہیں تھی۔
ہاں۔۔۔۔ اتنے دن تک تو نہیں پلوا سکوں گا کافی۔ وہ دراز سے والٹ اور کار کی چابیاں نکال رہا تھا 
لیکن اب میں پھر کپڑے بدلوں؟ 
مت بدلو۔ چادر لے لو یہی ٹھیک ہے۔
سالار نے اس کی بات کاٹی وہ اب سیل فون اٹھا رہا تھا۔
فورٹریس سے کافی پینے کے بعد وہ بے مقصد سٹیڈیم کے گرد ڈرائیو کرتا رہا۔
اب گھر چلیں۔ تمہیں آرام کرنا چاہیے۔ امامہ کو اچانک خیال آیا۔
میں پلین میں آرام کروں گا۔
امامہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنا سنجیدہ اور گہری سوچ میں کیوں ڈوبا ہوا ہے۔ واپس آتے ہوئے اس نے ایک دکان سے بہت سا پھل خریدا۔۔
تم یہاں نہیں ہو گے تو اتنا پھل خریدنے کی کیا ضرورت؟ امامہ حیران ہوئی تھی۔
تمہارے لیے خریدا ہے۔ شاید پھل کھاتے ہوئے ہی تمہں میں یاد آجاؤں۔ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔
یہ پھل کھانے کے لیے شرط ہے؟ وہ بے اختیار ہنسی۔
نہیں۔امید۔۔۔امامہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔۔
***--------*&******----****
اسے واقعی سالار کے جانے کے بعد دو دن کوئی مسئلہ نہیں ہوا ۔سالار کی عدم موجودگی میں رات کا کھانا وہ فرقان کے ہاں کھایا کرتی تھی۔ دو دن تک تو وہ اطیمینان کیساتھ کھانا کھا کر گھر واپس آجاتی تھی پھر کوئی ناول نکال لیتی تھی۔ اور سونے تک پڑھتی رہتی۔۔ لیکن مسئلہ تیسری رات کو ہوا تھا۔۔ اس دن سالار نے دن بھر اسے کوئی کال نہیں کی تھی اور اتنے مہینوں میں یہ پہلا دن تھا۔۔ اس طرح سے نہ میسج نہ ہی کوئی ای میل آئی تھی۔ وہ پچھلی رات سے بہت مصروف تھا۔ اس نے اسے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ شاید اگلے چند دن وہ اس سے بات نہ کر سکیں۔۔
وہ اس رات فرقان کے ہاں کھانے پہ نہیں گئی۔ اسکی بھوک غائب ہوگئی تھی۔ اس دن اس نے کمپیوٹر مسلسل آن رکھا ہوا تھا۔ اس آس میں کہ شاید وہ اسے کوئی ای میل کردے۔
رات کو اس نے کافی کے لیے کریم نکالنے کے لیے فریج کھولا تو اس نے کیک کا وہ ٹکڑا دیکھا جو دو دن پہلے ایئرپورٹ جانے سے پہلے وہ کھاتے کھاتے چھوڑ گیا تھا اور امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے کیک کا بچا ہوا ٹکڑا فریج میں کیوں رکھ چھوڑا تھا۔۔
کافی بنا کر وہ ٹیرس پر نکل آئی تھی جہاں وہ ویک اینڈ پہ اکثر بیٹھا کرتے تھے۔
تمہیں بچے اچھے لگتے ہیں؟ ایک دن وہاں کھڑے اس نے نیچے کھیلتے اور شور مچاتے بچوں کو دیکھتے ہوئے سالار سے پوچھا تھا۔۔
ہاں۔۔۔۔۔لیکن اس طرح کے نہیں۔۔۔۔
وہ ہنس پڑی۔ ۔اسکا اشارہ شور کی طرف تھا۔۔
مجھے تو ہر طرح کے بچے اچھے لگتے ہیں۔ شور کرنے والے بھی اس نے نیچے جھانکتے ہوئے کہا. 
گڈ فار یو بٹ آئی کانٹ سٹینڈ دم۔۔۔۔
سالار نے لاپرواہی سے کہا۔۔ دوسروں کے بچے ہیں نا اس لیے برے لگتے ہیں۔ اپنے بچوں کا شور کبھی برا نہیں لگے گا تمہیں۔۔اس نے روانی سے کہا۔۔۔
بچے؟ ایک بچہ کافی ہے۔۔وہ چائے پیتے پیتے اٹکا۔
امامہ نے چونک کر نیچے جھانکتے دیکھا۔۔
ایک کیوں؟؟ 
تو کتنے ہونے چاہیئے۔ وہ سنجیدہ ہوا۔۔اس نے ایک لمحے کے لیئے سوچا۔ کم سے کم چار۔۔ 
اور زیادہ سے زیادہ بارہ۔۔۔سالار نے ہنستے ہوئے اس کے جملے میں اضافہ کیا تھا۔ وہ اسے مذاق سمجھا تھا۔ 
میں سیریس ہوں۔۔۔اس کی ہنسی رکنے پہ اس نے کہا۔۔
چار بچے۔۔۔تم حواسوں میں ہو۔۔سالار نے مگ منڈیر پہ رکھ دیا۔ 
کون پالے گا انہیں؟ اسے بے اختیار تشویش ہوئی۔۔
تم اور میں۔۔۔اس نے اطمینان سے کہا۔۔
میں ایک بچہ پال سکتا ہوں چار نہیں۔۔۔
سالار نے ہاتھ اٹھا کر جیسے حتمی انداز میں کہا۔۔
ٹھیک ہے تم ایک پال لینا۔ تین میں پال لوں گی۔۔وہ اطمینان سے کہہ کر دوبارہ نیچے جھانکنے لگی۔۔
امامہ۔۔میں سنجیدہ ہوں۔۔
اور میں بھی۔۔۔
ھم چار بچے افورڈ نہیں کرسکتے۔
میں تو کرسکتی ہوں۔ میرے پاس وہ پیسے ہیں جو ۔۔۔۔۔۔۔
وہ میں نے اس لیے نہیں دیئے کہ تم انہیں بچوں کی فوج پہ انویسٹ کرو۔۔۔
سلار نے جھنجھلا کر اس کی بات کاٹی۔۔۔
امامہ کو برا لگا وہ کچھ کہنے کی بجائے بے حد خفگی کے عالم میں پھر نیچے دیکھنے لگی۔
سویٹ ہارٹ۔۔۔ھم کو سالار نے اسکے کندھے کر گرد بازو پھیلا کر اسے منانے کی کوشش کی۔ 
ہاتھ ہٹاؤ۔۔۔۔امامہ نے اسکا ہاتھ جھٹکا۔۔
میں نے کیا کیا ہے؟ وہ جھنجھلایا ۔ تم چاہتی ہو میں گھر، آفس، سکول، ڈاکٹرز اور مارکیٹوں کے چکر لگاتے لگاتے بوڑھا ہوجاؤں۔
تو تم کیا کرتے ہوئے بوڑھا ہونا چاہتے ہو۔۔تڑ سے جواب آیا تھا۔۔وہ لاجواب ہوگیا۔۔وہ خفگی بھری سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ رات کے وقت اپنے بچوں کو گھر میں کیوں نہیں رکھتے۔ دوسروں کو دکھانے کے لیے باہر کیوں لے آتے ہیں۔وہ اسکے سوال کا جواب دیے بغیر اپنا مگ اٹھا کر اندر چلا گیا۔۔۔امامہ کو بےاختیار ہنسی آئی تھی۔
وہ اب بھی ہنس پڑی تھی منڈیر کے اس نشان کو دیکھ کر، نیچے لان میں پھر وہی شور برپا تھا۔ اس نے پلٹ کر دیوار کے ساتھ لگے اس رگ کو دیکھا جس پر وہ دیوار کیساتھ ٹیک لگا کر کبھی کبھار گٹار بجایا کرتا تھا۔۔
اسے احساس نہیں ہوا کہ اس کی کافی ٹھنڈی ہوچکی ہے۔ وہ اسی طرح بھرا ہوا مگ لیکر واپس اندر آگئی۔۔۔*****
**********---************
فجر کے بعد وہ مسلسل کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی تھی۔ کال نہیں تو کوئی ای میل ہی سہی۔ اس نے وقفے وقفے سے اسے چار پانچ ای میلز کی تھی پھر وہ مایوس ہوگئی۔ جواب نہ آنے کا مطلب تھا کہ وہ ای میلز چیک نہیں کر رہا تھا۔
اگلے دن اداسی کا دورہ اور بھی شدید تھا۔۔۔اس دن نہ وہ کوئی پینٹنگ بنا سکی نہ ہی کوئی کتاب پڑھ سکی اور اس نے کھانا بھی نہیں پکایا۔ فریج میں چند دنوں کا پڑا ہوا کھانا کھا لیا۔ شام تک وہ اگلے دن سعیدہ اماں کے ہاں جانے کا پروگرام بنا چکی تھی۔ اسکا خیال تھا یہ تنہائی تھی جو اسے مضمحل کر رہی تھی۔ وہ یہ بھول گئی تھی کہ وہ نو سال تنہا ہی رہی تھی اس سے زیادہ تنہا۔۔ اس سے زیادہ برے حالات میں۔۔۔
اس دن اسے سالار کی تین لائنوں کی ایک ای میل ملی تھی اور ان تین لائنوں کو اس نے رات تک کم از کم تین سو بار پڑھا تھا۔۔۔
Hi sweetheart! How are you? This workshop has really nailed me down, how is your painting going? Love you,,,,,
ان تین جملوں کی ای میل کے جواب میں اس نے ایک لمبی ای میل کی تھی جس میں اسے اپنی ہر ایکٹیویٹی بتائی تھی۔ایک کے بعد دوسرا۔۔۔ دوسرے کے بعد تیسرا جھوٹ۔۔وہ اسے یہ کیسے کہہ دیتی کہ وہ اداس ہے۔پھر وجہ پوچھتا وہ۔۔تو وہ اسے اپنی اداسی کی کیا وجہ بتاتی۔۔۔۔****----***---**-***-+--**--*****
بیٹا چہرہ کیوں اترا ہوا ہے تمہارا؟ کوئی پریشانی ہے؟ جھگڑا کر کے تو نہیں گیا سالار تمہارے ساتھ؟ سعیدہ اماں نے اس کے چہرے پر پہلی نظر ڈالتے ہی اپنے سوالوں سے اسے بوکھلا دیا۔۔۔
نہیں، نہیں کچھ بھی نہیں ہوا۔۔بس ایسے ہی گھر میں اکیلی تھی شاید اس لیے۔۔۔۔ 
اس نے مصنوعی مسکراہٹ سے اسے بہلایا لیکن وہ مطمئن نہیں ہوئی۔۔
امامہ نے کپڑوں کا بیگ کمرے میں رکھنے کے فورا بعد ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر خود کو دیکھا۔۔وہ واقعی بہت پریشان لگ رہی تھی۔کوئی بھی اسکا چہرہ با آسانی سے ہڑھ سکتا تھا ۔۔۔۔اگلے دس منٹ آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر وہ اپنے تاثرات کو ریلیکس کرنے کی کوشش کرتی رہی ۔ مسکرا کر گہرے سانس لیکر چہرے کے تاثرات کو نرم رکھ کر پھر جیسے زچ ہوکر اس نے ہار مان لی۔
جہنم میں جائے۔۔۔اب لگتی ہوں پریشان تو کیا کروں۔۔۔کتنا مسکراؤں میں۔۔۔۔؟
پھر وہ باہر نکل آئی۔۔سونا یہاں بھی مشکل تھا۔۔۔ اداسی یہاں بھی ویسی ہی تھی۔۔
اتنی چپ تو تم پہلے کبھی نہیں رہی تھی بیٹا۔۔۔اب کیا ہوگیا ہے تمہیں۔۔۔؟ اگلی شام تک سعیدہ اماں یقینی طور پہ فکرمند ہوگئی تھی ۔۔۔حالانکہ اس دن صبح سالار سے اس کی بات بھی ہوئی تھی۔۔۔
تم سالار کیساتھ خوش تو ہو نا؟ وہ تشویش سے پوچھ رہی تھی اور وہ انکا چہرہ دیکھنے لگی۔۔اداسی بری طرح بڑھی تھی ۔مسئلہ خوشی کا نہیں تھا۔۔مسئلہ یہ نہیں تھا کہ وہ اس کے ساتھ خوش ہے یا نہیں۔۔۔بات صرف اس کے ساتھ رہنے کی تھی ۔۔خوش یا اداس جیسے بھی ہو لیکن اس کے ساتھ ہی۔۔۔۔
اس نے سعیدہ اماں کو جواب دینے کی بجائے موضوع بدل دیا۔۔وہ دو دن وہاں رہ کر پھر اسی بے چینی کے عالم میں واپس آئی تھی۔۔
لیکن تم نے تو کہا تھا کہ تم میرے آنے تک وہی رہو گی۔۔۔سالار اس کی واپسی پر حیران ہوا۔۔
میری مرضی۔۔۔۔وہ کچھ اور کہنا چاہتی تھی لیکن معلوم نہیں اس نے یہ کیوں کہا۔۔
اوکے۔۔۔۔وہ جواب پر حیران ہوا تھا۔۔
مجھے نیویارک سے ورکشاپ کے ختم ہونے کے بعد یہیں سے دو ہفتے کے لیئے کینیڈا جانا ہے۔۔
سالار نے اسے اگلی خبر سنائی۔۔۔
کیا مطلب۔۔۔۔
جو کولیگ مانٹریال والی کانفرنس اٹینڈ کر رہا تھا اسے کوئی میڈیکل ایمرجنسی ہوگئی تھی۔۔فوری طور پر مجھے کانفرنس میں جانے کے لیے کہا گیا ہے کیونکہ میرے پاس ویزہ بھی ہے اور میں قریب بھی ہوں۔۔۔
وہ صدمے سے بول ہی نہ سکی دو ہفتے اور باہر رہنے کا مطلب تھا کہ وہ عید کے ایک ہفتے بعد واپس پاکستان آتا۔۔
ہیلو۔۔۔۔۔سالار نے اس کی لمبی خاموشی پر لائن پر اس کی موجودگی چیک کی۔۔۔
یعنی عید کے بعد آؤ گے تم؟ 
اس نے اپنے لہجے کی مایوسی پر قابو پاتے ہوئے سالار کو یاد دلانے کی کوشش کی کہ عید قریب ہے۔۔۔
ہاں۔۔۔یک حرفی جواب آیا تھا۔۔یقیناً اسے یاد تھا۔۔
اور میں عید پر کیا کروں گی؟ 
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بات کرے اس سے۔۔مایوسی کی انتہا تھی۔۔جس کا وہ اس وقت شکار ہورہی تھی۔ایک ہفتے کا انتظار تین ہفتوں میں تبدیل ہوگیا تھا۔۔اور تین ہفتے کے لیے اس اپارٹمنٹ میں اکیلا رہنا ۔۔۔۔ اسے سالار پر غصہ آنے لگا تھا۔۔
تم اسلام آباد چلی جانا عید پر۔۔سالار نے کہا۔۔
نہیں۔۔۔میں یہی رہونگی۔۔اس نے بلاوجہ ضد کی۔۔
ٹھیک ہے یہی رہنا۔۔سالار نے باآسانی گھٹنے ٹیک دیئے۔
تمہیں کیوں بھیج رہے ہیں۔۔۔۔بھیجنا تھا تو پہلے ہی کہنا چاہیئے تھا نا اسے۔۔۔
اسے اب بنک والوں پر غصہ آرہا تھا۔۔
ایسی ایمرجنسی ہو جاتی ہے کبھی کبھار وہ کسی اور کو اتنے شارٹ نوٹس پر پاکستان سے نہیں بھیج سکتے۔ ۔ورنہ مجھے کہاں بھیجنا تھا انہوں نے۔۔۔سالار نے وضاحت کی۔۔
پھر بھی۔۔۔۔تم کہہ دیتے کہ تم مصروف ہو۔۔تمہیں ان دنوں پاکستان میں کوئی کام ہے۔۔۔۔وہ ہنس پڑا۔۔۔
لیکن مجھے تو کوئی کام نہیں ہے۔۔۔۔میں جھوٹ بولتا؟؟ 
امامہ کو غصہ آیا۔۔زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا کیا؟ 
نیور۔۔۔اپنے کام میں؟ ضرورت ہی نہیں پڑی۔ اس نے اطمینان سے کہا۔ امامہ کچھ بول نہ سکی۔۔
تم ایسا کرو ڈاکٹر صاحب کے گھر چلی جاؤ۔ اتنے دن اکیلی رہوگی تو بور ہوجاؤ گی۔۔
نہیں۔۔میں بور نہیں ہونگی مجھے یہاں بڑے کام ہیں۔۔وہ اس کے مشورے پر کچھ چڑ سی گئی۔
سالار کو اس کی ٹون نے حیران کیا تھا۔ وہ اس طرح کبھی بات نہیں کرتی تھی اور ابھی کچھ دیر پہلے تو وہ بے حد خوشگوار اور پرجوش انداز میں بات کر رہی تھی پھر یکدم اسے کیا ہوگیا۔۔ وہ امامہ سے پوچھنا چاہتا تھا لیکن فوری طور پہ اس نے موضوع بدلنا بہتر سمجھا۔۔ 
اپ سیٹ ایک چھوٹا لفظ تھا اس کیفیت لے لیے جو وہ اس وقت محسوس کر رہی تھی ۔وہ بے حد غم و غصہ میں تھی۔ آخر وہ اسے چار ہفتے کا کہہ کر تو باہر نہیں گیا تھا۔۔وہ بعد میں ان تیس دنوں کے ایک ایک گھنٹے کو گننے لگی۔۔
میں بھی اب اسے ای میل نہیں کرونگی۔ نہ ہی کال کروں گی۔ نہ ہی اس سے پوچھوں گی کہ اس نے کب آنا ہے اور کب نہیں۔۔ آتا ہے تو آئے نہیں تو نہ آئے۔۔جہنم میں جائے میرا ہی قصور ہے۔۔بار بار اس سے نہ پوچھتی تو اس طرح نہیں کرتا وہ۔۔۔
اس رات بستر پر لیٹے ہوئے وہ بے حد رنجیدگی کے عالم میں ان تمام چیزوں کی فہرست بناتی رہی جن میں اسے اب سالار کی نافرمانی کرنی تھی۔ بستر پر لیٹے چھت کو گھورتے ہوئے اس کی فہرست ابھی دو سو پچپن اینٹریز تک پہنچی تھی کہ اسے بیڈ کے بللکل اوپر چھت پر چھپکلی نظر آئی ۔وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔اکیلا گھر اور چھپکلی ۔یہ فی الحال اسکے لیے بد ترین تھا۔۔وہ چھپکلی کو دیکھ کر ہی بیڈ سے اٹھ کر صوفے پر چلی گئ اور اسے پھر سالار پر غصہ آنے لگا تھا۔۔ایک چھوٹی سی چھپکلی دو ہفتے پہلے اپارٹمنٹ میں نمودار ہوئی تھی ۔۔
وہ اس وقت بیڈ سائڈ ٹیبل لیمپ آن کیے ناول پڑھ رہی تھی جو بے حد دلچسپ موڑ پہ تھا جب بستر پہ نیم دراز ہو کہ اپنی ٹانگیں سکیڑے ہوئے اس کی نظریں اچانک چھت پر اپنے بیڈ کے بالکل اوپر موجود چھپکلی پر پڑی ۔سالار برابر والے بستر پر گہری نیند سو رہا تھا ۔وہ عام حالات میں اسے کبھی نہیں جگاتی لیکن یہ اسکے لیے عام حالت نہیں تھی۔۔اس نے اوندھے لیٹے سالار کا کندھا جھنجھوڑا۔۔
سالار۔۔۔۔۔۔۔۔۔سالار۔۔۔۔۔۔۔وہ نیند میں اس کی آواز پر ہڑبڑا گیا۔۔
کیا ہوا؟؟ 
وہ اوپر دیکھو۔۔۔میرے بیڈ کے اوپر چھت پر چھپکلی ہے۔۔
امامہ نے حواس باختہ ہوکر اسے کہا۔۔
سالار نے موندی ہوئی آنکھوں کو مسلتے لیٹے لیٹے ایک نظر چھت کو دیکھا۔۔پھر امامہ کو۔۔اور دوبارہ اوندھے منہ لیٹ گیا۔۔
سالار۔۔۔۔۔امامہ نے دوبارہ اس کا کندھا ہلایا۔۔۔۔
اس کا خیال تھا کہ وہ شاید نیند میں وہ چھپکلی دیکھ نہیں پایا تھا۔۔
دیکھ لی ہے میں نے امامہ۔۔سونے دو۔۔وہ لیٹے لیٹے بڑبڑایا۔۔۔
دیکھ لی ہے تو کچھ کرو اسکا۔۔۔وہ اسکی بے توجہی پر ناراض ہوئی۔۔
چلی جائے گی خود ہی۔۔تم لائٹ آف کر کے سو جاؤ۔۔۔وہ پھر بڑبڑایا۔۔
میں کیسے سو جاؤں وہ مجھے دیکھ رہی ہے ۔اس کی خفگی بڑھی۔۔۔
لائٹ بند کردو۔۔نہ تم اسے دیکھو نہ وہ تمہیں دیکھے۔۔۔
اسے اسکے مشورے سے زیادہ اسکی بے حسی پہ غصہ آیا۔۔
تم میرے لیے ایک چھپکلی نہیں مار سکتے ۔
میں رات کے اڑھائی بجے چھپکلی نہیں مار سکتا۔۔جسٹ اگنور اٹ۔۔۔
میں نہیں اگنور کرسکتی اسے۔۔۔یہ اگر گرے تو سیدھا میری ٹانگوں پہ گرے گی۔۔اس نے چھت کو دیکھتے ہوئے بے بسی سے کہا۔
یار میں تمہاری سائڈ پہ آجاتا ہوں تم میری سائڈ پہ آجاؤ۔۔ 
وہ کروٹ لیتے کہتا ہوا اسی طرح اسکی سائڈ پر چلا گیا۔ وہ اسکے ایثار سے زیادہ اسکی دلیری سے متاثر ہوئی تھی۔ کمرے کی بڑی لائٹ بند کرتے ہوئے وہ اپنا ناول لییے سالار کا بیڈ سائڈ ٹیبل لیمپ آن کر کے اسکے بستر میں بیٹھ گئی۔ سالار تب تک اسی طرح اوندھے منہ لیٹے لیٹے اسکا سائڈ لیمپ آف کرچکا تھا۔۔خود کو قدرے محفوظ پاتے ہوئے کچھ پرسکون انداز میں اس نے ناول کے چند جملے پڑھے پھر دوبارہ چھکلی کو دیکھا۔۔وہ جیسے اسی جگہ پر چپک کر رہ گئی تھی۔۔۔۔امامہ نے سالار کو دیکھا۔۔وہ اس چھپکلی کے عین نیچے بے حد اطمینان سے اسی طرح کمبل اوڑھے اوندھے منہ لیٹا تھا۔۔
سالار۔۔۔۔۔۔تم مرد کتنے بہادر ہوتے ہو۔۔۔اس نے مردوں کو سراہنا ضروری سمجھا۔۔۔
اور سمجھدار بھی۔۔اسے جواباً بڑبڑاہٹ سنائی دی۔
سمجھدار کیسے؟ وہ صفحہ پلٹتے پلٹتے چونکی. ۔۔۔
چھپکلی گرتی تمہارے بیڈ پر لیکن بھاگتی میرے بیڈ کی طرف۔۔اسکا منہ میرے بیڈ کی طرف ہے۔۔جماہی لیتے اسی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے سالار نے سیدھے ہوتے ہوئے کہا۔۔
امامہ نے سر اٹھا کر چھت کو دیکھا اور اگلے ہی لمحے وہ بیڈ سے باہر تھی۔۔چھپکلی کا رخ واقعی سالار کے بیڈ کی طرف تھا۔۔۔
تم سارے مرد بے حد خود غرض ہوتے ہو اور ایک جیسے ہوتے ہو۔۔
وہ بیڈروم سے باہر نکلتے ہوئے جتنی بلند آواز میں یہ اس سے کہہ سکتی تھی اس نے کہا۔۔۔۔
سالار نے بلآخر آنکھیں کھول دی تھی۔۔وہ اسے تنگ کر رہا تھا۔۔۔لیکن اسے اندازہ ہوا کہ تنگ کرنے کے لیے شاید یہ موقع غلط تھا۔۔
دس منٹ بعد اسے چھپکلی کا صفایا کرنے کی اطلاع دیکر وہ اسے منا کر لاؤنج سے واپس لے آیا تھا۔اس نے اگلے کئی دن یہ چھپکلی نہیں دیکھی تھی اور آج یہ چھپکلی پھر آگئی تھی۔۔یقیناً اس نے جھوٹ بولا تھا اس نے اس چھپکلی کو نہیں مارا تھا۔۔ وہ احمقانہ بات اس وقت اس کے لیئے ایک اور پوائنٹ ہوگیا تھا۔۔۔ اگلے دن فون پر اس نے سالار کو اس چھپکلی کے نمودار ہونے کا بتایا۔۔ 
تم نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا کہ تم نے اسے مار دیا تھا۔۔اس نے چھوٹتے ہی سالار سے کہا۔۔
میں نے اسے واقعی مار دیا تھا۔یہ کوئی اور چھپکلی ہوگی۔۔سالار نے لاپرواہی سے کہا۔۔۔۔۔
نہیں یہ وہی چھپکلی تھی ۔تم نے اگر اسے مارا ہوتا تو تم مجھے دکھاتے۔۔وہ اپنی بات پر مصر تھی۔
سالار کا سر گھوم کر رہ گیا۔۔وہ امامہ سے اس سے زیادہ احمقانہ گفتگو کی توقع نہیں رکھ سکتا تھا۔۔
تم اگر کہتی تو میں تمہیں وہ مری ہوئی چھپکلی بھی دکھا دیتا۔۔۔اس نے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی۔۔
نہیں یہ وہی تھی میں اسے پہچانتی ہوں۔۔۔
اگر یہ وہی تھی تو اتنے دن سے کہاں تھی۔۔۔
اس نے ایک ال لوجیکل چیز پر لاجک دینے کی کوشش کی۔۔
جہاں بھی تھی مجھے نہیں پتا لیکن تم یہی چاہتے تھے کہ میں پریشان ہوں۔
سالار نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔۔ وہ اس الزام کے جواب میں کیا کہتا۔امامہ کو کچھ ہوا تھا۔۔لیکن کیا ہوا تھا اسے سمجھ نہیں آئی۔۔
تمہیں پتہ ہے مجھے چھپکلی سے ڈر لگتا ہے لیکن تم پھر بھی اسے یہاں چھوڑ کر گئے۔کیونکہ تمہیں احساس نہیں ہے میرا۔۔تم مجھے پریشان دیکھ کر خوش ہوتے ہو ۔تمہارے لیے ہر چیز مذاق ہے۔۔اسکی کسی بات کا کوئی سر پیر نہیں تھا ۔۔وہ اسکی گفتگو سنتا رہا۔۔
تم ھمیشہ میرے ساتھ ایسا کرتے ہو اور مجھے پتا ہے تم نے ھمیشہ اسی طرح کرنا ہے۔۔کیونکہ تمہارے لیئے صرف تمہاری اپنی اہمیت ہے اور میں تمہارے گھر کی نوکرانی ہوں۔۔۔۔تم جہاں مرضی پھرو لیکن میں ھمیشہ گھر پہ رہوں جیسے غلام رہتے ہیں۔۔۔میں سارا دن کام کروں اور تم میرے لیئے ایک چھپکلی نہیں مار سکتے۔۔اس بے ربط گفتگو کے اختتام پر وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔۔
ساری گفتگو میں ایشو کیا تھا ۔چھپکلی کا نہ مارا جانا، اسکی خود غرضی۔۔اسکے گھر پہ نہ ہونا یا وہ سارے کام جو اسے کرنے پڑ رہے تھے۔۔وہ سمجھ نہ سکا ۔۔
اگلے پانچ منٹ وہ تحمل سے اسکی ہچکیاں رکنے کا انتظار کرتا رہا۔۔اور پھر بلآخر طوفان جب تھم گیا تو اس نے کہا۔۔آئی ایم سوری میرا قصور تھا۔میں فرقان سے کہتا ہوں وہ ملازم کو بھیجے وہ چھپکلی کو مار دے گا۔ فی الحال معذرت کے سوا اسے صورت حال سے نبٹنے کا اور کوئی راستہ نظر نہیں آیا۔۔
نہیں۔۔۔اب میں چھپکلی کے ساتھ رہو گی تاکہ تمہیں پتا چلے۔۔۔اس نے ناک رگڑتے ہوئے اس سے کہا۔۔سالار کو بے اختیار ہنسی آگئ تھی جسے اس نے کھانس کر اس پہ قابو پالیا۔۔وہ جلتی پر تیل نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔امامہ کا مسئلہ کیا تھا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔۔
فرقان کے ملازم نے اس دن آ کر چھپکلی کو مار دیا تھا۔ لیکن اس چیز نے بھی امامہ کے دل میں ممنویت کو پیدا نہیں کیا تھا۔۔
اگلے دن کھانا پکاتے ہوئے اس کے ہاتھوں پر چھری سے کٹ لگ گیا۔۔سنک میں پانی کے نیچے انگلی رکھے وہ پھر اسے یاد آنے لگا۔۔ 
یہ کیا ہوا ہے۔۔ ؟
وہ اس دن آفس سے آنے کے بعد لاؤنج میں ٹہلتے ہوئے فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔امامہ ڈنر کے لیے برتن لگا رہی تھی۔۔وہ بات کرتے ٹہلتے ہوئے کچن کاؤنٹر پہ پڑے پیالے سے کچھ بینز کھا رہا تھا جب امامہ نے وہاں آکر رکھے ہوئے چاول اٹھائیں۔۔سالار نے اسکے ہاتھ کی پشت پر چند آبلے دیکھے ۔فون پر بات سنتے سنتے اس نے بے اختیار اس سے کہا۔۔
کیا ہوا؟؟ ۔۔۔۔۔۔
یہ؟؟ امامہ نے چونک کر اسکی نظروں کے تعاقب میں اپنا ہاتھ دیکھا۔۔
کچھ نہیں ۔ ۔کھانا بنا رہی تھی تو آئل کے کچھ چھینٹیں گر گئے۔۔اس نے لاپرواہی سے بتایا۔۔۔۔
وہ اسی طرح فون پر بات سنتے ہوئےاس کا ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگا۔۔۔پھر اس کا ہاتھ چھوڑ کر اسی طرح فون پر بات کرتے لاؤنج سے غائب ہوگیا۔۔وہ فریج سے پانی نکال رہی تھی جب وہ دوبارہ نمودار ہوا۔۔اس نے فون پر سٹاک مارکیٹ کے کسی ایشو پر بات کرتے ہوئے اس نے امامہ کا ہاتھ پکڑ کر چند لمحوں میں اس پر مرہم لگایا اور پھر اسی طرح دوبارہ چلا گیا۔۔وہ ہل نہ سکی تھی۔اتنے سالوں میں اسکے کسی زخم پہ رکھا جانے والا یہ پہلا مرہم تھا۔۔
کھانا کھاتے ہوئے سالار کی نظر ایک بار پھر اس کے ہاتھ پر پڑی تھی اور اس نے قدرے خفگی کے عالم میں اس سے کہا۔
اگر اسی وقت کچھ لگا لیتی تو یہ آبلے نہ پڑتے۔
مجھے اس سے تکلیف نہیں ہوئی۔
مگر مجھے تکلیف ہو رہی ہے سویٹ ہارٹ۔۔۔
وہ اس سے نظریں ملا کر جواب نہ دے سکی۔اسے یقین تھا کہ اسے تکلیف ہو رہی ہوگی اور اس مرہم سے زیادہ ٹھنڈک اسکے اس جملے نے پہنچائی تھی اسے، تو اب کوئی تھا جسے اسکے ہاتھ پہ آنے والے ایک معمولی زخم پر بھی تکلیف ہوتی تھی۔۔
وہ درد کے احساس سے جیسے دوبارہ آشنا ہورہی تھی اور اب اتنے مہینوں بعد یہ پہلا کٹ تھا جسکے بارے میں اس سے پوچھنے والا کوئی نہیں تھا۔اور اسے یہ پوچھنے والا ایک بار پھر بری طرح یاد آیا تھا۔۔
دوسرے ہفتے کے اختتام تک وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بری طرح جھنجھلانے لگی تھی۔۔ملازمہ کیساتھ، مالی کیساتھ، اسکے گھر آنے والے فرقان کے بچوں کیساتھ اور خود سالار کیساتھ۔۔۔
ًامامہ۔۔۔۔۔۔۔کیا ہورہا ہے تمہیں؟۔۔سب ٹھیک ہے نا؟ سالار کو بلآخر اس سے ڈائریکٹ ہوکر پوچھنا پڑا۔
کیا ہونا ہے مجھے۔۔۔وہ اسکے سوال پر بری طرح چڑی۔۔۔
وہی تو پوچھ رہا ہوں۔۔اس نے تحمل سے کہا۔۔۔
کچھ نہیں ہورہا ہے مجھے۔۔۔۔۔
پھر تم۔۔۔۔۔وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔۔۔۔یہ کہنا ذرا مشکل تھا کہ وہ اسکے ساتھ تلخ ہورہا تھا۔۔
پھر میں کیا؟۔۔۔۔امامہ نے اسکے خاموش ہونے پر پوچھا۔۔
کچھ نہیں۔۔۔میں ابھی دو تین دن تک تمہیں فون نہیں کر سکوں گا۔۔
کیوں؟؟ وہ بری طرح بگڑی۔۔۔اتنا بھی کیا کام ہے کہ تم مجھے چند منٹ کے لیئے بھی کال نہیں کر سکتے۔۔۔
میں تمہیں ای میل کردیا کروں گا۔۔اگر وقت ملا تو کال بھی کروں گا۔۔ وہ اسے تحمل سے سمجھا رہا تھا۔۔
تمجھے ای میل بھی نہ کرو۔۔اس سے اور بھی وقت بچے گا تمہارا۔۔۔۔
اس نے بے حد خفگی کے عالم میں فون بند کردیا ۔اسے سالار پہ بری طرح غصہ آرہا تھا۔۔چند منٹوں بعد دوبارہ کال آنے لگی تھی۔وہ کال ریسیو نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اسے ریسیو کرنا پڑی۔۔
تم نے فون بند کردیا تھا۔۔۔وہ حیرانی سے پوچھ رہا تھا۔۔
ہاں۔۔۔۔۔
کیوں؟؟
تاکہ تمہارا وقت ضائع نہ ہو۔میں نے کل ایک میگزین میں پڑا تھا کہ جن مردوں کو احساس کمتری ہو وہ اپنی بیویوں کو اپنی جھوٹی مصروفیت کے قصے سناتے رہتے ہیں۔۔سالار نے کچھ ہکا بکا ہوکر اسکا جملہ سنا تھا۔۔۔
تاکہ انکی بیویوں کو یہ امپریشن ملے کہ وہ کتنے اہم ہیں۔۔اور یہ دنیا اسکے بنا نہیں چل سکتی۔ سالار نے اسی اچھنبے میں اسکے باقی جملے بھی سنے۔۔اس سے انکی سیلف اسٹیم بڑھتی ہے۔۔۔
اس نے آخری جملہ کہہ کر کچھ دیر کے لیئے سالار کے رد عمل کا انتظار کیا۔۔وہ خاموش تھا۔۔
ہیلو۔۔امامہ کو حدشہ ہوا کہ شاید کال ڈراپ ہوگئ ہے۔۔۔
میں سن رہا ہوں۔۔اس میگزین میں بس اتنا لکھا تھا؟
وہ سنجیدہ لگ رہا تھا لیکن بات سنجیدہ نہیں تھی۔
ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گڈ۔۔۔ڈینٹسٹ کے پاس گئ تھی تم؟ اس نے بات بدلی۔۔
امامہ لی جھنجھلاہٹ میں اضافہ ہوا۔وہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔ وہ اس سے بحث کرنا چاہتی تھی۔
دو گھنٹے بعد اس نے دو ہفتوں پر پراگرام چارٹ اسے ای میل کردی۔اس ڈاکومنٹ کو پڑھنے میں اسے پندرہ منٹ لگے۔ یہ ای میل اسے کس جملے کی وجہ سے کی گئ تھی اسے اندازہ تھا لیکن اسکے باوجود اس نے کسی قسم کی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا۔۔
تم نے فرقان کے گھر ڈنر پہ جانا کیوں چھوڑ دیا؟ سالار نے اس دن اس سے پوچھا۔۔
میری مرضی۔۔۔
وہ کہنا چاہتی تھی کہ ڈنر ٹیبل پر فرقان یا اس کی بیٹی کو دیکھتے ہوئے اسے وہ یاد آتا ہے اور ہر روز ڈنر کے بعد کچھ اور زیادہ اپ سیٹ ہوجاتی تھی لیکن وہ یہ سب نہ کہہ سکی۔
میں جانتا ہوں تم بہت بہادر ہو، اکیلی رہ سکتی ہو ڈنر تو تمہارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، پھر بھی ان کے گھر چلی جاتی تو کوئی ایکٹیویٹی ہوتی تمہارے پاس اس ناولز کے علاوہ۔۔۔
تمہیں کیا پرواہ ہے ۔۔اس نے سالار کے جملے پر جز بز ہوکر کہا۔۔
مجھے تمہاری پرواہ ہے۔۔یہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھنا چھوڑ دو۔۔وہ سنجیدہ تھا۔۔
تم نے مجھے نصیحتیں کرنے کے لیے فون کیا ہے؟ وہ جھنجھلائی ۔
ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو کرتے رہو۔۔۔۔
تم پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔۔ یہی کہنا چاہتی ہو تم۔۔
تم باہر جاکر مجھ سے مس بی ہیو کرنے لگے ہو۔۔
کیا۔۔۔؟؟۔۔سالار کو لگا جیسے اس نے سننے میں کوئی غلطی کردی ہو۔۔
میں بار بار نہیں دہرا سکتی اپنی بات۔ اس نے سردمہری سے کہا۔۔۔
میں مس بی ہیو کر رہا ہوں تمہارے ساتھ؟؟ اس نے بے یقینی سے پوچھا۔۔
ہاں۔۔۔۔۔۔جواب بالکل دو ٹوک تھا۔۔سالار نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔۔۔
میں اگر تمہیں کوئی عقل کی بات سمجھاتا ہوں تو میں مس بی ہیو کرتا ہوں تمہارے ساتھ؟؟ 
اب تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ میں بے وقوف ہوں؟ سالار کا دماغ گھوم گیا۔۔
میں نے کب کہا تم بیوقوف ہو؟ ۔۔۔۔
اب تم مجھ کو جھوٹا کہہ رہے ہو۔۔۔وہ بے بسی سے ہنس پڑا ۔ 
کیا ہوا ہے تمہیں امامہ۔۔۔۔
اب تم کہہ دو کہ میرا دماغ خراب ہوگیا ہے۔۔۔
پانی پیو ۔۔
کیوں پیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا مت پیو۔۔۔ موسم کیسا ہے باہر کا۔۔۔
وہ اب موضوع بدلنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔مگر وہ امامہ کے رد عمل پہ بری طرح حیران تھا۔۔
امامہ! کوئی پریشانی ہے تمہیں؟؟ وہ اگلے دن نوشین کیساتھ اسکے کہنے پہ فورٹریس آئی تھی۔جب چلتے چلتے نوشین نے اچانک اس سے پوچھا۔ وہ بری طرح چونکی۔۔۔پھر مسکرانے کی کوشش کی۔۔
نہیں۔۔۔۔۔نہیں تو۔۔۔۔کیوں۔۔۔
پھر اس طرح کیوں گم صم ہو؟ 
نہیں میں۔۔۔۔میں کچھ سوچ رہی تھی۔۔۔
سالار کیساتھ تو بات ہوتی ہے تمہاری۔۔کوئی جھگڑا تو نہیں ہے۔۔۔
نہیں تو۔۔۔روز بات ہوتی ہے۔۔۔اس نے بے اختیار مسکرانے کی کوشش کی اور ڈسپلے پر لگے ایک سوٹ کی طرف نوشین کو متوجہ کیا۔۔۔وہ اسے یہ کیسے بتاتی کہ یہاں اس کے ساتھ پھرتے ہوئے سالار کتنا یاد آرہا ہے۔۔
میگزین میں آج تم نے کچھ نہیں پڑھا ان مردوں کے بارے میں جو احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔۔اور اپنی بیویوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟؟ سالار نے اگلے دن فون پہ بات کرتے ہوئے اسے چھیڑا۔۔۔
امامہ کا موڈ بری طرح آف ہوا۔۔
تم کیا کہنا چاہ رہے ہو کہ ایسے مرد نہیں ہوتے اور میں فضول بات کرتی ہوں۔۔
میں مذاق کر رہا تھا امامہ۔۔وہ کچھ محتاط ہوا۔۔۔
ایک سنجیدہ بات کو مذاق میں لے رہے ہو تم۔
کونسی سنجیدہ بات؟ امامہ! تم آجکل کونسے میگزین پڑھ رہی ہو ۔۔وہ کہے بغیر نہ رہ سکا۔۔
تمہیں اس سے کیا۔۔۔وہ مزید بگڑی۔۔۔
اگر تم مجھے اس طرح کے اسٹوپڈ ایکسرپٹس سناؤ گی تو میں پوچھوں گا تو سہی نا۔۔۔
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے بحث کرنے لگا تھا۔۔اب تقریباً ہر روز یہی کچھ ہورہا تھا۔۔پچھلے چار دن سے فون کال کے اختتام پر اسے معذرت کر کے فون بند کرنا پڑ رہا تھا۔۔اسے سمجھ نہیں آیا تھا کہ امامہ کو کیا ہوا ہے؟ وہ ناراض پہلے بھی ہوتی تھی مگر اس طرح کی باتوں پہ نہیں ہوتی تھی

سالار اگر اسکے بنتے بگڑتے موڈ کو سمجھ نہیں پا رہا تھا تو وہ بھی خود کو نہیں سمجھ پارہی تھی۔ وہ سارا دن اسکے بارے میں سوچ سوچ کر اداس ہوتی تھی اور اس سے بات کرتے ہوئے وہ بلاوجہ جگھڑتی۔
اسے اس پر شدید غصہ آتا تھا اور کیوں آتا تھا یہ اسکی سمجھ سے باہر تھا۔
وہ سارا دن ٹی وی آن کیے ہوئے اسکی کال کے انتظار میں بیٹھی رہتی تھی یا پھر کمپیوٹر آن کر کے پرانے ای میلز پڑھتے ہوئے کسی نئے ای میل کا انتظار کرتی۔۔چند لائنوں والی ای میلز جن میں وہ انکا حال پوچھتا تھا درجنوں بار پڑھتی تھی اور پھرایک لمبا چوڑا جواب لکھ کر اسکی ای میل کے انتظار میں ساری ساری رات اسکی چیزیں نکال کر صاف کرتے ری ارینج کرتی رہتی تھی۔ پھر اسکے کولیکشن میں موجود چارلی تھیرون کی موویز دیکھتی تھی۔ یہ واقعی بے بسی کی حد تھی۔اسے اب وہ ایکٹریس بھی بری لگنا بند ہوگئ تھی جسکو وہ پہلے سالار کے سامنے دیکھنا پسند نہیں کرتی تھی۔۔۔ہر روز کھانے کی ٹیبل پر وہ اسکے بھی برتن لگا دیتی۔ یہ جیسے کھانے کی ٹیبل پہ اپنی تنہائی دور کرنے کی کوشش تھی۔۔
عید کے لیے اسلام آباد جانے تک گھر کی اس خاموشی اور تنہائی نے اسے مکمل طور پر حواس باختہ کردیا تھا۔۔۔
اسلام آباد آنے کے بعد بھی اس نے خود کو بہتر محسوس نہیں کیا تھا۔۔سالار کی پوری فیملی میں سے صرف عمار اور یسریٰ عید منانے کے لیئے وہاں موجود تھے۔۔
سالار نے طیبہ کو اس کی عید کی شاپنگ کرنے کے لیئے کہا تھا۔۔ وہ بڑے بجھے دل کیساتھ انکے ساتھ چلی گئی تھی۔۔
اسلام آباد آکر یہ بھی پہلی بار ہوا تھا کہ اس نے گیسٹ روم کی کھڑکی سے لگ کر اپنے گھر والوں میں سے کسی کے نظر آنے کا انتظار بھی نہیں کیا تھا۔۔
عید کی صبح پہلے کی طرح اس بار بھی سالار کی کال سے اٹھی۔۔وہ مانٹریال میں اپنا سیشن ختم کرکے کچھ دیر پہلے ہوٹل آیا تھا۔۔
کونسے کپڑے پہن رہی ہو تم آج؟ اس نے مبارکباد دینے کے بعد اس سے پوچھا۔۔
تمہیں بتانے کا فائدہ؟ اس نے بیڈ کے کراؤن کیساتھ پشت ٹکاتے ہوئے کہا۔۔
میں تصور کرنا چاہ رہا ہوں کہ تم کیسی لگ رہی ہو گی۔۔۔
میرے سامنے کبھی تم نے میرے کپڑوں کو غور سے دیکھا تک نہیں، اب وہاں بیٹھ کر کیا تصور کرو گے۔
امامہ ھم کم از کم آج آرگیو نہیں کرینگے۔۔۔سالار نے مداخلت کرتے ہوئے جیسے پیشگی جنگ بندی کا اعلان کردیا۔۔۔۔ تمہیں کیا چاہیئے آج؟؟ فلاورز اور کیک تو ممی سے میں نے کہا ہے تمہارے لیے کچھ اور چاہیئے؟؟ 
نہیں۔۔۔۔وہ بے حد اداس تھی۔۔۔
مجھے مس تو نہیں کر رہی تم۔۔۔سالار نے مذاق کیا تھا۔۔لیکن اس نے جیسے اسکی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا تھا۔۔اسکی آنکھوں میں آنسووں کو سیلاب امڈ آیا تھا۔۔اس نے اپنی آستین کیساتھ آنکھوں کو رگڑ کر صاف کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔وہ اسکی خاموشی پر غور کیے بغیر بات کر رہا تھا۔کینیڈا میں عید پہلے ہوچکی تھی اور وہ عید کے دن بھی کانفرنس اٹینڈ کرتا رہا۔۔۔
کب کی فلائٹ ہے تمہاری؟ اس نے کوشش کی تھی کہ اسکی آواز بات کرتے ہوئے نہ بھرائے۔ وہ بڑی شرمندگی محسوس کرتی اگر وہ یہ جان جاتا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اب اسے فلائٹ کا بتا رہا تھا۔۔
تم نے مجھے کپڑوں کا کلر نہیں بتایا۔۔سالار کو بات کرتے کرتے یاد آیا۔۔تم نے ممی کے ساتھ جاکر کپڑے لیئے تھے؟ 
ہاں لیئے تھے۔۔۔۔۔جو آج پہنوں گی وہ ہیزل گرین ہے۔۔
ہیزل گرین؟؟ وہ بے اختیار اٹکا۔۔وہ تو آنکھیں ہوتی ہیں۔۔۔
آنکھوں کا کلر ہوتا ہے ۔ھمیشہ کی طرح اس نے تصحیح کی۔۔۔
اووہ۔۔۔۔۔آج میں جینیفر کی آنکھوں کو غور سے دیکھوں گا۔۔۔اس نے ڈنر پر اپنی کسی ساتھی کا نام لیا۔۔۔
کیوں؟؟ 
اسکی آنکھوں میں مجھے اپنی بیوی کے کپڑوں کا کلر نظر آئے گا۔۔وہ سنجیدہ تھا۔۔۔۔۔وہ بے اختیار ہنس پڑی۔۔۔۔
امامہ۔۔۔جب سے میں یہاں آیا ہوں تم پہلی بار ہنسی ہو۔۔سالار نے اسکی ہنسی کو نوٹس کیا۔۔۔اور شادی کے بعد اتنے مہینوں میں یہ پہلا کلر ہے جسے تم نے شناخت کیا ہے اور وہ بھی کسی عورت کی آنکھوں کی وجہ سے۔۔۔
تم جیلس ہو رہی ہو۔۔وہ ہنس پڑا۔۔
ہاں بس اب ایک یہی تو کام رہ گیا ہے میرے کرنے کو۔۔۔
اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔۔
یعنی نہیں ہورہی یا نہیں ہوسکتی۔۔۔۔
وہ پوچھ رہا تھا اور وہ جواب نہ دے سکی اسکی خاموشی پر وہ ہنسا۔۔ 
اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔۔وہ جزبز ہوئی۔۔۔
اپنی خوش فہمی پر ہنسا ہوں۔کم از کم تم کسی عورت سے میرے لیئے جیلس نہیں ہوسکتی۔
وہ اسے تنگ کر رہا تھا اور وہ جانتی تھی اسکا اشارہ رمشہ کی طرف تھا۔۔
تم مجھے صرف یہ بتاؤ کہ کب آ رہے ہو؟ 
اس نے بات بدلنا بہتر سمجھا۔۔
وہ عید کے دوسرے دن رات کی فلائٹ سے واپس لاہور آگئ تھی۔ کیونکہ اگلی رات آٹھ بجے کی فلائٹ سے وہ آرہا تھا۔وہ زودرنجی اور حساسیت جو پچھلے چار ہفتوں سے اسے ناخوش رکھے ہوئے تھی وہ یکدم غائب ہوگئ تھی۔
اور چار ہفتے کے بعد بلآخر اس نے کیک کا وہ ٹکڑا اور کین ڈسپوز آف کردیئے۔۔۔
اگر فرقان کو سیدھا ہسپتال سے ایئرپورٹ نہ جانا ہوتا تو وہ خود اسے ریسیو کرنے چلی جاتی وہ کچھ اتنی ایکسائٹڈ ہورہی تھی۔۔
نو بج کر پینتالیس منٹ پر بلآخر ڈور بیل بجی۔ اسے دروازے تک پہنچنے میں سیکنڈز لگے تھے۔۔
خدایا۔۔کیا خوشی اسے کہتے ہیں جو اس شخص کے چہرے پر پہلی نظر ڈالتے محسوس کی میں نے۔۔۔اس نے دروازہ کھول کر ڈور ہینڈل پر اپنا کپکپاتا ہاتھ رکھا سالار کو دیکھ کر اچھنبے سے سوچا. 
فرقان سے باتیں کرتا دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ سیدھا ہوا اور ان دونوں کی نظریں ملیں۔۔۔وہی گرمجوش مسکراہٹ جس کی وہ عادی تھی۔وہ اسے دیکھتے ہی چند لمحوں کے لیئے جیسے ساکت ہوگئ۔۔
امامہ۔۔۔سامان کی ڈیلیوری دینے آیا ہوں چیک کرو۔۔کوئی بریکج یا ڈیمج تو نہیں۔۔۔فرقان نے ایک سوٹ کیس کھینچ کر اندر لیجاتے ہوئے اسے چھیڑا۔ سالار مسکرایا تھا۔ 
امامہ نے سلام کا جواب دینے کی کوشش کی تھی لیکن اسکے گلے میں کوئی گرہ لگنے لگی تھی۔ بات یہی تک ہوتی تو ٹھیک تھی لیکن آنکھوں میں پانی کیسے اور کیوں آگیا تھا۔وہ آگے بڑھا اور ھمیشہ کی طرح اسے گلے لگایا۔۔جیسے وہ آفس سے آنے کی بعد لگایا کرتا تھا۔۔ بے اختیار آنسووں کا ایک اور ریلہ آیا۔۔۔یہی تو وہ ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔۔۔یہی نرم لمس۔۔اپنے گرد یہی بازوؤں کا حصار۔۔
کیسی ہو تم۔۔وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔۔گلے گرہیں اور بڑھ گئ۔ اس نے اب اسکو خود سے الگ گیا اور اسکا چہرہ اور آنسو دیکھے۔۔
کیا ہوا؟؟ وہ ٹھٹکا۔۔۔اور سوٹ کیس اندر لیجاتے ہوئے فرقان نے پلٹ کر دیکھا۔ 
میں ابھی۔۔۔۔ابھی سلاد کے لیئے پیاز کاٹ رہی تھی۔ اس نے کچھ گھبراہٹ میں مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئےبھرائ آواز میں کہا۔۔۔پھر شاید خود ہی اسے بہانہ کمزور لگا۔وہ سر میں کچھ درد تھا۔اور فلو تھا۔۔ فرقان کی مسکراتی نظروں سے وہ کچھ گڑبڑائی۔
سالار نے فرقان کو نظرانداز کیا اور ایک بار پھر اسے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔۔تو یار کوئی میڈیسن لینی چاہیئے تھی۔۔
کوکنگ رینج پہ کچھ رکھ کے آئی ہوں ۔۔وہ رکے بنا کچن میں چلی گئی۔
اسکے سامنے کھڑے رہ کر اس سے نظریں ملا کر جھوٹ بولنا مشکل ہوگیا تھا۔۔سنک میں چہرے پر پانی کے چھینٹے مار کر اس نے کچھ پانی پیا. آواز کی تھرتھراہٹ صرف اس سے ختم ہوسکتی تھی۔
بیٹھو کھانا کھا کر جاؤ نا۔۔۔وہ جب لاؤنج میں آئی تو سالار فرقان سے کہہ رہا تھا۔
نہیں۔۔۔اس وقت نہیں۔۔کھانے پہ انتظار کر رہے ہونگے بچے۔ کچھ دنوں بعد چلیں گے کہی ڈنر کے لیئے۔۔۔وہ بیرونی دروازے کی طرف جاتے ہوئے بولا۔۔سالار دروازے تک اسے چھوڑنے گیا۔وہ کچن میں آکر کھانا اور برتن لگانے لگی۔۔
وہ دروازے سے واپسی پر کچن میں سیل فون پر بات کرتے ہوئے آیا ۔فون پر سکندر تھے۔ امامہ نے اسے کچن کاؤنٹر پہ رکھے پانی کی بوتل کو کھولتے دیکھا. فون کندھے اور کان کے بیچ دبائے اس نے بوتل کا ڈھکن کھولا۔۔امامہ نے اسکے گلاس کی طرف جانے سے پہلے ایک گلاس لاکر اسکے سامنے کاؤنٹر پہ رکھ دیا۔سالار سے بوتل لیکر اس نے گلاس میں اسکے لیئے پانی ڈالا۔۔
سالار نے سکندر سے بات کرتے ہوئے سر کے اشارے سے اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر پانی کی گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔۔
پاپا خیریت پوچھ رہے ہیں تمہاری۔۔
فریج کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ مسکرائی۔
میں اب ٹھیک ہوں۔۔سالار نے اسکے جملے پر غور کیے بغیر سکندر تک اسکا جملہ پہنچا دیا۔۔
کاؤنٹر پر پڑے سلاد میں سے سیب کا ایک ٹکڑا ٹھا کر منہ میں ڈالتے ہوئے وہ اسی طرح سکندر سے بات کرتے ہوئے کچن سے نکلا۔۔امامہ نے اسے ٹیرس کا دروازہ کھول کر پودوں پر نظر دوڑاتے دیکھا۔۔ٹیبل پر برتن رکھتے ہوئے اسکی آنکھوں میں ایک بار پھر نمی آنے لگی۔ ایک مہینہ بعد یہ جگہ اسے گھر لگی تھی۔بات محبت کی نہیں بلکہ عادت کی تھی اور وہ اسکی عادی ہوچکی تھی اور بعض دفعہ عادت محبت سے بھی زیادہ جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔۔۔
اسے اچانک خیال آیا کہ وہ کھانا کھانے سے پہلے کپڑے تبدیل کریگا بیڈروم جاکر وی اسکے لیئے کپڑے نکال کر واش روم میں لٹکا کر آئی۔
وہ واش روم سے نکل رہی تھی جب وہ بیڈروم میں داخل ہوا۔ 
میں شاور لیکر کھانا کھاؤں گا۔اس نے جیسے اعلان کیا۔۔
میں نے تمہارے کپڑے اور ٹاولز رکھ دیئے ہیں اور یہ میں تمہارے لیئے نئے سلپرز لیکر آئی تھی۔ وہ سلپرز کا ڈبہ شوریک سے نکالتے ہوئے بولی۔
رہنے دو امامہ میں خود ہی نکال لوں گا۔۔۔
ریسٹ واچ اتارتے ہوئے اس نے امامہ کو منع کیا۔۔اسے کبھی بھی کسی دوسرے کا اپنا جوتا اٹھانا پسند نہیں تھا۔وہ جانتی تھی۔۔لیکن اسکے منع کرنے کے باوجود سلپرز نکال لائی تھی۔۔
کچھ نہیں ہوتا۔۔اس نے سلپرز اسکے پاس رکھ دیئے۔
وہ اب بیڈ پر بیٹھا اپنے جوتے اور جرابیں اتار رہا تھا اور وہ بے مقصد اس کے پاس کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔۔سالار نے کچھ حیرانی سے نوٹس کیا تھا۔۔
یہ یلو کپڑے تم نے میرے انتظار میں پہنے ہیں؟ اس نے جرابیں اتارتے ہوئے امامہ کو چھیڑا۔۔وہ بے وجہ ہنسی۔۔وہ مسٹرڈ کو یلو کہہ رہا تھا۔۔لیکن آج اس نے تصحیح نہیں کی ۔
نائس سلپرز۔۔۔اس نے سلپرز پہنتے امامہ سے کہا۔۔
میں رکھ لیتی ہوں۔۔۔امامہ نے جوتے اور جرابیں اس سے لینے کی کوشش کی۔
کیوں یار۔۔پہلے کون رکھتا تھا۔۔سالار نے کچھ حیرانی سے اسے روکا۔۔امامہ رک گئی۔۔
امامہ نے بیڈ سائڈ ٹیبل پر اس کی رسٹ واچ اور سیل فون کو دیکھا۔ ہر خالی جگہ بھرنے لگی تھی۔۔ جب تک وہ نہا کر آیا امامہ کھانا لگا چکی تھی۔۔سالار نے ڈائننگ ٹیبل پہ نظر ڈالتے ہی بے اختیار کہا۔۔
امامہ کیا کیا پکا رکھا ہے یار۔۔۔
جو جو تمہیں اچھا لگتا ہے۔ اس نے سادگی سے کہا۔۔
مجھے۔۔؟ وہ کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے ٹیبل پر ڈشز دیکھ کر جیسے سوچ میں پڑا۔۔
تم نے اپنا وقت ضائع کیا۔۔
کوئی اور وقت ہوتا تو وہ ہورے دن کی محنت پر بولے جانے والے اس جملے سے سخت ناراض ہوتی۔ لیکن اس وقت اسے کچھ بھی برا نہیں لگ رہا تھا وہ اتنی ہی سرشار تھی۔۔۔
میں نے اپنا وقت تمہارے لیئے استعمال کیا۔۔اس نے مدھم آواز میں سالار کی تصحیح کی۔۔۔
لیکن تم تھک گئی ہوگی۔۔۔
نہیں۔۔۔کیوں تھکوں گی میں؟ ١ٗٗاس نے چاولوں کی ڈش سالار کی طرف بڑھا دی۔۔
سالار نے اسکی پلیٹ میں ہمیشہ کی طرح پہلے چاول ڈالے۔۔اپنی پلیٹ کے کونے میں پڑے ان چاولوں کو دیکھ کر اسکا دل بھر آیا تھا۔۔وہ اب اپنی پلیٹ میں چاول ڈال رہا تھا۔ ایک مہینے لے بعد وہ اسکے اتنے قریب بیٹھی تھی۔ کھانا سرو کرتے ہوئے اسکے ہاتھ دیکھ رہی تھی سفید شرٹ کی آستینیں موڑے اسکے ہاتھوں نے ھمیشہ کی طرح اسکو اپنی طرف متوجہ کیا۔
پینٹنگز مکمل ہو گئ ہیں تمہاری؟ وہ کھانا شروع کرتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا۔
کون سی پینٹنگز ؟اس نے بے خیالی سے کہا۔۔وہ ٹھٹکا۔۔
تم بنا رہی تھی نا کچھ۔۔۔اس نے اسے یاد دلایا۔۔۔
یہ بھی لو۔۔اس نے جواب دینے کی بجائے ایک اور ڈش اس کی طرف بڑھا دی۔
ڈر تو نہیں لگا تمہیں یہاں اکیلے رہتے ہوئے؟ اس نے پوچھا۔
کھانا اچھا ہے؟ امامہ نے ایک بار پھر جواب گول کیا۔۔
ھمیشہ اچھا ہوتا ہے ۔وہ مسکرایا۔۔۔
کتنے ناولز پڑھے تم نے؟ وہ اب ہوچھ رہا تھا۔
یہ چوپس بھی ہیں۔۔اس نے ایک اور ڈش سرو کی۔
تمہاری فلائٹ ٹھیک رہی۔۔
ہاں اوور آل کچھ بمپی رہی لیکن ٹھیک ہی تھی۔۔۔
اور کانفرنس بھی اچھی رہی؟
ایکسیلنٹ۔۔۔اس نے بے اختیار کہا۔۔
کیا روٹین تھی تمہاری؟ وہ اسے موضوع سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔۔۔
میری روٹین۔۔۔۔۔وہ سوچ میں پڑی۔۔۔
ہاں کیا کیا کرتی تھی سارا دن۔۔وہ اب چپاتی کا ٹکڑا توڑتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔
جو پہلے کیا کرتی تھی۔۔اس نے نظریں چرا کر ایک اور ڈش اس کی طرف بڑھا دی۔۔
لیکن تب تو بہت زیادہ وقت ہوتا ہوگا تمہارے ساتھ۔۔
بالکل۔۔۔ساری شام۔۔۔ساری رات۔۔۔۔
پھر تو عیش ہوگئے ہونگے تمہارے؟ اپنی پلیٹ میں قورمہ نکالتے ہوئے اس نے مسکرا کر کہا۔۔
امامہ نے جواب دینے کی بجائے اپنی پلیٹ کو دیکھا جس میں چیزوں کا ڈھیر اسی طرح پڑا تھا۔ اس سے کچھ کھایا نہیں جارہا تھا۔
تم سعیدہ اماں کو یہاں لے آتی۔۔۔سالار نے یکدم اس سے کہا۔۔اسے پتا نہیں کیا خیال آیا تھا۔
میں نے کہا تھا ان سے لیکن تمہیں تو پتا ہے انکا وہ اتنے دنوں کے لیے اپنا گھر نہیں چھوڑ سکتی۔ اس نے جواب دیا۔
دیٹس انڈر سٹینڈ ایبل۔۔۔ سالار نے کھانا کھاتے ہوئے بے اختیار ایک نوالہ اسکی طرف بڑھایا۔ وہ آخری لقمہ ھمیشہ اسے کھلاتا تھا۔۔ایک لمحے کے لیے وہ ٹھٹکی پھر اس نے لقمہ منی میں لے لیا۔لیکن اسے چبا نہ سکی۔ وہ لقمہ جیسے آخری حد ثابت ہوا۔۔ وہ بے اختیار رو پڑی۔۔وہ پانی پیتے پیتے یکدم رک گیا۔
کیا ہوا؟ وہ ہکا بکا تھا۔ ہونٹوں پہ ہاتھ رکھ کر وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتی گئ۔
کیا ہوا ہے امامہ۔۔وہ بری طرح بدحواس ہوا۔۔کم از کم اس وقت اس طرح کی گفتگو کے دوران آنسو؟ وہ اس کی وجہ تلاش نہیں کرسکا۔۔
ایک دفعہ آنسو بہہ جانے کے بعد سب کچھ آسان ہو گیا تھا۔
فار گاڈ سیک ۔۔تم پاگل کردو گی مجھے۔۔کیا ہوا. ؟ سب کچھ ٹھیک رہا میرے بعد؟ کسی نے تمہیں پریشان تو نہیں کیا؟ وہ اب مکمل طور پر حواس باختہ تھا۔۔ ٹشو پیپر سے آنکھیں رگڑتے ہوئے امامہ نے خود پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے سر ہلایا۔
تو پھر کیوں رو رہی ہو۔۔سالار مطمئن نہیں ہوا۔
ایسے ہی بس میں تمہیں بہت مس کرتی رہی اس لیے۔۔وہ کہتے کہتے پھر رو پڑی۔۔
سالار کو لگا جیسے اس نے سننے میں غلطی کی ہو۔۔۔
کس کو مس کیا؟؟ 
تمہیں۔۔۔اس نے سر جھکا کر روتے ہوئے کہا۔۔وہ چند لمحوں کے لیے ساکت ہوگیا۔۔
مجھے کس لیئے؟ یہ بے یقینی کی انتہا تھی۔۔
وہ روتے روتے ٹھٹکی۔۔اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر بے حد خفگی کے عالم میں ٹیبل سے اپنی ڈنر پلیٹ اٹھاتی ہوئ کچن چلی گئی۔۔
میرا دماغ خراب ہوگیا تھا اس لیئے۔۔۔وہ کچھ بول نہ سکا۔۔۔
وہ اب برتن اٹھا اٹھا کر لے جارہی تھی اور سالار بالکل ہونق سا پانی کا گلاس ہاتھ میں لیئے اسے اپنے سامنے سے برتن اٹھاتے دیکھ رہا تھا۔۔وہ اسکے رونے سے کبھی اتنا حواس باختہ نہیں ہوا تھا جتنا اس چھوٹے سے اعتراف سے ہوا. ۔۔۔۔
وہ چار ہفتے باہر رہ کر اس کے جس رویے کو سمجھنے کی کوشش میں ناکام ہوا تھا وہ اب سمجھ آرہا تھا۔۔اسکے لیے یہ ناقابل یقین تھا کہ امامہ اسے۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔۔۔وہ کچن میں ادھر ادھر جاتے ہوئے اسی طرح آنکھیں رگڑتی ہوئی چیزیں سمیٹ رہی تھی۔۔
وہ گلاس ٹیبل پر رکھ کر کچن آگیا تھا۔وہ فریج سے سویٹ ڈش نکال رہی تھی۔۔سالار نے اسکے ہاتھ سے دونگا پکڑ کر کاؤنٹر پہ رکھ دیا۔ کچھ کہے بغیر اس نے اسے گلے لگایا۔ بڑی نرمی سے یوں جیسے تلافی کر رہا ہو۔۔معذرت کر رہا ہو۔۔وہ خفگی سے الگ ہونا چاہتی تھی اسکا ہاتھ جھٹکنا چاہتی تھی لیکن بے بس تھی۔۔برسات پھر ہونے لگی۔۔وی اسکی عادتیں خراب کر رہا تھا۔۔
انکے درمیان ایک لفظ کا بھی تبادلہ نہیں ہوا۔۔
برسات تھمنے لگی تھی۔۔وہ ہاتھ سے گال اور آنکھیں خشک کر کے اس سے الگ ہوگئ تھی۔۔
دراصل میں گھر میں اکیلی تھی اس لیئے مس کرتی رہی۔۔
انکار۔ اقرار۔۔اعتراف۔۔پھر انکار۔۔ یہ مشرقی عورت کی زندگی کا دائرہ تھا وہ بھی اس دائرے میں گھومنے لگی تھی۔۔
ہاں۔۔۔اکیلا ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔۔سالار نے اسکے جھوٹ کو سچ بنانے میں اسکی مدد کی. امامہ کا حوصلہ بڑھا۔۔
دانت میں درد تھا تو۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔اس لیے مجھے رونا آگیا ۔۔وہ اٹکی پھر اس نے کہا۔۔
یاں مجھے اندازہ ہے دانت کا درد بہت تکلیف دہ ہوتا ہے. ایک دفعہ ہوا تھا مجھے۔۔میں جانتا ہوں کیا حالت ہوتی ہے۔۔۔وہ نظریں ملائے بغیر جھوٹ بول رہے تھے۔
آ۔۔۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔۔وہ اٹکی اب تیسرا جھوٹ اسکے ذہن میں نہیں آرہا تھا۔جو سوال آرہا تھا اس نے وہی پوچھا۔۔۔تم نے مجھے مس نہیں کیا۔۔؟ 
ہر دن ہر گھنٹہ ہر سیکنڈ۔۔۔ وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہا تھا اور امامہ کی آنکھوں میں جیسے ستارے جھلملانے لگے تھے۔۔
چار ہفتے تمہارے ساتھ نہیں تھا۔۔اگر تمہارا خیال ساتھ نہ ہوتا تو میں مر جاتا۔۔
تم جھوٹے ہو۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں ہنسی تھی۔۔
تم بھی ۔۔۔۔سالار نے بے ساختہ بتایا۔۔۔
وہ روتے ہوئے ہنس رہی تھی لیکن چار ماہ میں پہلی دفعہ سالار کے لیے وی برسات قابل اعتراض نہیں تی.-
وہ اس رات بیڈ پر اس سے چند انچ دور کروٹ کے بل لیٹی کہنی تکیے پر ٹکائے اس سے باتیں کرتی رہی تھی ۔ایک مہینے کے دوران اکھٹی ہوجانے والی ساری باتیں۔اسے اندازہ نہیں ہوا تھا کہ صرف وہ بول رہی تھی۔سالار بالکل خاموش چت لیٹا اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے اسے سن رہا تھا۔وہ خاموش سامع پلکیں جھپکائے بغیر صرف اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔۔اسکی آنکھوں کے تاثرات اسکے چہرے پر جھلکنے والے رنگ بات کرتے ہوئے اسکی ہنسی کی کھلکھلاہٹ وہ جیسے سینیما کی فرنٹ رو میں بیٹھا ہوا ایک سحرزدہ ناظر تھا۔۔کہنی کے بل نیم دراز جب وہ تھک جاتی تو پھر اسکے کندھے پر سر رکھتے ہوئے کہتی۔۔۔اچھا چلو اب سو جاتے ہیں۔۔۔
یہ جملہ وہ شاید پچیس دفعہ کہہ چکی تھی۔۔
اس کے کندھے پہ سر رکھے اسے پھر کچھ یاد آجاتا تو وہ یکدم سر اٹھا کر اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھتی۔ میں نے تمہیں یہ بتایا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔
سالار نفی میں سر ہلادیتا گفتگو پھر دوبارہ وہی سے شروع ہوجاتی۔ خاموش سامع پھر وہی فلم دیکھنے لگتا. ۔۔
یہ کونسی اذان ہو رہی ہے؟ وہ بات کرتے کرتے چونکی۔۔۔
دور کہیں سے اذانوں کی آوازیں سنائی دی۔ 
فجر کی۔ سالار نے پرسکون انداز میں کہا۔۔وہ بری طرح گڑبڑائی۔ 
او مائی گاڈ۔۔فجر ہوگئی۔۔اور میں۔۔۔تمہیں تو سونا چاہیئے تھا تم تو تھکے ہوئے تھے۔مجھے پتا ہی نہیں چلا۔ تم مجھے بتا دیتے۔۔وہ اب بری طرح نادم ہورہی تھی۔۔مجھ سے کہنا چاہیئے تھا تمہیں۔کیوں نہیں کہا تم نے۔
کیا کہتا۔۔۔وہ اب پرسکون تھا۔ 
یہی کہ تم سونا چاہتے ہو۔۔ 
لیکن میں تو سونا نہیں چاہتا تھا۔۔
لیکن مجھے تو وقت کا پتا ہی نہ چلا کم از کم تم کو مجھے بتانا چاہیئے تھا۔۔وہ واقعی شرمندہ ہورہی تھی. 
تمہارا خیال ہے مجھے وقت کا احساس تھا؟ 
تم سو جاؤ اب۔۔۔ اور آئی ایم سوری۔ کتنی فضول باتیں کی میں نے تم بھی کیا سوچ رہے ہونگے ۔۔
میں تو نماز پڑھ کر سوؤں گا اب۔اور میں صرف یہ سوچ رہا تھا کہ آج تم نے مجھ سے اتنی باتیں کیسے کرلی۔۔
تم نے تو غور سے سنی بھی نہیں ہونگی میری باتیں۔۔وہ شرمندگی سے مسکرئی۔
ایک ایک بات سنی ہے۔۔چاہو تو دہرا سکتا ہوں۔۔۔آج تک تم نے جب جب جو کچھ بھی کہا ہے مجھے یاد ہے اور ھمیشہ یاد رہیگا۔۔۔
اسکا لہجہ ہموار تھا لیکن آنکھوں میں کوئی تاثر تھا جس نے چند لمحوں کے لیئے امامہ کو باندھا تھا۔۔
اسی طرح باتیں کروگی تو ہر رات جاگ سکتا ہوں تمہارے لیے۔۔امامہ نے نظریں چرا لی۔۔۔
اس سے کچھ دور ہٹتے ہوئے اس نے تکیے پہ سر رکھ دیا ۔وہ اب سیدھی لیٹی چھت کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
سائڈ ٹیبل پر پڑے سیل فون کے یکدم بجتے الارم کو بند کرتے ہوئے سالار نے اس کی طرف کروٹ بدلی۔۔۔کہنی کے بل نیم دراز اس نے امامہ سے کہا۔۔
کچھ اور بتانا ہے تم نے؟ امامہ نے اسکا چہرہ دیکھا۔وہ سنجیدہ تھا۔۔
نہیں۔۔۔۔اس نے مدھم آواز میں کہا۔۔۔۔
آئی لو یو۔۔۔جواباً سالار کے جملے نے اسے چند لمحوں کے لیے ساکت کیا۔۔وہ اسکے پاس تھا اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا جیسے کچھ اس سے سننے کی خواہش رکھتا ہو۔۔۔
تھینک یو۔۔۔۔
وہ بے اختیار ہنسا۔۔۔ایک گہرا سانس لیکر ۔ ایک لمحے کے لیئے آنکھیں بند کرتے ہوئے اس نے جیسے گھٹنے ٹیک دیئے۔۔وہاں اسکے قریب کوئی اور عورت ہوتی تو اسے اظہار محبت ہی ملتا ۔۔۔یہ امامہ ہاشم تھی اسکا اظہار تشکر ہی کافی تھا۔۔۔۔
*******----&*****---******
یہ میں تمہارے لیے لایا تھا ۔۔۔وہ دس بجے کے قریب اسکے ساتھ ناشتہ کرنے کے بعد ٹیبل صاف کر رہی تھی جب وہ بیڈروم سے ایک خوبصورت پیکنگ میں ایک باکس لیکر اسکے پاس آیا تھا. 
یہ کیا ہے۔۔؟وہ ٹیبل صاف کرتے کرتے رک گئی۔۔
دیکھ لو۔۔۔سالار نے باکس اسکی طرف بڑھایا۔۔۔
جیولری ہے؟ اسکو. ۔۔۔۔۔۔۔لیبل اور باکس ڈیزائن سے کچھ اندازہ ہوگیا تھا۔۔سالار جواب دینے کی بجائے کندھے اچکا کر خاموش رہا۔۔امامہ نے بڑے تجسس اور احتیاط سے اس باکس کی نفیس اور خوبصورت پیکنگ کو ہٹا کر باکس کھول لیا۔۔سرخ مخمل جیسے ایک بے حد مہین اور چمکدار کپڑے کی تہوں کے درمیان ایک کرسٹل رنگ کیس تھا اور اس کیس سے نظر آنے والی رنگ نے کچھ دیر کے لیے اسے ساکت کیا۔۔اسکویر ڈائمنڈز کے بینڈ کے ساتھ وہ ایک پلاٹینم ٹیولپ ڈائمنڈ رنگ تھی۔۔چودہ قیراط کے اس ڈائمنڈ کے گرد ننھے ننھے نیلم کے گول گول نگینوں کا ایک دائرہ تھا۔۔بہت دیر. مسمرائزڈ اس رنگ پر نظریں جمائے اس نے بے اختیار گہرا سانس لیکر اپنا پہلا رد عمل دیا یہ صرف ڈائمنڈ نہیں تھے جو اسکو حیران کر رہے تھے بلکہ وہ پیچیدہ ڈیزائن بھی جس میں وہ سارے جیولز جڑے تھے. 
یہ بہت خوبصورت ہے۔۔ اس نے بمشکل کہا۔۔سالار نے ہاتھ بڑھا کر کرسٹل کا کیس کھولا رنگ کو نکالا اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر اس نے وہ رنگ اسکی انگلی میں پہنا دی۔۔
ہاں۔۔۔یہ اب خوبصورت لگ رہی ہے۔۔
اور دیکھو یہ بالکل میری انگلی کے سائز کے مطابق ہے وہ جیسے کچھ اور ایکسائٹڈ ہوئی تھی۔۔۔
تمہاری انگلی کا سائز لیکر بنائی گئی ہے کیونکہ تمہاری ایک رنگ لیکر گیا تھا میں۔۔
اس نے اسکے ہاتھ کو چومتے ہوئے کہا جس میں رنگ پہنا تھا۔ 
یہ ویڈنگ گفٹ ہے تمہارے لیے۔ سالار نے اسکا ہاتھ چھوڑتے ہوئے کہا. اس نے کچھ حیران سالار کو دیکھا۔ 
ویڈنگ گفٹ؟؟ چار مہینے ہوگئے ہیں شادی کو۔۔۔
ہاں۔۔۔۔۔میں نے تمہیں ویڈنگ گفٹ نہیں دیا تھا۔۔پہلے یاد نہیں تھا بعد میں پیسے نہیں تھے اس نے ہنس کر کہا۔۔۔۔۔۔۔
اور اب کہاں سے آئے پیسے۔۔۔
آگئے کہیں سے۔۔اس نے ٹالا۔۔امامہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
کوئی غلط کام نہیں کیا میں نے۔۔۔وہ بے اختیار شرمندہ ہوئی۔۔ 
میں نے کب کہا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو ڈاکٹر صاحب کے ہاں چلتے ہیں اور سعیدہ اماں سے بھی مل کر آتے ہیں۔۔۔میرےبیگ میں کچھ گفٹس ہیں انکے لیے وہ نکال لو۔۔سالار نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی تھی۔۔
تھینک یو سالار۔۔۔وہ جاتے جاتے ٹھٹکا۔۔۔۔
کس لیے۔۔۔؟؟
ہر چیز کے لیے۔۔۔
یہ سب تمہارا ہی ہے۔۔۔امامہ نے نظریں چرائی۔۔۔
میں نے سوچا تمہیں یاد بھی نہیں ہوگا کہ تم نے مجھے شادی پر کوئی گفٹ نہیں دیا۔۔۔۔۔۔اپنے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے خوشی سے سرشار ہوئی تھی۔۔۔وہ واحد گلہ تھا جو وہ سالار کے لیے دل میں رکھے ہوئے تھی. 
نہیں بھولا نہیں تھا۔۔
************************
مائی گاڈ۔۔۔۔دیکھو۔۔۔وہ واک وے پر چلتے چلتے بے اختیار ٹھٹکی تھی۔۔۔
سالار نے اسکی نظروں کا تعاقب کیا۔۔وہ دونوں ریس کورس میں لگنے والے ایک میلے کو دیکھنے آئے تھے ۔اب بے مقصد میلے کی جگہ سے کچھ دور چہل قدمی میں مصروف تھے جب امامہ واک وے کے داہنی طرف درختوں کے اطراف پانی میں ڈوبی ہوئی گھاس میں نظر آنے والے عکس کو دیکھ کر ٹھٹک گئیی تھی۔اس عکس کو دیکھ کر وہ بھی کچھ دیر کے لیئے سحرزدہ سا ہوگیا تھا۔۔یوں لگ رہا تھا جیسے وہ رنگ ونور سے بھری کسی وادی کے کنارے کھڑے اس میں چمکتے ہوئے رنگیں ہیرے جواہرات کے درخت دیکھ رہے ہو یا الف لیلی کا کوئی منظر دیکھ رہے ہو ۔ جیسے جنت میں رات ہوگئی ہو۔۔۔
طویل خاموشی کے بعد اس نے امامہ کی آواز سنی۔اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا ۔۔
ایسی ہوتی ہوگی جنت؟؟ سالار نے اسے کہتے سنا۔۔
وہ کچھ کہنے کی بجائے دوبارہ اس پانی کو دیکھنے لگا۔۔
جنت میں ستارے ہونگے؟ وہ پوچھ رہی تھی۔۔
ہاں بہت سارے ہونگے۔۔اس نے اندازہ لگایا۔۔
اتنے رنگوں کے؟
۔ کائنات میں موجود ہر رنگ۔۔۔وہ بے اختیار محظوظ ہوکر ہنسی۔۔اسے جواب پسند آیا ۔
رات ایسی منور ہوتی ہوگی۔۔۔عکس پہ نظریں جمائے وہ جیسے بے خود ہورہے تھے۔۔
اس سے زیادہ روشن اس سے زیادہ منور۔۔۔سالار نے بے اختیار کہا۔۔اس نے اپنی انگلی سے عکس کو چھونے کی کوشش کی ۔۔سالار نے بروقت اسے کھینچا۔۔
درختوں پر لائٹس آن ہیں پانی میں کرنٹ بھی ہوسکتا ہے۔۔وہ ناراض ہوا تھا۔۔
میں اسے چھونا چاہتی تھی۔۔
یہ عکس جنت نہیں۔۔
جنت میں اور کیا ہوگا۔
تم۔۔۔۔۔۔اس نے گردن موڑ کر دیکھا اسے وہ عکس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
صرف میں؟؟ اور تم نہیں ہوں گے؟؟ پتا نہیں۔ اس نے گردن موڑ کے عجیب مسکراہٹ کیساتھ اسے دیکھا۔۔
تو پھر تم کیسے جانتے ہو کہ میں وہاں ہونگی۔۔۔اس نے اسے تنگ کیا۔۔
جنت کے علاوہ کہی اور رکھا جاسکتا ہے تمکو؟؟ اس نے جواباً سوال کیا۔ وہ ہنس پڑی۔۔
اتنی آسانی سے مل جاتی ہے جنت؟ اس نے سالار کو بتایا۔۔۔
مجھے آسانی سے نہیں ملے گی تمہیں آسانی سے مل جائیگی۔۔۔۔۔ اس کا لہجہ پھر عجیب سا تھا۔۔ ۔
کیوں؟؟ وہ حیران ہوئی۔۔۔
تم جتنی آسانی سے ہر چیز میں جنت ڈھونڈ لیتی ہو میں آج تک نہیں ڈھونڈ سکا۔ اس لیئے کہہ رہا ہوں۔۔۔وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔۔۔
دو دن پہلے وہ گھر کے لیئے ایک لیمپ خریدنے گئے تھے۔۔وہ رات کو ناول پڑھتے پڑھتے لیمپ شیڈ کو دیکھنے لگی ۔ وہ ای میل چیک کرنے کے بعد اپنا لیپ ٹاپ بند کرنے لگا تھا۔۔تو اس نے امامہ کو دیکھا۔ 
کیا دیکھ رہی ہو تم؟ وہ حیران ہوا۔۔
بیوٹی فل۔۔۔اس نے بے ساختہ لیمپ شیڈ کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔
ہاں اچھا ہے۔۔۔اس نے سرسری انداز میں کہا۔ 
یہ کونسے پھول ہیں؟؟ 
پھول؟؟ سالار نے لیمپ شیڈ کو حیرانی سے دیکھا ۔اس نے پہلی بات اس پرل کلر کے شیڈ پر بنے پیٹرن کو دیکھا۔۔۔سنہری مائل پیلے پھولوں کا ایک نفیس پیٹرن تھا۔۔
نہ یہ گلاب ہے نہ ہی ٹیولپ ہے۔۔وہ جیسے پھولوں کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی پھر جیسے اس نے ہتھیار ڈال دییے۔۔
ایسے پھول جنت میں ہونگے؟؟ وہ ہنس پڑا۔۔
اچھا۔۔۔۔۔
دیکھو یہ پھول رنگ بدل رہے ہیں۔۔۔۔لیکن یہ رنگ نہیں بدل رہے بلکہ یہ کھل رہے ہیں۔۔۔سالار جیسے کسی سحر میں آیا تھا وہ پھول واقعی کھل رہے تھے۔۔۔
LOVELY
وہ سراہے بغیر نہ رہ سکا۔اسے اب سمجھ آیا کہ یہ لیمپ اتنا مہنگا کیوں تھا۔۔
اور ایک ہفتے پہلے اسکی دراز صاف کرتے ہوئے سالار کی ویسٹ پیپر باکس میں سے وہ ایک پوسٹ کارڈ اسکے پاس لیکر آئی تھی۔۔۔
ہاں۔۔۔۔۔اسے پھینک دیا ہے میں نے۔۔۔۔بیکار ہے۔۔۔اس نے امامہ کے ہاتھ میں وہ پوسٹ کارڈ دیکھ کر کہا۔۔وہ کارڈ کو لیئے اسکے پاس آکر بیٹھ گئی۔۔۔۔سالار دیکھو کتنی خوبصورت جھیل ہے۔۔اور دیکھو کتنا سکون ہے اس جگہ پر۔۔
یہ صندل سے بنی ہے۔اس کشتی کا رنگ دیکھو۔۔یہ صندل کا رنگ ہے۔
ایسا لگتا ہے جیسے کوئی صبح سویرے اس کشتی میں بیٹھ کر کہی جاتا ہو۔۔۔۔
کتنی سکرینٹی ہے اس سین میں ۔۔۔۔۔ایسے جیسے یہ جنت ہو۔۔۔۔میں نہ بتاتی تو تم تو اسے پھینک رہے تھے۔۔وہ بے اختیار اسکا چہرہ دیکھنے لگا۔۔۔وہ واقعی اسکی زندگی میں نہ آتی تو وہ جنت کو۔۔۔۔۔۔۔
اسکی پکچر بنالو سیل فون کیساتھ۔۔۔امامہ کی آواز نے یکدم اسے چونکا دیا. ۔۔۔سالار نے سیل فون نکال کر چند تصویریں کھینچی۔۔اور سیل اسے تھما دیا۔۔اس نے باری باری اس تصویروں کو دیکھا اور مطمئن ہوگئ۔۔
چلیں۔۔۔؟؟سالار نے اس سے کہا۔۔۔
ہاں۔۔۔۔دونوں نے آخری نظر عکس پر ڈالی اور چل پڑے۔۔۔
سالار نے چلتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔
خاموش کیوں ہوگئے۔۔۔کوئی بات کرو۔۔امامہ نے چند قدم چلنے کے بعد کہا۔۔
تم کرو میں سن رہا ہوں۔۔
ہوسکتا ہے تمہیں مجھ سے پہلے جنت مل جائے۔۔امامہ نے اپنے جملء کا مفہوم سمجھے بنا اسکو تسلی دی۔۔وہ ہنس پڑا تھا۔۔۔
چاہتا تو میں بھی یہی ہوں۔۔۔وہ بڑبڑایا۔۔۔
تم سے پہلے مرنا چاہتا ہوں میں۔۔۔اسے چلتے ہوئے ٹھوکر لگی۔۔کوئی چی جیسے اسکے جسم سے ایک لمحے کے لیئے تھراتی ہوئ گزری۔۔۔وہ جنت ڈھونڈتی پھر رہی تھ اس سے پہلے سامنے جو شے کھڑی تھی وہ اسے بھول گئ تھی۔۔۔
تم کیوں کہہ رہے ہو اسطرح۔۔وہ رک گئی اور اس نے سالار سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔۔
تم نے ہی تو کہا تھا شاید مجھے تم سے پہلے جنت مل جائے۔۔۔
لیکن میں نے مرنے کا نہیں کہا تھا۔۔۔
کیا اس کے بنا مل سکتی ہے؟؟ 
وہ بول نہ سکی۔۔وہ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے رہے پھر سالار نے اسکی آنکھوں میں نمی امڈتے دیکھی۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔جو مرضی کہو۔۔اسکی آواز میں خفگی تھی۔۔
سالار نے اسکا ہاتھ پکڑ کر معذرت خواہانہ اندا میں دبایا۔۔۔
میں نے صرف تمہاری بات دہرائی تھی۔۔
اور میرا وہ مطلب نہیں تھا جو تم نے نکالا۔۔
میں سمجھتا ہوں۔۔
وہ دونوں پھر چلنے لگے۔۔۔
کیا تم جنت میں مجھے اپنا پارٹنر منتخب کروگی۔؟؟ 
وہ بول نہ سکی۔۔۔۔وہ ہنس پڑا۔۔۔
یعنی نہیں۔۔۔۔
میں نے یہ کب کہا۔۔۔وہ رک گئ۔
لیکن تم نے کچھ بھی کب کہا۔۔
میں سوچ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوچ لیا ۔۔۔پھر اب بتاؤ۔۔۔وہ ہنسی
تمہیں کیا ہوا ہے۔۔۔
جنت کی بات تم نے شروع کی تھی۔۔اس نے سالار کا چہرہ دیکھا۔۔
شاید۔۔۔وہ خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا۔۔۔
تمہیں یقین نہیں ہے۔
اس نے ہنس کر اس سے پوچھا۔۔۔
یقین کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔
اگر تم جنت میں پہنچ گئے تو پھر تم کو ہی چننا پڑے گا۔۔۔اس نے مذاق کیا۔۔
اور اگر کوئی اور بھی پہنچ گیا تو؟ اسکی مسکراہٹ غائب ہوگئ۔۔
دونوں کے درمیان خاموشی کا لمبا وقفہ آیا تھا۔۔اس اور کا تعارف نہ امامہ نے مانگا تھا نہ سالار نے کروایا تھا۔۔مگر اس اور نے اسے سالار سے نظریں چرانے پر مجبور کیا تھا۔وہ اس سے کہہ نہ سکی بات اسکے انتخاب پر کبھی نہیں رہی تھی بات جلال کے انتخاب پر تھی۔۔اس کا انتخاب جنت میں بھی شاید وہ نہ ہوتی لیکن یہ اعتراف میں کوڑے کھانے جیسی ذلت تھی۔۔چپ بہتر تھی لیکن اسے یہ اندازہ نہیں ہوا تھا کہ اسکی چپ سالار کو اس وقت کوڑے کی طرح لگی تھی۔۔۔
***----*****-----***-++++
سکندر عثمان کو چند لمحوں کے لیے اپنی سماعتوں پہ یقین نہیں آیا تھا۔
آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ وہ پلاٹ تو بک ہی نہیں سکتا۔ سالار کے نام ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے احتشام الدین سے کہا۔۔۔وہ انکے ایک کاروباری دوست تھے۔۔اور چند منٹ پہلے اس نے سکندر کو فون کر کے ایک پلاٹ کی فروخت کے بارے میں شکایت کی تھی۔ انکے کسی دوست نے انہی کے وکیل کے ذریعے ایسا ایک پلاٹ کچھ دن پہلے خریدا تھا ۔۔جو سکندر عثمان کا تھا۔۔اور جس کو ایک ڈیڑھ سال پہلے احتشام الدین نے خریدنے کی آفر کی تھی۔۔لیکن سکندر نے تب اسے یہ بتایا تھا کہ جائداد کی تقسیم کے دوران وہ یہ پلاٹ سالار کے نام کرچکا ہے۔البتہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ اگر کبھی پلاٹ کو فروخت کرنے کی ضرورت پڑی تو احتشام الدین پہلی ترجیح ہوگا۔۔
میرے وکیل کے ذریعے سارا پیپر ورک ہوا ہے۔ آپ کہیں تو آپکو نیوز پیپر میں پلاٹ کی منتقلی کا ایڈ بھی بھجوا دیتا ہوں۔
آپ کے بیٹے نے پلاٹ ڈیڑھ کروڑ میں بیچا ہے۔ مجھے تو افسوس اس بات کا ہے کہ میرے وکیل نے منتقلی کے بعد بتایا مجھے۔ سکندر عثمان کا سر گھوم کر رہ گیا۔۔
میں ابھی سالار سے بات کر کے دوبارہ آپ سے بات کرتا ہوں۔ سکندر عثمان نے یکدم کہا۔ 
انہیں ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ انکو بنا بتائے پلاٹ کیسے بیچ سکتا ہے۔ سالار اس دن اسلام آباد میں تھا اور اس وقت اپنے کسی کام سے مارکیٹ جا رہا تھا جب اسے سکندر کی کال ملی۔
سالار تم نے اپنا پلاٹ بیچ دیا ہے؟؟ 
اسکو ہیلو کہتے ہی سکندر نے دوسری طرف سے کہا۔۔
چند لمحے سالار کچھ بول نہ سکا۔ پلاٹ کی فروخت کا سکندر کو اتنی جلدی پتہ چل جائے گا اسے اندازہ نہیں تھا۔۔
تم میرے آفس آؤ. ۔۔۔ اس نے سرد مہری سے فون بند کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
کب بیچا تھا پلاٹ؟؟ 
اس کے آفس پہنچ کر کرسی پہ بیٹھتے ہی سکندر نے اس سے پوچھا۔۔
پچھلے مہینے۔ اس نے لہجہ ہموار رکھنے کی کوشش کی تھی۔۔۔
کیوں؟؟ 
مجھے کچھ رقم کی ضرورت تھی۔۔
کس لیئے۔۔؟؟
سالار اس بار جواب دیتے ہوئے جھجکا۔۔۔
کس لیئے رقم کی ضرورت تھی۔۔
مجھے امامہ کو ایک رنگ خرید کر دینی تھی۔۔۔۔سکندر کو لگا کہ اس نے سننے میں غلطی کی ہے۔۔۔
کیا؟؟؟؟؟ 
امامہ کے لیئے رنگ خریدنی تھی۔۔اس نے اپنا جواب دہرایا۔۔۔
لاکھ دو لاکھ کی رنگ کے لیئے تم نے پلاٹ بیچ دیا۔۔۔
اپنا کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے بنک سے پرسنل لون لیتے یا مجھ سے کہتے۔۔۔
میں لون لیکر اسے گفٹ نہیں کرنا چاہتا تھا۔اور ایک دو لاکھ کی انگوٹھی نہیں تھی کچھ زیادہ مہنگی تھی۔۔آپ اتنے پیسے کبھی نہ دیتے مجھے۔۔ وہ بڑی رسانیت سے کہہ رہا تھا۔۔۔
کتنی مہنگی ہوتی۔۔چار یا پانچ لاکھ کی ہوتی۔۔۔چلو دس لاکھ کی ہوتی میں دے دیتا تمہیں۔ سکندر بے حد خفا تھے۔۔وہ پلاٹ پونے دو کروڑ کا تھا جسے وہ ڈیڑھ کروڑ میں بیچ آیا تھا۔۔
دس لاکھ کی بات نہیں تھی۔۔۔سکندر نے اسے کہتے سنا۔۔۔
پھر؟؟ سکندر کے ماتھے پر بل آئے۔۔۔سالار نے اپنا گلا صاف کیا۔۔۔
13.7 یہ واحد طریقہ تھا جس وہ اس کی قیمت تین ہندسوں میں کر پایا تھا۔۔
کیا؟؟ 
سکندر کو کچھ سمجھ نہیں آئی۔
13.7۔۔۔سالار نے ایک بار پھر گلہ صاف کر کے اگلا لفظ کہا۔۔سکندر کو چند لمحے سانس نہیں آیا۔۔۔۔
اسے پہلی بار اس کی بات سمجھ میں آئی تھی۔۔۔
13.7ملین کی رنگ دی ہے تم نے اسے؟؟ ان کا ذہن جیسے بھک اڑ گیا۔۔سالار ٹیبل پر پڑے پیپرویٹ پر انگلیاں پھیر رہا تھا۔۔۔
سالار ایک کروڑ سینتیس لاکھ کی رنگ دی ہے تم نے اسے۔۔۔
جی۔۔۔۔۔اس بات سالار نے نظریں اٹھا کر سکندر کو دیکھا۔۔۔
سکندر بے یقینی سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے رہے۔سالار نے نظریں چرا لی۔ وہ اب انکے عقب میں لگی پینٹنگ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
اسکے چہرے پہ نظریں جمائے سکندر نے ریوالونگ چیئر کی پشت سے ٹیک لگا لی۔ وہ اگر اسے الو کا پٹھا کہتے تھے تو ٹھیک ہی کہتے تھے

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page