
آبِ حیات - تحریر عمیرہ احمد
قسط نمبر نو
کہاں سے لی تھی رنگ؟ بلآخر انہوں نے لمبی خاموشی کو توڑا۔
Tiffanyسے۔
انہیں ایسے ہی کسی نام کی توقع تھی۔
ڈیزائن کیا ہوگا؟ اس مالیت کی رنگ نادر ہوتی ہے۔
جی! jewellery statment
اس نے tiffany کی سب سے مہنگی رینج میں آنے والی جیولری کولیکشن کا نام لیا۔
تو کوئی اس سے زیادہ مہنگی رنگ نہیں تھی؟ ابھی دوسرا پلاٹ پڑا تھا۔ چار ہیرے اور لگوا دیتے اس میں۔
سکندر نے ٹیبل پر پڑے سگار کیس سے ایک سگار نکالتے ہوئے بے حد سنجیدگی سے اس سے کہا۔ سالار کے دائیں گال میں ڈمپل پڑا۔ اس نے یقیناً اپنی مسکراہٹ ضبط کی تھی۔ سکندر کا خیال تھا اس کی یہ مسکراہٹ شرمندگی کی وجہ سے تھی۔ انکے پاؤں تلے سے یقیناً زمین کھسک جاتی اگر انہیں یہ پتہ چلتا کہ اس نے پہلے دونوں پلاٹس بیچ کر اسے ایک نیکلس دینے کا سوچا تھا۔ لیکن پھر اسے انگوٹھی کا خیال آگیا جو امامہ مستقل طور پہ پہن سکتی تھی۔
میں کتابوں میں جب رانجھا، فرہاد، رومیو، مجنون وغیرہ کے بارے میں پڑھتا تھا تو میں سوچتا تھا کہ یہ ساری لفاظی ہے۔ کوئی مرد اتنا الو کا پٹھا نہیں ہو سکتا۔ لیکن تم نے تو یہ ثابت کردیا مجھ پر کہ یہ ممکن ہے۔ کسی بھی زمانے میں کوئی بھی مرد کسی بھی عورت کے لیے عقل سے پیدل ہو سکتا ہے۔
سالار نے اس بے عزتی کو سر جھکائے شہد کے گھونٹ کی طرح پیا۔ اسکی اتنی بے عزتی کرنا تو سکندر کا حق تھا۔۔
بیوی کے لیے تو صرف ایک شاہجہان نے پیسے لٹائے تھے وہ بھی اسکے مرنے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں کیا ہو گیا تھا؟ سکندر نے جیسے اسے شرم دلائی۔۔۔
میں نے دراصل امامہ کو ابھی تک شادی کا کوئی گفٹ نہیں دیا تھا۔ اسکے لہجے میں بلا کا اطمینان تھا۔۔۔
سکندر زندگی میں پہلی بار اسکی ڈھٹائی سے متاثر ہوئے تھے۔
تو اپنے پیسوں سے اسے گفٹ دیتے۔ انہوں نے طنزیہ کہا تھا۔
وہ بھی دے دیے ہیں اسے۔ اس نے طنز کا جواب سنجیدگی سے دے کر انہیں حیران کر دیا۔
وہ اس بادشاہ کی شکل دیکھ کر رہ گئے جو اپنی بیوی پر اپنی سلطنت لٹانے پر تلا تھا۔
اپنا سگار ایش ٹرے میں رکھتے ہوئے وہ ٹیبل پر کچھ آگے جھکے اور انہوں نے جیسے ایک ہمراز کی طرح کہا۔ سالار ایسا بھی کیا ہے امامہ میں کہ تم عقل سے پیدل ہو گئے ہو؟
یہ طنز نہیں تھا۔ وہ واقعی جاننا چاہتے تھے۔
سالار نے چند لمحے سوچنے کے بعد کہا۔
بس! وہ اچھی لگتی ہے مجھے۔
وہ اس وقت سکندر کو تیس سالہ مرد نہیں بلکہ تین سال کا ایک معصوم بچہ لگا۔
ایک طویل سانس لیتے ہوئے وہ سیدھے ہوگئے۔
اسے پتہ ہے اس رنگ پرائس کا؟؟
نہیں۔۔۔۔
سکندر کچھ حیران ہوئے۔ تو یہاں اپنی محبوبہ کو مرعوب اور متاثر کرنے کا کوئی جذبہ بھی کارفرما نہیں۔
آپ بھی ممی یا کسی اور سے بات نہ کریں۔ میں نہیں چاہتا کہ امامہ کو پتا چلے۔ وہ اب ان سے کہہ رہا تھا۔
باقی تیرہ لاکھ کا کیا کیا؟ وہ اب کچھ اور کارناموں کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔
سات لاکھ تو امامہ کو حق مہر دیا، وہ ڈیو تھا۔ اس نے حق مہر کی اصل رقم بتائے بغیر کہا۔ اور باقی چھ لاکھ میں نے کچھ خیراتی اداروں میں دے دیئے۔
سکندر کا غصہ دھویں کے مرغولوں میں تبدیل ہونے لگا۔ غصے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
سالار نے باپ کے ہونٹوں پہ ایک مشفقانہ لیکن بےحد معنی خیز مسکراہٹ نمودار ہوتے دیکھی۔
اور حق مہر صرف سات لاکھ تو نہیں ہوگا۔۔۔۔۔ ہے نا سالار؟ وہ کتنے ملین دیا گیا؟ انہوں نے بےحد پچکارتی ہوئی آواز میں اس سے کہا۔
سالار بے اختیار ہنسا۔
جانے دیں پاپا۔۔
یعنی ملین میں ہے۔ ان کا اندازہ ٹھیک تھا۔۔
اب میں جاؤں؟ سالار نے جواب دینے کی بجائےپوچھا۔ سکندر نے سر ہلادیا۔۔۔
وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر ان کی طرف آیا۔ اور اس نے جھکتے ہوئے سکندر کو ساتھ لگایا۔ پھر وہ سیدھا ہو گیا۔
سالار! جو دوسرا پلاٹ ہے، اس کے پیپرز مجھے لاہور پہنچ کر بھجوادینا۔ سکندر نے کہا۔
پاپا، ٹرسٹ می۔۔۔ سالار نے کہا۔
شٹ اپ۔۔۔۔
اوکے! وہ ہنس پڑا تھا۔۔
****---**--*-*--*******+-*
Oh tiffany statement!
وہ اس رات کسی ڈنر پر تھے جب اس کی رنگ مسز یوئرز نے نوٹس کی۔
وہ بزنس کلاس کا ایک بڑا نام تھی۔ اور اپنے لباس اور جیولری کی وجہ سے خاصی مشہور تھی۔۔
مائی ویڈنگ رنگ! امامہ نے مسکرا کر کہا۔۔۔
وہ اسکا ہاتھ پکڑے بے حد مرعوب انداز میں کہہ رہی تھی۔۔اور انکا یہ انداز اس ٹیبل پہ بیٹھی تمام خواتین میں اس رنگ کو دیکھنے کا اشتیاق پیدا کر رہا تھا۔۔
The most beautiful and expensive picec of jewellary under this roof tonight...
لکی ویمن۔ تمہارے شوہر کا ذوق بہت اعلی ہے۔۔۔
امامہ ان ستائشی جملوں پہ فخریہ انداز میں مسکرائی۔۔
کیا قیمت ہوگی؟ بائیں جانب بیٹھی مسز زبیر نے بھی اس رنگ کو ستائشی انداز میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔
مجھے نہیں پتا۔۔شاید چار پانچ لاکھ۔ امامہ نے گلاس اٹھا کر پانی کا گھونٹ بھرتے اندازہ لگایا۔۔
ایک لمحہ کے لیے اس نے ٹیبل پر چھا جانے والی خاموشی کو محسوس کیا۔۔پھر خود پہ جمی نظروں کو۔۔۔
ڈالرز یا پاؤنڈز؟؟
اس نے حیرانی سے مسز یوئرز کی شکل دیکھی۔ پھر ہنس پڑی۔۔ اس نے اسے مذاق سمجھا تھا۔۔ میرا شوہر اتنا بے وقوف نہیں ہوسکتا۔۔اس نے بے ساختہ کہا۔
مسز یوئیرز نے دوبارہ سوال نہیں کیا۔ وہ سمجھی امامہ قیمت نہیں بتانا چاہتی۔۔۔
سالار اس رنگ کی قیمت کیا ہے؟ اس رات بیڈ پر بیٹھے ناول پڑھتے ہوئے امامہ کو ایک دم مسز یوئرز کا سوال یاد آگیا۔۔
کیوں؟؟ وہ بھی کوئی کتاب پڑھتے ہوئے چونکا۔
سب لوگوں نے بہت تعریف کی۔ اس نے بےحد فخریہ انداز میں کہا ۔
دیٹس گُڈ۔۔۔ وہ مسکرا کر دوبارہ کتاب کی طرف متوجہ ہوا۔۔
مسز یوئرز نے قیمت پوچھی تھی میں نے کہا چار پانچ لاکھ کی ہوگی۔انہوں نے پوچھا ڈالرز یا پاؤنڈز میں۔۔۔ میں نے کہا میرا شوہر اتنا بے وقوف نہیں ہوسکتا۔۔۔۔وہ بے اختیار ہنس پڑا۔۔۔۔
کیا ہوا؟؟؟ وہ چونکی۔۔
کچھ نہیں۔۔۔کچھ پڑھ رہا تھا۔۔سالار نے بے ساَختہ کہا۔۔
تو کیا قیمت ہے اسکی؟ امامہ نے دوبارہ پوچھا۔
یہ انمول ہے ۔۔سالار نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا۔۔
کوئی بھی چیز جو تمہارے ہاتھ میں ہو انمول ہے۔۔
پھر بھی۔۔۔۔۔۔اس نے اصرار کیا۔۔
Two hundred and fifty sex
سالار نے ڈالرز ساتھ نہیں لگایا۔۔
اوہ اچھا! میں زیادہ ایکسپینسیو سمجھ رہی تھی۔وہ کچھ مطمئن ہوگئ اور دوبارہ ناول پڑھنے لگی۔ وہ اسکا چہرہ دیکھنے لگا۔۔اسے فریب دینا، بہلانا بہت آسان تھا۔
امامہ نے چند لمحے بعد اسکی نظروں کو اپنے چہرے پہ محسوس کیا ۔
کیا ہوا؟؟ وہ مسکرادی۔ وہ ان نظروں کی عادی تھی۔
تمہیں کچھ بتانا چاہتا تھا۔
کیا؟؟
You are the best thing ever happened to me,
وہ ایک لمحے کے لیئے حیران ہوئی پھر ہنس پڑی۔۔
آئی لو یو۔۔وہ پھر ہنس پڑی اور بلش ہوئی۔۔۔
تھینک یو۔۔۔جواب وہی تھا جو ہمیشہ آتا تھا۔۔اس بار وہ ہنس پڑا
******-----******----******
امامہ!
وہ گاڑی کے دروازے کو بند کرتے ہوئے کرنٹ کھا کر پلٹی۔۔۔وہ جلال تھا۔۔۔۔پارکنگ میں اسکے برابر والی گاڑی سے اسے نکلتے ہوئے دیکھ کر ٹھٹکا تھا۔۔
اوہ مائی گاڈ! میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آج تم سے یہاں ملاقات ہوگی۔۔
ہاؤ آر یو؟ وہ بے حد ایکسائٹڈ انداز میں اسکی طرف آیا تھا ۔
وہ بت بنی اسے دیکھ رہی تھی۔۔وہ اسکی اڑی رنگت پہ غور کیے بنا بے تکلف دوستوں کی طرح کہہ رہا تھا۔۔۔
امامہ نے بلآخر مسکرانے کی کوشش کی۔۔یہ ضروری تھا۔۔۔۔بے حد ضروری تھا۔۔۔جلال سے زیادہ خود اسکے لیے۔۔اسے نہ وہ پرانا دوست سمجھ سکتی تھی نہ بے تکلف ہوسکتی تھی۔۔۔
میں ٹھیک ہوں، آپ کیسے ہیں۔۔۔؟ اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔۔نظریں تو وہ اس سے اب بھی نہیں ملاسکتی تھی وہ ویسا ہی تھا جیسے اس نے آخری بار کلینک پر دیکھا تھا۔۔
میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔۔میں نے چند ماہ پہلے شادی کرلی ہے۔۔
اسکی سمجھ میں نہیں آیا اس نے اسے یہ خبر دینا کیوں ضروری سمجھا۔۔کیا اسکا اس سے کوئی تعلق تھا۔۔
بہت اچھی ہے میری بیوی ، وہ بھی ڈاکٹر ہے۔۔برٹش نیشنل ہے۔اسپیشلائزیشن بھی اس نے وہی سے کی ہے۔۔۔۔امیزنگ وومین۔۔۔اس نے چار جملوں میں اس پر اپنی بیوی کی حیثیت واضح کی۔۔۔
ایک لمحے کے لیئے وہ بھول گئی کہ وہ بھی کسی کی بیوی ہے۔۔اسکے منہ سے کسی دوسری عورت کے لیے اپنی بیوی کے الفاظ نے اسے چند لمحوں کے لیئے ادھیڑا تھا۔۔
مبارک ہو ۔۔اس نے بلآخر وہ الفاظ کہہ دیے جو اسے کہنا چاہئے تھے۔
تھینکس۔۔۔میں تمہیں ضرور بلاتا لیکن تمہارا کنٹیکٹ نمبر میرے پاس نہیں تھا۔ پہلی بار تو نہیں بلا سکا تھا لیکن دوسری بار تو بلا سکتا تھا۔۔۔جلال نے بات کرتے کرتے جیسے مذاق کیا تھا۔۔وہ مسکرا نہ سکی۔۔
تم نے تو اسکے بعد کوئی رابطہ ہی نہیں کیا۔۔کوئی فون، کوئی وزٹ کچھ نہیں۔۔۔میں تو انتظار ہی کرتا رہا۔۔ وہ اب اسکا جاٰئزہ لے رہا تھا۔۔
یہ امامہ سات آٹھ ماہ پہلے والی امامہ سے بے حد مختلف تھی۔۔۔۔وہ اب بھی پہلے کی طرح ایک چادر میں ملبوس تھی لیکن اسکی چادر اور لباس بے حد نفیس اور مہنگے تھے۔۔اسکے ہاتھوں اور کانوں میں پہنی ہوئی جیولری نے جلال کو اور بھی چونکا دیا۔۔اسکی فنگر میں ایک رنگ تھی لیکن یہ وہ وہم تھا جسکی وہ تصدیق نہیں چاہتا تھا۔۔امامہ ہاشم بہت بدل چکی تھی۔۔۔کیسے ۔۔۔۔۔اس سوال نے اسے بے چین کیا۔۔۔
اس کے عقب میں کھڑی اس قیمتی گاڑی کو بظاہر سرسری دیکھتے ہوئے جلال نے اس سے پوچھا۔۔
تم اب بھی اسی فارماسیوٹیکل کمپنی میں کام کرتی ہو؟؟ اس کا جی چاہا تھا کہ کاش اس میں آنے والی ساری تبدیلیاں کسی بونس یا کسی ہینڈسم پیکج کی مرہون منت ہو۔۔مرد کو اپنی متروکہ عورت کو موو ڈون دیکھ کر ہتک کا احساس ہوتا ہے اور وہ اس احساس سے بچنا چاہتا تھا۔۔
نہیں میں نے جاب چھوڑ دی تھی۔۔۔اس نے مدھم آواز میں کہا۔ ۔
اوہ اچھا۔۔۔وہ بڑبڑایا۔۔۔
تو تم کچھ نہیں کر رہی آج کل؟؟؟
امامہ چند لمحے خاموش رہی۔
میری شادی ہوگئی ہے۔۔وہ اب بھی یہ نہ کہہ سکی کہ میں نے شادی کرلی ہے۔۔جلال کے چہرے سے ایک لمحے کے لیئے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔۔
اوہ اچھا۔۔۔مبارک ہو۔۔وہ بروقت سنبھلا۔۔
تم نے بتایا ہی نہیں ۔۔نہ انوائٹ کیا۔۔کیا کرتا ہے وہ۔۔؟؟
آپ جانتے ہیں اسے۔۔سالار سکندر ۔۔اس نے گلا صاف کر کے کہا۔۔۔
اوہ۔۔۔ایک لمحے کے لیے جلال کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں بچا ۔
وہ بنکر ہے۔۔۔۔۔۔۔
میں جانتا ہوں۔۔جلال اسکی بات کاٹ کر اسے سالار کے بنک اور اسکے عہدے کے بارے میں بتانے لگا۔۔
آپ کو کیسے پتا؟ وہ حیران ہوئی۔۔
آدھے شہر کو تمہارے شوہر کے بارے میں پتا ہوگا ۔۔
آؤ لنچ کرتے ہیں۔۔گپ شپ لگائیں گے۔۔اتنے عرصہ بعد ملے ہیں بہت ساری باتیں کرنی ہیں۔اس نے بے تکلفی اور گرمجوشی سے کہا۔۔
نہیں میں گروسری کے لیے آئ ہوں۔۔ڈنر کے لیئے مجھے کچھ چیزیں چاہیئے تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امامہ نے اسے ٹالنا چاہا اسے یقین تھا وہ اصرار نہیں کریگا۔۔جلال کے بارے میں اسکا اندازہ آج بھی غلط تھا۔۔
یار گروسری بھی ہوجائے گی میں خود کروا دوں گا لیکن لنچ کے بعد۔۔وہ سامنے ریسٹورنٹ ہے ایک گھنٹے میں فارغ ہوجائیں گے ھم۔۔۔جلال نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔
میں۔۔۔۔۔۔۔اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن جلال کچھ بھی سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔۔وہ بادل نخواستہ اسکے ساتھ ریسٹورنٹ آگئی۔۔۔
تو کیسی گزر رہی ہے تمہاری لائف اپنے شوہر کیساتھ۔۔۔مینیو آرڈر کرتے ہوئے جلال نے بے تکلفی سے کہا۔۔۔امامہ نے اسکا چہرہ دیکھا وہ صرف سوال نہیں تھا۔۔۔وہ جیسے جاننا چاہتا تھا کہ وہ اسکے علاوہ کسی اور مرد کیساتھ خوش رہ سکتی ہے یا نہیں۔۔۔
بہت اچھی گزر رہی ہے میں بہت خوش ہوں سالار کیساتھ
گُڈ۔۔۔ارینج میرج تو نہیں ہوگی؟؟ سالار اور تم نے اپنی مرضی سے کی ہوگی۔۔۔اس نے جلال کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی۔۔وہ اس سوال سے کیا جاننا چاہتا تھا۔۔۔
ہاں! سالار نے اپنی مرضی سے مجھ سے شادی کی ہے۔۔اس نے فیملی سے پوچھا نہیں تھا بلکہ بتایا تھا۔۔سالار کا خیال تھا کہ مرد کو شادی کرتے ہوئے اپنی مرضی دیکھنی چاہیے فیملی کی نہیں۔۔۔
جلال کے چہرے کا رنگ بدلا تھا ۔۔۔
بہت زیادہ انڈیپینڈنٹ سوچ رکھتا ہے وہ۔۔اس نے چند لمحوں بعد جلال کو جیسے تاویل دینے کی کوشش کی۔۔۔تاویل پچھلے جملے سے بھی زیادہ چبھی تھی۔۔
ظاہر ہے۔۔۔سالانہ لاکھوں کمانے والے شوہر کی تعریف بیوی پر فرض ہوتی ہے۔۔
اس بار اسکا ہنس کر کہا ہوا جملہ امامہ کو چبھا تھا۔۔۔۔
لاکھوں کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن اچھے شوہر کی تعریف بیوی پہ فرض ہوتی ہے۔۔
جلال نے اسکے جملے کو نظرانداز کرتے ہوئے ہنس کر کہا۔۔۔۔تو پتا رکھا کرو نا اسکے لاکھوں کا۔۔کیسی بیوی ہو تم؟؟ ڈیڑھ دوکروڑ تو بنا ہی لیتا ہوگا سال میں۔۔۔بہت بڑے بڑے مرجرز کروا رہا ہے تمہارا شوہر تمہیں پتا نہیں؟؟
نہیں۔۔۔ھم اور چیزوں کے بارے میں باتیں کرتے رہتے ہیں۔۔۔ضروری چیزوں کے بارے میں۔۔۔
اسکا لہجہ بے حد سادہ تھا لیکن جلال کے پیٹ میں گرہیں پڑی تھی۔اس نے زوردار قہقہہ لگایا۔ بعض دفعہ ہنسی کی شدید ضرورت پڑ جاتی ہے۔۔
چالاک مردوں کو ایسی ہی بیویوں کی ضرورت ہوتی ہے۔۔تم لوگوں کی رہائش کہاں ہے۔۔؟؟
اس نے جوتا مارا۔۔۔پھر معصومیت سے سوال کیا۔۔امامہ نے اسکے تبصرے پر کچھ کہنے کی بجائے اسے اپنا ایڈریس بتا دیا۔۔وہ اسکے ساتھ سالار کو مزید ڈسکس نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔
اوہ۔۔۔اپارٹمنٹ۔۔وہ بھی رینٹڈ۔۔۔کوئی گھر ور لینا چاہیئے تھا تم لوگوں کو۔۔اگر تم لوگ انٹرسٹڈ ہو تو میرے دو تین گھر ہیں پوش ایریا میں۔۔تم لوگ رینٹ کرلو۔۔۔جلال نے فیاضانہ آفر کی۔۔۔
نہیں۔۔۔۔نہیں ضرورت نہیں۔۔ھم کم فرٹیبل ہے وہاں۔۔۔امامہ نے کہا۔۔
تم سالار کیساتھ کسی دن آؤ نا کھانے پر۔۔بات کرتے کرتےاس نے یوں کہا جیسے وہ صرف دوست ہی تھے اور دوست رہے تھے۔۔وہ بول نہ سکی۔۔اگر وہ بے حس تھا تو بہت زیادہ۔۔اگر ظالم تھا تو انتہا کا۔۔۔
جلال میں اب چلتی ہوں۔۔بہت دیر ہورہی ہے۔۔
اسے پتا نہیں اچانک کیا ہوا وہ اپنا بیگ اٹھا کر یکدم کھڑی ہوگئ۔جلال کیساتھ وہ کپل بھی چونکا۔۔نہیں کھانا آنے والا ہے کھا کر نکلتے ہیں۔۔۔
نہیں مجھے گروسری کر کے پھر کوکنگ بھی کرنی ہے۔اور میرے شوہر کو تو گھر آتے ہی کھانا تیار ملنا چاہیئے۔۔آج ویسے بھی اس نے کچھ خاص ڈشز کہیں ہیں۔۔۔
اسکا انداز اتنا حتمی تھا کہ جلال اس بار اصرار نہ کرسکا۔۔
اچھا سالار کا کوئی ویزیٹنگ کارڈ اور اپنا کانٹیکٹ نمبر تو دے دو۔اس نے امامہ سے کہا۔اسکے بیگ میں سالار کے چند کارڈز تھے۔۔اس نے ایک کارڈ نکال کر جلال کے سامنے ٹیبل پہ رکھ دیا۔۔۔
اپنا فون نمبر بھی لکھ دو۔
وہ ایک لمحہ کے لیے ہچکچائی پھر اس نے کارڈ کی پشت پر اپنا سیل نمبر لکھ دیا۔۔
جلال کے پاس کھڑا آدمی تب تک کارڈ پر نام پڑھ چکا تھا۔۔۔
اوہ۔۔آپ سالار سکندر کی بیوی ہیں؟؟ وہ اسکے سوال پہ بری طرح چونکی ۔۔
فاروق صاحب بھی بنکر ہے۔ سالار کو جانتے ہونگے۔۔جلال نے فوراً کہا۔۔
بہت اچھی طرح سے۔۔۔اس آدمی کا انداز اب بالکل بدل چکا تھا۔۔۔اس نے امامہ کو اپنی بیوی سے متعارف کرایا۔۔
آپ کے شوہر بہت بریلیئنٹ بنکر ہے۔۔
فاروق نے اسکے لیے ستائشی کلمات ادا کیئے۔
ہمیں انوائٹ کیا تھا اس نے کچھ ماہ پہلے ویڈنگ ریسپشن پہ لیکن ھم امریکہ میں تھے۔مسز فاروق اب بڑی گرمجوشی سے کہہ رہی تھی۔۔اور امامہ کی جان پہ بن آئی تھی۔۔وہ اندازہ نہیں کرپائی تھی کہ وہ سالار کے کتنے قریب تھے یا صرف سوشل سرکل کا حصہ تھے۔۔۔
بہت کلوز فرینڈشپ ہے امامہ اور سالار کیساتھ میری بلکہ فیملی ٹائیز ہیں۔۔۔بس درمیان میں کچھ عرصہ آؤٹ آف ٹچ رہے ہیں ھم۔۔دس بارہ سال تو ہوگئے ہونگے ھماری فرینڈشپ کو امامہ؟؟ اسکی سمجھ میں نہیں آیا وہ کیا کہہ رہا ہے۔اس نے کچھ حیرانی سے جلال کو دیکھا۔۔
ویری نائس۔۔۔آپ سالار کیساتھ آئیں کسی دن ھماری طرف۔۔۔فاروق نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔چند رسمی جملوں کے تبادلے کی بعد وہ انہیں خداحافظ کہہ کر باہر نکل آئی لیکن وہ بہت اپ سیٹ تھی۔۔۔وہ سٹور میں کیا خریدنے آئی تھی بھول گئ تھی۔۔۔وہ ٹرالی لیئے ایک شیلف سے دوسرے شیلف کو دیکھتے گزرتی رہی۔۔پھر خالی ٹرالی پر نظر پڑنے پر اس نے سوچا کہ وہ کیا خریدنے آئ تھی لیکن ذہن کی سکرین پہ کچھ بھی نمودار نہیں ہوا۔۔اس نے بے مقصد چند چیزیں اٹھائ اور باہر آگئی۔۔پارکنگ سے گاڑی نکالنے کے بعد اسے ایک دم احساس ہوا کہ وہ گھر نہیں جانا چاہتی پھر اسے وہ ساری چیزیں یاد آنے لگی جسے وہ خریدنے آئ تھی۔۔لیکن اب وہ دوبارہ کہیں گروسری کے لیئے جانے کے موڈ میں نہیں تھی۔۔بے مقصد دوپہر میں سڑک پر ڈرائیو کرتے ہوئے اسے خود اندازہ نہیں ہوا تھا کہ وہ کہاں جارہی ہے۔اس کا خیال تھا کہ اس نے کچھ غلط ٹرن لی تھی اور اب رستہ بھول گئی ہے۔۔بہت دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ لاشعوری طور پہ اس روڈ پر جارہی تھی۔۔جس طرف سالار کا آفس تھا۔۔وہ مال روڈ پر تھی اور ون وے کی وجہ سے اب پلٹ نہیں سکتی تھی۔۔ایک سگنل پر ایک لمبے چھوڑے ٹریفک جام میں پھنسے اسے وہ سڑک اور اپنی زندگی ایل جتنا لمبے لگے تھے۔۔۔
گاڑی بند ہوگئ اور سگنل کھل گیا تھا۔۔بے تحاشہ ہارن کی آوازوں پر اس نے چونک کر گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی وہ ناکام رہی اور بری طرح نروس ہوئی۔۔ایک ٹریفک وارڈن اسکے قریب آیا۔۔
گاڑی سٹارٹ نہیں ہورہی ہے۔۔امامہ نے اس سے کہا۔۔
پھر لفٹر سے اسے ہٹانا پڑے گا۔۔ورنہ ٹریفک جام ہوجائے گا۔۔اس نے اسے بتایا۔۔سگنل تب تک دوبارہ بند ہوچکا تھا۔۔۔وہ وائرلیس پر لفٹر کو بلانے لگا۔۔۔اور وہ بے حد ہڑبڑانے والے انداز میں گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔وہ ناکام رہی۔۔لفٹر آنے پر وہ گاڑی سے باہر نکل آئی۔لفٹر میں بیٹھا آدمی اسے قریبی پارکنگ میں اسے پہنچانے کے بارے میں بتاتا ہوا کسی ٹیکسی میں اسے وہاں تک جانے کا کہہ کر غائب ہوگیا۔۔مال روڈ پر اس ٹریفک میں اسے کوئی ٹیکسی یا رکشہ نہیں مل سکتا تھا۔۔ لیکن واحد کام جو وہ کر سکتی تھی وہ سڑک کراس کر کے کچھ فاصلے پر سالار کے آفس جانا تھا۔۔اس نے سیل نکال کر سالار کو فون کرنا شروع کردیا لیکن اسکا سیل آف تھا۔۔۔اسکا مطلب ی تھا کہ اسکو اسکے آفس ہی جانا تھا۔۔چند منٹ اور چلنے کے بعد اسکے جوتے کا اسٹریپ نکل گیا۔آج برا نہیں بلکہ بدترین دن تھا۔وہ اس ٹوٹے ہوئے جوتے کیساتھ اسکے آفس نہیں جانا چاہتی تھی لیکن اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔۔اسے اپنی حالت پہ رونا آنے لگا تھا۔۔
اسکے بنک کے اس شاندار عمارت کے سامنے جوتا گھسیٹتے ایک لمحہ لے لیے ہچکچائی لیکن پھر اسکے ذہن میں آیا کہ وہ سیدھی اسکے آفس چلی جائے۔۔گارڈ کو اپنا تعارف کرواتے ہوئے اس نے انکی آنکھوں میں اتنی حیرانی اور بے یقینی دیکھی تھی کہ اسکے عزت نفس میں کچھ اور کمی بھی آئ تھی۔لیکن مین ریسیپشن میں داخل ہوتے ہی اسکی عزت نفس مکمل طور پر ختم ہوچکی تھی۔شاندار انٹیریئر والا وسیع و عریض ماربلڈ ہال اس وقت سوٹڈ بوٹڈ کورپوریٹ کلائنٹس سے بھرا ہوا تھا۔۔آفس کا یہ لے آؤٹ کبھی اسکے تصور میں آجاتا تھا تو وہ وہاں کبھی نہ آتی لیکن اب وہ آچکی تھی۔۔ریسیپشن کاؤنٹر پر اس نے سالار سکندر سے اپنا رشتہ ظاہر کرنے کی حماقت نہیں کی تھی۔۔
مجھے سالار سکندر سے ملنا ہے۔۔۔
کیا آپ نے اپوائنمنٹ لیا ہے میڈم؟؟
ریسپشنسٹ نے بے حد پروفیشنل انداز میں کہا۔۔اسکا ذہن ایک لمحہ کے لیئے بلینک ہوگیا تھا۔۔
اپوائنمنٹ۔۔۔۔وہ حیران ہوئ۔۔اس نے جواب دینے کی بجائے ہاتھ میں پکڑے سیل پر ایک بار پھر اسکا نمبر ڈائل کیا۔۔اس بار کال ریسیو نہیں ہوئ لیکن بیل بجی تھی۔۔
میں اسکی دوست ہوں۔۔اس نے کال ختم کرتے ہوئے بے ربطی سے کہا۔۔
ابھی وہ ایک میٹنگ میں ہے انہیں تھوڑی دیر میں انفارم کردیتی ہوں۔۔۔آپکا نام؟؟
ریسپشنسٹ نے کہا۔۔۔
امامہ۔۔۔وہ اپنا نام بتا کر ہال میں پڑے صوفوں میں سے ایک صوفے پر جاکر بیٹھ گئ۔۔
اسے تقریباً پندرہ منٹ انتظار کرنا پڑا تھا۔۔
پندرہ منٹ بعد اس نے چند افراد کے ساتھ سالار کو بات چیت کرتے ریسیپشن پر نمودار ہوتے دیکھا۔۔ان لوگوں کو دروازے تک چھوڑ کر وہ ادھر ادھر دیکھے بغیر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا واپس جانے لگا۔۔ریسیپشنسٹ نے اسے روکا۔۔۔امامہ نے سالار کو اسکی بات سنتے اور پھر ٹھٹکتے دیکھا۔۔وہ اپنی ایڑھیوں پر گھوم گیا۔۔اسے اتنی دور سے بھی سالار کے چہرے پہ حیرت نظر آئء تھی۔۔پھر وہ مسکرایا۔۔۔
اس نے پلٹ کر ریسیپشنسٹ سے یقیناً اسکا تعارف کرایا تھا۔۔۔پھر وہ رکے بغیر اسکی طرف آیا۔۔اگر وہ اس وقت اس سے گھر میں سامنا کر رہی ہوتی تو اس وقت اس سے لپٹ کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہی ہوتی۔۔
واٹ اے پلیزنٹ سرپرازئز۔۔۔
اس نے قریب آتے ہوئے کہا وہ بہت خوشگوار موڈ میں تھا۔۔
میرا جوتا ٹوٹ گیا ہے ۔۔اس نے بے ربطی سے جواب دیا اس نے سالار سے نظریں ملائے بغیر کہا وہ جانتی تھی کہ وہ اس کی آنکھیں پڑھنا جانتا تھا۔
سامنے سگنل پہ میری گاڑی خراب ہوگئی اور لفٹر اسے کہیں لے گیا ہے۔اور یہاں تمہارا آفس تھا تو یہی آگئ۔۔لیکن شاید نہیں آنا چاہیئے تھا۔کیونکہ تم مصروف ہو بس تم مجھے گھر بھجوا دو۔۔وہ ایک کے بعد ایک مسئلہ بتاتے ہوئے اسے بے ڈھنگے انداز میں کہا۔۔
نو پرابلم۔۔۔سالار نے اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئےاسی تسلی دی۔۔
سوری میم آپ مجھے اپنا تعارف کرادیتی تو میں آپکو آفس میں بٹھاتی۔۔
ڈیسک پہ بیٹھی لڑکی نے قریب آکر معذرت کی۔۔
اٹس اوکے۔۔۔۔کسی کو بھیج کر یہاں قریبی کسی شو سٹور سے اس سائز کے جوتے منگوائیں۔
اس نے لڑکی سے کہا اور پھر اگلا جملہ امامہ سے کہا ۔۔۔
امامہ یہ ٹوٹا ہوا جوتا اتار دو۔۔
اتار دوں؟؟ وہ ہچکچائی۔
ہاں کوئی حرج نہیں میرے باتھ روم میں وضو کے سلپرز ہیں وہ پہن کر پاؤں دھو لینا تب تک نیا جوتا آجائے گا۔۔۔اور کس سگنل سے گاڑی لیکر گئے ہے۔۔امامہ نے اسے اندازے سے بتایا۔۔۔اس نے ڈیسک سے آنے والی لڑکی کو گاڑی کا نمبر دیا اور کچھ ہدایات دی. ۔۔وہ تب تک ٹوٹے ہوئے جوتے اتار چکی تھا۔۔اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیٰے وہ اسے وہاں سے لے آیا۔۔اپنے ہاتھ پر اسکی گرفت محسوس کرتی ہوئے امامہ نے سوچا اسے اس وقت اس سہارے کی بے حد ضرورت تھی۔۔وہ راستے میں ملنے والے افراد سے ریلیکس انداز میں اسکا تعارف کراتے ہوئے اپنے آفس لے آیا۔۔
ویسے تم یہاں آ کیسے گئی۔۔اس نے آفس کا دروازہ بند کرتے ہوئے امامہ سے پوچھا ۔۔۔
میں؟؟؟؟ اسے بہانہ یاد نہیں آیا۔۔۔سالار نے کچھ لمحے اسکے جواب کا انتظار کیا پھر بات بدل دی۔۔۔
تم کھڑی کیوں ہو بیٹھ جاؤ۔۔
اپنی ٹیبل کی طرف جاتے ہوئے اس نے انٹرکام کا ریسیور اٹھاتے ہوئے اس سے کہا۔۔۔۔۔
وہ انٹرکام پر اسکے لیئے کوئی جوس لانے کا کہہ رہا تھا۔ جب اسکا فون بجنے لگا۔ اس نے کال ریسیو کی۔۔چند لمحے بات کرتا رہا پھر اس نے امامہ سے کہا۔۔۔امامہ تمہارا کریڈٹ کارڈ کہاں ہے؟؟
وہ اسکے سوال پر چونکی ۔اسکے پاس ایک سپلمنٹری کارڈ تھا۔۔
میرے بیگ میں۔۔۔۔
ذرا چیک کرو۔۔۔۔
اس نے بیگ سے والٹ نکالا اور پھر باری باری بیگ کا ہر حصہ چیک کیا۔۔کارڈ وہاں نہیں تھا۔۔۔
اسکے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔۔
اس میں نہیں ہے۔۔اس نے اڑی ہوئی رنگت کیساتھ سالار سے کہا۔۔
اس نے جواب دینے کی بجائے فون پر کہا۔۔۔
بالکل میری بیوی چھوڑ آئ تھی وہاں۔۔میں منگوا لیتا ہوں۔۔تھینک یو۔۔اس نے فون بند کردیا۔۔۔۔امامہ کی جان میں جان آئی۔۔
کہاں ہے کارڈ؟؟ امامہ نے پوچھا۔۔۔
کہاں شاپنگ کی ہے تم نے؟؟ سالار نے اسکی طرف آتے پوچھا۔۔
اسے ڈپارٹمنٹل سٹور یاد آیا۔۔
وہاں چھوڑ دیا تھا میں نے؟؟؟ اسے جیسے یقین نہیں آیا۔۔۔۔
ہاں اسٹور کے مینیجر نے ہیلپ لائن کو انفارم کیا وہ تمہارے سیل پر ٹرائ کرتے رہے لیکن تم۔نے کال ریسیو نہیں کی. ۔۔اب انہوں نے مجھے کال کیا ہے۔
ایک آدمی ٹرے میں پانی اور جوس کا ایک گلاس لے آیا تھا۔۔اسے اس وقت اسکی شدید ضرورت محسوس ہورہی تھی۔۔
سالار دوسرے صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔۔اس بار انٹرکام دوبارہ بجا اور وہ اٹھ گیا۔۔گاڑی کا پتا چل گیا تھا امامہ گاڑی کے پیپرز کہاں ہیں؟؟ اس نے ایک بار پھر فون ہولڈ پہ رکھتے ہوئے اس سے پوچھا ۔۔
امامہ کو اپنی اگلی حماقت یاد آئی۔۔گاڑی کےپیپرز گاڑی میں ہی تھے۔ وہ پیپرز اور لائسنس گاڑی میں چھوڑ آئی تھی ۔اس برانڈ نیو گاڑی پر اگر کوئ ہاتھ صاف کرتا تو یہ دونوں چیزیں انعام میں ملتی۔ کیونکہ لفٹر اسے مطلوبہ پارکنگ میں چھوڑ کر وہاں سے جاچکا تھا۔۔جوس ایکدم اسکے حلق میں اٹکنے لگا. ۔۔
گاڑی میں۔۔۔اس نے نظریں ملائے بغیر کہا۔۔جواباً اسے ملامت نہیں کی گئی تھی جسکی وہ توقع کر رہی تھی۔۔
آئ ڈی کارڈ کی کاپی ہے؟؟ وہ کسی کو گاڑی لانے کے لیے بھیجنا چاہتا تھا۔۔وہ گلاس رکھ کر ایک بار پھر آئ ڈی کارڈ اپنے بیگ میں ڈھونڈنے لگی۔۔وہاں اسکا کوئی وجود نہیں تھا۔۔۔اسے یاد آیا کہ وہ دوسرے بیگ میں ہے۔۔اسکا دل وہاں سے بھاگ جانے کو چاہا اسے خود پر شدید غصہ آرہا تھا۔۔ اس دفعہ سالار نے اسکے جواب کا انتظار نہیں کیا تھا۔ میرے پیپرز میں دیکھو میری وائف کی آئ ڈی کارڈ کی کاپی ہوگی۔ وہ ڈرائیور کو دے دو اور کار کی چابیاں بھی بھجوا دیتا ہوں۔۔اس نے فون پر کہا۔۔۔
تمہیں اگر فریش ہونا ہو تو میرے سلپرز یہاں پڑے ہیں۔۔۔
یہ آفر بروقت آئی تھی۔۔۔اسے واقعی اس وقت کوئی ایسی جگہ چاہیئے تھی جہاں وہ اپنا منہ چھپا لیتی ۔ باتھ روم کا دروازہ بند کیئے وہ اپنے منہ پر پانی کے چھینٹے مارتی گئ۔
سنا ہے تمہاری کوئی گرل فرینڈ آئ ہوئ ہے۔؟؟
اس نے باہر رمشہ کی آواز سنی۔۔وہ سالار کو چھیڑ رہی تھی۔۔ وہ جواباً ہنسا۔۔
ہاں آج کی تھکا دینے والی میٹنگ کے بعد کسی گرل فرینڈ کا ایک وزٹ تو ڈیزرو کرتا تھا میں۔۔وہ آئینہ میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے انکی باتیں سنتی رہی۔۔۔وہ دونوں اب کسی کلائنٹ اور آج کی میٹنگ کو ڈسکس کر رہے تھے۔اسکا دل چاہا کہ وہ واپس کمرے میں نہ جائے وہ اس سین سے غائب ہونا چاہتی تھی۔۔
باتھ روم کا دروازہ کھلنے پر رمشہ خیر مقدمی انداز میں اسکی طرف آئی۔۔۔
چلو کسی بہانے تمہاری بیگم تو یہاں آئی۔رمشہ نے اس سے ملتے ہوئے کہا۔۔
سالار جواب دینے کی بجائے صرف مسکرایا۔۔
چند منٹ وہ کھڑی باتیں کرتی رہی پھر اس نے کہا۔۔
اب اگلی میٹنگ ہے۔۔ تو تم آ رہے ہو کیا۔۔۔؟؟
ہاں میں آتا ہوں۔۔۔تم اسٹارٹ کرلو میٹنگ میں دس پندرہ منٹ میں آتا ہوں۔۔۔اس نے کہا۔۔۔
رمشہ امامہ کو خدا حافظ کہتے ہوئے نکل گئ۔
تم چلے جاؤ۔۔ گاڑی آئیگی تو میں چلی جاؤں گی۔۔اس نے کمرے میں پڑے جوتے کے ڈبے سے نیا جوتا نکالتے ہوئے سالار سے کہا۔۔
تم سینڈوچ کھاؤ۔ تم نے ہی صبح بنا کر دیئے تھے۔ آج کلائنٹس کے ساتھ لنچ کیا یہ کھا نہ سکا۔۔وہ ٹیبل پر پڑے سینڈوچ کا ایک ٹکڑا اٹھا کر کہہ رہا تھا۔۔
مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔اس وقت حلق سے کچھ اتارنا بہت مشکل تھا۔۔۔
کیوں بھوک نہیں ہے۔۔۔۔لنچ کیا ہے کیا تم نے/؟؟؟
نہیں لیکن بھوک نہیں۔۔۔
پھر کھاؤ صرف ایک کھاؤ۔۔۔وہ اسے بہلا رہا تھا۔۔
امامہ کیساتھ کوئ مسئلہ تھا اور اس وقت پوچھنا بے کار تھا۔۔۔وہ جب پریشان ہوتی تھی تو اسی طرح چیزیں بھولتی تھی۔وہ سر جھکائے سینڈوچ کھانے لگی جو اس نے اسکے سامنے پلیٹ میں رکھا تھا۔۔
اسکا خیال تھا کہ سالار اسکی ان حرکات پہ اب تبصرہ کریگا لیکن وہ ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا۔۔۔سینڈوچ ختم ہونے کے بعد اس نے امامہ سے چائے کا پوچھا۔۔۔اور اسکے انکار پر اس نے انٹرکام پر کسی سے ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کے لیئے کہا۔۔
میں تمہیں اپنی گا ڑی میں بھجوا رہا ہوں تمہاری گاڑی جب آئیگی تو میں بھجوا دیتا ہوں۔۔
میں خود ڈرائیو کر کے چلی جاتی ہوں۔۔۔اس نے کہا۔۔۔
تمہیں ڈرائیور ڈراپ کردے گا تم اپ سیٹ ہو اور میں نہیں چاہتا تم ڈرائیو کرو۔۔وہ بول نہ سکی۔۔۔
میں خود چلی جاتی ہوں۔۔اس نے بنک ایگزٹ پر سالار سے کہا۔۔
یار کلائنٹس کو بھی یہاں تک چھوڑنے آتا ہوں تم تو بیوی ہو میری ۔۔وہ مسکرایا تھا۔۔
ڈرائیور پارکنگ میں کھڑی گاڑی دروازے کے سامنے لایا تھا ۔ڈرائیور گاڑی کا دروازہ کھولنے آیا۔مگر اس سے پہلے سالار اسکے لیے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول چکا تھا۔۔
وہ گاڑی میں بیٹھنے کی بجائے اسے رک کر دیکھنے لگی۔۔وہ اسکا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی لیکن اسکے حلق میں ایک بار پھر گرہیں پڑنے لگی تھیں۔۔
Anything else ma'am
سالار نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
تھینک یو۔۔اس نے بلآخر کہا۔۔
Always at your disposal ma'am
اس نے اپنا بازو اس کے گرد پھیلاتے ہوئے اسے گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔
وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔سالار نے دروازہ بند کردیا۔چلتی ہوئ گاڑی میں امامہ نے ایک لمحے کے لیئے مڑ کر دیکھا وہ ابھی وہی کھڑا تھا۔۔وہ یقیناً گاڑی کے مین روڈ پہ جانے کا انتظار کر رہا تھا اس نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔۔
جسکی ذمہ داری تھی وہ شخص اس کے لیے کھڑا تھا۔۔ وہ جلال کی ذمہ داری نہیں تھی۔۔وہ پھر کیوں یہ توقع کر رہی تھی کہ وہ اسکے لیئے اتنی کرٹسی دکھاتا۔۔اس نے ٹھیک کیا تھا اسکے ساتھ ٍڈرائیور بھیج کر وہ واقعی اس وقت ڈرائیو کرنے کے قابل نہیں تھی۔۔گھر آ کر بھی وہ بے مقصد لاؤنج میں بیٹھی رہی ۔۔آج کا دن بے حد برا تھا۔۔تکلیف دہ یادوں کا سلسلہ تھا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔
کیا ہوا ہے تمہیں۔۔۔سالار نے اس رات کھانے کی ٹیبل پہ اس سے پوچھا۔۔
کچھ نہیں۔۔۔جواب حسب توقع تھا۔۔
سالار نے کھانا کھاتے کھاتے ہاتھ روک کر اسے دیکھا۔۔
کوئی پریشانی نہیں۔۔بس اپنی فیملی کو مس کر رہی ہوں۔۔اس نے جھوٹ بولا۔۔
سالار نے اسے کریدا نہیں۔ وہ اسے صرف بہلانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔وہ ڈنر کے بعد کام کے لیے سٹڈی روم میں چلا گیا امامہ نے سونے کی کوشش کی لیکن سو نہ سکی۔۔کتنا وقت اس نے اندھیرے میں بستر پر چت لیٹے چھت کو گھورتے ہوئے گزارا اسکو پتہ ہی نہ چلا۔۔سوچوں کا تسلسل تب ٹوٹا جب اسے دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔۔۔۔۔سالار سونے کے لیئے حتی الامکان آہستگی سے دروازہ کھولا تھا۔۔پھر وہ دروازہ بند کر لے لائٹ آن کیے بغیر اسی طرح احتیاط سے دبے پاؤں واش روم کی طرف گیا۔۔
امامہ نے آنکھیں بند کرلی۔۔نیند اب بھی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔وہ کپڑے تبدیل کر کے سونے کے لیئے آ کر لیٹا تھا۔۔اس نے امامہ کی طرف کروٹ لی۔۔اور پھر امامہ نے اسکی آواز سنی۔۔
تم جاگ رہی ہو؟ ۔۔۔۔۔
تمہیں کیسے پتا چل جاتا ہے۔۔وہ کچھ جھلائی۔۔
پتا نہیں کیسے؟ بس پتا چل ہی جاتا ہے۔۔کیا پریشانی ہے؟؟ ایک لمحہ کے لیئے اسکا دل چاہا کہ وہ اسے بتادے اپنی اور جلال کی ملاقات کے بارے میں لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے اس خیال کو جھٹک دیا۔۔
کچھ نہیں بس میں ڈپریسڈ تھی۔
اسی لیئے تو کہا تھا باہر چلتے ہیں۔۔۔سالار نے کہا۔۔
میں ٹھیک ہوں اب۔۔۔امامہ نے ایک دم کسی ننھے بچے کی طرح اس کے سینے میں منہ چھپاتے ہوئے کہا ۔وہ اسکے سر کو چومتے ہوئے اسے تھپکنے لگا۔۔۔امامہ کا دل بھر آیا۔۔۔
اگر اسکی زندگی میں جلال انصر نام کا کوئی باب نہ آیا ہوتا تو کتنا ہی اچھا ہوتا۔۔وہ اس شخص کیساتھ بہت خوش رہ سکتی تھی۔۔
*****----+****----********
جلال کیساتھ اسکی ہونے والی ملاقات اتفاقی تھی ایک ایسا اتفاق جسے وہ دوبارہ نہیں چاہتی تھی۔اسے پتہ نہیں تھا کہ یہ اتفاقی ملاقات اسکے لیئے کتنے خطرناک اثرات لیکر آنے والی تھی۔۔۔مہینوں یا سالوں میں نہیں بلکہ دنوں میں۔۔۔
دو دنوں بعد وہ ایک ڈنر میں مدعو تھے۔۔وہ اس وقت سالار کیساتھ کھڑی چند لوگوں سے مل رہی تھی۔۔جب اس نے ہیلو کی ایک شناسا آواز سنی۔امامہ نے گردن موڑ کر دیکھا اور پھر وہ ہل نہ سکی۔۔وہ فاروق تھا جو بے حد گرمجوشی کیساتھ سالار سے مل رہا تھا۔۔
میری بیوی۔۔۔۔۔۔۔۔سالار اب اسکا تعارف کروا رہا تھا۔۔تعارف کی ضرورت نہیں ہے میں پہلے ہی ان سے مل چکا ہوں۔۔۔سالار نے کچھ حیران سا ہوکر فاروق کو دیکھا۔۔
آپ مل چکے ہیں امامہ سے؟؟؟
بالکل ابھی پرسوں ہی تو ملے ہیں۔۔ڈاکٹر جلال انصر کیساتھ لنچ کر رہی تھی۔۔دراصل جلال ھمارے فیملی ڈاکٹر ہیں۔۔انہوں نے بتایا کہ یہ انکی پرانی کلاس فیلو ہے اور جب انہوں نے اسکو آپکا ویزیٹنگ کارڈ دیا تب مجھے پتہ چلا کہ یہ آپکی وائف ہیں۔۔۔
فاروق بڑے خوشگوار انداز میں کہہ رہا تھا۔۔۔
میں نے اور میری مسز نے تو کھانے پہ بھی انوائٹ کیا تھا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ آپ آجکل مصروف ہیں۔۔
فاروق نے نہ امامہ کی فق ہوتی رنگت کو دیکھا نہ سالار کے بے تاثر چہرے کو۔۔جو کچھ وہ کہہ رہا تھا سالار کو اس پر یقین نہیں آرہا تھا۔اسکے کان جیسے سن ہورہے تھے۔۔وہ جلال انصر سے مل رہی ہے؟؟ لیکن کب سے۔۔۔۔
فاروق کی بات سنتے ہوئے امامہ نے اسے خشک ہوتے گلے کیساتھ دیکھا۔۔اس نے اسکے بے تاثر چہرے کو دیکھ کر غلط اندازہ لگایا تھا۔۔
میں اسے سب کچھ بتادوں گی وہ میری بات سمجھ لے گا اسکے بے تاثر چہرے نے امامہ کو عجب خوش فہمی میں مبتلا کردیا۔
آپ ظہیر صاحب سے ملے ہیں؟؟ اس نے ایک دم سالار کو فاروق کی بات کاٹتے دیکھا۔۔۔
آئے ہوئے ہیں کیا؟؟
ہاں ابھی ہم لوگ آپ ہی کی بات کر رہے تھے۔۔آئیے میں آپکو ملواتا ہوں ۔۔سالار فاروق کو لیئے ایک طرف چلا گیا۔۔
وہ دوبارہ پلٹ کر اسکی طرف نہیں آیا۔۔ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ کسی پارٹی میں اسکے پاس نہیں آیا تھا۔۔۔وہ کچھ پریشان ہوگئی۔ لیکن اسے ابھی بھی یقین تھا کہ سالار اس چیز کو بڑا ایشو نہیں بنائے گا۔۔۔
گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بھی اسکی خاموشی ویسے ہی تھی۔۔گاڑی کے مین روڈ پر آنے کے چند منٹوں بعد امامہ نے اسکی طویل خاموشی کو توڑنے کی کوشش کی۔۔
تم مجھ سے ناراض ہو۔۔۔؟؟
Will you please shut up
وہ فریز ہوگئی تھی۔۔۔
میں اس وقت گاڑی ڈرائیو کرنا چاہتا ہوں۔۔تمہاری بکواس سننا نہیں چاہتا۔۔وہ اس پر چلایا نہیں تھا لیکن جو کچھ اسکی نظروں میں اور اسکے ٹھنڈے لہجے میں تھا۔۔۔وہ امامہ کو مارنے کے لیئے کافی تھا۔ وہ اسے دوبارہ مخاطب کرنے کی ہمت نہ کرسکی ۔۔اتنے مہینوں میں اس نے اسے اندھا دھند گاڑی کو ڈرائیو کرتے ہوئے دیکھا ۔۔
اپارٹمنٹ میں داخل ہونے کی بعد وہ اپنی جیکٹ لاؤنج میں صوفے صوفے پر پھینکتے ہوئےسیدھا کچن میں گیا۔۔امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کچن میں جائے یااسکے بیڈروم میں آنے کا انتظار کرے ۔۔اپنی چادر اتارتے ہوئے وہ کچھ دیر اپارٹمنٹ کے بیرونی دروازے کے پاس ہی کھڑی رہی اس کا ذہن اب ماؤف ہونے لگا تھا۔۔وہ اتنے عرصہ کے بعد ایک دوست اور ایک عاشق کے ساتھ رہ رہی تھی لیکن آج پہلی بار ایک شوہر کا سامنا کر رہی تھی۔
کوریڈور میں کھڑے کھڑے اس نے سینڈلز اتارے۔۔تب ہی اس نے سالار کو کچن ایریا سے پانی کا گلاس لے جاتے اور پھر ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھے دیکھا ۔۔اب اسکی پشت امامہ کی طرف تھی ۔۔پانی کا گلاس خالی کر کے ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ اب اپنی ٹائ اتار رہا تھا
وہ اب اپنے گلے سے ٹائی اتار رہا تھا۔ وہ چند لمحے کھڑی اسے دیکھتی رہی پھر آگے بڑھ آئی۔ وہ کرسی کھینچ کر بیٹھی ہی تھی کہ وہ کرسی دھکیلتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔
سالار میری بات سنو۔
ابھی کچھ اور رہ گیا ہے جو تم نے مجھے بتانا ہے؟ اس نے سالار کی آنکھوں میں پہلے کبھی تحقیر نہیں دیکھی تھی لیکن آج دیکھ رہی تھی۔
مجھے وضاحت کا موقع تو دو۔
وضاحت؟ کس چیز کی وضاحت؟ تم مجھے یہ بتانا چاہتی ہو کہ تم نے اپنے ایکس بوائے فرینڈ کے لیے اپنے شوہر کو دھوکہ دینا کیوں ضروری سمجھا؟
اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
یا تم مجھے یہ بتاؤ گی کہ تمہاری ایکس بوائے فرینڈ کی وہ کون سی خوبی ہے جو تمہیں اپنے شوہر میں نظر نہیں آئی۔ وہ اپنے لہجے سے اسے کاٹ رہا تھا۔ اس سے بہتر ہے کہ تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم کب سے اس سے مل رہی ہو؟
میں اتفاقا اس سے ملی وہ بھی صرف ایک بار۔۔۔۔۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کچھ کہنا چاہا۔ سالار نے پوری قوت سے ڈائننگ ٹیبل پر ہاتھ مارا۔
Stop befooling me women...
وہ پوری قوت سے چلایا۔ امامہ کی ہاتھ کانپنے لگے۔
تم سمجھتی ہو میں اب تم پہ اعتبار کر لوں گا؟ تم نے میری نظروں میں اپنی عزت ختم کر دی آج۔
You are nothing but a bloody cheater.
وہ کہتے ہوئے وہاں رکا نہں تھا۔ بیڈروم میں جانے کی بعد وہ سٹڈی روم میں چلا گیا۔
اس نے اپنی مٹھیاں بھینچ کر جیسے اپنے ہاتھوں کی کپکپاہٹ دور کرنے کوشش کی۔ اس کےالفاظ بار بار اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ بات اتنی بڑی نہیں تھی جتنی سالار نے بنا لی تھی۔ لیکن اتنی چھوٹی بھی نہیں تھی جتنا امامہ سمجھی تھی۔ وہ اس کے اور جلال کے ماضی کے تعلق سے اگر واقف نہ ہوتا تو کبھی بھی کسی کلاس فیلو کیساتھ کھانا کھانے پر اتنا ہنگامہ کھڑا نہ کرتا۔
وہ اٹھ کر بیڈروم میں آگئی۔ سونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔۔وہ ساری رات جاگتی رہی سالار بیڈروم نہیں آیا۔اسےیقین تھا کہ صبح تک اسکا غصہ ختم نہیں تو کم ضرور ہوجائے گا۔۔اور وہ اس سے دوبارہ بات کرنا چاہتی تھی۔۔
وہ فجر کے وقت کمرے میں آیا تھا اس پر ایک نظر ڈالے بغیر وہ کہتے تبدیل کر کے نماز کے لیئے چلا گیا۔۔اسکی واپسی معمول کے مطابق جم اور جاگنگ کے بعد آفس جانے سے کچھ دیر پہلے ہوئی تھی۔۔اس نے امامہ کو تب بھی مخاطب نہیں کیا۔۔امامہ کے نکالے ہوئے کپڑوں کی بجائے وہ اہنے نکالے ہوئے کپڑے لیکر واش روم گیا۔۔
وہ کچھ دلبرداشتہ ہوکر کچن میں ناشتہ بنانے لگی۔۔سالار تیار ہوکر لاؤنج آیا لیکن ناشتے کی ٹیبل پر جانے کی بجائےسٹڈی روم چلاگیا۔اسے پتا تھا ۔وہ اپنا لیپ ٹاپ لینے گیا ہوگا وہاں لیکن ایسا وہ ناشتہ کرنے کے بعد کرتا تھا آج پہلے لینے کا مطلب تھا کہ۔۔۔۔
سالار ناشتہ لگا دیا ہے میں نے۔۔ امامہ نےاس سے کہا۔۔۔
اس کے لیئے تم جلال کو بلا لو۔۔اس نے بات نہیں کہی تھی اسے کوڑا مارا تھا۔۔۔وہ سفید پڑ گئ۔وہ ایک لمحہ رکے بنا اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔۔
وہ کتنی دیر وہاں کھڑی رہی اسکے لفظ کسی خاردار تار کی طرح اسے اپنی گرفت میں لیئے ہوئے تھے۔۔۔
وہ سارا دن کچھ کھا نہ سکی۔۔اس نے دو بار سالار کو کال کی لیکن اس نے ریسیو نہیں کی۔۔اس نے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے اس سے معافی مانگی۔۔اس نے ٹیکسٹ کا بھی کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔وہ روزانہ سات یا آٹھ بجے کے قریب گھر اتا تھا اگر اسے کبھی دیر سے آنا ہوتا تو اسے مطلع کردیتا تھا۔۔لیکن اس دن وہ رات کو تقریباً دس بجے آیا تھا۔۔۔
آج بہت دیر ہوگئی؟ امامہ نے دروازہ کھولنے پر پوچھا۔۔۔سالار نے جواب نہیں دیا۔۔
وہ کھڑی صرف اسے دیکھتی رہ گئی۔
لاؤنج میں ریموٹ سے ٹی وی آن کرتے ہوئے وہ بیڈروم میں چلا گیا۔۔یہ جیسے اشارہ تھا کہ وہ دوبارہ ٹی وی دیکھنے کے لیئے وہاں آٰئے گا۔ امامہ کو یقین تھا کہ وہ کھانا نہیں کھائے گا لیکن پھر بھی بوجھل دل سے وہ کھانا لگانے لگی۔
وہ دس پندرہ منٹ بعد کپڑے تبدیل کر کے لاؤنج میں آگیا تھا۔ فریج سے انرجی ڈرنک نکال کر وہ صوفے پر بیٹھ کر چینل سرفنگ کرنے لگا۔
کھانا تیار ہے۔۔امامہ نے اسے انفارم کیا۔۔وہ ٹی وی دیکھتا رہا۔۔
تم کھانا کیوں نہیں کھا رہے۔۔وہ آگے بڑھی۔۔اس نے ٹی وی سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔۔
یہ میرا گھر ہے، یہاں موجود ہر چیز میری ہے، اور کھانا کھانا نہ کھانا میرا مسلہ ہے تمہارا نہیں۔۔۔اسکی آنکھوں میں بے رخی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔۔۔
مں نے تمہارے انتظار میں ابھی تک کھانا نہیں کھایا۔۔
Stop this bullshit
وہ عجیب سے انداز میں ہنسا تھا۔۔۔
میں تمہارے ہاتھوں بے وقوف ضرور بن گیا ہوں لیکن بے وقوف ہوں نہیں۔۔۔
سالار تم جو سمجھ رہے ہو ایسا بلکل نہیں۔۔وہ اسکے سامنے صوفے پر بیٹھ گئ ۔۔۔
بلکل تم ٹھیک کہہ رہی ہو میں جو تمہیں سمجھا تھا وہ غلط تھا۔۔
امامہ کے خلق میں پھر گرہیں پڑنے لگی۔۔
تم میری بات کیوں نہیں سن لیتے۔۔اس نے بھرائ ہوئ آواز میں کہا۔۔
امامہ ۔۔۔آج میرے سامنے رونا مت، تم مجھے استعمال کر رہی ہو ایکسپلائٹ کر رہی ہو،،، کرو ۔۔لیکن ایموشنلی بلیک میل مت کرو
۔وہ اسکے آنسو دیکھ کر بری طرح مشتعل ہوا تھا۔۔
ٹھیک ہے تم بات سننا نہیں چاہتے۔۔مت سنو۔۔لیکن معاف کردو مجھے۔۔۔میری غلطی ہے مجھے اس سے نہیں ملنا چاہیئے تھا۔۔اس نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔
اسطرح ملنے کی بجائے تمہیں اس سے شادی کرلینی چاہیئے ۔۔اس نے اسکی بات کاٹ کر کہا۔۔
سالار وہ شادی شدہ ہے۔۔وہ بات مکمل نہ کرسکی۔۔اسکے آنسو بہنے لگے تھے اور اسکے بات ادھورا چھوڑنے پر وہ سلگا تھا۔۔
بہت دکھ ہے تمہیں اسکے شادی شدہ ہونے کا؟؟ تو کہو اس سے تم سے دوسری شادی کرلے یا بیوی کو طلاق دے لیکن اسے ایسا کرنے کی کیا ضرورت ہے تم تو ویسے ہی اسے دستیاب ہو۔۔
وہ سانس نہ لے سکی۔۔کم از کم اسے اسکی زبان سے یی سننے کی توقع نہیں تھی۔۔
کیا مطلب ہے تمہارا؟ اس نے بے یقینی سے کہا۔۔
تم جو مطلب نکالنا چاہتی ہو نکال لو۔۔اس نے کہا۔۔
میرے کیریکٹر پر بات کر رہے ہو تم ؟؟اسکا چہرہ سرخ ہونے لگا تھا۔۔
کیریکٹر ہے تمہارا؟؟ اس نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔۔
کیریکٹر تھا تو شادی کی تھی تم نے ۔۔۔اسے اپنی بھرائ ہوئ آواز اے خود ہی جھنجھلاہٹ ہونے لگی تھی۔۔
شادی نہیں غلطی کی تھی۔and i regret it وہ اسکا منہ دیکھ کر رہ گئ۔خاموشی کا ایک لمبا وقفہ آیا تھا۔۔پھر اس نے اپنے خلق میں پھنسا آنسووں کا گولہ نگلتے ہوئے کہا۔۔
میری فیملی ہوتی نا تو میں تم سے اس طرح کی ایک بات بھی نہ سنتی۔لیکن اب اور کچھ مت کہنا ورنہ میں تمہارا گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔۔
سالار نے جواب میں ٹیبل پر پڑا اپنا سیل اٹھایا۔۔اس نے فرقان کو کال کی۔
تمہارا ڈرائیور سو تو نہیں گیا۔۔
نہیں۔۔۔دوسری طرف سے فرقان نے کہا۔۔
تمہیں ضرورت ہے؟؟
ہاں۔۔۔۔
اچھا میں اسے بتاتا ہوں۔۔سالار نے سیل فون بند کردیا۔۔
ڈرائیور تمہیں چھوڑ آتا ہے تم پیکنگ کر کے جاسکتی ہو۔۔لیکن مجھے کبھی گھر چھوڑنے کی دھمکی مت دینا۔۔جو کچھ تم میرے گھر میں رہ کے کر رہی ہو بہتر ہے یہاں سے چلی جاؤ۔۔۔وہ اٹھ کر بیڈروم چلا گیا۔۔
وہ بت کی طرح وہی بیٹھی رہی۔۔اس نے اسے دھکے دیکر نہیں نکالا تھا لیکن وہ یہی سمجھی۔۔۔چند لمحے بعد وہ اٹھ کر اپارٹمنٹ سے باہر آئی۔۔
لفٹ میں اس نے اپنے دوپٹے سے بھیگی آنکھوں اور چہرے کو رگڑ کر خشک کیا۔۔وہ ڈرائیور کے سوالوں سے بچنا چاہتی تھی۔۔
مجھے سعیدہ اماں کی طرف چھوڑ دو۔۔اس نے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے کہا۔۔
سعیدہ اماں نے نیند سے اٹھ کر دروازہ کھولااور امامہ کو دیکھ کر بری طرح پریشان ہوئی۔۔مگر اس سے زیادہ پریشان وہ اسے اندر آکر بلک بلک کر روتے دیکھ کر ہوئی تھی۔۔
سالار نے گھر سے نکال دیا؟ وہ سن کر حواس باختہ ہوگئ تھی۔۔وجہ کیا تھی۔۔وہ سعیدہ اماں کو تو کیا کسی کو بھی نہیں بتا سکتی تھی۔۔
بھائی جان کو فون ملا کردو۔۔۔میں ان سے بات کرتی ہوں۔۔ایسے کیسے گھر سے نکال سکتا ہے وہ۔۔سعیدہ اماں کو غصہ آنے لگا۔۔۔
امامہ نے اسکے اصرار کے باوجود آدھی رات کو ڈاکٹر سبط علی کو فون نہیں کیا۔۔۔یہ مصیبت اسکی تھی وہ اسکے لیئے لوگوں کی نیند خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔
وہ خود پچھلی رات نہیں سوئ اور اب اسطرح روتے روتے اسکا سر درد سے پھٹنے لگا تھا۔۔فجر کی نماز کے بعد وہ سونے کے لیئے لیٹ گئ۔نیند مشکل سے آئ لیکن آ گئ تھی۔۔
دوبارہ اسکی آنکھ دوپہر کو کھلی اور آنکھ کھلنے پر اسے یہ سب ایک بھیانک خواب کی طرح لگا تھا۔۔۔
سالار نے کوئ فون تو نہیں کیا؟؟ اس نے سعیدہ اماں کے کمرے میں آنے پر پوچھا۔۔
نہیں ۔۔۔۔تم نہالو میں کھانا لگانے لگی ہوں۔۔پھر بھائ صاحب کی طرف چلتے ہیں۔۔سعیدہ اماں کہہ کر نکل گئ۔۔پتا نہیں اسے کیوں امید تھی کہ وہ پچھتا رہا ہوگا شاید اسکے چلے جانے کے بعد اسے احساس ہوگیا ہوگا کہ اس نے زیادتی کی ہے۔بارہ گھنٹے غصہ ختم ہونے کے لیئے کافی تھے اگر یہ سب کچھ اس نے غصے میں کیا تھا ۔
اس نے بوجھل دل کیساتھ شاور لیا اور سعیدہ اماں کے گھر پڑے ہوئے اپنے کپڑوں میں سے ایک جوڑا نکال کر پہن لیا۔۔اسے بہت بھوک لگ رہی تھی لیکن دو لقمے لیتے ہی اسکی بھوک مرگئ۔۔
سعیدہ اماں نے زبردستی اسے کھانا کھلایا۔۔وہ کھانے کے فوراً بعد ڈاکٹر صاحب کی طرف جانا چاہتی تھی لیکن امامہ ڈاکٹر صاحب کو انکے آفس فون پر اس طرح کی گفتگو سے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
لیکن سعیدہ اماں اس پر تیار نہیں تھی وہ اسے زبردستی ڈاکٹر صاحب کے گھر لے آٰئی۔۔کلثوم آنٹی سب کچھ سن کر سعیدہ اماں کی طرح حواس باختہ ہوئی ۔۔ڈاکٹر صاحب ابھی آفس سے نہیں آئے تھے۔۔۔
لیکن بیٹا جھگڑا کس بات پر ہوا۔۔؟؟؟امامہ کے پاس اس ایک سوال کا جواب نہیں تھا۔۔
سعیدہ اماں اور کلثوم آنٹی کے ہر بار پوچھنے پر اسے احساس ہوتا کہ اس سوال کا جواب اسکی نیت صاف ہونے کے باوجود اسکو مجرم بنا رہا تھا۔۔اگر وہ انکو یہ بتاتی کہ وہ اپنے ایک پرانے دوست کے ساتھ کھانے پر گئ تھی تو وہ کبھی کسی اچھے رد عمل کا اظہار نہیں کرتے۔۔وہ یہ سب ڈاکٹر صاحب کو بھی نہیں بتاسکتی تھی جو گھر آتے ہی اسے اس طرح دیکھ کر پریشان ہوئے تھے۔
اسے میرے کیریکٹر پر شک ہے۔۔اس نے انکے بار بار پوچھنے پر سر جھکائے ہوئے کہا۔۔ڈاکٹر سبط علی کو جیسے شاک لگا تھا۔۔سعیدہ اماں اور کلثوم آنٹی بھی بول نہ سکی۔۔ڈاکٹر صاحب نے اسکے بعد کوئ سوال نہیں کیا اس سے۔۔۔
وہ رات کو آئے گا تو میں اس سے بات کروں گا۔۔پریشانی کی بات نہیں۔۔ٹھیک ہوجائے گا سب۔۔۔اس نے امامہ کو تسلی دی۔۔
میں اسکے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔۔میں جاب کرلوں گی لیکن اب اسکے گھر نہیں جاؤں گی۔۔ڈاکٹر سبط علی نے اسکی کسی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔۔وہ اب بھی شاک میں تھے۔سالار سکندر کے بارے میں جو تاثر وہ آج تک بنائے بیٹھے تھے وہ بری طرح مسخ ہوا تھا۔وہ خود کو یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ سب کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہوسکتا ہے ورنہ سالار اس لڑکی کو آدھی رات اس طرح کا الزام لگا کر نہیں نکال سکتا جس کو وہ اپنی بیٹی کہتے تھے۔
فرقان اس رات اکیلا آیا تھا۔ سالار اسکے ساتھ نہیں تھا۔ڈاکٹر صاحب نے لیکچر کے بعد اسے روک لیااور سالار لے بارے میں پوچھا۔۔
وہ کچھ مصروف تھا اس لیئے وہ نہیں آسکا۔۔فرقان نے اطمینان سے کہا۔۔
آپ کو اس نے بتایا ہے کہ اس نے امامہ کو گھر سے نکال دیا ہے؟؟ فرقان چند لمحے بول نہ سکا۔
امامہ کو؟؟؟ اس نے بے یقینی سے کہا۔۔۔
آپکے ڈرائیور کے ذریعے ہی اس نے کل امامہ کو سعیدہ بہن کے گھر بجوایا تھا۔۔
فرقان کو پچھلی رات سالار کی کال یاد آگئ۔
مجھے یقین نہیں آرہا،، کیسے؟؟؟مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرقان کا دماغ واقعی چکرا گیا۔۔۔سالار امامہ پر جس طرح جان چھڑکتا تھا کم از کم اس کے لیے یہ بات ماننا ممکن نہیں تھا کہ وہ اسے گھر سے نکال سکتا ہے۔۔اور وہ بھی اس طرح آدھی رات کو۔ وہ اسے کل جم میں بہت خاموش لگا تھا اور آج تو آیا ہی نہیں تھا۔۔
میں اسے ابھی فون کرتا ہوں میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔۔۔
فرقان نے پریشان ہوتے سالار کو اپنے سیل سے کال کی سالار کا سیل آف تھا۔ اس نے دوبارہ گھر کے نمبر پر ٹرائی کیا کسی نے فون نہیں اٹھایا۔ اس نے کچھ حیران ہو کر ڈاکٹر صاحب کو دیکھا۔۔
فون نہیں اٹھا رہا۔۔سیل آف ہے۔۔میں گھر جاکر اس سے بات کرتا ہوں آپ امامہ کو میرے ساتھ بھیج دے ۔۔فرقان واقعی پریشان ہوگیا تھا۔
نہیں۔۔۔۔امامہ آپکے ساتھ نہیں جائیگی۔اس نے نکالا ہے خود ہی آکر معذرت کر کے لے جائے۔ڈاکٹر صاحب نے دو ٹوک انداز میں کہا۔۔
آپ اسے جاکر میرا پیغام دے۔۔فرقان نے ڈاکٹر سبط علی کو کبھی اتنا سنجیدہ نہیں دیکھا۔۔****
*****-----*****-----***----
سالار نے بیل کی آواز کو چند بار نظرانداز کرنے کی کوشش کی لیکن جب اسے اندازہ ہوگیا کہ فرقان جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور اسکا یہ ارادہ کیوں تھا وہ جانتا تھا۔ اس نے جاکر دروازہ کھولا اور پھر دروازہ کھلا چھوڑ کر اندر آگیا۔۔۔
تم نے امامہ کو گھر سے نکال دیا ہے؟ فرقان نے اندر آتے ہی اپنے عقب میں دروازہ بند کرتے ہوئےکہا۔
میں نے نہیں نکالا، وہ خود گھر چھوڑ کر گئی ہے۔سالار نے پیچھے دیکھے بغیر سٹڈی روم میں جاتے ہوئے کہا۔۔
مجھ سے جھوٹ مت بولو۔ تم نے خود مجھے ڈرائیور کو بھیجنے کا کہا تھا۔۔
فرقان اسکے پیچھے سٹڈی روم میں آگیا۔۔۔
ہاں۔۔کہا تھا کیونکہ اس نے مجھے گھر چھوڑنے کی دھمکی دی تھی۔۔تو میں نے کہا ٹھیک ہے تمہیں کل جانا ہے تم آج چلی جاؤ ۔۔لیکن میں نے اسے نکالا نہیں۔۔۔
اس نے اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بے تاثر چہرے سے کہا۔۔فرقان نے سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھرے ایش ٹرے کو دیکھااور پھر اس سلگتے ہوئے سگریٹ کو جسے وہ دوبارہ اٹھا رہا تھا۔۔
بیویاں گھر چھوڑنے کی دھمکیاں دیتی رہتی ہیں اسکا یہ مطلب نہیں کہ اسے اس طرح گھر سے نکال دو۔۔فرقان نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔
دیتی ہوگی but she dare not do that to me.....
اس نے فرقان کی بات کاٹ کر کہا۔۔
ڈاکٹر صاحب کتنے پریشان ہیں تمہیں اندازہ ہے؟؟
یہ میرا اور اسکا معاملہ ہے وہ ڈاکٹر صاحب کو بیچ میں کیوں لائی ہے۔۔وہ سلگا تھا۔۔
وہ کیسے نہ لیکر آتی تم اسے گھر سے نکالتے اور ڈاکٹر صاحب کو پتا نہ چلتا؟
وہ چاہتی تو نہ پتا چلتا۔ اگر اتنی جرات تھی کہ گھر چھوڑ کر چلی گئ تو پھر اتنا حوصلہ بھی ہونا چاہیئے تھا کہ منہ بند رکھتی۔۔۔اس نے سگریٹ کا ٹکڑا ایش ٹرے میں پھینکتے ہوئے کہا۔۔۔
تمہیں کیا ہوا ہے؟
کچھ نہیں۔۔۔۔۔
کس بات پہ جھگڑا ہوا ہے تم دونوں کا۔؟
بس ہوگیا کسی بات پر۔۔۔وہ کم از کم وجہ بتانے کا کوئ ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔
فرقان آدھے گھنٹے بحث کے بعد اس سے وجہ معلوم نہ ہوسکی اور پھر اس نے ہتھیار ڈال دیئے۔
ٹھیک ہے جو ہو گیا سو ہوگیا اب تم اسے لے آؤ۔۔
یہ میں نہیں کروں گا۔۔نہ میں نے اسے نکالا ہے نہ میں اسے لیکر آؤں گا۔۔وہ خود آنا چاہتی ہے تو آجائے۔۔اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔۔
اور ڈاکٹر صاحب یہ سب نہیں ہونے دینگے۔۔انکا پیغام یہی ہے کہ تم جا کر معذرت کر کے اسے لے آؤ۔۔سالار خاموش رہا۔۔۔
میرے ساتھ چلو ابھی اسے لے آتے ہیں۔۔
میں نہیں جاؤں گا۔۔ڈاکٹر صاحب سے میں خود بات کرلوں گا۔۔
ابھی کرو بات۔۔۔۔۔۔
میں ابھی بات نہیں کرنا چاہتا۔۔میں چاہتا ہوں وہ کچھ دن وہاں رہے یہ اسکے لیئے اچھا ہوگا۔۔۔فرقان اگلے دو گھنٹے بیٹھے اسے یہی سمجھاتا رہا۔۔لیکن وہ اسکے انکار کو اقرار میں نہ بدل سکا۔۔وہ بے حد ناخوش سالار کے اپارٹمنٹ سے گیا۔ اسکی خفگی نے سالار کے فرسٹریشن میں اور بھی اضافہ کیا۔۔
******-----****----*****-*
ڈاکٹر سبط علی اگلے چار دن اسکا انتظار کرتے رہے وہ نہیں آیا نہ ہی اس کا کوئی فون آیا تھا۔ انہیں خود اسکو فون کرنے میں عار تھا۔ انہیں کہیں نہ کہیں یہ توقع تھی کہ وہ انکا اتنا احترام ضرور کرتا ہے کہ ان کا پیغام ملنے پر آجاتا۔۔لیکن اسکی مکمل خاموشی نے جیسے انہیں ذہنی دھچکا پہنچایا تھا۔ امامہ اس دن سے انکے گھر پر تھی۔
فرقان ڈاکٹر سبط علی اور سالار کے اپارٹمنٹ کے درمیان گھن چکر بنے ہوئے تھے۔۔اس ساری صورت حال میں سب سے زیادہ ابتر ذہنی حالت امامہ کی تھی۔۔اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اسکے معاملے میں اس طرح کا رویہ دکھا سکتا ہے۔۔
چوتھے دن ڈاکٹر سبط علی نے سالار کو فون کردیا۔۔وہ آفس میں بیٹھا ہوا تھا اور سیل پر ڈاکٹر صاحب کا نمبر دیکھ کر چند لمحے وہ ہل نہ سکا ۔۔یہ ایک ایسی کال تھی جس سے وہ بچنا بھی چاہتا تھا اور جسے وہ اٹینڈ نہ کرنے کی جرات بھی نہیں کرسکتا تھا۔۔رسمی سلام۔دعا کے بعد ڈاکٹر سبط علی نے بغیر کسی تمہید کے اس سے کہا۔۔
آپ اگر شام کو میری طرف آسکتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ میں آجاتا ہوں۔۔اگر معاملہ ختم کرلیں گے تو ٹھیک ہے ورنہ معاملہ ختم کرلیں گے۔۔۔
انکے الفاظ میں اسکے لیئے کسی بھی قسم کا ابہام نہیں تھا۔۔
میں آجاؤں گا۔۔۔
مہربانی ہوگی آپکی۔۔۔۔اس نے مزید کوئی بات کیے بنا سلام کر کے فون بند کردیا۔۔۔
وہ فون ہاتھ میں پکڑے بیٹھا رہا ڈاکٹر سبط علی کا یہ لہجہ اسکے لیئے نیا تھا اور غیر متوقع وہ جملہ تھا جو اس نے آخر میں کہا۔۔معاملہ ختم کرنے تک نوبت کیسے آگئ تھی۔اسکے نزدیک یہ ایک جھگڑا تھا۔۔پہلی بار اسکے پیٹ میں گرہیں پڑی تھی۔۔
اس شام پہلے کی طرح ڈاکٹر سبط علی نے اسے دروازے سے ریسیو نہیں کیا۔نہ اس سے مصافحہ کیا نہ اسکے لیئے اٹھے تھے۔۔۔وہ لاؤنج میں کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔۔اس کے آنے پر اس نے کتاب بند کر کے سائیڈ پہ رکھی۔سالار سلام کر کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔
میں تم سے بہت لمبی چھوڑی بات نہیں کروں گا سالار۔۔سالار نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔۔وہ انکے منہ سے پہلی بات تم کا طرز تخاطب سن رہا تھاورنہ وہ تو اپنے ملازم کو بھی آپ کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔۔
میں پچھلے چار دن سے صرف اس بات پر شرمندہ ہوں کہ میں نے امامہ کی شادی تم سے کیوں کرائ۔تم اس قابل نہیں تھے۔۔محبت کے دعوے کرنا اور بات ہوتی ہے لیکن کسی عورت کو اپنے گھر میں عزت سے رکھناایک بلکل الگ بات ہے۔۔تم صرف پہلا کام کر سکتے تھے۔۔
لاؤنج سے منسلک کمرے میں وہ ڈاکٹر صاحب کی آواز اور اسکی خاموشی کو سن رہی تھی۔۔
اپنی بیوی کو اس طرح نکالنے والے مرد کو میں مرد تو کیا انسان بھی نہیں سمجھتا۔۔۔تمہیں اگر اس بات کا پاس نہیں تھا کہ وہ تمہاری بیوی ہے تو اس بات کا پاس ہونا چاہیئے تھا کہ وہ میری بیٹی ہے۔۔
میں نے اسے گھر سے نہیں نکالا وہ خود۔۔۔۔۔۔۔سالار نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔۔ڈاکٹر صاحب نے اسکی بات کاٹ دی۔
تم نے گاڑی ارینج کی تھی۔۔۔اندر بیٹھی امامہ کانپنے لگی تھی۔۔اس نے ڈاکٹر صاحب کو کبھی اتنی بلند آواز میں بات کرتے نہیں سنا تھا۔
تمہیں جرات کیسے ہوئی کہ تم اسکے کردار کے بارے میں بات کرو۔۔
سالار نے نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا انکا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔۔
آپ نے اس سے یہ پوچھا کہ یہ بات میں نے کیوں کی تھی۔۔۔اندر بیٹھی امامہ کا چہرہ فق ہوگیا۔۔
میں اس سے کچھ نہیں پوچھوں گا میں تمہارے کردار کو نہیں جانتا لیکن وہ نو سال سے میرے پاس ہے وی کوئ ایسا کام نہیں کرسکتی جس پر تم اسکے کردار پر انگلی اٹھاؤ۔۔
اسے یقین تھا وہ اب جلال کا نام لے گا۔۔۔۔اب لے گا۔۔۔۔۔اسکا پورا جسم سرد پڑا تھا۔۔سالار کا ایک جملہ اسے اس وقت ڈاکٹر صاحب کی نظروں میں گرانے والا تھا۔۔۔۔۔ایک۔۔۔۔۔دو۔۔۔۔۔تین۔۔۔۔۔چار۔۔۔۔اسکا دل سیکنڈز سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے دھڑکنے لگا۔۔۔
پھر امامہ نے اسکی آواز سنی، ایک لمحے کے لیئے اسکا دل رک گیا۔۔
آئ ایم سوری۔۔۔اسے یقین نہیں آیا۔۔۔یہ وہ جملہ نہیں تھا جسکی وہ توقع کر رہی تھی۔۔اسکی سوری نے اسے شاک کیا تو ڈاکٹر صاحب کو اور بھی مشتعل کردیا۔۔
ایک بات یاد رکھنا تم سالار۔۔جو کچھ تم کو زندگی میں ملنا ہے اس عورت کے مقدر سے ملنا ہے یہ تمہاری زندگی سے نکل گئ تو خواری کے سوا کچھ تمہارے ہاتھ نہیں آئیگا۔۔ہاتھ ملو گے ساری عمر تم۔۔۔تمہاری خوش قسمتی ہے کہ اللہ نے تمہیں امامہ کا کفیل بنایا کبھی رازق بننے کی کوشش بھی مت کرنا رازق تم نہیں ہو اسکے اللہ اسکو تم سے بہتر کفیل دے دیگا۔۔۔
وہ کاٹو تو لہو نہیں کے مصداق بنا بیٹھا تھا۔۔
شرمساری سی شرمساری تھی جو وہ محسوس کر رہا تھا۔۔اور اندر بیٹھی امامہ بھی اسی طرح ندامت کے سمندر میں غرق تھی۔۔۔
اسے گھر میں رکھنا ہے تو عزت سے رکھو ورنہ ابھی اور اسی وقت اسے چھوڑ دو۔تم سے کئ گنا اچھے انسان کیساتھ اسکو بیاہ دوں گا۔۔
میں آپ سے اور اس سے بہت شرمندہ ہوں۔۔آپ اسے بلائیں میں اس سے معذرت کرلیتا ہوں۔
اندر بیٹھی امامہ جیسے زمین میں گڑ گئ تھی۔۔
کلثوم آنٹی اسے بلانے آئ تھی اور اسکا دل چاہا لہ وہ کہی بھاگ جائے۔زندگی میں اپنے شوہر کا جھکا ہوا سر دیکھنے سے بڑی ندامت کا سامنا اس نے آج تک نہیں کیا تھا۔
میں بہت زیادہ معذرت خواہ ہوں جو کچھ ہوا نہیں ہونا چاہیئے تھا ۔جو کچھ کیا غلط کیا میں نے مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔۔سالار نے نظریں اٹھائے بغیر اسکے بیٹھتے ہی کہا۔۔امامہ کے رنج میں کچھ اور اضافہ ہوا۔۔آج سالار کیساتھ زیادتی ہوئ تھی اور اسکا ذمہ دار وہ خود کو ٹھرا رہی تھی۔۔
بیٹا آپ جانا چاہیں تو چلی جائیں اور نہیں جانا چاہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب نے اس سے کہا۔۔
نہیں۔۔۔میں جانا چاہتی ہوں۔۔اس نے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے کہا۔۔
ٹھیک ہے پھر اپنا سامان پیک کرلیں۔۔ڈاکٹر صاحب نے اس سے کہا۔۔وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئ۔اس نے سامان بیگ میں رکھا ۔ڈاکٹر صاحب امامہ کے اٹھتے ہی سٹڈی روم میں چلے گئے اور وہ سر جھکائے بیٹھا رہا۔۔
بیٹا کھانا لگواؤں؟؟ کلثوم آنٹی نے جیسے ماحول بہتر کرنے کی کوشش کی۔۔
نہیں ۔۔۔میں کھانا کھا کر آیا تھا۔۔
اس نے اب بھی نظریں نہیں اٹھائی۔وہ نظریں اٹھانے کے قابل ہی نہیں رہا تھا۔۔
ملازم سوفٹ ڈرنک کا ایک گلاس اسے دیکر گیا سالار نے چند گھونٹ لیکر گلاس واپس رکھ دیا۔۔
امامہ کو پیکنگ میں پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لگے تھے سالار نے کھڑے ہوکر خاموشی سے اس سے بیگ لے لیا۔۔ڈاکٹر صاحب بھی انکو گاڑی تک چھوڑنے آئے تھے لکن ھمیشہ کی طرح سالار سےاس بار بغلگیر نہیں ہوئے۔۔
گاڑی کے سڑک پر آنے تک دونوں میں کوئ بات نہیں ہوئی پھر سالار نے کہا۔۔۔
میں شرمندہ ہوں میں نے تمہارے ساتھ غلط رویہ اپنایا۔۔۔
سالار میں تم سے بہت شرمندہ ہوں مجھے پتا نہیں تھا کہ ابو کو غصہ آئے گا۔۔انہوں نے تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار نے اسکی بات کاٹ دی نہیں انہوں ٹھیک لیا جو بھی کیا غلط تو کچھ بھی نہیں کہا اس نے لیکن میں نے تمہارے کیریکٹر کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا۔
تمہارا مطلب ہے کہ تم یہ سب کہو گے اور میں یہ نہ سمجھوں کہ تم میرے کردار پہ انگلی اٹھا رہے ہو۔۔سالار خاموش رہا تھا۔
وہ مجھے اتفاقاً اس دن پارک میں مل گیا تھا اس نے کہنا شروع کیا اس دفعہ سالار نے اس کو نہیں ٹوکا۔۔۔ابھی چند ماہ پہلے اس نے دوسری شادی کی ہے اس نے لنچ کے لیئے اصرار کیا مجھے خیال بھی نہیں آیا کہ تمہیں برا لگ سکتا ہے اور میں نے تو لنچ بھی نہیں کیا۔ کچھ دیر بیٹھے رہے پھر وہ آدمی اور انکی مسز آگئیں۔۔مجھے دیر ہورہی تھی تو میں وہاں سے گھر آگئ۔بس اتنی سی بات تھی میری غلطی بس یہ تھی کہ میں نے تمہیں بتایا نہیں۔
اور میری غلطی یہ تھی کہ میں نے تمہاری بات سنی نہیں ۔سن لینی چاہیئے تھی۔۔آئ اوور ری ایکٹڈ۔۔
وہ اب مدھم آواز میں اعتراف کر رہا تھا۔۔
بے عزتی کروانی تھی اس لیئے۔۔۔وہ بڑبڑایا۔۔۔
وہ اسے کہنا چاہتی تھی کہ وہ اسکی کتنی احسان مند ہورہی تھی لیکن کہہ نہ سکی۔۔اسکے ایک لمحے کی چپ نے اسکی عزت رکھ کہ جیسے سارے دنوں کے رویوں کا کفارہ ادا کردیا۔۔
مجھے نہیں پتا تھا کہ تمہیں کسی آدمی کیساتھ میرا ملنا اتنا برا لگے گا۔۔ورنہ میں تو کبھی۔۔۔۔۔۔کچھ دیر کے بعد امامہ نے کہا۔۔۔
سالار نے اسکی بات کاٹءلی۔۔۔وہ کوئ آدمی نہیں تھا امامہ۔۔۔
وہ اب میرے لیئے صرف کوئ آدمی ہے۔۔سالار نے گردن موڑ کر اسے دیکھا اس نے ناک رگڑتے ہوئے ایک بار پھر آنکھیں صاف کرنے کی کوشش کی۔۔
طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟
ہاں ٹھیک ہے۔۔۔اس نے امامہ کے ماتھے پہ ہاتھ رکھ کے جیسے ٹمپریچر چیک کیا۔۔
بخار ہے؟؟
تھوڑا سا ہے۔۔
ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں۔۔
نہیں۔۔میڈیسن لے رہی ہوں میں۔بیگ میں ہے۔۔وہ خاموش ہوگیا۔۔اس ایک واقعے نے اعتماد کے اس رشتے میں عجیب دراڑیں پیدا کردی تھی۔۔۔
اس رات گھر آکر انکے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئ۔امامہ میڈیسن لیکر سو گئ اور سالار سٹڈی روم جاکر سگریٹ پیتا رہا۔۔
وہ پچھلے کئ مہینوں سے اسے خوش کرنے کی آخری حد تک جارہا تھا اسکے سارے ناز نخرے اٹھا رہا تھا اسے یقین تھا وہ سب کچھ امامہ کے دل سے جلال انصر نامی شخص سے متعلقہ ہر طرح کے جذبات نکال دے گا۔۔وہ اسکے قریب آرہی تھی۔۔لیکن جلال کسی بھوت کی طرح دوبارہ نمودار ہوگیا تھا۔۔اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اسے اتنی خوبصورتی سے دھوکا دے رہی تھی۔۔وہ دو دن پہلے ہونے والی ایک ایک بات کو یاد کر کے سلگتا رہا۔وہ ملاقت اگر اتفاقی تھی تو اسکے بعد اس نے امامہ کی جو حالت دیکھی تھی وہ اس کے لیئے ناقابل برداشت تھی۔۔اس دن اسکے آفس میں امامہ جو آخری چیز بھولی تھی وہ باتھ روم بیسن کی سل پہ رکھی ہوئ اسکی شادی کی رنگ تھی۔۔وہ رنگ اسکے جانے کے بعد سالار کو وہاں سے ملی تھی۔۔اسکا خیال تھا گھر پہنچ کر اسے رنگ یاد آجائے گی لیکن اس دن تو کیا اگلے دو دن تک امامہ کو کچھ یاد نہیں آیا۔۔وہ مسلسل انگلی میں رہنے والی اتنی قیمتی چیز کو کیسے فراموش کر سکتی ہے۔
جلال سے ہونے والی اس ملاقات کے بعد اس نے اسکے رنگ اتارنے کو جیسے نیا مفہوم پہنا دیا تھا۔۔
*****---****---***--*
باجی آپ کہاں تھی۔۔؟
اگلی صبح وہ ملازمہ کے بیل دینے پر جاگی۔۔
میں چند دن اپنے گھر رہنے گئ تھی۔
منہ ہاتھ دھو کر وہ واپس آئ تو ملازمہ سٹڈی روم کی صفائ کر رہی تھی۔سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھرے ایش ٹرے نے اسے چونکا دیا۔۔۔
مجھے لگتا ہے باجی سالار صاحب سگریٹ پینے لگے ہیں۔۔ہر روز اسی طرح ایش ٹرے بھرا ہوتا ہے۔۔اب روز روز تو کوئ مہمان نہیں آتا ہوگس۔۔
وہ جواب دیئے بغیر وہاں سے نکل گئی۔۔۔
******+---***-----*
اگلی صبح اس نے ایش ٹرے پھر سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھرا ہوا دیکھا۔وہ اس بات سے پریشان ہوئ کہ وہ سموکر نہیں تھا لیکن عادی بن رہا ہے۔۔ کئ دنوں کے بعد اس رات سالار نے کھانا بڑی رغبت سے کھایا۔ وہ عام طور پر ایک چپاتی سے زیادہ نہیں کھاتا تھا۔ لیکن آج اس نے دو چہاتیاں کھائی۔
اور بنادوں؟؟ امامہ نے اسے دوسری چپاتی لیتے ہوئ دیکھ کر پوچھا۔
نہیں میں پہلے ہی اوور ایکٹنگ کر رہا ہوں۔اس نے منع کیا۔۔
امامہ نے اسکی پلیٹ میں کچھ سبزی ڈالنے کی کوشش کی اس نے روک دیا۔۔
نہیں میں ویسے ہی کھانا چاہ رہا ہوں۔۔امامہ نے کچھ حیرانی سے اسکا چہرہ دیکھا۔وہ جانتی تھی اسے اسکے ہاتھ کی چپاتی پسند ہے۔اس دن پہلی بار اس نے آخری لقمہ اسے نہیں دیا۔۔وہ کھانا کھانے کے بعد ٹیبل سے اٹھ گیا۔۔وہ برتن اکھٹے کر رہی تھی جب وہ کچھ پیپرز لیئے آیا۔۔۔۔۔
یہ کیا ہے؟؟ امامہ نے کچھ حیرانی سے پیپرز کو دیکھا۔۔۔
بیٹھ کر دیکھ لو۔ وہ اس کے قریب کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
وہ بھی کچھ الجھے انداز میں پیپرز لیکر بیٹھ گئی۔
پیپرز پر ایک نظر ڈالتے ہی اسکا رنگ فق ہوا۔
طلاق کے پیپرز ہیں یہ؟ وہ بمشکل بول سکی۔