
شکیل احمد چوہان - بلال صاحب
پیش لفظ
”بلال صاحب “میری پہلی تحریر ہے۔ کچی عمر کی محبت اور پہلی تحریر دونوں ہی دل کے قریب ہوتی ہیں۔ یہ دونوں ننھے پودے دل کی مٹی پر محبت کا پانی گرنے سے نشوونما پاتے ہیں۔
اس ڈر سے بے نیاز ان پر محنت کا پھل لگے گا یا نہیں۔
یہ کہانی میں نے 2002ء کے شروع میں فلم اسکرپٹ کی طرح لکھی تھی، اسی اسلوب پر بعد میں کئی اور کہانیاں تحریر کیں۔
2 اکتوبر 2014 کی صبح میں فجر کی نماز کے بعد اپنی ماں جی کے کمرے میں حاضر ہوا ماں جی نے فرمایا: ”تمہارے لکھنے کا کیا فائدہ کسی کو پڑھاتے بھی نہیں اور کسی کو سناتے بھی نہیں“ میں نے اسی وقت ماں جی کو اس کتاب سے ایک سین سنایا میری ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
وہ قبولیت کے آنسو تھے یا پھر محبت کے میں جان نہیں سکا………
ماں جی نے حکم دیا، تم اس کہانی پر کتاب لکھو میں نے بال پین چھوڑا اور قلم اٹھایا پوری رات میں میرے قلم سے کاغذ کے سینے پر ایک بھی لفظ نہ اتر سکا۔
اگلے دن عصر کے بعد میں داستاں سرائے حاضر ہوا، محترمہ بانو قدسیہ آپا سے اپنا مسئلہ عرض کیا، بانو آپا نے فرمایا، ”بیٹا لکھوگے تبھی لکھاری بنو گے۔“
میں نے عرض کی اصلاح کون کرے گا؟
”تمہارے پڑھنے والے تمہارے نقاد ہوں گے۔ لکھنے کے لیے ایک وقت مقرر کر لو پھر خیالات کی مچھلیاں روز اسی وقت آ جایا کریں گی“ بانو آپا نے کمال کا مشورہ دیا تھا۔
ماں جی کی دعا سے قلم اٹھانے کی ہمت پیدا ہوئی تھی، اس قلم کو اعتماد کی سیاہی محترمہ بانو قدسیہ نے مہیا کر دی تھی۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام لے کر میں نے یہ ناول لکھنا شروع کر دیا۔
اس سفر کے دوران میرے پہلے نقاد جو کہ دوست بھی ہے اور قدردان بھی محمد جمیل ملک نے میرا ہاتھ تھامے رکھا تھا۔
زندگی کے ہر معاملے کی طرح اس کہانی کو لکھنے کے دوران بھی مجھے میرے استاد حکیم محمدحنیف صاحب کی رہنمائی میسر رہی، حکیم صاحب شہر اقبال کی مشہور اور بزرگ شخصیت ہیں۔
مجھے یاد ہے دسمبر اور جنوری کی وہ سرد راتیں جب میرے ابا جان تہجد کے لیے اٹھتے اُسی وقت میں لکھ رہا ہوتا، ابا مجھ پر محبت کی نگاہ ڈالتے اور مُسکرا کرچلے جاتے ، نماز تہجد کے بعد ان کی دعاؤں میں مجھے خاص جگہ مل جاتی۔
ان سب قابل احترام افرادکے ساتھ ساتھ میں ان سب جاننے والوں کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے میرا مذاق اڑایا یا پھر میری حوصلہ افزائی کی۔
میں گل فراز احمد کا شکر گزار ہوں جن کے تعاون سے میری اس کوشش کو کتاب کی شکل نصیب ہوئی۔
گل فراز احمد کے متعلق گھسے پٹے جملوں سے ہٹ کر سیدھی بات کہتا ہوں۔ گل صاحب واقعی گل ہیں، جو اپنا کام ایمانداری سے کرتے ہیں، سیدھی اور کھری بات کہتے ہیں۔
میں امید کرتا ہوں میرے پڑھنے والوں کو میری پہلی تحریر پسند آئے گی، جس طرح پہلی محبت دل سے کی جاتی ہے اسی طرح پہلی تحریر بھی تجربے کی روشنی کے بغیر دل کے دیے کی لَوہی سے لکھی جاتی ہے۔
آپ کی قیمتی آرا کامنتطر
بلال وہ اک نام جو اس کی سوچ کی پتھریلی زمین پر، پتھر پر لکھی ہوئی تحریر کی طرح نقش ہے، وہ نام جسے وہ اپنی زبان پر لانا پسند نہیں کرتی تھی ۔ اب اس کی زبان کا کل اثاثہ ہے‘ وہ ایک ہی ورد جھپتی ہے، صبح ہو یا شام بہار ہو یا خزاں اس کے ہونٹوں پر وہی ایک نام ہے، باقی سب کچھ وہ بھول چکی ہے‘ قحط کے دنوں میں میلوں دور تک پھیلے ہوئے ریگستان میں پانی کے آخری کنوئیں سے جیسے زندگی کو امید وابستہ ہوتی ہے۔
اسی طرح وہ نام اس کی زندگی میں پانی کا آخری کنواں ہے، جس سے اس کی زندگی سیراب ہوتی ہے ۔
جس نام کا مطلب وہ پوچھا کرتی تھی، اب اسی کا وظیفہ کرتی ہے، اور وہ نام ہے بلال……
وہ جو رنگ و نور کی دنیا میں رہتی تھی، وہ جو رنگوں کو رنگین کردیتی، جسے اپنے حسن پر ناز تھا اور اپنے حسب و نسب پر فخر تھا، اپنی دولت پر اتراتی پھرتی تھی، چاند سا چہرہ تھا، مگر اس میں تپش سورج جیسی علم واجبی تھا اور دانش واجبی سے بھی کم، جاذب نظر اتنی کہ نظر اس کے حضور موٴدب کھڑی رہتی اس کی دلفریبی دیکھ کر اکثر دل فریب کھاجاتے،
خوشبو کی دلدادہ تھی خوشبو کی دکان میں جاتی تو اپنی خوشبو چھوڑ آتی، اس کا پہناوا دیکھ کر لڑکیاں نقل کرتیں، اس کی وارڈ روب کپڑوں سے فل تھیں، ڈریسنگ ٹیبل پر پرفیوم کی بوتلوں کا قبضہ تھا، جوتوں کا شمار کرنا مشکل تھا۔
اس کا کمرہ تتلی سے زیادہ رنگین تھا، لبرل سوچ کی وہ مالک تھی اختصار جس کے پاس سے نہیں گزرا تھا، لیونگ سٹینڈرڈ اپر کلاس والا، پارٹیز میں جانا ڈنرز انجوائے کرنا، فیشن شوز ایگزی بیشن اور کنسرٹ جس کی زندگی تھے۔
پھر اس کی زندگی میں ایک تلاطم آیا، یکایک سب کچھ بدل گیا، ان سب نعمتووں سے اس کی علیک سلیک ختم ہوگئی اب 12بائی 14کا کمرہ اس کا مقدر ہے اور یہی اس کی دنیا ٹھٹھرتی راتوں اور پگھلتی دوپہروں میں وہ اکیلی ہے اس کا مال و متاع اس کے کسی کام کا نہیں رہا، وہ خالی خالی نظروں سے دیواروں کو دیکھتی رہتی ہے جن کا کلر آف وائیٹ ہے سفید لباس میں ملبوس جس سنگل بیڈ پر وہ بیٹھی ہے اس کا تکیہ اور بیڈ شیٹ بھی سفید ہیں۔
جنوبی دیوار کی جانب پشت کرکے وہ اپنے بیڈ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی شمالی دیوار پر اٹیچ باتھ کے دروازے کے اوپر لگی ہوئی پینٹنگ کو دیکھتی رہتی ہے ۔
شمالی دیوار پر باتھ روم کے ساتھ 4بائی 6کی کھڑکی ہے، کھڑکی کے نیچے ونڈو ACلگا ہوا ہے۔ ACسے پہلے بلیک لیدر کا لباس پہنے ایک صوفہ پڑا ہوا ہے۔ بیڈ کے دائیں ہاتھ کمرے کا داخلی دروازہ اور بائیں ہاتھ ایک سائیڈ ٹیبل پڑا ہوا ہے، ایک ٹیوب لائٹ اور ایک سفید پنکھا ہے۔
کھڑکی پر لگے پردوں کا رنگ بھی آف وائیٹ ہے، اس کمرے میں اگر کچھ رنگ ہیں بھی تو وہ اس پینٹنگ میں قید ہیں جس سے اس کی نظریں نہیں ہٹتی ہیں۔
وہ پینٹنگ رنگین تو ضرور ہے مگر تلاطم خیز موجوں میں پھنسی ہوئی، ناؤ جس کا ماجھی اُسے چھوڑ کر جاچکا ہے اور وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے تن تنہا ماجھی کے بغیر بقا کی جنگ لڑنا ناممکن سا ہے، یہ اس پینٹنگ کا مضمون (کیپشن) ہے۔
یہ بیس کمروں کا وارڈ ہے آمنے سامنے بیچ میں کوریڈور ہے مغرب کی طرف شروع میں کمرہ نمبر 1اور 20آمنے سامنے ہیں اور کوریڈور کے آخر میں مشرق کی طرف کمرہ نمبر 10اور 11آمنے سامنے ہیں، کوریڈور کے آخر میں مشرقی دیوار کے ساتھ 8بائی 10کی ایک بڑی کھڑکی لگی ہوئی ہے۔
وہ کمرہ نمبر 11کی ملکہ ہے اس کی سلطنت میں سورج کی کرنوں کا داخلہ منع ہے۔
دوسرے تیسرے دن سورج کی کرنیں اس کے دیدار سے فیض یاب ہوتی، جب وہ صبح 10بجے کے آس پاس کوریڈور میں تشریف لاتی ہے کوریڈور میں لگی ہوئی کھڑکی کی دوسری طرف دوکنال کا خالی پلاٹ ہے جہاں جنگلی گھاس کا بسیرا ہے۔
ایک بڑا بوڑھا پیپل کا درخت دوکنال کے پلاٹ کا راجہ ہے اور نیم کا درخت اس کا وزیر اور امردو کے کئی چھوٹے درخت سپاہی ہیں۔ پلاٹ کے دوسری طرف سرکاری ہسپتال کا کچن ہے جہاں سے کھانوں کی خوشبو ہوا کے پروں پر سوار ہوکر اس تک پہنچتی ہے جب وہ کوریڈور میں کھڑکی کے سامنے کھڑی ہوتی ہے پیپل کا درخت ایک موسیقار کا احساس لیے ہوئے اس کے سامنے کھڑا ہے جو ہلکے سے ہوا کے جھونکے پر اس کو جھوم کر دکھا دیتا ہے جبکہ نیم اور امرود کے درخت اس ہوا کے جھونکے کو محسوس نہیں کرپاتے سورج کی کرنیں پتوں سے لڑتی جھگڑتی اور لوہے کی جالیوں سے بچھتی بچھاتی اس کے رخساروں کا بوسہ لیتی ہیں۔
وہ کمرہ نمبر 11کے سامنے کھڑی ہے ایک کے ساتھ ایک کھڑا ہو تو 11بنتا ہے جسے وہ 2کہتی تھی ۔
11تو اسے اب بھی یاد نہیں ہاں البتہ 11کہنے والے کا نام یاد ہے۔ بلال……بلال…… بلال……
#…#…#
ڈاکٹر حاجرہ نیازی اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی ہیں عمر 50سال کے آس پاس اس ہسپتال میں تقریباً20سال سے اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں ان کے سامنے میز کی دوسری طرف ایک مرد اور عورت بیٹھے ہیں عورت زندگی میں تقریباً 25بہاریں دیکھ چکی ہے اس کی گود میں ڈیڑھ دو ماہ کا بچہ ہے، اس کے چہرے پر پریشانی کا پڑاؤ ہے۔
مرد کچھ حد تک مطمئن ہے۔
اپنے سامنے پڑی رپورٹس دیکھ کر ڈاکٹر حاجرہ نیازی نے کہا ”پہلے سے کافی بہتر ہے اب میڈیسن کھالیتی ہے“”اور کھانا“ عورت یک لخت بولی اس کا پوچھنا فکر مندی ظاہر کر رہا تھا پاس بیٹھے مرد نے اپنا ہاتھ اس کے کندھتے پر رکھتے ہوئے کہا ”انشاء اللہ وہ ٹھیک ہوجائے گی“ اس نے اپنی طرف سے تشفی دینے کی پوری کوشش کی ۔
”دیکھو بیٹا ہم صرف کوشش کرسکتے ہیں) ڈاکٹر حاجرہ نے نہایت شگفتگی سے کہا اتنے میں آفس بوائے چائے لے کر آگیا اس نے چائے کمرے کے کونے میں پڑے صوفہ سیٹ کے سامنے سینٹر ٹیبل پر رکھ دی۔
”میڈیم چائے “ ٹرے میز پر رکھ کر اس نے کہا ”تم جاؤ میں بنالوں گی“ ڈاکٹر حاجرہ نے جواب دیا ”آؤ چائے پیو“ اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا اور صوفے پر بیٹھ کر چائے بنانے میں مصروف ہوگئی، عورت نے اپنے اشکوں کو پلکوں کی دہلیز پر زبردستی روکا ہوا تھا۔
مرد نے اسے بازو سے پکڑا اور آنکھوں سے اٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ دونوں اٹھے اور ڈاکٹر حاجرہ کے سامے بیٹھ گئے ان کے بیچ میں سنٹر ٹیبل پڑا ہوا تھا جس پر چائے والی ٹرے پڑی تھی۔ ڈاکٹر حاجرہ نے چائے کا کپ عورت کی طرف بڑھادیا، مرد نے خود اپنا کپ اٹھالیا چائے کا سپ لیتے ہوئے ڈاکٹر نے کہا ”ریالٹی یہ ہے کہ چانس تو ہے مگر بہت کمI will try my best،Miracle کرنے والی ذات وہ ہے۔
“ عورت کی باڈی لینگویج ایک ہارے ہوئے کھلاڑی کی مانند تھی جو میچ ختم ہونے سے پہلے ہی ہار مان چکا ہو۔
”میں ان سب باتوں میں بھول ہی گئی تمہیں بہت بہت مبارک ہو“ڈاکٹر حاجرہ نیازی نے دانائی سے موضوع تبدیل کردیا۔ عورت کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی جسے وقتی طور پر اس کے زخموں پر مرہم رکھ دیا گیا ہو اور اس کے غم کا مداوا کردیا گیا ہو۔
”کیا نام رکھا بیٹے کا“بغیر توقف کے ڈاکٹر حاجرہ نے پوچھا ”بلال محسن“مرد نے تفاخر سے جواب دیا۔ ڈاکٹر حاجرہ نیازی نے حیرانی سے ان دونوں کی طرف دیکھا اور آہستگی سے کہا ”پھر سے بلال“
#…#…#
سورج کے بیدار ہونے سے پہلے فجر کے وقت جب چاند اپنے بستر پر جاکر لیٹ چکا تھا۔ سردیوں کی دھند سورج سے دست و گریباں ہونے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔
کمرے میں بڑی پرسکون خاموشی تھی۔ وال کلاک دن کے جاگتے ہی اور رات کے سوتے ہی اپنی آواز سے محروم ہوگیا تھا۔ پرانی وضع کا ایک سنگل بیڈ اور اس کے سامنے دیوار کے ساتھ ایک دیوان اس کا ہم عمر پڑا تھا۔ دیوان کے پڑوس میں رائٹنگ ٹیبل اپنی ساتھی کرسی کے ساتھ جلوہ افروز تھی۔
بیڈ کے بائیں جانب دیوار کے ساتھ لاثانی اور لکڑی کی بنی ہوئی ایک وارڈروب تھی اور اس سے پہلے بیڈ کے ساتھ کتابوں کا ایک خوبصورت آشیانہ تھا جہاں مختلف موضوعات کی سینکڑوں کتابیں محفوظ زندگی گزار رہی تھیں۔
ان کتابوں کو دیکھ کر قاری کی نفاست اور ذوق کا اندازہ ہوتاتھا کمرے کا داخلی دروازہ جوکہ مغرب کی طرف تھا دائیں ہاتھ اٹیچ باتھ روم تھا جس کا دروازہ داخلی دروازے کے ساتھ تھا، بائیں ہاتھ ایک دیوارتھی جس کی اندر والی سائیڈ میں سنک لگا تھا ۔ چھوٹے سے کوریڈور سے گزرتے ہوئے بائیں ہاتھ پر اوپن کچن تھا۔ اس کچن کی جنتا کم ہے ایک چھوٹا سا فریج سینڈوچ میکر، الیکٹرک کیٹل اور چند چینی کی پلیٹس اور کرسٹل کے گلاس اور ایک جگ اور چار بڑے خوبصورت مگ اور کچھ چمچ ہیں۔
اوون اور چولہے کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ دیوان کے ساتھ جائے نماز پر بندہ اپنے اللہ کے سامنے فجر کا آخری سجدہ ادا کر رہا ہے۔ دروازہ کھلتا ہے اور گل شیر خان کی نظر سجدے سے اٹھتے ہوئے جاذب نظر چہرے پر پڑتی ہے وہ رائٹنگ ٹیبل والی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ سلام پھیرتے ہی گل شیر خان بول اٹھے ”ماشاء اللہ “”السلام علیکم خان صاحب“نمازی نے جائے نماز لپیٹے ہوئے کہا اور اسے دیوان کے بازو پر رکھ دیا، گل شیر خان یکایک بولے ”وعلیکم السلام میری جان کیسے ہو بلال بیٹا“” اللہ کا شکر ہے“بلال احمد نے جواب دیا جوکہ نماز سے فارغ ہوچکا تھا۔
”آپ کے لیے چائے بناؤں“بلال نے کہا ۔”تو بہ توبہ تمہاری چائے تم ہی پی سکتے ہو، ہم دودھ والا چائے پیتا ہے“ گل شیر نے جواب دیا۔ بلال کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی ”آپ کیسے تشریف لائے کچھ کام تھا ؟“بلال نے شائستگی سے پوچھا۔ ”بڑے صاحب آگئے ہیں میں بتانے کے لیے آیا تھا “گل شیر خان نے جواب دیا۔ ”ٹھیک 9بجے ناشتہ ہے “جاتے ہوئے کہا ”جی ٹھیک ہے “بلال نے ہولے سے جواب دیا۔
گل شیر خان کے جانے کے بعد بلال کسی گہری سوچ میں گم ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ سوچوں کے سفر سے واپس لوٹا تو اس کی نظر وال کلاک پر پڑی جو اب خاموشی سے اپنا کام کر رہا تھا ”دیر ہوگئی “اس نے خود سے کہا اور جلدی سے ٹریک سوٹ پہنا اور ململ کا کرتہ لٹھے کا پائجامہ اتار کر واشنگ مشین میں ڈال دیا جوکہ بڑے سے باتھ روم کے ایک کونے میں پڑی تھی اور خود جاگنگ کے لیے چلا گیا۔
###
کمرے میں گیس ہیٹر کی وجہ سے اچھی خاصی حرارت موجود تھی۔ جہاں آرابیگم ہاتھ میں تسبیح لیے توبہ استغفار میں مصروف تھیں دروازہ کھلتا ہے۔
”ماں جی آداب“اندر آتے ہوئے جمال رندھاوا نے کہا۔ جہاں آرا بیگم کی آنکھیں روشن ہوجاتی ہیں۔ وہ اپنی موونگ چیئر سے اٹھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ”آپ تشریف رکھیں ماں جی“جمال رندھاوا آگے بڑھ کر گلے ملتا ہے اور ماں کے قدموں میں کارپیٹ پر کُشن کے اوپر بیٹھ جاتا ہے ”میرا بچہ “ہولے ہولے بالوں اور منہ پر پیار کرتے ہوئے جہاں آرا بیگم نے کہا ”کب آئے “جمال رندھاوا نے ہاتھ چومتے ہوئے جواب دیا ”تھوڑی دیر پہلے ، آپ کی طبیعت کیسی ہے؟“”اللہ کا شکر ہے بیٹا کافی دن لگادیے اس بار “جہاں آرا نے پوچھا ۔
”بس کام کچھ زیادہ تھا ماں جی خیر آپ سنائیں کیا چل رہا ہے آج کل،“ جمال نے ایک ہی سانس میں سب کچھ پوچھ لیا
”میں گھر میں پڑی رہتی ہوں تمہارا بیٹا اور بیوی اپنی فیکٹری کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں ۔
نوشی اور توشی وہ کہا کہتے ہیں اسے “
”بوتیک“جمال نے لقمہ دیا۔
”ہاں بوتیک میں مصروف رہتی ہیں“
”اور بلال“جمال نے آنکھوں سے سوال کیا۔
”وہ عشا کے بعد آکر میری خدمت گزاری کرتا ہے اور صبح جانے سے پہلے سلام کرنے آتا ہے “جہاں آرا بیگم نے تفصیل سے اپنے بیٹے جمال رندھاوا کو جواب دیا۔
###
بلال جاگنگ کرکے اپنے کمرے میں واپس لوٹتا ہے تو سورج کی کرنیں دھند کو کھاجاتی ہیں۔ وہ کمرے کے پردے ہٹاتا ہے تو کرنیں اس کا چہرہ چوم لیتی ہیں۔ سامنے ٹیرس کا شیشے والا دروازہ کھول کر وہ گملوں میں لگے ہوئے پودوں رات کی رانی، سرخ گلاب، موتیا اور دن کا راجہ سے ملتا ہے جو مسکرا کر اس کا استقبال کرتے ہیں۔
رات کی رانی کی خوشبو اب بھی فضا میں موجود ہے۔ تمام پودوں کے پھولوں کا بازار حسن سجا ہوا ہے۔ پھولوں کے چہروں پر ہلکا ہلکا تبسم ہے۔ جن کو دیکھ کر پیام حیات کا احساس ہوتا ہے۔
اب باری چھت پر جانے کی ہے وہ کمرے سے باہر آکر داخلی دروازے کے ساتھ اوپر جاتی سیڑھیوں پر چلتا ہوا اپنے کمرے کی چھت پر پہنچ جاتا ہے۔ جہاں جمالیات کی ایک الگ دنیا آباد ہے۔
ایک طرف پودوں کا گرین ہاؤس اور دوسری طرف پرندوں کا ایئر پورٹ ہے۔ چھت کے مشرقی حصے پر بڑے بڑے گملوں کا قبضہ ہے۔ جن کے اندر پودینہ، ہری مرچ، دھنیا کے پودوں کا جم غفیر ہے۔ یہ سارے پودے بلال کی محنت کا ثمر ہیں۔ یہ گرین ہاؤس ہے بلال کا گرین ہاؤس ہے۔
چھت کے مغربی حصے پر پرندوں کا مسافر خانہ ہے پرندوں کی خاطر مدارت کے لیے مختلف اقسام کا دانہ اور پانی میسر ہے جوکہ چھوٹی بڑی مٹی کی کنالیوں میں رکھا گیا ہے۔
اکثر مسافر پرندے اس دستر خوان سے پانی پینا اور دانہ چننا عین سعادت سمجھتے ہیں کیونکہ یہ بلال کا دستر خوان ہے۔ بلال کا یہ معمول تقریباً 14 سال سے ہے۔ وہ ہر روز ان کنالیوں میں دانہ اور پانی ڈالتا ہے اور ہفتے میں ایک بار ان کی صفائی کرتا ہے۔
###
یہ دو کنال کا خوبصورت بنگلہ ڈیفنس میں واقع ہے جوکہ اب جمال رندھاوا کی ملکیت ہے۔
چوہدری ارشاد رندھاوا نے کئی سال پہلے اپنے دونوں بچوں جمال اور جمیلہ کے لیے دو پلاٹ خریدے، جن پر باہمی مشاورت سے یہ خوبصورت بنگلہ تعمیر کیا گیا۔ جمال کے پلاٹ پر یہ بنگلہ بنایا گیا اور ساتھ دوسرے پلاٹ پر ایک خوبصورت چھوٹا سا ڈبل یونٹ تعمیر کیا گیا جس کو ڈیزائن خود جمیلہ رندھاوا نے کیا تھا۔
اب یہ ایک ہی گھر کا حصہ ہیں ۔ بنگلہ کے سامنے گھر کا خوبصورت لان ہے اور پچھلی سائیڈ پر سرونٹ کواٹرز ہیں۔
ڈبل یونٹ کے سامنے اب گاڑیوں کا پورچ ہے اور اس سے پہلے گھر کا مین گیٹ ہے ۔ مین گیٹ کے ساتھ بائیں جانب سکیورٹی گارڈ کا روم ہے۔
یہ بنگلہ جدید فن تعمیر کا ایک دلکش نمونہ ہے۔ بنگلے کے بیرونی حصے پر سرخ گھٹکا لگا ہوا ہے۔ جیسے کوئی دلہن سرخ عروسی لباس پہن کر بیٹھی ہو۔
یہ رندھاوا ہاؤس ہے۔
###
بڑے سے ڈائنگ ہال میں جمال رندھاوا بڑے سے ڈائنگ ٹیبل پر اخبار پڑھنے میں مصروف تھے۔
باجی غفوراں اور شاہد محمود سکھیرا کچن میں ناشتہ تیار کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ ہال کے عقب میں ایک بڑا دلکش کچن واقع ہے۔
”اوئے شاہد آج تو بلال بھی ناشتے کے لیے آئے گا“باجی غفوراں نے کہا جو کہ چائے بنانے میں مصروف تھی۔
”Yes BG“شاہد نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے جواب دیا ۔”اوئے فرنگیوں کی اولاد تجھے کتنی بار سمجھایا ہے یابا جی بول نہیں تو سیدھا غفوراں کہہ لے یہ BGمت کہا کر“باجی غفوراں نے بائیں ہاتھ کو اپنی کمر پر رکھتے ہوئے دائیں ہاتھ سے شاہد محمود کی گردن پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا۔
”یہ ہاتھ چالاکی مت کیا کر باجی غفوراں تجھے کتنی بار کہا ہے “چڑ کر تیور دکھاتے ہوئے شاہد محمود سکھیرا نے تلخ جواب دیا۔
”تیری ماں جیسی ہوں تجھے اپنے بچوں کی طرح چوما چاٹا ہے۔ اتنا بھی حق نہیں ہے میرا؟ “بازو سے پکڑ کر جھنجوڑ کر جواب دیا ۔
”چل فیر کوئی گل نہیں“پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح شاہد نے کہا۔ ”تینوں ست خون معاف BG“
”خون تو ایک بھی معاف نہیں ہوتا شاہد“لمبی ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے باجی غفوراں بول اٹھی جیسے کوئی زخم ہرے ہوگئے ہوں اسکے۔
نوبجنے میں پانچ منٹ باقی تھے جب بلال ڈائنگ ہال میں داخل ہوتا ہے ۔
”السلام علیکم ماموں جان“بلال نے شائستگی سے کہا ۔
”وعلیکم السلام “وال کلاک دیکھتے ہوئے ”ٹائم کی پابندی کوئی تم سے سیکھے “بلال صاحب “گلے لگاکر بلال کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر کہا ۔
اتنے میں جہاں آرا بیگم بھی تشریف لے آتی ہیں ڈائننگ ٹیبل کے اطراف میں محفل سج جاتی ہے۔
جمال کے دائیں ہاتھ جمال کی بیوی ناہید جمال اور ایک کرسی چھوڑ کر اس کی دونوں بیٹیاں نسیم اور تسلیم یعنی نوشی اور توشی براجمان ہیں، بائیں ہاتھ ایک کرسی خالی ہے۔ جس پر سب کی نظریں ہیں، اس گھر کا ولی عہد شعیب جمال عرف شیعبی جمال کا اکلوتا اور بڑا بیٹا۔ جمال لیڈر آف دا ہاؤس ہے اس کی بالکل سامنے اس کی ماں جہاں آرا بیگم تشریف فرما ہیں جہاں آرا بیگم کے دائیں ہاتھ ان کا نواسہ بلال احمد بیٹھا ناشتہ کر رہا ہے۔
انتہائی سادہ ناشتہ دوبراؤن بریڈ کے سلائس ایک انڈے کی سفیدی اور چائے کا پھیکا کپ۔
جمال رندھا وا خاموشی توڑتے ہوئے ناہید جمال سے مخاطب ہوتے ہیں۔
”شعیب صاحب کہاں ہیں “چائے کا سپ لیتے ہوئے پوچھا۔
”اپنے کمرے میں ہوگا“ناہید نے ابرو چڑھاتے ہوئے تیکھی نظروں سے جمال کو دیکھ کر جواب دیا۔
”شاہد …شاہد …“جمال نے رعب دار آواز میں شاہد کو بلایا۔
”جی سر“شاہد چند سیکنڈ میں پاس کھڑا عرض کر رہا تھا۔
”شعیب صاحب کو بلا کرلاؤ“جمال نے دھیرے سے حکم دیا ۔
شاہد محمود کے جانے سے پہلے آواز آئی ۔
”ہیلو ڈیڈ۔۔ ہیلو ایوری باڈی…“شعیب جمال آچکا تھا۔
”بیٹا آپ پندرہ منٹ لیٹ ہیں “شعیب کی طرف دیکھتے ہوئے تبسم بھرے لہجے میں کہا جو کہ ان کے بائیں ہاتھ خالی سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔