top of page

شکیل احمد چوہان - بلال صاحب

”ڈیڈ ہمارے سوشکل سرکل میں ٹائم پر آنے والے کو ایڈیٹ سمجھا جاتا ہے “بلال کی طرف دیکھ کر طنزیہ لہجے میں کہا۔ 

”بیٹا یہ تمہارا سوشکل سرکل نہیں تمہارا گھر ہے“جمال نے نرم شگفتہ لہجے میں سمجھایا۔ 

”خیر چھوڑو تم ناشتہ کرو“”مگر کیا؟…“ شعیب عجلت میں بولا شانے اچکاتے ہوئے ۔ 

”کہاں مرگئے ہو ۔SMS…“شعیب بھڑبھڑایا۔ 

”آپ نے بلایا بندہ حاضر ہے “SMSیعنی شاہد محمود سکھیرا مسکا پالش لگاتے ہوئے موٴدب جوس کا گلاس لیے پاس کھڑا تھا۔

 

 

شعیب غٹاغٹ جوس کا گلاس پی کر فارغ ہوگیا اور اجازت لے کر چلا بھی گیا۔ 

”ڈیڈ ہم بھی یہاں بیٹھے ہیں “توشی نے خفگی سے کہا ”ہمیں تو کوئی پوچھ ہی نہیں رہا “جمال نے مسکراتے ہوئے کہا ”جی میرا بچہ آپ فرمائیں “

”فرمائیں خاک آپ نے کچھ پوچھا ہی نہیں “توشی یکایک بولی۔

 

”سب ہنس پڑے “ناشتے کے دوران ناہید اور نوشی لال پیلی ہوتی رہیں مگر کچھ کہا نہیں شعیب جوس کا گلاس پی کر پہلے ہی جاچکا تھا ناشتے سے فارغ ہوکر نوشی اور ناہید بھی چلے گئے بلال اٹھنے لگا جس کے ہاتھ میں اپنی نانی جہاں آرا بیگم کا ہاتھ تھا۔

 

 

”بلال تم رکو“جمال نے سگار سلگاتے ہوئے بلال سے کہا ۔ ”ماں جی آپ توشی کے ساتھ تشریف لے جائیں“توشی اپنے باپ کی آنکھوں کی زبان پڑھ لیتی تھی ۔ 

جمال رندھاوا اور بلال ڈائننگ ہال سے نکل کر لاؤنج سے ہوتے ہوئے کوریڈور میں تھے جب جمال نے اپنے بلیک کوٹ کی دائیں پاکٹ میں پڑے چیک کو نکالا۔ 

گل شیر خان بلیک مرسیڈیز کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔

 

گاڑی کے پاس پہنچ کر جمال نے وہ چیک بلال کو دیا۔ 

”ماموں جان ضرورت نہیں ہے “بلال نے دبی دبی آواز میں عرض کیا۔ 

”جب ضرورت ہوگی مانگ لوں گا “

”کاش وہ دن آئے میری زندگی میں “نپے تلے انداز میں بولے ”میں نے اپنی زندگی میں تم جیسا خود دار اور (Selfless)بندہ نہیں دیکھا“جمال نے چیک بلال کے ہاتھ میں تھمادیا وہ چیک Cashکا تھا بلال نے وہ چیک گل شیر خان کو دیتے ہوئے درخواست کی آپ Cashکروادیجیے گا۔

 

جمال گاڑی میں بیٹھ چکا تھا اور جانچتی نظروں سے بلال کو دیکھ رہا تھا ۔ جمال اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔ 

ناہید اور اس کی بڑی بیٹی نسیم عرف نوشی گھر کے ٹیرس پر کھڑے قہر آلود نگاہوں سے بلال کو دیکھ رہی تھیں۔ 

###

اس گھر میں محبت اور نفرت کی یہ جنگ پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے۔ بلال محبت کی فوج کا سپاہ سالار ہے اور نوشی نفرت کی سینا کی رانی ہے۔

 

جمال رندھاوا کے تین بچے ہیں شعیب عرف شعیبی بڑا بیٹا نسیم اور تسلیم جڑواں بہنیں جواب نوشی اور توشی کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ جمال صاحب لیدر سے بنی اشیا کے بہت بڑے ایکسپوٹر تھے ۔ ان کی فیکٹری ڈسکہ اور سیالکوٹ کے درمیان مین ڈسکہ روڈ پر واقع ہے۔ اکثر وہ ملک سے باہر ہوتے ہیں۔ 

ان کی بیوی اور بیٹا شعیب شعیبی کوٹ لکھ پت میں ٹریک سوٹ بنانے والی فیکٹری کے مالک ہیں۔

 

اور ان کی بیٹیاں نوشی اور توشی ڈیفنس کے yبلاک میں واقع اپنی بوتیک چلاتی ہیں۔ 

ڈیفنس کے فیز IIIمیںSبلاک میں دو کنال کی شاندار کوٹھی ان کی راج دھانی ہے۔ ویسے تو اس گھر میں ملازموں کی سینا موجود ہے مگر ان میں سے 4بہت اہم ہیں۔ 

گل شیر خان اس گھر کے سب سے پرانے وفادار ہیں، ان کے عہدے کو کوئی نام نہیں دے سکتے وہ 30سال سے جمال رندھاوا کے ساتھ ہیں۔

 

 

جمال صاحب کے بعد فیکٹری معاملات وہی ہینڈل کرتے ہیں ان کے دو بیٹے بھی جمال صاحب کی فیکٹری میں ملازم ہیں، جمال صاحب جب ملک سے باہر ہوتے ہیں تو وہ سیالکوٹ میں اپنے گھر قیام کرتے ہیں۔ جمال صاحب جب پاکستان ہوں تو وہ ان کے ساتھ دن ہو یا رات۔۔ چوبیس گھنٹے ساتوں دن۔ 

باجی غفوراں بھی تقریباً اتنے عرصے ہی سے کام کر رہی ہے اس گھر میں وہ صبح سویرے آجاتی ہے اور رات گئے واپس جاتی ہے، کچن کی ہیڈ ہے وہ ڈیفنس میں واقع چرڑ گاؤں کی رہنے والی ہے جوکہ Sبلاک کے پاس ہی واقع ہے۔

 

 

شاہد محمود سکھیرا اس گھر میں جوان ہوا ہے۔ سب کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہے اور مزے کی بات سب گھر والے اسے اپنا خاص آدمی سمجھتے ہیں جمال اور بلال کے علاوہ سب اسے SMSکہتے ہیں۔ 

DJیعنی دلاور جتوئی لاہور ہیرو بننے آیا تھا۔ DJ نوشی اور توشی کا ڈرائیور کم سیکرٹری اگر چمچہ کہیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ 

جہاں آرا بیگم ایک زیرک خاتون ہیں جو گھر کے افراد کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ڈوری میں باندھے ہوئے ہیں وہ ٹپیکل کنبہ پرست خاتون ہیں۔

 

 

وہ ڈوری جہاں آرا بیگم ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ناہید اور شعیبی کا رویہ بلال کے ساتھ غیر مناسب ہے اورنوشی کی ستم ظریفی بھی ان سے پوشیدہ نہیں ہے۔ 

بلال اس گھر میں رہتا تو ہے مگر وہ اس کا گھر کا فرد نہیں وہ اس گھر میں صرف جہاں آرا کے حکم سے رکا ہوا ہے ورنہ کب کا جاچکا ہوتا۔ 

وہ,26 25سال کا ایک خوبصورت گھبرو جوان ہے۔ مضبوط قد کاٹھ کا مالک مگر سلم اینڈ سمارٹ اس کی پرسنالٹی دیکھ کر اکثر نظریں راستہ بھول جاتی ہیں۔

 

گفتار پر جس کو عبور حاصل ہے۔ کردار جس کا اعلیٰ ہے۔ بات کرتا تو جناب اشفاق احمد صاحب یاد آجاتے ، آواز اتنی رعب دار اور نفیس جیسے گلزار صاحب اپنا کلام اپنی ہی آواز میں سنارہے ہوں …

اس کے رخِ پُرنور پر نظر پڑتی تو تبسمی مسکراہٹ آپ کا استقبال کرتی، دھیمی آواز میں بات کرتا نہ کم نہ زیادہ۔ 

نماز ، روزہ، زکوٰة کا پابند، حج اس نے دو سال پہلے ہی کرلیا تھا۔

 

ہفتے میں دو روزے ضرور رکھتا۔ جمعہ اور پیر، قرآن مجید روز پڑھتا مگر ترجمے کے ساتھ اس کے پاس اردو کے چودہ تراجم کے نسخے موجود تھے۔ جوکہ الگ الگ مکاتب فکر کے علماء کرام کے تھے۔ تمام مسالک کی مساجد میں نماز پڑھ لیتا، مذہبی بحث سے اجتناب کرتا۔ اس کے پاس قرآن مجید کے علاوہ بھی دوسری کتابیں موجود تھیں۔ کافی ساری احادیث کی کتب بھی اس کے پاس تھیں۔

 

تصوف سے بھی لگاؤ رکھتا تھا۔ مولاناجلال الدین رومی کی مثنوی اس کی پسندیدہ کتابوں میں سے ایک تھی۔ 

اردو ادب سے لگاؤ تھا شاعری پڑتا ضرور تھا مگر شعر کہنا اس کے بس کی بات نہیں تھی ۔ 

غالب، اقبال، فیض، فراز سے ہوتے ہوئے گلزار تک سب کے کافی اشعار اُسے یاد تھے۔ اس کے پسندیدہ شاعروں میں اقبال اور گلزار تھے۔ 

ناول اور افسانہ بھی اُسے پسند تھے۔

 

پریم چند، بیدی، منٹو ، قاسمی سے ہوتے ہوئے بانو قدسیہ تک اس کے پاس کافی رائٹرز کے ناول اور افسانے تھے۔ 

احمد ندیم قاسمی اور بانو قدسیہ اس کے پسندیدہ رائٹرز تھے۔ خاص طور پر راجہ گدھ جو کہ بانو قدسیہ کی تحریر ہے اُسے بہت پسند تھی۔ 

اشفاق احمد کا ڈرامہ ’من چلے کا سودا‘ اس نے کئی بار دیکھا تھا ۔ آرٹ فلموں کا دلدادہ تھا۔ خاص طور پر نصیر الدین شاہ اور سمیتا پاٹل کی ساری فلمیں اس نے دیکھ رکھی تھیں۔

 

 

غزلیں اور لائٹ میوزک اسے بہت پسند تھا۔ مہدی حسن صاحب اور عابدہ پروین اس کے پسندیدہ سنگرز تھے۔ کپڑوں کے معاملے میں اس کی پسند مختلف تھی۔ لائٹ بلوجینز کے اوپر اکثر وائٹ شرٹ پہنتا۔ اوپر بلیک کوٹ، کوٹ اسے بہت پسند تھے تقریباً ہر کلر اور ہر سٹف کا کوٹ اس کی وارڈروب میں موجود تھا۔ اور لائٹ کلر جینز میں جتنی ورائٹی تھی سب اس کے پاس تھی ۔

 

زیادہ تر شرٹس لائٹ کلر میں استعمال کرتا۔ 

گھر میں شلوار قمیض پہنتا۔ کھانے کا شوقین تھا مگر زندہ رہنے کے لیے کھاتا، گرل فش بہت پسند تھی اس کے علاوہ پیاز گوشت، زیادہ تر ہرے بھرے سینڈوج کھاتا جو کہ وہ خود ہی بناتا تھا۔ چھت پر پڑے گملوں سے پودینہ، دھنیا اور ہری مرچ توڑ کر ان کا پیسٹ بنالیتا اور فریج میں محفوظ کرلیتا۔ بھوک کے وقت براؤن بریڈ کے اوپر وہ پیسٹ ڈال کر سینڈوج میکر کی خدمات سے فائدہ اٹھاتا۔ 

کم گو مگر جب بولتا تو محفل لوٹ لیتا اکثر شعر سناتا تمام بڑے شاعروں کے، دوست بہت کم تھے دل کی بات زباں پر کم ہی لاتا۔ 

خود داتنا کہ خودی اُس کو عقیدت سے سلام پیش کرتی۔ 

اکثر کہتا دینے والی ذات صرف ایک ہے اس سے رو کر دل کھول کر مانگو اس لیے کہ کسی اور سے مانگنا نہ پڑے۔ 

اپنے ملازموں سے اخلاق سے بات کرتا اور وقت پر تنخواہ ادا کرتا۔ 

وہ ایک روشن خیال اور حدود میں رہنے والا انسان تھا۔ ہر عمر کی خواتین اسے پسند کرتیں کیونکہ اس کی آنکھوں میں حیا تھی۔

 

وہ کہتا عورت کو آپ جس نظر سے دیکھتے ہو اسے فوراً اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے حیا کی نظر سے دیکھو۔ 

سگریٹ اور شراب کو زندگی میں ہاتھ تک نہیں لگایا۔ 

لڑکیاں اس کے پیچھے پاگل تھیں۔ جو عورت اسے ملتی جانے سے پہلے پوچھ لیتی بیٹا تمہاری شادی تو نہیں ہوئی نا؟

جدت پسند تھا تمام جدید اشیا استعمال کرتا، Tv LCD، Lap Top، Tab Lat، سوائے دو کے (موبائیل اور گاڑی) اس کے پاس ایک پرانا Nokiaموبائیل فون تھا اور گاڑی

 

 

یہ چیزیں وہ نہیں بدلتا تھا وجہ صرف وہ جانتا تھا۔ 

اندرون لاہور میں ایک بلڈ ڈونر سوسائٹی کا ممبر تھا۔ 

اور سال میں 3بار بلڈ ڈونیٹ کرتا اس کا بلڈ گروپ نیگیٹوOتھا۔ 

بلال ایک سیلف میڈ اور ڈاؤن ٹو ارتھ بندہ تھا۔ اپنے سارے کام وہ خود کرتا ۔ انتہائی صفائی پسند تھا، روزانہ گرم پانی سے نہاتا اور نیم گرم پانی پیتا ہمیشہ، کلین شیو روز کرتا۔

 

اپنی صحت کا بہت خیال رکھتا ورزش روز کرنا اچھا عطر لگانا اسے بہت پسند تھا اس کے علاوہ انڈونیشیا کی بنی ہیئر کریم Jony Andrean اسے بہت پسند تھی ہمیشہ اپنے گھنگھریالے بالوں میں وہ کریم لگاتا، بلال کی آنکھیں بہت خوبصورت تھین موٹی گرین آنکھیں۔ 

کافی اور گرین ٹین بہت پیتا مگر چینی کے بغیر ۔ رات سونے سے پہلے ایک مگ خالص دودھ پیتا شہد ڈال کر اُسے اقبال چائے والے سے خالص دودھ مل جاتا تھا۔

 

 

اس کا نام اس کے باپ ملک جلال احمد نے رکھا تھا حضرت بلال حبشی کے نام پر۔ ملک بلال احمد ان سب خوبیوں سے بڑھ کر اس میں ہرمومن کی طرح ایک خوبی اور تھی جو ان تمام خوبیوں سے بڑھ کر تھی وہ نبی پاکﷺ سے بہت محبت کرتا تھا۔ نام محمدﷺ سن کر اس کی آنکھیں چمک اٹھتیں اور اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی اس کا نام تو ضرور بلال تھا مگر وہ حضرت بلال حبشی کے پیروں کی خاک جیسا بھی نہیں تھا۔

 

 

ملک بلال احمد کو حضرت بلال حبشی عاشق رسول سے بڑی عقیدت تھی ۔ 

#…#…#

ست رنگی کمرے میں وہ داخل ہوتی ہے ۔ 

”ملاقات ہوگئی تمہاری “دانت پیستے ہوئے نوشی نے کہا جوکہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی ۔ 

”کس سے “توشی نے سوال پر سوال کیا۔ 

”تمہارے بلال سے “تفتیشی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے ایک بار پھر نوشی بولی۔

 

 

”جسٹ شٹ اپ میں نے تم سے زیادہ اسٹوپڈ اور نیگٹو سوچ کسی کی نہیں دیکھی…

وہ تم سے منسوب ہے بچپن سے تمہارے علاوہ اس نے زندگی میں کسی کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھا “

توشی نے اپنی Tone(لہجہ) بدلا: ”کیوں اپنے آپ کو نفرت میں جلارہی ہو۔“

وہ نوشی کے پاس آکر بیٹھ گئی اور محبت سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ”میں بہن ہوں تمہاری اچھا چاہوں گی تمہارے لیے “

”تمہارا مشورہ مانگا ہے؟ ایک نمبر کی ڈفر ہو تم“نوشی نے اپنے شانے اچکاتے ہوئے اس کی ہمدردی واپس کردی۔

 

 

”جلدی سے تیار ہوجاؤ دیر ہورہی ہے “نوشی نے حکمیہ انداز میں کہا جو کہ اب کھڑی ہوچکی تھی اور جانے کے لیے تیار تھی۔ 

توشی اپنی جگہ سے اٹھی اور نوشی کے بالکل سامنے آکر کھڑی ہوگئی اس کا چہرہ غصے سے لال ہوچکا تھا۔ اس نے بغیر تمہید باندھے ترش لہجے میں دوٹوک کہا۔ 

”میں آج تک یہ سمجھ نہیں پائی کیوں تم بلال سے نفرت کرتی ہو“

”کس وجہ سے محبت کروں “نوشی نے جان لیوا مسکراہٹ سے پوچھا۔

 

 

دونوں بہنوں میں جرح شروع ہوچکی تھی۔ توشی سرخ آنکھوں کے ساتھ بولی۔ 

”محبت بے وجہ ہوتی ہے مائی ڈیئر“

”نفرت کرنے کے لیے بھی وجہ ضروری نہیں ہوتی“نوشی نے جواب دیا۔ 

”غلط بالکل غلط، محبت کرنا نیکی اور ہے بغیر وجہ کے نفرت گناہ“توشی یک لخت بولی۔ 

”کیا محبت کرنے سے ثواب ملتا ہے؟“نوشی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

 

 

”ہاں اگر وہ حرص و ہوس سے پاک ہو“توشی نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ 

”اس کی سنگت میں ملگنی مت بن جانا“نوشی نے اس کے رخساروں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا اور توشی کی پیشانی چوم لی۔ 

”میں جارہی ہوں تیار ہوکر آجاؤ“جاتے ہوئے بولی ۔ ”DJ اُلّو کا پٹھا بھی سویا ہوگا ابھی تک“

###

کچن میں SMS برتن دھورہا تھا اور اس کے بالکل پیچھے دوسری طرف BGدودھ گرم کر رہی تھی۔

 

دونوں کی پشتیں ایک دوسرے کی طرف تھیں سنک کے سامنے کھڑا SMSاچانک بولا بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ …

”BGتمہیں پتہ ہے بلال بھائی اس گھر کا کھانا نہیں کھاتے “

”محمود مجھے تو یہ بھی پتہ ہے کب سے نہیں کھاتا“BGدودھ ہلاتے ہوئے بولی۔ 

”میں شعیب صاحب کے کمرے میں فروٹ دینے گیا تھا تو چھوٹی بیگم صاحبہ بھری پڑی تھیں غصے سے، انہیں پتہ نہیں کیوں بلال بھائی پر غصہ آتا ہے …“جوکہ برتن دھوکر فارغ ہوچکا تھا۔

 

 

”میں تو کبھی اس کے کمرے میں نہیں گئی کھاتا کیا ہے؟“BGبولی دودھ مگ میں ڈالتے ہوئے ۔ 

”اکثر تو وہ سینڈوچ بناکر کھاتا ہے ہفتہ میں ایک دفعہ پیاز گوشت پکاتا ہے “SMSنے تفصیلی رپورٹ دی ”سینڈوج تو وہی کھاسکتا ہے مگر پیاز گوشت کی کیا بات ہے“SMSکے منہ میں پانی آگیا جیسے لذیذ کھانا یاد کر رہا ہو۔ 

”ہیلو BG ہائے SMS“DJفاتحانہ انداز میں کچن کے اندر داخل ہوتا ہے 

”لو ان کی کمی تھی “BGبڑبڑائی ”چمچہ کہی کا …میں دودھ دینے جارہی ہوں اس مسٹنڈے کو ناشتہ دے کر تتر بتر مت ہوجانا ساری صفائی کرکے جانا“ BGجاتے ہوئے تمام احکام سنا کر گئی۔

 

وہ روزانہ ناشتہ کے بعد بڑی بیگم صاحبہ کے لیے ایک مگ دودھ لے کر جاتی تھی ۔

”کیا کھاؤگے “SMSبوسی انداز میں بولا۔ BGکے جانے کے بعد کچن پر اب اس کی حکومت تھی۔ 

”پیاز گوشت“DJنے اُسی انداز میں جواب دیا ۔ دونوں کھل کھلا کر ہنس پڑے۔

”پیاز گوشت کے بچے چپ کرو “SMSدونوں ہونٹوں پر شہادت کی انگلی رکھ کر بولا ”بیگم صاحبہ آگئیں تو ہمارا قیمہ بنادیں گی ویسے بھی آج ان کا موڈ خراب ہے “

”وہ کیوں “DJنے سرگوشی کے انداز میں سوال کیا۔

 

”کہیں بلال بھائی تو گھر نہیں آئے تھے “اور خود ہی جواب بھی دے دیا۔ 

”بیگم صاحبہ تو نہیں مگر ۔ ۔ نوشی میڈم کو تو ۔۔ سمجھاسکتے ہو“SMSنے ناشتہ اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ 

”توبہ توبہ بھائی میرے میں مرمت کروا کر ہی آرہا ہوں “DJنے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے جواب دیا۔ 

#…#…#

توشی اپنی دادی کی گود میں سر رکھ کر لیٹی ہوئی تھی اور دادی اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہیں تھیں۔ 

”بیٹا وقت کیا ہوا ہے “دادی نے پوچھا۔ 

”گیارہ بجنے والے ہیں “توشی نے بند آنکھوں کے ساتھ غنودگی میں جواب دیا۔ 

”کیا تم آج اپنی دکان پر نہیں جاؤگی؟“دادی نے سوال کیا۔ 

”دادی آپ کو کتنی بار بتایا ہے دکان نہیں ہے بوتیک ہے بوتیک…بوتیک“

”اچھا …اچھا وہی جو تم کہہ رہی ہو بوتیک…“دادی نے جان چھڑائی۔

 

 

”آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے “دھیرے سے جواب دیا توشی نے۔ 

”پھر لڑائی ہوگئی تم دونوں بہنوں کی کتنی دفعہ لڑتی ہو دن میں“دادی توشی کے چہرے کی طرف دیکھ کر خود سے بولیں۔ 

”ایک دوسری پر جان بھی تو دیتی ہو، ابھی آجائے گی تمہیں منانے کے لیے “دروازے پر دستک ہوتی ہے۔

 

”لو آگئی “دادی یکایک بول اٹھی ”اِسے کہیے گا میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے “

”توبہ توبہ میں جھوٹ نہیں بول سکتی “دادی نے فوراً کہا ۔

 

دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی ۔ 

”آجاؤ بھئی آجاؤ “دادی نے آواز دی ”یہ تو اپنی غفوراں بی بی ہے “

”دودھ، بیگم صاحبہ“غفوراں نے کہا جو دودھ کا مگ ٹرے میں رکھے کھڑی تھی ۔ 

”بیٹھ جاؤ غفوراں “غفوراں قالین پر نیچے بیٹھنے لگی ”اوپر بیٹھو غفوراں کرسی پر نیچے مت بیٹھا کرو “

”وہ جی آپ کا ادب لحاظ کرتی ہوں اس لیے “غفوراں نے صفائی دی ۔

 

 

”غفوراں ادب لحاظ دل سے ہوتا ہے نیچے بیٹھنے سے نہیں “

”جی توشی بی بی تو سوگئی ہے “غفوراں نے بات بدلی۔ دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی ”آجائیں جی آجائیں“ غفوراں نے بیگم صاحبہ کی طرف سے صدا لگادی ۔ نوشی پاؤں پٹختے ہوئے اندر داخل ہوئی اور چنگھاڑ کر بولی۔ 

”دادو یہ میرے ہاتھ سے قتل ہوجائے گی ۔ اب تک تیار نہیں ہوئی ۔ “

”قتل کروگی تو جیل جانا پڑے گا “توشی معصومیت سے بولی بند آنکھوں کے ساتھ۔

 

 

”بیٹا کیوں لڑتی رہتی ہو “دادی بول پڑیں بیچ بچاؤ کے لیے ۔ 

”دادو میری واقعی طبیعت خراب ہے میں نہیں جاسکتی آج “توشی نے دوٹوک فیصلہ سنادیا۔ 

”نوشی بیٹا تم جاؤ “دادی نے کہا اور کلائی پکڑ کر دایاں ہاتھ چوم لیانوشی کا۔ 

”دادو بہت ڈھیٹ اور کام چور ہے “نوشی نے شکایت لگائی اور مسکراتے ہوئے چلی گئی۔ 

”دروازہ بند کرکے جانا دادو کو سردی لگ جاتی ہے “توشی نے حکمیہ انداز میں کہا۔

 

 

غفوراں کرسی پر بیٹھی ساری باتیں سن رہی تھی۔ اچانک بول اٹھی جیسے کچھ یاد آگیا ہو۔ 

”بیگم صاحبہ مجھے اجازت دیں ورنہ وہ کام چور سجے کھبے ہوجائے گا “توشی نے بند آنکھوں سے آواز دی ۔ ”BG“

”جی پتہ ہے دروازہ بند کرنا ہے “باجی غفوراں نے جاتے ہوئے اپنی ذمہ داری کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کی۔ 

”چلو اب اٹھ جاؤ سب چلے گئے “دادی نے حکم دیا۔

 

 

”نہیں دادو مجھے نیند آرہی ہے “توشی نے بند آنکھوں سے ہی جواب دیا۔ 

”بیٹا مجھے بات کرنی ہے تم سے “توشی کے گالوں پر پیار کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا ۔ توشی اٹھ کر بیٹھ گئی اپنے بالوں کو کیچر سے کس کے باندھا اور اپنے گھٹنوں پر تکیہ رکھا۔ 

”جی دادو فرمائیے“دادی کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولی ۔ 

”بیٹا یہ کام وام چھوڑو اور شادی کرلو “دادی نے اس کے دائیں گال پر ہاتھ پھیر کر بولا۔

 

توشی یک لخت شوخی سے بولی۔ 

”اُو شادی …مگر وہ کم بخت…مانے تو…“

”بات ٹالنے کی کوشش مت کرو۔ تم دونوں کو کام کرنے کی کیا ضرورت ہے دو دو فیکٹریاں ہیں، تم دونوں کے پاس اپنا بہت کچھ ہے، اگر ماہانہ کرایہ بھی لو تو وہ لاکھوں میں ہے باپ تمہارے نے اپنی زندگی میں تم لوگوں کا حصہ تقسیم کردیا ہے “دادی نے اپنی بات تفصیل سے بیان کردی ۔

 

”وہ مانے تو “دادی نے جیسے سنا ہی نہیں۔ 

”شادی مگر کس سے کوئی لڑکا بھی تو ہو “ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے الفاظ بدل کر کہا توشی نے۔ 

”ویسے ایک لڑکا ہے اگر آپ بات کریں تو وہ مان جائے گا “

”وہ کون؟…“حیرت سے پوچھا دادی نے۔ 

توشی کھل کھلا کر ہنس پڑی اور اپنا سر تکیہ سے لگادیا جوکہ دادی کے بالکل سامنے تھا۔ دادی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا شگفتگی سے بولیں۔

 

 

”بیٹا وہ تمہاری بہن سے منسوب ہے وہ بھی بچپن سے تمہاری پھوپھو اور تمہارے باپ نے یہ رشتہ جوڑا تھا۔ اب یہ ممکن نہیں ہے “دادی نے سمجھانے کی کوشش کی ۔ توشی گردن اٹھا کر دادی کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ رنجیدگی سے بولی۔ 

”مگر نوشی اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی اور اُسے پسند بھی نہیں کرتی رہا میرا سوال تو میں اسے پسند بھی کرتی ہوں اور محبت بھی “

”دیکھو بیٹا شادی اس سے کرنی چاہیے جو آپ سے محبت کرتا ہو اور وہ نوشی سے محبت کرتا ہے اور وہ اس کی ماں کی پسند بھی ہے “

”پھوپھو نے مجھے کیوں نہیں پسند کیا “وہ معصومیت سے بولی”مگر دادو بلال کو تو مجھ سے شادی کرنی چاہیے کیونکہ میں اس سے محبت کرتی ہوں “

”نہیں بیٹا تم اس کو صرف پسند کرتی ہو۔

 

اس کی اچھائیوں کی وجہ سے اس کی خودداری کی وجہ سے اس کے اخلاق کی وجہ سے اور بس …“

”اور بس…دادو…اور بس…“وہ بھری آواز سے بولی جیسے اور بس اس کے گلے میں ہڈی بن کر پھنس گیا ہو۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ جیسے اور بس اس پر زبردستی مسلط کیا گیا ہو۔ 

”بیٹا مجھے غلط مت سمجھو مگر یہ حقیقت ہے تجربہ دنیا کی کسی درسگاہ سے نہیں ملتا یہ عمر گزار کر آتا ہے ۔یہ 82سال پرانی آنکھوں کا تجربہ ہے۔ میں نے ان دونوں کی آنکھوں میں محبت دیکھی ہے ایک دوسرے کے لیے بے پناہ محبت… “

دادی نے توشی کو بازو سے پکڑ کر اپنے سینے سے لگالیا وہ اپنی دادی کے گلے لگ کر بلک بلک کر روئی جیسے کوئی چھوٹا بچہ کھلونا نہ ملنے پر روتا ہے۔ 

###

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page