top of page

شکیل احمد چوہان - بلال صاحب

بلال اپنے آفس میں داخل ہوتا ہے۔ فوزیہ اس کے استقبال میں کھڑی ہوجاتی ہے۔ بڑا خوبصورت اور دلکش آفس ہے ۔ روشن اور خوبصورت رنگوں کا امتزاج آفس میں داخل ہوتے ہی آپ کی نظر دو خوبصورت بڑی بڑی تصویروں پر پڑتی ہے جوکہ سامنے والی دیوار پر آویزاں ہیں خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی تصاویر خوبصورت فریموں میں سجی ہوئی ہیں۔ 

دائیں طرف کی دیوار پر سی گرین کلر ہوا ہے۔

 

اس کے اوپر چھوٹے بڑے سائز کی بہت سی تصاویر آپ کو نظر آئیں گی جن میں سب سے اوپر بانی پاکستان محمد علی جناح اور شاعر مشرق علامہ اقبال، نیچے خان لیاقت علی خان، ڈاکٹر ثمر مبارک، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، فیض احمد فیض، احمد فراز، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، فاطمہ ثریا بجیا، انور مقصود، انور مسعود، عبدالستار ایدھی، مہدی حسن، نور جہاں، نصرت فتح علی خان، احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین، کیپٹن محمد سرور شہید، میجر طفیل محمد شہید، میجر راجہ عزیز بھٹی شہید، راشد منہاس شہید، شبیر شریف شہید، سوار محمد حسین شہید، میجر محمد اکرم شہید، لانس نائیک محمد محفوظ شہید، کرنل شیر خان شہید، حوالدار لالک جان شہید اور بائیں طرف کی دیوار پر ایک گھڑی ہے اور اس کے ساتھ دیوار کے اوپر World Mapبنا ہوا ہے۔

 

 

 

داخلی دروازے کی طرف فائلز کے لیے کیبن بنے ہوئے ہیں دائیں طرف کی دیوار سے پہلے ایک صوفہ سیٹ اور درمیان میں شیشے کی ٹیبل پڑی ہوئی ہے۔ 

بائیں دیوار کی طرف فوزیہ کا ٹیبل ہے جس کے اوپر کمپیوٹر LCDکے ساتھ پرنٹر اور سکینر ہیں۔ 

”السلام علیکم سر“فوزیہ نے جوش کے ساتھ کہا ”سر آج آپ پہلی دفعہ لیٹ ہوئے ہیں“

”وعلیکم السلام ۔

 

جتنا تم مسکا لگاتی ہو ااتنا کام بھی کیا کرو ۔“بلال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

”سرگیسٹ آئے ہیں“فوزیہ نے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ بلال نے صوفے کی طرف دیکھا۔ دو ویل ڈریس اور فیشن ایبل خواتین صوفے پر بیٹھی تھیں اس سے پہلے بلال اُن سے بات شروع کرتا پنڈی ایکسپریس اندر آچکی تھی ”کہاں ہے بلال بھائی“ وہ زور سے بولی، بلال کو دیکھ کر رک گئی جیسے اس کی چین کسی نے کھینچ دی ہو۔

 

بلال نے اپنائیت سے کہا۔ 

”جی بھابھی آپ آئیں ادھر بیٹھیں“اپنے ٹیبل کے سامنے والی کرسیوں کی طرف اشارہ کیا اور ترچھی نگاہوں سے ان دو خواتین کی طرف منہ کرکے بولا۔ 

”معاف کیجیے میں آتا ہوں Excuse me, I will be back“فوزیہ کو چائے بسکٹ وغیرہ کے لیے کہا اور خود بھابھی فرح کے سامنے اپنی چیئر پر بیٹھ گیا اور مسکراتے ہوئے بولا۔ 

”جی بھابھی آپ کیسے راستہ بھول گئیں“

”بلال یہ کیا بات ہے میرے بچوں کے ساتھ غریب غربا لوگوں کے بچے پڑھیں گے بچوں کا ماحول خراب ہوتا ہے اس سے “خفگی سے کہا بھابھی فرح نے۔

 

 

”اچھا یہ بات ہے …بھابھی وہ سارے بچے انتہائی لائق اور ذہین ہیں میں نے خود سب کا ٹیسٹ لیا تھا اس کے بعد ہی انہیں ایڈمیشن ملا“بلال نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔ 

”لیکن ہیں تو وہ سارے غریب گھرانوں کے بچے “بھابھی فرح نے دوٹوک کہہ دیا۔ 

”صرف غربت …اس کے علاوہ کوئی اور عیب یا برائی ان بچوں میں “بلال نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔

 

 

”یہ کیا کم ہے “بھابھی فرح نے شانے اچکاتے ہوئے کہا۔ 

”ایک بڑے آدمی نے کہا ہے غریب کے گھر پیدا ہونا کوئی گناہ نہیں مگر غریب ہی مرجانا گناہ ہے۔ اور میں صرف ان کی مدد کر رہا ہوں کہ بچے صرف غربت کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہ رہ جائیں اور غریب ہی نہ مرجائیں “

”تم اسکول چلارہے ہو یا خیراتی ادارہ “بھابھی فرح نے ابرو چڑھاتے ہوئے تیکھا سا جواب دیا۔

 

 

”میں صرف اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔“ بلال نے کہا۔ وہ دونوں عورتیں ٹکٹکی باندھے یہ ساری گفتگو سن رہی تھیں۔ فوزیہ واپس آچکی تھی اور آفس بوائے ان کے سامنے چائے اور بسکٹ وغیرہ رکھ رہا تھا۔ 

”بھابھی آپ کے والد صاحب سے میری ملاقات ہوئی تھی پچھلے سال جب ہم لوگ مری گئے تھے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کا بچپن انتہائی غربت میں گزرا مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی محنت سے سول سروس میں آئے اور اسی احساس نے انہیں اعجاز جنجوعہ کی مدد کے لیے رہنمائی دی ۔

 

اعجاز جنجوعہ آ پ کے خاوند نے مجھے بتایا کہ اگر میرے خالو چوہدری جبار ہماری مدد نہ کرتے تو نہ تو وہ پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی اس شہر کے بڑے ٹھیکیدار بن سکتے تھے۔ یہ آپ کے ساتھ دو خواتین بیٹھی ہیں مسز نقوی اور مسز عباسی۔ نقوی صاحب اس شہر کے بڑے ڈاکٹروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے والد صاحب لاہور مصری شاہ میں گیس کٹر چلاتے تھے۔ اور میجر عباسی نے بھی مجھے خود بتایا ان کے ابا گجر پورہ لاہور میں ٹانگہ چلاتے تھے۔

 

مجھے آ پ سے زیادہ آپ کے بچوں کی فکر ہے مجھ پر اعتماد کریں میں آپ کے اعتماد کو کبھی شرمندہ نہیں ہونے دوں گا انشاء اللہ ۔“ بلال نے دھیمے لہجے میں اپنا نقطہ نظر بیان کیا ۔

”چلیں بھابھی ادھر آئیں چائے پیتے ہیں “بلال نے احترام سے کہا ۔ چائے پینے کے دوران مسز عباسی نے انگلش پر ہاتھ صاف کیا۔ 

”You provide me some information about this“کیا اس بارے میں مجھے کچھ معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔

 

 

”ہاں بالکل “بلال نے تفصیل بتانا شروع کی ۔ 

”ہم نے کل 40بچوں کا انتخاب کیا ہے۔ ہر کلاس میں چار بچے۔ ان تمام بچوں کو کتابیں اور یونیفارم اسکول فراہم کرے گا فیس ان کی معاف ہوگی اور انہیں پاکٹ منی بھی دی جائے گی اور سب سے بڑی بات ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو اس لیے ان بچوں کا علم میرے اور فوزیہ صاحبہ کے علاوہ کسی اور کو نہیں ہے۔

 

اور سچی بات یہ ہے اس سے ہر کلاس کا ماحول بہتر ہوا ہے کیونکہ میں نے بچوں کو احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔ تعلیم سب کا حق ہے ۔ امیر ہو یا غریب…“ مسز نقی بول اٹھی جو کہ اب تک خاموش تھیں۔ 

”کتنا زبردست خیال ہےWhat a Wonderful Idea“مسز عباسی نے ان کی ہاں میں ہاں ملادی۔ 

###

بلال کا یہ اسکول الگ طرح کی درسگاہ تھی۔ جہاں تعلیم سے زیادہ تربیت دی جاتی تھی۔

 

کتابیں کم تھیں۔ جہاں اردو، عربی اور انگلش پڑھائی نہیں جاتی تھی بلکہ بچوں سے صرف بولی جاتی تھی اس اسکول کے Subjectبھی مختلف تھے۔ 

قرآن مجید پہلا مضمون تھا جوکہ اردو ترجمے کے ساتھ پڑھایا جاتا اور سمجھایا جاتا اس کے علاوہ صرف تین مضمون اور تھے سائنس، میتھ اور کمپیوٹر۔ 

بلال احمد کا ماننا تھا کہ عمل کی زبان سب سے آسان ہوتی ہے ۔

 

وہ ٹیچرز کا انتخاب خود کرتا تھا۔ وہ ان ٹیچرز کا انتخاب کرتا جو باعمل ہوتے انہیں کسی ایک زبان پر عبور حاصل ہوتا اور وہ کسی بھی ایک فیلڈ میں ماہر ہوتے یا کسی ہنر میں مہارت ہوتی۔ اس کا ماننا تھا کہ جو انسان اپنی ذات سے محبت نہیں کرتا وہ دوسروں سے خاک محبت کرے گا ۔اس کے نزدیک اپنی ذات سے محبت کا پیمانہ بھی الگ تھا۔ 

جو ورزش نہ کرتا ہو، جو اپنے گھر والوں کو وقت نہ دیتا ہوَ جو حلال حرام کی تمیز نہ رکھتا ہو اور جو فرائض نہ ادا کرتا ہو جو اس کے ذمے شریعت نے لگائے ہیں وہ اچھا ٹیچر تو کیا اچھا انسان بھی نہیں بن سکتا۔

 

وہ ہر کلاس میں ہفتے میں ایک بار ضرور جاتا بچوں سے ہر ٹاپک پر بات کرتا ان کی سنتا اور اپنی سمجھاتا۔ وہ بچوں کو ہنر سکھاتا اور اپنا کام خود کرنے کی تلقین کرتا۔ اسی لیے اس نے ہنر والے استاد بھی رکھے تھے۔ اس کا ماننا تھا ۔ علم والا وہی ہے جو عمل کرتا ہے۔ 

Man is as much educated as he looks.

آدمی اتنا ہی پڑھا لکھتا ہوتا ہے جتنا وہ نظر آتا ہے۔

 

 

جب وہ ٹیچر رکھتا تو ان باتوں کا خیال رکھتا۔ 

-1 نماز روزہ کا پابند ہو۔ 

-2 جو اپنے بیوی بچوں کو وقت دیتا ہو روزانہ دو گھنٹے اور ہفتہ میں ایک پورا دن ۔ 

-3 طلاق یافتہ اور کنوارے استاد بالکل نہیں رکھتا تھا۔ 

-4 وہ کوئی ورزش ضرور کرتا ہو، صحت مند جسم ہی صحت مند دماغ کا مالک ہوسکتا ہے۔ 

-5 اور وہ مطالعہ ضرور کرتا ہو۔اس کا ماننا تھا جو خود پڑھتا نہیں وہ پڑھا نہیں سکتا۔ 

###

اسی دن عصر کے بعد بلال حسب معمول بابا جمعہ کے پاس گیا جو کہ اپنے کام میں مصروف تھے ان کے پاس ایک لڑکا عمر تقریباً 25سال ہوگی اپنے جوگرشوز سلائی کروارہا تھا اور وہ بابا جمعہ سے ملکی حالات پر بحث میں مصروف تھا۔ وہ بابا جمعہ کی پرسنالٹی سے بہت متاثر ہوا اور ان کے نالج کی تعریف کر رہا تھا۔ اس لڑکے نے کہا آپ کافی تعلیم یافتہ لگتے ہیں۔ 

”صرف میٹرک …“بابا جمعہ سلائی کرتے ہوئے بولے۔

 

 

”میٹرک صرف میٹرک “وہ ہکا بکا رہ گیا اس کے چہرے پر تجسس تھا۔ بابا جمعہ سلائی کرکے فارغ ہوچکے تھے وہ اس کے چہرے کی حیرانی دیکھ کر بولے۔

”بیٹا جی کیا ہوا آپ کو “

”میں نے جس ٹاپک پر آپ سے بات کی آپ ایک ماہر لیکچرار کی طرح پریزنٹیشن دے رہے تھے آپ ٹپیکل موچی تو نہیں لگتے آپ ایک وژنری پرسنالٹی ہیں “

اس نے بابا جمعہ کی تعریف میں لمبا چوڑا بھاشن دے ڈالا۔

 

 

 

بلال اس کے پیچھے کھڑا سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ بابا جمعہ نے بلال کو دیکھ لیا اس لڑکے کے جوگر سلائی کرکے شاپر بیگ میں ڈاکر کر اس لڑکے کو تھمادیے۔ 

”یہ لو بیٹا…بلال صاحب بھی آگئے “بابا جمعہ نے ایک ساتھ سب کہہ دیا 

”بیٹا چائے پیوگے؟“بابا جمعہ نے اس لڑکے سے پوچھا۔ 

”جی وہ …جی ہاں ضرور…ضرور…“وہ یکایک بولا۔ 

”بلال بیٹا تین چائے کا اقبال کو فون کردو“

بلال نے اپنا پرانی وضع قطع کا موبائل نکالا اور بالی چائے والے کو فون کردیا جو پیچھے بازار میں چائے کی دکان چلاتا تھا۔

 

بالی چائے والے کی دکان چرڑ گاؤں کے بازار میں واقع تھی چرڑ گاؤں آج سے تقریباً 40سال پہلے لاہور شہر سے باہر ایک پسماندہ گاؤں تھا اور اس تک رسائی کے لیے کوئی باقاعدہ راستہ بھی موجود نہیں تھا۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اسی گاؤں اور کچھ اور دیہاتوں کے زرعی رقبے پر تعمیر ہوئی۔ بڑھتے ہوئے آبادی کے طوفان نے زرعی رقبوں پر نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانے پر مجبور کردیا ہے۔

 

ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کا یہ علاقہ گلبرگ کی طرح لاہور شہر کا پوش ترین علاقہ ہے۔ یہ گاؤں ڈیفنس کے تین بلاکس Z.J.Kکے درمیان واقع ہے۔ 

یہ گاؤں غریب اور مڈل کلاس لوگوں کی بستی ہے اور ان کا روزگار ڈیفنس کے گھروں سے وابستہ ہے۔ غریب عورتیں مختلف گھروں میں کام کرتی ہیں اور مرد کوئی سبزی کا کام کرتا ہے، دودھ، کریانہ، سٹور، مالی، ڈرائیور، سکیورٹی گارڈ، مستری، مزدور ، موٹر مکینک ، کارپینٹر اور موچی جی ہاں موچی…

بابا جمعہ بھی موچی ہے چرڑ گاؤں سے ڈیفنس میں داخل ہوں تو دائیں ہاتھ گاؤں کے علاقے میں مین روڈ سے پہلے یعنی غازی روڈ جو ڈیفنس سے گزر کر بھٹہ چوک تک جاتی ہے ۔

 

دائیں ہاتھ بابا جمعہ کا موچی خانہ آباد ہے، بائیں ہاتھ مسجد ہے گاؤں کی مسجد۔ مین روڈ کی دوسری طرف Lesco Officeسے پہلے بس سٹاپ ہے۔ بابا جمعہ کا موچی خانہ اور بس سٹاپ آمنے سامنے ہیں۔ 

بابا جمعہ کا موچی خانہ بھی بابا جمعہ کی طرح صاف ستھرا ہے جہاں بابا جمعہ بیٹھے ہیں ان کے پیچھے Zبلاک کی کسی کوٹھی کا لان ہے ۔ جس کے اندر بے شمار پھولوں کے پودے لگے ہوئے ہیں اور ایک بڑا نیم کا درخت اور ایک شہتوت کا درخت بھی موجود ہیں ان دونوں درختوں کا جھکاؤ گلی کی طرف ہے جہاں بابا جمعہ بیٹھے ہیں کیونکہ وہ دونوں درخت تقریبا اس دیوار کے ساتھ ہیں جو Zبلاک اور گاؤں کو جدا کرتی ہے جس چھوٹے نالے پر بابا جمعہ کا موچی خانہ ہے وہ اوپر سے سیمنٹ کی پلیوں سے ڈھکا ہوا ہے۔

 

بابا جمعہ کے دائیں ہاتھ سڑک کی جانب بجلی کا کھمبا ہے جوکہ قدرے آگے کی طرف ہے پچھلی طرف Zبلاک کی دیوار سامنے گلی کی دوسری طرف مسجد اور بائیں ہاتھ چرڑ گاؤں کو جانے والا راستہ ہے۔ 

بابا جمعہ کے اوپر نیم کا درخت اور ساتھ شہتوت کا درخت سائبان کیے ہوئے ہیں۔ اگر کچھ کمی تھی تو وہ فائبر کی بنی گرین شیٹ نے پوری کردی جوکہ بریگیڈیئر امان اللہ نے لگوائی تھی ، دھوپ اور بارش سے بچاؤ کے لیے بریگیڈیئر صاحب بھی بابا جمعہ سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں انہوں نے ہی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی سے پرمیشن لے کردی تھی بابا جمعہ کے موچی خانہ کی اور ماہانہ فیس بھی وہ خود ادا کرتے ہیں۔

 

 

بابا جمعہ سے کوئی ان کی عمر پوچھے تو پاکستان کا ہم عمر بتاتے ہیں۔ سفید لباس میں ملبوس ململ کا کرتہ اور پائجامہ پہنتے ہیں جوکہ دودھ کی طرح سفید ہی ہوتا ہے کام کرتے وقت اون کے بنے دستانے یعنی گلوز پہنے رکھتے ہیں ۔ پانچ وقت نماز باجماعت ادا کرتے ہیں۔ ظہر، عصر، مغرب سامنے والی مسجد میں اور باقی دو اپنے گاؤں کی مسجد میں۔ بابا جمعہ کماہاں گاؤں کے رہنے والے ہیں جوکہ ان کے موچی خانہ سے تقریباً4کلومیٹر دور ہے صبح فجر کی نماز پڑھ کر ناشتے سے فارغ ہوکر اپنے کام پر پیدل آجاتے ہیں اور مغرب کی نماز پڑھ کر واپس گھر چلے جاتے ہیں یہ ان کا تیس سال سے معمول ہے۔

 

 

ببلو چائے لے کر آگیا بالی چائے والے کا چھوٹا بابا جمعہ نے لکڑی کا سٹول آگے کردیا بلال شوز اتار کر اوپر بنی جگہ پر بیٹھ گیا جوکہ نالے کے اوپر تھی اور دوسرا لڑکا عادل عقیل پاؤں لٹکا کر نالے کے اوپر بیٹھ گیا بلال کافی عرصہ پہلے ایک کارپیٹ کا ٹکڑا خرید کر لایا تھا جو بیٹھنے کے کام آتا ہے۔ یہ دونوں اسی کارپیٹ کے ٹکڑے پر بیٹھے تھے ۔

 

بلال نے چائے کپوں میں ڈالی وہ تینوں چائے پینے میں مصروف ہوگئے ۔ عادل عقیل دوبارہ بول اٹھا۔ 

”میں اب تک کنفیوژ ہوں “

”کس بات پر …“بابا جمعہ نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے پوچھا۔ 

”یہ کہ آپ کی تعلیم صرف میٹرک ہے …اور آپ زمانے بھر کے علوم کے بارے میں بات کرسکتے ہیں وہ کیسے میں سمجھنا چاہتا ہوں “عادل نے حیرت سے پوچھا۔

 

 

”اندھوں میں کانا سردار…پدی کیا پدی کا شوربا کیا “بابا جمعہ نے پرنم لہجے میں جواب دیا۔ عادل عقیل اور بلال احمد بابا جمعہ کی باتیں غور سے سن رہے تھے۔ بابا جمعہ نے بغیر تمہید کے بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ کہا۔ 

”بچے اب لوگوں کے پاس ڈگریاں تو ہیں مگر علم اور تعلیم و تربیت کے بغیر یہ ایسے ہی ہے ماشکی کے پاس مشک تو ہو مگر اس کے اندر پانی نہ ہو جسم تو ہو مگر اس جسم میں روح نہ ہو۔

 

علم روح کی طرح ہلکا لطیف ہے۔ علم اور عمل متوازی روح اور جسم۔ 

جس طرح روح اور جسم ساتھ ہیں مگر روح نظر نہیں آتی صرف جسم نظر آتا ہے اسی طرح علم اور عمل ساتھ ساتھ ہیں بندے کا کمال یہ ہے کہ علم کو چھپائے اور عمل کرکے دکھائے بیٹا یاد رکھو عزت ہمیشہ ان کی ہوئی جنہوں نے علم کے اوپر عمل کیا۔ مگر اب ترتیب غلط ہوگئی ہے لوگ صرف کھوکھلے علم سے خالی مشک کی طرح عمل کے بغیر عزت، شہرت، روپیہ چاہتے ہیں۔

 

“بابا جمعہ نے شائستگی سے مسحور کن انداز میں اپنی بات مکمل کی مگر عادل عقیل کو تشفی نہیں ہوئی اس نے ایک اور سوال داغ دیا۔ 

”مگر بابا جی میرا سوال کچھ اور تھا …میں نے سورس آف نالج پوچھا تھا آپ سے “

”دیکھو بیٹا آپ میری معلومات کو علم سمجھ رہے ہو ان دونوں کو الگ کرو تو بات سمجھ آئے گی ۔ میری آپ سے جتنی بات ہوئی تھی وہ دنیاوی معلومات تھی اس میں علم کی بات تو کوئی بھی نہیں تھی آپ نے معلومات لینی ہے تو اخبار پڑھو۔

 

اور اگر آپ علم کے طالب ہو تو قرآن پڑھو ترجمے کے ساتھ اور غوروفکر کرو۔ اور جہاں تک میری بات ہے تو میں بے علم بے عمل ایک حقیر سا بندہ ہوں “بابا جمعہ کچھ دیربعد دوبارہ بولے جیسے اپنا احتساب کیا ہو۔ 

”میں نے پچھلے پچاس سال سے ہر روز اخبار پورا پڑھا ہے اور روزانہ دو گھنٹے قرآن مجید پڑھا ہے ترجمہ کے ساتھ ایک گھنٹہ صبح فجر کے بعد اور ایک گھنٹہ رات میں عشاء کے بعد، خوشی ہو غمی ہو ، سردی، گرمی ہر موسم میں …“یہ بات کرکے بابا جمعہ کافی دیر نظریں جھکائے بیٹھے رہے۔

 

بلال نے بات دوبارہ شروع کی اور عادل عقیل کو مخاطب کیا۔ 

”کیا کرتے ہو “بلال نے پوچھا۔ 

”میں پنجاب یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر پڑھ رہا ہوں“عادل عقیل نے جواب دیا، عادل عقیل بابا جمعہ کے جواب سے مطمئن ہوگیا تھا اور دوبارہ آنے کی اجازت لی وہ بلال احمد کی پرسنالٹی سے بھی کافی متاثر ہوا۔ وہ نوٹ کر رہا تھا بلال کی بابا جمعہ سے عقیدت کو اس کے بات کرنے کے انداز کو اسے لگا جیسے بلال اپنی عمر سے کافی بڑا ہو اور ذہین ہو گو کہ عادل اور بلال کی عمر میں کوئی سال بھر کا فرق ہوگا عادل کو ایسے محسوس ہوا جیسے بلال ہنر، علم اور سلیقہ میں اس سے بہت آگے ہو۔ 

###

اُسی دن رات عشا کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد بلال حسب معمول نانی کی خدمت میں حاضر ہوا تو کمرے میں پہلے سے کھسر پھسر ہورہی تھی جب اس نے دروازے پرموٴدبانہ دستک کی تو اندر سے نوشی کی آواز آئی Yes come inاس نے دروازے کی ناب کو بائیں ہاتھ سے پکڑا اور نہایت آہستگی سے جب دروازہ کھولا تو سامنے صوفے پر نوشی بیٹھی تھی۔ 

دروازہ کھولتے ہی لمحہ بھر کے لیے دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے سیراب ہوئی تھیں۔

 

توشی سامنے کمبل میں بیٹھی آج پہلی دفعہ بول کم اور دیکھ زیادہ رہی تھی۔ (میں نے ان دونوں کی آنکھوں میں محبت دیکھی ہے بے شمار ایک دوسرے کے لیے …)صبح یہ جملہ دادی نے بولا تھا اور توشی نے اب دیکھ لیا اس نے دل میں سوچا بعض اوقات انسان آنکھیں رکھتے ہوئے بھی بینائی سے محروم ہوتا ہے۔

 

بلال آکر سلام کرتا ہے اور دیوان پر بیٹھ جاتا ہے جوکہ نوشی کے بائیں ہاتھ تھا اور توشی دائیں ہاتھ بیڈ پر آلتی پالتی مار کر کمبل میں بیٹھی تھی نوشی کے سامنے دادی موونگ چیئر پر بیٹھی بائیں ہاتھ میں تسبیح لیے جلوہ افروز ہیں، نوشی نے چور نگاہوں سے ایک بار پھر بلال کو دیکھا اس کا دیکھنا توشی سے بچ نہیں پایا توشی کے تیکھے نین تفتیش کر رہے تھے۔

 

 

جہاں آرا بیگم نے بلال سے پوچھا۔ 

”بلال بیٹا کھانا کھالیا “اس کی طرف متوجہ ہوکر ۔ 

”جی ہاں “بلال نے آہستہ سے جواب دیا۔ 

”سینڈوچ؟“توشی یکایک بول اٹھی جوکہ ٹکٹکی باندھے بلال کو دیکھ رہی تھی ۔ 

”نہیں وہ آج باہر کھانا کھایا تھا “اس نے جہاں آرا بیگم کی طرف دیکھ کر کہا ۔

”گرل فش؟ “توشی نے پوچھا جیسے پہلے سے جانتی ہو۔

 

 

بلال نے توشی کی طرف دیکھ کر اثبات میں سرہلادیا زبان سے کچھ نہیں کہا۔ 

”ان دونوں فراڈیوں کے ساتھ کھایا ہوگا ؟“توشی پھر بولی جوکہ اپنی طرف سے آج کم بول رہی ہے اور دیکھ زیادہ رہی ہے۔ 

”کون فراڈیے ؟“دادی نے تشویس سے پوچھا بلال کو دیکھ کر۔ 

”جی وہ طارق رامے اور اعجاز ٹھیکیدار مگر وہ اچھے بندے ہیں،“بلال نے صفائی دی۔

 

”مجھے فوزیہ نے سب کچھ بتادیا ہے کہ تم لوگ ہفتے میں ایک بار باہر کھانا کھاتے ہو اور تمہارا ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے“توشی سرزنش کرنے والے انداز میں بولی جیسے کوئی ماں اپنے آٹھ سال کے بچے کو ٹریٹ کرتی ہے 

”بیٹا مکمل انسان تو کوئی بھی نہیں ہوتا اگر ان دونوں میں کوئی عیب ہیں بھی تو بلال کے ساتھ وقت گزار کر ٹھیک ہوجائیں گے “جہاں آرا بیگم نے ایسے سمجھایا جیسے وہ چند دنوں میں بلال کے معتقد ہوجائیں گے انہیں ان کی خامیوں سے زیادہ بلال کی خوبیوں پر اعتماد تھا۔

 

 

”نانو مالش کردوں “بلال نے پوچھا۔ 

”نہیں بیٹا نوشی نے کردی ہے “جہاں آرا بیگم نے جواب دیا۔ 

بلال نے خوابیدہ نگاہوں سے نوشی کی طرف دیکھا وہ پہلے ہی سے منتظر تھی اس کی ایک نظر کی جیسے پہلی دفعہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں۔ 

”میری بھی دادو ہیں“ نوشی نے جاذبیت سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔

”کل ہیڈ بلوکی چلیں“توشی پھر سے بول اٹھی ۔

 

 

اس نے نینوں کی چہ مگوئیاں روکیں جوکہ آپس میں محو گفتگو تھے۔ 

”کل نہیں پھر کبھی کل میں مصروف ہوں “بلال نے جواب دیا۔ 

”تم تو ہر سنڈے مصروف ہوتے ہو…ویسے جاتے کہاں ہو “توشی نے تجسس سے پوچھا۔ 

”اپنی جاسوس فوزیہ سے پوچھ لینا “بلال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ 

سب ہنس پڑے۔ 

###

فرح اپنے بیڈروم میں بیٹھی گھڑی کی طرف بار بار دیکھ رہی تھی اس کے چہرے پر پریشانی اور غصہ دونوں موجود، موبائل پکڑ کر بار بار فون کر رہی تھی۔

 

 

فون کی گھنٹی بجتی ہے ۔بلال فون سکرین پر فرح بھابھی پڑھتا ہے ۔ 

”ہیلو…جی بھابھی خیرت ہے “بلال نے سوال کیا۔ 

”بلال…جنجوعہ صاحب ابھی تک گھر نہیں آئے … اور فون بھی ریسیو نہیں کر رہے “فرح بھابھی نے پریشانی میں جواب دیا۔ 

”بھابھی آپ فکر نہ کریں …میں پتہ کرتا ہوں “بلال نے تسلی دی۔ 

فون کٹ کرنے کے بعد (کہاں گئے ہوں گے) خود سے کہا اور نمبر ملایا بیل جارہی تھی مگر رسپانس کوئی نہیں ملا۔

 

پھر دوسرا نمبر ملایا۔ دوسری طرف سے آواز آئی ۔ 

”جی…بلال صاحب…“طارق رامے نے پوچھا۔ 

”جنجوعہ صاحب…“بلال کے بات کرنے سے پہلے ہی۔ 

طارق رامے نے زور سے کھل کھلا کر ہنسنا شروع کردیا۔ 

”جنجوعہ بڑا کمینہ ہے کروڑ پتی ہے مگر گاڑی نہیں بدلتا وہی پٹیچر Suzuki FX “ہنستے ہوئے جواب دیا ”مجھے بھی ذلیل کروادیا“

”ٹھیک ہے …رامے صاحب…صبح بات ہوگی“بلال نے فون بند کردیا۔

 

 

وہ ساری بات سمجھ گیا ڈیفنس سے کھانا کھانے کے بعد اعجاز جنجوعہ اور طارق رامے جوہر ٹاؤن جانے کے لیے نکلے تو راستے میں جنجوعہ صاحب کی گاڑی خراب ہوگئی تھی اور فون Silentموڈ پر تھا اور وہ ریسیو نہیں کر رہے تھے بلال نے بھابھی فرح کو فون ملایا۔ 

”جی بلال …کچھ پتہ چلا …خیریت تو ہے ، کہاں ہیں “بھابھی فرح نے ایک ہی سانس میں سارے سوال کرڈالے۔

 

 

”جی بھابھی خیریت ہے جنجوعہ صاحب کی گاڑی خراب ہوگئی تھی ابھی تھوڑی دیر میں آجاتے ہیں “بلال نے تسلی دی۔ 

”مگر وہ فون کیوں نہیں اٹینڈ کر رہے تھے “وہ غصے سے چیخیں۔ 

”وہی پرانی عادت ان کی “بلال نے جواب دیا اور فون بند کردیا ۔

بلال کا فون دوبارہ بول اٹھتا ہے۔ 

”جی رامے صاحب “بلال فون ریسیو کرتے بولا۔ 

”جنجوعہ کی …آج ہر گئی…اس کی مرمت ہووئے ہی ہووئے …تم دیکھ لینا “رامے نے ہنستے ہوئے کہا فون کی دوسری طرف خوشی کا ماحول تھا۔

 

 

اعجاز جنجوعہ اور طارق رامے تقریباً ہم عمر تھے ۔ طارق رامے 34سال کا گندمی رنگ والا زندہ دل یاروں کا یار خوش خوراک اور خوش اخلاق رنگ باز مگر دل کا بہت اچھا بندہ تھااور اعجاز جنجوعہ تقریباً 36سال کا درمیانے قد کاٹھ کا انسان تھا۔

دونوں میں ہنسی مذاق خوب تھا۔ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے رہتے۔ اسٹیج ڈراموں کی طرح جگتیں کستے رہتے۔

 

ان کے تعلق کی ایک وجہ ان کا کاروبار بھی تھا اعجاز جنجوعہ ٹھیکیدار تھا اور طارق رامے پراپرٹی ڈیلر تھا۔ 

بلال کا ان سے زیادہ تعلق نہیں تھا۔ ہفتے میں ایک دن وہ ان کے ساتھ باہر کھانا کھاتا۔ جس بلڈنگ میں بلال کا اسکول تھا۔ وہ طارق رامے کے کسی انویسٹر کی تھی جو کہ ملک سے باہر تھا ۔ طارق رامے کے ساتھ سارے معاملات طے کرنا ہوتے بلال کو، اور جنجوعہ صاحب کے تینوں بچے بلال کے اسکول میں پڑھتے تھے۔

 

 

مین‘ گیٹ پر گاڑی کا ہارن بجتا ہے Suzuki FX اندر داخل ہوتی ہے بیڈروم کا دروازہ کھول کر جنجوعہ صاحب اندر داخل ہوتے ہیں۔ 

”جنجوعہ صاحب…آ پ کو کسی کی فیلنگ کا ذرہ برابر بھی احساس ہے “فرح زخمی شیرنی کی طرح دھاڑی ”میں کب سے فون کر رہی تھی آپ کو …ذہن میں ہزاروں طرح کے خیال…دل میں وسوسے خدشے اللہ خیر کرے…اور آپ کو کوئی پرواہ ہی نہیں “

اعجاز جنجوعہ خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئے اور اپنا ماتھا انگوٹھے اور دو انگلیوں سے پکڑ لیا۔

 

فرح نے دیکھا تو اس کا سارا غصہ فکر مندی میں بدل گیا۔ 

وہ پاس آئی دو زانو بیٹھ کر جنجوعہ صاحب کا چشمہ اتارا۔ 

”طبیعت تو ٹھیک ہے …آپکی “فرح نے فکرمندی سے پوچھا۔ 

”بس کچھ سر میں درد ہے“اعجاز جنجوعہ نے جواب دیا۔ فرح نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کا دراز کھولا۔ پیناڈول کی گولی نکالی سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی دیا ”آپ یہ کھائیں …میں گرم دودھ لے کر آتی ہوں “وہ یہ کہہ کر دودھ لینے چلی گئی بیڈ روم کا دروازہ کھلا تھا اتنے میں طارق رامے کا فون آگیا فون اعجاز جنجوعہ کے ہاتھ ہی میں تھا جو فرح کی مس کالز دیکھ رہا تھا۔ 

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page