
شکیل احمد چوہان - بلال صاحب
”ہاں وئی …مرمت ہوگئی…یا ہونے والی ہے “طارق رامے نے انجوائے منٹ سے پوچھا۔
”بیٹا جی…ہم بھی کھلاڑی ہیں …بیوی کو بے وقوف بنانا کون سا مشکل کام ہے “جنجوعہ صاحب نے فاتحانہ انداز میں کہا۔
”کون سے گولی دی ہے بھابھی کو اس بار“طارق رامے نے پوچھا۔
”ہزاروں گولیاں ہیں کوئی سی بھی دے دو ۔تو بیٹا شادی کروا ایسے ایسے مشورے دوں گا بیوی تمہارے سامنے بھیگی بلی…“
فرح پیچھے کھڑی سب سن رہی تھی ۔
”یہ لیجیے دودھ “فرح نے کہا۔ ”تم کب آئی“جنجوعہ نے پوچھا۔ ”جب آپ گولیاں دے رہے تھے“فرح نے تلخ لہجے میں جواب دیا۔
”یار…وہ …یہ …فون…ہاں فون سائلنٹ تھا ۔ فون بند کرتے ہوئے ہکلاہٹ میں کہا۔ “
”گولی کھائی بھی ہے …یا پھر صرف گولیاں دیتے ہی ہیں۔
“دودھ کا مگ جنجوعہ صاحب کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولی۔
”نہیں وہ…وہ…سوری یار“جنجوعہ صاحب نے فورا ً ہتھیار ڈال دیے۔
جنجوعہ صاحب کرسی پر بیٹھ کر دودھ پینے میں مصروف ہوگئے اورفرح ٹیرس کا دروازہ کھول کو باہر ٹیرس پر چلی گئی اور لان کی طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئی جب جنجوعہ صاحب کی نظر اس پر پڑی تو دودھ کا مگ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر فرح کے پیچھے گئے اور فرحکے پیچھے کھڑے ہوکر بولے۔
”فری جی …سوری…یار وہ فون سائلنٹ تھا …کہا نا سچی یہی بات تھی “اعجاز جنجوعہ نے انتہائی سنجیدگی سے صفائی پیش کی۔
”آگے سے خیال رکھوں گا پکا وعدہ، فری جی …فری جی …“
”آپ مجھے فری مت کہا کریں “فرح نے دوٹوک جواب دیا۔ اعجاز جنجوعہ نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنی طرف چہرہ کرکے بولا۔
”مجھے پتہ ہے آپ کی والدہ کہتی ہیں اور بس مجھے اجازت کی ضرورت نہیں “
”وہ کیوں جی“شکایتی نظروں سے دیکھتے ہوئے فرح نے سوال کیا۔
”اس لیے کہ …محبت کرنے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی اور محبوب کو کوئی بھی نام دے دو وہ محبوب ہی رہتا ہے “
فرح کے چہرے پر جان لیوا مسکراہٹ تھی۔
”آج آپ بلال کے ساتھ تھے اس لیے رومینٹک باتیں کر رہے ہیں ورنہ آپ تو سیمنٹ، ریت، سریا، بجری، ماربل اور بس یہی کچھ…ہے“فرح نے کھاجانے والی نظروں سے اعجاز جنجوعہ کو دیکھا۔
”چلو اندر چلو باہر سردی ہے “اعجاز جنجوعہ نے بازو کے حصار کے ساتھ اندر لاتے ہوئے کہا۔
اعجاز جنجوعہ اور فرح ایک آئیڈیل زندگی گزار رہے تھے ۔ اور وہ آئیڈیل کپل تھے۔
فرح ایک گول مٹول گوری چٹی رنگت والی گھریلو خاتون تھی جوکہ اپنے بھرے ہوئے جسم کے ساتھ خوبصورت لگتی تھی۔ شادی سے پہلے افسانے اور ناول پڑھنے والی یہ لڑکی ایک ایسے شخص کے ساتھ بیاہی گئی جوکہ اس کا خالہ زاد تھا۔ اور اس کے باپ کی پسند بھی۔مزاج اور طبیعت دونوں کی مختلف تھی، بچپن میں ایک دوسرے کو دیکھا ہوگا۔ وجہ یہ تھی۔ اعجاز جنجوعہ شاہدرہ لاہور کا رہنے والا تھا اور فرح راول پنڈی سے تھی۔
اعجاز جنجوعہ 15سال کا ہوگا جب اس کے ماں باپ ایک بس حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے ان کے ساتھ اس کی سب سے چھوٹی بہن جو کوئی 4سال کی ہوگی وہ بھی چل بسی، پیچھے اعجاز جنجوعہ اور اس کی 3چھوٹی بہنیں شازیہ گیارہ سالہ، نازیہ نو سالہ اور رابعہ سات سالہ جو کہ گھر پر تھیں بچ گئیں ان سب کی ذمہ داری اعجاز جنجوعہ کے کندھوں پر آگئی ۔ ان حالات میں فرح کے والد اور والدہ نے اعجاز جنجوعہ کا ساتھ دیا ۔
اعجاز اپنی خالہ اور خالو کی بہت عزت کرتا اور فرح اس کی خالہ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی تھی۔ اعجاز جنجوعہ زیادہ پڑھ نہیں سکا صرف BA کیا مگر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں۔
گندمی رنگت والے درمیانہ قد 0.75کا چشمہ پہننے والے اسمارٹ آدمی تھے چہرے پر چھوٹی بھوری موچھیں، چشمے کے اوپر سے دیکھتے اور اکثر بیٹھے ہوئے بائیں ہاتھ سے اپنی مونچھوں کو اوپر سے نیچے انگلی اور انگوٹھے سے پریس کرتے رہتے یہ ان کی عادت تھی ۔
اپنے کام سے عشق تھا۔ فارغ وقت میں طارق رامے کے دفتر میں اخبار پڑھتے پائے جاتے۔ چائے کا کپ ہاتھ میں لیے ہوئے طارق رامے جتنا فضول خرچ اور دل پھینک تھا۔ اعجاز جنجوعہ اتنا ہی کنجوس اور وفادار اپنی بیوی کے ساتھ، فرح اس کی زندگی میں پہلی عورت تھی اور شاید آخری بھی، اس کے برعکس طارق کے دل میں آنے والے کو روک نہیں تھی اور جانے والے پابند نہیں تھے۔
ان سب باتوں کے باوجود وہ روزانہ ملتے گپ شپ لگاتے ہنسی مذاق کرتے ۔ بلال سے ان کی ہفتہ میں ایک ملاقات ہوتی وہ بھی ہفتہ کے دن مغرب کے بعد جب وہ لوگ باہر کھانا کھاتے بل دینے کی باری ہفتہ وار ہوتی سب کی۔
طارق رامے وکیل بھی تھا مگر نام کا اس کے علاوہ MSEمیتھ اور بی ایڈ بھی کیا ہوا تھا۔ پراپرٹی ڈیلر کا کام نہ جانے کیوں کرتا تھا اس کا بڑابھائی راشد رامے جو کہ وکیل تھا، جب کبھی دینہ جہلم سے لاہور آتا تو جھگڑا کرتا کہ تم وکالت شروع کرو یہ پراپرٹی کا کام چھوڑدو۔
###
وہ من ہی من میں سوچ رہی تھی۔ جب اس نے سونے کی کوشش کی تو نیند آنے کو تیار نہیں تھی۔ ذہن میں دادی کے الفاظ گونج رہے تھے وہ اٹھی واش روم گئی اپنا چہرہ غور سے دیکھا آئینے میں، کیا اپنی بہن سے جلن محسوس کر رہی ہوں، اس کے من میں خیال آیا۔ نہیں نہیں میں ایسی تو نہیں ہوں، اس نے خود ہی صفائی دی تو پھر یہ کیا ہے جو مجھے سونے نہیں دے رہا۔
بلال تو کہتا ہے کہ حسد اور محبت ایک دل میں نہیں رہ سکتے تو یہ محبت ہے یا حسد، کیا ہے۔ اس نے اپنا چہرہ دھویا اور واپس بیڈ روم میں آگئی رات اپنی آخری سانسیں لی رہی تھی جب اس نے اپنے موبائل پر ٹائم دیکھا۔ ساڑھے 4بج گئے تھے اس نے نوشی کی طرف دیکھا جو نیند کی آغوش میں تھی۔ یہ میری بہن ہے اور میں اس کے منگیتر سے، نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔
وہ کمرے سے نکل گئی کوریڈور میں آکر رک گئی مگر کہاں جاؤ، پھر وہ دبے پاؤں چلتی ہوئی بغیر ناک کیے دادی کے کمرے میں تھی۔
دادی جائے نماز پر بیٹھی تھیں۔ وہ دادی سے لپٹ جاتی ہے۔
”کیا ہوا میرا بچہ “دادی نے پوچھا پریشانی سے۔
”نیند نہیں آرہی ہے“زخمی آواز کے ساتھ توشی بولی اس کے اندر داخلی ٹوٹ پھوٹ جاری تھی۔ دادی نے اسے اٹھایا اور بیڈ پر لے گئی۔
”ادھر لیٹ جاؤ میں ابھی آتی ہوں“دادی نے اسے لٹایا اور کمرے کی لائٹ جلائی انٹرکام پر پیغام دیا اور خود توشی کے ساتھ لیٹ گئیں۔ اس کے گالوں پر ہاتھ رکھا پھر اس کا ماتھا چھوم لیا اور اس کے بالوں کو سہلانے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد زینب دو مگ دودھ لے کر آگئی۔ زینب جہاں آرا بیگم کی خاص ملازمہ تھی۔ باجی غفوراں کی دور کی رشتہ دار تھی اور بیوہ تھی۔
”بیگم صاحبہ دودھ“زینب نے تابعداری سے کہا۔
”معاف کرنا بیٹی تمہاری نیند خراب کردی“جہاں آرا بیگم نے کہا۔
”نہیں بیگم صاحبہ کوئی بات نہیں، کچھ اور چاہیے آپ کو “زینب نے عرض کی ۔
”نہیں بیٹی تم جاؤ شکریہ “زینب جاچکی تھی
”اٹھو بیٹا دودھ پی لو“دادی نے کہا
”نہیں دادو دل نہیں چاہ رہا “
”پی لو وہ بیچاری گرم کرکے لائی، اس کی نیند بھی خراب کی، چلو اٹھو تھوڑا سا پی لو“دودھ ختم کرنے کے بعد۔
”کیوں نیند نہیں آرہی میری جان کو ؟“دادی نے پوچھا۔
”دادی کیا میں خود غرض ہوں “توشی نے سوال پر سوال کردیا۔
”نہیں ایسا تو بالکل بھی نہیں ہے بلکہ تم تو مدد کرنے والی اور دوسروں کے کام آنے والی ہو…ایسا کیوں سوچا تم نے“دادی نے جواب دیا۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد بولیں۔
”تم کل والی بات پر پریشان ہو“دادی نے سوال کیا۔
”جی ہاں…مگر نوشی کی مجھے سمجھ نہیں آتی…ماما کے ساتھ بلال کی بہت برائیاں کرتی ہے۔ مگر کل رات کو بلال کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے…“توشی نے صاف گوئی سے ساری بات کہہ دی۔
”تمہاری ماں نے اسے بچپن سے نفرت کرنا سکھایا ہے، نفرت کی چھاؤں بھی برگد کے پیڑ کی چھاؤں کی طرح گھنی ہوتی ہے جس کے نیچے چھوٹے پودے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
اسی طرح نفرت کی چھاؤں میں محبت مرتی تو نہیں مگر کمزور ہوجاتی ہے۔ “
”دادو آپ بھی بلال کی طرح باتیں کرنا شروع ہوگئی ہیں “
”ہاں بیٹا ٹھیک کہہ رہی ہو…میں نے بلال سے بہت کچھ سیکھا ہے“
”اگر دادو نوشی بلال سے محبت کرتی ہے تو وہ شادی کے لیے کیوں راضی نہیں ہوتی “
”اس لیے کہ اُس کی محبت نفرت کے پنجرے میں قید ہے اور اُس پنجرے کی چابی تمہاری ماں کے پاس ہے“
”کیا نوشی بلال سے شادی کرے گی ؟“ توشی نے بھولی صورت بنا کر پوچھا۔
”یہ تو آنے والا وقت بتائے گا …تم میرا بچہ سو جاؤ “
”دادی دیر تک اس کے بالوں میں اپنی انگلیوں سے سہلاتی رہیں“
###
اگلے دن اتوار تھا۔ بلال صبح نو بجے گھر سے چلا گیا اور اس کا موبائل بھی آف تھا۔ یہ سلسلہ تقریباً پچھلے دس سال سے جاری تھا۔ وہ ہر سنڈے 9بجے کے آس پاس گھر سے چلا جاتا اور مغرب کی نماز کے بعد واپس آتا، ہاں عصر کے بعد اس کا نمبر ضرور On ہوجاتا، جب وہ بابا جمعہ کے پاس ہوتا اس سے پہلے وہ کہاں ہوتا، کیا کرتا، کسی کو بھی معلوم نہیں تھا۔ اگر کسی نے پوچھا بھی تو اس کا جواب ہوتا میں بتانا نہیں چاہتا۔
اس کی نانی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں جاتا ہے۔کئی سال پہلے اس نے بابا جمعہ سے سنا تھا۔آقا کریم کی ایک حدیث کا مفہوم کہ میرا امتی ہر گناہ میں مبتلا ہوسکتا ہے ایک جھوٹ نہیں بول سکتا اور دوسرا دھوکہ نہیں دے سکتا۔ یہ بات اس کے ذہن میں نقش ہوگئی تھی ۔ وہ کوشش کرتا ہے ان دونوں باتوں سے بچنے کی…
###
اسی دن یعنی سنڈے کو عصر کے بعد وہ بابا جمعہ کے پاس نالے کے اوپر التی پالتی مار کر اخبار پڑھ رہا تھا اور بابا جمعہ جوتا پالش کرنے میں مصروف تھے ۔
ایک آدمی انتہائی پریشان عمر پچاس کے آس پاس ہوگی شیو بڑھی ہوئی گرم چادر کندھوں پر اور پیروں میں پشاوری کالی چپل پہنے ہوئے آیا۔
”بابا جی مجھے تعویذ دے دیں یا پھر کوئی وظیفہ بتادیں، میں تو برباد ہوگیا ہوں جو بھی کام کرتا ہوں بیڑا غرق ہوجاتا ہے۔ ہر طرف سے بری خبر ہی ملتی ہے۔ میری تو کچھ سمجھ نہیں آرہا کروں تو کیا کروں۔
دوسری بار میرا کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے۔ بڑے بیٹے کو مسقط بھیجا تھا وہ وہاں فارغ بیٹھا ہے نہ کوئی پیسہ نہ کوئی دھیلا بھیجتا ہے۔ “
اس نے ایک ہی ساتھ اپنی دکھ بھری رُوداد سنادی۔ بابا جمعہ نے پالش کرنا چھوڑ دی اس کی ساری بات توجہ سے سنی۔
”بیٹھ جاؤ محمد طفیل…بلال بیٹا طفیل صاحب کو پانی پلاؤ “
بلال اٹھ کھڑا ہوا اور بجلی کے کھمبے کے ساتھ پڑے ہوئے پانی کے گھڑے سے ایک پیالہ پانی محمد طفیل کو دیا جو ایک ہی سانس میں غٹاغٹ سارا پانی پی گیا جیسے پریشانی کی آگ بجھارہا ہو۔
”اب بتاؤ کیا ہوا ہے “بابا جمعہ نے اس سے سوال کیا۔
”ہونا کیا ہے مقدر ماڑے آپ کو توپتہ ہے پوری زندگی ریلوے کی ملازمت کی ، ریٹائرمنٹ سے جو روپیہ ملا تھا اس سے دونوں بچیوں کے ہاتھ پیلے کردیے پھر خالی ہاتھ۔ریلوے کواٹر خالی کرنا پڑا“
”گاؤں میں 5ایکڑ زمین تھی وہ بیچ کر ایک چار مرلے کا گھر لیا بڑے بیٹے کو باہر بھیجا جو پیسے بچ گئے اس سے کپڑے کی دکان ڈالی، پندرہ دن بعد دکان میں چوری ہوگئی سارا مال ظالم لے گئے کپڑے کی ایک (لیر) بھی نہیں چھوڑی ظالموں نے…چھوٹا بیٹا شیف ہے کہنے لگا ابا ریسٹورنٹ بناتے ہیں مکان گروی رکھ کر بینک سے لون لیا کام تو اچھا چل پڑا تھا مگر میری قسمت پھر جل گئی ریسٹورنٹ میں آگ لگ گئی۔
سب کچھ جل کر سوا (راکھ) ہوگیا…اب بلڈنگ کا مالک مرمت کے لیے پیسے مانگتا ہے …میں کہاں سے دوں۔ “
محمد طفیل نے گھائل سپاہی کی طرح ساری داستان بیان کردی اور خود گردن جھکائے کسی کرامت کا انتظار کر رہا تھا اُسے اُمید تھی کہ بابا جمعہ کوئی پھونک ماریں گے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا مگر حقیقت اس کے برعکس تھی تھوڑی دیر خاموشی کے بعد بابا جمعہ بول پڑے۔
”بلال بیٹا طفیل صاحب کو چائے پلاؤ“
”جی ابھی فون کرتا ہوں “بلال نے عقیدت سے جواب دیا ۔ بابا جمعہ محمد طفیل کی طرف متوجہ ہوئے اور حلیمی سے بولے۔
”دیکھو بھئی…محمد طفیل سچ بولنا اور سچ سننا دونوں ہی مشکل کام ہیں “
”آج ہم دونوں سچ بولیں گے اور سچ سنیں گے …کچھ غلطیاں تو تم سے بھی سرزد ہوئی ہیں “
”وہ کیا بابا جی؟“محمد طفیل نے حیرت سے پوچھا۔
”گاؤں کی زمین کس کی تھی “
”ابا جی بہشتی کی “
”کتنے بہن بھائی ہو تم سب ؟“بابا جمعہ نے پھر پوچھا۔
”میں ہوں اور تین چھوٹی بہنیں ہیں “محمد طفیل نے بتایا۔
”زمین بیچ کر بہنوں کا حصہ دیا؟“بابا جمعہ نے سیدھا سوال کیا۔
”کیسا حصہ جی …“بابا جی آپ بھی کمال کرتے ہیں…اب بھی ان کا حصہ باقی ہے …میں نے ابا جی کے مرنے کے بعد اُن کو پالا ان کی شادیاں کیں اُن کی ہر خوشی غمی میں پہنچتا ہوں۔
آپ اب بھی حصے کی بات کرتے ہیں“محمد طفیل نے بے رخی سے جواب دیا۔
بابا جمعہ مسکرائے جیسے انہوں نے محمد طفیل کی تلخی اور بے رخی دیکھی ہی نہ ہو۔ وہ خاموشی سے محمد طفیل کو سن رہے تھے۔
”میٹرک میں پڑھتا تھا جب ابا جی فوت ہوگئے تھے محنت مزدوری کرکے خود پڑھا بہنوں کو بھی پڑھایا، ایک باپ کی طرح فرض نبھایا ہے میں نے ، بڑا بھائی ہونے کا حق ادا کردیا میں نے “
”مگر ان کا حق تو نہیں دیا“بابا جمعہ بول اٹھے ”محمد طفیل یہ تمہارا فرض تھا اور فرض کا اجر صرف اللہ تبارک و تعالیٰ دے سکتا ہے، فرض تو تم نے احسن طریقہ سے ادا کردیا مگر وراثت میں جو حق اللہ تعالیٰ نے بہنوں کا رکھا ہے وہ ادا نہیں کیا جو تم پر اپنی بہنوں کا قرض ہے…اور دوسرا گناہ جو تم کربیٹھے وہ یہ کہ سود پر قرض لے لیا میرا ماننا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں سب سے سخت الفاظ سود کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں۔
یہ دو گناہ تم سے سرزد ہوگئے۔ پہلا بہنوں کا حصہ نہیں دیا اور دوسرا سود پر قرض لے لیا۔ “
محمد طفیل بھڑک اٹھا چائے کاکپ سائیڈ پر رکھا اور غصے سے بولا ۔
”یہ جو اس ملک کے سیاست دان ہیں آج تک کسی کا بھی حق ادا کیا انہوں نے، بینکوں سے اربوں کے قرضے لیے اور کبھی ادا نہیں کیے، عوام کو روٹی میسر نہیں اور ان کے کتے بسکٹ کھاتے ہیں، ان کی تو اللہ پکڑ نہیں کرتا…مجھ غریب سے انجانے میں دو گناہ ہوگئے اور مجھے اتنی بڑی سزا دے دی “
بابا جمعہ نے ٹھنڈی سانس لی اور آسمان کی طرف دیکھا اور بولے۔
”اللہ کا شکر ہے کہ تم گناہ کو گناہ سمجھ گئے ہو، رہی بات اس ملک کے سیاسی لوگوں کی تو وہ گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتے، اس لیے اللہ تعالیٰ انہیں توبہ کی توفیق نہیں دیتا تم سچے دل سے توبہ کرو اور سب سے پہلے سود کے پیسے واپس کرو بہنوں کے حق ادا کرنے کی نیت کرو محنت کرو خرچے کم اور کام زیادہ کرو پھر دیکھو کیسے برکت نازل ہوتی ہے “
محمد طفیل عاجزی سے بول پڑا۔
”وہ سب تو ٹھیک ہے مگر کیسے …میرے پاس تو کچھ بھی ہیں …بہنیں الگ ناراض ہیں، اُن سے ادھار کیسے مانگوں، دوسرے رشتہ دار سب مشکل سے دال روٹی کھارہے ہیں۔ دس لاکھ تو بینک کا ہی ہے ۔ دوبارہ کام شروع کرنے کے لیے بھی پیسے چاہئیں۔“
محمد طفیل شکستگی سے سب کچھ بیان کر رہا تھا۔ بلال ساری گفتگو کے دوران خاموش تھا۔ بابا جمعہ سے کچھ کہنے کی اجازت چاہی۔ بابا جمعہ نے اجازت دی۔ بلال بابا جمعہ کی طرف دیکھ رہا تھا آنکھوں کی زبان سے، بابا جمعہ نے آنکھیں بند کرکے جواب دیا اور اثبات میں سر کو جنبش دی۔”آپ کل تشریف لے آئیں اللہ بہتر کرے گا“بلال نے طفیل صاحب سے کہا۔
”محمد طفیل تم کل آؤ“بابا جمعہ نے حکم صادر کیا۔
###
بابا جمعہ قیام پاکستان کے تقریباً دو ماہ بعد والٹین کے مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے جب ان کا خاندان ضلع گوڑ گاؤں تحصیل فیروزپور جھرکہ سے ہجرت کرکے لاہور آیا، بابا جمعہ کا پورا نام جمعہ خاں میواتی رکھا گیا، جمعہ کے دن ان کی پیدائش ہوئی تھی، اسی مناسبت سے ان کا نام جمعہ رکھ دیاگیا۔
میواتی قوم سادہ لوگ تھے، دین سے بہت محبت کرنے والے سیدھے سچے مسلمان، ان کے بچوں کے نام ان کی سادگی کا ثبوت ہوتے گو کہ اب ایسا نہیں ہے 17اکتوبر بروز جمعہ 1947کو بابا جمعہ پیدا ہوئے۔
بابا جمعہ کے والد سفید خاں کو کماہاں گاؤں میں ایک گھر جوکہ کسی سکھ سردار جی کا تھا الاٹ ہوگیا اور 2ایکڑ زرعی زمین بھی ان کے حصے میں آئی۔ سفید خاں کا نام بھی ان کی رنگت کی وجہ سے رکھا گیا تھا جو کہ بہت سفید تھے، اپنی پیدائش کے وقت ان کی نیلی آنکھیں تھیں، یہی رنگت اور آنکھوں کی خوبصورتی بابا جمعہ کو وراثت میں ملی۔
00:00
/
00:00
Loading Ad
اپنے باپ سے، بابا جمعہ میٹرک تک پڑھ سکے، 1965ء میں انہوں نے میٹرک کی اسی سال ان کے والد سفید خاں انتقال کرگئے دو چھوٹی بہنوں اور ماں کی ذمہ داری جمعہ خاں پر آگئی، آگے پڑھنا چاہتے تھے مگر حالات نے اجازت نہیں دی۔
ان کا ایک دوست اندرون لاہور میں ہاتھ سے بنے جوتوں کے کارخانہ میں کام کرتا تھا۔
اسی نے بابا جمعہ کو بھی کام پر لگوادیا۔ بہنوں کی شادیاں پہلے کیں بعد میں اپنی شادی کروائی مگر بابا جمعہ کو اولاد کی نعمت نہیں ملی، گھر کی گزر بسر اچھی ہورہی تھی ، ماں کی حج کرنے کی خواہش تھی اسے پورا کرنے کے لیے دو ایکڑ زرعی رقبہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کو بیچ دیا۔
پہلے بہنوں کا حصہ دیا، اس کے بعد حج کے پیسے دیے۔ 1980میں حج کرلیا ماں اور بیوی کے ساتھ، کچھ پیسے کم پڑے وہ امان اللہ سے ادھار لیے۔ حج کے بعد والدہ کی طبیعت اکثر خراب رہتی، اندرون لاہور سے کام چھوڑ دیا اور چرڑ گاؤں کے رستے میں موچی خانہ بنالیا جوکہ پچھلے30 سال سے قائم ہے۔
1983میں موچی بنے حالانکہ ذات کے موچی نہیں تھے ہاتھ سے جوتے بنانا جانتے تھے۔
18سال یہ کام کیا تھا۔ 1986میں والدہ بھی کوچ کرگئیں اس جہاں فانی سے، کبھی شکوہ شکایت زبان پر نہیں لائے ۔ سال پہلے 2012میں بیوی نے بھی ساتھ چھوڑ دیااور اب 2013ہے۔ یہ ہے بابا جمعہ کی کہانی۔
صفائی نصف ایمان ہے، کہتے بھی ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں۔ ہمیشہ سفید لباس زیب تن فرماتے ، سفید کرتا اور پائجامہ اپنے ہاتھ سے بنی چمڑے کی جوتی پہنتے عطر لگاتے، آنکھوں میں سرمہ لگاتے ہر نماز سے پہلے مسواک کرتے وضو کے وقت، سر پر سفید ٹوپی رکھتے66سال کی عمر میں بھی بالکل فٹ تھے۔
بلال نے ایک دن پوچھا”آپ کے پاس کپڑوں کے کتنے جوڑے ہیں۔“ ”تین“ انہوں نے جواب دیا۔
ان کا معمول تھا عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر پہنے ہوئے کپڑے بالٹی میں سرف ڈال کر بھگودیتے اور گھر میں تہمد اور کرتا پہن لیے۔ دوسرے دونوں جوڑے استری ہوتے، صبح فجر سے پہلے ان کپڑوں کو نچوڑ کر سوکھنے کے لیے ڈال دیتے۔ جمعہ کی چھٹی کرتے اور ہر سال رمضان کا پورا مہینہ کبھی کام نہیں کرتے۔
کھانے میں (کھچڑا) بہت پسند تھا۔ یہ میواتوں کی خاص ڈش ہے۔ جو ان کی والدہ بناتی تھیں۔ والدہ کے بعد ان کی بیوی بھی اچھا بنالیتی تھیں، مگر والدہ جیسا نہیں بیوی کے بعد وہ خود بنانے لگے۔
کھچڑا عربوں کے ہریسہ سے ملتا جلتا پکوان ہے فرق صرف اتنا ہے کہ ہریسہ گندم یا جو کے ہم وزن گوشت میں بنتا ہے۔ کچھڑا میں بھی یہی چیزیں ڈالی جاتی ہیں مگر کچھ دالوں کا اضافہ کیا جاتا ہے ہلدی اور پسی ہوئی سرخ مرچ ملائی جاتی ہے جبکہ ہریسہ میں صرف پسی ہوئی کالی مرچ اور نمک ڈالتے ہیں اس کے علاوہ سبزیوں میں کدو اور میتھی بہت پسند تھی۔
ان کی دونوں بہنیں کراچی رہتی تھیں۔ اپنے مکان کا حصہ بھی بہنوں کو ادا کردیا تھا جو کہ اُن کا وراثت میں حق تھا۔ ہر سال رمضان میں ان سے ملنے جاتے۔ اقبال چائے والا عمر 50 کے آس پاس ہو گی۔ اس کے ساتھ محبت کا رشتہ تھا اور اس سے بھی بڑھ کر بلال احمد کے ساتھ اکثر اقبال سے کہتے کہ اگر میرا بیٹا ہوتا تو بلال سے اچھا نہیں ہوسکتا تھا۔
###
عشاء کی اذان کے بعد بلال اپنے کمرے میں دیوان کے ساتھ اوپن کچن کے سامنے نماز پڑھنے میں مصروف تھا۔
جب توشی اس کے کمرے میں داخل ہوتی ہے۔ بلال سفید شلوار قمیض میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا جیسے دور بہت دور کوئی درویش سفید لباس پہنے ہوئے دریا کے کنارے اونچے ٹیلے پر چودھویں رات کی چاندی میں اپنے رب سے رازونیاز کی باتوں میں مصروف ہو۔
توشی لائٹ بلوجینز میں سفید کرتہ پہنے ہوئے کھلے کالے سیاہ بالوں کے ساتھ دبے پاؤں پیر کے آگے پیر رکھتے ہوئے کہیں ماربل کے سینے پر پیر رکھتے ہوئے ماربل کو تکلیف نہ پہنچے کمرے میں داخل ہوئی ۔
دروازہ کھلا ہوا تھا بلال خشوع و خضوع کے ساتھ نماز میں مگن تھا جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ سے باتیں کر رہا ہو۔
اس کے ذہن میں حضرت علی کے ایک قول کا مفہوم ہمیشہ سے نقش تھا کہ جب میرا اللہ سے بات کرنے کو جی چاہتا ہے تو میں نماز پڑھتا ہوں اور جب میرا جی چاہتا ہے کہ اللہ مجھ سے بات کرے تو میں قرآن پڑھتا ہوں۔
توشی کے آنے کا اسے احساس تک نہ ہوا اور وہ بھی خاموشی سے اس کے بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔
بلال نماز سے فارغ ہوکر لمبی دعا میں مصروف ہوگیا کھلے ہوئے ہاتھوں اور بند آنکھوں کے ساتھ مگر خاموشی سے۔
دعا سے فارغ ہوا تو خاموشی کا سینہ چیر کر توشی کی دلفریب آواز بلال کے کانوں کے پردوں پر دستک دینے لگی۔
”کیوں مانگتے ہو اتنی لمبی لمبی دعائیں“الفاظ اس کے ہونٹوں سے ایسے نکلے جیسے پھول سے خوشبو۔
”اس لیے کہ کسی اور سے مانگنا نہ پڑے“بلال کا جواب شہد کی طرح میٹھا تھا۔
”اور کیا مانگتے ہو اپنی دعاؤں میں “توشی کے کلیوں جیسے ہونٹ ایک دفعہ پھر کھلے۔
”آقا کی امت کا اتحاد اس ملک کی سلامتی اور خوش حالی اور اس گھر کی بھی …“
”بس ،اس کا بس پاتال سے بھی گہرا تھا۔ توشی نے تفتیشی نگاہوں سے پوچھا۔“
”نہیں…اُن کے لیے بھی دعا مانگتا ہوں جو مجھے چھوڑ کر چلے گئے میرے ماں باپ “بلال نے عقیدت میں ڈوبی ہوئی آوا ز میں جواب دیا۔
”اور اپنے لیے کیا مانگتے ہو“توشی نے پھر لب کشائی کی۔
بلال اب توشی کے سامنے رائٹنگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا ۔ توشی پہلے ہی سے بیڈ پر بیٹھی تھی دونوں کے درمیان دو فٹ کا فاصلہ تھا۔
دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ایک دوسرے کی آنکھوں میں غوطہ زن تھے۔ بلال چہرہ شناس تھا اس نے بغیر مشقت کے توشی کی آنکھوں میں لکھی تحریر پڑھ لی اور وہ تحریر تھی محبت، مگر توشی ابھی تک آنکھوں کے سمندر میں کھوج رہی تھی وہ جس کی اُسے تلاش تھی اُسے سب کچھ نظر آگیا ایثار، قربانی، ہمدردی، دوستی، اخلاص مگر محبت کہیں نہیں تھی وہ محبت جس کی تلاش میں اُس نے غوطہ لگایا تھا اس کے دو نین لمبے سفر سے تھک ہار کر واپس آچکے تھے، وہ بھی خالی ہاتھ۔
توشی نے اپنے آپ کو سنبھالا اور اپنا سوال دہرایا۔
”اور اپنے لیے کیا مانگتے ہو …میں نے پوچھا تھا “اس نے مصنوعی مسکراہٹ سے کہا۔
بلال توشی کے چہرے کو اپنی آنکھوں کے حصار میں لیے ہوئے تھا، جیسے کوئی مصنف مشاہدہ کر رہا ہو جیسے مشاہدے کے دوران دیکھنا ضروری ہے، بولنا نہیں۔
”بلال احمد اپنے لیے دعا کرو اور اپنی محبت کو مانگ لو اس سے “
توشی نے تلابوں کی طرح بھری ہوئی آنکھوں کیساتھ مشورہ دیا۔
اب اس کا چہرہ بلال کی آنکھوں کے حصار سے آزاد ہوچکا تھا۔ بلال کے چہرے پر نادیدہ خوف والی مسکراہٹ تھی ۔
”ایسی دعا مانگتے ہوئے شرم آتی ہے کیونکہ وہ محبت کرنے کا حکم دیتا ہے محبت مانگنے کا نہیں “بلال نفیس اور نپے تلے انداز میں بولا۔
دروازہ کھلا ہوا تھا پھر بھی دستک ہوئی بلال نے کرسی پر بیٹھے ہوئے ہی گردن ماہر یوگی کی طرح گھمائی اور پیچھے دیکھا نوشی کھڑی ہوئی تھی۔ بائیں ہاتھ کو دروازے کے ساتھ لگائے دائیں ہاتھ کو اپنی کمر پر رکھے ہوئے کہیں کمر بل نہ کھاجائے۔
دونوں بہنوں کا فگر قد کاٹھ کمال کا تھا۔ رنگت دودھ کی طرح سفید چلتی تو ایسے جیسے افریقہ کے جنگل میں دو ہرنیاں جارہی ہوں۔ زمین پر کم اور ہوا میں زیادہ سفر کرتیں۔ جنہیں جنگلی بھیڑیے دبوچنا تو چاہیں مگر دل کی آروزو پوری نہ ہوسکے۔
یہ افریقہ نہیں لاہور شہر کا ماڈرن جنگل ہے جہاں جگہ جگہ بھیڑیے اور چیتے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ کب کہیں شکار نظر آئے اور وہ اُس کی عزت اُس کی آبرو کا خون پئیں ان جانوروں کو بھی معلوم ہے۔
حیا کا خون پینے کے بعد جنگل کی طرح ان پر بھی کوئی فرد جرم عائد نہیں ہوگی۔ یہ دو ہرنیاں اب تک محفوظ ہیں۔ اس لیے کہ ان کی رفتار بہت تیز ہے اور دوسری وجہ اس شہر میں چیتے کم ہیں۔
نوشی بھی توشی کی طرح Sameلباس پہنے ہوئے تھی۔ وہی لائٹ بلوجینز اوپر سفید کرتا، بال کھلے ہوئے دونوں بہنیں ہمیشہ ایک جیسا لباس پہنتیں، موبائل ایک جیسے، لیپ ٹاپ، ٹیب لیٹ، گاڑی وہ ایک ہی استعمال کرتیں، ایک بیڈ پر سوتیں کھانا ساتھ کھاتیں دونوں کی شکلیں بہت ملتی تھیں شاید جڑواں ہونے کی وجہ سے، حلیے میں صرف ایک فرق تھا نوشی کے لمبے بال مگر گولڈن کلر کے اس کے برعکس سیاہ کالے بال توشی کے تھے۔
دونوں کی عادتوں میں بھی ایک ہی فرق تھا نوشی سخت طبیعت اور منہ پھٹ تھی جبکہ توشی نرم طبیعت اور دید لحاظ کرنے والی۔ اس فرق کی وجہ ان کے والدین تھے۔
نوشی اپنی ماں ناہید رندھاوا کے قریب تھی اور توشی اپنے باپ جمال رندھاوا کے قریب کی تھی۔
”لو تمہاری محبت آگئی …“توشی نے تیکھے انداز میں بتایا، ہولے سے۔
بلال گردن موڑے دیکھ رہا تھا اسی انداز میں بولا۔
”آجائیں…اندر آجائیں“اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔ نوشی کے لیے وہ چمک جس کی تلاش میں توشی کے دو نین تھک کر ہلکان ہوگئے تھے۔
”آپ دونوں کو سردی نہیں لگتی“بلال نے نوشی کو دیکھ کرکہا، اب بلال کو کوئی بتائے ایک جوانی کی تپش اوپر سے دولت کی گرمی اس عمر میں سردی کم ہی لگتی ہے۔
”دادو پوچھ رہی تھیں آپ کے بارے میں سو میں پتہ کرنے آگئی ۔
“نوشی نے خود ہی صفائی پیش کردی،بلال کرسی سے کھڑا ہوچکا تھا اور نوشی اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھی۔ بلال نے دیوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعتمادسے اپنی مخصوص انداز میں کہا۔
”آپ بیٹھیں…“نوشی دیوان پر اپنی ٹانگ کے اوپر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئی جیسے شہزادی دوسری سلطنت میں جاکر اپنے نازوانداز دکھاتی ہے۔ اور وہ اپنی موٹی موٹی براؤن آنکھوں سے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی وہ کافی سالوں بعد بلال کے روم میں آئی تھی ۔
"Different "So nice" "fantastic"نوشی نے گردن ہلاتے ہوئے چہرہ ارد گرد گھماتے ہوئے انگلش کے تین الفاظ بولے، اس کا ایکسنٹ کمال کا تھا۔
”سارا دن آپ نظر نہیں آئے “نوشی نے آنکھوں کے براؤن ڈیلے گھما کر پوچھا نوشی پچھلے چند دنوں سے بلال کی طرف متوجہ ہوئی تھی اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ پچھلے دس سال سے ہر سنڈے نظر نہیں آتا۔
توشی جوکہ کافی شانت بیٹھی ہوئی مکئی کے دانے کی طرح کھل کھلا کر ہنس پڑی اور دل میں سوچا میری بہن نے جھک ماری ہے اور ایک نظر بلال کی طرف دیکھا کہ یہ جھلا اس سے محبت کرتا ہے۔
جسے اس کی دس سال پرانی روٹین ہی کا پتہ نہیں۔
محبت کرنے والے تو محبوب کی سانسوں کا بھی حساب رکھتے ہیں۔
###
تھوڑی دیر بعد وہ تینوں جہاں آرا کے کمرے میں تھے ۔
بلال نے زیتوں کے تیل والی شیشے کی بوتل پکڑی تو پتہ چلا کہ نوشی نے پہلے ہی دادی کے پیروں اور ٹانگوں کی مالش کردی ہے۔
کل کی طرح آج بھی وہ بلال کے آنے سے پہلے یہ سعادت حاصل کرچکی تھی۔
جہاں آرا بیگم آج بہت خوش تھیں کیونکہ نوشی پچھلے کچھ دنوں سے بلال میں کافی انٹرسٹ لے رہی تھی جوکہ توشی کو عجیب لگ رہا تھا۔ شاید بُرا بھی ساری خاموشی کو توشی کی آواز توڑتی ہے۔
”دادو…دادوجی…یہ محبت کا اظہار کیسے کرتے ہیں “توشی نے سیدھا سوال کیا بلال کی طرف دیکھ کر، سب ہکا بکا رہ گئے توشی کا سوال سن کر…دادی نے اختصار سے جواب دیا۔
”بیٹا…میں…میں کیا جواب دوں…میں تو صرف پرائمری پاس ان پڑھ ہوں تم سب پڑھے لکھے ہو…ہاں بلال ضرور بتاسکتا ہے “
دادی بے شک پرائمری پاس دیہاتی خاتون تھیں مگر زمانہ شناس اور جوہری کی آنکھ رکھتی تھیں انہیں معلوم تھا یہ سوال کیوں ہوا ہے اور جواب کس سے مانگا گیا ہے۔ ”بلال بیٹا بتاؤ محبت کا اظہار کیسے کرتے ہیں “
”محبت خود ہی اظہار ہے۔
خاموش محبت بھی مقرر کو مات دے دیتی ہے۔ محبت ماننے کا نام ہے…کسی کو ماننے…یا کسی کی ماننے …اور ماننے والا منزل پالیتا ہے۔ “
بلال نے کسی دانشور کی طرح جواب دیا، اطمینان اور سکون سے اب باری نوشی کی تھی وہ کھنکتی آواز میں بول اٹھی شرارتی لہجہ میں ۔
”محبت اور عشق میں کیا فرق ہے …“
”کیوں خیریت ہے؟“
بلال نے شرماتے ہوئے پوچھا نوشی کے چہرے پر جان لیوا مسکراہٹ تھی اور براؤن آنکھوں میں کالا کاجل غضب ڈھارہا تھا توشی جوں کی توں مجسمہ بنی دیکھ رہی تھی۔
”بلال بیٹا جواب دو…“جہاں آرا بیگم نے تفاخر سے ایک بوڑھی ملکہ کی طرح حکم صادر فرمایا۔
”محبت میں آسانی ہے اور عشق میں کاوش…
محبت مسلسل عمل کا نام ہے … آج کل عشق وقتی بخار ہے…محبت کم یا زیادہ نہیں ہوتی بس محبت ہوتی ہے… اس دور کا عشق کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے آج آپ کسی کے لیے جان دینے کو تیار ہوئے ہیں۔ دو سال بعد اس کی جان کے دشمن (ماں اپنے بچوں سے محبت کرتی ہے عشق نہیں کرتی ۔
ماں کی محبت 6سال کے چھوٹے بیٹے سے بھی اتنی ہوتی ہے جتنی 66سال کے بڈھے بیٹے سے نہ کم نہ زیادہ“)
”آپ نے کبھی محبت یا عشق کیا ہے …“نوشی نے جھپاک سے پوچھا، جیسے سندیسہ پڑھ کر سنایا ہو۔
توشی نے یہ سن کر دل میں سوچا زبان سے خاموش رہی۔
”میری بہن بھی جھلی ہے …اس نے پھر بونگی ماردی“
”ہاں محبت کی ہے …اصل عشق بڑے لوگوں کا کام ہے …جیسے انبیاء کرام، صحابہ کرام، اولیاء اللہ …میرے جیسے چھوٹے لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے وہ عشق کرنا۔
اصل عشق میں جان ہتھیلی پر رکھنی پڑتی ہے۔ “
بلال نے سیدھا اور صاف جواب دیا، نوشی اور توشی دونوں کی آنکھوں میں چمک تھی اور جہاں آرا کا چہرہ کہکہشاں کی طرح کھل چکا تھا۔
توشی نے ایویں موضوع تبدیل کردیا۔ ”تم نے کافی دنوں سے کوئی شعر نہیں سنایا ، کیوں دادو…“
بلال توشی کے چہرے پر لکھی ہوئی ساری تحریریں پڑھ چکا تھا اور شعر کی فرمائش بھی خوب سمجھتا تھا۔
پھر بھی اس نے گلزار صاحب کے چند اشعار سنادیے۔
ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے
وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے
لگ کے ساحل سے جو بہتا ہے اسے بہنے دو
ایسے دریا کا کبھی رخ نہیں موڑا کرتے
شہد جینے کا ملا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا
جانے والوں کے لیے دل نہیں تھوڑا کرتے
یہ صرف اشعار نہیں تھے۔ توشی کو پیغام تھا۔ زندگی کا سبق تھا۔
###
دونوں بہنیں اپنے کمرے میں ڈبل بیڈ پر لیٹی ہوئی تھیں۔ کمرے میں روشنی قدرے کم تھی۔
ان کے اوپر سپین کا بنا ہوا پنک کلر کا پھلواڑی دار ڈبل پلائی کمبل، ماں کے سینے کی طرح حرارت پہنچارہا تھا مگر ان دونوں کی آنکھوں میں ضدی بچوں کی طرح نیند کے آثار دور دور تک نہیں تھے۔
دونوں بہنوں کے چہرے کمرے کی رنگین سیلنگ کو دیکھ رہے تھے۔ نظریں تو سیلنگ پر تھیں مگر دماغ عربی گھوڑوں کی طرح سوچ کر زمینوں پر صحرا کی ریت اُڑارہے تھے۔
ان کی سوچ کے عربی گھوڑے منزل کی تلاش میں اِدھر سے اُدھر بھاگ رہے تھے۔اچانک… یکایک…یک لخت موبائل چیخ مارتا ہے …ایک اسٹوپڈ بھولا بھٹکا میسج موبائل کی نیند خراب کردیتا ہے۔ سوچ کے عربی گھوڑے عرب کے صحراؤں سے ایک لمحے میں ڈیفنس کے دو کنال کے گھر کے بیڈروم میں واپس…
”بلال کس سے محبت کرتا ہے “نوشی نے سوال کیا۔
خود سے بغیر کسی کو دیکھے ہوئے ۔
”مجھ سے تو نہیں کرتا“توشی بول اٹھی فی الفور
”پھر کون ہے …وہ…“نوشی اُسی انداز میں پھر مخاطب ہوئی ۔
”ڈفر تم ہو…تم ہو…صرف تم ہو“توشی نے حتمی فیصلہ سنایا۔
اب وہ بیڈ پر بیٹھ چکی تھی اور اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا لیمپ onکردیا تھا۔
”میں…میں…میں کیسے…میں کیسے ہوسکتی ہوں“نوشی حیرت میں مبتلا تھی
”مگر وہ میرے ٹائپ کا نہیں ہے دو دن اُس سے ہنس کر بات کیا کرلی اس نے سوچا بھی کیسے …میرے بارے میں “
”بلال کی سوچ تم سے شروع ہوکر تم پر ہی ختم ہوجاتی ہے “
”اور نسیم جمال مت بھولو تم اُس کی منگیتر ہو بچپن سے “
توشی نے ترش لہجے میں دوٹوک یاد دہانی کروادی اپنی بہن کو۔
”مگر میں اس سے شادی نہیں کرسکتی ایک معمولی اسکول ٹیچر…میری کلاس اور ہے میں کوئی بیوروکریٹ ،کوئی بزنس مین دیکھوں گی بلال سے شادی No, Neverکبھی نہیں …“
”پاپا نے تمہارا رشتہ طے کیا تھا …اور تم پھوپھو کی پسند ہو …“توشی نے نہ بھولنے والی بات دوبارہ پہاڑے کی طرح یاد کرادی۔
”مگر مجھے ہی کیوں پسند کیا تھا …پھوپھو نے…تمہیں کیوں نہیں “نوشی نے غصے سے جواب دیا۔
دونوں بہنوں کی چپقلش شروع ہوچکی تھی توشی طنزیہ لہجے میں پھر بولی۔
”میں بھی یہی کہتی ہوں …پھوپھو نے مجھے کیوں پسند نہیں کیا …تمہیں کیوں“اس نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا۔
”کاش …کاش پھوپھو مجھے پسند کرتیں …کاش“
”Are you mad?“نوشی نے شانے اُچکاتے ہوئے کہا۔
”مجھے پاگل تم لگ رہی ہو “توشی نے افسردگی سے جواب دیا۔
”کس چیز کا تمہیں غرور ہے میری سمجھ سے باہر ہے “توشی دوبارہ بول اٹھی۔
”کہاں میں اور کہاں وہ، میری اور اس کی کلاس میں بہت فرق ہے۔“نوشی نے ابرو چڑھا کر جواب دیا۔
”کس کلاس کی تم بات کر رہی ہو، سارے ڈیفنس کی لڑکیاں مرتی ہیں، اُس پر، میں بھی ان میں شامل ہوں…وہ تم سے زیادہ خوبصورت، تم سے زیادہ پڑھا لکھا، اور تمہارے لیے حیرت کی بات ہوگی ہم سب سے زیادہ اس کا بینک بیلنس ہے …اگر یقین نہ آئے تو ماما سے پوچھ لینا …کلاس …کلاس کی بات کرتی ہو“
نوشی بت بنی توشی کا چہرہ دیکھ رہی تھی جوکہ غصے سے اُٹھ کر باہر ٹیرس پر جاچکی تھی۔
نوشی بت بنی وہیں بیٹھی ہوئی تھی۔ توشی کو باہر سرد ہواؤں کا سامنا تھا۔ نومبر کی سرد رات اپنے جوبن پر تھی۔
توشی کی نگاہیں اپنے ٹیرس سے سفر کرتیں بلال کے کمرے پر مرکوز تھیں …جس کی لائٹ آف تھی اور اس کے دل میں شکوہ تھا، اے کاتب تقدیر اسے میرے نصیب میں کیوں نہیں لکھا …
###
اگلے دن یعنی پیر والے دن بلال اپنے آفس میں داخل ہوتا ہے فوزیہ جیسے اُسی کے انتظار میں بیٹھی ہو۔
اُس دن سردی بہت زیادہ تھی آفس میں داخل ہوتے ہی فوزیہ سلام کرتی ہے بلال اسے دیکھے بغیر جواب دیتا ہے اور اپنی سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے۔
فوزیہ بلال کے آفس میں کام کرنے والی غریب گھرانے کی لڑکی جس کا باپ اور چچا ایک بم بلاسٹ میں تقریباً 14سال پہلے جاں بحق ہوگئے تھے ۔اس کا چچا اس کا خالو بھی تھا دونوں بہنیں ایک ساتھ بیاہی تھیں اور ایک ساتھ بیوہ ہوئیں۔
فوزیہ اس وقت کوئی چھ سال کی ہوگئی اور لیاقت 7سال کا ہوگا۔ لیاقت علی اس کا منگیتر جو شارجہ میں کرکٹ سٹیڈیم روڈ پر G&Pکے پاس Micro Super Market میں قصائی کا کام کرتا ہے …
فوزیہ کا دادا جوہر ٹاؤن کے علاقے میں نواں پنڈ گاؤں کا رہنے والا تھا اب یہ گاؤں جوہر ٹاؤن کے Hبلاک کے ساتھ واقع ہے۔ ڈیفنس کی طرح جوہر ٹاؤن بھی مختلف گاؤں کے زرعی رقبوں پر قائم ہوا تھا۔
پھر وہی ستم ظریفی 3200ایکڑ زرعی رقبہ رہائشی منصوبہ میں تبدیل ہوگیا، جوہر ٹاؤن چھوٹے بڑے کئی دیہاتوں کے رقبے پر قائم ہوا جن میں چار بہت اہم ہیں بیٹر، سمسانی، شادی وال اور نواں پنڈ فوزیہ نواں پنڈ کی دوشیزہ تھی۔
ڈیفنس کی طرح جوہر ٹاؤن میں بھی آپ کو ماڈرن زندگی اور دیہاتی زندگی کے رنگ دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ شوکت خانم کینسر ہاسپٹل ۔
لاہور کا Expo Center جوہر ٹاؤن میں ہی واقع ہیں۔ جہاں کبھی میٹھے پانی کے کنوئیں ہوتے تھے اب ان کی جگہ سیوریج کے گٹروں نے لے لی ہے ،کچے راستوں کی جگہ پکی سڑکیں بن گئی ہیں۔ جس جگہ کئی ہیریں اپنے رانجھوں کے لیے سر پر لسی کی چاٹی رکھے ہوئے ہاتھ میں روٹی کی چنگیرپکڑے کچی پکی راہوں پگ ڈنڈیوں پر ناگن کی طرح بل کھاتی لہراتی ہوئیں اپنے رانجھوں کو شاہ و یلا پہنچاتی تھیں۔
وقت کے خزانوں میں وہ لمحے محفوظ ہیں مگر ہم دیکھ نہیں سکتے جگہ وہی مقام وہی مگر لوگ نئے اب بھی وہی کچھ ہے مگر انداز مختلف، طریقہ الگ، مٹیار کی جگہ اب ماڈل آگئی ہے کچی پگڈنڈی کی جگہ ریمپ، پہلے مٹیار کی ٹور پر گھبرو مرتے تھے اور اب ماڈل کی کیٹ واک پر جوان جان دیتے ہیں میسی روٹی کی جگہ پیزا نے لے لی ہے لسی کی جگہ سافٹ ڈرنک، دودھ کی جگہ شراب، محبت کی جگہ مطلب۔
سادگی کی جگہ فیشن۔ اسی علاقے میں بلال کا اسکول ہے ایکسپو سنٹر کے گیٹ نمبر 2سے نہر کی طرح جائیں تو جوہر ٹاؤن کے Hبلاک میں آپ کو بلال کا اسکول ملے گا پین روڈ پر ۔
”سرگرین ٹی منگواؤں آپ کے لیے “فوزیہ نے پوچھا۔
”نہیں …“
”سرچائے یا کافی …“
”نہیں چاہیے …کچھ نہیں چاہیے“نرم شگفتہ لہجے میں جواب دیا اور اپنے کام میں مصروف رہا، فوزیہ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ فوزیہ بلال کے ٹیبل کے سامنے کھڑی ہوگئی۔
”سر آج سردی بہت ہے “فوزیہ معصوم بچے کی طرح بولی۔
”اتنی زیادہ بھی نہیں “بلال نے نظریں اُٹھا کر فوزیہ کی طرف دیکھا تو ہنس دیا۔ فوزیہ Pink کلر کا گرم سوٹ پہنے ہوئے کھڑی تھی۔ بالوں کو بغیر مانگ نکالے پیچھے کلپ لگایا ہوا تھا۔ ہمیشہ کی طرح ہلکا سا میک اپ کیا ہوا تھا۔
جس چیز کا اضافہ تھا وہ مرجنڈا کلر کی ایک خوبصورت جیکٹ پہنے ہوئے تھی فوزیہ ایک سادہ لڑکی تھی جسے کپڑے پہننے کا شوق تو تھا مگر ڈریسنگ کی سوجھ بوجھ زیادہ نہیں تھی ۔
جب دو سال پہلے وہ بلال کے آفس میں آئی تو گائے تھی۔ بلال نے اسے بہت کچھ سکھایا۔ اٹھنا، بیٹھنا، بات کرنا، کپڑے پہننے کا ڈھنگ۔ اب فوزیہ دو سال پہلے والی فوزیہ نہیں تھی۔ وہ پراعتماد، خوش شکل، خوش اخلاق، باحیا اور ذہین لڑکی تھی مگر اُس کا بچپنا باقی تھا جوکہ بلال کو پسند بھی تھا۔
بلال اکثر اُس کی بے تکی باتیں سنتا رہتا مگر کچھ کہتا نہیں۔
آج بھی بلال اس کے بچپنے کی وجہ سے ہنس دیا دراصل اس نے نئی جیکٹ پہنی تھی اور وہ بلال کو دکھانا چاہتی تھی۔
”سر لیاقت علی نے شارجہ سے بھیجی ہے جس سپر مارکیٹ میں وہ کام کرتا ہے وہاں سے خرید کر “
”اچھا …“لمبا سا اچھا کہا بلال نے فوزیہ کو معلوم تھا بلال جب اس کی ٹانگ کھینچتا ہے تو لمبا سا اچھا کہتا۔
”سر قسم سے یہ لیاقت علی نے بھیجی ہے “فوزیہ معصومیت سے بولی۔
”اچھا جی …اچھا جی …نائمن …نائمن“بلال نے مسکرا کر جواب دیا۔
فوزیہ نائمن نائمن سمجھ نہیں پائی اور فٹ سے بول پڑی۔
”سر قسم سے …یہ لنڈے سے نہیں خریدی “فوزیہ نے فوراً اپنی صفائی دی قسم سے فوزیہ کا تکیہ کلام تھا۔
”سر کیا لنڈے کے کپڑے پہننا اتنا بڑا گناہ ہے“فوزیہ زخمی آواز کے ساتھ بولی۔
”فوزیہ جی حلال کی کمائی سے خریدے ہوئے لنڈے کے کپڑے بہتر ہیں، حرام کے پیسوں سے خریدے ہوئے لندن کے کپڑوں سے …
شارجہ میں جب کوئی بہت خوبصورت لگتا ہے تو اسے نائمن کہتے ہیں۔
“ فوزیہ کا چہرہ مکئی کے دانے کی طرح کھل گیا جو کہ ہلکی سی حرارت پر کھل جاتا ہے یہ حرارت تعریف کی تھی جس نے فوزیہ کا چہرہ کھلادیا تھا۔
”سر کیا آپ نے بھی کبھی لنڈے کے کپڑے پہنے ہیں؟ “
”جی …فوزیہ جی …جب میں کالج میں پڑھتا تھا تو لنڈے سے خریدے ہوئے کوٹ پہنتا تھا “بلال نے تفاخر سے جواب دیا۔ فوزیہ نے پھر سے پوچھا، جاسوسی کے اندا زمیں۔
”سر یہ والا کوٹ بھی لنڈے کا ہے “فوزیہ نے شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کا (L)بناکر بلال نے جو کوٹ پہنا تھا اس کی طرف اشارہ کردیا۔
”نہیں …نہیں …فوزیہ جی …یہ تو میں نے مدینہ منورہ سے خریدا تھا “جب میں اور نانو حج پر گئے تھے ۔
جب بلال نے مدینہ منورہ کا نام لیا تو اس کی زبان عقیدت میں ڈوبی ہوئی تھی۔
”فوزیہ جی …کچھ کام بھی کرلیں …آپ مجھے 9th, 10thکی مڈٹرم رزلٹ کارڈ شیٹ دیں“
”جی سر ابھی لائی …سر پرنٹ نکال دوں …یا فائل دے دوں“
”فائنل دو …“
فوزیہ نے فائل بلال کے سامنے رکھتے ہوئے پھر لب کشائی کی ۔
”سر ہفتے والے دن آپ کو رامے اسٹیٹ پر دیکھا تھا ۔ “
”ہاں میں رینٹ دینے گیا تھا“بلال فائل دیکھتے ہوئے بولا۔
”سر مجھے سمجھ نہیں آتا کہ آپ کی طارق رامے جیسے بندے سے اور اعجاز ٹھیکیدار سے کیسے دوستی ہے “
”فوزیہ جی دوستی تو نہیں ہے ہاں اچھی ہائے ہیلو ضرور ہے …آپ ایسے کرو بیٹھ جاؤ آج ہم صرف باتیں کریں گے “بلال نے بات لگائی۔
”جی سر ٹھیک ہے “فوزیہ خوشی سے بیٹھ گئی ۔ بلال کا طنز اُسے سمجھ نہیں آیا۔
”سر اعجاز ٹھیکیدار تو کچھ ٹھیک ہے مگر طارق رامے ایک نمبر کا فراڈیا ہے“
”فوزیہ جی …آپ سے کیا فراڈ کیا اُس نے “فوزیہ سوچتے ہوئے بولی۔
”کچھ نہیں …سر ہمارا کرایہ دار تھا کئی سال پہلے دینہ جہلم کا رہنے والا ہے کرایہ بھی وقت پر دے دیتا تھا، سر ایک دفعہ امی کی رکشے سے ٹکر ہوگئی تو امی کو ہسپتال بھی لے کر گیا ۔
سر ڈاکٹر نے کہا خون چاہیے تو ایک بوتل خون بھی دیا اپنا…“
”فوزیہ جی …فراڈیے خون نکالتے ہیں خون دیتے نہیں“بلال نے جواب دیا۔
”فوزیہ جی دیکھو مکمل انسان تو کوئی بھی نہیں ہوتا کچھ خامیاں تو سب میں ہوتی ہیں “
”سر وہ تو میری سہیلی کی بڑی بہن لبنیٰ ہے وہ اسے فراڈیا کہتی ہے اس لیے میں بھی …کہہ لیتی ہوں “
”فوزیہ جی …جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے ہر سنی سنائی بات پر یقین کرلیں، اب ہم کچھ کام کرلیں تو اچھا ہے آپ 9th, 10thکی کلاس انچارج کو بلائیں …“بلا ل نے نہایت سنجیدگی سے فوزیہ کو دیکھ کر جواب دیا۔
فوزیہ سمجھ گئی بلال مزید گوسپز سننے کے موڈ میں نہیں ہے ۔
###
بلال اُس دن عصر کے بعد بابا جمعہ کے پاس گیا، تو محمد طفیل موجود تھا پہلے سے جوکہ ظہر کے بعد ہی سے بلال کا انتظار کر رہا تھا۔
بلال نے بابا جمعہ اور طفیل صاحب کو سلام کیا اور بیٹھ گیا۔ جسٹ اقراء ہائی اسکول کا انویلپ کھولا تو اس میں اشٹام پیپر پر ایک تحریر تھی جو کہ بابا جمعہ کی طرف بڑھادی ۔
بابا جمعہ نے بغیر پڑھے ہوئے محمد طفیل کی طرف کردی اور سنجیدگی سے بولے۔
”محمد طفیل اس کو پڑھ لو اور دستخط کردو اور انگوٹھا لگادو“
محمد طفیل نے پڑھنا شروع کیا تحریر کا مضمون انتہائی مختصر تھا۔
”میں بلال احمد بیس لاکھ روپیہ محمد طفیل کو قرض دے رہا ہوں بغیر کسی شرط اور فائدے کے جس کے گواہ ہیں
جمعہ خاں میواتی اور محمد اقبال میو۔
“
”محمد طفیل قرآن میں اللہ کا حکم ہے جب لین دین کرو تو لکھ لو اور گواہ بھی رکھو یہ میرا مشورہ تھا “بابا جمعہ محمد طفیل کی طرف دیکھ کر بولے محمد اقبال ایک کپ چائے لے کر آگیا تھا ،اقبال نے چائے کا کپ محمد طفیل کی طرف بڑھادیا۔ بلال نے پین اور تھم پیڈ محمد طفیل کے آگے رکھ دیا محمد طفیل نے بغیر کسی حیل و حجت کے دستخط کردیے اور انگوٹھا لگادیا اور چائے پینے میں مصروف ہوگیا ۔
اس کی نظروں میں عقیدت کی روشنی تھی جسے کسی مسیحا نے اُس کے زخموں پر مرہم رکھ دیا ہو ۔
بلال نظریں جھکائے بابا جمعہ کو دیکھ رہا تھا جوکہ گواہ کی جگہ پر سائن کر رہے تھے اور انگوٹھا لگا رہے تھے، اب دوسرے گواہ کی باری تھی، محمد اقبال میو کے نیچے اقبال نے اپنا نام لکھا اور اپنا انگوٹھا لگایا اور کاغذ بلال کے حوالے کردیا۔
بلال نے اپنے بلیک کوٹ کی اندرونی پاکٹ میں ہاتھ ڈالا اور بیس لاکھ کا چیک بابا جمعہ کے حوالے کردیا، بابا جمعہ نے چیک پر بیس لاکھ کی رقم کو غور سے دیکھا اور محمد طفیل کے ہاتھ میں تھمادیا۔
”دیکھو محمد طفیل اس بچے کی حق حلال کی کمائی ہے جس طرح لے رہے ہو اسی طرح خوشی سے واپس بھی کردینا“
”جی جی …جی بابا جی …ضرور انشاء اللہ “محمد طفیل بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر الفاظ نہیں تھے، اس نے ایک بار پھر بلال کے رخسار کی زیارت کی جس پر ہلکا سا تبسم تھا۔ اس نے آنکھوں سے شکریہ ادا کیا۔ بلال نے آنکھوں کی پتلیاں بند کرکے اس کے شکریہ کا جواب دیا۔
محمد طفیل کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیسے وہ بابا جمعہ اور بلال کا شکریہ ادا کرے وہ اٹھا اور بولا …
”میں مٹھائی لے کر آتا ہوں “
”نہیں محمد طفیل مٹھائی مت لاؤ“
”وہ کیوں جی “محمد طفیل نے پوچھا۔
”بلال تو کھاتا نہیں اور میں کتنی کھالوں گا، ہاں بچوں کے لیے ضرور لے جانا “
”نہیں نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے “کہتے ہوئے چلا گیا۔
مغرب کی اذان کا وقت ہونے والا تھا جب محمد طفیل مٹھائی کا ڈبہ ہاتھ میں لیے کھڑا تھا ساتھ ہی Kبلاک کے کمرشل ایریا میں ایک مشہور مٹھائی کی دکان تھی اس نے دیکھا کہ بابا جمعہ ، محمد اقبال اور بلال دائرہ بنائے بیٹھے دعا کر رہے تھے۔ اُسی لمحے نورانی مسجد سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوا مغرب کی اذان ہورہی تھی ان تینوں نے ہاتھ منہ پر پھیرے اور کھجوروں سے روزہ افطار کیااور بابا جمعہ کی نظر محمد طفیل پر پڑی۔
”آؤ محمد طفیل روزہ کھولو …بابا جمعہ نے دعوت دی “
”جی وہ مگر …کچھ دیر سوچا، جی ضرور …جی ضرور“
ان سب نے آرام سکون سے روزہ کھولا نورانی مسجد میں جماعت ہوچکی تھی۔ بابا جمعہ نے دوبارہ جماعت کرائی اور ان تینوں نے بابا جمعہ کے پیچھے نماز ادا کی۔
###