
شکیل احمد چوہان - بلال صاحب
ناشتے کی میز پر اعجاز جنجوعہ اپنے مخصوص انداز میں بیٹھے ہوئے اخبار میں گم تھے ۔ وہ اپنی عادت کے مطابق بائیں ہاتھ سے اپنی انگوٹھے کی پڑوسن انگلی سے اپنی مونچھوں کی مالش کر رہے تھے اوپر سے نیچے پھر اوپر سے نیچے۔ جب فرح کی آواز پر ان کے ہاتھ رک جاتے ہیں وہ سخت لہجے میں تیور دکھاتے ہوئے بولی۔
”وہ فراق اور شال کس کے لیے ہے“
”بیگم آپ کے لیے فراق اور شال خالہ کے لیے “رات بتایا تو تھا۔
”جنجوعہ صاحب آپ کی گاڑی میں جو ہیں میں ان کی بات کر رہی ہوں“
”فرح بیگم وہ بلال نے منگوائی تھیں میں بھول گیا آپ بچوں کو چھوڑنے گئی تھیں ساتھ لے جاتیں خیر چھٹی کے وقت پہنچادیجیے گا“
اعجاز جنجوعہ اخبار پرنظریں جمائے سب کچھ بول رہے تھے۔ اطمینان کے ساتھ، فرح ڈائنگ ٹیبل کی دوسری طرف کرسی پر بیٹھ جاتی ہے ۔
”جنجوعہ صاحب ادھر میری طرف دیکھیں “
”جی فری جی ۔
فرمائیں “اعجاز جنجوعہ نے چشمے کے اوپر سے دیکھا۔
”جنجوعہ صاحب آپ سچ کہہ رہے ہیں“فکر مندی سے بولی۔
”آپ سے جھوٹ کب بولا ہے آپ خود بلال کو دیجیے گا“جنجوعہ صاحب نے جواب دیا۔
”کچھ کھلائیں گی بھی یا خالی باتوں سے ہی …“
”ماسی رشیداں…جنجوعہ صاحب کا ناشتہ لے آؤ“
”جب سے آپ طارق رامے کے ساتھ ہیں مجھے کچھ کھٹکا سا لگا رہتا ہے “
”وہ کس لیے “اعجاز جنجوعہ بولے۔
”فوزیہ بتارہی تھی بڑی لڑکیوں سے چکر ہیں طارق رامے کے “
”فوزیہ کون؟“اعجاز جنجوعہ نے پوچھا۔
”بلال کے آفس میں کام کرتی ہے اور ایک چکر تو اس کی سہیلی کی بڑی بہن کے ساتھ تھا۔ اس کمینے نے وعدہ کیا تھا لبنیٰ سے شادی کا“
”اب یہ لبنیٰ کون ہے“جنجوعہ صاحب بیزاری سے بولے۔
”لبنیٰ جس سے چکر تھا طارق رامے کا “فرح نے تفصیل بتائی۔
”میں ناشتہ کروں یا جاؤں صبح صبح فضول باتیں…میں مکان بناتا ہوں، وہ بیچ دیتا ہے، پلاٹ چاہیے وہ ڈیل کروادیتا ہے اس کا کمیشن پورا دیتاہوں، فارغ اوقات میں اس کے آفس بیٹھتا ہوں۔ ہفتہ کی رات کھانا اکٹھے کھالیتے ہیں اور بس “
”آپ پتہ نہیں کیا کیا سوچتی رہتی ہیں “اعجاز جنجوعہ خفگی سے بولے۔
ماسی رشیداں نے ناشتہ ڈائننگ ٹیبل پر رکھا”بیگم صاحبہ ناشتہ“
”ماسی رشیداں تم جاؤ اور ڈرائنگ روم صاف کردو“فرح گردن موڑ کر ماسی رشیداں کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔
”جنجوعہ صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں، ماسی رشیداں کے سامنے ہی شروع ہوگئے“خفگی سے بولی۔
”فرح بات تم نے شروع کی تھی، ماسی کے سامنے، دیکھو فرح اگر کچھ طارق رامے میں خامیاں یا برائیاں ہیں بھی تو مجھے اس سے کیا، اس کا پرسنل میٹر ہے، میرے ساتھ اس کے معاملات بالکل ٹھیک ہیں، مجھے کبھی بھی اُس نے برائی کی دعوت نہیں دی، سگریٹ، شراب یا عورت اور سچی بات میں نے تو اتنے سالوں میں ایسا کچھ بھی نہیں دیکھا، ہاں سنا بہت کچھ ہے اس کے بارے میں “
فرح اپنے شوہر اعجاز جنجوعہ کو اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ سچ کہہ رہا تھا اور اس کے موڈ سے بھی واقف تھی اگر جنجوعہ صاحب چھڑ گئے تو شانت ہونا مشکل ہے، اس نے دل ہی دل میں سوچا۔
”سوری بابا سوری…میں غلط تھی…وعدہ آئندہ آپ پر شک نہیں کروں گی“فرح نے اعجاز کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے مسکرا کر کہا ،اس کے گورے گالوں میں ڈمپل پڑے ہوئے تھے ۔
”آپ پلیز ناشتہ کریں “بریڈ کا سلائس توڑ کر جنجوعہ صاحب کے منہ میں ڈالا دوسرا نوالہ اپنے منہ میں ڈالا۔
”بلال کس کو دے گا شال اور فراق“فرح نے پوچھا ناشتہ کرتے ہوئے ۔
”شال تو اپنی نانی کو دے گا فراق پتہ نہیں “اعجاز جنجوعہ کا موڈ ٹھیک ہوچکا تھا اور وہ چائے پینے میں مصروف تھے،
”جنجوعہ صاحب…ایک بات کروں…اگر آپ غصہ نہ کریں تو…“
”جی ضرور…“جنجوعہ صاحب مسکرا کر بولے۔
”ماہ رخ…باجی نسرین کی بڑی بیٹی…اگر اس کا رشتہ بلال سے ہوجائے تو “
”فرح بیگم آپ بھی کمال کرتی ہیں“ جنجوعہ صاحب مسکرا کر بولے۔
”کیوں کیا برائی ہے، ماہ رخ نے بی ایڈ کیا ہوا ہے، گوری چٹی، اونچی لمبی، جوان ہے، باجی نسرین جب بھی واہ کینٹ سے فون کرتی ہیں تو کہتی ہیں لاہور میں کوئی رشتہ دیکھو، بھلا بلال سے اچھا رشتہ کوئی ہوسکتا ہے “
”فرح بیگم ٹھیک کہہ رہی ہیں آ پ مگر بلال مانے تو …“
جنجوعہ صاحب نے دل میں سوچا آفرین…آفرین…آفرین۔
###
مسز نقوی بلال کے آفس میں داخل ہوتی ہیں۔
” Where is Bilal“مسز نقوی نے اندر آتے ہوئے پوچھا۔
بلال اپنی کرسی پر بیٹھا کام میں مصروف تھا۔ مسز نقوی کو دیکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا ان کے ساتھ ایک خوبصورت جوان لڑکی بھی تھی۔
”Meet herیہ میری چھوٹی بہن ہے ڈاکٹر منال نقوی، شیخ زید Hospitalمیں ہاؤس جاب کر رہی ہے اور یہ Mr Bilal ہیں “مسز نقوی نے تعارف کروایا۔
”آپ…تشریف رکھیں۔
“بلال شائستگی سے بولا۔
وہ صوفے پر بیٹھ گئے فوزیہ غور سے ان سب کو دیکھ رہی تھی۔
”کچھ لیں گی …آپ…“بلال نے پوچھا۔
مسز نقوی نے اپنے گلاسز ماتھے کے اوپر بالوں پر لگائے ہوئے تھے بال پہلے ہی شولڈر کٹ تھے بائیں بازو میں اپنا بیگ لٹکایا ہوا تھا۔ ڈاکٹر منال نقوی نے غور سے بلال کو دیکھا، جو ڈارک گرے ٹو پیس میں ملبوس تھا، وائٹ شرٹ کے ساتھ سمپل مگر ہینڈسم، کلر سفید، ہائیٹ ok کرلی ہیئر، منال نے دل ہی دل میں سوچا، Dress تو اچھا پہنا ہے ، اب دیکھنا ہے Addressکیسے کرتا ہے ۔
Toneبھی ٹھیک ہے۔ Educationٹھیک ہے، School Principal ٹھیک ہے، Idealنہیں نہیں Just ok
ڈاکٹر منال نقوی نے اپنی بڑی بہن کو آنکھوں سے اشارہ کیا ok اس دوران مسز نقوی بلال کے ساتھ گلابی انگلش میں باتیں کرنے میں مصروف تھیں بے تکی بے مقصد باتیں جنہیں آج کل گو سپ کا نام دیا جاتا ہے۔ مسز نقوی نے کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھا۔
”Please allow me to go“بول پڑیں۔
اب ڈاکٹر منال نقوی کی باری تھی۔
”بلال آپ سے مل کر اچھا لگا “ڈاکٹر منال نے آنکھوں کے تیر چلاتے ہوئے کہا تھا۔
”مگر آپ نے کچھ چائے، کافی، کولڈ ڈرنک تو“بلال کا جملہ پورے ہونے سے پہلے ہی منال بول پڑی۔
”آپFacebook ، Skype وغیرہ یوز کرتے ہیں؟ “
”نہیں…“بلال نے جواب دیا۔
ڈاکٹر حیرت سے بول پڑی۔
”نہیں…“اس کے نہیں میں حیرت، سوال، کیوں، مگر اگر سب کچھ تھا۔
”موبائل نمبر لے لو“مسز نقوی نے مشورہ دیا۔
فوزیہ نے جھٹ پھٹ وزیٹنگ کارڈ ڈاکٹر منال کو پکڑادیا، اُس نے دیکھے بغیر اپنے پرس میں رکھ لیا۔ گاڑی میں بیٹھ کر دونوں بہنیں جوہر ٹاؤن کنال روڈ پر شیخ زید ہسپتال کی طرف جارہی تھیں۔ جب دو نمبر انڈر پاس کے قریب سے گزرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی سے پہلے ڈاکٹر منال نے کارڈ دیکھا تو اس میں آفس کے سارے نمبر تھے سوائے موبائل نمبر کے اس کے چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ تھی اور دل میں ایک سچا کھرا خیال آیا۔
”ڈاکٹر منال نقوی کوئی تو ہے جس نے تمہیں گھاس نہیں ڈالی“
”کیسا تھا “مسز نقوی کی آواز سن کر خیال جلدی سے بھاگ گیا اور ڈاکٹرمنال ڈر گئی ”اوہ میں ، آپی کہیں کھوگئی تھی“ اس نے صفائی دی۔
”Ideal ۔ واقعی مختلف، اچھا لگا، جس کو ملے گا ۔ وہ…“ڈاکٹر منال کے ہونٹوں کے درمیان وہ کافی دیر سفر کرتا رہا۔
”منال تم نے مجھے بتایا نہیں “مسز نقی دوباری بول پڑیں، گاڑی اب شیخ زید ہسپتال کی پارکنگ میں تھی۔
Ideal پرسنالٹی کا مالک، بہت اچھا، مگر وہ مجھ میں انٹرسٹڈ نہیں تھا، میں دوبارہ ملنا چاہوں گی مگر اس حوالے سے نہیں، آپ کی پسند واقعی لاجواب تھی اپنے لیے بھی اور میرے لیے بھی۔
”احسن بھائی کو Thanksکہہ دیجیے گا میری طرف سے “
ڈاکٹر منال نے اپنا وائیٹ کوٹ پکڑا اور گاڑی سے اُتر گئی، مناہل نقوی اُس کی بڑی بہن اسے دور تک جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
اب اس کے ہونٹوں میں Thanksپھنس گیا تھا۔
”مگر کیوں…“مناہل احسن نقوی سوچ رہی تھیں۔
”سر آپ واقعی Facebook وغیرہ استعمال نہیں کرتے، سر میں تو جب تک لیاقت علی سے شارجہ، Skype پر دو گھنٹے بات نہ کرلوں مجھے تو نیند ہی نہیں آتی اور میرا WhatsApp تو پورا دن On رہتا ہے اور Facebook کے بغیر تو زندگی ہی نامکمل ہے “
”فوزیہ جی Viberکا کیا قصور ہے “بلال نے یاد دہانی کرائی۔
”سر آپ مذاق تو نہ کریں “خفگی سے بولی۔
”سر اگر آ پ اسے Facebook کی Id بتادیتے تو کیا جاتا آپ کا …سر یہ تو آپ نے جھوٹ بولا ہے “جیسے پہلی دفعہ بلال کی چوری پکڑی ہو، چٹکی بجا کر بولی۔
”میں نے جھوٹ نہیں بولا میں Facebookاستعمال کرتا ہوں مگر اپنے نام سے نہیں Justاقرا کے نام سے Idہے اس میں میرے کوئی فرینڈز وغیرہ نہیں ہیں بس کچھ Pages لائیک کیے ہوئے ہیں ان کی اپ ڈیٹ وغیرہ پڑھ لیتا ہوں اور بس …“
”سر یہ تو وہی بات ہوگئی مرا نہیں ہے بس روح نکل گئی ہے “
”فوزیہ جی…آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں یہ ایک طرح سے جھوٹ ہی تھا مجھے اسے سچ بتانا چاہیے تھا، اللہ معاف کرے “بلال نے اپنی غلطی مان لی۔
”ویسے سر یہ اس سال آپ کا 13واں رشتہ آیا ہے جنوری سے نومبر تک ابھی ایک مہینہ باقی ہے “فوزیہ نے شرارتی انداز میں بلال کی طرف دیکھ کر کہا۔
بلال نے کچھ سوچتے ہوئے سر ہلایا اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔
”سر قسم سے …ڈاکٹر منال خوبصورت اور اچھی لڑکی ہے مناہل نقوی تو نمونی ہے بھئی انگلش نہیں آتی تو نہ بولو کیا فرق پڑتا ہے ویسے آپ کو کیسی لگی ؟“
”شٹ اپ زیادہ فری مت ہوا کرو“بلال نے مصنوعی غصے سے کہا۔
مہینے میں ایک دو بار بلال فوزیہ سے سارا وقت اُس کی بک بک سنتا رہتا اور اِدھر اُدھر کی فضول باتیں کرتا رہتا۔
آج بھی کچھ ایسا ہی دن تھا، ویسے تو بلال کو اپنے کام سے محبت تھی مگر محبت کبھی سو بھی جاتی ہے۔
”سر کافی کا بول دوں اور ساتھ بسکٹ بھی…“
”ہاں بول دو…“بلال نے آفس چیئر کے ساتھ ٹیک لگائی اور اوپر دیکھنے لگا ۔
”سر…یہ مسز نقوی کے ساتھ کیا مسئلہ ہے “فوزیہ نے سوال پوچھا۔
”کیا…کیا کہا تم نے “بلال نے فوزیہ کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
”سر…میں نے پوچھا تھا ، مسز نقوی کا کیا مسئلہ ہے “
”کیوں کیا ہوا …فوزیہ جی “بلال نے تفصیل مانگی۔
”سر وہ عجیب سی حرکتیں کرتی ہیں، سوچ سوچ کر بولتی ہیں، اتنے خوبصورت ان کے بال تھے وہ کٹوادیے“
”فوزیہ جی…آپ نے ڈاکٹر احسن نقوی کو دیکھا ہے ، انتہائی پڑھے لکھے اور نفیس انسان ہیں ان کے چچا کے بیٹے ہیں دونوں کی یہ لو میرج ہے ڈاکٹر صاحب پڑھتے گئے یہ گھر میں مصروف ہوگئیں، ڈاکٹر صاحب کے بہن بھائی بھی پڑھے لکھے ہیں، مسز نقوی کی دونوں بہنیں بھی ڈاکٹر ہیں، ایک یہ جو آئی تھی اور ایک اس سے بڑی اس کی شادی ہوگئی اب وہ کینیڈا میں ہے ۔
اُن کو بھی مسز نقوی لے کر آئی تھیں، یہ بیچاری کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہوگئی ہیں۔ حالانکہ ڈاکٹر صاحب ان سے خوش ہیں اور وہ محبت کرتے ہیں۔ یہ کبھی Spoken English کی کلاسز شروع کردیتی ہیں کبھی جم جوائن کرلیتی ہیں اور آج کل سیلون ان کی پسندیدہ جگہ ہے ۔یہ سمجھتی ہیں کہ اگر مجھے انگلش بولنا آجائے تو میں پڑھے لکھوں میں شمار کی جاؤں گی ۔
“
آفس بوائے ٹرے لے کر آگیا، بلال اپنی کرسی سے اٹھا اور صوفے پر بیٹھ گیا، فوزیہ نے کافی بلال کو پیش کی اور خود چائے کا سپ لیا اور بسکٹ ہاتھ میں پکڑ کر بولی۔ ”سر انگلش بولنے کا کیا تعلق پڑھے لکھے اور اَن پڑھ سے“
”یہی بات تو ان کو سمجھ نہیں آ رہی ہے، ہر پڑھا لکھا انگلش نہیں بول سکتا…اور ہر انگلش بولنے والا پڑھا لکھا نہیں ہوتا ان پڑھ انگریز بھی ہوتے ہیں مگر وہ انگلش فر فر بولتے ہیں کیونکہ ان کی زبان ہے، اسی طرح ہر عربی بولنے والا عالم دین نہیں ہوسکتا، تمہارا لیاقت علی بھی تو عربی بول لیتا ہے مگر وہ عالم دین تو نہیں ہے ۔
اسی طرح جن کو انگلش بولنا آتی ہے وہ اپنے آپ کو ہائی کوالی فائیڈ بناکر پیش کرتے ہیں اور جن کو عربی کے چار الفاظ آتے ہوں وہ دین کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں، ابوجہل عربی بولتا بھی تھا اور سمجھتا بھی خوب تھا مگر ایمان کی دولت سے محروم رہا، اسی لیے میں اسکول میں بچوں کو صرف بولنے کے لیے کہتا ہوں۔ عربی، انگلش اور اردو بچوں سے صرف بولیں ان کو زبان سکھائیں، تمہارے لیاقت علی نے زبان بول کر سیکھی ہے پڑھ کر نہیں۔
“
”ویسے وہ کتنا پڑھا لکھا ہے ؟“فوزیہ نے بلال کو اپنے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا دکھاتے ہوئے کہا۔
”سر وہ انگوٹھا چھاپ ہے مگر اس کے باوجود مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں B Com کرکے بھی اس کے آگے بے کام سی ہوں “فوزیہ نے لیاقت علی کو یاد کرکے ٹھنڈی سانس بھری اور پھر سے لب کشائی کی ۔
”سر…یہ ڈاکٹر صاحب کس شعبے کے ڈاکٹر ہیں “
”فوزیہ جی…دماغ کے “بلال نے بتایا۔
”کرو بات …سر میں اگر ڈاکٹر ہوتی تو لیاقت علی ایسی حرکتیں کرتا تو میں نے اس کا دماغ ٹھکانے لگادینا تھا، قسم سے…ڈاکٹر صاحب بھی ایویں ہیں بیوی کا علاج ہوتا نہیں اور ڈاکٹر بنے پھرتے ہیں “
”فوزیہ جی…تم بالکل پاگل ہو“بلال نے ہنستے ہوئے کہا۔
###
اُسی دن یعنی منگل کو بلال بابا جمعہ کے پاس گیا تو بالی چائے والا اور بابا جمعہ عصر کی نماز پڑھ کر نورانی مسجد سے نکلے ہی تھے۔
اپنے موچی خانے میں بیٹھ کر باتوں میں مصروف ہوگئے اتنے میں بلال اپنی گاڑی سے اتر کر ان تک پہنچا بابا جمعہ بالی چائے والے کو اقبال کہہ کر مخاطب کرتے شاید وہ واحد آدمی تھے اس بازار میں جو اقبال عرف بالی کو اس کے اصل نام اقبال سے مخاطب کرتے تھے۔
”لو بلال صاحب بھی آگئے…“بابا جمعہ نے بلال کو دیکھ کر کہا تھا۔
”بابا جی آپ مجھے صاحب مت کہا کریں “بلال نے عرض کی۔
”بابا جی تو مجھ جیسے نالائق کو بھی بالی چائے والے سے اقبال بیٹا بنالیتے ہیں “اقبال نے مسکراتے ہوئے اپنی بات شروع کی۔
”بلال بھائی مزے کی بات بتاؤں مجھے تو میری اماں اور بیوی بھی بالی ہی کہتی ہیں بابا جی جب اقبال کہتے ہیں تو میری ہوا خراب ہوجاتی ہے “تینوں نے مل کر ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
”بلال صاحب میری بات غور سے سنو۔
اقبال سے بہت بلند…اقبال کا…اقبال ہے …اور اقبال سے بھی بلند…بلال کا اقبال ہے…ادب کا تقاضا یہ ہے …کہ نام کے ساتھ …صاحب لگایا جائے کسی بھی نام کو معتبر اس کے پیچھے کی شخصیت بناتی ہے …اقبال نام کے پیچھے حضرت علامہ اقبال کی شخصیت ہے جوکہ صرف اقبال کو ہی معتبر بنادیتی ہے …نام بلال کے پیچھے بہت بڑی…عظیم شخصیت ہے…حضرت سیدنا بلال حبشی …حضرت سیدنا بلال حبشی…حضرت سیدنا بلال حبشی…“یہ سب کہتے ہوئے بابا جمعہ کے الفاظ سے عقیدت کی خوشبو آرہی تھی اور اشک ان کی آنکھوں سے ٹپک رہے تھے…
بابا جمعہ نے اپنے کندھے سے سفید صافہ اُتار کر اپنے دونوں نین صاف کیے اور اپنا چہرہ اور اپنی سفید داڑھی بھی صاف کی جوکہ اشکوں سے بھیگ چکی تھی۔
”سچی بات تو یہ ہے …بلال صاحب…صرف بلال…کہنے سے …ڈر لگتا ہے…بے ادبی نہ ہو جائے…نام کی…اقبال بیٹا اور بلال صاحب اپنے ناموں کی لاج رکھنا…بڑی شخصیت سے نام بڑا بنتا ہے…بڑے نام سے شخصیت بڑی نہیں بنتی…“
”میں آپ کے لیے چائے بھیجتا ہوں اور بسکٹ بھی“اقبال چائے والے نے گفتگو کا رخ بدلنے کی کوشش کی کیونکہ بابا جمعہ کی آنکھوں سے آنسو مون سون کی بارش کی طرح برس رہے تھے۔
”بابا جی چائے آنے تک میں نماز پڑھ لوں“بلال جاتے ہوئے بولا۔ نورانی مسجد کی طرف
###
بلال اپنی نانی جہاں آرا کے کمرے میں داخل ہوا جوکہ اکیلی بیٹھی ہوئی تھیں بلال نے نانی کو سلام کیا اور ان کی خیریت دریافت کی ۔
”آج کوئی نہیں ہے …آپ کے پاس…“بلال نے پوچھا۔
”جمال تو آج دوپہر کو امریکہ چلا گیا۔ تمہاری مامی اور شعیب کا کوئی پتا نہیں اور نوشی توشی تو آج دوپہر سے ہی جدھر تمہارا سکول ہے …“
”جوہر ٹاؤن …“بلال نے بات آگئے بڑھائی ۔
”ہاں جوہر ٹاؤن میں کوئی ان کے کپڑوں کی نمائش ہے وہ بڑا سا ہال کیا نام ہے اس کا …“
”ایکسپو سنٹر…“بلا ل نے بتایا۔
”ہاں …ہاں وہی ایکسپو سینٹر ادھر ہیں صبح سے گئی ہوئی ہیں…رات دس بجے تک آئیں گی۔ بلال بیٹا کیا ٹائم ہوا ہے “
”جی 9بجنے والے ہیں “بلال بولا۔
”جوان بچیاں ہیں…ماں کو کوئی فکر ہی نہیں ہے“نانی خفگی سے بولی۔
”آپ نے کھاناکھایا“بلال نے پوچھا۔
”ہاں بیٹا …غفوراں ابھی گئی ہے کھانا کھلا کر …بتارہی تھی کہ تیرا اسکول بڑی ترقی پر جارہا ہے، اب تو یہاں ڈیفنس کے بچے بھی تیرے اسکول میں جاتے ہیں “
نانی نے اس کے گالوں پر پیار کیا جوکہ نیچے کارپیٹ پر کُشن رکھ کے پیروں کی مالش کر رہا تھا۔
”بیٹا تجھے دیکھتی ہوں تو بڑا دکھ ہوتا ہے کتنی مصیبتیں دیکھی ہیں تو نے اس چھوٹی سی عمر میں 8ماہ کا تھا تو تیرا باپ گزر گیا اور 8سال کا ہوا تو تیری ماں چلی گئی تجھے چھوڑ کر …اتنے بڑے غم چھوٹی سی عمر میں…“نانی اضطراب سے بولیں۔
”نانو…آپ کو پتہ ہے …جب حضور کی عمر 6سال تھی تو آپاپنی والدہ محترمہ حضرت آمنہ اور ایک خادمہ ام ایمن کے ساتھ مکہ سے مدینہ آئے اپنے والد حضرت عبداللہ کی قبر کی زیارت کے لیے …ایک ماہ مکہ میں قیام کے بعد واپسی مدینہ کی طرف سفر کرتے ہوئے عبوہ کے مقام پر آپ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ کا انتقال ہوگیا…آج بھی عبوہ کی وادی میں جائیں تو خوف آتا ہے۔
سیاہ خشک پہاڑ دور دور تک آبادی کا نام و نشان نہیں کوئی باقاعدہ رستہ نہیں ہے “بلال یہ باتیں بیان کرتے ہوئے ایسے کھوگیا جیسے عبوہ کی وادی کو دیکھ رہا ہو۔ اور نانی بلال کو دیکھ رہی تھیں۔ ”انتقال کے وقت حضرت آمنہ کے آخری الفاظ تھے بیٹا ہر جوانی نے ڈھلنا ہے…اور ہر زندہ نے مرنا ہے…آپ کی پیدائش سے پہلے ہی آپ کے والد محترم حضرت عبداللہ دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔
اور نانو جب آپ آخری حج کے لیے مدینہ سے مکہ تشریف لے کر گئے تو آپ نے اسی رستے کا انتخاب کیا… عبوہ کے مقام پر اپنی والدہ حضرت آمنہ کی قبر کی زیارت کی۔ میں اور آپ، حضور کی ساری امت کے غم ایک طرف اور حضور کے غم ایک طرف کیا کوئی مقابلہ ہے…ان میں ۔ کوئی نہیں۔حضور بھی بڑے اور ان کے غم بھی بڑے۔ ہم بھی چھوٹے اور ہمارے غم بھی چھوٹے۔“ نانی نے اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان بلال کا چہرہ لیا اور ماتھا چوم لیا تھا۔
”کبھی تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے تو میرا نانا ہے اور میں تیری (دوتری) نواسی ہوں جب تو ایسی باتیں کرتا ہے تو بہشتی تیرا نانا یاد آجاتا ہے …وہ بھی بڑا سیانا بندہ تھا پرہے پنچایت والا، پورے ضلع نارووال میں اس کی دھوم تھی…کوٹ فتح گڑھ میں بہت بڑا ڈیرہ تھا، بہشتی کا پر تیرے (مامے) ماموں نے بیڑہ غرق کردیا ڈیرہ زمین سب کچھ بیچ دیا۔ مشہور تھا چوہدری ارشاد رندھاوا کا ڈیرہ دور دور سے لوگ فیصلہ کروانے آتے تیرے نانے سے …“بلال یہ ساری باتیں پہلے سے جانتا تھا مگر پھر بھی نانی کے احترام میں سن رہا تھا ۔
”تیری مامی لگالگایا بوٹا پٹ لیائی لاہور میں فیکٹری لگاتے ہیں زمین بیچ دو اگر تیرا نانا زندہ ہوتا تو ایسا تھوڑی ہونے دیتا…میں نے اور تیری ماں نے بہت سمجھایا مگر تیرا ماما شروع ہی سے لائی لگ تھا…
ہاں تیری ماں سیانی تھی جبھی تو تیرے باپ جیسے ہیرے سے شادی کی۔ میں نے تو بڑی مخالفت کی تھی کہ ہم جٹ اور لڑکا ملک ہے پر تیرا نانا آڑے آگیا…اپنی مرضی کی ، اس کا فیصلہ ٹھیک تھا…تیرے مامے کا رشتہ میں نے کیا تھا، بڑا شوق تھا مجھے جمال کے لیے شہری (ووہٹی) بہو لانے کا…۔
چوہدری صاحب نے بڑا سمجھایا کہ جہاں آرا کڑی بڑی تیز ہے اور منڈا تیرا لائی لگ مگر میں نے ایک نہیں سنی…“نانی نے پرانی باتوں کا پنڈورا باکس کھول لیا تھا۔
بلال نے بات بدلی”آپ کو لطیفہ سناتا ہوں…پاگل خانے میں دو پاگل دونوں کی بڑی دوستی تھی…مگر دونوں رضیہ رضیہ کہہ کر روتے رہتے ہروقت…کسی نے ڈاکٹر سے پوچھا یہ دونوں رضیہ کو یاد کرکے کیوں روتے ہیں…“ڈاکٹر نے بتایا ۔
”پہلا جو ہے اس کی رضیہ سے شادی نہیں ہوئی وہ اس کی یاد میں روتا ہے…دوسرا جو ہے اس کی اسی رضیہ سے شادی ہوگئی وہ اسے یاد کرکے روتا ہے…“دادی ہنس پڑیں بلال نے انہیں کرسی سے اٹھایا اور بیڈ پر لٹادیا کمبل ان کے اوپر ڈال دیا۔
”اب آپ سوجاؤ صبح انشاء اللہ بات ہوگی“
###
”میں نے کہا تھا کہ وہ نہیں آئے گا مگر تم تو…بس…بلال…بلال…کی رٹ…ہماری زندگی کا اتنا بڑا دن تھا آج “نوشی نے Redکلر کی Honda Civic کی پچھلی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
DJ گاڑی ڈرائیور کر رہا تھا اور توشی آگے بیٹھی ہوئی تھی گاڑی کلمہ چوک سے ڈیفنس کی طرف جارہی تھی دس بجے رات کو سردی کی وجہ سے ٹریفک قدرے کم تھا اور توشی آج واقعی غصے میں تھی۔
”شادی کرلو اس سے…بھئی نہیں کرنی اس سے …شادی…جو شخص آپ کی خوشی میں شریک نہیں ہوسکتا …مائی فٹ…کتنا پازیٹو رسپانس ملا ہم کو اب دیکھنا تم میں سب کو Beat کرجاؤں گی۔
“ نوشی ایک دفعہ پھر بھڑکی، گیٹ پر ہارن کی آواز سے سکیورٹی گارڈ نے جھٹ پٹ گیٹ کھول دیا، یہ ریمورٹ کنٹرول گیٹ تھا۔ “
پورچ میں گاڑی پارک ہوئی، نوشی پاؤں پٹختی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی ،جاتے ہوئے اس نے بلال کے کمرے کی طرف نظر اٹھائی بلال ٹیرس پر کھڑا ہاتھ میں کافی کا مگ لیے ان کو دیکھ رہا تھا۔
توشی دیر سے گاڑی سے اُتری وہ سارے راستے گم سم تھی، اب بھی وہ قدرے تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔
اس نے گاڑی کی ونڈ سکرین سے بلال کو کھڑا ہوا دیکھ لیا تھا مگر پھر بھی وہ بغیر دیکھے چلی گئی بلال نے بھی اسے اس وقت بلانا بہتر نہیں سمجھا ہاں البتہ DJ کو جاتے ہوئے آواز دی۔
”آج چار سال میں پہلی بار نوشی آپی کو آپ کے نہ آنے پر غصہ آرہا تھا ، ساری کمپوزیشن ہی بدل گئی ہے “نوشی کے متعلق DJ کھڑا ہوا بلال کو تفصیل بتارہا تھا۔
”کافی بناؤں تمہارے لیے “بلال نے پوچھا۔
کہانی میں یہ ٹوئسٹ DJ کو کنفیوژ کر رہا تھا۔ DJنے ہاتھ اپنی ٹھوڑی پر رکھتے ہوئے تبصرہ کیا۔
”کافی نہیں…ابھی تو کھانا بھی نہیں کھایا یہ تو کہانی کا سارا موڈ ہی بدل گیا ہے “اس نے خود کو مخاطب کیا جیسے کسی گہری سوچ میں ہو۔
”جاؤ تم جاکر کھانا کھاؤ“بلال نے DJ کو کہا۔
”پیاز گوشت ملے گا میرا مطلب ہے تھوڑا سالن ہوگا“DJندیدی آنکھوں سے پوچھ رہا تھا۔
بلال مسکرایا اور جواب دیا۔
”جمعہ کو عصر کے بعد آجانا…“
بدھ جمعرات اور جمعہ DJ نے انگلیوں کے پوروں پر حساب لگایا اور چلا گیا ،نوشی اپنے ٹیرس سے بلال کے کمرے کو دیکھ رہی تھی اس نے DJ کو کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا تھا، اپنے ہاتھوں میں موجود I phone 5 سے Djکو فون ملادیا ”میرے کمرے میں آؤ“DJنوشی کے سامنے پیش ہوگیا ۔
”کیا پوچھ رہا تھا “نوشی نے تیکھے لہجے میں تفتیشی نگاہوں سے پوچھا۔
”کون جی…“DJ بند آنکھوں سے سوال کر رہا تھا جیسے بچہ نیند سے جاگا ہو۔
”جہاں سے آئے ہو ابھی ابھی “
”بلال صاحب …وہ جی کہہ رہے تھے …پیاز گوشت جمعہ والے دن عصر کے بعد آکر لے جانا…“
”بس…اور کچھ نہیں کہا اس نے …“حیرت سے پوچھا نوشی نے ۔
”کہتے کہاں ہیں وہ کچھ…وہ تو سنتے رہتے ہیں بس…“DJغنودگی کے عالم میں بول رہا تھا۔
توشی ان کی گفتگو کے دوران باتھ روم سے نکل آئی تھی اب اس کا موڈ ٹھیک تھا بلکہ وہ اب نوشی کی بے قراری انجوائے کر رہی تھی۔
”پیاز گوشت…پیاز گوشت…“نوشی خود سے مخاطب تھی۔
”کیوں اتنی ہائپر ہورہی ہو، “توشی اس کی طرف دیکھ کر بولی پھر DJ کو کہا۔
”DJتم جاکر آرام کرو…“DJ تھکے ہوئے جسم کے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔
”مگر وہ آیا کیوں نہیں “نوشی ابھی تک وہی پہاڑا پڑھ رہی تھی ۔
تم سے اس نے کون سا پرامس کیا تھا ویسے یہ سارے Symptomمحبت ہی ظاہر کر رہے ہیں ۔
”اور یہ پیاز گوشت کی کیا کہانی ہے “نوشی اپنی دھن میں مگن تھی ۔ توشی اب تک نوشی کو ڈریسنگ ٹیبل کے مرر میں سے دیکھ رہی تھی اٹھی اور اسے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر ہلایا۔
”ڈفر یہ مس بی ہیو چھوڑو مجھے پتہ ہے تمہاری فیلنگز ہرٹ ہوئی ہیں …جاؤ میرا بچہ فریش ہوجاؤ…میں پیزا آڈر کرتی ہوں …جاؤ شاباش…“نوشی واش روم میں چلی گئی اور توشی نے فون پر پیزا آرڈر کردیا تھا۔
آدھا گھنٹہ بعد وہ دونوں بہنیں پیزا کھارہی تھیں۔
”ویسے یہ پیاز گوشت کیا چیز ہے “نوشی کی سوئی وہاں ہی پھنسی ہوئی تھی ۔
”او…او…اف یہ پیاز گوشت پچھلے دو گھنٹے سے …میرے کان پک گئے ہیں سن سن کر…یہ ایک افغانی ڈشن ہے“
”مگر وہ …“نوشی پھر تجسس سے بولی”کیسے…DJ کہہ رہا تھا …پکاتا ہے …“
”تم ڈارلنگ پہلے یہ فنش کرو میں سب کچھ بتاتی ہوں تفصیل سے …“نوشی پیزے کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے بولی۔ دونوں بہنیں کھانے سے فارغ ہوچکی تھیں۔
”بتاؤ …اب بتاؤ…“نوشی بول پڑی پھر سے
”یہ جو بلال صاحب آپ کے منگیتر ہیں…یہ بھی الگ سیمپل ہیں۔ جب یہ خود پڑھتے تھے تو سارا پاکستان گھوم چکے تھے اب یہ 4سال سے اسکول چلارہے ہیں تو سارا مڈل ایسٹ دیکھ لیا ہے اور سارک کے سارے ممالک بھی۔ کھانا کھانے کے شوقین ہیں اور بنانے کے بھی ،جمعہ والے دن پیاز گوشت پکاتے ہیں سب کو کھلاتے ہیں اور مغرب سے پہلے کسی کے لیے لے کر جاتے ہیں کہاں جاتے ہیں کسی کو پتہ نہیں…پچھلے تین سال سے رمضان میں عمرہ کے لیے جاتے ہیں، دس دن عمرے کے لیے اور باقی پندرہ دن دوسرے مڈل ایسٹ کے ممالک گھومتے ہیں۔
مصر، عمان، امارات، کویت، بحرین اور ترکی بھی جناب دیکھ چکے ہیں اور آپ سے یعنی میری بہن سے بہت محبت کرتے ہیں۔ تمہاری ہر پسند اور ناپسند کا پتہ ہے، بچپن سے …آج تک۔ بے شمار لڑکیاں مرتی ہیں بلال صاحب پر مگر وہ مسٹر تم پر فدا ہے “
”چلو چلیں“نوشی نے ہاتھ پکڑا توشی کا ”اس کے کمرے میں…“
”پاگل ہو ٹائم تو دیکھو“توشی نے ہاتھ چھڑایا اور وال کلاک کی طرف اشارہ کیا
”بارہ ہی تو بجے ہیں “نوشی نے معصومیت سے جواب دیا۔
”تمہارے ویسے بھی بارہ بج گئے ہیں“توشی اسٹائل سے بولی۔
”نوشی جی …وہ صاحب سردی ، گرمی دس بجے سوجاتے ہیں، آج تو ہماری وجہ سے جاگ رہے تھے…مسٹر بلال کو صبح تہجد کے لیے اٹھنا ہوتا ہے پھر گھنٹہ قرآن پاک پڑھتے ہیں اس کے بعد نماز سے فارغ ہوکر جاگنگ کے لیے پھر پودوں کو پانی پرندوں کو دانہ اس کے بعد گرم پانی سے نہاتا ہے پھر ناشتہ، جانے سے پہلے دادو کے پاس بیٹھ کر حال پوچھ کر اسکول جاتا ہے۔
“
”تم بڑی خبر رکھتی ہو اس کی “نوشی ابرو چڑھا کر بولی۔
”میرے پاس تو اس کی صرف خبر ہے اس کے پاس تمہارا سارا حساب کتاب موجود ہے کہتا ہے محبت کرنے والے محبوب کی سانسوں کا حساب بھی رکھتے ہیں…نوشی جی مجھے آرہی ہے نیند میں سونے لگی ہوں “توشی نے کمبل اوپر لیا اور بیڈھ پر ڈھیر ہوگئی ۔
آج توشی نیند کی آغوش میں تھی اور نوشی بے قرار اور اس کے کانوں میں توشی کے الفاظ گونج رہے تھے ”محبت کرنے والے محبوب کی سانسوں کا بھی حساب رکھتے ہیں … “توشی کی دوسری صدا گونجی ’اسے تمہاری ہر پسند اور ناپسند کا پتہ ہے،وہ تم پر فدا ہے…فدا…فدا…فدا ہے“
12بجے سے صبح 4بجے کا سفر توشی کے 4جملوں میں ختم ہوگیا، موبائل پر ٹائم دیکھا 4بجے ہوئے تھے، وہ ٹیرس پر گئی، بلال کے کمرے کی لائٹ Onتھی۔
بلال جائے نماز کو سمیٹ کر دیوان کے بازو پر رکھتا ہے سفید شلوار قمیض میں ملبوس اور گرم سیاہ چادر اوڑھے ہوئے اس نے قرآن پاک کے شیلف پر رکھے چودہ نسخوں میں سے ایک اٹھایا اور باآواز بلند تلاوت کرنے لگا ۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی ۔
”آجائیں خان صاحب دروازہ کھلا ہے “بلال نے بغیر دیکھے صدا لگادی اس کی نظریں قرآن پاک پر تھیں دوازہ کھلتا ہے کسی کے قریب آنے کی آواز بڑھ جاتی ہے وہ نظریں اٹھا کر دیکھتا ہے ، سامنے ٹراؤزر اور شرٹ میں ملبوس نوشی کھڑی تھی اس کی آوارہ لٹیں اس کے رخساروں کو چوم رہی تھیں اور اس کی آنکھیں سرخ تھیں مگر وہ زبان سے خاموش تھی، جو بت بنی بلال کے سامنے کھڑی تھی ۔
بلال نے اسے دیکھا تو سب سے پہلے قرآن پاک کو عقیدت اور احترام سے شلف پر رکھا اس کے بعد اپنی گرم چادر اتار کر نوشی کے اوپر ڈال دی مگر اس کے جسم کو چھوئے بغیر کالی گرم چادر میں لپٹی ہوئی نوشی ایسے لگ رہی تھی جیسے ہیرا کوئلے کی کان میں چمک رہا ہو۔
”آپ بیٹھ جاؤ “بلال نے دیوان کی طرف اشارہ کیا اور خود کچن میں چلا گیا تھوڑی دیر بعد سائیڈ ٹیبل پر کافی کے دو مگ او ر بسکٹ موجود تھے بلال نے گیس ہیٹر پہلے ہی لگادیا تھا۔
”کافی پیو“بلال نے مگ نوشی کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا ۔ کافی بالکل ویسی تھی جو نوشی کو پسند تھی چینی زیادہ دودھ زیادہ اور کافی کم مگر دوسرا مگ مختلف تھا دودھ کم اور بغیر چینی کے ۔
نوشی نے کافی کا سپ لیا، وہی ذائقہ جو اس کو پسند تھا …اس کے کانوں میں آواز آئی اسے تمہاری پسند اور ناپسند کا معلوم ہے، بلال نے بسکٹ اس کے آگے کیے نوشی نے بغیر دیکھے بسکٹ منہ میں ڈالا اس کی زبان نے ٹیسٹ اس کے دماغ کو میسج کیا یہ تو ہی ہے جو مجھے پسند ہے اس نے دائیں ہاتھ میں بسکٹ کے آدھے پیس کو دیکھا بالکل وہی تھا۔
نوشی نے اس دوران پہلی بار بلال کو آنکھیں اٹھا کر دیکھا بہت غور سے دور…آنکھوں میں اندر بہت اندر تک…
”تم آئے کیوں نہیں“اس نے نینوں کی زبان سے پوچھا۔ آج زندگی میں پہلی بار نوشی نے نینوں سے زبان کا کام لیا مگر بلال اس زبان میں ڈگری ہولڈر تھا۔
”تم نے بلایا ہی نہیں“بلال نے آنکھوں سے جواب دیا۔
”تمہیں کیسے پتہ مجھے یہ بسکٹ اور کافی پسند ہے “
”بس پتہ ہے …میرے پاس تو یہ بسکٹ ہمیشہ موجود ہوتے ہیں Expire Date ہونے سے پہلے پرانے والے کھالیتا ہوں اور نئے لے آتا ہوں “
”تمہیں اتنا یقین تھا میرے آنے کا “نوشی کے نینوں نے پوچھا۔
”ہاں بالکل “بلال کی آنکھوں نے جواب دیا۔
”اور کیا جانتے ہو میرے بارے میں “
”تم سے زیادہ …بہت زیادہ …سب سے زیادہ …“فجر کی اذان کی صدا گونجی دونوں طرف کے نینوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ بلال کی کافی ٹیبل پر پڑی پڑی ٹھنڈی ہوچکی تھی۔ اور نوشی کا مگ اس کے ہاتھ میں ٹھنڈا ہوچکا تھا، اس نے ٹھنڈی کافی کا سپ لگایا اور بسکٹ کا آدھا پیس منہ میں ڈالا اور وہاں سے چلی گئی ۔ بلال کا معمول تھا کہ وہ سردیوں میں 4بجے صبح اٹھتا، وضو کرتا اس کے بعد جائے نماز پر تہجد کے لیے کھڑا ہوجاتا۔ تہجد کے بعد فجر کی نماز تک قرآن مجید پڑھتا فجر کی نماز کے بعد وہ جاگنگ کے لیے چلا جاتا ۔
###
بلال اپنے آفس میں لیپ ٹاپ پر مصروف تھا ۔ جب مسز جنجوعہ اندر داخل ہوتی ہیں ۔
”السلام علیکم …بلال کیسے ہو“فرح بھابھی نے کہا۔
”وعلیکم السلام ، اللہ کا شکر ہے ، بھابھی آپ کا کیا حال ہے ۔ “
”یہ تمہارا پارسل ہے جنجوعہ صاحب نے بھیجا ہے “بھابھی فرح بولیں۔ بلال کے سامنے ٹیبل پر رکھ دیا پارسل کا پلاسٹک بیگ۔
”آپ تشریف رکھیں “بلال نے لب کشائی کی ۔
”نہیں بھئی …بچوں کو چھوڑنے آئی تھی…جب تک میں نہیں جاؤں گی جنجوعہ صاحب ناشتہ نہیں کریں گے…ناشتہ اور رات کا کھانا ہم اکھٹے کھاتے ہیں…سوائے ہفتہ کی رات کے“بھابھی فرح نے ساری رام لیلا سنادی۔ بھابھی فرح جاچکی تھیں۔
بلال نے پلاسٹک بیگ کھولا تو اس میں ایرانی شال اور ایک خوبصورت بلوچی فراق تھی، بلوچی فراق پر ہاتھ سے بہت خوبصورت کام ہوا تھا، اس دوران فوزیہ بول پڑی ۔
”جنجوعہ صاحب کی کیا مجال بھابھی فرح کے بغیر ناشتہ کرلیں، ان کی تو جان جاتی ہے۔ سر قسم سے بہت ڈرتے ہیں ان محترمہ سے …“بلال نے آنکھوں سے گھوری ڈالی۔
”سر قسم سے سچ کہہ رہی ہوں جنجوعہ صاحب نے پہلا مکان ہمارے گاؤں کے سامنے ہی بنایا تھا جب بارش ہوتی تو مکان پر شاپر بیگ ڈلوادیتے کہیں مکان کی چھتیں ٹپکنا شروع نہ کردیں اور سب سے مزے کی بات جب ان کا مکان سیل ہوگیا تو مالک مکان نے گراج میں اپنی بچارو کھڑی کی تو گراج کا فرش بیٹھ گیا۔
سر قسم سے …“فوزیہ نے ہاتھ پر ہاتھ مارا جیسے کوئی لطیفہ یاد آگیا ہو اور کھل کھلا کر ہنسنا شروع کردیا۔
”پھر کیا ہوا …“بلال نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
”ہونا کیا تھا …سر…قسم سے “فوزیہ مسلسل ہنس رہی تھی ۔
”پھر اس آدمی نے پنچایت بلائی جس نے جنجوعہ صاحب کا مکان خریدا تھا۔ سرسردیوں کے دن پھر بھی جنجوعہ صاحب کو پسینہ آرہا تھا، اپنی عینک اتار کر بار بار صاف کرتے کبھی بائیں ہاتھ سے اپنی مونچھوں کو اوپر سے نیچے پریس کرتے ہمارے گاؤں کے چوہدری صاحب کے بیٹے نے کہا کہ آپ کے مکان کا گراج بیٹھ گیا ہے دوسرے دن ہی جنجوعہ صاحب معصومیت سے بولے، وہ جی میں نے اپنی Suzuki Fx کھڑی کی اس کے وزن سے تو نہیں بیٹھا تھا، سب لوگ ہنس پڑے پھر طارق رامے نے اس کی جان چھڑوائی تھی۔
اس نے کہا کہ جنجوعہ صاحب گراج مرمت کروادیں گے تب جان چھوٹی، سر۔ قسم سے سچی“فوزیہ بلال کی طرف دیکھ کر بولی جوکہ مسلسل فوزیہ کو دیکھ رہا تھا۔
”تم وہاں کیا کر رہی تھی “بلال نے پوچھا۔
سر کوئی سات آٹھ سال پرانی بات ہے تب تو میں سارا علاقہ گھومتی تھی سر اس وقت تو سارے پلاٹ خالی تھی۔
”مجھے ایک بات بتاؤ تم اتنا بولتی ہو تھکتی نہیں“فوزیہ نے چھوٹے بچے کی طرح گردن ہلادی۔
”اچھا خیر…یہ لو…تمہارے لیے…“بلال نے فراق فوزیہ کی طرف بڑھادی فوزیہ نے جلدی سے فراق پکڑ کر دیکھنا شروع کردی ۔
”سر بہت خوبصورت ہے …قسم سے …“فوزیہ کے چہرے پر بچے جیسی خوشی تھی جس کو اس کا من پسند کھلونا مل جائے ۔
###
آج کافی دنوں بعد عادل عقیل بابا جمعہ سے ملنے آیا، دوسری بار بلال پہلے سے موجود تھا، بابا جمعہ جوتا مرمت کر رہے تھے اور بلال پاس بیٹھا اخبار میں مشغول تھا۔
”میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں آپ سے“عادل عقیل نے عرض کی ۔
”جی بیٹا جی یہ کام ختم کرلوں پھر بات کرتے ہیں“
تھوڑی دیر بعد میں بابا جمعہ نے کام ختم کرلیا، ”جی بیٹا جی پوچھیے اپنا سوال“
”میں نے میٹرک میں لاہور بورڈ سے ٹاپ کیا تھا ، FSCمیں میری بورڈ میں سیکنڈ پوزیشن تھی، اب میں لٹریچر پڑھ رہا ہوں ،پنجاب یونیورسٹی سے میں ایک مشہور اخبار میں کالم بھی لکھتا ہوں، (عادل) کے نام سے…پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ میری وہ کمائی جو مجھے کالم لکھنے سے حاصل ہوتی ہے حلال ہے یا حرام…“
”بیٹا آپ کسی مفتی کے پاس جاؤ میں تو ان پڑھ بندہ ہوں“
”مجھے آپ سے جواب چاہیے کسی مفتی سے نہیں …“
”کالم میں سچ لکھتے ہو یا جھوٹ“بابا جمعہ نے پوچھا۔
”اپنا سچ لکھتا ہوں “عادل عقیل نے پراعتماد لہجے میں جواب دیا۔
”ہوچھوٹے مگر باتیں بڑی کرتے ہو“بابا جمعہ مسکرا کر بولے۔”دیکھو بیٹا ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ تمہارا سچ حقیقت نہ ہو“
اتنے میں سڑک کے دوسری طرف سے آواز آئی ایک شخص بولان کیری ڈبہ سے اترا اس کے بازوؤں میں ساتھ آٹھ سال کا لڑکا بے ہوش حالت میں تھا وہ یکایک بغیر دیکھے سڑک کراس کر آیا۔
”ہجور ہجور گجب ہوگو میرا چھورا لو سیائپ کاٹ کھائیو“(حضور حضور غضب ہوگیا، میرے بیٹے کو سانپ نے کاٹ لیا۔ )
حمید خاں میو نے پھولی ہوئی سانس کے ساتھ ایک ساتھ سب کچھ کہہ دیا اس کے چہرے سے ایک باپ کا درد جھلک رہا تھا۔ اس کے ساتھ دو اور آدمی بھی تھے اسلام دین بولان High Roofکا مالک اور خالد چھوٹا حمید خاں میو کا دوست۔بلال جلدی سے کارپیٹ سے اٹھ گیا، عادل عقیل بھی سائیڈ پر ہٹ گیا ۔
”حمید خاں اسے یہاں لٹادو“بابا جمعہ نے حمید کو تشفی دی اللہ خیر کرے گا۔ بابا جمعہ نے پڑھنا شروع کیا، بلال نے پیچھے نیم کے درخت سے پتے ٹہنیوں سمیت توڑ کر بابا جمعہ کو پکڑادیے انہوں نے دم کرنا شروع کردیا اوپر سے نیچے کی طرف۔ بلال نے بابا جمعہ کے بینچ کے نیچے سے بوری ٹاٹ کا ایک ٹکڑا پکڑا اور لکڑی کے صندوق سے ماچس لی اور اسے بجلی کے کھمبے سے تھوڑی دور آگ لگادی۔
خالد چھوٹا نے حمید خاں کو اپنے بازو میں لیا ہوا تھا اور اسے تسلی دے رہا تھا، بلال نے گھڑے سے پانی کا پیالہ بھرا اور حمید خاں کو دیا اور اسے آنکھوں سے تسلی دی، اس کے بعد بابا جمعہ کی بڑی سی قینچی پکڑی اور بابا جمعہ کے پاس رکھ دی۔ سانپ کے دانتوں کا نشان ٹخنے کے پاس تھا، مگر زہر ران تک پہنچ گیا تھا، زہر کی وجہ سے ٹانگ نیلی پڑچکی تھی۔
بچہ ابھی تک بے ہوش تھا، بابا جمعہ مسلسل اوپر سے نیچے کی طرف نیم کے پتے ران سے ٹخنے کی طرف جھاڑ رہے تھے، جیسے کالے کوٹ سے مٹی کے ذرات کوٹ برش سے صاف کر رہے ہوں، بلال نے بچے کی پتلوں پائنچے سے کاٹ کر اوپر تک سمیٹ دی تھی اب بچے کی ٹانگ میں زہر نظر آرہا تھا ۔بابا جمعہ مسلسل کچھ پڑھ رہے تھے اور ٹانگ پر پھونک رہے تھے۔
عادل عقیل کے لیے یہ نئی صورت حال تھی جوکہ اس کے چہرے پر واضع نظر آرہی تھی وہ دل میں سوچ رہا تھا کیسے جاہل لوگ ہیں 2013میں بھی یہ لوگ موچی سے علاج کروارہے ہیں پاس ہی تو جنرل ہسپتال ہے۔
حمید خاں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھی اور اس کی کالی سیاہ داڑھی آنسو سے گیلی ہوچکی تھی وہ منہ میں کچھ پڑھ رہا تھاکبھی آسمان کی طرف دیکھتا اور کبھی اپنے بیٹے کی طرف۔
خالد چھوٹا گیس کٹر چلانے والا جو سارا دن لوہا کاٹتا تھا وہ نرم پڑ چکا تھا، گیس کٹر سے لوہا کٹتا ہوا دیکھنا اس کے لیے آسان تھا مگر اپنے دوست کا دل کٹتا ہوا دیکھنا مشکل تھا ، خالد چھوٹا کی اپنی اولاد نہیں تھی مگر وہ ایک باپ کا درد خوب سمجھتا تھا۔
سلام دین ریٹائرڈ فوجی جوکہ اب اپنی گاڑی رینٹ پر چلاتا ہے جذبات سے ماورا مگر آج اس کی آنکھوں نے تمام حساب برابر کردیے۔ وہ بار بار اپنی گرم چادر سے چپکے سے اپنے آنسو صاف کر رہا تھا۔
آدھا گھنٹہ ہوچکا تھا، بچے کی سانس چل رہی تھی مگر وہ بے ہوش تھا، بابا جمعہ اور بلال انتہائی پراعتماد تھے، چند منٹوں بعد بچے کے ماتھے پر سخت سردی میں پسینہ تھا۔
بلال نے وہ بوری کی راکھ جوکہ اب جل کر ٹھنڈ ی ہوچکی تھی، ایک سلور کی پلیٹ میں ڈال کر بابا جمعہ کے پاس رکھ دی، زہر اب پنڈلی تک آگیا تھا، بابا جمعہ نے اپنے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے راکھ کا حصار پنڈلی کے گرد باندھا، جیسے منہ زور سیلابی پانی کے سامنے مضبوط چٹان کا بند ہو۔ بابا جمعہ مسلسل پڑھ رہے تھے، اور پتوں سے جھاڑ رہے تھے اوپر سے نیچے کی طرف اس کے بعد انہوں نے ایک اور بند باندھا پھر تیسرا بند باندھا اب زہر سانپ کے دانتوں کے نشان تک آچکا تھا۔