
شکیل احمد چوہان - بلال صاحب
بلال نے استرے میں بلیڈ ڈال کردیا اور ساتھ ہی کالی ڈبیہ دی جس میں ایک کالی مرہم جوکہ کالے جلے انجن آئل جیسی مگر آئل سے گھاڑی، رکھ دی۔ بابا جمعہ نے سانپ کے دانتوں کی جگہ ہلکا سے کٹ لگایا اور اوپر سے دبایا سارا زہر باہر آچکا تھا، اس کے بعد اس کالی ڈبیہ سے کالا پیسٹ (کالی مرہم) اس کے زخم کے اوپر لگادیا۔ لڑکا ہوش میں آرہا تھا، مگر درد کی وجہ سے اس کے رونے اور ہائے ہائے کی دبی دبی آوازیں گلے سے نکل رہی تھیں۔
”حمید خاں اللہ کا کرم ہوگیا“بابا جمعہ نے ہاتھ دھوتے ہوئے کہا بلال ان کے ہاتھ دھلارہا تھا۔
”بلال بیٹا حمید خاں کو پرہیز بتادو“
”تین دن بچے کو نہلانا نہیں ، بیسن کی روٹی کھلانی ہے، کچے پیاز کے ساتھ۔ تین دن تمام عورتوں سے دور رکھو بچے کو ۔
نمک اور سرخ مرچ بالکل بند۔ اور کالی مرچ کھلاؤ دیسی گھی کے ساتھ۔ یہ سارے پرہیز تین دن کے لیے ہیں تین دن تک یہ کالی مرہم لگانی ہے، اس کے بعد اگر زخم ہو تو ڈاکٹر سے پٹی کروالینا۔
اور ہاں 101روپیہ مسجد میں دے دینا، یاد سے۔ “
حمید خاں میو نے سر آسمان کی طرف اٹھایا اور پھر اپنے بیٹے کی طرف دیکھا خالد چھوٹا نے اپنی گرم چادر میں بچے کو لپیٹا اور اٹھالیا مگر اس کا ٹخنہ ننگا تھا، حمید نے بند مٹھی سے بابا جمعہ کی خدمت کرنی چاہی مگر بابا جمعہ نے انکار کردیا۔
”میں اپنی خوشی سے دے رہا ہوں “حمید نے التجا کی۔
”نہیں حمید خاں تم نیک آدمی ہو میرے لیے دعا کردینا“بابا جمعہ نے کہا اسلام دین نے عقیدت سے دونوں ہاتھوں سے بابا جمعہ سے مصافحہ کیا اور چل دیا اور جاتے ہوئے فوجی سلوٹ بلال کو بھی کردیا۔
عادل عقیل حیران تھا اسے یقین نہیں آرہا تھا یہ کرامت کیسے ہوگئی۔ اعتقاد۔ اور علم کی جنگ ابھی باقی تھی۔
اعتقاد والے جیت کر جاچکے تھے اور علم والا اپنی ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔
”میں اسے تعویذ گنڈا کہوں یا جہالت ۔“ عادل عقیل نے دو ٹوک کہہ دیا۔ بابا جمعہ اور بلال مسکرادیے۔”اس کاجواب آپ کو بلال صاحب دیں گے “بابا جمعہ نے حکم صادر کردیا۔
”نا تو یہ تعویذ گنڈا ہے اور نا ہی جہالت۔ یہ ایک روحانی علم ہے جو کہ ان کے بڑوں کو کسی بزرگ کی عطا ہے آپ اسے فیض بھی کہہ سکتے ہیں …زہر جسم سے نکالنا روحانی عمل سے ہوا اور اس کے بعد وہ کالی مرہم لگانا طبعی عمل ہے، سیدھی سی بات ہے۔
“
”مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ زہر جسم میں چلا جائے پھر نکال لیا جائے“عادل عقیل بولا۔
”اگر اللہ چاہے تو کیا پھر بھی ممکن نہیں…ہم نے تو صرف کوشش کی اور بس…“بلال نے جامع وضاحت پیش کی مگر عادل عقیل پھر بول پڑا۔
”یہ ان پڑھ لوگ ایسا عقیدہ رکھ سکتے ہیں میں نہیں۔ “
”چھوٹا منہ بڑی بات میں نے پنجاب یونیورسٹی سے MBAکیا ہے، اس کے بعد MAاسلامیات اور اب میٹرک تک اسکول چلارہا ہوں اور میرا اسکول شہر کے تین ہائی کلاس اسکولوں میں شمار کیا جاتا ہے مگر میں بھی یہی عقیدہ رکھتا ہوں “
”مغرب ہونے والی ہے میں جو سوال پوچھنے آیا تھا اس کا جواب مجھے نہیں ملا“بابا جمعہ جوکہ ساری گفتگو سے لطف اندوز ہورہے تھے، بول پڑے۔
”وہ کیا بیٹا جی “
”پہلے تو ایک سوال تھا مگر اب دو ہیں ایک تو یہ کہ میں اپنا سچ لکھ دوں تو کیا اس کے پیسے حلال ہیں اور دوسرا سوال اس کا بیٹا ٹھیک ہوگیا تھا تو آپ اس کا دل رکھنے کے لیے پیسے لے لیتے یہ آپ کی محنت تھی ۔ “
”عادل عقیل ہاشمی۔ یاد رکھو…اپنے سچ کو بیچنا جوکہ حقیقت پر مبنی نہ ہو بہت بڑا گناہ ہے…اور اس سے بھی کئی گناہ بڑا گناہ ہے اللہ کی سچی کتاب کو بیچنا۔
میں نے جو کچھ دم کیا تھا وہ قرآن مجید سے تھا۔ بیٹا جس نیکی کی اُجرت لی جائے اس کا اجر نہیں ملتا۔ “
”تو پھر کہانی، افسانہ، ناول لکھنے والے سب گناہ گار ہوئے اور ان کی کمائی حرام ہوئی۔ عادل عقیل خفگی سے بولا۔ “”بیٹا جی کہانی تو ہوتی ہی فرضی ہے۔ اس طرح افسانہ اور ناول بھی مگر کالم لکھنے والے حقیقت کے دعویدار ہوتے ہیں اگر ان کا کالم حقیقت پر مبنی نہ ہو تو جھوٹ ہی ہوا نا اور جھوٹ کی کمائی حرام ہوتی ہے۔
خواہ آپ کا سچ ہی ہو“بابا جمعہ نے جواب دیا۔
###
وہ سارا دن سوتی رہی مغرب کی اذان ہونے والی تھی جب BGاس کے کمرے میں داخل ہوتی ہیں۔
”اٹھو نوشی بیٹا…اب اٹھ بھی جاؤ۔ بڑی بیگم صاحبہ بار بار پوچھ رہی ہیں“BGنے نوشی کو ہلاتے ہوئے کہا تھا۔
”کیا صبح ہوگئی؟“نوشی غنودگی میں پوچھ رہی تھی ۔
”صبح…نہیں جی …اب تو رات ہونے والی ہے …مغرب کی اذان کا وقت ہوگیا ہے “BGنے تفصیل بتائی۔
”آج کونسا دن ہے؟“نوشی ایسے پوچھ رہی تھی جیسے سوئے ہوئے محل کی شہزادی ہو اور سالوں بعد جاگی ہو، کونسا دن ہے، سال کونسا ہے، میں کہاں ہوں،کچھ ایسا ہی نوشی کے ساتھ تھا۔
”توشی کہاں ہے اور ماما بھائی کہاں ہیں، ڈیڈ بھی نہیں ہیں، دادو…دادو…اور وہ …وہ…وہ کہاں ہے“وہ بے ربط اور بے تکی باتیں پوچھ رہی تھی۔ BG اپنا ہاتھ ٹھوڑی پر رکھے ہوئے حیرانی سے دیکھ رہی تھیں۔
”وہ کون جی کس کا پوچھ رہی ہیں “BGنے حیرت سے سوال کیا۔
”وہ…وہ…ہاں بلال…بلال…کہاں ہے “
”بلال جی…بلال وہ تو مغرب کی نماز کے بعد آئے ہیں…مگر آپ ان کا کیوں…پوچھ رہی ہیں“BGہکا بکا تھیں یہ بلال کا پوچھ رہی ہے مگر کیوں۔ مغرب کی اذان ہوچکی تھی۔
”آپ جی منہ ہاتھ دھولومیں ناشتہ پتہ نہیں کھانا کیا ہے “BGنے خود سے کہا”میں لے کر آتی ہوں “
نوشی واش روم میں جاچکی تھی اور BG کچن میں تھوڑی دیر بعد BG ٹرالی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوتی ہے تو نوشی ٹاول سے منہ صاف کر رہی تھی اور وہ ڈریسنگ کے سامنے بیٹھے اپنی آنکھوں کو دیکھ رہی تھی ۔
”صبح…توشی نے آپ کو بہت اٹھایا…پھر وہ اکیلی بوتیک چلی گئی …چھوٹی بیگم صاحبہ نے بھی 11بجے فیکٹری جانے سے پہلے آپ کا پوچھا تھا…اور بڑی بیگم نے تو صبح سے کتنی بار پوچھا ہے آپ کا “BGبول رہی تھی۔
”اور بلال…“نوشی حسرت بھری نگاہوں سے پوچھ رہی تھی ۔
گیٹ پر ہارن بجتا ہے۔
”لو جی ۔ بلال صاحب آگئے “BG نے اطلاع دی۔
”تمہیں کیسے پتہ ہے “نوشی نے وضاحت مانگی۔
”پتہ کیوں نہیں ہوگانوشی بیٹا ہمارے گاؤں والی نورانی مسجد میں وہ مغرب کی نماز پڑھتا ہے اور دس منٹ بعد گھر پر… “
وہ فوراً اُٹھی اور ٹیرس کی طرف لپکی کہیں پلیٹ فارم سے گاڑی نہ چھوٹ جائے کہیں دیر نہ ہوجائے ۔ بلال اپنی گاڑی سے نکل رہا تھا، پینٹ کوٹ پہنے ہوئے گارڈ کے سلام کا جواب مسکرا کر دیا اور بغیر کسی طرف دھیان کیے وہ اپنے ڈبل یونٹ کی طرف چل دیا، نیچے گیسٹ روم تھا اور اوپر بلال کا کمرہ ۔
کمرے کی لائٹ روشن ہوتی ہے وہ پردے پیچھے کرتا ہے۔ اپنا بیگ وہ کمپیوٹر ٹیبل پر رکھتا ہے ۔ کمپیوٹر کو onکرتا ہے اور کچن میں الیکٹرک کیٹل کو لگاتا ہے اس کے بعد کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر کچھ کرتا ہے۔عابدہ پروین کی آواز ہوا کے دوش پر سفر کرتی ہوئی، اس کے کانوں کو چھوتی ہے، آواز بہت کم تھی کیونکہ ٹیرس کا شیشے والا دروازہ بند تھا۔ اس کے بعد وہ وارڈ روب سے شلوار قمیض نکالتا ہے اور واش روم میں چلا جاتا ہے تھوڑی دیر بعد وہ شلوار قمیض میں ملبوس باہر تھا، اپنے سوٹ کو وارڈ روب میں ہینگ کیا۔
بلال کا کمرہ روشن تھا اور وہ اندھیرے میں کھڑی تھی اس لیے وہ سب کچھ دیکھ رہی تھی، بلال اس سب سے انجان تھا ۔ وہ فریج سے بریڈ نکالتا ہے اسے سینڈوچ میکر کے حوالے کرتا ہے، اس کے اوپر گرین پیسٹ ڈالتا ہے اور سینڈوچ میکر کو بند کردیتا ہے۔ اور خود کافی بنانے میں مصروف ہوجاتا ہے تھوڑی دیر بعد وہ اپنے بیڈ پر ٹرے رکھ کر کھانے میں مصروف ہوجاتا ہے ، ٹرے رکھنے سے پہلے وہ ڈسپوزل دسترخوان بچھانا نہیں بھولتا جوکہ پلاسٹک کی نرم شیٹ جیسا تھا۔
”کیا دیکھ رہی ہو“اس کی ماں ناہید پیچھے کھڑی پوچھ رہی تھی ۔ وہ یکدم ڈر جاتی ہے۔
”نہیں…کچھ نہیں…بس یونہی“
”میں سمجھ سکتی ہوں…مگر تمہارا باپ اور تمہاری دادی …وہ میری پیش نہیں جانے دیتے“ناہید دانت پیستے ہوئے بول رہی تھی۔
کوئی کہہ سکتا ہے …یہ فقرا ہے…دیکھو کیسی شاہانہ زندگی گزار رہا ہے۔ وہ بھی مفت میں…“
نوشی کو بس فقرا یا دتھا اپنی ماں کی باتوں سے ۔
”توشی بتارہی تھی کہ بہت جائیداد ہے اس کی پھر فقرا…کیسے ہوا…“
”تم اندر آؤ میں سب کچھ بتاتی ہوں “نوشی کمرے کے اندر آجاتی ہے اور اس کے پیچھے ناہید بھی…
”پہلے کچھ کھالو پھر بات کرتے ہیں “ناہید کا موڈ خراب ہوچکا تھا ، اور اسے اپنی چھوٹی بیٹی توشی پر غصہ آرہا تھا ، نوشی نے جوس کا گلاس منہ سے لگایا، ناہید دیکھ رہی تھی، (ایک تو یہ توشی،اسے بھی اپنے جیسی نہ بنادے باپ کی چمچی…) اس نے دل میں سوچا۔
ناہید خدشات میں گھری ہوئی تھی ایسے …مگر…کیوں…ٹھیک ہے۔
”میں سوچ رہی تھی کہ تم میرے ساتھ والے روم میں شفٹ ہوجاؤ “
”وہ کیوں…“نوشی نے حیرانی سے سوال کیا۔
”اس لیے کہ اب تم دونوں جوان ہو، بچیاں تو نہیں ہو۔ سب کی اپنی اپنی پسند ہوتی ہے اور پرسنل لائف ہوتی ہے سب کی ۔ہاں وہ میں بتانا بھول گئی مسز لغاری ہیں نا ان کا بیٹا جنید لغاری پاکستان آیا ہوا ہے …تم اس سے مل لو…بہت اچھا لڑکا ہے۔
“
”وہ کیوں…اور کس لیے…“نوشی بول پڑی۔
”جان…اس لیے کہ اچھا لڑکا ہے …اگر تمہیں پسندآجائے تو …بات چلاؤں…شادی کے لیے مگر وہ…“نوشی نے الجھن سے جواب دیا۔
ناہید کی شاطر نگاہیں جانچ چکی تھیں کہ نوشی میں کچھ تبدیلی ہے، کیا ہے، کیوں ہے۔ (کہیں یہ…وہ…نہیں نہیں…کبھی نہیں…ہو ہی نہیں سکتا)اس نے دل میں سوچا۔ حالانکہ سوچ کا تعلق دماغ سے ہے مگر جب انسان حقیقت سے آنکھیں موڑ لے تو وہ دل سے سوچتا ہے دل نہ مانے تو …وہ اسے…شٹ آپ… کہہ دیتا ہے۔
”ماما وہ ڈیڈ کہاں ہیں “اس نے پوچھا۔
”وہ تو کہہ رہے تھے کہ نوشی سے بات ہوئی تھی “
”ہاں…وہ…میں بھول گئی تھی “نوشی نے کچھ یاد کیا “ہاں کل ڈیڈ کا فون آیا تھا ایئر پورٹ سے“ اسے یاد آگیا۔
”تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے “ناہید نے تفتیشی لہجے میں پوچھا۔
”ہاں میں ٹھیک ہوں…بالکل ٹھیک …“نوشی نے مصنوعی مسکراہٹ سے جواب دیا۔
ناہید کو تسلی نہیں ہوئی اس نے ہاتھ لگاکر اس کا ماتھا چیک کیا۔
”میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں “ناہید بولی۔
”نہیں ماما میں بالکل ٹھیک ہوں بس کچھ تھک گئی ہوں “
”اگر تم اس کی وجہ سے پریشان ہو تو میں ایسا بالکل نہیں ہونے دوں گی ۔ تم پریشان مت ہو“ناہید نے نوشی کے گالوں کو سہلاتے ہوئے کہا۔
”ہے تو یہ جمیلہ ہی کا بیٹا اس کی ماں نے تھوڑا تمہارے باپ کو پریشان کیا تھا، اگر اچھی ہوتی ، اس کی ماں تو کیوں نکالتے سسرال والے گھر سے “
توشی کمرے میں داخل ہوتی ہے، ناہید اسے دیکھ کر خاموش ہوجاتی ہے۔
”بڑا پیار ہورہا ہے …ماں بیٹی میں “توشی نے دیکھ کر کہا۔
”تمہیں تو توفیق نہیں کہ ماں کی خبر لے لوں“ناہید نے تیکھا جواب دیا۔
”کہاں سے اور کیسے خبر لوں …ماما“توشی نے ترش جواب دیا۔ ’
’ہفتہ ، ہفتہ آپ سے ملاقات نہیں ہوتی یہ تو ہم ایک دوسرے کے سہارے…خیر چھوڑیں“نوشی بچ بچاؤ کے لیے بیچ میں بول پڑی۔
”خاک سہارا ہے …تمہارا…تم نے صبح سے خبر لی میری زندہ ہوں یا مرگئی “
”تو میں کس کے لیے آئی ہوں، تمہارے لیے …دوپہر سے دس دفعہ فون ملایا مگر تمہارا نمبر offہے…میں نے ارم سے کہہ دیا بھئی میں جارہی ہوں تم دیکھ لینا بعد میں۔
“ توشی آگے بڑھی اور بیڈ کے اوپر ناہید اٹھ کر چلی گئی کھانے کی ٹرالی کو دیکھ کر بولی۔
”اوہو…عیاشی ہورہی ہے “گلاس میں جوس ڈالا غٹاغٹ پی گئی۔
”ویسے…بائی دا وے…یہ ڈنر ہے…لنچ ہے…یا پھر بریک فاسٹ…بریک فاسٹ…“نوشی مسکرا کر بولی ۔ توشی کے آنے سے جیسے اس میں جان آگئی ہو۔
”میں فریش ہوجاؤں…تم بھی ریڈی ہوجاؤ…چلتے ہیں“
”کہاں …“نوشی نے پوچھا۔
”بتاتی ہوں سب بتاتی ہوں تم ریڈی ہوجاؤ“
توشی یہ کہہ کر واش روم میں چلی گئی نوشی نے وارڈ روب کھولی اور کپڑے دیکھنے لگی اور تیز رنگوں والا ایک سوٹ نکال کر پہن لیا اور اس کے اوپر ہلکا میک اپ بھی کرلیا۔
توشی کمرے میں واپس آئی تو نوشی موجود نہیں تھی اس نے اِدھر اُدھر دیکھا ٹیرس پر گئی تو نوشی بلال کے روم کی طرف دیکھ رہی تھی۔
عابد پروین کی آواز واضع سنی جارہی تھی۔
’کہیں وہ بادشاہ تخت نشین…کہیں کاسہ لیے گدا دیکھا۔ ‘
بلال کے کمرے کا ریلنگ والا شیشے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور وہ دیوان پر ایک بادشاہ کی طرح تخت نشین اور دائیں ہاتھ میں ایک موٹی سی کتاب مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی شریف لیے بیٹھے تھا۔ دور سے دیکھو تو ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی بادشاہ تخت پر کاسہ لیے بیٹھا ہو اور اپنے اللہ سے مانگ رہا ہو۔
مثنوی اس کے دائیں ہاتھ میں ایسے محسوس ہورہی تھی جیسے فقیر کا قاصہ ہو اور اس کا بیٹھنا بائیں بازو کو دیوان کے ساتھ ٹیک لگائے ٹانگ کے اوپر ٹانگ ۔ دراز قد، گوری رنگت، سیاہ کالے گھنگھریالے بال۔
’کہیں وہ در لباس معشوقہ۔ برسرناز اور ادا دیکھا۔ ‘
وہ سفید لباس میں ملبوس اوپر کالی گرم چادر لیے ہوئے بیٹھا تھا، وہ سامنے لگی وال کلاک کو دیکھتا ہے اور اٹھ کر میوزک بند کرتا ہے اور واش روم میں چلا جاتا ہے۔
”چلو آؤ…عشا کی اذان کا وقت ہوگیا ہے…وہ وضو کرے گا…اور مسجد جائے گا…نماز پڑھنے کے لیے…“توشی پیچھے کھڑی بول رہی تھی ۔ نوشی دم بخود حیرت میں مبتلا تھی اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے توشی کو دیکھ رہی تھی۔
”تم اندر آؤ مجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں“توشی بولی۔ اور کمرے میں واپس آگئی اور نوشی اس کے پیچھے ہولی۔
”ادھر صوفہ پر آجاؤ“توشی بولی نوشی اور توشی صوفہ پر آمنے سامنے بیٹھ گئیں۔
”دیکھو…نوشی…بلال بہت اچھا لڑکا ہے …وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے …اس کو دیکھ رہی ہوں … جتنی محبت وہ تم سے کرتا ہے …اس سے بہت زیادہ میں اس سے کرتی ہوں…“وہ رکی، ٹھنڈی سانس لی اور دوبارہ بول پڑی۔ نوشی اسے دیکھ رہی تھی
”مگر…اس نے کبھی بھی مجھے اس نظر سے نہیں دیکھا…تمہیں یاد ہے …اتوار والے دن جب تم اس کے کمرے میں آئی تھیں، میں نے اس کی آنکھوں میں سب کچھ دیکھا، سوائے اس کے جس کی مجھے تلاش تھی“ توشی کی آنکھیں چمک رہی تھیں، نمکین پانی سے…وہ پھر بولی۔
”سچ کہوں تو …نمونہ ہے…نمونہ…کاش مجھے بھی ایسا نمونہ مل جائے“توشی نے نوشی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا۔
”میں تمہاری بہن ہوں اصل زندگی والی، ڈراموں والی بہن نہیں کہ اپنے ہی جیجا جی پر نظر رکھوں…شاید ایسا ہوتا بھی …مگر بلال کے ساتھ رہ کر تھوڑا بہت سیکھا ہے۔ محبت چھینی نہیں جاتی بلکہ دی جاتی ہے ۔ “
”تم نے مجھے…کچھ بتایا کیوں نہیں…“نوشی بچے کی طرح بولی۔
”بتایا…سب کچھ بتایا…مگر تم نے سنا ہی نہیں “
”بلال کہتا ہے …محبت اور قابلیت کو سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی “
”ہے تو وہ نمونہ ہی…تبھی تو سردی میں دروازہ کھول کر بیٹھا ہوا تھا “نوشی مسکرا کر بولی جیسے کچھ دیکھ رہی ہو، خیالوں ہی خیالوں میں……
”نہیں وہ نمونہ نہیں ہے اسے رات کی رانی کی خوشبو بہت پسند ہے…اس لیے ٹیرس کا دروازہ کھول دیتا ہے…اس کے ٹیرس پر دو بڑے بڑے گملوں میں رات کی رانی لگی ہوئی ہے …“
”تم جلدی سے تیار ہوجاؤ…“توشی نے حکم صادر کیا۔
”تیار تو ہوں…“نوشی نے کپڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔
”آج تم میری مرضی کا لباس پہنوگی“توشی نے پھر سے حکم صادر کیا۔
”یہ پہنوں …یہ والا…“وہ اٹھی وارڈ روب سے کپڑے نکال کر اس کے سامنے بیڈ پررکھ دیے مگر ہم کہاں جا رہے ہیں“نوشی تشویش سے پوچھ رہی تھی۔
”Waar Movieدیکھنے…ڈئں…ڈئں…ڈاڈاں…ڈاڈاں“توشی نے اپنے بیگ سے تین ٹکٹیں ہوا میں لہرادیں۔
”میں اور آپ اور وہ “توشی شرارتی انداز میں بولی۔
”وہ کون…“نوشی بھولی بچی بنی پوچھ رہی تھی ۔
”وہ…وہ…وہ…“ہونٹوں کی سیٹی بناکر بولی۔
”رات کی رانی والا…راجہ بلکہ جیجا…جیجا…جیجا“
”سچ کہوں تو میں آج بہت خوش ہوں تمہارے اور بلال کے لیے …“وہ بیڈ پر سیدھی لیٹ گئی اور اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی پر رکھے اپنے دل کی دھڑکن سن رہی تھی…
”تم دونوں کی جوڑی بہت خوبصورت لگے گی…اللہ نظر بد سے بچائے…“نوشی اب تک صوفے پر بیٹھی ہوئی خوش ہورہی تھی اپنی خوشی سے زیادہ توشی کو دیکھ کر جو خوشی سے پھولی جارہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ بلال کے کمرے کے دروازے پر دستک دے رہی تھی، کوئی رسپانس نہیں ملا تو دروازے کو دھیرے سے کھولا اور ہولے سے اندر داخل ہوئی کمرے میں روشنی بہت کم تھی، صرف اوپن کچن کا ایک انرجی سیور روشن تھا، کمرہ رات کی رانی کی خوشبو سے مہک رہا تھا اور اس کی فضا میں بلال کی سانسوں کی مہک بھی تھی، اس نے کمرے کی لائٹ On کی کمرہ چمک رہا تھا ہر چیز اپنی جگہ پر نفاست سے رکھی ہوئی تھی۔
وہ سیاہ رنگ کا چوڑی دار پائجامہ اور سیاہ فراق جس کے گلے پر سرخ رنگ کا تھوڑا سا کام ہوا تھا ۔ پاؤں میں ملتانی کھسہ اور گلے میں لمبا سا ڈوپٹہ گلے سے پیچھے کی طرف لٹکا ہوا تھا، ڈوپٹے کے نیچے کھلی سی سیاہ جرسی جس کے سارے بٹن کھولے ہوئے تھے وہ کسی ماڈل کی طرح کیٹ واک کرتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی، اس کے بائیں ہاتھ میں اپنا Phone تھا۔
ڈوپٹے کا ایک پلو ماربل کے براؤن فرش سے دست و گریباں ہورہا تھا۔ وہ آئی اور اس نے اپنی براؤن آنکھوں سے سارے کمرے کا جائزہ لیا، کتابوں کا آشیانہ اس کی نظر وہاں ٹھہری، وہ پاس گئی۔”وہ کتاب کہاں ہے…“۔ دل میں سوال کیا اور دماغ سے پوچھا اسے یاد آیا موٹی تھی اور کلر کون سا…مل گئی…ہاتھ آگے بڑھے اور اس نے کتاب، کتابوں کے درمیان سے نکالی کچھ صفحے پڑھے، وہ مثنوی کا اردو ترجمہ تھا۔
اردو تو وہ پڑھ لیتی تھی مگر وہ تحریر اس کی عقل و دانش سے ماورا تھی، اس نے کتاب کو اسی جگہ رکھ دیا…وہ مڑی اور اس جگہ کو دیکھا جہاں وہ بیٹھا ہوا تھا …وہ چلی…اور اسی جگہ بیٹھ گئی…دیوان پر…اسی انداز میں…اس نے گردن موڑی اور اپنے ٹیرس کو دیکھنے لگے… مگر …سی گرین کلر کے پردوں نے اس کی نظر کا راستہ روکا…وہ اٹھی اور پردوں کو پیچھے ہٹایا…ریلنگ ڈور کھولا…اور واپس اسی انداز میں آکر بیٹھ گئی …پھر دوبارہ گردن گھمائی اور اپنے ٹیرس کی طرف دیکھا…وہاں اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔
دماغ نے اسے بتایا…نہیں نہیں…واپس دیکھو…پھر سے اس نے نظر دوڑائی …یہ وہاں کون ہے…اور اس طرف کیوں…بے قراری اور یکسوئی سے دیکھ رہی تھی بے قراری اس کے جسم میں تھی اور یکسوئی نظروں میں اس نے انگشت شہادت اس طرف کرتے ہوئے خود سے پوچھا …
”یہ کون ہے…“جانچتی نگاہوں سے وہ اٹھی اور بلال کے ٹیرس پر چلی گئی اور سامنے دیکھنے لگی …اس کے دونوں ہاتھ سلور کے گول راڈ پر تھے…جوکہ ٹیرس کی دیوار پر لگا ہوا تھا…اوپر کی طرف۔
”یہ…یہ…میں ہوں…یہ کیسے ہوسکتا …میں خواب دیکھ رہی ہوں…یا میں پاگل ہوچکی ہوں “ موبائل شور مچادیتا ہے …جوکہ دیوان پر پڑا ہوا تھا…وہ مڑتی ہے…اور موبائل کی طرف دیکھتی ہے ایک نظر واپس اپنے ٹیرس پر…اب وہاں کوئی نہیں تھا۔
اس کے قدم رک جاتے ہیں…اچانک اس کی نظر رات کی رانی کے دونوں گملوں پر پڑتی ہے …جو دائیں بائیں پڑے ہوئے تھے۔
رات کی رانی …کا راجہ…توشی کا جملہ اس کے کانوں میں گونجتا ہے۔ موبائل دوبارہ سے بول اٹھتا ہے…وہ کمرے میں آتی ہے اور موبائل سے کال ریسیو کرتی ہے۔
”Where Are you? “توشی بول رہی تھی دوسری طرف سے۔
”دادو کے کمرے میں آجاؤ میں یہاں ہوں اور بلال صاحب بھی آچکے ہیں “توشی نے تفصیل بتادی۔ اس نے کال رسیو کرنے کے بعد ۔
”میں پاگل ہو گئی ہوں “خود سے کہا اور موبائل اپنی پیشانی پر لگایا بایاں ہاتھ اپنی کمر پر رکھا اور ارد گرد نظر دوڑائی ٹیرس کا دوازہ بند کیا پردے اسی طرح سیٹ کیے لائٹ بند کی اور کمرے سے نکل گئی ۔
چند منٹ بعد وہ دادی کے کمرے میں تھی۔ توشی موبائل کے ساتھ مصروف تھی اور بلال مصروف تھا۔ گپ شپ میں نانی کے ساتھ۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوتی ہے تو نظریں ٹکراتی ہیں، چند لمحوں کے لیے …نوشی نے اپنے گولڈن بال گالوں سے اٹھاکر کان کے پیچھے کیے اور آکر توشی کے پہلو میں بیٹھ گئی اسی انداز میں، ایک جیسا لباس، دونوں بہنوں کااگر بالوں کا فرق نہ ہو تو پہچان کرنا مشکل تھا، دونوں بہنوں میں…
”ماشاء اللہ …ماشاء اللہ …اللہ نظر بد سے بچائے “جہاں آرا بیگم، آنکھوں میں چمک اور الفاظ میں مٹھاس لیے بول پڑی تھیں۔
”کہیں جارہی ہو …تم دونوں “دادی نے پوچھا۔
”ہاں پروگرام تو ہے…اگر بلال صاحب مان جائیں …“توشی ٹھہر ٹھہر کر بول رہی تھی۔ شرارتی آنکھوں کے ساتھ ۔ بلال اس کی طرف متوجہ ہوگیا اس نے اپنے بیگ سے ٹکٹیں نکالیں اور بلال کو آنکھوں سے اشارہ کیا، میں آپ اور یہ اپنے پہلو کی طرف اشارہ کیا۔
”بلال چلوگے ناں“توشی اپنی زباں کو تالو سے لگاکر بولی۔
بلال خاموشی سے اس کو دیکھ رہا تھا اور نوشی بلال کو دیکھ رہی تھی۔ دادی ان سب کو دیکھ رہی تھیں۔
”چلے جاؤ بیٹا“نانی نے مشورہ دیا۔
”وہ…میں…“بلال کے پاس الفاظ ختم ہوگئے تھے۔
”چلیے نا …“نوشی نے اپنی گردن جھکا کر کہا
چلیے نا …چلیے نا …حکم تھا …عرضی تھی…یا فرمائش…بلال کو سمجھ نہیں آیا…مگر جو بھی تھا جانے کے لیے کافی تھا۔
آدھا گھنٹہ بعد وہ تینوں پورچ میں تھے، بلال نے اپنا پسندیدہ ڈریس پہنا وائٹ شرٹ لائٹ اسکائی بلوجینز اور اوپر بلیک کوٹ بالوں میں انڈونیشیا کی بنی ہوئی Jony Andrean کریم لگائی جو کہ اسے بہت پسند تھی۔ اور اپنا پسندیدہ عطر عود بھی لگایا تھا۔
وہ بہت ڈیسنٹ لگ رہا تھا۔
”جانا کہاں ہے “بلال نے پوچھا۔
”یہ لالک Round Aboutکے آگے جو سینما ہے وہاں“توشی نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا ”یہ پاس ہی تو ہے دس منٹ کی واک ہے “نوشی کی طرف دیکھ کر بولی ۔
”As you like“نوشی نے جواب دیا۔
”کتنے بجے کا شوہے “بلال نے پوچھا۔
”ساڑھے دس بجے والا۔“توشی نے بتایا۔
”واپسی تک ڈیڑھ دو بج جائیں گے…سردی بھی ہے…اور حالات تو…“بلال نے اپنا نقطہ نظر بیاں کیا۔
”تو پھر گاڑی پر چلتے ہیں “توشی نے فیصلہ سنادیا”مگر Key تو DJ کے پاس ہے میں لے کر آتی ہوں نہیں فون کردیتی ہوں وہ آجاتا ہے“
”آپ کی گاڑی میں چلیں“نوشی بولی جیسے فرمائش کر رہی ہو۔
توشی نے حیرت سے اپنی بہن کو دیکھا جو کل تک اس گاڑی کو جلانے کی بات کرتی تھی اب اس میں بیٹھنے کی بات کر رہی تھی۔
”ضرور…مگر…آپ میری گاڑی میں“بلال حیرت سے بولا۔
”چلتی تو ہے نا …“نوشی جذب و مستی سے بولی بلال کو دیکھ کر۔
”آج تو ضرور چلے گی “بلال نے جواب دیا۔
بلال کی گاڑی Toyota Land Cruiser 1988گرے کلر میں ماڈل پرانا تھا، مگر گاڑی اندر باہر سے صاف ستھری۔ نوشی کو اس گاڑی سے نفرت تھی وہ اکثر کہتی میرا بس چلے تو میں اس کھٹارا کو آگ لگادوں۔ توشی بیک سیٹ پر بیٹھ گئی اور نوشی فرنٹ سیٹ پر بلال کے ساتھ۔ گاڑی گیٹ سے باہر تھی گاڑی میں خاموشی تھی۔
”کوئی گانا شانا لگادو“توشی نے خاموشی توڑی اور فرمائش کردی ۔
’وہ آکے پہلو میں ایسے بیٹھے کہ شام رنگین ہوگئی ہے ‘
لتا جی کی مسحور کن آواز نے کانوں کے پردوں پر میٹھی سی دستک دی اور ان کا ساتھ شبیر کمار بخوبی دے رہے تھے۔ میوزک ڈائریکٹر لکشمی کانت پیارے لال کی یہ دھن فلم غلامی سے تھی۔ مگر ان سب خوبیوں کے باوجود بلال اسے صرف گلزار صاحب کی وجہ سے سنتا تھا کیونکہ یہ گلزار صاحب کا لکھا ہوا تھا، بلکہ اس USB کے سارے گانے ہی گلزار صاحب کے لکھے ہوئے تھے۔
’ذرا ذرا سی کھلی طبیعت ذرا سی غمگین ہوگئی ہے ‘
یہ شام نہیں تھی …بلکہ رات تھی۔ محبوب پہلو میں ہو تو کیا شام اور کیا رات تب تو اندھیرے بھی رنگین ہوجاتے ہیں۔ پانچ منٹ سے پہلے ہی وہ سینما کی پارکنگ میں تھے ہینڈ بریک کھینچتے ہوئے بلال کا ہاتھ غیر ارادی طور پر نوشی کے ہاتھ سے ٹکراگیا۔ نوشی نے فوراً بلال کی طرف دیکھا بلال بھی اسے دیکھ رہا تھا…نوشی کے لبوں پر جان لیوا مسکراہٹ تھی۔
بلال نے منہ میں Sorryکہا آواز نہیں نکلی مگر نوشی نے سن لیا۔ نوشی نے جاذبیت سے بلال کے رخ پر نور کو دیکھ کر دلفریبی سے مسکرائی پھر اپنی نظریں جھکالیں۔
یہ شرم ہے …یا حیا ہے …کیا ہے …نظر اٹھاتے ہی جھک گئی ہے ۔ گانا تو ختم ہوچکا تھا مگر محبت کی کہانی دوسری طرف سے اب شروع ہوئی تھی ۔ نوشی کی طرف سے، بلال تو بچپن ہی سے اسی کا تھا۔
”چلو اُترو بھی فلم شروع ہوجائے گی “توشی چلا رہی تھی ۔
”ابھی پانچ منٹ باقی ہیں“بلال نے بتایا۔
”اندر جانے میں بھی تو ٹائم لگے گا“توشی بول رہی تھی ۔
چند منٹوں بعد وہ ڈیفنس کے سینما ہال کے اندر تھے۔ دونوں بہنیں بلال کے ساتھ بیٹھنا چاہتی تھیں، اس لیے بلال خود ہی سینٹر میں بیٹھ گیا…ہاف ٹائم میں بلال نے دونوں سے پوچھا کچھ لاؤں کھانے کے لیے ۔ توشی بولی”مجھے تو کچھ نہیں چاہیے“بلال نے نوشی سے پوچھا۔
”Popcornصرف“نوشی نے دھیمی آواز میں کہا۔
تھوڑی دیر بعد بلال دو پاپ کارن کے پیکٹ اٹھائے ہوئے واپس اپنی سیٹ پر تھا۔ فلم شروع ہوچکی تھی لائٹ بند۔ بلال غور سے فلم دیکھ رہا تھا۔ اس کے دائیں ہاتھ پر نوشی نے بایاں ہاتھ رکھا اور اس کے کان میں سرگوشی کی ۔
”Popcornکھاؤ نا“
بلال جب بھی Popcorn اٹھاتا اس کا ہاتھ نوشی کے ہاتھ سے ٹکراجاتا جوکہ نوشی اپنی مرضی سے کر رہی تھی، اسے بلال کو چھونا اچھا لگ رہا تھا…فلم ختم ہوگئی۔
تالیاں، سیٹیاں، تعریفی جملے، تبصرے، اردو میں ہونی چاہیے تھی مگر پھر بھی زبردست، یقین نہیں آرہا یہ پاکستانی فلم، ایسا لگا HollyWood کی کوئی Movieدیکھ رہے ہیں، Nice Movie, Action Too Much, Very wellہال میں جنتے لوگ تھے، سب کی اپنی اپنی رائے تھی، باہر آتے آتے، کئی تبصرے اور تعریفیں کانوں میں پڑیں مگر یہ تینوں خاموش تھے۔ گاڑی میں بیٹھ کر توشی پھر سے بولنے میں بازی لے گئی۔
”کوئی اور پروگرام کریں، آئس کریم کھانے چلتے ہیں“توشی کا مشورہ آیا۔
”اس وقت بہت دیر ہوجائے گی“نوشی نے کہا”اور آئس کریم کا موڈ بھی نہیں ہے…ہاں اگر کافی ہوجائے تو…مزہ آجائے…“
”کافی…کافی…کہاں سے …ہاں یاد آیا…بلال صاحب پلائیں گے اپنے ہاتھوں سے بناکر …نوشی تمہیں پتہ ہے…بلال بڑی مزیدار کافی بناتا ہے“توشی نے سارے فیصلے خود ہی کرلیے تھے۔
بلال گاڑی اسٹارٹ کرتا ہے۔
”اب ایسا کرو ایک نیا گانا لگاؤ اگر راحت کا ہو تو کیا بات ہے “توشی پھر سے انسٹرکشن دے رہی تھی ایک ڈکٹیٹر کی طرح۔
’ایسی الجھی نظر ان سے ہٹتی نہیں دانت سے ریشمی ڈور کٹتی نہیں‘
راحت فتح علی خاں کی دلفریب آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔
دھند کی وجہ سے ونڈ اسکرین سے کچھ نظر نہیں آرہا تھا مگر بلال ایک ماہر ڈرائیور کی طرح گاڑی احتیاط سے چلا رہا تھا۔
گاڑی بہت آہستہ آہستہ چل رہی تھی، دھند اتنی زیادہ تھی کہ باہر کچھ نظر نہیں آرہا تھا، ایسے محسوس ہورہا تھاجیسے بادلوں کے درمیان سے جارہے ہوں، بلال جہاز اڑا رہا ہو اور نوشی اس کے پہلو میں بیٹھی ہو اوپر سے راحت کی آواز کا جادو جیسے نوشی کے دل کا ہی حال بیان کر رہا ہو، گانا ختم ہوتا ہے، نوشی دوبارہ Playکرتی ہے، ایک دفعہ پھر وہی آواز کا جادو نوشی کو ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے وہ کسی اور دنیا میں ہو۔
’واللہ یہ دھڑکن بڑھنے لگی ہے چہرے کی رنگت اڑنے لگی ہے‘
’ڈر لگتا ہے تنہا سونے میں جی دل تو بچہ ہے جی ‘
نوشی نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا اور دھڑکن محسوس کرنے کی کوشش کی دھڑکن تو تھی مگر دھک…دھک …کی بجائے …بلال …بلال…کی صدا تھی اس نے مخمور نگاہوں سے بلال کو دیکھا جو گاڑی چلانے میں مصروف تھا۔
(میرا دل آج اس کا نام کیوں لے رہا ہے، کیوں…دھک دھک نہیں کر رہا…اس نے دل کی گستاخی دل ہی سے پوچھی…اس نے دل سے کہا تم اصولوں کو توڑ رہے ہو۔ تم میرے تابع ہو میرا حکم مانو اور دھک دھک کرو اس کا نام لینا بند کرو…ورنہ…میں تمہیں…سزا دوں گی…)
دل مسکرا کر بولا۔ (نسیم جمال تمہاری بھول ہے میں تمہارا غلام نہیں ہوں ہم سے تم ہو …تم سے ہم نہیں۔
رہا سزا کا سوال…تو وہ بھی ہم ہی دلواتے ہیں…ہمیں اس مالک کے علاوہ کوئی سزا نہیں دے سکتا، اسی خالق کے حکم سے ہم دھڑکتے ہیں اور اسی کے حکم سے ہماری دھڑکن بند ہوتی ہے۔ ہاں میری ایک نصیحت یاد رکھنا …دل نے کہا نوشی کو چپکے سے ایک دانشور کی طرح صوفی کی طرح اور ایک درویش کی طرح…میں بہت گہرا ہوں…بڑا ہوں…وسیع ہوں…اللہ کی شان ہے…
دنیا کے سارے راز مجھ میں سماسکتے ہیں دنیا کے سارے علوم میں جذب کرسکتا ہوں مگر میں محبت اور شک میں سے صرف ایک کو رکھتا ہوں…آج بلال کی محبت ہے، اگر شک آیا تو، پھر محبت چلی جائے گی …)
دل کی دو ٹوک، کھری کھری، سچی اور حقیقت پر مبنی باتوں نے نوشی کے ہوش ٹھکانے لگادیے۔
گیٹ پر ہارن بجتا ہے دروازہ کھلتا ہے، بلال کی گاڑی اندر پورچ میں کھڑی ہوجاتی ہے۔ پانچ منٹ کا فاصلہ دس منٹ میں طے ہوتا ہے۔تھوڑی دیر بعد وہ تینوں بلال کے روم میں تھے۔
”اب جلدی سے کافی پلادو اور ہاں ہیٹر بھی جلادو…بہت سردی ہے…اور یہ دھند…کل تو چھٹی پکی…کسٹمر کدھر نکلتا ہے۔ ایسی دھند میں“بلال خاموشی سے توشی کی بک بک سن رہا تھا اور نوشی ٹک ٹکی باندھے بلال کو دیکھ رہی تھی، توشی بلال کے بیڈ پر بیٹھ گئی اور نوشی اسی جگہ دیوان پر بیٹھی جہاں بلال بیٹھا تھا، بلال ہیٹر جلاچکا تھا اور کافی بنانے میں مصروف تھا۔
”ہائے اللہ …عائشہ خان کی آنکھیں…اور حمزہ علی عباسی کی Smile…اور شان …کی کیا بات ہے…واقعی شاندار ہے…مزہ آگیا“توشی فلم پر تبصرہ کر رہی تھی، نوشی کی طرف دیکھ کر جوکہ چور نگاہوں سے بلال کو دیکھ رہی تھی، توشی مسلسل فلم کی باتیں کر رہی تھی مگر نوشی سنی ان سنی کر رہی تھی،اسے کچھ یاد نہیں توشی نے کس کے بارے میں کیا کہا، چند منٹ بعد بلال ان کو کافی پیش کر رہا تھا۔
توشی کو اس نے چھوٹی ٹرے میں کافی اور بسکٹ بیڈ پر ہی دے دیے اور نوشی کو دیوان پر بڑی ٹرے رکھ دی جس میں دو مگ او ر بسکٹ تھے بلال نے کرسی پکڑی اور بیٹھ گیا۔
”تمہیں فلم کیسی لگی…نوشی…“توشی بسکٹ منہ میں ڈالے بول رہی تھی۔
”مزیدار…سویٹ…“نوشی کافی کا سپ لیتے ہوئے بلال کی طرف دیکھ کر بولی ۔
”تم کافی کی بات کر رہی ہو یا فلم کی “توشی نے وضاحت مانگی ۔
نوشی نے اپنے آپ کو کنٹرول کیا اور وضاحت پیش کی۔
”کافی واقعی بہت مزیدار ہے فلم بھی بہت اچھی تھی “
”کس کاکام تمہیں سب سے اچھا لگا “توشی نے پوچھا نوشی سے ۔
”مجھے…مجھے تو سچی …میشا شفیع اور شمعون عباسی کا کام بہت اچھا لگا اور خاص طور پر ان دونوں کا ڈانس“
”تمہیں ہمیشہ یہ Bad Men ہی کیوں اچھے لگتے ہیں ہمیشہ ولن پسند کروگی“توشی اپنی بہن کی پسند سے متفق نہیں تھی اور ناراضی کا اظہار کر رہی تھی۔
”توشی جی …فلم کی بات ہورہی ہے آپ اس نقطہ نظر کوسمجھیں اور بس“
بلال کو معلوم تھا کہ یہ دونوں کافی دیر سے لڑی نہیں ہیں کہیں یہیں ہی شروع نہ ہوجائیں۔
”ویسے آپ نے نہیں بتایا آپ کو کس کا کام پسند آیا“نوشی اپنا پسندیدہ بسکٹ ہاتھ میں لیے ہوئے بلال سے پوچھ رہی تھی۔
”بلال کا کام سب سے اچھا تھا“بلال نے کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے جواب دیا۔
”یہ لو…ان کی سنو …یہ اپنی ہی تعریفیں کرنے شروع ہوگئے“توشی نے دایاں ہاتھ بلال کی طرف لہراتے ہوئے تبصرہ کیا تھا۔
”تم بھی ایک نمبر کی ڈفر ہو بس بک بک سن لو ان کی “نوشی نے توشی کو کھری کھری سنادیں۔
”اب کیا میں نے بول دیا…جو اتنا بھڑک رہی ہو“توشی معصومیت سے بولی۔
”میں بلال لاشاری کی بات کر رہا تھا “بلال نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
”As a Directorاس کا کام اچھا تھا، اور Cinematography میں تو اس نے کمال ہی کردکھایا جتنی تعریف کی جائے کم ہے…“سب کافی ختم کرچکے تھے۔
”چلو شاباش اٹھو…پہلے ہی بڑی دیر ہوگئی ہے “توشی نے چٹکی بجاتے ہوئے حکم دیا وہ دونوں کمرے سے باہر نکل آئیںِ ،توشی آگے تھی اور نوشی پیچھے کمرے کے دروازے سے نکلتے ہوئے نوشی نے جھوم کر پیچھے کی طرف دیکھا…
جیسے ان لمحوں کو اپنی آنکھوں سے اپنے دماغ کے خزانوں میں محفوظ کر رہی ہو۔
بلال بھی اسے دیکھ رہا تھا نوشی اپنے پورے چہرے کے ساتھ مسکرائی ۔ بلال نے صرف تبسم پر اکتفا کیا۔ وہ جاچکی تھی۔
ذرا ذرا سی کھلی طبیعت…ذرا سی غمگین ہوگئی ہے…
کوئی ڈر…خوف… پریشانی…خدشہ تھا… کوئی کھٹکا سا تھا… بلال کا دل خوش تھا پریشانی دماغ کو تھی۔
”تم یہ جو ہر وقت برے لوگوں کی تعریفیں کرتی رہتی ہو…ہمیشہ تمہیں ولن گروپ ہی کیوں اچھا لگتا ہے “توشی اپنے کمرے میں پانی پیتے ہوئے بول رہی تھی، وہ اپنے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی لے کر کھڑے کھڑے غناغٹ پی گئی، نوشی تکیہ لیے ہوئے دائیں ہاتھ کو گردن کے نیچے رکھے ہوئے آدھی لیٹی آدھی بیٹھی بول پڑی۔
”مجھے بھی پانی دینا“
”یہ لو ڈارلنگ “توشی نے پانی کا گلاس تھماتے ہوئے کہا
”بھر کے تو دیتی…یہ تو آدھا خالی ہے…“نوشی پانی پیتے ہوئے بول رہی تھی۔
”یہ لو…نوشی جی…اتنی سردی میں…پورا گلاس پاگل ہو“
”کسی بھی کہانی میں اگر ولن نہ ہو…تو کہانی ادھوری ہے …ولن ہی تو کہانی میں ٹوئسٹ لاتا ہے…تم نے آج دیکھا نہیں…شمعون نے شان کو کیسا وخت ڈالا ہوا تھا“نوشی پانی پی کر توشی کو گلاس تھماتے ہوئے بول رہی تھی ۔
”یہ لو…او…ولن کی ویم…کھل نائیک کی کھل نائیکہ…اب سو بھی جاؤ“توشی کمرے کی لائٹ بند کرتے ہوئے بول رہی تھی اور کمبل سیدھا کیا اور لیٹ گئی۔
”اگر آج تم نے کمبل کھینچا تو…اسی وقت لگادوں گی…مجھے تو یہ ڈر ہے اصل زندگی میں کسی ولن کے ہتھے نہ چڑ جانا“
###
”ہم جیسے نہ ہوں تو ان امیر زادیوں کا پیسہ کون کھائے گا“ہاتھ میں ویسکی کا گلاس اور منہ میں PopCorn ڈالتے ہوئے اور ساتھ ویسکی کی چسکی لگاتے ہوئے ولید ہاشمی کہہ رہا تھا۔
عالیہ زی کو دیکھ کر۔
”چلو اوپر چلتے ہیں میرے سر میں شور کی وجہ سے درد ہورہا ہے“ارم واسطی بولی۔
یہ مشہور Fashion Designer عالیہ زی کی پارٹی تھی، رات کے اس پہر سارے تھرکتے بدن تھک چکے تھےDJنے شاید ہی کوئی ڈانسنگ نمبر چھوڑا ہو، اس بڑے سے بیسمنٹ ہال میں کمال کی لائٹنگ تھی جو کہ گانے کے موڈ اور میوزک کے مطابق ہوتی۔ ایک سائیڈ میں چھوٹا سا Pubb اور اس کے ساتھ کونے میں DJ کا سیٹ اپ تھا۔
عالیہ زی اس شہر کی ایک مشہور ڈیزائنر ہے اس کے کپڑوں کی طرح اس کی پارٹی بھی شاندار ہوتی ہے Westernرنگ میں رنگی ہوئی شراب، کباب، میوزک اور وہ سب کچھ جو اس طرح کی پارٹیوں میں ہوتا ہے۔ اس بڑے سے فارم ہاؤس کی چھت پر بھی عجیب منظر تھا، ایک طرف باربی کیو کا پروگرام مٹن، چکن، فش اور کباب کولڈ ڈرنک اور سویٹس اور دوسری طرف شیشہ پینے والے اور چرس کے شوقین ٹیبلوں پر ڈیرے ڈالے ہوئے تھے، ایلیٹ کلاس کے سارے لو برڈز موجود تھے اور کچھ کوّے بھی تھے جو ہنس بننے کی کوشش میں تھے کئی مشہور ایکٹریس ، بیوروکریٹس کلاس کے لوگ ، بزنس کمیونٹی کے لوگ، مشہور ماڈلز، سیاسی لوگوں کے چیلے ، کچھ لوگ اپنے کارڈ بانٹ رہے تھے اور کچھ دوسروں کے وزٹنگ کارڈ اکٹھے کر رہے تھے کہیں فوٹو سیشن چل رہا تھا اور کچھ لوگ مشہور ایکٹریس کو دیکھ کر پہلے اس کے کردار میں کیڑے نکالتے، پھر اسی کے ساتھ تصویر بھی بنواتے اور ساتھ ہی Facebookپر اپ لوڈ بھی کردیتے۔
کہیں بریک اپ کی باتیں اور کہیں افیئرز کے چرچے اور کچھ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال پر اپنے تبصرے پیش کر رہے تھے۔
کچھ ایسے نمونے بھی تھے جنہوں نے کھانے کو ہاتھ ہی نہیں لگایا کچھ کو فگر کی فکر ۔
”میں تو کھاکے آیا تھا بس عالیہ زی کی پارٹی تھی اس لیے حاضری لگوائی ورنہ میں تو بہت بزی تھا“ایک طرف سے آواز آئی ٹی وی کا مشہور ایکٹر تھا۔
اور کچھ ایسے بھی تھے جو زندگی کا آخری کھانا کھارہے تھے، پیٹ تو بھرگئے مگر ندیدی آنکھیں ان کا کیا کریں…
یہ ایک سرد رات تھی، پھر بھی یہ لوگ انجوائے کر رہے تھے، سردی محسوس کرنے والے آگ کی انگیٹھیوں کے گرد اور کچھ گرین فابر کی Roofکے نیچے شیشہ پینے میں مصروف تھے۔
”وہ جو اس کونے میں بیٹھا ہے بلیک لیدر کی جیکٹ میں “ارم واسطی بتارہی تھی ولید کو
”وہ جو نتاشا کے ساتھ ہے “ولید ہاشمی نے پوچھا۔
”ہاں …وہی…یہ نوشی توشی کا بھائی ہے“بڑا روپیہ ہے اس کے پاس۔
”تو چلاؤ چکر“ولید ہاشمی نے مشورہ دیا۔
”کوشش کی تھی …مگر …بات نہیں بنی…بڑا کھچرا ہے…پھر میں نے سوچا…“
”کیا سوچا تم نے “ولید ہاشمی مٹن تکہ کھاتے ہوئے بولا ”کھاؤ تم بھی Tastyہے“
”ایک پلان ہے…اگر تم تھوڑی کوشش کرو…ساری معلومات میں دوں گی…“
”اس کی بہنیں یعنی میری باس ایک بھی پھنس گئی تو کروڑوں ہاتھ لگیں گے“
”وہ کیسے…“ولید نے جلدی سے پوچھا۔
”دونوں بہنوں کے نام پر دو دو پلازے اور دو دو گھر ہیں اور بینک بیلنس بھی کروڑوں میں۔ بھائی ان کا اپنی ماں کے بغیر کچھ نہیں کرتا، سوائے عیاشی کے وہ بھی ہزاروں میں اور بس…تمہیں پتہ ہے اس کے افیئرز اس کی کنجوسی کی وجہ سے ختم ہوتے ہیں “
ارم واسطی ایسی مچھلی تھی جو کھارے میٹھے اور گدلے پانیوں کا سفر کرچکی تھی اور بڑے بڑے مگرمچھوں سے علیک سلیک تھی۔
چند سال پہلے جنوبی پنجاب دنیا پور سے لاہور آئی محبت کے جھانسے میں پھر واپس نہیں گئی۔اور ولید ہاشمی حجرہ شاہ مقیم کا رہنے والا تھا، Up Coming ماڈل لمبا قد سانولی رنگت لمبے بال اسٹائلش پرسنالٹی، وہ الُّو شاٹ کٹ سے امیر بننا چاہتا تھا۔ الُّو کی ایک اور خوبی اس میں تھی وہ اکثر پرندوں کا شکار رات کو کرتا تھا۔ ارم اور ولید ایک دوسرے کے ساتھ دو سال سے تھے، اگر وہ کسی اور کے ساتھ نہ ہوتے …تو اکٹھے ہوتے، ان کی راتیں اکٹھی گزرتیں۔ اس تعلق کو محبت کا نام دینا محبت کی توہین ہوگی، ہاں ایک بات ضرور تھی کہ وہ دونوں ایک دوسرے کی عادت بن چکے تھے۔ زندگی کا سفر ختم ہوجاتا ہے، مگر انسان کی عادتیں رستہ نہیں بدلتیں وہ زندگی کے ساتھ ہی سفر کرتی ہیں۔
###