top of page

شکیل احمد چوہان - بلال صاحب

”یہ نانو میں آپ کے لیے لایا تھااور یہ باجی غفوراں کو دے دیجیے گا “بلال نے گرم شال نانو کو پیش کی ۔ 

”یہ تو بڑی اچھی ہے…کہاں سے لی…“نانو شال کو دیکھتے ہوئے بول رہی تھیں۔ 

”کوئٹہ سے منگوائی ہے “بلال بتارہاتھا۔ 

”وہاں…کس سے …“حیرت سے پوچھا نانو نے

دروازے پر دستک ہوئی ”آجاؤ“ بلال بولا۔ 

”بیگم صاحبہ آپ کا دودھ“باجی غفوراں دودھ کا مگ ٹرے میں رکھے ہوئے کھڑی تھی۔

 

 

”یہ آپ کے لیے باجی غفوراں ہاں آپ کے لیے “بلال نے حیرت میں ڈوبی باجی غفوراں کو بتایا۔ 

”مگر…بلال بیٹا…ابھی عید پر تو تم نے کپڑے لے کر دیے تھے “

”کوئی بات نہیں آپ رکھ لو “

”وہ بیٹا میرے نواسے کو تم نے اپنے اسکول میں داخلہ دے کر بڑا احسان کیا مجھ بیوہ پر…“

”وہ لائق بچہ ہے …انشاء اللہ پڑھ جائے گا…پھر آپ کے حالات ٹھیک ہوجائیں گے، یہ جنجوعہ صاحب کے کسی دوست کے بھائی کی دکان ہے کوئٹہ میں وہاں سے منگوائی ہے اچھا نانو…اجازت دیں…مجھے اسکول سے دیر ہورہی ہے“

بلال نے جانے سے پہلے نانو سے پیار لیا اور وہاں سے چلا گیا۔

 

 

 

 

”میں واری میں صدقے اللہ کی قسمیں بیگم صاحبہ اللہ مجھے ایک ایسا پتر دے دیتا…ان تین مسٹنڈوں سے “باجی غفوراں بلال کے جانے کے بعد بولی۔ 

”نا۔ نا۔ غفوراں ایسی باتیں نہیں کرتے…دعا کر اللہ تیرے بیٹوں کو ہدایت دے “جہاں آرا نے سمجھایا۔ 

###

فون پر Ringہوتی ہے بلال فون ریسیو کرتا ہے 

”کہاں ہو…“توشی فون کی دوسری طرف سے بولی۔

 

 

”آفس میں…“بلال نے جواب دیا۔ 

”کب تک آؤ گے “

”اُسی وقت …خیریت ہے؟ “

”ایک تو کام ہے …اور ایک گلہ بھی…تم آتے ہو…تو پھر بات ہوتی ہے …اوکے بائے۔ Take Care“ توشی نے فون بند کر دیا۔

فوزیہ آج صبح ہی سے بہت خوش تھی اور سارے کام فٹافٹ کر رہی تھی اور آج اس نے وہی بلوچی فراق پہنی ہوئی تھی جو بلال نے اسے گفٹ کی تھی

”سر…یہ آپ کے لیے …“ٹفن کا ایک ڈبہ اس نے بلال کے سامنے رکھ دیا۔

 

 

”کیا ہے …اس میں…“بلال نے پوچھا۔ 

”سر …میں نے کھیر بنائی تھی آپ کے لیے …خالص دودھ کی ہے …پیکٹ سے نہیں بنائی…بادام اور کاجو بھی ڈالے ہیں…لیاقت علی نے شارجہ سے بھیجے تھے…“فوزیہ اپنی بنائی ہوئی کھیر کی خوبیاں بیان کر رہی تھی۔ 

”اور کچھ تو نہیں ڈال دیا اس میں …آخر تم میرے سارے رازوں سے واقف ہو “بلال نے شرارتی انداز میں کہا۔

 

 

”سر…قسم سے …آ پ میرے بارے میں ایسا سوچتے ہیں “فوزیہ معصومیت سے بولی۔ 

”ہاں تو …تمہارا کیا بھروسہ…ویسے بھی تو تم ساری باتیں دوسروں کو بتاتی ہو “بلال کھیر کھاتے ہوئے بول رہا تھا۔ 

”سر…قسم سے…میں نے کچھ نہیں بتایا کسی کو“فوزیہ بھولی سی صورت بناکر بولی۔ 

”وہ جو …فرح بھابھی کو طارق رامے کے قصے سناتی ہو…وہ کیا ہے …“

”سر…قسم سے …وہ تو ایسے ہی زبان پھسل گئی تھی …ویسے سر آپ کو کیسے پتہ چلا “

”فرح بھابھی نے جنجوعہ صاحب سے بات کی اور جنجوعہ صاحب نے مجھ سے “

”اور تم توشی کو بھی ساری رپورٹ دیتی ہو…میرے بارے میں “

”سر…وہ تو میری فرینڈ ہے…Facebook پر بات ہوجاتی ہے “

”ٹھیک ہے …ضروربات کرو…مگر آفس کی نہیں…اور نہ ہی میرے متعلق “

”سر…قسم سے …توشی بڑی چالو ہے …باتوں باتوں میں پوچھ لیتی ہے “

”فوزیہ جی …آفس کی بات باہر نہ کرو…اور گھر کی بات آفس میں نہ ہو “

”آفس کو آفس میں چھوڑ کر جاؤ …اور گھر کو گھر چھوڑ کر آؤ “

فوزیہ نے چترائی سے بات بدلی۔

 

 

”سر…آپ کو پتہ ہے …جنوری میں لیاقت علی دو مہینے کی چھٹی پر آرہا ہے اس کے آنے کے ایک ہفتہ بعد ہماری شادی ہے “

فوزیہ نظریں جھکائے اور شرمائی ہوئی ساری تفصیل دے رہی تھی ۔ 

”اچھا …اچھا اسی لیے کھیر بنائی تم نے …“

”سر…ایک اور بات…مجھے دو مہینے کی چھٹی بھی چاہیے “

”کب سے …کب تک “بلال مسکراتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔

 

 

”لیاقت علی کے آنے سے ایک دن پہلے سے اور جانے کے ایک دن بعد تک …“فوزیہ کے گال شرم کی وجہ سے سرخ ہوگئے تھے اور آنکھوں میں کئی خواب جاگ اٹھے تھے۔ 

”ہاں سر…ایک اور بات …ایک معذرت ایڈوانس میں قبول کرلیں “

”وہ کیا …“بلال کو اندازہ تھا کہ اس نے پھر کوئی بونگی ماری ہے۔ 

وہ میں نہیں بتاسکتی ابھی…آج کل میں آپ کو پتہ چل جائے گا …بلال گردن کو جنبش دیتے ہوئے مسکرایا، وہ سب کچھ سمجھ گیا تھا۔

 

 

”ایک شرط پر تمہاری معذرت قبول کروں گا“

”وہ کیا…سرجی…“فوزیہ جھپاک سے بول اٹھی۔ 

”فوزیہ جی …حضرت عمر کے ایک قول کا مفہوم ہے …اگر آقا اپنا راز اپنے غلام کو بتادے تو سمجھو، غلام آقا بن گیا اور آقا اس غلام کا غلام بن گیا …

زندگی میں اپنا راز کسی کو نہ بتاؤ اگر کوئی تمہیں اپنا راز بتادے تو وہ اس کی امانت ہے…اس میں خیانت نہ کرو

آئندہ رازداری رکھنا یہی شرط ہے “

###

”ویسے BG بلال کے بارے میں کیا جانتی ہو “نوشی نے پوچھا۔ 

”میں جی…وہ تو کھلی کتاب ہے جی …اس کے بارے میں کیا جاننا …“

”پھر بھی …BGکچھ ایسا جو تمہاری توشی میڈم کو نہ پتہ ہو …“

”نوشی بیٹی…میں اپنے بچوں کو اتنا نہیں جانتی جتنا آپ سب لوگوں کو جانتی ہوں۔ کنواری تھی جب میری ماں مجھے لے کر آئی تھی …بڑے چوہدری صاحب نے دیکھا تو آپ کے ڈیڈی کو بلایا اور کہا …جس طرح جمیلہ میری بیٹی ہے …اسی طرح یہ بھی …بہن کا خیال رکھنا …بڑے سیانے تھے آپ کے دادا…چور کو چوکیدار بنادیتے تھے“

”چورکو چوکیدار…“نوشی نے تجسس سے الفاظ دہرائے۔

 

 

”بیٹا ابھی آپ کو سمجھ نہیں آئے گی“BGنے اپنی بات کی وضاحت کی ۔ 

”تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے تم آج پھر گھر پر ہو۔

 

…“ناہید نے سرزنش کرتے ہوئے کہا جو کہ سیلابی ریلے کی طرح اندر داخل ہوئی تھی ۔ 

”تم جاؤ…اور میرے لیے چائے لاؤ…“BG کو دیکھ کر حکم صادر کیا۔ 

اور ”رات کہاں گئے تھے …تم لوگ…کسی کو پوچھ لیا کرو…جانے سے پہلے…“”میں آپ کے روم میں بتانے گئی تھی …مگر آپ خود کسی پارٹی میں جاچکی تھیں“”فون نہیں کرسکتی تھیں“ناہید غصے سے بولی۔

 

 

”ماما …کیا ہوگیا ہے آپ کو …میں نے آپ کا ایسا ری ایکشن پہلے کبھی نہیں دیکھا “

”پہلے تم نے ایسی حرکت بھی تو نہیں کی “ناہید تڑاخ سے بولی۔ 

”فار گاڈ سیک…ایسا کیا کردیا ہے…آپ کیوں اتنی ہائپر ہورہی ہیں “

”تم مجھے بتاؤ میں نے کبھی تمہیں روکا ہے …کہیں جانے سے …تمہیں خبر بھی ہے میں کتنی ہرٹ ہوئی ہوں…تمہاری اس حرکت سے “

”ویسے ماما…مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے …توشی بھی ساتھ…دادو نے اجازت دے دی تھی اور بلال بھی ساتھ ہی تھا…“نوشی اطمینان سے بتارہی تھی ۔

 

 

”یہی تو…اصل وجہ یہی ہے …“ناہید دانت پیستے ہوئے بولی۔ 

”ماما سچ کہوں…وہ ایسا نہیں ہے …جیسا آپ نے مجھے ساری زندگی بتایا “نوشی نے سادگی سے اپنی ماں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سب کچھ کہہ دیا۔ 

”تم بھی توشی کی زبان بول رہی ہو۔ بائی دا وے تم پر یہ حقیقت کب کھلی“ناہید غصے سے بول رہی تھی ۔ 

نوشی مسکراتے ہوئے اپنی ماں کے گلے لگ گئی۔

 

 

”آپ غصہ نہ ہوں آئندہ آپ کی پرمشین لے کر جاؤں گی “

”وہ اچھا لڑکا نہیں ہے “ناہید نے شوشہ چھوڑا۔ 

”3بجے تک اسکول سے فارغ ہوجاتا ہے …گھر مغرب کے بعد آتا ہے ۔ …چھٹیاں یہ باہر گزارتا ہے اور ہر اتوار صبح نو بجے چلا جاتا ہے اور رات کو واپس آتا ہے…کسی کو انفارمیشن نہیں کہا ں ہوتا ہے سارا دن…پچھلے آٹھ دس سال سے ایسے ہی ہے …اور ٹپیکل پینڈو ہے…بیک ورڈ سوچ کا مالک…“

دروازے پر دستک ہوتی ہے دروازہ کھلا ہوتا ہے SMS چائے کی ٹرالی لے کر آچکا تھا۔

 

 

”آجاؤ…SMS…“نوشی نے کہا۔ 

”یہ آپ کی چائے “SMSنے چائے ناہید بیگم کو پیش کی ۔ 

”آپی آپ کے لیے کیا بناؤں “SMS نے نوشی کو دیکھ کر پوچھا۔ 

”ماما جیسی چائے “نوشی نے ناہید کو مسکا لگایا 

”اور SMS کیا خبر ہے تمہارے پاس “نوشی چائے کا سپ لگاتے ہوئے بولی وہ کسی گوسپ سننے کے موڈ میں تھی۔ 

”آپی…آپ کو پتہ ہونا چاہیے“SMSنے تجسس پیدا کیا اپنی بات میں۔

 

 

”نہیں…سچی مجھے کچھ نہیں پتہ ہے “نوشی بھولی صورت بناکر بولی۔ 

SMSنے ادھر ادھر دیکھا پھر ہولے سے کھسر پھسر کی 

”DJ کی پھر سے منگنی ٹوٹ گئی ہے “SMSنے مذاق کے انداز میں بتایا۔ 

”آپی میرا نام مت بتائیے گا ، ویسے یہ تیسری دفعہ ہوا ہے اس کے ساتھ “

”اسی سے پوچھ لو…ریالٹی کیا ہے …اور Fakeکیا ہے …بتاؤ SMSسب کچھ بتاؤ جو تمہیں معلوم ہے…“

ناہید کے الفاظ نفرت کا لباس پہنے ہوئے تھے اور SmSکے چہرے پر حیرانی تھی۔

 

نوشی نے شکوے سے اپنی ماں کو دیکھا ۔ (ماما جانے بھی دیں) دل میں کہا۔ 

”SMS…تمہیں پتہ ہے بلال ہر سنڈے کہاں جاتا ہے “ناہید نے ترش لہجے میں پوچھا۔ 

”نہیں جی …مجھے تو نہیں پتہ “SMSکھلے منہ کے ساتھ بولا۔ 

”اور اسکول کے بعد کہاں جاتا ہے “ناہید نے دوبارہ لفظوں کا حملہ کیا۔ 

”نہیں…ہاں…وہ …جی…وہ موچی بابا کے پاس بیٹھا ہوتا ہے “SMSہکا بکا بول رہا تھا۔

 

”موچی کے پاس…موچی…“نوشی کے الفاظ حیرت میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ 

”سن لو …بس یہ کسر باقی تھی …ملک کے بڑے ایکسپورٹر جمال رندھاوا کا بھانجا ایک موچی کے پاس بیٹھتا ہے…“ہاتھ کو نوشی کی طرف کرکے بولی۔ 

ناہید کمرے سے جاچکی تھی اور نوشی کے چہرے پر پریشانی تھی SMSکچھ الجھا ہوا تھا، میں نے ایسا کیا کہہ دیا ہے۔ ناہید جاتے ہوئے شک کا بیج ڈال گئی تھی۔

 

 

حقیقت کی زمین پر …اب حقیقت کی زمین پر عشق کا پانی کھڑا ہے مگر جیسے ہی عشق کا پانی اترے گا …اور نفرت کی دھوپ، حقیقت کی زمین پر پڑے گی تو شک کا بیج دیکھتے ہی دیکھتے برگد کے درخت کی طرح اپنی جڑیں زمین میں دور دور تک پہنچالے گا (شک کا درخت وہ بھی برگد کی طرح مضبوط اور بڑا ہوتا ہے ۔)

###

بلال اور بابا جمعہ بیٹھے ہوئے چائے پی رہی تھے بابا جمعہ کا آج کوئی گاہک نہیں تھا ان کے پاس عادل عقیل ہاشمی دور سے نظر آگیا جو کہ بابا جمعہ کی طرف ہی آرہا تھا بلال اس کو دیکھ کر مسکرایا۔

 

 

عادل عقیل ہاشمی فربہ جسم کا مالک تھا، رنگ گندمی قد کاٹھ درمیانہ بال چھوٹے چھوٹے سوال زیادہ کرتا اور سوچتا کم تھا ذہین تھا مگر ذہانت سوال ڈھونڈنے میں لگاتا۔ ہاں اپنی غلطی مان لیتا بڑی بات ہنستے ہنستے پوچھ لیتا، بات کرتا تو الفاظ غیر مناسب ہوتے مگر لہجہ شائستہ ہوتا اس لیے برا نہ لگتا تھا۔ 

آج بھی وہ سوالوں کی پوٹلی سر پر اٹھائے ہوئے آگیا تھا۔

 

 

”السلام علیکم …سب سے پہلے تو میں اس دن کی بات پر معذرت کرتا ہوں “بابا جمعہ مسکرائے عادل کی بات سن کر پھر فرمایا۔ 

”بیٹا جی …وعلیکم السلام…اور معذرت کس بات پر “

”و ہ اس دن جب میں آپ کے طریقہ علاج پر تنقید کر رہا تھا۔ “

”دیکھو بیٹا …اختلاف گفتگو کا حسن ہے …مگر خیال رہے اختلاف رائے کبھی بھی نفرت کی شکل اختیار نہ کرے۔

 

پھر خیر ہے ایسا اختلاف رحمت ہے “

” میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں “عادل عقیل نے سیدھا سوال کردیا۔ 

”ضرور بیٹا جی …پوچھیے“بابا جمعہ بولے سادگی سے ۔ 

”مگر شرم آرہی ہے …میرا سوال تھوڑا بولڈ ہے “عادل عقیل نظریں چرا کر بولا 

”شرح میں کوئی شرم نہیں ہے “آپ پوچھو بابا جمعہ نے حوصلہ بڑھایا۔ 

”آپ نے کبھی محبت کی ہے …کسی عورت سے “عادل عقیل نے ایمانداری سے پوچھ لیا۔

 

 

”الحمد اللہ…بالکل کی ہے …اپنی بیوی سے اور اپنی والدہ محترمہ سے “

”نہیں نہیں …میں وہ …دوسری محبت کی بات کر رہا ہوں آپ سمجھے نہیں “

”بیٹا جی …میں بالکل سمجھ گیا ہوں…آپ کس محبت کی بات کر رہے ہیں ہاں وہ بھی کی تھی …“

”پھر…کیا ہوا…کچھ بتائیں…اس کے بارے میں “

بابا جمعہ کا چہرہ کھل اٹھا وہ ہنس رہے تھے، بلال بھی شاید اتنا زیادہ کبھی پہلے نہیں ہنسا ہوگا۔

 

سوال تو عادل کا سیدھا تھا مگر اس کے پوچھنے کا انداز ایک چھوٹے بچے کی طرح کا تھا جوکہ معصومیت سے کچھ بھی پوچھ لیتا ہے،کچھ انداز…سوال سے زیادہ …حسین ہوتے ہیں …ایسا ہی کچھ انداز عادل عقیل ہاشمی کا تھا … بعد میں وہ بھی اپنے سوال پر ہنس پڑا۔ 

”اب تمہارے والی محبت کی بات کرتے ہیں …میں کوئی بیس اکیس سال کا تھا …مجھے ایک لڑکی بہت اچھی لگتی تھی ، اس کی آنکھوں میں تو محبت ہی نظر آتی تھی …مگر اس نے مجھے کبھی میرے خط کا جواب نہیں دیا کبھی مجھ سے ملاقات نہیں کی …بس ہلکا سامسکرا دیتی تھی …ایک سال ایسے ہی گزر گیا۔

 

 

ہمارے میواتی لوگ ایک بزرگ کو بہت مانتے تھے …بابا سلانی ان کا نام تھا …میں ان کے پاس چلا گیا…کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ بول پڑے۔“

”چھوری کا کیا نام ہے…”کیسی ہے …“انہوں نے پوچھا جلالی انداز میں۔ 

”بہت اچھی ہے …مگر مغرور بہت ہے…نخرہ بھی بہت کرتی ہے …اپنے حسن پر ناز بھی بہت ہے …اپنی حیثیت پر اتراتی ہے پھر بھی مجھے محبوب ہے …اور میں اس سے محبت کرتا ہوں …“میں نے ساری باتیں بابا سلانی کو صاف گوئی سے بتادیں۔

 

 

”وہ مسکرائے اور بولے پوری کائنات میں صرف ایک محبوب عیبوں سے پاک ہے اور وہ محبوب خدا حضرت محمد ہیں، تمام محبوبوں کے بھی سردار اور وہ اللہ کے محبوب ہیں اور ان میں کوئی عیب کوئی کمی نہیں ہے…اور باقی سب کے محبوب عیبوں والے ہیں، نقصوں والے ہیں، خامیوں والے ہیں، محبت کی پہلی شرط یہ ہے کہ محبوب کے عیب آپ کو نظر نہ آئیں، اگر عیب نظر آگئے تو پھر محبت ناقص ہے…عیب ہوتے ہوئے نظر نہ آئیں تو سمجھو محبت کی پہلی سیڑھی پر آپ کا قدم ہے“

میں بابا سلانی کی بات سن کر پانی پانی ہوگیا اور کافی دیر شرمندگی سے ان کے سامنے بیٹھا رہا۔

 

نمکین پانی میری آنکھوں سے برسنے کے لیے تیار بیٹھا تھا میرے ضبط کے باوجود ٹپ ٹپ آنسو مٹی پر گر رہے تھے ۔ 

بابا سلانی جلال میں بولے ”بس کر …چھورے…بس کر چھورے۔۔۔فقیر منگتا ہوں… تجھے کچھ نہیں دے سکتا… خود فقیر ہوں…“

”ہجور بس دعا کردو…“میں نے عرضی پیش کی۔ 

”چل چپ کر جا…تیرے لیے مانگتے ہیں …بادشاہوں کے بادشاہ سے …بتا کیا مانگنا ہے …“

بابا سلانی نے مجھ سے پوچھا۔

 

میں نے جلدی سے عرضی پیش کی ۔ 

”ہجور…اپنا محبوب…اور محبت کا طریقہ ، سلیقہ آجائے …بس ہجور…بس“

”چھورے سب کچھ مانگ کے کہتا ہے …بس…بس…“

انہوں نے بند آنکھوں لزرتے ہونٹوں اور کھلے ہاتھوں سے میرے لیے دعا کی ۔ تھوری دیر خاموشی کے بعد عادل عقیل دوبارہ بول پڑا…

”پھر اس لڑکی کا کیا بنا …جس سے آپ محبت کرتے تھے “

”کلثوم کا …میری اس سے شادی ہوگئی “بابا جمعہ نے بتایا۔

 

 

”اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں … ان سے بھی ملنا چاہتا ہوں “عادل عقیل نے اگلی فرمائش کردی۔ 

”کوچ کا نقارہ بجا اور وہ کوچ کرگئیں…یہاں سے “بتاتے ہوئے بابا جمعہ کی آنکھوں میں نمی تھی اور وہ یادوں کے میلے میں کھوکر الفت کے منظر دیکھ رہے تھے۔ 

”عادل صاحب آپ نے اپنی بات تو بتائی نہیں…“بلال نے جانچتی نگاہوں سے پوچھا ”میری بات تو کوئی بھی نہیں …آپ کیسے کہہ سکتے ہیں “عادل گھبرا کر بولا۔ 

”بلال کا اندازہ تو اکثر ٹھیک ہوتا ہے “بابا جمعہ نے عادل کو بتایا۔ 

”و ہ میرے ساتھ پڑتی تھی …ساری باتیں آپ کی کہانی والی ہیں…سمجھ نہیں آتا کہ میں کیا کروں…“

”سب سے پہلے اپنی پڑھائی مکمل کرو“بابا جمعہ نے جواب دیا۔ 

###

”جدھر آپ کا گھر ہے اس سے تھوڑا آگے ہمارا کھوہ ہوتا تھا اور اس کے کنارے بڑا سا پیپل کا درخت تھا اور ساتھ ہی ہمارا ویلنا لگا ہوتا تھا“

BGاپنے بچن کے قصے سنارہی تھی، جب بلال کمرے میں داخل ہوا دونوں بہنیں مقابلہ کر رہی تھیں دادی کی ٹانگوں کی مالش میں…یہ بلال کی صحبت کا اثر تھا، ورنہ آج کل کے بچے تو دادا دادی کو منہ ہی نہیں لگاتے ۔

 

 

”BGیہ ویلنا کیا ہوتا ہے “نوشی نے پوچھا۔ 

”ویلنا جی…کیسے بتاؤں…“BGسوچ رہی تھی ۔ 

”گنے کا رس نکالنے والی دیسی مشین جو بیلوں کی مدد سے چلتی ہے “بلال نے تفصیل بتائی۔ 

”پھر ایک دن میں ویلنے میں گنے لگارہی تھی تو وہاں روڈ سے دو موئی نکل آئی “

”اب یہ روڈ اور دو موئی کیا ہیں “توشی بیزاری سے بولی۔

 

 

”BGآپ سے سٹوری سننی ہو تو پہلے ٹرانس لیشن کے لیے کسی کو ہائیر کرنا پڑتا ہے۔

 

“ توشی نے بلال کی طرف دیکھا ”بتائیے یہ بھی بتائیے…روڈ اور دو موئی“

”روڈ کا مطلب بل اور دو موئی کا مطلب سانپ کی کزن ہے “

”مطلب جیسے ہم دونوں تمہاری کزن ہیں…دو موئی…“نوشی نے جگت لگائی ۔ اور تم سانپ ہو جس نے سو سال بعد روپ بدل لیا ہے…جبھی تو ایسی پرانی باتیں جانتے ہو…ویلنا روڈ، دوموئی وغیرہ“BGجاچکی تھی اور یہ دونوں بہنیں بھی ہاتھ دھوکر آچکی تھیں۔

 

 

”آپ کہاں اتنی دیر لگادیتے ہیں …اسکول سے تو آپ ڈھائی تین بجے تک فارغ ہوجاتے ہیں “نوشی سب کچھ جان کر بھی انجان بن رہی تھی۔ 

”میں بابا جمعہ کے پاس بیٹھ جاتا ہوں “بلال نے کچھ چھپائے بغیر جواب دیا۔ 

”وہ جو موچی ہے …بڑا عجیب سا نام ہے جمعہ“نوشی نے دوٹوک تبصرہ کردیا۔ اب توشی کی باری تھی جہاں آرا بیگم خاموش تماشائی کی طرح سارا تماشا دیکھ رہی تھیں۔

 

 

”آج کل بڑے تحفے دیے جارے ہیں “توشی مذاق سے بولی۔ 

”فراق اچھی ہے ہمیں بھی منگوادو چاہے لنڈے ہی سے کیوں نہ ہو “

”ٹھیک ہے …اور کچھ حکم …“بلال دھیرے سے بولا۔ 

”کتنے کوٹ ہیں تمہارے پاس“توشی نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔ 

”40کے آس پاس “بلال نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ 

”اور ان چالیس میں سے لنڈے کے کتنے ہیں “نوشی نے لب کشائی کی۔

 

 

”چار…“بلال نے صاف گوئی سے سچ بولا۔ 

دونوں بہنیں کھل کھلا کر ہنس پڑیں جیسے غریب کی غربت کا مذاق اڑارہی ہوں مگر بلال غریب نہیں تھا اور وہ یہ بھول رہی تھیں۔ 

”ویسے وہ کوٹ کبھی پہنو تو بتانا ضرور“نوشی نے فرمائش کی، بے تکی سی۔ 

”اب نہیں پہنتا اس لیے کہ اب وہ چھوٹے ہوچکے ہیں، رکھے اس لیے ہیں کہ مجھے یاد رہے …اور میں کسی لنڈے کے کپڑے پہننے والے کا مذاق نہ اڑاؤں“

”ایکسکیوز می…“بلال اٹھ کر اپنے کمرے میں جاچکا تھا۔

 

 

جہاں آرا بیگم نے خاموشی سے سب کچھ دیکھا مگر کہا کچھ نہیں تھوڑی دیر بعد نوشی بھی جاچکی تھی ۔ توشی کو دادی نے روک لیا تھا۔ 

”یہ بیٹا تم نے اچھا نہیں کیا “دادی نے خفگی سے کہا۔ 

”کیا اچھا نہیں کیا …دادو…“توشی بے نیازی سے بولی۔ 

”میں تو مذاق کر رہی تھی مگر بلال تو برا مان گیا، اکثر اس سے مذاق کرتی ہوں، مگر اس نے کبھی مائنڈ نہیں کیا “

”بیٹا تم نے ہمیشہ اس سے اکیلے میں مذاق کیا ہے …یا پھر میرے سامنے…مگر آج تم نوشی کے سامنے شروع ہوگئیں…اور تمہاری ماں نے بھی نوشی کے خوب کان بھرے ہیں…آج سارا دن…بلال کے خلاف“

دادی زخمی آواز کے ساتھ رُوداد سنارہی تھیں”اتنا روپیہ پیسہ ہونے کے باوجود میرے بچے نے فقیروں جیسی زندگی گزاری ہے …تمہیں نہیں پتہ خود پڑھنے کے لیے لوگوں کے گھروں میں جاجاکر ٹیوشن پڑھاتا تھا مگر اپنے پیسے میں سے کبھی ایک دھیلا نہیں مانگا…مجھ سے بھی کبھی ایک پیسہ نہیں لیا…تیرا باپ میرا بیٹا بڑا تھوڑدلامرد ہے…اور تیری ماں بڑی کپتی…تیرے بھائی کو اگر کچھ نہ ملتا تو سارے گھر میں تھرتھلی مچادیتا اور تم دونوں ماں باپ کی ہیجلی ہوتیں…تم سب گھر والے بڑے ڈاہڈے ہو بھئی…بڑے ڈاہڈے ہو…بڑے ڈاہڈے…“دادی کی آنکھوں سے مون سون کی بارش کی طرح آنسو ٹپک رہے تھے۔

 

 

”Sorry…Sorryدادو…او مائی گاڈ…یہ میں نے کیا کردیا…دادو مجھے معاف کردیں…پلیز … دادو…آئی ایم ویری سوری…“

توشی اپنی دادی سے لپٹ کر معافی تلافی مانگ رہی تھی۔ دادی آنسو صاف کرتے ہوئے بول پڑی، درد میں ڈوبی ہوئی آواز کے ساتھ ۔

”معافی مجھ سے کیوں مانگتی ہو…اس سے جاکر مانگو…جس کی عزت اور خودداری کے سارے…بخیے ادھیڑ دیے تم نے اور تمہاری بہن نے …“

توشی کافی دیر تک دادی سے لپٹی رہی اور معافی تلافی کرتی رہی …اس کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری تھے۔

 

 

”میں جاؤ ں اس کے کمرے میں …“اس نے دادی سے صلاح مانگی۔ 

”نہیں ابھی نہیں صبح…جب وہ اسکول کے لیے نکلے تو اس کی گاڑی میں بیٹھ جانا…تب بات کرنا اس سے …“دادی نے بھری ہوئی آواز کے ساتھ مشورہ دیا۔ 

###

ارم واسطی اپنے ڈبل بیڈ پر کہنی کے بل لیٹی ہوئی ولید سے آنکھیں چار کر رہی تھی یہ دونوں پانچ مرلے کے ایک پورشن میں میاں بیوی کی طرح زندگی گزار رہے تھے مگر نکاح کے بغیر۔

 

ان دونوں کو ایک دوسرے کی لت لگ گئی تھی نیچے والے پورشن میں بھی یہی کہانی تھی مگر کردار الگ تھے۔ ولید کا ایک بلڈر دوست اور اس کی ضرورت کوئی، ایئر ہوسٹس بھی اسی طرح ٹائم پاس کر رہے تھے۔ 

”ہم کب تک ایسے زندگی گزاریں گے “ارم شربتی آنکھوں اور حسرت بھری آواز کے ساتھ بولی۔ ”یا خود کچھ کرلو یا میری مان لو…فول پروف پلان ہے “

”کرنا کیا ہے …مائی سویٹ بی بی “ولید نے ارم کی آوارہ لٹوں کو پکڑتے ہوئے پوچھا۔

 

جوکہ اس کے پہلو میں تکیے پر سر رکھ کر لیٹا ہوا تھا۔ 

”جو…جو…میں کہتی ہوں کرتے جاؤ…پرسوں ان کی ایک کلاس فیلو کی …تیل مہدی ہے …تم وہاں جاؤ…اور کہانی شروع کرو…“

”مگر میں…وہاں کیسے جاسکتا ہوں…کوئی اِنوی ٹییشن بھی تو ہو …“

”تو یہ بلڈر حنیف بسرا کس دن کام آئے گا “

”مگر…حنیف بسرا کا کیا تعلق…اس فنکشن سے …“

”تعلق سالی سے نہیں ہوگا تو کس سے ہوگا …“ارم اسٹائل سے بولی …

”میں سمجھا نہیں“ولید حیرت سے بولا۔

 

 

”بھولے بادشا ہ ہو…سمجھا کرو…حنیف کی شادی اپنے چچا کی بیٹی سے ہوئی ہے، ثانیہ سے اور ثانیہ کی چھوٹی بہن رانیہ کی تیل مہدی ہے …مل گیا کارڈ…یا پھر ثانیہ کو سندیسہ بھجواؤں کہ آکے اپنی سوتن سے مل لے جس کے نام پر پانچ مرلے کا گھر ہے وہ بھی ڈیفنس میں …“

”ارم تم بڑی کمینی ہو…کیا لومڑی والا دماغ ہے تمہارا …“

”اسی لیے تو کہتی ہوں …چیتا بن…اور ان ہرنیوں میں سے ایک کو شکار کرلے…تیرے بچے کھُچے میں سے میں بھی کھالوں ہوگی…“

ارم واسطی تیکھے نقوش والی عام سے لڑکی تھی رنگت سانولی، قدر درمیانہ ، آنکھیں شربتی، جسامت دبلی پتلی بال گھنے کالے سیاہ…پہلی نظر میں آپ کو لگے یہ کوئی مدراسن ہے جو پاکستان میں آگئی ہے۔

 

دماغ لومڑی جیسا…مگر کوئی بڑا شکار اس کے ہاتھ لگا نہیں ۔

###

”رات وہ دیر تک میرے پاس روتی رہی…تمہارے پاس آئے گی…بیٹا معاف کردینا۔ “نانو بلال کے گال پر ہاتھ رکھ کے محبت سے اسے سمجھا رہی تھیں بلال کا چہرہ روشن چمکدار اور نکھرا ہوا تھا، بالکل بارش کے بعد کی دھوپ جیسا، تبسم پھولوں کی کلیوں کی طرح اس کے ہونٹوں پر تھا۔

 

 

”وہ تو میں معاف کردوں گا…میں ڈھیٹ ہوچکا ہوں، ایسی باتیں سن سن کر اس وقت مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے “

”ہاں بیٹا بولو…“دادی کو خدشہ تھا یہ وہی بات کرے گا پھر بھی انہوں نے حوصلے سے کہا۔ 

”آپ مجھے اس قید سے رہائی دے دیں۔ میں آزاد ہونا چاہتا ہوں…“

بلال کچھ دیر خاموش رہا…وہ بہت کچھ کہنا چاہتا تھا …مگر ارادہ بدل دیا۔

 

 

 

 

”میرے جیتے جی تو یہاں رہو…میں مر کھپ جاؤں تو چلے جانا…“

نانی اپنی محبت کا رونا رو رہی تھیں، بلال اپنی عزت اور خودداری کا سوالی بن کر بیٹھا ہوا تھا، نانی کے قدموں میں سرجھکائے ہوئے۔ 

”نانو…میں نے آپ سے زندگی میں کچھ نہیں مانگا…آج مانگ رہا ہوں …ان رشتوں کی قید سے رہائی …نانو میں تو بے گناہ ہوں…پھر بھی قید کیوں…کیوں…آپ مجھے جانے نہیں دیتیں…“بلال کرب سے بول رہا تھا۔

 

 

”اس لیے کہ صبح و شام تمہیں دیکھ لیتی ہوں…ایک بار تم چلے گئے تو واپس تھوڑی آؤگے…آلنے سے گرے ہوئے بوٹ واپس آلنے میں نہیں آتے۔ ہاں میرے مرنے پر ضرور آؤگے مگر قبرستان، گھر پھر بھی نہیں آؤگے“

نانی کھوئی کھوئی آنکھوں سے ایسے بول رہی تھی جیسے مستقبل کو آنکھوں سے دیکھ رہی ہو اور بلال کی آنکھیں ایسے جیسے پتھر کی ہوں، نمکین پانی سفید نمک کی طرح چمک رہا تھا، آنکھوں میں مگر کیا مجال کے زمین پر گرجائیں یہ نمکین پانی کے قطرے۔

 

 

”تو آپ میرے ساتھ چلیں“بلال نے درخواست کی ۔ 

”بیٹا…پیٹ پہلے آتا ہے …اور گھٹنے بعد میں…ایک ماں اچھی منصف کبھی نہیں بن سکتی…تو میری بیٹی کا بیٹا ہے …اور وہ میرا بیٹا ہے …کیسے انصاف ہوسکتا ہے …ہاں…اگر تیری جگہ تیری ماں ہوتی…تو پھر…دھڑا …برابر کا تھا …“

###

بلال گاڑی لے کر نکلنے ہی والا تھا عین اس وقت توشی آگئی اچانک جیسے ڈاکو لوٹنے کے لیے پتہ نہیں اچانک کہاں سے نکل آتے ہیں، بالکل اسی طرح اور دروازہ کھول کو سائیڈ والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔

 

 

”آپ کے سونے کا وقت تھا اور آپ یہاں توشی جی “بلال نے مسکراتے ہوئے بولا۔ ”پاپا بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ تم سے زیادہ Selfless بندہ آج کل ملنا مشکل ہے، رات میں نے تمہارے ساتھ زیادتی کی الٹی سیدھی بکواس کی اور تم مسکرا رہے ہو تمہیں تو مجھ پر غصہ آنا چاہیے تھا مگر تم تو …“توشی سنجیدگی سے بات کر رہی تھی۔ 

”پہلی بات تو یہ کہ میں Selflessنہیں Selfish ہوں، اس مسکراہٹ میں بھی کوئی غرض ہے اور جہاں تک غصے کی بات ہے تو میں ڈھیٹ ہوچکا ہوں جیسے واٹر پروف ہوتا ہے ویسے ہی بے عزتی پروف ہوں۔

 

آپ پلیز اتریں مجھے دیر ہورہی ہے …“

اسی لمحے بلال کے موبائل پر ایک کال آتی ہے وہ ریسیو کرتا ہے اب فکر مندی اس کے چہرے پر واضع تھی۔ 

”آپ پلیز اترو ایک ایمرجنسی ہے مجھے وہاں جلدی پہنچنا ہے میں نے آپکو معاف کیا بابا جاؤ“بلال نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ساری بات کی ۔ 

”کیا ہوا کچھ بتاؤ تو سہی“توشی پوچھ رہی تھی۔ 

”فوزیہ ایمرجنسی میں ہے اس کی خالہ کا فون آیا تھا “بلال نے جواب دیا۔

 

 

”کیا مطلب ایمرجنسی میں ہے “توشی نے تفصیل مانگی۔ 

”جناح ہسپتال کی ایمرجنسی میں، اللہ خیر کرے، آپ پلیز نیچے اترو، مجھے ہاسپٹل جانا ہے“

”میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں “توشی نے جواب دیا۔ 

بلال اس کی ضد سے واقف تھا اس لیے خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرنے لگا تھوڑی دیر بعد وہ دونوں جناح ہاسپٹل کی ایمرجنسی میں تھے۔

 

 

ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوتے ہی فوزیہ کی ماں نے بلال کو دیکھ لیا دور ہی سے اٹھ کر اپنی جگہ سے ہاتھ کا اشارہ کردیا۔ 

”فوزیہ تیرا سر آگیا ہے “ہولے سے فوزیہ کو باخبر کردیا اس کی ماں نے 

فوزیہ جو کہ ہوش میں تھی اس نے آنکھیں بند کرلیں جیسے بے ہوش ہو ڈرپ اسے لگی ہوئی تھی اس کی ماں اور اس کی خالہ یعنی ہونے والی ساس پاس بیٹھی ہوئی تھیں اتنے میں بلال ان کے پاس آگیا، توشی اس کے ساتھ تھی بلال نے سلام کیا اور فوزیہ کے پاس بیڈ کے بائیں طرف دیوار کے ساتھ کھڑا ہوگیا یہ اس ہال کا آخری بیڈ تھا، دیوار کے ساتھ …

بلال نے فوزیہ کی ماں اور خالہ کے چہروں کو پڑھا تو دونوں کے چہرے مطمئن تھے ”شکر ہے یااللہ “بلال نے دل میں کہا، اب اس نے فوزیہ کی طرف نظر کی اس کا چہرہ بغیر میک اپ کے قدرے بجھا ہوا لگ رہا تھا، مرجھائی ہوئی گلاب کی کلی کی طرح، کلی تو وہ تھی۔

 

بلال نے لب کشائی کی۔ 

”خالہ جان کیا ہوا ہے …فوزیہ جی کو …“بلال نے اس کی ماں سے پوچھا۔ 

”بیٹا ہونا کیا ہے …بس مقدر ماڑے…نیند کی گولیاں کھالیں تھیں وہ بھی …پورے کا پورا پتا…“

”مگر کیوں…کس لیے…کل تو بہت خوش تھی اور بتارہی تھی کہ جنوری میں شادی ہے …“بلال نے حیرت سے پوچھا۔ 

”وہی تو …خصم نون کھانے…لیاقت علی نے …ادھر شارجہ میں کسی …پھینی سے ویاہ کرلیا ہے“خالہ نصرت بتارہی تھی ”اگر میری بچی کو کچھ ہوجاتا تو میں نے لیاقت علی نہیں بخشنا تھا، خالہ نصرت دانت پیستے ہوئے بولی”وہ تو میں نے رات اس کے کمرے میں چاتی ماری تو کمپیوٹر لگا ہوا تھا اور یہ بے ہوش تھی وہ تو رفیق رکشہ والا ہمارا کرایہ دار اسے اٹھایا دس منٹی ہسپتال آگئے، اللہ بھلا کرے رفیق کا ابھی آپ کے آگے آگے اٹھ کے گیا ہے “فوزیہ کی ماں ثریا نے آنکھوں دیکھا حال بیان کردیا۔

 

 

”ڈاکٹر نے کچھ بتایا کب تک ہوش آجائے گا “بلال نے پوچھا۔ 

”ہوش تو آگیا ہے خیر سے …آپ کو دیکھ کر ڈرامہ کر رہی ہے “فوزیہ کی ماں ثریا دوپٹے سے آنسو صاف کرتے ہوئے بول رہی تھی ۔ 

بلال کو شرارت سوجھی میڈیکل رپورٹ کے پاس ایک پیپر پن پڑی ہوئی تھی اس نے اٹھائی اور ہلکے سے فوزیہ کے بائیں ہاتھ پر چبھودی۔ 

فوزیہ یک لخت بول پڑی

”ہائے اللہ جی …“اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔

 

 

بلال اس کے سامنے کھڑا تھا اور اسے دیکھ رہا تھا فوزیہ کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے اس کا دماغ ماؤف ہوچکا تھا اور اس کا سینہ چھلنی چھلنی ہوچکا تھا اس کے چہرے پر ہارے ہوئے سپاہی کی طرح شکستگی پڑھی جاسکتی تھی اس کے ارمانوں کا خون سفاکی اور بے رحمی سے کردیا گیا تھا، اور وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اپنے مسیحا کو دیکھ رہی تھی۔ 

فوزیہ اکثر بلال کو کہتی تھی، سر آپ کے پاس ہر مرض کا علاج ہوتا ہے فوزیہ کو کہی ہوئی بات یاد تھی اور بلال کو وہ سنی ہوئی بات یاد تھی۔

 

 

”ایسے تھوڑی کرتے ہیں …“مسیحا نے اپنا ہاتھ مریض کے ماتھے پر رکھا تو آنسو آنکھوں سے جاری ہوگئے جو اب تک قید تھے، جیسے ان کو رہائی مل گئی ہو۔ وہ مسلسل بہہ رہے تھے۔ بغیر کسی آواز او رہچکی کے، تھوڑی دیر میں فوزیہ کا تکیہ دونوں اطراف سے بھیگ چکا تھا، یہ آنسو نہیں تھے اس کا درد اور غم تھا…جو مسیحا کے چھونے سے سارے کا سارا بہہ چکا تھا…

تھوڑی دیر بعد فوزیہ نم آنکھوں اور گھائل آواز کے ساتھ بولی۔

 

 

”سر…میں نے مرنے کی کوشش تو بہت کی …لیکن کامیاب نہیں ہوسکی…“

”کوشش ہمیشہ جینے کی کرو…کامیاب ہو یا نہ ہو …“بلال نے جواب دیا۔ 

”سر…کہنا بہت آسان ہے اور سہنا بہت مشکل…“

”فوزیہ جی …آپ صرف سہنے کی کوشش کرو…ہمت دینا اس کا کام ہے …“

”سر…آپ کو کیا معلوم محبت کے غم کتنے بڑے ہوتے ہیں…“

”فوزیہ جی …محبت کے غم کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں…زندگی جیسی نعمت سے چھوٹے ہی رہتے ہیں…اور آپ اس زندگی کو ختم کرنے چلی ہو…“

”سر…اگر آپ کے ساتھ ایسا ہوتا …تو…“

”تو…میں …فوزیہ جی…خود کشی کبھی نہ کرتا…زندگی اس کی عطا کردہ نعمتوں میں سے سب کی ماں ہے…زندگی ہم پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا قرض ہے …وہ فرض تو معاف کردیتا ہے…مگر قرض نہیں…نہ اپنا…نہ اپنے بندوں کا…۔“ توشی کھڑی ہوئی سب کچھ دیکھ رہی تھی اسے آج بلال کی زندگی کا ایک اور روپ نظر آیا وہ اپنی عمر سے بڑی باتیں کر رہا تھا۔ بلال ایک بار پھر بولا۔

 

 

”اگر تمہیں کچھ ہوجاتا …تو…ان کا کیا بنتا…تمہاری ماں کا تمہاری خالہ کا…جو تمہیں دیکھ کر جیتی ہیں…ان دونوں نے تم دونوں کی خاطر اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ لیا…یہ دونوں شادی کرسکتی تھیں…مگر نہیں کی…تمہاری خاطر…اور اس لیاقت کی خاطر…اور تم نے یہ حرکت کی…اور اس کی تو میں خبر لیتا ہوں…ابھی“بلال نے یہ ساری گفتگو نپے تلے انداز میں موقع کی مناسبت سے کی ۔

 

 

 

ثریا اور نصرت بار بار اپنے آنسو دوپٹے سے صاف کر رہی تھیں اور فوزیہ نظریں جھکائے سن رہی تھی۔ بلال نے کچھ پیسے فوزیہ کی ماں کو دیے انہوں نے انکار کیا پیسے لینے سے۔ 

”خالہ جی…رکھ لیں…ایسے ہی نہیں دے رہا ہوں…اس کی سیلری سے کاٹ لوں گا…“بلال نے مذاق سے کہا ماحول بدلنے کی خاطر۔ میں ڈاکٹر سے مل لوں…کچھ ضرورت ہو تو فون پر بتادیجیے گا۔

 

بلال نے پیچھے مڑتے ہوئے کہا اسی لمحے کسی نے اس کی آنکھیں پیچھے سے اپنی ہتھیلیوں سے بند کردیں۔ 

”محسن رضا…“بلال نے فوراً بول دیا۔ 

”کمال ہے…“میں تجھے اب بھی یاد ہوں محسن رضا ڈاکٹر کا کوٹ پہنے حیرت اور مسرت سے کہہ رہا تھا۔ دونوں گرم جوشی سے بغل گیر ہوتے ہیں جیسے سالوں بعد ملے ہوں۔ 

”آج کوئی چھ سات سال بعد ملے ہیں“محسن نے اندازے سے کہا۔

 

 

”سات سال چار مہینے اور بائیس دن بعد “بلال نے تفصیل بتائی۔ 

”کمال ہے …پھر سے تو بازی لے گیا “ڈاکٹر محسن رضا بولا۔ 

ڈاکٹر محسن ان دونوں کو اپنے کمرے میں لے گیا بلال واش روم میں چلا گیا ڈاکٹر محسن نے کالج کے دنوں کا فولڈر کھول لیا اور توشی کو نوشی سمجھ کر قصے سنانے لگا۔ 

”بھابھی جی…آپ کو پتہ ہے …اس کے پاس آپ کی ایک تصویر ہوتی تھی اس میں آپ کی چھوٹی بہن بھی تھی…آپ دونوں نے سرخ رنگ کے کپڑے اور اوپر بلیک لیدر کی جیکٹیں پہنی ہوئی تھیں…ایک دن یہ دیکھ رہا تھا …تو میں نے دیکھ لیا تب مجھے پتہ چلا ورنہ یہ تو اپنی بات کو ہوا ہی نہیں لگنے دیتا تھا “

ڈاکٹر محسن رضا ایسے ہی بات کر رہا تھا جیسے کالج کا سٹوڈنٹ ہو۔

 

 

”پھر میں نے اسے بلیک میل کیا مجھے بتاؤ ورنہ میں ساری کلاس کو بتادوں گا تب جاکہ اس نے مجھ کو آپ کے اور آپ کی بہن کے بارے میں بتایا یہ نسیم اور تسلیم ہیں۔ تصویر دیکھ کر تو لگتا تھا جیسے انجو اور منجو ہوں وہ چالپاز فلم والی، اس نے مجھے بتایا نسیم میری منگیتر ہے، تو میں نے کہا یار یہ تیری سالی تسلیم اگر مجھے تسلیم کرلے تو مزہ آجائے پورے کالج میں صرف میں اکیلا اس کا دوست تھا…سب حیران ہوتے کہ سب سے لائق بندے کا دوست سب سے نالائق مگر یہ حقیقت تھی …پتہ نہیں بلال کو مجھ میں کیا نظر آیا کہ میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھادیا ورنہ ہر کوئی بلال سے دوستی کرنا چاہتا تھا …“

بلال واش روم سے نکل آیا۔

 

 

”میں بھابھی کو اپنے کالج کے قصے سنارہا تھا “محسن مسکراتے ہوئے بولا۔ 

بلال نے اپنا سر پکڑ لیا توشی کھاجانے والی نظروں سے محسن کو دیکھ رہی تھی بلال نے فوراً بات بدلی۔ 

”محسن تم نے مجھے فوزیہ کی کنڈیشن کے متعلق انفارم نہیں کیا“بلال نے پوچھا۔ 

یادوں کی بارات واپس کالج جاچکی تھی، اور محسن بھی ڈاکٹر محسن رضا بن چکا تھا۔

 

 

”Well Actually کچھ پرابلم ہے Stomachمیں، Thanks God ٹائم پر آگئے یہ لوگ اور آتے ہی دو تین Vomitکردیں پیشنٹ نے، اور جو پلس پوائنٹ تھا، وہ یہ کہ نیند کی گولیاں ڈوبلیکیٹ تھیں جس کی وجہ سے بچت ہوگئی۔ “ڈاکٹر محسن رضا بول رہا تھا ایک ڈاکٹر کی طرح۔ 

”یہ لو …اب آدمی سکون سے مر بھی نہیں سکتا، اس ملک میں جہاں زہر بھی خالص نہ ملتا ہو…“توشی بھولی صورت بناکر بولی۔

 

 

”اس نے نیند کی گولیاں کھائی تھیں زہر نہیں“ڈاکٹر نے وضاحت پیش کی ۔ 

”زہر سمجھ کر ہی کھائی تھیں مگر ہوا کیا…کچھ نہیں…وہ تو زندہ بچ گئی ناں…“توشی نے سنجیدگی سے اپنی دلیل پیش کی ۔ بلال اور محسن توشی کی دلیل پر ہنس پڑے۔ 

”ویسے آپ ڈاکٹر ہیں بھی …یا ایویں…سفید کوٹ ہی پہنا ہے…کہاں سے کیا MBBSآپ نے…میرا مطلب ہے کونسے کالج سے …“میں نے چائنہ سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی ہے۔

 

“ڈاکٹر محسن بولا۔ 

”یہ لو …اب ڈاکٹر بھی Made in China آگئے ہیں…جیسی چائنہ کی چیزیں… ڈاکٹر بھی ویسے ہی ہوں گے “توشی بیزاری سے بولی۔ بلال محسن کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور بولا۔ 

”ڈاکٹروں کا تو مجھے پتہ نہیں …ہاں چائنہ کی چیزیں اپنی قیمت کی مناسبت سے بہت اچھی ہیں…تسلیم جی…چائنہ کا غریب لوگوں پر بڑا احسان ہے…وہ اشیا جو ان کی پہنچ سے باہر تھیں…چائنہ نے ان کے گھروں میں پہنچادیں خیر چھوڑ…ڈاکٹر صاحب ہم چلتے ہیں۔

 

”یہ لو…مجھے تو اب یاد آیا…آپ مجھے بھابھی کس چکر میں بلارہے تھے “توشی کو اپنا نام تسلیم سن کر یاد آہی گیا۔ 

”Sorryتسلیم جی…“ڈاکٹر محسن شرمندگی سے بولا۔ 

”میرا گھر پاس ہی ہے…فیصل ٹاؤن میں وہاں چلتے ہیں …آپ کو ناشتہ کرواتا ہوں…اپنی والدہ کے ہاتھ سے …“

’یہ لو…اپنی ماں سے کام کرواتے ہو …بیوی کے ہوتے ہوئے …اور گھر میں نوکر بھی نہیں رکھے ’“توشی خائف ہوکر بولی ہاتھ لہراتے ہوئے ۔

 

 

”نوکر تو ہیں مگر…کھانا، ناشتہ ماں کے ہاتھ کا بنا ہی کھاتا ہوں “ڈاکٹر نے بتایا۔ 

”کیا بیوی مرگئی ہے؟“توشی فشافش بول اٹھی۔ 

”میری ابھی شادی نہیں ہوئی …“ڈاکٹر محسن شرماتے ہوئے بولا۔ 

”یہ لو …لگتے تو آپ چار بچوں کے باپ ہیں“توشی نے فٹافٹ جواب دیا۔ 

”کیا شادباغ چھوڑدیا…“بلال نے بات بدلی۔ 

”نہیں شاد باغ والوں نے مجھے چھوڑ دیا…“ڈاکٹر محسن مصنوعی مسکراہٹ سے بتارہا تھا۔

 

 

”چل نہ یار نخرے نہ دکھا، اماں تجھے دیکھ کر خوش ہوجائیں گی ، ویسے بھی سال سے وہ کھل کر ہنسی نہیں…“ڈاکٹر محسن نے محبت سے درخواست کی ۔ 

تھوڑی دیر بعد وہ فیصل ٹاؤن میں واقع کنال کے گھر میں موجود تھے، محسن کی اماں نے بلال کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور بڑی محبت سے ملیں۔ توشی کو بھی انہوں نے بڑے پیار سے گلے لگایا اس طرح کا پیار اور خلوص توشی کے لیے نیا تجربہ تھا۔

 

محسن کی اماں کا تعلق اندرون لاہور سے تھا اور شادی کے بعد وہ شمالی لاہور میں شادباغ بیاہی گئیں جوکہ اندرون لاہور سے ملتا جلتا علاقہ تھا، اخلاق اور محبت کے لحاظ سے ۔ 

ڈاکٹر محسن رضا بٹ کا تعلق کشمیری بٹ فیملی سے تھا اوپر سے پیور لاہوریے۔ کشمیری بٹ دو وجہ سے شہرت رکھتے ہیں، ایک اپنی گوری رنگت کی وجہ سے اور دوسری اپنی خوش خوراکی کی وجہ سے، کاروباری لوگ، اور زندہ دل ، محبت کرنے والے، یاروں کے یار، یہ کشمیری بٹوں کی دوسری خوبیاں ہیں ۔

 

محسن کی اماں ناشتہ تیار کرنے کے لیے کچن میں جاچکی تھیں، ان کو دو ملازموں کی خدمات بھی حاصل تھیں اور انہوں نے توشی کو بھی کچن میں گھسیٹ لیا محبت کے زور پر۔ 

”بڑے بٹ صاحب نظر نہیں آرہے …“بلال نے پوچھا۔ 

”وہی تو میں رونا رو رہا ہوں…سال بھر پہلے ابا چھوڑگئے۔ وہی جائیداد کے پواڑے بھائیوں کی جک جک…بس یار خون سفید ہوگیا “

”ہوا کیا تھا …رضا بٹ صاحب کو…“بلال نے پوچھا۔ 

”وہی ہماری قومی بیماری ہارٹ اٹیک…“محسن بٹ بولا۔ 

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page