
شکیل احمد چوہان - بلال صاحب
”بھائی میرے تو اپنا خیال کر ڈاکٹر ہوکر اتنا وزن گین کرلیا ہے، اس عمر میں چاچا لگتا ہے “دونوں کھل کھلا کر ہنس پڑے۔
”ویسے یار …سالی تیری ہے ایٹم“ڈاکٹر بٹ نے فل تبصرہ کیا صرف ایٹم کہہ کر۔
”تو نہیں بدلا…ویسے کا ویسا…ڈاکٹری بھی تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکی…شرم کر وہ میرے ماموں کی بیٹی بھی ہے
اور میں بڑی عزت کرتا ہوں اسکی …“بلال کو ڈاکٹر بٹ کی بات پسند نہیں آئی اس کے باوجود اس نے تحمل سے جواب دیا دھیمے لہجے میں۔
”Sorryیار…میرا یہ مطلب نہیں تھا “محسن بٹ نے شرمندگی سے کہا۔
”Sorryیار بلال غلط مت سمجھنامجھے…تمہیں تو میری عادت کا پتہ ہے “”معذرت بار بار نہ کرو میں تمہیں جانتا بھی ہوں اور سمجھتا بھی ہوں، اسی لیے تمہارے گھر آگیا…“بلال نے سنجیدگی سے کہا۔
اتنے میں ملازم ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ لگارہا تھا، نہاری، پائے، حلوہ پوری، کلچے، پراٹھے اور لسی ، پیور لاہوری ناشتہ یہ سب کچھ دیکھ کر ڈاکٹر کا گھر نہیں لگتا تھا مگر ڈاکٹر بٹ ایسا ہی تھا، بول کر سوچتا کیا بول دیا اور سب کچھ کھا کر کہتا تھوڑا زیادہ کھالیا، ایسے ڈاکٹرز بھی ہوتے ہیں۔
ناشتے کی میز پر بیٹھتے ہوئے توشی نے دیکھ کر کہا۔
”آنٹی یہ ڈاکٹر تو ہیں نا…“
”ہاں…ہاں…بیٹا ڈاکٹر ہی ہے …بلال بیٹا تم بھی آؤ نا …وہاں کیوں بیٹھے ہو…“
بلال نے محسن کو بتادیا تھا کہ میرا روزہ ہے، محسن اور توشی آمنے سامنے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے اور محسن کی والدہ گھر کے سربراہ کی جگہ پر بیٹھی تھیں۔
”اماں آپ شروع کرو…اس کا روزہ ہے…“ڈاکٹر بٹ نے اطلاع دی …
”ہاں تو بیٹا…بات دراصل یہ تھی کہ یہ بننا چاہتا تھا …باڈی بلڈر اور بٹ صاحب کی خواہش تھی …کہ یہ ڈاکٹر بنے …بٹ صاحب کے خاندان میں کوئی آٹھویں سے آگے نہیں گیا …کسی نے بٹ صاحب کو کہہ دیا کہ تیرے پورے خاندان میں ایک بھی ڈاکٹر نہیں ہے…تو ان کو غصہ آگیا بڑے دونوں بیٹے تو پڑھائی چھوڑ چھاڑ کر باپ کے ساتھ گودام سنبھالتے تھے، یہ تھا نویں جماعت میں گھر کا سب سے پڑھا لکھا مرد، تو ڈاکٹر کا مشن اس کو سونپ دیا گیا …“
ڈاکٹر بٹ کی والدہ بڑی خوش تھیں کیونکہ آج کافی دنوں بعد ان کا دستر خوان کسی مہمان کی میزبانی کر رہا تھا ان کی ساری گفتگو کے دوران بلال نے اپنے اسکول اطلاع کردی تھی اور گھر پر بھی نانی کو بتادیا تھاکہ توشی اس کے ساتھ ہے اور لیاقت علی کو بھی شارجہ فون کیا تھا۔
لیاقت علی نے جمعہ کی نماز کے بعد Skype پر بات کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
بلال دیکھ رہا تھا کہ توشی ان میں گھل مل گئی ہے اور کافی خوش بھی ہے، آتے ہوئے ڈاکٹر بٹ کی والدہ نے اس کو ایک خوبصورت سوٹ کا تحفہ بھی دیا، ساڑھے 12بجے وہ اسکول پہنچے اس کے بعد بلال جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے چلا گیا اسکول میں چھٹی ہوچکی تھی۔ اسکول میں سکیورٹی گارڈ اور اس کی بیوی اور دو بچے تھے، بلال جمعہ پڑھ کر آچکا تو اس نے Skypeپر لیاقت علی سے بات کی شارجہ میں اس کے بعد وہ دوبارہ ہسپتال گیا، جب وہ وہاں پہنچا تو فوزیہ کافی بہتر تھی اور اس کی والدہ بتارہی تھیں کہ ڈاکٹر نے کہا ہے کل چھٹی ہوجائے گی۔
بلال نے انہیں بتایا کہ میری لیاقت علی سے تفصیل سے بات ہوئی ہے اور وہ شرمندہ ہے مگر اس نے شادی وغیرہ نہیں کی کسی سے بھی۔
”بات دراصل یہ ہے کہ جس سوپر مارکیٹ میں وہ کام کرتا ہے وہاں فلپائن کی ایک لڑکی اس کے ساتھ کام کرتی ہے ان دونوں نے مل کر ایک روم کرایہ پر لے لیا کرایہ بچانے کے لیے وہ دونوں ایک ساتھ ایک کمرے میں رہتے ہیں “
”ہائے…درفٹے منہ لیاقت کا…اسے ذرا شرم نہ آئی…یہ بے غیرتی کرتے ہوئے …بھلا کوئی گل ہے“خالہ نصرت لیاقت کی ماں بولی۔
”اور وہ جو ننگی تصویریں Facebook پر میں نے کل رات کو دیکھی تھیں…وہ…“فوزیہ شکایتی انداز میں بولی۔
”اب کیا کہتا ہے …اسے رکھنا ہے…یا پھر…“خالہ ثریا فوزیہ کی ماں بول اٹھی بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر پتہ نہیں کیوں گول مول کرگئی۔
”دیکھیں خالہ جی…وہ اگلے مہینے نوکری چھوڑ کر واپس آرہا ہے…ہمیشہ کے لیے …اس نے معافی بھی مانگی ہے …اور وہ شرمندہ بھی ہے …اب آپ نے فیصلہ کرنا ہے …اسے معاف کرنا ہے …یا نہیں…فوزیہ وہ تمہیں بھی فون کرے گا …میرا مشورہ ہے معاف کردینا“
اس کے بعد بلال واپس ڈیفنس کے لیے نکلا، واپسی پر اس نے ایک قصائی کی دکان کے سامنے گاڑی روکی ہارن دیا آدمی جلدی سے باہر آیا اور گوشت کا ایک بڑا شاپر بیگ گاڑی میں رکھ دیا، بلال نے اسے پیسے تھمادیے، بات چیت کوئی نہیں ہوئی سلام دعا کے علاوہ جیسے پہلے سے سب کچھ طے ہو۔
”ویسے تم مرد بھی بڑے کمینے ہوتے ہو …ہمیشہ مرد کی سائیڈ ہی لیتے ہو“توشی نے خاموشی توڑی اور بلال کی حرکت پر تبصرہ کیا ”اگر فوزیہ ایسی حرکت کرتی…تو کیا لیاقت علی اسے معاف کردیتا…“
”لیاقت معاف کرتا یا نہیں…یہ تو میں نہیں بتاسکتا…مگر وہ لڑکا …اچھا ہے…میں نے تو صرف ایک بکھرے ہوئے گھرانے کو جوڑنے کی کوشش کی ہے…میں لیاقت کو دو بار شارجہ میں ملا ہوں…جس طرح کا وہاں ماحول ہے…شراب اور عورت آسانی سے مل جاتی ہے …بڑا مشکل ہے …خود پر قابو رکھنا…باہر کے ملکوں میں…“
”تم اگر شارجہ میں ہوتے تو …تم بھی بہک جاتے…“توشی نے تیکھا سوال پوچھا۔
”بہکنے کے لیے شارجہ میں ہونا ضروری تو نہیں…آپ کے ڈیفنس میں سب کچھ ملتا ہے…“بلال گاڑی چلاتے ہوئے بول رہا تھا۔
”ایک سوال پوچھوں…“توشی نے جھجکتے ہوئے اجازت مانگی۔
بلال کے چہرے پر جان لیوا مسکراہٹ تھی اور وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”صبح سے کیا کر رہی ہو …سوال ہی تو پوچھ رہی ہو…“
”نوشی اگر کوئی ایسی حرکت کرے تو…“توشی نے بڑی بات سادگی سے کہہ دی ۔
”دیکھو توشی جی کہنا آسان ہے …کرنا مشکل …غلطی اور گناہ الگ ہیں…جھوٹ اور فریب الگ ہیں…غلطی اور گناہ معاف کرنا اللہ تبارک و تعالیٰ کی سنت ہے …اور نبی پاک کی حدیث کا مفہوم ہے میرا امتی ہر گناہ میں مبتلا ہوسکتا ہے …جھوٹا اور فریبی کبھی نہیں ہوسکتا…گاڑی گھر کے مین گیٹ کے سامنے کھڑی ہوتی ہے “
”تم نے مجھے واقعی معاف کردیا ہے “توشی نے اترنے سے پہلے کہا۔
”ہاں کردیا ہے …میں جھوٹ نہیں بولتا“بلال سنجیدگی سے بولا۔
”مجھے تم سے ضروری بات کرنی تھی مگر…ٹائم ہی نہیں ملا“توشی معصومیت سے بولی۔
”یہ لو…“بلال نے توشی کی نقل اتاری اس کا تکیہ کلام بول کر۔ توشی کھل کھلا کر ہنس دی اور جاتے ہوئے بولی۔
”پیاز گوشت اچھی طرح بنانا…آج وہ بھی کھائے گی“
###
مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر وہ دونوں کھانا کھانے میں مصروف تھے، روزہ انہوں نے پھل اور کھجوروں سے کھولا تھا اور اب وہ دونوں خمیری افغانی روٹی کے ساتھ پیاز گوشت سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
یہ چھوٹی سرخ اینٹوں کا دو منزلہ گھر تھا، پیچھے دو کمرے، برآمدے کے بغل میں رسوئی، اس سے آگے بیٹھک جس کا ایک دروازہ گلی میں کھلتا ہے اور ایک گھر کے آنگن میں، گھر میں داخل ہوں تو بڑا لکڑی کا دروازہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
صحیح کہتے ہیں کہ گھر کا دروازہ ماتھے کا جھومر ہوتا ہے اندر داخل ہوں تو سیڑھیوں کے نیچے طہارت خانہ جس میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
سیڑھیوں سے اوپر جائیں تو گھر کا چوبارہ آپ کا استقبال کرے گا، چوبارہ گلی کی طرف بنا ہوا تھا۔
یہ خوبصورت مکان کسی سکھ سردار نے غدر سے پہلے بڑے شوق سے بنوایا تھا اب یہ بابا جمعہ کی ملکیت ہے۔
مکین کون ہوا ہے …اور مکان کس کا تھا…گھر کے آنگن میں بہت سارے پھولوں کے پودے گملوں میں سجے ہوئے تھے گھر میں ہمیشہ بھینی بھینی خوشبو آتی رہتی، کچھ تو پھولوں کی تھی اور کچھ ایمان کی خوشبو۔ بابا جمعہ کہتے سب سے اچھی خوشبو ایمان کی ہوتی ہے۔
”آپ کو لگتا ہے …مزہ نہیں آیا…“بلال نے مٹی کی پلیٹ میں پیاز گوشت ڈالتے ہوئے بابا جمعہ سے کہا جو کہ اپنی مٹی کی پلیٹ بالکل صاف کرچکے تھے،
”بلال تم بناؤ…پیاز گوشت اور مزہ نہ آئے…یہ کیسے ہوسکتا ہے…“بابا جمعہ مسکراتے ہوئے بولے”مگر بات یہ ہے بھوک مرنے نہ دو…“
”میں سمجھا نہیں…“بلال نے تجسس سے پوچھا۔
”مزہ بھوک کو زندہ رکھنے میں ہے…بھوک کو ختم کرنے میں نہیں، بھوک زندہ رکھو اور لالچ کو ختم کردو“
بلال اپنا کھانا ختم کرچکا تھا، اس نے برتن اٹھائے دسترخوان سمیٹا اور چٹائی کو لپیٹ کر رکھ دیا، اور ہاتھ دھوکر آچکا تھا، بابا جمعہ اپنے پلنگ پر تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اوپر انہوں نے ایک گرم لوئی لی ہوئی تھی۔ بلال ان کے سامنے لکڑی کی کرسی پر بیٹھ گیا۔
”بلال صاحب کمزور انسان بھوک سے مرجاتا ہے راہب اور جوگی…بھوک مار دیتا ہے…مومن کی بھوک ہمیشہ زندہ رہتی ہے…بھوک نیکی کرنے کی، اچھائی، صدقہ ، خیرات، بھلائی کرنے کی…اگر پیٹ کی بھوک کی بات ہو تو اسے بھی زندہ رکھو ختم نہ کرو صحت مند رہوگے۔“
###
وہ دونوں سرونٹ کواٹر میں ایسے کھانا کھارہے تھے جسے باراتی کھاتے ہیں، حق سے رعب سے منہ کھول کر دھڑلے سے اسی وقت باجی غفوراں اندر داخل ہوتی ہے۔
”وے رج کے کمینیو…خصماں نوں کھانے…اِدھر غرق ہوئے نیں …میں نے سارا گھر چھان مارا…“باجی غفوراں بول رہی تھی ۔
”باجی آجا…بڑا مزیدار سالن ہے …“SMSنے دعوت دی۔
”تم دونوں سے کچھ بچے گا…تو کھالوں گی “باجی غفوراں نے جواب دیا۔
”بلال صاحب نے تو …عیاشی کروادی“DJنوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے بولا۔
”بلال نے پکایا ہے …“باجی غفوراں نے محبت سے پوچھا۔
”اگر بلال نے پکایا ہے تو آدھی روٹی کا سالن چھوڑ دینا“
مگر ان دونوں نے پلیٹ صاف کردی، باجی غفوراں نے دیکھ کر کہا۔
”شودے نا ہون تے…“
”یار …DJ…مزہ آگیا“SMSنے منہ صاف کرتے ہوئے کہا۔
”واقعی مزہ آگیا…“DJڈکار لیتے ہوئے بولا۔ ”بلال صاحب کے ہاتھ چومنے کو دل کرتا ہے“
”وڈے ہیجلے…بلال کے …اک جاسوس…اور دوسرا چمچہ…“باجی غفوراں نظروں سے تیر چلاتے ہوئے بول کر چلی گئی وہاں سے۔
جب باجی غفوراں پورچ کے پاس سے گزر رہی تھی تو بلال گاڑی سے اتر رہا تھا۔
”باجی آپ…میرے کمرے میں آئیں…“بلال جاتے ہوئے بولا اپنے کمرے کی طرف ۔ باجی غفوراں بلال کے پیچھے اس کے کمرے میں پہنچ گئی۔
”باجی وہ فریج میں آپ کے لیے پیاز گوشت رکھا ہے…وہاں سے لے لیں“بلال وارڈ روب سے کپڑے نکال کر واش روم جاتے ہوئے بولا۔
باجی غفوراں چند منٹ اس جگہ کو دیکھتی رہی جہاں بلال کھڑا تھا جیسے کچھ سوچ رہی ہوں اتنی میں بلال کپڑے چینج کرکے آچکا تھا۔
باجی غفوراں بلال کی موجودگی سے بے نیاز اسی جگہ کو دیکھ رہی تھیں۔
”باجی…کہاں کھوگئیں…آپ…خیریت تو ہے…“بلال مسکرا کر بولا۔
”کچھ نہیں بیٹا…سوچ رہی تھی …آج باجی جمیلہ زندہ ہوتیں تو تمہیں دیکھ کر بڑا مان کرتیں“حسرت بھری آواز سے باجی غفوراں بولی۔
”باجی اس کی نعمتوں پر شکر کرنا چاہیے…مان نہیں…“
”بیٹا…تو بھی بڑا اور تیری باتیں بھی…ہمارے گاؤں میں بڑے میاں جی ہوتے تھے …بڑے سیانے بڑے نیک…جس کو پھونک مار دیتے وہ ٹھیک ہوجاتا …پر تو…تو بغیر پھونک کے ہی…بندے کو ٹھیک کردیتا ہے “
###
”پھر بلال نے کہا فوزیہ کو وہ فرض تو معاف کردیتا ہے …مگر قرض نہیں …“توشی سارے دن کا احوال دادی کو سنارہی تھی، آج اس نے دادی کی ٹانگوں کی مالش بھی کی۔
”نوشی کہاں ہے …“دادی نے پوچھا۔
”وہ ماما کے ساتھ کسی پارٹی میں گئی ہے …“توشی نے بتایا ”کل ہم بھی تیل مہدی پر جوہر ٹاؤن جارہے ہیں “
”جوہر ٹاؤن کون ہے …جس کی تیل مہدی پر جارہے ہو“دادی نے پوچھا۔
”دادو وہ ہماری کلاس فیلو ہے…اس کی شادی ہورہی ہے “
”اور کون…کون جارہا ہے “دادی نے فکر مندی سے پوچھا۔
”میں اور نوشی…DJبھی ساتھ ہوگا۔ “
”بیٹا کوئی سیانا ساتھ ہونا چاہیے… “
”DJساتھ ہے نا …دادو…“
”جھلی نہ ہوئے تے…بھلا DJکب سے سیانا ہوگیا…سیانا بیٹا جیسے گل شیر خان جیسے بلال…“
”دادو اور پاپا…“توشی نے پوچھا۔
”بیٹا تو وہ میرا ہے …مگر سیانا نہیں…لائی لگ ہے…اور لائی لگ اپنی عقل کم اور دوسرے کی بات زیادہ مانتے ہیں…وہ تو اللہ کا کرم ہوگیا…گل شیر خان جیسا ایماندار بندہ مل گیا…تیرے باپ کو ورنہ پتہ نہیں کیا ہوتا…فون آیا تھا…دو تین دن میں آجائے گا …تیرا باپ …“اتنے میں بلال کمرے میں داخل ہوتا ہے۔
”دادو میرا موبائل روم میں پڑا ہے…میں لے کر آتی ہوں…“توشی جاتے ہوئے بولی۔
”کس سے ملا کر لائے ہو …اسے…جب سے آئی ہے …آنٹی عذا ایسی ہیں انہوں نے یہ کہا …ڈاکٹر بٹ ایسا ہے…بڑے اچھے ہیں وہ لوگ “نانی نے بلال سے پوچھا۔
”نانو…وہ میرا کلاس فیلو تھا کالج میں پھر وہ چائنہ پڑھنے کے لیے چلا گیا آج اچانک ملاقات ہوئی“
”حیرت ہے …تمہارا بھی کوئی دوست ہے “
”نہیں وہ…دوست تو …ہاں دوست ہے “بلال سوچ کر بولا۔
”کیسا ہے…گھر بار…دیکھنے میں…خاندان…لوگ کیسے ہیں “نانی نے سارے سوال ایک ساتھ پوچھ لیے۔
”ڈاکٹر ہے …دیکھنے میں خوبصورت ہے …شریف لوگ ہیں…اور خاندانی بھی “بلال نے ساری تفصیل بتائی۔
”باپ کیا کرتا ہے…کتنے بہن بھائی ہیں…رہتے کہاں ہیں…“نانی نے پھر سے تفصیل پوچھی۔
”باپ تو فوت ہوچکا ہے…لوہے کا کاروبار کرتا تھا …دو بڑے بھائی ہیں شادی شدہ…اور شادباغ کے رہنے والے ہیں “
شادباغ کا نام سن کر نانی اور بلال نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر فوراً نظریں چرالیں ایک دوسرے سے جیسے دونوں کے زخم ہرے ہوگئے ہوں۔
اتنے میں توشی کمرے میں واپس آجاتی ہے خاموشی دیکھ کر بول پڑی۔
”یہ لو…خیریت تو ہے …آپ دونوں اتنے خاموش کیوں بیٹھے ہیں…دادو میرا ڈریس…عذرا آنٹی نے دیا ہے“
”سوٹ تو بڑا خوبصورت ہے …اور مہنگا بھی لگتا ہے…“دادی نے مصنوعی مسکراہٹ کا سہارا لیتے ہوئے جواب دیا۔
”ہاں مجھے یاد آیا…وہ ایک کام تھا …تم سے …“توشی بولی عجلت میں۔
”جی…حکم…فرمائیے“بلال دھیمے لہجے میں بولا۔
”میری ایک دوست ہے …اسے نوکری چاہیے…ٹیچر ہے…بی ایڈ کیا ہوا ہے “
”کیا شادی شدہ ہے ؟“بلال نے پوچھا۔
”پتہ نہیں…“توشی نے گردن ہلا کر جواب دیا۔
”اور وہ تمہاری دوست ہے …تمہیں پتہ ہی نہیں اس کے متعلق “بلال نے حیرت سے کہا۔
”مسٹر بلال تمہاری سائیکی تم ہی جانو۔
کل میں اسے تمہارے آفس بھیج رہی ہوں میں وعدہ کرچکی ہوں…یاد رکھنا…دادو اسے سمجھادیں…ورنہ …میں…“توشی بلال کو انگلی دکھا کر مصنوعی غصے سے چلی گئی۔
”رکھ لینا بیٹا …کیا فر ق پڑتا…وعدہ کربیٹھی ہے “نانی نے بھی سفارش کردی۔
”نانو…وہ تو ٹھیک ہے …فرق مجھے تو کوئی نہیں پڑتا…مگر اسکول کا معاملہ ہے…جوان بچیاں پڑھتی ہیں…لوگ اعتماد کرتے ہیں…بھروسہ کرتے ہیں ۔ …ایک گندی مچھلی…خیر صبح دیکھتے ہیں “بلال ایک زیرک انسان کی طرح بول رہا تھا۔
###
ہفتے کا دن ، نومبر کی تیس تاریخ، آج سورج چھٹی پر تھا۔ آسمان پر بادلوں کا راج تھا، کالے سیاہ بادل سورج کو تیور دکھارہے تھے اسکول میں چھٹی کردی گئی تھی مقرر وقت سے آدھ گھنٹے پہلے ہی بچے جاچکے تھے اور سٹاف کے لوگ کچھ جاچکے تھے اور کچھ تیاری کر رہے تھے جانے کی بارش سے پہلے پہلے …
بلال آفس میں موجود تھا اور فوزیہ کاکام بھی وہی دیکھ رہا تھا، فوزیہ گھر آچکی تھی ، ہسپتال سے ڈسچارج ہوکر صبح بلال نے فون کیا تھا فوزیہ کی والدہ کو تو انہوں نے بتایا تھا۔
اتنے میں آفس بوائے آتا ہے اور آکر بتاتا ہے۔
”سر…کوئی لڑکی آئی ہے…کہتی ہے توشی میڈم نے بھیجا ہے“
”اس وقت…خیر بھیج دو…“بلال نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
وہ آفس میں آچکی تھی، بلال اپنی آفس چیئر پر بیٹھا ہوا تھا، وہ اجازت لے کر بلال کے سامنے آفس ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھ گئی۔
اس نے نقاب کیا ہوا تھا، کالی چادر کے ساتھ صرف اس کی آنکھیں نظر آرہی تھیں کالی سیاہ موٹی موٹی آنکھیں۔
”سر…میں…نوکری کے سلسلے میں حاضر ہوئی تھی…توشی نے بھیجا ہے مجھ کو“اس لڑکی نے رک رک کر کہا۔
”آپ کے پاس CVہے…“بلال نے پوچھا۔
”سر…وہ…تو میں لے کر نہیں آئی“اس لڑکی نے پھر سے رک رک کر جواب دیا۔
”اس سے پہلے آپ نے کہاں جاب کی “بلال نے جانچتی نگاہوں سے پوچھا۔
”وہ ماڈل ٹاؤن میں ایک بوتیک تھی…وہاں پر…“کچھ بہتر انداز میں بولی۔
”وہاں سے کیوں چھوڑا آپ نے…“بلال نے دو ٹوک انداز میں پوچھا۔
”سر…آپی نے بوتیک بیچ دی…اور خود باہر چلی گئیں“لڑکی نے بتایا۔
”آپ کی تعلیم کتنی ہے…“
”سرBAکیا ہے“لڑکی نے سوچ کر جواب دیا۔
”مگر توشی بتارہی تھی…کہ آپ نے بی ایڈ کیا ہے“بلال نے تشویش کے انداز میں پوچھا۔
”سر میں بہت مجبور ہوں، میری ماں بھی بیمار ہے اور والد صاحب کا انتقال ہوچکا ہے، دو بڑی بہنیں ہیں وہ گجرات میں رہتی ہیں ان کے حالات بھی اتنے اچھے نہیں ہیں، بھائی میرا کوئی نہیں، آپ خدا کے لیے مجھے نوکری دے دیں“لڑکی نے اپنی دکھ بھری داستان سنادی۔
”آپ یہ رکھ لو …“بلال نے کچھ دیر سوچ کر اچھی خاصی رقم اس کی طرف ٹیبل پر رکھ دی
”سر…مجھے نوکری چاہیے…خیرات نہیں“لڑکی نے تیکھا سا جواب دیا۔
”یہ خیرات نہیں ہے…قرض ہے…آپ کے پاس ہو تو لوٹادیجیے گا…میں تقاضا نہیں کروں گا…“بلال نے شائستگی سے جواب دیا۔
اس لڑکی نے آنکھ بھر کر بلال کو دیکھا اور نظروں کے تیر چلائے ۔
بلال نے حیا کی زرّہ سے ان تیروں کا جواب مسکرا کردیا۔
اس کے بعد اس نے ٹیبل پر پڑے روپے اٹھالیے اور باہر چلی گئی، تھوڑی دیر بعد بلال آفس سے نکلا تو ہلکی ہلکی بارش شروع ہوچکی تھی سارا سٹاف جاچکا تھا سوائے آفس بوائے اور سکیورٹی گارڈ کے، بلال کی گاڑی سے تھوڑی دور وہ لڑکی کھڑی تھی، بارش میں ایک چھوٹے درخت کے نیچے بلال نے اسے دیکھا تو گارڈ سے کہا کہ اسے بھیجو میرے پاس۔
بلال گاڑی میں بیٹھ چکا تھا وہ لڑکی پاس آئی۔
”آپ بارش میں کیوں کھڑی ہیں“بلال نے پوچھا۔
”میری پاس گاڑی نہیں ہے…“اور رکشہ ابھی ملا نہیں…“اس نے ترش لہجے میں جواب دیا۔
”آپ بیٹھو میں چھوڑ دیتا ہوں“بلال نے سنجیدگی سے کہا۔
”حیرت ہے…نوکری آپ نے دی نہیں اور لفٹ دے رہے ہیں “وہ گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہوئے بولی۔
”نوکری میں میرٹ پر دیتا ہوں …اور مدد …“بلال مدد کے بعد بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر خاموش رہا۔
”میرا نام نوین حیات ہے، میرے ابا فوج میں صوبیدار تھے، ان کے انتقال کے بعد ہماری یہ حالت ہوئی، شکر ہے گھر اپنا ہے اور ان کی پینشن سے گزارہ ہوتا ہے مگر امی کی بیماری کی وجہ سے میں مقروض ہوگئی ہوں، امی مجھے پیار سے نیناں کہتی ہیں“نیناں نے اپنی باقی کہانی بھی سنادی اور نیناں زور دے کر کہا۔
گھر کا ایڈریس اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی بتادیا تھا، تھوڑی دیر بعد ٹاؤن شپ کے ایک خستہ حال سنگل، سٹوری گھر کے سامنے گاڑی کھڑی تھی، سارے سفر کے دوران بلال نے اسے نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور سارا سفر ونڈ اسکرین سے باہر نظریں جمائے گزار دیا اور بلال کو اس کی باتوں سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
”آپ کا گھر آگیا…“بلال نے اسے بغیر دیکھے بے تاثر لہجے میں کہا۔
نیناں نے اسے اپنی موٹی موٹی کالی سیاہ آنکھوں سے دیکھا۔ جیسے بلال کا جائزہ لے رہی ہو ”شکریہ“کہہ کر گاڑی سے اتر گئی۔ ہلکی ہلکی بارش اب بھی جارہی تھی بلال کی گاڑی جاچکی تھی اور وہ بارش میں کھڑی جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
”عجیب نمونہ ہے “اس نے خود سے کہا۔
###
”فوزیہ بیٹی چلی جاؤ رانیہ کا پھر فون آیا تھا، آخر پرانے ہمسائے ہیں، آج کل تو اپنے رشتے دار امیر ہو جائیں تو وہ لو گ غریب رشتے داروں کو نہیں بلاتے یہ تو صرف ہمسائے تھے۔
“ خالہ نصرت فوزیہ کو تیل مہندی پر جانے کے لیے قائل کر رہی تھی۔
”فوزیہ پہلے یہ دوائی کھالو“ثریا فوزیہ کی ماں نے کہا۔ اتنے میں دروازے پر بیل ہوتی ہے۔ خالہ نصرت دروازے کی طرف روانہ ہوئی بلال ہاتھوں میں دو بڑے شاپنگ بیگ پکڑے فوزیہ کے کمرے میں داخل ہوا۔
”السلام علیکم …کیا حال ہے…فوزیہ جی“بلال نے پوچھا۔
فوزیہ بلال کو دیکھ کر بیٹھ گئی جو کہ اپنے بیڈ پرلیٹی ہوئی تھی۔
”سر…آپ…یہاں…بارش میں…“فوزیہ نے حیرت سے پوچھا۔
”بیٹھنے کے لیے نہیں کہوگی…“بلال مسکراتے ہوئے بولا۔
”کیوں نہیں بیٹا…تمہارا اپنا گھر ہے…“ثریا نے جلدی سے لکڑی کی کرسی بلال کی طرف کردی”بیٹھو بیٹا جم جم بیٹھو…میں چائے لے کر آتی ہوں“
”امی وہ …چائے میں چینی نہیں ڈالنی…اور پتی اچھی طرح کاڑھ لیجیے گا…
ہاں وہ…اس سیف میں نیا تو لیا ہے…وہ بھی دے دیں…“فوزیہ نے اپنی ماں کو ساری ہدایات ایک ساتھ صادر کریں۔
”سر…یہ فروٹ کیوں لائے آپ…“فوزیہ منہ بنا کر بولی۔
”اس لیے …کہ تم بیمار ہو…“بلال جانچتی نگاہوں سے دیکھ کربولا۔
”کیا لیاقت کا فون آیا تھا ؟“
”سر…قسم سے …بڑے چالو ہیں…آپ…دو سال آپ کے ساتھ کام کیا ہے اتنا تو میں بھی سمجھتی ہوں۔ میرا چہرہ غور سے دیکھ کر آپ کو معلوم ہوگیا ہے…“
”کیا معلوم ہوگیا ہے مجھے …فوزیہ جی…“
”یہی کہ لیاقت نے فون کیا تھا …رو رہا تھا …پہلے تو دو دفعہ میں نے فون کاٹ دیا …پھر میں نے اٹھالیا…معافیاں مانگ رہا تھا …پھر مجھے ترس آگیا “
”اچھا …اچھا…“بلال نے لمبا سا اچھا کہا تو فوزیہ سمجھ گئی کہ اس کا مذاق اڑایا ہے بلال نے۔
”سر…قسم سے …آپ مریض کا بھی مذاق اڑاتے ہیں“
”مریض کہاں سے ، ایک دم ٹھیک ہو“بلال نے کہا۔
”سر…قسم سے…وہ آپ کے دوست ڈاکٹر بٹ بڑے اچھے انسان ہیں، بالکل منا بھائی ایم بی بی ایس کی طرح، جب سے ان کو یہ معلوم ہوا، میں آپ کے آفس میں کام کرتی ہوں۔ سر رات کو تو وہ اپنے گھر سے ہمارے لیے کھانا بھی لائے تھے ۔ “
”بلال بیٹا چائے …“خالہ نصرت نے ایک چھوٹی میز پر نمکو بسکٹ اور چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا۔
”دیکھو بلال بیٹا میں اسے کہہ رہی ہوں کہ آج رات کو تیل مہندی ہے وہاں چلی جائے، میں بھی ساتھ چلوں گی مگر مانتی ہی نہیں“
”سر آپ آئیں گے نا …“فوزیہ نے دلچسپی سے پوچھا۔
”میں تو نہیں آؤں گا …مگر تم ضرور جانا…اسکول کے سامنے والا شادی ہال ہے نا…“بلال نے تصدیق کی۔ ”جی سروہی ہے…تیل مہندی اور بارات اسی ہال میں ہیں“
”قسم سے …سرقسم سے…پاس ہی تو ہے“بلال نے فوزیہ کی نقل اتاری ۔ سب نے زوردار قہقہہ لگایا۔
###
”آج بلال بھائی کہاں ہیں “عادل عقیل نے پوچھا بابا جمعہ سے ۔
”وہ نہیں آئے گا …اس کا فون آیا تھا …کچھ مصروف ہے “بابا جمعہ جوتا سلائی کرتے ہوئے بولے۔
’آپی وہ سڑک کے پار موچی ہے ناں، یہاں بلال بھائی آتے ہیں’“DJگاڑی سڑک کنارے روک کر ہاتھ کے اشارے سے نوشی کو بتارہا تھا۔
”Realy how Disgusting“نوشی نے حقارت سے بولا۔
”What Nonsense“توشی نے نوشی کے رویے پر ری ایکٹ کیا”ایک بزرگ آدمی ہے اپنی محنت کر رہا ہے اس میں برائی کیا ہے “
”ایک انتہائی پڑھا لکھاآدمی جو کہ اس شہر کے مشہور اسکول کا پرنسپل بھی ہے اور جس کا تعلقEliteکلاس سے ہے، تمہارے بلال صاحب ، یہاں آتے ہیں، اس بڈھے موچی کے پاس “
”So What“توشی نے پھر بلال کی وکالت کی ۔
”اس میں کونسی برائی ہے وہ کونسا گناہ کر رہا ہے ،یہاں آکر“
”Are You Mad“نوشی نے تلخ لہجے میں کہا۔
”آؤDj بڈھے کی خبر لیتے ہیں“رکو…تم لوگوں رکو…میں جاتی ہوں”“توشی نے ان دونوں کو روکا اس ڈر سے کہ کوئی بدتمیزی نہ کردیں
”السلام علیکم…بابا جی …“توشی نے یہ سوچ کر عقیدت سے سلام کیا کہ اگر بلال یہاں آتا ہے تو کوئی خاص بات ضرور ہوگی۔
”وعلیکم السلام…جی بیٹا جی …کیا خدمت کروں…“بابا جمعہ نے جواب دیا۔
”آپ بیگ وغیرہ بھی سلائی کرلیتے ہیں “توشی نے جھوٹ موٹ پوچھا۔
”تم خود آئی ہو کہ گاڑی والی نے بھیجا ہے “بابا جمعہ حلیمی سے بولے۔
”جی وہ میں…میں بیگ سلائی کروانا چاہتی ہوں “
”عادل بیٹا…ایک تو کیک لے کر آؤ…اور دوسرا اقبال کو چائے کا فون کردو…نمبر اس میں ہے …“بابا جمعہ نے کاپی عادل کو تھمادی۔
عادل اپنی جگہ سے اٹھ کر چلا گیا اور اقبال کا نمبر اس نے دیکھ لیا کاپی سے ”آؤ بیٹا جی…یہاں بیٹھو…“اپنی چادر اتار کر بچھادی توشی کے لیے کارپیٹ کے ٹکڑے پر”آپ بڑی ہو…یا وہ گاڑی والی…“
”جی …وہ“توشی حیرت میں ڈوبی ہوئی آواز کے ساتھ بولی۔
”اچھا تو تم تسلیم ہو…اور وہ ہے …نسیم…“
”یہ بڈھا موچی تو بڑا تیز ہے“ توشی نے اپنے دل ہی دل میں کہا۔
”جی بیٹا…آپ نے کیا کہا مجھے…“بابا جمعہ نے پوچھا جو ہری کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے ۔
”نہیں …نہیں کچھ بھی نہیں…آپ ہمیں کیسے جانتے ہیں “
”جس کی وجہ سے آپ بیٹا جی یہاں آئی ہو…اسی کی وجہ سے جانتا ہوں وہ باپ ہی کیا …جو بیٹے کی آنکھوں کی تحریر نہ پڑھ سکے “
”مطلب…میں سمجھ نہیں پائی…“توشی ہولے سے بولی۔
”اس کا تو پتہ نہیں…میں اسے اپنا بیٹا سمجھتا ہوں“
”اور ہمارے نام…وہ بھی اصل والے“توشی دھیمے لہجے میں بولی۔
”آپ کے نام آپ دونوں کی شخصیت کے مطابق ہیں، تسلیم یعنی مان جانے والی اور نسیم شام کی ہوا اب گرم یا سرد یہ اپنا اپنا نصیب ہے“
عادل کیک اور ببلو چائے لے کر آچکا تھا، بابا جمعہ نے بابر یعنی ببلو کو بتایا یہ دو کپ چائے اور کیک اس سرخ گاڑی میں دے آؤ۔
عادل عقیل لکڑی کا اسٹول لے کر بیٹھ گیا اور یہ تینوں چائے پینے میں مصروف ہوگئے ۔
”بابا جی …آپ نے اپنا نام نہیں بتایا“توشی چائے کا سپ لیتے ہوئے بولی جو کہ اب گھل مل گئی تھی بابا جمعہ کیساتھ۔
”میرا نام…جمعہ خاں میواتی ہے“
”یہ بھی کوئی نام ہوا…جمعہ خاں میواتی“توشی نے دو ٹوک رائے دے دی
”آپ پٹھان ہیں کیا؟“
”نہیں بیٹا جی…میں میو یعنی میواتی ہوں اور میں خاں ہو خان نہیں…صرف ایک نقطے کا فرق ہے اکثر نقطے کا فرق سارا معانی بدل دیتا ہے اور سارا مطلب بھی“
”بابا جی…جمعہ کا کیا مطلب ہے“توشی نے جلدی سے پوچھا آج پہلی دفعہ تھا عادل عقیل خاموشی سے بات سن رہا تھا۔
”بیٹا جی…جمعہ کا مطلب جمعہ ہی ہے ، ہمارے بزرگ بڑے سادہ لوگ تھے، میرے باپ کا نام سفید خاں میواتی تھا اور میرے دادا کا نام موج خاں میواتی تھا“
”پھر بھی کوئی مطلب تو ہوگا…بابا جی“عادل عقیل خاموش نہیں رہ سکا۔
”بیٹا جی…ایک مطلب ہے Friday“بابا جمعہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”اکثر دانشوروں سے پوچھا ہے مجھے جواب نہیں ملا اگر عادل بیٹا پتہ چلے تو مجھے بھی بتائیے گا“
”اور بابا جی…بلال کا کیا مطلب ہے“توشی نے سنجیدگی سے پوچھا جوکہ اپنی چائے ختم کرچکی تھی۔
”بلال کا مطلب ہے…عشق…“بابا جمعہ عقیدت سے بولے۔
”اور عشق کا مطلب کیا ہے “توشی نے یکایک پھر سے کہا۔
”عشق کا مطلب ہے بلال …اور بلال کا مطلب ہے عشق“
”میں صرف نام بلال کا مطلب جاننا چاہتی ہوں “توشی بے قراری سے بول رہی تھی ۔
”بیٹا جی کچھ نام خود میں اتنے بڑے ہوتے ہیں…کہ مطلب ان کے آگے چھوٹا پڑ جاتا ہے اور ایسا ہی ایک نام …بلال …بھی ہے “
DJ پاس کھڑا اطلاع دے رہا تھا اور چائے کی ٹرے اس کے ہاتھ میں تھی۔
”بابا جی…آپی آپ کا شکریہ ادا کر رہی تھی …اور آپ کو بلارہی ہیں“DJنے توشی کی طرف دیکھ کر کہا۔
توشی وہاں سے جاچکی تھی، DJ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر اس نے ایک دفعہ پھر غور سے بابا جمعہ کو دیکھا گاڑی میں جاتے ہوئے۔
”تم بھی حد کردیتی ہو…“نوشی نے خفگی سے کہا۔
”آپی جی…یہ تو وہی بات ہوگئی…جاسوس کودشمن کے علاقے میں جاسوسی کے لیے بھیجا جائے اور وہ رشتہ داری نکال لے دشمنوں کے ساتھ “
”شٹ اپ DJ“توشی بھڑکی۔
نوشی ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہی تھی۔
”ویسے آپی…چائے مزیدار تھی…دودھ پتی تھی، پانی کا قطرہ نہیں تھا“
”BG…تم دونوں کے بارے میں صحیح کہتی ہے ایک SMSاور دوسرا DJ کھانے پینے کے یار ہیں“توشی نے اپنا غصہ DJپر نکالا۔
”اس پر کیوں غصہ نکال رہی ہو…اس نے تو ٹھیک بات کی …تم تو بڈھے موچی سے ایسے باتیں کر رہی تھیں…جیسے اسے سالوں سے جانتی ہو“نوشی نے DJکا دفاع کیا۔
”میں تو انہیں نہیں جانتی تھی …مگر وہ ہم دونوں کو سالوں سے ہی جانتے ہیں“اس بار توشی نے بابا جمعہ کا ذکر عقیدت سے کیا تھا۔
”کیا مطلب سالو ں سے جانتے ہیں “نوشی کو تشویش ہوئی ۔
”مطلب پھر بتاؤں گی “توشی نے بات بدلیDJ کی طرف دیکھ کر ان کی گاڑی گھر میں پہنچ چکی تھی۔
###
”میرا جانے کو بالکل دل نہیں چاہ رہا ہے، ایک یہ موسم اوپر سے تمہارا ساتھ کوئی پاگل ہی ہوگا، اتنی سردی میں باہر جائے اوپر سے یہ بادل کالے سیاہ“ولید ہاشمی نے ارم واسطی کی کالی سیاہ زلفوں کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے …رومینٹک انداز میں کہا، جو اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی اُس کے دائیں بازو کے حصار میں ان دونوں کی ٹانگیں سامنے پڑے سینٹر ٹیبل پر تھیں، ارم کے کھلے کالے سیاہ بال اس کے شانوں سے ہوتے ہوئے اس کی چھاتی پر تھے اور وہ پستہ، بادام اور کاجو سے موسم کی ٹھنڈک کو دور کر رہے تھے، جس کی پلیٹ سائیڈ ٹیبل پر پڑی ہوئی ٹھی ۔
”میں یہ چاہتی ہوں ہمارا یہ ساتھ ہمیشہ کے لیے رہے…اسی لیے تمہیں بھیج رہی ہوں یہ عمر انگور کی بیل کی طرح ہوتی ہے، جو چیز قریب مل جائے اسی کیساتھ لپٹ جاتی ہے…اور وہ دونوں بیلیں کسی کے ساتھ لپٹنا چاہتی ہیں…ولید ابھی موقع ہے…اسے کیش کرلو…“
ارم ایک تجربہ کار عورت کی طرح بول رہی تھی عمر 30کے آس پاس مگر اپنی جسامت کی وجہ سے زیادہ نہیں لگتی تھی وہ سلم اینڈ سمارٹ تھی اور پرکشش بھی۔
”تم بھی کبھی کسی کے ساتھ لپٹی تھی…“ولید نے مذاق میں پوچھا۔
ہاں…دس سال پہلے جب میں بھی انگور کی بیل کی طرح تھی، میں اسے مضبوط درخت سمجھ کر لپٹ گئی…مگر وہ درخت تو تھا…لیکن اندر سے کھوکھلا سوکھا ہوا…میں اس کے مصنوعی پینٹ کو اس کی ہریالی سمجھ بیٹھی تھی“
”پھر کیا ہوا…“ولید نے تجسس سے پوچھا۔
ارم واسطی نے گہری ٹھنڈی سانس بھری اور بھری ہوئی آواز سے بولی۔
”ہونا کیا تھا …وہی جو ہم جیسیوں کے ساتھ ہوتا ہے…جو ماں باپ کی عزت کا جنازہ نکالتی ہیں…وہ پوری زندگی ذلیل خوار ہوتی ہیں …ہمارے گاؤں کا رہنے والا تھا، ڈیفنس میں کسی ڈیلر کے پاس کمیشن پر کام کرتا تھا دل نواز چغتائی گاؤں جاتا تو نئی گاڑی ، نئے نئے موبائل، روپیہ پیسہ خوب دکھا کر آتا ، اس کے چچا کی بیٹی میری سہیلی تھی اس کے ذریعے مجھے موبائل اور سم دی، رات کو گھنٹوں میں چوری اس سے باتیں کرتی، اس کی محبت میں گرفتار ہوگئی تھی، اس نے کہا لاہور آجاؤ، رانی بناکر رکھوں گا پیسے اس نے اپنی چچا کی بیٹی کے ذریعے بھیجے میں ٹھوکر نیاز بیگ آئی وہاں سے وہ مجھے گاڑی میں بٹھا کر لے آیا…ڈیفنس کے ایک گھر میں ہم پورا مہینہ ساتھ رہے، شادی سے پہلے ہم شادی شدہ زندگی گزار رہے تھے، میرے گھر والے اسے بھی فون کرتے بیٹا ارم نہیں مل رہی، لاہور پتہ کرنا یہ سپیکر پر مجھے ان کی باتیں سنواتا، مہینہ بعد ایک دن یہ اچانک غائب ہوگیا۔
دو دن گزر گئے اس کا کوئی پتہ نہیں، موبائل اس کا بند تھا دو دن بعد ایک آدمی آیا اس نے کہا یہ گھر ہمارے انویسٹر کا ہے یہاں سے نکلو، میں نے کہا میں کہاں جاؤں اس نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کی آفر دی، میں ڈرتی ڈرتی اس کے ساتھ چلی گئی۔ اس نے مجھے دل نواز کے بارے میں بتایا کہ ہم دونوں ساتھ کام کرتے ہیں، اور وہ گاڑی بھی میری تھی، میں نے اس سے پوچھا اب دل نواز کہاں ہے…وہ گاؤں چلا گیا ہے اور اپنے چچا کی بیٹی سے اس کی اگلے ہفتے شادی ہے۔
مجھے اس کی بات پر یقین نہیں آیا، تب اس نے اپنے موبائل سے اوپن سپیکر پر ڈئیگی سے بات کی، وہ میرے ساتھ گزاری راتوں کا مزہ لے لے کر حال بیان کر رہا تھا…اور میں سن کر شرم سے پانی پانی ہورہی تھی…گاؤں میں اس بات کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی، میں کہاں ہوں اور میرے ساتھ ڈئیگی نے کیا کیا تھا، میری سہیلی جس سے شادی کرنے سے ڈئیگی انکاری تھا اس نے ڈئیگی سے کہا اب اگر تم نے مجھ سے شادی نہیں کی تو میں ارم کی کہانی سب کو بتادوں گی۔
ڈئیگی نے میری سہیلی سے شادی کرلی سجاد باجوہ نے مجھے ایک سال رکھیل بناکر رکھا جب اس کا دل بھر گیا تو مجھے چھوڑدیا اور آج میں تمہارے سامنے بیٹھی ہوں۔“اشکوں سے اس کے گال بھیگ چکے تھے وہ الٹے ہاتھ سے آنسو صاف کرتے ہوئی بولی
”ولید جو لڑکیاں اپنے گھروں سے بھاگتی ہیں زندگی ختم ہوجاتی ہے مگر ان کا سفر ختم نہیں ہوتا…نہیں ختم ہوتا سفر…نہیں کبھی نہیں…“
”میری انگور کی بیل…“ولید نے اسے اپنے بازو میں لے کر اس کی پیشانی چوم لی۔
اب یہ انگور کی بیل ایک دیسی کیکر کے ساتھ لپٹی ہوئی تھی ۔ یہ دوسری بات ہے کہ اب یہ بیل شیشم کی لکڑی سے زیادہ مضبوط تھی۔
####
ڈھول کی تھاپ پر مہندی کا فنکشن اپنے عروج پر تھا، ایک طرف عورتوں کی محفل اور دوسری طرف منچلے نوجوان ڈانس اور بھنگڑا ڈال کر ہلکان ہوچکے تھے مگر ہٹنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔
اتنے میں ثانیہ کے باپ کی آواز بلند ہوتی ہے ”بس بھئی بس…بہت ہوگیا اب کھانا کھاؤ…دیر بھی ہوچکی ہے …اور سردی بھی بہت ہے…چلو شاباش…کھانا کھل گیا “
یہ سن کر نوشی ہجوم سے نکل کر واش روم کی طرف بڑھی، مووی میکر کی لائٹ والی کیبل سے اس کا پاؤں پھنسا اور وہ گرتے گرتے بچی۔
اگر ولید ہاشمی کے مضبوط بازو اسے سہارا نہ دیتے تو وہ زمین پر تھی۔ ولید نے اسے ایسے سنبھالا جیسے وہ پوزیشن لیے کھڑا ہو، نوشی ولید کی بانہوں میں تھی دونوں کی نظریں چار ہوئیں۔
کیکر کے کانٹوں والے درخت نے انگور کی بیل کو تھام لیا…لپٹنا ابھی باقی تھا…نوشی کے لیے یہ نیا تجربہ تھا…وہ زندگی میں پہلی بار کسی مرد کے بازوؤں میں تھی۔
”وہ…میں نے دیکھا نہیں…Thank you“نوشی نے اپنی گولڈن آوارہ لٹیں کان کے پیچھے کیں اور اپنا پیلا جوڑا درست کیا اور شرماتی ہوئی واش روم کی طرف چلی گئی ۔ تھوڑی دیر میں وہ واپس لوٹی تو ولید وہیں کھڑا تھا، کھانا کھل چکا تھا، اس لیے اس طرف کسی کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔
”آپ بہت خوبصورت ہیں…میں اپنی زندگی میں یہ منظر کبھی نہیں بھلاسکوں گا“ولید نے نوشی کو آنکھ بھر کر دیکھا اور یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔
عورت کتنی ہی پڑھی لکھی اور تیز کیوں نہ ہو تعریف کی تیز دھاری تلوار اس کے بت کو ریزہ ریزہ کردیتی ہے اور یہی کچھ نوشی کے ساتھ ہوا تھا۔
وہ تعریف کی تلوار سے ریزہ ریزہ ہوچکی تھی، سارے فنکشن کے دوران ولید کا فوکس اس پر تھا، اب موقع ملا تو وہ اپنا کام کرکے جاچکا تھا، بغیر کھانا کھائے ہوئے۔ کھانے سے فارغ ہوکر مہمان جانا شروع ہوچکے تھے۔
دلہن کے پاس صرف نوشی اس کے ساتھ کھسر پھسر کر رہی تھی اس واقعے کے بعد نوشی کی نگاہیں مسلسل کسی تلاش میں تھیں مگر ولید جاچکا تھا۔توشی اور فوزیہ ایک سائیڈ پر صوفے پر بیٹھی تھیں، ان کے سامنے گیس ہیٹر لگا ہوا تھا سارا پروگرام فوزیہ نے اسی جگہ بیٹھ کر دیکھا تھا۔ خالہ نصرت ایک کونے میں اپنی پرانی دوستوں سے گپ شپ میں مصروف تھی۔
”کس کے ساتھ آئی تھیں“توشی نے پوچھا۔
”رانیہ نے گاڑی بھیجی تھی …ہاں یاد آیا ڈاکٹر بٹ تمہارا پوچھ رہے تھے “فوزیہ نے بتایا۔
”وہ کیو ں میرا پوچھ رہا تھا Made in Chinaڈاکٹر“توشی انداز سے بولی۔
”مجھے لگتا ہے …ڈاکٹر بٹ دل دے بیٹھا ہے تمہیں“فوزیہ نے شراتی لہجہ میں کہا۔
”یہ لو…یہ منہ اور مسور کی دال …چار بچوں کا باپ لگتا ہے …میرا اس سے کیا جوڑ…“توشی جھوٹ موٹ انکار کر رہی تھی۔
”قسم سے …تم دونوں کی جوڑی بڑی اچھی لگے گی…نوشی اور سر بلال سے بھی زیادہ “فوزیہ نے نوشی کی طرف دیکھ کر کہا۔
”بس…ڈاکٹر بٹ تھوڑے موٹے ہیں…باقی گورے چٹے…اونچے لمبے جوان ہیں۔ دل کے بھی بہت اچھے ہیں…“فوزیہ بول رہی تھی اور توشی غور سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”چلو فوزیہ بیٹی…بہت دیر ہوگئی ہے …“خالہ نصرت پاس کھڑی بول رہی تھیں۔
”ہم چھوڑ دیتے ہیں…آپ کو“توشی نے لفٹ کی آفر کردی اتنے میں نوشی بھی آچکی تھی نوشی نے آتے ہی کہا۔ ”چلو۔۔۔۔ چلیں۔۔۔“
”چلو…چلیں…فوزیہ کو بھی گھر چھوڑنا ہے “توشی بولی۔