
شکیل احمد چوہان - بلال صاحب
”Ok no problemچھوڑ دیتے ہیں، تم لوگ آؤ میں DJکو کہتی ہو گاڑی سامنے لے آئے “یہ کہہ کر وہ ہال سے باہر چلی گئی اس کا Phone بھی DJ کے پاس تھا، اس لیے گاڑی کو دیکھنے کے لیے ہال کے ساتھ خالی پلاٹ میں گئی، جہاں گاڑیوں کی پارکنگ تھی۔
DJ گاڑی میں بیٹھ کر عطا اللہ خاں نیازی کے گانے سن رہا تھا، بند دروازوں کے ساتھ۔ نوشی نے آواز دی ۔ ”DJ…DJ…“مگر اس نے سنا نہیں شور کی وجہ سے۔
”ہم چھوڑ دیتے ہیں…چھمک چھلو…“ایک لڑکا نوشی کی کلائی پکڑتے ہوئے بول رہا تھا۔
”How dare youچھوڑو مجھے…حرام زادے…“نوشی چیخی کلائی چھڑواتے ہوئے ۔
”ڈانس تو کرینہ سے بھی اچھا کرتی ہو…چھمک چھلو…“دوسرا لڑکا بولا۔
اتنے میں DJ کی نظر پڑ جاتی ہے، وہ آگے بڑھتا ہے دوسرا لڑکا اسے زور سے گھونسا مارتا ہے اس کے پیٹ میں اور دھکا دیتا ہے DJزمین پر گر جاتا ہے کمر کے بل اسی دوران ہال کے مین دروازے پر خالہ نصرت یہ سب دیکھ لیتی ہے۔
”اوئے …بے غیرتوں…کتے د ے پتروں…چھڈ دو بچی نوں“خالہ نصرت ایک بہادر دیہاتی عورت کی طرح ان پر لپکی توشی اور فوزیہ ہال کے مین دروازے پر کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔ خالہ نصرت نے جاتے ہی جس لڑکے نے کلائی پکڑی تھی اس کے گال پر تھپڑ رسید کردیا ،لیاقت کا سارا غصہ اس کے گال پر نکلا وہ دونوں لڑکے آناً فاناً گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے بھاگ گئے۔
ایک شور مچ گیا، چور چور سب لوگ باہر دوڑے ”کیا ہوا…خیریت تو ہے …چور تھے پولیس کو فون کرو…کوئی نقصان تو نہیں ہوا…سکیورٹی گارڈ کہاں تھا…منیجر کو بلاؤ۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ یہ سکیورٹی گارڈ آگیا ۔ کسی نے بتایا“
”تم کہاں تھے “اعظم بسرا غصے سے بولے رانیہ کے والد”سروہ میں پیچھے کھانا کھارہا تھا “گارڈ ڈرتے ڈرتے بولا۔
”منیجر کہاں ہے “”سر وہ ابھی چلے گئے “آفس کا ایک لڑکا بولا۔
اس دوران نوشی خالہ نصرت کے ساتھ لپٹی ہوئی تھی اور وہ کانپ رہی تھی ایک سردی اور دوسرا ڈر اس کی عزت پر حملہ ہوا تھا۔ پاس پہنچ کر اعظم بسرا بولے”میں پولیس کو فون کرتا ہوں “
”نہیں…پاجی…بچت ہوگئی…موبائل چھین رہے تھے …چور تھے یہ DJنے بڑی بہادری دکھائی …پولیس کو فون مت کریں بڑے سوال پوچھتے ہیں “خالہ نصرت نوشی کو اپنی چادر میں لپیٹتے ہوئے بول رہی تھی ۔
DJاپنی تکلیف بھول کر مسکرا رہا تھا۔ سب DJ کی بہادری پر اس کو داد دے رہے تھے، DJصابن کی جھاگ کی طرح کھل اٹھا تھا۔
”یہ بہادری نہیں بے وقوفی ہے موبائل ہی تو تھا اگر بچی کو کچھ ہوجاتا …تو…“اعظم بسرا غصے سے بولے۔
DJ کی بہادری کی جھاگ اعظم بسرا کے غصے سے فوراً بیٹھ گئی اسے اپنی تکلیف پھر یاد آگئی ۔
”میں تم لوگوں کو چھوڑ کر آتا ہوں “اعظم بسرا بولے۔
”نہیں انکل …Thank you ہم چلے جائیں گے “توشی بولی پریشان چہرے کے ساتھ۔ وہ سب گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکل آئے راستے میں فوزیہ بولی۔
”خالہ…آپ نے یہ کیوں کہا چور تھے…میں ان کمینوں کو اچھی طرح جانتی ہوں“
”تم ابھی بچی ہو…عزت کی سفید چادر پر …بدنامی کا ایک چھینٹا بھی نظر آجاتا ہے“
”گھر پہنچ کر فون کردینا“گاڑی سے اترتے ہوئے فوزیہ بولی توشی کو دیکھ کر۔
خالہ نصرت نے نوشی کا ماتھا چوما جو اس کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی اور وہ بھی گاڑی سے اتر گئی۔
سارے رستے نوشی نے ایک لفظ نہیں بولا جیسے کومے میں ہو، وہ گھر پہنچے تو 12بج چکے تھے، ان کے آنے سے چند منٹ پہلے ہی ناہید اور شعیبی کسی پارٹی سے لوٹے تھے، لاؤنج میں نوشی کی نظر اپنی ماں پر پڑی تو اس نے گلے لگ کر زور زور سے رونا شروع کردیا، اس کی آواز سن کر شعیبی نیچے آگیا، جو سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اپنے کمرے میں جانے کے لیے۔
”کیا ہوا…بے بی…میری جان…کیا ہوا…کوئی بتائے گا مجھے…“ناہید نے غصے سے ری ایکٹ کیا۔
”توشی کیا ہوا بتاؤ مجھے …Djتم بتاؤ مجھے…“ناہید غصے سے چلائی…DJنے سارا معاملہ بتادیا جو کچھ اس نے دیکھا تھا۔
”کون تھے وہ لوگ…“شعیبی جذباتی ہوکر بولا۔ ”اُن کی تو میں…ان کی یہ ہمت“
”میں نہیں جانتا ان کے نام…ہاں ان کو پہچان لوں گا“DJآہستہ سے بولا۔
”میں ابھی پولیس کو فون کرتی ہوں“ناہید نے اپنے پرس سے فون نکالتے ہوئے کہا۔
”ر ک جائیں ماما“توشی نے آواز لگادی اس کے کانوں میں خالہ نصرت کے الفاظ گونجے”عزت کی سفید چادر پر بدنامی کا ایک چھینٹا بھی نظر آجاتا ہے“
”کیا بتائیں گی پولیس کو…جو ہوا ہے اور ہم کن کے خلاف کمپلین فائل کریں گے…ہم لوگ تو ان کا نام پتہ کچھ بھی نہیں جانتے “
DJکو کچھ یاد آیا”شیعبی سر…ان کو میں نے دو تین دفعہ ایک سنوکر کلب ہے، وہاں دیکھا تھا، شاید وہاں مل جائیں…“
”چلو…چلتے ہیں…تم پہچان تو لوگے ان کو…“شعیبی کرخت لہجے میں بولا۔
”شعیب رکو…میری بات سنو…بس معلومات لینا ان کے بارے میں باقی بعد میں دیکھیں گے“ناہید نے سمجھایا۔
”ماما دیکھنا کچھ نہیں ہے …ان کو مجھ سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنی ہوگی…بس“نوشی جلالی آواز کے ساتھ بولی۔
”تم معافی کی بات کر رہی ہو …میں تو ان کو برباد کردوں گی “ناہید آنکھیں پھاڑ کر بولی۔
DJ کو اپنی بے وقوفی پر غصہ آرہا تھا، کیوں اس نے پوائنٹ اسکور کرنے کی کوشش کی تھی سارا سنوکر کلب انہوں نے دیکھ لیا مگر وہ نہیں ملے کلب سے نکل کر جب شعیبی اور DJ گاڑی میں بیٹھنے لگے تو شعیبی والی سائیڈ پر آکر ایک گاڑی پارکنگ میں رکی۔
”کیوں شعیبی کدھر جارہے ہو“وکی نے آواز دی جو گاڑی سے اتر رہا تھا ۔
”مال لے کر آیا ہوں …آجا…یاد کرے گا“دوسری آواز گونجی جو کہ سنی کی تھی۔
”چھمک چھلو تو ہاتھ سے نکل گئی…مگر یہ تو ہے “وکی نے چرس کا ایک ٹکڑا شعیبی کو دکھایا۔
”یہی تھے …ہاں بالکل …یہی تھے “DJعجلت میں بولا شعیبی کے کندھے کو ہلاتے ہوئے جوکہ اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا اور وہ ونڈ اسکرین سے ان کو دیکھ رہا تھا۔
شعیبی کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا۔ وہ نیچے اترا اور سنی کو مارنے لگا، وکی نے دیکھا جو کہ سنی سے کچھ آگے چل رہا تھا۔ واپس پلٹا اور شعیبی پر چڑھ دوڑا وکی اور سنی جسامت میں DJاور شعیبی سے زیادہ طاقتور تھے۔ ان دونوں نے DJاور شعیبی کی خوب دھلائی کی، شور مچ گیا سنوکر کلب سے لڑکے باہر آگئے۔
”حرام زادوں وہ میری بہن تھی“شعیبی ماتھے اور ہونٹوں سے بہتے ہوئے خون کے قطروں کے ساتھ بولا۔
”جن کے اوپر تو اپنے گندے ہاتھ صاف کرتا تھاوہ بھی کسی کی بہنیں تھیں“ سنی غصے سے چیخا اسے کچھ لڑکوں نے پکڑا ہوا تھا۔
”چھوڑومجھے…بڑا غیرت مند بنتا ہے…ہمارے کیے ہوئے شکار پر کتنی دعوتیں اڑائی ہیں…اس حرام زادے نے“وکی اپنے آپ کو لڑکوں سے چھڑاتے ہوئے بول رہا تھا۔
اتنے میں سنوکر کلب کا مالک آگیا۔ ”وکی اور سنی نکلو یہاں سے پولیس آگئی تو معاملہ بگڑ جائے گا…نکلو…نکلو“اس نے آنکھ کا اشارہ کیا۔
”نکلو بادشاہو“گوگی بٹ سنوکر کلب کا مالک پھر سے بولا ۔وکی اور سنی جلدی سے وہاں سے کھسک گئے
”بادشاہو آپ بھی کمال کرتے ہو…کل تک اکٹھی عیاشی کرتے آئے ہو اور آج جوتیوں جوتی ہورہے ہو۔ رات گئی بات گئی…ایک صلاح میر ی لے لو…اگر معاملہ پولیس میں لے کر گئے تو ننگا وہ تمہیں بھی کردیں گے…آگے آپ کی مرضی“گوگی بٹ نے DJ کی طرف دیکھا
”اس غریب کو بھی لے جاؤ اور خود بھی پٹی شٹی کرواکر جانا چلو میں بھی چلتاہوں تمہارے ساتھ۔
اوئے پپو کلب بند کردے“گوگی بٹ نے پاس ہی پرائیویٹ ہسپتال سے دونوں کی مرہم پٹی کروادی اور ان دونوں کو گھر بھیج دیا اور فون ملایا سنی کو…
”بادشاہو…اگر کیس پولیس میں جاتا تو لاکھوں کا خرچہ تھا اور خواری وکھری بچت کروادی ہے…تم دونوں کی…اب چا پانی پہنچادیناok bye“
بلال نے پہلے سنوکر کلب کا رخ کیا جو کہ بند تھا، چھٹی کی وجہ سے یا پھر گوگی بٹ نے خود بند رکھا ہوا تھا وجہ اسے پتہ نہیں چلی، اس کے بعد اس نے شادی ہال کا رخ کیا، سکیورٹی گارڈ سے ملا پھر آفس میں منیجر سے ملا لیکن کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی، اس کے بعد وہ اپنے اسکول چلا گیا جوکہ شادی ہال کے بالکل سامنے سڑک کے دوسری طرف تھا۔ بلال اپنے آفس میں بیٹھا ہوا تھا، تین بج رہے تھے اس نے صبح سے کچھ کھایا پیا نہیں تھا، موبائل پر بیل ہوتی ہے وہ کال ریسیو کرتا ہے۔
”خیریت تو ہے …آپ ٹھیک تو ہیں…میں پریشان تھی…آپ آج آئے کیوں نہیں“فون کرنے والی کوئی لڑکی تھی جس نے میٹھی اور نفیس آواز میں بہت سارے سوال ایک ساتھ پوچھ لیے۔
”میں بزی تھا …اس لیے آج نہیں آسکا…Next sunday I will comeاللہ حافظ“بلال نے کال ڈس کنیکٹ کردی تھی۔
اور ایک بار پھر سوچوں کے سفر پر روانہ ہوگیا، وہ ان کمینوں کا پتہ لگانا چاہتا تھا ۔
جلد سے جلد۔
###
”تم دیکھ لینا…کوئی لڑکی کا چکر ہے…بڑی چمچی بنی پھرتی ہو اس کی …“ناہید نے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے توشی کو دیکھ کر کہا جو کہ اس کے سامنے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی ہوئی تھی، شعیبی اور ناہید کھانا کھانے میں مصروف تھے، نوشی توشی ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھیں۔
”دیکھ لیا اس کا بی ہیوئیر…مجھ سے نہیں پوچھا…اتنی چوٹیں لگی ہیں مجھے…ماما سے افسوس نہیں کیا میں اور ماما کتنا سٹریس فیل کر رہے ہیں…اس انسی ڈینس کے بعد“شعیب سوپ پیتے ہوئے بولا۔
”وہ تو میں دیکھ رہی ہوں“توشی تیور دکھاتے ہوئے بولی تھی۔
”اس کے پیچھے کیوں پڑی ہو…دیکھو کیا حال ہوگیا ہے…میرے بچے کا“ناہید نے توشی کو غصے سے جواب دیا۔ ”وہ جو صبح سے دفع ہوگیا ہے …اُسے تو کچھ نہیں کہا تم نے…“
”بھائی یہ ہے میرا…وہ نہیں اُسے کیا کہوں“توشی غصے سے چلائی۔
”اس کا تو منگیتر ہے…وہ بھی بچپن سے…کیا اس سے بھی کوئی رشتہ نہیں ہے “ناہید آنکھیں نکالتی ہوئی بولی۔
”شکر ہے…آپ اسے منگیتر تو مانتی ہیں…ہاں ایک اور بات وہ بولتا کم ہے اور کرتا زیادہ ہے …مجھے یقین ہے وہ کچھ کر رہا ہوگا…اس وقت بھی…آپ لوگوں کی طرح…“کھاجانے والی نظروں سے دیکھتی ہوئی توشی وہاں سے جاچکی تھی۔
”کوئی مرجائے…کھانا تو پھر بھی نہیں چھوڑا جاتا…انسان ہیں…“ناہید نے جواز پیش کیا۔
###
بلال نے فوزیہ کی خیریت معلوم کرنے کے لیے اسے فون کیا تھا۔
”سرمیں تو…خود آپ سے بات کرنا چاہتی تھی…میں عصر کی نماز کا انتظار کر رہی تھی کب آپ کا نمبر کھلے تو آپ کو اطلاع دوں “فوزیہ نے کال ریسیو کرتے ہی اپنی باتیں کہہ دیں۔
”کیوں خیریت ہے…“بلال نے پوچھا۔
”سر وہ…کل رات کو جوہوا آپ کو پتہ ہے میں بھی وہاں تھی “
”تم گھر پر ہو“بلال نے پوچھا۔ ”جی سر“فوزیہ بولی۔
”میں آتا ہوں “بلال نے جواب دیا وہ اپنے آپ کو ملامت کر رہا تھا، مجھے فوزیہ کا خیال کیوں نہیں آیا، خیال آتا بھی کیسے DJ اور توشی نے فوزیہ کا ذکر ہی نہیں کیا تھا ساری گفتگو کے دوران، بلال جلدی سے فوزیہ کے گھر پہنچا مغرب کی اذان سے کچھ دیر پہلے ۔
فوزیہ نے رات والی بات بتانا شروع کی ابھی اس کی بات پوری نہیں ہوئی تھی، کہ مغرب کی اذان شروع ہوچکی تھی۔
”میں نماز پڑھ کر آتا ہوں“بلال اٹھا اور نواں پنڈ گاؤں کی مسجد کی طرف روانہ ہوگیا، مسجد جاتے ہوئے اس نے DJکو فون کیا۔
”اگر طبیعت ٹھیک ہے تو فوزیہ کے گھر آجاؤ“بلال نے فون پر کہا۔
DJنے بتایا ”گل شیر خان صاحب بھی موجود ہیں “”ان سے میری بات کراؤ خان صاحب آپ DJکو لے کر آسکتے ہیں، جوہر ٹاؤن“بلال نے پوچھا۔
”کیوں نہیں…ضرور…ضرور“گل شیر خان بولے تھے۔
بلال واپس آیا تو فوزیہ کی والدہ نے چائے اور بسکٹ وغیرہ کا بندوبست کر رکھا تھا، چند منٹ بعد DJ نے فون پر اطلاع دی ”ہم باہر خان صاحب کی گاڑی میں ہیں“بلال نے بیٹھک کا دروازہ کھولا اور انہیں بٹھایا جو چائے اس کے لیے فوزیہ کی والدہ نے بنائی تھی ، ان کو دی ”آپ چائے پئیں میں پانچ منٹ میں آتا ہوں “بلال یہ بول کر واپس فوزیہ کے کمرے میں چلا گیا۔
”سر ایک کا نام وقاص ہے ، اسے وکی کہتے ہیں اور دوسرا ارسلان ہے اسے سنی کہتے ہیں ان دونوں کی بہنیں ہمارے اسکول میں پڑھتی ہیں…سابقہ MNA چوہدری یعقوب کا ایک بیٹا ہے اور دوسرا بھتیجا ہے“فوزیہ نے ساری بات تفصیل سے بتادی۔ آج بلال کو فوزیہ پر پیار آرہا تھا ہمیشہ اس نے اسے BBC کہہ کر تنگ کیا تھا مگر آج BBC کی تفصیلی رپورٹ اسے اچھی لگی، اس نے محبت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
”خوش رہو…ہمیشہ…“کسی درویش کی طرح دعا دی اور کمرے سے نکل گیا۔ خالہ ثریا چائے کا مگ ہاتھ میں لیے ہوئے بولیں ”بیٹا چائے تو پی لو…“
”امی وہ نہیں پئیں گے جب تک …“”کیا جب تک “فوزیہ کی والدہ بولی۔
صحن میں خالہ نصرت سے بلال کی ملاقات ہوگئی وہ رکا اور خالہ کو غور سے دیکھا اور ان کا دائیاں ہاتھ چھوم لیا وہ بغیر کچھ کہے سب کچھ کہہ گیا۔
خالہ نصرت اسے مڑ کر دیکھ رہی تھیں جاتے ہوئے وہ گھر سے باہر آگیا اور گلی والے دروازے سے DJاور گل شیر خاں کو چلنے کے لیے کہا۔
”آپ میرے پیچھے آجائیں“تھوڑی دیر بعد وہ محل نما ایک کوٹھی کے باہر تھے DJگاڑی کی ونڈ اسکرین سے کوٹھی کو دیکھ کر حیران ہورہا تھا۔ سکیورٹی گارڈ نے انٹر کام پر اطلاع دی۔
”بلال صاحب آئے ہیں، زینت اور مہوش بی بی کے اسکول والے“بڑی بڑی مونچھوں والے چھ فٹ سے زیادہ لمبے شخص نے اجازت ملنے کے بعد بلال کو سلیوٹ کیا اور گیٹ کھول دیا گیا۔
بلال کی گاڑی کے پیچھے خان صاحب اور DJ کی گاڑی اندر داخل ہوگئی اندر بڑی مونچھوں والے کئی سکیورٹی گارڈ تھے جن کے ہاتھ میں جدید اسلحہ تھا ۔
ایک ملازم بلال کے استقبال کے لیے کھڑا تھا، وہ سب کو بڑے سے ڈرائنگ روم میں لے گیا، ڈرائنگ روم کی دیواروں پر تلواریں، شیر کی کھال اور بڑی بڑی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ تصویریں شاید چوہدری یعقوب کے آباؤ اجداد کی ہوں گی۔
”آپ تشریف رکھیں میں چوہدری صاحب کو اطلاع دیتا ہوں“ملازم ادب سے کہہ کر اندر چلا گیا چند منٹ بعد ایک بڑی سی ٹرالی نمودار ہوئی جس کے اوپر چائے کے ساتھ کیک، فروٹ، بسکٹ، ڈرائی فروٹ اور نہ جانے کیا کیا تھا۔ وہی ملازم پھر بولا۔ ”آپ چائے پئیں چوہدری صاحب ابھی تشریف لاتے ہیں “DJاور خان صاحب چائے پینے میں مصروف ہوگئے۔
’آج تو ہمارے گھر بڑے لوگ تشریف لائے ہیں ’“چوہدری یعقوب اندر داخل ہوتے ہوئے بولا۔
اور بلال کو گلے لگالیا ان کے پیچھے پیچھے زینت اور مہوش بھی آگئی تھیں۔ ان کی نظروں میں اپنے سر کے لیے بڑی عزت و احترام تھا جیسے ان کے گھر ان کا پیرومرشد آگیا ہو۔
”بابا آپکو پتہ ہے پچھلے مہینے ایک لڑکے نے میری سہیلی کی کلائی زبردستی پکڑی تھی سر نے اس سے کہا چھوڑدو اور ابھی معافی مانگو مگر وہ نہ مانا تو پھر سر نے اسے بہت مارا اور پولیس کو اطلاع دی“مہوش اپنے باپ کو بتارہی تھی۔
”اور وہ تو تم نے تو بتایا نہیں…جب پولیس والے نے کہا “”بلال صاحب آپ نے قانون ہاتھ میں لیا ہے“زینت اپنے تاؤجی کو بتارہی تھی۔
”تو سر نے جواب دیا نہیں میں نے قانون ہاتھ میں نہیں لیا ابھی تو صرف مارا ہے اگر قانون ہاتھ میں لیتا تو جان سے ماردیتا“
”بلال صاحب آپ چائے پیو“چوہدری یعقوب بولا۔
”پہلے آپ سے ایک فیصلہ کروانا ہے “بلال سنجیدگی سے بولا۔
چوہدری یعقوب سیاست دان تھا وہ سمجھ گیا بات کچھ سنجیدہ نوعیت کی ہے
”بیٹا آپ دونوں اندر جاؤ“چوہدری یعقوب نے زینت اور مہوش کو حکم دیا۔
”چوہدری صاحب میرے اسکول میں 127بچیاں نویں دسویں کی ہیں جو کہ سب جوان ہیں اُن سے یہ دو بچیاں آپ کی بھی ہیں……یہ سب میری عزت ہیں اگر کسی ایک بچی کے ساتھ میرے اسکول میں یا اس کے آس پاس کوئی بدتمیزی کرے کسی بچی کی عزت پر ہاتھ ڈالے تو میں اس کا منہ توڑ دوں “چوہدری یعقوب نے DJ کی طرف دیکھا جس کے چہرے اور ماتھے پر پٹیاں لگی ہوئی تھیں۔
”بلال صاحب آپ کھل کر بات کرو…میں فیصلہ کروں گا“چوہدری یعقوب نے اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا۔
”DJبتاؤ…چوہدری صاحب کو ساری بات …“بلال نے DJ کی طرف دیکھ کر اعتماد سے کہا۔ DJ نے ساری بات بتائی شادی ہال سے لے کر سنوکر کلب تک گل شیر خان غور سے بلال کو دیکھ رہے تھے۔ چوہدری یعقوب نے ساری بات اطمینان سے سنی اور تھوڑی دیر کی اجازت مانگ کر ڈرائنگ روم سے باہر چلا گیا۔ چوہدری یعقوب اچھی طرح جانتا تھا بلال کے تعلقات کو شہر کی ساری ایلیٹ کلاس کے بچے اس کے اسکول میں پڑھتے تھے اور سب سے بڑھ کر اس کی نیک نامی اور سوشل ورک سے بھی سب واقف تھے۔
”آپ اگر دل کی بازی ہار گئے…تو…؟“نوشی کے نینوں نے خدشہ ظاہر کیا۔
”محبت بازی نہیں ہے…محبت فرض ہے…فرض میں ہار جیت نہیں ہوتی…دعا ہے…بس…فرض قبول ہوجائے…“
ایک دھماکے کے ساتھ دروازہ کھلتا ہے توشی کمرے میں داخل ہوتی ہے۔
”یہ لو…قیامت کی نشانیاں…کیا سین چل رہا تھا…وہ بھی رات کے دو بجے…“توشی نے اپنی چھوٹی انگلی اور انگوٹھے کو منہ میں ڈالتے ہوئے سیٹی ماری اور خوشی سے جھوم اٹھی
”پاگل ہو…اس وقت شور مچارہی ہو“بلال نے ڈانٹا نوشی گردن جھکائے اپنی آوارہ لٹیں جو چہرے پر تھیں کان کے پیچھے کر رہی تھی
”ایسا کچھ نہیں ہے…جو تم سوچ رہی ہو“بلال نے صفائی دی
”تو کیسا ہے…بتاؤ جلدی سے…ورنہ میں سب کو بتادوں گی“توشی نے وارننگ دی ”جلدی جلدی بتاؤ کیا چل رہا تھا …غضب خدا کا رات کے دو بجے دسمبر کی رات، ایک خوبصورت لڑکی ایک جوان لڑکے کے ساتھ…اور ایسا کچھ نہیں ہے “
”میں ان کا شکریہ ادا کرنے آئی تھی “نوشی نے بھی صفائی پیش کی
”شکریہ…مہربانی…وہ بھی ان کا…جن کی تم نے ہمیشہ تذلیل کی…ہرجگہ… ہر موقع پر… آج اچانک یہ ہمدردی وہ بھی ان کے لیے … ابھی چند گھنٹے پہلے ہی کیا کچھ نہیں کہا…تم نے اور ماما نے ان کی شان میں “توشی غصے سے گرجی
”توشی جی…جانے دو کیوں تماشہ لگارہی ہو…چھوڑو پرانی باتیں“بلال دونوں بہنوں کو چپقلش سے بچانا چاہتا تھا۔
”ان سب نے پوری زندگی تمہارا تماشہ بنایا تمہارا مذاق اڑایا آج میں نے اپنے بھائی اور ماں کو دیکھ لیا ہے…مجھے پتہ ہے…تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا…DJ نے تمہیں فون کیا کہ وہ معافی مانگ کر جاچکے ہیں تب تم نے کھانا کھایا…میری ماں اور بھائی 3بجے کھانا ٹھوس رہے تھے …اور یہ دوموہی…کس منہ سے تمہارے پاس آئی ہے…اور کیا لینے آئی ہے…“توشی نے اپنی ماں اور بھائی کا غصہ نوشی پر نکالا۔
”تم کون ہوتی ہو پوچھنے والی…وہ میرا منگیتر ہے تم کیا لگتی ہو اس کی “نوشی غصے سے چیخی۔
”میں اس کی کزن ہوں ، دوست ہوں اور جہاں تک رشتے کا سوال ہے…ہمارا محبت کا رشتہ ہے …غور سے سن لو محبت کا رشتہ“توشی نے دعوے اور مان سے جواب دیا۔
”اور مجھے عشق ہے …ہاں عشق ہے …بلال سے“نوشی زور سے چیخی۔
”یہ لو…محبت کی میم سے واقف نہیں اور دعوے عشق کے …وہ کیا کہتے ہو تم…بلال صاحب…کہ ہم چھوٹے لوگ محبت ہی کرلیں تو بڑی بات ہے…عشق بڑے لوگوں کا کام ہے…اور یہ محترمہ عشق کرنے چلی ہیں…“نوشی غصے سے وہاں سے چلی گئی دروازہ زور سے مارتے ہوئے۔
”توشی جی …کیوں تم نے دل دکھایا اس کا …“بلال سنجیدگی سے بولا۔
”دل نہیں ہے، اس کے پاس…میری ماں نے ساری زندگی نفرت کا درس دیا ہے جو سینے میں دھڑکتا ہے …وہ گوشت کا لوتھڑا ہے …میں نے کوشش کی ہے کہ وہ دل بن جائے دوبارہ سے “
”میں نے تمہیں پہلے تو کبھی ایسی بڑی بڑی باتیں کرتے نہیں دیکھا…توشی جی…“بلال دیوان پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
”بیٹھ جاؤ اور پانی پیو“
”پانی نہیں کافی پلاؤ آخر آدھی گھر والی ہوں یعنی سالی جیجا جی سمجھے کیا “پانچ منٹ بعد وہ کافی پی رہے تھے۔
”یہ بیس گھنٹے میں نے انتہائی کرب میں گزارے پاپا نہیں تھے۔ ماما اور بھائی مجھے اپنے لگے ہی نہیں…دادو کو میں نے خود نہیں بتایا…تم بھی خاموشی سے اٹھ کر چلے گئے یہ حادثہ نوشی کے ساتھ نہیں میرے ساتھ ہوا ہے، میں ایسے محسوس کر رہی تھی اتنا پیسہ تعلقات ہونے کے باوجود کچھ نہیں…سچ کہوں تو بلال میں واقعی بڑی آج ہوئی ہوں میں اکثر تم کو کہتی تھی کہ تم اپنی عمر سے بڑی باتیں کرتے ہو…آج سمجھ آگئی…میں نے صرف دس گھنٹے ماں باپ کے بغیر گزارے، باپ یہاں تھا نہیں اور ماں ہو کے بھی نہیں تھی ……واقعی ماں باپ کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔
“
توشی کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے اس نے بلال کی طرف دیکھا جو خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا، چہرے پر بغیر کسی تاثر کے ”ویسے میں نے آج ایک اور حساب لگایا ہے…تمہارے اندر بھی کوئی …دل شل نہیں ہے میں رو رو کر ہلکان ہورہی ہوں …اور تم بت بنے بیٹھے ہو“بلال کے چہرے پر جان لیوا مسکراہٹ آگئی توشی کی بات سن کر
”مجھے اس کے نصیب پر رشک ہے…جس کے نصیب میں تم ہو…مجھ سے اگر کوئی پوچھے خوش قسمت لڑکی کون ہے تو میں کہوں گی جو بلال کی دلہن بنے گی…میں نے بھی تم کو ٹوٹ کر چاہا تھا بچپن سے آج تک پھر دادو نے مجھے سمجھایا پر میں نہیں مانی پھر میں نے خود تجربہ کیا تو دادو کی بات سچ نکلی“
بلال اپنی ٹانگ کے اوپر ٹانگ رکھ کے دایاں ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے نیچے رکھے ہوئے خاموشی سے توشی کی باتیں سن رہا تھا۔
”اس کے بعد میری بڑی خواہش تھی کہ تمہاری شادی نوشی سے ہوجائے مگر آج میں خود کہتی ہوں نوشی سے بالکل شادی مت کرنا “
”تم بہن ہو کہ ڈائن ہو، اپنی بہن کے منگیتر کو غلط پٹیاں پڑھارہی ہو“بلال نے شرارت کی۔
”شٹ اپ…میں واقعی سیریس ہوں وہ تمہارے قابل نہیں ہے…“
”کیا کل تمہارا آخری دن ہے “بلال نے پوچھا۔
”میں سمجھی نہیں “توشی سوالیہ نظروں سے بولی۔
”مجھے کیوں لگ رہا ہے جیسے کل تم فوت ہوجاؤ گی…اسی لیے سارے نصیحتیں اور وصیتیں آج کر رہی ہو…“بلال نے پھر توشی کو چھیڑا۔
”فوزیہ بالکل صحیح کہتی ہے تمہارے بارے میں، سر بڑے چالو اور کھوچل ہیں ایویں مت سمجھنا“توشی نے حساب برابر کرلیا۔ فجر کی اذان شروع ہوگئی تھی ۔
”چلو اب جاؤ…اور نماز پڑھ کر سونا…“بلال نے توشی کو کہا۔
###