top of page

شکیل احمد چوہان - بلال صاحب

”عظمی بیٹی اُٹھو، نہیں تو نماز کا وقت نکل جائے گا“ڈاکٹر ہاجرہ نیازی نے کمبل کے اندر ہاتھ ڈال کر عظمی افگن نیازی کو اٹھایا، عظمی جلدی سے اٹھی اپنے کھلے ہوئے کالے سیاہ گیسوسمیٹے اور اپنی گرم شال اوڑھ کر واش روم کی طرف چل دی۔ 
عظمی نے فجر کی نماز ادا کی اس کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کی اور ٹریک سوٹ پہن کر لاؤنج میں آئی اور پروفیسر زمان افگن نیاز ی کے روم کی طرف چل دی دروازے پر دستک دی اندر سے ڈاکٹر ہاجرہ نیازی کی آواز آئی ۔
 
”آجاؤ عظمی“
”انکل کہاں ہیں…آنی…“عظمی نے پوچھا۔ 
”وہ تو واک پر چلے گئے…تمہارے کمرے میں گئے تھے…انہوں نے ہی مجھے آکر بتایا کہ تم اب تک سوئی ہوئی ہو“ڈاکٹر ہاجرہ نیازی نے جواب دیا۔ 
”میں بھی چلتی ہوں “عظمی جلدی سے بولی ۔


 

”رکو عظمی …بہت دھند ہے باہر…یہاں بیٹھو میرے پاس“ہاجرہ نے صوفے پر دائیں ہاتھ سے اپنے پہلو میں عظمی کو بیٹھنے کو کہا اور بائیں طرف شیشے کے سائیڈ ٹیبل پر کتاب رکھ دی جس کووہ پڑھ رہی تھی ۔
 
”جی آنی…کوئی خاص بات ہے…“عظمی بیٹھتے ہوے بولی۔ 
”کل تم کچھ ڈسٹرب تھی…رات کھانا بھی نہیں کھایا…اپنے کمرے میں بھی جلدی چلی گئی “ہاجرہ اپنی انگلیوں کے پوروں سے عظمی کے بالوں کو سہلاتے ہوئے بولی۔ 
”نہیں کچھ خاص نہیں…بس ایسے ہی…“عظمی نے بات گول کرنی چاہی 
”اماں کہا کرتی تھیں…ماسی یعنی ماں جیسیمیں نے تم کو ماں بن کر پالا ہے 
مجھے نہیں بتاؤگی“ہاجرہ نے صوفہ پر اپنی پوزیشن تبدیل کی اور عظمی کی طرف منہ کرکے بیٹھ گئیں۔
 
”ہر سنڈے تم بہت خوش ہوتی ہو مگر کل …بلال نے کچھ کہا تھا …“ہاجرہ نے پوچھا۔ 
”آنی وہ کل نہیں آیا تھا …پچھلے دو سال میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ وہ اس سنڈے کو نہیں آیا جب میں نے فون کیا تو اس کا بی ہیویئر عجیب سا تھا …جیسے مجھے جانتا ہی نہ ہو“عظمی پریشانی سے بتارہی تھی ۔ 
”وہ ایسا تو نہیں …جب وہ آٹھ سال کا تھا …میں تب سے اسے جانتی ہوں وہ تو بڑے اچھے اخلاق والا بچہ ہے “ہاجرہ کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
 
”وہ بچپن سے اپنے ماموں کی بیٹی سے منسوب ہے کیا نام تھا اس کا ہاں نسیم جمال رندھاوا۔ نوشی کہتے ہیں جسے “
”مجھے معلوم ہے …اس کی منگنی ہوچکی ہے …اس نے مجھے خود بتایا تھا “عظمی سرجھکائے ہاتھ کی ہتھیلیوں کو دیکھ رہی تی ڈاکٹر ہاجرہ کچھ دیر عظمی کو دیکھتی رہی وہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر مناسب الفاظ نہیں مل رہے تھے 
”پروفیسر صاحب مجھے رات کو کہہ رہے تھے …اگر ہمارے دونوں بیٹے شادی شدہ نہ ہوتے …تو میں عظمی کو اپنی بہو بنا کر یہاں سے جانے نہ دیتا“عظمی ہاتھ ملتے ہوئے، ہاجرہ کی طرف دیکھ کر مسکرائی ہاجرہ اس کا چہرہ غور سے دیکھ رہی تھی 
”تم بلال کو پسند کرتی ہو“ہاجرہ نے عظمی کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
 
”نہیں…میں اس سے محبت کرتی ہوں…“عظمی نے صاف گوئی سے جواب دیا۔ 
”اور …وہ…“ہاجرہ کے وہ میں بہت سارے سوال تھے۔ 
”آنی…اس نے ان دو سالوں میں کبھی مجھے آنکھ بھر کر نہیں دیکھا…کبھی غلطی سے بھی مجھے چھوا نہیں…کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے مجھے لگے کہ وہ بھی مجھ سے محبت کرتا ہے…میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا ہے …جہاں میرے لیے حیا ہے…احترام ہے…ہاں میں اسے اچھا دوست کہہ سکتی ہوں…اور بس“
”تو پھر …بیٹی سائے کے پیچھے نہیں بھاگتے“ہاجرہ نے سمجھانے کے انداز میں کہا
”تم شادی کرلو“
”کرلوں گی…اس کی شادی کے چار دن بعد“عظمی نے بھولی صورت بناکر کہا 
”چار دن بعد کیوں “ہاجرہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
 
”تین دن سوگ کے اور چوتھے کو شادی…“عظمی مصنوعی مسکراہٹ سے بولی۔ ہاجرہ ہنستے ہوئے بولی۔ 
”کملی نہ ہو تومیں اس کے اسکول کا ایڈریس دیتی ہوں مل آؤویسے بھی آج تمہاری چھٹی ہے اور شام کو جلدی آجانا میں نے اور پروفیسر صاحب نے ایک پروگرام بنایا ہے تمہارے لیے “
###
”یار تمہارا اسکول تو بڑا شاندار ہے…الگ مختلف…پاکستانی اسکول تو بالکل نہیں لگتا…کسی بھی اینگل سے…میں نے سارے کلاس روم دیکھے ہیں…انگلش کے پیریڈ میں ٹیچر بچوں سے صرف انگلش بول رہا تھا اور دوسری کلاس میں سارے بچے عربی بول رہے تھے “ڈاکٹر بٹ چائے پیتے ہوئے تبصرہ کر رہا تھا۔
 
”تم نے آج پھیکی چائے کیوں لی “بلال نے پوچھا۔ 
”میں انگلش اور عربی کی بات کر رہا ہوں اور تم چائے کا پوچھ رہے ہو“ڈاکٹر بٹ بولا۔ 
”تمہیں عربی بولنا آتی ہے “بلال نے پوچھا ۔ ڈاکٹر بٹ نے نہیں میں سرہلادیا۔ 
”اور انگلش بول سکتے ہو“بلال نے پھر پوچھا۔ 
”وہ میں گزارہ کرلیتا ہوں “ڈاکٹر بٹ جلدی سے بولا۔ 
”میرے اسکول میں کلاس Fiveکا بچہ ہم دونوں سے اچھی انگلش اور عربی بول سکتا ہے وہ اس لیے کہ یہاں پانچویں کلاس تک بچوں سے زبان بولی جاتی ہے پڑھائی نہیں جاتی “
”تو پھر بچوں کے سبجیکٹ کون سے ہیں؟انگلش تم نہیں پڑھاتے، عربی اور اردو بھی نہیں پڑھاتے“ڈاکٹر بٹ حیرت سے پوچھ رہا تھا۔
 
”قرآن مجید…سائنس، کمپیوٹر اور میتھ، دنیا کا سب سے بڑا سبجیکٹ قرآن مجید ہے وہ ہم نے ایصال ثواب کا ذریعہ بنالیا ہے ہم قرآن کو سمجھ نہیں پاتے اس لیے کہ ہمیں عربی نہیں آتی میں خود ترجمعے والا قرآن مجید پڑھتا ہوں …عربی زبان آجائے گی بچوں کو تو وہ قرآن کو سمجھ جائیں گے ترجمہ مفہوم کے قریب لے جاتا ہے پورا مفہوم ترجمعے سے بیان نہیں ہوتا …رہا انگلش کا سوال تو اس وقت سارے علوم انگلش میں ہیں، ہم جیسے تیسے کرکے انگلش میں پاس ہوجاتے ہیں بول پھر بھی نہیں سکتے میں نے وہ پاس فیل کا چکر ختم کردیا ہے، انگلش زبان ہے سبجیکٹ نہیں “
”ویسے تم عجیب بات کر رہے ہو “ڈاکٹر بٹ نے اختلاف کیا”انگلش زبان ہے سبجیکٹ نہیں…“
”تم چائنہ میں کتنے سال رہے ہو“بلال نے پوچھا۔
 
”یہی کوئی پانچ چھ سال “
”چائنیز آتی ہے “
”اب تو فر فر بول لیتا ہوں “ڈاکٹر بٹ فخریہ انداز میں بولا۔ 
”چائنیز زبان تم نے پڑھ کر سیکھی تھی “بلال نے پوچھا۔ 
”نہیں تو…شروع میں ایک سال تو بڑی مشکل ہوئی …پھر میں غور سے سنتا تھا اور بولنے کی کوشش کرتا تھا …جیسے جیسے میں بولتا گیا مجھے زبان کی سمجھ آگئی “
”تو بات سیدھی سی ہے زبان بولنا آجائے تو آپ اس میں لکھی ہوئی تحریر آسانی سے سمجھ سکتے ہیں، اسی لیے چھوٹے بچوں کو یہاں بولنے کی تربیت دی جاتی ہے اور چھٹی کلاس سے پھر ان کو پڑھایا جاتا ہے “
”بھائی تو دو بچوں کی سیٹ رکھ لے ابھی سے “ڈاکٹر بٹ نے کہا۔
 
”وہ کس کے بچے ہیں “
”بھائی میرے ہونے والے بچے اور کس کے “ڈاکٹر بٹ مسکراتے ہوئے بولا۔ 
”اماں کو توشی بہت پسندآئی ہے اور وہ رشتہ مانگنے کے لیے آنا چاہتی ہیں “بلال تھوڑی دیر خاموش رہا اور پھر بولا۔ 
”دیکھو بٹ صاحب میں تمہارے ساتھ دو سال تک پڑھا ہوں اور تمہاری طبیعت سے اچھی طرح سے واقف ہوں…وہ تمہارے ٹائپ کی لڑکی نہیں ہے…دیکھنے میں شوخ و چنچل ہے اندر سے اتنی معصوم اور بھولی اور تم ایک دل پھینک عاشق ہو مائنڈ مت کرنا …“
”کمال ہے…بلال صاحب پیار سے بے عزتی کرکے کہتے ہو مائنڈ مت کرنا “ڈاکٹر بٹ ناراضی سے بولا۔
 
”دیکھو بٹ صاف گوئی کو بے عزتی کا نام مت دو جو میرے دل میں تھا میں نے کہہ دیا “بلال نے اپنی صفائی پیش کی۔ 
”بلال میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں …فلرٹ نہیں کر رہا ہوں …اور دوسری بات ابا جی کی وفات کے بعد میں بدل گیا ہوں …“ڈاکٹر بٹ نے اپنا موقف بیان کیا۔ 
”خیر…ایک دو دن میں ماموں امریکہ سے آنے والے ہیں…اس سے پہلے تم توشی سے بات کرلو اگر اسے کوئی اعتراض نہیں ہے …تو آپ لوگ آجاؤ…حتمی فیصلہ ماموں اور ممانی نے کرنا ہے “
”بلال میں واقعی سچ کہہ رہا ہوں …مجھے اس سے محبت ہوگئی ہے “
”تم پھر…بات کرلو…توشی سے…“بلال نے جواب دیا۔
 
”تم بات کرو اس سے “ڈاکٹر بٹ نے درخواست کی ۔ 
”اگر اس سے محبت ہے …تو پھر میری سفارش کی ضرورت نہیں …ہاں بٹ ایک بات یاد رکھنا کوئی ایسی حرکت مت کربیٹھنا کہ میری اور خود کی نظروں میں گرجاؤ “

 

”بات کیسے کروں یہی تو سمجھ نہیں آرہا “ڈاکٹر بٹ پریشانی سے بولا۔ بلال اسے دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرایا، کیا یہ وہی محسن رضا بٹ ہے جو شرط لگا کر راہ چلتی لڑکیوں سے بات کرلیتا تھا اور ہمیشہ شرط بھی جیت جاتا تھا۔ جس لڑکی پر تعریف کا منتر پڑھ کر پھونک مار دیتا وہ اس کی ہوجاتی اس کی بے چینی ایک سو لہ سال کے اناڑی عاشق جیسی تھی جس کی بھوک پیاس ختم ہوجائے۔

 

(یہ تو واقعی بدل گیا ہے) بلال کے دل نے اسے بتایا ذہن نے دل کی بات پر تصدیق کی مہر لگادی اور آنکھوں نے دیکھ لیا سامنے بیٹھے ڈاکٹر محسن رضا بٹ کو۔ 

”کیا تم واقعی سیریس ہو “بلال کے جملے سے ڈاکٹر بٹ چونک گیا اور سر کو اثبات میں ہلادیا، بولا کچھ نہیں۔ 

”اچھا…ایسا کرو اس کا نمبر لے لو مجھ سے …اسے کھانے پر انوائیٹ کرو…اور Propose کردواگر اس نے تمہارا پروپوزل ایکسپٹ کرلیا تو میں ماموں سے بات کروں گا“بلال نے مشورہ دیا۔

 

 

 

 

”اور وہ کیسے ری ایکٹ کرے گی؟ “ڈاکٹر بٹ نے بلال سے پوچھا۔ 

”کچھ نہیں کہے گی …تمہاری بات سن کر خاموش ہوجائے گی …اور شرم سے نظریں جھکائے گی…اور اپنے بال کان کے پیچھے کرتے ہوئے بولے گی میں سوچ کر بتاؤں گی جانے سے پہلے وہ گردن جھکا کر ہلکا سا مسکرائے گی …یاد رکھنا یہ ساری باتیں کھانے کے بعد کرنا “

”اگر اس نے میرا پروپوزل ریجیکٹ کردیا“ڈاکٹر بٹ بھولے پہلوان کی طرح بولا۔

 

 

”اگر تمہارے جذبوں میں سچائی ہوئی تو وہ انکار نہیں کرے گی “اتنے میں آفس بوائے آتا ہے ”سر وہ پولیو کے قطرے پلانے والے آئے ہیں اور ایک لڑکی بھی آپ سے ملنا چاہتی ہے “

”پولیو ٹیم کو پہلے چائے پلاؤ اور بسکٹ وغیرہ ضرور رکھنا اس لڑکی کا نام پوچھا۔ “

”سروہ…عظمی افگن بتایا انہوں نے “

”عظمی یہاں…بھیج دو ان کو “بلال حیرت سے بولا۔

 

 

”السلام علیکم …“عظمی آفس میں داخل ہوئی بلال صوفے سے اٹھ گیا اور اسے دیکھ کر ڈاکٹر بٹ بھی اٹھ گیا بلال نے مسکرا کر استقبال کیا اور جواب دیا 

”یہ میرے دوست ڈاکٹر محسن رضا بٹ ہیں اور آپ ڈاکٹر عظمی افگن نیازی ہیں “بلال نے تعارف کرایا ڈاکٹر بٹ نے جانے کی اجازت مانگی۔ 

”بلال صاحب میں چلتا ہوں “ڈاکٹر بٹ بولا۔ 

”وہ نمبر تو لے لو“بلال نے ڈاکٹر بٹ کو توشی کا موبائیل نمبر لکھ کردیا۔

 

بلال اپنی آفس ٹیبل پر بیٹھا تھا اس نے آفس بوائے کو بلانے کے لیے بیل دی 

”ارے آپ…بیٹھیں کھڑی کیوں ہیں“بلال صوفے کی طرف بڑھا، ڈاکٹر بٹ جاچکا تھا۔ 

”جی سر…“آفس بوائے بولا۔ 

”پولیو ٹیم کو چائے دی دی “بلال نے پوچھا۔ 

”سر…چائے بن رہی ہے “”اچھا ایسا کرو ایک چائے اور فروٹ کیک میڈم کے لیے بھی لاؤ “

”ایک چائے کیوں اور آپ کو کس نے بتایا مجھے فروٹ کیک پسند ہے “عظمی نے سوال پوچھا۔

 

 

”میرا روزہ ہے ایک چائے اس لیے “بلال نے بتایا۔

”اور وہ فروٹ کیک والی بات“عظمی نے بات چھوڑی نہیں۔ 

”آپ کو چائے کے ساتھ فروٹ کیک بہت پسند ہے کچنار اور قیمہ شوق سے کھاتی ہیں احمد فراز کی شاعری، قدرت اللہ شہاب کی تحریریں، جاوید چوہدری کے کالم، حسینہ معین کے ڈرامے، ٹینا ثانی کو سنتی ہیں،Blackاور Pinkآپ کے پسندیدہ کلر ہیں انگور بڑے شوق سے کھاتی ہیں “بلال نے عظمی کی ساری جنم کنڈلی بیان کردی اسے احساس تھا کہ کل اس نے عظمی سے اچھی طرح بات نہیں کی تھی شاید اسی لیے اسے مسکا لگارہا ہو، عظمی منہ کھولے حیرت میں مبتلا تھی آفس بوائے سینٹر ٹیبل پر چائے اور کیک رکھ رہا تھا، تب جاکے وہ حیرت کی دنیا سے واپس لوٹی بلال اس کے سامنے ٹیبل کی دوسری طرف صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔

 

 

”روزہ کیوں رکھا آج“چائے کا سپ لیتے ہوئے عظمی بولی۔ 

”جمعہ اور پیر کا روزہ رکھنا سنت ہے “بلا ل نے جواب دیا۔ 

”اسکول اور آفس تو بڑا شاندار ہے کیا اسکول اپنا ہے “عظمی نے پوچھا کیک کھاتے ہوئے 

”بلڈنگ کرائے پر ہے، سیٹ اپ اپنا ہے “بلال نے جواب دیا”سامنے سڑک کی دوسری طرف کنال کے پلاٹ کا بیعانہ دیا ہے پندرہ بیس دن بعد ٹرانسفر ہوجائے گا “

”کتنے کا پلاٹ خریدا“عظمی نے پوچھا۔

 

 

”تین کروڑ پچیس لاکھ کا “بلال آرام سے بولا۔ عظمی نے بڑی مشکل سے چائے کا گھونٹ حلق سے نیچے اتارا (باپ نے خوب مال چھوڑا ہوگا )عظمی نے دل میں کہا(یا پھر بڑا ڈاکو ہے تبھی تو اتنا سب کچھ ہے تعلیم کے نام پر ڈاکہ ڈال رہا ہے )

”آپ کے والد صاحب بڑے بزنس مین ہیں“عظمی نے بات آگے بڑھائی 

”نہیں ان کا انتقال ہوچکا ہے “بلال نے بتایا۔

 

 

”لگتا ہے کافی جائیداد چھوڑ کر گئے تھے آپ کے لیے …“عظمی پھر سے بولی

”نہیں وہ تو سفید پوش آدمی تھے یہ میری خود کی سیونگ تھی “بلال نے بتایا 

”میں دو سال سے سیونگ کر رہی ہوں نو دس لاکھ ہی بچا پائی ہوں سوچ رہی ہوں میں بھی یہ بزنس شروع کرلوں جاب چھوڑ کر “عظمی نے مسکرا کر کہا۔ 

”بلال آپ ایک بات بتائیں گے سچ سچ؟ “بلال نے ہاں میں گردن ہلادی 

”میرے بارے میں اتنا سب کچھ آپ کو کس نے بتایا ہے “

”آپ نے خود“بلال نے جواب دیا۔

 

 

”مگر میں نے تو کبھی کوئی بات نہیں کی آپ سے “

”دیکھیں میں اور آپ تقریباً دو سال سے مل رہے ہیں، ہر سنڈے۔ آج ہماری 100ویں ملاقات ہے آپ نے میرے ساتھ جب بھی چائے پی فروٹ کیک ضرور آرڈر کیا ریسٹورنٹ میں ہم چار بار گئے آپ نے کچنار کا ہر بار پوچھا وہ الگ بات ہے ہم کھا، ایک دفعہ بھی نہیں سکے، دو دفعہ آپ کی گاڑی میں بیٹھا آپ نے ٹینا ثانی کو ہی سنا، کپڑے آپ ہمیشہ Pink اور Balck پہنتی ہیں ان دو سالوں میں آپ نے چار شعر سنائے چاروں احمد فراز کے تھے آپ نے جتنے ڈراموں کا ذکر کیا مجھ سے وہ سارے حسینہ معین کے لکھے ہوئے تھے ۔

 

میں نے ہمیشہ آپ کو انگور کھاتے دیکھا ویری سمپل “

”کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں “عظمی نے پوچھا آناً فاناً

”میں سب سے محبت کرتا ہوں بشمول آپ کے “بلال نے جوں کا توں جواب دے دیا ۔ انٹر کام پر بیل ہوتی ہے بلال اٹھ کر ریسیو کرتا ہے 

”ٹھیک ہے آپ اندر آؤ“بلال نے انٹر کام پر کہا ۔ تھوڑی دیر بعد ایک لڑکا اندر آیا 

”جی سر“سامنے کھڑے لڑکے نے کہا۔

 

 

”رشید ایسا کرو یہ پیسے لو سارے سٹاف کے لیے کھانا لاؤ اور پولیو ٹیم والوں کو کھانا ضرور کھلانا “بلال نے 20ہزار روپے دیے وہ لڑکا چلا گیا۔ 

”بلال میں آپ کو سمجھ نہیں پائی “عظمی پھر سے بولی”سارے سٹاف کو کھانا اور پولیو ٹیم والوں پر بڑے مہربان ہیں کوئی خاص وجہ “

”پولیو والے تو غریب لوگ ہیں میں نے اکثر دیکھا ہے لوگ ٹھیک طرح سے ان سے بات بھی نہیں کرتے حد تو یہ ہے کتنے لوگ مارے جاچکے ہیں پولیو کے قطرے پلانے والے ……

سٹاف کو کھانا اس لیے کہ آج میری امی کی سالگرہ ہے “

”دو دسمبر کو آج تو میری بھی سالگرہ ہے “عظمی فوراً بول پڑی ۔

 

 

”مجھے معلوم ہے پچھلے سال آپ شہر سے باہر تھیں تب آ پ سے دوستی نہیں تھی اس لیے آپ کو وش نہیں کیا۔ “

”This Time please accept my congratulations “

”اور یہ آپ کا گفٹ“بلال نے ایک پارسل عظمی کو پیش کیا۔ 

”جتنی میں کل ہرٹ ہوئی تھی اس سے کہیں زیادہ آج خو ش ہوں…شکریہ بلال “عظمی نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ”ویسے آپ کی برتھ ڈے کب ہے“

”29فروری کو“بلال نے بتایا ۔

 

 

”سال کونسا تھا “عظمی نے پوچھا ۔ 

”29فروری 1988کو میں پیدا ہوا تھا“بلال نے تفصیل بتائی۔ 

”آپ بہت اچھی ہیں میں امید کرتا ہوں آ پ مجھے غلط نہیں سمجھیں گی۔ عظمی جی میں نے ہمیشہ آپ کو ایک دوست کی طرح دیکھا ہے آج کے علاوہ میں نے کبھی آپ سے کوئی بات نہیں کی ہمیشہ آپ کو سنا ہے دو چار دفعہ آپ کے ساتھ کھانا کھالیا آپ کی خواہش پر، میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا میری منگنی ہوچکی ہے وہ بھی بچپن سے ، رہا محبت کا سوال، میرے نزدیک محبت فرض ہے آپ نے پوچھا تھا کیا مجھے آپ سے محبت ہے بالکل ہے جیسے ایک دوست کو دوسرے دوست سے ہونی چاہیے “

عظمی غور سے بلال کو دیکھ رہی تھی خلاف توقع اس نے بلال کی کسی بات کو محسوس نہیں کیا اور نہ ہی خائف ہوئی تھی یہ ساری باتیں تو وہ پہلے سے جانتی تھی بلال کے منہ سے سن کر اسے اچھا لگا نہ کہ برا بلکہ وہ اور مرمٹی بلال پر پہلے سے زیادہ کہیں زیادہ۔

 

###

نوشی اور توشی کی ایک دن شدید ناراضی رہی پھر اس کے بعد وہی سب کچھ روٹین میں توشی نے بلال کو بتایا ۔ 

”آپ کے دوست ڈاکٹر بٹ نے مجھے ڈنر پر انوائیٹ کیا ہے جاؤں کہ نہیں “

”اگر تم اجازت مانگ رہی ہو تو وہ ممانی سے مانگو اگر مشورہ مانگا ہے تو اپنی مرضی کرو“بلال نے دو ٹوک جواب دیا۔ 

###

رات کے وقت وہ دونوں ڈیفنس میں واقع ایک عالی شان ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے۔

 

کھانا آرڈر توشی کی پسند سے ہوا تھا۔ ڈاکٹر بٹ نے بڑی احتیاط سے گفتگو کی اور کھانا بھی قدرے کم کھایا، بلیک ٹو پیس میں ڈاکٹر صاحب جچ رہے تھے اور توشی بھی سفید لباس میں قیامت ڈھارہی تھی ان دونوں میں بڑی کم گفتگو ہوئی تھی کھانے کے بعد ویٹر ٹیبل صاف کرچکا تھا اور وہ دونوں گرین ٹی کا انتظار کر رہے تھے تب توشی نے بات شروع کی ۔

 

 

”آپ نے بتایا نہیں کہ یہ ڈنر کس خوشی میں تھا “توشی نے ڈاکٹر بٹ کے چہرے کو اپنی آنکھوں کے حصار میں لیاجوکہ اپنے دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھے ہوئے گردن جھکائے بیٹھا تھا آج وہ شاد باغ والا محسن بٹ نہیں تھا بلکہ ایک ڈیسنٹ پڑھا لکھا ڈاکٹر محسن رضا بٹ تھا آج وہ ہر لحاظ سے ایک مکمل شخصیت لگ رہا تھا۔

 

 

”ڈاکٹر صاحب کہاں کھوگئے آپ“توشی نے لب کشائی کی دوبارہ سے ۔ 

”توشی…میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں …نام تو میرا محسن ہے مگر میں کسی کا محسن نہیں ہوں۔ بلال جیسی خوبیوں کا مالک بھی نہیں ہوں مگر آج میں سچ کہوں گا صرف سچ۔ میری زندگی میں دو لڑکیاں تھیں ایک ہمارے محلے کی اور دوسری چائنیز تھی دونوں بار میں ان کی ضرورت تھا اور انہوں نے مجھے بالکل ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا اور اگلی ضرورت تک پھر خاموشی“ڈاکٹر بٹ ٹیبل پر پڑے ٹشو کے ڈبے کو دیکھ کر بولا۔

 

 

”اس بار میرے دل کے آس پاس کھلبلی مچی ہوئی ہے زندگی میں پہلی بار شاید مجھے آپ سے محبت ہوگئی ہے…“

”دل کے آس پاس ضرورتوں کا گھر ہوتا ہے اور محبت صرف دل میں بسیرا کرتی ہے ایک دفعہ بلال نے بتایا تھا“ توشی نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ 

”مجھے لفظوں سے کھیلنا نہیں آتا سیدھی بات کہتا ہوں میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور میری اماں کی بھی خواہش یہی ہے اسی لیے وہ آپ کے گھر آنا چاہتی ہیں “

توشی بالکل خاموش ہوگئی اور نظریں جھکالیں۔

 

اب ڈاکٹر بٹ نے اُس کے چہرے کو اپنی آنکھوں سے جکڑا ہوا تھا۔ توشی گردن جھکائے بیٹھی ہوئی تھی۔ تب اُسی سمعے اس نے اپنی گستاخ لٹوں کو دائیں ہاتھ سے کان کے پیچھے کیا جوکہ اُس کے رخسار کا بوسہ لے رہیں تھیں۔

”تو پھر آوٴں اماں کو لے کر آپ کے گھر؟“ڈاکٹر بٹ نے خاموشی توڑی۔

”وہ میں آپ کو سوچ کر بتاوٴں گی“ توشی ہلکا سا مسکرا کر بولی ”چلیں“

”گرین ٹی کا کیا“ ڈاکٹر بٹ بولا

”اب موڈ نہیں ہے“ توشی کے چہرے پر ہلکا سا تبسم تھا۔

 

ریسٹورنٹ سے باہر آتے ہوئے ڈاکٹر بٹ دل میں کہہ رہا تھا۔

بلال تو واقعی (لوگرو ہے)

###

ڈاکٹر ہاجرہ نیازی اپنے بیڈ روم میں بیٹھی ہوئی کتاب پڑنے میں مصروف تھی اُسی سمعے دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ "Yes Come In"

ڈاکٹر ہاجرہ نے اجازت دی عظمی کمرے میں داخل ہوتی ہے اُس کی باڈی لینگوئج ایک جیتے ہوئے کھلاڑی جیسی تھی۔

”آنی…انکل کہاں ہیں“ عظمی نے پوچھا

”وہ میانوالی گئے ہیں…اُن کا ایک بچپن کا دوست فوت ہوگیا ہے“

ڈاکٹر ہاجرہ نے بائیں ہاتھ سے چشمہ اُتارتے ہوئے بتایا

”کب تک آجائیں گے“ عظمی نے جھومتے ہوئے پوچھا جوکہ کھڑی تھی۔

 

”وہ تو کل آئیں گے…بلال سے ملاقات ہوئی…“ہاجرہ نے عظمی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پہلو میں بیڈ پر بٹھالیا وہ اُسے خوشی دیکھ کر مسکرائی۔

”اگر تمہاری بلال سے دو سال پہلے ملاقات نہ ہوئی ہوتی۔ میں کہتی تھی ناں سارے مرد تمہارے باپ جیسے تو نہیں ہیں۔ پروفیسر صاحب کو دیکھ لو آج تک اونچی آواز میں مجھ سے بات نہیں کی مارنا تو بہت دور، ایک تمہارا باپ تھا…خیر دفعہ کرو ۔

 

۔۔“

”آنی میرا فیورٹ کلر بتائیں“ عظمی نے جلدی سے کہا

”وائٹ اور ریڈ“ ہاجرہ نے ششدر ہوکر جواب دیا

”اور میرا پسندیدہ شاعر کون ہے“

”آئی تھنک…پروین شاکر“ ہاجرہ نے اپنی شہادت کی انگلی اپنی کنپٹی پر رکھتے ہوئے جواب دیا 

”میں کون سا پھل شوق سے کھاتی ہوں“

”میرے خیال سے اسٹرابری“

”آپ نے سارے جواب غلط دیئے ہیں“ عظمی اپنی خالہ سے لپٹ گئی آج وہ بہت خوش تھی مگر دو سال پہلے ایسا نہیں تھا۔

 

عظمی کے والدین کی لو میرج تھی۔ اس کے باوجود اُن دونوں میں بہت جھگڑے ہوتے تھے۔عظمی کا باپ اُس کی ماں کو بہت مارتا تھا اور اُس کے دوسری عورتوں سے ناجائز تعلقات بھی تھے، عظمی چھ سال کی تھی جب اُس کی ماں نے خودکشی کرلی تھی۔

عظمی کے باپ نے دوسری شادی کرلی، تب سے وہ اپنی خالہ کے پاس رہتی ہے، خالہ بھی ایسی جو ماوٴں سے بڑھ کر۔ ہاجرہ کے دو بیٹے ہیں جوکہ عظمی سے دس اور بارہ سال بڑے ہیں، ایک دبئی میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ اور دوسرا کینیڈا میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ پروفیسر زمان عظمی کے خالو عظمی کو اپنی بیٹی سمجھتے ہیں۔

 

عظمی ساری زندگی اپنی ماں کی موت اور باپ کے ظلم بھلا نہ سکی اپنے اسکول سے لے کر میڈیکل کالج تک اُس کا کوئی دوست نہ تھا۔ اسکول میں ایک لڑکا اُسے چاہتا تھا مگر عظمی نے کبھی اُسے لفٹ نہیں کروائی تھی۔ وہ ہمیشہ گم سم رہتی، کم بولتی، ہنسنا تو جیسے اُسے آتا ہی نہیں تھا۔پھر دو سال پہلے اُس کی بلال سے ملاقات ہوئی آج کی عظمی اور دو سال پہلے والی عظمی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

 

Helen of Troy عظمی کو دیکھے تو اِس کی خوبصورتی پررشک کرے، کالے سیاہ لمبے بال، رنگت سفیدی اور لالی کا حسین امتزاج چہرے پر سفیدی زیادہ تھی یا سُرخی اندازہ لگانا مشکل تھا، گردن لمبی دراز قد ، ہاتھ پاوٴں اُجلے دانت موتیوں جیسے سفید پتلے ہونٹ تیکھی ناک یہ تمام خوبیاں ایک طرف …عظمی بڑے اچھے اخلاق کی مالک تھی درد دل رکھنے والی ڈاکٹر۔

 

 ”بیٹی میں ڈاکٹر ہوں نجومی تھوڑی نہ ہوں“ ہاجرہ نے عظمی کا ماتھا چومتے ہوئے جواب دیا۔

”جو یہ سب کچھ جانتا ہو کیا اُسے نجومی کہیں گے“عظمی نے زبان کے ساتھ ساتھ آنکھوں سے بھی سوال کیا۔ 

”نہیں، نجومی تو نہیں۔ ۔۔ کوئی محبت کرنے والا ہی اتنی معلومات رکھ سکتا ہے…“

”یہی تو…آپ صحیح پہنچی ہیں…میں نے بھی اُسے یہی کہا تھا،“ عظمی نے چھٹکی بجاتے ہوئے شہادت کی انگلی اپنی آنی کی طرف کی۔

”بلال کو“ ہاجرہ نے نادیدہ خوف سے پوچھا

”جی ہاں… بلال کو …اسے میرے بارے میں سب کچھ معلوم ہے مجھ سے بھی زیادہ …شادی تو میں بلال سے کروں گی“

###

Honda Civic پورچ میں آکر رکتی ہے۔ Dj معمول کے خلاف گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولتا ہے، توشی سفید لباس میں ملبوس گاڑی سے ایسے اُترتی ہے جیسے وہ رومن ایمپائر کی کوئی پرنسز اپنی سواری سے اُتری ہووہ گردن اُٹھا کر بلال کے روم کی طرف دیکھتی ہے۔ ساری لائٹس آف تھیں۔

ناہید اپنے کمرے سے توشی کو آتے ہوئے دیکھ لیتی ہے۔ توشی اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے

”پھر اُس نے کہا مجھے لفظوں سے کھیلنا نہیں آتا سیدھی بات کہتا ہوں“

توشی اپنی بہن نوشی کو ساری اسٹوری سنا رہی تھی۔

 

عین اُسی وقت ناہید توشی اور نوشی کے بیڈ روم میں داخل ہوتی ہے۔

”کہاں گئی تھی تم…دو دن پہلے کا واقعہ بھول گئی…جانے سے پہلے پوچھ تو لیا کرو …“ ناہید غصے سے گرجی

”جو خود اجازت نہ مانگتے ہوں…وہ اجازت دینے کا حق کھودیتے ہیں…اور جہاں تک اُس دن کی بات ہے…میں تو پوری زندگی نہیں بھول سکوں گی، اُس واقعے کو آپ کو اور اپنے غیرت مند بھائی کو اِس کا مجھے پتہ نہیں…“

توشی نے نوشی کی طرف دیکھ کر اپنی ماں کو کرارہ جواب دیا

”کتنی بدتمیز ہو …یہ سکھاتا ہے تمہیں وہ…میرے خلاف“ ناہید غصے سے بولی

”ماما آپ کو بلال کا فوبیا ہوگیا ہے… ہاں سکھاتا ہے…یہ کہ اپنی ماں کی عزت کرو…اُس سے محبت کرو اُس کا مشورہ تھا کہ میں آپ سے پوچھ کر جاوٴں۔

 

 

 

۔۔ لیکن میں نے ضروری نہیں سمجھا“ توشی نے اپنی ماں کو پھر سے تیکھا جواب دیا

”ضروری نہیں سمجھا تم نے … مجھ سے پوچھنا… میں تمہاری ماں ہوں“

ناہید نے اپنا رشتہ یاد کرایا توشی کو۔

”ماں کیا ہوتی ہے…چھوڑیں ماما…آپ نے ہمیں صرف جنم دیا ہے ماں نہیں بنی آپ …ماما کہنے کی اجازت ضرور مل گئی ہم کو“

توشی نے اپنی ماں پر طنز کیا۔

 

”یہ اُسی کا کیا کرایا ہے…اُس بڈھے موچی سے تعویذ لاکرپلا دیئے ہیں تمہیں“

”خدا کا خوف کریں۔ بابا جی کو تو چھوڑ دیں“

”ہمارا گھر چھوڑ کر بھی نہیں جاتا…کمینہ کہی کا…“ناہید مگر مچھ کے آنسو گراتے ہوئے بولی

”اُس کمینے نے آپ کی عزت کو ڈھاپا ہے، دو دن پہلے ورنہ اس میڈم کا سارا غرور اور مان تو مل گیا تھا۔ خاک میں“ توشی نے نوشی کی طرف اشارہ کرکے کہا

”جو تم سوچ رہی ہو ۔

 

۔۔ میں ایسا کبھی نہیں ہونے دوں گی۔۔۔“

ناہید نے اپنی بیٹی کو چیلنج کیا

”چھوڑیں ماما … یہ منہ اور مسور کی دال…سچ تو یہ ہے ہم دونوں میں سے کوئی بھی اُس کے لائق نہیں ہے…ہاں…آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے میں نے اُسے کہہ دیا ہے،نوشی سے شادی بالکل نہ کرے، اور آج میں بھی فیصلہ کرچکی ہوں…اپنی شادی کا“

”تم نے شادی کا فیصلہ کر بھی لیا ہے … اور ہم سے پوچھنا بھی مناسب نہیں سمجھا“ناہید نے اپنا حق جتایا

”میں نے صرف یہ فیصلہ کیا ہے کہ مجھے کس سے شادی کرنی ہے…کریں گے پاپا ہی“توشی نے وضاحت پیش کی ۔

 

”جو دل میں آئے کرو…جہنم میں جاوٴ“، ناہید غصے سے بول کر چلی گئی

”تم نے یہ کیوں کہا بلال سے، کہ نوشی سے شادی نہ کرنا“ توشی دانت پیستے ہوئے بولی

”اِس لیے کہ تم … اِس قابل ہی نہیں ہو…کیا جوڑ ہے تمہارا اُس کے ساتھ…“وہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر آج اِس مقام پر ہے۔ خود اپنی محنت سے پڑھا اور ہم باپ کے پیسے کے زور پر فیشن ڈیزائنر بنی ہیں۔

 

ہم دونوں ایک دوسری کی قابلیت سے خوب واقف ہیں اچھی طرح سے …“توشی نے نوشی کو بھی کھری کھری سنادیں۔

###

وہ اپنے بیڈ پر کروٹیں لیتی رہی رات بھر مگر نیند اُس کے نصیب میں نہیں تھی۔ اُس کی بہن کا طنز یہ جملہ اُسے بے چین کیے ہوئے تھا۔

(کیا جوڑ ہے تمہارا اُس کے ساتھ) رات کے پچھلے پہر وہ واش روم میں گئی دیوا ر پر آویزاں آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا ”کیا کمی ہے مجھ میں“اُس نے دل ہی دل میں غرور سے کہا ”دلکش ہوں، جوان ہوں، مال دار ہوں، کیا نہیں ہے میرے پاس جس کو چاہو اپنا بنالوں“ زور سے قہقہہ گونجا آئینے میں سے اُس کا اپنا عکس کہہ رہا تھا ”مگر وہ پھر بھی تمہارا نہیں ہوسکتا، کہاں وہ اور کہاں تم“

”بلال صرف میرا ہے میں اُسے کسی اور کا ہونے نہیں دوں گی، وہ مجھ سے منسوب ہے بچپن سے “

نوشی نے اپنے عکس کو جواب دیا۔

 

وہ بے چین ہوکر اپنے ٹیرس پر آئی۔ بلال کے روم کی لائٹ جل چکی تھی۔ ”شکر ہے“ 

اُس نے دل میں کہا اور دیوانی ہوکر بلال کے روم کی طرف دوڑی…بلال تہجد کی نماز ادا کررہا تھا۔ جب وہ بلال کے روم میں پہنچی۔ وہ بلال کے بائیں طرف کھڑی ہوگئی۔ بلال نے سلام پھیرا تو جائے نماز سمیٹ کر دیوان کے بازو پر رکھ دیا، اُس نے اپنے کندھوں سے گرم چادر اُتار کر نوشی کے شانوں پر ڈالی بڑی احتیاط کے ساتھ وہ اُس کے سامنے کھڑا تھا۔

 

 

نوشی اُسی سمعے بلال سے لپٹ گئی نوشی کے دونوں ہاتھ بلال کی کمر پر تھے، اُس کی زبان پر یہ الفاظ تھے۔

”آپ صرف میرے ہو۔۔۔ مجھے عشق ہے آپ سے …عشق ہے آپ سے…“بلال نے اُسے تحمل سے خود سے الگ کیا۔

”یہ گناہ ہے …کبیرہ گناہ…آپ میرے نکاح میں نہیں ہیں“ بلال نے نوشی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا

”کافی بناوٴں آپ کے لیے“بلال نے پوچھا

نوشی کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے ”آپ مجھے معاف کردیں میری ساری بدتمیزیوں پر ساری بداخلاقیوں پر اور میرے سارے گناہوں پر پلیز بلال خدا کے لیے“…نوشی ہاتھ جوڑ کر بول رہی تھی

”نوشی جی ۔

 

۔۔ آپ بیٹھ جاوٴ … میں کافی بناتا ہوں“ بلال یہ کہہ کر کافی بنانے میں مصروف ہوگیا، نوشی اُس چادر سے بلال کے بدن کی خوشبو سونگ رہی تھی، اور روم کا مشاہدہ کررہی تھی۔ اُسے بلال کے کمرے کی ہر ہر چیز پر پیارا آرہا تھا۔ 

”نوشی جی …کافی …“ بلال نے کافی کا مگ نوشی کو تھماتے ہوئے کہا

نوشی دیوان کے اوپر آلتی پالتی مار کر بیٹھی ہوئی تھی۔

 

اور گرم چادر سے اپنا جسم لپیٹا ہوا تھا۔ کافی کا مگ اُس کے دونوں ہاتھوں میں تھا۔ اور وہ بلال کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو۔ بلال حیا والی نظریں جھکائے بیٹھا ہوا تھا کافی ختم ہوگئی

”نوشی جی … اب آپ جاوٴ …“ بلال نظریں جھکائے بول پڑا

نوشی اُٹھی اپنے سلیپر پہنے اور چل دی۔ دروازے سے پہلے وہ رُکی مڑی اور بلال کو نظر بھر کر دیکھا اور چلی گئی۔

###

بلال اسکول جانے کے لیے نکلا، وہ اپنی نانی کے کمرے سے آرہا تھا۔ لان کے پاس نوشی پہلے ہی سے اُس کے انتظار میں کھڑی تھی۔

نوشی کے چہرے پر شرماہٹ زیادہ تھی یا مسکراہٹ یہ اندازہ لگانا مشکل تھا۔

”کیا اپ نے مجھے معاف کردیا ؟“ وہ پھولوں کے پاس کھڑی بولی بلال نے گردن کو اثبات میں ہلادیا۔

”آج رات کو ڈنر پر چلیں۔ صرف میں اور آپ“ وہ پھول کی پتیاں توڑتے ہوئے بولی جو اُس کے ہاتھ میں تھا۔

 

بلال نے اُس کے ہاتھوں کو دیکھا۔

”ٹھیک ہے …کتنے بجے…“ بلال نے حامی بھرلی۔

”ٹائم اور ریسٹورینٹ کا نام میں آپ کو ٹیکسٹ کردوں گی“

نوشی نے پنجوں پر اُچھل کر کہا، بلال وہاں سے اپنی گاڑی کی طرف چل دیا وہ اپنی گاڑی میں گیا تو نوشی پھر سے آٹپکی ”ایک کام تھا آپ سے“ نوشی سائیڈ مرر پر ہاتھ رکھ کر بولی۔

 

بلال نے آنکھوں سے سوال کیا ”وہ ایک لڑکی ہے نوین اُسے توشی نے بھی بھیجا تھا آپ کے پاس پلیز اُسے میری خاطر رکھ لیں میں نے وعدہ کیا ہے اُس سے“

”نوشی جی آپ بھیج دو اُسے میں رکھ لوں گا“ بلال سنجیدگی سے بولا۔

 

توشی ٹیرس پر کھڑی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ اس کے بعد توشی Dj کے کمرے میں گئی، اُس سے پوچھا توشی اور ڈاکٹر کس ریسٹورینٹ میں گئے تھے، اُس نے ساری معلومات لے کر بلال کو ٹیکسٹ کردیا تھا۔جب نوشی دادی کے کمرے میں گئی تو وہاں پہلے ہی سے توشی موجود تھی۔

”تم بہن نہیں ڈائن ہو“ نوشی نے توشی کو دیکھتے ہی کہہ دیا ”دادو آپ کو معلوم ہے یہ بلال کو کہتی ہے مجھ سے شادی نہ کرے۔

 

“توشی خاموش رہی یہ بات سن کر دادی کو تشویش لاحق ہوئی۔ 

دادی نے توشی کی طرف دیکھا جو گردن جھکائے خاموش بیٹھی تھی۔

”کیوں توشی…یہ کیا کہہ رہی ہے“ دادی نے توشی کا موٴقف طلب کیا۔

”یہ کیوں بولے گی …اِس کی تو خود نظر تھی بلال پر اُس نے انکار کردیا تو اِس نے میرے خلاف اُس کے کان بھرنے شروع کردیئے“ نوشی طنزیہ لہجے میں بولی۔

 

”اپنی بکواس بند کرو …تمہیں شرم آنی چاہیے ایسی باتیں کرتے ہوئے …میں بہن ہوں تمہاری ۔۔۔ “ توشی نے غصے سے جواب دیا۔

”تم بہن نہیں ہو میری …ڈائن ہو ڈائن “ نوشی چیخ کر بولی۔

”بیٹا ایسا کیا ہوگیا ہے …تم دونوں میں …جو اتنا غصہ کررہی ہو…“دادی پریشانی سے بولی۔

”داداو میں بتاتی ہوں آج سب کچھ بتاوٴں گی“ توشی زخمی آواز سے سرخ آنکھوں کے ساتھ بولی۔

 

”بچپن سے لے کر آج تک ماما، بھائی اور میری اِس بہن نے بلال کے ساتھ زیادتی کی اُسے ہرٹ کیا ہر جگہ ہر موقعے پر تمہیں معلوم ہے نسیم جمال وہ سینڈوچ کیوں کھاتا ہے، اور ہمارے گھر کا کھانا کیوں نہیں کھاتا اس لیے ایک دفعہ وہ فش کھا رہا تھا تو ماما نے اُس کے آگے سے فش اُٹھالی تھی۔ اور ماما کے الفاظ مجھے آج تک یاد ہیں“ توشی نے اپنے آنسو صاف کیے۔

 

”یہ تمہارے باپ کے پیسوں سے نہیں بنی جو اسے کھارہے ہو۔ غفوراں اِسے سینڈوچ وغیرہ دے دیا کرو یا پھر بچا ہوا کھانا۔ ماما نے یہ BG سے کہا…

تم نے اور بھائی نے کیا کم کیا تھا، خود روپے اُس کے بیگ میں ڈالے اور ماما کو بتاکر اُس پر چوری کا الزام لگادیا …

دادو اور پاپا نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی……

پاپا نے آج تک اُسے اُس کا حق نہیں دیا، پھوپھو کا دیا ہوا قرض جو واپس نہیں کیا……

ماما اور ہم سب مل کر ظلم کرتے رہے اور وہ سہتا رہا……

اور دادو آپ نے ہمیشہ اُسے اپنی محبت کے نام پر بلیک میل کیا۔

 

اُس نے جب بھی اجازت مانگی اِس گھر سے جانے کی دادو نے اپنی محبت کا واسطہ دے کر روک دیا……

یہ جو محبت کی مسیحا بنی بیٹھی ہو نسیم جمال، اصل میں تم نفرت کی دیوی ہو۔“توشی مسلسل بول رہی تھی۔دادی اور نوشی چپ چاپ سب سُن رہیں تھیں۔

”دادو آپ میں اور ماما میں کوئی خاص فرق نہیں ہے …اگر ماما نے نوشی کو نفرت کے پنجرے میں قید کیا ہوا ہے …تو آپ نے بھی بلال کو محبت کے پنجرے میں قید کر رکھا ہے۔

 

اور اُس محبت کے قیدی کی خوراک نفرت، الزام تراشی، طنزیہ جملے، بہتان ہے۔“

کمرے میں بالکل خاموش تھی توشی پھر گھائل آواز کے ساتھ بول پڑی اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی

”میں نے ایک دفعہ اُس سے کہا اپنی محبت کو مانگ لو اللہ سے، تو اُس نے جواب دیا شرم آتی ہے ۔ سچ کہا تھا، بلال نے ایسی محبت کو مانگتے ہوئے واقعی شرم آنی چاہیے۔ “ توشی نے نوشی کی طرف حقارت سے شہادت کی انگلی اٹھائی تھی۔

 

 

”رہا میرا سوال میری جگہ کوئی بھی دل رکھنے والی ہوتی تو وہ بلال پر مرمٹتی جان دے دیتی اُس پر۔ بلال کہتا ہے محبت مانگتے نہیں ہیں محبت دیتے ہیں، میں بھی اُسے بے شمار محبت دینا چاہتی تھی، اس لیے کہ وہ سارے غم بھول جائے۔ نسیم جمال میری بہن میں نے اپنی دعاوٴں میں اُسے مانگا ہے تمہارے لیے ۔۔۔ صرف تمہارے لیے ۔۔۔ اپنے لیے نہیں ۔۔۔

 

کبھی نہیں ۔۔۔ “

توشی اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی کمرے سے چلی گئی، دادی اور نوشی گم سم وہیں بیٹھی رہیں نہ جانے کتنی دیر تک۔

 

###

”یہ سارا کھیل مانگنے اور دینے کا ہے۔ جس سے مانگنا چاہیے اُس سے مانگتے نہیں اور جن کو دینا چاہیے اُن کو دیتے نہیں۔ اگر بندے کو مانگنے کا طریقہ آجائے اور دینے کا سلیقہ آجائے تو بندے کی بہت ساری پریشانیاں ختم ہوجائیں۔

 

۔۔ وہ کہتا ہے مدد مانگنی ہے تو مجھ سے مانگو۔ اللہ تبارک تعالیٰ مانگنے والے سے خوش ہوتا ہے کیونکہ دینے کے قابل وہی ایک ذات ہے باقی کوئی نہیں ہے“

”بابا جی ۔۔۔ اگر ایک انسان کسی دوسرے انسان کو دیتا ہے۔ روپیہ، کپڑے، کھانا وغیرہ وہ بھی تو مدد ہی ہے“ عادل عقیل نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا، بلال خاموشی سے سن رہا تھا۔

”دیکھو ہاشمی صاحب ایک حق ہے اور دوسرا فرض ہے اگر آپ اپنے بوڑھے ماں باپ کو روپیہ، کپڑے اور کھانا دیتے ہیں تو یہ آپ کا فرض ہے اور اُن کا حق ہے اگر بچے چھوٹے ہیں تو یہی کام والدین کریں تو والدین کا فرض اور بچوں کا حق ہے ۔

 

۔۔ 

اِسی طرح اللہ نے جو مال آپ کو عطا کیا ہے، اُس کے اوپر زکوٰة فرض ہے، اگر آپ کسی مستحق کو زکوٰة ادا کرتے ہیں تو یہ آپ کا فرض ہے جس کو آپ نے ادا کیا اُس کا حق ہے…آپ نے اپنا فرض ادا کیا ہے، اُس کی مدد نہیں کی مدد صرف اللہ تبارک تعالیٰ کرتا ہے“ بابا جمعہ نے بات سمجھانے کی کوشش کی۔

”اگر کوئی شخص زکوٰة سے زیادہ رقم ادا کردے تو پھر تو مدد کہلائے گی… نا … “

عادل عقیل ہاشمی نے اپنی طرف سے مضبوط دلیل رکھی

”عادل صاحب پھر وہ ایثار ہوگا، سخاوت ہوگی، وہ بندہ غنی کہلائے گا … دیکھو بیٹا ہم فرض اور حق کے درمیان ہیں اور اللہ تبارک تعالیٰ کے اوپر کچھ فرض نہیں اور کسی کا کوئی حق نہیں اُس کی ذات پر کہ وہ اُس سے اپنا حق مانگے … جب وہ اپنے بندے کو عطا کرتا ہے تو وہ مدد ہوتی ہے، اُس پر فرض نہیں ہے 

مانگنا ہے تو صرف اپنے رب سے مانگو۔

 

جھکنا ہے تو اُس کے آگے جھکو …

حضرت اقبال نے کیا خوب ارشاد فرمایا ہے

جو اِک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

حضرت علامہ اقبال جیسے لوگ بھی صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں“بابا جمعہ نے اپنی بات ختم کی۔ عادل کی بے قراری اب بھی موجود تھی اِس سے پہلے وہ کوئی اور سوال پوچھتا بلال نے بابا جمعہ سے جانے کی اجازت مانگ لی۔

 

”بابا جی مجھے اجازت دیں ۔۔۔ ایک دوست کی طرف چائے پر جانا ہے …“

”ٹھیک ہے بیٹا…جاوٴ…اللہ تمہیں اپنی امان میں رکھے “ بابا جمعہ نے دُعا کے ساتھ رخصت کیا بلال وہاں سے چلا گیا عادل کے سوال ابھی باقی تھے۔

”بابا جی یہ جوتا مرمت کرنا ہے“ ایک عورت نے کہا ”کتنے پیسے لیں گے“

”بیٹی جتنے تم آسانی سے دے سکو دے دینا اگر نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں“

بابا جمعہ نے جوتا پکڑا اور مرمت شروع کردی

عادل عقیل کسی نئے سوال کی تلاش میں تھا۔ 

###

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page