top of page

شکیل احمد چوہان - بلال صاحب

”علامہ اقبال…“ بلال نے چائے کا سپ لیتے ہوئے جواب دیا۔ عظمیٰ افگن فروٹ کیک کا ٹکڑا ہاتھ میں پکڑے ہوئے تماشائی بنے ذہانت کا میچ دیکھ رہی تھی، اور ڈاکٹر ہاجرہ نیازی ریفری کی ڈیوٹی نبھارہیں تھیں۔ڈاکٹر ہاجرہ نے فون کرکے بلال کو بلایا تھا۔ پچھلی رات انہوں نے پروفیسر زمان کو عظمی کی کہی ہوئی بات بتائی تھی

 ”میں شادی تو صرف بلال سے کروں گی“پروفیسر صاحب تشویش میں مبتلا تھے کہ وہ لڑکا کون ہے ، کیسا ہے، کہیں عظمی کی عزت سے نہ کھیلے، اِس لیے بلال کو طلب کیا۔

 

”میرے نزدیک تو مرزا غالب بڑے شاعر ہیں، علامہ اقبال کے مقابلے میں ۔۔۔ “ پروفیسر زمان جانچتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولے۔

 

 

”میں دو بڑے لوگوں میں مقابلے کا قائل نہیں ہوں۔ میرے نزدیک دونوں عظیم شاعر ہیں۔ میں نے صرف اپنی پسند بتائی تھی۔ اور یہی آپ کا سوال بھی تھا …“

بلال نے پر اعتماد لہجے کے ساتھ جواب دیا، عظمی کی آنکھوں میں تفاخر کی چمک تھی۔

 

”میاں…بیوی…“پروفیسر صاحب نے اُدھورا سوال پوچھا۔

”میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ، ایک دوسرے کی ڈھال …“بلال نے جواب دیا۔

”تمہارے پاس پاکستان کے ایک شعبے کو ٹھیک کرنے کا اختیار ہو تو تم کیا کرو گے“ پروفیسر زمان نے وہ سوال کیا جو عجیب تھا۔

”میں ٹریفک کا نظام ٹھیک کردوں گا“بلال نے جواب دیا۔

”اُس کا کیا فائدہ“ پروفیسر زمان بولے۔

 

”اُس کے بہت سے فائدے ہوں گے … سر … پہلا تو یہ وی آئی پی کلچر ختم ہوگا۔ دوسرا یہ، لوگوں کے دلوں میں قانون کا احترام اور رُعب پیدا ہوجائے گا، تیسرا ہماری قوم میں نظم و ضبط پیدا ہوگا۔ “

”VIP کلچر کیسے ختم ہوگامیں سمجھا نہیں ذرا ایکس پلین کرو“ پروفیسر زمان پھر سے بولے

”سر ہمارے ملک میں ایک MNA سو پچاس گاڑیوں پر MNA کی نمبر پلیٹ لگوا دیتا ہے۔

 

اُوپر سے اُن گاڑیوں کے شیشے کالے، اندر کون ہے، کسی کو معلوم نہیں ہوتا وہ گاڑیاں نہ سگنل پر رُکتی ہیں، نہ ون وے کا خیال کرتی ہیں، ٹریفک وارڈن انہیں روکنے سے ڈرتے ہیں۔ پولیس والوں کی جان جاتی ہے……

سر اس ملک کا ہر شہری روزانہ سڑک پر نکلتا ہے۔ سائیکل والے سے لے کر Range Rover والے تک سب کے لیے ایک قانون ہونا چاہیے۔ غلطی کرنے پر اُن کا چالان ہو۔

 

”اچھا یہ بتاوٴ تم کس فرقے سے تعلق رکھتے ہو“پروفیسر زمان نے پوچھا۔

”میں سر ۔۔۔ اُمتی فرقے سے تعلق رکھتا ہوں۔“

”میرا مطلب ہے بریلوی ہو، دیوبندی، وہابی، یا پھر شیعہ“پروفیسر زمان نے سوال آسان کیا

”سر میں اِن میں سے کچھ بھی نہیں ہوں، میں صرف نبی پاک ﷺ کا امتی ہوں۔ کسی فرقے کی کوئی کتاب نہیں پڑھتا، صرف قرآن مجید پڑھتا ہوں، ترجمے کے ساتھ میرے پاس اردو کے چودہ تراجم ہیں۔

 

مختلف علما کرام کے ۔ کسی کی بات سمجھ نہ آئے تو دوسرے کا ترجمہ پڑھ لیتا ہوں۔ سر سچ تو یہ ہے ہمارے ملک کو جتنا نقصان بیرونی طاقتوں نے پہنچایا ہے اُتنا ہی نقصان تفرقے بازی اور فرقہ بندی سے ہوا ہے … “

ڈاکٹر ہاجرہ اور عظمی اُن کی گفتگو سے لطف اندوز ہورہیں تھیں۔

”آخری سوال عظمی سے تمہارا کس قسم کا تعلق ہے۔“

پروفیسر زمان دو ٹوک انداز سے بولے۔

 

”ایک اچھے دوست کا۔“بلال نے دھیمی آواز کے ساتھ جواب دیا۔

”کیا لڑکا اور لڑکی صرف دوست ہوسکتے ہیں … “پروفیسر زمان نے مشکل سوال پوچھا۔

”سر بہت مشکل ہے مگر ہوسکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ حیا کی چادردونوں کے درمیان ہو …“

چائے کا دور ختم ہوچکا تھا۔ ڈاکٹر ہاجرہ اور ڈاکٹر عظمی تو بلال کے جوابوں سے خاصی متاثر ہوئیں تھیں۔

 

پروفیسر صاحب زرا دیر سے مطمئن ہونے والے انسان تھے۔

بلال نے جانے کی اجازت مانگی۔

”بلال بیٹا مغرب ہونے والی ہے رات کا کھانا کھاکر جانا۔“ ڈاکٹر ہاجرہ نے پرخلوص انداز میں دعوت دی۔

”خالہ جی…آج میری پہلے سے دعوت طے ہے۔ ورنہ میں ضرور کھانا کھاتا آپ کے ہاں۔“

عظمی پنک لباس پہنے ہوئے اپنی کالی سیاہ آنکھوں سے بلال کو دیکھ رہی تھی۔

 

بلال ڈرائنگ روم سے نکلا تو عظمی اُسے اُس کی گاڑی تک چھوڑنے آئی۔

بلال گاڑی میں بیٹھنے لگا تو عظمی نے زبان کھولی۔

”آپ یہ گاڑی کیوں نہیں بدلتے آپ کی ہم عمر ہے؟ “عظمی نے شرارتی انداز میں سوال کیا۔ 

”اس لیے کہ یہ میری پیدائش پر میرے ابا ملک جلال احمد نے خریدی تھی۔ آٹھ ماہ انہوں نے چلائی … پھر وہ فوت ہوگئے اُن کی خوشبو آتی ہے اِس گاڑی سے “ بلال غم میں ڈوبی ہوئی آواز سے بولا۔

 

”یہ موبائل کیوں نہیں بدلتے اب تو Iphone 5 آگیا ہے“ عظمی آفگن نے اپنا سیٹ دکھاتے ہوئے کہا۔

”گاڑی میں بیٹھ کر بلال نے اپنا موبائیل چوما۔ اِس پر میری ماں کے ہاتھ لگے ہیں۔ “یہ کہہ کر بلال وہاں سے چلا گیا۔ وہ Mobile اُس کی ماں کا تھا۔

عظمی وہی کھڑی کھڑی بلال کے ساتھ سفر کررہی تھی۔ وہ کتنی دیر وہیں کھڑی رہی۔ واپسی پر بلال ماڈل ٹاوٴن کے قبرستان کے باہر گاڑی کھڑی کرکے اندر چلا گیا۔

 

اُس سمعے اعجاز جنجوعہ وہاں سے گزرا اُس نے بلال کو اندر جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ 

عظمی اپنے روم میں آئی اور موونگ چیئر پر بیٹھ کر کافی دیر سوچتی رہی۔ بلال کے بارے میں، اُس کے کانوں میں بلال کے الفاظ گونج رہے تھے، اور وہ خیال کی آنکھوں سے بلال کو دیکھ رہی تھی، جواب دیتے ہوئے۔ میں نے اپنی امی کی کونسی چیز سنبھال کر رکھی ہے۔ جواب ملا کوئی بھی تو نہیں سوائے اُن کی تصویروں کے۔

 

وہ اُٹھی اور اپنی خالہ ہاجرہ کی طرف گئی، شاید اُن سے امی کی کوئی چیز مل جائے جس سے اُن کی خوشبو آتی ہو۔

###

ڈیفنس کا وہی ریسٹورینٹ، وہی ٹیبل مگر چہرے جُدا، نوشی نے Dj کو بھیج کر ٹیبل بُک کروالیا تھا۔ رات آٹھ بجے کا وقت طے ہوا تھا۔ ڈنر کے لیے۔ نوشی ساڑھے سات بجے ہی وہاں پہنچ گئی تھی۔ اُس نے سفید چوڑی دار پائجامہ اوپر لمبی قمیض۔

 

کھلے گولڈن بال اُس کا لباس بالکل ویسا تھا جیسا پچھلی رات اُس کی بہن توشی نے پہنا تھا۔ وہ بار بار اپنی گوری کلائی پر بندھی گھڑی کو تیز چلنے کا حکم دیتی گھڑی تو تیز چل سکتی ہے، مگر وقت اپنی مرضی سے سفر کرتا ہے۔

آٹھ بجنے سے دو منٹ قبل بلال نوشی کو سلام کرتا ہے، جوکہ اُس کے دائیں طرف کھڑا تھا، نوشی اُس کے استقبال کے لیے کھڑی ہوجاتی ہے اور فوراً کہتی ہے۔

 

”اتنی دیر لگادی آپ نے “ بلال اپنی گھڑی پر وقت دیکھتا ہے آٹھ بجنے والے تھے۔ اُس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی کہا کچھ نہیں نوشی کو یاد آتا ہے ٹائم تو 8 بجے کا طے ہوا تھا ”میں تو یونہی“ اُس نے اپنے دل میں کہا۔

بلال اُس کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ بلیک ٹوپیس پہنے ہوئے وائٹ شرٹ کے ساتھ اُس کی لائٹ گرین موٹی موٹی آنکھیں اوپر سے کالے سیاہ گھنگھریالے بال وہ سادگی کے باوجود فیشن کو مات دے رہا تھا۔

 

”تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات

تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے“

نوشی نے بلال کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شعر سنایا۔

”منجمد خون میں ہلچل کردے

مجھ کو چھو اور مکمل کردے“

نوشی نے دوسرا شعر سناتے ہوئے بلال کے ہاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھا، بلال نے مسکراتے ہوئے ہاتھ کھسکالیا نوشی نے محسوس بھی نہیں کیا۔

 

”Very Nice آپ شاعری کا ذوق بھی رکھتی ہیں، کچھ اور ارشاد ہو۔“ بلال نے فرمائش کردی۔ 

”ارشاد کون ۔۔۔ “ نوشی حیرت سے بولی ”میں تو کسی ارشاد کو نہیں جانتی ۔“

”میرا مطلب ہے ۔۔۔ آپ کوئی اور شعر سنائیں“ بلال زیر لب مسکراتے ہوئے بولا

”اچھا … اچھا … شعر کوئی اور … وہ…میں …“نوشی اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی ”کس سے پنگالے لیا“ وہ من ہی من میں بولی ”ابھی کوئی ذہن میں نہیں آرہا“ وہ بتیسی نکالتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

 

ویٹر پاس کھڑا تھا۔ مینیو سامنے رکھتے ہوئے اور ٹیب لیٹ ہاتھ میں لیے ہوئے ۔

”شکریہ“ نوشی نے زیر لب کہا ” آپ اتنی دیر کیوں لگادیتے ہیں“ نوشی نے ویٹر کو گھوری ڈالتے ہوئے بولا کھانے کا آرڈر نوشی دے رہی تھی۔

”اچھا ایسا کرو آپ۔ “ نوشی مینیو کارڈ دیکھتے ہوئے بولی ”ایک پیاز گوشت، فش تکہ … باقی صاحب سے پوچھ لو“

”وہ … شعر…کس کے تھے …وہ اِرم واسطی بہت بڑی شاعر تھی۔ اُس کے ہیں“

(یہ بھولا نہیں ابھی تک) نوشی نے دل میں کہا۔

”کیا … اِرم واسطی صاحبہ مرگئیں ہیں…“ بلال نے پھر شرارت کی۔

”ہاں …ہاں … مرگئیں ہیں … پچھلے ہی سال…“ نوشی عُجلت میں بولی۔

نوشی نے وہ شعر اِرم واسطی کی ڈائری سے یاد کیے تھے آج سارا دن رٹا لگا کر اُسے کیا معلوم یہ اشعار کن عظیم شعرا کے تھے۔

 

 

 

وہ تو بس بلال کو امپریس کرنا چاہتی تھی۔ اُسے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ شعر سناکر پھنس جائے گی۔

”منجمد خون میں ہلچل کردے

مجھ کو چھو اور مکمل کردے

کتنی پیاسی ہیں یہ بنجر آنکھیں

اَبرزادئے انہیں جل تھل کردے

میں نے وہ درد چھپا رکھا ہے

جو ترے حسن کو پاگل کردے

یہ جناب احمد فراز کے اشعار ہیں“

بلال نے شعر سنانے کے بعد بتایا ”اور جو پہلا شعر آپ نے سنایا تھا وہ فیض احمد فیض صاحب کا تھا۔

 

ویٹر ٹیبل پر کھانا لگارہا تھا۔ دونوں طرف سے خاموشی تھی۔ کھانے کے دوران اُن دونوں میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ سوائے اِس کے نوشی تھوڑی تھوڑی دیر بعد بلال کو چور نگاہوں سے دیکھ لیتی۔ 

ویٹر نے ٹیبل صاف کردیا۔

”کچھ میٹھا ہوجائے“ بلال نے سنجیدگی سے نوشی کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

”رس ملائی“ نوشی ہولے سے بولی ” ok دو رس ملائی“بلال نے ویٹر کو دیکھ کر جواب دیا نوشی نظریں جھکائے ہوئے تھی۔

 

”محبت میں ایک دوسرے کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھا جاتا ہے ۔۔۔ مگر محبت تبدیلی نہیں مانگتی …محبت خود تبدیل کردیتی ہے … محبت شرطوں کی بنیاد پر نہیں ہوتی …محبت خود شرط ہے …آپ جیسی ہو ویسی ہی رہو…“ بلال کا ایک ایک لفظ نوشی کے دل پر جاکر لگا۔

”مجھے تو آپ سے عشق ہوگیا ہے “نوشی فدا ہوجانے والی آنکھوں کے ساتھ بولی۔

”توشی ہمیشہ مجھے کہتی ہے۔

 

آپ کو مجھ سے محبت ہے مگر آپ نے تو کبھی بھی نہیں کہا۔ اپنی زبان سے … کیا یہ سچ ہے…“

”سچ کو سچ ثابت نہیں کرسکتا۔ سچ کو ہمیشہ وقت ثابت کرتا ہے۔۔۔ “ بلال کسی دانشور کی طرح بولا، یہ بڑی بات جوکہ نوشی کی ذہنی سطح سے بلند تھی۔ اُس کو یہ بات سمجھ ہی نہیں آئی … 

”Will You Mary Me?“ نوشی نے پیاسی ہوئی آنکھوں کے ساتھ جیسے بلال سے وصل مانگا ہو۔

 

 

”My Pleasure…“بلال سنجیدگی سے بولا جیسے اُسے ڈر زیادہ اور خوشی کم ہو پھر بھی اُس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ یہ سارا منظر ولید اور ارم اوپر ریسٹورینٹ کی گیلری میں بیٹھے دیکھ رہے تھے۔

”اِس کو چھوڑ کر یہ مجھ سے شادی کیوں کرے گی“ولید حسد سے بولا ارم کو دیکھ کر جوکہ اُس کے سامنے بیٹھی تھی ”کیا پرسنالٹی ہے بندے کی …“

”کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو واقعی لاجواب پرسنالٹی کا مالک ہے …اور جہاں تک شادی کی بات ہے …جو میں کہتی ہوں بس کرتے جاوٴ“ اِرم واسطی اُن دونوں کی طرف دیکھ کر بولی اُس کے ذہن میں کوئی خرافاتی پلان تھا۔

 

اِ س دوران بلال ایک کال ریسو کرتا ہے۔

”ایک ایمرجنسی ہے…Sorry…کسی کی زندگی اور موت کا مسئلہ ۔۔۔ مجھے جنرل ہاسپٹل تک جانا ہے“

”میں بھی چلوں …آپ کے ساتھ …“نوشی مزید وقت بلال کے ساتھ گزارنا چاہتی تھی۔

بلال نے لمحہ بھر سوچا، بل وہ ادا کرچکا تھا اگر کال ریسو نہ کرتا تو وہ دونوں تھوڑی دیر مزید بیٹھتے پارکنگ میں آکر بلال نے DJ کو روپے دیئے۔

 

”یہاں سے کھانا لے لو BG, SMS اور سب لوگوں کے لیے مجھے کچھ کام ہے نوشی میرے ساتھ ہیں“ بلال نے DJ کو ساری بات سمجھادی اور وہاں سے چلے گئے تھوڑی دیرر بعد وہ دونوں جنرل ہاسپٹل کے بلڈ بینک ڈیپارٹمنٹ میں تھے۔ بلال خون کی بوتل عطیہ کرنے کے بعد اپنی آستین بند کررہاتھا ایک آدمی عمر 30 کے لگ بھگ شاپر بیگ میں جوس اور دودھ کے ڈبے لیے کھڑا تھا۔

 

 

”پاجی … بڑی مہربانی آپ کی…یہ خون ملتا ہی نہیں تھا میرے سارے رشتے داروں، یاروں، دوستوں میں سے کسی کا بھی نہیں تھا۔ ایک دو کا نکلا انہیں پہلے سے ہی یرقان تھا کسی کو پیلا یرقان اور کسی کو کالا …“

”کوئی بات نہیں … پاجی … آپ بھی کسی کے کام آجانا … ویسے کیا نام ہے آپ کا “بلال نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

”مستری چمن مسیح راج ہوں“ مشکور نگاہوں ں سے بولا ”یہ آپ کے لیے ۔

 

۔۔ “ شاپر بیگ بلال کو عقیدت سے دیا، جیسے مرید پیر صاحب کو نذرانہ پیش کر رہا ہو۔

”کاظمی صاحب نے کہا تھا“ چمن مسیح نے دودھ اور جوس لانے کی وجہ بتائی۔

”شکریہ … چمن صاحب اچھا اللہ حافظ …تم جاوٴ مریض کے پاس …ویسے مریض کون ہے “بلال نے پوچھا۔

”بیوی ہے میری …بڑا آپریشن ہے جی اُس کا … بچہ ہونے والا ہے …“

چمن بول رہا تھا، آنسو صاف کرتے ہوئے ”پہلے چار بیٹیاں ہیں اس دفعہ سکرین کروائی تھی ۔

 

۔۔ خیر سے بیٹا ہے ۔۔۔ “

”یہ تو خوشی کی بات ہے…تم جاوٴ اللہ کرم کرے گا…“ بلال نے چمن مسیح کو تسلی دی اور وہاں سے نکل آیا۔ چمن نے جاتے ہوئے بلال کو دیکھا دور تک ۔

نوشی کے لیے یہ سب کچھ عجیب سا تھا۔ وہ زندگی میں پہلی بار کسی سرکاری ہاسپٹل میں گئی تھی۔ اور اُس کے سامنے بلال کی شخصیت کا نیا پہلو آیا تھا۔

”آپ نے خون کیوں دیا…؟“ نوشی نے پوچھا، اعتراض تھا، یا سوال بلال سمجھ نہیں پایا۔

 

”اِس لیے ہمارے ملک میں خون بہانے والے زیادہ ہیں…اور خون دینے والے کم…“

”بلال ونڈ اسکرین سے باہر نظریں جمائے گاڑی چلا رہا تھا۔“

”آپ کو کس نے فون کیا تھا …اور یہ کاظمی صاحب کون ہیں“ نوشی نے تشویش شروع کی۔

”اندرون لاہور میں …امام حسین بلڈ ڈونر سوسائٹی ہے…اُس کے آفس سے کاظمی صاحب نے فون کیا تھا۔“

”وہ کیا خون…سیل کرتے ہیں؟“ نوشی نے اگلا سوال پوچھا۔

 

بلال نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔

”نوشی جی …آپ بھی…ایک پرائیویٹ فلاحی ادارہ ہے جو فی سبیل اللہ لوگوں کے کام آتا ہے ۔۔۔ میں نے چمن کی بیوی کو خون دیا … اب ایک دو دن میں چمن کو فون آجائے گا تو وہ کسی اور مریض کو عطیہ کردے گا اب چمن بھی ممبر بن گیا ہے “

”اگر اُس نے خون عطیہ نہ کیا تو…“ نوشی معصومیت سے بولی۔

”کرے گا … ضرور کرے گا … کیونکہ اب وہ اِس درد سے آشنا ہوچکا ہے …جواپنوں کو تکلیف میں دیکھ کر ہوتا ہے“

”اُس نے یہ کیوں کہا …یہ خون ملتا ہی نہیں ہے۔

 

“ نوشی کے سوال ختم نہیں ہوئے۔

”اس لیے … O نیگیٹو نایاب ہے سب سے کم لوگوں کا ہوتا ہے میرا بلڈ گروپ O نیگیٹو ہے“

”آپ ہر سنڈے خون دیتے ہیں“ نوشی نے جانچتی نگاہوں سے پوچھا۔ 

”مروانے کا ارادہ ہے…ہر سنڈے …صرف 3 بار ایک سال میں …“

بلال مسکراتے ہوئے بولا ۔

”آپ کو مرنے سے ڈر لگتا ہے۔ “نوشی نے بلال کو دیکھ کر سنجیدگی سے پوچھا، گاڑی گھر کے باہر تھی پورچ میں کھڑی کرنے کے بعد بلال نے جواب دیا۔

 

 

”مرنے سے ڈر نہیں لگتا …بے وجہ مرنے سے ڈر لگتا ہے …زندگی اللہ تبارک تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اِس کی قدر کرنی چاہیے …موت ایک اٹل حقیقت ہے اُس کی تیاری کرنی چاہیے۔ “

نوشی گاڑی میں بیٹھے ہوئے بلال کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے اُس پر مرمٹی ہو۔ بلال نے اُس کی یکسوئی کو توڑا۔

”وہ میں نے …نوین کو جاب دے دی ہے …کل سے آجائے گی ڈیوٹی پر“

”کون نوین …“نوشی بولی جیسے کسی نے نیند سے جگایا ہو ابھی ابھی

”ہاں وہ نیناں …Thank You یہ ڈنر میں کبھی نہیں بھولوں گی Thank You Again…“

 

###

”کیا ہے تمہارا…پلان …“ولید ہاشمی بیڈ پر سیدھا لیٹا ہوا پوچھ رہا تھا۔

”وہ وقت آنے پر بتاوٴں گی“ اِرم واسطی کہنی کے بل اُس کے پہلو میں لیٹی ہوئی تھی اور اپنے گلے میں پڑی سونے کی چین کو ہونٹوں میں لیے کسی گہری سوچ میں تھی۔ ولید نے اُسے یہ کرتے ہوئے دیکھا تو بولا۔

”سونا تمہاری بہت بڑی کمزوری ہے…“

”نہیں ہیرا ہے …وہ ہیرا ہے…‘ وہ کھوئی ہوئی بولی بہت دور سے۔

 

”تم کس کی بات کررہی ہو“ ولید خفگی سے بولا۔

”بلال کی …بالکل زیرومیٹر گاڑی کی طرح صاف ستھرا اندر باہر سے “ارم واسطی ولید کو دیکھ کر بولی۔

”میرے لیے ڈوب مرنے کی بات ہے …میرے ساتھ…میرے بستر پر تم کسی اور مرد کے بارے میں سوچو …“ ولید نے تیور دکھائے۔

”شٹ اپ …ولید“ ارم پیار سے بولی ولید کے ہاتھ کو چومتے ہوئے۔

 

 

 

”تعریف بھی کی ۔ رقیب کی تو…شوروم کی سیلز گرل کی طرح …“ ولید نے کہا۔

”سچ کہہ رہی ہوں ۔۔۔ایسا مرد لاکھوں میں ایک ہوتا ہے…جو اپنی حیا کی گاڑی بچا کر رکھتا ہے …شادی والے دن اپنے محبوب کو ساتھ والی سیٹ پر بٹھاتا ہے۔ پھر اُس زیرومیٹر گاڑی کو زندگی کے نئے سفر پر لے جاتا ہے… “

وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ”تم شرط لگالو میرے ساتھ اِس بندے نے زندگی میں، اُس نظر سے کسی لڑکی کو چھوا تک نہیں …دو چار بار ملاقات ہوئی ہے میری …بوتیک میں مجھ جیسی کو اُس نے عزت کی نگاہ سے دیکھا …ورنہ مرد کی نظر تو آنکھوں ہی سے چھلنی چھلنی کردیتی ہے“ وہ ایک تجربہ کار عورت کی طرح تجزیہ پیش کررہی تھی۔

 

 

”اِسی لیے تم نے …یہ ماسٹر پلان بنایا ہے“ ولید نے طنز سے کہا۔

”کمہار کے ہاتھ لال لگ جائے تو وہ گدھے کے گلے میں ڈال دیتا ہے…ہیرے کی قدر جوہری کو ہوتی ہے …وہ اِس کے قابل ہی نہیں ہے …میری باس……“

”تو پھر تمہارا ہیرا تو بے وقوف ہوا ناں“ ولید اٹھ کر بیٹھ گیا۔

”محبت کرنے والے بے وقوف نہیں ہوتے جو اُس محبت کی قدر نہ کرے وہ بے وقوف ہوتا ہے “اِرم اپنے ماضی کو یاد کرکے بولی۔

 

 

###

”لڑکا ذہین بھی ہے …اور شریف بھی …مجھے پسند آیا“ پروفیسر زمان بولے ناشتہ کرتے ہوئے ڈائننگ ٹیبل پر اُن کے ساتھ ہاجرہ اور عظمی بھی تھیں۔

ہاجرہ نیازی ہکا بکا رہ گئیں یہ سُن کر ”شکر ہے خدا کا آپ بھی کسی کے معترف ہوئے بشمول میرے آپ کے معیار پر کون پورا اُتر سکا ہے آج تک“

”معترف نہیں ہوا ہوں …بس ٹھیک ہے“ پروفیسر زمان چائے کا سپ لیتے ہوئے بولے۔

 

”بیگم آپ بات چلاوٴ …‘ پروفیسر زمان کو نہیں پتہ تھا کہ بلال کی منگنی ہوچکی ہے ہاجرہ اور عظمی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ 

”اچھا بھئی میں چلتا ہوں …اللہ حافظ … “پروفیسر زمان وہاں سے چلے گئے کالج کے لیے۔

”عظمی غلطی کی تمہارے انکل کو بتا کر اب یہ بات نہیں چھوڑیں گے… “

ہاجرہ کو فکر لاحق ہوگئی۔

”آنی فکر نہ کریں …میں بات گول کردوں گی “ عظمی نے تسلی دی۔

 

”پھر اُس کے بعد … “ ہاجرہ کو دوسری پریشانی لاحق ہوئی۔

”اُس کے بعد میری شادی بلال کے ساتھ … “ عظمی نے مسکرا کر کہا۔

”آج تم مجھے ڈاکٹر نہیں لگی … تمہاری منطق میری سمجھ سے باہر ہے …“ ہاجرہ نے سنجیدگی سے کہا۔

”محبت میں ڈاکٹر بھی مریض بن جاتا ہے … اور مریض کو صرف شفا سے غرض ہوتی ہے دوا یا دُعا سے نہیں … آپ صرف دُعا کریں دوا دارو میں خود کرلوں گی“ عظمی پراعتماد لہجے کے ساتھ بولی۔

 

”تم واقعی بدل گئی ہو … دو سال پہلے والی عظمی تو نہیں ہو … بس بیٹی ایک بات کا خیال رکھنا کسی کی محبت چھین کر محبت نہیں ملتی… محبت تو ٹھیک ہے اِسے روگ مت بنالینا… “ ہاجرہ نے سمجھایا شفقت سے ہاجرہ کو عظمی کی بلال میں دلچسپی بُری نہیں لگی تھی ، وہ اِس لیے جب سے بلال اُس کی زندگی میں آیا تھا وہ خوش رہتی، باتیں کرتی، زندگی سے اُسے پیار ہوگیا تھا۔

 

 

اِس کے ساتھ ساتھ ایک ڈر بھی تھا کہ بلال اگر اُسے نہ ملا تو پھر کیا ہوگا۔

###

اعجاز جنجوعہ اپنے مخصوص انداز میں دائیں ہاتھ میں چائے کا کپ اور بائیں ہاتھ سے اپنی مونچھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف پریس کررہے تھے اور نظریں ٹیبل پر پڑے ہوئے اخبار پر جمی ہوئیں تھیں جب طارق رامے اپنے آفس میں داخل ہوتا ہے۔

”او ہو … جنجوعہ یار اتنے دن لگادیئے“ طارق رامے اعجاز جنجوعہ کو گلے لگاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

 

”بس وہ …باجی کی بیٹی کی شادی تھی پھر پنڈی میں اتنی ساری رشتے داری دن تو لگ جاتے ہیں۔ “

”یار تو نہیں تھا …تو بوریت ہوگئی تھی…پچھلے ہفتے تیرے بغیر میں اور بلال بھی کہیں نہیں گئے … مجھے تو بلال اُس دن سے نظر ہی نہیں آیا …جب یہ خراب ہوئی تھی“ رامے نے جنجوعہ کی گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔ 

جو دفتر کے سامنے کھڑی تھی ”ویسے تو گاڑی بدلتا کیوں نہیں …بھابھی کے پاس نئی گاڑی اور تیرے پاس یہ فراری“ رامے نے فراری ایسے کہا جیسے گاڑی کو گالی دے رہا ہو۔

 

”بحریہ ٹاوٴن والے مکان کا کوئی گاہک تلاش کر ایک دو دن میں تیار ہوجائے گا۔“ اعجاز جنجوعہ نے طارق رامے کو کہا ”مکان سیل ہوتا ہے تو گاڑی بھی بدلتا ہوں رامے جب میرے پاس کچھ نہیں تھا، تب یہ گاڑی خریدی تھی، بڑی برکت والی ہے یہ فراری“ اعجاز جنجوعہ نے اپنی گاڑی کی طرف دیکھ کر کہا ”بیچنے کو دل نہیں کرتا ……“

”ویسے مجھے ایک بات تو بتا ……بلال کے پاس بھی تو پرانے ماڈل کی گاڑی ہے اُس کا تو مذاق نہیں اُڑاتا“ اعجاز جنجوعہ نے طارق رامے سے گلہ کیا۔

 

”ناں ……وئی ……ناں ……وہ بندہ وکھری ٹائپ کا ہے ……اُسے مذاق کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے……“ طارق رامے نے کہا ”تو نے کبھی اُس کے ساتھ مذاق والی بات کی ہے جو مجھے مشورہ دے رہا ہے “ اعجاز جنجوعہ طارق رامے کی بات سن کر مسکرایا۔

”رامے بات تو تیری ٹھیک ہے۔ میرے اندر بھی کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ اُس سے مذاق کروں……وہ واقعی مختلف ، سفید و خوبصورت، ٹھنڈا بالکل تاج محل کی طرح ایک عجوبہ“ اعجاز جنجوعہ کے اندر سے اعجاز ٹھیکیدار بول رہا تھا۔

 

”کل میں نے اُسے ماڈل ٹاوٴن کے قبرستان کے اندر جاتے ہوئے دیکھا تھا ……“

”ماں باپ کی قبر پر گیا ہوگا“ طارق رامے نے اندازہ لگایا۔

”اس کی ماں کی قبر تو ڈیفنس کے S بلاک والے قبرستان میں ہے……تجھے یاد ہے…… وہ قبرستان کے سامنے والا مکان“ جنجوعہ نے رامے کو کچھ یاد کرایا۔

”ہاں ……وئی ……جنجوعہ تیرے اُس مکان نے تو ذلیل کروادیا تھا، کوئی گاہک لینے کو تیار نہیں تھا ……جسے دکھاوٴ ……قبرستان کے سامنے …… کہہ کر گیا اور واپس نہیں آیا۔

 

طارق رامے حیرت سے بولا ”جنجوعہ صاحب مجھے دس سال ہوگئے پراپرٹی کا کام کرتے ہوئے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی۔ مسجد اور قبرستان کے پاس پلاٹ بھی سستا ملتا ہے اور مکان بھی گاہک لینے سے پھر بھی کتراتے ہیں…… لوگوں کو قبرستان سے اتنا ڈر کیوں لگتا ہے“

طارق رامے نے کہا ”بلال تو روز صبح اپنی ماں کی قبر پر جاتا ہے …… جب وہ مکان بن رہا تھا کئی بار تو میں نے خود دیکھا میرے چوکیدار نے بھی بتایا تھا کہ جنجوعہ صاحب آٹھ ماہ سے میں ہر روز اسے دیکھ رہا ہوں، قبرستان میں آتے ہوئے دُعا کرتا ہے، اور چلا جاتا ہے“

اعجاز جنجوعہ طارق رامے کو بتارہا تھا۔

 

”تم بھی کبھی دُعا کرنے گئے ہو……اپنے ماں باپ کی قبروں پر……“ طارق رامے نے پوچھا

”ہر سال محرم کے مہینے میں جاتا ہوں۔ 22 سال ہوگئے ہیں اُن کی وفات کو……“

”کہاں دفن ہیں؟…… ڈیفنس میں……“ طارق رامے نے سوال کے ساتھ خیال ظاہر کیا

”نہیں …… نہیں…… شاہدرہ میں بوٹاپارک کے قبرستان کے اندر پہلے دس سال تک میں ابا کی قبر پر مٹی ڈالتا رہا ہوں اب ضرورت ہی نہیں پڑتی……“

”کیوں ……قبر پکی کروادی ہے……“ طارق رامے نے کہا۔

 

”نہیں تو ……“ اعجاز جنجوعہ کے پیلے دانت نکلے جن کی رنگت قدرتی طور پر پیلی تھی۔

”دس سال بعد ایک اور آدمی نے مٹی ڈالنا شروع کردی دو سال پہلے ایک تیسرا بندہ بھی شروع ہوگیا ہے“

”کیا مطلب ……؟“ طارق رامے کو تجسس ہوا۔

”اِس محرم میں دعا کے لیے گیا تو ایک آدمی پہلے ہی سے اباجی کی قبر پر دُعا مانگ رہا تھا۔ قبر پر مٹی بھی اُسی نے ڈالی تھی۔

 

وہ چلا گیا تو میں نے بند آنکھوں سے دُعا شروع کی جب آنکھیں کھولیں تو میرے پیچھے ایک لڑکا کھڑا تھا ……وہ کہنے لگا ابا جی سچ کہتے تھے تم لوگ میری قبر پر نہ بھی آئے تو میرے شاگرد ضرور مجھے اپنی دعاوٴں میں یاد رکھیں گے۔ وہ ہیڈماسٹر شریف کا بیٹا تھا۔ جس نے مٹی ڈالی وہ مستری عنایت کا بیٹا تھا۔“

طارق رامے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہا تھا وہ ہنستے ہوئے بولا

”ایک قبر اور ابے تین……جنجوعہ صاحب تیرے اباجی کی مرمت مستری عنایت کردے گا اور سبق ماسٹر شریف پڑھائے گا……“

طارق رامے اور اعجاز جنجوعہ کے اندر والے میراثی جاگ چکے تھے۔

 

وہ دونوں پاگلوں کی طرح ہنس رہے تھے۔ اچانک طارق رامے کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ یکدم خاموش ہوگیا۔ اعجاز جنجوعہ کی نظر پڑی تو وہ بھی خاموش ہوگیا۔

”کیا ہوا رامے ……خیریت تو ہے……“ اعجاز جنجوعہ نے فکر مندی سے پوچھا۔

”کچھ نہیں جنجوعہ …… اباجی یاد آگئے…… تم تو سال میں ایک مرتبہ اپنے اباجی کی قبر پر چلے جاتے ہو ……میں تو ……وہ بھی ……“طارق رامے کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔

 

وہ بھری ہوئی آواز کے ساتھ بولا

”کتنا نالائق بیٹا ہوں میں ……پانچ سال ہوگئے ……اباجی کی وفات کو …… ماں نے کتنی بار کہا اپنے باپ کی قبر پر فاتحہ پڑھ آوٴ مگر میں ایک بار بھی نہیں گیا ……“

”اب جب بھی دینہ جاوٴ، تو ضرور جانا اُن کی قبر پر اعجاز جنجوعہ نے تاکید کی۔ طارق اب بھی خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ اعجاز جنجوعہ نے بات بدلی اُسے خوش کرنے کے لیے۔

 

”ویسے ایک بات ہے …… ڈیفنس کا قبرستان ٹھیک ہے۔ سب قبروں پر نمبر لگے ہوئے ہیں۔ قبرستان بھی خوبصورت ہے۔ غریبوں کے پارک سے بھی زیادہ اور مزے کی بات ایک قبر میں صرف ایک مردہ ہے۔ ایک قبر اور ابے تین والا معاملہ نہیں ……“

”وہ دونوں پھر ہنس پڑے اور دیر تک ہنستے رہے۔ اُسی دن انہوں نے ہفتے کا پروگرام بنایا۔ رات کو کھانا باہر کھانے کا بلال کو جنجوعہ صاحب نے فون کرکے بتادیا تھا۔“

###

بلال اپنی چھت پر گیا، پرندوں کو دانہ ڈالنے کے لیے وہاں پہلے سے توشی موجود تھی جوکہ پانی کی کنالیوں میں پانی ڈال رہی تھی۔ اُس نے دانہ پہلے ہی ڈال دیا تھا۔ اُس کے اِردگرد کافی پرندے دانہ چُن رہے تھے۔ بلال کو دیکھ کر توشی کھڑی ہوگئی اور اُس کی طرف آگئی، بلال اپنے گرین ہاوٴس کے پاس کھڑا تھا۔ بلال اُسے دیکھ کر خاموش رہا، توشی نے بات شروع کی۔

 

 

”جو پنچھی نفرت کی قید میں سالوں رہا ہو ……محبت کی فضاوٴں میں اُڑنا اُس کے لیے مشکل ہوتا ہے“ توشی بلال کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولی۔ ”ویسے ڈنر کی آفر کس نے دی تھی۔“

”آپ کی بہن نے ……“ بلال نے ہری مرچ کے پودے سے ہری مرچیں توڑتے ہوئے جواب دیا۔

”آج کل ساری باتیں مان لیتے ہو میری بہن کی …… اور اپنے اصولوں کی پروابھی نہیں کرتے“ توشی ایسے بولی جیسے ساس اپنی بہو کو طعنہ دے رہی ہو۔

 

 

 

بلال کھڑا ہوچکا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں پلاسٹک کی باسکٹ تھی، جس میں تازہ دھنیا، پودینہ اور ہری مرچیں تھیں۔ وہ سمجھ گیا تھا توشی کا اشارہ کس طرف تھا۔ وہ نوین کی نوکری کی بات کررہی تھی۔ اُس کے کہنے پر انکار کردیا اور نوشی کے کہنے پر رکھ لیا۔

بلال توشی کی بات سُن کر مسکرایا۔

”محبت آپ کے اصولوں کو نہیں جانتی ……محبت کے اپنے اصول ہیں“ بلال نے جواب دیا۔

 

”میں اپنی بہن سے جیلس نہیں ہوں …… مگر تم سے گلہ ہے …… میرے کہنے پر انکار اور نوشی کا حکم سر آنکھوں پر ……“ توشی شکایتی نگاہوں سے بولی۔

”ہم دوستوں کو انکار بھی کرسکتے ہیں اور اُن کے ساتھ گلے شکوے بھی کرسکتے ہیں…… مگر ……محبت انکار نہیں سُنتی …… اور گلے شکوے محبت کو کھا جاتے ہیں ……“

بلال سمجھانے کے انداز میں بولا۔

 

”ڈاکٹر بٹ بالکل ٹھیک کہتے ہیں ……لفظوں کی جادو گری کوئی تم سے سیکھے …… مجھے بھی جیت لیا …… بغیر اپنی محبت کو ہرائے ہوئے “ توشی رشک سے بولی۔

”ویسے ایک بات ہے …… تم بڑی ہوگئی ہو“ بلال نے توشی کو دیکھ کر کہا۔

”اچھا ایک بات تو بتاوٴ …… تم نے نیناں کو پہلے کیوں نہیں رکھا تھا…… وجہ کیا تھی“

”توشی جی اُس کی آنکھیں بولتی ہیں ……“ بلال نے جواب دیا۔

 

”اچھا جی …… آنکھوں کی زبان پڑھ لیتے ہیں …… آپ …… اُس دن میری آنکھوں میں کیا پڑھ رہے تھے“ توشی نے شرارتی انداز میں پوچھا۔ 

”تمہاری آنکھیں تو معصوم ہیں …… اُن میں سچائی ہے …… مکاری نہیں ……“

”ڈاکٹر بٹ کی آنکھوں میں کیا پڑھا تم نے ؟“ توشی نے جلدی سے سوال کیا۔

”کیوں …… میں سمجھا نہیں …… “بلال نے پوچھا۔

 

”اُس نے مجھے پروپوز کیا ہے“ توشی گردن جھکائے بولی بلال خاموش رہا۔

”میں نے تم سے مشورہ مانگا ہے اور تم بُت بنے کھڑے ہو“ توشی نے کہا۔

”ڈاکٹر بٹ اپنی والدہ کو رشتے کے لیے بھیجنا چاہتا ہے۔“

”مشورہ اپنے دل سے کرو اور فیصلہ دماغ سے …… اُس کے بعد اپنی پسند گھر والوں کو بتادو اور حتمی فیصلہ ماموں اور ممانی پر چھوڑ دو ……“

بلال نے اپنا نقطہ نظر بتادیا تھا۔

 

 

###

بلال کے آفس میں نوین کا آج پہلا دن تھا۔ نوین سانولی سلونی رنگت والی لڑکی تھی جوکہ کالی چادر سے حجاب کرتی تھی۔ صرف اُس کی آنکھیں نظر آتی تھیں۔ نوین عرف نیناں زبان سے کم اور آنکھوں سے زیادہ بات کرتی۔

بلال کو نہ تو اُس کے پردے پر اعتراض تھا۔ اور نہ ہی اُس کے دیکھنے پر کھا جانے والی نظروں کے ساتھ وہ اس لیے بلال جب بھی عورتوں سے بات کرتا تو وہ اُن کی طرف بہت کم دیکھتا تھا۔

 

آج پہلے دن اُن کے درمیان بہت کم بات چیت ہوئی تھی۔

نیناں کی نسبت فوزیہ باتونی لڑکی تھی۔ وہ بلال سے خود باتیں کرتی رہتی اور بلال اُس کی باتوں کا جواب دیتا رہتا یا پھر صرف مسکرانے پر اکتفا کرتا۔ 

###

”بیٹا آپ کو اِس لیے تکلیف دی کہ فوزیہ نے لیاقت علی سے شادی کرنے سے انکار کردیا ہے“

فوزیہ کی ماں خالہ ثریا نے بلال کو دیکھتے ہی کہہ ڈالا جو کہ گھر کے صحن میں ہی تھا اور فوزیہ کے کمرے میں جانے لگا تھا۔

 

خالہ نصرت لیاقت کی ماں نے گھر کا دروازہ کھولا تھا مگر وہ خاموش رہیں۔ بلال نے نظریں جھکائے اُن کی ساری بات سُنی اور خاموش رہا۔

”سر …… آپ …… یہاں ……“ فوزیہ حیرانی سے پوچھ رہی تھی۔

”واپس چلا جاوٴ …… اگر فوزیہ جی آپ کو اچھا نہیں لگا تو ……“

”نہیں …… نہیں سر …… میرا وہ مطلب ہرگز نہیں تھا …… میں نے تو ایسے ہی کہہ دیا قسم سے …… سر …… قسم سے سچ “ فوزیہ نے اچھی خاصی صفائی پیش کی۔

 

 

بلال کرسی لے کر بیٹھ گیا فوزیہ کے بالکل سامنے، فوزیہ اپنے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ بلال نے فوزیہ کے چہرے کا جائزہ لیا۔

”فوزیہ جی … کیسی طبیعت ہے ……آپ کی ……“ بلال نے پوچھا فوزیہ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

”سر …… قسم سے …… آپ سب کچھ دیکھ کر …… ایویں پوچھ رہے ہیں…… میں ٹھیک ہوں “

”تو پھر کل سے آفس آجاوٴ ……“ بلال نے سیدھا حکم دے دیا۔

 

”آفس کل سے …… مگر وہ …… میں نے آپ کو بتایا تو تھا۔ “ فوزیہ سوچ سوچ کر بولی۔

”ٹھیک ہے جب لیاقت علی آئے گا……تو مت آنا آفس“

”سر میں نے لیاقت کو آنے سے روک دیا ہے…… میں نے لیاقت کو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ میں اس سے شادی نہیں کروں گی……کبھی نہیں……“

فوزیہ سنجیدگی سے بولی۔

”ٹھیک ہے …… مت کرو شادی …… میں تو آفس آنے کی بات کہہ رہا ہوں۔

 

“ بلال نے سپاٹ انداز میں جواب دیا۔ فوزیہ کے چہرے پر حیرانی واضح تھی۔ 

”آپ یہاں اس لیے آئے ہیں …… میں تو سمجھی تھی …… آپ کو امی نے بلایا ہے …… مجھے شادی کے لیے رضا مند کرنے کے لیے ……“

”مجھے کیا ضرورت پڑی ہے …… تمہیں شادی کے لیے رضامند کروں …… یہ تمہارا پرسنل میٹر ہے “ بلال نے بغیر تاثر کے کہا

”سر …… قسم سے …… مجھے نوکری بھی نہیں کرنی ہے “ فوزیہ کھوئی ہوئی بولی جیسے سوچ کچھ اور رہی ہو، کہہ کچھ رہی ہو دور سے امارات کے صحراسے ۔

 

”میں تو تمہیں اپنا دوست سمجھتا تھا…… خیر تم نے مجھے بھی چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو تمہاری مرضی “ بلال یہ سب کچھ بول کر کرسی سے اُٹھا جانے کے لیے۔

”اچھا …… فوزیہ جی میں چلتا ہوں۔“

”سر …… رکیں …… چائے تو پی کر جائیں ……“ فوزیہ عجلت میں بولی۔

خالہ نصرت چائے کی ٹرے لیے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ بلال واپس کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔

 

خالہ نصرت چائے لکڑی کے اسٹول پررکھ کر کمرے سے واپس چلی جاتی ہے۔

”سر …… آپ نے تو میری جگہ …… کسی اور کو رکھ لیا ہے “ فوزیہ خفگی سے بولی۔

”رکھا ہے ایک لڑکی کو …… مگر تمہاری جگہ پر نہیں …… تمہاری جگہ کوئی دوسری لڑکی کبھی نہیں…… “ بلال چائے پینے میں مصروف تھا اور بالکل خاموش تھا۔ 

”سر آپ …… چُپ کیوں …… کیا مجھ سے ناراض ہیں “ فوزیہ فکر مندی سے بولی۔

 

”ناراض تو بالکل نہیں …… مگر میں سوچ رہا تھا …… ایک دوست کی جگہ اگر کوئی دوسرا نہیں لے سکتا …… تو محبوب کی جگہ …… کوئی کیسے …… خیر تمہارا نجی معاملہ ہے …… مجھے کیا کنسرن“

بلال فوزیہ کی طرف بغیر دیکھے بے فکری سے بولا۔

”مجھے لیاقت سے بدلہ لینا ہے …… اپنی بے عزتی …… اور اُس کی بے وفائی کا ……“

فوزیہ غصے سے چیخی بلال اپنی جگہ سے اُٹھا اور جاتے ہوئے فوزیہ کی طرف پشت کرکے رُک گیا، چند لمحے بعد بولا۔

 

”من کے میت کو مات نہیں دیتے“

بلال وہاں سے جاچکا تھا۔ گھر کے برآمدے میں فوزیہ کی ماں اور خالہ نصرت کھڑی ہوئیں سب کچھ سُن رہیں تھیں کیونکہ فوزیہ کے کمرے کا دروازہ کُھلا ہوا تھا۔ 

بلال کو دیکھ کر وہ دونوں اُس کے سامنے کھڑی ہوگئیں۔ بلال نے اپنی شہادت کی اُنگلی اپنے ہونٹوں پر رکھی اور اُنہیں چُپ رہنے کو کہا اور آنکھوں سے تسلی دی اور وہاں سے چلا گیا۔

فوزیہ گُم سم اپنے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اور اُس کے کانوں میں بلال کے الفاظ گونج رہے تھے۔ 

”من کے میت کو مات نہیں دیتے…… من کے میت کو مات نہیں دیتے ……“

###

اگلے دن بلال کے آفس میں پہنچنے سے پہلے ہی فوزیہ وہاں پہنچ چکی تھی اور اپنی جگہ پر بیٹھ کر کام میں مصروف تھی اُس دن بلال فوزیہ کے گھر سے نکل کر سیدھا نیناں کے گھر گیا اور اُسے باہر بُلا کر کہا ” آپ کا ……نوین جی …… الگ آفس تیار کروادیا ہے …… کل سے آپ وہاں بیٹھیں گی … کل صبح آفس بوائے آپ کو بتادے گا۔“

فوزیہ کی جگہ خالی تھی اُس کے آنے سے پہلے وہ آئی اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی۔

 

 

بلال کے الفاظ نے پھر اُس کے دماغ کے دروازوں پر دستک دی۔

”تمہاری جگہ کوئی دوسری …… کبھی نہیں ……“

بلال آتا ہے فوزیہ اُسے دیکھ کر سلام کرتی ہے، اور ایک فائل ٹیبل پر اُس کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ وہ کافی دنوں بعد آفس آئی تھی، مگر اُس نے سلسلہ وہاں سے جوڑا جہاں سے وقفہ آیا تھا، وہ ایسے بی ہیو کررہی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو اِن سب دنوں میں بلال نے بھی اُس سے کوئی دوسری بات نہیں کی۔

 

 

 

سوائے آفس سے متعلقہ باتوں کے، بلال ظہر کی نماز پڑھ کر واپس آتا ہے تو اسکول میں چھٹی ہوچکی تھی مگر فوزیہ آفس ہی میں تھی۔

”سر آپ کے کہنے پر میں آفس آگئی ہوں …… “فوزیہ نے وال کلاک کی طرف دیکھا اور ایک نظر بلال کی طرف دیکھا ”سر مجھے یاد ہے …… گھر کی باتیں …… گھر پر …… آفس میں صرف کام، اس لیے صبح سے میں نے کوئی بات بھی نہیں کی …… مگر اب تو آفس کا ٹائم ختم ہوچکا ہے“

”بڑی نوازش آپ کی …… اِن سب مہربانیوں کے لیے …… “ بلال نے فوزیہ کو مسکا لگایا۔

 

”لیکن سر …… میں لیاقت سے شادی نہیں کروں گی …… وہ بھی ایک نمبر کا ڈھیٹ ہے …… اتنی بے عزتی کروانے کے بعد بھی معافیاں مانگ رہا ہے مجھ سے …… “

فوزیہ نے فخر سے گردن تن کر کہا۔

”فوزیہ جی …… بیٹھ جاوٴ …… “ بلال نے اُسے اپنے سامنے صوفے پر بیٹھنے کو کہا۔ فوزیہ اُس کے سامنے بیٹھ گئی۔

”پہلی بات تو یہ میں نے آپ کو نہیں کہا کہ لیاقت سے شادی کرلو اگر آپ کا فیصلہ ہے تو ٹھیک ہے …… میں آپ کے ساتھ ہوں …… دوست اگر غلطی کرے تو اُس کا ساتھ تو نہیں چھوڑ سکتے۔

 

ہاں اُسے مشورہ دے سکتے ہیں“

”تو سر …… مشورہ دیں مجھے …… میں کیا کروں “ فوزیہ یکایک بُول اُٹھی۔

”فوزیہ جی …… مشورہ فیصلہ کرنے سے پہلے کرتے ہیں…… فیصلہ کرنے کے بعد نہیں …… اور آپ کا فیصلہ تو اٹل ہے ناں “ بلال نے فوزیہ کی طرف دیکھ کر پوچھا مگر فوزیہ خاموش تھی اُس نے کوئی جواب نہیں دیا وہ گردن جھکائے اپنی منگنی کی انگوٹھی کو کُھر چ رہی تھی۔

 

”اِسے اُتار کر پھینک دو …… جب شادی ہی نہیں کرنی …… تو انگوٹھی کیوں پہنی ہے۔“

بلال نے فوزیہ کو دیکھ کر کہا یہ سُن کر اُس کی آنکھوں سے آنسو نکل کر گرنے لگے ایک آنسو منگنی کی انگوٹھی پر بھی گرا مگر فوزیہ خاموش تھی۔ بلال اپنی جگہ سے اُٹھا اور فوزیہ کے پاس آکر کھڑا ہوگیا اور اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولا۔

”انسان غلطی کرتا ہے …… اچھا انسان وہ ہے …… جو غلطی مان لے اور اُس پر شرمندہ ہو اُس نے تو صرف غلطی کی تھی …… مگر تم تو زیادتی کررہی ہو اُس کے ساتھ …… “

”سر …… اگر یہ غلطی مجھ سے ہوجاتی …… تو کیا لیاقت مجھے معاف کردیتا …… “

فوزیہ نے سرخ آنکھوں سے بلال کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

 

”چھوڑیں سر …… میں آپ سے پوچھتی ہوں اگر نوشی کوئی ایسی غلطی کرے تو کیا آپ اُسے معاف کردیں گے۔“

بلال اُس کے سامنے بیٹھ گیا۔

”معاف کرنا اللہ تبارک تعالیٰ کی سنت ہے …… اور میں بھی معاف کردیتا …… لیاقت علی کو آنے دو اور اُس کو دل سے معاف کردو …… میں تو یہ مشورہ دوں گا“

”چلو اُٹھو میں تمہیں ڈراپ کردوں۔ اور یہ مینا کماری کی طرح ایکٹنگ بند کرو “

بلال کی بات سُن کر فوزیہ کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔

 

بالکل اُسی طرح جیسے سخت تیز دھوپ میں اچانک ایک بدلی برسنے لگتی ہے۔

###

”یار مزہ آگیا کھانے کا …… “ طارق رامے نے کہا

”واقعی …… بہت اچھا کھانا تھا۔“ اعجاز جنجوعہ نے تائید کی۔

بلال خاموش تھا، یہ ہفتے کی رات تھی۔ وہ اپنے پروگرام کے مطابق اکٹھے ہوئے تھے۔ شوکت خانم کینسر ہاسپٹل کے قریب ایک مشہور ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے جوہر ٹاوٴن میں۔

 

”کل سنڈے ہے …… ہیڈ بلوکی چلتے ہیں …… مچھلی کھانے کے لیے“ اعجاز جنجوعہ بولا ۔

”بھابھی سے پوچھ لو پہلے …… بعد میں لائن حاضر کردے گی“ طارق رامے نے اعجاز جنجوعہ کو بات لگائی ”ویسے میری سمجھ سے باہر ہے ۔ تم بھابھی سے اتنا ڈرتے کیوں ہو…… “

”آپ سے کم بات نہیں کرتی…… میرا خیال رکھتی ہے …… کھانے پینے کا…… کپڑوں کا …… میری عزت کرتی …… بہت محبت کرتی ہے مجھ سے …… “

اعجاز جنجوعہ نے فرح بھابھی کی شان میں تعریفی کلمات کہے۔

 

”جب میں چھوٹا تھا تو قربانی کے بکرے سے بڑا پیار کرتا تھا۔ اُسے رنگ لگانا …… اُس کے کھانے پینے کا خیال رکھنا …… بکرے سے محبت کرنا …… اِن سب باتوں کے باوجود اُسے عید والے دن مجھ سے جدا کرکے …… قربان کردیتے…… میرے اباجی “

طارق رامے نے بھولی صورت بناکر کہا

”جنجوعہ تو بھی …… قربانی کے بکرے کی طرح ہے …… آپ سے کم بات نہیں کرتی …… “

تجھ رنڈوے کو کیا معلوم …… شادی کے بعد تو اصل زندگی شروع ہوتی ہے اعجاز جنجوعہ نے جوابی حملہ کیا۔

 

”رنڈوا نہیں ہوں میں …… میں تو ابھی کنوارہ ہوں “طارق رامے مسکراتے ہوئے بولا۔

ویٹر اُن کے سامنے پشاوری قہوہ رکھتا ہے بلال دونوں کو قہوہ ڈال کر دیتا ہے۔

”بلال تم کیوں خاموش ہو…… “اعجاز جنجوعہ نے پوچھا۔

”جنجوعہ تمہاری تو مت ماری گئی ہے …… پہلے کون سا بلال بولتا ہے …… وہ تو صرف ہم دونوں کی بکواس سنتا رہتا ہے …… “طارق رامے نے قہوہ کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا 

”چند دن پہلے تمہیں ماڈل ٹاوٴن کے قبرستان میں جاتے ہوئے دیکھا تھا۔

 

اعجاز جنجوعہ نے بلال کو دیکھ کر کہا

”ہاں …… وہ …… میں …… بابا اشفاق احمد صاحب کی قبر پر دُعا کے لیے گیا تھا…… “

بلال نے جواب دیا ”تمہارے رشتے میں سے کوئی لگتے ہیں“ طارق رامے نے پوچھا۔

”رشتے دار تو نہیں ہیں …… ہاں البتہ محبت کا رشتہ ضرور ہے اُن کے ساتھ …… “

”ویسے یہ اشفاق احمد ہے کون؟“ اعجاز ٹھیکیدار بولا حیرت سے طارق رامے کی طرف دیکھ کر، طارق رامے کو بھی معلوم نہیں تھا۔

 

بابا اشفاق احمد صاحب بہت بڑے ادیب اور دانشور تھے“ بلال عقیدت سے بولا۔

”آپ کا تعلق دینہ جہلم سے ہے ناں رامے صاحب …… گلزار صاحب کا گھر تو دیکھا ہوگا آپ نے……؟ “

”ہاں کئی بار …… ہماری گلی سے اگلی گلی میں تو ہے …… میں تو اُس کے ٹاوٴن شپ والے گھر بھی آتا جاتا ہوں …… جنجوعہ وہی کالا موٹا گلزار ٹھیکیدار…… ابھی دو مہینے پہلے تو اُس کا واپڈا ٹاوٴن والا مکان بیچا ہے …… میں نے “

طارق رامے نے جواب دیا۔

 

بلال اپنی بے وقوفی پر مسکرایا، دل ہی دل میں جو اپنے ملک کے ادیب اور دانشور کو نہیں جانتے انہیں انڈین رائٹر اور شاعر کی کیا خبر ہوگی۔

”ہیڈ بلوکی کا پروگرام تو بیچ میں ہی رہ گیا…… “ اعجاز جنجوعہ پھر سے مچھلی کھانے کا پروگرام بنانا چاہتا تھا۔

”وہ تو ٹھیک ہے کل چلیں گے۔ سنڈے ہے سب کی چھٹی بھی ہے …… ہاں یاد آیا بلال تمہارے پلاٹ کی ٹرانسفرڈیٹ مل گئی ہے پیر والے دن اور پیسوں کا بندوبست تو ہے ناں …… “

طارق نے کہا

”جی رامے صاحب پیسوں کا بندوبست ہے۔

 

کل میں آپ کے ساتھ نہیں جاسکوں گا …… میں مصروف ہوں …… “بلال نے جواب دیا۔

”یار تم بھی عجیب آدمی ہو۔ مجھے سنڈے کے دن چھٹی کرنے کا کہتے ہو۔ بیوی بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کی تلقین کرتے ہو اور خود ہر سنڈے مصروف ہوتے ہو …… “

اعجاز جنجوعہ خفگی سے بولا

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page