top of page

شکیل احمد چوہان - بلال صاحب

”بلال صاحب جنجوعہ بات تو ٹھیک کررہا ہے۔ میں بھی لالچ کرکے سنڈے کو بھی دفتر کھلواتا تھا۔ اب میں بھی سنڈے کو چھٹی کرتا ہوں۔ دینہ بھی مہینے میں دو چکر لگاتا ہوں، ماں سے ملنے کے لیے اور ہر روز صبح ماں کو فون کرتا ہوں …… اگر تم مجھے نہ سمجھاتے تو شاید میں ایسا کبھی نہ کرتا اب تمہارے کہنے پر میں نے شادی کی حامی بھی بھرلی ہے“طارق رامے نے بلال کے ملنے کے بعد اپنے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کیا ”اور بلال صاحب تم ہمارے لیے اپنی مصروفیت نہیں ختم کرسکتے…… “

”کیا بولا تو نے رامے شادی کی حامی بھری ہے“ اعجاز جنجوعہ کے کان کھڑے ہوگئے طارق رامے کی بات سُن کر ”یہ تو ویسا ہی ہے جیسے پرانے مکان کو خرید کر اُس کی مرمت کروا کر اُسے نئے سرے سے رنگ روغن کرکے نیا بناکر بیچا جائے۔

 

 

 

اپنی عمر دیکھ اور اپنی حرکتیں دیکھ چالیس سال کا بڈھا کھوسٹ ہے“ اعجاز جنجوعہ کے پیلے دانت نکلے۔

”جنجوعہ شرم کر تجھ سے چھوٹا ہوں عمر میں میری عمر تو صرف 35 سال ہے اور تو 40 بتا رہا ہے“ طارق رامے نے اپنی صفائی دی۔

”اپنا پیٹ دیکھا ہے تو نے 35 سال والے نوجوان …… “اعجاز جنجوعہ نے طنز کیا۔

بلال اُن دونوں کی جگتوں سے لطف اندوز ہورہا تھا اور خاموش تھا۔

 

”رامے صاحب بڑی مہربانی آپ نے میری کہی ہوئی باتوں پر عمل کیا۔ ایک گزارش اور مان لیں آپ پلیز ایکسرسائز بھی شروع کردیں۔ اپنے آپ سے بھی محبت کریں، اور اپنی صحت کا بھی خیال رکھیں“ بلال نے طارق رامے کی طرف دیکھ کر ریکوسٹ کی۔

”کل کے پروگرام کی معذرت میں نہیں جاسکوں گا …… “

”ویسے تم ہر سنڈے کرتے کیا ہو…… “ اعجاز جنجوعہ کو تشویش ہوئی۔

 

”وقت آنے پر بتاوٴں گا۔ مجھے اجازت دیں میں چلتا ہوں…… “بلال یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا ”کیا کرتا ہے یہ ہر اتوار کو جو اِس کے پاس وقت نہیں ہوتا “اعجاز جنجوعہ اپنے چشمے کے اوپر سے بلال کو جاتے ہوئے دیکھ کر بولا۔

”جنجوعہ ایسے مت دیکھ پولیس والوں کی طرح شک کی آنکھ سے …… وہ لڑکا جنتی روح ہے …… کوئی عیب نہیں ہے اُس میں “طارق رامے بولا جنجوعہ کی طرف دیکھ کر۔

 

”معلوم ہے اسی لیے تو میں یہ چاہتا ہوں کہ میری بڑی سالی کی بیٹی ہے ماہ رخ اُس کے ساتھ بلال کا رشتہ ہوجائے اور تمہاری بھابھی کی بھی بڑی خواہش ہے …… “

”مگر اس کی تومنگنی بچپن سے طے ہے “طارق رامے نے اطلاع دی جنجوعہ کو

”مجھے معلوم ہے …… مگر اس کی منگیتر یہ شادی نہیں کرنا چاہتی“ اعجاز جنجوعہ بولا 

”تمہیں کیسے پتہ ہے اِن سب باتوں کا “ طارق رامے نے پوچھا

”تمہاری بھابھی بتا رہی تھی اُسے فوزیہ نے بتایا اور فوزیہ کو اُس لڑکی کی بہن نے کہا تھا“ اعجاز جنجوعہ نے کڑی کے ساتھ کڑی ملادی۔

 

”یا تو بلال کی منگیتر اندھی ہے یا پھر پاگل“ طارق رامے نے تبصرہ کیا۔

###

”اندھے اور پاگل ہیں وہ لوگ جو اپنے ملک کے بڑے لوگوں کی عزت نہیں کرتے اور اُن کا مذاق اُڑاتے ہیں“ بابا جمعہ مخاطب تھے عادل عقیل ہاشمی سے، اتوار کی چھٹی کی وجہ سے عادل صبح ہی بابا جمعہ کے پاس آگیا مگر بلال نہیں تھا۔

”بڑوں سے کیا مراد آپ کی …… “ عادل عقیل نے اپنا سوالوں والا فولڈر کھول لیا۔

 

”بیٹا ہر ملک کے کچھ بڑے لوگ ہوتے ہیں، جو اپنے ملک کے لوگوں کی تربیت کرتے ہیں جیسے علماکرام، دانشور، ادیب، شاعر لکھاری، صحافی، اُستاد، یہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر درس گاہ کا درجہ رکھتے ہیں“

”لیکن چند دن پہلے تو آپ ایک کالم نویس کی کمائی کو حرام قرار دے رہے تھے“ عادل نے یاد دہانی کرائی بابا جمعہ کو۔

”بیٹا جس طرح جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے، اِس طرح جھوٹ لکھنا بھی گناہِ کبیرہ ہی ہے اور اُس سے حاصل شدہ کمائی بھی حرام ہی ہوگی“

”سچ جھوٹ کا فیصلہ کون کرے گا؟ “ عادل عقیل نے پوچھا۔

 

”حقیقت کرتی ہے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ابھی صبح کے دس بجے ہیں، یہ حقیقت ہے اورتم رات کے 10 بجے لکھ دو یہ جھوٹ ہے“

”بابا جی آپ کے معیار پر تو پھر کوئی بھی پورا نہیں اُترسکتا سچ اور جھوٹ کے معاملے میں…… “

”بیٹا …… میں کون ہوتا ہوں معیار بنانے والا …… گناہ گار بندہ ہوں ،معیار تو اللہ کے محبوب نے بتایا زندگی کے ہر معاملے میں …… ہرشعبے میں …… صرف ایک جھوٹ چھوڑنے سے بہت سارے گناہ چھوٹ جاتے ہیں“

”میں نے تو اتنا سچا بندہ کبھی نہیں دیکھا …… بابا جی …… جو اِس معیار پر پورا اُترتا ہو…… وہ بھی اِس دور میں“ عادل عقیل نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔

 

”شرط معیار پر پورا اُترتا نہیں ہے، شرط کوشش کی ہے اور نیت کی ہے کہ آپ صاف نیت کے ساتھ کتنی کوشش کرتے ہیں سچ بولنے کی اب بلال ہی کو دیکھ لو ہمیشہ سچ بولتا ہے اگر اُسے کچھ نہیں بتانا ہوتا تو کہہ دیتا ہے، میں بتانا نہیں چاہتا اگر جھوٹ بولے تو اللہ سے بھی معافی مانگتا ہے اور اُس کے بندے سے معذرت کرلیتا ہے…… عادل بیٹا معیار 100بٹا 100 نہیں بلکہ پاس اور فیل ہے اور پاس وہی ہوتا ہے جو پاس ہونے کی کوشش کرتا ہے“

”اوئے بابا بوٹ پالش کردے“ ایک موٹا آدمی اپنے کالے بوٹ آگے رکھتے ہوئے بولا۔

 

بابا جمعہ نے اُس کے بوٹ پکڑے اور پالش شروع کردی۔ عادل عقیل نے اُسے قہر آلود نگاہوں سے دیکھا اور اُسے اُس آدمی کے انداز اور گفتگو کے اسٹائل پر غصہ آرہا تھا مگر وہ خاموش رہا۔ بابا جمعہ نے جوتے پالش کرکے اُس کے سامنے رکھ دیئے۔ اُس موٹے آدمی نے چند روپے بابا جمعہ کے سامنے پھینکے اور وہاں سے چلا گیا۔

”بابا جی آپ بھی کمال کرتے ہیں وہ اتنی بدتمیزی سے بولا اور آپ اتنے اخلاق سے بات کررہے تھے اُس موٹے کالے انجن کے ساتھ“ عادل عقیل نے کہا

”جو عزت نہ دے اُس کی بھی عزت کرو اور جو توڑے اُس کے ساتھ جوڑو، جو تمہیں اسلام نہ کریں اُنہیں لازمی اسلام کرو“ بابا جمعہ نے عادل کو سمجھایا۔

 

”ویسے آپ کو یہ موچی کا کام کرنے کی کیا ضرورت پڑی ہے۔ اکیلے آدمی ہیں آپ کوئی دوسرا کام کیوں نہیں کرلیتے“ عادل عقیل نے مشورہ دیا دراصل اُسے اُس موٹے آدمی کے رویے کی وجہ سے یہ خیال آیا کیونکہ اُس آدمی نے بڑی بداخلاقی کے ساتھ بابا جمعہ سے بات کی تھی۔ جوکہ عادل کو بُرا لگا تھا۔

”بیٹا میں بھی اپنی جوانی میں تمہارے جیسا ہی تھا۔

 

چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصے میں آجاتا تھا۔ غصہ عقل کو کھا جاتا ہے اور عقل اپنے علم پر فخر کرتی ہے، اور علم جتنا چاہتا ہے، عمل سے مگر یاد رکھو علم اور عمل ایک مومن کے دو بازو ہیں …… اور مومن تب کامیاب ہوتا ہے جب اُس کے دونوں بازوں سلامت ہوں …… اور اُن میں مقابلہ نہ ہو۔ غرور صرف میرے اللہ کو جچتا ہے…… ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔

 

دن کی ضد رات۔ خوشی کی ضد غمی۔ کڑوے کی ضد میٹھا۔ سفید کی ضد کالا اور غرور کی ضد عاجزی اور یہی مومن کی شان ہے کہ وہ عاجز رہے …… علم میں بھی عاجزی ہو اور عمل میں بھی عاجزی ہو …… اور یہ موچی کا کام عاجزی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے“

”کیا ہم کو عاجزی حاصل کرنے کے لیے موچی کا کام کرنا پڑے گا …… میرا مطلب ہے مجھے اور بلال کو “ عادل عقیل نے نیا سوال پوچھ لیا۔

 

بابا جمعہ عادل کی بات سُن کرمسکرائے

”چائے کا فون کردو اقبال کو …… “ بابا جمعہ نے کہا۔

”آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا …… بابا جی …… “عادل عقیل نے فون پر اقبال کا نمبر ملاتے ہوئے کہا ، اور چائے کے لیے اقبال کو کہہ دیا اور بابا جمعہ کی طرف متوجہ ہوگیا۔

”عاجزی ہونی چاہیے مسلمان میں طریقہ کوئی سا بھی ہوسکتا ہے عاجزی پانے کا …… “

بابا جمعہ بولے عادل کی طرف دیکھ کر

”میں کون سا طریقہ اپناوٴں عاجزی حاصل کرنے کا …… “ عادل عقیل نے پوچھا۔

 

”عادل بیٹا مجھے تو اُس کام پر بابا سلانی نے لگایا تھا۔ اللہ تبارک تعالیٰ اُن کے درجات بلند کرے تم یہ بات بلال سے پوچھنا میں نے اُسے ہمیشہ غرور اور تکبر سے دور دیکھا ہے“

”بلال سے …… “ عادل عقیل کو بابا جمعہ کی بات نے حیرت میں ڈال دیا

”بلال سے …… “ وہ پھر سے بولا بابا جمعہ کی طرف دیکھ کر

”میں سمجھا نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں“ عادل عقیل حیرت سے بولا

”بلال شاعر مشرق حضرت اقبال کا جوان ہے۔

 

جو آج کے پیروں سے بہت آگے ہے۔ بلکہ اُستاد ہے پیروں کا اور میں تو فقیر ہوں میرا بھی اُستاد ہے بلال …… میں نے اُس بچے سے بہت کچھ سیکھا ہے“

”میری سمجھ سے باہر ہے آپ کی منطق …… آپ بلال کو ولی پیر یا درویش کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔“ عادل عقیل کو بابا جمعہ کے نقطہ نظر سے شدید اختلاف تھا۔

”نہیں بیٹا ایسا کچھ نہیں ہے ہم دونوں مسلمان ہیں اور وہ مومن ہے۔ آج کا مومن۔ میں صرف اُسے آج کا مومن سمجھتا ہوں…… اور بس “ بابا جمعہ مسکراکر بولے ”اور مسلمان کو جس بات کی سمجھ نہ آئے اُسے مومن سے پوچھ لینی چاہیے۔“

”آپ جسے مومن کہہ رہے ہیں …… مجھے تو وہ بندہ مریض محبت لگتا ہے“ عادل عقیل نے دو ٹوک بات کردی ”25، 26 سال کی عمر میں 50 سال والی سوچ کا مالک ہے …… اُس کی زندگی بلیک اینڈ وائیٹ ہے۔

 

رنگوں سے خالی نہ تو وہ پارٹیز میں جاتا ہے اور نہ ہی شادیوں میں، دوست اُس کا کوئی ہے نہیں“

”عادل بیٹا وہ محبت کا مریض نہیں بلکہ مسیحا ہے محبت کا…… وہ دریائے نیل کی طرح ہے۔ دنیا کے تقریباً سارے دریا شمال سے جنوب کی طرف بہتے ہیں۔ دریائے نیل جنوب سے شمال کی طرف بہتا ہے“

”مطلب یہ کہ اُلٹا ہے بلال …… “ عادل عقیل عجلت میں بولا جیسے اُس کی من پسند بات کی ہو بابا جمعہ نے، بابا جمعہ اُس کی بات سُن کر مسکرائے۔

 

 

 

”نہ تو دریائے نیل اُلٹا بہتا ہے اور نہ ہی بلال اُلٹا ہے …… وہ الگ ہے …… وہ گہرا ہے، وہ خاموش ہے …… وہ حکم ماننے والا ہے …… اور یہ ساری خوبیاں مومن ہی کی ہیں“

اقبال چائے لے کر آچکا تھا، اُس نے چائے عادل کے سامنے رکھ دی، عادل نے چائے ڈال کر بابا جمعہ کو دی اور کسی نئے سوال کی تلاش میں چائے پیتے ہوئے کھو گیا۔عادل نے چائے ختم کی اور اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھا ظہر کی اذان ہونے والی تھی۔

 

 ”اچھا بابا جی مجھے اجازت دیں“ عادل نے اذان کی آواز سُنی اور اجازت مانگ لی

”عادل بیٹا رُکو …… “بابا جمعہ نے کہا اذان ہورہی تھی اذان ختم ہونے کے بعد بابا جمعہ بولے دُوبارہ سے ”تمہیں پتہ ہے کہ تم میں اور بلال میں کیا فرق ہے“ عادل نے نفی میں سر ہلادیا۔

”عادل بیٹا تم صرف اللہ کو مانتے ہو اور بلال صرف اللہ اور اُس کے محبوب ﷺکی مانتا ہے تم سوال تلاش کرنے میں دماغ لڑاتے ہو اور وہ جواب تلاش کرتا ہے…… 

تم صرف بولتے ہو …… اور وہ صرف سنتا ہے…… 

تم بے چین ہو …… اور وہ پُرسکون ہے…… 

تم محبت مانگتے ہو …… وہ محبت دیتا ہے …… 

تم حق مانگتے ہو …… اور وہ حق دیتا ہے …… 

تم اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنا چاہتے ہو …… وہ چھوٹا بن کر بھی عظیم بن جاتا ہے۔

 

تمہارے پاس جو کچھ ہے تمہارے باپ کی کمائی ہوئی دولت سے ہے …… اُس نے سب کچھ خود کمایا ہے عزت …… نام …… روپیہ …… اور عاجزی …… اور یہ عاجزی اللہ کے سامنے جھکنے سے نصیب ہوتی ہے، اُس کے بلانے سے بھاگنے پر نہیں…… وہ کہتا ہے آوٴ کامیابی کی طرف مگر ہم ناکامی کی طرف جاتے ہیں“

عادل عقیل منہ کھولے بیٹھا ہوا تھا۔ وہ ہمیشہ دوٹوک بات کرتا مگر آج بابا جمعہ کی حقیقت پر مبنی باتوں نے اُس کے طوطے اُڑادیئے تھے۔

 

”اگر میری کوئی بات بُری لگی ہو تو میں معذرت چاہتا ہوں“ بابا جمعہ نے کہا اِس کے بعد اُس کا ہاتھ پکڑا اور مسجد کی طرف لے گئے۔

”مسلمان سے مومن کی طرف پہلا قدم اُٹھاوٴ اور وضو کرو اور اللہ کے حضور عاجزی کا پہلا سجدہ کرو، عاجزی والا سجدہ کرو“ بابا جمعہ نے عادل عقیل کے سر پر ہاتھ پھیرا محبت سے اور اُس کی پیشانی کا بُوسہ لیا۔

 

نماز پڑھ کر عادل مسجد سے نکلا تو وہ خاموش تھا۔ بابا جمعہ آگئے تھے اور وہ پیچھے تھا۔ وہ خاموشی سے اُن کے پیچھے چل رہا تھا۔ بابا جمعہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئے انہوں نے پیسے دیے۔

”روٹیاں لے آوٴ“ بابا جمعہ بولے تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا تو اقبال چائے والا سالن گرم کرکے لے آیا تھا۔ عادل اب بھی خاموش تھا۔ وہ تینوں کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے۔

 

آلو میتھی اور ساتھ پودینے کی چٹنی ایسا ذائقہ عادل کو کبھی نصیب نہیں ہوا تھا۔ عادل عقیل جس کا لنچ دس طرح کے کھانوں سے ہوتا تھا آج ایک موچی اور چائے والے کے ساتھ آلو میتھی اور پودینے کی چٹنی کھارہا تھا وہ بھی نالے کے اوپر بیٹھ کر رستے میں، کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اُس نے بابا جمعہ سے اجازت مانگی اور اپنی گاڑی کی طرف چل دیا۔ سڑک کے دوسری طرف جہاں بلال کی گاڑی کھڑی ہوتی تھی۔

 

وہ گاڑی میں آکر بیٹھ گیا اس دوران میں ایک بچہ اپنا جوتا مرمت کروانے کے لیے بابا جمعہ کے پاس آگیا بابا جمعہ نے اُس کا جوتا مرمت کرنا شروع کردیا۔

عادل عقیل اپنی گاڑی میں بیٹھ کر بابا جمعہ کو دیکھ رہا تھا اور سینٹر والے مرر میں اپنی پیشانی کا جائزہ لے رہا تھا جہاں بابا جمعہ نے شفقت کا بوسہ دیا تھا۔ یہ وہی جگہ تھی جو سجدہ کرتے ہوئے زمین پر لگتی ہے۔

 

اُس کے کانوں میں بابا جمعہ کے میٹھے الفاظ دستک دے رہے تھے اور اُس کے منہ میں آلو میتھی کا ذائقہ تھا۔ اُس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور جاتے ہوئے بابا جمعہ کو عقیدت کاسلام پیش کیا اور وہاں سے چلا گیا۔ 

###

”میں نے جس کو دیکھا پالیا مگر تم نے میری ایگو کو ہرٹ کیا، میرے غرور کو للکارا خیر اب تم میری ہو صرف میری“ طلحہ نقوی نے ڈاکٹر منال نقوی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے فخر سے کہا، وہ دونوں جیل روڈ پر ایک مشہور ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے ۔

 

”کبھی تمہارے ساتھ بھی زندگی میں ایسا ہوا ہے تمہیں کوئی پسند آیا ہو اور اُس نے تمہیں لفٹ نہ کروائی ہو“ طلحہ نقوی نے منال نقوی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔

”زندگی میں صرف ایک بار“ ڈاکٹر منال نے ریسٹورنٹ کے ایک کونے کی طرف دیکھ کر کہا جہاں ایک ٹیبل پر ایک خوبصورت کپل بیٹھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر منال کے گال خوشی سے لال تھے۔

 

”تمہیں کسی نے لفٹ نہ کرائی ہو …… امپاسبل“ طلحہ نقوی حیرت سے بولا ۔

”اچھا ایک بات بتاوٴ میں نے تمہیں Propose کیا تھا، اور تم ایموشنل ہوگئی تھی اور اگلے دن خود ہی ایگری ہوگئی مجھ سے شادی کے لیے “ طلحہ نے پوچھا۔

”میں نے غصہ اِس لیے کیا تھا دو دن پہلے ہی بلال نے مجھے لفٹ نہیں کروائی تھی۔ آپی مجھے ملوانے لے گئیں تھیں اور پھر مان اس لیے گئی کہ تم نے سچ بولا اپنے ماضی کے بارے میں پہلی ہی ملاقات میں اور جب تم نے مجھے Proposeکیا تو تمہاری آنکھوں میں سچائی تھی وہ سچائی جو میں نے بلال کی آنکھوں میں دیکھی تھی۔

 

بلال نے مجھے حقیقت سے ملوادیا میں یہ سمجھتی تھی کسی بھی مرد کو پیچھے لگایا جاسکتا ہے، مگر میں غلط تھی اگر اُس وقت میرے ساتھ وہ یہ رویہ نہ اختیار کرتا تو شاید مجھے تم نہ ملتے اور میں تمہارے حق میں فیصلہ نہ دیتی میں دماغ سے آئیڈیل تلاش کررہی تھی مگر پھر میں نے دل کا حکم مانا اور میرے دل نے تمہیں دیکھ کر کہا یہی ہے وہ جس کی تمہیں تلاش تھی“

منال نے طلحہ کی طرف محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

 

”طلحہ تم سے کہیں زیادہ مجھے تم سے محبت ہے“ طلحہ نے اِردگرد دیکھا۔

”ریسٹورنٹ ہے“ منال کو ہاتھ سے ہلایا ”میں اُس بندے سے ملنا چاہوں گا۔“

”بلال سے …… “منال نقوی نے جلدی سے کہا

”ہاں …… بلال سے …… “طلحہ نقوی نے جواب دیا۔

”چلو پھر اُٹھو …… ابھی ملتے ہیں …… “ منال نقوی نے طلحہ کا ہاتھ پکڑا اور کونے میں لگے ٹیبل کی طرف لے گئی جہاں بلال اور عظمی افگن بیٹھے ہوئے تھے۔

”ہیلو بلال …… “منال نے جاتے ہی کہہ دیا ”ہم یہاں بیٹھ سکتے ہیں“ بلال اُن کو دیکھ کر اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا ”میرے ہسبینڈطلحہ نقوی اور یہ میرا دوست بلال احمد دوست کہہ سکتی ہوں تمہیں“ منال نقوی نے ایک نظر عظمی پر ڈالی اوپر سے نیچے تک ۔

”اچھا یہ ہیں …… وہ …… “ منال نقوی نے عظمی کے چہرے کو غور سے دیکھا۔

”آپ کو کہیں دیکھا ہے …… “ منال نقوی سوچ رہی تھی۔

”منال ہم دونوں کلاس فیلو تھیں کالج میں …… “ عظمی نے منال کی پریشانی دور کی۔

”آپ بیٹھیں کھڑے کیوں ہیں …… “ عظمی نے بیٹھنے کو کہا ،اور چاروں ایک جگہ پر بیٹھ گئے۔

”تم عظمی افگن نیازی ہو …… اومائی گاڈ …… یار تم تو بالکل بدل گئی ہو …… چلو اٹھو گلے لگو …“

منال نقوی اور عظمی افگن گلے ملیں جیسے برسوں بعد ملی ہوں۔

 

”طلحہ یہ عظمی ہماری کلاس کی سب سے لائق سٹوڈنٹ تھی۔ ہر لڑکی اس سے دوستی کرنا چاہتی تھی۔ میں بھی اُن میں شامل تھی مگر یہ تو کسی سے بھی بات نہیں کرتی تھی۔“ منال نے طلحہ کی طرف دیکھ کر ساری داستان سنائی۔

 

 

”اور اکثر لڑکیاں مجھے نفسیاتی مریضہ کہتی تھیں“ عظمی نے یاد دہانی کرائی ”ہاں …… اور میں بھی یہی سمجھتی تھی تمہارے بارے میں مگر تم میں یہ تبدیلی مگر کیسے …… “

عظمی نے مسکرا کر بلال کی طرف دیکھا۔

 

”یہ کریڈٹ بھی بلال کو ہی جاتا ہے“طلحہ مسکراتے ہوئے بولا ”آپ سے مل کر خوشی ہوئی بلال “

منال نے طلحہ کی بات کاٹ دی اور جلدی سے بولی۔

”ماشا اللہ بہت خوبصورت جوڑی ہے تم دونوں کی …… شادی کب ہے …… “

”بہت جلد …… “عظمی نے جلدی سے کہہ دیا۔ بلال نے عظمی کی طرف دیکھا مگر وہ منال کی طرف دیکھ رہی تھی۔

ان سب نے اکٹھے کھانا کھایا اُس ریسٹورنٹ میں مغرب سے کچھ دیر پہلے بلال عظمی کو ڈراپ کرنے کے لیے ماڈل ٹاوٴن پہنچا تو سارے رستے اُن دونوں میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔

 

گاڑی عظمی کے گھر کے باہر کھڑی تھی۔ اُترنے سے پہلے عظمی بولی

 ”آپ نے میری خواہش پوری کردی …… شکریہ …… “ بلال نے اُس کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا جیسے آنکھیں کچھ بول رہی ہوں 

”شکریہ میرے ساتھ لنچ کرنے کا …… “ بلال اُس کی طرف مسلسل دیکھ رہا تھا

 ”Sorry …… نہیں کہوں گی …… کیونکہ میں سیریس ہوں اور آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں …… “ بلال صرف دیکھ رہا تھا۔

 

 ”مجھے سب پتہ ہے نوشی کے بارے میں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا میں آپ کی دوسری بیوی بن کر رہ لوں گی اب بھی تو آپ ہفتے میں ایک بار مجھے ملتے ہو، شادی کے بعد بھی صرف ایک دن ہفتے میں میرے ساتھ باقی پورا ہفتہ آپ نوشی کے ساتھ گزارلو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا …… بلال جتنی محبت آپ نوشی سے کرتے ہو اُس سے کہیں زیادہ میں آپ سے کرتی ہوں “ 

عظمی افگن جذباتی انداز میں بولی

 ”میں آپ کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہوں۔

 

میں پورا ہفتہ سنڈے کا انتظار کرتی ہوں آپ سے ملنے کے لیے میں نے اپنی ڈیوٹی ٹائمنگ چینج کروالیں ہیں۔ تھوڑی دیر گاڑی میں خاموشی رہی جیسے طوفان آنے سے پہلے والی خاموشی۔ بلال گردن جھکائے کچھ سوچ رہا تھا اور عظمی بلال کو دیکھ رہی تھی کہ وہ کیا جواب دیتا ہے۔“

”آپ خاموش کیوں ہیں …… کچھ تو بولیں …… “ عظمی فکر مندی سے بولی۔

”شاید پروفیسر زمان ٹھیک کہتے تھے …… میرا ہی قصور ہوگا …… جو آپ نے میری دوستی کا یہ مطلب لے لیا “ بلال نظریں جھکائے رُک رُک کر بولا ”ورنہ آپ ایسی بات کبھی نہ کرتیں …… “

”میں نے کوئی غلط بات نہیں کی …… میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں …… اور اپنی پسند سے شادی کرنا میرا حق ہے …… اِس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے مجھے آپ سے محبت ہوئی ہے۔

 

شادی کے بعد بھی آپ دوست بن کے رہنا میں آپ کی بیوی بن کر رہوں گی “عظمی اپنے موٴقف پر قائم تھی اُس نے اطمینان سے جواب دیا۔

”میں آپ سے شادی نہیں کرسکتا“ بلال نے بے تاثر لہجے میں کہا۔

”لیکن میں آپ سے ہی شادی کروں گی “ عظمی نے جواب دیا اور غصے سے گاڑی سے اُترگئی۔ گھر کے گیٹ سے اندر جانے سے پہلے اُس نے واپس مڑ کر دیکھا سرخ آنکھوں کے ساتھ آنکھوں میں غصہ زیادہ تھا یا محبت، یہ اندازہ لگانا مشکل تھا۔

 

###

”کیوں اتنے غصے میں ہو …… آخر بتاوٴ تو سہی …… ہوا کیا ہے“ توشی بولی صوفے پر بیٹھے ہوئے نوشی کو دیکھ کر جو کہ غصے سے کمرے میں داخل ہوئی تھی اور توشی اپنے Mobile پر مصروف تھی۔ ڈاکٹر بٹ کے ساتھ WhatsApp پر گپ شپ لگانے میں ۔

”تمہیں اِس سے کیا…… “ نوشی دکھی انداز میں بولی ”آخر میرا تمہارا رشتہ کیا ہے؟“

”یہ لو …… اب رشتہ بھی ختم ہوگیا“ توشی Mobile پر نظریں جمائے آرام سے بول رہی تھی۔

 

 

”تم تو بڑی تعریفیں کرتی پھرتی تھی بلال ایسا ہے بلال ویسا ہے“ نوشی غصے سے بولی۔

”آج دو لڑکیوں اور ایک لڑکے کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہا تھا۔ اُس کے بعد ایک لڑکی کو اُس نے ماڈل ٹاوٴن اُس کے گھر چھوڑا، یہاں بات ختم نہیں ہوئی وہ لڑکی دس منٹ تک اُس کی گاڑی میں بیٹھی رہی اپنے گھر کے باہر …… “

”یہ لو …… نیا شوشہ سنو …… “ توشی نے نوشی کا مذاق اُڑایا۔

 

”میں سچ کہہ رہی ہوں “ نوشی نے توشی کو یقین دلایا اپنی خبر پر۔

”تم …… بلال کا پیچھا کرتی ہو“ توشی کو تشویش ہوئی۔

”نہیں …… وہ …… مجھے کسی نے خبر دی تھی“ نوشی نے عجلت میں جواب دیا۔

” اِس لیے تو میں کہتی ہوں کہ مت کرو، بلال سے شادی تمہارا اور اُس کا کیا جوڑ۔ وہ ایک معمولی اسکول ٹیچر اور تم …… “ توشی نے طنزیہ انداز میں کہا نوشی نے اپنی بہن کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور غصے سے واش روم میں چلی گئی توشی سوچ رہی تھی بلال کن کے ساتھ تھا اور آج سنڈے بھی ہے کہیں یہ اُس نے دل میں سوچا نہیں نہیں بلال ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔

 

نوشی واش روم سے نکل آئی۔

”پاپا آج رات کو آرہے ہیں …… کل ڈاکٹر بٹ اور اُن کی امی رشتے کے لیے آئیں گی، ماما اور شعیب بھائی کو بھی اعتراض نہیں ہے صرف پاپا کی ہاں چاہیے “ توشی مزے سے ساری خبر دے رہی تھی جان بوجھ کر نوشی کو۔

”بہت Selfish ہو اپنے بارے میں سوچتی ہو۔ میں کچھ کہہ رہی ہوں اور تم کچھ جواب دے رہی ہو“نوشی نے توشی سے گلہ کیا۔

 

”کل پاپا آتے ہیں تو میں بات کرتی ہوں کہ نوشی بلال سے شادی نہیں کرنا چاہتی میں تمہارے ساتھ کھڑی ہوں تم فکر مت کرو “ توشی نے پھر اپنی بہن کو تنگ کیا۔

”شادی تو میں بلال ہی سے کروں گی“ نوشی غصے سے بول کر کمرے سے نکل گئی۔

”یہ لو …… …… “توشی نے اسٹائل سے کہا۔

توشی صوفے سے اُٹھی اور ٹیرس کی طرف چل دی۔ عشاء کی نماز کے بعد خلاف توقع بلال اپنے کمرے ہی میں تھا۔

 

عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر یا تو وہ نانی کے کمرے میں ہوتا یا پھر کوئی کتاب لیے بیٹھا ہوتا مگر آج وہ اپنے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔ سیدھا چھت کی طرف منہ کرکے کسی گہری سوچ میں تھا، اُس کا میوزک پلیئر بھی بند تھا۔ بلال کے روم والا ریلنگ ڈور کھلا ہوا تھا۔ توشی کھڑی ہوئی بلال کو واضح دیکھ رہی تھی۔

تھوڑی دیر بعد توشی دو کپ کافی بناکر اُس کے روم کے باہر تھی۔

 

ٹرے اُس کے ہاتھ میں تھی جب وہ Yes کی آواز پر کمرے میں داخل ہوئی تو بلال توشی کو دیکھ کر بیٹھ گیا۔

”کیوں جیجا جی …… کس کے خیالوں میں گم ہیں“ بلال نے اُس کے ہاتھ میں ٹرے دیکھی تو توشی پھر سے بول پڑی”سالی آدھی گھر والی ہوتی ہے اِس لیے سوچا ہمیشہ تم سے کافی پی ہے۔ آج میں بھی اپنے ہاتھوں سے بناکر پلادوں“بلال اُٹھا اور واش روم میں منہ دھونے چلا گیا جب وہ واپس آیا تو توشی نے اُس کا چہرہ غور سے دیکھا جس پر تھکاوٹ نمایاں نظر آرہی تھی۔

 

”تم ٹھیک تو ہو“ توشی فکرمندی سے بولی۔

”ہاں میں ٹھیک ہوں“ بلال نے آہستہ سے کہا توشی نے اُس کے ماتھے کو ہاتھ لگایا تو اُسے پتہ چلا بلال کا جسم تپ رہا تھا بخار کی وجہ سے 

”تمہیں تو تیز بخار ہے“توشی کی ساری شوخی فکر مندی میں تبدیل ہوگئی

” میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں“ اُس نے اپنا موبائل پکڑا فون کرنے کے لیے 

”لاوٴ کافی تو، پتہ نہیں کیا بناکر لائی ہو“بلال بے نیازی سے بولا جیسے اُسے بخار ہوا ہی نہ ہو۔

 

 ”دوائی میں نے لے لی ہے فون مت کرو ڈاکٹر کو …… “

”ویسے آج کل تم ڈاکٹروں سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈتی ہو…… “ بلال نے توشی کی ٹانگ کھینچی ”شٹ اپ بلال“ توشی شرماتے ہوئے بولی اور وارڈ روب سے کمبل نکال کر بلال کے اوپر ڈالا۔

 ” ایک بخار تھا، اور اوپر سے ایسے ہی لیٹے ہوئے تھے“ بلال اپنے بیڈ پر ٹیک لگائے ہوئے بیٹھا تھا، اور کافی پی رہا تھا”کافی کیسی بنی ہے“ توشی نے پوچھا۔

”میٹھی ہے“ بلال نے جواب دیا ”تم کیسے پی لیتے ہو ایک کافی اوپر سے پھیکی“

”بس عادت ہوگئی ہے“ بلال نے جواب دیا۔

”تم نے کچھ کھایا بھی ہے“ توشی نے پوچھا۔

”ہاں …… آج دوستوں کے ساتھ لنچ کیا تھا۔ تین ساڑھے تین بجے“ بلال نے بتایا۔

”دوستوں کے ساتھ …… لنچ اور تم نے …… تمہارے دوست بھی ہیں“ توشی حیرت سے بولی 

”ویسے کون ہیں دوست جن کو میں نہیں جانتی“

”ڈاکٹر منال نقوی اور اُس کا شوہر طلحہ نقوی اور ڈاکٹر عظمی افگن“ بلال نے تفصیل بتائی۔

 

”آج کل کبھی ڈنر اور کبھی لنچ چکر کیا ہے“ توشی نے مسکرا کر پوچھا 

”ڈاکٹر عظمی افگن کا شوہر نہیں آیا تھا لنچ پر … “

”اُس کی ابھی شادی نہیں ہوئی“ بلال نے جواب دیا۔

”منگنی تو ہوئی ہوگی“ توشی نے اندر کی بات جاننے کے لیے کہا۔

 

 

”نہیں وہ منگنی کے حق میں نہیں ہے۔ وہ سیدھا شادی کرنا چاہتی ہے مجھ سے“ بلال نے توشی کی آنکھوں میں دیکھ کر صاف گوئی سے کام لیا۔

 

توشی بلال کی بات سُن کر ہکا بکا رہ گئی۔ وہ حیران تھی بلال نے اتنی بڑی بات بڑے آرام سے کہہ دی۔ توشی کے لیے یہ بُری خبر تھی حالانکہ اُس نے بلال کو منع کیا تھا کہ وہ اُس کی بہن سے شادی نہ کرے پھر بھی اُس کا دل اِس رشتے کے حق میں تھا، توشی گم سم تھی یہ بات سُن کر اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیابات کرے۔

”میں یہ سمجھتی تھی کہ میں تمہارے بارے میں سب کچھ جانتی ہوں“ توشی نے خفگی سے کہا۔

 

”میں نے اپنے بارے میں کبھی کچھ نہیں چھپایا…… “بلال نے جواب دیا۔

”پچھلے دس سال سے تم ہر سنڈے کہاں جاتے ہو کسی کو کچھ خبر نہیں ایک مسٹری ہے اور تم کہتے ہو کہ تم نے کچھ نہیں چھپایا“ توشی دل کی بات زبان پر لے آئی۔

”اِس کے علاوہ کچھ اور ……؟ “ بلال نے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔

”میں پچھلے دس سال سے ہر سنڈے مینٹل ہاسپٹل جاتا ہوں وہ اس لیے کہ میری ماں پاگل ہوکر مری تھی اُس سے کوئی پاگل خانے ملنے نہیں جاتا تھا …… “

میری ماں کی طرح بہت سارے پاگل ہیں جن سے کوئی بھی مینٹل ہاسپٹل ملنے کے لیے نہیں آتا جب میری ماں مینٹل ہاسپٹل میں تھی تو مجھے وہاں جانے سے ڈر لگتا تھا تب میں آٹھ سال کا تھا“ بلال کی آنکھیں چمک رہیں تھیں، مگر آنسو آنکھوں میں قید تھے ابھی اُن کی رہائی کا وقت نہیں آیا تھا۔

 

 ” مجھے ڈر اس لیے لگتا تھا ایک دن میں ماں سے ملنے کے لیے گیا تو مجھے ایک بوڑھے پاگل نے پکڑ لیاشاید اپنا پُوتا سمجھ کر وہ مجھ سے پیار کررہا تھا اور میں ڈر رہا تھا …… اُس کے بعد میری کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ میں ماں سے ملنے کے لیے جاوٴں“

توشی کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہہ رہے تھے اور بلال ایسا جسم تھا جو بغیر روح کے بیٹھا ہو وہ تھوڑی دیر خاموش رہا پھر بھری ہوئی آواز کے ساتھ بولا۔

 

”ممانی میری ماں کو گھر لانے کے لیے تیار نہیں تھیں، اور میں وہاں جانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ پھر ایک دن میری ماں گھر واپس آگئی اپنی روح کے بغیر چند گھنٹوں کے لیے، یہاں سے سفید لباس پہنا اور رخصت ہوگئی ہمیشہ کے لیے اِس گھر سے …… ایک بات بتاوٴں توشی جی میری ماں پاگل نہیں تھی …… ہاں غیرت مند ضرور تھی۔ میں اپنی ماں کے مرنے پر بہت رویا پھر آج تک نہیں رویا “ بلال کی آنکھیں سرخ انگاروں کی طرح دہک رہیں تھیں۔

 

آنسو آنکھوں میں پٹرول کا کام کررہے تھے مگر اُنہیں گرنے کی اجازت نہیں تھی۔ بلال نے سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے ایک گلاس پانی لیا اور تین سانس میں ختم کیا اور پھر کافی دیر خاموش بیٹھا رہا۔ 

”ڈاکٹر عظی افگن مجھے دو سال پہلے مینٹل ہاسپٹل میں ملی تھی ،ہے تووہ خود پاگلوں کی ڈاکٹر مگر خود پاگل ہونے کے قریب تھی اُس کی خالہ ڈاکٹر ہاجرہ مجھے ایک مہینے بعد اِسکول ملنے آئیں ڈاکٹر ہاجرہ نے میری ماں کا اُسی مینٹل ہاسپٹل میں بہت خیال رکھا تھا۔

 

انہوں نے مجھ سے درخواست کی بیٹا میری مری ہوئی بہن کی نشانی ہے عظمی جب سے تم اُسے ملے ہو اُس کے دل میں جینے کی آرزو جاگ اُٹھی ہے پلیز اُسے ہر سنڈے تھوڑا سا ٹائم دے دیا کرو …… میں نے بس ایک دوست کی طرح اُس کا خیال رکھا۔ آج ڈاکٹر عظمی کہتی ہے کہ میں شادی صرف تم سے کروں گی۔اور جس سے میں شادی کرنا چاہتا ہوں وہ مجھ پر شک کرتی ہے۔ میری جاسوسی کرتی ہے کبھی خود اور کبھی کسی اور سے کرواتی ہے۔

 

تمہیں بھی تو آج اُس نے بھیجا ہے اندر کی بات معلوم کرنے کے لیے …… “ بلال نے سرخ آنکھوں کے ساتھ توشی کی طرف دیکھا جو شرم سے پانی پانی ہوہی تھی۔

”تم نوشی سے کیوں شادی کرنا چاہتے ہو۔“ بلال نے توشی کی طرف دیکھا جو گردن جھکائے بول رہی تھی۔

”اس لیے کہ وہ میری ماں کی پسند تھی …… “

”صرف اس لیے …… کوئی اور وجہ …… “ توشی نے گردن جھکائے ہی پوچھا، بلال خاموش رہا اُس نے کوئی جواب نہیں دیا 

”اور تمہاری محبت جس کا تم ہمیشہ ہی سے دم بھرتے آئے ہو …… “ توشی نے تیکھے انداز میں کہا گردن تن کر۔

 

”محبت آسمان کی بلندی کو بھی چھولے۔ عقیدت کے قدموں سے آگے نہیں بڑھ سکتی اور مجھے میری ماں سے عقیدت ہے اور اُس سے محبت صرف اس لیے ہے کہ وہ میری ماں کی پسند تھی“

”اگر وہ خود تم سے شادی سے انکار کردے تو ……؟ “ توشی نے پوچھا۔

”عقیدت میں شرعی حدود کو پار نہیں کیا جاتا۔ یہ اُس کا شرعی حق ہے“بلال نے جواب دیا اور آنکھیں بند کرکے لیٹ گیا۔

 

توشی کو پریشانی ہوئی اُس نے اُس کی کلائی چیک کی بخار پہلے سے کم تھا۔ وہ بلال کے اوپر کمبل اچھی طرح ڈال کر کمرے سے نکل آئی اور نکلنے سے پہلے کمرے کی لائٹ بند کردی۔ بلال اب نیند کی آغوش میں تھا۔ 

توشی اپنے روم میں لوٹی تو نوشی جاگ رہی تھی۔ نوشی نے توشی کو دیکھا تو فوراً پوچھا۔

”تم نے پوچھا بلال سے کہ وہ لڑکی کون ہے اور بلال کیوں اُس کے ساتھ تھا “ نوشی کھڑی تھی۔

 

”تم بیٹھ جاوٴ …… میں سب بتاتی ہوں“ نوشی اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی اور توشی صوفہ پر ٹیک لگاکر بیٹھ گئی۔

”بتاوٴ بھی کیا بات ہوئی بلال سے …… “ نوشی کے بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔

”Relax میں بتاتی ہوں“ توشی نے گلاس میں پانی ڈالا اور ایک ہی سانس میں سارا پانی پی گئی۔ ”پانی پیو گی……“ توشی نے نوشی سے پوچھا”میں کچھ پوچھ رہی ہوں اور تم …… “

”ٹھنڈ رکھو نوشی میڈم …… “ توشی نے تحمل سے جواب دیا۔

 

”تم بلال سے کیوں شادی کرنا چاہتی ہو؟“ توشی نے پوچھا دوبارہ سے۔

”اگر یہی سوال میں تم سے کروں کہ تم ڈاکٹر بٹ سے کیوں شادی کررہی ہو؟“ نوشی نے سوال پر سوال کردیا۔

”اس لیے کہ شادی تو کرنی ہی ہے اور ڈاکٹر بٹ مجھ سے محبت بھی کرتا ہے “ توشی نے آرام سے جواب دیا۔

”کیا تم ڈاکٹر بٹ سے محبت نہیں کرتی؟“ نوشی نے پوچھا۔

 

”محبت تو نہیں کہہ سکتی ہاں بٹ صاحب کو پسند ضرور کرتی ہوں۔ بلال کہتا ہے نکاح کی برکت سے محبت جنم لیتی ہے جب ہماری شادی ہوگی تو محبت بھی ہوجائے گی …… “

توشی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اپنی بہن کو۔

”اب تم بتاوٴ تم کیوں بلال سے شادی کرنا چاہتی ہو؟“

”اس لیے کہ بلال بھی مجھ سے محبت کرتا ہے“ نوشی نے فخریہ انداز میں کہا۔

 

”اور تم بلال سے کیا کرتی ہو …… عشق کہا تھا تم نے …… کیسا عشق ہے جس میں شک ہی شک اور عشق کی کوئی خبر نہیں …… میں کل بٹ صاحب کو منع کردیتی ہوں کہ وہ لوگ نہ آئیں …… تم اپنے لیے کسی اور کو پسند کرلو پہلے تمہاری بات پکی ہوگی“

توشی نے نوشی کی طرف دیکھ کر ساری باتیں کردیں۔

”کیا مطلب ہے تمہارا کسی اور کو پسند کرلوں شادی تو میں بلال ہی سے کروں گی“

نوشی نے دوٹوک انداز میں اپنا ارادہ بتادیا۔

 

”یہ تمہاری ضد ہے …… شادی نہیں ہے …… اِس طرح تم خوش نہیں رہ پاوٴ گی …… اور بلال بھی …… پلیز نوشی بات کو سمجھو …… میں پاپا سے اور دادو سے بات کرلوں گی …… بلال کو بھی تمہارے انکار پر اعتراض نہیں ہے …… بلکہ وہ تو کہتا ہے اپنی پسند سے شادی کرنا تمہارا شرعی حق ہے“

نوشی ساری باتیں سُن کر خاموش ہوگئی اور کسی گہری سوچ میں تھی اور اپنی گردن جھکائے گم سم تھی اور توشی اُس کو دیکھ رہی تھی۔ وہ صوفے سے اُٹھی اور نوشی کو گلے لگایا اور گلے ملتے ہوئے گردن سے اپنی بہن کو چوما ”یہی ٹھیک ہے جو میں کہہ رہی ہوں“ نوشی نے توشی کی طرف دیکھا جواب بیڈ پر اُس کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔
”اور وہ لڑکی کون تھی …… جو آج بلال کے ساتھ تھی …… “ نوشی نے پوچھا۔
”وہ ڈاکٹر عظمی افگن ہے “ توشی نے خوشی خوشی بتایا۔
”مگر وہ بلال کے ساتھ کیوں تھی۔ “نوشی نے بے تاثر چہرے اور آواز کے ساتھ پھر سے سوال کیا۔
”اس لیے کہ وہ بلال سے شادی کرنا چاہتی ہے۔“ توشی نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
نوشی جوکہ کافی حد تک شانت ہوچکی تھی۔ لاوے کی طرح اُبل پڑی اُس نے قہر آلود نگاہوں سے اپنی بہن کو دیکھا اُس کے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی ہو۔


”اچھا تو یہ ہے …… اندر کی بات…… “ نوشی دانت پیستے ہوئے بولی اُس کا ایک ایک لفظ نفرت کے پانی سے گیلا تھا ۔
”تم واقعی ڈائن ہو بہن نہیں ہو میری …… تم نے سوچا بلال اگر میرا نہیں ہوسکا تو اِس سے بھی چھین لوں“ وہ غصے سے چیخی پاگلوں کی طرح …… دونوں بہنیں اب کھڑی ہوچکیں تھیں۔ نوشی پھر اپنے منہ سے آگ اگلنے کے لیے تیار تھی۔
”مجھے تمہیں بہن کہتے ہوئے شرم آرہی ے تم ایک بدنیت اور بدکردار لڑکی ہو، جس کی اپنے بہنوئی پر نظر ہے“ توشی نے یہ بات سُن کر ایک زوردار تھپڑ اپنی بہن کے بائیں گال پر رسید کیا اور خود روم سے چلی گئی ٹیرس پر۔ نوشی وہیں کھڑی تھی اُس کے گال پر انگلیوں کے نشان باقی تھے۔
”شادی تو میں بلال ہی سے کروں گی“ نوشی غصے سے چیخی ٹیرس کی طرف منہ کرکے توشی کے کانوں میں یہ الفاظ پڑے جوکہ بلال کے روم کی طرف منہ کرکے کھڑی تھی۔
اُس نے دل میں دُعا کی (یا اللہ اِس دوموہی کے زہر سے بلال کو محفوظ رکھنا)
توشی نہ جانے کتنی دیر وہیں ٹیرس پر کھڑی رہی اُس کی آنکھیں نمناک تھیں۔ تھوڑی دیر بعد آنسو آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرنا شروع ہوگئے۔ آنسو گرنے کی صحیح وجہ کا اُسے خود اندازہ نہیں تھا کہ یہ آنسو کیوں ٹپ ٹپ گررہے ہیں۔بلال کی وجہ سے یا نوشی کے گندے الفاظ جو تھوڑی دیر پہلے اُس کے متعلق اُس کی اپنی ہی بہن نے کہے تھے۔
وہ بہن جو دو جسم اور اِک جان والا معاملہ تھا۔ بیمار ایک ہوتی تکلیف دوسری محسوس کرتی۔ وہ اپنی بہن کی ہر خوشی کا خیال رکھتی مگر آج اُسے تھپڑ ماردیا۔
”میں نے بالکل صحیح کیا“ توشی نے خود سے کہا اُس کے نزدیک یہی اُس کے لیے بہتر ہے کہ وہ بلال سے شادی نہ کرے ۔
”مجھے یہ شادی ہر صورت میں روکنی ہے“ توشی نے دل میں ارادہ کیا اُس کے دل میں دادی کا خیال آیا۔
 
وہ ٹیرس سے اپنے روم میں واپس آئی نوشی بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی، اُس نے آہٹ سُنی تو آنکھیں موند لیں۔ توشی نے نوشی کی طرف دیکھا جو کہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اور جاگتے ہوئے سونے کا ناٹک کررہی تھی۔ توشی کے چہرے پر زخمی مسکراہٹ اُبھری۔ یہ ایک ٹھٹھڑتی رات تھی۔ اُس نے گیس ہیٹر جلایا اور صوفے پر بیٹھ گئی۔ وہ ممکنات پر غور کررہی تھی۔ وال کلاک کی ایک سوئی مسلسل ڈانس کررہی تھی کلاک کے سینے پر جبکہ دوسری ایسے چل رہی تھی کہ کہیں پاوٴں میں موچ نہ آجائے۔
دھیرے دھیرے ہولے ہولے توشی کی نظریں وال کلاک پر تھیں اور وہ ذہنی خلفشار میں مبتلا تھی۔ توشی اپنی بہن سے خائف ضرور تھی، مگر اُس کا دل اب بھی اُس کی محبت میں دھڑک رہا تھا۔
دوسری طرف نوشی بیڈ پر لیٹی ہوئی اپنے ارادوں میں کامیابی کے منصوبے بنارہی تھی۔ اور عظمی اُسے اپنی رقیب محسوس ہورہی تھی۔ اب اُس کی آنکھیں کھلیں تھیں وہ اس لیے کہ توشی اُس کی پشت کی طرف صوفے پر بیٹھی تھی۔
نوشی جوکہ سیدھی لیٹی ہوئی تھی،اب اپنے دائیں طرف کروٹ لے چکی تھی۔
روم میں باہر گیٹ سے ہارن کی آواز آئی۔ توشی نے دیکھا ٹیرس سے کمرے میں کھلنے والا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اُسے دروازہ بند کرنے کا ہوش ہی نہیں تھا۔ اُس نے ٹیرس سے دیکھا اُس کا باپ امریکہ سے واپس آچکا تھا۔ جمال رندھاوا گاڑی سے اُتر کر گھر کے اندر داخل ہورہے تھے اور گل شیر اُن کے پیچھے تھے۔
ہاتھ میں بریف کیس پکڑے ہوئے اور ڈرائیور بلیک مرسڈیز سے سامان نکال رہا تھا۔ وہ اپنے روم میں واپس آگئی۔ اُس نے کلاک پر نظر ڈالی 2 بج رہے تھے اُس کو معلوم تھا اُس کا باپ فریش ہوکر سوجائے گا، اور اٹھنے پر سب سے پہلے اپنی ماں کے حضور حاضر ہوگا۔
توشی اپنے باپ سے پہلے اپنی دادی سے ملنا چاہتی تھی جس کے لیے اُسے ڈھائی گھنٹے مزید انتظار کرنا تھا۔
ساڑھے 4 کے آس پاس اُس کی دادی تہجد کے لیے اُٹھتی تھی۔
گل شیر خان ائیرپورٹ سے واپسی پر 10 منٹ کی ڈرائیو کے دوران ہی جمال رندھاوا کو چند دن پہلے رونما ہونے والے واقعہ کا آنکھوں دیکھا حال سُنا چکا تھا۔
اب جمال رندھاوا نے فیصلہ کرنا تھا، حتمی فیصلہ اپنی بیٹیوں کی شادی کا اور توشی یہ فیصلہ موٴخر کروانا چاہتی تھی، کسی بھی طرح وہ خود تو ڈاکٹر بٹ سے شادی کے لیے تیار تھی مگر نوشی کی بلال کے ساتھ شادی کے حق میں نہیں تھی۔
چند گھنٹے پہلے ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ نوشی کے کمرے میں داخل ہونے پر وہ بلال کا نام لے کر اپنی بہن کو چھیڑ رہی تھی اور اُس کی دلی خواہش تھی کہ اُس کی بہن ہی بلال کی دلہن بنے مگر اب وہ اِس حق میں نہیں تھی۔ اِن چند گھنٹوں میں وہ بہت کچھ جان چکی تھی۔ اُسے اپنی بہن کی نیت پر شک تھا۔ 
اِس سازش میں نوشی اکیلی ہے یا اور بھی کوئی اِس کے ساتھ ہے۔
میری بہن اکیلے ایسا کچھ نہیں کرسکتی ضرور کوئی اِس کے پیچھے ہے کون ہے اور کیوں ہے؟
توشی نے نوشی کی طرف دیکھ کر سوچا جوکہ اُسی پوزیشن میں لیٹی ہوئی تھی۔وہ صوفہ پر بیٹے ہوئے کڑی سے کڑی ملانے کی کوشش کررہی تھی۔ بلال نے یہ کیوں کہا میری جاسوسی ہورہی ہے اور نوشی کو کس نے بتایا بلال کے سارے دن کا حال احوال اور جب وہ واپس آئی تو نوشی کس سے بات کررہی تھی۔
میرے پوچھنے پر نوشی گھبراکیوں گئی اور اُس نے بات کیوں گول کردی۔ کل تک تو سب ٹھیک ٹھاک تھا ایک دن میں …… یہ سب …… وہ اپنی سوچوں میں گم تھی۔ 
نوشی کوئی 12 فٹ کے فاصلے پر اپنی بہن سے دور بیٹھی ہوئی تھی، صوفہ پر۔ مگر یہ 12فٹ 12کوس سے زیادہ تھے۔ فوجی پریڈ کی طرح قدم سے قدم ملا کر ایک سمت میں چلنے والی بہنیں اب ایک دوسرے کی مخالف سمت پر رواں دواں تھیں۔
ایک کی منزل مشرق اوردوسری کی منزل مغرب …… ۔
وال کلاک نے بڑی دیر سے ساڑھے چار بجائے توشی جلدی سے اُٹھی اور دبے پاوٴں دھیرے دھیرے اپنی دادی کے کمرے کی طرف چل دی۔
نوشی نے بھی اپنی موندیں ہوئی پلکوں کے کواڑ کھولے اُسے اندازہ تھا، کہ توشی دادی کے کمرے ہی میں گئی ہوگی۔ وہ بھی ہولے ہولے دادی کے کمرے کے باہر پہنچ گئی اُس کا اندازہ ٹھیک نکلا توشی اندر تھی وہ وہاں نہیں رُکی تھوڑی دیر سوچ بیچار کے بعد اُس نے بلال کے دروازے پر دستک دے دی۔
”خان صاحب آجائیں دروازہ کُھلا ہے“ بلال نے واش روم سے صدا لگائی جو وضو کرکے ٹاول سے اپنے بازو صاف کررہا تھا۔ 
”ماموں جان آتے ہیں تو آپ کا دیدار ہوجاتا ہے…… ورنہ آپ تو عید کے چاند“ نوشی کمرے میں آچکی تھی اور واش روم کے دروازے پر نظریں جمائے کھڑی تھی بلال باہر آتا ہے تو اُس کی نظر سامنے کھڑی نوشی پر پڑتی ہے ۔ بلال کوئی بات نہیں کرتا اُسے حیرت بھی نہیں ہوئی پہلے کئی دفعہ رات کے اِس پہر نوشی اُس کے کمرے میں آچکی تھی۔
اس بار اُس کی آنکھوں کی تحریر الگ تھی۔ 
”میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں“ نوشی نے لب کشائی کی۔
”دادو میں آپ کو کچھ بتانا چاہتی ہوں بہت ضروری بات ہے“ توشی نے عجلت میں کہا۔
”بیٹا میرا وضو ٹوٹ جائے گا پہلے مجھے نفل ادا کرنے دو بار بار وضو نہیں ہوتا اتنی سردی میں“جہاں آرا بیگم نے جواب دیا شگفتگی سے۔
”میں آٹھ رکعت ادا کرلوں تہجد کا وقت نکل جائے گا آپ بیٹھو …… بعد میں آرام سے بات کرتے ہیں“ بلال نے اپنی نفیس آواز میں بڑی نفاست سے کہا۔
دونوں بہنوں کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی نماز سے فارغ ہوکر بلال نے جائے نماز اپنی جگہ یعنی دیوان کے بازو پر رکھا اور خود کچن کی طرف چل دیا۔ نوشی رائٹنگ ٹیبل والی چیئر پر بیٹھی ہوئی تھی۔ بلال کو کچن میں مصروف دیکھ کر بولی۔
”مجھے کافی نہیں پینی ہے“ ”ok“ بلال نے جواب دیا جوکہ کچھ گرم کررہا تھا۔
دادی ے انٹرکام پر دو کپ دودھ زینب کو کہا جوکہ نفل ادا کرچکی تھیں۔
اُس کے بعد توشی کی طرف متوجہ ہوئیں اور اپنی موونگ چیئر پر بیٹھی ہوئی بولیں۔
”مجھے پتہ ہے تم نے کیا ضروری بات کرنی ہے“
”کیا تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو“ نوشی نے بلال کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر کہا جس کے ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں دو خوبصورت مگ رکھے ہوئے تھے پینک اور گرین کلر کے پینک مگ اُس نے نوشی کی طرف بڑھادیا۔ نوشی نے سوالیہ نظروں سے دیکھا مگ پکڑتے ہوئے۔ 

 

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page