top of page

شکیل احمد چوہان - بلال صاحب

”دودھ ہے و ہ بھی خالص شہد ڈال کر کافی نہیں ہے“ بلال سنجیدگی سے بولا اور بیڈ پر بیٹھنے سے پہلے اُس نے وارڈ روب سے اپنی گرم چادر نکال کر نوشی کے شانوں پر ڈال دی ہمیشہ کی طرح احتیاط سے اور خود اپنے بستر کے اندر کمبل میں بیٹھ گیا۔ اُسے سردی لگ رہی تھی اُسے اب بھی ہلکا بخار تھا اِسی وجہ سے اُس نے گرم دودھ لیا تھا شہد ڈا ل کر ۔ بلال دودھ پینے میں مگن تھا جیسے اُس نے نوشی کی بات سُنی ہی نہ ہو۔

 

 

”میں نے تم سے کچھ پوچھا تھا“ نوشی دودھ کا مگ ہاتھ میں پکڑے ہوئے بولی۔

”بیٹا دودھ پیا کرو اچھا ہوتا ہے“ دادی توشی کو سمجھا رہیں تھیں جوکہ دودھ پینے سے انکاری تھی زینب دودھ دے کر جاچکی تھی۔

”بلال کیا کہتا ہے“ دادی نے پوچھا توشی سے دودھ پیتے ہوئے 

”اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو میں کرنا چاہتا ہوں“ بلال نے نوشی کو بتایا۔

 

 

 

”مجھے کوئی اعتراض نہیں اِس شادی پر مگر میری ایک شرط ہے آپ اپنی کمائی سے شادی سے پہلے ایک گھر خریدو کب تک یہاں……“

”کب تک تمہارا باپ جان بچائے گا اُس قرضے سے جو بلال کی ماں سے لیا تھا۔ اب وقت آگیا ہے واپسی کا یہ گھر بھی بلال کا ہے۔ کب تک تم لوگ یہاں پڑے رہو گے۔“

توشی دادی کی بات سُن کر ششدر رہ گئی وہ مجسمہ بنی بیٹھی تھی دادی کے سامنے جو پتھر کا ہو بے جان بغیر کسی حرکت کے۔

 

”دادی میں آپ کی بات سمجھ نہیں پائی“ توشی نے دادی سے تفصیل پوچھی۔

”آئی ہوپ تم میری فیلنگز کو سمجھ گئے ہو۔ شادی کے بعد تمہارے گھر جانا چاہتی ہوں اپنے باپ کے گھر نہیں اگر پیسے نہیں ہیں تو بینک سے لون لے لو…… “

”لون لیا تھا، بینک سے تمہارے باپ نے اِس گھر پر بینک والے نیلامی کرنے آگئے تھے تب تمہاری پھوپھو نے اپنا سارا زیور اور اپنے سارے پیسے دے کر بینک کا قرضہ ادا کیا تھا۔

 

”اور کوئی ڈھنگ کا بزنس شروع کرو جیسے کوئی فیکٹری لگاوٴ یہ اسکول وغیرہ بھی کوئی بزنس ہے“ نوشی نے اگلی شرط بھی رکھ دی بلال کے سامنے۔

”شرط رکھ دی تھی تمہاری ماں نے کہ گاوٴں کی زمین بیچ کر فیکٹری لگاوٴ نہیں تو مجھے طلاق دے دو اور تیرا باپ رن مرید فوراً مان گیا تب اگر تیرا بہشتی دادا زندہ ہوتا تو کبھی نہ مانتا اور تیرے باپ کو گھر سے نکال دیتا۔

 

چار مربعے پیلی (زمین) تھی تیرے باپ کے حصے کی۔ ساری بیچ دی دو مربعے بلال کی ماں کے نام تھی اور ایک مربع میرے نام میرے نام والی بھی نہیں چھوڑی میں کیا کرتی ایک ہی پُتر تھا میری جان ہی نہیں چھوڑی پیلی بیچ ہی دی۔ مگر تیری پھوپھو سیانی تھی اُس نے کہا لالہ میں نہیں بیچوں گی …… بیٹا یہ پینڈو لوگ پیلی بنے سے بڑی محبت کرتے ہیں اپنی جان سے بھی زیادہ …… تیری پھوپھو 16 جماعت پڑھ کے بھی اندر سے پینڈو ہی تھی۔

 

بڑی دلیر تھی تیری پھوپھی“ جہاں آرا کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر اُس کے گالوں کو نہلا رہے تھے وہ بوڑھی ملکہ اپنی ریاست کے اُجڑنے کی رُوداد اپنی پوتی کو سُنا رہی تھی۔

”میری جمیلہ بڑی دلیر تھی میری بچی پر تیرے باپ نے اُسے بھی پاگل کردیا۔ ایک تیرا ماما تھا سُور کا پُتر سب کچھ لے کر باہر چلا گیا۔ تیرے باپ کے ساتھ بھائی والی تھی اُس کی۔

 

روپیہ سارا لے گیا اور قرضہ سارا چھوڑ گیا، قرض داروں نے تیرے باپ کو اندر کروادیا تھا پھر تیری ماں روتی جمیلہ کے پاس گئی تھی۔ ملک جلال احمد جمیلہ کا گھر والا ہیرا تھا ہیرا اُس نے کہا جمیلہ زمین بیچ کر بھائی کو چھڑوالو ایک ہی بھائی ہے تمہارا اس دنیا میں تب جمیلہ اور جلال مجھ کو لے کر جیل گئے تیری ماں بھی ساتھ تھی۔ جمیلہ نے تب کہا لالہ میں اپنے بزرگوں کی نشانی بیچ نہیں سکتی پہلے ہی لوگوں نے بڑی تھوتھو کی تھی تمہارے زمین بیچنے پر میرے پچاس ایکڑ پر 20 غریب خاندان پل رہے ہیں کھیتی کرکے ۔

 

تم دیکھ لو کیا کرنا ہے …… تیرا باپ چُپ چاپ بیٹھا رہا ایک لفظ نہیں بولا تب تیری ماں نے کہا جمیلہ مان جاوٴ ہمیں زمین بیچ کر پیسے دے دو میرا وعدہ یہ 50 ایکڑ تمہیں واپس خرید کردیں گے …… مگر تیری پھوپھی نے لچک نہیں دکھائی اُسے اس گھر کو بچانے کے وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ تم اپنا زیور اور بینک میں پڑے روپے دے دو تمہارا قرض ہے تمہیں تمہارا زیور اور روپے واپس کردیں گے مگر آج تک ایسا نہیں ہوا۔

 

جہاں آرا نے اپنی گیلی آنکھیں صاف کیں اور خاموش ہوگئی کافی دیر تک پھر توشی بول پڑی ۔”پھر کیا ہوا دادو“ بلال خاموش بیٹھا نوشی کی باتیں سُن رہا تھا اُس کے رُخسار پر ہلکی سی مسکراہٹ اُبھری وہ نوشی کی بے وقوفیوں پر مسکرایا یا اپنی اعلیٰ ظرفی کی وجہ سے اِس کا حال بلال ہی جانتا تھا۔

”پھر کیا سوچا تم نے “ نوشی نے پھر سے بلال کو اپنی شرطیں یاد کروائیں۔

 

###

”ملک جلال احمد تمہاری پھوپھو کو باہر لے گیا سمجھانے کے لیے میں بھی پیچھے پیچھے چلی گئی ملک جلال احمد بھی جنتی روح تھا کہنے لگا جمیلہ زمین تمہاری ہے اور بھائی بھی تمہارا ہی ہے اور فیصلہ بھی تمہیں ہی کرنا ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے تم جو بھی فیصلہ کرو میں یہ سُن کر واپس آگئی، واپس آئی تو تیرے ماں باپ دونوں نے قرآن کی قسم کھائی اور مجھ سے کہا جمیلہ کو سمجھائیں کہ وہ مان جائے تمہاری ماں نے کہا کہ خالہ ایک دفعہ یہ باہر نکل آئے تو سارے معاملے ٹھیک ہوجائیں گے۔

 

تیرا باپ بولا ”ماں جی میرے پاس بہت بڑا آرڈر آیا ہے، امریکہ سے لیدر کی جیکٹوں کا سارا نقصان ایک ہی بار پورا ہوجائے گا“

جمیلہ اور جلال واپس آگئے تھے۔ جمیلہ نے کہا ”لالہ ٹھیک ہے ، میں زمین بیچ دیتی ہوں مگر مجھے میری زمین واپس چاہیے ہر قیمت پر یہ قرض ہے لالہ یاد رکھنا یہ قرض ہے تم پر ……“ تیرا باپ باہر آگیا سارا قرض اُتار دیا تب ملک جلال احمد نے کہا جمال تمہارے پاس وفادار لوگوں کی کمی ہے۔

 

ایک دن اپنا گل شیر خان ہے نا اِس کو لے کر آیا تیرا پھوپھا۔ تب سے یہ گل شیر خان تمہارے باپ کے ساتھ ہے۔

تیری پھوپھو شادباغ میں رہتی تھی اور اپنے گھر میں بہت خوش تھی۔ بلال تب آٹھ ماہ کا تھا۔ جلال احمد حیثیت میں ہم لوگوں سے غریب تھا۔ پر تھا بڑا خودار اُس نے جمیلہ سے کہا میں اپنے آبائی گھر میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔

 

وہ گھر میں بڑا تھا دو چھوٹے بھائیوں کو پڑھایا اُن کی شادیاں کیں، بہن بیاہی ماں باپ کے مرنے کے بعد ایک باپ کی طرح اُس نے اپنے بہن بھائیوں کو پالا اُن کا خیال رکھا۔ 

پھر ایک دن منحوس خبر آئی کہ تیرا پھوپھا مرگیا ہے۔ دل کا دورہ پڑا تھا۔ میری بیٹی کا گھر اُجڑ گیا تھا۔ جلال کے بھائیوں نے چند دن رکھا، تیری پھوپھو کو اپنے پاس پھر گھر سے نکال دیا۔

 

وہ بیچاری یہاں آگئی اِس گھر میں اپنے بھائی کے پاس۔ 

تیرے باپ کے حالات اُس ایک آرڈر کی وجہ سے بدل گئے تھے اور وہ کام میں بہت مصروف رہتا اکثر ملک سے باہر ہوتا، اُس کی غیر موجودگی میں گل شیر خان سارا کام دیکھتا۔ اور یہاں گھر پر تیری ماں کی حکمرانی تھی۔ تیری پھوپھو کے ساتھ تیری ماں نے بڑی زیادتیاں کی تھیں اکثر وہ بغیر وجہ کے تیری پھوپھو سے جھگڑا کرتی رہتی۔

 

تیری پھوپھو سب کچھ برداشت کرتی رہتی ایک دن تنگ آکر تیری پھوپھو نے تیرے باپ سے کہا ”لالہ مجھے میرا قرض واپس کردو میں اپنے بیٹے کو لے کر یہاں سے چلی جاوٴں گی“

بلال تب آٹھ سال کا تھا، اور شعیب دس کا ہوگا، اور تم دونوں بہنیں کوئی چھ سال کی تھیں۔ تیرے باپ کو اندازہ تھا کہ تیری ماں کا رویہ ٹھیک نہیں ہے، پر اُس نے تیری ماں کو کچھ نہیں کہا وہ اُس زمین کا پتہ کرنے لگا خریدنے کے لیے۔

 

تیری پھوپھو تم دونوں بہنوں سے بہت پیار کرتی تھی، اُس کے اِس گھر میں آنے کے بعد ہی تم دونوں پیدا ہوئیں تھیں سچ پوچھو اُس نے ہی تم دونوں کو چھ سال تک پالا، تیری ماں تو ہر روز کسی شادی کسی پارٹی میں دفعہ ہوجاتی یا پھر اپنے میکے تم دونوں کو نوکروں کے سہارے چھوڑ جاتی غفوراں بیچاری کتنا خیال رکھتی تم دونوں کا ایک دن تیری پھوپھو نے دیکھا تو کہا غفوراں بھابھی کے جانے کے بعد اِن کو میرے پاس چھوڑ جایا کرو تیری پھوپھو بلال والے کمرے میں رہتی تھی۔

 

جو اُس نے خود بنوایا تھا شادی سے پہلے اپنی مرضی سے یہ کنال کا پلاٹ تیرے دادا نے خرید کردیا تھا جمیلہ کو۔ اور دوسرا کنال کا پلاٹ تیرے باپ کا تھا جہاں یہ گھر بنا ہے یہ گھر بھی تیرے داداہی نے بنوایا تھا۔“

جہاں آرا بیگم ساری کہانی سُنا رہی تھی جیسے آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہی ہو۔ اب اُن کے آنسو رُک گئے تھے مگر آواز میں درد تھااور توشی دُکھی تھی یہ ساری باتیں سُن کر اُسے اپنی ماں کے رویے پر غصہ آرہا تھا اور باپ کی لاپرواہی پر بھی۔

 

”تیری ماں نے دیکھا کہ تیرا باپ زمین خریدنے کا سوچ رہا ہے اور اپنے لیے دوسرا گھر دیکھ رہا ہے، تیرا باپ اکثر کہتا تھا یہ سارا گھر جمیلہ اور اُس کے بیٹے کا ہے ہم لوگ یہاں سے چلے جائیں گے، اگر وہ زمین خریدتا اور نئے گھر میں جاتا تو دو میں سے ایک فیکٹری بیچنی پڑتی یہ دوسری فیکٹری کوٹ لکھپت والی تمہاری ماں کے نام پر تھی اِسے بیچنے کا ارادہ کرلیا تھا تیرے باپ نے …… 

ایک دن ہم سب باہر باغیچے میں بیٹھے ہوئے تھے عصر کے بعد چائے پینے کے لیے تم سب کھیل رہے تھے ماں سے زیادہ تم دونوں اپنی پھوپھو سے پیار کرتیں تھیں۔ تم اپنی پھوپھو کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی اور تیری بہن نسیم نے ضد شروع کردی اِسے اُتار دو اور مجھے بٹھاوٴ تیری پھوپھو نے نسیم کو بھی بٹھالیا اپنی گود میں مگر اُس کی ضد تھی تمہیں اُتار دو وہ مسلسل رورہی تھی پھر تیری پھوپھو نے تمہیں کان میں کہا تسلیم بیٹا تم اپنی ماما کی گود میں بیٹھ جاوٴ اور تم اُتر کر اپنی ماں کی گود میں بیٹھ گئی … 

اُسی وقت تیری ماں نے کہا ”جمیلہ نسیم کو اپنی بیٹی بنا لو جمیلہ بولی “یہ دونوں میری بیٹیاں تو ہیں تیری ماں نے کہا ”نہیں تم سمجھی نہیں اِس کو اپنی بہو بنانا“جمیلہ بولی ”آپ بھی کمال کرتی ہیں، بھابھی بچے چھوٹے ہیں اِن کے سامنے ایسی باتیں نہ کریں۔

 

 

 

کچا ذہن کچی مٹی کی طرح ہوتا ہے۔ کچے ذہن میں بیٹھی ہوئی بات اور کچی مٹی سے بنی ہوئی چیزیں سوکھنے کے بعد ٹوٹ سکتیں ہیں۔ اُن کی ساخت میں فرق نہیں پڑتا، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے اِس رشتے پر مگر وقت آنے پر فیصلہ کروں گی ابھی نہیں“تیرا باپ بولا ہنستے ہوئے

”کیا ہماری نسیم اتنی بُری ہے جمیلہ جو تم جان چھڑارہی ہو“ جمیلہ نے جواب دیا ”نہیں لالہ آپ کیسی باتیں کررہے ہیں میں تو بس …… “

”بس کیا جمیلہ ہاں کر بھائی کے ساتھ رشتہ جوڑ لے تم دو بہن بھائی تو ہو“ ہاں کردے بیٹی میں نے زور دے کر کہا جمیلہ نے نسیم کو چُوما اور اپنے سینے سے لگا کر بولی ”تو پھر نسیم آج سے میرے بلال کی ہوئی میرے بلال کی، بلال اپنی ماں کے ساتھ کھڑا ہوا سن رہا تھا اور نسیم کو دیکھ رہا تھا۔

 

“ جمیلہ نے بلال کو بازو سے پکڑا اور کہا

 ”اگر میں مربھی جاوٴں تو یاد رکھنا یہ تمہاری منگیتر ہے اور تمہیں اِس سے شادی کرنی ہے ہاں ایک اور بات یاد رکھنا اِس کی مرضی کے خلاف نہیں اگر یہ ہاں کرے تو۔“

”لالہ اور بھابھی تو آج سے نسیم میری بہو“ اِس طرح یہ رشتہ ہوا تھا۔

(اگر میں مربھی جاوٴں تو یاد رکھنا یہ تمہاری منگیتر ہے اور تمہیں اِس سے شادی کرنی ہے۔

 

اِس کی مرضی کے خلاف نہیں اگر یہ ہاں کرے تو) بلال ٹیک لگائے سترہ سال پیچھے دیکھ رہا تھا اپنی ماں کو کہتے ہوئے۔

”یاد رکھنا میری شرطیں“ نوشی کی آواز بلال کے کانوں میں پڑی بلال سترہ سال کا سفر ایک لمحے میں مکمل کرکے واپس آگیا۔

”یاد ہے“ بلال نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا نوشی اُٹھ کر جانے لگی۔

”ٹھہرو …… کیا یہ شادی آپ اپنی مرضی سے کررہی ہو؟ …… بغیر کسی دباوٴ کے …… بلال نے نوشی سے پوچھا“

”ہاں اگر تم میری شرطیں مان لو تو“ نوشی نے فیصلہ کن انداز میں جواب دیا۔

 

”نوشی جی …… شرطوں پر شادی ہوسکتی ہے …… شادی شرطوں پر چلتی نہیں ہے ……الگ گھر کی شرط آپ کا حق ہے وہ میں ضرور لوں گا۔ جہاں تک اسکول کی بات ہے میں اُسے بزنس سے زیادہ فرض سمجھتا ہوں۔ میں آپ کا حق دوں گا بغیر مانگے مگر شرطیں کبھی نہیں مانوں گا نہ اب اور نہ آئندہ زندگی میں اور جہاں تک بینک سے لُون کی بات ہے وہ بھی میں نہیں لوں گا وہ سُود ہے …… نوشی جی …… محبت آپ کو پابند بناتی ہے …… باغی نہیں …… “

بلال نے نوشی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تحمل اور سنجیدگی سے جواب دیا نوشی کے لیے بلال کا یہ نیا روپ تھا، اُس کی وجہ یہ تھی اُس نے اُس کے ماں باپ کو کبھی پلٹ کر جواب نہیں دیا تھا۔

 

اُس کی اور اُس کے بھائی شعیب کی زیادتیوں پر وہ ہمیشہ خاموش رہا کبھی لڑائی جھگڑا نہیں کیا وہ شریف تھا، بزدل یا کمزور نہیں اس کا کچھ اندازہ تو اُسے سنی اور وکی کے واقعے کے بعد ہوگیا تھا۔ 

”یہ میری شرطیں نہیں ہیں اصول ہیں اور جہاں میں غلط ہوتا ہوں میں اپنے بنائے اصول توڑ دیتا ہوں بات صرف غلط اور صحیح کی ہے میری یا آپ کی نہیں ہے “نوشی کی سوچ کے تسلسل کو بلال کے الفاظ نے توڑ دیا تھا۔

 

 

”دادو …… اِس میں غلط کون تھا …… “ توشی نے پوچھا اپنی دادی سے جو خاموش بیٹھیں تھیں (میری چُپ) میں ساری زندگی بیٹے کی محبت میں چُپ رہی اور ساری زندگی یہ سمجھتی رہی ۔

(دوت پرایا گوت) مگر اب میں بات کروں گی صحیح کو صحیح کہوں گی اور غلط کو غلط، غلط صرف میں تھی جب تک تیرا دادا زندہ تھا سارے فیصلے تیرا دادا کرتا تھا، سوائے ایک کے تیرے باپ سے تیری ماں کی شادی یہ میری ضد تھی۔

 

بہشتی بڑا سیانا تھا میرے جیسی کوڑ دماغ کو سارے شریکے برداری میں دانی پردانی بناکر رکھا تھا۔

میری ماں اکثر کہتی تھی جہاں آرا یہ تیرا کمال نہیں ہے تجھے اللہ نے ور اچھا دے دیا ہے۔“

فجر کی اذان شروع ہوچکی تھی جہاں آرا نے کہا ”بیٹا نماز کا وقت ہوگیا“

”میں نماز پڑنے جارہا ہوں مسجد میں آپ بھی نماز ادا کرلیں“ بلال یہ کہہ کر کمرے سے نکل گیا۔

 

نوشی وہیں کھڑی تھی بلال کے کمرے میں اور اُس کے ہونٹوں سے یہ الفاظ نکلے۔

”نماز …… اور …… میں “

”توشی اپنی دادی کے رُوم سے جاچکی تھی، مطمئن ہوکر اُس کا پلان کچھ اور تھا اور بات کو ٹالنے کے لیے دادی کی باتیں سُن کر اُس نے اپنی بات نہیں کی اُسے یقین آگیا تھا کہ دادی اب لازمی پھوپھو کے قرضے والی بات کریں گی پاپا سے جب ماما کو پتہ چلے گا تو وہ قیامت کھڑی کردیں گی اور کبھی نہیں مانیں گی اِس بات پر تو بات خودبخود کھٹائی میں پڑے جائے گی۔

 

اور دوسری طرف نوشی کچھ اور سوچ رہی تھی۔ وہ بلال کے روم سے نکل کر سیدھا اپنی دادی کے کمرے میں آئی تب تک توشی مطمئن ہوکر جاچکی تھی۔ اُس نے اپنی دادی سے کہا ۔

”دادو مجھے صرف بلال سے شادی کرنی ہے اور ڈاکٹر بٹ اور توشی کے رشتے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے“ اُس نے صرف اتنا کہا اور چلی گئی وہاں سے جہاں آرا بیگم کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا اُن کی برسوں پرانی دُعا پوری ہوگئی۔

توشی اپنے بیڈ پر لیٹی ہوئی سوچ رہی تھی ”اب یہ شادی نہیں ہوگی“ اُس نے آنکھیں بند کرلیں مطمئن ہوکر اُس کے پہلو میں نوشی دوسری طرف منہ کرکے لیٹی ہوئی تھی اُس نے اپنے دل میں کہا ”اب اِس شادی کو کوئی نہیں روک سکتا“ وہ بھی اطمینان سے سوگئی۔

###

جمال رندھاوا دوپہر تک سوئے رہے وہ ظہر کے بعد اُٹھے، شاور لیا اور ناشتے سے فارغ ہوکر اپنی ماں جہاں آرا کے کمرے میں پہنچے، کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور جہاں آرا نماز سے فارغ ہوکر دُعا مانگ رہیں تھیں۔ جمال ادب سے دیوان پر بیٹھ گیا جہاں آرا نے دُعا سے فارغ ہوکر بغیر کچھ بولے جمال کے سر پر پیار دیا اور اُسے منہ میں کچھ پڑھ کر پھونک ماری جمال کی آنکھوں میں عقیدت تھی اپنی ماں کے لیے۔

 

 

”ماں جی طبیعت کیسی ہے آپ کی “ جمال نے اپنی ماں کی طرف دیکھ کر پوچھا جوکہ اب کھڑا تھا جہاں آرا کے چہرے پر عجیب طرح کی خوشی تھی ”بیٹا جمال جو تمہاری سب سے اچھی بات ہے تمہاری سب سے بُری بات بھی اُس کے ساتھ ہی جُڑی ہوئی ہے“ جمال حیرت سے مسکرایا ”وہ کیا ماں جی“ ”اچھی بات یہ ہے کہ تم نے مجھے کبھی منہ بھر کر انکار نہیں کیا بُری بات یہ ہے مجھے انکار نہیں کیا اور مانی ہمیشہ اپنی بیوی کی ہے اب ایسا نہ کرنا میری بھی سُنو اور اپنی بیوی کی بھی سُنو اور فیصلہ خود کرو جو تمہیں صحیح لگتا ہے اور ثابت کرو تم چوہدری ارشاد کے بیٹے ہو، میرے نہیں تمہارا باپ پنچ تھا اُس کے فیصلوں کو دنیا مانتی تھی۔

 

 

 

میں نے اپنی پوری زندگی میں تیرے باپ کے فیصلوں پر کبھی نا انصافی کا الزام لگتے نہیں دیکھا…… تمہاری رگوں میں بھی چوہدری ارشاد رندھاوا کا خون ہے۔“

”ماں جی میں سمجھا نہیں آپ کی بات کو …… “

”بیٹا مجھے بھی چند دن پہلے ہی سمجھ آئی ہے بلال کی ایک کہی ہوئی بات میرے کانوں میں پڑی کہ اللہ اپنا فرض معاف کردیتا ہے کسی کا قرض نہیں اور تو مقروض ہے اپنی بہن کا اُس کے بیٹے کا، تو صرف اُن کا قرض ادا کرسکتا ہے ماں اور بیٹے کے احسان نہیں اُتار سکتا اُس وقت جمیلہ نے تیری عزت بچائی تھی اور اب اُس کے بیٹے نے چند دن پہلے“

”ہاں مجھے گل شیر خان نے سب کچھ بتادیا ہے قرض تو میں تھوڑے دنوں میں اُتار دوں گا“ جمال رندھاوا نے فیصلہ کرلیا تھا اپنی بہن کے قرض کا، پھر بھی وہ پریشان تھا۔

 

”جمال پریشان کیوں ہو“ جہاں آرا بیگم نے پوچھا۔

”بچیوں کے رشتے کی پریشانی ہے۔ کہاں کرو نوشی کا مزاج، وہ بلال کو …… “

”بس بسم اللہ کرو اللہ نے سب ٹھیک کردیا ہے۔ نوشی بلال سے شادی کرنا چاہتی ہے اور توشی کے لیے بہت اچھا رشتہ آیا ہے۔ بس تمہارا ہی انتظار تھا کوئی ڈاکٹر ہے بلال کا دوست بلال کے ساتھ پڑھتا تھا اور توشی کو بھی یہ رشتہ پسند ہے“

جمال کی پریشانی دور ہوگئی اُس نے بلال کو فون ملایا جوکہ اُس وقت LDA آفس سے نکل رہا تھا اپنے پلاٹ کی ٹرانسفر کے بعد ایک کنال کا پلاٹ جہاں وہ اسکول کے لیے بلڈنگ بنانا چاہتا تھا، جمال نے بلال کو کہا لڑکے اور اُس کے گھر والوں کو رات کے کھانے پر بلالو۔

 

بلال نے ڈاکٹر بٹ کو فون کرکے اطلاع دے دی۔ 

جب یہ خبر ناہید اور شعیب کو پتہ چلی تو دونوں نے طوفان کھڑا کردیا۔ 

”نہ میں یہ رشتہ ہونے دوں گی اور نہ ہی آپ زمین واپس خریدیں گے “ناہید دانت پیستے بولی تھی، جمال کی طرف دیکھ کر شعیب بھی وہیں موجود تھا ”غصب خدا کا آپ نے یہ سوچا بھی کیسے میری اجازت کے بغیر میں فیصلہ کرچکی ہوں یہ شادی نہیں ہوسکتی …… “وہ نہایت بدتمیزی سے بولی جمال کے ساتھ شعیب کی موجودگی میں اُس نے جمال کو ایسے ڈانٹ دیا جیسے آفیسر چپڑاسی کو ڈانٹ دیتا ہے۔

 

جمال نے غصے سے شعیب کی طرف دیکھا جو زیر لب مسکرایا تھا۔ اپنے باپ کو دیکھ کر اُس کی تذلیل پر، وہ اپنی ماں کی دلیری کو ستائش پیش کررہا تھا۔ 

جمال نے ایک زوردارطمانچہ شعیب کے منہ پر رکھ دیا ”آپ نے میرے بیٹے کو مار…… “وہ بھی اُس جگہ کی طرف بڑھ آئی جہاں پر شعیب اور جمال کھڑے تھے ۔ ناہید ایک دفعہ پھر بدتمیزی سے بولی جمال نے اُس سے بھی زیادہ زور سے دوسرا تھپڑ مارا ناہید کے گال پر ناہید کے چودہ طبق روشن ہوگئے تھے۔

 

یہ 30 سالہ ازواجی زندگی میں پہلی بار ہوا تھا کہ جمال رندھاوا نے ناہید پر ہاتھ اُٹھایا تھا ورنہ وہ ہمیشہ ناہید کی ہر بات ہر بدتمیزی برداشت کرلیتا بڑا دل کرکے ناہید اُسی جگہ زمین پر بیٹھ گئی اُس کے منہ سے رالیں گر رہیں تھی آف وائٹ ٹائلوں کے اوپر۔ اُسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اُس کے ساتھ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔

”اب ہر فیصلہ میں کروں گا اِس گھر میں“ جمال رندھاوا نے اُنگلی دکھاتے ہوئے ناہید اور شعیب سے کہا اور لاوٴنج سے نکل کر چلا گیا، جمال رندھاوا بھی بہت غصے میں تھا یہ عصر کے بعد کا واقعہ تھا جب ناہید اور شعیب اپنی فیکٹری سے لوٹے تھے اور لاوٴنج میں اُن کی ملاقات ہوگئی تھی ، نوشی اور توشی گھوڑے بیچ کر اب بھی سوئیں ہوئیں تھیں جب BG نے اُن کو جگایا۔

 

”اٹھو نوشی بی بی آپ بھی اٹھ جاوٴ توشی بی بی شام کی اذان ہونے والی ہے“BG نے ہاتھ سے ہلا کر دونوں کو کہا ”سونے دوBG“ توشی نے کمبل کے اندر سے کہا بیزاری سے ”سونے کیسے دوں آپ کو، ابھی تھوڑی دیر بعد آپ کے رشتے کے لیے مہمان آنے والے ہیں“ BG نے بڑی مسرت سے جواب دیا ”اٹھ جاوٴ میری بیٹی اور تیار ہوجاوٴ جلدی سے…… “

”رشتہ میرا …… “ توشی نے فکر مندی سے کہا۔

 

”ماما ایک بات کہوں“ شعیب بولا ناہید کو دیکھ کر جوکہ واش روم سے فریش ہوکر نکل رہی تھی اُس تھپڑ کے بعد شعیب نے اپنی ماں کو اُٹھایا اور اُس کے بیڈروم میں چھوڑا اور کہا میں فریش ہوکر آتا ہوں۔ ناہید کتنی دیر گم سم بیٹھی رہی پھر اُٹھ کر واش روم میں چلی گئی ناہید نے اپنے ابروں سے بولنے کا سگنل دیا شعیب کو۔

”آپ اِس رشتے کے لیے مان جائیں، اِس کے دو فائدے ہیں۔

 

پہلا نوشی کا رُعب رہے گا بلال پر اور دوسرا نوشی خود بات کرے گی بلال سے کہ ہمیں زمین نہیں چاہیے اِس طرح کروڑوں روپے کی بچت ہوجائے گی۔ نہ زمین خریدنی پڑے گی اور نہ روپیہ جائے گا بلال جیسا سیمپل کہاں ملے گا اسے کچھ بھی کہہ لو اُس نے کبھی جواب نہیں دیا“

ناہید کچھ دیر سوچتی رہی ”بات تو تمہاری کافی حد تک سمجھ میں آتی ہے …… مگر مجھے اِس لڑکے سے نفرت ہے …… میرا اِس کی شکل دیکھنے کو دل نہیں چاہتا …… داماد کیسے بنالوں“

”ماما وہ کون سا آپ کے سامنے آتا ہے ویسے بھی آپ سے ڈرتا ہے“ شعیب نے ناہید کو بتایا۔

 

”رشتہ میرا مگر کیسے ……؟ “ توشی نے بیڈ سے اُترتے ہوئے کہا خود سے دوسری طرف نوشی بیڈ سے اپنی ٹانگیں نیچے کرکے بیٹھی ہوئی تھی اُس نے دل میں کہا ”تم جو بھی کرلو یہ شادی ہوکے رہے گی“

اتنے میں گیٹ سے آواز آتی ہے ہارن کی ”بلال کی گاڑی“ توشی ٹیرس کی طرف بھاگی بلال مغرب سے کچھ دیر پہلے گاڑی سے اُترتا ہے ”یہ اس وقت“ توشی نے بلال کو دیکھ کر منہ میں کہا بلال ہمیشہ مغرب کی نماز پڑھ کر گھر آتا تھا۔

 

توشی کو کچھ تشویش ہوئی پیر کا دن تھا اور بلال کا روزہ بھی تھا ہمیشہ وہ بابا جمعہ کے ساتھ روزہ افطار کرتا لیکن جب بابا جمعہ کو پتہ چلا کہ بلال کو بہت تیز بخار ہے تو انہوں نے حکم دیا کہ تم گھر چلے جاوٴ اور روزہ وہیں افطار کرنا۔

جب توشی بلال کے کمرے میں پہنچی تو وہ فروٹ ،کھجوریں اور دودھ دسترخوان پر رکھ چکا تھا اور وہ کچن میں دودھ میں جوکا دلیہ پکا رہا تھا۔

 

”کیا کررہے ہو اور تم اس وقت کیسے ؟“ توشی نے جاتے ہی پوچھ لیا ایک ساتھ جلدی سے۔

”دلیہ پکارہا ہوں …… دودھ والا…… “ بلال چمچ ہلاتے ہوئے بولا تھا۔ 

”تمہارے کھانے بھی مریضوں والے“ جب توشی نے مریضوں کہا تو اُس کے دماغ میں گھنٹی بجی”اِسے تو کل رات کو تیز بخار تھا“ وہ جلدی سے بلال کے پاس آئی اُس کی پیشانی پر اپنا سیدھا ہاتھ رکھا ”تمہیں تو اب بھی تیز بخار ہے“ وہ پریشانی سے بولی ”ہٹو میں بنادیتی ہوں“”بس ہوگیا ہے“ بلال چولہا بند کرتے ہوئے بولا موٴذن نے اللہ اکبر اللہ اکبر کی عظیم صدا لگائی مغرب کی اذان ہورہی تھی۔

 

بلال اپنے بیڈ کی طرف ہولیا جہاں اُس نے افطاری کے لیے دسترخوان سجایا تھا توشی اُس کے پیچھے ہولی ”تمہارا آج بھی روزہ تھا…… اتنے تیز بخار میں …… “توشی حیرت سے بولی ”سحری بھی کی تھی یا ایسے ہی “

”دودھ پیا تھا شہد ڈال کر“ بلال منہ میں کھجور ڈالتے ہوئے بولا”آجا وٴ تم بھی کھالو…… ناشتہ سمجھ کر ہی“ بلال اطمینان سے توشی کو دیکھ کر مخاطب تھا ”افطاری اور ناشتہ ساتھ ساتھ یہ بھی خوب کہی“ توشی نے گلاس میں دودھ ڈالا اور پینے لگی”بلال تمہارے پاس دودھ بڑا مزیدار ہوتا ہے مزا آجاتا ہے“ گلاس رکھتے ہوئے بولی ”اقبال بھائی نے خود چار بھینسیں رکھی ہوئی ہیں“

”یہ لو …… آئی تھی غصے میں تمہیں دیکھ کر غصہ ختم ہوگیا ہے، BG بتارہی تھی …… “ ”ہاں ڈاکٹر محسن رضا اور اُس کی امی آرہی ہیں رات کے کھانے پر“ بلال نے فوراً جواب دے دیا توشی کی طرف دیکھ کر۔

 

”بلال مجھے ڈر ہے …… کہیں تم میری بہن سے شادی کرکے غلطی تو نہیں کررہے ہو“ توشی نے فکرمندی سے کہا ”شادی کا فیصلہ تو ٹھیک ہے لیکن کچھ گڑبڑ ضرور ہے نوشی کے پیچھے کوئی ہے اور اُسے خبر بھی نہیں ہے۔ اچھا وہ لڑکی اُس کی جاب کے لیے کس نے کہا تھا تم سے“ توشی نے چند لمحے سوچا ”کون لڑکی ہاں وہ نیناں میں تو اُسے اچھی طرح سے جانتی بھی نہیں ہوں وہ تو مجھے اِرم واسطی نے ریکوسٹ کی تھی کہ آپی میری دوست ہے“

”اِرم واسطی …… مگر میرا پیچھا تو دو ماہ سے ایک لڑکا کررہا ہے …… خیر چھوڑو دلیہ کھاوٴ گی؟“ بلال نے بات بدلی توشی کی پریشانی دیکھ کر۔

 

”میں نہیں یہ دلیہ ولیہ کھاتی۔ یہ مریضوں کے ساتھ ساتھ غریبوں کے بھی کھانے ہیں …… دلیہ، کھچڑی، چائے رس وغیرہ وغیرہ “توشی نے بلال کا مذاق اُڑایا۔

”تم تو اب بٹوں کے کھانے کھاوٴ گی جیسے بونگ پائے، نہاری، پراٹھے، کلچے وغیرہ وغیرہ “ بلال نے حساب برابر کردیا۔ ”شٹ اپ بلال “ توشی ادا سے بولی ”جاوٴ اور تیار ہوجاوٴ وہ لوگ آنے والے ہیں“ بلال نے توشی کو بھیج دیا۔

###

”اُس کی بڑی عادتیں میرے دادا جی سے ملتی ہیں، وہ بھی ہفتے میں دو روزے رکھتے تھے۔ میرے دادا جی نے سارے علاقے کے بچوں کو قرآن شریف پڑھایا۔ سال میں تین چار بار ایسے ہی ہاسپٹل میں خون دے آتے نماز کی پابندی کرتے ہر سال زکوٰة دیتے۔ میرے دادا جی کے پاس کوئی ضرورت مند آگیا وہ اُسے خالی ہاتھ نہ جانے دیتے ہمارے ڈیرے پر رونق لگی رہتی مہمانوں کی جس کو پھونک مار دیتے وہ ٹھیک ہوجاتا دادا جی نے کبھی ایک روپیہ حدیہ، نذرانہ، یا تحفہ نہیں لیا تھا کسی سے بلکہ اُلٹا اپنی جیب سے دیتے تھے۔

 

میں دو ماہ سے بلال کا پیچھا کررہا ہوں مجھے کوئی عیب یا بُرائی نظر نہیں آتی اُس میں “ ولید ہاشمی بتا رہا تھا اِرم واسطی کو۔

”ساری محنت ضائع گئی، DJ بتارہا تھا آج دونوں بہنوں کی بات پکی ہوجائے گی“اِرم واسطی نے افسردگی سے کہا ”کچھ ہاتھ بھی نہیں آیا“

”ہاتھ تو بہت کچھ آئے گا تم تیل دیکھو اور اُس کی دھار دیکھو …… تم نے نام سُنا ہے انڈسٹریلسٹ عقیل ہاشمی کا وہ میرے سگے چچا ہیں“

”وہ جو فیز 5 میں رہتے ہیں اور اُن کی سرامکس کی فیکٹری ہے“ اِرم واسطی نے حیرت سے ولید ہاشمی کو دیکھا ”وہ تمہارے سگے چچا ہیں“ ولید نے اپنے سر کو اثبات میں جنبش دی ”اُن کی کسی بیٹی پر نظر ہے“ اِرم واسطی نے جانچی نگاہوں سے سوال کیا۔

 

 

 

”نہیں نہیں اُن کا صرف ایک بیٹا ہی ہے عادل عقیل ہاشمی“ولید ہاشمی نے بتایا۔

”تو …… پھر …… کیسے “اِرم واسطی ولید کا پلان جاننا چاہتی تھی۔ کسی پارٹی میں ناہید رندھاوا کی ولید ہاشمی سے ملاقات ہوئی تھی اور کسی نے اُن سے ولید کا تعارف اِس طرح سے کروایا تھا کہ یہ مشہور انڈسٹریلسٹ عقیل ہاشمی کا بھتیجا ہے۔ تب سے ولید اُن کی آنکھوں میں آگیا تھا ناہید رندھاوا عقیل ہاشمی کی نیک نامی کو اچھی طرح جانتی تھی۔

 

تب سے وہ ولید میں انٹرسٹیڈ تھی نوشی کے لیے۔

”یہ شرافت بھی بڑے کام کی چیز ہوتی ہے۔ میرے دادا کی نیک نامی اور شرافت کو میرے باپ نے کیش کیا بلکہ کررہے ہیں۔ پیر صاحب بن کر، بڑے میاں جی جلیل احمد ہاشمی کا بیٹا پیر داوٴد ہاشمی میرے ابا ڈبہ پیر۔ چچا عقیل نے بہت سمجھایا کہ اباجی نیک بندے تھے وہ اللہ کے فقیر تھے فقیری کی جگہ پیری کو نہ لاوٴ مگر اباجی کو نذرانوں کا چسکا لگ چکا تھا اور وہ جھوٹے پیر بن گئے چچا چھوٹی عمرمیں گھر چھوڑ کر لاہور آگئے دادی کو بھی ساتھ لے آئے پھر مڑ کر حجرہ شاہ مقیم کی طرف نہیں دیکھا، دادا کی نیک نامی اُن کے ساتھ آئی اب اُن کی نیک نامی کو کیش کرنے کا وقت آگیا ہے“ ولید دور دیکھ رہا تھا اپنے تصور سے مستقبل میں جہاں وہ شارٹ کٹ سے پہنچنا چاہتا تھا۔

 

 

###

”اب ہر بندہ شارٹ کٹ سے امیر بننا چاہتا ہے محنت کرنے سے سارے گھبراتے ہیں بہن جی“ جمال رندھاوا ڈاکٹر بٹ کی والدہ سے مخاطب تھے، جوکہ ڈنر سے فارغ ہوچکے تھے اور گپ شپ لگارہے تھے ڈاکٹر محسن رضا بٹ کی والدہ اپنے خاوند رضابٹ کی محنت کی داستان سُنارہی تھیں انہوں نے ساری بات ایمانداری سے بتا دی اپنے فیملی بیک گراوٴنڈ کے بارے اپنے کاروبار کے بارے میں اور اپنے بیٹوں کے بارے میں اور اُن کی محسن کے ساتھ زیادتی کے بارے میں ”بلال نے ہمارا شادباغ گول چکر کے پاس والا مکان دیکھا ہوا ہے اکثر یہ محسن کے ساتھ آتا تھا۔

 

سامنے ملک جلال کے چھوٹے بھائیوں سے بھی اِس کی سلام دُعا تھی“ ڈاکٹر بٹ کی والدہ نے بلال سے اپنے دیرینہ تعلقات کے بارے میں بتایا۔

جمال رندھاوا ناہید اور جہاں آرا نے بلال کی طرف دیکھا توشی اور محسن آنکھوں سے چیٹنگ کررہے تھے۔ شعیب اپنے Mobile پر بزی تھا۔ اور نوشی بلال کو دیکھ رہی تھی جو خاموش گردن جھکائے بیٹھا ہوا تھا، دراصل بلال کی چوری پکڑی گئی تھی۔

 

کالج کے دنوں میں بلال محسن کے ساتھ شادباغ اپنے دونوں چچاوٴں سے ملنے کے لیے جاتا رہتا تھا بغیر اپنا تعارف کروائے ہوئے اُس نے اپنے چچاوٴں کو کبھی نہیں بتایا تھا کہ وہ اُن کا بھتیجا ہے ملک جلال احمد کا بیٹا ملک بلال احمد وہ صرف بلال بن کر ملتا رہا تھا۔ وہ اس لیے اُن سے ملتا تھا وہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ اپنے کیے پر نادم ہیں کہ نہیں اُس کی ماں کو گھر سے کیوں نکالا تھا اور اُن کا ایک بھتیجا بھی تھا۔

 

اُن کا اپنا خون اُن کے بھائی جلال کی نشانی بلال نے اس دن سے اُدھر جانا چھوڑ دیا جب اُسے پتہ چلا کہ اُس کے چچاوٴں کو اپنے کیے پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا۔ اب وہ مہینے میں ایک بار ضرور شادباغ جاتا تھا اپنے باپ کی قبر پر دعا کے لیے۔

”آپ جانتی ہیں ملک جلال احمد کو …… “ جمال رندھاوا نے پوچھا عذرا محسن کی ماں سے ”جانتی …… وہ میرا چھوٹا بھائی بنا ہوا تھا۔

 

بھابھی نہیں کہتا تھا۔ باجی عذرا کہاکرتا تھا۔ دوست تو وہ بٹ صاحب کا تھا حالانکہ بٹ صاحب سے کوئی آٹھ دس سال چھوٹا ہوگا پھر بھی دونوں میں بہت دوستی تھی۔ ایک دن اچانک کہنے لگا باجی پرسوں میرا نکاح ہے اُسی دن یہ ڈاکٹر محسن پیدا ہوا تھا۔ میں لیڈی ایچی سن ہسپتال سے واپس گھر پہنچی تھی۔ میرے جسم میں اب بھی اُس کا خون ہے۔ ایک بوتل خون بھی دیا تھا۔

 

میری ڈلیوری کے وقت۔ اُس کی بیوی بھی لاکھوں میں ایک تھی۔ پھر کس کی نظر لگ گئی…… 

رات کو جلال کو درد ہوا سینے میں بٹ صاحب لے کر گئے ہسپتال پر رستے مین ہی دم دے دیئے اُس کی بیوی بھری جوانی میں اُجڑ گئی۔ جلال کے بھائیوں نے گھر سے نکال دیا بیچاری کو۔ بٹ صاحب نے کہا تم میری بہن ہو میر ے گھر پر رہو کہنے لگی میرا لالہ زندہ ہے آپ بھی میرے بھائی ہو میں اپنے لالہ کے گھر پر رہوں گی۔

 

میرا لالہ جلال کے بھائیوں جیسا نہیں ہے بہت اچھا ہے میرا لالہ“

جمال رندھاوا کی آنکھیں آنسووٴں سے چمک اُٹھی تھیں۔ عذرا نے اُن کی طرف دیکھا تو جمال نے نظریں جھکالیں وہ جمال کے چمکتے آنسو نہیں دیکھ سکی۔

”اپنے جس لالہ پر اُسے مان تھا۔ وہ بھی نکھٹو نکلا۔ اُس کی بھرجائی ظلم کرتی رہی جمیلہ پر اور وہ تماشہ دیکھتا رہا۔ پھر ایک دن خبر آئی کہ جمیلہ پاگل ہوگئی ہے۔

 

چند دن بعد اُس کے مرنے کی خبر ملی لعنت ہے ایسے بھائی پر لکھ لعنت فٹے منہ، میں بھی پاگل ہوں کون سی باتیں اِس خوشی کے موقعے پر لے کر بیٹھ گئی بس آپ نے جلال کا نام لیا تو میرا دل بھر آیا …… مگر آپ کیسے جانتے ہیں ملک جلال کو“ عذرا نے پوچھا جمال سے جو گردن جھکائے بیٹھا تھا اور خاموش تھا ”بس جاننے والا تھا ملک جلال“ جمال نے جواب دیا جُھکی ہوئی گردن کے ساتھ۔

 

”میں تو جب بھی اُن کے بیٹے کا سوچتی ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے بلال نام تھا اُس کا …… “ بلال نام نے عذرا کے دماغ کا فلیش بیک کا بٹن ON کردیا اُن کے ذہن میں پروجیکٹر ON ہوگیا تھا جس پر یادوں کا نیگٹو چل رہا تھا وہ کھلی ہوئی آنکھوں سے ماضی دیکھ رہیں تھیں۔

اُس نے بلال کی طرف دیکھا جو وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا تھا۔ جہاں آرا اپنے پلو سے آنسو صاف کررہیں تھیں۔

 

نوشی اور توشی بھی آبدیدہ تھیں۔ جمال کے اشک اُس کے اپنے گھٹنوں پر گر رہے تھے۔ ناہید اور شعیب پھٹی پھٹی نگاہوں سے ایک دوسرے کو تک رہے تھے ۔ عذرا سب کچھ جان چکی تھی۔ اِس خاندان کے بارے میں اُس نے ڈاکٹر محسن سے کہا جو حیرت کی تصویر بنا ہوا سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ 

”اٹھو بیٹا یہ بڑے لوگ ہیں …… ہمارا اِن کے ساتھ نبھا نہیں ہوسکتا ہے“ ڈاکٹر محسن نے اپنی ماں کے حکم کی تعمیل کی اور اُٹھ گیا بغیر کچھ بولے ہوئے توشی جاتے ہوئے اُن کو دیکھ رہی تھی ڈاکٹر بٹ نے لاوٴنج سے نکلنے سے پہلے مڑ کر دیکھا اُس کی ماں آگے تھی اور وہ پیچھے تھا توشی نم آنکھوں سے اُسے دیکھ رہی تھی۔

 

ڈاکٹر بٹ نے توشی کو آنکھوں سے تسلی دی اور ہاتھ سے اشارہ کیا فکر نہ کرنا۔

بلال اپنے کمرے میں اپنے ماں باپ کی تصویر ہاتھ میں لیے ہوئے کھڑا تھا جو کہ ایک خوبصورت فریم میں سجی ہوئی تھی۔ یہ تصویر ہمیشہ وہ اپنے تکیے کے نیچے رکھتا تھا کبھی کسی کو پتہ نہیں چلا اُس کے روم کے دروازے پر دستک ہوئی اُس نے وہ تصویر تکیے کے نیچے رکھی اور آواز لگائی زخمی آواز کے ساتھ ”آجائیں دروازہ کُھلا ہے“

جمال رندھاوا کمرے میں داخل ہوتا ہے بلال کا چہرہ ٹیرس کی طرف تھا جمال چلتا ہوا اُس کے پیچھے کھڑا ہوگیا اور اپنے دونوں ہاتھ بلال کے کندھوں پر رکھتے ہوئے لرزتی آواز میں بولا ”اپنی ماں کے نالائق لالہ کو معاف کردو …… بلال صاحب …… معاف کردو اپنی ماں کے نالائق لالہ کو …… “

جمال رندھاوا بلک بلک کر رورہا تھا۔

 

ایک شیر خوار بچے کی طرح۔ بلال کی آنکھوں میں آنسو جم چکے تھے گلیشیر کی برف کی طرح وہ خاموش تھا۔ دروازہ کُھلا ہوا تھا جہاں آرا بھی کمرے میں داخل ہوئیں اور اُس کے پیچھے نوشی اور توشی بھی تھیں۔

”بلال بیٹا معاف کردو اپنے مامے کو“ جہاں آرا نے بلال سے کہا۔

”نانو میں ناراض ہی کب تھا ماموں سے “بلال نے جمال کے جوڑے ہوئے ہاتھوں کو چوما اور اپنے ہاتھوں سے اُن کے آنسو صاف کیے اور اُن کو بڑے ادب سے دیوان پر بٹھایااورد وزانو اُن کے سامنے بیٹھ کر بولا ”میں آپ کی بہن کی قسم کھا کر کہتا ہوں میں آپ سے ناراض نہیں ہوں“ جمال رندھاوا نے بلال کو اُٹھایا اور اپنے گلے لگالیا ”مجھے فخر ہے کہ تم میری بہن کے بیٹے ہو“ جمال رندھاوا تفاخر سے بولا ”مجھے فخر ہے تم پر …… “

سب خوشی خوشی جاچکے تھے اپنے اپنے کمروں میں بلال اپنے بیڈ پر بیٹھا ہوا تھا کمبل کے اندر اپنے ماں باپ کی تصویر ہاتھوں میں لیے دروازے پر پھر سے عاجزانہ دستک ہوئی۔

 

 

”YES“ بلال نے اجازت دی توشی ہارے ہوئے جواری کی طرح کمرے میں داخل ہوئی جو اپنی پہلی ہی بازی میں سب کچھ ہار چُکا ہو۔

 

وہ بلال کے سامنے روہانسی کھڑی تھی حواس باختہ خالی ہاتھ کنگال کھوئی کھوئی سی۔ بلال نے اُسے دیکھا تو فوراً اُٹھا اور اُسے کرسی پر بٹھایا اور خود اُس کے سامنے بیڈ پر بیٹھ گیا ۔ 

”کیا ہوا …… سب ٹھیک تو ہے“ بلال نے فکر مندی سے پوچھا۔

 

”عذرا آنٹی نے رشتے سے انکار کردیا ہے ابھی محسن کا میسج آیا“توشی کی آواز پاتال سے آئی ”تم جاکر سوجاوٴ …… میں خالہ عذرا سے خود بات کروں گا“ بلال نے تسلی دی مگر توشی کو تسلی نہیں ہوئی بلال نے اپنا ہاتھ توشی کے سرپر رکھا اُس نے بلال کی آنکھوں میں دیکھا وہاں اُسے پاک محبت نظر آئی اپنے لیے۔ اُس سے بڑھ کر وہ محبت جو حیا کا لباس پہنے ہوئے تھی وہ محبت جو روح کو روح سے ہوتی ہے جسموں کی قید سے آزاد وہ محبت جو سورج کی کرنوں کو انسانی جسم سے ہے وہ صرف جسم کو حرارت پہنچاتی ہیں جلاتی کبھی نہیں ہیں۔

 

توشی اٹھی اور اپنے کمرے میں آکر لیٹ گئی اپنے بیڈ پر نوشی کے پہلو میں منہ دوسری طرف کرکے اُس کے لیٹتے ہی نوشی نے اُسے پکڑا اور اُس سے چمٹ گئی۔

”پلیز مجھے معاف کردو“ نوشی روتے ہوئے بول رہی تھی ”مجھے تمہارے جیجا جی کی طرح باتیں نہیں آتیں آفٹر آل میں تم سے 5 منٹ بڑی ہوں“ یہ سُن کر توشی مسکرااُٹھی اُس کا چہرہ کلی کی طرح کھل گیا اب دونوں بہنیں بیڈ پر بیٹھ چکی تھیں اور ایک دوسری سے لپٹی ہوئیں تھیں ”5 منٹ کی بچی“ توشی نے الفاظ دہرائے اُسی انداز میں۔

 

”تمہیں سمجھ آ ہی گئی “ توشی نے نوشی کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا ہوا تھا۔ 

”تم دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی ہو جو بلال کی دلہن بنو گی۔ وہ واقعی لاکھوں میں ایک ہے میں آج بہت خوش ہوں“ توشی چہک چہک کر بتا رہی تھی۔ 

”مگر وہ لوگ تو …… مجھے نہیں لگتا کہ آنٹی ہمارے ماں باپ کی اصلیت جان کر بھی اِس رشتے پر رضامند ہوں گی“ نوشی نے سنجیدگی سے کہا آج پہلی بار وہ اتنی سنجیدہ تھی۔

 

 

”مگر تم پھر بھی اتنی خوش ہو“ توشی کے چہرے پرمسکراہٹ اُبھر آئی ”میں تمہاری خوشی میں خوش ہوں ڈفر تمہارے لیے اور جہاں تک میری بات ہے بلال سب ٹھیک کردے گا۔ بلال کہتا ہے کسی کے غم میں شریک ہونا اتنی بڑی بات نہیں جتنی بڑی بات کسی کی خوشی میں شریک ہونا ہے“

نوشی کی آنکھوں میں فتح کی خوشی تھی ”واقعی تمہارا جیجا جی لاکھوں میں ایک ہے“ اُس نے شرماتے ہوئے کہا اور توشی کے گلے لگ گئی۔

 

###

اگلے دن بلال کے ساتھ جہاں آرا بیگم اور جمال رندھاوا ڈاکٹر محسن رضا کے گھر پہنچے بلال نے محسن کو اپنے آنے کی اطلاع کردی تھی۔ اُس کو کہا تھا اپنی والدہ کو مت بتانا ہمارے بارے میں محسن نے اپنی ماں سے کہا کچھ مہمان آرہے ہیں۔ کھانے کا بندوبست کروادیں۔ عذرا رات کا کھانا تیار کروانے کے لیے خانساماں کے ساتھ کچن میں تھیں۔ جب وہ لوگ اُن کے گھر پہنچے محسن نے اُن کا استقبال کیا باہر مین گیٹ پر اور انہیں بڑے ادب سے لاوٴنج میں بٹھایا جہاں آرا ایک سمدھن کی طرح سارے گھر کا جائزہ لے رہیں تھیں۔

 

”فیصل ٹاوٴن میں ایک کنال کا گھر کیوں جمال گھر بار تو ٹھیک ہے“ جہاں آرا نے گھر کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے بیٹے سے کہا تھا۔ ”جی ماں جی لوگ بھی اچھے ہیں“ جمال نے تائید کی اپنی ماں کی محسن اور بلال وہاں نہیں تھے۔ بلال کچن میں چلا گیا تھا۔ جہاں عذرا کھانے تیار کروانے میں مصروف تھی۔ اُن کا منہ دوسری طرف تھا۔ بلال نے اُن کے پیچھے کھڑے ہوکر کہا۔

 

”اسلام علیکم پھوپھو جان“ عذرا اچانک چونک کر پلٹی بلال کو دیکھ کر عذرا کی آنکھوں میں چمک تھی ”پھوپھو صدقے پھوپھو واری میرا بچا“ عذرا نے بڑھ کر بلال کو گلے لگالیا تھا۔ 

”تم تو ہمیشہ سے مجھے خالہ جی کہتے آئے ہو۔ آج یہ پھوپھو کیسے بن گئی تمہاری میں …… “

عذرا نے خوشی خوشی پوچھا ”وہ ایسے آپ میرے ابا کی شادی کے پہلے ہی سے، اُن کی بہن ہیں تو اصل اور خالص رشتہ تو وہی ہوا نا“ بلال دھیمی آواز میں بولا۔

 

”بلال بیٹا ہم تین بہنیں ہیں ہمارا بھائی کوئی نہیں تھا۔ اِس لیے تیرے باپ کو بھائی بنالیا تھا مجھے خالہ کہنے والے تو بہت سارے ہیں۔ پھوپھو کبھی کسی نے نہیں کہا اب تم مجھے ہمیشہ پھوپھو ہی کہو گے“

”پھوپھو جان آپ کے بھائی کی قسم میں نے کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا آج مانگتا ہوں اس رشتے پر مان جائیں“ بلال نے بغیر توقف کے اپنے آنے کا مقصد بیان کردیا ۔

 

”بیٹا آج تو میری جان بھی مانگتا تو دے دیتی …… یہ آج کل کے بچے بزرگوں کو شدائی سمجھتے ہیں میں تو دوپہر کو ہی سمجھ گئی تھی جب محسن نے کہا مہمان آرہے ہیں …… ایک بات یاد رکھنا ہاں میں نے تمہاری وجہ سے کی ہے۔ ماں کو اپنے بچے سب سے پیارے ہوتے ہیں مجھے اپنے تینوں بیٹے پیارے ہیں مگر میرے بیٹوں میں سے ایک بھی تیرے جیسا نہیں ہے سب نالائق ہیں …… “

”یہ لو …… “ ڈاکٹر بٹ نے توشی کی نقل اُتاری خوشی میں جُھوم کر۔

 

”پھوپھو دیکھ لیں ابھی سے اُس کی بولی بول رہا ہے“ بلال نے عذرا سے کہا سب کھل کر ہنس دیئے۔

”بلال بیٹا مجھے رات بہت غصہ تھا تیرے ماموں پر اس لیے میں وہاں سے آگئی تھی میں نے رشتہ کے لیے رضامندی ظاہر کردی ہے انہیں ابھی مت بتانا میں اپنے حساب سے بات کروں گی“

عذرا بڑے اخلاق سے ملتی ہے۔ جمال اور اُس کی ماں سے رات کا کھانا عذرا نے اپنی خاندانی روایت کے مطابق کیلوریز سے بھرپور تیار کروایا تھا پیور لاہوری کھانا۔

 

”بہن جی آپ کل ناراض ہوکر چلی آئیں۔ اچھا کیا آپ نے مجھے جھنجھوڑا میری اوقات یاد کرائی مجھے۔ آپ کے جانے کے بعد میں نے بلال سے معافی مانگی۔ آج صبح سترہ سال بعد اپنی بہن کی قبر پر گیا اُس سے معافی مانگنے کے لیے میرے گناہوں کی سزا میری بیٹی کو نہ دیں اُس نے رات سے کچھ نہیں کھایا“ جمال رندھاوا نے عذرا سے کہا سنجیدگی سے توشی اپنے بیڈروم میں پہلے ہی سے پیزامنگواکر بیٹھی ہوئی تھی۔

 

جیسے ہی عذرا نے کچن میں حامی بھری اُسی لمحے ڈاکٹر محسن نے توشی کو میسج کردیا تھا۔ امی نے بلال کی وجہ سے ہاں کردی ہے۔ میسج پڑتے ہی ”ہپ ہپ ہورے نوشی مجھے مبارک دو آنٹی مان گئیں“ اور پیزے پر ٹوٹ پڑی کھانے کے لیے SMS اور DJ بھی وہیں کھڑے ہوئے تھے۔ 

”آپی تھوڑی نظریں کرم اِدھر بھی ہوجائے۔ دعائیں کرکرکے میرا تو گلہ خشک ہوگیا ہے“ SMS نے پیزا سے اپنا حصہ مانگا اور DJ نے اُس کی تائید کی۔

 

 

توشی کے بیڈ روم میں پیزا پارٹی جاری تھی اِس دوران 

”بھائی صاحب بلال نے مجھ سے ہاں کروالی ہے لیکن میری کچھ شرطیں ہیں“ عذرا نے کہا جمال نے مسرت بھرے لہجے میں پوچھا ”کہیں کہیں آپ کی ساری شرطیں مجھے قبول ہیں “ جہاں آرا کی آنکھیں چمک اُٹھی تھیں۔ بلال دیکھ رہا تھا محسن کی طرف جس کے چہرے پر مسرت تھی جسے وہ بلال سے چھپانا چاہ رہا تھا۔

 

”آج سے لے کر ہماری زندگیوں تک ہمارے سارے معاملات آپ خود دیکھیں گے توشی کی ماں کا عمل دخل اُن میں نہیں ہوگا۔ بڑی کپتی ہے آپ کی بیوی اور دوسری بات کل ہم لوگ منگنی کی رسم ادا کرنے آرہے ہیں اور کل ہی ہم دن بھی رکھ لیں گے اور آخری بات بارات ہماری بہت زیادہ ہوگی اور بارات کا کھانا بہت اچھا ہونا چاہیے “ عذرا نے اپنی ساری شرطیں بتادیں ”مجھے آپ کی ساری شرطیں منظور ہیں۔

 

کل سال کا پہلا دن ہے آپ کل آجائیں ایک گزارش میری بھی سُن لیں جنوری میں میری بہن کی برسی ہے اور فروری میں اباجی کی۔ شادی ہم مارچ تک کرسکتے ہیں“ جمال نے جواب دیا۔

”مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ویسے بھی دو مہینے تو تیاری میں لگ جائیں گے “عذرا نے کہا

جمال اور اُس کی ماں وہاں سے آگے بلال کو عذرا نے روک لیا اور جمال سے کہا”محسن چھوڑ آئے گا بلال کو آپ بے فکر ہوجائیں“

”کل منگنی پر تم ہمارے ساتھ چلو گے ہماری طرف سے“ عذرا نے بلال کو حکم دیا۔

 

”پھوپھو اور کون کون ہوگا“ بلال نے پوچھا۔

”کوئی نہیں ہم تینوں ہی بس“ عذرا نے خفگی سے کہا۔

”معاف کردیں اُن کو آخر وہ محسن کے بھائی ہیں“ بلال نے درخواست کی ”اس کے بھائی ہوتے تو اِسے برابر حصہ دیتے باپ کی جائیداد سے دونوں سائڈو سائڈو بن گئے بھائی نہ بنے اِس کے اور میری بہن اُس نے ایک دفعہ بھی اپنی بیٹیوں کو نہیں سمجھایا۔

 

جن کی پڑھائی ہوئی پبٹی تھی سلمان اور عثمان کو رہنے دو“ عذرا اپنے فیصلے پر ڈٹ گئی تھی۔

”پھوپھو اگر سلمان اور عثمان بھائی کو آپ معاف نہیں کرسکتیں تو پھر میں بھی آپ کے ساتھ نہیں جاسکوں گا“ بلال نے نفرت کی جمی ہوئی برف کو محبت کی حرارت سے پگھلانے کی کوشش کی اور آخر میں وہ کامیاب ہو ہی گیا عذرا نے بلال کی یہ بات بھی مان لی۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page