top of page

شکیل احمد چوہان - بلال صاحب

اگلے دن یکم جنوری 2014ء کو عذرا اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ ڈیفنس پہنچی منگنی کی رسم ادا کرنے کے لیے کہاں 3 لوگ اور کہاں 30 افراد جمال کو اُن کی خوش خوراکی دیکھ کر اندازہ ہوگیا تھا، کہ شادی پر کیا ہونے والا ہے۔ ناہید رندھاوا بظاہر خوش نظر آرہی تھی اندر سے وہ اِن دونوں رشتوں سے خوش نہیں تھی۔ توشی کا تو اُسے شروع سے پتہ تھا کہ یہ اپنے باپ کی مرضی ہی سے شادی کرے گی مگر نوشی کا بلال کے حق میں فیصلہ دے دینا اُسے ہضم نہیں ہورہا تھا۔

 

اُس نے صرف شعیب کی اُس بات کی وجہ سے ہتھیار ڈالے تھے کہ اِس طرح جائیداد سے حصہ نہیں دینا پڑے گا۔ اگر جمال رندھاوا بلال کی ماں کا قرض اُتارتا تو جائیداد کا تقریباً تیسرا حصہ چلا جاتا کیونکہ وہ زرعی زمین اب کمرشل ہوچکی تھی۔ جمیلہ کی زرعی زمین کے پاس ایک گریڈ اسٹیشن بن گیا تھا جس کی وجہ سے اُس پسماندہ علاقے کی سُنی گئی تھی اور زمین کی قیمتیں آسمان کو چھورہیں تھیں۔

 

 

 

 

شادی کی تاریخ رکھنے پر کچھ اختلاف تھا، پھر معاملات طے پاگئے۔ ڈاکٹر محسن کی بارات ہفتہ 15مارچ کو طے پائی اور ولیمہ کی دعوت 16 مارچ کو رکھی گئی تھی۔

بلال نے نوشی سے مشورے کے بعد جوکہ اُس نے دوپہر ہی میں کرلیا تھا۔ اپنی خواہش کا اظہار کردیا تھا۔ بلال چاہتا تھا کہ اُس کا نکاح 14 مارچ بروز جمعہ ہو جمعہ کی نماز کے بعد مسجد میں اور نکاح بابا جمعہ پڑھائیں جس میں وہ اپنے چند قریبی دوستوں کو مدعو کرنا چاہتا تھا، اعجاز جنجوعہ اور اُس کے گھر والے، فوزیہ کی فیملی، ڈاکٹر عظمی کی فیملی، طارق رامے، عادل عقیل اور اقبال چائے والا اور یہی مہمان اُس کے ولیمے کی دعوت میں تھے۔

 

اور ولیمہ وہ 17 مارچ بروز پیر کرنا چاہتا تھا جس میں وہ کھجوریں اور دودھ سے مہمانوں کی تواضع کرنا چاہتا تھا۔ جس پر شدید اعتراض ہوا کیونکہ نوشی بلال کے ساتھ تھی اور بعد میں جہاں آرا بیگم بھی جلدی سے مان گئیں اس لیے فیصلہ بلال کی منشا کے عین مطابق ہوا تھا۔

”یہ شادی ہورہی ہے یا قلوں کا ختم“ ناہید نے طعنہ دیا تیکھے انداز سے جمال رندھاوا نے قہر آلود نگاہوں سے ناہید کی طرف دیکھا جس نے غصے سے نظریں چُرالیں تھیں۔

 

###

شادی کی تاریخ طے ہونے کے دو ہفتے بعد ایک دن دونوں بہنیں گفتگو کر رہی تھیں۔

”ماما نے ٹھیک کہا تھا۔ شادی ایک بار ہوتی ہے۔ تمہاری شادی تقریباً ختم نیاز جیسی لگ رہی ہے شکر ہے بلال نے مینیو میں بُھنے چنے اور کیا کہتے ہیں۔ وہ سفید سفید گول گول جو میٹھے ہوتے ہیں“ توشی بول رہی تھی نوشی کو تنگ کرنے کے لیے۔

”مخانے جی مخانے“ SMS نے لقمہ دیا جو دونوں بہنوں کو اورنج جوس دینے آیا تھا ”دفعہ ہوجاوٴ SMS ۔

 

تم سے کسی نے پوچھا ہے“ نوشی غصے سے بھڑکی ”ٹھیک ہے نوشی آپی میں نے تو صرف مخانے کہا ہے اور بس …… “SMS وہاں سے چلا گیا۔

”میں سوچ رہی ہوں تمہیں کسی سائیکاٹرسٹ کو چیک کرواوٴں بائی داوئے بلال نے تمہیں کنوینس کیسے کرلیا“ توشی حیران ہوکر بولی۔

”اس دن دوپہر کو بلال نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا تھا۔ میں بہت کنفیوز تھی۔ وہ میرے سامنے جسٹ دو فٹ کی دوری پر بیٹھا تھا۔

 

اُس نے پہلی بار مجھے آنکھ اُٹھا کر دیکھا پہلی بار مجھے ایسا لگا جیسے میری سانس رُک گئی ہو میرا گلا خشک ہوگیا مجھے ایسے لگا جیسے اُس نے مجھے قید کرلیا ہو، اپنی آنکھوں کی جیل کے اندر اور میں اُس کی محبت کی قید میں ہوں “ نوشی یہ بتاتے ہوئے رُکی اُس نے ٹھنڈی آہ لی۔”واللہ اُس کی آنکھیں بہت خوبصورت ہیں۔ میرا ڈوب جانے کو دل چاہا تم صحیح کہتی تھی اُس کے لیے مرجانے کو دل چاہ رہا تھا، اُس وقت پھر بلال بولا نوشی جی میری ایک خواہش ہے اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو پھر اُس نے نکاح والی بات کی میں صرف OKبول سکی بڑی مشکل سے“

”پھر کیا ہوا آگے بتاوٴ…… ہائے اللہ …… سورومینٹک“ توشی بے قراری سے بولی ”پھر اُس نے مجھے سینڈوچ کھلائے ہائے توشی مزا آگیا ۔

 

ایسے TASTY کیا بتاوٴں“ 

”یہ لو …… بیڑا غرق …… میں تو سوچ رہی تھی کہ اُس نے تمہیں گلے لگایا ہوگا یا پھر جس طرح پرانی فلموں میں سفید اور گلابی پھول ملتے ہیں۔ ایسا کچھ ہوا ہوگا“توشی کا سارا تجسس ختم ہوگیا ”سینڈ وچ بڑے مزیدار تھے۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی اُس نے تمہیں چھواتک نہیں“ نوشی نے بھولی صورت بناکر نفی میں گردن ہلادی۔

”تم چُھولیتی اُسکو آخر تمہارا فیانسی تھا کوئی غیر تھوڑی نہ تھا“ توشی نے اپنا مفید مشورہ دیا ”جہاں تک اُس کے چھونے کی بات ہے جب وہ مجھ پر اپنی کالی چادر ڈالتا تھا۔

 

تو اپنی انگلیوں کے پوروں تک کو بچاتا میرے جسم کو لگنے سے“ نوشی کھوئی ہوئی بولی خیالوں میں جیسے اُن راتوں کو یاد کررہی ہوں۔

”یہ لو …… یہ کالی چادر والی کہانی کیا ہے“ توشی نے اپنے مخصوص انداز سے کہا۔

نوشی نے اُسے اپنی ساری ملاقاتوں کا احوال سنایا۔ جب وہ تہجد کے وقت بلال کے روم میں جاتی تھی پھر اُن دونوں کی آنکھوں ہی آنکھوں میں بات چیت ہوتی تھی۔

 

بلال اُسے کافی اور بسکٹ پیش کرتا اور اُسے سردی سے بچانے کے لیے اپنی گرم چادر اُس کے شانوں پر ڈال دیتا۔ ”ایک دن مجھے اُس پر بڑا پیار آیا اور میں اُس کے گلے لگ گئی اُس نے مجھے پیار سے سمجھایا۔ یہ گناہ ہے کبیرہ گناہ نوشی جی آپ میرے نکاح میں نہیں ہو“ نوشی یہ بتاتے ہوئے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں سے چبارہی تھی اور توشی اپنی چھوٹی انگلی اپنے دانتوں میں جکڑی ہوئی تھی۔

 

” یہ لو …… “ توشی سلوموشن میں بولی رک رک کر ”نوشی تم کتنی گھُنی ہو اور بلال کتنا میسنا ہے ایک دفعہ تو میں نے تم دونوں کو پکڑا تھا۔ جب میری تمہاری لڑائی ہوگئی تھی “ دونوں بہنیں اب اپنے بستر پر لیٹ چکی تھیں اور کمبل اُن کے اوپر تھا۔ اور وہ کہنیوں کے بل ایک دوسرے کی طرف منہ کیے ہوئے تھیں تب نوشی بولی۔

”توشی ویسے یہ غلط بات ہے مجھ سے سب کچھ پوچھ لیا اور اپنے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا“ ” بتاوٴں خاک کوئی بات ہی نہیں۔

 

ایک دفعہ ڈنر کے بعد میں نے محسن کے ہاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھا بڑی ہمت کرکے تو اُس نے ہاتھ ہٹالیا۔ جب میں نے پوچھا کیا ہوا۔ پتہ ہے اُس نے کیا جواب دیا۔ 

کہنے لگا ناں بابا نا تم بلال کی عزت ہو۔ بلال نے مجھ سے کہا ہے میری عزت کو شادی سے پہلے چھونا مت میلی ہوجائے گی …… کرلو بات“

دونوں بہنیں بہت خوش تھیں وہ دونوں رات گئے تک باتیں کرتی رہیں۔

 

###

”دو کوڑی کی عزت نہیں ہے میری اِس گھر میں …… تم نے دیکھا اپنے باپ کا رویہ میرے ساتھ خود سارے فیصلے کررہا ہے۔ مجھ سے پوچھنا تک گوارہ نہیں کیا اُس نے، بٹوں کے گھرجاکر بیٹی دے آیا ایسے کیے جاتے ہیں رشتے۔ شادی کے دن رکھ لیے میری مرضی کے بغیر اور تم ہو مجھے صرف مشورے دے رہے ہو کرتے کچھ بھی نہیں “ ناہید غصے سے بھڑک رہی تھی اپنے بیٹے شعیب پر دونوں ماں بیٹا اپنے دفتر میں تھے ”شعیبی میری بات یاد رکھو اِس میں سب سے زیادہ نقصان تمہارا ہی ہے 50 ایکڑ زمین خریدنے میں 45 سے 50کروڑ جائیں گے باپ تمہارا نوشی اور توشی کے حصے میں سے تو زمین نہیں خریدے گا “

” میرے حصے میں سے بھی نہیں خریدیں گے“ شعیبی بولا بے فکری سے۔

 

” تم بھی پاگل ہو جو تمہارے باپ کا ہے اُس کے بعد سب کچھ تمہارا ہوگا تمہاری بہنیں لکھ کردے چکی ہیں کہ وہ جائیداد سے اپنا اپنا حصہ لے چکی ہیں۔ مگر تم سے تمہارے باپ نے ایسا کچھ نہیں لکھوایا مطلب اب سب کچھ تمہارا ہے“

” تو پھر کیا کیا جائے“ شعیب نے پوچھا اپنی ماں سے سوچتے ہوئے۔

” پھر یہ کسی طرح بلال کا پتا صاف کرو میں چاہتی ہوں نہ تو اُسے زمین ملے اور نہ ہی نوشی کے ساتھ اُس کی شادی ہو“ ناہید کی منافقت اُس کی زبان سے نکل آئی اُس کے ذہن میں ایک گندی سکیم تھی۔

 

” مگر ماما یہ ہوگا کیسے؟“ شعیب نے پوچھا ناہید سے۔

” ولید ہاشمی کو جانتے ہو“

” ہاں وہ ماڈلنگ کرتا ہے مگر وہ تو بہت بگڑا ہوا ہے“ شعیب کو تشویش ہوئی ولید کا نام سُن کر۔

” ولید ہاشمی مشہور بزنس مین عقیل ہاشمی کا بھتیجا ہے اور اُس کا باپ بہت بڑا پیر ہے اِس خاندان کی بڑی عزت ہے حجرہ شاہ مقیم میں لوگ بڑی عقیدت رکھتے ہیں اِن کے ساتھ ہاتھ پیر چومتے ہیں“

” ماما آپ کو پتہ بھی ہے وہ صرف عیاشی کے لیے ماڈلنگ کرتا ہے چرس، شراب، لڑکیاں سارے شوق ہیں اُس کے اور ہاں بہت بڑا جواری بھی ہے اکثر میچوں پر پیسے لگاتا ہے“

” وہ سارے شوق تو تمہارے بھی ہیں بیٹا میں سب کچھ جانتی ہوں“ ناہید نے ترچھی نگاہوں سے دیکھ کر کہا شعیب کو ”جب وہ اپنے باپ کی جگہ گدی نشین ہوگا یہ سارے گناہ پیر کی گدی کے نیچے دب جائیں گے پھر لوگ اُس کے بھی ہاتھ چومیں گے مجھے نوشی کے لیے وہ لڑکا پسند ہے۔

 

میری بیٹی راج کرے گی اور ہمارا خاندانی سٹیٹس بھی بڑھ جائے گا۔ ولید نے مجھے یقین دلایا ہے کہ وہ یہ شادی رکوادے گا اور تمہارا باپ خود اِس رشتے سے انکار کرے گا “

” اور توشی کے رشتے پر آپ رضامند ہیں؟“ شعیب نے پوچھا۔

” توشی کا تو مجھے بچپن سے معلوم تھا کہ یہ میری مرضی سے تو شادی نہیں کرے گی۔ اُس کی پسند پھر بھی ٹھیک ہے۔ بڑے خاندانی لوگ ہیں کھاتے پیتے اور مزے کی بات حکومت کسی کی بھی ہو اِن کی چلتی ہے حکومتی حلقوں میں اور سارا شادباغ اِن کو جانتا ہے۔

 

اور بلال کا خاندان سارے فقرے تین بھائی رہتے تھے، پانچ مرلے کے مکان میں اور آج بھی وہی مکان ہے اِس کے چچاوٴں کے پاس اور محسن کے باپ نے اِردگرد کے سارے مکان خرید کر ایک بڑی سی حویلی بنالی ہے، بٹ حویلی کے نام سے مشہور ہے اِن کی حویلی سارے علاقے میں“

ناہید نے محسن بٹ کے متعلق ساری انکوائری کروالی تھی بہت دن پہلے ہی جب توشی پہلی دفعہ اُس کے ساتھ ڈنر کرنے گئی تھی۔

 

ناہید حاکمانہ ذہن رکھنے والی لالچی خاتون تھی، شروع ہی سے اِسی وجہ سے اُس نے جمال کے گھر میں کسی کی نہیں چلنے دی۔ پوری زندگی اُس نے حکم چلایا اور اُس حکم پر عمل درآمد بھی کروایا اب جمال نے اُس کا یہ اختیار چھین لیا تھا، جو وہ برداشت نہیں کرپارہی تھی اُسے اپنی حکمرانی واپس چاہیے تھی کسی بھی شرط پر۔

###

” کھویا ہوا مقام کیسے حاصل کرسکتے ہیں“ عادل عقیل نے پوچھا بابا جمعہ سے آج وہ مطمئن تھا اور اُس کی شخصیت میں ٹھہراوٴ بھی تھا۔ عادل عقیل نے ہمیشہ اپنے دادا جلیل ہاشمی کی کرامات سُنی تھیں، لوگوں سے اور اپنی دادی سے ، اُس نے اپنے دادا کی جن خوبیوں کا ذکر سُنا تھا وہ ساری خوبیاں بلال میں تھیں۔ اِس لیے وہ بلال سے حسد کرتا تھا۔ مگر آج وہ بدلا ہوا عادل عقیل تھا جس کی نظروں میں بلال کی عزت تھی احترام تھا۔

 

”مقام ملتا ہے فقیری سے اور فقیری نصیب ہوتی ہے عاجزی سے اور بیٹا عاجزی کا سفر تم شروع کرچکے ہو جس کو فقیری عطا کردیتا ہے میرا اللہ وقت کے بادشاہ اُس کے منگتے ہوتے ہیں“ بابا جمعہ کھانستے ہوئے آہستہ آہستہ بول رہے تھے آج اُن کے چہرے پر تھکاوٹ تھی مگر وہ مطمئن تھے عادل عقیل نے ایک اور سوال پوچھا عادل کے سوال آج سیکھنے اور سمجھنے کے لیے تھے آج وہ سوال سے سوال نہیں نکال رہا تھا۔

 

 

 

 

” فقیری اور پیری میں کیا فرق ہے“

” بیٹا فقیری اور پیری ایک ہی تصویر کے دو رُخ تھے مگر آج کل ایسا نہیں ہے۔ اب فقیری بھی کاروبار بن گئی ہے اور پیری بھی دھندا ہے پہلے پیر بھی دیتا تھا مخلوق کو اور فقیر بھی خدمت کرتا تھا اللہ کے بندوں کی“

” تو کیا پہلے سارے فقیر اور پیر ٹھیک تھے آج کے مقابلے میں “عادل نے سنجیدگی سے پوچھا ”نہیں بیٹا ایسا نہیں ہے۔

 

اچھے اور بُرے لوگ ہر عہد اور ہر زمانے میں ہوتے ہیں۔ تناسب کا فرق آگیا ہے۔ پہلے اچھے لوگ زیادہ تھے اور بُرے کم تھے۔ اب اچھے فقیر اور پیر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سارے ہی دین کو بیچ رہے ہیں کوئی تعویذ گنڈے کے نام پر کوئی کوئی جہاد کے نام پر کوئی عشق کی دکان سجائے بیٹھا ہے اور میرے نبی ﷺ کی محبت بیچ رہا ہے نعتیں پڑھ کر اُن کی قیمت لی جاتی ہے دُعا کرکے اُجرت لی جاتی ہے لوگوں سے ہی جہاد کا چندہ اکٹھا کرتے ہیں پھر انہیں کو کافر کہہ کے مار دیتے ہیں۔

 

یہ ہے آج کا جہاد اور عشق رسول سب دکھاوا اور جھوٹ …… “ بابا جمعہ کھانستے ہوئے خاموش ہوگئے اور کافی دیر خاموش رہے عادل آج بلال کی طرح سُن زیادہ رہا تھا اور بول کم بابا جمعہ نے پھر سے لب کشائی کی۔

” تمہارے پاس کاغذ قلم ہے“ بابا جمعہ نے عادل کو دیکھ کر پوچھا عادل نے اثبات میں سرہلایا اور اپنے شولڈر بیگ سے ایک نوٹ بُک اور پین نکالا بابا جمعہ نے دیکھا تو بولے ”بیٹا لکھو جو فقیر اور پیر لینے والا ہے وہ جھوٹا اور فریبی ہے اور جو اللہ کے بندوں کو تقسیم کرتا ہے اُس کی عزت اور احترام کرو مگر ادب اور عقیدت اپنی حدود میں رہیں شرک سے دور۔

 

 

اپنے اوپر محبت فرض کرلو اللہ سے اُس کے حبیب ﷺ سے اور اللہ کی ساری مخلوق سے یاد رکھنا عادل بیٹا عبادت وہی قبول ہوتی ہے جس میں محبت شامل ہو اور اپنے ملک سے بھی محبت کرو یہ بھی ایمان کا حصہ ہے جو چیز اللہ کے نام پر قربان ہوجائے وہ ختم نہیں ہوتی بلکہ امر ہوجاتی ہے اور جو چیز اللہ کے نام پر بنائی جائے وہ مٹ نہیں سکتی بلکہ قائم رہتی ہے اور یہ ملک اللہ کے نام پر بنایا گیا ہے۔

 

یہ انشاء اللہ قائم رہے گا …… “ باباجمعہ یہ سب بول کر پھر سے خاموش ہوگئے وہ کچھ سوچ رہے تھے۔

” تم آج یونیورسٹی نہیں گئے“ بابا جمعہ کو اچانک خیال آیا ”چلو بھئی چائے تو پلوادو “

عادل نے اقبال کو فون کردیا اِس کے بعد بابا جمعہ نے عادل کو ساتھ لیا اور K بلاک میں واقع ایک بینک میں اپنا اکاوٴنٹ اوپن کروایا اور اپنے بعد بلال کو نومینیٹ کیا۔

 

اُس اکاوٴنٹ میں ایک اچھی خاصی بڑی رقم جمع کروادی۔ یہ رقم بابا جمعہ کے مکان کی تھی انہوں نے اپنا مکان اقبال چائے والے کو بیچ دیا تھا۔ اِس شرط پر جب تک میں زندہ ہوں میں ہی اِس مکان میں رہوں گا میرے مرنے کے بعد یہ تمہارا ہے۔ بینک سے فارغ ہونے کے بعد جب عادل اور بابا جمعہ واپس آئے تو محمد طفیل اُن کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا اور چائے پڑی پڑی ٹھنڈی ہوچکی تھی بابا جمعہ نے کہا ”عادل بیٹا نیچے بلی کا پیالہ پڑا ہوا ہے یہ چائے اُس میں ڈال دو اور اقبال سے کہو خود چار کپ چائے لے کر آجائے اور بسکٹ بھی بول دو اُسے “

تھوڑی دیر بعد اقبال چار کپ چائے لے کر آگیا سب نے چائے پی اِس کے بعد بابا جمعہ نے ایک اشٹام پیپر اپنی بوری کے نیچے سے نکالا جس کے اوپر وہ خود بیٹھے تھے اور اُس کے ایک کونے کے نیچے اشٹام پیپر رکھا تھا۔

 

 

”محمد طفیل اور عادل بیٹا میں نے اپنا مکان محمد اقبال کو بیچ دیا ہے تم دونوں گواہ ہو اِس اشٹام پیپر پر میں نے دستخط اور انگوٹھا لگادیا ہے تم دونوں بھی گواہوں کی جگہ دستخط کردو اور یہ کاغذ اقبال کو دے دو“

انہوں نے ایسا ہی کیا خاموشی سے بغیر کچھ پوچھے ہوئے اور کاغذ اقبال کو دے دیا اقبال چائے والا مکان خرید کر بھی اُداس تھا ”اقبال بیٹا مبارک ہو تمہیں “ بابا جمعہ نے اقبال کوواپس اپنی دکان کی طرف جانے سے پہلے کہا اقبال جاچکا تھا۔

 

”آج بلال صاحب نظر نہیں آرہے ہیں “ محمد طفیل نے بابا جمعہ سے پوچھا۔

” محمد طفیل وہ عصر کے بعد آتا ہے ابھی تو ظہر بھی نہیں ہوئی“

” بابا جی یہ پانچ لاکھ ہے میری کمیٹی نکلی تھی۔ دوسری کمیٹی ہی نکل آئی تھی ، آج میں لے کر حاضر ہوگیا ہوں“ محمد طفیل نے ایک کالے کپڑے میں لپٹے ہوئے چھوٹے بڑے نوٹ بابا جمعہ کو احترام سے دیئے ”عادل بیٹا یہ پیسے پکڑلو اور گھر جاکر گنتی کرنا یہاں نہیں یہ میرے بلال کی امانت ہے تمہارے پاس“ عادل نے جلدی سے وہ رقم پکڑلی اور اپنے بیگ میں ڈال لی۔

 

”بابا جی میں آپ کا اور اُس بچے کا دین نہیں دے سکتا۔ آپ نے مجھے تباہی سے بچا لیا میں نے بینک کا قرض بھی اُتار دیا ہے۔ بلال کے دیئے ہوئے پیسوں سے اور میرا کاروبار بھی بہت اچھا چل پڑا ہے اور اپنی بہنوں کا حصہ بھی میں نے دینے کا وعدہ کرلیا ہے اُن کے ساتھ “

” محمد طفیل ایک صحابی تھے حضرت عبدالرحمن بن عوف انہوں نے اپنے انتقال کے وقت 3 ارب 10 کروڑ 20 لاکھ دینار چھوڑے اور ایک دینار تقریباً ماشے وزن کا سونے کا سکہ تھا۔

 

عادل بیٹا باقی حساب کتاب تم کرلینا اُن کی دولت کا …… 

اُن کی تجارت کے 4 اصول تھے …… یاد رکھو بلکہ عادل بیٹا لکھ لو …… 

-1 انہوں نے کبھی اُدھار مال نہیں خریدا تھا۔

-2 کبھی اُدھار نہیں بیچا تھا۔

-3 ذخیرہ کبھی نہیں کیا زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے گاہک لگ گیا تو سودا دے دیا۔

-4 اور کبھی اپنے سودے کا عیب نہیں چھپایا تھا۔

 

محمد طفیل اِن باتوں پر عمل کرنا پھر دیکھنا اللہ کی رحمت کیسے برستی ہے تم پر اور آخری بات جلدی سے جلدی بلال کا قرض اُتار دینا۔ “

نورانی مسجد میں ظہر کی اذان شروع ہوچکی تھی ”چلو بھئی مالک نے بلایا ہے “ وہ تینوں مسجد کی طرف چل دیئے عادل نے وہ بیگ اپنی گاڑی میں رکھ دیا جس میں پانچ لاکھ روپے تھے بلال کی امانت۔ نماز سے فارغ ہوکر اُس نے وہ روپے بھی بابا جمعہ کے اکاوٴنٹ میں جمع کروادیئے۔

 

عادل کا اکاوٴنٹ بھی اُس بینک میں تھا اور اُس کے ریفرنس کی وجہ سے باباجمعہ کا اکاوٴنٹ اوپن ہوا تھا۔

###

” تمہارا اسکول تو بڑا شاندار ہے“ جمال رندھاوا سارا اسکول دیکھنے کے بعد بلال کے آفس میں چائے پیتے ہوئے بولے گل شیر خان اُن کے ساتھ تھا بلال نے انہیں اپنا پلاٹ بھی دکھایا جو اُس نے خریدا تھا۔ اسکول کی بلڈنگ بنانے کے لیے جمال رندھاوا بلال کی ترقی سے بہت خوش تھے۔

 

اُن سے زیادہ گل شیر خان کے چہرے پر خوشی تھی اُن کے جانے کے بعد۔

”تمہارے بڑے دانت نکل رہے ہیں “ بلال نے فوزیہ سے کہا جو ہنسنے کے بہانے ڈھونڈ رہی تھی فوزیہ آج بہت خوش تھی۔

”سر آپ کی شادی طے ہوگئی ہے اس لیے “ فوزیہ نے اپنی ہنسی کی وجہ بتائی تھی۔

” وہ تو ٹھیک ہے مگر یہ خوشیاں کچھ اورظاہر کررہیں ہیں۔ سچ سچ بتاوٴ اندر کی بات“

” سر آج رات کو لیاقت علی آرہا ہے اور اُس کے دس دن بعد ہماری شادی ہے …… قسم سے …… سر آپ بڑے تیز ہیں کچھ بھی کرلو آپ کو خبر ہوجاتی ہے چہرہ دیکھ کر آپ دل کی بات جان لیتے ہیں۔

 

دروازے پر دستک کے بعد نیناں ایک فائل پکڑے ہوئے آفس داخل ہوتی ہے اُس نے وہ فائل بلال کے سامنے رکھی ”سر آپ چیک کرلیں “ نوین عرف نیناں بولی ”ٹھیک ہے آپ جاوٴ میں چیک کرکے بجھواتا ہوں “ بلال نے فائل پر نظریں جمائے ہوئے جواب دیا نوین کی طرف دیکھا بھی نہیں نوین بلال کے چہرے کو دیکھ رہی تھی اور فوزیہ اُن دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ نوین کے جانے کے بعد فوزیہ اُس کا حجاب دیکھ کر بولی۔

 

” سر جس چہرے پر نقاب ہو اُسے کیسے پڑھتے ہیں آپ “

” فوزیہ جی …… یہ جو آنکھیں ہیں ناں …… بڑی سچی ہوتی ہیں …… ہمیشہ سچ ہی دکھاتی ہیں اور آپ کے اندر کا سچ چھپاتی بھی نہیں ہیں …… بس آنکھ سچ دیکھنے والی اور سچ پڑھنے والی ہونی چاہیے“ فوزیہ کا دماغ کالے جامنوں کی طرح بلال نے ہلادیا جیسے کالے جامن برسات کے دنوں میں ڈبے میں ڈال کر اوپر سے کالا نمک ڈال کر جامن بیچنے والا ہلاتا ہے اِس طرح بہت ساری آنکھوں کی باتوں نے فوزیہ کا دماغ ہلا کر رکھ دیا تھا۔

 

” سر آپ کی باتیں، آنکھیں، سچ، میری سمجھ سے باہر ہیں“ فوزیہ سر کھجاتے ہوئے بولی۔

” سر میں ہی پاگل ہوں جو اُلٹے سیدھے سوال پوچھتی ہوں بعد میں مشکل جواب سننے پڑتے ہیں۔ سیدھی بات یہ ہے نیناں اچھی لڑکی ہے کسی سے فضول بات نہیں کرتی بس دیکھتی رہتی ہے قسم سے …… سر میں بھی اِس کا چہرہ دیکھ نہیں سکی ابھی تک ہمیشہ نقاب کرکے رکھتی ہے“”کسی کا چہرہ دیکھ کر بھی آپ اُس کا اصلی چہرہ نہیں دیکھ پاتے …… کبھی ایسا بھی ہوتا ہے، بن دیکھے ہی آپ دیکھ لیتے ہیں …… اندر تک اُس کے باطن کو“ بلال نے سنجیدگی سے کہا ”سر آج آپ کچھ زیادہ ہی مشکل باتیں کررہے ہیں “

” اچھا ایسا کرو ایک گرین ٹی کا بول دو میرے لیے اور اپنے لیے بھی کچھ منگوالو“

 اِس کے بعد بلال فائل چیک کرنے میں مصروف ہوگیا تھا۔

 

اور فوزیہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد آفس بوائے گرین ٹی اور چائے رکھ گیا تھا بلال نے فوزیہ کی طرف دیکھا جس نے چائے میں چینی نہیں ڈالی تھی۔ وہ ساری بات سمجھ گیا ”کیوں آج پھیکی چائے؟ “ بلال نے گرین ٹی کا سپ لیتے ہوئے پوچھا۔

” سر ویسے ہی آپ ہمیشہ کہتے ہیں چینی کم ڈالا کرو چائے میں“ فوزیہ کھسیانی ہوکر بولی ۔

بلال کے چہرے پر ملین ڈالر مسکراہٹ اُبھر آئی۔

 

” سر آپ مسکرا کیوں رہے ہیں“فوزیہ کو اندازہ تھا بلال کس بات پر مسکرایا پھر بھی اُس نے پوچھ لیا ”بس یونہی “ بلال نے فوزیہ کی طرف دیکھ کر کہا

” قسم سے …… سر آپ کی نظریں کوئی بات نہیں چھپ سکتی اِن سے “ فوزیہ نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔

”فوزیہ جی …… تم لڑکیاں شادی سے پہلے جتنا ویٹ لوز کرتی ہو شادی کے بعد اُس سے ڈبل گین کرلیتی ہو، ایک مہینہ کے اندر اندر شادی کے بعد دعوتوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

 

میری بات یاد رکھو اگر خود کو بدلنا چاہتی ہو تو اپنا لائف اسٹائل بدلو ایسا نہیں ایک مہینہ ڈائٹنگ اور دو مہینے عیاشی …… کرو 

سب کچھ کھاوٴ بھوک رکھ کے …… اور ہلکی پھلکی ورزش کم ازکم ہفتہ میں پانچ دن اور ٹھنڈا پانی بند کردو تازہ پانی پیو اگر ہوسکے تو نیم گرم پانی صحت مند رہو گی ہمیشہ …… “

” سر آپ میٹھا کیوں نہیں کھاتے“ فوزیہ نے اعتراض کیا بلال کی عادت پر

تمہیں کس نے کہا میں میٹھا نہیں کھاتا بس میں چینی کا استعمال نہیں کرتا۔ میں شہد استعمال کرتا ہوں اور گڑبھی کھاتا ہوں“بلال اپنی پھیکی گرین ٹی ختم کرچکا تھا۔

” سر آپ گڑ کھاتے ہیں“ فوزیہ حیرت سے بولی جیسے گڑ نہ ہو زہر ہو۔

###

”گڑ مہنگا ہوگیا اور چینی سستی …… سیب سستے ملتے ہیں اور امرود مہنگے ملتے ہیں …… مرغی سستی ہوگی اور دالیں مہنگی …… چائے سب پیتے ہیں پھر بھی سستی اور لسی کوئی کوئی پیتا ہے پھر بھی مہنگی “ BG تبصرہ کررہی تھی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے ”میرے بچپن میں نوشی بی بی میرا دادا کتنا کتنا گڑ مفت دے دیتا ویلنے پر آئے لوگوں کو سب روپی کر بھی جاتے اور گڑ کھاکر بھی اور گنے بھی ساتھ لے جاتے “ ”ویلنے پر آئے لوگ روپی کر جاتے بس پینے کی سمجھ آئی ہے باقی کچھ نہیں “ توشی نے کہا BG کو دیکھ کر ”ڈفر تم ہو اور کہتی مجھے رہتی ہو۔

 

بلال نے بتایاتو تھا ویلنا گنے کا رس نکالنے والی مشین جو بیلوں کی مدد سے چلتی ہے اور رو گنے کے رس کو کہتے ہیں “ نوشی نے اپنی ذہانت کا ثبوت پیش کیا ”یہ لو …… اب حافظہ بھی ٹھیک ہوگیا ہے بلال کی محبت میں نوشی میڈم تم رات کو ڈنر تک بھول جاتی ہو، بریک فاسٹ میں کیا کھایا تھا “ توشی ابرو چڑھاتے ہوئے بولی۔

 

 

توشی نے BG کو بلایا تھا اپنے کمرے میں وہ BG سے شوہر کو قابو میں رکھنے کا راز جاننا چاہتی تھی مگر اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ BG سے کیا پوچھے اور کیسے بات شروع کرے۔

 

 

” BG آپ کو پتہ تو ہے نا …… ہماری شادیاں طے ہوگئی ہیں“ توشی ے رُک رُک کر پوچھا شرماتے ہوئے۔

” میرے سامنے تو دن رکھے تھے“ BG نے کچھ سوچ کر جواب دیاBG نے نوشی اور توشی کی طرف دیکھا جو آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے کررہیں تھیں۔

” بیٹا سب کچھ بتاوٴں گی ابھی تو دو مہینے پڑے ہیں“ BG سمجھ گئی وہ دونوں کیا پوچھنا چاہتی ہیں۔

 

” آپ آج ہی بتادیں ہمیں“ اِس بار نوشی نے پوچھا بے قراری سے BG نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ ”نوشی بیٹی آپ تو نصیبوں والی ہو۔ بلال بیٹا تو بڑا سیانا ہے۔ بالکل ہمارے گاوٴں کے بڑے میاں جی جیسا …… آپ اُس پر شک کبھی نہ کرنا اور لڑنا مت اُس کے ساتھ ایک بات اور اُس کے مرے ہوئے ماں باپ کی عزت کرنا ہمیشہ پھر دیکھنا وہ تمہیں رانی بناکر رکھے گا کبھی (تتی) گرم ہوا بھی نہیں لگنے دے گا“

”یہ لو …… میں نے بلایا تھا آپ کو BG اور سارے مشورے اسے ہی دے رہیں ہیں“ توشی مصنوعی ناراضی سے بولی منہ بناکر۔

 

” توشی بیٹی تمہاری بات الگ ہے یہ جو خاندانی لوگ ہوتے ہیں شریکا برداری والے یہ مختلف ہوتے ہیں۔ خواہ ڈاکٹر ہی کیوں نہ بن جائیں…… آپ بٹ صاحب کو ایک بھوک لگنے نہ دینا اور دوسری بھوک ختم نہ کرنا“ BG نے مختصراً جواب دیا توشی کو جو کچھ زیادہ سننا چاہتی تھی نوشی کے مقابلے میں۔

” BG آپ بھی …… بلال کی طرح مشکل مشکل باتیں بتارہی ہیں “توشی نے بیزاری سے کہا۔

 

” توشی بیٹی یہ تو سیدھی سی بات ہے۔ میری ماں نے مجھے بتائی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے کھانے پینے کا خیال رکھنا مطلب بھوک لگنے نہ دینا ” اور وہ جو بھوک ختم نہ کرنا اُس کا کیا مطلب ہے“ توشی منہ بناکربولی نوشی خاموشی سے BGاور توشی کو دیکھ رہی تھی۔“

”مطلب یہ کہ ہر وقت ڈاکٹر صاحب کے ساتھ چمٹی مت رہنا تھوڑی دوری بناکر رکھنا اس طرح مرد بھوکا رہتا ہے اور اُسے ہر وقت اپنی بیوی کا خیال رہتا ہے اور وہ اُس کی قدر بھی کرتا ہے اور عزت بھی“ BG نے ساری تشریح کردی دونوں باتوں کی توشی کو BG کی بات سمجھ آگئی نوشی کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی توشی یکایک پھر سے بول پڑی فرمائشی انداز سے ۔

 

”BG کچھ اور بتاوٴنا “

” اور بتاوٴں“BG کے چہرے پر مسکراہٹ تھی”تو سنو ڈاکٹر صاحب کو ہمیشہ بٹ صاحب کہنا اُن کا نام مت لینا اور اُن کی ماں کو آنٹی مت کہنا بلکہ جس طرح ڈاکٹر صاحب بلائیں اُس طرح بلانا اور ڈاکٹر صاحب کو اُن کے رشتے داروں کی موجودگی میں پلٹ کر جواب کبھی نہ دینا گھر آکر بھلے دس سُنا لینا وہ تمہاری سُنے گا۔ محفل میں اُس کی ایک مانو گی تو تنہائی میں وہ تمہاری دس مانے گا، توشی بیٹی یاد رکھنا میری باتوں کو پوری زندگی راج کرو گی ڈاکٹر صاحب کے دل پر“

” BG مجھے بھی راج کرنا ہے بلال کے دل پر میں بھی اِن باتوں پرعمل کروں کیا“ نوشی بھولی صورت بناکر بولی۔

 

”نہ نہ نوشی بیٹی آپ تو پہلے ہی سے رانی ہو۔ یہ تو توشی کو اُس خاندان میں اپنی جگہ بنانی ہے اِس لیے اُسے یہ باتیں بتارہی ہوں۔ بلال کا خاندان تو تمہارے ساتھ سے شروع ہوگا اور یہ ساری باتیں تو اکھڑمردوں کو قابو کرنے والی ہیں۔ بلال تو درویش ہے۔ بالکل سیدھا سادھا شریف آدمی …… اچھا میں چلتی ہوں کچن میں بہت کام باقی ہے۔ SMSکام چور موبائیل پر گانے سُن رہا ہوگا“ BG یہ کہہ کر کمرے سے چلی گئی۔

 

 

” میں تو BG کو اینویں ہی سمجھتی تھی یہ تو بڑے کام کی باتیں جانتی ہیں“ توشی بولی BG کے جانے کے بعد ”ٹھیک کہہ رہی ہو “نوشی نے تائید کی۔

###

” ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ خان صاحب“ جمال رندھاوا نے گل شیر خان کی کسی بات کی تصدیق کی جو کہ سیالکوٹ کی طرف جاتے ہوئے گوجرانوالہ شہر سے گزر رہے تھے بلیک مرسڈیز میں پچھلی سیٹ پر جمال رندھاوا بیٹھے ہوئے تھے اور آگے ڈرائیور کے ساتھ گل شیر خان بیٹھے تھے۔

 

” شکر ہے خدا کا بچیوں کے رشتے طے ہوگئے اب میں شادی تک یہی رہوں گا آپ اپنا اور حسیب خان کا پاسپورٹ بنوالیں اب اگر جانا پڑا امریکہ یا یورپ تو آپ باپ بیٹا جائیں گے“ جمال نے گل شیر خان سے کہا ، گاڑی اب چھچھر والی نہر کے ساتھ ساتھ دوڑ رہی تھی۔ کافی دیر گاڑی میں خاموشی رہی۔ اب وہ ڈسکہ کی طرف جارہے تھے ”ویسے آپ نے اچھا کیا میرے آنے سے پہلے ہی ڈاکٹر محسن کا پتہ کروالیا تھا “ جمال رندھاوا نے گل شیر خان کی تعریف کی گل شیر نے جس دن توشی کو پہلی دفعہ دیکھا تھا محسن کے ساتھ اُس نے اُسی دن سے چھان بین شروع کردی تھی جب اُسے پتہ چلا کہ محسن دوست ہے بلال کا تو وہ مطمئن ہوگیا تھا۔

 

” رندھاوا صاحب نام تو میرا گل شیر ہے مگر یہ خوبیاں بلال بیٹا میں ہیں۔ وہ گل یعنی پھول کی طرح نرم ہے بات کرتا ہے تو اُس کی باتوں سے خوشبو آتا ہے۔ گل کی طرح حسین ہے۔ اندر باہر سے اور شیر کی طرح بہادر بھی ہے۔ ہم تو اُس کا دلیری دیکھ کر بہت متاثر ہوا اُس دن وہ MNA کے گھر میں جاکر ایسے دلیری سے بات کیا ہم خوش ہوگیا تھا“

گل شیر خان اُردو بول رہے تھے آہستہ آہستہ پشتو کے انداز میں بالکل پختونوں کی طرح جمال نے گل شیر کی بات سُن کر اپنے گلے کی ٹائی سیدھی کی بلال کی تعریف سُن کر اُن کی آنکھوں میں چمک آگئی تھی۔

 

 

” رندھاوا صاحب ایک بات اور ہے میرا فرض ہے آپ کو بتانا اس لیے بتا رہا ہوں وہ اپنا شعیب بیٹا کا اُٹھنا بیٹھنا غلط لوگوں کے ساتھ ہے“ گل شیر خان احتیاط سے بات کررہے تھے محتاط ہوکر۔

” خان صاحب آپ کھل کر بات کرو میں سنوں گا۔ مجھے آپ پر اعتماد ہے آپ کوئی غلط بات نہیں کرتے جب تک اُس کی مکمل چھان بین نہ کرلیں“ جمال رندھاوا نے گل شیر کو اعتماد دیا۔

 

” رندھاوا صاحب شعیب بیٹا شراب اور چرس پیتا ہے۔ کرکٹ کے میچوں پر جواء بھی لگاتا ہے اور بہت ساری لڑکیوں سے دوستی بھی ہے“ گل شیر نے ساری رپورٹ دی۔

” آپ نے ناہید کو بتایا“ جمال رندھاوا نے پوچھا فکر مندی سے۔

” جی وہ …… بیگم صاحبہ کو خبر ہے“ گل شیر خان نے دُکھی انداز سے جواب دیا۔

جمال رندھاوا سن کر دُکھی ہوگئے اور اپنی نظریں گاڑی سے باہر جمادیں جہاں سڑک کے دونوں اطراف گندم کی فصل کے چھوٹے چھوٹے پودے سجے ہوئے تھے زمین کے وشال سینے پر وہ گندم جس کو کھانے کے بعد ہی سے دنیا سجی اور جیسے کھائے بغیر گزارا بھی نہیں …… 

###

” بھوک زندہ رہتی ہے تو خواہش خودبخود مرجائے گی۔ خواہش کو مارنا ہی فقیری کا نام ہے ادھر آپ کی خواہش فوت ہوئی اُدھر فقیری زندہ ہوجاتی ہے“

” باباجی میں سمجھا نہیں پلیز سمجھائیں“عادل عقیل بے چینی سے بولا۔

” عادل بیٹا بات تو آسان سی ہے۔ کھاوٴ صرف زندگی کو بچانے کے لیے انسان کی خواہش ہوتی ہے یہ بھی کھالوں وہ بھی کھالوں بھوک نہیں ہوتی، زیادہ کھانا بھوک کو مارتا ہے اور خواہش کو زندہ رکھتا ہے

اور کم کھانا بھوک کو زندہ رکھنا اور خواہش کو مارنے کا نام ہے۔

 

یاد رکھو بھوک ہی طاقت ہے جسمانی بھی اور روحانی بھی …… ایک مسلمان میں نیکی کرنے کی بھوک ہونی چاہیے……“

”بابا جی میں بلال بھائی جیسا بننا چاہتا ہوں “ عادل نے سنجیدگی سے کہا بابا جمعہ کو، کل تک عادل عقیل تنقید کرتا تھا۔

 

بلال احمد پر آج اُس جیسا بننا چاہتا تھا۔”سنجیدہ بھی اور خوش اخلاق بھی باہر سے دیکھو تو جنٹلمین اور اندر جھانکو تو مومن، مسکراتا چہرہ اور نرم زبان، رحم کرنے والا دل، اور عطا کرنے والا ہاتھ یہ ساری خوبیاں ہیں بلال بھائی میں “عادل عقیل بلال کی تعریف کررہا تھا۔

 

باباجمعہ تکلیف کے باوجود پورے چہرے سے مسکرائے۔ بابا جمعہ بہت خوش ہوئے عادل کی بات سُن کر۔

” عادل بیٹا تم نے لاعلمی میں آگے پیچھے نبی پاکﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم بیان کردیا الفاظ آگے پیچھے تھے تمہارا مفہوم ٹھیک تھا…… 

آقا کریم ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے اہل جنت کی چار نشانیاں ہیں …… 

مسکراتا ہوا چہرہ …… نرم زبان …… رحم کرنے والا دل …… اور عطا کرنے والا ہاتھ …… 

ایک دوسری حدیث کا مفہوم ہے دین کا خلاصہ ہے اپنی زبان کو قابو میں رکھو“

بابا جمعہ نے کھانستے ہوئے جواب دیا اِس دوران بلال وہاں آگیا اُس نے باباجمعہ کا چہرہ دیکھا تو پریشان ہوگیا جس پر تکلیف واضح نظر آرہی تھی اُس نے آکر بابا جمعہ کی پیشانی کو ہاتھ لگایا تو معلوم ہوا باباجی کو تیز بخار تھا۔

 

” آپ بھی باباجی کمال کرتے ہیں، بخار میں یہاں بیٹھے ہوئے ہیں“ بلال فکر مندی سے بولا 

اُس نے بابا جمعہ کو سہارے سے اُٹھایا اور اپنی گاڑی میں بٹھادیا۔ اُس نے اقبال کو کہا باباجی کا ساراسامان سنبھال لے اقبال کو فون کرنے کے بعد وہ گاڑی میں بیٹھا۔ عادل عقیل اُس کی ٹینشن دیکھ رہا تھا لیکن بلال کی پیشانی پر شکن تک نہ آئی۔ عادل کے لیے جو پچھلے تین گھنٹے سے باباجی کے ساتھ تھا وہ باباجی کی تکلیف کو دیکھ ہی نہ سکا اور بلال ایک نظر میں جان گیا عادل احساس شرمندگی میں مبتلا تھا۔

 

تھوڑی دیر بعد وہ ڈیفنس میں واقع ایک پرائیویٹ ہاسپٹل میں تھے۔ عادل بھی اپنی گاڑی پر بلال کے پیچھے ہاسپٹل پہنچا تھا۔

ڈاکٹر نے بلال کو بتایا”ابھی تو بخار کی سمجھ آرہی ہے باقی رپورٹس آنے کے بعد پتہ چلے گا کل شام تک اِن کی۔ ساری رپورٹیں آجائیں گی ڈونٹ وری “ ڈاکٹر نے بلال کو تسلی دی ”آپ گھر جاسکتے ہیں۔ رپورٹس دیکھ کر اگر ضرورت پڑی تو انہیں ایڈمٹ کرلیں گے “

بلال بابا جمعہ کو اُن کے گھر لے آیا۔

 

عادل بھی ساتھ تھا۔ بابا جمعہ کو پلنگ پر لٹانے کے بعد بلال نے پوچھا ”بابا جی کیا کھائیں گے آپ “ اتنے میں اقبال بھی پہنچ گیا اُس سے عادل رابطے میں تھا۔ ”اقبال بیٹا کیا پکایا ہے گھر پر “ بابا جمعہ نے رُک رُک کر اقبال سے پوچھا۔ 

” میں سیدھا یہاں آیا ہوں گھر نہیں گیا“ اقبال نے جواب دیا۔

” بیٹا مہمان آئے ہیں گھر سے کھانا لے آوٴ،بلال بیٹا مجھے وضو کروادو مغرب بھی قضا ہوگئی ہے۔

 

عشاء تو ادا پڑھ لوں“ بلال نے چولہے پر پانی گرم کیا اور باباجمعہ کا وضو کروایا اب اُن کا بخار کافی ہلکا ہوگیا تھا اور وہ خود اُٹھ کر بغیر سہارے کے غسل خانہ تک گئے تھے۔ 

بابا جمعہ نے گھر پر ہی نماز ادا کی بلال اور عادل گاوٴں کی مسجد میں نماز پڑھ کر آچکے تھے۔ کچھ دیر بعد اقبال اور ایک چھوٹا لڑکا عمر 11 یا 12 سال کھانا لے کر آگئے تھے وہ بچہ اقبال کا بڑا پوتا تھا۔

 

دیسی گھی میں دیسی مرغا جس میں سرخ مرچ کی رنگت واضح نظر آرہی تھی سب کھانے کے لیے بیٹھ گئے تھے۔ ساتھ میں پودینہ، ہری مرچ اور دھنیے کی چٹنی گرم گرم چپاتیوں کے ساتھ عادل عقیل کو کھانا کھاتے ہوئے جنوری کی سردی میں بھی پسینہ آگیا تھا۔ وجہ یہ تھی سالن میں مرچ بہت زیادہ تھی۔ اِس کے باوجود سب سے زیادہ عادل ہی نے کھایا باباجمعہ نے آدھی چپاتی کھائی سالن بغیر نام کے کھایا کھانے سے فارغ ہوکر۔

 

” اقبال بھائی میں نے اتنا TASTY چکن اپنی پوری زندگی میں نہیں کھایا مگر “ عادل نے کہا ”مرچ بہت زیادہ تھی “ اقبال نے بات کاٹتے ہوئے بات مکمل کی۔

”اِس کی ریسپی بتائیں گے “ عادل نے پوچھا

” کیا بتائیں گے …… “اقبال نے سوال دہرایا اُسے عادل کی بات کی سمجھ نہیں آئی تھی۔”اقبال بھائی پکانے کا طریقہ پوچھ رہا ہے عادل “ بلال نے Translator کا رول ادا کیا۔

 

”پکانے کا طریقہ گھر کے دیسی گھی میں گھر کادیسی مرغا، نمک ڈالا، سلونٹا اور لوڈھی پرپسی ہوئی بھگار والی لال مرچ ڈالی اور چڑھادی چولہے پر سیدھا سا طریقہ ہے پکانے کا “ اقبال نے سینہ تن کر جواب دیا اتنے بڑے اور مشہور آدمی کا بیٹا اُس کے کھانے کی تعریف کے ساتھ ساتھ طریقہ بھی پوچھ رہا تھا۔ اِس بار عادل اقبال کی بات سمجھ نہیں پایا۔ بابا جمعہ جوکہ اپنے پلنگ پر ٹیک لگاکر بیٹھے ہوئے تھے۔

 

عادل اور اقبال کی باتوں سے محظوظ ہورہے تھے۔ 

بلال کے چہرے پر بھی مسکراہٹ تھی۔ ایک انتہائی پڑھا لکھا آدمی ایک انگوٹھا چھاپ سے کیسے بات کرتا ہے۔ بلال یہ دیکھ رہا تھا۔ عادل کی کوشش تھی کہ وہ اقبال سے عام فہم اور سادہ الفاظ میں بات کرے اور اقبال نے سارے مشکل الفاظ اکٹھے کرلیے اپنے دماغ میں عادل سے بات کرنے کے لیے پھر بھی SPOKE PERSON کی ضرورت پیش آرہی تھی جو ڈیوٹی بلال ادا کررہا تھا۔

 

” سلونٹا، لوڈھی، بھگار والی مرچ“ عادل نے اقبال کے الفاظ منہ میں دھرائے۔

 ”RED CHILLI GRILLED IN STONE “ بلال نے پھر سے عادل کی مشکل آسان کی ”عادل صاحب سلونٹا اُس پتھر کو کہتے ہیں جس پر ثابت سرخ مرچ پیسی جاتی ہے اور لوڈھی اُس گول پتھر کو کہتے ہیں جس سے پیستے ہیں یا رگڑتے ہیں اور بھگار تو عام بولا جانے والا لفظ ہے جو پرانے میواتی تھے وہ ہاتھ سے ثابت سرخ مرچ سلونٹا اور لوڈھی پر پانی ڈال کر رگڑتے تھے پھر اُس کو کھانے میں ڈالتے تھے۔

 

اب یہ رواج کم ہوگیا ہے نئی نسل اتنی مشقت میں نہیں پڑتی“ بلال نے ساری تفصیل پھر سے بتائی۔

” بلال بھائی بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔ میری بہو بھی نہیں کرتی ہاں میری گھر والی جب بھی ہانڈی پکاتی ہے تو وہ اپنے ہاتھ ہی سے مرچ رگڑ کر ڈالتی ہے ہانڈی میں“

اقبال نے جلدی سے کہا جیسے بلال نے اُس کے دل کی بات بولی ہو۔

بلال نے باباجمعہ کو دوائی کھلائی اور اُس کے بعد باباجی کی فرمائش پر اپنے ہاتھ کی گُڑ والی چائے بنائی خالص دودھ ڈال کر۔

” اقبال بیٹا چائے بنانا سیکھو بلال سے“ باباجمعہ نے اقبال سے مذاق کیا اب باباجمعہ کی طبیعت کافی بہتر تھی، جوکہ اُن کے چہرے سے نظر آرہا تھا۔ عادل کو بھی بلال کے ہاتھ کی بنی ہوئی چائے بہت پسند آئی۔

” عادل بیٹا کسی دن بلال کے اسکول ضرور جانا میں نے ہی افتتاح کیا تھا۔ کیوں اقبال یاد ہے“

” جی باباجی “ اقبال نے عقیدت سے جواب دیا۔

 

” عادل بیٹا تمہیں پتہ ہے ہمارے تعلیمی نظام میں خرابی کیا ہے؟“ عادل نے نفی میں سر ہلادیا ”خرابی یہ ہے کہ ہم نے سائنس اور قرآن کو الگ الگ کردیا ہے …… دینی مدرسوں میں صرف شرعی علوم پڑھائے جاتے ہیں اور ہمارے اسکولوں میں صرف دنیاوی علوم پڑھائے جاتے ہیں …… 

مدرسے کے عالم فاضل کو سائنس کی خبر نہیں۔ اور آج کے پڑھے لکھے کو دین کی خبر نہیں …… حد تو یہ ہے کہ ایک عالم فاضل کو یہ پتہ نہیں ہوتا H2o کا کیا مطلب ہے …… اور آ کے پڑھے لکھوں کو وضو اور غسل کے فرائض کا علم نہیں ہوتا، غسل اور وضو کرنا نہیں آتا اللہ میرے بیٹے کی مدد کرے جس کے اسکول میں قرآن بھی پڑھایا جاتا ہے اور سائنس بھی یہاں کے پڑھے بچے عالم فاضل بھی ہوں گے اور وہی بچے سائنس دان بھی ہوں گے۔

 

 

 

بیٹا شرعی علوم کو اور سائنسی علوم کو اکٹھا کرکے ہی ہم ترقی کرسکتے ہیں بس ایک ایسی نسل تیار ہوجائے تو پھر منزل قریب ہے۔ ہم نے محبت کے رستے پر چل کر علم تلاش کرنا ہے اور ہماری منزل اللہ اور اس کے حبیبﷺ کی رضا ہونی چاہیے پھر سب کو انصاف بھی ملے گا ترقی اور خوشحالی بھی ہوگی“ 

بابا جمعہ اب ٹھیک تھے۔ بلال نے اُن کو غور سے دیکھا دس بج گئے تھے۔

 

باتوں باتوں میں ”آپ لوگ اب جاوٴ “ باباجمعہ نے حکم دیا سب جانے کے لیے تیار ہوگئے ” اقبال بیٹا جاوٴ صبح فجر کے وقت مسجد میں ملاقات ہوگی اقبال بیٹا کھانے کا بھی شکریہ“ اقبال نے برتن اٹھائے اور چلا گیا سب سے پہلے بعد میں عادل اور بلال نکلے جانے کے لیے جب وہ کمرے کے دروازے پر پہنچے بلال آگئے تھا۔ بابا جمعہ نے آواز دی ۔

” عادل بیٹا رکو“ عادل واپس آگیا بلال گھر کے بیرونی دروازے سے پھر واپس پلٹ آیا جب وہ واپس کمرے میں آیا تو عادل کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔

 

باباجمعہ کے پاس باباجمعہ پلنگ پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ بلال آگے بڑھا اور بابا جمعہ کے گلے لگ گیا۔

” میں ٹھیک ہوں۔ بلال بیٹا اللہ کا شکرہے تم بے فکر ہوکر جاوٴ“ باباجمعہ نے اپنے دونوں ہاتھوں میں بلال چہرہ لیتے ہوئے اُس کی پیشانی چوم لی عادل کو یاد آیا مسجد میں اُس دن اِسی طرح بابا جمعہ نے عادل کی پیشانی بھی چومی تھی۔

بلال نے کمرے سے واپس جاتے ہوئے داخلی دروازے سے مڑ کر ایک بار پھر باباجمعہ کو عقیدت سے دیکھا اور وہاں سے چلا گیا۔

 

عادل مزید آدھ گھنٹہ بابا جمعہ کے پاس بیٹھا پھر اُسے بھی جانے کا حکم مل گیا۔”عادل بیٹا باہر کا دروازہ بند کردینا میں بعد میں کنڈی لگالوں گا “ باباجمعہ نے عادل کو کہا ”ٹھیک ہے باباجی کل جمعہ ہے میں افطاری کا سامان گھر سے تیار کرواکر لاوٴں گاہم روزاکٹھے کھولیں گے اچھا اللہ حافظ “ عادل نے جاتے ہوئے عقیدت سے کہا۔

###

” ڈاکٹر حاجرہ نیازی کمرے کی لائٹ ON کرتی ہیں، تو اُن کی نظر عظمی پر پڑتی ہے جو ایزی چیئر پر لیٹی ہوئی تھی۔

 

” یہ کیا حال بنارکھا ہے مجھے MAID نے بتایا تم نے دو دن سے کھانا بھی صحیح طرح سے نہیں کھایا کیا بات ہے جانی“ حاجرہ نے عظمی کو اُٹھاکر گلے لگایا اُس کے گالوں پر پیار کیا اور عظمی کے بکھرے ہوئے کالے سیاہ گیسو گالوں سے اُٹھا کر پیچھے کی طرف کردیئے۔

”ایسے ہی لیٹی ہوئی تھی اتنی سردی ہے۔ دو دن شادی کے دوران بھی مجھے تمہارا ہی خیال رہ رہ کر آرہا تھا۔

 

بخار تو نہیں ہے BP چیک کرتی ہوں “

” آنی میں ٹھیک ہوں آپ کیوں فکر کرتی ہیں“ عظمی نے بازو پکڑ کر ہاجرہ کو بٹھالیا تھا اپنے سامنے صوفہ پر۔

” پروفیسر صاحب کا فیملی فنکشن نہ ہوتا تو میں میانوالی دو دن کے لیے کبھی نہ جاتی تمہیں چھوڑ کر…… “ ڈاکٹر ہاجرہ نے جانے کی وضاحت پیش کی۔

” اٹس اوکے آنی آپ کیوں ٹینشن لے رہی ہیں۔ ابھی ڈنر کرتی ہوں تو پھر دیکھیے گا“ حاجرہ نیازی نے زیرک خاتون کی طرح عظمی کو دیکھا جانچی نگاہوں کے ساتھ۔

 

” کیا دیکھ رہیں ہیں آنی“ عظمی نے پوچھا۔

” دیکھ رہی ہوں کہ اب تم ڈپریشن میں بھی RELAX نظر آتی ہو۔ یہ سب بلال کی وجہ سے ہوا ہے۔ کیا بلال سے جھگڑا ہوا ہے؟“

” جھگڑا …… جھگڑا ہی تو وہ نہیں کرتا، بس دیکھتا رہتا ہے۔ آپ کے اندر بالکل ایکسرے مشین کی طرح سب کچھ وہ دیکھ لیتا ہے، سوائے میرے دل کے آنی اُسے دل کی دھڑکن سنائی نہیں دیتی“

” حیرت ہے تم ایک ڈاکٹر ہوکر یہ دقیانوسی باتیں کررہی ہو“

” آنی آپ ٹھیک کہتی ہیں۔

 

ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے بھی اپنے دل سے کہا تھا ویری فنی“عظمی کی آواز نے بلال کی محبت کا چولا پہنا ہوا تھا، اور اُس کا انگ انگ بلال کے رنگ میں رنگا جاچکا تھا۔ 

” آنی میں نے اُسے پروپوز کردیا تھا، اُس دن اور وہ مجھے دیکھ رہا تھا، حیا کی نظروں سے میرے اندر تک میرے جسم سے آگے میری روح کو آنی آپ کو پتہ ہے اِن سالوں میں اتنی ملاقاتوں کے دوران اُس نے مجھے غلطی سے بھی نہیں چُھوا پھر بھی اُس کے ہاتھوں کا لمس میں اپنے پورے جسم پر محسوس کرتی ہوں۔

 

اور اُس کی سانسوں کی مہک اپنے ہونٹوں پر محسوس کرتی ہوں …… اور اُس کے جسم کی خوشبو سے میرا روم روم معطر ہوگیا ہے“

” کم آن عظمی یہ ابنارمل باتیں مت کرو جانی آئی ایم شاکڈ …… تم بلال کے مشاہدے کو درست اور میرے تجربے کو غلط ثابت کررہی ہو چلو اٹھو اور فریش ہوکر آوٴ میں ڈنر کا کہتی ہوں“ عظمی اُٹھی اور واش روم میں چلی گئی ہاجرہ بھی وہاں سے چلی گئی تھوڑی دیر بعد ہاجرہ کمرے میں داخل ہوئی تو اُس کے پیچھے کھانے کی ٹرالی بھی تھی جو ملازم لے کر آیا تھا۔

 

”آپ جاوٴ ضرورت ہوئی تو آپ کو بلالوں گی“ اُس نے ملازم سے کہا تھا۔ عظمی نے کھانا کھایا جیسے پچھلے دو دن سے کچھ نہ کھایا ہو۔ کھانے سے فارغ ہوکر وہ ہاتھ دھوکر آچکی تھی۔ اب وہ پہلے والی عظمی لگ رہی تھی جو تخیل کی دنیا سے باہر آچکی تھی۔ 

”کس کا مشاہدہ اور کس کا تجربہ “ عظمی نے مسکراکر پوچھا تھا۔ وہ ہاجرہ کی آخری کہی ہوئی بات بھولی نہیں تھی۔

 

 

” یا اللہ تیرا شکر ہے میں تو ڈرگئی تھی کہیں تم نروس بریک ڈاوٴن نہ کر جاوٴ“ ہاجرہ مسکراکے بولی ”وہ مشاہدہ اور تجربہ“ عظمی نے پھر سے اپنا سوال یاد کرایا ہاجرہ کو۔

” تقریباً دو ڈھائی سال پہلے جب بلال سے تمہاری پہلی ملاقات ہوئی اُس دن جب تم گھر لوٹی تو خوش تھی پھر تم نے سنڈے کو بھی ہاسپٹل جانا شروع کردیا۔ دوسری ملاقات کے بعد تم میں کچھ اور تبدیلی آئی تیسرے سنڈے تم نے مجھے رات ڈنر کرتے ہوئے پوچھا آنی سنڈے پرسوں آئے گا۔

 

اُس دن بھی سنڈے ہی تھا۔ اور تم بلال سے مل کر ہی آئی تھی تب مجھے تجسس ہوا تمہاری طرح مجھے بھی سنڈے کا انتظار تھا۔ چوتھے سنڈے میں نے تمہارا پیچھا کیا۔

 یہ تو بلال ہے جب میں نے تمہیں بلال کے ساتھ دیکھا تو خوشی سے دل میں کہا میں بلال کو اُس کے بچپن سے جانتی تھی۔ میں مطمئن ہوگئی اگلے دن یعنی پیر کو میں اُس کے اسکول چلی گئی اُس نے مجھے دوپہر کا کھانا کھلایا اور خود نہیں کھایا میرے پوچھنے پر مجھے خبر ہوئی بلال کا روزہ ہے۔

 

تب میں نے اُس سے ریکوسٹ کی تھی۔ بلال بیٹا عظمی کو تھوڑا وقت دیا کرو اُسے تمہاری توجہ کی ضرورت ہے تمہاری تھوڑی سی توجہ سے میری بچی بالکل ٹھیک ہوجائے گی۔ 

بلال بولا” خالہ جی میری توجہ سے وہ ٹھیک تو ہوجائے گی مگر توجہ کا پانی اُس کے محبت کے ننھے پودے کو زیادہ سیراب کرے گا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک مضبوط درخت کی شکل اختیار کرلے گا “

” ایسا نہیں ہوگاجب تم اُسے یہ بتاوٴ گے کہ تم بچپن سے منسوب ہو نسیم سے“ میں نے کہا تھا

” میں نے اُس کی نظر میں پہلی ہی ملاقات میں وہ محبت دیکھی تھی جو ایک لڑکی کو ہوتی ہے مخالف جنس سے خالہ جی یہ میرا مشاہدہ ہے“ بلال نے جواب دیا۔

 

” بلال بیٹا تمہارا مشاہدہ غلط ہے۔ عورت اپنی محبت میں شراکت نہیں برداشت کرسکتی یہ میرا تجربہ ہے“ میں نے بلال کو سمجھایا تھا۔

” خالہ جی آپ بڑی ہو۔ میں آپ کے تجربے کو چیلنج نہیں کررہا ہوں مگر مجھے خدشہ ہے کل کو وہ اُسی ڈپریشن میں واپس نہ چلی جائے جس سے آج ہم اُسے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں“

” ایسا کبھی نہیں ہوگا انشاء اللہ“ میں نے بلال کو جواب دیا تھا۔

 

ہاجرہ ماضی کے کواڑ بند کرکے حال میں بیٹھی ہوئی تھی اور کُھلی آنکھوں سے مستقبل کے دریچوں سے آگے دیکھنا چاہتی تھیں اور عظمی اپنی آنی کو دیکھ رہی تھی۔ عظمی کے کلی جیسے ہونٹوں پر ننھی سی مسکراہٹ اُبھری وہ اپنی خالہ کے گلے لگی پیار سے۔

” انشا اللہ ایسا کبھی نہیں ہوگا آنی میں آپ کے تجربے کو سچ ثابت کروں گی“ عظمی کا سر اپنی خالہ کے کندھے پر تھا اور اُس کا دل بلال کی یاد میں۔

( مسٹر بلال تمہاری انہیں باتوں پر تو میں مرمٹی ہوں) اُس نے دل میں کہا۔

###

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page