
شکیل احمد چوہان - بلال صاحب
” تم اُس پر مرمٹی ہو اور تم نے جیتے جی مجھے ماردیا ہے۔ آخر میں تمہاری ماں ہوں، کیا میرا اتنا بھی حق نہیں تھا کہ تم ایک بار مجھ سے پوچھ لیتی ……
تم نے اتنا بڑا فیصلہ اکیلے ہی کرلیا۔ مجھے تو تم پر مان تھا میری جان مگر تم …… تمہیں شادی کرنی تھی تو مجھے بتائی اِس شہر کے اچھے سے اچھے خاندانوں کے رشتے تمہاری ایک ہاں کے منتظر تھے۔ میں تمہاری شادی ایسی دھوم دھام سے کرتی کہ دنیا دیکھتی۔
اُف تمہارا انتخاب ہمارے ٹکڑوں پر پلنے والا فقرا اُس سے نکاح کررہی ہو وہ بھی مسجد میں اور وہ ولیمہ میں کھجوریں اور دودھ دے گا ہے نا جہالت کی انتہا …… “
ناہید نے رو روکر ایک طوفان برپا کیا ہوا تھا، اپنے بیڈ روم میں نوشی اور شعیب خاموش بیٹھے ہوئے تھے اُس کے سامنے شعیب اُٹھا اور اپنی ماں کو سنبھالا۔
” چھوڑیں ماما اِس پر کوئی اثر نہیں ہوگا آپ کی باتوں کا اِسے بلال نے تعویذ پلادیئے ہیں اُس بڈھے موچی سے لاکر“
”ٹھیک کہتے ہو تم بُت بنی بیٹھی ہے ماں کے آنسو بھی نظر نہیں آتے اِس کو …… “
ناہید نے مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے ایک بار پھر کہا نوشی کی طرف دیکھ کر نوشی اُٹھی اور اپنی ماں کے گلے لگ گئی۔
”سُوری ماما آپ ٹھیک کہتی ہو۔ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی پلیز آپ مجھے معاف کردو SORRY آئندہ ہر کام آپ سے پوچھ کر کروں گی پلیز ماما معاف کردیں“
” چلو ٹھیک ہے مجھے چھوڑو تو سہی“ ناہید نے اپنے ساتھ چمٹی نوشی کو پیچھے ہٹایا ”بیٹھ جاوٴ میرے پاس “ فوراً ہی ناہید کے آنسو خشک ہوگئے تھے۔
” ماما آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہے بلال کے متعلق وہ تو بہت اچھا ہے اور مجھ سے محبت بھی بہت کرتا ہے“ نوشی بولی ناہید کی طرف دیکھ کر۔
” محبت …… اور تم سے …… یہ تمہاری بُھول ہے …… محبت تو اُسے ہے مگر تم سے نہیں وہ تمہاری دولت سے محبت کرتا ہے …… اگر تم سے محبت ہوتی اُس کو تو وہ تمہاری مرضی سے شادی کرتا ساری شرطیں تو اُس نے اپنی رکھی ہیں نکاح مسجد میں ولیمہ وہ کر نہیں رہا بھلا یہ بھی کوئی ولیمہ ہوا کھجوریں اور دودھ حق مہر وہ شرعی رکھے گا …… ان سب باتوں میں تو تمہاری محبت کہیں نظر نہیں آتی“
ناہید نے اپنے دل کی ساری باتیں نوشی سے کہہ دیں۔
”میں تو تب مانوں گی کہ وہ تم سے محبت کرتا ہے جب وہ تمہاری شرطوں پر شادی کے لیے تیار ہوگا “ ناہید نے نئی چال چل دی۔
”کیسی شرطیں ماما “ نوشی نے حیرت سے پوچھا۔
”یہی کہ نکاح مسجد میں نہیں ہوگا اور وہ ولیمہ کرے گا، کسی بڑے ہوٹل میں ہمارے سٹیٹس کے عین مطابق اور حق مہر میں وہ پلاٹ لکھے گا جو اُس نے ابھی ابھی خریدا ہے “
” مگر ماما اُس نے مجھ سے پوچھ کر فیصلہ کیا تھا۔
“نوشی نے پریشانی سے جواب دیا۔
” ٹھیک ہے …… مجھے بھی تو پتہ چلے کہ وہ تم سے کتنی محبت کرتا ہے شعیب تم دیکھ لینا اُس نے صرف محبت کے دعوے ہی کیے ہیں، نوشی کے ساتھ بس خالی اظہار محبت ثبوت کوئی نہیں دیا محبت کا“ ناہید شعیب کی طرف دیکھ کر بولی ایک آنکھ کا ابرو چڑھاتے ہوئے اوپر کو۔
” ماما نہ تو اس نے کبھی اپنی محبت کا اظہار کیا ہے، میرے ساتھ اور نہ ہی کبھی کوئی دعوے کیے ہیں“ نوشی سادگی سے بولی۔
”سن لو شعیب اور یہ مری جارہی ہے اُس کی محبت میں نوشی میری ایک بات یاد رکھنا اُس کی زندگی میں کوئی اور لڑکی ہے۔ یہ میں بہت جلد ثابت کردوں گی اور وہ ایک بدکردار لڑکا ہے میری بات یاد رکھنا “ ناہید نے شک کا بیج پھر سے بُودیا مکاری سے۔
رات کے 12بج رہے تھے جب وہ اپنے کمرے میں واپس لوٹی اور اُس کے کانوں میں اپنی ماں کے الفاظ گونج رہے تھے کہ وہ بدکردار ہے اور اُس کی زندگی میں کوئی اور لڑکی بھی ہے توشی مزے سے سورہی تھی، وہ ٹیرس پر گئی بلال کے روم کی لائٹیں آف تھیں۔
وہ آکے توشی کے پہلو میں لیٹ گئی۔
وہ بدکردار ہے اور اُس کی زندگی میں کوئی اور لڑکی ہے اب بھی اُس کے کانوں میں آواز آرہی تھی۔
” عظمی کے علاوہ بھی کوئی اور ہے“ اُس نے خود سے سوال کیا …… آہستہ سے منہ میں نوشی اپنے بیڈ پر سیدھی لیٹی ہوئی تھی شک اور شکر کے بیچ بحث جاری تھی۔
###
بلال فجر کی نماز پڑھ کر مسجد سے لوٹا تو اُس کا موبائیل مسلسل صدالگارہا تھا، کہ کوئی بات کرنا چاہتا ہے تم سے۔
” جی اقبال بھائی …… “ بلال کال رسیو کرنے کے بعد بولا تھا۔ دوسری طرف سے اقبال کے رونے کی آواز بلال کے کانوں میں پڑی رونے کے ساتھ ساتھ اقبال کے منہ سے صرف ایک جملہ نکلا اور کال کٹ گئی اقبال کا ایک جملہ سننے کے بعد وہ کچھ اور سُننے کا متحمل نہیں تھا۔ اس لیے اُس نے اقبال کو دوبارہ کال نہیں کی۔ بلال نے ایک اٹل حقیقت سُنی تھی جس سے اس کا سینہ چھلنی چھلنی ہوگیا تھا۔
بلال ذہنی خلفشار میں مبتلا تھا جس کی وجہ سے آنسو اُبل اُبل کر باہر آتے مگر پلکوں پر آکر جم جاتے بلال جمے ہوئے آنسووٴں کے ساتھ اپنے کمرے سے نکلا اُسی لباس میں جو اُس نے پہنا ہوا تھا سفید شلوار قمیض اوپر کالی گرم چادر پاوٴں میں باباجمعہ کے ہاتھ کی بنی ہوئی کالی چمڑے کی پشاوری چپل وہ گاڑی میں بیٹھا اور گھر سے نکل گیا۔
بابا جمعہ کے گھر کے باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔
تنگ گلی اوپر سے ہجوم دھند نے اپنی چادر سے لاہور شہر کو ڈھانپاہوا تھا اور کماہاں گاوٴں کا یہ محلہ غم میں ڈوبا ہوا تھا۔ بڑی مشکل سے بلال گھر کے اندر داخل ہوپایا، صحن میں چلتے ہوئے بلال کے قدم ایسے لڑکھڑارہے تھے جیسے کٹی ہوئی پتنگ ہو، جس پتنگ کا اُڑانے والا زندگی کی ڈور توڑ دے اور وہ پتنگ بے یارومددگار ہوا کے رحم و کرم پر ہو یہاں گری کہ وہاں گری کہیں بجلی کی تاریں اور کہیں کانٹوں والے درخت یا پھر کسی کی چھت کہیں گندہ نالہ کہیں ڈنڈے پر خاردار تار لپیٹے ہوئے خانہ بدوش جوکٹی ہوئی پتنگ پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے جنگلی بھیڑیا اپنے شکار پر اِس سے پہلے یہ پتنگ کہیں اور گرتی اقبال نے بڑھ کر اُسے تھام لیا اپنے مضبوط بازووٴں میں ۔
” بلال بھائی باباجی چلے گئے ہمیں چھوڑ کر“ اقبال نے زور سے آواز لگائی بلال کے ساتھ لپٹتے ہوئے یہ ایسے ہی تھا کہ دوگرتی ہوئی دیواریں ایک دوسرے کے ساتھ ٹیک لگاکر کھڑی ہوجائیں تھوڑی دیر کے لیے اتنے میں عادل عقیل آکر اُن دونوں کے ساتھ لپٹ جاتا ہے۔
عادل عقیل سب سے آخر میں گیا تھااور سب کے بعد آیا تھا۔ وہ بلک بلک کر رو رہا تھا نوزائیدہ بچے کی طرح اور اقبال دھاڑیں مار مار کر رورہا تھا۔
بلال کی آنکھیں پتھرائی ہوئیں تھیں۔ بلال نے اُن دونوں کو سنبھالا اُنہیں دلاسہ دیا۔
محمد طفیل اور بریگیڈئر امان اللہ بھی موجود تھے، جوکہ بابا جمعہ کے پرانے عقیدت مند تھے۔ گھر اور گھر کے باہر جتنے لوگ تھے سب کی آنکھیں نم تھیں۔
” آپ سب رونا بند کریں اور میری بات سُنیں میں نے باباجی کی بہنوں کو خبر دے دی تھی۔ اور اُن کی ٹکٹوں کا بندوبست بھی کردیا ہے۔
باباجی کی بہنیں اور اِن کے بہنوئی ایک بجے تک پہنچ جائیں گے۔ “ بریگیڈئر امان اللہ مخاطب تھے، باباجمعہ کے چاہنے والوں سے بریگیڈئر امان اللہ نے باباجمعہ کا کمرہ خالی کروالیا تھا، جس میں اُن کا جسد خاکی پڑا ہوا تھا۔ اب اُس کمرے میں بلال اقبال اور عادل تھا۔ ”ایک بات اور رونا اور آنسو نکل آنا فطری عمل ہے مگر خدا کے لیے یہ بین مت ڈالیں یہ واہ ویلا نہ کریں یہ گناہ کبیرہ ہے بڑا سخت گناہ ہے بین ڈالنا، اور آخری بات جنازے کا وقت تین بجے رکھا ہے نماز جمعہ کے بعد کماہاں گاوٴں کے قبرستان میں باباجی کو دفن کیا جائے گا۔
آپ سب لوگوں سے میری پھر درخواست ہے۔ آپ یہ بین ڈالنا اور رونا دھونا بند کریں عورتیں اور بچے اپنے گھروں کو چلیں جائیں اور مرد حضرات گلی میں کھڑے نہ ہوں اندر بیٹھنے کی جگہ ہے وہاں بیٹھ جائیں“ امان اللہ کا تعلق بھی اِس گاوٴں سے تھا اور وہ باباجی کے بچپن کے دوست تھے اور عقیدت مند بھی اب بریگیڈئر امان اللہ ڈیفنس ہاوٴسنگ اتھارٹی میں رہتے تھے۔
بریگیڈئر صاحب نے کراچی میں اپنے ایک دوست کی ڈیوٹی لگائی تھی۔
” میرے عزیز ہیں، کراچی سے لاہور آنے والی پہلی فلائٹ میں اِن کو جتنی ٹکٹیں چاہئیں آپ لے کر دیں۔
دس افراد کراچی سے بائی ائیر لاہور آرہے تھے جن کی ٹکٹوں کی ادائیگی امان اللہ نے کی تھی۔ اِس کے علاوہ کفن دفن کا سارا خرچہ بھی بریگیڈئر امان اللہ نے اُٹھایا تھا۔
باباجمعہ کو غسل دینے سے پہلے جب امان اللہ کمرے میں آئے تو صرف پانچ افراد تھے کمرے میں بریگیڈیئر امان اللہ، محمد طفیل، محمد اقبال، عادل عقیل اور بلال احمد عادل عقیل نے ایک خط امان اللہ کو تھمایا جو خاکی لفافے میں بند تھا۔“
”یہ باباجی نے آپ کے لیے دیا تھا کل رات کو “ عادل عقیل لفافہ تھماتے ہوئے بولا
امان اللہ نے خط پڑھنا شروع
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میرے عزیز دوست امان اللہ
امان اللہ تمہارے جیسے دوست ہوں زندگی میں تو زندگی آسان ہوجاتی ہے۔
تم میرے ساتھ زندگی بھر ہمیشہ کھڑے رہے ہر موسم میں چاہے وہ خزاں ہو۔ یا سخت گرمی …… اللہ تبارک تعالیٰ تمہیں اُن نیکیوں کا اجر عطا کرے۔ (آمین)
مجھے پتہ ہے میرے مرنے کے بعد تم کسی کو بھی ایک روپیہ خرچ نہیں کرنے دوگے اس لیے میں دو لاکھ روپیہ چھوڑ کر جارہا ہوں یہ میری حق حلال کی کمائی ہے۔
اِسے رکھ لینا میری آخری خواہش سمجھ کر اگر زندگی میں تمہارے ساتھ کوئی زیادتی کی ہو تو وہ بھی معاف کردینا۔
تمہارا دوست جمعہ خاں میواتی
عادل عقیل نے ایک پیکٹ بریگیڈئر امان اللہ کو تھمادیا جس کے اندر لاکھ لاکھ کی دوکاپیاں تھیں ہزار ہزار کے نوٹوں کی بریگیڈئر امان اللہ نے اپنے گرتے آنسووٴں کو رومال سے صاف کیا اور بولے ”غسل دے دیں “
” بریگیڈئر صاحب ایک خط اور ہے بلال کے نام“ عادل عقیل نے دوسرا لفافہ بلال کو دے دیا جس کے اوپر لکھا ہوا تھا بلال صاحب کے نام۔
” بلال نے لرزتے ہاتھوں کے ساتھ وہ خاکی لفافہ پکڑا جسے کھولنے کی ہمت اُس نے پیدا کی اور خط نکالا اور پڑھنا شروع کیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بیٹا بلال احمد
بلال بیٹا دنیا یہ سمجھتی تھی کہ تم مجھ سے سیکھنے آتے ہو۔ دراصل تم مجھے سکھاکر جاتے تھے۔ ہر دن کچھ نہ کچھ میری 66 سالہ زندگی میں آخری 16 سال تمہارے ساتھ گزرے اب میں سوچتا ہوں پہلے 50 سال تو میں نے ضائع کیے تھے۔
میں اپنے مرشد بابا سلانی جتنی ہی تمہاری بھی عزت کرتا ہوں وجہ تم ضرور جاننا چاہو گے میرے مرشد نے دنیا چھوڑ کر مقام بنایا تھا اور تم نے دنیا میں رہ کر مقام بنایا ہے۔ میں دانشور تو نہیں ہوں مگر میں یہ سمجھتا ہوں اس ملک کو تمہارے جیسے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔
میری ایک آخری خواہش ہے، مجھے غسل تم اپنے ہاتھوں سے دینا اور جنازہ بھی تم ہی پڑھانا اور مجھے قبر میں بھی تم ہی اُتار نا اپنے ہاتھوں سے اور ہاں آخری بات جس طرح اپنے ماں باپ کو اپنی دعاوٴں میں یاد رکھتے ہو مجھے بھی یاد رکھنا اپنی دعاوٴں میں کیونکہ میں نے 16 سال سے تمہیں ہی اپنا بیٹا سمجھا ہے۔
اللہ تمہیں اپنی امان میں رکھے۔
فقط تمہارا بابا جمعہ
بلال نے اختصار سے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ وہ خط بریگیڈئر امان اللہ کی طرف بڑھادیا۔ امان اللہ نے وہ خط پڑھا ایک دفعہ پھر اُن کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنا شروع ہوگئے تھے۔ ”تم ہو بلال احمد “ خط پڑھنے کے بعد امان اللہ نے روتے ہوئے بلال کو گلے لگالیا۔
”اقبال باباجی کو غسل بلال صاحب دیں گے اور جنازہ بھی یہی پڑھائیں گے “ امان اللہ نے ایک کمانڈر کی طرح آرڈر جاری کردیئے تھے۔
بلال نے باباجی کو غسل دیا اور اُن کو کفن بھی خود پہنایا غسل دینے کے بعد ایک الگ طرح کی بحث چھڑ گئی ”کل کا چھورا وہ بھی داڑھی مُنا “ ایک طرف کُھسر پھسر ہورہی تھی۔ دوسری طرف سے آواز آئی ”کیا اسے نماز جنازہ بھی آتی ہے پتہ کرلو…… “ اب اتنے بڑے بڑے بزرگ اس لونڈے کے پیچھے نماز پڑھیں گے”یہی چھورا…… پر ہے کون؟“ ایک طرف چند بوڑھے میواتی بُول رہے تھے ”ہم ایسا کفر کبھی نہ ہونے دیں گے “ ایک طرف سے چند میواتی نوجوان بول رہے تھے اتنے میں کراچی سے لوگ آگئے تھے ایک دفعہ پھر آہوں سسکیوں کی آوازیں بلند ہوئیں کچھ محلے کی عورتیں جیسے بین ڈالنے کے انتظار میں بیٹھی ہوئیں تھیں۔
باباجمعہ کی بہنیں آئیں تو اُن عورتوں نے بین ڈالنا شروع کردیئے آدھ گھنٹہ یہ سلسلہ جاری رہاوجہ یہ تھی سارے مرد جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے گئے ہوئے تھے بجلی بھی نہیں تھی بابا جمعہ کی بہنوں نے اور اُن عورتوں نے رو رو کر اپنا بُرا حال کرلیا تھا۔ بین ڈال ڈال کر اُن کے گلے بھی بیٹھ گئے تھے۔
”دیکھو بھائیوں جنازے کا وقت ہوگیا ہے۔ میں کافی دیر سے سُن رہا ہوں بلال کے بارے میں باتیں یہ بابا جمعہ کا خط ہے میرے ہاتھ میں اُن کی خواہش تھی کہ میرا جنازہ یہ بچہ پڑھائے یہ باباجمعہ کا منہ بولا بیٹا ہے۔
بلال احمد اِسے نماز جنازہ آتی ہے اِس کی میں گواہی دیتا ہوں۔ میں آپ سے کسی مذہبی بحث میں نہیں اُلجھنا چاہتا مجھے نہیں پتہ ایک داڑھی منا نماز جنازہ پڑھاسکتا ہے یا نہیں مگر آپ یہ سوچیں اس گاوٴں کا سب سے نیک اور پارسا آدمی جس کے جنازے کے لیے ہم سب اکٹھے ہوئے ہیں۔ یہ اُس کی آخری خواہش تھی …… بھائیوں باباجمعہ نے کچھ تو دیکھا ہوگا بلال احمد میں“ عوام کو امان اللہ کی بات سمجھ آگئی اورباباجمعہ کی تدفین ہوگئی بغیر کسی بدمزگی کے اُن کی خواہش کے عین مطابق باباجمعہ نے جب اپنا مکان بیچا تھا تو اپنی بہنوں کو فون پر اطلاع کردی تھی۔
انہوں نے باباجمعہ کے فیصلہ پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ اِس مکان سے حاصل شدہ رقم کے بارے میں صرف عادل عقیل جانتا تھا۔ اُس نے بلال کو بھی ابھی اِس بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ کل رات کو بلال اور اقبال کے جانے کے بعد جب عادل باباجمعہ کے پاس اکیلا تھا۔ باباجمعہ نے ایک بہت بڑی لکڑی کی بنی ہوئی الماری کھولی جو سکھ سردار جی غدر کے وقت چھوڑ کر گئے تھے وہ الماری بہت مضبوط تھی جس کے اوپر ایک بہت بڑا مضبوط تالا لگا ہوا تھا۔
اُس کے اندر سے دو خط اور ایک پیکٹ کالے شاپر بیگ والا انہوں نے عادل کے حوالے کیا۔
” عادل بیٹا یہ رکھو ایک خط امان اللہ کو دے دینا اور دوسرا بلال کو اور اِس میں دو لاکھ روپیہ ہے یہ بریگیڈئر امان اللہ کو دے دینا بلال کا ساتھ دینا ہمیشہ وہ بہت اکیلا ہے …… اور یہ جوتا میں نے تمہارے لیے بنایا تھا اپنے ہاتھ سے“ ایک پشاوری چپل بالکل ویسی جیسی بلال کے پاس تھی۔
عادل خاموش تھا مگر اُس کی آنکھوں سے اشک گررہے تھے۔
”عادل بیٹا موت ایک اٹل حقیقت ہے، تم رومت مجھے آج ایسا محسوس ہورہا ہے کہ میربلاوا کسی وقت بھی آسکتا ہے اس لیے تمہیں یہ ذمہ داری سونپی ہے اور وہ مکان کے پیسے بلال کو بتادینا کہ وہ اپنے اسکول میں لگادے مگر کسی دوسرے کو کانوں کان بھی خبر نہ ہو۔ یہ راز ہے اور راز ہی رہنا چاہیے۔ تم نے یہ رونے والی شکل کیوں بنارکھی ہے چلو شاباش یہ آنسو صاف کرو ساڑھے 10 بج رہے ہیں، اب تم گھر جاوٴ ماں باپ پریشان ہورہے ہوں گے“
عادل نے اپنے آنسو صاف کیے اب عادل بالکل نارمل تھا اُسے لگا میں تو خوش نصیب ہوں جو باباجی نے مجھے اِس قابل سمجھا اُس نے بلال کی طرح باباجمعہ کا چہرہ غور سے دیکھا جیسے کچھ پڑھنا چاہ رہا ہو اُسے باباجی کا چہرہ مطمئن لگا جس پر کوئی تکلیف یا پریشانی نہیں تھی۔
عادل بالکل مطمئن ہوگیا تھا ”تکلیف میں انسان ایسا ہی سوچتا ہے “ عادل کے دل میں خیال آیا وہ جانے کے لیے اُٹھا کرسی سے۔
”کل کونسا دن ہے؟ عادل بیٹا باہر کا دروازہ بند کردینا میں بعد کو کنڈی لگالوں گا“
باباجمعہ نے ایک ساتھ پوچھا اور حکم دیا یہ بابا جمعہ کے آخری الفاظ تھے۔
”ٹھیک ہے باباجی …… کل جمعہ ہے۔ میں افطاری کا سامان گھر سے تیار کرواکر لاوٴں گا۔
روزہ اکٹھے کھولیں گے“ عادل نے جاتے ہوئے عقیدت سے کہا۔
عادل کے جانے کے بعد باباجمعہ نے اپنی گرم لوئی اُوڑھی اور گیس ہیٹر لگایا اور جائے نماز پر آکر بیٹھ گئے وضو انہوں نے پہلے سے کیا ہوا تھا بس انہوں نے ہاتھ دھوئے او رکلی کی وہ فجر کی اذان تک جائے نماز پر بیٹھے رہے تکلف کی وجہ سے وہ اُٹھ نہیں سکے انہیں پھر سے شدید بخار ہوچکا تھا۔
فجر کی اذان کے فوراً بعد باباجمعہ نے بیٹھے بیٹھے نماز ادا کی نماز سے فارغ ہوکر انہوں نے لمبی دُعا مانگی اِس کے بعد وہ پھر سے سجدے میں گرگئے سجدے ہی میں وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئے تھے اُن کی روح اُن کے جسم کو چھوڑ کر جاچکی تھی۔ باباجمعہ 17اکتوبر 1947ء کو بروز جمعہ پیدا ہوئے اور 17جنوری 2014ء بروز جمعہ اِس دنیا سے کوچ کیاباباجمعہ کی پیدائش بھی جمعہ کو ہی ہوئی تھی اور انتقال بھی۔
باباجمعہ کے محلے کی مسجد میں پچھلے پچاس سال میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ باباجمعہ گاوٴں میں بھی تھے اور وہ فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے نہیں آئے تھے نمازیوں نے ایک دوسرے سے باباجمعہ کے متعلق پوچھا سب کو تشویش ہوئی اقبال نے بتایا رات اُن کو بخار تھا۔
سب نمازی باباجمعہ کے گھر کی طرف چل دیئے دروازہ بند تو تھا مگر اندر سے کُھلا ہوا تھا۔ جب وہ سب نمازی کمرے میں داخل ہوئے تو باباجمعہ کا جسد خاکی سجدے میں تھا مگر روح کے بغیر محمد اقبال چائے والے نے سب سے پہلے بریگیڈئر امان اللہ کو فون کیا اُس کے بعد سب کو فون کرکے اطلاع دی تھی۔
###
بلال مغرب سے کچھ دیر پہلے رندھاوا ہاوٴس واپس پہنچا بلال کے آنے سے پہلے ہی بابا جمعہ کی خبر آچکی تھی۔ بلال نے روزہ افطار کیا نماز ادا کی اور اپنا فون بند کردیا اور خود سوگیا، مغرب کے بعد ہی گھر میں کسی نے بھی اُسے ڈسٹرب نہیں کیا تھا۔ وہ رات 2 بجے کے آس پاس اُٹھا غسل کیا اور عشاء کی نماز ادا کی اِس کے بعد تہجد کے لیے کھڑا ہوگیا۔
تہجد سے فارغ ہوکر جب اُس نے ہاتھ بلند کیے تو سب سے پہلے باباجمعہ کے لیے دُعامانگی۔
اِس کے بعد اپنے والدین کے لیے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد بلال پھر سے دروازہ بند کرکے لیٹ گیا اپنے بستر پر وہ کھلی ہوئی آنکھوں سے پچھلے 16 سال کو دیکھ رہا تھا۔
جب وہ تقریباً دس سال کا تھا تو اُس کی ملاقات پہلی بار بابا جمعہ سے ہوئی تھی۔
وہ یتیم بچہ جس کے سر پر باباجمعہ نے شفقت کا ہاتھ پھیرا۔
بلال نے لیٹے ہوئے ہی اپنے ہاتھوں کو دیکھا جن ہاتھوں سے اُس نے بابا جمعہ کو قبر میں اُتارا تھا۔
###
18 جنوری بروز ہفتہ بلال نے آفس سے چھوٹی کی وہ سارا دن اپنے کمرے میں ہی میں رہا اگلے دن اُس کی ماں کی برسی تھی۔ وہ ہر روز کی طرح اپنی ماں کی قبر پر حاضر ہوا اور اُن کی مغفرت کی دعا مانگی۔
دو دن بلال کا فون off رہا اس دوران عظمی نے بار ہا اُس کا فون ٹرائی کیا جو نہیں مل سکا اتوار کو اپنی ماں کی برسی کی وجہ سے وہ مینٹل ہاسپٹل بھی نہیں جا سکا تھا۔
عظمی ہر حال میں بلال سے ملنا چاہتی تھی۔ مگر اُسے بلال کے گھر کا اڈریس معلوم نہیں تھا۔ اپنی خالہ سے وہ پوچھنا نہیں چاہتی تھی۔
عظمی اگلے دن بلال کے آفس پہنچی فوزیہ چھٹیوں پر تھی۔ اس لیے کہ ہفتے والے دن اُس کی لیاقت علی سے شادی تھی فوزیہ کی سیٹ پر نوین ڈیوٹی کر رہی تھی۔ آفس بوائے عظمی کو جانتا تھا۔ اس لیے اُس نے بڑے احترام کے ساتھ عظمی کو بلال کے آفس بٹھایا۔
عظمی اور نوین بلال کے آنے سے پہلے کافی دیر گپ شپ لگاچکی تھیں۔ عظمی بلال کو دیکھ کر صوفہ سے کھڑی ہو گئی تھی جب وہ آفس میں داخل ہوا تھا۔ بلال بابا جمعہ کے انتقال کی وجہ سے کافی اُداس تھا۔
”اسلام علیکم“ بلال نے داخل ہوتے سلام کیا تھا۔ ایک نظر عظمی کو دیکھا اور اُس کے بعد اُس کی نظر نوین پر بھی پڑی جو کہ فوزیہ کی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔
”سنا ہے آپ کی شادی ہو رہی ہے … مبارک ہو“ عظمی بول پڑی تھی۔ بلال کے کرسی پر بیٹھنے سے پہلے بلال نے اُس کی بات سنی اَن سنی کر دی۔ ”آپ یہاں کیوں بیٹھی ہوئی ہیں“ بلال نے سنجیدگی سے پوچھا تھا نوین سے ”سر وہ فوزیہ میڈیم چھوٹی پر ہیں اس لیے“ نوین نے وضاحت پیش کی تھی۔
”آپ اپنے آفس میں جائیں ضرورت ہوگی تو آپ کو بلوا لیا جائے گا“ بلال نے شائستگی سے کہا تھا۔
”ok سر“ بلال عظمی کی طرف متوجہ ہوا جو اب تک کھڑی تھی۔ نوین نے موقع دیکھا اور اپنے موبائیل کا Sound recorder on کیا موبائیل کو تھوڑا سا دراز کھول کر اُس کے اندر رکھ دیا اور خود بجلی کی رفتار سے اپنے آفس چلی گئی تا کہ بعد میں وہ بلال اور عظمی کے بیچ ہونے والی گفتگو سن سکے۔ ”عظمی جی آپ کھڑی کیوں ہیں پلیز تشریف رکھیں“۔
بلال عظمی کی طرف آیا اور اُس کے سامنے صوفہ پر بیٹھ گیا۔
نوین کی اسکیم کام کر گئی تھی۔
” چائے کے ساتھ فرورٹ کیک“ بلال نے عظمی سے پوچھا عظمی نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلا دیا تھا آج عظمی بلال کو اندر تک دیکھنا چاہتی تھی خاموشی سے۔
”پچھلے دو دن آپ کا موبائیل off تھا “ عظمی نے کہا۔
”ہاں وہ میری طبیعت … “ بلال بات اُدھوری چھوڑ کر خاموش ہو گیا تھا۔
”آپ کی PA بتا رہی تھی کہ آپ کے کوئی قریبی بزرگ فوت ہو گئے ہیں۔
“ عظمی نے ہمدردی بھرے لہجے کے ساتھ پوچھا۔
”جی ہاں … “ بلال نے مختصر جواب دیا اور خاموش ہو گیا کافی دیر آفس میں خاموشی رہی آفس بوائے چائے دے کر جا چکا تھا۔ ایک کپ چائے اور کیک عظمی کو ایک کپ چائے کی وجہ معلوم تھی کیونکہ اُس دن پیر تھا۔
”آپ اب تک ناراض ہیں مجھ سے۔ اُس بات کو تین ہفتوں سے زیادہ وقت گزر چکا ہے اور ان تین ہفتوں میں مَیں نے کتنی کالز کیں آپ کو مگر آپ نے ایک دفعہ بھی مجھ سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھا … بلال ناراض تو مجھے ہونا چاہیے تھا آپ سے … آپ نے مجھے ٹھکرا یا ہے … مگر میں پھر بھی یہاں پر بیٹھی ہوئی ہوں، آپ کے سامنے “ عظمی بول رہی تھی اور بلال سن رہا تھا۔
”من کے میت کو اکیلے منجھدار میں نہیں چھوڑتے ایک دفعہ آپ نے ہی کہاتھا۔ من کی میت نہ سہی آپ کی دوست تو ہوں۔ اتنا تو ڈیزرو کرتی ہوں۔ بلال بچپن سے لے کر آج تک میرا تو کوئی دوست بھی نہیں ہے آپ کے علاوہ اور آپ ……“
”ٹھیک ہے … اب زیادہ ایموشنل مت ہوئیں۔“ بلال نے عظمی کی سنجیدگی ختم کرنے کی غرض سے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔ اُسے ڈرتھا کہ عظمی جذباتی نہ ہو جائے ماضی میں وہ سائیکو پیشنٹ رہ چکی تھی۔
بلال نے بڑی مشکل سے اُسے دو سال پہلے ڈپریشن سے نکالا تھا۔ “
بلال کے ایک دو ٹوک جملے سے عظمی کی ساری ناراضی ختم ہو گئی تھی۔ جملے میں کوئی خاص بات نہیں تھی مگر اُس میں اپنائیت بہت زیادہ تھی جیسے کوئی اپنا سمجھ کر ڈانٹ رہا ہو۔
”اچھا وہ بزرگ کون تھے … آپ کے کیا لگتے تھے … “ عظمی نے دو سوال اکٹھے پوچھے سنجیدگی سے۔
”بابا جمعہ اُن کا نام تھا اور وہ موچی کا کام کرتے تھے میرا اُن کے ساتھ اُستاد شاگرد کا رشتہ تھا۔
حالانکہ وہ مجھے اپنا بیٹا سمجھتے تھے۔ “ بلال نظریں جھکائے بولا تھا۔
”موچی اور آپ کے استاد … “ عظمی حیرت سے بولی تھی۔
”عظمی جی … کچھ زندگی کے سبق کتابوں سے نہیں ملتے … ایسے گمنام دانشوروں اور اللہ کے نیک بندوں سے حاصل ہوتے ہیں، اُن کی صحبت میں بیٹھ کر … “
آفس بوائے دستک دے کر اندر داخل ہوا تھا”سر کوئی عادل عقیل ہاشمی صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں“، آپ انہیں بھیج دو“ بلال نے کہا عادل عقیل ہاشمی عظمی نے زیر لب نام دہرایاتھا۔
”اسلام علیکم … بلال بھائی… “ عادل عقیل ہاشمی اندر آکر بولا تھا۔ بلا ل نے اُٹھ کر اُسے گلے لگایا اور اپنے پہلو میں صوفے پر جگہ دی عادل کے ہاتھ میں ایک فائل تھی جو اُس نے سینٹر ٹیبل پر رکھ دی تھی۔
”چائے یا ٹھنڈا … کیا لو گے۔ “ بلال نے پوچھا خلوص سے۔
”نہیں بلال بھائی کچھ نہیں شکریہ بس آپ یہ فائل دیکھ لیں “ عادل نظریں جھکائے ہوئے بولا تھا۔
اُس نے کمرے میں داخل ہوتے وقت یا بلال کیساتھ بیٹھنے کے بعد ایک بار بھی عظمی کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ جبکہ عظمی اُسے مسلسل ٹکٹکی باندھے حیرت میں مبتلا کھلے منہ کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔
”ایسا کیسے ہو سکتا ہے تم میرے آفس میں پہلی بار آئے ہو میں چائے کا کہتا ہوں۔ “
”نہیں بلال بھائی میرا روزہ ہے۔ “ عادل نے عجلت میں کہا تھا۔
”روزہ… “ عظمی نے ایک بار پھر منہ میں کہا ”اس کا“ عظمی حیرت میں مبتلا تھی۔
”ارے میں تعارف کروانا توبھول ہی گیا یہ ہیں عادل صاحب میرے دوست … “
بلال نے عادل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تعارف کروایا تھا ”اور آپ ہیں ڈاکٹر عظمی جی“
”ہیلو عادل کیسے ہو میں ہوں عظمی ا فگن “ عظمی بے تکلفی سے بولی جیسے یاد کر ا رہی ہو۔
”اسلام علیکم … عظمی جی … “ عادل نے ایک نظر عظمی پر ڈالی ”بلال بھائی آپ یہ دیکھ لیں۔
“
بلال نے وہ فائل دیکھی جس میں بینک سے متعلقہ کاغذات تھے۔ اور اُس میں دو Deposit slips لگی ہوئیں تھیں۔ ایک 20 لاکھ کی اور ایک 5 لاکھ کی 20 لاکھ روپے بابا جمعہ کے مکان کی قیمت تھی۔ اور 5 لاکھ محمد طفیل والے عادل نے ساری تفصیل بلال کو بتا دی تھی۔
عادل نے بتایا ”دو چار دن میں چیک بک اور ATM کارڈ بھی آ جائے گا“ عادل نے یہ بھی بتایا تھا کہ بابا جی نے اسے راز رکھنے کا حکم دیا تھا۔
”اچھا بلال بھائی مجھے اجازت دیں مجھے تھوڑی جلدی ہے۔ “ عادل نے جاتے ہوئے بلال سے کہا تھا۔
بلال نے اُسے باہر تک چھوڑا بلال بابا جمعہ کے متعلق سوچ رہاتھا۔ اور عظمی عادل کے متعلق سوچ رہی تھی۔ دونوں اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے۔ کافی دیر بعد عظمی کے موبائیل پر Ring ہوئی تو دونوں کا تسلسل ٹوٹ گیا تھا۔
”عظمی جی آپ عادل عقیل کو جانتی ہیں۔
“ بلال نے عظمی کو حیرت میں مبتلا دیکھ کر پوچھا۔
”جانتی میرا کلاس فیلو تھا بچپن میں ہم ایک ہی اسکول میں پڑتے تھے۔ اس کے ابو انکل ہاشمی میرے انکل زمان کے سب سے قریبی دوست ہیں۔ پہلے یہ لوگ ماڈل ٹاؤن میں ہی تو رہتے تھے انکل زمان کے گھر کے ساتھ ہی تو ان کا گھر تھا۔ پھر یہ لوگ ڈیفنس شفٹ ہو گئے۔ “
”آپ عادل کو دیکھ کر اتنی حیران کیوں تھی … عظمی جی۔
“ بلال نے پوچھا پھر سے۔
”یہ ایک نمبر کا ایڈیٹ تھا۔ آج تو بڑا سوبر اور ڈیسینٹ بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ جب ہم لوگ اسکول میں تھے تو یہ سب سے زیادہ بولتا اور سب سے زیادہ سوال پوچھتا تھا۔ اور کھاتا بھی بہت تھا۔ سال پہلے تک تو بہت موٹا تھا۔ اب تو ایک دم سلم اینڈ سمارٹ ہے۔“ عظمی مزے لے کر اپنے بچپن کو یاد کر رہی تھی۔ اور عادل کے قصے سنا رہی تھی۔ وہ عظمی جو گھنٹہ پہلے بہت دکھی تھی۔ اب ایک اسکول کی بچی کی طرح باتیں کر رہی تھی۔ اور بلال اپنے ہونٹوں کے نیچے اپنا دایاں ہاتھ رکھے ہوئے عظمی کو دیکھ رہا تھا۔ خاموشی کے ساتھ۔
”ہاں ایک بات تھی۔ عادل بہت لائق تھا۔ ہمیشہ کلاس میں سب سے اچھے گریڈز لیتا تھا۔ میٹرک میں تو اس نے بورڈ میں ٹاپ کیا تھا۔ اور FSc میں آئی تھینک سیکنڈ پوزیشن تھی پھر یہ آرمی میں چلا گیا وہاں سے یہ چند روز میں واپس آ گیا، پھر کہنے لگا MBA کروں گا، وہ بھی بیچ میں ہی چھوڑ دیا۔ آج کل شاید انگلش لٹریچر کر رہا ہے … کبھی اسے صحافی بننے کا بخار بھی چڑھا تھا۔
بیچ میں کسی مشہور اخبار میں چھوٹے موٹے کالم بھی لکھتا رہا ہے۔
میری اور اس کی ہمیشہ لڑائی رہی ہے۔ ایک سال سے یہ مجھ سے سخت ناراض ہے دیکھا نہیں آپ نے مجھے آنکھ اُٹھا کر دیکھا بھی نہیں ہمیشہ مجھے اُلٹے نام سے بلاتا تھا۔ اور آج دیکھو آپ کی نقل کر رہا تھا۔ عظمی جی … عظمی جی … یہ بھی اس نے جھوٹ بولا تھا، میرا روزہ ہے۔
جھوٹا کہیں کا اس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی رمضان کے روزے نہیں رکھے“ عظمی نے ساری طوطا کہانی سنا کر ہی دم لیا شاید اُس کا گلہ خشک ہو گیا تھا۔
”عادل جھوٹا نہیں ہے اور اُس نے روزہ بھی رکھا ہوا تھا … اور جہاں تک میری نقل کی بات ہے … ہم دونوں ہی بابا جمعہ کی نقل کرتے ہیں۔ بابا جی جب بھی کسی چھوٹی بڑی عورت کو مخاطب کرتے تھے، تو ساتھ جی ضرور لگاتے تھے۔ اور جب کسی بچے بوڑھے یا جوان کو بلاتے تو اُس کے نام کے ساتھ صاحب ضرور لگاتے تھے“۔ بلال نے سنجیدگی سے عظمی کوبتایا۔
”انکل ہاشمی تو اسے لندن لے کر گئے تھے کسی مشہور سائیکا ٹرسٹ کو چیک کروانے کے لیے، اور پاکستان میں بھی شاید ہی کوئی سائیکا ٹرسٹ ہو جس سے عادل عقیل کی میٹنگ نہ ہوئی ہو۔
اس کا زندگی میں کوئی مقصد نہیں اور نہ ہی کوئی منزل تھی یہ ایک اُلجھا ہوا ذ ہنی مریض تھا۔ یہ کیسے ٹھیک ہو گیا۔“
عظمی عادل کی شخصیت پر تبصرہ کر رہی تھی۔
”عظمی جی یہ آپ کا خیال ہو سکتا ہے ویسے بھی جس کلاس سے آپ کا اور عادل کا تعلق ہے وہاں سائیکا ٹرسٹ کے پاس جانا ایک فیشن ہے۔ بابا جی کے بقول عادل کے ساتھ ایک مسئلہ تھا کہ وہ سوال تلاش کرنے میں دماغ استعمال کرتا تھا۔
اب وہ غور و فکر کرتا ہے اور خود جواب تلاش کرتا ہے۔ قرآن کو پڑتا ہے ترجمے کے ساتھ اور نماز کی بھی پابندی کرتا ہے۔
بابا جی جاتے ہوئے اُسے آخری سبق یاد کرا گئے ہیں جسے وہ زندگی بھر نہیں بھولے گا۔
ہم نے محبت کے رستے پرچل کر علم تلاش کرنا ہے اور ہماری منزل اللہ اور اُس کے حبیبﷺ کی رضا ہونی چاہیے۔“
عظمی کے جانے کے بعد نیناں بلال کے آفس میں آئی ”سر میرا موبائیل ٹیبل کے دراز کے اندر ہے وہ لے لوں“ بلال نے اشارہ کر دیا تھا موبائیل لینے کا۔
###
5 دن بعد فوزیہ کی شادی لیاقت علی کے ساتھ ہوگئی۔ بلال نے شادی میں شرکت کی تو شی اور نوشی کے ساتھ شادی کے تینوں دن۔ بلال نے فوزیہ اور لیاقت کوشادی پر الگ الگ تحائف دئیے شادی کے ایک ہفتہ بعد اُس نے لیاقت فوزیہ خالہ ثریا اور خالہ نصرت کی ایک شاندار دعوت کی جوہر ٹاؤن کے مشہور ریسٹورنٹ میں اس دوران بلال عظمی اور عادل کے اختلافات ختم کروانے کی بھی کوشش کرتا رہا۔
جمال رندھاوا اپنے بزنس کے سلسلے میں سیالکوٹ ہی میں تھے۔ نوشی اور توشی کے پاس باپ کی دی ہوئی اچھی خاصی رقم تھی جسے وہ شاپنگ کرکرکے اُڑا رہیں تھیں۔ ناہید اپنے سازشی ذہن کے ساتھ بلال کے خلاف کوئی منصوبہ بنا رہی تھی۔ جس میں شعیب اور ولید کی مدد اُسے حاصل تھی۔ جہاں آرا بیگم اپنی زندگی کے آخری دونوں میں توبہ استغفار میں مصروف رہتی تھیں۔
عادل اب بھی بابا جمعہ کے موچی خانے پر جاتا تھا۔ جہاں پر اُسے بابا جمعہ نظر نہیں آتے تھے وہاں شتہوت کا درخت بھی اُداس تھا اور نیم کا درخت بھی پریشان تھا۔ فائبر کی گرین شیٹ سائباں کیے ہوئے تھی۔ مگر اب اُس کے نیچے کوئی نہیں بیٹھتا تھا۔
بابا جمعہ کا سارا سامان اقبال نے اپنے پاس محفوظ کر لیا تھا۔ سوائے لکڑی کے بڑے بینچ کے جسے وہیں، لوہے کی زنجیر سے بجلی کے کھمبے کے ساتھ باندھ دیا گیا تھا۔
بجلی ہی کے کھمبے کے پاس بابا جمعہ کا گھڑا بھی پڑا ہوا تھا۔ جس میں پانی توتھا مگر وہ پھر بھی خشک ہی لگ رہا تھا۔ بابا جمعہ کو دنیا سے کوچ کیے ہوئے 23 دن گزر چکے تھے۔ عادل کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ جنہیں وہ بار بار اپنے ہاتھ کی پشت کے ساتھ ایک چھوٹے بچے کی طرح صاف کر رہا تھا۔ اب عادل چلتے چلتے بابا جمعہ کے اڈے کے پاس کھڑا تھا۔ جب اچانک اُس کی نظر لکڑی کے بینچ کے نیچے پڑی جہاں اُسے وہ کالی بلی نظر آئی جو عادل ہی کو دیکھ رہی تھی۔
جیسے اُس سے سوال پوچھ رہی ہو۔بابا جی کب آئیں گے۔ وہ کالی بلی بالکل صحت مند تھی ویسے ہی جیسے 23 دن پہلے ہواکرتی تھی۔ ”مگر اس کو دودھ، چائے، کھانا کون دیتا ہے“ اُس نے سوچا، اُسی لمحے اسے احساس ہوا کوئی اُس کے پیچھے کھڑا تھا۔ عادل فوراً واپس مڑا بلال ہاتھ میں ایک شاپر بیگ اُٹھائے ہوئے تھا۔ بلال کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
بلال نے وہ شاپر بیگ لکڑی کے بینچ پر رکھا اور اُس میں سے دودھ کا ڈبہ نکال کر کالی بلی کے پیالے میں دودھ ڈال دیا۔ ”مجھے اس بلی کا خیال کیوں نہیں تھا۔“ عادل نے خود کو دل ہی دل میں ملامت کی۔”میں بابا جمعہ سے جتنی بھی محبت کر لوں بلال کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔“ اُس نے پھر سوچا۔ بلال نے بلی کودودھ ڈالنے کے بعد سڑک کے دوسری طرف بس اسٹاپ سے پہلے ایک کھجور کے درخت کے نیچے ایک مٹی کی بڑی سے کنالی میں پانی ڈالا اور بہت سارا دانہ پانی کے گرد بکھیر دیا دانہ بکھیرنے کی دیر تھی بہت سارے کبوتر جنگلی کبوتر پتہ نہیں کہاں سے آ گئے فوراً جیسے وہ انتظار میں بیٹھے ہوں۔
بلال واپس عادل کی طرف آ گیا فون کرتے ہوئے اب وہ دونوں لکڑی کے بینچ پر ٹانگیں لٹکائے ہوئے بیٹھے تھے۔
”عادل صاحب ایک بات یاد رکھو، موت سب سے بڑی حقیقت ہے۔ جسم پر تومٹی ہی کا حق ہوتا ہے۔ دو مقصد ہونے چاہئیں ایک آخرت کے لیے کہ کسی طرح اللہ اور اُس کا محبوب راضی ہو جائے … اور دوسرا کچھ ایسا کر جائیں جس سے بعد میں اللہ کی مخلوق کا فائدہ ہوتا رہے۔
انسان تب تک دنیا میں زندہ رہتا ہے۔ جب تک اُس کی سوچ زندہ رہتی ہے۔اوراُس کے شروع کیے ہوئے اچھے کام چلتے رہتے ہیں۔
تم بابا جی کو زندہ رکھ سکتے ہو اگر اُن کی سوچ کو نہ مرنے دو اُن کے شروع کیے ہوئے کام جاری رکھو۔“
”بلال بھائی چائے “ ببلو نے بڑی محبت سے کہا جو چائے کی ٹرے لیے کھڑا تھا۔ ”بابر اس وقت یہاں“ بلال حیرت سے بولا۔
”بلال بھائی آپ کو بتایا تو تھا میں سنڈے کو اوور ٹائم کرتا ہوں“
”سٹڈی کیسی چل رہی ہے“ بلال نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔”تمہاری کلاس انچارج بتا رہی تھی۔ اس بار کمپیٹیشن بہت سخت ہے“۔
”بلال بھائی آپ خود ہی تو کہتے ہو بابر محنت کر اللہ کسی کی محنت رائیگاں نہیں کرتا۔ “ بابر نے اعتماد سے بلال کو جواب دیا۔
”بلال بھائی میں چلتا ہوں دکان پر بہت کام ہے۔
“ بابر جاتے ہوئے بولا عادل حیرت سے دیکھ رہا تھا بابر کو جاتے ہوئے۔
”اسے آپ کیسے جانتے ہیں “عادل نے پوچھا۔
”یہ میرے اسکول میں پڑھتا ہے۔ “ بلال بھی بابر کو دیکھ رہا تھا جاتے ہوئے اُس نے عادل کی طرف دیکھے بغیر کہا تھا۔ (عادل بیٹا کسی دن بلال کے اسکول ضرور جانا) عادل کے ذہن میں بابا جمعہ کے الفاظ گونجے۔
”بلال بھائی بابا جی کی سوچ کیا تھی اور اُن کے کون سے کام تھے۔
جن کو جاری رکھا جائے۔ “
عادل چائے پیتے ہوئے حیرت میں مبتلا پوچھ رہا تھا۔بلال کے چہرے پر ملین ڈالر مسکراہٹ اُبھر آئی۔
”ویری سمپل … اُن کی سوچ یہ تھی کہ محبت عام ہو جائے … اور کام یہ تھا، محبت کو عام کرنے کے لیے محبت کرتے تھے۔ اللہ کی مخلوق سے اللہ ہی کے لیے …
محبت پانی کے قطرے کی طرح ہوتی ہے پانی کے قطرے مسلسل گِر گِر کر پتھر میں بھی اپنے نشان چھوڑ جاتے ہیں۔
یہ بینچ کے نیچے محبت کا ثبوت ہے، یہ بلی جانور ہے، مگر اسے محبت کی ڈوری نے باندھا ہوا ہے مجھے یاد ہے سخت سردی میں ایک بلی کا بچہ بابا جی سڑک سے اُٹھا کر لائے تھے جو سردی اور بھوک کی وجہ سے مرنے کے قریب تھا۔ بابا جی نے اپنا گرم سویٹر اُتارا اور اُس میں بلی کے بچے کو لپیٹا اُس کے بعد سے یہ بلی یہاں سے نہیں گئی۔
اگلے دن میں ایک فوم کی گدی لے کر آیا تھا، اس بلی کے لیے آج پانچ چھ سال ہو گئے اس بات کو اور وہ سامنے کبوتر بابا جی 31 سال سے اُن کو دانہ ڈال رہے تھے بابا جی جب صبح صبح ان کو دانہ ڈالتے تو یہ اُن کے کندھوں پر بیٹھ جاتے یہ بھی محبت ہی تو ہے …“
بلال نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی میں وقت دیکھا صبح کے نو بج رہے تھے۔
بڑی چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی تھی فروری کی دھوپ فروری کی دھوپ چودویں رات کی چاندی کی طرح ہی حسین اور خوبصورت ہوتی ہے۔
”عادل مجھے جانا ہے منیٹل ہاسپٹل میں چلتا ہوں “ بلال یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔ عادل نے پنجوں کے بل بیٹھ کر بینچ کے نیچے دیکھا وہ بلی ایک چیتھرے چیتھرے ہوئے سویٹر پر بیٹھی ہوئی تھی بلال کی گدی کے اوپر اُس نے چائے کے برتن اُٹھائے اور اقبال کی دکان کی طرف چل دیا برتن واپس کرنے کے بعد عادل واپس آیا اور سڑک کے دوسری طرف کھڑی ہوئی اپنی گاڑی کی طرف چل دیا، گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے وہ کبوتروں کے بیچ میں بیٹھا مگر اُسے دیکھ کر سارے کبوتر اُڑ گئے کوئی بھی اس کے کندھے پر نہیں بیٹھا تھا۔
عادل وہاں سے جانے کے لیے اپنی گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔تب اُس نے اپنی پیشانی کو دیکھا سنٹر والے مرر میں تب اُسے بابا جمعہ کی کہی ہوئی ایک اور بات یاد آئی۔
محبت فرض ہے … اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے … اور اللہ کی ساری مخلوق سے … محبت فرض ہے …
###
”محبت فرض ہے اپنی اولاد سے بھی آپ کے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا۔اور عادل کے ساتھ بھی۔ آپ کو اپنی ماں کی محبت نہیں ملی اُلٹا باپ کی نفرت کا سامنا کرنا پڑا …
عظمی جی میرا خیال ہے۔ آپ کبھی بھی نفسیاتی مریضہ نہیں تھیں۔ بس آپ کے حصے کی محبت آپ کو نہیں ملی۔ اور کم و بیش یہی معاملہ عادل عقیل کے بھی ساتھ تھا۔
ہاشمی صاحب دولت کمانے میں مصروف ہو گئے اور عادل کی والدہ اپنی این جی او میں، ہم پیسہ تو بہت کماتے ہیں مگر محبت تھوڑی سی بھی نہیں کرتے یہی حال عادل کے والد صاحب کابھی تھا اور کچھ ملتی جلتی کہانی عادل کی والدہ کی تھی۔
انہوں نے سوشل ورک تو بہت کیا ہوگا مگر محبت پر اپنا تھوڑا سا بھی وقت صرف نہیں کیا، جو عادل کا حق تھا عادل کو سائیکا ٹرسٹ کی ضرورت نہیں تھی، اُسے محبت کی تلاش تھی،وہ محبت اسے بابا جمعہ سے ملی صرف چند ماہ میں بابا جمعہ نے وہ کر دکھایا جو کئی سال میں کوئی نہیں کرسکا تھا“
لینچ کا آرڈر کرنے کے بعد بلال باتیں کر رہا تھا عظمی افگن کے ساتھ وہ گلبرگ میں واقع ایک مشہور ریستوران میں بیٹھے ہوئے تھے۔
”مگر اُس دن تو آپ نے کہا تھا جس کلاس سے میرا اور عادل کا تعلق ہے وہاں سائیکا ٹرسٹ کے پاس جانا فیشن ہے “ عظمی نے پہلی بات کی اس دوران
”عظمی جی کلاس کا تعلق آپ کے سٹیٹس سے نہیں ہوتا نہ ہی روپیہ پیسہ سے ہوتا ہے۔ آپ یہ سمجھی ہو جیسے ایلیٹ کلاس، اپر کلاس، مڈل کلاس، یا لوئر مڈل کلاس۔ میں ان کی بات نہیں کر رہاتھا……
میں مینٹلی اپروچ کی بات کر رہا تھا۔
آپ کی ذہنی سطح۔ میں نے بہت زیادہ پڑے لکھے آدمی کو جاہل دیکھا ہے۔ بعض اوقات ایک انگوٹھا چھاپ دانشور ہوتا ہے۔ یہ بھی میرے دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک ارب پتی شخص بہت بڑا بخیل واقع ہوتا ہے۔ ایسا بھی میں نے دیکھا ہے ایک انتہائی غریب آدمی بہت بڑا سخی ثابت ہوتا ہے۔ “
ویٹر ٹیبل پر کھانالگا رہاتھا۔ کھانے کے دوران خاموشی رہی دونوں طرف سے کھانے کے بعد بلال نے گرین ٹی کا بول دیا تھا۔
”اکثر غریب گھرانوں میں ماں باپ اپنے بچوں کو وہ محبت نہیں دے پاتے جسکی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔ درمیانے طبقے میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ اور اونچے گھرانوں اور کھاتے پیتے گھروں میں یہ مسئلہ سب سے زیادہ ہے۔ “
غریب کا بچہ جب اس صورتحال میں مبتلا ہوتا ہے، تو وہ لوگ اُسے سایہ سمجھتے ہیں اور کسی سادھو اور جوگی سے اُس کا علاج کرواتے ہیں۔
درمیانے طبقے میں ایسا ہو تو وہ لوگ اُس بچے کو پیر صاحب یا پھر ہو میو پیتھک ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں۔ان کے نزدیک کسی نے اُن کے بچے کو تعویذڈال دئیے ہوتے ہیں۔ اور اگر یہی کچھ امیر گھرانے کے بچے کے ساتھ ہو تو وہ اُسے سائیکا ٹرسٹ کے پاس لے جاتے ہیں اور اُسے سائیکو پیشنٹ سمجھتے ہیں۔
یہ سب امیر، غریب، اور درمیانے گھرانے ایک ہی کلاس کے لوگ ہیں۔
سب کے سب محبت سے محروم لوگ انہیں بھی محبت کی ضرورت ہے اور ان کے بچوں کو بھی“
”مجھے بھی آپ کی محبت کی ضرورت ہے۔ “ عظمی محبت بھرے لہجے میں بولی اس کی آنکھوں میں بلال کا عکس تھا اور اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلال کے ہاتھوں پر رکھ دیا جوپہلے ہی سے ٹیبل پر تھے۔
بلال نے اپنے ہاتھ ہٹائے نہیں تھے۔ دو ڈھائی سال میں ایسا پہلی بار تھا جب اُن دونوں نے ایک دوسرے کو چھواتھا۔
بلال کے چہرے پر مسکراہٹ اُبھر آئی۔
”عظمی جی مجھے بھی آپ سے محبت ہے۔ “ عظمی کی آنکھوں میں چمک تھی۔ جیت کی اپنے محبوب کو پانے کی اسے ایسا لگا اسے سب کچھ حاصل ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے بلال کچھ اور کہتا ویٹر گرین ٹی ٹیبل پر رکھ رہا تھا۔ چائے سے فارغ ہونے کے بعد بلال نے Bill دیا ٹپ کے ساتھ اس دوران بلال نے کوئی بات نہیں کی اور عظمی کچھ سننا نہیں چاہتی تھی اس کے بعد … اب وہ پارکنگ میں بلال کی گاڑی کے پاس کھڑے ہوئے تھے۔
تب بلال بولا سنجیدگی سے۔
”عظمی جی مجھے بھی آپ سے محبت ہے۔مگر عادل عقیل سے زیادہ نہیں میں نے ہمیشہ ایک دوست کی طرح آپ سے محبت کی ہے۔ اور عادل نے آپ کو ایک محبوب کی طرح چاہا ہے۔ اشفاق احمد صاحب فرماتے تھے، محبوب کی ذات ہر دوستی کو نگل جاتی ہے”اللہ شاہد ہے میں نے کبھی آپ کو اس نظر سے نہیں دیکھا …“
عظمی کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
پر وہ خاموش تھی۔بلال نے اس کے آنسو دیکھے تو بات تبدیل کی وہ چاہتا تھا۔ کہ عظمی سمجھ جائے اور سنبھل بھی جائے اس لیے اُس نے کہا۔
”عظمی جی … عادل عقیل کو آپ کی محبت بابا جمعہ کے پاس لے کر آتی تھی۔ وہ آپ کی محبت کی تلاش میں اُلجھاتھا۔ ماں باپ کی لاپرواہی اپنی جگہ وہ پھر بھی اس کے ساتھ مہینہ میں ایک دو بار وقت گزار لیتے تھے۔ مگر اُسے ہمیشہ ہی آپ کی بے رخی کا سامنا کرنا پڑا وہ آپ سے جتنی محبت کرتاتھا آپ اسے اتنا ہی نظر انداز کرتی تھیں…
ایک دفعہ بچپن میں کھیلتے ہوئے آپ کے سر پر چوٹ لگ گئی تو آپ کو ہاسپٹل میں ایڈمیٹ کرنا پڑا تو وہ بھی دو دن ہاسٹپل میں ہی رہا تھا۔
جب آپ نے کچھ کھایا تو اُس کے بعد وہ پیٹوں کچھ کھا سکا اُس نے مجھے آپ کے بارے میں سب کچھ آج سے چند ماہ پہلے بتا دیا تھا وہ اکثر مجھ سے آپ کی باتیں کرتا رہتا ہے۔
چند ماہ پہلے عادل میں بہت سی خامیاں تھیں۔ اب نہیں ہیں۔ پہلے وہ اعتراض کرتا تھا… اب وہ اعتراف کر لیتا ہے۔
پہلے وہ دماغ سے محبت کرتاتھا … اب دل سے کرتا ہے۔
پہلے وہ خامیاں تلاش کرتا تھا … اب وہ خوبیاں تلاش کرتا ہے۔
محبت تو وہ عظمی جی آپ سے پہلے بھی بہت کرتا تھا، پر محبت کے اداب سے نا واقف تھا۔ محبت کسی کو ماننے یا کسی کی ماننے کا نام ہے …“
عظمی کو وہ ساری باتیں یاد آ رہی تھیں۔ جب وہ اور عادل اکٹھے پڑھتے تھے۔ وہ کھڑی تو بلال کے سامنے تھی۔مگر وہ اپنے ماضی کو دیکھ رہی تھی۔ وہ ہاسپٹل میں گزارے دو دن جب عادل ایک سیکنڈ کے لیے بھی وہاں سے نہیں گیاتھا۔
ایک دفعہ کلاس میں کسی بچے نے اُسے دھکا دیاتھا تو عادل اُس بچے سے لڑ پڑا تھا۔ عظمی کو یاد آیا اس نے ہمیشہ عادل کے گندمی رنگ کو نا پسند کیا تھا اور اس کے موٹے جسم کو حقارت کی نظر سے دیکھا تھا۔
بلال نے عظمی کے شانے پر اپنا دایاں ہاتھ رکھا اوربولا۔
”چند ماہ پہلے مجھے کہنے لگا بلال بھائی مجھے بابا جی سے کوئی تعویذ لے دیں تا کہ عظمی کا دل پگھل جائے اور اس کے دل پر پڑے نفرت کے تالے کھل جائیں۔
“
عظمی کے کلیوں جیسے ہونٹ کھل گئے اس کے چہرے پر شرمیلی مسکراہٹ تھی۔ پتہ نہیں اُس کے دل میں کیابات آئی وہ بلال کے گلے لگ گئی ایک دوست کی طرح عظمی کے دونوں ہاتھ بلال کی کمر پر تھے اورعظمی کا سر بلال کے سینے پر تھا۔ بلال بالکل ساکت کھڑا ہوا تھا۔
”Thank you بلال Thank you very much “
بلال نے اِرد گرد دیکھا لوگ رُک رُک کر دیکھ رہے تھے۔
بلال نے عظمی کو آرام سے خود سے جدا کیا۔
”آپ واقعی میرے سب سے اچھے دوست ہو “ عظمی نے بلال کے دائیں ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے عقیدت سے چوما۔ عظمی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔
”اب تو یہ رونا بند کرو۔ “ بلال نے اپنے بائیں ہاتھ سے اُس کے آنسو صاف کیے۔
”چلو گاڑی میں بیٹھو تمہیں ڈراپ کر دوں “ بلال نے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا اور عظمی بیٹھ گئی۔
سارے رستے گلبرگ سے ماڈل ٹاؤن تک عظمی عادل کے متعلق بلال سے پوچھتی رہی تھی۔
”عظمی جی … آپ کا گھر آ گیا “ پروفیسر زمان کے گھر کے باہر بلال نے گاڑی روکتے ہوئے کہاتھا۔
”بلال … آپ ایک بات تو بتاؤ بابا جی تعویذ بھی کرکے دیتے تھے۔ “
بلال نے نفی میں سر ہلا دیا۔
”تو پھر عادل نے یہ کیوں کہا تھا آپ سے کہ مجھے بابا جی سے تعویذ لے دیں۔
“
اُس بات سے تین چار دن پہلے ایک بچے کو سانپ نے کاٹ لیا تھا۔ تب بابا جی اور میں نے اُس بچے کو دم کیا تو وہ اللہ کے فضل سے ٹھیک ہو گیا۔ پہلے تو عادل نے بہت اعتراض کیا پھر وہ چلا گیا تین چار دن بعد دوبارہ واپس آ کر بابا جی سے معذرت کی اپنی اُس دن والی حرکت پر ایک دو دن بعد مجھے الگ کرکے کہنے لگا بلال بھائی مجھے بھی ایک تعویذ لے دیں بابا جی سے …“
”بلال آپ بھی سانپ کے کاٹنے کا دم جانتے ہیں۔ “
عظمی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
بلال نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر کو جبنش دی۔